‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) 23%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 254

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 254 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74874 / ڈاؤنلوڈ: 3875
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدچہارم) جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

بات ناگوار ہی کیوں نہ ہو _ مہدی ایک زمانہ تک غیبت میں رہیں گے _ غیبت کے زمانہ میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن کچھ لوگ ثابت قدم رہیں گے اور اس راہ میں مصیبتیں اٹھائیں گے سرزنش کے طور پر ان سے کہا جائے گا ، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو تمہارا امام موعود کب انقلاب برپا کرے گا؟ لیکن جان لو کہ جوان کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کے طعن و تشنیع کو برداشت کرے گا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس نے رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جنگ کی(۱) اس سلسلے میں آپ کی تیرہ حدیثیں اورہیں _

امام زین العابدین (ع) نے مہدی (عج) کی خبردی

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ہمارے قائم کی ولادت آشکار نہیں ہوگی یہاں تک وہ یہ کہنے لگیں گے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ ان کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی تحریک کا آغاز کریں اس وقت کسی کی بیعت میں نہ ہوں(۲) دس حدیثیں اورہیں _

حضرت امام باقر (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام محمد باقر (ع) نے ابان بن تغلب سے فرمایا: خدا کی قسم امامت وہ عہدہ ہے جو رسول خدا سے ہمیں ملا ہے _ پیغمبر کے بارہ امام ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۳۳ ، ص ۳۹۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۶۱

کے اولاد سے ہوں گے _ مہدی بھی ہم ہی میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں دین کی حفاظت کرے گا(۱) ۶۲ حدیثیں اور ہیں _

امام صادق (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام صادق (ع) نے فرمایا : جو شخص وجود مہدی کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہ تمام انبیاء کا معتقد ہے لیکن رسول (ص) خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے _ عرض کیا گیا : فرزند رسول (ع) مہدی کس کی اولاد سے ہوں گے ؟ فرمایا : ساتویں امام موسی بن جعفر کی پانچویں پشت میں ہوں گے ، لیکن غائب ہوجائیں گے اور تمہارے لئے ان کا نام لینا جائز نہیں ہے _۲_ ۱۲۳ حدیثیں اور ہیں _

امام موسی کاظم (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام موسی کاظم (ع) سے یونس بن عبدالرحمن نے سوال کیا : کیا آپ مہدی بر حق ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: میں قائم برحق ہوں لیکن جو قائم زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کرے گا اور اس عدل و انصاف سے بھرے گا وہ میری پانچویں پشت میں ہے _ وہ دشمنوں کے خوف سے مدت دراز تک غیبت میں رہے گا _ زمانہ غیبت میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن ایک جماعت اپنے عقیدہ پر ثابت و قائم رہے _ اس کے بعد فرمایا : خوش نصیب

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص۵۵۹_

۲_ بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۴۳ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۰۴_

۶۲

ہیں وہ شیعہ جو امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت سے وابستہ اور ہمار ی محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری میں ثابت قدم رہیں گے وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں وہ ہماری امامت سے راضی اور ہم ا ن کے شیعہ ہونے سے راضی ہیں یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، خدا کی قسم وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(۱) پانچ حدیثیں اورہیں _

امام رضا(ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت اما م رضا (ع) سے ریان بن صلت نے دریافت کیا تھا : کیا آپ (ع) ہی صاحب الامر ہیں ؟ فرمایا : میں صاحب الامر ہوں لیکن میں وہ صاحب الامر نہیں ہوں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _ میری اس ناتوانی کے باوجود جسے تم مشاہدہ کررہے ہو کیسے ممکن ہے کہ میں وہی صاحب الامر ہوں ؟ قائم وہ ہے جو بڑھاپے کی منزل میں ہے لیکن جوان کی صورت میں ظاہر ہوگا وہ اتنا طاقتور اور قوی ہے کہ اگر روئے زمین کے بڑے سے بڑے درخت کو ہاتھ لگا دے تو اکھڑجائے _ اور اگر پہاڑوں کے درمیان نعرہ بلند کرے تو بڑے بڑے پتھر چورچور ہوکر بکھر جائیں ، اس کے پاس موسی کا عصا اورجناب سلیمان کی انگوٹھی ہے ، وہ میری چوتھی پشت میں ہے ،جب تک خدا چاہے گا اسے غیبت میں رکھے گا _ اس کے بعد ظہور کا حکم دے گا اور اس کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی(۲) ۱۸ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۵۱ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۲۲ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۹_

۶۳

امام محمد تقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام محمد تقی (ع) نے عبدالعظیم حسنی سے فرمایا : قائم ہی مہدی موعود ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار اور ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور وہ میری تیسری پشت میں ہے _ قسم اس خدا کی جس نے محمد (ص) کو رسالت او رہمیں امامت سے سرفراز کیا ہے _ اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ جس میں مہدی ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گاجیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوگی _ خداوند عالم ایک رات میں ان کی کامیابی کے اسباب فراہم کریگا جیسا کہ اپنے کلیم موسی کی کامیابی کے اسباب ایک ہی رات میں فراہم کئے تھے_ موسی (ع) بیوی کے لئے آگ لینے گئے تھے لیکن منصب رسالت لیکر پلٹے _ اس کے بعد امام نے فرمایا: فرج کا انتظار ہمارے شیعوں کا بہترین عمل ہے(۱) پانچ حدیثیں اور ہیں _

امام علی نقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام علی نقی نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا حسن (ع) امام ہے اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ روئے زمین پر عدل و انصاف پھیلائیں گے(۲) پانچ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۶ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰ اثبات الہداة ج۶ ص ۴۲۷_

۶۴

اما م حسن عسکری (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام حسن عسکری نے موسی بن جعفر بغدادی سے فرمایا: گویا میںدیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کررہے ہو لیکن یادرہے جو شخص پیغمبر کے بعد تمام ائمہ پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے اور صرف میرے بیٹے کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تمام انبیاء پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے لیکن محمد (ص) کی رسالت کا منکرہے کیونکہ ہم سے آخری امام کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اولی کی _ پس جو شخص ہمارے آخری امام کا انکار کریگا گویا اس نے پہلے کا بھی انکار کردیا _ جان لو میرے بیٹے کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ شک میں پڑجائیں گے مگر یہ کہ خدا ان کے ایمان کو محفوظ رکھے(۱) ۲۱ حدیثیں اورہیں _

کیا احادیث مہدی صحیح ہیں؟

انجینئر : ہم ان حدیثوں کو اسی وقت قبول کرسکتے ہیں جب وہ صحیح اور معتبر ہوں کیا مہدی کے متعلق یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں؟

ہوشیار: میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ مہدی سے متعلق تمام حدیثیں صحیح اور ان کے تمام راوی ثقہ و عادل ہیں _ لیکن اچھی خاصی تعداد صحیح احادیث کی ہے _ البتہ تمام احادیث کی طرح ان میں بھی بعض صحیح ، کچھ حسن ، موثق اور چند ضعیف ہیں _ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق اور ان کے راویوں کے حالات کی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۶۵

ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو بھی غیر جانب دارانہ اور انصاف کیساتھ ان سے رجوع کرے گا اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ ان سب کی دلالت اس بات پر ہے کہ وجود مہدی اسلام کے ان مسلّم عقائد و موضوعات میں سے ہے کہ جن کا بیج خودسرور کائنات نے بویا اور ائمہ نے اس کی آبیاری کی ہے _ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وجود مہدی کے بارے میں اسلام میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور موضوع کے لئے وارد نہیں ہوئی ہوں گی _

واضح رہے کہ ابتدائے بعثت سے حجة الوداع تک پیغمبر اکرم (ص) نے سیکڑوں بارمہدی کے بارے میں گفتگو کی ہے _ علی بن ابی طالب نے ان کی خبر دی ، فاطمہ زہراء نے خبر دی ہے اور رسول کے اہل بیت اور نبوت کے رازداروں نے امام حسن (ع) ، اما م حسین (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق (ع) ، امام موسی کاظم (ع) ، امام رضا (ع) ، امام محمد تقی (ع) ، امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے ان کی خبر دی ہے _ عہد رسول (ص) کے لوگ ان کے انتظار میں دن گنتے تھے یہاں تک کہ کبھی تو بعض لوگ کسی کو اس کا حقیقی سمجھ بیٹھے تھے_ ان سے متعلق شیعہ اور اہل سنت نے احادیث نقل کی ہیں ۷اشعری اور معتزلیہ نے قلم بند کی ہیں _ ان کے راویوں میں عرب ، عجم ، مکی ،مدنی ، کوفی ، بغدادی ، بصری، قمی، کرخی ، خراسانی نیشاپوری و غیرہ شامل ہیں _ کیا ان ہزاروں سے زائد احادیث کے باوجود کوئی منصف مزاج وجود مہدی کے بارے میں شک کرے گا اور یہ کہے گا کہ یہ احادیث متعصب شیعوں نے جعل کرکے پیغمبر کی طرف منسوب کردی ہیں؟

رات کافی گز رچکی تھی اورمذاکرات کا وقت ختم ہوچکا تھا لہذا مزید گفتگو کو آئندہ ہفتہ کی شب میں ہونے والے جلسہ پر موقوف کردیا _

۶۶

تصوّر مہدی"

احباب یکے بعد دیگرے فہیمی صاحب کے مکان پر جمع ہوئے جب سابق مختصرضیافت کے بعد ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _ انجینئر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا :

انجینئر: مجھے یاد آتا ہے کہ کسی نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرہ میں مہدویت اور غیبی مصلح کا تصوّر یہود اور قدیم ایرانیوں سے سرایت کرآیا ہے _ ایرانیوں کا خیال تھا کہ زردتشت کی نسل سے '' سالوشیانت'' نام کا ایک شخص ظاہر ہوگا جو اہریمن کو قتل کرکے پوری دنیا کو برائیوں سے پاک کرے گا _ لیکن چونکہ یہودیوں کا ملک دوسروں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی آزادی سلب ہوگئی تھی ، زنجیروں میں جکڑگئے تھے ، لہذا ان کے علماء میں سے ایک نے یہ خوش خبری دی کہ مستقبل میں دنیا میں ایک بادشاہ ہوگا وہی زردشتیوں کو آزادی دلائے گا _

چونکہ مہدویت کی اصل یہود و زردشتیوں میں ملتی ہے _ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ان سے مسلمانوں میں آیا ہے ورنہ اس کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے _

ہوشیار : یہ بات صحیح ہے کہ دوسری اقوام و ملل میں بھی یہ عقیدہ تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عقیدہ خرافات میں سے ہے

۶۷

کیا یہ ضروری ہے کہ اسلام کے تمام احکام و عقائد اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں جب وہ گزشتہ احکام وعقائد کے خلاف ہوں ؟ جو شخص اسلام کے موضوعات میں سے کسی موضوع کی تحقیق کرناچاہتا ہے تو اسے اس موضوع کے اصلی مدارک و ماخذ سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ اس موضوع کا سقم و صحت واضح ہوجائے _ اصلی مدارک کی تحقیق اورگزشتہ لوگوں کے احکام و عقائدکی چھان بین کے بغیر یہ شور بر پا نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے اس باطل عقیدہ کی اصلی کا سراغ لگالیا ہے _

کیا یہ کہا جا سکتا ہے چونکہ زمانہ قدیم کے ایرانی یزدان کا عقیدہ رکھتے تھے اور حقیقت کو دوست رکھتے تھے _ لہذا خدا پرستی بھی ایک افسانہ ہے اور حقیقت و صداقت کبھی مستحسن نہیں ہے ؟

لہذا صرف یہ کہکر کہ دوسرے مذاہب و ملل بھی مصلح غیبی اور نجات دینے والے کے منتظر تھے _ مہدویت کے عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اتنی بات سے اس کی صحت ثابت کی جا سکتی ہے _

رجحان مہدویت کی پیدائشے کے اسباب

فہیمی : ایک صاحب قلم نے عقیدہ مہدویت کے وجود میں آنے کی بہترین توجیہ کی ہے ، اگر اجازت ہو تو میں اس کا لب لباب بیان کروں؟

حاضرین : بسم اللہ :

فہیمی : عقیدہ مہدویت شیعوں نے دوسرے مذاہب سے لیا اور اس میں کچھ چیزوں کااضافہ کردیا ہے چنانچہ آج مخصوص شکل میں آپ کے سامنے ہے _ اس عقیدہ کی ترقی

۶۸

اور وسعت کے دو اسباب ہیں:

الف: غیبی نجات دینے والے کا ظہور اوراس کا پیدائشے کا عقیدہ یہودیوں میں مشہور تھا اور ہے _ ان کا خیال تھا کہ جناب الیاس آسمان پرچلے گئے ہیں اور آخری زمانہ میں بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے زمین پر لوٹ آئیں گے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ملک صیدق'' اور فنحاس بن العاذار'' آج تک زندہ ہے _

صدر اسلام میں ''مادی فوائد کے حصول'' اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا بنانے کی غرض سے یہودیوں کی ایک جماعت نے اسلام کا لباس پہن لیاتھا اور اپنے مخصوص حیلہ و فریب سے مسلمانوں کے درمیان حیثیت پیدا کرلی تھی اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، اپنے عقائد کی اشاعت اور استحصال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ان ہی میں سے ایک عبداللہ ابن سبا ہے جس کو ان کی نمایان فرد تصور کرنا چاہئے _

ب: رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) کے اہل بیت (ع) وقر ابتدار منجملہ علی بن ابیطالب خود کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے _ چند اصحاب بھی ان کے ہم خیال تھے _ لیکن ان کی توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی ، جس سے انھیں بہت رنج وصدمہ پہنچا _ یہاں تک کہ جب حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوئے اوریہ سمجھنے لگے کہ اب خلافت اس خاندان سے باہر نہ جائے گی _ لیکن علی (ع) داخلی جنگوں کی وجہ سے اسے کوئی ترقی نہ دے سکے نتیجہ میں ابن ملجم نے شہید کردیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھی کامیاب نہ ہوسکے ، آخر کار خلافت بنی امیہ کے سپردکردی _ رسول (ص) خدا کے دو فرزند حسن و حسین خانہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے اور اسلام کی حکومت و اقتدا ر دوسروں کے ہاتھ میں تھا رسول(ص) کے اہل بیت اور ان کے ہمنوا

۶۹

فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار تے اور مال غنیمت ، مسلمانوں کا بیت المال بنی امیہ اور بنی عباس کی ہوس رانی پر خرچ ہوتا تھا _ ان تمام چیزوں کی وجہ سے روز بروز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ و کنار سے اعتراضات اٹھائے جانے لگے دوسری طرف عہد داروں نے دل جوئی اور مصالحت کی جگہ سختی سے کام لیا اور انھیں دار پر چڑھایا ، کسی کو جلا وطن کیا اور باقی قید خانوں میں ڈالدیا _

مختصر یہ کہ رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اور ان کے طرفداروں کو بڑی مصیبتیں اٹھنا پریں ، فاطمہ زہرا کو باپ کی میراث سے محروم کردیا گیا _ علی (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن بن علی (ع) کو زہر کے ذریعہ شہید کردیا گیا _ حسین بن علی (ع) کو اولاد و اصحاب سمیت کربلا میں شہید کردیا گیا اور ان کے ناموس کو قیدی بنالیا گیا ، مسلم بن عقیل اور ہانی کو امان کے بعد قتل کرڈالا ، ابوذر کو ربذہ میں جلا وطن کردیا گیا اور حجر بن عدی ، عمروبن حمق ، میثم تمار، سعید بن جبیر ،کمیل بن زیاد اور ایسے ہی سیکڑوں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا _ یزید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا ایسے ہی اور بہت سے ننگین واقعات کے وجود میں آئے کہ جن سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں _ ایسے تلخ زمانہ کو بھی شیعیان اہل بیت نے استقامت کے ساتھ گزارا اور مہدی کے منتظر رہے _ کبھی غاصبوں سے حق لینے اور ان سے مبارزہ کیلئے علویوں میں سے کسی نے قیام کیا _ لیکن کامیابی نہ مل سکی اور قتل کردیا گیا _ ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنی کامیابی کا انھیں کوئی راستہ نظر نہ آیا ، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے _ ظاہر ہے کہ مذکورہ حالات و حوادث نے ایک غیبی نجات دینے والے اور مہدویت کے عقیدہ کو قبول کرنے کیلئے مکمل طور پر زمین ہموار کردی تھی _

۷۰

اس موقع سے نو مسلم یہودیوں اور ابن الوقت قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقیدہ کی ترویج کی یعنی غیبی نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے _ ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درددل کی تسکین اور ظاہری شکست کی تلافی کے لئے مناسب سمجھا اور دل و جان سے قبول کرلیا لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے : وہ عالمی مصلح یقینا اہل بیت سے ہوگا _ رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس عقیدہ نے موجودہ صورت اختیا رکرلی _(۱)

توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے

ہوشیار: اہل بیت (ع) اور ان شیعوں سے متعلق آپ نے جو مشکلیں اور مصیبتیں بیان کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں لیکن تحلیل و توضیح کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب ہمیں مہدویت کے اصلی سرچشمہ کا علم نہ ہوتا _ لیکن جیسا کہ آپ کو یا دہے _ ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اس عقیدہ کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کی پیدائشے کی بشارت دی ہے چنانچہ اس سلسلے میں آپ (ص) کی احادیث کو شیعوں ہی نے نہیں ، بلکہ اہل سنّت نے بھی اپنی صحاح میںدرج کیا ہے _ اس مطلب کے اثبات کے لئے کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے _

اپنی تقریر کی ابتداء میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ عقیدہ یہودیوں کے درمیان مشہور تھا _ یہ بھی صحیح ہے لیکن آ پ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس عقیدہ کو ابن سبا جیسے

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام ص ۴۸_۶۸

۷۱

یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہے کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ عالمی مصلح کی پیدائشے کی بشارت دینے والے خود نبی اکرم (ص) ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہو _

عبداللہ بن سبا

اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن سبا تاریخ کے مسلّمات میں سے نہیں ہے _ بعض علماء نے اس کے وجود کو شیعوں کے دشمنوں کی ایجاد قراردیا ہے اور اگر واقعی ایسا کوئی شخص تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جن کو اسکی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نو مسلم یہودی نے ایسی غیر معمولی صلاحیت و سیاست پیدا کرلی تھی کہ وہ اس گھٹن کے زمانہ میں بھی کہ جب کوئی فضائل اہل بیت کے سلسلے میں ایک بات بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا اس وقت ابن سبا نے ایسے بنیادی اقدامات کئی اور مستقل تبلیغات اور وسائل کی فراہمی سے لوگوں کو اہل بیت کی طرف دعوت دی اور خلیفہ کے خلاف شورش کرنے اور ایسا ہنگامہ برپاکرنے پر آمادہ کیا کہ لوگ خلیفہ کو قتل کردیں اور خلیفہ کے کارندوں اور جاسوسوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو _ آپ کے کہنے کے مطابق ایک مسلم یہودی نے ان کے عقیدہ کی بنیادیں اکھاڑدیں اور کسی شخص میں ہمت دم زدن نہیں ہوئی ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کی دنیا میں تو ممکن ہے _(۱)

____________________

۱_ محققین '' نقش وعاظ در اسلام '' مولفہ ڈاکٹر علی الوردی ترجمہ خلیلیان ص ۱۱۱_۱۳۷_ عبداللہ بن سبا مولفہ سید مرتضی عسکری اور '' علی و فرزندانش '' مولفہ ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ خلیلی ص ۱۳۹ _۱۴۳ سے رجوع فرمائیں _

۷۲

مہدی تمام مذاہب میں

انجینئر مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یا یہ عقیدہ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے ؟

ہوشیار: مذکورہ عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں یہ عقیدہ موجود ہے _ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ تاریک و بحرانی زمانہ میں، جب ہرجگہ فساد و ظلم اور بے دینی پھیل جائے گی ، ایک دنیا کو نجات دلانے والا ظہور کرے گا اور بے پناہ غیبی طاقت کے ذریعہ دنیا کے آشفتہ حالات کی اصلاح کرے گا اور بے دینی و مادی رجحان کو ختم کرکے خداپرستی کو فروغ دے گا اور یہ بشارت ان تمام کتابوں میں موجود ہے جو کہ آسمانی کتاب کے عنوان سے باقی ہیں جیسے زردشتیوں کی مقدس کتاب '' زندوپازند'' ''جاماسنامہ'' یہودیوں کی مقدس کتاب توریت اور اس کے ملحقات میں عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل میں بھی اس کو تلاش کیا جا سکتا ہے نیز برہمنوں اور بودھ مذہب کی کتاب میں بھی کم و بیش اس کا تذکرہ ہے _

یہ عقیدہ سارے مذاہب و ملتوں میں موجود ہے اور وہ ایسے طاقتور غیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں _ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں زردشتی سوشیانس _ دنیا کو نجات دلانے والا _ یہودی سرور میکائیلی _ عیسائی

۷۳

مسیح موعود اور مسلمان مہدی موعود کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا _ زردشتی کہتے ہیں وہ ایرانی اور مذہب زردشت کا پیروکار ہوگا یہودی کہتے ہیں وہ بنی اسرائیل سے ہوگا اور موسی کا پیروہوگا ، عیسائی اپنے میں شمار کرتے ہیں اور مسلمان بنی ہاشم اور رسول (ص) کے اہل بیت میں شمار کرتے ہیں _ اسلام میں اس کی بھر پور طریقہ سے شناخت موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل معرفت نہیں کرائی ہے _

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگرمذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود یعنی امام حسن عسکری کے فرزند پر بھی منطبق ہوتے ہیں ، انھیں ایرانی ناد بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ کے جد امام زین العابدین کی والدہ شہر بانو ساسانی بادشاہ یزدجرکی بیٹی تھیں اور بنی اسرائیل جناب اسحق (ع) کی اولاد ہیں _ اس لحاظ سے بنی ہاشم و بنی اسرائیل کو ایک خاندان کہا جاتا ہے _ عیسائیوں سے بھی ایک نسبت ہے کیونکہ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روم کی شہزادی جناب نرجس کے بطن سے ہوں گے _

اصولی طور پر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم دنیا کے نجات دلانے والے کو کسی ایک قوم سے مخصوص کردیںکہ جس سے قومی اختلاف پیدا ہو ، اس قوم سے ہیں اس سے نہیں ، اس ملک کا باشندہ ہے اس کا نہیں ہے، اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے دوسروں سے نہیں _ اس بناپر مہدی موعود کو عالمی کہنا چاہئے _ وہ ساری دنیا کے خداپرستوں کو نجات دلائیں گے _ ان کی کامیابی ، تمام انبیاء اور صالح انسانوں کی

۷۴

کامیابی ہے _ ترقی یافتہ دین ، دین اسلام ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور تمام آسمانی مذاہب کی حمایت کرتا ہے اور موسی و عیسی کے حقیقی دین و مذہب ، کہ جنہوں نے محمد (ص) کی آمد کی بشارت دی ہے کا حامی ہے _

واضح رہے مہدی موعود کی بشارتوں کے ثابت کرنے کے لئے ہم قدیم کتابوں سے استدلال نہیں کرتے ہیں _ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے _ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان و مذاہب کا مشترک عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اور تمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس کی مطابقت میں اختلاف ہے _

۷۵

قرآن اور مہدویت

فھیمی : اگر مہدویت کا عقیدہ صحیح ہوتا تو قرآن میں بھی اس کا ذکر ہوتا جبکہ اس آسمانی کتاب میں لفظ مہدی بھی کہیں نظر نہیں آتا _

ھوشیار : اول تویہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحیح موضوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قرآن میں بیان ہو _ ایسی بہت سی صحیح چیزیں ہیں کہ جن کا آسمانی کتاب میں نام و نشان بھی نہیں ملتا _ دوسرے اس مقدس کتاب میں چند آیتیں ہیں جو اجمالی طور پر ایک ایسے دن کی بشارت دیتی ہیں کہ جس میں حق پرست ، اللہ والے ، دین کے حامی اور نیک و شائستہ افراد زمین کے وارث ہوں گے اور دین اسلام تمام مذاہب پر غالب ہوگا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

سورہ انبیاء میں ارشاد ہے :

ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھد یا ہے کہ ہمار ے شائستہ اور شریف بند ے زمین کے وارث ہوں گے ۱_

سورہ ء نور میں ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے

____________________

۱ _ انبیاء / ۱۰۵

۷۶

وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین میں سی طرح خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا یا تھا ، تا کہ اپنے پسندیدہ دین کو استوار کردے اور خوف کے بعد انھیں مطمئن بنادے تا کہ وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں(۱)

سورہ ء قصص میں ارشاد ہے :

ہمارا ارادہ ہے کہ ان گوں پر احسان کریں ، جنھیں روئے زمین پر کمزور بناد یا گیا ہے اور ، انھین زمین کا وارث قرار دیں(۲)

سورہ ء صف میں ارشاد ہے :

خداوہی ہے جس نے اپنے رسول(ع) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ دین حق تمام ادیان و مذاہب ، پر غالت ہو جائے اگر چہ مشر کوں کو یہ نا گوار ہی کیوں نہ ہو(۳)

ان آیتوں سے اجمالی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا پر ایک دن ایسا آئے گا جس میں زمین کی حکومت کی زمام مومنوں اور صالح لوگوں کے ہا تھوں میں ہوگی اور وہی تمدن بشریت کے میر کارواں ہوں گے _ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے گا اور شرک کی جگہ خدا پرستی ہوگی _ یہی درخشاں زمانہ مصلح غیبی منجی بشریت مہدی موعود کے انقلاب کادن ہے اور یہ عالمی انقلاب صالح مسلمانوں کے ذریعہ آئے گا _

____________________

۱_ نور / ۵۵۰

۲_ قصص / ۴

۳ _صف / ۹

۷۷

نبوّت عامہ اور امامت

فھیمی : میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ شیعہ ایک امام کے وجودکوثابت کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ اپنے عقیدہ کے سلسے میں آپ اتنی جد و جہد کرتے ہیں کہ : اگر امام ظاہر نہیں ہے تو پردہ غیبت میں ہے _ اس بات کے پیش نظر کہ انبیاء نے احکام خدا کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کرہے _ اب خدا کو کسی امام کے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟

ہوشیار: جو دلیل نبوت عامہ کے اثبات پر قائم کی جاتی ہے اور جس سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ خدا پر احکام بھیجنا واجب ہے اس دلیل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احکام کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت کرنے کیلئے پہلے میں اجمالی طور پر نبوت عامہ کے برہان کو بیان کرتا ہوں _ اس کے بعد مقصد کا اثبات کروں گا _

اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائی مسائل میں صحیح طریقہ سے غور کریں جو کہ اپنی جگہ ثابت ہوچکے ہیں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _

۱_ انسان اس زاویہ پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تن تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ دوسرے انسانوں کے تعاون کامحتاج ہے _ یعنی انسان مدنی الطبع خلق کیا گیا ہے _

۷۸

اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے _ واضح ہے کہ اجتماعی زندگی میں منافع کے حصول میں اختلاف ناگزیر ہے _ کیونکہ معاشرہ کے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مادہ کے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو راہ سے ہٹادے جبکہ دوسرے بھی اسی مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں _ اس اعتبار سے منافع کے حصول میں جھگڑا اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدی کا باب کھلتا ہے لہذا معاشرہ کو چلانے کیلئے قانون کا وجود ناگزیر ہے تا کہ قانون کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و تعدی کرنے والوں کی روک تھام کی جائے اور اختلاف کا خاتمہ ہوجائے _ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بشریت نے آج تک جو بہترین خزانہ حاصل کیا ہے وہ قانون ہے اور اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے ابتدائی زمانہ سے ہی کم و بیش قانون کا حامل تھا اور ہمیشہ سے قانون کا احترام کرتا چلا آرہا ہے _

۲_ انسان کمال کا متلاشی ہے اور کمال و کامیابی کی طرف بڑھنا اس کی فطرت ہے _ وہ اپنی سعی مبہم کو حقیق مقصد تک رسائی اور کمالات کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے ، اس کے افعال ، حرکات اور انتھک کوششیں اسی محور کے گرد گھومتی ہیں _

۳_ انسان چونکہ ارتقاء پسند ہے اور حقیقی کمالات کی طرف بڑھنا اس کی سرشت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لئے اس مقصد تک رسائی کا کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے کیونکہ خالق کوئی عبث و لغو کام انجام نہیں دیتا ہے _

۴_ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے جسم کے اعتبار سے مادی ہے _ لیکن روح کے ذریعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال رکھتی ہے ، وہ

۷۹

ترقی یافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _

۵_ انسان چونکہ روح و بدن سے مرکب ہے اس لئے اس کی زندگی بھی لامحالہ دوقسم کی ہوگی : ایک دنیوی حیات کہ جس کا تعلق اس کے بدن سے ہے _ دوسرے معنوی حیات کہ جس کا ربط ا س کی روح اور نفسیات سے ہے _ نتیجہ میں ان میں سے ہر ایک زندگی کے لئے سعادت و بدبختی بھی ہوگی _

۶_ جیسا کہ روح اور بدن کے درمیان سخت قسم کا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ایسا ہی دنیوی زندگی اور معنوی زندگی میں بھی ارتباط و اتصال موجود ہے _

یعنی دنیوی زندگی کی کیفیت ، انسان کے بدن کے افعال و حرکات اس کی روح پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ نفسانی صفات و کمالات بھی ظاہر افعال کے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہیں _

۷_ چونکہ انسان کمال کی راہ پر گامزن ہے اور کمال کی طرف راغب ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے ، خدا کی خلقت بھی عبث نہیں ہے _ اس لئے انسانی کمالات کے حصول اور مقصد تک رسائی کے لئے ایسا ذریعہ ہونا چاہئے کہ جس سے وہ مقصد تک پہنچ جائے اور کج رویوں کو پہچان لے _

۸_ طبعی طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنی ہی مصلحت و فوائد کو مد نظر رکھتا ہے _ بلکہ دوسرے انسانوں کے مال کو بھی ہڑپ کرلینا چاہتا ہے اور ان کی جانفشانی کے نتیجہ کا بھی خودہی مالک بن جانا چاہتا ہے _

۹_ باوجودیکہ انسان ہمیشہ اپنے حقیقی کمالات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس حقیقت کی تلاش میں ہر دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے لیکن اکثر اس کی تشخیص سے معذور رہتا ہے

۸۰

خداوند عالم کے سامنے کیسی ہوگی؟ جنّتی ہوں گے یا جہنّمی؟

حضرت ابوذر نے فرمایا کہ:

اپنے اعمال کو اللہ تعالی کی کتاب کے سامن رکھو اوردیکھو کہ خدائے تعالی قرآن مجید میں کیا فرماتے ہے اور تمہاری کیا حالت ہے_ خدائے تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ نیک اور صالح جنّتی ہوں گے اور فاسق و فاجر جہنّمی''_

ابوذر نے فرمایا:

اللہ تعالی کی رحمت نیک لوگوں سے زیادہ قریب ہے''_

آخرت میں انسان لامحالہ ان دو مقامات میں سے ایک میں قیام کرے گا_ جنّت میں یا جہنّم میں_

جنّت

جنّت نیک اور دیندار اور خداپرست لوگوں کی رہائشے اور مکان ہے، پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کے ہمیشہ رہنے کی چگہ ہے_

بہترین اور خوبصورت ترین مقام ہے جسے مہربان خالق نے اپنے نیک بندوں کے لئے بنایا ہے_ نہایت وسیع اور کشادہ ہے، زمین ماور آسمان کی وسعتوںکے مساوی بلکہ ان سے بھی وسیع و عریض ہے، روشن و پرنور ہے_ غرض انسان اس کی تعریف سے عاجز ہے_

اسے بہشت بھی کہتے ہیں_ قرآن اسے جنت سے تعبیر کرتا ہے

۸۱

''جنّت'' یعنی سر سبز و شاداب درختوں سے بھرا ہوا باغ

جنت کے سر سبز و شاداب درختوں کے نیچے صاف اور شفاف اورٹھنڈے پانی کی نہریں جاری ہوں گی_ ان کی شاخوں پر رنگ برنگ اور مزے دار پھل لٹکے ہوئے ہوں گے اور معطر ہوا کے جھونکوں سے جھوم رہے ہوں گے_

جنّت میں کسی قسم کی برائی اور نقص کا وجود نہ ہوگا_ نیک لوگ وہاں جس چیز کی تمنّا کریں گے ان کے لئے حاضر کردی جائے گی_ جب کسی پھل کی خواہش کریں گے تو مدرختوں کی خوبصورت ٹہنیاں ہواکے چلنے سے حرکت کریں گی اور اس نیک بندے کے نزدیک پہنچ کر پھل اس کے ہاتھوں پر رکھ دیں گی_

جنّت میں مومنین کے لئے نہایت عایشان اور آسائشےوں سے پر، محل بنائے گئے ہوں گے، ان پر عمدہ اور بہترین فرش بچھے ہوئے ہوں گے مومنین بہترین اور خوش رنگ لباس زیب تن کئے ہوئے، آرامدہ مندوں پر پیغمبروں، ائمہ اطہار، شہداء اور دوسرے جنتیوں سے محو گفتگو ہوں گے_

پیغمبر (ص) فرماتے ہیں کہ:

میں نے جنّت میں دیکھا کہ فرشتے جواہرات اور انیٹوں سے ایک خوبصورت محل بنا رہے ہیں_ کبھی تیزی سے اور زیادہ کام کرنے لگتے اور کبھی کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں مسں نے ان سے پوچھا: کیا کام کر رہے ہو؟ کیوں کبھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہ

۸۲

محل ایک مومن کے لئے بنا رہے ہیں_ آپ(ص) نے سوال کیا: پھر بناتے بناتے رک کیوں جاتے ہو_ فرشتوں نے جواب دیا کیونکہ محل بناتے میں استعمال ہونے والا سامان ختم ہوجاتا ہے_ آپ(ص) نے پوچھا: محل بنانے کا سامان کیا ہے؟ فرشتوں نے کہا یہ سامان اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ہے جو ان جواہرات اور سونے کی دانیٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے اس محل کوبنانے کا سامان، اللہ تعالی کا ذکر اور وہ نیک اعمال ہیں جو خود مومن دنیا سے ہمارے لئے روانہ کرتا ہے جب تک مومن کار خیر اور اللہ تعالی کی یاد میں مشغول رہے، ہم تک سامان پہنچتا رہتا ہے اور اگر مومن غافل ہوجائے اور کار خیر انجام نہ دیے تو ہم تک سامان نہیں پہنچتا اور ہم بھی مجبوراً کام ر وک دیتے ہیں_''

جنّت میں نعمتیں ہمارے دنیاوی اعمال سے بنائی جاتی ہیں اور جنّت کی بعض نعمتیں اتنی خوبصورت ہیںکہ کبھی آنکھ نے ان جیسی خوبصورتی کو نہ دیکھا ہوگا ان کے دل پسند اور صاف کوکسی کان نے نہ سنا ہوگا بلکہ ان کا خیال بھی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا_ مختصر یہ کہ جنت کی نعمتیں ہماری فکروں سے بھی زیادہ بلند و بالا ہیں_ اور بہشت کی تعریف و توصیف میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے وہ ہماری ذہنی سطح کے مطابق بیان کیا گیا ہے_ ورنہ بہشت کی عظمت اور اس کی حقیقی خوبصورتی اور زیبائی ناقابل بیان ہے_

۸۳

لیکن خدا نے بیان کے لئے کہ بہشت رہنے کے لئے کتنی عمدہ جگہ ہے اس کی کچھ صفات کو ہماری زبان اور ہماری ذہنی سطح کے مطابق بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ :

متقین کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے_''

(سورہ رعد ۱۳_ آیت ۳۵)

بہشت میں جس چیز کی خواہش کروگے تیار ہوگی اور جو چاہو گے وہ موجود ہوگا_''

(سورہ فصلّت ۴۱_ آیت ۳۵)

''ان مومن مردوں اور عورتوں سے خدا کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہیں گے_ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گا ہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کریہ کہ اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہوگی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے_

(سورہ توبہ ۹ آیت ۷۲)

جنت میں تمام رہنے والے لوگ ایک مرتبے اور ایک درجے کے نہیں ہیں بلکہ اپنے ایمان اور خلوص اور اعمال صالح کی مقدار کے لحاظ سے ان کے مر اتب میں فرق ہوگا بہشت میں موت، غم، بیماری، فکر، مصیبت کا کوئی

۸۴

وجود نہ ہوگا_ بلکہ جنّتی افراد ہمیشہ خداوند عالم کے لطف و عنایات کے زیر سایہ ہوں گے اور ہمیشہ خدا کی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور سب سے زیادہ یہ کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوگا اور وہ بھی اللہ اور اس کے الطاف اور عنایات سے راضی ہوں گے_

دوزخ

دوزخ ظالموں اور بدکاروں کاٹھکا نہ ہے اور مشرکوں اور منافقوں کی قیام گاہ ہے_

دوزخی نہایت سخت اور بہت دردناک زندگی سے دوچار ہوں گے ان کے برے اعمال اور اور کفر و نفاق، عذاب اور سخت سزا کی صورت میں تبدیل ہوکر ان کے لئے ظاہر ہوں گے اور انھیں درد و رنج پہنچاتے رہیں گے_ آگ کا لباس ان کے جسم پر اور گلے میں طوق، ہاتھ اور پاؤں میں زنجیر پہنائی جائے گی_ آتش دوزخ کے شعلے ان کے جسم سے اٹھ رہے ہوں گے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو جلا رہے ہوں گے_ ساتھ ہی ساتھ ان کے باطن میں قلب و روح میں بھی نفوذ کر رہے ہوں گے_

جہنّمیوں کا کھانا اور پینا، گندا، بدبودار، غلیظ اور جلادینے والا ہوگا جو پیپ سے بدتر ہوگا_ جس کی بدبو مردار سے زیادہ ہوگی_

جہنّم کا عذاب جو کفر و نفاق ظلم و ستم اور برے اعمال کا نتیجہ ہے اتنا سخت اور دردناک ہے کہ جس کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے_ اس دردناک

۸۵

عذاب کی جھلک خداوند عالم اس بیان کی صورت میں ہمیں یوں دکھاتا ہے کہ :

ہم نے ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انھیں گھیرے میں لئے ہوئے ہوں گی وہاں گر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا بدترین پینے کی چیز اور بدترین رہائشے گاہ _''

(سورہ کہف ۱۸ آیت ۲۹)

جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا انھیں یقینا ہم آگ میں ڈالیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تا کہ وہ خوب عذلاب کا مزا چکھیں_ یقینا اللہ بڑا قادر اور حکیم ہے_''

(سورہ نساء ۴_ آیت ۵۵)

''دردناک سزا کی خبر دو انھیں جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی سے جہنّم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا_ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، لواب اپنی اس دولت

۸۶

کا مزا چکھو جسے تم نے ذخیرہ کیا تھا_''

(سورہ توبہ ۹ آیت ۳۵)

یقینا آپ کا دل بھی چاہتا ہوگا کہ معلوم کریں کہ روز قیامت ہمارا انجام کیا ہوگا؟ آخرت میں ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا؟ جنّت یا جہنّم؟

اگر ہم غور سے پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول کا جائزہ لیں تو شاید اندازہ ہوجائے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے:

بہشت مصائب اور آلام میں پوشیدہ ہے جو شخص دنیا کی مشکلات اور رنج و الم کو برداشت کرے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا_ اور جہنّم لذّت و شہوت اور ہوس رانی میں پوشیدہ ہے، جو شخص شہوت اورہوس رانی میں مبتلا ہوگا وہ جہنّم میں جائے گا_

آیت قرآن

( مثل الجنّة الّتی وعد المتّقون تجری من تحتها الانهر اکلها دائم و ظلّها تلک عقبی الّذین اتّقوی و عقبی الکفرین النّار )

۸۷

ساسالہ استعمال کرتے ہیں؟ اور کیوں فرشتے کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؟

۷) ___دوزخ کن کاٹھکا نہ ہے اور جہنم کا عذاب کس چیز کانتیجہ ہوا ہے؟

۸) ___قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جہنّم کے عذاب کی کوئی مثال بیان کیجئے؟

۸۸

متقیوں کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں_

اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے_ یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا_ لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے_''

(سورہ رعد ۱۳ آیت ۳۵)

سوچیے اور جواب دیجیے

۱)___ حضرت ابوذر- نے اپنے کلام میں نیک لوگوں کوکن لوگوں سے تشبیہ دی ہے اور گناہ گاروں اور برے لوگوں کوکن سے؟

۲)___ حضرت ابوذر کے قول کی روشنی میںبتا یئےہ اللہ تعالی کے نزدیک ہماری حالت کیا ہوگی؟

۳) ___اللہ تعالی کی رحمت کہاں گئی؟ جناب ابوذر نے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا،اوراس جواب سے کیا مقصد تھا؟

۴) ___اس سبق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہشت کی تعریف کیجئے؟

۵) ___بہشت کی نعمتوں میں سے کون سی چیز سب سے برتر اور بالاتر ہے؟

۶) ___جنّت میں مومنین کا مکان بنانے کے لئے ملائکہ کون

۸۹

قیامت کا خوف

خدا کے شائستہ بندوں کی ایک صفت

خدا کے شائستہ بندوں کے متعلق حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ:

خداوند عالم نے اپنی یاد کو دلوں کے منور ہونے کا سبب قرار دیا ہے یاد خدا دلوں کوسماعت بخشتی ہے، خدا کی یاد تاریک و مردہ اور افسردہ دلوں کوروشن، بینا اور زندہ کرتی ہے، خدا کی یاد سرکش اور گنہکار دلوں کو خدا کی بندگی اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجانے کا سبق دیتی ہے_

ہر دور میں خدا کے ایسے منتخب بندے ہوتے ہیں جو خدا کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور اس سے مناجات کرتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے اس سے راز و نیاز کرتے ہیں_

خدا کی یاد سے ان کی دلوں میں بیداری اور آگاہی کا نور چمکتا ہے_ ان کی آنکھ، کان اوردل اس سے منور ہوجاتے ہیں_

۹۰

خدا کے یہ منتخب بندے لوگوں کو ''ایام اللہ'' کی یاد دلاتے ہیں اور اس کے ارفع و اعلی مقام سے ڈراتے ہیں_ یہ باخبر رہنما بھولے بھنکے ہوؤں کو ہدایت دیتے اور رہنمائی کرتے ہیں_ جو بھی میانہ روی اور صحیح راستہ اختیار کرے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے نجات کی خوش خبری دیتے ہیں_ جوکجروی اختیار کرے اس کی مذمّت کرتے ہیں اور ہلاکت و تباہی سے ڈراتے ہیں_

یہ لائق احترام اور یاد خدا میں مشغول رہنے والے بندے اندھیروں کا اجالا اور گم کردہ راہوں کے رہنما ہوتے ہیں_

جی ہاں اس قسم کے شائستہ لوگوں نے دنیا کی محبت کی جگہ اللہ کی یاد کو اپنے دل میں جگہ دی ہے_ دنیاوی کام کاج اورتجارت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتے_

وہ اس عمدہ سامان سفر سے اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں اور راہ طے کرتے وقت غفلت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو بیدار کرتے اور انہیں گناہوں سے روکتے ہیں_ لوگوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی عدل و انصاف کے مطابق سلوک کرتے ہیں_ لوگوں کو برے کاموں اورمنکرات سے منع کرتے ہیں اور خود بھی برے کاموں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے_

گویا وہ راہ دنیا طے کر کے آخرت تک پہنچ چکے ہیںاوروہاں سکونت اختیار کر کے ماوراء دنیا کا مشاہدہ کر رہے ہیں_ قیامت کے وعدے انکے لئے ثابت ہوچکے،وہ لوگوں کے لئے ان حقائق پر سے پردہ ہٹاتے ہیں اورقیامت وبرزخ کے حالات کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں_

۹۱

اس طرح کہ جیسے اس عالم کی جن چیزوں کا مشاہدہ وہ کر رہے ہیں لوگوں کی نگاہیں انھیں نہیں دیکھ پاتیں اور جن صداؤں کویہ سنتے ہیں لوگ نہیں سن پاتے_

اے کاش

تم اپنے ذہن میں ان کے بلند مرتبہ اورروحانیت کو دیکھ پکاتے اور ان کے مقام محمود کا مشاہدہ کر تے_ گویا انہوں نے اپنے اعمال ناموں کو اپنے سامنے کھول رکھا ہے_ اوراپنے نفس کے (محاسبہ میں) اورچھوٹی بڑی کوتاہیوں اور خطاؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں_

خدا کے عذاب کے خوف سے آہ و فغان اور گریہ و زاری کر رہے ہیں_ اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے ہوئے ندامت اورپشیمانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنے رب سے عفو و بخشش کے طلبگار ہیں_

اگر ان منتخب بندگان خدا کو غور سے دیکھا جائے تو یہ ہدایت کے پرچم اور روشنی پھیلانے والے چراغ نظر آئیں گے کہ جن کے ارد گرد اللہ کی رحمت کے فرشتوں نے احاط کر رکھا ہے، آسمان کے دروازے ان پرکھلے ہوئے ہیں اورفرشتے آرام واطمینان سے ان پر نازل ہوتے ہیں_

ان کے لئے امن و کرامت کے مقامات تیار کئے گئے ہیں_ اس امن کے مقام ہیںکہ جہاں خدا ان سے آگاہ، ان کی سعی وکوشش سے راضی اور ان کی راہ و رسم سے خوش ہے_

یہ بندے اپنی مناجات کے ذریعہ نسیم رحمت اورپروردگار عالم کی بخشش کو جوش میں لاتے ہیں_ ان کے دل اللہ تعالی کے فضل و کرم کے

۹۲

گرویدہ اور اللہ کی عظمت و بزرگی کے سامنے خاضع اور خاکسار ہوتے ہیں_

آخرت کے عذاب کے خوف سے ان کے دل زخمی اور شکستہ ہیں اور خوف خدا کے سبب کیے جانے والے طویل گریہ سے ان کی آنکھیں آزردہ اور خستہ ہوچکی ہیں

(نہج البلاغہ سے ایک اقتباس)

امیرالمومنین علیہ السلام کہ جو خود خدا کے شائستہ بندوں میں سے ہیں خدا کے صالح اور شائستہ بندوں کے اس طرح قیامت سے خوفزدہ ہونے کی صفت کا تذکرتے ہیں_ کتنا اچھا ہو کہ حضرت علی (ع) کے قول کے ساتھ ساتھ ان کے عمل میں بھی خدا کے شائستہ بندوں کی نشانیوں کو دیکھیں_

امام(ع) کے دو نہایت نزدیکی اصحاب سے امام(ع) کی مناجات کی کیفیت ان کی آہ و زاری، پر سوز نالوں اور قیامت کے خوف کے متعلق سنیں_

حبّہ عرفی اور نوف بکالی کہتے ہیں:

ایک دن ہم دارالامارة کے صحن میں سوئے ہوئے تھے کہ آدھی رات کو ایک دردناک آواز نے ہمیں بیدار کردیا_ یہ ہمارے مولا امیرالمومنین (ع) کی آواز تھی_ آپ نے ایک دیوار سے نیک لگائی تھی_ پھر آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چلنے لگے_ ستاروں سے پر آسمان کودیکھتے اور تھوڑی دیر ٹھہرجاتے اور اچانک رونے کی آواز بلند کرتے اور آنسو بہاتے اور پر درد ودلگدار لہجے میں ان آیات کی تلاوت فرماتے تھے:

یقینا زمین و آسمان کی خلقت اور دن و رات کی منظم گردش میں عقلمندوں کے لئے واضح نشانیاں موجود ہیں، وہ عقلمند کہ جو خدا کو ہر حال میں یاد کرتے ہیں چاہے بیٹھے

۹۳

چاہے کھڑے اور چاہے پہلو پر بستہ ہیں لیٹے ہوئے ہوں زمین و آسمان کی خلقت پر غور و خوض کرتے ہیں_

اے پروردگار تو نے اس عظیم کارخانہ کو بے کار و بے مقصد خلق نہیں کیا ہے تو عیب سے پاک ہے بس تو ہم کو آگ کے عذاب سے بچا

پروردگار یقینا جس کو تونے آگ میں داخل کردیا ضرور اسے رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں اے ہمارے رب ہم نے سنا ہے کہ ایک منادی ندا کرتا تھا ایمان کے لئے کہ ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لے آئے_ اے ہمارے رب پس بخش دے ہمارے گناہوں کو اور دور کردے

ہم سے ہماری بدیوں کو اور ہمیں نیکیوں کے ساتھ موت دے_

اسے پروردگار جو کچھ تونے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ہم سے وعدہ کیا ہے ہمیں عطا کر اور ہم کو روز قیامت رسوا نہ کرنا_ یقینا تووعدہ خلافی نہیں کرتا_''

(سورہ آل عمران ۳_ آیت ۱۹ تا ۱۹۴)

امیرالمومنین علیہ السلام بار بار ان آیات کی تلاوت کر رہے ہے تھے اشک بہاتے تھے اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر مناجات اورراز و نیاز کرتے تھے حبّہ کہتا ہے:

۹۴

میں حیرت زدہ اپنے مولا کی حالت کو دیکھ رہا تھا کہ آپ(ع) میرے بستر کے نزدیک آئے اور فرمایا:

''حبّہ سوئے ہوئے ہو یا جاگ رہے ہو؟''

میں نے عرض کی :

مولا،اے امیرالمومنین علیہ السلام جاگ رہا ہوں جب آپ(ع) ، خدا کے خوف سے اس قدر لرزاں اور نالہ کناں ہیں تو افسوس ہم بے چاروں کی حالت پر:

امیرالمومنین علیہ السلام کچھ دیر سرجھکا کر روتے رہے پھر فرمایا:

اے حبّہ ایک دن سب خدا کے سامنے اپنا حساب دینے کے لئے کھڑے کئے جائیں گے_ خدا اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے_ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور کوئی چیز ہمارے اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی اس کے بعد نوف کے بستر کے پاس گئے اور فرمایا:

اے نوف سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو؟

نوف جو کہ امیرالمومنین (ع) کی حالت کو دیکھ کر رو رہے تھے بولے:

''یا علی (ع) جاگ رہا ہوں اور آپ کی اس روحانی حالت کو دیکھ کر گریہ کر رہا ہوں_''

امیرالمومنین (ع) نے فرمایا:

اے نوف اگر آج خوف خدا سے اشک بہاؤ گے تو قیامت میں تمہاری آنکھیں روشن ہوں گی _ تمہاری آنکھوں سے گرا ہوا آنسو کا ہر قطرہ آتش جہنّم کو

۹۵

بجھادے گا_ جو انسان اللہ کے خوف سے ڈرے، گریہ کرے اور اس کی دوستی خدا کے لئے ہو تو بہشت میں اس کا درجہ سب سے بلند و بالا ہوگا_

اے نوف جو شخص خدا کو دوست رکھتا ہو اور جسے بھی دوست رکھتا ہو خدا کے لئے ہو، کبھی بھی خدا کی دوستی پر کسی اور کی دوستی کو ترجیح نہیں دے گا جو شخص جس سے بھی دشمنی رکھتا ہو خدا کیلئے ہو اس دشمنی سے خیر و خوبی کے علاوہ کچھ اور نہ پہنچے گا_

اے نوف جس وقت تم اپنی دوستی اور دشمنی میں اس درجہ پر پہنچو کمال ایمان پر پہنچو گے_ خدا سے ڈورکہ میں تمہیں نصیحت کر رہا ہوں'' یہ کہہ کہ امام (ع) ہم سے دور چلے گئے_ اور خدا سے مناجات شروع کردی اشک بہاتے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ اس دعا کی تلاوت کرتے تھے_

پروردگار اے کاش مجھے علم ہوتاکہ جس وقت میں تجھ سے غافل ہوں تو مجھ سے ناراض ہوتا ہے اور منھ پھیر لیتا ہے یا پھر بھی مجھ پہ لطف و کرم رکھتا ہے؟ اے کاش مجھے علم ہوتا کہ میری طویل نیند، سستی و کوتاہی کے سبب میری حالت تیرے نزدیک کیسی ہے

اس رات امیرالمومنین (ع) تمام رات جاگتے رہے اور اپنے خالق سے ر از و نیاز کرتے رہے_ بے قراری کے عالم میں چہل قدمی کرتے تھے_

امیرالمومنین (ع) یوں ہی راتوں کو بیدار رہتے، مناجات کرتے اور خوئف خدا اور قیامت کے حساب و کتاب کا ذکر کر کے رویا کرتے تھے_

۹۶

آیت قرآن

''( ربّنا ما خلقت هذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النّار ) ''

پروردگار تو نے اس جہان اور زمین و آسمان کو باطل پیدا نہیں کیا ہے تیری ذات پاک و پاکیزہ ہے پس ہمیں جہنّم کی آگ سے محفوظ رکھ_''

(سورہ آل عمران ۳ آیت ۱۹۱)

سوچیے اور جواب دیجیے

۱) ___امیرالمومنین (ع) نے اپنے اس خطبہ میں اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی بہت سی صافت بیان کی ہیں_ آپ ان میں سے دو صفات کو بیان کریں؟

۲) ___یہ صالح بندے کس راہ کی تعریف اور کس کی مذمت کرتے ہیں؟

۳)___ ان کا ڈر اور خوف کس چیز سے ہے؟ ان کا طویل گریہ کس خوف کے نتیجہ میں ہے؟

۴) ___امیرالمومنین (ع) نے جن آیات کی تلاوت کی ان کا ترجمہ کیجئے؟

۵)___ ان آیات میں کن باتوں کا تذکرہ ہے کہ جس کے سبب

۹۷

امیرالمومنین (ع) کی یہ حالت ہوگئی تھی؟

۶) ___جب امیرالمومنین (ع) نے حبّہ سے دریافت کیا کہ سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو تو حبّہ نے آپ (ع) کو کیا جواب دیا؟

آپ (ع) نے قیامت کے دن کے بارے میں حبّہ سے کیا فرمایا؟

۷)___امیرالمومنین (ع) نے نوف سے قیامت کی یاد اور خوف خدا سے رونے کے متعلق کیا فرمایا؟

۸)___ امیرالمومنین (ع) نے ایمان کامل رکھنے والے انسان کی کیا تعریف کی؟ کامل ایمان ہونے کے لئے کیا علامتیں بیان کیں؟

۹۸

باب سوم

نبوت کے بارے میں

۹۹

تمام پیغمبروں کا ایک راستہ ایک مقصد

شاید آپ نے بہار کے موسم میں بادام کے خوش رنگ شگوفے کودیکھا ہوگا کیا آپ نے دیکھا ہے؟

آیا کبھی سوچا ہے کہ

بادام کا جو بیج رمین میں بویا جاتا ہے یہ بیج، پھول کی خوبصورت شکل؟، اختیار کرنے تک کس قدر طویل، پر پیچ اور کٹھن راستہ کرتا ہے_

کتنی سعی و کوشش کر کے یہ راستہ طے کرتا ہے تا کہ نشو و نما پاسکے اور اس خوبصورت لباس سے اپنے آپ کو راستہ کرے

آیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس طویل راستہ کو طے کرنے میں اسکی راہنمائی کون کرتا ہے_

ہم نے توحید کی بحث میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254