‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73343 / ڈاؤنلوڈ: 3704
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۶ ۔مردوں کے لئے خالص ریشم کے کپڑے کا استعمال حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ ہاں اگر اس میں اتنا سوت وغیرہ ملا دیا جائے کہ وہ ریشمی نہ کہلائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۷ ۔ سونے کے توروں سے بنے ہوئے کپڑوں کا ستعمال مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح مردوں کے لئے سونے سے زینت اور آرائش بھی ناجائز ہے۔ جیسے سونے کی انگوٹھی ، چین ، چشمہ کا فریم ، گھڑی ، بٹن وغیرہ ۔ عورتوں کے لئے یہ تمام باتیں جائز ہیں۔

مردوں کے لئے سونے کا استعمال نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں حرام ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سونے میں خالص کی قید نہیں بلکہ اگر مخلوط بھی ہے تو بھی ناجائز ہے۔ جب تک کہ اس میں تانبا یا کوئی دوسری دھات اتنی نہ ملا دی جائے کہ اسے سونا نہ کہہ سکیں۔

سوالات :

۱ ۔ نماز میں مرد اور عورت کو کتنا جسم چھپانا واجب ہے ؟

۲ ۔ نماز کے لباس کی تین شرطیں بیان کرو ؟

۳ ۔ نائلون کے کپڑے میں نماز کب ناجائز ہے ؟

۴۱

اکیسواں سبق

مکان

مکان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان نماز ادا کرتا ہے اس جگہ کے لئے پاک ہونے کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ نجس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جگہ کی تری بدن اور کپڑے تک نہ پہونچ جائے مگر سجدہ کی جگہ کا پاک ہونا بہرحال ضروری ہے۔

مکان نماز میں حسب ذیل شرائط ضروری ہیں :

۱ ۔ مباح و جائز ہو ۔ دوسرے کی زمین پر یا مشتر کہ اراض میں بغیر مالک و شریک کی اجازت کے نماز باطل ہے۔ عام موقوفات یعنی مسجد وغیرہ میں جو پہلے جگہ لے لے اُسے اُس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جائےگی۔ اجازت کے صریح بیان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مالک کے راضی رہنے کا یقین ہونا کافی ہے۔

۲ ۔ نماز میں معصوم کی قبر کے آگے نہ ہونا چاہئے بلکہ پیچھے پڑھے یا زیادہ سے زیادہ برابر کھڑا ہو آگے ہونا خلاف ادب ہے ہاں اگر کافی ٖاصلہ ہو جائے یا درمیان میں کوئی چیز جائل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۳ ۔ نماز کی جگہ کو ساکن اور ٹھرا ہوا ہونا چاہئے۔ چلتی ہوئی گاڑی پر اس وقت تک نماز جائز ہے جبکہ آخر وقت تک اُتر کر یا رُکی ہوئی گاڑی میں نماز پڑھنا ممکن رہے۔

۴۲

یوں تو نماز کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہے لیکن مسجد کو دیگر مقامات پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے چاہے وہاں نماز جماعت ہو یا نہ ہو۔ جماعت کا ہونا مزید ثواب و برکت کا باعث ہے۔

مسجد کی عظمت یہ ہے کہ عام مسجدوں میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جامع مسجد میں سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز بغیر مسجد میں پڑھے مقبول نہیں ہو سکتی سوا اس کے کہ کوئی مجبوری ہو اور دوسری روایت یہ ہے کہ مسجد روز قیامت ان نمازوں سے فریاد کرےگی جو نماز پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں آتے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا نجس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

۲ ۔ ریل پر نماز کیونکر پڑھی جائےگی ؟

۳ ۔ معصوم کی قبر کے آگے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

۴ ۔ گھر کی نماز اور عام مسجد کی نما میں کیا فرق ہے ؟ عام مسجد اور جامع مسجد کی نماز میں کیا فرق ہے ؟

۵ ۔ جامع مسجد مین ایک نماز کا ثواب کیا ہے ؟

۶ ۔ چلتی ہوئی گاڑی میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟

۴۳

بائیسواں سبق

اذان و اقامت

اذان و اقامت صرف پنچگانہ نمازوں کے لئے مستحب ہے اور انتہائی تاکید کے ساتھ مستحب ہے۔ باقی نمازوں میں اذان و اقامت ناجائز ہے چاہے وہ واجب ہوں یا غیر واجب۔ اذان اور اقامت میں حسب ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے :

۱ ۔ نیت ۔ یعنی دونوں کو قربت کی نیت سے انجام سے اس لئے کہ کسی عبادت میں بغیر قصد قربت کے ثواب نہیں مل سکتا۔

۲ ۔ عقل ۔ دیوانے کی اذان و اقامت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

۳ ۔ بلوغ ، نابالغ کی اذان و اقامت ناکافی ہے۔

۴ ۔ ذکوریت ، عورت کی اذان و اقامت مرد کے لئے نا کافی ہے البتہ عورت کا اذان و اقامت کہنا عورتوں کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ ترتیب ۔ پہلے اذان اس کے بعد اقامت کہنا چاہئے۔

۶ ۔ موالات ۔ اذان کے بعد جلد ہی اقامت اور اقامت کے بعد فوراً نماز پڑھے۔ سلسلہ کے ٹوٹ جانے سے اذان و اقامت بیکار ہو جاتی ہے۔

۷ ۔ عربی ۔ اُردو میں یا غلط عربی میں اذان و اقامت درست نہیں ہے۔

۴۴

۸ ۔ وقت ۔

نماز کے وقت سے پہلے اس کا ادا کرنا غلط ہے البتہ قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے اس لئے اس کا وقت ہر وقت رہتا ہے۔ اذان کے لئے طہارت ۔ قیام ۔ استقبال قبلہ مسجد ہے لیکن اقامت میں طہارت و قیام ضروری ہے۔ یہ رسم کہ اقامت کہتے کہتے قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہو گئے فرادی نماز میں بالکل نامناسب ہے اس طرح اقامت کا ثواب نہیں مل سکتا۔ اذان و اقامت دونوں میں ذکر رسولؐ اکرم کے بعد ذکر امیرالمومنین علیؐ ابن ابی طالبؐ ہونا چاہئے جو اذان کا جز نہیں ہے۔ لیکن حکم پیغمرؐ کی بنا پر مسحب ہے۔

اگر کوئی شخص اذان و اقامت دونوں بھول جائے اور نماز شروع کر دے تو اس کے لئے جائز ہے کہ رکوع میں پہونچنے سے پہلے نماز کو توڑ دے اور اذان و اقامت کہہ کر پھر نماز شروع کرے لیکن اگر صورف اقامت بھول گیا ہے تو الحمد شروع کرنے کے بعد نماز نہیں توڑ سکتا البتہ اس سے پہلے توڑ سکتا ہے۔ تنہا اذان کے بھول جانے سے نماز نہیں توڑی جا سکتی۔ اسی طرح کسی ایک کے بھی قصداً چھوڑ دینے پر نماز کا قطع کرنا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نابالغ کی اذان و اقامت کیا کافی ہے ؟

۲ ۔ اقامت و نماز کے درمیان وقت کا فاصلہ کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر نمازی اذان و اقامت بھول کر نماز شروع کر دے تو کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ اقامت کی کوئی تین شرطیں بتاؤ ؟

۵ ۔ اذان اور اقامت میں جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے وہ کتنی ہیں ؟

۴۵

تئیسواں سبق

واجبات نماز

نماز میں گیارہ چیزیں واجب ہیں اور انھیں کے مجموعہ کا نام نماز ہے۔

نیت : تکبیرۃ الاحرام ۔ قیام ۔ قرائت ۔ ذکر ۔ رکوع ۔ سجود ۔ تشہد ۔ سلام ۔ ترتیب ۔ موالات ۔ ان میں سے پانچ واجب کن ہیں یعنی ان کی کمی زیادتی بھولے سے بھی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ نیت تکبیرۃ الاحرام۔ قیام ۔ رکوع ۔ دونوں سجدے باقی سب غیر رکن ہیں یعنی ان کو قصداً چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن بھولے سے باطل نہیں ہوتی بلکہ ان کی قضا کرنا پڑتی ہے۔

نیت :

نیت رکن ہے اس کو ہمیشہ دل میں ہونا چاہئے زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز احتیاط میں تو زبان سے ادا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔

تکبیرۃ الاحرام ۔

نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا رکن نماز ہے اور پوری نماز میں یہی ایک تکبیر واجب ہے اس کے علاوہ تمام تکبیریں سنت ہیں۔

قیام۔

انسان اپنے مکان بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے رونہ بیٹھ کر پڑھے اور اگ بیمار یا کمزور ہے تو جتنی دیر کھڑا رہ سکے ٹھرا رہے پھر اگر طاقت آ جائے تو پھر کھڑا ہو جائے اور جو بیٹھ بھی نہ سکے وہ لیٹ جائے داہنے یا بائیں کروٹ یا چت۔ بشرطیکہ قبلہ کی طرف اس کا چہرہ رہے۔ قیام ۔ الحمد اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور اسی طرح رکوع سے پہلے بھی رکن ہے یعنی رکوع میں قیام سے جانا چاہئے یہی قیام متصل برکوع ہے۔ اس قیام کے رکن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر انسان حمد و سورہ کے بعد بھولے سے سجدہ کے لئے جھک گیا اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اب وہیں سے رکوع میں نہیں جا سکتا ورنہ نماز باطل ہو جائےگی بلکہ اسے چاہئے کہ سیدھے کھڑا ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے۔

۴۶

قرات ۔ تکبیر کے بعد پہلی دو رکعت میں الحمد اور اس کے بعد کوئی ایک سورہ پڑھنا واجب ہے۔ البتہ واجب سجدہوں والے سورے نہ پڑھے اور اتنے لمبے سورے نہ پڑھے کہ نماز کا وقت نکل جائے۔ جماعت کی حالت میں یہی دو سورے ماموم نہیں پڑھتا ہے ورنہ باقی نماز ماموم خود ادا کرےگا۔ آخری دو رکعتوں میں انسان کو اختیار ہے چاہے سورہ حمد پڑھے یا ایک مرتبہسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ لِلهِ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ للهُ وَ اللهُ اَکبَر پڑھے۔ تین مرتبہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

رکوع ۔ نماز کا ایک اہم رکن ہے اگر اتفاقاً کبھی رہ جائے یا ایک سے دو ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ رکوع میں اتنا جھکنا چاہئے کہ ہتھیلی گٹھنے تک پہونچ سکے۔ گٹھنے پر ہتھیلی کا رکھنا واجب نہیں ہے۔ رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ یا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کلمات کو بار بار دھرانا افضل و مستحب ہے۔ رکوع ختم کرنے کے بعد سیدھے کھڑا ہو کر سجدہ میں جائے اس لئے کہ یہ قیام بھی واجب ہے۔ کھڑے ہونے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ۔ اللہ اکبر کہنا مستحب ہے۔

سجدہ ۔

یہ بھی نماز کا ایک رکن ہے لیکن دونوں ملاکر جس کا مطلب یہ ہے کہ دو کے چار ہو جائیں یا اتفاق سے کسی رکعت میں ایک بھی نہ ہو سکے تو نماز باطل ہو جائےگی۔ سجدہ میں سات اعضا ، کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے۔ پیشانی ۔ دونوں ہتھیلیاں ۔ دونوں گٹھنے ۔ دونوں پیر کے انگوٹھے سجدہ کا ذکرسبحان ربی الا علیٰ و بحمده یا تین مرتبہسبحان الله ہے۔ سجدہ مٹی پر ہوگا یا جو چیزیں زمین سے اُگی ہوں ان پر ہوگا بشرطیکہ وہ کھانے اور پہننے میں کام نہ آتی ہوں۔ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے کہ یہ خاک اسلامی قربانیوں کو یاد دلانے والی اور مسلمانوں میں جوش عقیدت کو ابھارنے والی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سجدہ کا جو ازارسی خاک پاک میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر پاک مٹی ، لکڑی ، پتے پر اپنے شرائط کے ساتھ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۷

تشہد ۔

دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دونوں سجدوں کے نعد تشہد واجب ہے جس کی صورت یہ ہےاَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّد ! اگر کوئی شخص تشہد بھول جائے اور بھول کر کھڑا ہو جائے تو فوراً بیٹھ کر تشہد پڑھے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو کرے۔

سلام ۔

نماز کے خاتمہ پر ایک سلام واجب ہے چاہےاِلسِّلاِمُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینُ "یا "اَلسَّلاَم عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ بہر حال مستحب ہے۔ سلام نماز کا جز ہے۔

ترتیب ۔

نماز کو اپنی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے مثلا نیت کر کے تکبیر کہے پھر سورہ حمد پڑھے دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے۔ رکوع سے اُٹھ کر سجدہ میں جائے۔ ایک سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرا سجدہ کریں پھر اسی طرح دوسری رکعت پڑھے۔ اگر دو ہی رکعت پڑھنا ہے تو سجدہ کے بعد تشہد و سلام پڑھ کر ختم کر دے ورنہ باقہ نماز اسی ترتیب سے ادا کرے۔

موالات ۔

نماز کے تمام اگعال کو پے در پے ہونا چاہئے۔ درمیان میں اتنا فاصلہ یا ایسی خاموشی نہ ہو جائے کہ صورت نماز ہی ختم ہو جائے۔

قنوت ۔

یہ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے مستحب ہے اس میں ایک صلوات کا پڑھنا بھی کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ارکان نماز کتنے ہیں اور ان کا کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ کون سا قیام رکن ہے اور قیام متصل برکوع کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ واجب نماز کتنے ہیں ؟

۴ ۔موالات کسے کہتے ہیں ؟

۴۸

چوبیسواں سبق

مبطلات نماز

نو چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱ ۔ کسی ایسے حدث کا صادر ہو جانا جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے اسلئے کہ ان چیزوں سے طہارت ختم ہو جاتی ہے اور طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔

۲ ۔ پورے بدن کا قبلہ سے منحرف ہو جانا یا تنہا چہرا کا اس قدر مڑ جانا جس سے پس پشت تک کی چیزیں دیکھ سکے، رہ گیا داہنے بائیں تھوڑا سا انحراف و التفات ہوتو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

۳ ۔ حالت نماز میں ایسے کام انجام دینا جو جائز ہیں یا جن کے کرنے سے نماز کی صورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے ناچنا ۔ گانا ۔ سینا پرونا وغیرہ

اسکے علاوہ ہاتھوں کو حرکت دینا کسی ضرورت سے جھکنا ۔ دو ایک قدم آگے پیچھے ۔ داہنے بائیں ہٹ جانا ۔ خطرہ میں سانپ بیچھو کا قتل کر دینا ۔ بچہ کو گود میں اٹھا لینا یا اس قسم کے دوسرے معمولی افعال سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیہ حرکت کی حالت میں خاموش رہے کوئی ذکر وغیرہ کا خاص خیال رکھے۔بلا ضرورت یہ باتیں کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔

۴۹

۴ ۔ کلام نماز کی حالت میں علاوہ ذکر و دعا کے کسی بھی لفظ کا استعمال کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ دعا وغیرہ میں بھی خطاب پروردگار عالم سے ہونا چاہئے کسی آدمی سے خطاب کر کے اسے دعا دینا ناجائز ہے۔نماز پڑھنے والے کو سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی سلام کر دی تو فوراً سلام علیکم کہہ کر جواب دینا چاہئے علیکم السلام کہہ کر نہیں۔ اگر پوری جماعت کو سلام کیا جائے تو ایک شخص کا جواب کافی ہے لیکن اگر سب جواب کو ٹال جائیں گے تو گناہ میں بھی سب شریک رہیںگے۔

ہندوستان کے رسمی سلام "اداب عرض " ہے۔ تسلیمات وغیرہ جیسے فقروں کا جواب واجب نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں تو ان الفاظ کا ادا کرنا جائز بھی نہیں ہے۔

۵ ۔ نماز میں آواز کے ساتھ یا اتنی شدت سے ہنسنا کہ سارا چہرہ سرخ ہو جائے خواہ آواز نہ بھی نکلے نماز کو باطل کر دیتا ہے البتہ معمولی مسکراہٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہنسی سے جب چہرہ سرخ ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

۶ ۔ گریہ و بکا ۔ حالت نماز میں دنیاوی کاموں کے لئے رونا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دفعتاً خود بخود رونا آ گیا اور انسان اس پر قابو نہ پا سکا جب بھی نماز باطل ہو جائےگی۔ سیدالشہدا پر گریہ کرنا خدا کی خوشنودی کی نیت سے جائز ہے۔

۵۰

۷ ۔ کھانا پینا ۔ نماز کی حالت میں کسی مقدار میں بھی کھانا پینا ناجائز ہے بلکہ مبطل نماز ہے ہاں اگر منھ میں شکر وغیرہ کے کچھ ریزے رہ گئے ہیں اور وہ پگھل کر اندر چلے جائیں تو اس سے کوئی اثر نماز پر نہیں پڑتا۔ اگر کوئی شخص درمیان نماز میں بھولے سے کھانے پینے میں مشغول ہو گیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی بشرطیہ نمازی جانماز پر معلوم ہوتا ہو دسترخوان پر نہیں۔ اس حکم سے صرف وہ شخص آزاد ہے جو نماز وتر پڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت اُسے روزہ رکھنا ہے۔ ایسے آدمی کو نہ اختیار رہے کہ نماز کی حالت میں پانی پی لے ۔ کھانا وہ بھی نہیں کھا سکتا۔ پانی پینے میں بھی قبلہ کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔

۸ ۔ تکفیر ۔ نماز میں ہاتھ باندھنا شریعت اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔

۹ ۔ سورہ حمد کے خاتمہ پر عام مسلمانوں کی طرح آمین کہنا فقہ آل محمدؐ کی رو سے ناجائز بلکہ مبطل نماز ہے اتفاقی طور سے زبان سے نکل جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۱

یہ وہ مقامات ہیں جہاں نماز خود بخود باطل ہو جاتی ہے اس کے علاوہ کسی موقع پر بھی باطل ضرورت نماز کا قطع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ایسا ہو سکتا ہے چاہے وہ ضرورت دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض حالات میں اگر جان و مال و آبرو کا خطرہ ہے تو نماز کا توڑ دینا واجب ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز توڑتے وقت ایک سلام پڑھے۔

تنبیہ ۔

نماز یومیہ میں صبح ، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتیں بآواز پڑھی جائیںگی۔ ظہر و عصر مکمل اور مغربین کی آخری رکعتیں آہستہ پڑھی جائینگی لیکن یہ خیال رہے کہ بات صرف حمد و سورہ کے بارے میں ہے اس کے علاوہ پوری نماز کے بارے میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے آہستہ پڑھے یا بآواز۔ حمد و سورہ اور دیگر ذکر و دعا کے پڑھنے میں عربی قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ حمد و سورہ بآواز پڑھتے وقت ہر ہر حرف کا آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ مثلا ضآلین کا نون بھی آواز سے ادا کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ حالت نماز میں سانپ ، بچھو کا مارنا کیسا ہے نماز صحیح رہے گی یا باطل ہو جائےگی ؟

۲ ۔ کیا مسکراہٹ سے نماز باطل ہو جائےگی ؟

۳ ۔ نماز میں پانی پینا کیسا ہے ؟

۴ ۔ تکفیر کے معنی کیا ہیں ؟

۵ ۔ مبطلات نماز بتلائیے ؟

۶ ۔ کیا حالت نماز میں آداب عرض ، یا تسلیمات عرض کہا جائے تو نماز صحیح ہوگی ؟

۵۲

پچیسواں سبق

آداب ذکر و قرائت

۱ ۔ نیت کے موقع پر بعض حضرات قربتہً الا اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ " الی اللہ " ہے۔

۲ ۔ صلوات میںاَللهُم سَلِّ سے کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ رسولؐ اکرم کے لئے بد دعا ہے اصل لفظصَلِّ صاد سے ادا ہوتا ہے۔

۳ ۔اَشهَدُ اَن لاَ اِلٰهَ اِلاَّ الله میں اَن کا نون گرا کر الف کو بعد کے لام سے ملا کراَلاَّ اِلٰهَ پڑھنا چاہئے۔

۴ ۔ صلوات میں محمدٍّ و آلِ محمد میں واؤ پر تشدید دیکر وال کو واؤ سے ملاکر پڑھنا چاہئے۔

۵ ۔ کفو احد مٰیں لفظ کفوا کو کُفُواً واؤ کے ساتھ اور کُفُواً ۔ کُفؤاً ہمزہ کے ساتھ چار طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

۶ ۔ حی علی الصلوۃ اور قد قامت الصلوۃ میں "ت" کو "ہ" پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وقف اور ٹھراؤ میں گول ۃ "ہ "سے بدل جاتی ہے۔

۷ ۔ تشہد میںاَشهَدُ اَنَّ مُحمَداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ میں عَبدَہُ کے دال پر پیش ہونا چاہئے زبر غلط ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد میں المستقیم پر ٹھہر بھی سکتے ہیں اور المستقیمَ پڑھ کر بعد سے ملا بھی سکتے ہیں۔

۹ ۔ نماز کی حالت میں جتنے بھی ذکر واجب یا مستحب ہیں سب کو سکون و اطمینان کی حالت میں ادا کرنا چاہئے حرکت و اضطراب میں سوائےبِحولِ الله وَ قُوتهِ اَقُومُ وَ اَقعُد کے کسی ذکر کا ادا کرنا مناسب نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟

۲ ۔ نیت میں اِلا اللہ درست ہے یا اِلی اللہ صحیح ہے ؟

۳ ۔ نماز میں وہ کون سی چیز ہے جس کو حرکت کی حالت میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

۵۳

چھبیسواں سبق

نماز قضا

اگر انسان سے اپنی نماز ترک ہو گئی ہے یا بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نماز واجب ہو گئی ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ان سب کی قضا ادا کرے قضا نماز تمام احکام مین باطل ادا جیسی ہے اگر سفر کی قجا ہے تو گھر میں بھی قصر ہی ادا کی جائے گی اور اسی طرح بر عکس۔ اگر جہری ہے تو جہری رہےگی اخفاقی ہے تو اخفاقی رہےگی۔فرادی بھی ہو سکتی ہے جماعت سے بھی ہو سکتی ہے ترتیب کا لحاظ بھی ضروری ہوگا۔ مثلا پہلے ظہر کی پھر عصر کی پہلے مغرب کی پھر عشاء کی البتہ یہ ممکن ہے کہ صبح کی قضا نماز ظہرین کی ادا کے بعد پڑھے یا ظہرین کی قضا نماز مغربین کی ادا کے بعد پڑھے۔ قضا کا کوئی وقت معین نہیں ہے ہر نماز کی قضا ہر وقت پرھی جا سکتی ہے۔

والدین کی نماز اگر خود ادا ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اجرت دے کر پڑھوائے اجرت پڑھنے والا مرنے والے کی طرف سے نیت کر کے ویسی نماز پڑھے جیسی نماز مرنے والے کی قضا ہوئی ہے۔ لیکن جہر و اخفات میں اپنا طاظ کرے گا یعنی اگر مرد عورت کی طرف سے پڑھ رہا ہے تب بھی جس نماز میں مرد سورے آواز سے پڑھتا ہے اس نماز میں آواز سے ہی پڑھےگا۔ بڑے بیٹے کے علاوہ قضاء والد کسی دوسرے پر واجب نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ بڑے بیٹے کی نالائقی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر اولاد و اعزاء کو ازراہ ہمدردی اس فیضہ کو ادا کر دینا چاہئے۔ عورت پر زمانہ حیض و نفاس میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اس زمانہ کے روزے کی قضا ضروری ہے۔

۵۴

مردے کی طرف سے اگر کوئی شخص ازخود نماز ادا کر دے تو وارث کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیمار آدمی قضائے عمری کو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بلکہ صحت کا انتظار کرےگا۔ ہاں اگر صحت سے مایوس ہو گیا ہے تو بیٹھ کر ہی ادا کرےگا۔عام طور سے جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز کو زندگی بھر کا کفارہ مشہور کر دیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ قضا کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ جہری نمازیں کون ہیں اور اخفائی کون ؟

۲ ۔ باپ کی نماز کس بیٹے پر واجب ہے ؟

۳ ۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۵۵

ستائیسواں سبق

نماز کی غلطیاں

بھول

نماز مین غلطیوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، بھول اور شک۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ انسان حالت نماز میں کسی واجب کے ادا کرنے سے غافل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اگر بھولی بات اگلے رکن میں داخل ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو فوراً پلٹ کر اسے بجا لائے اور اگر رکن میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے جیسے رکوع میں پہونچکر سورہ حمد یا دوسرے سورہ کا بھول جانا یاد آیا تو ایسی حالت میں جس چیز کو بھولا ہے اگر وہ خود رکن نہیں ہے تو نماز کو آگے پڑھا دے اور بعد میں ہر بھولی ہوئی بات کے لئے دو سجدہ سہو کرے اور اگر بھولی ہوئی بات خود رکن تھی تو نماز باطل ہو گئی پھر سے پڑھے۔ اگر پلٹ کر واجب کو ادا کرنے میں کوئی زیادتی ہو گئی ہے تو اس زیادتی کے لئے بھی سجدہ سہو کرےگا۔ مثلا کھڑے ہو جانے کے بعد یاد آئے کہ تشہد نہیں پڑھا ہے تو فوراً بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے اس لئے کہ کھڑا ہو کر پھر بیٹھنا پڑا اور تشہد کے بعد پھر کھڑا ہونا پڑا۔ اس زیادتی کے لئے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

۵۶

سجدہ سہو چھ اسباب سے واجب ہوگا۔

۱ ۔ بھولے سے درمیان نماز میں کلام کر لینا ایسے میں نماز باطل نہ ہوگی بلکہ سجدہ سہو کرےگا۔

۲ ۔ بے محل سلام پڑھ دینا۔

۳ ۔دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت یا حالت قیام میں چوتھی یا پانچویں یا یا پانچویں اور چھٹی رکعت میں شک کرنا۔

۴ ۔ ایک سجدہ کا بھول جانا دونوں کے بھولنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے وہ رکن ہیں۔

۵ ۔ بے محل کھڑا ہو جانا جیسے کہ دوسری رکعت میں بجائے تشہد کے قیام کرنا۔ ایسے میں بیٹھ کر تشہد پڑھےگا۔ اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرےگا۔

۶ ۔ خود تشہد کا فراموش کر دینا اور بعد والی رکعت کے رکوع میں جاکر یاد آنا۔

سجدہ سہو کی ترکیب

نماز کے ختم ہوتے ہی قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر فوراً دل میں نیت کرے کہ دو سجدہ سہو فلاں غلطی کی بنا پر کرتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اور یہ قصد کر کے فوراً سجدہ میں جائے اور یہ ذکر کرے " "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَيهُّا النَّنِیُ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ " پھر سر اٹھا کر دوبارہ سجدہ کرے اور یہی ذکر پڑھے پھر سر اٹھا کر تشہد و سلام پڑھ کر کلام تمام کرے۔

اگر نماز میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گہا تھا تو خاتمہ نماز پر پہلے اس سجدہ یا تشہد کی قضا کرے، اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔

۵۷

شک

نماز میں شک پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ کبھی شک کا تعلق نماز کے

افعال سے ہوتا ہے اور کبھی نماز کی رکعتوں سے۔ افعال میں شک کا مطلبیہ ہے کہ دوران نماز تکبیر کہنے ، حمد یا سورہ پڑھنے ، رکوع یا سجدہ کونے وغیرہ میں شک ہو جائے ، ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر بعد والے عمل میں داخل ہونے کے بعد کسی پہلے والے فعل میں شک ہوا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائےگی بلکہ نماز کو صحیح قرار دیا جائےگا مثلا کسی شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے وقت سورہ حمد کے پڑھنے میں شک ہو گیا تو وہ بجائے پلٹنے کے نماز آگے پڑھتا رہےگا اور انشاء اللہ صحیح رہےگی۔

رکعات میں شک کا مطلب یہ ہے کہ رکعتوں کی صحیح تعداد یاد نہ رہے اس شک کی بظاہر بہت سی صورتیں ہیں لیکن صرف ۹ صورتوں میں نماز صحیح ہو سکتی ہے۔ باقی تمام صورتوں میں باطل ہوگی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی دماغ پر زور دے کہ صحیح بات یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو شریعت کی تفصیل یہ ہے۔

ان قوانین کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد یہ شک ہو کہ یہ سجدہ دوسری رکعت کا تھا یا تیسری رکعت کا۔ ایسی صورت میں تیسری سمجھ کر اسی حساب سے نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اس لئے کہ اگر واقعی دوسری رکعت تھی تو ایک ہی رکعت کی کمی ہوئی ہے۔

۵۸

۲ ۔تیسری اور چوتھی رکعت کے بارے میں کسی حالت میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی قرار دے کر نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

۳ ۔ دوسری سجدہ کے بعد دو اور چار میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی رکعت ورار دے کر نمام تمام کرے اور دو رکعت نماز احتیاط پڑھے۔

۴ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک کرے کہ یہ رکعت دوسری تھی یا تیسری یا چوتھی ۔ ایسے میں چوتھی سمجھے اور پہلے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پرھے پھر دو رکعت بیٹھ کر۔

۵ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ رکعت چوتھی تھی یا پانچویں ۔ ایسے میں نماز وہیں پر تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔

۶ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ چوتھی ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں فوراً بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۷ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیسری ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھا کر نماز ختم کر دے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۸ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیاری ہے یا چوتھی یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور دو رکعت کھڑے ہو کر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۹ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ پانچویں ہے یا چھٹی ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔ نیز بنا پر احتیاط واجب بےجا قیام کے لئے دو سجدہ مزید کرے۔

۵۹

شک کے بارے میں یہ بات ضرور ہیش نظر رہنی چاہے کہ یہ سارے احکام صرف اس نماز کے لئے ہیں جس میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ سہ رکعتی نماز یعنی مغرب اور دو رکعتی نماز یعنی صبح اور حالت سفر کی ظہر و عصر و عشا کا حکم یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی کسی مقدار میں غور کرے اگر کوئی بات یاد آ جائے تو اس پر عمل کرے ورنہ نماز کو اسی جگہ سے توڑ دے اور دوبارہ چروع کرے۔

نماز احتیاط

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اصل نماز کے ختم کرنے کے بعد فوراً ہی بلا فاصلہ نیت کرے کہ نماز احتیاط ایک رکعت یا دو رکعت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اس نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد فقط سورہ حمد اور وہ بھی آہستہ پڑھ کر رکوع اور سجدہ کرے اگر ایک رکعتی ہے تو تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ورنہ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اور سجدوں کے بعد تشہد و سلام ادا کر کے نماز ختم کر دے۔ نماز احتیاط میں الحمد کے علاوہ دوسرا سورہ یا قنوت نہیں پڑھا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر نماز میں کسی واجب کو ادا کرنا بھول جائے تو کیا کرے ؟

۲ ۔ سجدہ سہو کہاں واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ سجدہ سہو اور نماز احتیاط کی ترکیب بتاؤ ؟

۴ ۔ شک کی کتنی صورتوں میں نماز صحیح رہےگی ؟

۵ ۔ نماز احتیاط یا سجدہ سہو چھوڑ کر کیا نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خداوند عالم کے سامنے کیسی ہوگی؟ جنّتی ہوں گے یا جہنّمی؟

حضرت ابوذر نے فرمایا کہ:

اپنے اعمال کو اللہ تعالی کی کتاب کے سامن رکھو اوردیکھو کہ خدائے تعالی قرآن مجید میں کیا فرماتے ہے اور تمہاری کیا حالت ہے_ خدائے تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ نیک اور صالح جنّتی ہوں گے اور فاسق و فاجر جہنّمی''_

ابوذر نے فرمایا:

اللہ تعالی کی رحمت نیک لوگوں سے زیادہ قریب ہے''_

آخرت میں انسان لامحالہ ان دو مقامات میں سے ایک میں قیام کرے گا_ جنّت میں یا جہنّم میں_

جنّت

جنّت نیک اور دیندار اور خداپرست لوگوں کی رہائشے اور مکان ہے، پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کے ہمیشہ رہنے کی چگہ ہے_

بہترین اور خوبصورت ترین مقام ہے جسے مہربان خالق نے اپنے نیک بندوں کے لئے بنایا ہے_ نہایت وسیع اور کشادہ ہے، زمین ماور آسمان کی وسعتوںکے مساوی بلکہ ان سے بھی وسیع و عریض ہے، روشن و پرنور ہے_ غرض انسان اس کی تعریف سے عاجز ہے_

اسے بہشت بھی کہتے ہیں_ قرآن اسے جنت سے تعبیر کرتا ہے

۸۱

''جنّت'' یعنی سر سبز و شاداب درختوں سے بھرا ہوا باغ

جنت کے سر سبز و شاداب درختوں کے نیچے صاف اور شفاف اورٹھنڈے پانی کی نہریں جاری ہوں گی_ ان کی شاخوں پر رنگ برنگ اور مزے دار پھل لٹکے ہوئے ہوں گے اور معطر ہوا کے جھونکوں سے جھوم رہے ہوں گے_

جنّت میں کسی قسم کی برائی اور نقص کا وجود نہ ہوگا_ نیک لوگ وہاں جس چیز کی تمنّا کریں گے ان کے لئے حاضر کردی جائے گی_ جب کسی پھل کی خواہش کریں گے تو مدرختوں کی خوبصورت ٹہنیاں ہواکے چلنے سے حرکت کریں گی اور اس نیک بندے کے نزدیک پہنچ کر پھل اس کے ہاتھوں پر رکھ دیں گی_

جنّت میں مومنین کے لئے نہایت عایشان اور آسائشےوں سے پر، محل بنائے گئے ہوں گے، ان پر عمدہ اور بہترین فرش بچھے ہوئے ہوں گے مومنین بہترین اور خوش رنگ لباس زیب تن کئے ہوئے، آرامدہ مندوں پر پیغمبروں، ائمہ اطہار، شہداء اور دوسرے جنتیوں سے محو گفتگو ہوں گے_

پیغمبر (ص) فرماتے ہیں کہ:

میں نے جنّت میں دیکھا کہ فرشتے جواہرات اور انیٹوں سے ایک خوبصورت محل بنا رہے ہیں_ کبھی تیزی سے اور زیادہ کام کرنے لگتے اور کبھی کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں مسں نے ان سے پوچھا: کیا کام کر رہے ہو؟ کیوں کبھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہ

۸۲

محل ایک مومن کے لئے بنا رہے ہیں_ آپ(ص) نے سوال کیا: پھر بناتے بناتے رک کیوں جاتے ہو_ فرشتوں نے جواب دیا کیونکہ محل بناتے میں استعمال ہونے والا سامان ختم ہوجاتا ہے_ آپ(ص) نے پوچھا: محل بنانے کا سامان کیا ہے؟ فرشتوں نے کہا یہ سامان اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ہے جو ان جواہرات اور سونے کی دانیٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے اس محل کوبنانے کا سامان، اللہ تعالی کا ذکر اور وہ نیک اعمال ہیں جو خود مومن دنیا سے ہمارے لئے روانہ کرتا ہے جب تک مومن کار خیر اور اللہ تعالی کی یاد میں مشغول رہے، ہم تک سامان پہنچتا رہتا ہے اور اگر مومن غافل ہوجائے اور کار خیر انجام نہ دیے تو ہم تک سامان نہیں پہنچتا اور ہم بھی مجبوراً کام ر وک دیتے ہیں_''

جنّت میں نعمتیں ہمارے دنیاوی اعمال سے بنائی جاتی ہیں اور جنّت کی بعض نعمتیں اتنی خوبصورت ہیںکہ کبھی آنکھ نے ان جیسی خوبصورتی کو نہ دیکھا ہوگا ان کے دل پسند اور صاف کوکسی کان نے نہ سنا ہوگا بلکہ ان کا خیال بھی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا_ مختصر یہ کہ جنت کی نعمتیں ہماری فکروں سے بھی زیادہ بلند و بالا ہیں_ اور بہشت کی تعریف و توصیف میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے وہ ہماری ذہنی سطح کے مطابق بیان کیا گیا ہے_ ورنہ بہشت کی عظمت اور اس کی حقیقی خوبصورتی اور زیبائی ناقابل بیان ہے_

۸۳

لیکن خدا نے بیان کے لئے کہ بہشت رہنے کے لئے کتنی عمدہ جگہ ہے اس کی کچھ صفات کو ہماری زبان اور ہماری ذہنی سطح کے مطابق بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ :

متقین کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے_''

(سورہ رعد ۱۳_ آیت ۳۵)

بہشت میں جس چیز کی خواہش کروگے تیار ہوگی اور جو چاہو گے وہ موجود ہوگا_''

(سورہ فصلّت ۴۱_ آیت ۳۵)

''ان مومن مردوں اور عورتوں سے خدا کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہیں گے_ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گا ہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کریہ کہ اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہوگی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے_

(سورہ توبہ ۹ آیت ۷۲)

جنت میں تمام رہنے والے لوگ ایک مرتبے اور ایک درجے کے نہیں ہیں بلکہ اپنے ایمان اور خلوص اور اعمال صالح کی مقدار کے لحاظ سے ان کے مر اتب میں فرق ہوگا بہشت میں موت، غم، بیماری، فکر، مصیبت کا کوئی

۸۴

وجود نہ ہوگا_ بلکہ جنّتی افراد ہمیشہ خداوند عالم کے لطف و عنایات کے زیر سایہ ہوں گے اور ہمیشہ خدا کی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور سب سے زیادہ یہ کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوگا اور وہ بھی اللہ اور اس کے الطاف اور عنایات سے راضی ہوں گے_

دوزخ

دوزخ ظالموں اور بدکاروں کاٹھکا نہ ہے اور مشرکوں اور منافقوں کی قیام گاہ ہے_

دوزخی نہایت سخت اور بہت دردناک زندگی سے دوچار ہوں گے ان کے برے اعمال اور اور کفر و نفاق، عذاب اور سخت سزا کی صورت میں تبدیل ہوکر ان کے لئے ظاہر ہوں گے اور انھیں درد و رنج پہنچاتے رہیں گے_ آگ کا لباس ان کے جسم پر اور گلے میں طوق، ہاتھ اور پاؤں میں زنجیر پہنائی جائے گی_ آتش دوزخ کے شعلے ان کے جسم سے اٹھ رہے ہوں گے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو جلا رہے ہوں گے_ ساتھ ہی ساتھ ان کے باطن میں قلب و روح میں بھی نفوذ کر رہے ہوں گے_

جہنّمیوں کا کھانا اور پینا، گندا، بدبودار، غلیظ اور جلادینے والا ہوگا جو پیپ سے بدتر ہوگا_ جس کی بدبو مردار سے زیادہ ہوگی_

جہنّم کا عذاب جو کفر و نفاق ظلم و ستم اور برے اعمال کا نتیجہ ہے اتنا سخت اور دردناک ہے کہ جس کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے_ اس دردناک

۸۵

عذاب کی جھلک خداوند عالم اس بیان کی صورت میں ہمیں یوں دکھاتا ہے کہ :

ہم نے ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انھیں گھیرے میں لئے ہوئے ہوں گی وہاں گر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا بدترین پینے کی چیز اور بدترین رہائشے گاہ _''

(سورہ کہف ۱۸ آیت ۲۹)

جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا انھیں یقینا ہم آگ میں ڈالیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تا کہ وہ خوب عذلاب کا مزا چکھیں_ یقینا اللہ بڑا قادر اور حکیم ہے_''

(سورہ نساء ۴_ آیت ۵۵)

''دردناک سزا کی خبر دو انھیں جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی سے جہنّم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا_ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، لواب اپنی اس دولت

۸۶

کا مزا چکھو جسے تم نے ذخیرہ کیا تھا_''

(سورہ توبہ ۹ آیت ۳۵)

یقینا آپ کا دل بھی چاہتا ہوگا کہ معلوم کریں کہ روز قیامت ہمارا انجام کیا ہوگا؟ آخرت میں ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا؟ جنّت یا جہنّم؟

اگر ہم غور سے پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول کا جائزہ لیں تو شاید اندازہ ہوجائے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے:

بہشت مصائب اور آلام میں پوشیدہ ہے جو شخص دنیا کی مشکلات اور رنج و الم کو برداشت کرے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا_ اور جہنّم لذّت و شہوت اور ہوس رانی میں پوشیدہ ہے، جو شخص شہوت اورہوس رانی میں مبتلا ہوگا وہ جہنّم میں جائے گا_

آیت قرآن

( مثل الجنّة الّتی وعد المتّقون تجری من تحتها الانهر اکلها دائم و ظلّها تلک عقبی الّذین اتّقوی و عقبی الکفرین النّار )

۸۷

ساسالہ استعمال کرتے ہیں؟ اور کیوں فرشتے کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؟

۷) ___دوزخ کن کاٹھکا نہ ہے اور جہنم کا عذاب کس چیز کانتیجہ ہوا ہے؟

۸) ___قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جہنّم کے عذاب کی کوئی مثال بیان کیجئے؟

۸۸

متقیوں کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں_

اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے_ یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا_ لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے_''

(سورہ رعد ۱۳ آیت ۳۵)

سوچیے اور جواب دیجیے

۱)___ حضرت ابوذر- نے اپنے کلام میں نیک لوگوں کوکن لوگوں سے تشبیہ دی ہے اور گناہ گاروں اور برے لوگوں کوکن سے؟

۲)___ حضرت ابوذر کے قول کی روشنی میںبتا یئےہ اللہ تعالی کے نزدیک ہماری حالت کیا ہوگی؟

۳) ___اللہ تعالی کی رحمت کہاں گئی؟ جناب ابوذر نے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا،اوراس جواب سے کیا مقصد تھا؟

۴) ___اس سبق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہشت کی تعریف کیجئے؟

۵) ___بہشت کی نعمتوں میں سے کون سی چیز سب سے برتر اور بالاتر ہے؟

۶) ___جنّت میں مومنین کا مکان بنانے کے لئے ملائکہ کون

۸۹

قیامت کا خوف

خدا کے شائستہ بندوں کی ایک صفت

خدا کے شائستہ بندوں کے متعلق حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ:

خداوند عالم نے اپنی یاد کو دلوں کے منور ہونے کا سبب قرار دیا ہے یاد خدا دلوں کوسماعت بخشتی ہے، خدا کی یاد تاریک و مردہ اور افسردہ دلوں کوروشن، بینا اور زندہ کرتی ہے، خدا کی یاد سرکش اور گنہکار دلوں کو خدا کی بندگی اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجانے کا سبق دیتی ہے_

ہر دور میں خدا کے ایسے منتخب بندے ہوتے ہیں جو خدا کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور اس سے مناجات کرتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے اس سے راز و نیاز کرتے ہیں_

خدا کی یاد سے ان کی دلوں میں بیداری اور آگاہی کا نور چمکتا ہے_ ان کی آنکھ، کان اوردل اس سے منور ہوجاتے ہیں_

۹۰

خدا کے یہ منتخب بندے لوگوں کو ''ایام اللہ'' کی یاد دلاتے ہیں اور اس کے ارفع و اعلی مقام سے ڈراتے ہیں_ یہ باخبر رہنما بھولے بھنکے ہوؤں کو ہدایت دیتے اور رہنمائی کرتے ہیں_ جو بھی میانہ روی اور صحیح راستہ اختیار کرے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے نجات کی خوش خبری دیتے ہیں_ جوکجروی اختیار کرے اس کی مذمّت کرتے ہیں اور ہلاکت و تباہی سے ڈراتے ہیں_

یہ لائق احترام اور یاد خدا میں مشغول رہنے والے بندے اندھیروں کا اجالا اور گم کردہ راہوں کے رہنما ہوتے ہیں_

جی ہاں اس قسم کے شائستہ لوگوں نے دنیا کی محبت کی جگہ اللہ کی یاد کو اپنے دل میں جگہ دی ہے_ دنیاوی کام کاج اورتجارت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتے_

وہ اس عمدہ سامان سفر سے اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں اور راہ طے کرتے وقت غفلت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو بیدار کرتے اور انہیں گناہوں سے روکتے ہیں_ لوگوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی عدل و انصاف کے مطابق سلوک کرتے ہیں_ لوگوں کو برے کاموں اورمنکرات سے منع کرتے ہیں اور خود بھی برے کاموں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے_

گویا وہ راہ دنیا طے کر کے آخرت تک پہنچ چکے ہیںاوروہاں سکونت اختیار کر کے ماوراء دنیا کا مشاہدہ کر رہے ہیں_ قیامت کے وعدے انکے لئے ثابت ہوچکے،وہ لوگوں کے لئے ان حقائق پر سے پردہ ہٹاتے ہیں اورقیامت وبرزخ کے حالات کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں_

۹۱

اس طرح کہ جیسے اس عالم کی جن چیزوں کا مشاہدہ وہ کر رہے ہیں لوگوں کی نگاہیں انھیں نہیں دیکھ پاتیں اور جن صداؤں کویہ سنتے ہیں لوگ نہیں سن پاتے_

اے کاش

تم اپنے ذہن میں ان کے بلند مرتبہ اورروحانیت کو دیکھ پکاتے اور ان کے مقام محمود کا مشاہدہ کر تے_ گویا انہوں نے اپنے اعمال ناموں کو اپنے سامنے کھول رکھا ہے_ اوراپنے نفس کے (محاسبہ میں) اورچھوٹی بڑی کوتاہیوں اور خطاؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں_

خدا کے عذاب کے خوف سے آہ و فغان اور گریہ و زاری کر رہے ہیں_ اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے ہوئے ندامت اورپشیمانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنے رب سے عفو و بخشش کے طلبگار ہیں_

اگر ان منتخب بندگان خدا کو غور سے دیکھا جائے تو یہ ہدایت کے پرچم اور روشنی پھیلانے والے چراغ نظر آئیں گے کہ جن کے ارد گرد اللہ کی رحمت کے فرشتوں نے احاط کر رکھا ہے، آسمان کے دروازے ان پرکھلے ہوئے ہیں اورفرشتے آرام واطمینان سے ان پر نازل ہوتے ہیں_

ان کے لئے امن و کرامت کے مقامات تیار کئے گئے ہیں_ اس امن کے مقام ہیںکہ جہاں خدا ان سے آگاہ، ان کی سعی وکوشش سے راضی اور ان کی راہ و رسم سے خوش ہے_

یہ بندے اپنی مناجات کے ذریعہ نسیم رحمت اورپروردگار عالم کی بخشش کو جوش میں لاتے ہیں_ ان کے دل اللہ تعالی کے فضل و کرم کے

۹۲

گرویدہ اور اللہ کی عظمت و بزرگی کے سامنے خاضع اور خاکسار ہوتے ہیں_

آخرت کے عذاب کے خوف سے ان کے دل زخمی اور شکستہ ہیں اور خوف خدا کے سبب کیے جانے والے طویل گریہ سے ان کی آنکھیں آزردہ اور خستہ ہوچکی ہیں

(نہج البلاغہ سے ایک اقتباس)

امیرالمومنین علیہ السلام کہ جو خود خدا کے شائستہ بندوں میں سے ہیں خدا کے صالح اور شائستہ بندوں کے اس طرح قیامت سے خوفزدہ ہونے کی صفت کا تذکرتے ہیں_ کتنا اچھا ہو کہ حضرت علی (ع) کے قول کے ساتھ ساتھ ان کے عمل میں بھی خدا کے شائستہ بندوں کی نشانیوں کو دیکھیں_

امام(ع) کے دو نہایت نزدیکی اصحاب سے امام(ع) کی مناجات کی کیفیت ان کی آہ و زاری، پر سوز نالوں اور قیامت کے خوف کے متعلق سنیں_

حبّہ عرفی اور نوف بکالی کہتے ہیں:

ایک دن ہم دارالامارة کے صحن میں سوئے ہوئے تھے کہ آدھی رات کو ایک دردناک آواز نے ہمیں بیدار کردیا_ یہ ہمارے مولا امیرالمومنین (ع) کی آواز تھی_ آپ نے ایک دیوار سے نیک لگائی تھی_ پھر آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چلنے لگے_ ستاروں سے پر آسمان کودیکھتے اور تھوڑی دیر ٹھہرجاتے اور اچانک رونے کی آواز بلند کرتے اور آنسو بہاتے اور پر درد ودلگدار لہجے میں ان آیات کی تلاوت فرماتے تھے:

یقینا زمین و آسمان کی خلقت اور دن و رات کی منظم گردش میں عقلمندوں کے لئے واضح نشانیاں موجود ہیں، وہ عقلمند کہ جو خدا کو ہر حال میں یاد کرتے ہیں چاہے بیٹھے

۹۳

چاہے کھڑے اور چاہے پہلو پر بستہ ہیں لیٹے ہوئے ہوں زمین و آسمان کی خلقت پر غور و خوض کرتے ہیں_

اے پروردگار تو نے اس عظیم کارخانہ کو بے کار و بے مقصد خلق نہیں کیا ہے تو عیب سے پاک ہے بس تو ہم کو آگ کے عذاب سے بچا

پروردگار یقینا جس کو تونے آگ میں داخل کردیا ضرور اسے رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں اے ہمارے رب ہم نے سنا ہے کہ ایک منادی ندا کرتا تھا ایمان کے لئے کہ ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لے آئے_ اے ہمارے رب پس بخش دے ہمارے گناہوں کو اور دور کردے

ہم سے ہماری بدیوں کو اور ہمیں نیکیوں کے ساتھ موت دے_

اسے پروردگار جو کچھ تونے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ہم سے وعدہ کیا ہے ہمیں عطا کر اور ہم کو روز قیامت رسوا نہ کرنا_ یقینا تووعدہ خلافی نہیں کرتا_''

(سورہ آل عمران ۳_ آیت ۱۹ تا ۱۹۴)

امیرالمومنین علیہ السلام بار بار ان آیات کی تلاوت کر رہے ہے تھے اشک بہاتے تھے اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر مناجات اورراز و نیاز کرتے تھے حبّہ کہتا ہے:

۹۴

میں حیرت زدہ اپنے مولا کی حالت کو دیکھ رہا تھا کہ آپ(ع) میرے بستر کے نزدیک آئے اور فرمایا:

''حبّہ سوئے ہوئے ہو یا جاگ رہے ہو؟''

میں نے عرض کی :

مولا،اے امیرالمومنین علیہ السلام جاگ رہا ہوں جب آپ(ع) ، خدا کے خوف سے اس قدر لرزاں اور نالہ کناں ہیں تو افسوس ہم بے چاروں کی حالت پر:

امیرالمومنین علیہ السلام کچھ دیر سرجھکا کر روتے رہے پھر فرمایا:

اے حبّہ ایک دن سب خدا کے سامنے اپنا حساب دینے کے لئے کھڑے کئے جائیں گے_ خدا اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے_ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور کوئی چیز ہمارے اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی اس کے بعد نوف کے بستر کے پاس گئے اور فرمایا:

اے نوف سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو؟

نوف جو کہ امیرالمومنین (ع) کی حالت کو دیکھ کر رو رہے تھے بولے:

''یا علی (ع) جاگ رہا ہوں اور آپ کی اس روحانی حالت کو دیکھ کر گریہ کر رہا ہوں_''

امیرالمومنین (ع) نے فرمایا:

اے نوف اگر آج خوف خدا سے اشک بہاؤ گے تو قیامت میں تمہاری آنکھیں روشن ہوں گی _ تمہاری آنکھوں سے گرا ہوا آنسو کا ہر قطرہ آتش جہنّم کو

۹۵

بجھادے گا_ جو انسان اللہ کے خوف سے ڈرے، گریہ کرے اور اس کی دوستی خدا کے لئے ہو تو بہشت میں اس کا درجہ سب سے بلند و بالا ہوگا_

اے نوف جو شخص خدا کو دوست رکھتا ہو اور جسے بھی دوست رکھتا ہو خدا کے لئے ہو، کبھی بھی خدا کی دوستی پر کسی اور کی دوستی کو ترجیح نہیں دے گا جو شخص جس سے بھی دشمنی رکھتا ہو خدا کیلئے ہو اس دشمنی سے خیر و خوبی کے علاوہ کچھ اور نہ پہنچے گا_

اے نوف جس وقت تم اپنی دوستی اور دشمنی میں اس درجہ پر پہنچو کمال ایمان پر پہنچو گے_ خدا سے ڈورکہ میں تمہیں نصیحت کر رہا ہوں'' یہ کہہ کہ امام (ع) ہم سے دور چلے گئے_ اور خدا سے مناجات شروع کردی اشک بہاتے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ اس دعا کی تلاوت کرتے تھے_

پروردگار اے کاش مجھے علم ہوتاکہ جس وقت میں تجھ سے غافل ہوں تو مجھ سے ناراض ہوتا ہے اور منھ پھیر لیتا ہے یا پھر بھی مجھ پہ لطف و کرم رکھتا ہے؟ اے کاش مجھے علم ہوتا کہ میری طویل نیند، سستی و کوتاہی کے سبب میری حالت تیرے نزدیک کیسی ہے

اس رات امیرالمومنین (ع) تمام رات جاگتے رہے اور اپنے خالق سے ر از و نیاز کرتے رہے_ بے قراری کے عالم میں چہل قدمی کرتے تھے_

امیرالمومنین (ع) یوں ہی راتوں کو بیدار رہتے، مناجات کرتے اور خوئف خدا اور قیامت کے حساب و کتاب کا ذکر کر کے رویا کرتے تھے_

۹۶

آیت قرآن

''( ربّنا ما خلقت هذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النّار ) ''

پروردگار تو نے اس جہان اور زمین و آسمان کو باطل پیدا نہیں کیا ہے تیری ذات پاک و پاکیزہ ہے پس ہمیں جہنّم کی آگ سے محفوظ رکھ_''

(سورہ آل عمران ۳ آیت ۱۹۱)

سوچیے اور جواب دیجیے

۱) ___امیرالمومنین (ع) نے اپنے اس خطبہ میں اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی بہت سی صافت بیان کی ہیں_ آپ ان میں سے دو صفات کو بیان کریں؟

۲) ___یہ صالح بندے کس راہ کی تعریف اور کس کی مذمت کرتے ہیں؟

۳)___ ان کا ڈر اور خوف کس چیز سے ہے؟ ان کا طویل گریہ کس خوف کے نتیجہ میں ہے؟

۴) ___امیرالمومنین (ع) نے جن آیات کی تلاوت کی ان کا ترجمہ کیجئے؟

۵)___ ان آیات میں کن باتوں کا تذکرہ ہے کہ جس کے سبب

۹۷

امیرالمومنین (ع) کی یہ حالت ہوگئی تھی؟

۶) ___جب امیرالمومنین (ع) نے حبّہ سے دریافت کیا کہ سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو تو حبّہ نے آپ (ع) کو کیا جواب دیا؟

آپ (ع) نے قیامت کے دن کے بارے میں حبّہ سے کیا فرمایا؟

۷)___امیرالمومنین (ع) نے نوف سے قیامت کی یاد اور خوف خدا سے رونے کے متعلق کیا فرمایا؟

۸)___ امیرالمومنین (ع) نے ایمان کامل رکھنے والے انسان کی کیا تعریف کی؟ کامل ایمان ہونے کے لئے کیا علامتیں بیان کیں؟

۹۸

باب سوم

نبوت کے بارے میں

۹۹

تمام پیغمبروں کا ایک راستہ ایک مقصد

شاید آپ نے بہار کے موسم میں بادام کے خوش رنگ شگوفے کودیکھا ہوگا کیا آپ نے دیکھا ہے؟

آیا کبھی سوچا ہے کہ

بادام کا جو بیج رمین میں بویا جاتا ہے یہ بیج، پھول کی خوبصورت شکل؟، اختیار کرنے تک کس قدر طویل، پر پیچ اور کٹھن راستہ کرتا ہے_

کتنی سعی و کوشش کر کے یہ راستہ طے کرتا ہے تا کہ نشو و نما پاسکے اور اس خوبصورت لباس سے اپنے آپ کو راستہ کرے

آیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس طویل راستہ کو طے کرنے میں اسکی راہنمائی کون کرتا ہے_

ہم نے توحید کی بحث میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254