اصول دین

اصول دین0%

اصول دین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دین

مؤلف: علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین
زمرہ جات:

مشاہدے: 25540
ڈاؤنلوڈ: 3006

تبصرے:

اصول دین
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25540 / ڈاؤنلوڈ: 3006
سائز سائز سائز
اصول دین

اصول دین

مؤلف:
اردو

قیامت کی ضرورت

جو شخص موضوع قیامت پر گفتگو کرنا چاھے ،تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مر حلے میں ”قیامت“ کو غیر تفصیلی طور سے ثابت کرے تاکہ اس کی ضرورت اور اس کے یقینی ہونے پرعقیدہ رکھے ،نیز اس ضرورت اور یقینی ہونے کے اسباب کو تلاش کرے اور اس کی ضرورت پر دینی دلائل قائم کرے۔

اور جب اس ضرورت(معاد) کو انسان دلیل و برھان سے ثابت کر لیتاھے تو ایک دوسری بحث کا آغاز ہوتا ہے: کہ اس معاد کی جزئیات کیا کیا ہیں، کیونکہ ضرورت معاد وہ بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کے بغیر جزئیات معاد کے بارے میں بحث کرنا فضول ہے۔

کیونکہ انسان کسی ٹھوس نتیجہ تک نہیں پهونچ سکتا مگر یہ کہ تدریجی طور پر اس طرح کہ بعد والا مرحلہ پہلے والے مرحلے سے مر تبط ہو اور ان کے درمیان ایک مستحکم رابطہ ہو جس کے ذریعہ حقائق سے پردہ اٹھ جائے اور حقیقت واضح ہوجائے :

۱ ۔کیا خدا وند عالم امر و نھی کرتا ہے؟

ہمارے لحاظ سے ہر عقل مند انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ خدا وند عالم نے امر و نھی کیا ہے ،کیونکہ انھیں اوامر نواھی کے عظیم مجموعہ کو شریعت اسلام کھا جاتاھے ،

اور اگر ہم قرآن مجید پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بات کی دلیل آسانی سے مل سکتی ہے: جیسا کہ ارشاد خدا وند عالم ہوتا ہے:

( اَقِیْمُوْالصَّلوٰةَ وَاٴَتُوا الزَّکٰاةَ ) ( ۱۰ )

”پا بندی سے نماز اداکرو اور زکوةدیا کرو“

( کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامَ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ) ( ۱۱ )

”روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا ۔“

( وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ ) ( ۱۲ )

”اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لئے خانہ کعبہ کا حج کریں“

( وَاعْلَمُوْااَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیءٍ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ ) ( ۱۳ )

”اور جان لو کہ جو کچھ تم (مال لڑکر)لوٹو ان میں کا پانچواں حصہ مخصوص خدا “

( جَاهِدُوْا فِی اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ ) ( ۱۴ )

”جو حق جھاد کرنے کا ہے خدا کی راہ میں جھاد کرو “

( اَحَلَّ اللهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَوٰ ) ( ۱۵ )

”حالانکہ خرید وفروخت کو خدا نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا “

( اٴِنَّ اللهَ یَاٴمُرُ بِا لْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَاٴِیْتَا یٴِ ذِی الْقُربٰی وَ یَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ ) ( ۱۶ )

”اس میں شک نہیں کہ خدا انصا ف اور(لوگوں کے ساتھ)نیکی کرنے اور قرابت داروں کو (کچھ)دینے کا حکم کرتا ہے اور بدکاری اور ناشایستہ حرکتوں اور سر کشی کرنے سے منع کرتا ہے“

( لاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ) ( ۱۷ )

”نہ تم میں سے ایک دوسرے کی غیبت کرے“

( لاَ تَجَسَّسُوا ) ( ۱۸ )

”ایک دوسرے کے مال کی ٹوہ میں نہ رھا کرو“

( اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکِذْبَ الَّذِیْنَ لَا یُو مِنُوْنَ بِاٴَیٰاتِ اللهِ ) ( ۱۹ )

”بہتان تو بس وھی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے۔“

( اٴِجْتَنِبُوْا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ ) ( ۲۰ )

”بہت سے گمان (بد )سے بچے رهو“

( وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ ) ( ۲۱ )

”ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی خرابی ہے“

ان کے علاوہ اور دیگر آیات کریمہ ہیں جن میں خدا وندا عالم کی طرف سے امر و نھی بیان ہوئے ہیں۔

لہٰذااس وقت ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خدا وند عالم نے امر و نھی کیا ہے ۔

۲ ۔کیا یہ اوامر و نواھی الزامی ہوتے ہیںیا ارشادی؟

یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیلی طور پر ثابت ہو چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز وجوب پر دلالت کرے اور وجوب میں ظاہر بھی ہو اگر مستحب پر دلالت کرنے والے قرینہ سے خالی ہو، اس کو امر کھا جاتا ہے،اورحکم عقل کے ذریعہ اس کا وجوب ہوتا ہے کیونکہ عبد پر مولا کے حکم کی اطاعت کرنا ضروری ہے اور مولا جس کام کا ارادہ کرلے اس کو انجام دینے کے لئے حرکت کرنا ضروری ہے تاکہ عبودیت و مالکیت کا حق ادا ہو سکے۔

جس طرح مسئلہ نھی کا خلاصہ تھا:

نھی بھی الزام پر دلالت کر نے میں امر کی طرح ہوتی ہے اور حرمت میں ظاہر ہوتی ہے اور جب صیغہ نھی کسی ایسے شخص سے صادر ہو جس کی اطاعت واجب ہے تو اس مولیٰ کی وجوب اطاعت ،و حرمت نا فرمانی عقلی طور پر ثابت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ جس کام سے مولیٰ منع فرمائے اس کو انجام دینا جائز نہیں ہے،،( ۲۲ )

اور کیونکر مذکورہ مطلب صحیح نہ ہو ، جبکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:

( مَا اٴَتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَا کُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ) ( ۲۳ )

”جو تم کو رسول دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رهو“

( فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اٴَمْرِهِ اٴَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اٴَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ) ( ۲۴ )

”جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ(مبادا) ان پر کوئی مصیبت آپڑے یا ان پر کوئی درد ناک عذاب نازل ہو“

پس ان تما م چیزوں سے ثابت یہ ہوا کہ خدا وند عالم کے اوامر و نواھی مکمل طور پر الزامی (ضروری)هوتے ہیں ،اور اس میں کسی کو کوئی اختیار و رخصت نہیں ہے۔

۳ ۔اگر کوئی ان اوامر و نواھی کی مخالفت کرے تو؟

جیسا کہ ثابت ہو چکا ہے کہ خدا وند عالم نے امر ونھی کیا ہے اور ان اوامر و نواھی پر عمل کرنا ضروری ہے نیز ان کی مخالفت جائز نہیں ہے تو کیا اگر کوئی انسان خدا کے امر و نھی کی مخالفت کرے تو کیا اس پر عقوبت و عذاب (مادی معنی میں)هونا چاہئے یا نہیں ؟یا ان کی مخالفت پر معنوی آثار مرتب ہوں گے؟

اس سوال کے جواب میں ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم چند قرآنی آیات کا مطالعہ کریںتاکہ خدا وند عالم کی مخالفت کا نتیجہ معلوم ہو سکے۔

ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

( وَمَنْ یَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اٴَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ) ( ۲۵ )

”اور ان میں سے جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا اسے ہم (قیامت میں)جہنم کے عذاب کا مزا چکھائیں گے“

( قُلْ اِنِّی اٴَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ) ( ۲۶ )

”(اے رسول)تم کهو کہ اگر میں نافرمانی کروں تو بیشک ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں“

( وَکَاٴَ یِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اٴَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَاباً شَدِیْداً وَعَذَّبْنَاهَاعَذَاباً نُکْراً ) ( ۲۷ )

”اور بہت سے بستیوں (والے)نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سر کشی کی تو ہم نے ان کا بڑی سختی سے حساب لیا اور انھیں بُرے عذاب کی سزا دی“

( ماَ سَئَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ) ( ۲۸ )

”آخر تمھیں دوزخ میں کون سی چیز (گھسیٹ )لائی وہ لوگ کھیں گے کہ ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے“

( فَوَیْلٌ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ َیوْمٍ اٴَلِیْمٍ ) ( ۲۹ )

”جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر درد ناک عذاب سے افسوس ہے“

پس مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خدا وند عالم کے اوامر و نواھی جس کو شریعت اسلام کھا جاتا ہے؛ کی مخالفت پر (ابدی)عذاب ہوتا ہے۔

۴ ۔کیا خدا وند عالم کے وعدوعید حقیقی ہیں یا صرف لوگوں کو اطاعت پر تحریک کرنے کے لئے ؟

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا وند کریم کا قرآن مجیدمیں بار با ر اس بات کا ذکر کرنا کہ انسان کو مرنے کے بعد قیامت میں اٹھا یا جائے گا اور اچھے اعمال کرنے والوں کو بہشت میں اور برے اعمال کرنے والوں کو جہنم میںبھیجا جائے گا،یہ وعد و وعید صرف لوگوں کی ترغیب اور تحریک کے لئے ہیں ۔تاکہ لوگ خدا کی اطاعت کریں اور اس کی نا فرمانی نہ کریں جب کہ در حقیقت ان میں کوئی انعام یا عذاب نہیں ہے گویا اس قول کا کہنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ مادی جسم چونکہ موت کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور اس کا دوبارہ اپنی حالت پر پلٹنا محال ہے کیونکہ جو چیز ختم ہو جاتی ہے دوبارہ واپس نہیں پلٹ سکتی ۔لہٰذامادی معنی کے لحاظ سے انعام و جزا اور عذاب کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ گویا یہ وعدہ وعید صرف ایک (دہمکی)هوتی ہے جس میں حقیقت کچھ نہیں ہوتی۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں(اور خدا وند عالم نے قرآن کریم کو عر بی زبان میں واضح طور پر نازل کیا ہے)اور ہم عربی زبان کو جانتے ہیں اور اس کے مورد استعمال نیز اس کے الفاظ کی دلالت سے بھی با خبر ہیں ۔چنانچہ ہم کوئی ایسا جواز نہیں پاتے جس سے الفاظ کو اس کے ظاہر کے خلاف حمل کریں حالانکہ خلاف ظاہر پر دلالت کرنے والے قرینہ سے خالی ہو۔

اور جب قرآن مجید میں استعمال شدہ الفاظ کے ذریعہ کسی کو مخاطب کیا گیا ہو اور اس میں کوئی ایسا قرینہ بھی نہ ہو جس سے اس کی تاویل کی جاسکے تو پھر اس کو اس کے حقیقی معنی میں ہی استعمال کیا جائے گا ،اور ہمیں ذرہ برابر بھی اس کو مجاز ،مبالغہ اور جھوٹے وعدوں پر حمل کرنے کا حق نہیں ہے۔

قارئین کرام ! ہم آپ کے سامنے ایسی آیات قرآنی کو بیان کریںگے جن میں حشر و نشر اور قیامت پر واضح طور پر تائید کی گئی ہے اور ایسی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس میں کسی قسم کی تاویل اور تقیید کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،اور جن میں ذرہ برابر بھی ہیرا پھیری نھیںکی جاسکتی۔

چنانچہ ارشاد خدا وندی ہے:

( کَمَا بَدَاٴَ نَا اٴَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُهُ وَعْدًا عَلَیْنَا اٴِنَّا کُنّاَ فَاعِلِیْنَ ) ( ۳۰ )

”جس طرح ہم نے (مخلوقات کو)پہلی بار پید ا کیا تھا (اسی طرح)دوبارہ (پیدا )کر چھوڑیں گے(یہ وہ)وعدہ (ھے جس کا کرنا)ہم پر (لازم)ھے اور ہم اسے ضرور کر کے رھیں گے“

( جَعَلَ لَهُمْ اٴَجْلاً لاَرَیْبَ فِیِهِ ) ( ۳۱ )

”اس نے ان(کے موت)کی ایک میعاد مقرر کر دی ہے جس میں ذرا بھی شک نہیں “

( وَحَشَرْ نَا هُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحْدًا ) ( ۳۲ )

”اور ہم ان سبھوںکو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے“

( وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَری الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفَقِیْنَ مِمّاَ فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَلَا کَبِیْرَةً اٴِلَّا اٴِحْصَاهَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حاَضِرًا وَ لاَ یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ) ( ۳۳ )

”اور(لوگوں کے اعمال کی)کتاب (سامنے رکھی جائے گی)تو تم گناہگار وں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا)ھے (دیکھ دیکھ کر)سہمے ہوئے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ھائے ہماری شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹے ہی گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ہے نہ بڑے گناہ کو اور جو کچھ ان لوگوں نے (دنیامیں) کیا تھا وہ سب (لکھاهوا)موجود پائیں گے اور تیرا پرور دگار کسی پر (ذرہ برابر)ظلم نہیں کرے گا“

( ثُمَّ اٴِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰ لِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اٴِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُبْعَثُوْنَ ) ( ۳۴ )

”پھراس کے بعد یقیناً تم سب لوگوں کو( ایک نہ ایک دن) مرنا ہے اس کے بعد قیامت کے دن تم سب کے سب قبروں سے اٹھائے جاو گے“

( اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴِنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَاٴِنَّکُمْ اٴِلَیْنَا لاَ تُرْجَعُوْنَ ) ( ۳۵ )

”کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو (یونھی ) بیکار پیدا کیا اور یہ کہ تم ہمارے حضور لوٹا کر نہیں لائے جاو گے “

( رَبَّنَا اٴِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیْهَ اٴِنَّ اللهَلاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ) ( ۳۶ )

”اے ہمارے پروردگار بیشک تو ایک نہ ایک دن جس کے آنے میں شبہ نہیں لوگوں کو اکٹھا کرے گا(تو ہم پر نظر عنایت رھے)بیشک خدا اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا “

( یَا مَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْاٴِنْسِ اٴلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ آیَاتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ هٰذَا قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰی اٴَنْفُسِنَا وَغَرَّتْهُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا ) ( ۳۷ )

”(پھر ہم پوچھیں گے) کہ کیوںاے گروہ جن و انس کیا تمھارے پا س تم ہی میں کے پیغمبر نہیں آئے جو تم سے ہماری آیتیں بیان کریں اور تمھیں تمھارے اس روز (قیامت)کے پیش آنے سے ڈرائیں، وہ سب عرض کریں گے(بیشک آئے تھے)ہم خود اپنے اوپر آپ اپنے (خلاف) گواھی دیتے ہیں (واقعی)ان کو دنیا کی(چند روزہ)زندگی نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا“

( إِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتاً ) ( ۳۸ )

”بیشک فیصلہ کا دن مقرر ہے“

( ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَاِلٰی رَبِّهِ مَآبَا ) ( ۳۹ )

”وہ دن بر حق ہے تو جو شخص چاھے اپنے پروردگار کی بارگاہ (اپنا) ٹھکانا بنائے“

( وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُوَ اٴَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ) ( ۴۰ )

”اور جس شخص نے جیسا کیا ہو اسے اس کا پوراپورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں وہ اس سے خوب واقف ہے“

( وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالاَ تَاٴْ تِیْنَا السَّاعَةُ ،قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لاَیَعْزَبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوَاتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَلاَ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلاَ اٴَکْبَرُ اِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ لَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُو لٰئِکَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ ) ( ۴۱ )

”اور کفار کہنے لگے کہ ہم پر تو قیا مت آئے گی ہی نہیں (اے رسول)تم کہہ دو ھاں(ھاں)مجھ کو اپنے اس عالم الغیب پروردگار کی قسم ہے جس سے ذرہ برابر(کوئی چیز)نہ آسمان میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں کہ قیامت ضرور آئے گی اور ذرہ سے چھوٹی چیز اور ذرہ سے بڑی (غرض جتنی چیزیں ہیں سب )واضح و روشن کتاب(لوح محفوظ)میں محفوظ ہیں تاکہ جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کو خدا جزاء خیر دے، یھی وہ لوگ ہیں جن کے لئے (گناهوں کی)مغفرت اور (بہت ہی)عزت کی روزی ہے “

( وَاٴَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اٴَیْمَانِهِمْ لاَیَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَمُوْتُ بَلٰی وَعْداً عَلَیْهِ حَقًّا وَلٰکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهَ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااٴَنَّهُمْ کَانُوْاکَاذِبِیْنَ ) ( ۴۲ )

”اور یہ کفار خدا کی جتنی قسمیں ان کے امکان میں تھیں کھا (کر کہتے)ھیں کہ جو شخص مرجاتا ہے پھر اس کو خدا دوبارہ زندہ نہیں کرے گا (اے رسول کہدوکہ)ھاں ضرور ایسا کرے گا)اس پر اپنے وعدہ کی وفا لازم و ضروری ہے مگر بہتیرے آدمی نہیں جانتے ہیں(دوبارہ زندہ کرنا اس لئے ضروری ہے )کہ جن باتوں پر یہ لوگ جھگڑ ا کرتے ہیں انھیں ان کے سامنے صاف و واضح کر دے گا اور تاکہ کفار یہ سمجھ لیں کہ یہ لوگ (دنیامیں)جھوٹے تھے“

( وَمَا اٴَدْرَاکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَا اٴَدْرَاکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لاَ تَمْلِکُ نَفْسٌلِنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاٴَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰهِ ) ( ۴۳ )

”اور تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا ہے پھر تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا چیز ہے، اس دن کوئی شخص کسی کی بھلائی نہ کر سکے گا اور اس دن حکم صرف خدا ہی کا ہوگا“

پس نتیجہ بحث یہ ہوا :

۱ ۔خدا وندعالم امر و نھی کرتا ہے۔

۲ ۔ اس کے امر ونھی الزامی ہوتے ہیں ۔

۳ ۔ان اوامر و نواھی کی مخالفت موجب عقوبت ہوتی ہے۔

۴ ۔اسی عقوبت کے حقیقی (مادی)معنی ہیں اور صرف ڈرانے کے لئے نہیں ہیں ۔

لہٰذاہم کہتے ہیں کہ ان تمام مطالب کے پیش نظر قیامت کا ہونا ضروری ہے اور ایک مسلمان پر قیامت کا ایمان رکھنا اس کو ضروری اور قطعی ماننا ضروری ہے۔

اور اسی بات پر مذکورہ تما م آیات دلالت کرتی ہیں، کیونکہ انھیں آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ قیامت وہ چیز ہے ”جس میں کوئی شک نھیں“اور یھی(یوم الحق)ھے جس میں ایک ساعت بھی کم و زیادتی نہیں ہو سکتی ،اوراس قیامت کا مقصد حساب و کتاب ہے کیونکہ ہر انسان کو اس کے اعمال کی بنا پر جزا یا سزا دی جائے گی۔

انھیں آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ:

( لَایُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَلَا کَبِیْرَةً إلّٰا اٴِحْصَاهَا ) ( ۴۴ )

”نہ چھوٹے گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ہے نہ بڑے گناہ کو“

انھی آیات میں موجود ہے:

( کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضِرًا وَ مَاعَمِلَتْ مِنْ سُوْءٍ ) ( ۴۵ )

”ھر شخص جو کچھ اس نے (دنیامیں ) نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا“

اور انھیں آیات کی بنا پر مجرمین ”مشفقین مما فیہ“دکھائی دیتے ہیں ۔

پس خدا وند عالم کا وعدہ قیامت ”حق “ ہے اور خدا سے زیادہ کون صادق الوعد ہو سکتا ہے، اور جولوگ گمان کرتے ہیں:

( اٴَنْ لَنْ یَبْعَثُوْا ) (وہ مبعوث نہیں کئے جائیں گے)اور کہتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی وہ کافر اور جھوٹے ہیں۔

( وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ وَ مَا یُکَذِّبُ بِهِ اِلاَّ کُلَّ مُعْتَدٍاَثِیْمٍ ) ( ۴۶ )

”اس دن کو جھٹلانے والوں کی خرابی ہے جو لوگ روز جزا کو جھٹلاتے ہیں حالانکہ اس کو حد سے نکل جانے والے گنہگار کے سوا کوئی جھٹلاتا۔“

اور جب گفتگو اس نتیجہ پر پهونچ چکی ہے تو ضروری ہے (تاکہ بحث کے تمام پہلو ں پر گفتگو ہو جائے )کہ ہم غور و فکر اور یقین کے ساتھ یہ بات طے کر یں قیامت کے دن کیا چیزپلٹائی جائے گی؟

کیا وہ فقط ”روح“ھے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ روح کا جسم میں پلٹنا محال ہے؟

یا فقط”جسم“ھے جیسا کہ جناب جبائی اور ان کے پیر و کار افراد کا نظریہ ہے کیونکہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ روح ہی جسم ہے؟

یا جسم کے ساتھ روح بھی جیسا کہ اکثر علماء اسلام کا عقیدہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق آیاتِ قرآنی کے سیاق سے ذہن میںاس بات کا تبادر ہوتا ہے کہ قیامت میں ایسے زندہ جسم کے ساتھ اٹھا یا جائے گا جو لذتِ نعمت اور دردِ عذا ب درک کر سکے ،یعنی ”جسم کے ساتھ روح“جس میں تمام عضوو تمام صفات و خصوصیات موجود ہوں گے۔قرآن مجید کی مذکورہ آیات اپنی تمام وضاحت کے ساتھ اپنے مقصود و معنی کو بیان کرتی ہیں اور کسی بھی طرح کی تاویل و قید سے منزہ ہے ،اور دلالت کے اعتبار سے بھی اتنی واضح ہیں کہ ان میں کسی طرح کی ہیرا پھیری نہیں کی جا سکتی ۔

ارشاد خدا وندی ہے:

( وَیَوْمَ یُحْشَرُ اٴَعْدَاءُ اللهِ إِلَی النَّارِ فَهُمْ یُوزَعُونَ حَتَّی إِذَا مَا جَاءُ وْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاٴَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوا اٴَنطَقَنَا اللهُ الَّذِی اٴَنطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَهو خَلَقَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ اٴَنْ یَشْهَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلاَاٴَبْصَارُکُمْ وَلاَجُلُودُکُمْ وَلَکِنْ ظَنَنْتُمْ اٴَنَّ اللهَ لاَیَعْلَمُ کَثِیرًا مِمَّا تَعْمَلُون ) ( ۴۷ )

”اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف ہکائے جائیں گے تو یہ لوگ ترتیب وار کھڑے کئے جائیں گے یھاں تک کہ جب سب کے سب جہنم کے پاس جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے( گوشت پوست) ان کے خلاف ان کے مقابلہ میں ان کی کارستانیوں کی گواھی دیں گے اور یہ لوگ اپنے اعضاء سے کھیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواھی دی؟!! تو وہ جواب دیں گے کہ جس خدا نے ھرچیز کو گویا کیا، اس نے ہم کو بھی (اپنے قدرت سے)گویا کیا، اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور (آخر)اسی کی طرف لوٹ کرجاو گے اور(تمھاری تو یہ حالت تھی کہ)تم لوگ اس خیال سے (اپنے گناهوں کی)پردا داری بھی تو نہیں کرتے تھے کہ تمھارے کان اور تمھاری آنکھیں اور تمھارے اعضاء تمھارے بر خلاف گواھی دیں گے بلکہ تم اس خیال میں (پھولے ہو)تھے کہ خدا کو تمھارے بہت سے کاموں کی خبر ہی نھیں“

( اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اَفْوَاهِهِمْ وَ تُکَلِّمُنَا اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ( ۴۸ )

آج ہم ان کے منھ پر مھر لگا دیں گے اور جو(جو)کارستانیاں یہ لوگ (دنیا میں) کر رھے تھے خود ان کے ھاتھ ہمیں بتا دیں گے اور ان کے پاو ں گواھی دیں گے“

( إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَاراً کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوْا الْعَذَابَ ) ( ۴۹ )

”(یاد رھے)کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انھیں ضرورعنقریب جہنم کی آگ میں جھونک دیں گے (اورجب ان کی کھالیں (جل ) جائیں گی تو ہم ان کے لئے دوسری کھالیں بدل کر پیدا کر دیں گے تاکہ وہ اچھی طرح عذاب کا مزہ چکھیں“

( اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَه بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بِنَانَه ) ( ۵۰ )

”کیا انسان یہ خیا ل کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو بو سیدہ ہونے کے بعد (جمع نہ کریں گے ھاں ضرور کریں گے) ہم اس پر قادر ہیں کہ ہم اس کی پور پور درست کریں۔“

قارئین کرام ! مذکورہ آیات کا غور و فکر کے ساتھ تلاوت کرنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ قیامت میں انسان کو ”جسم و روح“کے ساتھ اٹھایا جائے گا کیونکہ آنکھیں، کان، کھال، منھ، ھاتھ، پیر، ہڈی اور درد عذاب کا احسا س سب کچھ دنیاوی طرح سے ہوگا، اوران تما م چیزوں کے پیش نظر شک و تاویلات کی کوئی گنجائش باقی نہیں ر ہ جا تی۔

قارئین کرام ! ہم مذکورہ آیات میں سے صرف آخری دو آیات کے بارے میں کچھ علمی مطالب بیان کرنا چاہتے ہیں اور یہ وہ حقائق ہیں جن کو خدا وند عالم نے اس وقت بیان کیا جب یہ علمی کشفیات نہیں تھے،اور ہم ان مطالب کو قرآن کے معجزہ ہونے پر دلیل بھی کہہ سکتے ہیں۔

چنانچہ پہلی آیت میں کفار کو نار جہنم میں جلانے کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

( کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُوْداً غَیْرَهَا ) ( ۵۱ )

”جس وقت جہنم کی آگ انسان کی کھال کو جلائے گی تو ہم اس کھال کو دوبارہ بنادیں گے تاکہ ہمیشہ دردو تکلیف میں مبتلا رھے اورعذاب الیم کا مزہ لیتا رھے“۔

پس یہ ان کی کھال کا تبدیل کرنا کس لئے ؟

اس کی وجہ کو آج کا علم طب بیان کرتا ہے کہ انسان کی کھال میں دردو الم کاشدید احساس پایا جاتا ہے لیکن گوشت اور اندرون اعضاء میں کم احساس ہوتا ہے اسی وجہ سے ایک طبیب کا یہ ماننا ہے کہ اگر انسان کا جسم معمولی طورپر اس طرح جلے کہ فقط کھال تک اس کا اثر جائے تو اس کو بہت شدید درد ہوتا ہے اس کے برخلاف اس کے جس کے بدن کا اندرونی حصہ بھی جل جائے اگر چہ اس میں خطرہ زیادہ ہے لیکن درد و تکلیف کا احساس زیادہ نہیں ہوتا۔

قارئین کرام ! آپ نے خدا وندعالم کی حکمت کو ملاحظہ فرمایا،جب کہ آج کا انسان تر قی کر کے اس نتیجہ پر پهونچا ہے ”خداوندعالم عزیز و حکیم ہے“( ۵۲ )

دوسری آیت :

جس میں قیامت کے منکرین کے اعتقاد کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد قیامت کے بارے میں تاکید و اصرار کیا ہے:

( بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بِنَانَه ) ( ۵۳ )

انگلیوں کے سرے (پورے)کیا خاصیت رکھتے ہیں؟

آج کا سائنس کہتا ہے :

”انگلیوں کے سرے گویا ایک عجیب شئی ہے جن میں لکیریںهوتی ہیں اور ان لکیروں کی شکل و صورت ایک دوسرے انسان سے مکمل طور پر مختلف ہوتی ہیں اگر چہ حسب و نسب میں یا خونی رشتہ میں ایک دوسرے کے قریب ہوں پس اس پورے عالم بشریت میں ایک جیسی انگلیوں کی لکیریں رکھنے والے نہیں پائے جاسکتے۔

سب سے پہلے جب ۱۸۸۴ ء میں انسان کی انگلیوں کی لکیروں کے بارے میں تحقیق پیش کی گئی کیونکہ جس وقت بڑی بڑی دور بین بنائی گئی اور ان کے ذریعہ سے اس بات کو ثابت کیا گیا کہ ہر انسان کے لئے جدا جدااور دقیق لکیریں ہیں جو انسان کی انگلیوں کی کھال میں خوبصورتی بھی عطا کرتی ہیں جس کو خدا وند عالم نے اس کی انگلیوں میںقرار دیا ہے۔ اور جو انسا ن کی شخصیت کی نشاندھی کرتی ہیں۔

یہ تمام لکیریں ایسی بناوٹ اور شکل کی ہوتی ہیں کہ ان کے تمام دقیق اجزاء اور تمام مختلف شکل کاغذ پر آجاتی ہیں ،مثلاًانگلیوں پر روشنائی لگاکر ایک کاغذ پر لگانے سے یہ ساری لکیریں واضح طور پر نمایاں ہو جاتی ہیں ، اسی طریقہ سے انگلیوں کے یہ نشانات لوھے ،شیشے یا چکنی لکڑی وغیرہ پر ظاہر ہو سکتے ہیں ،ایک عالمی رپورٹ کے مطابق ۴۰۰ ملین " Million " لوگوں کی انگلیوں کے نشانات میں سے صرف ایک نشان معمولی طور پر ایک دوسرے سے مشابہ پایا گیا ہے ،لیکن وہ بھی دو افراد میں مکمل طور پر ایک دوسرے سے جدا ہے ، کیو نکہ ان دونوں افراد میں جو شباہت پائی گئی ہے وہ مکمل طور پر ایک دوسرے پر منطبق نہیں ہوتی ۔

آج کے زمانہ میں تو دنیا کی اعلیٰ درسگاهوں میں اس موضوع کے لئے خاص شعبہ جات کھل گئے ہیں ،تاکہ انگلیوں کی لکیروں کے بارے میں مکمل طور پر تحقیق کر سکیں اور بعض معاملات اور بعض حوادث اور چوری وغیرہ میں اشخاص کی پہچان کر سکیں ،کیونکہ کسی بھی چیز پر مثلاً اسلحہ کو پکڑنے یا دروازے یا تالے پر ھاتھ لگا نے سے ھاتھوں کے نشانات ان پر منتقل ہو جاتے ہیں ،اور پھران نشانات کو مشینوں کے ذریعہ کاغذپر اتار لیا جاتا ہے اور ان کو بڑا کر کے مزید واضح کیا جاتا ہے تاکہ انھیں نشانیوں کے ذریعہ متہم اور ملزم کی شناخت ہو سکے۔

واقعاً یہ بات بھی عجیب ہے کہ ھاتھوں کی نشانیوں کا یہ عجیب سسٹم ہے کہ یہ ولادت کے وقت سے آخر وقت تک ثابت رہتی ہیں اور ان میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں آتی ،یھاں تک کہ انسان اپنی عمر کے مختلف حصوں سے گذرتا ہوا رشد ونمو کرتا ہے لیکن ان میں کوئی بھی تحریف کوئی بھی تبدیلی نہیں آتی ،گویا یہ ایک بڑی دور بین کے مابین ہیں جو بچپن کی لکیروں کو دیکھ کر جوانی اور بڑھاپے کے عالم کی لکیروں کو اصل کے مطابق بناتی رہتی ہیں۔

در حقیقت یہ بات بھی تعجب آور ہے کہ جب انسان کے ھاتھوں کی لکیریں کسی حادثہ کی بناپر ختم ہوجاتی ہیں یا جل جاتی ہیں تو نظام قدرت کے تحت یہ پھر دوبارہ اپنی اسی پرانی حالت کے مطابق نقشہ بناتی ہیں جو بالکل پرانی شکل سے ملتی ہیں، یعنی ان میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس علم کے ما ھرین نے ان خطوط اور لکیروں کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:

۱ ۔فصیلة الخطوط المتقوسة ،(قوس دار لکیریں )

۲ ۔فصیلة الخطوط المرادیة ۔(جالی ٹائپ کی)

۳ ۔ فصیلة الخطوط الدوامیة ۔(گول او ردائرہ والی) جو ایک دوسرے پر چڑھی رہتی ہیں جو آہستہ آہستہ اندر کی طرف باھر کی طرف کو پھیلتی بھی ہیں اور یہ وسط میں موجود مر کز میں پائی جاتی ہیں۔

۴ ۔فصائل المرکبات ،یہ گذشتہ تینوں قسموں سے مل کر بنتی ہے ،اورصرف یھی قسم دوسرے لوگوں سے ملتی جلتی ہوتی ہے،لیکن ان کا پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔

المختصر آج کے دور میں جرائم کی دنیا میںان لکیروں کے ذرریعہ بہت سے جرائم کو کشف کرلیا جا تا ہے یھاں تک کہ ہزاروں انکشافات اس الٰھی راز سے ہوتے رہتے ہیں جس کو خداوند عالم نے انسان کی ھاتھ کی انگلیوں کے سرے میں قرار دیا ہے۔

واقعاً اسلام نے پہلے ہی روز جسم میں پو شیدہ اس عظیم راز کی طرف نشاندھی کر دی تھی اور قرآن مجید نے لوگوں کے ذہنوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ ہر انسان کی انگلیوں کے سرے پرخاص لکیریں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے ذرہ برابر بھی نہیں ملتی ۔( ۵۴ )