‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 18%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111607 / ڈاؤنلوڈ: 3862
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

بِجِهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ >(۱)

لیکن کوفہ کا حاکم ہونے کی وجہ سے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

یا ایک اور شخص ،” مروان حکم “(۲) جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ طائف جلا وطن کیا تھا ، بعد میں ایک حاکم واقع ہونے کی وجہ سے عزت وا حترام کا مستحق بن جاتا ہے اور تاریخ میں اس کا نام عظمت کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔

قریش کے بزرگوں اور حکمراں ، فرماں روا اور امراء طبقے کے ایسے لوگوں کےلئے ضروری ہے کہ ان کی عزت و احترام محفوظ رہے اورہم ان کی شخصیت کی حرمت کے محافظ بنیں ، لیکن اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متقی و پرہیزگار تہی دست صحابی ” ابو ذر غفاری“ یا باتقویٰ اور خدا ترس صحابی ” سمیہ “ نامی کنیز کے بیٹے ”عمار یاسر “ یا ” عبدا لرحمان بن عدیس بلوی “ نامی نیک و پارسا صحابی جو اصحاب بیعت شجرہ میں سے تھے اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی :

لَقَد رَضِیَ اللّٰه عَنِ المُؤمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَافِی قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِیباً >(۳)

یا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صحابی جیسے ، ” صوحان عبدی “ کے بیٹے زید اور ”صعصعہ“ اور ان جیسے دسیوں صحابی اور تابعین جو ریاست و حکومت کے عہدہ دار نہ تھے اور قریش کے سرداروں میں سے بھی نہ تھے ، انھیں اہمیت نہ دی جائے بلکہ ان کی ملامت اور طعنہ زنی کی جائے اور یمن کے صنعا سے ایک یہودی کو خلق کرکے اس خیالی اور جعلی شخص کو فرضی طور پر ان مقدس اشخاص میں قرار دیگر صاحبان قدرت اور حکومت سے ان کو ٹکرایا جائے اور

____________________

۱۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ، ایسا نہ ہو کہ ایسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ کہ جس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ( حجرات /۶۰)

۲۔ اسی کتاب کی فصل ” پیدائش افسانہ شیبہ “ اور دیگر فصلو ں میں اس کے حالات کے بارے میں دی گئی تشریح کی طرف رجوع کیا جائے۔

۳۔ یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا ، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلو ں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انھی ں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی ( فتح / ۱۸)

۲۱

اس طرح سیف کی جعلی روایتیں شہرت پاکر رائج ہوجاتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین اور تحقیق نہیں ہوتی ہے ۔

اس قسم کی داستانوں اور افسانوں (جنھیں جعل کرنے والوں نے صاحبان قدرت و حکومت کے دفاع اور ان کے مخالفوں کی سرکوبی کےلئے گڑھ لیا ہے) کی اشاعت ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائج ہوگئی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض افسانے اس حد تک مسلم تاریخی حقائق میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا ہے اور بعض دانشورحضرات اس کے تحفظ کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔

جبکہ یہ اس حالت میں ہے کہ جسے انہوں نے دین کا نام دیا ہے وہ حکمراں طبقے اور ان سے مربوط افراد کی عزت و احترام کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

لیکن اصحاب و تابعین سے مربوط وہ لوگ جو مجبور ہوکر قدرت و حکومت سے دور رہ کر کمزور واقع ہوئے ہیں ، ان دانشوروں کی نظروں میں قابل اہمیت و موردتوجہ قرار نہیں پائے ہیں ، کیونکہ انہوں نے صاحبان قدرت و دولت کی پیروی نہیں کی ہے بلکہان کے موافق نہیں تھے ۔

یہاں پر میں ایک بار پھر خداوند عالم کو شاہد قرار دیکر کہتا ہوں کہ جس چیز نے مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کرنے کی ترغیب دی، وہ یہ ہے کہ مجھے بچپنے ہی سے اسلام ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوران کے اصحاب کے متعلق جاننے و پہچاننے کی دلچسپی تھی اور میں نے اپنی اکثر زندگی اسی راہ میں گزاری ہے ، تب جاکر اس زمانے کے وقائع اور روئدادوں کو پہچاننے اور ان کی طرف بڑھنے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے اپنی تحقیقات کے نتیجہ کو شائع کیا ہے اور اس امید میں بیٹھا ہوں کہ محققین اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس چھان بین کو دقیق اور مضبوط تر صورت میں انجام دیں گے، میں اس کتاب کے قارئین کو اطمینان دلاتا ہوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے تئیں میری محبت اور وفاداری ان سے کم نہیں ہے جو اس سلسلے میں تظاہر کرتے ہیں ، البتہ اس سلسلہ میں اصحاب کے وہ افراد جن کا تاریخ میں اسلام کی نسبت نفاق اور دو رخی ثابت ہوچکی ہے ، اس کے علاوہ میں احترام اور ان کی پرستش میں فرق کا قائل ہوں ، کیونکہ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ان دانشوروں نے اصحاب کی عزت و احترام کو تقدیس و ستائش کی اس حد تک آگے بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض افراد اپنے شائستہ اسلاف کی (خدا کی پنا ہو) غیر شعوری طور پر پرستش کرنے لگے ہیں ، خداوند ہمیں ، ان کو اور تمام مسلمانوں کو اس غلطی سے نجات دے ۔

۲۲

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبر خدا کو دیکھا ہے اور اس دیدار کے دوران اگر ایک لمحہ(۱) کےلئے بھی مسلمان ہوگیا ہے ، وہ صحابی ہے اور ان کے اعتقاد کے مطابق صحابی فرشتہ جیسا ہے جس کی فطرت میں خواہشات اور غریزے کا دخل نہیں ہوتا ، لہذا وہ جب اس کے برعکس کچھ سنتے ہیں تو برہم ہوجاتے ہیں اور ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ہیں اور اس طرز تفکر کی وجہ سے یہ لوگ کافی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں فی الحال ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

آخر کلام میں امید رکھتا ہوں کہ باریک بین اور تیز فہم حضرات ، اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں چھپے ہوئے میرے اس جملہ کو پڑھ لیں :

” جو لوگ تاریخ میں لکھی گئی چیزوں کو بوڑھی عورتوں کے خرافات اور بیہودگیوں کی نسبت تعصب کے مانند اعتقاد رکھتے ہیں ، وہ اس کتاب کو نہ پڑھیں “

اس کے علاوہ بھی چندتنقید یں ہوئی ہیں ، مثلاً اعتراض کیا گیا ہے کہ کیوں اس کتاب کا نام ” عبدا للہ بن سبا“ رکھا گیا ہے جبکہ اس میں ”عبدا للہ بن سبا “ کی بہ نسبت دوسری داستانیں زیادہ ہیں ؟

اس سوال کا ہم نے اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں جواب دیدیا ہے اور اس کے علاوہ کتاب کے سرورق پر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ اور دیگر تاریخی داستانوں پر مشتمل ہے مزید ہم نے پہلی طباعت کے مقدمہ میں کہا ہے :

____________________

۱۔ کتاب الاصابہ، ( ۱/۱۰) الفصل الاول ” فی تعریف الصحابی “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۳

” قارئین کرام جلدی ہی سمجھ لیں گے کہ یہ کتاب صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کی داستان سے مربوط نہیں ہے بلکہ بحث کا دامن اس سے وسیع تر ہے “

ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے باوجود تنقید کرنے والوں کےلئے یہ مطلب کیونکر پوشیدہ رہ گیا ؟!

ضمناً ہم نے کتاب کے آخر میں مصر کے معاصر دانشور جناب ڈاکٹر احسان عباس کی عالمانہ تنقید اور ان کے سوالات درج کرنے کے بعد ان کا جواب لکھا ہے ۔

و مَا توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب

اس تحریر کو میں نے ذی الحجة ۱۳۸۷ ھ ء عید قربان کے دن منی کے خیمون میں مکمل کیا ہے خداوند عالم مسلمانوں کےلئے ایسی عیدیں باربار لائے اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے احکام الہی کو انجام دینے میں تلاش و جستجو کریں تا کہ خداوندعالم ان کی حالت کو بدل دے ۔

اِن َّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقُومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (۱)

صدق الله العلیّ العظیم

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے رعد/ ۱۱

۲۴

مباحث پر ایک نظر

کتاب کی دوسری طباعت پر مصنف کا مقدمہ

میں نے حدیث اور تاریخ اسلام کی چھان بین اور تحقیق کے دوران حاصل شدہ نتیجہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور فیصلہ کرچکا ہوں کہ ہر حصے میں اپنی تحقیق کے نتائج کو براہ راست شائع کروں ، یہ چار حصے حسب ذیل ہیں :

اول : حدیث و تاریخ پر اثر ڈالنے والے تین بنیادی اسباب کی تحقیق۔

الف۔پوجا اور پرستش کی حد تک بزرگوں کی ستائش کا اثر

ب۔وقت کے حکام کا حدیث اور تاریخ پر اثر

ج۔حدیث اور تاریخ پر مذہبی تعصب کا اثر

اس بحث میں مذکورہ تین مؤثر کی وجہ سے حدیث اور تاریخ میں پیدا شدہ تحریف اور تبدیلیوں پر چھان بین ہوئی ہے لیکن آج تک اسے نشر کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے۔

دوم : ام المؤمنین عائشہ کی احادیث

یہ بحث دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے ، اس کا پہلا حصہ حضرت عائشہ کی حالات زندگی سے متعلق ہے، جو عربی زبان میں ۳۱۴ صفحات پرمشتمل ۱۳۸۰ ء ھ میں تھران میں شائع ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ام المؤمنین کی احادیث کے تجزیہ و تحلیل پر مشتمل ہے یہ حصہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے ۔

سوم : صحابہ کی احادیث

اس حصہ میں بعض اصحاب کی احادیث ، جن میں ابو ہریرہ کی احادیث اہم تھیں ، جمع کی گئی ہیں اور میں اس کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، لیکن جب میں نے آیت اللہ سید عبدا لحسین شرف الدین کی کتاب ” ابو ہریرہ“ دیکھی تو اسے اس سلسلے میں کافی سمجھ کر اپنی کتاب کو شائع کرنے سےمنصرف ہوگیا۔

چہارم : سیف کی احادیث:

اس حصہ میں سیف بن عمیر کی روایتوں کی چھان بین کی گئی ہے جن میں اس نے ۱۱ ھء سے ۳۷ ھ ء تک کے تاریخی وقائع نقل کئے ہیں ۔

۲۵

سیف نے پہلے سقیفہ ، پھر مرتدوں سے جنگ اور اس کے بعد خلفائے ثلاثہ کے دوران مسلمانوں کی فتوحات کے بارے میں لکھا ہے اور آخر میں اسلامی شہروں میں حضرت عثمان کی حکومت اور بنی امیہ کے خلاف بغاوتوں کو عثمان کے قتل تک کے واقعات کی وضاحت کی ہے پھر امیر المؤمنین کی بیعت اور جنگ جمل کی بات کی ہے ، اور ان وقائع میں بنی امیہ کی بدکرداریوں کی پردہ پوشی کرنے کےلئے عبد الله بن سبا اور سبائیوں کا افسانہ گڑھ لیا ہے ، اس طرح ان تمام وقائع کو بنی امیہ اور قریش کے تمام اشراف کے حق میں خاتمہ بخشتا ہے ۔

میں نے اس حصہ میں سیف کے چند افسانوں کو تاریخ کی ترتیب سے درج کرکے ” احادیث سیف“ کے عنوان سے طباعت کےلئے آمادہ کیا ،مرحوم شیخ راضی آل یاسین کو میر ی تصنیف کے بارے میں اطلاع ملی اور انہوں نے فرمایا کہ : سیف بن عمیر ناشناختہ ہے لہذا ” احادیث سیف “ کا عنوان جذابیت نہیں رکھتا ہے ، چونکہ سیف کا سب سے بڑا افسانہ ” عبد اللہ بن سبا “ اور سبائی ہے ، لہذا بہتر ہے اس کتاب کا نام ”’ عبدا للہ بن سبا “ رکھا جائے ، اس لئے اس کتاب کا نام بدل کر ” عبدا للہ ابن سبا “ رکھا اور اسے طباعت کے لئے پیش کیا ۔

اس کتاب کی طباعت کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ سیف کے افسانوں کے بہت سے سورما پیغمبر خدا کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں لہذا اس کتاب کی پہلی جلد کے آخر میں اس کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد اس سلسلے میں اصحاب پیغمبر کے بارے میں حالات درج کئے گئے منابع اور کتابوں کی تحقیق کی، اور مطالعہ کرنے لگا اس تحقیق کے نتیجہ میں ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تالیف کی اور طباعت کے حوالے کی ۔ لہذا سیف کی احادیث کے بارے میں بحث تین حصوں میں انجام پائی :

۱ ۔ عبدا للہ بن سبا اور چند دیگر افسانے ۔

۲ ۔ عبدا لله بن سبا اورسبائیوں کا افسانہ۔

۳ ۔ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ۔

پہلے حصہ میں سیف کی پندرہ قسم کی روایتوں کی حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عثمان کی خلافت تک ان کے واقع ہونے کے سالوں کی ترتیب سے چھان بین کی گئی ہے ۔ یہ حصہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ کی پہلی جلد پر مشتمل ہے ، جس میں درج ذیل دو موضوعات پر بحث کی گئی ہے:

۲۶

۱ ۔ اسامہ کا لشکر

۲ ۔ سقیفہ اور ابو بکر کی بیعت

اس کتاب کی دوسری جلد میں مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسلام میں ارتداد ۔

۴ ۔ مالک بن نویرہ کی داستان۔

۵ ۔ علاء حضرمی کی داستان۔

۶ ۔ حواب کی سرزمین اور وہاں کے کتے۔

۷ ۔ نسلِ زیاد کی اصلاح۔

۸ ۔ مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان ۔

۹ ۔ ابو محجن کی شراب نوشی ۔

۱۰ ۔ سیف کے ایام ۔

۱۱ ۔ شوریٰ اور عثمان کی بیعت ۔

۱۲ ۔ ہرمزان کے بیٹے قماذبان کی داستان۔

۱۳ ۔ تاریخ کے سالوں میں سیف کی دخل اندازی۔

۱۴ ۔ سیف کے افسانوی شہر

۱۵ ۔ خاتمہ

کتاب کی اس جلد کو عربی متن کے ساتھ مطابقت کرنے کے بعد اس میں روایتوں کے مآخذ کی چھان بین اور جعلی اصحاب کو مشخص کرنے کے سلسلے میں چند اہم حصوں کا اضافہ کرکے طباعت کےلئے پیش کیا گیا ۔ خدائے تعالی سے استدعا ہے کہ ہمیں اس کتاب کی دوسری جلد اور کتاب ” ۱۵۰ جعلی اصحاب“ کو طبع کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

سید مرتضی عسکری

تہران جمعہ ۱۴/ ۴/ ۱۳۸۶ ھ

۲۷

آغاز بحث

پہلی طباعت کا مقدمہ

میں ۱۳۶۹ ھء میں حدیث و تاریخ کے بارے میں چند موضوعات کا انتخاب کرکے ان پر تحقیق و مطالعہ کررہا تھا، منابع و مآخذ کا مطالعہ کرنے کے دوران میں نے حدیث اور تاریخ کی قدیمی ، مشہور اور معتبر ترین کتابوں میں موجود بعض روایتوں کے صحیح ہونے میں شک کیا، اس کے بعد میں نے شک وشبہہ پیدا کرنے والی راویتوں کو جمع کرکے انھیں دوسری روایتوں سے موازنہ کیا اس موازنہ نے مجھے ایک ایسی حقیقت کی راہنمائی کی جو فراموشی کی سپرد ہوچکی تھی اور تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر زمانے کے حوادث کی شکار ہوچکی تھی ۔

جب اس قسم کی روایتوں کی تعداد قابل توجہ حد تک بڑھ کر ایک مستقل کتاب کی شکل اختیار کرگئی تو میں نے اخلاقی طور پر اس ذمہ داری کا احساس کیا کہ اس ناشناختہ حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھاؤں ۔

اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں لکھی گئی یادداشتوں کو چند فصلوں میں تقسیم کیا اور انھیں ”احادیث سیف “ کا نام دیا، میرے اس کام سے ” کتاب صلح حسن “ کے مؤلف جناب شیخ راضی یاسین طاب ثراہ آگاہ ہوئے اور انہوں نے مجھے اس بحث کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور یہ تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا نام ” عبد اللہ بن سبا “ رکھوں ، اور میں نے بھی ان کی تجویز سے اتفاق کیا۔

۲۸

میری تحقیق کا یہ کام سات سال تک یوں ہی پڑا رہا اور اس دوران گنے چنے چند دانشوروں کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی اورآگاہ نہ ہو ا، جس چیز نے مجھے اس مدت کے دوران اس کتاب کی طباعت سے روکا ، وہ یہ تھا کہ میں اس امر سے ڈرتا تھا کہ بعض مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے ، کیونکہ احادیث اور روایات کا یہ مجموعہ ان واقعات کے بارے میں تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۳۷ ھ ء تک گزرے ہیں ،اس مدت کے بارے میں لکھی گئی تاریخ، عام مسلمانوں کےلئے امر واقعی کے طور پر ثبت ہوچکی تھی اور ان کے اعتقادات کے مطابق اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس زمانے کے بارے میں لکھی گئی تاریخ ان کے دینی عقائد کا جزہے اور پسماندگان کو کسی قسم کے چون، چرا کے بغیر اسے قبول کرنا چاہئے ۔

یہ مباحث ، تاریخ کی بہت سی ایسی بنیادوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتے ہیں ، جنھیں تاریخ دانوں نے بنیاد قرار دیگر ناقابل تغیر سمجھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ مباحث اسلام کی بہت سی تاریخی داستانو ں کو غلط ثابت کرتے ہیں اور بہت سے قابل اعتماد منابع و مآخذکے ضعیف ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔(۱)

قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہ بحث ” عبد اللہ بن سبا“ اور اس کے افسانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دامن کافی وسیع اور عمیق تر ہے ۔

____________________

۱۔اس لئے ” پیرزال “ کے مانند تاریخ میں لکھے گئے خرافات و توہمات پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے حضرات کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔

۲۹

اس سبب اور چندد یگر اسباب کی بنا پر اس کتاب کو شائع کرنے کے سلسلے میں میرے دل میں خوف پیدا ہوا تھا ، لیکن جب میں نے اس موضوع کے ایک حصہ کو تاریخ پر تحقیقاتی کام انجام دینے والے دو عالیمقام دانشوروں کی تحریروں میں پایا تو میرے حوصلے بڑھ گئے اور میں نے ان مباحث کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے ان مباحث میں قدیمی ترین تاریخی منابع و مآخذسے استفادہ کیا ہے اور پانچویں صدی کے بعد والے کسی شخص سے کوئی بات نقل نہیں کی ہے مگر یہ کہ پانچویں صدی کے بعد نقل کی گئی کسی بات کی بنیاد متقدمین سے مربوط ہو اور صرف اس کی شرح و تفصیل اس کے بعد والوں کسی نے کی ہو۔

ولله الحمد و منہ التوفیق

بغداد ۱۵ رمضان ۱۳۷۵ ھ

مرتضی عسکری

۳۰

پہلا حصہ : عبدا للہ بن سبا کا افسانہ

افسانہ کی پیدائش

افسانہ کے روایوں کا سلسلہ

سیف بن عمر ۔ عبد الله بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا۔

عبد الله بن سبا کے افسانہ کی پیدائش

هٰذه هی اسطورة ابن سَبا بإیجاز

یہ افسانہ عبد الله بن سبا اور اس کی پیدائش کا خلاصہ ہے۔

ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے مؤرخین نے ” ابن سبا“ کے بارے میں قلم فرسائی کرکے اس سے اور سبائیوں (اس کے ماننے والوں) سے حیرت انگیز اور بڑے بڑے کارنامے منسوب کئے ہیں ۔ لہذا دیکھنا چاہئے کہ

یہ ابن سبا کون ہے ؟ اور

سبائی کون ہیں ؟

ابن سبا نے کونسے دعوے کئے ہیں اور کیا کارنامے انجام دئے ہیں ؟

۳۱

مؤرخین نے جو کچھ ” ابن سبا “ کے بارے میں لکھا ہے ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے

صنعا ، یمن کے ایک یہودی نے عثمان کے زمانے میں بظاہر اسلام قبول کیا ، لیکن خفیہطور پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پھیلانے میں مصروف تھا اور مسلمانوں کے مختلف بڑے شہروں جیسے ، شام ،کوفہ ، بصرہ اور مصر کا سفر کرکے مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور لوگوں میں اس امر کی تبلیغ کرتا تھا کہ پیغمبر اسلام کےلئے بھی حضرت عیسی کی طرح رجعت مخصوص ہے اور دیگر پیغمبروں کی طرح حضرت محمد مصطفی کےلئے بھی ایک وصی ہے اور وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں وہ خاتم الاوصیاء ہیں جیسے کہ حضرت محمد خاتم الانبیاء ہیں ۔ عثمان نے اس وصی کے حق کو غصب کرکے اس پر ظلم کیا ہے ، لہذا شورش اور بغاوت کرکے اس حق کو چھین لینا چاہئے ۔

مؤرخیں نے اس داستان کے ہیرو کا نام ” عبد الله بن سبا “ اور اس کا لقب ” ابن امة السوداء “ (سیاہ کنیز کا بیٹا)رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسی عبد الله بن سبا نے اپنے مبلغین کو اسلامی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیج کر انھیں حکم دیا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہانے، وقت کے حاکموں کو کمزور بنادیں ، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کی گرویدہ بن گئی اور انہوں نے اس کے پروگرام پر عمل کیا ،حتی ابوذر، عمار بن یاسر اور عبدا لرحمان بن عدیس جیسے پیغمبر کے بزرگ صحابی اور مالک اشتر جیسے بزرگ تابعین اور مسلمانوں کے دیگر سرداروں کو بھی ان میں شمار کیا ہے ۔

کہتے ہیں کہ سبائی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے ، اپنے قائد کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی غرض سے لوگوں کو علاقہ کے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے تھے او روقت کے حکام کے خلاف بیانات اور اعلانیہ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجتے تھے ۔ اس تبلیغات کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک جماعت مشتعل ہوکر مدینہ ک طرف بڑھی اور عثمان کو ان کے گھر میں محاصرہ کرکے انھیں قتل کر ڈالا ۔ کہ سب کام سبائیوں کی قیادت میں اور انھیں کے ہاتھوں سے انجام پاتے تھے ۔

اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور عائشہ، عثمان کی خونخواہی کیلئے طلحہ و زیبر کے ہمراہ، راہی بصرہ ہوئی تو شہر بصرہ کے باہر علی علیہ السلام اور عائشہ کی سپاہ کے سرداروں ، طلحہ و زبیر کے درمیان گفت و شنید ہوئی ۔ سبائی جان گئے کہ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو قتل عثمان کے اصلی مجرم ، جو سبائی تھے ، ننگے ہوکر گرفتار ہوجائیں گے ۔ اس لئے انہوں نے راتوں رات یہ فیصلہ کیا کہ ہر حیلہ و سازش سے جنگ کی آگ کوبھڑکا دیں ۔

۳۲

اس فیصلہ کے تحت خفیہ طور پر ان کاہی ایک گروہ علی علیہ السلام کے لشکر میں اور ایک گروہ طلحہ و زبیر کے لشکر میں گھس گیا ۔ جب دونوں لشکر صلح کی امید میں سوئے ہوئے تھے تو ، علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے گروہ نے مقابل کے لشکر پر تیر اندازی کی اور دوسرے لشکر میں موجود گروہ نے علی علیہ السلام کے لشکر پر تیر اندازی کی ۔ نتیجہ کے طور پر دونوں فوجوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پید اہوگئی جس کے نتیجہ میں جنگ بھڑک اٹھی ۔

کہتے ہیں کہ اس بنا پر بصرہ کی جنگ ، جو جنگ جمل سے معروف ہے چھڑ گئی ورنہ دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں میں سے کوئی ایک بھی اس جنگ کےلئے آمادہ نہ تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس جنگ کا اصلی عامل کون تھا۔

اس افسانہ ساز نے داستان کو یہیں پر ختم کیا ہے اور سبائیوں کی سرنوشت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

یہ تھا ” سبائیوں “ کے افسانہ کا ایک خلاصہ ، اب ہم اس کی بنیاد پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ” سبائیوں “ میں شمار کئے گئے بزرگوں میں سے بعض کے بارے میں جانکاری حاصل کریں

۱ ۔ ابوذر

۲ ۔ عمار بن یاسر

۳ ۔ عبد الرحمان بن عدیس

۴ ۔ صعصعہ بن صوحان

۵ ۔ محمد بن ابی حذیفہ

۶ ۔ محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول کے بیٹے ۔

۷ ۔ مالک اشتر

۳۳

۱ابوذر

ان کا نام جندب بن جنادہ غفاری تھا ، وہ اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے والے پہلے چار افراد میں چوتھے شخص تھے ، وہ جاہلیت کے زمانے میں بھی خدا پرست تھے اور بت پرستی کو ترک کرچکے تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ مکرمہ میں بیت الله الحرام کے اندر اپنے اسلام کا اظہار کیا اس لئے قریش کے بعض سرداروں نے انھیں پکڑ کر اس قدر ان کی پٹائی کی کہ وہ لہو لہان ہوکر زمین پر بیہوش گر پڑے، وہ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے ، ہوش میں آنے کے بعد وہ پیغمبر خدا کے حکم سے واپس اپنے قبیلہ میں چلے گئے اور بدر و احد کے غزوات کے اختتام تک وہیں مقیم رہے ۔

اس کے بعد مدینہ آئے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انھیں شام بھیجا گیا ، لیکن عثمان کے زمانے میں معاویہ نے ان کے بارے میں خلیفہ کے یہاں شکایت کی اور عثمان نے انھیں مکہ و مدینہ کے درمیان ”ربذہ “ نام کی ایک جگہ پر جلا وطن کردیاا ور آپ ۳۲ ھ میں وہیں پر وفات پاگئے ۔

ابوذر کی مدح و ستائش میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی احادیث موجود ہیں من جملہ آپ نے فرمایا:

مَا اظلّت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر

آسمان اور زمین نے ابوذر جیسے راستگو شخص کو نہیں دیکھا ہے(۱)

____________________

۱۔ ابو ذر کی تشریح ، طبقات ابن سعد، ج ۴ ص ا۱۶ ۔ ۱۷۱، مسند احمد، ج ۲/ ۱۶۳و ۱۷۵، ۲۶۳، ج۵/ ۱۴۷ و ۱۵۵، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، ۳۵۱، ۳۵۶، و ج ۶/ ۴۴۲، اور صحیح بخاری و صحیح ترمذی اور صحیح مسلم کتاب مناقب میں ملاحظہ ہو۔

۳۴

۲ عمار بن یاسر

ان کی کنیت ابو یقظان تھی اور قبیلہ بنی ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا ، ان کا بنی مخزوم کے ساتھ معاہدہ تھا۔

عمار اور ان کے والدین اسلام کے سابقین میں سے تھے ، وہ ساتویں شخص تھے جس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، عمار کے والد اور والدہ نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی طرف سے دی گئےں جسمانی اذیتوں کا تاب نہ لا کر جان دیدی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عمار کی ستائش میں کئی صحیح احادیث روایت ہوئی ہیں ، من جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

عمار کی سرشت ایمان سے لبریز ہے(۱) ۔

انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شرکت کی ہے اور جمعرات ۹ صفر ۳۷ ھ کو ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

۱۔”ان عماراً ملیء ایماناً الی مشاشه

۲۔ ملاحظہ ہو : مروج الذہب ، مسعودی، ج /۲۱ ۔ ۲۲، طبعی و ابن اثیر میں حوادث سال ۳۶ ۔ ۳۷ ھ ، انساب الاشراف بلاذری، ج۵ ، ص ۴۸ ۔ ۸۸ ، طبقات ابن سعد، ج ۳، ق ۱ ، ۱۶۶۔ ۱۸۹، مسند احمد، ج ۱/ ۹۹ و ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۷، ۲۰۴، اور ج ۲/ ۱۶۱ ، ۱۶۳، ۲۰۶، و ج ۳/ ۵،۲۲، ۲۸ ۔

۳۵

۳ محمد بن ابی حذیفہ

ان کی کنیت ابو القاسم تھی ۔ وہ عتبہ بن ربیعہ عبشمی کے فرزند تھے، ان کی والدہ سہلہ بنت عمرو عامریہ تھیں ، محمد بن ابی حذیفہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کے باپ ابو حذیفہ یمامہ میں شہید ہو ئے تو عثمان نے اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی تربیت کی ابن ابی حذیفہ کے بالغ ہونے اور عثمان کے خلافت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس نے عثمان سے مصر چلے جانے کی اجازت چاہی ۔ عثمان نے بھی اجازت دیدی ، جب مصر پہنچے تو دوسروں سے زیادہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے پر معروف ہوئے ، جب ۳۵ ھ میں عبدالله بن ابی سرح اپنی جگہ پر عقبہ بن عامرکو جانشین قرار دے کر مدینہ چلا گیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور عقبہ بن عامر کو مصر سے نکال باہر کیا اس طرح مصر کے لوگوں نے محمد بن ابی حذیفہ کی بیعت کی اور عبد الله بن ابی سرح کو مصر سے واپس آنے نہ دیا ، اس کے بعد محمد بن ابی حذیفہ نے عبد الرحمان بن عدیس کو چھ سو سپاہیوں کی قیادت میں عثمان سے لڑنے کیلئے مدینہ روانہ کیا ، جب حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کی حکمرانی پر بدستور برقرار رکھا ، وہ اس وقت تک مصر کے حاکم رہے جب معاویہ صفین کی طرف جاتے ہوئے محمد بن ابی حذیفہ کی طرف بڑھا، محمد مصر سے باہر آئے اور معاویہ کو ” قسطاط “ میں داخل ہونے سے روکا، آخر کا ر نوبت صلح پر پہنچی اور طے یہ پایا کہ محمد بن ابی حذیفہ تیس افراد من جملہ عبد الرحمان بن عدیس کے ہمراہ مصر سے خارج ہوجائیں او رمعاویہ کی طرف سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن ان کے مصر سے خارج ہونے کے بعد معاویہ نے انھیں مکر و فریب سے گرفتار کرکے دمشق کے زندان میں مقید کر ڈالاکچھ مدت کے بعد معاویہ کے غلام ” رشدین“ نے محمد بن ابی حذیفہ کو قتل کر ڈالا ،

۳۶

محمد بن ابی حذیفہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےصحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا(۱)

۴ عبد الرحمان بن عدیس بلوی

وہ صاحب بیعت شجرہ تھے ۔ مصر کی فتح میں شریک تھے اور وہاں پر ایک زمین کو آبادکرکے اس کے مالک بن گئے تھے ، مصر سے عثمان کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے لشکر کی سرپرستی اور کمانڈری ان کے ذمہ تھی، معاویہ نے محمد بن ابی حذیفہ سے صلح کا عہد و پیمان باندھنے کے بعد مکرو فریب سے عبد الرحمان بن عدیس کو پکڑ کر فلسطین کے ایک جیل میں ڈالدیا، ۳۶ ھ میں اس نے جیل سے فرار کیا لیکن اس کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیاگیا(۲)

۵ محمد بن ابی بکر

ان کی والدہ کا نام اسماء تھا اور وہ عمیس خثعمیہ کی بیٹی تھی ، جعفر ابن ابیطالب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی اسماء نے ابو بکر سے شادی کی تھی اور حجة الودادع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ

____________________

۱۔ اصابہ ، حرف میں ق ۱/ ج۳/ ۵۴، اسد الغابہ، ج ۴/ ص ۳۱۵، الاستیعاب ،ج ۳/ ۳۲۱۔۳۲۲۔

۲۔ اصابہ، ج ۴/ ۱۷۱ ق ۱، حرف عین ، استیعاب حرف عین کی طرف مراجعہ کری ں ۔

۳۷

پیدا ہوئے پھر ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے، اور جنگ جمل میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے اور پیادہ لشکر کی کمانڈری بھی کی۔

حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں تلوار چلائی اور اس جنگ میں پیدل فوج کی کمانڈر تھے ۔ انہوں نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی ہے اور اس جنگ کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے مصر کے گورنر مقرر ہوئے اور ۱۵ رمضان المبارک ۳۷ ھ کو مصر پہنچ گئے ،معاویہ نے ۳۸ ھ کو عمرو عاص کی سرکردگی میں مصر پر فوج کشی کی ، عمرو عاص نے مصر پر قبضہ جمانے کے بعد محمد بن ابو بکر کو گرفتار کرکے اسے قتل کر ڈالا پھران کی لاش کو ایک مردار خچر کی کھالمیں ڈال کر نذر آتش کیا(۱)

۶ صعصعہ بن سوہان عبدی

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا ہے ، وہ فصیح تقریر کرنے والا ایک شخص تھا انہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں معاویہ سے جنگ کی ہے ، جب معاویہ نے کوفہ پر تسلط جمایا تو صعصعہ کو بحرین جلا وطن کردیااور انہوں نے وہیں پر وفات پائی(۲)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ، سال ۳۷۔۳۸ ھ کے واقعات کے ذیل میں ، اصابہ، ج ۳/۴۵۱ق، حرف میم ، استیعاب ،ج ۳/ ۳۲۸ و ۳۲۹ ملاحظہ ہو

۲۔ اصابہ، ج۳/ ۱۹۲ حرف ص ، استیعاب، ج۲/ ۱۸۹۔

۳۸

۷ مالک اشتر

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے ، تابعین کے ثقات میں شمار ہوتے

تھے ، مالک اشتر اپنے قبیلے کے سردار تھے ، چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اس لئے انہیں ” اشتر“ لقب ملا تھا ،انہوں نے جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی اور نمایاں کامیابی حاصل کی ، ۳۸ ھ میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا ور وہ مصر کی طرف بڑھ گیے ، جب وہ قلزم (بحر احمر) پہنچے تو معاویہ کی ایک سازش کے تحت انھیں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ وفات پاگئے(۱) یہ تھا صدر اسلام کے بزرگ مسلمانوں کے ایک گروہ کے حالات کا خلاصہ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مؤرخین کی ایک جماعت نے انھیں ایک نامعلوم یہودی کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی ہے ؟!!!

اب جب کہ ہمیں معلوم ہوا کہ عبد الله بن سبا کا افسانہ کیاہے ، تو اب مناسب ہے اس افسانہ کے سر چشمہ اور آغاز کی تلاش کریں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کو کس نے گڑھ لیا ہے اور اس کے راوی کون ہیں ۔

____________________

۱۔ استیعاب ، ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ج ۳/ ۳۲۷، اصابہ ج ۳/ ۴۶۹، اور

افسانہ عبدا للہ بن سبا کے راوی

اکثر من عشرة قرون و المؤرّخون یکتبوں هذه القصة

دس صدیو ں سے زیادہ عرصہ سے مورخین اس افسانہ کو صحیح تاریخ کے طورپر لکھتے چلے آئے ہیں ۔

” مولف“

۳۹

بارہ صدیاں گزر گئیں کہ مؤرخین ” عبدا للہ بن سبا “ کے افسانہ کو لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ جتنا بھی وقت گزرتا جارہاہے ، اس افسانہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملتی جارہی ہے ، یہاں تک کہ آج بہت کم ایسے قلم کار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اصحاب کے بارے میں قلم فرسائی کی ہو اور اپنی تحریرات میں ا س افسانہ کو لکھنا بھول گئے ہوں ! بے شک گزشتہ اور موجودہ قلم کاروں میں یہ فرق ہے کہ قدیمی مؤلفین نے اس افسانہ کو حدیث اور روایت کے روپ میں لکھا ہے اور اس افسانہ کو اپنی گڑھی ہوئی روایتوں کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ معاصر مؤلفین نے اس کو علمی اور تحقیقاتی رنگ سے مزین کیا ہے ۔

اس لحاظ سے اگر ہم اس موضوع کی علمی تحقیق کرنا چائیں تو ہم مجبور ہیں پہلے اس افسانہ کے سرچشمہ اور اس کے راویوں کی زندگی کے بارے میں ابتداء سے عصر حاضر تک چھان بین کریں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن لوگوں اور کن منابع کی بنا پر اس داستان کی روایت کی گئی ہے اس کے بعد اصلی داستان پر بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کریں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بتلائیں_

اللہ تعالی کے واضح پیغام کے علم کے بغیر لوگ کس طرح صحیح زندگی کو درک کرسکتے ہیں___؟ کس طرح ایمان اور یقین کے بغیر دنیاوی و اخروی سعادت کو حاصل کرسکتے ہیں؟ واقعا کون سی ذات سوائے خداوند عالم کے لوگوں کی زندگی اور آزادی کے لئے رہنما ہوسکتی ہے؟

پیغمبروں کا سب سے اہم کام لوگوں کو ایمان کی دعوت دینا ہوتا ہے، ایک انسان کے لئے سب سے قیمتی اور عظیم ترین چیز خدائے وحدہ اور اس کے درست دعؤوں پر ایمان لانا، اس کی عبادت و پرستش کرنا اور اس ذات سے انس و محبت کرنا ہوتا ہے کیونکہ خدا کی معرفت، اس سے محبت کرنا، اس پر ایمان لے آنا اور اس کی اطاعت ہی وہ تنہا ہدف و غایت ہے کہ جس کیلئے تمام جہاں کو خلق کیا گیا اور یہی انسان کے حقیقی ارتقاء کا تنہا راستہ ہے_

پیغمبر دلائل، براہین، اسرار و رموز کے بیان کرنے اور دنیا کے عجائب کے اظہار کرنے سے انسان کی فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور حق موجود ہوتا ہے بیدار کرتے ہیں اور زیباترین و عظیم ترین ارزش تک پہونچنے کے لئے حرکت کی راہ اور وہاں تک پہونچنے کے راستے بتلاتے ہیں_ دنیا میں نظم، ہم آہنگی و زیبائی اور شگفتی جو عالم کی خلقت میں موجود ہے، کی وضاحت کرتے ہیں تا کہ لوگ اللہ تعالی کی قدرت عظمت، حکمت و دانائی اور توانائی تک رسائی حاصل کرسکیں_

اللہ تعالی کی نعمتوں کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے راہنمائی کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ لوگوں کی خوابیدہ عقل کو بیدار و ہوشیار کرتے ہیں_

۱۲۱

پیغمبر اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ لوگوں کی بدبختی کا سب سے بڑا عامل اور سبب خدائے مہربان کو فراموش کردینا اور اللہ تعالی سے کفر، انکار، بے ایمانی اور مادی گری ہوا کرتا ہے_ لوگوں کا سعادت مند ہونے کا تنہا سبب اللہ تعالی پر ایمان لے آنا اور خدا کی طرف توجہ کرنا ہوتا ہے_

واقعاً جو انسان خداپر ایمان نہیں رکھتا وہ کس امید پر زندگی بسر کرتا ہے___؟ جو شخص خداوند عالم کے پیغام پر ایمان نہیں رکھتا وہ کس کے پیغام پر ایمان لاتا ہے___؟ کون سے پیغام کے سننے سے اپنے آپ کو حیرت اور سرگردانی سے نجات دیتا ہے؟ کون سے مدہ کے سننے سے اپنے اندرونی اضطراب اور مخفی پریشانی کو سکون دے سکتا ہے؟

صرف خدا پر ایمان ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کا اندرونی نوری چشمہ پھوٹ سکتا ہے اور باطنی کثافت و روحی تاریکیوں کو برطرف کرسکتا ہے اور یہی مومن کے دل کو اطمینان اور صفا بخشا ہے_ واقعا مومن اللہ کی سب سے بہترین مخلوق ہے وہ خدا اور ارتقاء کی راہ کوپالیتا ہے اور اس پر ثابت قدم رہتا ہے_ مومن اپنی زندگی کا آئین پیغمبروں سے حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالی کے دستور کے سامنے سر نیاز خم کردیتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتا ہے، ہمیشہ اسی کی یاد میں رہتا ہے، خدا پر اعتماد کرنے میں خوش اور دل گرم رہتا ہے اور اس کی رضا کے حاصل کرنے میں دن رات کو شاں رہتا ہے_

خلاصہ خدا کے علاوہ دوسروں سے امیدوں کو قطع کر کے صرف خدا ہی سے اپنی امیدیں وابستہ رکھتا ہے، دل کی گہرائی سے خدا سے راز و نیاز کرتا رہتا ہے ، مشکلات اور احتیاجات کے دور رکرنے میں اسی سے پناہ لیتا اور اسی سے مدد مانگتا ہے_

خداوند عالم بھی ایسے مومن کو دوست رکھتا ہے، اپنی غیبی قوت اور امداد سے اس کی مدد کرتا ہے لہذا مومن کہ جس کا محبوب خدا اور خدا کا محبوب وہ خود ہے، کسی سے نہیں

۱۲۲

ڈرتا کیونکہ اس کا حامی خدا ہے لہذا تمام طوفان اورحوادث کے مقابل پہاڑوں کی طرح ثابت قدمی سے مقاومت کرتا رہتا ہے، مومن ایک آزاد انسان ہوتا ہے جو اللہ کی بندگی کو قبول کر کے طاغوتوں اور ظالمں کی بندگی، زر و جواہر اور جادہ و مقام کی پرستش سے آزاد ہوجاتا ہے، کائنات اور اس میں موجود مخلوق کو خدا کی نشانی جانتا ہے، تمام جہاں کا مدبر اور مدیر خدا کو مانتا ہے_

اس کے ارادہ کو تمام جگہوں پر نافذ مانتا ہے صرف اور صرف اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور کسی دوسرے کے سامنے سر ذلت نہیں جھکاتا اور ایک جوان کی طرح ظالموں پر حملہ آور ہوتا ہے، شہادت کی آرزو کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوجاتا ہے_ پیغمبر، خدائی نظام اور آئین سے ایسے بزرگوار اور آزاد انسان کی جو طالب شہادت ہوتے ہیں تربیت کرتے ہیں_

قرآن کی آیت:

( الا بذکر الله تطمئن القلوب ) ____(۱)

''آگاہ ہوجاؤ کہ اطمینان، یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے''

____________________

۱) سورہ رعد آیت نمبر ۲۸

۱۲۳

سوالات

سوچیئےور جواب دیجیئے

۱) ___اس جوان کا جس نے پیغمبر اسلام (ص) کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا اس درس میں کیسے ذکر کیا گیا ہے؟

۲)___ جب پیغمبر (ص) نے اس جوان سے پوچھا کہ تونے صبح کیسے کی تو اس نے کیا جواب دیا تھا؟

۳)___ اس جوان نے اپنے ایمان اور یقین کی علامتیں کون سی بیان کی تھیں؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے اصحاب سے اس جوان کے با رے میں کیا فرمایا تھا؟

۵)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اس جوان کو کس چیز کی وصیت اور سفارش کی تھی؟

۶)___ اس جوان کی کون سی آرزو تھی کہ جس کے لئے پیغمبر اسلام(ص) سے دعا کرنے کی خواہش کی تھی؟

۷)___ پیغمبروں کا سب سے اہم کام کون سا ہوا کرتا تھا؟

۸)___ ایک انسان کی عظیم ترین اور بہترین ارزش کون سی ہوتی ہے؟

۹)____ پیغمبر، انسان کی خداجوئی والی فطرت کو کس طرح بیدار کرتا ہے؟

۱۰)___ انسان اور جہان کی خلقت کی غرض و غایت کیا ہوتی ہے؟

۱۱)___ پیغمبروں کی نگاہ میں لوگوں کی بدبختی کا اہم عامل اور سبب کیا ہوتا ہے، اور سعادت کا تنہا سبب کون سا ہوتا ہے؟

۱۲)___ مومن انسان کی خصوصیات جو اللہ تعالی کے پیغمبروں کے دستور کے مطابق ترتیب یافتہ ہوتے ہیں کون سی ہوتی ہیں؟

۱۲۴

اللہ تعالی کے لئے کام کرنا پیغمبروں کے برنامے میں سے ایک ہے

انسانوں کوطاغتوں سے آزاد کرنا اور ظالم کے زور کو توڑنا استقامت اور قیام کئے بغیر ممکن نہیں، لیٹروں اور طاغتوں کا ہاتھ محروم و مستضعفین کے جان و مال سے اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک لوگ آزادی اور رہائی کے خواستگار نہ ہوں اور اس کے لئے قیام نہ کریں، اپنی تمام قوت و کوشش کو کام میں نہ لائیں اور اس ہدف و غرض کے لئے جہاد و پائیداری سے کام نہ لیں_

فقر، محرومیت، ظلم، بے عدالتی، جہل، نادانی، تجاوز، سلب امنیت، قانون شکنی اور فساد سے مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ بہت مشکل اور اہم کام ہے کہ جسے سارے افراد کی کوششوں اور عمومی جہاد کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے شناخت، تمایل، حرکت اور کوشش ضروری ہے اس لئے تمام پیغمبروں کا اصل کام اور سب سے پہلا اقدام ظالموں، مستکبروں اور مفسدوں کے خلاف جہاد کرنا ہوا کرتا تھا_

خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

'' ہم نے پیغمبروں کو واضح دلیلیں دے کر بھیجا ہے، ان پر کتاب اور میزان نازل کی ہے تا کہ لوگ عدالت و انصاف کے لئے قیام کریں''_ (حدید آیہ ۲۵)

۱۲۵

'' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تم خدا کے لئے قیام کرو اور انصاف کی گواہی دو''_ (سورہ مائدہ آیت نمبر ۸)

''اے پیغمبر(ص) لوگوں سے کہہ دو کہ میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو دو آدمی اور ایک ایک اللہ تعالی کے لئے قیام کرو'' (سبا ۲۶)

تمام پیغمبروں نے مادی گری، شرک و فساد کے خلاف، مستضعف لوگوں کو نجات دینے، عدل و انصاف قائم کرنے اور خداپرستی کو عام کرنے کے لئے جہاد و قیام کیا ہے لوگوں کے خوابیدہ افکار کو بیدار کیا ہے اور انھیں قیام و حرکت کرنے کی دعوت دی ہے:

_ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی اور ستمگر سے مقابلہ کرنے کے لئے قیام کیا اور نمرود و نمرودیوں سے جنگ کی_

حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی قوم کو فرعون سے نجات دینے کے لئے فرعون سے مقابلہ کیا اور لوگوں کی متفرق طاقت کو آزادی کے لئے یکجا کیا اور ایک ہدف و غرض کے لئے اکٹھا کیا_

_ حضرت عیسی علیہ السلام نے جابر لوگوں کے خلاف اور تحریف شدہ قوانین کو زندہ کرنے کے لئے قیام کیا_

_ پیغمبر اسلام (ص) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بت پرستی، ظلم اور بے عدالتی سے مقابلہ کرنے کے لئے قیام فرمایا اور اپنے ماننے والوں سے چاہا کہ ہمیشہ ظلم اور ظالم کے دشمن بن کر رہیں اور مظلوم و ستم رسیدہ انسانوں کے یار و مددگار ہوں_

اسلام کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور جہان کے محرومین کو نجات دینے کے لئے جہاد، قیام اور کوشش کرتے رہیں_

۱۲۶

تحقیق اور تکمیل:

قرآن مجید کی آیات سے اور ان آیات سے کہ جن کا ترجمہ یہاں کیا گیا ہے یوں نتیجہ نکلتا ہے:

۱)___ قیام اور جہاد، اللہ تعالی کے قوانین کے اجراء اور ظالموں کے ہاتھ کو لوگوں کے جان مال سے روکنا، ہر قسم کے ظلم و فساد، شرک و بے عدالتی کو ختم کرنا فرائض دینی اور دستور مذہبی کا اہم و اصلی جزء ہے اور اسے دین کے سر فہرست ہونے کا درجہ حاصل ہے_

۲)___ مفسد و متجاوز کا مقابلہ کرنا تمام انسانوں کا عمومی فریضہ ہے اور تمام کے تمام لوگ اس کے ذمہ دار ہیں اور انھیں ایک دوسرے کی مدد و تعاون کر کے اس کے لئے قیام اور تحریک کو آگے بڑھانا چاہیئے_

۳)___ اگر کچھ لوگ اس کی انجام دہی میں کوتاہی و سستی کریں تو دوسرے لوگوں سے یہ فریضہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ ہر آدمی کا فریضہ ہے کہ وہ یک و تنہا قیام کرے اور اپنی طاقت کے مطابق اس فریضہ کو انجام دے اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنی مدد کرنے کی دعوت دے_

۴)___ اس قیام و جہاد میں غرض و ہدف خدا کی ذات اور اس کی رضا ہونی چاہیئے اور اس سے غرض خودخواہی اور حکومت طلبی نہ ہو_ قرآن مجید خاص طور سے حکم دیتا ہے کہ قیام اور جہاد کی غرض اللہ تعالی کی خوشنودی، قوانین و احکام الہی کا جاری کرنا اور مخلوق خدا کی سعادت، نجات اور عدل الہی کے پھیلاؤ کے علاوہ اور کچھ نہ ہو_

۵)___ قیام اور جہاد میں عدالت کی رعایت کی جانی چاہیئےور جہاد کرنے

۱۲۷

والوں کو حدود عدالت سے خارج نہیں ہونا چاہیئے اور خود انھیں ظلم کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیئے_

یہ ہمارا فریضہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے پھیلاؤ اور باقی رکھنے کے لئے اپنی پوری طاقت و قوت سے ظالموں اور مستکبروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے قیام و جہاد کریں اور جب تک تمام اسلامی احکام اور نجات دینے والا یہ پیغام '' لا الہ الا اللہ'' دنیا کے کونے کونے تک نہ پھیل جائے اپنی کوشش اور سعی کو ختم نہ کریں_

قرآن کی آیت:

( قل انّما اعظکم بواحدة ان تقوموا لله مثنی و فرادی ) ____(۱)

''کہہ دو کہ میں ایک چیز کی تمھیں نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ دو دو اور ایک ایک اللہ کے لئے قیام کرو''

____________________

۱) سورہ سبا آیت ۴۶

۱۲۸

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجیئے

۱)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں لوگوں کو راہ خدا میں جہاد کرنے، عدالت اور انصاف کو پھیلانے کی دعوت دی ہے_ اس درس میں سے تین آیات کا اس بارے میں ترجمہ پیش کیجیئے _

۲)___ جہاد کی غرض کیا ہونی چاہیئے؟ وہ شرائط جو جہاد اور قیام الہی کے لئے ضروری ہیں انھیں بیان کیجیئے

۳)___ ظالم اور مفسد کا مقابلہ کرنا کس کا فریضہ ہے، اگر ایک گروہ اس فریضہ کی ادائیگی میں سستی کرے تو دوسروں کا کیا فریضہ ہوتا ہے؟

۴)___ اسلامی انقلاب کو وسعت دینے کے لئے ہمارا کیا فریضہ ہے، کب تک ہم اس کی کوشش کرتے رہیں؟

۱۲۹

مرکز توحید (۱)

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا پرستوں اور توحید کے پیغمبر تھے، آپ اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبری کے لئے چنے گئے تھے، آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ پورے عالم میں خداپرستی کا پیغام پہونچائیں اور اسے عام کریں، آپ نے توحید کی دعوت ایک متمدن شہر بابل سے شروع کی اور اپنے زمانہ کے طاغوت نمرود سے مقابلہ کیا ایک زمانہ تک آپ بت پرستی اور شرک سے مقابلہ کرتے رہے لوگوں کو خدا کی عبادت اور اللہ تعالی کے حیات بخش فرامین کی اطاعت کرنے کی طرف دعوت دیتے رہے_

پاکباز لوگوں کا ایک گروہ آپ پر ایمان لے آیا آپ توحید کی دعوت کو عام کرنے کے لئے مصر، شام اور فلسطین کی طرف ہجرت کرتے رہے تا کہ توحید پرستی کا پیغام دوسرے انسانوں تک بھی پہونچاسکیں اور انقلاب توحید کو تمام ممالک میں صادر کرسکیں، آپ نے اس کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زیادہ تکالیف اٹھائیں_ تمام جگہوں میں اس زمانہ کے ظالموں اور طاغتوں کی شدید مخالفت کا آپ کو سامنا کرنا پڑا_

ایک گروہ کی جہالت و نادانی اور غفلت نے آپ کے اس کام کو دشوارتر کردیا تھا جس کی وجہ سے آپ کو زیادہ کامیابی نہ مل سکی لیکن یہ عظیم پیغمبر اللہ تعالی کے اس حکم کی بجاآوری میں پكّے ارادے سے ثابت قدم رہے اور کبھی دلسرد اور نہ تھکے_ آپ کے ارادہ کا اہم فیصلہ ایک جگہ کو توحید کا مرکز بنانا تھا آپ نے اللہ تعالی کے حکم کے ماتحت

۱۳۰

پكّا ارادہ کرلیا تھا کہ توحید اور خداپرستی کا ایک مضبوط مرکز بنائیں گے تا کہ خداپرست معتقد حضرات وہاں اکٹھے ہوں ایک دوسرے سے آشنائی و شناسائی پیدا کریں اور توحید و خداپرستی کا حیات بخش پیغام وہاں سے لے کر تمام عالم کے کانوں تک پہونچائیں اور غافل انسان کو بیدار کریں اور انھیں ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور خداپرستی کی طرف بلائیں اس کا مرکز کہاں بنائیں؟ اس غرض کے لئے بہترین نقطہ کون کون سا ہوسکتا ہے اور وہ کون سی خصوصیات کا حامل ہو؟

اللہ تعالی نے اس غرض کے لئے خانہ کعبہ کو منتخب کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کی نشاندہی کی کیونکہ خانہ کعبہ قدیم زمانہ سے توحیدپرستوں کا معبد تھا، خانہ کعبہ کو سابقہ پیغمبروں نے بنایا تھا اسی لئے خداپرستوں کے لئے مورد توجہ تھا اور کبھی نہ کبھی لوگ وہاں جایا کرتے تھے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے اپنی بیوی اور بیٹے جناب اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مکہ روانہ ہوئے جب مکہ پہونچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جبرئیل کی راہنمائی میں مخصوص اعمال ''مناسک حج'' بجالائے جب اعمال بجالا چکے تو اپنی بیوی اور بیٹے سے کہا کہ ''اللہ تعالی کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ تمھیں کعبہ کے قریب رکھوں اور میں خود حکم الہی کی تعمیل کے لئے فلسطین چلا جاؤں ، تم یہیں رہ جاؤ خانہ کعبہ کے زائرین کی مہمان نوازی کرو، اس کے آباد کرنے اورپاکیزہ بنانے میں کوشش کرو، خدا چاہتا ہے کہ یہ توحید، خداپرستی کا معبد و مرکز قرار پائے اور تم بھی توحید کے محافظ اور پاسدار رہنا، بردبار و فداکار ہونا، مسافرت، تنہائی و مشکلات سے نہ کھبرانا کیونکہ یہ تمام اللہ کے راستے اور خلق خدا کی خدمت کے مقابلہ آسان ہیں خدا تمھارا مددگار اور محافظ ہے''_

حضرت ابراہیم (ع) نے بیوی اور اپنے فرزند جناب اسماعیل (ع) کو الوداع کہا اور فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے، آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ان سے دور ہوتے جا رہے تھے

۱۳۱

اور دور سے انھیں دیکھتے جا رہے تھے ایک چھوٹے سے بچّے کو اس کی ماں کے ساتھ ایک دّرے میں اور شاید ایک درخت کے نیچے تنہا چھوڑ کر جا رہے تھے_ آخری وقت جب کہ پھر انھیں دیکھ نہ سکتے تھے کھڑے ہوگئے، ان کی طرف نگاہ کی، اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا:

''پروردگار تیری امید اور سہارے پر اپنے خانوادے کو اس خشک پہاڑ کے دامن میں تیرے گھر کے قریب چھوڑ کر جا رہا ہوں تا کہ یہ تیری عبادت و پرستش اور نماز کو برپا کریں_

خدایا لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ کر اور زمین کے دانوں اور میووں کو ان کا نصیب قرار دے_ پروردگار اس جگہ کو امن کا حرم قرار دے مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ_

خدایا بت پرستی اور شرک نے بہت سے لوگوں کو گمراہی اور بدبختی میں ڈال رکھا ہے_ پروردگار مجھے، میری اولاد اور خاندان کو نماز برپا کرنے والوں میں سے قرار دے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرما''

اس کے بعد آپ نے آخری نگاہ بیوی اور چھوٹے فرزند پر ڈالی اور یک و تنہا فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے_

قرآن کی آیت

ربّنا انی اسکنت من ذريّتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربّنا لیقیموا الصّلاةفاجعل افئدة من الناس تهوی الیهم و ارزقهم من الثّمرات لعلّهم یشکرون

''پرودگار میں نے اپنے خانوادہ کو ایک بے آباد وادی تیرے گھر کے ہمسایہ میں سکونت دی ہے، ہمارے پروردگار اس لئے کہ نماز کو برپا کریں ، لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ کرو اور زمین کے میوہ جات ان کی روزی قرار دے تا کہ تیرا شکر ادا کریں''(۱)

____________________

۱) سورہ ابراہیم آیت ۳۷

۱۳۲

مرکز توحید (۲)

تنہا بوڑھا انسان ایک عصا اور تھوڑا سا سامان پشت پر ڈالے راستے کے پیچ و خم کو طے کرتے ہوئے فلسطین کی طرف جا رہا ہے تا کہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالی کی عبادت و اطاعت کی طرف بلائے اور ظالموں کی اطاعت و فرمانبرداری سے روکے_

فداکار خاتون ہاجرہ اپنے چھوٹے فرزند کے ساتھ ایک پتھر کے کنارے بیٹھی سورج کے غروب ہونے کا انتظار کر رہی تھی_ کیا اس خشک و خالی درّے میں زندگی کی جاسکتی ہے؟ کیا اس بلند و بالا پہاڑ کے دامن میں رات کو صبح تک کاٹا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی یہاں ہمسایہ ڈھونڈا جاسکتا ہے؟

اس قسم کے افکار سے اضطراب و پریشانی میں پڑ گئیں وہ اٹھیں اور جلدی سے پہاڑ کے اوپر گئیں اور ادھر ادھر نگاہ کی کسی کو نہ دیکھا سوائے چھوٹے بڑے خاموش اور خوف اور پہاڑ کے جو اپنی جگہ کھڑے تھے، انھوں نے مدد کے لئے آواز دی لیکن کسی سے جواب نہ سنا دوڑتے و دوڑتے نیچے اتریں اور ایک نگاہ اپنے چھوٹے فرزند پر ڈالی_

سورج جلدی میں ڈوب رہا تھا، درّہ تاریک اور خوفناک ہو رہا تھا، سامنے والے پہاڑ پر مشکل سے اوپر گئیں اور اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی پر پہونچایا، اطراف میں نگاہ دوڑائی کسی کو نہ دیکھا سوائے پہاڑ کے گھبرا کر مدد کے لئے پکارا کسی نے لبّیک نہ کہا چنانچہ نیچے اتریں اس وقت سورج نظر نہیں آرہا تھا پھر سامنے والے پہاڑ پر چڑھیں سورج کو دیکھا

۱۳۳

اور خوشحال ہوگئیں اور مدد کے لئے آواز دی لیکن کسی نے جواب نہ دیا_

ان دو پہاڑوں کے درمیان سات دفعہ فاصلہ طے کیا یہاں تک کہ رات ہوگئی اور جناب ہاجرہ تھک گئیں وہ اپنے چھوٹے فرزند کے پاس گئیں اور نیم تاریک و خاموش فضا میں بچے کو گود میں لیا اپنے کو اور اپنے فرزند کو اللہ کے سپرد کر کے درخت کے کنارے پتھر پر لیٹ گئیں_

روزانہ جناب ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (ع) خانہ کعبہ کی خدمت کرتے اور اسے پاکیزہ رکھنے میں مشغول رہتے تھے، خانہ کعبہ کی دیوار گرگئی تھی مٹی اور کوڑا و غیرہ صاف کیا اور اس چھوٹے گھر میں عبادت و نماز میں مشغول رہنے لگے_ تھوڑے دنوں کے بعد کئی ایک لوگ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مكّہ آئے ایک عورت اور چھوٹے بچے کو دیکھ کر تعجب کیا اور ان سے ان کے حالات پوچے جناب ہاجرہ نے جواب دیا کہ:

''ہم اولالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم (ع) کے گھرانے سے ہیں انھوں نے حکم خدا سے ہمیں یہاں رہنے کو کہا ہے تا کہ خانہ کعبہ کی خدمت کرتے رہیں اور اسے زیارت کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا اور آباد کئے رکھیں''_

اس قدیم خانہ کعبہ سے علاقہ رکھنے والے زائرین نے مختلف ہدیئے انھیں دیئےور آہستہ آہستہ کعبہ کے زائرین زیادہ ہونے لگے، خداپرست اور موحّد لوگ گروہ در گروہ کعبہ کی زیارت کو آتے اور جناب ہاجرہ حضرت اسماعیل (ع) کی خدمتوں کے صلہ میں ہدیہ پیش کرتے تھے_

حضرت اسماعیل (ع) اور آپ کی والدہ ماجدہ زائرین کعبہ کی خدمت کرتی تھیں آپ کی زندگی کا سہارا چند گوسفند تھے جناب اسماعیل (ع) گوسفندوں کو چراتے اور ان کے گوشت

۱۳۴

و پوست سے غذا و لباس مہیا کرتے تھے _ انھیں ایام میں عربوں کے کئی گروہ جو مكّہ سے کچھ فاصلہ پر رہتے تھے جناب اسماعیل (ع) اور حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر وہاں آباد ہوگئے_

جناب ابراہیم علیہ السلام بھی خانہ کعبہ کی زیارت کرنے اور اپنے اہل و عیال کے دیدار کے لئے مكّہ معظمہ آیا کرتے تھے اور خانہ کعبہ کی رونق، آبادی اور روز بروز زائرین کی زیادتی سے خوشحال ہوا کرتے تھے_ ایک سفر میں جب آپ مكّہ آئے ہوئے تھے تو اللہ تعالی کے حکم سے ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں_ اس بارے میں آپ نے جناب اسماعیل علیہ السلام سے گفتگو کی اس وقت جناب اسماعیل (ع) جوان ہوچکے تھے آپ نے اپنے والد کی پیش کش کو سراہا اور وعدہ کیا کہ باپ کی اس میں مدد کریں گے_

کام شروع ہوگیا جناب اسماعیل (ع) پتھر اور گارا لاتے اور جناب ابراہیم (ع) کعبہ کی دیوار کو بلند کرتے_ دوسرے لوگ بھی اس میں آپ کی مدد کرتے اور تعمیر کا سامان لے آتے، ایک سیاہ پتھر جو آثار قدیمہ کے طور پر باقی رہ گیا تھا اور سابقہ انبیاء (ع) کی نشانی و یادگار تھا اسے آپ نے دیوار کی ایک خاص جگہ پر نصب کردیا_ جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا:

''پروردگارا توحید اور خداپرستی کے گھر کی تعمیر کردی تا کہ یہ دنیا کے لوگوں کی عبادت و آزادی کا مرکز ہو، پروردگارا ہمارا یہ عمل قبول فرما اور ہمیں اپنے حکم کی اطاعت کرنے کی توفیق عنایت فرما_ میری اولاد سے مسلمانوں کی ایسی جماعت پیدا کر جو تیرے دستور کے ماننے والے اور فرمانبردار ہوں اور میری اولاد میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرماتا کہ تیری کتاب کی آیتوں کو لوگوں کے لئے پڑھے

۱۳۵

اور انھیں حکمت و کتاب کا درس دے، ان کے نفوس کا تذکیہ و تکمیل اور پرورش کرے_

پروردگار اس مقدس مکان کو امن کا حرم قرار دے، مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ اور اپنی برکت و نعمت کو اس مقدس مکان کے رہنے والوں کے لئے زیادہ فرما''

اس کے بعد آپ ایک بلند پہاڑ پر جو یہاں سے نزدیک تھا اور اسے کوہ ابوقیس کہا جاتا ہے_ گئے اور اپنے ہاتھوں کو کانوں پر رکھ کر بلند آواز سے یوں پکارا:

'' اے حجاز کے لوگو اے ساری دنیا کے لوگو توحید اور خداپرستی کے مرکز کی طرف آؤ شرک و ذلت اور بت پرستی سے ہاتھ اٹھالو''

اسی زمانہ سے خانہ خداپرستوں کی عبادت و اجتماع کا مرکز بن گیا ہے اور جو چاہے جناب ابراہیم علیہ السلام کی آواز پر لبيّک کہے، خانہ کعبہ کی طرف جائے، خدا کی عبادت کرے وہاں موحّد مومنین کو دیکھے، مشکلات کے حل کے لئے ان سے گفتگو کرے، تمام لوگوں کی ظلم و ستم اور ذلت و شرک سے رہائی کے لئے مدد کرے، ایک دوسرے سے ہمکاری و اتحاد کا عہد و پیمان باندھے اور سب مل کر کوشش کریں کہ اس مقدس خانہ کعبہ کو ہمیشہ کے لئے آباد اور آزاد رکھیں_

قرآن کی آیت :

( و اذا یرفع ابراهیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منّا انّک انت السمیع العلیم ) ____(۱)

''جب حضرت ابراہیم (ع) خانہ کعبہ کی دیواریں حضرت اسماعیل (ع) کے ساتھ مل کر بلند کر رہے تھے تو کہا اے پروردگار ہمارے اس عمل کو قبول فرما تو سننے والا اور دانا ہے''

____________________

۱) سورہ بقرہ آیت ۱۲۷

۱۳۶

سوالات

۱)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد توحید کا مرکز بنانے سے کیا تھا؟

۲)___ سب سے قدیم عبادت گاہ کہاں ہے، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کن حضرات نے اسے بنایا تھا؟

۳)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام کن کے ساتھ مکہ معظمہ آئے تھے، حج کے اعمال کس کی راہنمائی میں بجالائے تھے؟

۴)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخری وقت کہ جس کے بعد وہ بیوی اور بچّہ کو نہ دیکھ سکتے تھے کیا دعا کی تھی، آپ کی دعاؤں میں کن مطالب کا ذکر تھا؟

۵)___ حضرت ہاجرہ (ع) دو پہاڑوں کا فاصلہ کس حالت میں طے کر رہی تھیں اور یہ کتنی دفعہ طے کیا تھا؟

۶)___ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کو تعمیر کریں تو یہ کس کے سامنے گفتگو کی اور اس نے اس کا کیا جواب دیا؟

۷)___ جب خانہ کعبہ کی تعمیر میں کس نے آپ کی مدد کی اور وہ کیا کام انجام دیتے تھے؟

۸)___جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تھی تو حضرت ابراہیم (ع) نے دعا کی تھی اس دعا میں آپ نے کیا کہا تھا اور آپ نے خداوند عالم سے کیا طلب کیا تھا؟

۹)___ آپ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد کون سے پہاڑ پر گئے تھے اور لوگوں کو کس چیز کی دعوت دی تھی؟

۱۰)___ جو لوگ جناب ابراہیم (ع) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خانہ کعبہ جاتے ہیں ان کے وہاں کیا فریضے ہوتے ہیں، ہر سال حج میں مسلمانوں کا کیا فریضہ ہوتا ہے؟

۱۳۷

دین یہود

حضرت موسی (ع) یہودی نامی دین لائے، حضرت موسی (ع) جناب عیسی (ع) سے ۱۵۰۰ سال پہلے مصر کی سرزمین میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام حضرات عمران تھا_ حضرت موسی (ع) اولوالعزم پیغمبر تھے قرآن مجید میں آپ کا متعدد جگہ ذکر ہوا ہے آپ کی بنی اسرائیل قوم جو مستضعف اور مظلوم تھی کی مدد اور حمایت کرنے کا قصہ اور بالخصوص آپ کا فرعون جیسے ظالم و مغرور سے مقابلہ کرنے کا قصہ قرآن مجید میں متعدد جگہ ذکر ہوا ہے_

حضرت موسی (ع) چالیس سال کے تھے کہ آپ کو خداوند عالم نے پیغمبری کے لئے مبعوث کیا اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے زمانہ کے طاغوت سے مقابلہ کریں اور بنی اسرائیل کی مظلوم قوم کو فرعون کی غلامی اور قید و بند سے آزاد کرائیں،خداوند عالم کی عبادت اور بندگی کی طرف لوگوں کو بلائیں حضرت موسی (ع) نے اپنے اس آسمانی فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ کی_

ابتداء میں آپ نے فرعون سے وعظ و نصیحت اور نرمی سے کام لیا اس کے بعد آپ نے اس سے گفتگو کی اور پروردگار عالم کی خدائی کی اور اس کی ربوبیت اور اپنی رسالت کے لئے دلیل و شاہد سے کام لیا اپنی رسالت کے لئے فرعون اور اس کے اطرافیوں کے لئے معجزہ و کھلایا اور اپنے عصا کو خدا کے اذن سے ایک بہت بڑے غضبناک ادہا کی صورت میں پیش کیا جادوگروں کے سامنے ایک واضح معجزہ بیان کیا، آپ کا عصا ایک بڑے سانپ کی صورت میں ظاہر ہو اور جن چیزوں کو جادوگروں نے زمین پر ڈالا تھا انھیں نگل لیا لیکن نہ نصیحت، نہ موعظہ، نہ گفتگو، نہ مباحثہ، نہ دلیل، نہ برہان اور نہ واضح و روشن معجزہ نے فرعون

۱۳۸

کے سخت اور تاریک دل پر اثر کیا اور وہ اپنے ظلم و ستم پر باقی رہا_

حضرت موسی (ع) نے ایک بہت طویل مدت تک بنی اسرائیل کے لئے خداپرستی کی ترویج اور تبلیغ کی لیکن ظالم فرعون اپنے ظلم و ستم ڈھانے پر باقی رہا_ بنی اسرائیل کی ذلیل و مظلوم قوم کی تمام امیدیں جناب موسی (ع) سے وابستہ تھیں اور آپ بنی اسرائیل کے متعلق راہ حل سوچ رہے تھے تا کہ اس محروم اور مظلوم قوم کو ہمیشہ کے لئے اس زمانہ کے طاغوت و ظالم سے نجات دیں_

اس زمانہ کے سخت حالات میںاس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل کی قوم کو مصر سے نکال لیا جائے اور انھیں طاغوت زمانہ کے قید و بند سے آزاد کرایا جائے چنانچہ حضرت موسی (ع) نے خدا کے حکم سے ہجرت کرنے کا ارادہ کیا اور آپ نے بنی اسرائیل کے سرداروں سے بھی ہجرت کرنے کے بارے میں مشورہ کیا انھوں نے آپ کے اس ارادہ سے اتفاق کیا اور مخفی طور سے انھوں نے اپنی زندگی کے اسباب و اثاثے کو اکٹھا کیا اور ہجرت کرنے کے لئے تیار ہوگئے_

بنی اسرائیل ایک تاریک رات میں بغیر اطلاع دیئےضرت موسی (ع) کی رہبری میں مصر سے نکل پڑے اور جلدی سے صحرائے سینا کی طرف بڑعنے لگے ہزاروں مرد اور عورتیں، چھوٹے بڑے، سوار اور پیادہ تیزی سے تمام رات اور دوسرے دن راستہ طے کرتے رہے جب صبح کے وقت فرعونی جاگے اور اپنے کار و بار پر گئے تو کافی انتظار کے بعد بھی بنی اسرائیل مزدور کام پر حاضر نہ ہوئے یہ خبر شہر میں پھیل گئی لوگ ان کی جستجو میں نکلے بعد میں معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کے وقت شہر سے نکل کر بھاگ گئے ہیں_

یہ خبر فرعون تک پہونچی اس نے ایک لشکر کے ہمراہ بنی اسرائیل کو پکڑنے کے لئے ان کام پیچھا کیا_ حضرت موسی (ع) کے حکم سے بنی اسرائیل دریا کی طرف جلدی میں بڑھ رہے تھے اور فرعون

۱۳۹

اور اس کا لشکر ان کا پیچھا کر رہا تھا جب بنی اسرائیل دریا کے نزدیک پہونچے تو راستہ کو بند پایا اور فرعون کا لشکر ان کے پیچھے آرہا تھا_

فرعون کے لشکر کے نزدیک پہونچنے سے بنی اسرائیل وحشت زدہ اور مضطرب ہوگئے خدا نے بند راستے کو ان کے لئے کھول دیا اور جناب موسی (ع) کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو دریا پر ماریں حضرت موسی (ع) نے اپنا عصا دریا پر مارا دریا شگافتہ ہوگیا اور بارہ وسیع راستے دریا کے وسط میں بن گئے بنی اسرائیل دریا میں داخل ہوگئے جب بنی اسرائیل کا آخری فرد دریا سے باہر نکل آیا اور فرعون کے لشکر کا آ خری فرد دریا میں داخل ہوگیا تو اللہ تعالی کے حکم سے یکدم پانی آپس میں مل گیا فرعون اور اس کے تمام لشکر کو دریا نے اپن لیپٹ میں لے لیا فرعون اور اس کے تمام لشکر کو غرق کردیا اور رہتی دنیا کے لئے فرعون کی ذلت و شکست عبرت کے طور پر تاریخ میں باقی رہ گئی وہ اس کے علاوہ آخرت میں اپنے مظالم کی سزا پائے گا_

بنی اسرائیل اس کا دور سے تماشا دیکھ رہے تھے اور فرعونیوں کی ہلاکت سے خوشحال تھے اور اپنے آپ کو فرعونیوں کے قید و بند سے آزاد پا رہے تھے اب وہ اللہ تعالی کے دستور اور اس کے قوانین کے مطابق ایک جدید معاشرہ تشکیل دینے کے پابند تھے لیکن اس وقت تک ان کے لئے نہ کوئی قانون اور نہ ہی عبادات کی رسومات موجود تھیں اس لئے کہ ابھی تک نہ توان کے لئے کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی احکام و قوانین نازل ہوئے تھے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302