‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110401 / ڈاؤنلوڈ: 3821
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

پیغمبر انسانوں کی اس سفر میں مدد دیتے ہیں، ان کی راہنمائی کرتے ہیں_ اگر ہم پیغمبروں کے کلام اور ان کی راہنمائی کی اطاعت کریں تو آخرت کے سفر کے راستے کو سلامتی اور کامیابی سے طے کرلیں گے اور اپنے مقصد تک پہونچ جائیں گے''_

اس کے سننے کے بعد دوبارہ میرے دل میں وہ خطرہ یاد آیا جو مجھے راستے میں پیش آیا تھا داؤدی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہ کہ یہ سفر ہم نے اس راہنما کی راہنمائی اور مدد سے سلامتی کے ساتھ طے کیا ہے اور ہم اپنے مقصد تک پہنچ گئے ہیں_ جناب داؤدی نے ہماری طرح اپنے اوپر کمبل اوڑھ رکھا تھا میری طرف شکریہ کی نگاہ کی اور کہا کہ

''یقینا ہم مقصد تک پہنچ جائیں گے بشرطیکہ ہم پیغمبروں کی راہنمائی پر عمل کریں اور آخرت کے سفر کے لوازمات اور اسباب مہیا کریں''_

اس کے بعد ایک نگاہ لڑکوں پر ڈالی اور پوچھا: ''لڑکو کیا جانتے ہو کہ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے زاد راہ اور توشہ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

''پیغمبروں نے فرمایا ہے کہ آخرت کے سفر کا زاد راہ ایمان و تقوی اور عمل ہے، ہر انسان کی سعادت اس کے عمل اور رفتار سے وابستہ ہے، انسان جو بھی اس دنیا میں بوئے گا اسے آخرت میں کائے گا اگر اس دنیا میں خوبی کرے گا تو آخرت میں خوبی دیکھے گا اور بدی کرے گا تو آخرت میں بدی دیکھے گا_

ہر ایک انسان کا سعادتمند ہونا یا شقی ہونا، بلند و بالا یا پست و ذلیل ہونا اس کے کاموں اور اعمال سے وابستہ ہے، جو انسان پیغمبروں کی راہنمائی پر عمل کرتا ہے آخرت کے سفر کو سلامتی کے

۱۰۱

ساتھ طے کرے گا اور بلندترین مقام و سعادت کو پالے گا''_

جناب داؤدی کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو انھوں نے اپنی نگاہ ستاروں سے پر آسمان کی طرف اٹھائی اور کافی دیر تک چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھتے رہے تھوڑی دیر بعد لمبی سانس لی اور کہا:

''لڑکو تم تھک گئے ہو ہوجاؤ میں اور تمھارے باپ باری باری جاگتے اور پہرہ دیتے ہیں گے، تم میں سے جو بھی چاہے باری باری پہرہ دے سکتا ہے_ اللہ کی یاد کے ساتھ ہوجاؤ اور صبح جلدی بیدار ہوجانا کہ کل ایک بہت عمدہ پروگرام سامنے ہے''_

۱۰۲

سوالات

غور سے مندرجہ ذیل سوالات کو پڑھو، بحث کرو اور یاد کرلو

۱) ___ باقر نے یہ کیوں کہا کہ کوہ پیمائی کے لئے ایک راہنما انتخاب کرو، آخر کون سی مشکلات کا سامنا تھا؟

۲)___ کس نے کہا تھا کہ راہنما کی کیا ضرورت ہے؟ اس نے اپنے اس مطلب کے لئے کیا دلیل دی تھی؟ اس کی دلیل درست تھی؟ اور اس میں کیا نقص تھا؟

۳)___ باقر نے اسے کس طرح سمجھایا کہ راہنما کی ضرورت ہے اسے اس مطلب کے سمجھانے کے لئے کون سے سوالات کئے؟

۴)___ کیا اس نے باقر کی گفتگو کے بعد راہنما کی ضرورت کو قبول کرلیا تھا؟ واقعا اس نے کس وقت اسے قبول کیا تھا؟ خود اسی درس سے اس کی دلیل بیان کرو_

۵)___ کس نے لڑکوں کی راہنمائی اور راہبری کو قبول کیا؟ اس نے چلنے کے لئے کون سے دستورات دیئے؟ کون سے وسائل کا ذکر کیا کہ انھیں ساتھ لے آئیں اس نے خود اپنے ساتھ کن چیزوں کے لے آنے کا وعدہ کیا تھا؟

۶)___ جب صبح کی نماز پڑھ چکے اور پہاڑ پر چڑھنے کے لئے تیار ہوگئے تو راہنما نے کون سے دستورات کی یادآوری کی؟ وہ کون سے دستور تھے؟ تمھاری نگاہ میں اس دستورات میں سے کس کو اہمیت دی گئی تھی؟

۷)___ جب کبھی راستہ سخت اور دشوار آجاتا تو راہنما لڑکوں کو کیا ہدایت دیتا؟

۸)___ ہادی نے کیسے قبول کرلیا کہ راہنما اور راہبر کا وجود ضروری اور لازمی ہوتا ہے؟

۱۰۳

۹)___ جناب داؤدی کی نگاہ میں مہم ترین اور پر اسرارترین سفر کون سا تھا؟

۱۰)___ جناب داؤدی نے اس مہم اور اسرار آمیز سفر کے بارے میں لڑکوں سے کون سے سوالات کئے تھے؟

۱۱)___ باقر کے باپ نے جناب داؤدی کے سوالات کا کیا جواب دیا تھا؟ پیغمبر جو آخرت کے سفر کے راہنما ہیں کون سی ذمہ داری ان کے ذمّے ہوا کرتی ہے؟ کس صورت میں ہم سلامتی اور کامیابی کے ساتھ مقصد تک پہنچ سکتے ہیں؟

۱۲)___ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے کون سا توشہ اور زادہ راہ بیان کیا ہے ہر انسان کا بلند مقام یا پست مقام پر جانے کو کس سے مربوط جانا ہے؟

۱۳)___ جب تمام لڑکے سوگئے تو جناب داؤدی نے رہبری کا کون سا وظیفہ انجام دیا؟

۱۴)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ لڑکوں کے کل کا بہترین پروگرام کیا تھا؟

۱۰۴

پیغمبر یا آخرت کے سفر کے راہنما

انسان کی روح اور جان بہت سے مخفی راز رکھتی ہے_ کیا انسان اپنی روح و جان کے رموز سے پوری طرح واقف ہے؟ انسان کے سامنے بہت زیادہ ایسے سفر کہ جو اسرار آمیز ہیں موجود ہیں_ کیا انسان ایسے سفروں اور زندگی سے پوری اطلاع رکھتا ہے؟ کیا آخرت کے زاد راہ سے جو ضروری ہیں آگاہ ہے؟ کیا انسان، ارتقاء اور سعادت تک پہونچنے کے راستوں کو پہچانتا ہے؟ کیا راستوں کی دشواریوں اور ایسے موڑوں سے کہ جن سے انسان گرسکتا ہے خبردار ہے؟

ان سوالوں کا جواب کون سے افراد دے سکتے ہیں؟ کون سے حضرات سیدھے راستے اور کج راستے واقف ہیں؟ کون سے حضرات انسان کا راستہ بتلا سکتے ہیں ؟ کون سے حضرات انسانوں کو ان راستوں کی راہنمائی اور مدد دے سکتے ہیں؟ خدا کے فرستادہ پیغمبر ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں پس انسان ہمیشہ پیغمبروں اور راہنماؤں کے وجود کا محتاج رہا ہے اور رہے گا_

خداوند عالم کہ جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور ان کی ضروریات کو ان کے لئے فراہم کیا ہے اور انھیں ارتقاء کی راہ تک پہونچا دیا ہے_ انسان کو یعنی موجودات عالم میں سے

۱۰۵

کامل ترین اور اہم ترین موجود کو زندگی کے پر خطر آخرت کے سفر کے لئے رہبر اور راہنما کے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ اسے ا رتقاء و ہدایت اور تمام قسم کی مدد کے لئے راہنما چنا اور انھیں مبعوث کیا ہے صرف ذات الہی ہے کہ جو انسان کے جسم اور روح کے رموز اور اسرار اور اس کے گذشتہ اور آئندہ سے آگاہ ہے اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی سے پوری طرح واقف ہے_

کون اللہ تعالی سے زیادہ اور بہتر انسان کی خلقت کے رموز سے آگاہ ہے؟ کون سی ذات سوائے اللہ کے انسان کی سعادت اور ارتقاء کا آئین اس کے اختیار میں دے سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جس خدائے مہربان نے انسان کو پیدا کیا ہے اسے اس قسم کے دشوار راستے کے طے کرنے کے لئے بغیر رہبر، آئین اور راہنما کے چھوڑ دیا ہو؟ نہیں اور ہرگز نہیں اللہ تعالی نے انسان کو اس مشکل اور پیچیدہ سفر کے طے کرنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑ رکھا بلکہ اس کے لئے راہنما اور راہبر بھیجا ہے_

پیغمبروں کو اللہ تعالی نے انسانوں میں سے چنا ہے اور ضروری علوم انھیں بتایا ہے تا کہ وہ لوگوں کی مدد کریں اور انھیں ارتقاء کی منزلوں تک پہونچنے کے لئے ہدایات فرمائیں_ پیغمبر صحیح راستے اور غیر صحیح راستے کو پہچانتے ہیں اور وہ ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہوا کرتے ہیں، اللہ تعالی کا پیغام لیتے ہیں اور اسے بغیر زیادتی و کمی کے لوگوں تک پہونچاتے ہیں پیغمبر چنے ہوئے لائق انسان ہوتے ہیں کہ دین کا آئین انھیں دیا جاتا ہے اور اپنی گفتار و کردار سے لوگوں کے لئے نمونہ ہوا کرتے ہیں_ جب سے انسان پیدا کیا گیا ہے اور اس نے اس کرہ ارض پر زندگی شروع کی ہے تب سے ہمیشہ اس کے لئے پیغمبر موجود رہے ہیں_

پیغمبر لوگوں کی طرح ہوتے تھے اور انھیں جیسی زندگی بسر کرتے تھے اور لوگوں

۱۰۶

کو دین سے مطلع کرتے تھے، لوگوں کے اخلاق و ایمان اور فکر کی پرورش اور رشد کے لئے کوشش کرتے تھے، لوگوں کو خدا اور آخرت کی طرف جو ہمیشہ رہنے والا ہے متوجہ کرتے تھے_

خداپرستی، خیرخواہی، خوبی اور پاکیزگی کی طرف ان کی روح میں جذبہ اجاگر کرتے تھے، شرک و کفر اور مادہ پرستی سے مقابلہ کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ ظلم و تجاوزگری سے جنگ کرتے تھے، پیغمبر لوگوں کو اچھے اخلاق اورنیک کاموں کی طرف دعوت دیتے تھے اور برے اخلاق ، پلید و ناپسندیدہ کردار سے روکتے تھے، سعی و کوشش، پیغمبروں اور ان کے ماننے والوں کی راہنمائی سے بشر کے لئے ارتقاء کی منزل تک پہونچنا ممکن ہوا ہے_

سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہیں اور دو کے درمیان بہت سے پیغمبر آئے ہیں کہ جن کو پیغمبر اسلام(ص) نے ایک حدیث کی روسے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بتلایا ہے_ پیغمبر قبیلوں، دیہاتوں، شہروں او رملکوں میں بھیجے جاتے تھے اور وہ لوگوں کی راہنمائی، تعلیم و تربیت میں مشغول رہتے تھے_

کبھی ایک زمانہ میں کئی ایک پیغمبر مختلف مراکز میں تبلیغ کرتے تھے، پیغمبروں کی رسالت اور ذمہ داری کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوا کرتا تھا بعض پیغمبر صرف قبیلہ یا دیہات یا ایک شہر یا کئی شہروں اور دیہاتوں کے لئے مبعوث ہوا کرتے تھے لیکن ان میں سے بعض کی ماموریت کا دائرہ وسیع ہوتا یہاں تک کہ بعض کے لئے عالمی ماموریت ہوا کرتی تھی_

پیغمبروں کا ایک گروہ کتاب آسمانی رکھتا تھا لیکن بہت سے پیغمبر آسمانی کتب نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کی شریعت کی تبلیغ کرتے تھے، آسمانی تمام

۱۰۷

کی تمام کتابیں اب موجود نہیں رہیں ایک سو چار آسمانی کتابیں تھیں_ بعض پیغمبر صاحب شریعت ہوا کرتے تھے لیکن بعض دوسرے پیغمبر شریعت نہیں لائے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کی شریعت کی ترویج کیا کرتے تھے_

حضرت نوح (ع) ، حضرت ابراہیم (ع) ، حضرت موسی (ع) و حضرت عیسی (ع) اور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم ممتاز و بزرگ پیغمبروں میں سے تھے ان پانچ پیغمبروں کو اولوالعزم پیغمبر کہا جاتا ہے کہ ان میں ہر ایک صاحب شریعت تھا_

ہم مسلمان اللہ تعالی کے تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، اور سبھی کو اللہ تعالی کا بھیجا ہوا پیغمبر مانتے ہیں، ان کی محنت اور کوشش کا شکریہ ادا کرتے ہیں_ ہمارا وظیفہ ہے کہ حضرت موسی (ع) اور حضرت عیسی (ع) کے پیروکاروں کو کہ جنھیں یہودی اور عیسائی کہا جاتا ہے اور زردشتیوں سے بھی نیکی اور مہربانی سے پیش آئیں اور اسلام کی روسے جوان کے اجتماعی حقق ہیں ان کا احترام کریں_

۱۰۸

سوالات

فکر کیجئے، بحث کیجئے اور صحیح جواب تلاش کیجئے

۱)___ انسانوں کا پیغمبروں اور راہنماؤں کے محتاج ہونے کی علت کیا ہے؟

۲)___ انسانوں کے رہبر اور راہنما انسان کی پر خطر زندگی اور آخرت کے سفر کے لئے کون سے حضرات ہونے چائیں؟

۳)___کون زیادہ اور بہتر طور پر انسان کی خلقت کے راز سے آگاہ ہے اور کیوں؟

۴)___ پیغمبروں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ضروری معلومات کو پیغمبروں کے لئے کون فراہم کرتا ہے اور پیغمبروں کی ذمہ داریوں کون معین کرتا ہے؟

۵)___ کون سے ہدف کے لئے پیغمبروں کی دعوت اور کوشش ہوا کرتی تھی،

۶)___ پیغمبر اسلام(ص) نے پیغمبروں کی تعداد کتنی بتلائی ہے، آسمانی کتابوں کی تعداد کتنی ہے؟

۷)___ کیا پیغمبروں کی ماموریت کا دائر اور حدود ایک جیسے تھے اور کس طرح تھے؟

۸)___ اولوالعزم پیغمبر کون تھے، ان کی خصوصیت کیا تھی؟

۹)___ دوسرے پیغمبروں کے پیروکاروں کے متعلق ہمارا وظیفہ کیا ہے؟

۱۰)___ ہم مسلمانوں کا دوسرے پیغمبروں کے متعلق کیا عقیدہ ہے، ہم کیوں ان کا احترام کرتے ہیں؟

۱۰۹

پیغمبروں کی انسان کو ضرورت

انسان کا ہر فرد اس دنیا میں راستے کو ڈھونڈتا اور سعادت مندی طلب کرتا ہے پیاسا پانی کی طلب میں ادھر ادھر دوڑتا ہے کبھی ایک خوبصورت چمک کہ جو میدان میں نظر آتی ہے پانی سمجھ کر اس کی طرف جلدی سے دوڑتا ہے لیکن جب اس کے نزدیک پہونچتا ہے تو پانی نہیں پاتا اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑتا رہا تھا_

ایک مہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی اس دنیا وی زندگی کے علاوہ ایک اور زندگی بھی ہے، آج کے دن کے علاوہ ایک اور دن بھی آنے والا ہے، انسان اس جہاں کے علاوہ ایک اور ابدی دنیا (آخرت) میں بھی جانے والا ہے اور اس جہاں میں ہمیشہ کے لئے زندگی بسر کرے گا، کل آخرت میں اس دنیاوی جہان میں جو بویا ہوگا کاٹے گا_ انسان آخرت میں یا سعادت مند اور نجات پانے والا ہوگا یا شقی و بدبخت ہوگا_ انسان کے آخرت میں سعادت و شقاوت کا سرچشمہ اس دنیا کے اعمال ہیں اور یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے_

آج کون سا بیج بویا جائے تا کہ کل اس کا اچھا محصول حاصل کیا جائے؟ کون سا عمل انجام دیا جائے تا کہ آخرت میں سعادت مند ہوجائے؟ کس راستہ پر چلا جائے تا کہ آخرت میں اللہ تعالی کی عمدہ نعمتوں تک رسائی حاصل ہوسکے؟ کون سے برنامہ پر عمل کرے؟ کس طرح صحیح راستے کو غلط راستے سے پہچانے؟ کون راہنما ہو؟

انسان کا عمل اور کردار سعادت و کمال یا شقاوت و بدبختی کا موجب ہوا کرتا ہے

۱۱۰

لہذا انسان اپنے اعمال اور زندگی کے لئے ایک دقیق و جامع پروگرام کا محتاج ہے، ایسا پروگرام کہ جس میں انسان کی دنیاوی مصالح اور اخروی مصالح کی رعایت کی گئی ہو جس میں انسان کے جسم کا بھی لحاظ کیا گیا ہو اور اس کی روح و جان کا بھی لحاظ کیا گیا ہو_ زندگی کے اصول کو ایسا بنایا گیا ہو کہ اس کی زندگی اور آخرت پر اس کی روح کے لئے اس طرح پروگرام مرتب کیا گیا ہو کہ اسے حقیقی ارتقاء اور سعادت کے راستے پر ڈال دے تا کہ امن و قرب اور رضوان کی منزل تک فائز ہوسکے_

چند ایک سوال

کیا انسان اپنی عقل اور تدبیر سے اس قسم کا دقیق اور کامل آئین اپنے لئے منظم کرسکتا ہے؟ کیا وہ اپنی نفسانی اور آخرت کی ضروریات سے پوری طرح آگاہ ہے؟ کیا وہ اپنی اور جہان کی خلقت کے اسرار و رموز سے مطلع ہے؟ کیا انسان، روح کا جسم ہے کس طرح کا ارتباط ہے اور دنیاوی زندگی کس طرح اخروی زندگی سے مربوط ہے، سے مطلع ہے؟ کیا انسان تشخیص دے سکتا ہے کہ کون سے امور موجب ہلاکت و سقوط اور کون سے امور انسان کے نفس کو تاریک، سیاہ و آلودہ اور کثیف کردیتے ہیں؟ کیا انسان تنہا سعادت کے راستے کو غیر سعادت کے راستے سے تمیز دے سکتا ہے؟ ایسا نہیں کرسکتا، ہرگز نہیں کرسکتا اور اس قسم کی وسیع اطلاع نہیں رکھتا_

انسان اپنی کوتاہ عمر اور محدود فکر کے ذریعہ اپنی اخروی اور نفسانی سعادت اور ارتقاء کا آئین منظم نہیں کرسکتا_ پس کون شخص ایسا کرسکتا ہے؟

۱۱۱

سوائے ذات خدا کے ایسا اور کوئی نہیں کرسکتا وہ ذات ہے کہ جس نے انسان اور تمام جہان کو پیدا کیا ہے اور اس کے اسرار و رموز سے پوری طرح آشنا و آگاہ ہے اور سعادت و شقاوت کے اسباب وعوامل کو اچھی طرح جانتا ہے_ وہ ذات ہے جو انسان کی سعادت اور ارتقاء کے آئین کو منظم و مدوّن کرسکتی ہے اپنے بہترین بندوں کو اس قسم کا برنامہ دے کر انسانوں تک پہونچاتی ہے تا کہ انسان خدا کے نزدیک کوئی عذر نہ پیش کرسکے_

زندگی کے آئین اور اصول کا نام دین ہے کہ جسے خدا پیغمبروں کے ذریعے جو راہنما اور راہ شناس ہیں انسانوں تک پہونچاتا ہے، پیغمبر ممتاز اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں کہ جو اللہ تعالی سے خاص ربط رکھتے ہیں، انسان کو جاودانی زندگی دینے والا آئین خدا سے لیتے ہیں اور انسانوں تک اسے پہونچاتے ہیں_ پیغمبر انسان کی اس فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور خدا دوستی موجود ہے کون اجاگر کرتے ہیں اور اس کے راستے کی نشاندہی کرتے ہیں اور س تک پہونچنے کے راستے کو طے کرنے میں مدد دیتے ہیں تاکہ انسان اپنے خالق و خدا کو بہتر پہچانے اور اس سے آشنا ہو_ اچھے اور برے اخلاق کی شناخت میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، تذکیہ نفوس، دین کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور معاشرہ کی دیکھ بھال میں کوشش کرتے ہیں، انھیں کامل عزت اور عظمت تک پہونچاتے ہیں_

ان انسانوں کو خوشخبری ہو جو پیغمبروں کے نقش قدم پر چلتے اور اپنی دنیا کو آزادی سے سنوارتے ہیں اور آخرت میں بھی کمال سعادت و خوشنودی اور اللہ تعالی کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں اور پیغمبروں کے جوار میں با عزت سکونت اختیار کرتے ہیں_

قرآن کی آیت:

انا ارسلناک بالحق بشیرا و نذیراً و ان من امّة الّا خلافیها نذیر

۱۱۲

''ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو''_(۱)

____________________

سورہ فاطر آیت نمبر ۲۴

۱۱۳

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ اس دنیا کے اعمال کا نتیجہ آخرت میں کس طرح ملے گا؟

۲)___ آخرت میں انسان کی دو حالتیں ہوں گی وہ دو حالتیں کیا ہیں؟

۳)___ انسان کی زندگی کے آئین میں کن چیزوں کا لحاظ کیا جانا چاہیئے؟

۴)___ کیا انسان اپنی زندگی کے لئے ایک جامع اور کامل قانون خود بنا سکتا ہے؟

۵)___ انسان کی سعادت اور ارتقاء کے آئین کو کون منظم کرتا ہے اور اسے کس کے ذریعہ پہونچاتا ہے؟

۶)___ خدا کے پیغمبر پر انسان کی ہدایت کے لئے کون سی ذمہ داری ہے؟

۷)___ دین کیا چیز ہے، دین کا فائدہ انسان کی دنیا اور آخرت میں کیا ہوتا ہے؟

۱۱۴

پیغمبری میں عصمت ، شرط ہے

خداوند عالم نے پیغمبروں کو چنا ہے اور انھیں بھیجا ہے تا کہ وہ ان قوانین کو لوگوں تک پہونچائیں جو دینی زندگی کا موجب ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کی سرپرستی و راہنمائی کریں، ارتقاء کے سیدھے راستے اور اللہ تعالی تک پہونچنے کے لئے جو صرف ایک ہی سیدھا راستہ ہے، لوگوں کو بتلائیں، ان کی ہدایت کریں اور انھیں مقصد تک پہونچائیں، سعادت آور آسمانی آئین پر عمل کرنے اور دنیوی و اخروی راہ کو طے کرنے میں قول و فعل سے لوگوں کی مدد کریں، اللہ تعالیی کے قوانی کو جاری کر کے ایک اجتماعی نظام وجود میں لائیں اور اس کے ذریعہ انسانی کمالات کی پرورش کریں اور رشد کے لئے زمین ہموار کریں_

پیغمبروں کی ذمہ داریوں کو تین حصول میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱)___ قوانین الہی کو وحی کے ذریعہ حاصل کریں_

۲)___ اللہ تعالی سے حاصل شدہ قوانین اور آئین کو بغیر کسی اضافہ و کمی کے لوگوں تک پہونچائیں_

۳)___ ان قوانین اور الہی آئین کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی قولی اور عملی مدد کریں_

۱۱۵

سوالات

اس کے بعد اب ان سوالات میں خوب غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی انسان کو پیغام الہی کے لینے کے لئے معین کرے اور وہ اس میں خطا کا مرتکب ہو؟ خطا کرنے والا انسان کسی طرح اللہ تعالی کے واضح پیغام کو بغیر کسی اضافہ اور کمی کے پوری طرح لوگوں تک پہونچا سکتا ہے؟

۲)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو پیغمبری کے لئے چنے اور وہ اللہ تعالی کے پیغام پہونچانے میں خطا مرتکب ہوجائے؟ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو پیغمبری کے لئے انتخاب کرے اور وہ آسمانی آئین و احکام میں تحریف کردے؟ کیا اس صورت میں اللہ تعالی کی غرض پیغمبر کے بھیجنے میں حاصل ہوجائے گی؟ کیا اللہ کا دین اور پیغام لوگوں تک صحیح پہونچ جائے گا؟

۳)___ ان قوانین اور الہی آئین کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی قولی اور عملی مدد کریں_

۱۱۶

ہرگز نہیں خداوند عالم ایسے افراد کو جو غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں پیغام الہی کے لینے اور لوگوں تک پہونچانے کے لئے ہرگز انتخاب نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہونچائے اور حق قبول کرنے والے لوگوں کو مقصد تک پہونچائے اس غرض کے حصول کے لئے اللہ تعالی ایسے افراد کا انتخاب کرے گا جو معصوم ہوں یعنی:

۱)___ قوانین اور دین الہی کے لینے میں غلطی نہ کریں_

۲)___ اللہ تعالی کے قوانین اور آئین کو لوگوں تک بغیر کسی اضافہ اور کمی کے پہونچائیں اور کسی قسم کی خطا و تحریف اور نافرمانی کو جائز نہ سمجھیں_

۳)___ دین کے واضح احکام پر عملکرانے میں لوگوں کی عملی و قولی مدد کریں اور خود پورے طور پر اس پر عمل کریں اور لوگوں کو اس پر عمل کرائیں _

خداوند عالم کے پیغمبر قوی اور ملکوتی ارادے کے مالک اور روحانی بصیرت رکھن والے افراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے کامل پیغام پر ایمان رکھتے ہیں، وفادار ہوتے ہیں اور جو کچھ پہونچاتے اور کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں ایسے افراد اپنی بصیرت اور ہنرمندی کے لحاظ سے تمام انسانوں کے لئے کامل نمونہ ہوتے ہیں لوگ ان کی رفتار و گفتار کی پیروی کرتے ہیں_

''عصمت'' یعنی وہ عظیم طاقت وبصارت جو پیغمبر کے وجود سے مختص ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی ذمہ داری کے بجالانے میں اس کی مدد کرتی ہے اورانھیں خطا سے محفوظ رکھتی ہے_

قرآن کی آیت:

( و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله ) (نساء آیہ ۴۳)

'' ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ لوگ اس کی حکم الہی سے اطاعت کریں''

۱۱۷

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبروں کی وہ ذمہ داری جو تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے اسے بیان کیجئے_

۲)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے انسان کو اپنے پیغام لینے کے لئے انتخاب کرے جو خطا کا مرتکب ہوسکے، کیوں؟ وضاحت کیجئے _

۳)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے کو پیغمبری کے لئے چنے کہ جو اللہ تعالی کے پیغام کو ناقص اور تحریف شدہ لوگوں تک پہونچائے، کیوں؟ وضاحت کیجئے

۴)___ کیا ممکن ہے خداوند عالم ایسے شخص کو پیغمبری کے لئے منتخب کرے کہ جو اللہ تعالی کے احکام اور دستور پر عمل کرانے میں غلطی کرے ، کیوں؟ وضاحت کیجئے_

۵)___ خداوند عالم جسے پیغمبری کے لئے منتخب کرتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے، معصوم کی تین صفات کو بیان کیجئے_

۶)___ عصمت سے کیا مراد ہے؟

۷)___ پیغمبر کن لوگوں کو حقیقی سعادت اور مقصد تک پہونچاتے ہیں؟

۸)___ معاشرہ میں فضائل انسانی کس طرح رشد اور پرورش پاسکتے ہیں؟

۱۱۸

پیغمبروں کا ایک برنامہ اور پروگرام اللہ تعالی پر ایمان کا لانا ہے

پیغمبر اسلام(ص) نے صبح کی نماز مسجد میں پڑھی نماز کے بعد لوگوں کی طرف منھ کیا تا کہ ان کی احوال پرسی کریں اور ان کے حالات کو جانیں لوگوں کی صف میں ایک نوجوان کو آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد، بدن لاغر اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں نمازیوں کی صف میں بیٹھا ہوا تھا اور کبھی بے اختیار اپنی پلکوں کو بند کرتا اور اونگھ رہا تھا ایسا ظاہر کر رہا تھا کہ گویا ساری رات نہیں سویا اور عبادت و نماز میں مشغول رہا ہے_ پیغمبر اسلام(ص) نے اسے آواز دی اور پوچھا کہ ''تو نے صبح کیسے کی؟ '' جواب دیا: ''یا رسول اللہ (ص) یقین اور خدائے وحدہ پر ایمان کی حالت میں''

''ہر ایک چیز کی کوئی نہ کوئی علامت اور نشانی ہوا کرتی ہے تیرے ایمان اور یقین کی کیا علامت ہے؟ '' یا رسول اللہ (ص) ایمان اور یقین آخرت کے عذاب سے خوف و ہراس کا موجب ہوا ہے، خوراک اور خواب کو کم کردیا ہے دنیاوی امور میں بے رغبت ہوگیا ہوں گویا اپنی آنکھوں سے قیامت برپا ہونے کو دیکھ رہا ہوں اوردیکھ رہا ہوں کہ لوگ حساب و کتاب کے لئے محشور ہوگئے ہیں اور میں بھی ان میں موجود ہوں گویا بہشت والوں کو بہشتی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا

۱۱۹

دیکھ رہا ہوں کہ بہشتی بہترین مسند پر بیٹھے شرین گفتگ میں مشغول ہیں_

یا رسول اللہ (ص) جہنمیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ عذاب میں گریہ و نالہ اور استغاثہ کر رہے ہیں گویا ابھی دوزخ کی آگ اور عذاب کی آواز سن رہا ہوں''

پیغمبر اسلام (ص) نے اصحاب کی طرف جو حیرت سے اس جوان کی گفتگو سن رہے تھے متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ:

'' یہ جوان ایسا اللہ کا بندہ ہے کہ خداوند عالم نے ایمان کے وسیلہ سے اس کے دل کو روشن اور نورانی کردیا ہے''

آپ نے اس کے بعد اس جوان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ ''اے جوان تو نے بہت عمدہ حالت پیدا کی ہوئی ہے اور اس حالت کو ہاتھ سے نہ جانے دینا''_

یا رسول اللہ (ص) شہادت کی تمنا اور آرزو رکھتا ہوں دعا کیجیئے کہ راہ خدا میں شہید ہوجاؤں''_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے لئے شہادت کی دعا کی تھوڑی مدت گذری تھی کہ ایک جنگ واقع ہوئی اس جوان نے مشتاقانہ طور سے فوجی لباس پہنا، اسلام کے پاسداروں اور جہاد کرنے والوں کے ساتھ اس جنگ کی طرف روانہ ہوگیا، بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر حملہ آور ہوا اور شمشیر سے پے در پے دشمن پر حملہ کرنے لگا اور بالآخر اپنی قدیم امید تک پہونچا اور میدان جنگ میں راہ خدا میں شہید ہوگیا_

خداوند عالم اور فرشتوں کا درود و سلام ہو اس پر، تمام شہیدوں اور غیور اسلام پہ قران ہونے والوں پر_

تمام پیغمبروں کو امر کیاگیا ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالی پر ایمان لے آنے کی دعوت دیں، یقین کے درجہ تک پہونچائیں، واضح و روشن خدائی پیغام اور سعادت بخش آئین کو ان کے اختیار میں قرار دیں اور اللہ تعالی کے تقرّب کے راستے

۱۲۰

بتلائیں_

اللہ تعالی کے واضح پیغام کے علم کے بغیر لوگ کس طرح صحیح زندگی کو درک کرسکتے ہیں___؟ کس طرح ایمان اور یقین کے بغیر دنیاوی و اخروی سعادت کو حاصل کرسکتے ہیں؟ واقعا کون سی ذات سوائے خداوند عالم کے لوگوں کی زندگی اور آزادی کے لئے رہنما ہوسکتی ہے؟

پیغمبروں کا سب سے اہم کام لوگوں کو ایمان کی دعوت دینا ہوتا ہے، ایک انسان کے لئے سب سے قیمتی اور عظیم ترین چیز خدائے وحدہ اور اس کے درست دعؤوں پر ایمان لانا، اس کی عبادت و پرستش کرنا اور اس ذات سے انس و محبت کرنا ہوتا ہے کیونکہ خدا کی معرفت، اس سے محبت کرنا، اس پر ایمان لے آنا اور اس کی اطاعت ہی وہ تنہا ہدف و غایت ہے کہ جس کیلئے تمام جہاں کو خلق کیا گیا اور یہی انسان کے حقیقی ارتقاء کا تنہا راستہ ہے_

پیغمبر دلائل، براہین، اسرار و رموز کے بیان کرنے اور دنیا کے عجائب کے اظہار کرنے سے انسان کی فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور حق موجود ہوتا ہے بیدار کرتے ہیں اور زیباترین و عظیم ترین ارزش تک پہونچنے کے لئے حرکت کی راہ اور وہاں تک پہونچنے کے راستے بتلاتے ہیں_ دنیا میں نظم، ہم آہنگی و زیبائی اور شگفتی جو عالم کی خلقت میں موجود ہے، کی وضاحت کرتے ہیں تا کہ لوگ اللہ تعالی کی قدرت عظمت، حکمت و دانائی اور توانائی تک رسائی حاصل کرسکیں_

اللہ تعالی کی نعمتوں کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے راہنمائی کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ لوگوں کی خوابیدہ عقل کو بیدار و ہوشیار کرتے ہیں_

۱۲۱

پیغمبر اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ لوگوں کی بدبختی کا سب سے بڑا عامل اور سبب خدائے مہربان کو فراموش کردینا اور اللہ تعالی سے کفر، انکار، بے ایمانی اور مادی گری ہوا کرتا ہے_ لوگوں کا سعادت مند ہونے کا تنہا سبب اللہ تعالی پر ایمان لے آنا اور خدا کی طرف توجہ کرنا ہوتا ہے_

واقعاً جو انسان خداپر ایمان نہیں رکھتا وہ کس امید پر زندگی بسر کرتا ہے___؟ جو شخص خداوند عالم کے پیغام پر ایمان نہیں رکھتا وہ کس کے پیغام پر ایمان لاتا ہے___؟ کون سے پیغام کے سننے سے اپنے آپ کو حیرت اور سرگردانی سے نجات دیتا ہے؟ کون سے مدہ کے سننے سے اپنے اندرونی اضطراب اور مخفی پریشانی کو سکون دے سکتا ہے؟

صرف خدا پر ایمان ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کا اندرونی نوری چشمہ پھوٹ سکتا ہے اور باطنی کثافت و روحی تاریکیوں کو برطرف کرسکتا ہے اور یہی مومن کے دل کو اطمینان اور صفا بخشا ہے_ واقعا مومن اللہ کی سب سے بہترین مخلوق ہے وہ خدا اور ارتقاء کی راہ کوپالیتا ہے اور اس پر ثابت قدم رہتا ہے_ مومن اپنی زندگی کا آئین پیغمبروں سے حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالی کے دستور کے سامنے سر نیاز خم کردیتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتا ہے، ہمیشہ اسی کی یاد میں رہتا ہے، خدا پر اعتماد کرنے میں خوش اور دل گرم رہتا ہے اور اس کی رضا کے حاصل کرنے میں دن رات کو شاں رہتا ہے_

خلاصہ خدا کے علاوہ دوسروں سے امیدوں کو قطع کر کے صرف خدا ہی سے اپنی امیدیں وابستہ رکھتا ہے، دل کی گہرائی سے خدا سے راز و نیاز کرتا رہتا ہے ، مشکلات اور احتیاجات کے دور رکرنے میں اسی سے پناہ لیتا اور اسی سے مدد مانگتا ہے_

خداوند عالم بھی ایسے مومن کو دوست رکھتا ہے، اپنی غیبی قوت اور امداد سے اس کی مدد کرتا ہے لہذا مومن کہ جس کا محبوب خدا اور خدا کا محبوب وہ خود ہے، کسی سے نہیں

۱۲۲

ڈرتا کیونکہ اس کا حامی خدا ہے لہذا تمام طوفان اورحوادث کے مقابل پہاڑوں کی طرح ثابت قدمی سے مقاومت کرتا رہتا ہے، مومن ایک آزاد انسان ہوتا ہے جو اللہ کی بندگی کو قبول کر کے طاغوتوں اور ظالمں کی بندگی، زر و جواہر اور جادہ و مقام کی پرستش سے آزاد ہوجاتا ہے، کائنات اور اس میں موجود مخلوق کو خدا کی نشانی جانتا ہے، تمام جہاں کا مدبر اور مدیر خدا کو مانتا ہے_

اس کے ارادہ کو تمام جگہوں پر نافذ مانتا ہے صرف اور صرف اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور کسی دوسرے کے سامنے سر ذلت نہیں جھکاتا اور ایک جوان کی طرح ظالموں پر حملہ آور ہوتا ہے، شہادت کی آرزو کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوجاتا ہے_ پیغمبر، خدائی نظام اور آئین سے ایسے بزرگوار اور آزاد انسان کی جو طالب شہادت ہوتے ہیں تربیت کرتے ہیں_

قرآن کی آیت:

( الا بذکر الله تطمئن القلوب ) ____(۱)

''آگاہ ہوجاؤ کہ اطمینان، یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے''

____________________

۱) سورہ رعد آیت نمبر ۲۸

۱۲۳

سوالات

سوچیئےور جواب دیجیئے

۱) ___اس جوان کا جس نے پیغمبر اسلام (ص) کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا اس درس میں کیسے ذکر کیا گیا ہے؟

۲)___ جب پیغمبر (ص) نے اس جوان سے پوچھا کہ تونے صبح کیسے کی تو اس نے کیا جواب دیا تھا؟

۳)___ اس جوان نے اپنے ایمان اور یقین کی علامتیں کون سی بیان کی تھیں؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے اصحاب سے اس جوان کے با رے میں کیا فرمایا تھا؟

۵)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اس جوان کو کس چیز کی وصیت اور سفارش کی تھی؟

۶)___ اس جوان کی کون سی آرزو تھی کہ جس کے لئے پیغمبر اسلام(ص) سے دعا کرنے کی خواہش کی تھی؟

۷)___ پیغمبروں کا سب سے اہم کام کون سا ہوا کرتا تھا؟

۸)___ ایک انسان کی عظیم ترین اور بہترین ارزش کون سی ہوتی ہے؟

۹)____ پیغمبر، انسان کی خداجوئی والی فطرت کو کس طرح بیدار کرتا ہے؟

۱۰)___ انسان اور جہان کی خلقت کی غرض و غایت کیا ہوتی ہے؟

۱۱)___ پیغمبروں کی نگاہ میں لوگوں کی بدبختی کا اہم عامل اور سبب کیا ہوتا ہے، اور سعادت کا تنہا سبب کون سا ہوتا ہے؟

۱۲)___ مومن انسان کی خصوصیات جو اللہ تعالی کے پیغمبروں کے دستور کے مطابق ترتیب یافتہ ہوتے ہیں کون سی ہوتی ہیں؟

۱۲۴

اللہ تعالی کے لئے کام کرنا پیغمبروں کے برنامے میں سے ایک ہے

انسانوں کوطاغتوں سے آزاد کرنا اور ظالم کے زور کو توڑنا استقامت اور قیام کئے بغیر ممکن نہیں، لیٹروں اور طاغتوں کا ہاتھ محروم و مستضعفین کے جان و مال سے اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک لوگ آزادی اور رہائی کے خواستگار نہ ہوں اور اس کے لئے قیام نہ کریں، اپنی تمام قوت و کوشش کو کام میں نہ لائیں اور اس ہدف و غرض کے لئے جہاد و پائیداری سے کام نہ لیں_

فقر، محرومیت، ظلم، بے عدالتی، جہل، نادانی، تجاوز، سلب امنیت، قانون شکنی اور فساد سے مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ بہت مشکل اور اہم کام ہے کہ جسے سارے افراد کی کوششوں اور عمومی جہاد کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے شناخت، تمایل، حرکت اور کوشش ضروری ہے اس لئے تمام پیغمبروں کا اصل کام اور سب سے پہلا اقدام ظالموں، مستکبروں اور مفسدوں کے خلاف جہاد کرنا ہوا کرتا تھا_

خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

'' ہم نے پیغمبروں کو واضح دلیلیں دے کر بھیجا ہے، ان پر کتاب اور میزان نازل کی ہے تا کہ لوگ عدالت و انصاف کے لئے قیام کریں''_ (حدید آیہ ۲۵)

۱۲۵

'' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تم خدا کے لئے قیام کرو اور انصاف کی گواہی دو''_ (سورہ مائدہ آیت نمبر ۸)

''اے پیغمبر(ص) لوگوں سے کہہ دو کہ میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو دو آدمی اور ایک ایک اللہ تعالی کے لئے قیام کرو'' (سبا ۲۶)

تمام پیغمبروں نے مادی گری، شرک و فساد کے خلاف، مستضعف لوگوں کو نجات دینے، عدل و انصاف قائم کرنے اور خداپرستی کو عام کرنے کے لئے جہاد و قیام کیا ہے لوگوں کے خوابیدہ افکار کو بیدار کیا ہے اور انھیں قیام و حرکت کرنے کی دعوت دی ہے:

_ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی اور ستمگر سے مقابلہ کرنے کے لئے قیام کیا اور نمرود و نمرودیوں سے جنگ کی_

حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی قوم کو فرعون سے نجات دینے کے لئے فرعون سے مقابلہ کیا اور لوگوں کی متفرق طاقت کو آزادی کے لئے یکجا کیا اور ایک ہدف و غرض کے لئے اکٹھا کیا_

_ حضرت عیسی علیہ السلام نے جابر لوگوں کے خلاف اور تحریف شدہ قوانین کو زندہ کرنے کے لئے قیام کیا_

_ پیغمبر اسلام (ص) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بت پرستی، ظلم اور بے عدالتی سے مقابلہ کرنے کے لئے قیام فرمایا اور اپنے ماننے والوں سے چاہا کہ ہمیشہ ظلم اور ظالم کے دشمن بن کر رہیں اور مظلوم و ستم رسیدہ انسانوں کے یار و مددگار ہوں_

اسلام کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور جہان کے محرومین کو نجات دینے کے لئے جہاد، قیام اور کوشش کرتے رہیں_

۱۲۶

تحقیق اور تکمیل:

قرآن مجید کی آیات سے اور ان آیات سے کہ جن کا ترجمہ یہاں کیا گیا ہے یوں نتیجہ نکلتا ہے:

۱)___ قیام اور جہاد، اللہ تعالی کے قوانین کے اجراء اور ظالموں کے ہاتھ کو لوگوں کے جان مال سے روکنا، ہر قسم کے ظلم و فساد، شرک و بے عدالتی کو ختم کرنا فرائض دینی اور دستور مذہبی کا اہم و اصلی جزء ہے اور اسے دین کے سر فہرست ہونے کا درجہ حاصل ہے_

۲)___ مفسد و متجاوز کا مقابلہ کرنا تمام انسانوں کا عمومی فریضہ ہے اور تمام کے تمام لوگ اس کے ذمہ دار ہیں اور انھیں ایک دوسرے کی مدد و تعاون کر کے اس کے لئے قیام اور تحریک کو آگے بڑھانا چاہیئے_

۳)___ اگر کچھ لوگ اس کی انجام دہی میں کوتاہی و سستی کریں تو دوسرے لوگوں سے یہ فریضہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ ہر آدمی کا فریضہ ہے کہ وہ یک و تنہا قیام کرے اور اپنی طاقت کے مطابق اس فریضہ کو انجام دے اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنی مدد کرنے کی دعوت دے_

۴)___ اس قیام و جہاد میں غرض و ہدف خدا کی ذات اور اس کی رضا ہونی چاہیئے اور اس سے غرض خودخواہی اور حکومت طلبی نہ ہو_ قرآن مجید خاص طور سے حکم دیتا ہے کہ قیام اور جہاد کی غرض اللہ تعالی کی خوشنودی، قوانین و احکام الہی کا جاری کرنا اور مخلوق خدا کی سعادت، نجات اور عدل الہی کے پھیلاؤ کے علاوہ اور کچھ نہ ہو_

۵)___ قیام اور جہاد میں عدالت کی رعایت کی جانی چاہیئےور جہاد کرنے

۱۲۷

والوں کو حدود عدالت سے خارج نہیں ہونا چاہیئے اور خود انھیں ظلم کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیئے_

یہ ہمارا فریضہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے پھیلاؤ اور باقی رکھنے کے لئے اپنی پوری طاقت و قوت سے ظالموں اور مستکبروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے قیام و جہاد کریں اور جب تک تمام اسلامی احکام اور نجات دینے والا یہ پیغام '' لا الہ الا اللہ'' دنیا کے کونے کونے تک نہ پھیل جائے اپنی کوشش اور سعی کو ختم نہ کریں_

قرآن کی آیت:

( قل انّما اعظکم بواحدة ان تقوموا لله مثنی و فرادی ) ____(۱)

''کہہ دو کہ میں ایک چیز کی تمھیں نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ دو دو اور ایک ایک اللہ کے لئے قیام کرو''

____________________

۱) سورہ سبا آیت ۴۶

۱۲۸

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجیئے

۱)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں لوگوں کو راہ خدا میں جہاد کرنے، عدالت اور انصاف کو پھیلانے کی دعوت دی ہے_ اس درس میں سے تین آیات کا اس بارے میں ترجمہ پیش کیجیئے _

۲)___ جہاد کی غرض کیا ہونی چاہیئے؟ وہ شرائط جو جہاد اور قیام الہی کے لئے ضروری ہیں انھیں بیان کیجیئے

۳)___ ظالم اور مفسد کا مقابلہ کرنا کس کا فریضہ ہے، اگر ایک گروہ اس فریضہ کی ادائیگی میں سستی کرے تو دوسروں کا کیا فریضہ ہوتا ہے؟

۴)___ اسلامی انقلاب کو وسعت دینے کے لئے ہمارا کیا فریضہ ہے، کب تک ہم اس کی کوشش کرتے رہیں؟

۱۲۹

مرکز توحید (۱)

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا پرستوں اور توحید کے پیغمبر تھے، آپ اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبری کے لئے چنے گئے تھے، آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ پورے عالم میں خداپرستی کا پیغام پہونچائیں اور اسے عام کریں، آپ نے توحید کی دعوت ایک متمدن شہر بابل سے شروع کی اور اپنے زمانہ کے طاغوت نمرود سے مقابلہ کیا ایک زمانہ تک آپ بت پرستی اور شرک سے مقابلہ کرتے رہے لوگوں کو خدا کی عبادت اور اللہ تعالی کے حیات بخش فرامین کی اطاعت کرنے کی طرف دعوت دیتے رہے_

پاکباز لوگوں کا ایک گروہ آپ پر ایمان لے آیا آپ توحید کی دعوت کو عام کرنے کے لئے مصر، شام اور فلسطین کی طرف ہجرت کرتے رہے تا کہ توحید پرستی کا پیغام دوسرے انسانوں تک بھی پہونچاسکیں اور انقلاب توحید کو تمام ممالک میں صادر کرسکیں، آپ نے اس کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زیادہ تکالیف اٹھائیں_ تمام جگہوں میں اس زمانہ کے ظالموں اور طاغتوں کی شدید مخالفت کا آپ کو سامنا کرنا پڑا_

ایک گروہ کی جہالت و نادانی اور غفلت نے آپ کے اس کام کو دشوارتر کردیا تھا جس کی وجہ سے آپ کو زیادہ کامیابی نہ مل سکی لیکن یہ عظیم پیغمبر اللہ تعالی کے اس حکم کی بجاآوری میں پكّے ارادے سے ثابت قدم رہے اور کبھی دلسرد اور نہ تھکے_ آپ کے ارادہ کا اہم فیصلہ ایک جگہ کو توحید کا مرکز بنانا تھا آپ نے اللہ تعالی کے حکم کے ماتحت

۱۳۰

پكّا ارادہ کرلیا تھا کہ توحید اور خداپرستی کا ایک مضبوط مرکز بنائیں گے تا کہ خداپرست معتقد حضرات وہاں اکٹھے ہوں ایک دوسرے سے آشنائی و شناسائی پیدا کریں اور توحید و خداپرستی کا حیات بخش پیغام وہاں سے لے کر تمام عالم کے کانوں تک پہونچائیں اور غافل انسان کو بیدار کریں اور انھیں ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور خداپرستی کی طرف بلائیں اس کا مرکز کہاں بنائیں؟ اس غرض کے لئے بہترین نقطہ کون کون سا ہوسکتا ہے اور وہ کون سی خصوصیات کا حامل ہو؟

اللہ تعالی نے اس غرض کے لئے خانہ کعبہ کو منتخب کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کی نشاندہی کی کیونکہ خانہ کعبہ قدیم زمانہ سے توحیدپرستوں کا معبد تھا، خانہ کعبہ کو سابقہ پیغمبروں نے بنایا تھا اسی لئے خداپرستوں کے لئے مورد توجہ تھا اور کبھی نہ کبھی لوگ وہاں جایا کرتے تھے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے اپنی بیوی اور بیٹے جناب اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مکہ روانہ ہوئے جب مکہ پہونچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جبرئیل کی راہنمائی میں مخصوص اعمال ''مناسک حج'' بجالائے جب اعمال بجالا چکے تو اپنی بیوی اور بیٹے سے کہا کہ ''اللہ تعالی کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ تمھیں کعبہ کے قریب رکھوں اور میں خود حکم الہی کی تعمیل کے لئے فلسطین چلا جاؤں ، تم یہیں رہ جاؤ خانہ کعبہ کے زائرین کی مہمان نوازی کرو، اس کے آباد کرنے اورپاکیزہ بنانے میں کوشش کرو، خدا چاہتا ہے کہ یہ توحید، خداپرستی کا معبد و مرکز قرار پائے اور تم بھی توحید کے محافظ اور پاسدار رہنا، بردبار و فداکار ہونا، مسافرت، تنہائی و مشکلات سے نہ کھبرانا کیونکہ یہ تمام اللہ کے راستے اور خلق خدا کی خدمت کے مقابلہ آسان ہیں خدا تمھارا مددگار اور محافظ ہے''_

حضرت ابراہیم (ع) نے بیوی اور اپنے فرزند جناب اسماعیل (ع) کو الوداع کہا اور فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے، آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ان سے دور ہوتے جا رہے تھے

۱۳۱

اور دور سے انھیں دیکھتے جا رہے تھے ایک چھوٹے سے بچّے کو اس کی ماں کے ساتھ ایک دّرے میں اور شاید ایک درخت کے نیچے تنہا چھوڑ کر جا رہے تھے_ آخری وقت جب کہ پھر انھیں دیکھ نہ سکتے تھے کھڑے ہوگئے، ان کی طرف نگاہ کی، اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا:

''پروردگار تیری امید اور سہارے پر اپنے خانوادے کو اس خشک پہاڑ کے دامن میں تیرے گھر کے قریب چھوڑ کر جا رہا ہوں تا کہ یہ تیری عبادت و پرستش اور نماز کو برپا کریں_

خدایا لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ کر اور زمین کے دانوں اور میووں کو ان کا نصیب قرار دے_ پروردگار اس جگہ کو امن کا حرم قرار دے مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ_

خدایا بت پرستی اور شرک نے بہت سے لوگوں کو گمراہی اور بدبختی میں ڈال رکھا ہے_ پروردگار مجھے، میری اولاد اور خاندان کو نماز برپا کرنے والوں میں سے قرار دے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرما''

اس کے بعد آپ نے آخری نگاہ بیوی اور چھوٹے فرزند پر ڈالی اور یک و تنہا فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے_

قرآن کی آیت

ربّنا انی اسکنت من ذريّتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربّنا لیقیموا الصّلاةفاجعل افئدة من الناس تهوی الیهم و ارزقهم من الثّمرات لعلّهم یشکرون

''پرودگار میں نے اپنے خانوادہ کو ایک بے آباد وادی تیرے گھر کے ہمسایہ میں سکونت دی ہے، ہمارے پروردگار اس لئے کہ نماز کو برپا کریں ، لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ کرو اور زمین کے میوہ جات ان کی روزی قرار دے تا کہ تیرا شکر ادا کریں''(۱)

____________________

۱) سورہ ابراہیم آیت ۳۷

۱۳۲

مرکز توحید (۲)

تنہا بوڑھا انسان ایک عصا اور تھوڑا سا سامان پشت پر ڈالے راستے کے پیچ و خم کو طے کرتے ہوئے فلسطین کی طرف جا رہا ہے تا کہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالی کی عبادت و اطاعت کی طرف بلائے اور ظالموں کی اطاعت و فرمانبرداری سے روکے_

فداکار خاتون ہاجرہ اپنے چھوٹے فرزند کے ساتھ ایک پتھر کے کنارے بیٹھی سورج کے غروب ہونے کا انتظار کر رہی تھی_ کیا اس خشک و خالی درّے میں زندگی کی جاسکتی ہے؟ کیا اس بلند و بالا پہاڑ کے دامن میں رات کو صبح تک کاٹا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی یہاں ہمسایہ ڈھونڈا جاسکتا ہے؟

اس قسم کے افکار سے اضطراب و پریشانی میں پڑ گئیں وہ اٹھیں اور جلدی سے پہاڑ کے اوپر گئیں اور ادھر ادھر نگاہ کی کسی کو نہ دیکھا سوائے چھوٹے بڑے خاموش اور خوف اور پہاڑ کے جو اپنی جگہ کھڑے تھے، انھوں نے مدد کے لئے آواز دی لیکن کسی سے جواب نہ سنا دوڑتے و دوڑتے نیچے اتریں اور ایک نگاہ اپنے چھوٹے فرزند پر ڈالی_

سورج جلدی میں ڈوب رہا تھا، درّہ تاریک اور خوفناک ہو رہا تھا، سامنے والے پہاڑ پر مشکل سے اوپر گئیں اور اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی پر پہونچایا، اطراف میں نگاہ دوڑائی کسی کو نہ دیکھا سوائے پہاڑ کے گھبرا کر مدد کے لئے پکارا کسی نے لبّیک نہ کہا چنانچہ نیچے اتریں اس وقت سورج نظر نہیں آرہا تھا پھر سامنے والے پہاڑ پر چڑھیں سورج کو دیکھا

۱۳۳

اور خوشحال ہوگئیں اور مدد کے لئے آواز دی لیکن کسی نے جواب نہ دیا_

ان دو پہاڑوں کے درمیان سات دفعہ فاصلہ طے کیا یہاں تک کہ رات ہوگئی اور جناب ہاجرہ تھک گئیں وہ اپنے چھوٹے فرزند کے پاس گئیں اور نیم تاریک و خاموش فضا میں بچے کو گود میں لیا اپنے کو اور اپنے فرزند کو اللہ کے سپرد کر کے درخت کے کنارے پتھر پر لیٹ گئیں_

روزانہ جناب ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (ع) خانہ کعبہ کی خدمت کرتے اور اسے پاکیزہ رکھنے میں مشغول رہتے تھے، خانہ کعبہ کی دیوار گرگئی تھی مٹی اور کوڑا و غیرہ صاف کیا اور اس چھوٹے گھر میں عبادت و نماز میں مشغول رہنے لگے_ تھوڑے دنوں کے بعد کئی ایک لوگ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مكّہ آئے ایک عورت اور چھوٹے بچے کو دیکھ کر تعجب کیا اور ان سے ان کے حالات پوچے جناب ہاجرہ نے جواب دیا کہ:

''ہم اولالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم (ع) کے گھرانے سے ہیں انھوں نے حکم خدا سے ہمیں یہاں رہنے کو کہا ہے تا کہ خانہ کعبہ کی خدمت کرتے رہیں اور اسے زیارت کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا اور آباد کئے رکھیں''_

اس قدیم خانہ کعبہ سے علاقہ رکھنے والے زائرین نے مختلف ہدیئے انھیں دیئےور آہستہ آہستہ کعبہ کے زائرین زیادہ ہونے لگے، خداپرست اور موحّد لوگ گروہ در گروہ کعبہ کی زیارت کو آتے اور جناب ہاجرہ حضرت اسماعیل (ع) کی خدمتوں کے صلہ میں ہدیہ پیش کرتے تھے_

حضرت اسماعیل (ع) اور آپ کی والدہ ماجدہ زائرین کعبہ کی خدمت کرتی تھیں آپ کی زندگی کا سہارا چند گوسفند تھے جناب اسماعیل (ع) گوسفندوں کو چراتے اور ان کے گوشت

۱۳۴

و پوست سے غذا و لباس مہیا کرتے تھے _ انھیں ایام میں عربوں کے کئی گروہ جو مكّہ سے کچھ فاصلہ پر رہتے تھے جناب اسماعیل (ع) اور حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر وہاں آباد ہوگئے_

جناب ابراہیم علیہ السلام بھی خانہ کعبہ کی زیارت کرنے اور اپنے اہل و عیال کے دیدار کے لئے مكّہ معظمہ آیا کرتے تھے اور خانہ کعبہ کی رونق، آبادی اور روز بروز زائرین کی زیادتی سے خوشحال ہوا کرتے تھے_ ایک سفر میں جب آپ مكّہ آئے ہوئے تھے تو اللہ تعالی کے حکم سے ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں_ اس بارے میں آپ نے جناب اسماعیل علیہ السلام سے گفتگو کی اس وقت جناب اسماعیل (ع) جوان ہوچکے تھے آپ نے اپنے والد کی پیش کش کو سراہا اور وعدہ کیا کہ باپ کی اس میں مدد کریں گے_

کام شروع ہوگیا جناب اسماعیل (ع) پتھر اور گارا لاتے اور جناب ابراہیم (ع) کعبہ کی دیوار کو بلند کرتے_ دوسرے لوگ بھی اس میں آپ کی مدد کرتے اور تعمیر کا سامان لے آتے، ایک سیاہ پتھر جو آثار قدیمہ کے طور پر باقی رہ گیا تھا اور سابقہ انبیاء (ع) کی نشانی و یادگار تھا اسے آپ نے دیوار کی ایک خاص جگہ پر نصب کردیا_ جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا:

''پروردگارا توحید اور خداپرستی کے گھر کی تعمیر کردی تا کہ یہ دنیا کے لوگوں کی عبادت و آزادی کا مرکز ہو، پروردگارا ہمارا یہ عمل قبول فرما اور ہمیں اپنے حکم کی اطاعت کرنے کی توفیق عنایت فرما_ میری اولاد سے مسلمانوں کی ایسی جماعت پیدا کر جو تیرے دستور کے ماننے والے اور فرمانبردار ہوں اور میری اولاد میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرماتا کہ تیری کتاب کی آیتوں کو لوگوں کے لئے پڑھے

۱۳۵

اور انھیں حکمت و کتاب کا درس دے، ان کے نفوس کا تذکیہ و تکمیل اور پرورش کرے_

پروردگار اس مقدس مکان کو امن کا حرم قرار دے، مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ اور اپنی برکت و نعمت کو اس مقدس مکان کے رہنے والوں کے لئے زیادہ فرما''

اس کے بعد آپ ایک بلند پہاڑ پر جو یہاں سے نزدیک تھا اور اسے کوہ ابوقیس کہا جاتا ہے_ گئے اور اپنے ہاتھوں کو کانوں پر رکھ کر بلند آواز سے یوں پکارا:

'' اے حجاز کے لوگو اے ساری دنیا کے لوگو توحید اور خداپرستی کے مرکز کی طرف آؤ شرک و ذلت اور بت پرستی سے ہاتھ اٹھالو''

اسی زمانہ سے خانہ خداپرستوں کی عبادت و اجتماع کا مرکز بن گیا ہے اور جو چاہے جناب ابراہیم علیہ السلام کی آواز پر لبيّک کہے، خانہ کعبہ کی طرف جائے، خدا کی عبادت کرے وہاں موحّد مومنین کو دیکھے، مشکلات کے حل کے لئے ان سے گفتگو کرے، تمام لوگوں کی ظلم و ستم اور ذلت و شرک سے رہائی کے لئے مدد کرے، ایک دوسرے سے ہمکاری و اتحاد کا عہد و پیمان باندھے اور سب مل کر کوشش کریں کہ اس مقدس خانہ کعبہ کو ہمیشہ کے لئے آباد اور آزاد رکھیں_

قرآن کی آیت :

( و اذا یرفع ابراهیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منّا انّک انت السمیع العلیم ) ____(۱)

''جب حضرت ابراہیم (ع) خانہ کعبہ کی دیواریں حضرت اسماعیل (ع) کے ساتھ مل کر بلند کر رہے تھے تو کہا اے پروردگار ہمارے اس عمل کو قبول فرما تو سننے والا اور دانا ہے''

____________________

۱) سورہ بقرہ آیت ۱۲۷

۱۳۶

سوالات

۱)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد توحید کا مرکز بنانے سے کیا تھا؟

۲)___ سب سے قدیم عبادت گاہ کہاں ہے، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کن حضرات نے اسے بنایا تھا؟

۳)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام کن کے ساتھ مکہ معظمہ آئے تھے، حج کے اعمال کس کی راہنمائی میں بجالائے تھے؟

۴)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخری وقت کہ جس کے بعد وہ بیوی اور بچّہ کو نہ دیکھ سکتے تھے کیا دعا کی تھی، آپ کی دعاؤں میں کن مطالب کا ذکر تھا؟

۵)___ حضرت ہاجرہ (ع) دو پہاڑوں کا فاصلہ کس حالت میں طے کر رہی تھیں اور یہ کتنی دفعہ طے کیا تھا؟

۶)___ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کو تعمیر کریں تو یہ کس کے سامنے گفتگو کی اور اس نے اس کا کیا جواب دیا؟

۷)___ جب خانہ کعبہ کی تعمیر میں کس نے آپ کی مدد کی اور وہ کیا کام انجام دیتے تھے؟

۸)___جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تھی تو حضرت ابراہیم (ع) نے دعا کی تھی اس دعا میں آپ نے کیا کہا تھا اور آپ نے خداوند عالم سے کیا طلب کیا تھا؟

۹)___ آپ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد کون سے پہاڑ پر گئے تھے اور لوگوں کو کس چیز کی دعوت دی تھی؟

۱۰)___ جو لوگ جناب ابراہیم (ع) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خانہ کعبہ جاتے ہیں ان کے وہاں کیا فریضے ہوتے ہیں، ہر سال حج میں مسلمانوں کا کیا فریضہ ہوتا ہے؟

۱۳۷

دین یہود

حضرت موسی (ع) یہودی نامی دین لائے، حضرت موسی (ع) جناب عیسی (ع) سے ۱۵۰۰ سال پہلے مصر کی سرزمین میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام حضرات عمران تھا_ حضرت موسی (ع) اولوالعزم پیغمبر تھے قرآن مجید میں آپ کا متعدد جگہ ذکر ہوا ہے آپ کی بنی اسرائیل قوم جو مستضعف اور مظلوم تھی کی مدد اور حمایت کرنے کا قصہ اور بالخصوص آپ کا فرعون جیسے ظالم و مغرور سے مقابلہ کرنے کا قصہ قرآن مجید میں متعدد جگہ ذکر ہوا ہے_

حضرت موسی (ع) چالیس سال کے تھے کہ آپ کو خداوند عالم نے پیغمبری کے لئے مبعوث کیا اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے زمانہ کے طاغوت سے مقابلہ کریں اور بنی اسرائیل کی مظلوم قوم کو فرعون کی غلامی اور قید و بند سے آزاد کرائیں،خداوند عالم کی عبادت اور بندگی کی طرف لوگوں کو بلائیں حضرت موسی (ع) نے اپنے اس آسمانی فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ کی_

ابتداء میں آپ نے فرعون سے وعظ و نصیحت اور نرمی سے کام لیا اس کے بعد آپ نے اس سے گفتگو کی اور پروردگار عالم کی خدائی کی اور اس کی ربوبیت اور اپنی رسالت کے لئے دلیل و شاہد سے کام لیا اپنی رسالت کے لئے فرعون اور اس کے اطرافیوں کے لئے معجزہ و کھلایا اور اپنے عصا کو خدا کے اذن سے ایک بہت بڑے غضبناک ادہا کی صورت میں پیش کیا جادوگروں کے سامنے ایک واضح معجزہ بیان کیا، آپ کا عصا ایک بڑے سانپ کی صورت میں ظاہر ہو اور جن چیزوں کو جادوگروں نے زمین پر ڈالا تھا انھیں نگل لیا لیکن نہ نصیحت، نہ موعظہ، نہ گفتگو، نہ مباحثہ، نہ دلیل، نہ برہان اور نہ واضح و روشن معجزہ نے فرعون

۱۳۸

کے سخت اور تاریک دل پر اثر کیا اور وہ اپنے ظلم و ستم پر باقی رہا_

حضرت موسی (ع) نے ایک بہت طویل مدت تک بنی اسرائیل کے لئے خداپرستی کی ترویج اور تبلیغ کی لیکن ظالم فرعون اپنے ظلم و ستم ڈھانے پر باقی رہا_ بنی اسرائیل کی ذلیل و مظلوم قوم کی تمام امیدیں جناب موسی (ع) سے وابستہ تھیں اور آپ بنی اسرائیل کے متعلق راہ حل سوچ رہے تھے تا کہ اس محروم اور مظلوم قوم کو ہمیشہ کے لئے اس زمانہ کے طاغوت و ظالم سے نجات دیں_

اس زمانہ کے سخت حالات میںاس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل کی قوم کو مصر سے نکال لیا جائے اور انھیں طاغوت زمانہ کے قید و بند سے آزاد کرایا جائے چنانچہ حضرت موسی (ع) نے خدا کے حکم سے ہجرت کرنے کا ارادہ کیا اور آپ نے بنی اسرائیل کے سرداروں سے بھی ہجرت کرنے کے بارے میں مشورہ کیا انھوں نے آپ کے اس ارادہ سے اتفاق کیا اور مخفی طور سے انھوں نے اپنی زندگی کے اسباب و اثاثے کو اکٹھا کیا اور ہجرت کرنے کے لئے تیار ہوگئے_

بنی اسرائیل ایک تاریک رات میں بغیر اطلاع دیئےضرت موسی (ع) کی رہبری میں مصر سے نکل پڑے اور جلدی سے صحرائے سینا کی طرف بڑعنے لگے ہزاروں مرد اور عورتیں، چھوٹے بڑے، سوار اور پیادہ تیزی سے تمام رات اور دوسرے دن راستہ طے کرتے رہے جب صبح کے وقت فرعونی جاگے اور اپنے کار و بار پر گئے تو کافی انتظار کے بعد بھی بنی اسرائیل مزدور کام پر حاضر نہ ہوئے یہ خبر شہر میں پھیل گئی لوگ ان کی جستجو میں نکلے بعد میں معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کے وقت شہر سے نکل کر بھاگ گئے ہیں_

یہ خبر فرعون تک پہونچی اس نے ایک لشکر کے ہمراہ بنی اسرائیل کو پکڑنے کے لئے ان کام پیچھا کیا_ حضرت موسی (ع) کے حکم سے بنی اسرائیل دریا کی طرف جلدی میں بڑھ رہے تھے اور فرعون

۱۳۹

اور اس کا لشکر ان کا پیچھا کر رہا تھا جب بنی اسرائیل دریا کے نزدیک پہونچے تو راستہ کو بند پایا اور فرعون کا لشکر ان کے پیچھے آرہا تھا_

فرعون کے لشکر کے نزدیک پہونچنے سے بنی اسرائیل وحشت زدہ اور مضطرب ہوگئے خدا نے بند راستے کو ان کے لئے کھول دیا اور جناب موسی (ع) کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو دریا پر ماریں حضرت موسی (ع) نے اپنا عصا دریا پر مارا دریا شگافتہ ہوگیا اور بارہ وسیع راستے دریا کے وسط میں بن گئے بنی اسرائیل دریا میں داخل ہوگئے جب بنی اسرائیل کا آخری فرد دریا سے باہر نکل آیا اور فرعون کے لشکر کا آ خری فرد دریا میں داخل ہوگیا تو اللہ تعالی کے حکم سے یکدم پانی آپس میں مل گیا فرعون اور اس کے تمام لشکر کو دریا نے اپن لیپٹ میں لے لیا فرعون اور اس کے تمام لشکر کو غرق کردیا اور رہتی دنیا کے لئے فرعون کی ذلت و شکست عبرت کے طور پر تاریخ میں باقی رہ گئی وہ اس کے علاوہ آخرت میں اپنے مظالم کی سزا پائے گا_

بنی اسرائیل اس کا دور سے تماشا دیکھ رہے تھے اور فرعونیوں کی ہلاکت سے خوشحال تھے اور اپنے آپ کو فرعونیوں کے قید و بند سے آزاد پا رہے تھے اب وہ اللہ تعالی کے دستور اور اس کے قوانین کے مطابق ایک جدید معاشرہ تشکیل دینے کے پابند تھے لیکن اس وقت تک ان کے لئے نہ کوئی قانون اور نہ ہی عبادات کی رسومات موجود تھیں اس لئے کہ ابھی تک نہ توان کے لئے کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی احکام و قوانین نازل ہوئے تھے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302