‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74854 / ڈاؤنلوڈ: 3872
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خداوند عالم کے سامنے کیسی ہوگی؟ جنّتی ہوں گے یا جہنّمی؟

حضرت ابوذر نے فرمایا کہ:

اپنے اعمال کو اللہ تعالی کی کتاب کے سامن رکھو اوردیکھو کہ خدائے تعالی قرآن مجید میں کیا فرماتے ہے اور تمہاری کیا حالت ہے_ خدائے تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ نیک اور صالح جنّتی ہوں گے اور فاسق و فاجر جہنّمی''_

ابوذر نے فرمایا:

اللہ تعالی کی رحمت نیک لوگوں سے زیادہ قریب ہے''_

آخرت میں انسان لامحالہ ان دو مقامات میں سے ایک میں قیام کرے گا_ جنّت میں یا جہنّم میں_

جنّت

جنّت نیک اور دیندار اور خداپرست لوگوں کی رہائشے اور مکان ہے، پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کے ہمیشہ رہنے کی چگہ ہے_

بہترین اور خوبصورت ترین مقام ہے جسے مہربان خالق نے اپنے نیک بندوں کے لئے بنایا ہے_ نہایت وسیع اور کشادہ ہے، زمین ماور آسمان کی وسعتوںکے مساوی بلکہ ان سے بھی وسیع و عریض ہے، روشن و پرنور ہے_ غرض انسان اس کی تعریف سے عاجز ہے_

اسے بہشت بھی کہتے ہیں_ قرآن اسے جنت سے تعبیر کرتا ہے

۸۱

''جنّت'' یعنی سر سبز و شاداب درختوں سے بھرا ہوا باغ

جنت کے سر سبز و شاداب درختوں کے نیچے صاف اور شفاف اورٹھنڈے پانی کی نہریں جاری ہوں گی_ ان کی شاخوں پر رنگ برنگ اور مزے دار پھل لٹکے ہوئے ہوں گے اور معطر ہوا کے جھونکوں سے جھوم رہے ہوں گے_

جنّت میں کسی قسم کی برائی اور نقص کا وجود نہ ہوگا_ نیک لوگ وہاں جس چیز کی تمنّا کریں گے ان کے لئے حاضر کردی جائے گی_ جب کسی پھل کی خواہش کریں گے تو مدرختوں کی خوبصورت ٹہنیاں ہواکے چلنے سے حرکت کریں گی اور اس نیک بندے کے نزدیک پہنچ کر پھل اس کے ہاتھوں پر رکھ دیں گی_

جنّت میں مومنین کے لئے نہایت عایشان اور آسائشےوں سے پر، محل بنائے گئے ہوں گے، ان پر عمدہ اور بہترین فرش بچھے ہوئے ہوں گے مومنین بہترین اور خوش رنگ لباس زیب تن کئے ہوئے، آرامدہ مندوں پر پیغمبروں، ائمہ اطہار، شہداء اور دوسرے جنتیوں سے محو گفتگو ہوں گے_

پیغمبر (ص) فرماتے ہیں کہ:

میں نے جنّت میں دیکھا کہ فرشتے جواہرات اور انیٹوں سے ایک خوبصورت محل بنا رہے ہیں_ کبھی تیزی سے اور زیادہ کام کرنے لگتے اور کبھی کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں مسں نے ان سے پوچھا: کیا کام کر رہے ہو؟ کیوں کبھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہ

۸۲

محل ایک مومن کے لئے بنا رہے ہیں_ آپ(ص) نے سوال کیا: پھر بناتے بناتے رک کیوں جاتے ہو_ فرشتوں نے جواب دیا کیونکہ محل بناتے میں استعمال ہونے والا سامان ختم ہوجاتا ہے_ آپ(ص) نے پوچھا: محل بنانے کا سامان کیا ہے؟ فرشتوں نے کہا یہ سامان اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ہے جو ان جواہرات اور سونے کی دانیٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے اس محل کوبنانے کا سامان، اللہ تعالی کا ذکر اور وہ نیک اعمال ہیں جو خود مومن دنیا سے ہمارے لئے روانہ کرتا ہے جب تک مومن کار خیر اور اللہ تعالی کی یاد میں مشغول رہے، ہم تک سامان پہنچتا رہتا ہے اور اگر مومن غافل ہوجائے اور کار خیر انجام نہ دیے تو ہم تک سامان نہیں پہنچتا اور ہم بھی مجبوراً کام ر وک دیتے ہیں_''

جنّت میں نعمتیں ہمارے دنیاوی اعمال سے بنائی جاتی ہیں اور جنّت کی بعض نعمتیں اتنی خوبصورت ہیںکہ کبھی آنکھ نے ان جیسی خوبصورتی کو نہ دیکھا ہوگا ان کے دل پسند اور صاف کوکسی کان نے نہ سنا ہوگا بلکہ ان کا خیال بھی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا_ مختصر یہ کہ جنت کی نعمتیں ہماری فکروں سے بھی زیادہ بلند و بالا ہیں_ اور بہشت کی تعریف و توصیف میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے وہ ہماری ذہنی سطح کے مطابق بیان کیا گیا ہے_ ورنہ بہشت کی عظمت اور اس کی حقیقی خوبصورتی اور زیبائی ناقابل بیان ہے_

۸۳

لیکن خدا نے بیان کے لئے کہ بہشت رہنے کے لئے کتنی عمدہ جگہ ہے اس کی کچھ صفات کو ہماری زبان اور ہماری ذہنی سطح کے مطابق بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ :

متقین کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے_''

(سورہ رعد ۱۳_ آیت ۳۵)

بہشت میں جس چیز کی خواہش کروگے تیار ہوگی اور جو چاہو گے وہ موجود ہوگا_''

(سورہ فصلّت ۴۱_ آیت ۳۵)

''ان مومن مردوں اور عورتوں سے خدا کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہیں گے_ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گا ہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کریہ کہ اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہوگی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے_

(سورہ توبہ ۹ آیت ۷۲)

جنت میں تمام رہنے والے لوگ ایک مرتبے اور ایک درجے کے نہیں ہیں بلکہ اپنے ایمان اور خلوص اور اعمال صالح کی مقدار کے لحاظ سے ان کے مر اتب میں فرق ہوگا بہشت میں موت، غم، بیماری، فکر، مصیبت کا کوئی

۸۴

وجود نہ ہوگا_ بلکہ جنّتی افراد ہمیشہ خداوند عالم کے لطف و عنایات کے زیر سایہ ہوں گے اور ہمیشہ خدا کی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور سب سے زیادہ یہ کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوگا اور وہ بھی اللہ اور اس کے الطاف اور عنایات سے راضی ہوں گے_

دوزخ

دوزخ ظالموں اور بدکاروں کاٹھکا نہ ہے اور مشرکوں اور منافقوں کی قیام گاہ ہے_

دوزخی نہایت سخت اور بہت دردناک زندگی سے دوچار ہوں گے ان کے برے اعمال اور اور کفر و نفاق، عذاب اور سخت سزا کی صورت میں تبدیل ہوکر ان کے لئے ظاہر ہوں گے اور انھیں درد و رنج پہنچاتے رہیں گے_ آگ کا لباس ان کے جسم پر اور گلے میں طوق، ہاتھ اور پاؤں میں زنجیر پہنائی جائے گی_ آتش دوزخ کے شعلے ان کے جسم سے اٹھ رہے ہوں گے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو جلا رہے ہوں گے_ ساتھ ہی ساتھ ان کے باطن میں قلب و روح میں بھی نفوذ کر رہے ہوں گے_

جہنّمیوں کا کھانا اور پینا، گندا، بدبودار، غلیظ اور جلادینے والا ہوگا جو پیپ سے بدتر ہوگا_ جس کی بدبو مردار سے زیادہ ہوگی_

جہنّم کا عذاب جو کفر و نفاق ظلم و ستم اور برے اعمال کا نتیجہ ہے اتنا سخت اور دردناک ہے کہ جس کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے_ اس دردناک

۸۵

عذاب کی جھلک خداوند عالم اس بیان کی صورت میں ہمیں یوں دکھاتا ہے کہ :

ہم نے ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انھیں گھیرے میں لئے ہوئے ہوں گی وہاں گر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا بدترین پینے کی چیز اور بدترین رہائشے گاہ _''

(سورہ کہف ۱۸ آیت ۲۹)

جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا انھیں یقینا ہم آگ میں ڈالیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تا کہ وہ خوب عذلاب کا مزا چکھیں_ یقینا اللہ بڑا قادر اور حکیم ہے_''

(سورہ نساء ۴_ آیت ۵۵)

''دردناک سزا کی خبر دو انھیں جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی سے جہنّم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا_ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، لواب اپنی اس دولت

۸۶

کا مزا چکھو جسے تم نے ذخیرہ کیا تھا_''

(سورہ توبہ ۹ آیت ۳۵)

یقینا آپ کا دل بھی چاہتا ہوگا کہ معلوم کریں کہ روز قیامت ہمارا انجام کیا ہوگا؟ آخرت میں ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا؟ جنّت یا جہنّم؟

اگر ہم غور سے پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول کا جائزہ لیں تو شاید اندازہ ہوجائے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے:

بہشت مصائب اور آلام میں پوشیدہ ہے جو شخص دنیا کی مشکلات اور رنج و الم کو برداشت کرے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا_ اور جہنّم لذّت و شہوت اور ہوس رانی میں پوشیدہ ہے، جو شخص شہوت اورہوس رانی میں مبتلا ہوگا وہ جہنّم میں جائے گا_

آیت قرآن

( مثل الجنّة الّتی وعد المتّقون تجری من تحتها الانهر اکلها دائم و ظلّها تلک عقبی الّذین اتّقوی و عقبی الکفرین النّار )

۸۷

ساسالہ استعمال کرتے ہیں؟ اور کیوں فرشتے کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؟

۷) ___دوزخ کن کاٹھکا نہ ہے اور جہنم کا عذاب کس چیز کانتیجہ ہوا ہے؟

۸) ___قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جہنّم کے عذاب کی کوئی مثال بیان کیجئے؟

۸۸

متقیوں کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں_

اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے_ یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا_ لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے_''

(سورہ رعد ۱۳ آیت ۳۵)

سوچیے اور جواب دیجیے

۱)___ حضرت ابوذر- نے اپنے کلام میں نیک لوگوں کوکن لوگوں سے تشبیہ دی ہے اور گناہ گاروں اور برے لوگوں کوکن سے؟

۲)___ حضرت ابوذر کے قول کی روشنی میںبتا یئےہ اللہ تعالی کے نزدیک ہماری حالت کیا ہوگی؟

۳) ___اللہ تعالی کی رحمت کہاں گئی؟ جناب ابوذر نے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا،اوراس جواب سے کیا مقصد تھا؟

۴) ___اس سبق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہشت کی تعریف کیجئے؟

۵) ___بہشت کی نعمتوں میں سے کون سی چیز سب سے برتر اور بالاتر ہے؟

۶) ___جنّت میں مومنین کا مکان بنانے کے لئے ملائکہ کون

۸۹

قیامت کا خوف

خدا کے شائستہ بندوں کی ایک صفت

خدا کے شائستہ بندوں کے متعلق حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ:

خداوند عالم نے اپنی یاد کو دلوں کے منور ہونے کا سبب قرار دیا ہے یاد خدا دلوں کوسماعت بخشتی ہے، خدا کی یاد تاریک و مردہ اور افسردہ دلوں کوروشن، بینا اور زندہ کرتی ہے، خدا کی یاد سرکش اور گنہکار دلوں کو خدا کی بندگی اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجانے کا سبق دیتی ہے_

ہر دور میں خدا کے ایسے منتخب بندے ہوتے ہیں جو خدا کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور اس سے مناجات کرتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے اس سے راز و نیاز کرتے ہیں_

خدا کی یاد سے ان کی دلوں میں بیداری اور آگاہی کا نور چمکتا ہے_ ان کی آنکھ، کان اوردل اس سے منور ہوجاتے ہیں_

۹۰

خدا کے یہ منتخب بندے لوگوں کو ''ایام اللہ'' کی یاد دلاتے ہیں اور اس کے ارفع و اعلی مقام سے ڈراتے ہیں_ یہ باخبر رہنما بھولے بھنکے ہوؤں کو ہدایت دیتے اور رہنمائی کرتے ہیں_ جو بھی میانہ روی اور صحیح راستہ اختیار کرے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے نجات کی خوش خبری دیتے ہیں_ جوکجروی اختیار کرے اس کی مذمّت کرتے ہیں اور ہلاکت و تباہی سے ڈراتے ہیں_

یہ لائق احترام اور یاد خدا میں مشغول رہنے والے بندے اندھیروں کا اجالا اور گم کردہ راہوں کے رہنما ہوتے ہیں_

جی ہاں اس قسم کے شائستہ لوگوں نے دنیا کی محبت کی جگہ اللہ کی یاد کو اپنے دل میں جگہ دی ہے_ دنیاوی کام کاج اورتجارت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتے_

وہ اس عمدہ سامان سفر سے اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں اور راہ طے کرتے وقت غفلت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو بیدار کرتے اور انہیں گناہوں سے روکتے ہیں_ لوگوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی عدل و انصاف کے مطابق سلوک کرتے ہیں_ لوگوں کو برے کاموں اورمنکرات سے منع کرتے ہیں اور خود بھی برے کاموں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے_

گویا وہ راہ دنیا طے کر کے آخرت تک پہنچ چکے ہیںاوروہاں سکونت اختیار کر کے ماوراء دنیا کا مشاہدہ کر رہے ہیں_ قیامت کے وعدے انکے لئے ثابت ہوچکے،وہ لوگوں کے لئے ان حقائق پر سے پردہ ہٹاتے ہیں اورقیامت وبرزخ کے حالات کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں_

۹۱

اس طرح کہ جیسے اس عالم کی جن چیزوں کا مشاہدہ وہ کر رہے ہیں لوگوں کی نگاہیں انھیں نہیں دیکھ پاتیں اور جن صداؤں کویہ سنتے ہیں لوگ نہیں سن پاتے_

اے کاش

تم اپنے ذہن میں ان کے بلند مرتبہ اورروحانیت کو دیکھ پکاتے اور ان کے مقام محمود کا مشاہدہ کر تے_ گویا انہوں نے اپنے اعمال ناموں کو اپنے سامنے کھول رکھا ہے_ اوراپنے نفس کے (محاسبہ میں) اورچھوٹی بڑی کوتاہیوں اور خطاؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں_

خدا کے عذاب کے خوف سے آہ و فغان اور گریہ و زاری کر رہے ہیں_ اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے ہوئے ندامت اورپشیمانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنے رب سے عفو و بخشش کے طلبگار ہیں_

اگر ان منتخب بندگان خدا کو غور سے دیکھا جائے تو یہ ہدایت کے پرچم اور روشنی پھیلانے والے چراغ نظر آئیں گے کہ جن کے ارد گرد اللہ کی رحمت کے فرشتوں نے احاط کر رکھا ہے، آسمان کے دروازے ان پرکھلے ہوئے ہیں اورفرشتے آرام واطمینان سے ان پر نازل ہوتے ہیں_

ان کے لئے امن و کرامت کے مقامات تیار کئے گئے ہیں_ اس امن کے مقام ہیںکہ جہاں خدا ان سے آگاہ، ان کی سعی وکوشش سے راضی اور ان کی راہ و رسم سے خوش ہے_

یہ بندے اپنی مناجات کے ذریعہ نسیم رحمت اورپروردگار عالم کی بخشش کو جوش میں لاتے ہیں_ ان کے دل اللہ تعالی کے فضل و کرم کے

۹۲

گرویدہ اور اللہ کی عظمت و بزرگی کے سامنے خاضع اور خاکسار ہوتے ہیں_

آخرت کے عذاب کے خوف سے ان کے دل زخمی اور شکستہ ہیں اور خوف خدا کے سبب کیے جانے والے طویل گریہ سے ان کی آنکھیں آزردہ اور خستہ ہوچکی ہیں

(نہج البلاغہ سے ایک اقتباس)

امیرالمومنین علیہ السلام کہ جو خود خدا کے شائستہ بندوں میں سے ہیں خدا کے صالح اور شائستہ بندوں کے اس طرح قیامت سے خوفزدہ ہونے کی صفت کا تذکرتے ہیں_ کتنا اچھا ہو کہ حضرت علی (ع) کے قول کے ساتھ ساتھ ان کے عمل میں بھی خدا کے شائستہ بندوں کی نشانیوں کو دیکھیں_

امام(ع) کے دو نہایت نزدیکی اصحاب سے امام(ع) کی مناجات کی کیفیت ان کی آہ و زاری، پر سوز نالوں اور قیامت کے خوف کے متعلق سنیں_

حبّہ عرفی اور نوف بکالی کہتے ہیں:

ایک دن ہم دارالامارة کے صحن میں سوئے ہوئے تھے کہ آدھی رات کو ایک دردناک آواز نے ہمیں بیدار کردیا_ یہ ہمارے مولا امیرالمومنین (ع) کی آواز تھی_ آپ نے ایک دیوار سے نیک لگائی تھی_ پھر آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چلنے لگے_ ستاروں سے پر آسمان کودیکھتے اور تھوڑی دیر ٹھہرجاتے اور اچانک رونے کی آواز بلند کرتے اور آنسو بہاتے اور پر درد ودلگدار لہجے میں ان آیات کی تلاوت فرماتے تھے:

یقینا زمین و آسمان کی خلقت اور دن و رات کی منظم گردش میں عقلمندوں کے لئے واضح نشانیاں موجود ہیں، وہ عقلمند کہ جو خدا کو ہر حال میں یاد کرتے ہیں چاہے بیٹھے

۹۳

چاہے کھڑے اور چاہے پہلو پر بستہ ہیں لیٹے ہوئے ہوں زمین و آسمان کی خلقت پر غور و خوض کرتے ہیں_

اے پروردگار تو نے اس عظیم کارخانہ کو بے کار و بے مقصد خلق نہیں کیا ہے تو عیب سے پاک ہے بس تو ہم کو آگ کے عذاب سے بچا

پروردگار یقینا جس کو تونے آگ میں داخل کردیا ضرور اسے رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں اے ہمارے رب ہم نے سنا ہے کہ ایک منادی ندا کرتا تھا ایمان کے لئے کہ ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لے آئے_ اے ہمارے رب پس بخش دے ہمارے گناہوں کو اور دور کردے

ہم سے ہماری بدیوں کو اور ہمیں نیکیوں کے ساتھ موت دے_

اسے پروردگار جو کچھ تونے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ہم سے وعدہ کیا ہے ہمیں عطا کر اور ہم کو روز قیامت رسوا نہ کرنا_ یقینا تووعدہ خلافی نہیں کرتا_''

(سورہ آل عمران ۳_ آیت ۱۹ تا ۱۹۴)

امیرالمومنین علیہ السلام بار بار ان آیات کی تلاوت کر رہے ہے تھے اشک بہاتے تھے اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر مناجات اورراز و نیاز کرتے تھے حبّہ کہتا ہے:

۹۴

میں حیرت زدہ اپنے مولا کی حالت کو دیکھ رہا تھا کہ آپ(ع) میرے بستر کے نزدیک آئے اور فرمایا:

''حبّہ سوئے ہوئے ہو یا جاگ رہے ہو؟''

میں نے عرض کی :

مولا،اے امیرالمومنین علیہ السلام جاگ رہا ہوں جب آپ(ع) ، خدا کے خوف سے اس قدر لرزاں اور نالہ کناں ہیں تو افسوس ہم بے چاروں کی حالت پر:

امیرالمومنین علیہ السلام کچھ دیر سرجھکا کر روتے رہے پھر فرمایا:

اے حبّہ ایک دن سب خدا کے سامنے اپنا حساب دینے کے لئے کھڑے کئے جائیں گے_ خدا اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے_ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور کوئی چیز ہمارے اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی اس کے بعد نوف کے بستر کے پاس گئے اور فرمایا:

اے نوف سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو؟

نوف جو کہ امیرالمومنین (ع) کی حالت کو دیکھ کر رو رہے تھے بولے:

''یا علی (ع) جاگ رہا ہوں اور آپ کی اس روحانی حالت کو دیکھ کر گریہ کر رہا ہوں_''

امیرالمومنین (ع) نے فرمایا:

اے نوف اگر آج خوف خدا سے اشک بہاؤ گے تو قیامت میں تمہاری آنکھیں روشن ہوں گی _ تمہاری آنکھوں سے گرا ہوا آنسو کا ہر قطرہ آتش جہنّم کو

۹۵

بجھادے گا_ جو انسان اللہ کے خوف سے ڈرے، گریہ کرے اور اس کی دوستی خدا کے لئے ہو تو بہشت میں اس کا درجہ سب سے بلند و بالا ہوگا_

اے نوف جو شخص خدا کو دوست رکھتا ہو اور جسے بھی دوست رکھتا ہو خدا کے لئے ہو، کبھی بھی خدا کی دوستی پر کسی اور کی دوستی کو ترجیح نہیں دے گا جو شخص جس سے بھی دشمنی رکھتا ہو خدا کیلئے ہو اس دشمنی سے خیر و خوبی کے علاوہ کچھ اور نہ پہنچے گا_

اے نوف جس وقت تم اپنی دوستی اور دشمنی میں اس درجہ پر پہنچو کمال ایمان پر پہنچو گے_ خدا سے ڈورکہ میں تمہیں نصیحت کر رہا ہوں'' یہ کہہ کہ امام (ع) ہم سے دور چلے گئے_ اور خدا سے مناجات شروع کردی اشک بہاتے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ اس دعا کی تلاوت کرتے تھے_

پروردگار اے کاش مجھے علم ہوتاکہ جس وقت میں تجھ سے غافل ہوں تو مجھ سے ناراض ہوتا ہے اور منھ پھیر لیتا ہے یا پھر بھی مجھ پہ لطف و کرم رکھتا ہے؟ اے کاش مجھے علم ہوتا کہ میری طویل نیند، سستی و کوتاہی کے سبب میری حالت تیرے نزدیک کیسی ہے

اس رات امیرالمومنین (ع) تمام رات جاگتے رہے اور اپنے خالق سے ر از و نیاز کرتے رہے_ بے قراری کے عالم میں چہل قدمی کرتے تھے_

امیرالمومنین (ع) یوں ہی راتوں کو بیدار رہتے، مناجات کرتے اور خوئف خدا اور قیامت کے حساب و کتاب کا ذکر کر کے رویا کرتے تھے_

۹۶

آیت قرآن

''( ربّنا ما خلقت هذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النّار ) ''

پروردگار تو نے اس جہان اور زمین و آسمان کو باطل پیدا نہیں کیا ہے تیری ذات پاک و پاکیزہ ہے پس ہمیں جہنّم کی آگ سے محفوظ رکھ_''

(سورہ آل عمران ۳ آیت ۱۹۱)

سوچیے اور جواب دیجیے

۱) ___امیرالمومنین (ع) نے اپنے اس خطبہ میں اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی بہت سی صافت بیان کی ہیں_ آپ ان میں سے دو صفات کو بیان کریں؟

۲) ___یہ صالح بندے کس راہ کی تعریف اور کس کی مذمت کرتے ہیں؟

۳)___ ان کا ڈر اور خوف کس چیز سے ہے؟ ان کا طویل گریہ کس خوف کے نتیجہ میں ہے؟

۴) ___امیرالمومنین (ع) نے جن آیات کی تلاوت کی ان کا ترجمہ کیجئے؟

۵)___ ان آیات میں کن باتوں کا تذکرہ ہے کہ جس کے سبب

۹۷

امیرالمومنین (ع) کی یہ حالت ہوگئی تھی؟

۶) ___جب امیرالمومنین (ع) نے حبّہ سے دریافت کیا کہ سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو تو حبّہ نے آپ (ع) کو کیا جواب دیا؟

آپ (ع) نے قیامت کے دن کے بارے میں حبّہ سے کیا فرمایا؟

۷)___امیرالمومنین (ع) نے نوف سے قیامت کی یاد اور خوف خدا سے رونے کے متعلق کیا فرمایا؟

۸)___ امیرالمومنین (ع) نے ایمان کامل رکھنے والے انسان کی کیا تعریف کی؟ کامل ایمان ہونے کے لئے کیا علامتیں بیان کیں؟

۹۸

باب سوم

نبوت کے بارے میں

۹۹

تمام پیغمبروں کا ایک راستہ ایک مقصد

شاید آپ نے بہار کے موسم میں بادام کے خوش رنگ شگوفے کودیکھا ہوگا کیا آپ نے دیکھا ہے؟

آیا کبھی سوچا ہے کہ

بادام کا جو بیج رمین میں بویا جاتا ہے یہ بیج، پھول کی خوبصورت شکل؟، اختیار کرنے تک کس قدر طویل، پر پیچ اور کٹھن راستہ کرتا ہے_

کتنی سعی و کوشش کر کے یہ راستہ طے کرتا ہے تا کہ نشو و نما پاسکے اور اس خوبصورت لباس سے اپنے آپ کو راستہ کرے

آیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس طویل راستہ کو طے کرنے میں اسکی راہنمائی کون کرتا ہے_

ہم نے توحید کی بحث میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

لایا گیا آپ(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا، اچانک انگلیوں کے درمیان سے پانی ابلنے لگا پوری قوم نے اس پانی سے وضو کیا، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس سے پوچھا ، تم لوگ کتنے آدمی تھے انھوں نے جواب دیا: تقریبا ۳۰۰ آدمی تھے۔

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:

روز حدیبیہ لوگ پیاسے ہوئے پانی کا ایک برتن آںحضرت(ص) کی بغل میں تھا۔ آںحضرت(ص) نے وضو کیا لوگ گھبرائی ہوئی حالت میں آںحضرت(ص) کے پاس آئے، آںحضرت(ص) نے فرمایا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ بولے: وضو کرنے یا پینے کے لیے بس یہی پانی ہے۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھا اچانک آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی ایسے ابلنے لگا جیسے چشمہ ابلتا ہے۔ پس ہم نے اس  میں سے پیا اور وضو کیا۔ہم نے پوچھا کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ڈیڑھ ہزار لوگ تھے لیکن ایک لاکھ لوگ بھی ہوتے تو بھی پانی کافی تھا۔

علقمہ عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ :

ہم رسول خدا(ص) کے ساتھ ہم سفر تھے۔ پانی کم ہوگیا، آںحضرت(ص) نے فرمایا : تھوڑا سا پانی لاؤ، ایک برتن میں پیش کیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیا، اور فرمایا پاک و مبارک پانی کی طرف دوڑ پڑو یہ خدا کی برکت ہے، ہم نے پانی کو دیکھا جو انگلیوں کے درمیان سے ابل رہا تھا۔

۲۰۱

وہابیت کی تاریخی حیثیت

اگر ہم اپنی تاریخ کی طرف نگاہ اٹھائیں اور اس کے درد ناک اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو ان میں سے بعض واقعات ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کردیں گے۔ تاکہ ہمیں سمجھا سکیں کہ یہ وہابیت جسے ہم نے اس قرآن میں پہچانا ہے۔ اسکی بھی تاریخی حیثیت ہے جو کبھی ظاہر تو کبھی پوشیدہ رہی ہے۔ کبھی جرات کر کے ظاہر ہوئی اور کبھی تقیہ و خوف سےپوشیدہ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسلام پر ایسے دن آپڑے اور استعمار نے اس نئی فکر کو تقویت بخشی، اس کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ وہ ہالہ یا دائرہ جو آںحضرت(ص) کے گرد ہے اور آپ کا وہ احترام و اکرام جو مسلمان کرتے ہیں ختم اور بے اثر ہوجائے۔ استعمار کو پتہ ہےکہ مسلمان دو چیزوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ قرآن اور سنت پیغمبر(ص) اور یہ دونوں شریعت اسلام کے بنیادی مصدر ہیں جو ان کے حملہ کا نشانہ قرار پائے ہیں۔

اور یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ کتاب خدا میں کسی باطل کے نفوذ کی گنجائش نہیں اور خداوند عالم اس کی حفاظت کا خود ضامن ہے لیکن سنت رسول(ص) میں جعل و تحریف کی جاسکتی ہے اور آںحضرت(ص) کی وفات کے پہلے روز سے ہی سنت میں اختلاف پید ہوگیا۔

لیکن انھیں معلوم ہے کہ علمائے امت نےسنت کی حفاظت کی غرض سے جس کی صحت ثابت ہوچکی ہے اسے اکھٹا کرلیا ہے اور اس کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ جو اس کو زیادتی  و کمی سے روکتے ہیں۔

اس کے پیش نظر انھوں نے ایک شیطانی چال چلی تاکہ اس کے ذریعہ جو

۲۰۲

چیزیں مسلمانوں کےدرمیان خوشحالی و نشاط کا باعظ ہیں نابود کر ڈالیں۔ چنانچہ جب مسلمان روحانی اور معنوی امور سے جدا ہوں گے تو الحادی مادیت سےنزدیک ہو جائیں گے۔ اور دھیرے دھیرے سیلاب کے اوپر پیدا ہونے والے جھاگ کی طرح ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران انھیں ایک ایسے مسلمان شخص کی تلاش ہوئی جو ریاست طلب اور دنیا پرست ہو۔ انہوں نے محمد بن عبدالوھاب کو اس  کےلیے سب سے موزوں پایا۔ اس کے اندر اپنی روح پھونک  دی اور اس کو قانع کردیا کہ وہ اپنے زمانہ کا واحد دانشور ہے۔ اور ایسی ذہانت و ہوش کا مالک ہے کہ جو خلفائے راشدین کے پاس بھی نہ تھی۔ اور خلفائ کے اجتہاد کو کتاب و سنت جیسے صریح نصوص کا مخالف بتایا، خصوصا آںحضرت(ص) کی زندگی میں حضرت عمر کا آپ(ص) کی مخالفت کرنا۔اور محمد بن عبدالوہاب کو مطمئن کردیا  کہ محمد(ص) بشر ہیں، معصوم نہیں ہیں، مختلف مقامات پر ان سے بھول چوک ہوئی ہے۔ اورلوگوں نے ان کے اشتباہ کی اصلاح کی ہے اور یہ شخصیت کی کمزوری کی دلیل ہے۔

پھر اس میں جزیرة العرب پر تسلط اور اس پر حکومت کی طمع پیدا کی اس کے بعد اس میں تمام عرب دنیا اور اس کےبعد پورے عالم اسلام پر حکومت کی امید بندھائی۔

وہابیت انھیں مفاہیم پر استوار ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ رسول(ص) کو بی حقیقت اور ان کی اہمیت کو کم کردے۔ جیسا کہ ان کے علماء صراحت کے ساتھ کہتے ہیں وہ شخص مرگیا۔ ـنعوذ باللہ) اور ان کے بزرگ ( محمد بن عبدالوہاب نے کہا) محمد (ص) بوسیدہ مردار ہیں۔ (نعوذ باللہ) جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، یہ میرا عصا ان سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور نقصان بھی!

اسی سے ملتی جلتی عبارت حجاج بن یوسف کے زمانہ میں بھی کہی جاتی تھی۔

۲۰۳

اسی نے کہا:

ان کے سروں پر خاک! یہ لوگ ایک بوسیدہ مردار کے گرد طواف کرتے ہیں، اگر یہ عبدالملک بن مروان کے محل کےگرد طواف کرتے تو ان کےلیے بہتر ہوتا!

در حقیقت جس چیز نے حجاج او بنی امیہ جیسے ظالموں کو آںحضرت(ص) کے عظیم مقام کی اہانت کی جرات بخشی تھی وہ عمر بن خطاب کا قول تھا جسے اس نے آںحضرت(ص) کے حضور میں کہا تھا:

یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ہمارے لیے صرف کتاب خدا کافی ہے!

اس باب میں وہابیت جو کچھ چاہتی ہے زور و زبردستی لوگوں کے اذہان میں داخل کرتی ہے اس لیے کہ اس کا کہنا ہے کہ محمد(ص) کا کردار ختم ہوا اور ان سے سوائے تاریخ کے کچھ نہیں بچا ہے اور جو بھی ان سے توسل اختیار کرے گویا اس نے ان کی پرستش کی ہے اور خدا کی خدائی میں انہیں شریک بنایا ہے۔

اور یہ کوئی تازہ فکر نہیں ہے بلکہ یہ تاریخی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ خود حضرت ابوبکر نے اعتراف کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ اعلان کیا۔ اور چیلنج کر کے کہا:

اے لوگو! جو بھی محمد(ص) کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے محمد(ص) مرچکے ہیں اور جو بھی خدا کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے اور ہرگز نہ مرے گا۔

اس بیان کی وجہ اور علت کیا تھی؟ جب کہ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی بھی آںحضرت(ص) کی پرستش نہیں کرتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت ابوبکر یہ سمجھتے تھے کہ واقعا بعض مسلمان آںحضرت(ص) کی پرستش کرتے ہیں۔ اگر ایسا تھا پھر آںحضرت(ص) کیوں خاموش رہے اور ان کو منع نہیں کیا؟ بلکہ ان کو کیوں قتل نہ کر ڈالا؟

۲۰۴

بہر حال میں ذاتی طور پر یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ ہو بھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو آج وہابیت کے یہاں وجود میں آیا ہے۔ یعنی وہ آںحضرت(ص) کا احترام و اکرام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور بلاشبہ اس پر جل بھن جاتے تھے۔ اور جس وقت دیکھتے لوگ پیغمبر(ص) کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے اوپر ملنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔ اور اس سے متبرک ہوتے ہیں اور آںحضرت(ص) واہل بیت(ص) کی محبت مودت کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کرتے ہیں اور خدا سے نزدیک ہوتے ہیں تو لوگوں کے اس عمل سے قریش میں برعکس اثر ہوتا۔ لہذا وہ آںحضرت(ص) کی ذات سے دشمنی رکھتے تھے۔ گرچہ وہ کسی اشتباہ کے مرتکب نہ ہوتے تھے۔

آخر کار قریش کے لیڈر، معاویہ بن ابو سفیان  نے اپنے اس باطنی کینہ سے پردہ اٹھا دیا اور جس وقت مغیرہ نے اس سےکہا:

اے امیرالمؤمنین کتنا اچھا ہوتا کہ تم ہاشم میں اپنے عزیزوں پر لطف و کرم کرتے۔ خدا کی قسم ان کے پاس کوئی چیز نہیں بچی ہے جس سے آپ ڈریں آپ کا یہ عمل آپ کے حق میں نفع بخش ہوگا۔

معاویہ نے کہا:

برادر بنی تمیم(ابوبکر) نے حکومت کی لیکن جیسے ہی اس دنیا سے گئے نام ختم ہوگیا۔ البتہ کوئی کبھی یاد کرلیتا ہے۔ برادر عدی(عمر) نے حکومت کی اور دس سال خود خواہی اور قدرت کی بنیاد پر لوگوں پر سلط رہے۔ لیکن جس وقت دنیا سے گئے ان کا نام بھی ان کےساتھ ختم ہوگیا، مگر یہ کوئٰ کہے حضرت عمر! اور حضرت عثمان نے بھی حکومت کی اور جو کچھ چاہا کیا لیکن جیسے ہی دنیا سے سدھارے ان کا نام بھی دینا سے رخصت ہوگیا۔ کسی کا نام بھی نہیں بچا سوائے ابن ابی بکر کشبہ(مراد رسول خدا(ص) ہیں) کے ، کسی اور کا نام نہیں بچا ہے اور ہر روز دن پانچ مرتبہ یاد کیا جاتا

۲۰۵

ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں۔(اشہد ان محمد رسول اللہ) یہ کون سی یاد ہے جو باقی رہ جانا چاہتی ہے۔ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، خدا کی قسم اس کے نام کو دفن کردوں گا اور مٹی میں ملا دوں گا۔

یہ وہی وہابیت ہے جس کا کل بہترین شکلی اور فصیح ترین عبارتوں میں نقشہ تیار کیا گیا اور آج کل اس کو عملی شکل دے رہے ہیں۔

(وہ چاہتے ہیں اپنے منہ سے نور خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا اسے پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو اچھا نہ لگے۔(صف / ۸)

۲۰۶

وہابیت اور زیارت قبور کی تحریم

اس وقت کی رائج بدعتوں میں ایک بدعت عورتوں پر قبر کی زیارت کو حرام قرار دینا ہے۔ مسلمان عورت جب خانہ خدا کی زیارت اور حج کے لیے جاتی ہے تو اسے بقیع اور شہداء احد اور دیگر قبور کی زیارت کی اجازت نہیں ملتی۔

وہابیت نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے پاس اس کو حرام قرار دینے میں سوائے تعصب کے کوئی اور دلیل نہیں ہے۔

مسلم اپنی صحیح میں باب جنائز کے اندر نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) سے  پوچھا۔ عورت اگر قبروں کی زیارت کے لیے نکلے تو کیا کہے۔

حضرت نے ان سے فرمایا:

کہے: اے قوم جو آرام سے اپنے گھروں میں سوئی ہے تم پر سلام ہو تم ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم بھی جب خدا نے چاہا تم سے ملحق ہو جائیں گے۔ خداواند عالم گذرے ہوئے اور جو بعد میں؟؟؟ ہیں ان کی مغفرت فرمائے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ: آںحضرت(ص) ایک عورت کے قریب سے گذرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ(ص) نے فرمایا: تقواے الہی اختیار کر اور صابر رہ۔ اس عورت نے کہا: مجھ سے دور ہوجاؤ۔ تم میری مصیبت میں نہ گرفتار ہو اور نہ ہی اسے جانتے ہو۔ اس عورت سے کہا گیا کہ یہ رسول(ص)

۲۰۷

تھے۔ وہ عورت رسول(ص) کے گھر آئی اور عرض کیا: میں نے آپ کو نہ پہچانا مجھے معاف فرمائیے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا: اولین صدمہ اور مصیبت کے لیے صبر ہے۔

اس سلسلے میں حدیثیں بکثرت موجود ہیں اہل سنت کی کتب صحاح اور شیعوں کی کتابیں اس سے مالامال ہیں لیکن وہابیت اس کا انکار کرتی ہے اور اس کے لیے کس قدر قیمت ی قائل نہیں اور جس وقت ان میں سے بعض لوگوں پر میں نے اعتراض کیا اور احادیث کے ذریعہ استدلال کیا تو وہ کہنے لگے یہ روایتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔

میں نے کہا بلکہ اس کے برعکس ! تحریم منسوخ ہےاس لیے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں پہلے تم کو قبروں کو زیارت سے روکتا تھا لیکن اس وقت کہتا ہوں کہ زیارت کرو کیوںکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔

جواب ملا: یہ حدیث مردوں کے لیے مخصوص ہے عورتیں اس سے خارج ہیں،

میں نے کہا : تاریخ میں ثابت ہوا ہے اور محققین اہلسنت نے بھی اسے بیان کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا ہر روز اپنے بابا کی قبر کی زیارت کو جایا کرتی تھیں، اور فرماتی تھی:

میرے بابا! مجھ پر وہ مصیبتیں نازل ہوئیں جو اگر دنوں پر پڑتیں تو شب تاریک میں بدل جاتے۔

یہ بھی مشہور ہےکہ حضرت علی(ع) نے ان کے لیے ایک گھر بنایا تھا جس کا نام بیت الحزن تھا اور وہ اپنا زیادہ تر وقت بقیع میں گزارتی تھی۔

اس نے کہا: اگر فرض کر لیں کہ یہ حدیث درست ہے تو یہ فاطمہ(س) سے مخصوص ہے۔

۲۰۸

اسے کہتے ہیں ( اندھا تعصب!) ورنہ مسلمان کیوں کر قصور کر سکتا ہے کہ خدا اور اس کا رسول(ص) عورت کو اس بات سے روکیں کہ وہ اپنے والدین، بھائی، اولاد اور شوہر کی قبروں پر جائے اور ان کے لیے طلب رحمت و مغفرت کرے اور ان کی قبروں پر اشک رحمت چھڑکے اور خود بھی موت کو یاد کرے جس طرح مرد یاد کرتا ہے۔

عورت کی نسبت اس کھلے ہوئے ظلم پر خدا اور اس کا رسول(ص) راضی نہ ہوں گے اور کوئی بھی عقل مند اسے قبول نہ کرے گا

۲۰۹

۲۱۰

۲۱۱

بڑی غلطی پر ان کا سختی سے محاسبہ کرتے ہیں۔

اور کبھی ایک بھول یا معمولی غلطی پر پٹائی کرتے ہیں اور ان پر درجہ سختی کرتے ہیں کہ وہ تھک جاتے اور دین سے متنفر ہوجاتے ہیں جبکہ وہ ابھی سن بلوغ تک بھی نہیں پہنچے ہوتے، یہ وہ چیز ہے جسے ہم نے خود دیکھا ہے۔ شایدخود آپ نے بھی اپنے عزیزوں میں ایسے بچوں کو دیکھا ہو جو سختی کی بنیاد پر نماز پڑھتے ہیں۔

اور جس وقت ماں باپ کی پکڑ کمزور پڑتی ہے تو اس زنجیر کو توڑ کر نکل جاتے ہیں اور نماز کو بالکل ترک کر دیتے ہیں۔

میں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے عزیزوں میں کچھ والدین کو اس بات پر راضی کروں کہ نماز نہ  پڑھنے پر بچوں کی پٹائی نہ کیا کریں اور ان کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور نہ کیا کریں بلکہ محبت و مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آئیں تاکہ نماز ان کی نظر میں محبوب بنے نہ کہ ڈراؤنا خواب۔

لیکن  میں جب اس بات کو کہتا تو وہ کہتے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا:

سات یا دس سال (روایت میں اختلاف ہے) کے بعد نماز کے لیے بچوں کی پٹائی کرو۔ اس طرح خواہ جوانوں نے عیسائی مبلغوں کی پیروی نہ کی ہو لیکن نماز کو ضائع کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جب کہ انھیں کھیلوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو چھوڑنا چاہیے تھا جو ذکر خدا سے روک دیتے ہیں۔

۲۱۲

مکتب اہل بیت(ع) میں مشکل کا حل

جو ابھی اسلامی تربیت کے لیے مکتب اہل بیت(ع) کی پیروی کرتا ہے اسے ایسی راہ حل ملتی ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لیے قرار دیا ہے جو  ان کے لیے دین کو آسان کردے اور احکام کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا سکے۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

خدا نے تمہارے لیے دین میں مشقت قرار نہیں دی ہے۔(حج/ ۷۸)

خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ زحمت ومشکل۔ ( بقرہ / ۱۸۵)

خدا ہر شخص پر اس کی قوت کے مطابق فرائض معین کرتا ہے۔(بقرہ / ۲۸ 6 )

رفع حرج

رفع حرج یعنی سختی اور دباؤ کو ختم کرنا اور یہ اسلام کا ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہرج و مرج کو ختم کردیا گیا اور ہر زحمت ممنوع ہے لیکن اگر واقعیت یہی ہے تو پھر یہ ساری سختیاں جو فقہی کتابوں میں موجود ہیں وہ کس لیے ہیں؟

اگر مسلمان (اہل سنت حضرات) کے بعض ابواب وضو اور غسل کر پڑھے تو اسے احساس ہوگا کہ آسانی کس حد تک مشکل میں تبدیل ہوچکی  ہے اور انسان پر اسکی طاقت سے زیادہ فرائض عائد کئے گئے ہیں مثلا تحریر ہے کہ اگر غسل کے بعد غسل کرنے والے ہاتھ اس کے عضو تناسل سے لگ جائے تو اسکا غسل باطل ہے اور اسے بھر سے غسل کرنا پڑیگا۔

مکتب اہل بیت(ع) میں، اہل بیت(ع)  نے اپنے جد حضرت رسول خدا(ص) سے روایت نقل کی ہے کہ وضو و غسل (یعنی دوبارہ دھونا) اور دو مسح ہے( یعنی چہرہ اور ہاتھ کو دھونا اور سرو پا کا مسح ہے۔)

۲۱۳

یہ ہے وضو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ نماز سے پہلے وضو کریں خداوند عالم فرماتا ہے:

اے رسول(ص) ! اگر نماز کے لیے اٹھو تو چہرہ کے بعد ہاتھوں کو کہنی تک دھوؤ۔ اور اپنے سرو پیرکا ابھرے ہوئے حصہ تک مسح کرو۔(مائدہ/6 )

لہذا وضو چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سر وپا کا مسح کرنے کا نام ہےجیسا کہ ہم دیکھتے ہیں یہ بہت ہی آسان ہے اس میں کوئی زحمت بھی نہیں ہے۔ مسلمان مقیم ہو یا مسافر ائرپورٹ پر ہو یا ٹرین میں یا پھر گھر میں اس وضو سے اس کے لیے کوئی مشکل نہ ہوگی۔ پائپ کھولے چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دھولے اور تل کو بند کردے۔ اورپھر سرو پا کا ہاتھ کی بچی ہوئی رطوبت سے مسح کرے۔ حتی اگر وہ چاہے تو نماز ادا کرنے کی جگہ تک جوتے کو نہ اتارے(اگر نماز ادا کرنے کی جگہ نزدیک ہو) تو وہاں جوتا اتارے اور پھر پاؤں پر مسح کرے۔

لیکن اہل سنت فقہ کے مطابق وضو بہت ہی سخت ہے کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھونا۔ تین مرتبہ کلی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا، تین مرتبہ چہرہ دھونا، تین مرتبہ داہنے ہاتھ کو دھونا ، تین مرتبہ بائیں ہاتھ کو دھونا، پورے سر، اور کان کا مسح، تین مرتبہ داہنے پیر کا دھونا اور تین مرتبہ بائیں پیر کا دھونا۔

ایسا وضو اور خصوصا جوانوں کے لیے سفر کی حالت میں اور خاص کر ٹھنڈک میں جب کہ پیروں کو دھونا ہو اور پھر موزہ پہننے کےلیے پیروں کو خشک کرنا اس میں ان کےلیے کس درجہ زحمت  ہے۔

۲۱۴

لیکن مکتب اہل بیت(ع) میں نص کے مقابل اجتہاد اور ذاتی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن و سنت رسول(ص) کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ جو وضو اس مکتب میں ہے اسی کو قرآن نے بھی مسلمانوں پر واجب کیا ہے۔ اور رسول خدا(ص) و ائمہ اطہار(ع) اسی طرح وضو کرتے تھے۔

خدا رحمت کرے عبداللہ بن عباس پر آپ ہمیشہ تکرار کرتے  رہتے کہ :

کتاب خدا میں سوائے دو دھونے  اور دو مسح کے ہمیں اور کچھ نہیں ملتا لیکن تم لوگ تو صرف سنت حجاج کی پیروی کرنا چاہتے ہو۔ ( مصنف عبدالرزاق،ج ۱، ص۳۸)

لہذا آج مسلمانوں پر اور خاص کر سمجھدار جوانوں پر واجب ہے کہ آسانی اور سہولت کی طرف پلٹ آئیں اور لوگوں کو دین کی طرف رغبت اور شوق دلائیں، جناب رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کس قدر تاکید فرمائی ہےکہ اس قاعدہ پر عمل کریں۔

لوگوں سہولت سے کام لو، مشکل پیدا نہ کرو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔

خود اپنے آپ پر سختی نہ کرو تا کہ خدا بھی تم سے سختی سے کام نہ کے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔

یہ تجربہ معمولا کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔ کتنے ایسے جوان تھے جو وضو کی وجہ سے نماز سے گریز کرتے تھے۔ یا نماز کو تیمم سے پڑھتے تھے ۔ اس ڈر سے کہ کہیں پانی ان کے پاؤں کے لیے مضر نہ ہو۔

لیکن اہل بیت(ع) کی روش کے مطابق وضو انھیں سکون حاصل ہوا اور وہ مطمئن ہوگئے۔

۲۱۵

یہ ہے نماز

مکتب اہل بیت(ع) میں نماز پانچ وقت پڑھنے کے بجائے تین وقت پڑھتے ہیں۔ یعنی نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب عشاء یکے بعد دیگری  پڑھتے ہیں۔ اور ایک وقت نماز صبح کے لیے نماز و عصر کےلیے اور ایک وقت نماز مغرب و عشاء کے لیے معین کر رکھا ہے۔

ہم نے اپنی کتاب ( سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں ایک باب قرآن کریم اور سنت پاک کی روشنی میں ان تین وقتوں کی شرعی حیثیت سے مخصوص کیا ہے۔ہم طالب کو طول دینا نہیں چاہتے اور جس بات کا تذکرہ پہلے کیا ہے اس کی تکرار نہیں کرنا چاہتے ہمارے محقق احباب اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

لیکن اس جگہ ان تین وقتوں میں نمازوں کو قرار دینے کی الہی حکمت سے متعلق توضیح دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے۔ سماج کا ین چوتھائی حصہ نوکری پیشہ ہے۔ یہ یا تو نماز نہیں پڑھتا ہے یا اگر پڑھتا ہے تو کسالت اور سستی کے ساتھ پڑھتا ہے اور پھر پڑھنے میں مشقت اور سختی محسوس کرتا ہے۔

اس لیے کہ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شرعا کام میں کمی نہیں کرسکتے۔ اور جس وقت میں کام کی تنخواہ لیتے ہیں اس میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ البتہ ہم ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے جو مسجد میں پکار پکار کر کہتے ہیں نماز کے وقت کام چھوڑ دو چاہے اس کی وجہ سے تمہیں کام سے نکال دیا جائے اس لے کہ روزی کا دینے والا خدا ہے نہ کہ کارخانہ کا مالک اور منیجر!!!

۲۱۶

تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب یہی نظریہ رکھنے والے افراد خود اسی موضوع میں متضاد نظر آتے ہیں۔ ہم نے انھیں میں سے ایک شخص کو دیکھا وہ حضرت عمر بن خطاب کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا حضرت عمر مسجد میں وارد ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو لوگوں کے آنے سے پہلے نماز پڑھ رہا تھا۔ دوسری مرتبہ آئے دیکھا وہی شخص نماز پڑھ رہا ہے۔ اور جب تیسری مرتبہ دیکھا تو کہا کون تمہاری روزانہ کی زندگی کا خرچ دیتا ہے۔ اس نےکہا میرا بھائی مجھے کھانا کھلا تا ہے اور لباس پہناتا ہے جناب عمر نے اس سے کہا مسجد سے باہر نکل جاؤ اس لیے تیرا بھائی تجھ سے بہتر ہے۔ آسمان سے تو سیم و زر نہیں برستا۔

میں اس کو کنارے لے گیا اور اس سےکہا کہ کیا تم نے ایک ماہ پہلے یہ نہ کہا تھا کہ خدا اپنے بندوں کو روزی دیتا ہے۔ تمہارے اوپر ضروری ہے کہ نماز کے وقت کام چھوڑ دو۔ اس نے بزرگانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ( ہر سخن جائی دارد) میری پہلی بات قرآن سے تھی اور دوسری بات حضرت عمر فاروق کے حوالہ سے تھی اور یہ دونوں باتیں حق ہیں میں نے اس سے کہا خدا تجھے جزائے خیر دے میں نے بڑا استفادہ کیا۔

ہم پھر دو نمازوں کو ایک وقت میں انجام دینے میں الہی حکمت کی طرف پلٹتے ہیں۔ کہ خداوند عالم زمین و زمان کا خالق ہے اور ماضی ، حال اور مستقبل سے آگاہ ہے۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہے۔

خدا کو علم تھا کہ ایک زمانہ میں لوگوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی اور ان کی آزادی کم اور وقت محدود ہوگا۔ اور چونکہ حضرت محمد (ص)خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کی شریعت قیامت تک باقی ہے اور حکمت الہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ بندوں کےلیے آسانی پیدا کی جائے اور عسر وحرج کو ختم کیا جائے لہذا اپنے

۲۱۷

رسول(ص) سے فرمایا: نماز ظہر و عصر، مغرب و وعشاء کو ایک ساتھ ادا کریں اور یہی روش امت کو تعلیم فرمائیں۔ تاکہ ان پر سے حرج اور سختی ختم ہوجائے۔

پیغمبر(ص) نے اس حکم پر عمل کیا اور کئی مرتبہ مدینہ منورہ میں اسی روش پر نماز ادا کی اور جس وقت آپ سے سوال کیا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنی امت پر سختی نہیں چاہتا۔

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا:

رسول خدا (ص) نے مدینہ میں سات رکعتی اور آٹھ رکعتی نماز پڑھی، یعنی ظہر و عصر اور اسی طرح مغرب و عشاء۔

یہ ہے حکمت الہی اور یہ ہے رسول خدا (ص) کی نماز، جسے آںحضرت(ص) نے پروردگار کے حکم کی بنیاد پر انجام دیا۔ تاکہ امت کے لیے فشار و سختی کا باعث نہ ہوں۔

ہم کیوں اس روش کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ یہ سہل اور آسان ہے اور ملازم، کاریگر، طالب علم اور فوجی سبھی کے لیے سازگار اور ممکن ہے اور کوئی کام ایسا نہیں جو ان وقتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس طرح اب کسی مسلمان کےلیے کوئی بہانہ نہیں۔

یہ بات دنیا میں معروف ہے کہ ڈیوٹی کا وقت  آٹھ گھنٹے ہوتا ہے ۔ اور دو حصوں میں کام ہوتا ہے صبح ۸ بجے سے لے کر ۱۲ بجے تک اور بیچ میں دو گھنٹہ استراحت پھر ۲ بجے سے لےکر شام کے 6بجے تک۔ اس صورت میں مسلمان نماز ظہر و عصر کو آرام کے وقت میں کام پر دوبارہ جانے سے پہلے انجام دے سکتا ہے۔ اس طرح اس نے نماز ظہر و عصر کو اس کے صحیح وقت پر انجام دیا ہے چنانچہ نہایت آرام سے کام پر آسکتا ہے۔

لیکن اگر کام سارے دن کا ہو جیسے معدنیات یا اس سے مشابہ جگہوں پر کام تو (قانون کار) ۷ گھنٹے مسلسل کام کو تجویز کرتا ہے۔ اور آدھا گھنٹہ آرام کے

۲۱۸

لیے دیتا ہے اس قسم کی کمپنیاں کام کو تین شفٹوں میں معین کرتی ہیں۔

۱ـایک گروہ صبح ۷ بجے سے ۲ بجے تک کام کرتا ہے۔

۲ـدوسرا گروہ ۲ بجے (بعد از ظہر) سے رات کے ۹ بجے تک کام کرتا ہے۔

۳ـ اور تیسرا گروہ ۹بجے رات سے ۴بجے صبح تک کام کرتا ہے۔

نماز کے لیے اس حکمت الہی کے تحت یہ سارے گروہ بغیر کسی زحمت کے اپنے وقت پر نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اور کوئی بھی عذر نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس نماز ادا کرنےکا وقت نہیں ہےیا یہ کہ نماز وقت جارہا ہے اور وہ نماز ادا نہیں کرسکتا۔

اس طرح ہم نماز ادا کرنے میں قرآن و سنت کی پیروی کریں گے۔

اس لیے کہ حکم یہی ہےکہ مومنین نماز کو اس کے وقت پر انجام دیں۔ اسی کے ساتھ ہم اپنی اور دوسروں کی سختی و مشقت کو بھی دور کرسکتے ہیں۔

شاید بہت سے جوان جنہوں نے اپنی نماز کو ترک کردیا ہے پھر سے نماز کی آغوش میں پلٹ آئیں۔ اگر انھیں یہ پتہ چل جائے کہ خدا نے اسی امر کی تشریح کی  ہے اور رسول خدا(ص) اور آپ کے اہل بیت(ع) نے ایسے ہی انجام دیا ہے

۲۱۹

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254