‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111836 / ڈاؤنلوڈ: 3874
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیۂ تبدیل کی شان نزول

جب خدا وند سبحان نے شریعت موسیٰ کے بعض احکام کو دوسرے احکام سے حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں تبدیل کردیا( جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے) توقریش نے رسول پر شورش کی اور بولے : تم خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہو!تو خدا وند عالم نے ا ُن کی بات انھیں کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا:

( واِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّل قالوا اِنّما أنت مفتر...) (اِنما یفتری الکذب الذین لایؤمنون بآیات ﷲ ...)( فکلوا ممّا رزقکم ﷲ حلا لاً طیباً ) ( ۱ )

اور جب ہم کسی حکم کو کسی حکم سے تبدیل کرتے ہیں (اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے )تو وہ کہتے ہیں : تم صرف ایک جھوٹی نسبت دینے والے ہو ...،صرف وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا جو کچھ خدا نے تمہارے لئے رزق معین فرمایا ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔

یعنی کچھ چیزیں جیسے اونٹ کا گوشت ،حیوانات کے گوشت کی چربی تم پر حرام نہیں ہے ، صرف مردار ، خون ، سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانورجن کے ذبح کے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، حرام ہیں، نیز وہ قربانیاں جو مشرکین مکّہ بتوں کو ہدیہ کرتے تھے اسکے بعد خدا وند عالم نے قریش کو خدا پر افترا پردازی سے روکا اور فرمایا : من مانی اور ہٹ دھرمی سے نہ کہو : یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے !چنانچہ ان کی گفتگو کی تفصیل سورۂ انعام میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( وقالوا هذه أنعام و حرث حجر لا یطعمها اِلاّ من نشاء بزعنمهم و أنعام حرّمت ظهور ها و أنعام لا یذکرون اْسم ﷲ علیها أفترائًً علیه و سیجزیهم بما کانوا یفترون)( و قالوا ما فی بطون هذه الأنعام خالصة لذکورنا و محرّم علیٰ أزواجنا و ِان یکن میتةً فهم فیه شرکاء سیجز یهم و صفهم أنّه حکیم علیم ) ( ۲ )

انھوں نے کہا : یہ چوپائے اور یہ زراعت ممنوع ہے، بجزان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں(ان کے اپنے گمان میں )کوئی دوسرا اس سے نہ کھا ئے اور کچھ ایسے چوپائے ہیں جن پر سواری ممنوع اور حرام ہے ! اور وہ

____________________

(۱)نحل ۱۰۱ ، ۱۰۵، ۱۱۴

(۲)انعام ۱۳۸، ۱۳۹

۶۱

چوپائے جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا کی طرف ان سب کی جھوٹی نسبت دیتے تھے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا اور وہ کہتے تھے : جو کچھ اس حیوان کے شکم میں ہے وہ ہم مردوں سے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ! اور اگر مر جائے تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا وند عالم جلد ہی ان کی اس توصیف کی سزا دے گا وہ حکیم اور دانا ہے۔

سورۂ یونس میں بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل أراْیتم ماأنزل ﷲ لکم من رزق فجعلتم منه حراماًوحلالاً قل آأﷲ أذن لکم أم علیٰ ﷲ تفترون ) ( ۱ )

کہو: جو رزق خدا وند عالم نے تمہارے لئے نازل کیا ہے تم نے اس میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر دیا، کیا خدا نے تمھیں اس کی اجازت دی ہے ؟ یا خدا پر افترا پردازی کر رہے ہو؟

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشر کین قریش کے درمیان حلال و حرام کا مسٔلہ قریش کے خود ساختہ موضوعات سے لے کر شریعت موسیٰ کے احکام تک کہ جنہیں جسے خدا نے مصلحت کی بناء پر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں دوسرے احکام سے تبدیل کر دیا ،سب کے سب موضوع بحث تھے۔

مکہ میں قریش ہر وہ حلال و حرام جسے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے فرمان کے مطابق پیش کرتے تھے اور وہ ان کے دینی ماحول کے اور جو کچھ موسیٰ ابن عمران کی شریعت کے بارے میں جانتے تھے اس کے مخالف ہوتا تو عداوت و دشمی کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے اسی دشمنی کا مدنیہ میں بھی یہود کی طرف سے سامناہوا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان احکام کے بارے میں جو توریت کے بعض حصے کو نسخ کرتے تھے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں اس جدال کو بیان کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

( أفکلما جاء کم رسول بما لا تهوی انٔفسکم اْستکبرتم ففر یقاً کذبتم و فریقاً تقتلون ) ( ۲ )

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی رسول نے تمہاری نفسانی خواہشات کے برعکس کوئی کسی چیز پیش کی ، تو تم نے تکبر سے کام لیا،لہٰذا کچھ کو جھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟

____________________

(۱)یونس ۵۹

(۲)بقرہ ۸۷

۶۲

( و اِذا قیل لهم آمنوا بما أنزل ﷲ قالوا نؤمن بما أنزل علینا ویکفرون بما ورائه ) ...)( ۱ )

اور جب ان سے کہا گیا :جو کچھ خدا نے نازل کیا ہی اسپر ایمان لاؤ!تو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو خود ہم پر نازل ہو اہے اوراس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔

اور پیغمبر سے فرماتا ہے:

( ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخیر منها أَومثلها ) )

ہم اُس وقت تک کوئی حکم نسخ نہیں کرتے یااسے تاخیر میں نہیں ڈالتے ہیں جب تک کہ ا س سے بہتر یااس جیسا نہ لے آئیں۔( ۲ )

( ولن ترضیٰ عنک الیهودولا النّصاریٰ حتیٰ تتّبع ملّتهم ) )( ۳ )

یہود ونصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کے ان کے دین کا اتباع نہ کرلو۔

توریت کے نسخ شدہ احکام بالخصوص تبدیلی قبلہ سے متعلق بنی اسرائیل کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع و جدال کرنے کی خبر دیتے ہوئے خدا وند عالم سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے :

''ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہ کو دیکھ رہے ہیں ؛ اب اس قبلہ کی سمت جس سے تم راضی اور خشنود ہو جاؤ گے تمہیں موڑ دیں گے ،جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لو،اہل کتاب(یہود و نصاریٰ ) خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اوران کے رب کی طرف سے ہے اور تم جیسی بھی آیت اور نشانی اہل کتاب کے سامنے پیش کرو وہ لوگ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔( ۴ )

پس اس مقام پر نسخ آیت سے مراد اس حکم خاص کا نسخ تھا ، جس طرح ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلنے سے مراد کہ جس کے بارے میں قریش رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع کر رہے تھے، مکّہ میں قریش اور غیر قریش کے درمیان بعض حلال و حرام احکام کو تبدیل کرنا ہے ۔بنابراین واضح ہوا کہ خدا کے کلام : ''( واِذا بدّلنا آية مکان آية ) '' میں لفظ آیت سے مراد حکم ہے ، یعنی :''( اِذا بدلنا حکماً مکان حکم' ) ' جب بھی کسی حکم کو حکم کی جگہ قرار دیں

اور خدا وندعالم کے اس کلام '' ما ننسخ من آےة أو ننسھا'' سے بھی مراد یہ ہے : جب کبھی کو ئی حکم ہم نسخ کرتے یا اسے تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااس جیسا اس کی جگہ لاتے ہیں۔

____________________

(۱)بقرہ ۹۱(۲)بقرہ ۱۰۶(۳)بقرہ ۱۲۰(۴) بقرہ۱۴۴ ۱۴۵

۶۳

حکم کو تاخیر میں ڈالنے کی مثال : موسی کی شریعت میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کوتاخیر میں ڈالنا اوراس کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم سے تبدیل کرنا ہے کہ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے مفیداور سود مند تھا۔

نسخ حکم اور اسے اسی سے بہتر حکم سے تبدیل کرنے کی مثال خاتم الانبیاء کی شریعت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کا منسوخ کرنا ہے کہ تمام لوگ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کریں۔پس ایک آیت کے دوسری آیت سے تبدیل کرنے کا مطلب ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنا ہے ، اس طرح واضح ہو گیا کہ خدا وند عالم جو احکام لوگوں کے لئے مقرر کرتا ہے کبھی انسان کی مصلحت اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہے اسمیں لحاظ کی جاتی ہے ایسے احکام نا قابل تغییرو تبدیل ہوتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم نے سورۂ روم میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( فأ قم وجهک للدین حنیفاً فطرت ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لٰکنّ أکثر الناس لا یعلمون ) ( ۱ )

اپنے رخ کو پروردگار کے خالص اور پاکیزہ دین کی طرف کر لو، ایسی فطرت کہ جس پر خدا وندعالم نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے آفرینش خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی محکم و استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یعنی اُن قوانین میں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی فطرت کے مطابق بنائے ہیں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،سورۂ بقرہ میں اسی کے مانندخدا کا کلام ہے:

( والوالدات یرضعن أولا دهنّ حولین کاملین لمن أراد أن یتم الرضاعة ) ( ۲ )

اور جو مائیں زمانہ رضاعت کو کامل کرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں۔

یہ مائیں کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی زندگی گزارتی ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ، خواہ حضرت آدم کی بیوی حواہوں جو اپنے نومولودکو درخت کے سائے میں یا غار میں دودھ پلائیں، یاان کے بعد کی نسل ہو ، جو غاروں، خیموںاور محلوں میں دودھ پلاتی ہے دو سال مکمل دودھ پلانا ہے۔

اسی طرح بنی آدم کے لئے کسی تبدیلی کے بغیر روزہ ، قصاص اور ربا (سود) کی حرمت کا حکم ہے، جیسا

____________________

(۱)روم ۳۰

(۲)بقرہ ۲۳۳۔

۶۴

کہ خدا وند سبحان سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۔( یا أيّها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پراسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض تھا شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔( یا أيّها الذین آمنواکتب علیکم القِصاص ) )( ۲ )

اے صاحبان ایمان ! تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔

۳۔( و أحلّ ﷲ البیع وحرّم الرّبا ) )( ۳ )

خدا وندعالم نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیاہے۔

یہ اور دیگر وہ احکام جسے خدا وندعالم نے انسان کی انسانی فطرت کے مطابق اسکے لئے مقرر فرمایا ہے کسی بھی آسمانی شریعت میں تغییر نہیں کرتے، یہ احکام قرآن میں لفظ''وصّٰی ، یوصیکم، وصےةاور کتب'' جیسے الفاظ سے تعبیر ہوئے ہیں۔

لیکن جن احکام کو خداوندعالم نے خاص حالات کے تحت بعض لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے ، ان کی مدت بھی ان حالات کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجاتی ہے جیسے وہ احکام جنھیں بنی اسرائیل سے متعلق ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا جواُن کے خاص حالات سے مطابقت رکھتے تھے، یا وہ احکام جو خدا وندعالم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مکّہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائے اور عقد مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث ہونا انصار مدنیہ کے ساتھ ہجرت کے آغاز میں قانونی حیثیت سے متعارف اور شناختہ شدہ تھا پھر فتح مکّہ کے بعداس کی مدت تمام ہوگئی اور یہ حکم منسوخ ہو گیا، خدا وند عالم سورۂ انفال کی ۷۲ ویں ۷۵ ویں آیت تک اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّ الذین آمنو أوهاجروا )

وہ لوگ جو ایمان لائے اور مکّہ سے ہجرت کی۔

( واّلذین آووا ونصروا )

____________________

(۱)بقرہ ۱۸۳

(۲) بقرہ ۱۷۸

(۳) بقرہ ۲۷۵.

۶۵

اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت فرمائی یعنی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انصار ۔

( أولآء ک بعضهم أولیاء بعض )

ان لوگوں میں بعض ، بعض کے وارث اور ولی ہیں،یعنی میراث لینے اور نصرت کرنے کی ولایت رکھتے ہیں.

( والذین آمنوا ولم یهاجروا مالکم من ولایتهم من شیئٍ حتّیٰ یهاجروا والذین کفروا بعضهم أولیاء بعض )

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی تم لوگ کسی قسم کی ولایت ان کی بہ نسبت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں... اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیںاُن میں سے بعض، بعض کے ولی اور سرپرست ہیں۔

پھر خدا نے اس حکم کے نسخ ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے :

( وأولوا الأرحام بعضهم أولی ببعض فی کتا ب ﷲ )

اقرباء کتاب الٰہی میں آپس میں ایک دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ اور سزاوار ترہیں۔

یعنی ان احکام میں جنھیں خدا وند عالم نے تمام انسانوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اقرباء کو حق تقدم اور اولویت حاصل ہے۔( ۱ )

خلاصہ، قوم یہود نے جب قرآن کی الٰہی آیات کو سنا اور دیکھا کہ صفات قرآن جو کچھ حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے متعلق ان کے پاس موجود ہے اس کی تصدیق اور اس کاا ثبات کر رہے ہیں تو وہ اس کے منکر ہوگئے اور بولے: ہم صرف اس توریت پر جو ہم پر نازل ہوئی ہے ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ انجیل اور قرآن پر ایمان و یقین نہیں رکھتے ،خدا وندعالم نے بھی قرآن کی روشن آیات اور اسکے معجزات اور احکا م کے ارسال کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: فاسقوں(کافروں )کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں ہوگا اور پھر فرمایا: ہم شریعت کے ہر حکم کو نسخ کرتے ہیں( جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کا منسوخ ہونا) یاہم اسے مؤخرکرتے ہیں تواُس سے بہتر یااسی جیسا حکم لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں ، خدا وند عالم خود زمین و آسمان کا مالک ہے ،وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے یہود و نصاریٰ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہر گز راضی نہیں ہوںگے مگر یہ کہ جوان پر احکام نازل ہوئے ہیںان سے دست بردار ہو جائیں اوران کی شریعت کے احکام کے پابند ہوجائیں۔

خدا وندعالم اسی مفہوم کی دوسرے انداز میں تکرار کرتے ہوئے سورئہ اسراء میں فرماتا ہے:

____________________

(۱)اس آیت کی تفسیر کے لئے مجمع البیان ، تفسیر طبری اور دوسری روائی تفاسیرکی جانب رجوع کیجئے.

۶۶

( و آتینا موسیٰ الکتاب و جعلنا ه هدیً لبنی اِسرائیل ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا،پھر فرماتا ہے :

( انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم ) ( ۲ )

یہ قرآن محکم اور استوارترین راہ کی ہدایت کرتا ہے،یعنی قرآن کا راستہ اس سے وسیع اوراستوارتر ہے جو موسی کی کتاب میں آیا ہے۔

ہم نے ربوبیت کے مباحث میں بات یہاں تک پہنچائی کہ رب العالمین نے انسان کے لئے اسکی فطرت اور سرشت کے مطابق ایک نظام معین کیا ہے پھر راہ عمل میں ان مقررات اور قوانین کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس بات کی تحقیق و بر رسی کریں گے کہ رب العالمین کس طرح سے انسان کو دنیا و آخرت میں پاداش و جزا دیتا ہے۔

____________________

(۱) اسرائ۲

(۲)اسرائ۹

۶۷

۲

ربّ العالمین اور انسان کے اعمال کی جزا

الف وب:دنیا و آخرت میں

ج:موت کے وقت.

د:قبر میں

ھ: محشر میں

و:بہشت وجہنم میں

ز:صبر وتحمل کی جزا.

ح: نسلوں کی میراث؛ عمل کی جزا

۱۔

انسان اور دنیا میں اس کے عمل کی جزا

ہم تمام انسان اپنے عمل کا نتیجہ دنیاوی زندگی میں دیکھ لیتے ہیں جو گندم ( گیہوں) بوتا ہے وہ گندم ہی کاٹتا ہے اور جو جَو بوتا ہے وہ جَو کا ٹتاہے اسی طرح سے انسان اپنی محنت کا نتیجہ کھاتا ہے۔

یہ سب کچھ دنیاوی زندگی میں ہمارے مادی کارناموں کے آثار کاایک نمونہ ہے۔ دنیاوی زندگی میں ہمارے اعمال مادی آثار کے علاوہ بہت سارے معنوی آثار بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر انسانوں کی زندگی میں صلۂ رحم کے آثار ہیں،جن کی خبررسول خدا نے دیتے ہوئے فرمایا :

''صلة الرّحم تزید فی العمر وتنفی الفقر''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ ٔرحم کرنا عمر میں اضافہ اور فقر کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

۶۸

نیز ارشاد فرمایا:

''صلة الرحم تزید فی العمر،وصدقة السر تطفیء غضب الربّ ، و اِنّ قطیعة الرّحم و الیمین الکاذبة لتذرٰان الدیار بلا قِعَ من أهلها و یثقلان الرحم و اِنَ تثقّل الرحم انقطاع النسل''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ رحم کرنا عمر میں اضافہ کا سبب ہے اور مخفی طور پر صدقہ دینا غضب الٰہی کو خاموش کرتا ہے، یقیناًاقرباء واعزاء سے قطع تعلق رکھنا اور جھوٹی قسم کھانا آباد سرزمینوں کو بر باد اور بار آور رحم کو بانجھ بنا دیتا ہے اور عقیم اور بانجھ رحم، انقطاع نسل کے مساوی ہے۔( ۱ )

یہ جو فرمایا :'' تطفی غضب الرّبّ'' پوشیدہ صدقہ دینا غیظ وغضب الٰہی کو خاموش کر دیتا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان اپنی (نامناسب) رفتار سے خدا کے خشم وغضب نیز دنیاوی کیفر کا مستحق ہو اور یہ

____________________

(۱) سفینة البحارمادئہ رحم.

۶۹

مقرر ہو کہ اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی جان و مال یا اس سے مربوط چیزوں کو نقصان پہنچے تو یہ پوشیدہ صدقہ اس طرح کی بلا کواس سے دور کردیتا ہے۔

بَلا قِع، بلقع کی جمع ہے ،بے آب وگیاہ ،خشک اور چٹیل میدان اور وادی برہوت ۔( ۱ ) چنانچہ امیر المومنین نے فرمایا:

''وصلة الرّحم فأِنّها مثراة فی المال ومنساة فی الأجل، وصدقة السرّفأنّها تکفرالخطية' '( ۲ )

رشتہ داروں کی دیکھ ریکھ اور رسید گی کرنا مال میں زیادتی اور موت میں تاخیر کا باعث ہے اور پوشیدہ صدقہ گناہ کو ڈھانک دیتا ہے اور اس کا کفارہ ہوتا ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :

''و صلة الرحم منماة للعدد''

اقرباء واعزاء کے ساتھ نیک سلوک کرنا افراد میں اضافہ کا سبب ہے۔( ۳ )

ان تمام چیزوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم اپنی حکمت سے ایسا چاہتا ہے کہ روزی میں زیادتی، نسل میں اضافہ''صلہ رحم'' کی وجہ سے ہونیز تنگدستی اور عقیم ہونا ''قطع رحم'' میں ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دوتاجرآدمی ایک طرح کا مال بازار میں پیش کرتے ہیں تو ایک کو نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کو فائدہ ،پہلے کے نقصان کا سرچشمہ اقرباء سے قطع رحم کرنا ہے اور دوسرے کا فائدہ حاصل کرنا عزیز واقارب سے صلہ رحم کی بنا پر ہے خدا کی طرف سے ہر ایک کی جزا برابر ہے۔

ایسے عمل کی جزا انسان کے ،خدا پر ایمان اور عدم ایمان سے تعلق نہیں رکھتی ہے کیونکہ خدا وندعالم نے انسان کے کارناموں کے لئے دنیا میں دنیاوی آثار اور آخرت میں اخروی نتائج قرار دئے ہیں کہ جب بھی کوئی اپنے ارادہ واختیاراور ہوش وحواس کے ساتھ کوئی کام انجام دے گا تواس کا دنیاوی نتیجہ دنیا میں اور اخروی نتیجہ آخرت میں اُسے ملے گا۔

اسی طرح خدا وندعالم نے اپنے ساتھ انسان کی رفتاراور خلق کے ساتھ اس کے کردار کے مطابق جزا اور پاداش قرار دی ہے ، خواہ یہ مخلوق انسان ہو یا حیوان یا ﷲ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ہو جس سے خدا نے

____________________

(۱) المعجم الوسیط مادئہ بلقع(۲)نھج البلاغہ خطبہ ۱۰۸(۳) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲

۷۰

انسان کو نوازا ہے، ہر ایک کے لئے مناسب جزا رکھی ہے ،یہ تمام کی تمام ﷲ کی مرضی اور اس کی حکمت سے وجود میں آئی ہیں ،''ربّ العالمین'' نے ہمیں خود ہی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے لئے اسکے کردار کے نتیجہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ( یعنی جیسا کردار ہو گا ویسی ہی اس کی جزا وپاداش ہوگی)

( وأن لیس للاِ نسان اِلاّ ما سعیٰ ) ( ۱ )

انسا ن کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے نتیجہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح خبر دی ہے کہ جو دنیا کے لئے کام کرئے گا خدا وند عالم اس کا نتیجہ اسے دنیا میں دکھاتا ہے اور جو کوئی آخرت کے لئے کوشاں ہوگا اسکے کام کی جزا اسے آخرت میں دکھائے گا:

( ومن یرد ثواب الدنیا نؤتیه منها و من یرد ثواب الآخرة نؤته منها وسنجزی الشاکرین ) ( ۲ )

جو کوئی دنیاوی جزا وپاداش چاہتا ہے اسے وہ دیں گے اور جو کوئی آخرت کی جزا چاہتا ہے ہم اسے وہ دیں گے اور عنقریب شکر گزاروں کوجزا دیں گے۔

( مَن کان یریدالحیا ة الدنیا وزینتها نوفّ الیهم أعمالهم فیها وهم فیها لا یبخسون)(اولاء ک الذین لیس لهم فی الاخرة اِلّا النار... )

جو لوگ (صرف) دنیاوی زندگی اور اس کی زینت و آرایش کے طلبگار ہیںان کے اعمال کا کامل نتیجہ ہم اسی دنیا میں دیں گے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی اور یہ گرو ہ ان لوگوں کا ہے جن کے حصہ میں آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔( ۳ )

( مَن کان یرید العاجلة عجلنا له فیها..)( ومن أراد الآخرة و سعیٰ لها سعیها وهو مومن فأولآء ک کان سعیهم مشکوراکلاً نمد هٰؤلاء و هٰؤلاء من عطاء ربّک وما کان عطاء رّبک محظوراً ) ( ۴ )

جو کوئی اس زود گزر دنیا کا طلبگا ر ہو اس کو اسی دنیا میں جزا دی جائے گی... اور جو کوئی دار آخرت کا خوہاں ہو اوراس کے مطابق کوشش کرے اور مومن بھی ہو اس کی کوشش وتلا ش کی جز ا دی جائے گی ، دونوںگروہوں میں سے ہر ایک کو تمھارے پروردگار کی عطا سے بہرہ مند کریں گے اور تمہارے رب کی عطا کبھی ممنوع نہیں قرار دی گئی ہے۔

____________________

(۱)نجم ۳۹.(۲)آل عمران ۱۴۵.(۳)ہود ۱۵ ،۱۶. (۴) اسرا ء ۱۸۔ ۲۰.

۷۱

کلمات کی تشریح

''نوفّ اِلیھم'':ان کا پورا پورا حق دیں گے۔

'' لایبخسون ، لا ینقصون'': ان کے حق میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔

'' محظوراً '': ممنوعاً، حظر یعنی منع، رکاوٹ۔

دنیا وآخرت کی جزا

جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بنیاد پر بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا انسان دنیا ہی میں دیکھ لیتا ہے ، لیکن ان میں سے بعض اعمال کی جزا قیامت میں انسان کو ملے گی ، مثال کے طور پر کوئی شہید خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائے ،وہ دنیوی جز ا کے دریافت کرنے کا امکان نہیں رکھتا تا کہ اس سے فائدہ اٹھائے ،لہٰذا خدا وندعالم اس کی جزا آخرت میں دے گا جیساکہ فرماتا ہے:

( ولا تحسبّن الذین قتلوا فی سبیل ﷲ امواتاً بل أحیاء عند ربّهم یرزقون) (فرحین بما آتهم ﷲ من فضله و یستبشرون با لذین لم یلحقو ا بهم من خلفهم الا خوف علیهم ولا هم یحزنون)( یستبشرون بنعمة من ﷲ وفضلٍ وأنّ ﷲ لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۱ )

اورجو لوگ راہ خدا میں شہید ہوگئے ہیں انھیں ہر گز مردہ خیال نہ کرو ! بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں ،یہ لوگ اس نعمت کی وجہ سے جو خدا وندعالم نے انھیں اپنے فضل و کرم سے دی ہے ، راضی اور خوشنود ہیں اور جو لوگ ان سے ابھی تک ملحق نہیں ہوئے ہیں ان کی وجہ سے شاد و خرم ہیں کہ نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال وہ لوگ نعمت الٰہی اوراس کی بخشش اور اس بات سے کہ خدا وند عالم نیکو کاروں کی جزا کو ضائع و برباد نہیں کرتا ، مسرور و خوش حال ہیں ۔

اسی طرح اقتدار کے بھوکے انسان اوراس شخص کا حال ہے جو کسی مومن کے ساتھ ظلم وتعدی کر کے اسے قتل کر دیتا ہے، ایسا شخص بھی اپنی جزا آخرت میں دیکھے گا جیسا کہ خدا وندعالم نے ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یقتل مؤمناً متعمداً فجزاؤه جهنم خالداً فیها وغضب ﷲ علیه ولعنه وأعدّ له عذاباً عظیماً ) ( ۲ )

____________________

(۱) آل عمران ۱۶۹ ، ۱۷۱

(۲) نساء ۹۳.

۷۲

جو کوئی کسی مومن انسان کو عمدا ( جان بوجھ کر) قتل کر ڈالے اسکی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا خدااس پر غضب ناک ہے اوراس نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اوراس کے لئے عظیم عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

اسی طرح اس شخص کا حال ہے جو ناقص جسم کے ساتھ دنیا میں آتا ہے جیسے اندھا گونگا ،ناقص الخلقة (جس کی تخلیق میں کوئی کمی ہو) اگر ایسا شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے اور اولیاء خدا کا دوست ہو اور اپنے عضو کے ناقص ہونے کی بناء پر خدا کے لئے صبر وتحمل کرے ایسے شخص کو خدا آخرت کی دائمی وجاوید زندگی میں ایسا اجر دے گا کہ جو دنیاوی کمی اور زحمتیںاس نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ان کا اس جزا کے مقابلہ میں قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔( ۱ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ،اس بنا پر عدل الٰہی آخرت میں عمل کی جزا دریافت کیے بغیر ثابت نہیں ہوتا، خداوند عالم نے دنیاوی زندگی کے بعداعمال کی جزا پانے کیلئے متعدد مراحل قرار دئے ہیں ہم آئندہ بحث میں اس پر گفتگو کریں گے۔

____________________

(۱) دیکھئے : ثواب الاعمال،صدوق باب ''اس شخص کا ثواب جو خدا وند عالم سے اندھے ہونے کی حالت میں ملاقات کرے اوراس نے خدا کے لئے اسے تحمل کیا ہو ، حدیث ۲۱ ، نیز معالم المدرستین، ج ۱، بحث شفاعت،اس ایک نا بینا شخص کی روایت کی طرف رجوع فرمائیں جورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور آنحضرت سے درخواست کی کہ حضرت اس کے لئے دعا کریں تا کہ شفا ہو''۔

۷۳

۲۔

انسان اور آخرت میں ا س کی جزا

خود انسان اپنے کھیت میں کبھی گیہوں،مکئی اور سبزیاںاگاتا ہے اور چند ماہ بعداس کا نتیجہ اورمحصول حاصل کرتا ہے اور کبھی انگور، انجیر، زیتون،سیب اور سنترہ لگاتا ہے اور تین یا چار سال بعداس کا نتیجہ پاتا ہے اور کبھی خرما اور اخروٹ بوتا ہے اور ۸ سال یااس سے بھی زیادہ عرصہ کے بعداس سے فائدہ اٹھاتا ہے،اس طرح سے عادی اور روز مرہ کے کاموں کا نتیجہ انسان دریافت کرتا ہے اور اپنے اہل وعیال اوردیگر افراد کواس سے فیضیاب کرتا ہے اس کے با وجود خدا فرماتا ہے:

( اِنّ ﷲ هو الرزّاق ذوالقوة المتین ) ( ۱ )

خدا وند عالم روزی دینے والا ہے وہ قوی اور توانا ہے۔

( ﷲ الذی خلقکم ثّم رزقکم ) ( ۲ )

وہ خدا جس نے تمھیں خلق کیا پھر روزی دی۔

( لا تقتلوا اولا دکم من اِملاقٍ نحن نرزقکم و اِيّاهم ) ( ۳ )

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کیونکہ ہم تمھیں اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں۔

( وکا يّن من دابة لا تحمل رز قها ﷲ یرزقهاو اِيّاکم ) ( ۴ )

کتنے زمین پر چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق خود حاصل نہیں کر سکتے لیکن خدا انھیں اور تمھیں بھی رزق دیتا ہے ۔

( و ﷲ فضّل بعضکم علیٰ بعضٍ فی الرّزق ) ( ۵ )

____________________

(۱) ذاریات ۵۸

(۲)روم ۴۰

(۳) انعام ۱۵۱.

(۴) عنکبوت ۶۰

(۵) سورہ نحل ۷۱.

۷۴

خدا وندعالم نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت اور برتری دی ہے۔

جی ہاں! انسان زمین کا سینہ چاک کرتا ہے ، اس میں دانہ ڈالتا ہے، درخت لگاتا ہے ، پانی دیتا ہے ، تمام آفتوں اور بیماریوں کو دور کرتا ہے اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے تاکہ دانہ بن جائے اور بارآور ہو جائے جسے خود وہ بھی کھائے اور جسے دل چاہے کھلائے لیکن خدا وندسبحان فرماتا ہے :

( نحن نرزقکم و ایاّهم )

ہم تمھیں اوران کو روزی دیتے ہیں !

اور خدائے عظیم نے درست فرمایا ہے کیونکہ جس نے آب وخاک میں نباتات کے اگانے کے خواص قرار دئے اور ہمیں بونے اورپودا لگانے کا طریقہ سکھا یا ،وہی ہمیں روزی دینے والا ہے ۔

خدا کے روزی دینے اور انسان کے دنیا میں روزی حاصل کرنے کی مثال، میزبان کا مہمان کو '' self serveic ''والے ہوٹل میں کھانا کھلانے کی مانند ہے کہ جس میں نوکر چاکر نہیں ہوتے اور معمولاً مہمان سے کہا جاتا ہے ،اپنی پذیرائی آپ کیجیے(جو دل چاہے خود لے کر کھائے ) اس طرح کے ہوٹلوں میں میزبان مہمان کوکھانا کھلاتا ہے مہمان جس طرح کی چیزیں پسند کرنا چاہے اسے مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن جو کچھ وہ کھاتا ہے میزبان کی مہیا کی ہوئی ہے لیکن اگرکوئی مہمان ایسی جگہ پر داخل ہو اور خود اقدام نہ کرے، چمچے، کانٹے، پلیٹ جو میزبان نے فراہم کئے ہیں نہ اٹھائے اور فراہم کی ہوئی غذا ؤں کی طرف اپنے قدموں سے نہ بڑھے اور اپنی مرضی سے کچھ نہ لے ،تو وہ کچھ کھا نہیں سکے گا،اس کے باوجود جس نے مہمانوں کیلئے غذا فراہم کی ہے و ہی میزبان ہے،ایسی صورت میں بری طرح کھا نے کا احتمالی نقصان بھی مہمان ہی کے ذمہ ہے جس نے خودہی نقصان دہ غذا کھا ئی ہے اور خداوند عظیم نے سورۂ ابراہیم میں کس قدر سچ اور صحیح فرمایا ہے:

( ﷲ الّذی خلق السّموات والأرض و انٔزل من السماء مائً فأخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره وسخر لکم الأنهاروسخر لکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل و النهار ) ( ۱ )

خدا وندعالم وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اور آسمان سے پانی نازل کیا اوراس سے تمہارے لئے زمین سے میوے اگائے ،کشتیوں کو تمہارا تا بع قرار دیا، تا کہ دریا کی وسعت میں اس کے حکم

____________________

(۱)ابراہیم ۳۲ ، ۳۳

۷۵

سے رواں دواں ہوں ، نیز نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا اور سورج ا ورچاند کو منظم اور دائمی گردش کے ساتھ تمہارا تابع بنا یا اوراس نے روز و شب کو تمہارا تابع قراردیا۔

اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ﷲ أنزل من السماء مائً فأحیا به الارض بعد موتها انّ فی ذلک لاية لقومٍ یسمعون)(و أنَّ لکم فی الأنعام لعبرة نسقیکم مِّما فی بطونه من بین فرثٍ و دمٍ لّبنا خالصاً سائغاً للّشاربین)( و من ثمراتِ النخیلِ و الأعنابِ تتّخذون منه سکراً و رزقاً حسناً انّ فی ذلک لايةً لّقومٍ یعقلون)( و أوحیٰ ربّک اِلی النّحل ان اْتّخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مّما یعرشون)( ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاْسلکی سبل ربّک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف ألوانه فیه شفٰاء للناّٰس انَّ فی ذلک لآ يةً لقومٍ یتفکرون ) ( ۱ )

خدا وندعالم نے آسمان سے پانی برسایا ، پس زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد حیات بخشی ،یقینا اس میں سننے والی قوم کے لئے روشن علامت ہے اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت ہے،ان کے شکم کے اندرسے گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تمھیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار ہے. اورتم درخت کے میووں ،کھجور اور، انگور سے مسکرات اور اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو یقینا اس میں روشن نشانی ہے صاحبان فکرکے لئے، تمہارے رب نے شہدکی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے کو ٹھوں پر اپنا گھر بنائے اور تمام پھلوں سے کھائے اوراپنے رب کے معین راستے کو آسانی سے طے کرے،ا س کے شکم کے اندر سے مختلف قسم کا مشروب نکلتاہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں صاحبان عقل و فکر کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔

کلمات کی تشریح

۱۔'' دا ئبین،مستمرّین'': یعنی ہمیشہ گردش کر رہے ہیں ، معین مسیر میں حرکت اُن کی دائمی شان و عادت ہے ۔

۲۔''فرث '': حیوانات کے معدہ اور پیٹ میں چبائی ہوئی غذا (گوبر)۔

____________________

(۱) نحل ۶۵ ، ۶۹

۷۶

۳۔''مّما یعرشون'': جو کچھ اوپر لے جاتے ہیں ، خرمے کے درختوں کے اوپر جو چھت بنائی جاتی ہے جیسے چھپر وغیرہ۔

آغاز کی جانب باز گشت:

روزی رساںرب ّنے اپنے مہمان انسان کے لئے اس دنیا میں نعمتیں فراہم کیں، روزی کس طرح حاصل کی جائے اور کس طرح بغیر کسی ضرر اور نقصان کے اس سے بہرہ ور ہوں، اس زود گزر دنیا اور آخرت میں ، انبیائ، اوصیاء اور علماء کے ذریعہ اس کی تعلیم دی اور فرمایا:

( یاأيّهاالذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقناکم واشکروﷲ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان ! پاکیزہ چیزوں سے جوہم نے تمہارے لئے روزی دی ہے کھا ؤ اور خدا کا شکر ادا کرو، نیز فرمایا:

( یسٔلونک ماذاأحلّ لهم قل أحلّ لکم الطيّبات ) ( ۲ )

تم سے سوال کرتے ہیں : کون سی چیزان کیلئے حلال کی گئی ہے ؟ کہہ دیجئے تمام پاکیز ہ چیزیںتمہارے لئے حلال کی گئی ہیں۔

نیز خاتم الانبیاء کے وصف میں فرمایا :

( ویحلّ لهم الطیبّات ویحرّم علیهم الخبائث ) ( ۳ )

اوروہ ( پیغمبر)ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے۔

اس لحاظ سے پروردگار سبحان نے ہمیں خلق کیا جوکچھ ہمارے اطراف میں تھا،اسے ہمارا تابع بنا دیا اور اس دنیا میں پاکیزہ چیزوں سے جو کہ ہماری زراعت و کاشت کا نتیجہ ہے ہمیں رزق دیا ،وہ اسی طرح ہمارے اعمال کے نتیجہ کو آخرت میں ہمارے لئے روزی قرار دے گا جیسا کہ فرمایا ہے:

( والذین هاجروا فی سبیل ﷲ ثّم قتلواأوما توالیر زقنّهم ﷲ رزقاً حسناً ) ( ۴ )

وہ لوگ جنھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ، پھر قتل کردئے گئے یا مر گئے ،خدا انھیں اچھی روزی دیگا۔

نیز فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ۱۷۲ (۲)مائدہ ۴(۳)اعراف ۱۵۷.(۴)حج۵۸

۷۷

( الاّ مَن تاب وَآمنَ وَ عملَ صٰا لحاً فاُولاء کَ یدخُلُونَ الجنةَ وَلاَ يُظلمونَ شیئاً جنَّاتِ عدنٍ التی وعدالرحمنُ عبٰادهُ بالغیبِ اِنه کٰانَ وَعدهُ ما تيّا لا یسمعونَ فیها لغواً اِلّا سلاماً ولهم رزقُهُم فیها بُکرةً وعَشِيّاً ) ( ۱ )

...مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور ایمان لا ئیں اور شائستہ کام انجام دیں ، پس یہ گروہ بہشت میں داخل ہوگا اوراُس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا، دائمی بہشت جس کا خدا وند رحمان نے غیب کی صورت میں وعدہ کیا ہے یقینا خدا کا وعدہ پورا ہونے والا ہے ،وہاں کبھی لغو وبیہودہ باتیں نہیں سنیں گے اور سلام کے علاوہ کچھ نہیں پائیں گے، ان کی روزی صبح وشام مقرر ہے۔

پس ربّ حکیم انسان کے اعمال کی جزا دنیا میں جلدی اور آخرت میں مدت معلوم کے بعدا سے دیتا ہے ، اسی طرح بہت سارے سوروں میں اس نے اس کے بارے میں خبر دی ہے اور سورۂ زلزال میں فرمایا ہے:

( فمَن یعمل مثقال ذرةٍ خَیراً یره ومَن یعمل مثقال ذرةٍ شراً یره ) ( ۲ )

پس جو ذرہ برابربھی نیکی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا اور جو بھی ذرہ برابر بھی بُرائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا ۔

سورۂ ےٰسین میں ارشاد ہوتا ہے:

( فالیوم لا تُظلَمُ نفس شیئاً ولا تجزون اِلاّ ما کنتم تعلمون ) ( ۳ )

پس اس دن کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا اور جو تم نے عمل کیا ہی اسکے علاوہ کوئی جزا نہیں دی جائے گی۔

ہاں ، جو اس دنیا میں تلخ اورکڑوا ایلوالگائے گا ایلواکے علاوہ کوئی اور چیزاسے حاصل نہیں ہوگی اور جو اچھے ثمرداردرخت لگائے گا وہ اچھے اچھے میوے چنے گا ۔

جیسا کہ خداوند سبحان سورۂ نجم میں فرماتا ہے:

( وَ اَنْ لیس لِلا نسان اِلاّ ما سعیٰ وَ اَنَّ سعیه سوف یریٰ ) ( ۴ )

انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی ۔

____________________

(۱)مریم ۶۰ ، ۶۳(۲) زلزال ۷، ۸(۳)یسین ۵۴(۴)نجم ۳۹ ،۴۰

۷۸

انسان اپنے اعمال کے نتائج صرف اس دنیا ہی میں نہیںدیکھتا ، بلکہ درج ذیل پانچ مختلف حا لات اور مقامات پر بھی دیکھتا ہے:

۱۔ موت کے وقت

۲ ۔ قبر میں

۳۔ محشر میں

۴۔ بہشت و جہنم میں

۵۔ ورثاء میں کہ عمل کی جزاان کے لئے میراث چھوڑ جاتا ہے۔

اس بحث میں ہم نے دنیا میں انسان کے اعمال کی پاداش کا ایک نمونہ پیش کیا، آئند ہ بحث میں ( انشاء ا )خدا وند متعال موت کے وقت کیسے جزا دیتا ہے اس کو بیان کریں گے۔

۳۔موت کے وقت انسان کی جزا

آخرت کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ موت ہے ،خدا وند سبحان نے اس کی توصیف میں فرما یا ہے :

( وجاء ت سکرة الموت با لحقّ ذلک ما کنت منه تحید ) ( ۱ )

( اے انسان ) سکرات الموت حق کے ساتھ آ پہنچے ،یہ وہی چیز ہے جس سے تم فرار کر ر ہے تھے!

یعنی موت کی ہولناک گھڑی اور شدت جو آدمی کے عقل پر غالب آ جاتی ہے آپہنچی ،یہ وہی موت ہے کہ جس سے تو ( انسان) ہمیشہ فرار کرتا تھا!

( قُل يَتَوَ فّٰکم ملکُ المَوتِ الذی و کِل بکم ثُّم اِلیٰ ر بّکم تُرجعونَ ) ( ۲ )

اے رسول کہہ دو! موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے تمہاری جان لے لے گا پھراس کے بعد تم اپنے ربّ کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے۔یہ جو خدا وندعالم نے اس سورہ میں فرمایا ہے کہ'' موت کا فرشتہ تمہاری جان لے لے گا '' اور سورہ زمر میں فرمایا ہے :''( ﷲ یتوفی الا نفس ) ''( ۳ ) (خدا وندعالم جانوں کو قبض کرتا ہے) اور سورۂ نحل میں فرمایا ہے :''( تتو فاهم الملا ئکة ) ''( ۴ ) (فرشتے ان کی جان لیتے ہیں) اور سورۂ انعام میں ارشاد فرمایا ہے :( ''تو فته رُسُلُنا ) ' '( ۵ )

ہمارے فرستادہ نمائندے اس کی جان لیتے ہیں ! اِن باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ،کیونکہ: فرشتے خدا کے نمائندے ہیں اور روح قبض کرتے وقت ملک الموت کی نصرت فرماتے ہیں اور سب کے سب خدا کے حکم سے

____________________

(۱)ق ۱۹(۲)سجدہ ۱۱(۳) سورہ زمر۴۲(۴)سورۂ نحل۲۸۔۳۲(۵)انعام۶۱

۷۹

روح قبض کرتے ہیں ، پس در حقیقت خدا ہی روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے کہ وہ فرشتوں کواس کا حکم دیتا ہے۔

آخرت کا یہ مرحلہ شروع ہوتے ہی دنیا میں عمل کا امکان سلب ہو جاتا ہے اور اپنے عمل کا نتیجہ دیکھنے کامرحلہ شروع ہو جاتاہے ، منجملہ ان آثار کے جسے مرنے والا ہنگام مرگ دیکھتا ہے ایک وہ چیز ہے جسے صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

''صوم رجب يُهوّن سکرات الموت'' ( ۱ )

ماہ رجب کا روزہ سکرات موت کو آسان کرتا ہے۔

آدمی کا حال اس مرحلہ میں عمل کے اعتبار سے جواس نے انجام دیا ہے دو طرح کا ہے، جیسا کہ خداوند متعال خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( فأ مّا اِن کان من المقربین) (فروح و ریحان و جنّت نعیم) (و أمّا اِن کان من أصحاب الیمین) (فسلامُ لک من أصحاب الیمین)( و أما اِن کان من المکذبین الضّٰا لّین)( فَنُزُل من حمیم.وَ تصليةُ جحیمٍ ) ( ۲ )

لیکن اگر مقربین میں سے ہے تو رَوح ،ریحان اور بہشت نعیم میں ہے لیکن اگر اصحاب یمین میں سے ہے تواس سے کہیں گے تم پر سلام ہو اصحاب یمین کی طرف سے لیکن اگر جھٹلا نے والے گمراہ لوگوں میں سے ہے تو دوزخ کے کھولتے پانی سے اس کا استقبال ہو گا اور آتش جہنم میں اسے جگہ ملے گی۔

خدا وند عالم نے جس بات کا گروہ اوّل ( اصحاب یمین اور مقربین) کو سامنا ہو گااس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یا أيّتها النفس المطمئنة اْرجعی اِلیٰ ربّک راضيةً مرضيّةً فادخلی فی عبادی و ادخلی جنّتی )

اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی جانب لوٹ آ اس حال میں کہ تواس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی و خوشنود ہے پس میر ے بندوں میں داخل ہوجا اورمیری بہشت میں داخل ہوجا۔( ۳ )

اوردوسرا گروہ، جس نے دنیاوی زندگی میں اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُون٭ لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّهَا کَلِمَة هُوَقَائِلُهَاوَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ( ۴ )

____________________

(۱) ثواب الاعمال باب : ثواب روزہ رجب ،حدیث ۴.(۲)واقعہ۸۸۔ ۹۴.(۳) فجر ۲۷ ، ۳۰.(۴)مومنون ۹۹، ۱۰۰.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بتلائیں_

اللہ تعالی کے واضح پیغام کے علم کے بغیر لوگ کس طرح صحیح زندگی کو درک کرسکتے ہیں___؟ کس طرح ایمان اور یقین کے بغیر دنیاوی و اخروی سعادت کو حاصل کرسکتے ہیں؟ واقعا کون سی ذات سوائے خداوند عالم کے لوگوں کی زندگی اور آزادی کے لئے رہنما ہوسکتی ہے؟

پیغمبروں کا سب سے اہم کام لوگوں کو ایمان کی دعوت دینا ہوتا ہے، ایک انسان کے لئے سب سے قیمتی اور عظیم ترین چیز خدائے وحدہ اور اس کے درست دعؤوں پر ایمان لانا، اس کی عبادت و پرستش کرنا اور اس ذات سے انس و محبت کرنا ہوتا ہے کیونکہ خدا کی معرفت، اس سے محبت کرنا، اس پر ایمان لے آنا اور اس کی اطاعت ہی وہ تنہا ہدف و غایت ہے کہ جس کیلئے تمام جہاں کو خلق کیا گیا اور یہی انسان کے حقیقی ارتقاء کا تنہا راستہ ہے_

پیغمبر دلائل، براہین، اسرار و رموز کے بیان کرنے اور دنیا کے عجائب کے اظہار کرنے سے انسان کی فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور حق موجود ہوتا ہے بیدار کرتے ہیں اور زیباترین و عظیم ترین ارزش تک پہونچنے کے لئے حرکت کی راہ اور وہاں تک پہونچنے کے راستے بتلاتے ہیں_ دنیا میں نظم، ہم آہنگی و زیبائی اور شگفتی جو عالم کی خلقت میں موجود ہے، کی وضاحت کرتے ہیں تا کہ لوگ اللہ تعالی کی قدرت عظمت، حکمت و دانائی اور توانائی تک رسائی حاصل کرسکیں_

اللہ تعالی کی نعمتوں کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے راہنمائی کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ لوگوں کی خوابیدہ عقل کو بیدار و ہوشیار کرتے ہیں_

۱۲۱

پیغمبر اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ لوگوں کی بدبختی کا سب سے بڑا عامل اور سبب خدائے مہربان کو فراموش کردینا اور اللہ تعالی سے کفر، انکار، بے ایمانی اور مادی گری ہوا کرتا ہے_ لوگوں کا سعادت مند ہونے کا تنہا سبب اللہ تعالی پر ایمان لے آنا اور خدا کی طرف توجہ کرنا ہوتا ہے_

واقعاً جو انسان خداپر ایمان نہیں رکھتا وہ کس امید پر زندگی بسر کرتا ہے___؟ جو شخص خداوند عالم کے پیغام پر ایمان نہیں رکھتا وہ کس کے پیغام پر ایمان لاتا ہے___؟ کون سے پیغام کے سننے سے اپنے آپ کو حیرت اور سرگردانی سے نجات دیتا ہے؟ کون سے مدہ کے سننے سے اپنے اندرونی اضطراب اور مخفی پریشانی کو سکون دے سکتا ہے؟

صرف خدا پر ایمان ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کا اندرونی نوری چشمہ پھوٹ سکتا ہے اور باطنی کثافت و روحی تاریکیوں کو برطرف کرسکتا ہے اور یہی مومن کے دل کو اطمینان اور صفا بخشا ہے_ واقعا مومن اللہ کی سب سے بہترین مخلوق ہے وہ خدا اور ارتقاء کی راہ کوپالیتا ہے اور اس پر ثابت قدم رہتا ہے_ مومن اپنی زندگی کا آئین پیغمبروں سے حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالی کے دستور کے سامنے سر نیاز خم کردیتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتا ہے، ہمیشہ اسی کی یاد میں رہتا ہے، خدا پر اعتماد کرنے میں خوش اور دل گرم رہتا ہے اور اس کی رضا کے حاصل کرنے میں دن رات کو شاں رہتا ہے_

خلاصہ خدا کے علاوہ دوسروں سے امیدوں کو قطع کر کے صرف خدا ہی سے اپنی امیدیں وابستہ رکھتا ہے، دل کی گہرائی سے خدا سے راز و نیاز کرتا رہتا ہے ، مشکلات اور احتیاجات کے دور رکرنے میں اسی سے پناہ لیتا اور اسی سے مدد مانگتا ہے_

خداوند عالم بھی ایسے مومن کو دوست رکھتا ہے، اپنی غیبی قوت اور امداد سے اس کی مدد کرتا ہے لہذا مومن کہ جس کا محبوب خدا اور خدا کا محبوب وہ خود ہے، کسی سے نہیں

۱۲۲

ڈرتا کیونکہ اس کا حامی خدا ہے لہذا تمام طوفان اورحوادث کے مقابل پہاڑوں کی طرح ثابت قدمی سے مقاومت کرتا رہتا ہے، مومن ایک آزاد انسان ہوتا ہے جو اللہ کی بندگی کو قبول کر کے طاغوتوں اور ظالمں کی بندگی، زر و جواہر اور جادہ و مقام کی پرستش سے آزاد ہوجاتا ہے، کائنات اور اس میں موجود مخلوق کو خدا کی نشانی جانتا ہے، تمام جہاں کا مدبر اور مدیر خدا کو مانتا ہے_

اس کے ارادہ کو تمام جگہوں پر نافذ مانتا ہے صرف اور صرف اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور کسی دوسرے کے سامنے سر ذلت نہیں جھکاتا اور ایک جوان کی طرح ظالموں پر حملہ آور ہوتا ہے، شہادت کی آرزو کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوجاتا ہے_ پیغمبر، خدائی نظام اور آئین سے ایسے بزرگوار اور آزاد انسان کی جو طالب شہادت ہوتے ہیں تربیت کرتے ہیں_

قرآن کی آیت:

( الا بذکر الله تطمئن القلوب ) ____(۱)

''آگاہ ہوجاؤ کہ اطمینان، یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے''

____________________

۱) سورہ رعد آیت نمبر ۲۸

۱۲۳

سوالات

سوچیئےور جواب دیجیئے

۱) ___اس جوان کا جس نے پیغمبر اسلام (ص) کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا اس درس میں کیسے ذکر کیا گیا ہے؟

۲)___ جب پیغمبر (ص) نے اس جوان سے پوچھا کہ تونے صبح کیسے کی تو اس نے کیا جواب دیا تھا؟

۳)___ اس جوان نے اپنے ایمان اور یقین کی علامتیں کون سی بیان کی تھیں؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے اصحاب سے اس جوان کے با رے میں کیا فرمایا تھا؟

۵)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اس جوان کو کس چیز کی وصیت اور سفارش کی تھی؟

۶)___ اس جوان کی کون سی آرزو تھی کہ جس کے لئے پیغمبر اسلام(ص) سے دعا کرنے کی خواہش کی تھی؟

۷)___ پیغمبروں کا سب سے اہم کام کون سا ہوا کرتا تھا؟

۸)___ ایک انسان کی عظیم ترین اور بہترین ارزش کون سی ہوتی ہے؟

۹)____ پیغمبر، انسان کی خداجوئی والی فطرت کو کس طرح بیدار کرتا ہے؟

۱۰)___ انسان اور جہان کی خلقت کی غرض و غایت کیا ہوتی ہے؟

۱۱)___ پیغمبروں کی نگاہ میں لوگوں کی بدبختی کا اہم عامل اور سبب کیا ہوتا ہے، اور سعادت کا تنہا سبب کون سا ہوتا ہے؟

۱۲)___ مومن انسان کی خصوصیات جو اللہ تعالی کے پیغمبروں کے دستور کے مطابق ترتیب یافتہ ہوتے ہیں کون سی ہوتی ہیں؟

۱۲۴

اللہ تعالی کے لئے کام کرنا پیغمبروں کے برنامے میں سے ایک ہے

انسانوں کوطاغتوں سے آزاد کرنا اور ظالم کے زور کو توڑنا استقامت اور قیام کئے بغیر ممکن نہیں، لیٹروں اور طاغتوں کا ہاتھ محروم و مستضعفین کے جان و مال سے اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک لوگ آزادی اور رہائی کے خواستگار نہ ہوں اور اس کے لئے قیام نہ کریں، اپنی تمام قوت و کوشش کو کام میں نہ لائیں اور اس ہدف و غرض کے لئے جہاد و پائیداری سے کام نہ لیں_

فقر، محرومیت، ظلم، بے عدالتی، جہل، نادانی، تجاوز، سلب امنیت، قانون شکنی اور فساد سے مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ بہت مشکل اور اہم کام ہے کہ جسے سارے افراد کی کوششوں اور عمومی جہاد کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے شناخت، تمایل، حرکت اور کوشش ضروری ہے اس لئے تمام پیغمبروں کا اصل کام اور سب سے پہلا اقدام ظالموں، مستکبروں اور مفسدوں کے خلاف جہاد کرنا ہوا کرتا تھا_

خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

'' ہم نے پیغمبروں کو واضح دلیلیں دے کر بھیجا ہے، ان پر کتاب اور میزان نازل کی ہے تا کہ لوگ عدالت و انصاف کے لئے قیام کریں''_ (حدید آیہ ۲۵)

۱۲۵

'' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تم خدا کے لئے قیام کرو اور انصاف کی گواہی دو''_ (سورہ مائدہ آیت نمبر ۸)

''اے پیغمبر(ص) لوگوں سے کہہ دو کہ میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو دو آدمی اور ایک ایک اللہ تعالی کے لئے قیام کرو'' (سبا ۲۶)

تمام پیغمبروں نے مادی گری، شرک و فساد کے خلاف، مستضعف لوگوں کو نجات دینے، عدل و انصاف قائم کرنے اور خداپرستی کو عام کرنے کے لئے جہاد و قیام کیا ہے لوگوں کے خوابیدہ افکار کو بیدار کیا ہے اور انھیں قیام و حرکت کرنے کی دعوت دی ہے:

_ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی اور ستمگر سے مقابلہ کرنے کے لئے قیام کیا اور نمرود و نمرودیوں سے جنگ کی_

حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی قوم کو فرعون سے نجات دینے کے لئے فرعون سے مقابلہ کیا اور لوگوں کی متفرق طاقت کو آزادی کے لئے یکجا کیا اور ایک ہدف و غرض کے لئے اکٹھا کیا_

_ حضرت عیسی علیہ السلام نے جابر لوگوں کے خلاف اور تحریف شدہ قوانین کو زندہ کرنے کے لئے قیام کیا_

_ پیغمبر اسلام (ص) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بت پرستی، ظلم اور بے عدالتی سے مقابلہ کرنے کے لئے قیام فرمایا اور اپنے ماننے والوں سے چاہا کہ ہمیشہ ظلم اور ظالم کے دشمن بن کر رہیں اور مظلوم و ستم رسیدہ انسانوں کے یار و مددگار ہوں_

اسلام کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور جہان کے محرومین کو نجات دینے کے لئے جہاد، قیام اور کوشش کرتے رہیں_

۱۲۶

تحقیق اور تکمیل:

قرآن مجید کی آیات سے اور ان آیات سے کہ جن کا ترجمہ یہاں کیا گیا ہے یوں نتیجہ نکلتا ہے:

۱)___ قیام اور جہاد، اللہ تعالی کے قوانین کے اجراء اور ظالموں کے ہاتھ کو لوگوں کے جان مال سے روکنا، ہر قسم کے ظلم و فساد، شرک و بے عدالتی کو ختم کرنا فرائض دینی اور دستور مذہبی کا اہم و اصلی جزء ہے اور اسے دین کے سر فہرست ہونے کا درجہ حاصل ہے_

۲)___ مفسد و متجاوز کا مقابلہ کرنا تمام انسانوں کا عمومی فریضہ ہے اور تمام کے تمام لوگ اس کے ذمہ دار ہیں اور انھیں ایک دوسرے کی مدد و تعاون کر کے اس کے لئے قیام اور تحریک کو آگے بڑھانا چاہیئے_

۳)___ اگر کچھ لوگ اس کی انجام دہی میں کوتاہی و سستی کریں تو دوسرے لوگوں سے یہ فریضہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ ہر آدمی کا فریضہ ہے کہ وہ یک و تنہا قیام کرے اور اپنی طاقت کے مطابق اس فریضہ کو انجام دے اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنی مدد کرنے کی دعوت دے_

۴)___ اس قیام و جہاد میں غرض و ہدف خدا کی ذات اور اس کی رضا ہونی چاہیئے اور اس سے غرض خودخواہی اور حکومت طلبی نہ ہو_ قرآن مجید خاص طور سے حکم دیتا ہے کہ قیام اور جہاد کی غرض اللہ تعالی کی خوشنودی، قوانین و احکام الہی کا جاری کرنا اور مخلوق خدا کی سعادت، نجات اور عدل الہی کے پھیلاؤ کے علاوہ اور کچھ نہ ہو_

۵)___ قیام اور جہاد میں عدالت کی رعایت کی جانی چاہیئےور جہاد کرنے

۱۲۷

والوں کو حدود عدالت سے خارج نہیں ہونا چاہیئے اور خود انھیں ظلم کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیئے_

یہ ہمارا فریضہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے پھیلاؤ اور باقی رکھنے کے لئے اپنی پوری طاقت و قوت سے ظالموں اور مستکبروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے قیام و جہاد کریں اور جب تک تمام اسلامی احکام اور نجات دینے والا یہ پیغام '' لا الہ الا اللہ'' دنیا کے کونے کونے تک نہ پھیل جائے اپنی کوشش اور سعی کو ختم نہ کریں_

قرآن کی آیت:

( قل انّما اعظکم بواحدة ان تقوموا لله مثنی و فرادی ) ____(۱)

''کہہ دو کہ میں ایک چیز کی تمھیں نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ دو دو اور ایک ایک اللہ کے لئے قیام کرو''

____________________

۱) سورہ سبا آیت ۴۶

۱۲۸

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجیئے

۱)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں لوگوں کو راہ خدا میں جہاد کرنے، عدالت اور انصاف کو پھیلانے کی دعوت دی ہے_ اس درس میں سے تین آیات کا اس بارے میں ترجمہ پیش کیجیئے _

۲)___ جہاد کی غرض کیا ہونی چاہیئے؟ وہ شرائط جو جہاد اور قیام الہی کے لئے ضروری ہیں انھیں بیان کیجیئے

۳)___ ظالم اور مفسد کا مقابلہ کرنا کس کا فریضہ ہے، اگر ایک گروہ اس فریضہ کی ادائیگی میں سستی کرے تو دوسروں کا کیا فریضہ ہوتا ہے؟

۴)___ اسلامی انقلاب کو وسعت دینے کے لئے ہمارا کیا فریضہ ہے، کب تک ہم اس کی کوشش کرتے رہیں؟

۱۲۹

مرکز توحید (۱)

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا پرستوں اور توحید کے پیغمبر تھے، آپ اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبری کے لئے چنے گئے تھے، آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ پورے عالم میں خداپرستی کا پیغام پہونچائیں اور اسے عام کریں، آپ نے توحید کی دعوت ایک متمدن شہر بابل سے شروع کی اور اپنے زمانہ کے طاغوت نمرود سے مقابلہ کیا ایک زمانہ تک آپ بت پرستی اور شرک سے مقابلہ کرتے رہے لوگوں کو خدا کی عبادت اور اللہ تعالی کے حیات بخش فرامین کی اطاعت کرنے کی طرف دعوت دیتے رہے_

پاکباز لوگوں کا ایک گروہ آپ پر ایمان لے آیا آپ توحید کی دعوت کو عام کرنے کے لئے مصر، شام اور فلسطین کی طرف ہجرت کرتے رہے تا کہ توحید پرستی کا پیغام دوسرے انسانوں تک بھی پہونچاسکیں اور انقلاب توحید کو تمام ممالک میں صادر کرسکیں، آپ نے اس کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زیادہ تکالیف اٹھائیں_ تمام جگہوں میں اس زمانہ کے ظالموں اور طاغتوں کی شدید مخالفت کا آپ کو سامنا کرنا پڑا_

ایک گروہ کی جہالت و نادانی اور غفلت نے آپ کے اس کام کو دشوارتر کردیا تھا جس کی وجہ سے آپ کو زیادہ کامیابی نہ مل سکی لیکن یہ عظیم پیغمبر اللہ تعالی کے اس حکم کی بجاآوری میں پكّے ارادے سے ثابت قدم رہے اور کبھی دلسرد اور نہ تھکے_ آپ کے ارادہ کا اہم فیصلہ ایک جگہ کو توحید کا مرکز بنانا تھا آپ نے اللہ تعالی کے حکم کے ماتحت

۱۳۰

پكّا ارادہ کرلیا تھا کہ توحید اور خداپرستی کا ایک مضبوط مرکز بنائیں گے تا کہ خداپرست معتقد حضرات وہاں اکٹھے ہوں ایک دوسرے سے آشنائی و شناسائی پیدا کریں اور توحید و خداپرستی کا حیات بخش پیغام وہاں سے لے کر تمام عالم کے کانوں تک پہونچائیں اور غافل انسان کو بیدار کریں اور انھیں ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور خداپرستی کی طرف بلائیں اس کا مرکز کہاں بنائیں؟ اس غرض کے لئے بہترین نقطہ کون کون سا ہوسکتا ہے اور وہ کون سی خصوصیات کا حامل ہو؟

اللہ تعالی نے اس غرض کے لئے خانہ کعبہ کو منتخب کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کی نشاندہی کی کیونکہ خانہ کعبہ قدیم زمانہ سے توحیدپرستوں کا معبد تھا، خانہ کعبہ کو سابقہ پیغمبروں نے بنایا تھا اسی لئے خداپرستوں کے لئے مورد توجہ تھا اور کبھی نہ کبھی لوگ وہاں جایا کرتے تھے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے اپنی بیوی اور بیٹے جناب اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مکہ روانہ ہوئے جب مکہ پہونچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جبرئیل کی راہنمائی میں مخصوص اعمال ''مناسک حج'' بجالائے جب اعمال بجالا چکے تو اپنی بیوی اور بیٹے سے کہا کہ ''اللہ تعالی کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ تمھیں کعبہ کے قریب رکھوں اور میں خود حکم الہی کی تعمیل کے لئے فلسطین چلا جاؤں ، تم یہیں رہ جاؤ خانہ کعبہ کے زائرین کی مہمان نوازی کرو، اس کے آباد کرنے اورپاکیزہ بنانے میں کوشش کرو، خدا چاہتا ہے کہ یہ توحید، خداپرستی کا معبد و مرکز قرار پائے اور تم بھی توحید کے محافظ اور پاسدار رہنا، بردبار و فداکار ہونا، مسافرت، تنہائی و مشکلات سے نہ کھبرانا کیونکہ یہ تمام اللہ کے راستے اور خلق خدا کی خدمت کے مقابلہ آسان ہیں خدا تمھارا مددگار اور محافظ ہے''_

حضرت ابراہیم (ع) نے بیوی اور اپنے فرزند جناب اسماعیل (ع) کو الوداع کہا اور فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے، آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ان سے دور ہوتے جا رہے تھے

۱۳۱

اور دور سے انھیں دیکھتے جا رہے تھے ایک چھوٹے سے بچّے کو اس کی ماں کے ساتھ ایک دّرے میں اور شاید ایک درخت کے نیچے تنہا چھوڑ کر جا رہے تھے_ آخری وقت جب کہ پھر انھیں دیکھ نہ سکتے تھے کھڑے ہوگئے، ان کی طرف نگاہ کی، اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا:

''پروردگار تیری امید اور سہارے پر اپنے خانوادے کو اس خشک پہاڑ کے دامن میں تیرے گھر کے قریب چھوڑ کر جا رہا ہوں تا کہ یہ تیری عبادت و پرستش اور نماز کو برپا کریں_

خدایا لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ کر اور زمین کے دانوں اور میووں کو ان کا نصیب قرار دے_ پروردگار اس جگہ کو امن کا حرم قرار دے مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ_

خدایا بت پرستی اور شرک نے بہت سے لوگوں کو گمراہی اور بدبختی میں ڈال رکھا ہے_ پروردگار مجھے، میری اولاد اور خاندان کو نماز برپا کرنے والوں میں سے قرار دے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرما''

اس کے بعد آپ نے آخری نگاہ بیوی اور چھوٹے فرزند پر ڈالی اور یک و تنہا فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے_

قرآن کی آیت

ربّنا انی اسکنت من ذريّتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربّنا لیقیموا الصّلاةفاجعل افئدة من الناس تهوی الیهم و ارزقهم من الثّمرات لعلّهم یشکرون

''پرودگار میں نے اپنے خانوادہ کو ایک بے آباد وادی تیرے گھر کے ہمسایہ میں سکونت دی ہے، ہمارے پروردگار اس لئے کہ نماز کو برپا کریں ، لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ کرو اور زمین کے میوہ جات ان کی روزی قرار دے تا کہ تیرا شکر ادا کریں''(۱)

____________________

۱) سورہ ابراہیم آیت ۳۷

۱۳۲

مرکز توحید (۲)

تنہا بوڑھا انسان ایک عصا اور تھوڑا سا سامان پشت پر ڈالے راستے کے پیچ و خم کو طے کرتے ہوئے فلسطین کی طرف جا رہا ہے تا کہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالی کی عبادت و اطاعت کی طرف بلائے اور ظالموں کی اطاعت و فرمانبرداری سے روکے_

فداکار خاتون ہاجرہ اپنے چھوٹے فرزند کے ساتھ ایک پتھر کے کنارے بیٹھی سورج کے غروب ہونے کا انتظار کر رہی تھی_ کیا اس خشک و خالی درّے میں زندگی کی جاسکتی ہے؟ کیا اس بلند و بالا پہاڑ کے دامن میں رات کو صبح تک کاٹا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی یہاں ہمسایہ ڈھونڈا جاسکتا ہے؟

اس قسم کے افکار سے اضطراب و پریشانی میں پڑ گئیں وہ اٹھیں اور جلدی سے پہاڑ کے اوپر گئیں اور ادھر ادھر نگاہ کی کسی کو نہ دیکھا سوائے چھوٹے بڑے خاموش اور خوف اور پہاڑ کے جو اپنی جگہ کھڑے تھے، انھوں نے مدد کے لئے آواز دی لیکن کسی سے جواب نہ سنا دوڑتے و دوڑتے نیچے اتریں اور ایک نگاہ اپنے چھوٹے فرزند پر ڈالی_

سورج جلدی میں ڈوب رہا تھا، درّہ تاریک اور خوفناک ہو رہا تھا، سامنے والے پہاڑ پر مشکل سے اوپر گئیں اور اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی پر پہونچایا، اطراف میں نگاہ دوڑائی کسی کو نہ دیکھا سوائے پہاڑ کے گھبرا کر مدد کے لئے پکارا کسی نے لبّیک نہ کہا چنانچہ نیچے اتریں اس وقت سورج نظر نہیں آرہا تھا پھر سامنے والے پہاڑ پر چڑھیں سورج کو دیکھا

۱۳۳

اور خوشحال ہوگئیں اور مدد کے لئے آواز دی لیکن کسی نے جواب نہ دیا_

ان دو پہاڑوں کے درمیان سات دفعہ فاصلہ طے کیا یہاں تک کہ رات ہوگئی اور جناب ہاجرہ تھک گئیں وہ اپنے چھوٹے فرزند کے پاس گئیں اور نیم تاریک و خاموش فضا میں بچے کو گود میں لیا اپنے کو اور اپنے فرزند کو اللہ کے سپرد کر کے درخت کے کنارے پتھر پر لیٹ گئیں_

روزانہ جناب ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (ع) خانہ کعبہ کی خدمت کرتے اور اسے پاکیزہ رکھنے میں مشغول رہتے تھے، خانہ کعبہ کی دیوار گرگئی تھی مٹی اور کوڑا و غیرہ صاف کیا اور اس چھوٹے گھر میں عبادت و نماز میں مشغول رہنے لگے_ تھوڑے دنوں کے بعد کئی ایک لوگ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مكّہ آئے ایک عورت اور چھوٹے بچے کو دیکھ کر تعجب کیا اور ان سے ان کے حالات پوچے جناب ہاجرہ نے جواب دیا کہ:

''ہم اولالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم (ع) کے گھرانے سے ہیں انھوں نے حکم خدا سے ہمیں یہاں رہنے کو کہا ہے تا کہ خانہ کعبہ کی خدمت کرتے رہیں اور اسے زیارت کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا اور آباد کئے رکھیں''_

اس قدیم خانہ کعبہ سے علاقہ رکھنے والے زائرین نے مختلف ہدیئے انھیں دیئےور آہستہ آہستہ کعبہ کے زائرین زیادہ ہونے لگے، خداپرست اور موحّد لوگ گروہ در گروہ کعبہ کی زیارت کو آتے اور جناب ہاجرہ حضرت اسماعیل (ع) کی خدمتوں کے صلہ میں ہدیہ پیش کرتے تھے_

حضرت اسماعیل (ع) اور آپ کی والدہ ماجدہ زائرین کعبہ کی خدمت کرتی تھیں آپ کی زندگی کا سہارا چند گوسفند تھے جناب اسماعیل (ع) گوسفندوں کو چراتے اور ان کے گوشت

۱۳۴

و پوست سے غذا و لباس مہیا کرتے تھے _ انھیں ایام میں عربوں کے کئی گروہ جو مكّہ سے کچھ فاصلہ پر رہتے تھے جناب اسماعیل (ع) اور حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر وہاں آباد ہوگئے_

جناب ابراہیم علیہ السلام بھی خانہ کعبہ کی زیارت کرنے اور اپنے اہل و عیال کے دیدار کے لئے مكّہ معظمہ آیا کرتے تھے اور خانہ کعبہ کی رونق، آبادی اور روز بروز زائرین کی زیادتی سے خوشحال ہوا کرتے تھے_ ایک سفر میں جب آپ مكّہ آئے ہوئے تھے تو اللہ تعالی کے حکم سے ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں_ اس بارے میں آپ نے جناب اسماعیل علیہ السلام سے گفتگو کی اس وقت جناب اسماعیل (ع) جوان ہوچکے تھے آپ نے اپنے والد کی پیش کش کو سراہا اور وعدہ کیا کہ باپ کی اس میں مدد کریں گے_

کام شروع ہوگیا جناب اسماعیل (ع) پتھر اور گارا لاتے اور جناب ابراہیم (ع) کعبہ کی دیوار کو بلند کرتے_ دوسرے لوگ بھی اس میں آپ کی مدد کرتے اور تعمیر کا سامان لے آتے، ایک سیاہ پتھر جو آثار قدیمہ کے طور پر باقی رہ گیا تھا اور سابقہ انبیاء (ع) کی نشانی و یادگار تھا اسے آپ نے دیوار کی ایک خاص جگہ پر نصب کردیا_ جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا:

''پروردگارا توحید اور خداپرستی کے گھر کی تعمیر کردی تا کہ یہ دنیا کے لوگوں کی عبادت و آزادی کا مرکز ہو، پروردگارا ہمارا یہ عمل قبول فرما اور ہمیں اپنے حکم کی اطاعت کرنے کی توفیق عنایت فرما_ میری اولاد سے مسلمانوں کی ایسی جماعت پیدا کر جو تیرے دستور کے ماننے والے اور فرمانبردار ہوں اور میری اولاد میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرماتا کہ تیری کتاب کی آیتوں کو لوگوں کے لئے پڑھے

۱۳۵

اور انھیں حکمت و کتاب کا درس دے، ان کے نفوس کا تذکیہ و تکمیل اور پرورش کرے_

پروردگار اس مقدس مکان کو امن کا حرم قرار دے، مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ اور اپنی برکت و نعمت کو اس مقدس مکان کے رہنے والوں کے لئے زیادہ فرما''

اس کے بعد آپ ایک بلند پہاڑ پر جو یہاں سے نزدیک تھا اور اسے کوہ ابوقیس کہا جاتا ہے_ گئے اور اپنے ہاتھوں کو کانوں پر رکھ کر بلند آواز سے یوں پکارا:

'' اے حجاز کے لوگو اے ساری دنیا کے لوگو توحید اور خداپرستی کے مرکز کی طرف آؤ شرک و ذلت اور بت پرستی سے ہاتھ اٹھالو''

اسی زمانہ سے خانہ خداپرستوں کی عبادت و اجتماع کا مرکز بن گیا ہے اور جو چاہے جناب ابراہیم علیہ السلام کی آواز پر لبيّک کہے، خانہ کعبہ کی طرف جائے، خدا کی عبادت کرے وہاں موحّد مومنین کو دیکھے، مشکلات کے حل کے لئے ان سے گفتگو کرے، تمام لوگوں کی ظلم و ستم اور ذلت و شرک سے رہائی کے لئے مدد کرے، ایک دوسرے سے ہمکاری و اتحاد کا عہد و پیمان باندھے اور سب مل کر کوشش کریں کہ اس مقدس خانہ کعبہ کو ہمیشہ کے لئے آباد اور آزاد رکھیں_

قرآن کی آیت :

( و اذا یرفع ابراهیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منّا انّک انت السمیع العلیم ) ____(۱)

''جب حضرت ابراہیم (ع) خانہ کعبہ کی دیواریں حضرت اسماعیل (ع) کے ساتھ مل کر بلند کر رہے تھے تو کہا اے پروردگار ہمارے اس عمل کو قبول فرما تو سننے والا اور دانا ہے''

____________________

۱) سورہ بقرہ آیت ۱۲۷

۱۳۶

سوالات

۱)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد توحید کا مرکز بنانے سے کیا تھا؟

۲)___ سب سے قدیم عبادت گاہ کہاں ہے، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کن حضرات نے اسے بنایا تھا؟

۳)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام کن کے ساتھ مکہ معظمہ آئے تھے، حج کے اعمال کس کی راہنمائی میں بجالائے تھے؟

۴)___ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخری وقت کہ جس کے بعد وہ بیوی اور بچّہ کو نہ دیکھ سکتے تھے کیا دعا کی تھی، آپ کی دعاؤں میں کن مطالب کا ذکر تھا؟

۵)___ حضرت ہاجرہ (ع) دو پہاڑوں کا فاصلہ کس حالت میں طے کر رہی تھیں اور یہ کتنی دفعہ طے کیا تھا؟

۶)___ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ کو تعمیر کریں تو یہ کس کے سامنے گفتگو کی اور اس نے اس کا کیا جواب دیا؟

۷)___ جب خانہ کعبہ کی تعمیر میں کس نے آپ کی مدد کی اور وہ کیا کام انجام دیتے تھے؟

۸)___جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تھی تو حضرت ابراہیم (ع) نے دعا کی تھی اس دعا میں آپ نے کیا کہا تھا اور آپ نے خداوند عالم سے کیا طلب کیا تھا؟

۹)___ آپ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد کون سے پہاڑ پر گئے تھے اور لوگوں کو کس چیز کی دعوت دی تھی؟

۱۰)___ جو لوگ جناب ابراہیم (ع) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خانہ کعبہ جاتے ہیں ان کے وہاں کیا فریضے ہوتے ہیں، ہر سال حج میں مسلمانوں کا کیا فریضہ ہوتا ہے؟

۱۳۷

دین یہود

حضرت موسی (ع) یہودی نامی دین لائے، حضرت موسی (ع) جناب عیسی (ع) سے ۱۵۰۰ سال پہلے مصر کی سرزمین میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام حضرات عمران تھا_ حضرت موسی (ع) اولوالعزم پیغمبر تھے قرآن مجید میں آپ کا متعدد جگہ ذکر ہوا ہے آپ کی بنی اسرائیل قوم جو مستضعف اور مظلوم تھی کی مدد اور حمایت کرنے کا قصہ اور بالخصوص آپ کا فرعون جیسے ظالم و مغرور سے مقابلہ کرنے کا قصہ قرآن مجید میں متعدد جگہ ذکر ہوا ہے_

حضرت موسی (ع) چالیس سال کے تھے کہ آپ کو خداوند عالم نے پیغمبری کے لئے مبعوث کیا اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے زمانہ کے طاغوت سے مقابلہ کریں اور بنی اسرائیل کی مظلوم قوم کو فرعون کی غلامی اور قید و بند سے آزاد کرائیں،خداوند عالم کی عبادت اور بندگی کی طرف لوگوں کو بلائیں حضرت موسی (ع) نے اپنے اس آسمانی فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ کی_

ابتداء میں آپ نے فرعون سے وعظ و نصیحت اور نرمی سے کام لیا اس کے بعد آپ نے اس سے گفتگو کی اور پروردگار عالم کی خدائی کی اور اس کی ربوبیت اور اپنی رسالت کے لئے دلیل و شاہد سے کام لیا اپنی رسالت کے لئے فرعون اور اس کے اطرافیوں کے لئے معجزہ و کھلایا اور اپنے عصا کو خدا کے اذن سے ایک بہت بڑے غضبناک ادہا کی صورت میں پیش کیا جادوگروں کے سامنے ایک واضح معجزہ بیان کیا، آپ کا عصا ایک بڑے سانپ کی صورت میں ظاہر ہو اور جن چیزوں کو جادوگروں نے زمین پر ڈالا تھا انھیں نگل لیا لیکن نہ نصیحت، نہ موعظہ، نہ گفتگو، نہ مباحثہ، نہ دلیل، نہ برہان اور نہ واضح و روشن معجزہ نے فرعون

۱۳۸

کے سخت اور تاریک دل پر اثر کیا اور وہ اپنے ظلم و ستم پر باقی رہا_

حضرت موسی (ع) نے ایک بہت طویل مدت تک بنی اسرائیل کے لئے خداپرستی کی ترویج اور تبلیغ کی لیکن ظالم فرعون اپنے ظلم و ستم ڈھانے پر باقی رہا_ بنی اسرائیل کی ذلیل و مظلوم قوم کی تمام امیدیں جناب موسی (ع) سے وابستہ تھیں اور آپ بنی اسرائیل کے متعلق راہ حل سوچ رہے تھے تا کہ اس محروم اور مظلوم قوم کو ہمیشہ کے لئے اس زمانہ کے طاغوت و ظالم سے نجات دیں_

اس زمانہ کے سخت حالات میںاس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل کی قوم کو مصر سے نکال لیا جائے اور انھیں طاغوت زمانہ کے قید و بند سے آزاد کرایا جائے چنانچہ حضرت موسی (ع) نے خدا کے حکم سے ہجرت کرنے کا ارادہ کیا اور آپ نے بنی اسرائیل کے سرداروں سے بھی ہجرت کرنے کے بارے میں مشورہ کیا انھوں نے آپ کے اس ارادہ سے اتفاق کیا اور مخفی طور سے انھوں نے اپنی زندگی کے اسباب و اثاثے کو اکٹھا کیا اور ہجرت کرنے کے لئے تیار ہوگئے_

بنی اسرائیل ایک تاریک رات میں بغیر اطلاع دیئےضرت موسی (ع) کی رہبری میں مصر سے نکل پڑے اور جلدی سے صحرائے سینا کی طرف بڑعنے لگے ہزاروں مرد اور عورتیں، چھوٹے بڑے، سوار اور پیادہ تیزی سے تمام رات اور دوسرے دن راستہ طے کرتے رہے جب صبح کے وقت فرعونی جاگے اور اپنے کار و بار پر گئے تو کافی انتظار کے بعد بھی بنی اسرائیل مزدور کام پر حاضر نہ ہوئے یہ خبر شہر میں پھیل گئی لوگ ان کی جستجو میں نکلے بعد میں معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کے وقت شہر سے نکل کر بھاگ گئے ہیں_

یہ خبر فرعون تک پہونچی اس نے ایک لشکر کے ہمراہ بنی اسرائیل کو پکڑنے کے لئے ان کام پیچھا کیا_ حضرت موسی (ع) کے حکم سے بنی اسرائیل دریا کی طرف جلدی میں بڑھ رہے تھے اور فرعون

۱۳۹

اور اس کا لشکر ان کا پیچھا کر رہا تھا جب بنی اسرائیل دریا کے نزدیک پہونچے تو راستہ کو بند پایا اور فرعون کا لشکر ان کے پیچھے آرہا تھا_

فرعون کے لشکر کے نزدیک پہونچنے سے بنی اسرائیل وحشت زدہ اور مضطرب ہوگئے خدا نے بند راستے کو ان کے لئے کھول دیا اور جناب موسی (ع) کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو دریا پر ماریں حضرت موسی (ع) نے اپنا عصا دریا پر مارا دریا شگافتہ ہوگیا اور بارہ وسیع راستے دریا کے وسط میں بن گئے بنی اسرائیل دریا میں داخل ہوگئے جب بنی اسرائیل کا آخری فرد دریا سے باہر نکل آیا اور فرعون کے لشکر کا آ خری فرد دریا میں داخل ہوگیا تو اللہ تعالی کے حکم سے یکدم پانی آپس میں مل گیا فرعون اور اس کے تمام لشکر کو دریا نے اپن لیپٹ میں لے لیا فرعون اور اس کے تمام لشکر کو غرق کردیا اور رہتی دنیا کے لئے فرعون کی ذلت و شکست عبرت کے طور پر تاریخ میں باقی رہ گئی وہ اس کے علاوہ آخرت میں اپنے مظالم کی سزا پائے گا_

بنی اسرائیل اس کا دور سے تماشا دیکھ رہے تھے اور فرعونیوں کی ہلاکت سے خوشحال تھے اور اپنے آپ کو فرعونیوں کے قید و بند سے آزاد پا رہے تھے اب وہ اللہ تعالی کے دستور اور اس کے قوانین کے مطابق ایک جدید معاشرہ تشکیل دینے کے پابند تھے لیکن اس وقت تک ان کے لئے نہ کوئی قانون اور نہ ہی عبادات کی رسومات موجود تھیں اس لئے کہ ابھی تک نہ توان کے لئے کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی احکام و قوانین نازل ہوئے تھے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302