‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110409 / ڈاؤنلوڈ: 3821
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

بنی اسرائیل کی طرف واپس لوٹ آئیں_

حضرت موسی (ع) نے یہ قصہ بنی اسرائیل سے بیان کیا اور اپنے بھائی جناب ہارون کو اپنا جانشین مقرر کیا جناب موسی (ع) بنی اسرائیل کی حکومت اور انتظام کو ان کے سپرد کر کے کوہ طور کی طرف روانہ ہوگئے_ آپ تیس دن تک وہاں راز و نیاز اور عبادت میں مشغول رہے اور اللہ تعالی کے حکم سے مزید دس دن رہے_

آپ نے اللہ تعالی کی طرف سے دین یہود کے احکام و قوانین کو لوح کی صورت میں حاصل کیا اور چالیس دن ختم ہونے کے بعد بنی اسرائیل کے پاس واپس لوٹ آئے_ ان الواح کو کتابی صورت میں جمع کیا کہ جسے توریت کا نام دیا گیا (اگر چہ اب یہ اصلی توریت باقی نہیں رہی اور اب ایک تحریف شدہ توریت موجود ہے) جب بنی اسرائیل صاحب کتاب ہوگئے تو ان کواستقلال حاصل ہوگیا اور انھیں اجتماعی و مذہبی تشخیص حاصل ہو اب ان کے پاس قانون موجود تھا فداکار و آگاہ رہبر حضرت موسی (ع) جیسا موجود تھا کہ جسے اللہ تعالی کی طرف سے رہبری اور ولایت دی گئی تھی_

خداوند عالم نے ان کے لئے د نیا و آخرت کی ترقی کے اسباب مہیا کردیئےھے لیکن افسوس کہ انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور بہانے و خود خواہی او رناشکری کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ ایک د ن گوسالہ پرستی شروع کردی اور کبھی حضرت موسی علیہ السلام سے کہتے کہ ہمیں اللہ تعالی کامشاہدہ کراؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں حالانکہ خداوند عالم جسم و جسمانیت نہیں رکھتا کہ جسے آنکھوں سے دیکھا جاسکے_

ایک دن حضرت موسی (ع) سے کہتے کہ ہمارے لئے بھونے ہوئے مرغے آسمان سے لاکر دو_ ایک دن کہتے کہ ہم مرغ اور کباب نہیں چاہتے بلکہ ہم دال اور پیاز چاہتے ہیں_

الحاصل بنی اسرائیل اعتراض کرتے اور اپنے پیغمبر و رہبر کے احکام و دستور سے سرپیچی اور بے اعتنائی کرتے اس ناشکری اور بلاوجہ اعتراض کی وجہ سے چالیس سال تک انھیں بیابانوں میں سرگرداں کیا_

۱۴۱

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱) ___ ابتداء میں حضرت موسی (ع) کی ذمہ داری کیا تھی، آپ نے اس ذمہ داری کو کس طرح ادا کیا اور فرعون سے کس طرح کا سلوک کیا؟

۲)___ حضرت موسی (ع) کا معجزہ کیا تھا، فرعون کے نزدیک کیوں یہ معجزہ ظاہر کیا؟

۳)___ بنی اسرائیل کی قوم کو نجات دینے کے لئے جناب موسی (ع) نے کیا سوچا اور کس طرح آنحضرت نے بنی اسرائیل کی قوم کو فرعون سے نجات دلوائی؟

۴)___ بنی اسرائیل دریا سے کیسے گذرے، دریا نے فرعون اور اس کے لشکر کو کس طرح ڈوبایا؟

۵)___ حضرت موسی (ع) کی کتاب کا کیا نام ہے، ان الواح کو حضرت موسی (ع) نے کہاں سے اور کتنی مدت کی عبادت اور راز و نیاز کے بعد اللہ تعالی سے حاصل کیا تھا؟

۶)___ بنی اسرائیل کس وجہ سے چالیس سال تک بیابانوں میں سرگرداں رہے؟

۷)___ ہم مسلمانوں کا حضرت موسی (ع) اور دوسرے انبیاء کے متعلق کیا عقیدہ ہے؟

۱۴۲

دین عیسی علیہ السلام

عیسوی اور نصرانی دین کو حضرت عیسی علیہ السلام خداوند عالم کی طرف سے لائے حضرت عیسی (ع) اولوالعزم پیغمبروں میں سے ایک تھے پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت سے ۵۷۰ سال پہلے بیت اللّحم جو فلسطین کے شہروں میں سے ایک شہر ہے متولد ہوئے آپ کی والدہ حضرت مریم (ع) اللہ تعالی کے نیک بندوں میں سے ایک اور دنیا کی عورتوں میں سے ایک ممتاز خاتون تھیں_ آپ بیت المقدس میں دن رات اللہ تعالی کی نماز اور عبادت میں مشغول رہتیں_

آپ ایک لائق، پاکدامن اور پرہیزگار خاتون تھیں آپ کے بیٹے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارہ میں لوگوں سے بات کی، اپنی نبوت و پیغمبری کی خبر دری اور کہا:

''میں اللہ کا بندہ ہوں خداوند عالم نے مجھے پیغمبر قرار دیا ہے اور مجھے نماز قائم کرنے اور زکوة دینے کے لئے کہا ہے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک اور مہربان بنوں، اللہ نہیں چاہتا کہ میں ظالم، شقی اور بدبخت بنوں''

آپ نے بچپن کا زمانہ پاکیزگی سے کاٹا اور جب سن بلوغ تک پہونچے تو آپ کو رسمی طور سے حکم دیا گیا کہ لوگوں کی ہدایت اور تبلیغ کریں حضرت عیسی علیہ السلام یہودیوں کے درمیان مبعوث ہوئے اور یہودیوں کے احکام و قوانین اور توریت کی ترویج کرتے تھے اور ان لغویات و فضولیات اور خرافات سے جویہودیوں کے دین میں جاہلوں و مفسدوں کی طرف سے داخل کردی گئی تھیں مقابلہ کیا کرتے تھے، اصلی توریت لوگوں کے سامنے پڑھا کرتے تھے اور

۱۴۳

اس کی تفسیر و معنی بیان کیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ اپنی کتاب سے جو آپ پر نازل ہوئی تھی جس کا نام انجیل تھا وہ بھی لوگوں کے سامنے پڑھا کرتے تھے_

حضرت موسی (ع) کی آسمانی کتاب توریت، زمانے کی طوالت اور گوناگون واقعات کے پیش آنے کی وجہ سے تحریف کردی گئی اور ناروا قسم کے افکار و عادات دین کے نام پر یہودی قوم کے درمیان رائج ہوگئے حضرت عیسی علیہ السلام کی کوشش ہوتی تھی کہ وہی اصلی حضرت موسی کے صحیح احکام و قوانین کی ترویج و تبلیغ کریں اور ان خرافات و اوہام باطلہ کا مقابلہ کریں جو موسی (ع) کے دین میں د اخل ہوگئے تھے_

حضرت عیسی علیہ السلام اپنے کو پیغمبر خدا ثابت کرنے کے لئے اذن الہی سے لوگوں کو معجزے دکھلاتے تھے، مردہ کو زندہ کرتے تھے، مادر زاد اندھوں کو بینا کرتے تھے، لولے اور مفلوج کو شفا دیتے تھے، مٹی سے پرندہ کا مجسمہ بناتے اس میں پھونک مارتے وہ مجسمہ زندہ ہوجاتا اور پر مار کر ہوا میں پرواز کر جاتا تھا اور لوگ جو کچھ کھاتے اور گھر میں ذخیرہ کرتے اس کی خبر دیتے تھے_

حضرت عیسی (ع) بہت ہی سعی و کوشش سے اپنی رسالت کے ادا کرنے میں مشغول تھے پند و نصیحت اور موعظہ بیان کرتے تھے دیہاتوں اور شہروں میں جاتے اور لوگوں کو نہایت صبر و حوصلہ سے ہدایت کرتھے تھے اس کے نتیجہ میں ایک گروہ آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کو دعوت کو قبول کیا اور آہستہ آہستہ ان میں اضافہ ہوتا گیا_ آپ پر ایمان لانے والوں میں سے ایک گروہ بہت سخت آپ کا معتقد تھا ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا اور نہایت خلوص و فداکاری سے آپ کی حمایت اور اطاعت کرتا تھا_

یہ بارہ آدمی تھے کہ جن کو حواریيّن کا لقب دیا گیا یہی بارہ آدمی حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد اطراف عالم میں گئے اور جناب عیسی علیہ السلام کے دین کو پھیلا یا حضرت عیسی علیہ السلام بہت

۱۴۴

سادہ زندگی بسر کرتے تھے، سادہ لباس پہنتے اور بہت تھوڑی و سادہ غذا کھاتے تھے، آپ مظلوموں کی مدد کرتے اور محروم طبقہ پر بہت مہربان تھے لیکن ظالموں اور مستکبروں کے ساتھ سخت ناروا سلوک کرتے اور ان سے مقابلہ کیا کرتے تھے، کمزوروں کے ساتھ بیٹھتے اور ان سے دلسوزی و خلوص سے پیش آتے تھے اور لوگوں کو بھی مہربان و احسان کرنے کی دعوت دیتے تھے_

آپ متواضع و خوش اخلاق تھے اور اپنے حوايّین سے بھی کہتے تھے کہ لوگوں سے مہربان اور متواضع بنین آپ نے ایک دن اپنے حوایيّن سے فرمایا کہ:

''تم سے میری ایک خواہش ہے_ انھوں نے جواب دیا کہ آپ بیان کیجیئےپ جو کچھ چاہیں گے ہم اسے پورا کریں گے_ کیا تم بالکل نافرمانی نہیں کروگے؟ ہرگز نافرمانی اور سرکشی نہیں کریں گے_ آپ نے فرمایا پس یہاں آؤ اور بیٹھ جاؤ_ جب تمام لوگ بیٹھ چکے تو آپ نے پانی کا برتن لیا اور فرمایا کہ تم مجھے اجازت دو کہ میں تمھارے پاؤں دھوؤں_

آپ نے نہایت تواضع سے تمام حواريّین کے پاؤں دھوئے حواریيّن نے کہا کہ اس کام کو بجالانا ہمیں لائق اور سزاوار تھا حق تو یہ تھا کہ ہم آپ کے پاؤں دھوتے_ آپ نے فرمایا نہیں ہیں اس کام کے بجالانے کا حق دار اور سزاوار ہوں علماء اور دانشمندوں کو چاہیئے کہ وہ لوگوں کے سامنے تواضع بجالائیں ان کی خدمت کریں اور ان کی پلیدی و کثافت کو دور کریں_ میں نے تمھارے پاؤں دھوئے ہیں تا کہ تم اور دوسرے علماء اسی طرح لوگوں کے سامنے تواضع کریں اور سمجھ لیں کہ دین و دانش تواضع و فروتنی سے ترویج پاتا ہے نہ کہ تکبّر

۱۴۵

اور خود خواہی سے جس طرح گھاس اور نباتات نرم زمین میں سے اگتے ہیں دین اور دانش بھی پاک اور متواضع سے پرورش پاتا ہے''

اللہ تعالی کے نزدیک اس قسم کی پسندیدہ رفتار کی وجہ سے آپ کے مریدوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور آپ کی قدرت و نفوذ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا_ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہودیوں کے بعض علماء جو خود خواہ اور متکبر تھے حضرت عیسی علیہ السلام کی قدرت و نفوذ سے وحشت زدہ ہوچکے تھے اور اپنے منافع، جاہ و جلال اور مقام کو خطرے میں دیکھ رہے تھے لہذا انھوں نے بیت المقدس میں ایک جلسہ کیا اور جناب عیسی علیہ السلام کو جو اللہ تعالی کے پاک و بزرگ پیغمبر تھے جادوگر و فتنہ پرداز انسان قرار دیا اور شہر کے حاکم کو آپ کے خلاف ابھارا_

حضرت عیسی علیہ السلام کی جان خطرے میں پڑگئی آپ نے مجبور ہو کر تبلیغ کو مخفی طور پر انجام دینا شروع کیا_ بہت سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بعض یہودیوں کے واسطے سے سولی پر چڑھایا گیا ہے اسی لئے سولی کی صورت و شکل ان کے نزدیک ایک مقدس شکل شمار ہوتی ہے لیکن عیسائی کا دوسرا گروہ حضرت عیسی (ع) کے سولی پر چڑھائے جانے کو قبول نہیں کرتا وہ کہتے ہیں کہ:

'' وہ حضرت عیسی (ع) کو سولی پر چڑھانا تو چاہتے تھے لیکن ایک اور آدمی کو جو حضرت عیسی (ع) کے ہمشکل و ہم صورت تھا پکڑا اور اسے سولی پر غلطی سے چڑھا دیا لہذا حضرت عیسی قتل ہونے سے بچ گئے''

قرآن مجید بھی اسی عقیدہ و نظریہ کی تائید کرتا ہے کہ حضرت عیسی (ع) کو سولی پر نہیں چڑھایا گیا_ عیسائیوں کا ایک گروہ حضرت عیسی (ع) کو اللہ تعالی کا فرزند مانتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت عیسی (ع) خدا کے بیٹے تھے سولی پر چڑھنے کو اس لئے اختیار کیا تا کہ گناہگاروں کو نجات دلواسکیں لیکن

۱۴۶

قرآن مجید اس وہم و نظریہ کی رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ:

''حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے بندہ تھے وہ خدا کے بیٹانہ تھے کیونکہ تو خدا کا کوئی بیٹا ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے وہ ایک ہے کوئی اس کامثل اور شریک نہیں ہے''

قرآن کہتا ہے:

'' ہر انسان کی سعادت و نجات اس کے اعمال پر مبنی ہوا کرتی ہے اور کوئی بھی کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھاتا''

قرآن کہتا ہے کہ:

''حضرت عیسی علیہ السلام لوگوں کو نجات دلانے والے میں لیکن نہ موہوم نظریہ کے مطابق بلکہ اس بناپر کہ وہ اللہ کے پیغمبر، لوگوں کے ہمدرد و راہنما اور رہبر ہیں جو شخص بھی آپ کے نجات دینے والے دستوروں پر عمل کرے گا وہ نجات پائے گا اور اللہ تعالی کی بخشش و مغفرت اور رحمت کا مستحق ہوگا''_

حضرت عیسی علیہ السلام کا دین اور آپ کی فرمائشےات بھی لوگوں کی ناجائز مداخلت کی وجہ سے تبدیل کردی گئیں_ کئی ایک مذہب اور فرقے اس دین میں پیدا ہوگئے، اصلی اور واقعی انجیل اس وقت نہیں ہے البتہ انجیل کے نام پر کئی متضاد کتابیں پائی جاتی ہیں_

عیسائیوں کے اہم فرقے کہ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے کا تو لیک، ارتدوکس اور پروتستان ہیں_

قرآن مجید کی آیت:

قال انّی عبدالله اتانی الکتاب و جعلنی نبیا و جعلنی مبارکا این ما کنت و اوصانی بالصّلوة و الزّکوة مادمت حيّا و بّراً بوالدتی و لم یجعلنی جبّاراً شقيّاً

حضرت عیسی علیہ السلام نے کہ : میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں مجھے نماز و زکوة کی وصیت کی ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بد نصیب نہیں بنایا ہے''(۱)

____________________

۱) سورہ مریم آیت ۳۰ تا ۳۲

۱۴۷

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجیئے

۱)___ حضرت عیسی (ع) کون ہیں، کس سال اور کہاں پیدا ہوئے؟

۲)___ حضرت عیسی (ع) کی ماں کون ہیں اور وہ کس طرح کی عورت تھیں؟

۳)___ حضرت عیسی (ع) نے لوگوں سے گہوارہ میں کیا کہا؟

۴)___ حضرت عیسی (ع) کس کتاب اور کس دین کی ترویج کرتے تھے؟

۵)___ حضرت عیسی (ع) کس کتاب اور کس دین کی ترویج کرتے تھے؟

۶)___ حضرت عیسی (ع) کے ان پیروکاروں کو جو بہت مخلص اور مومن تھے کس نام سے یاد کیا جاتا ہے؟

۷)___ حضرت عیسی (ع) نے اپنے حواريّین کی تواضع کا درس کس طرح دیا اور اس کے بعد حواریيّن سے کیا فرمایا؟

۸)___ یہودیوں کے بعض علماء نے حضرت عیسی (ع) کی کیوں مخالفت کی اور اس کا انجام کیا ہوا؟

۹)___ حضرت عیسی (ع) کے سولی پر چڑھائے جانے یا نہ چڑھائے جانے کے متعلق قرآن کا کیا نظریہ ہے؟

۱۰)___ قرآن مجید حضرت عیسی (ع) کی کون سی صفات اور خصوصیات کو بیان کرتا ہے؟

۱۴۸

قرآن اللہ تعالی کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے

ہم مسلمانوں کی دینی کتاب قرآن مجید ہے جو اللہ تعالی کی طرف پیغمبر اسلام(ص) پر انسانوں کی تربیت اور راہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے قرآن مجید کے ایک سو چودہ سورے ہیں_ جانتے ہو کہ کتنی آیات کی مقدار کا نام سورہ ہے؟

جو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہو اور پھر آگے اس کے بسم اللہ الرحمن الرحیم آجائے اس کو سورہ کہتے ہیں اور یہ بھی معلوم رہے کہ سوائے سورہ توبہ کے کہ جس کا آغاز اس معاہدہ کے ختم کردینے کے اعلان سے ہوا کہ جو مشرکین سے کر رکھا تھا باقی تمام سورورں کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہے_

سب سے چھوٹا سورہ کہ جس کی صرف چار آئتیں ہیں سورہ کوثر ہے اور سب سے بڑا سورہ، سورہ بقرہ ہے کہ جس کی ۲۸۶ آئتیں ہیں، سب سے پہلا سورہ جو پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوا وہ سورہ علق ہے اور آخری سورہ جو آنحضرت (ص) پر نازل ہو اور وہ سورہ نصر ہے_

قرآن مجید کی آئتیں پیغمبر اسلام(ص) پر ایکدم نازل نہیں ہوئیں بلکہ آپ کی پیغمبری کے تیس سال کے عرصے میں مختلف مناسبتوں اور حوادث کے لحاظ سے تدریجاً نازل ہوئی ہیں مثلاً کبھی صرف ایک آیت، کبھی کئی آئتیں اور کبھی ایک کامل سورہ نازل ہوا ہے_ جانتے ہو کہ ہمارے پیغمبر اسلام(ص) تیرہ سال تک مکہ معظمہ میں لوگوں کی ہدایت کرتے رہے ہیں پس جو سورے اس زمانہ میں آپ پر نازل ہوئے انھیں مکی سورے کہا جاتا ہے اور وہ سورے

۱۴۹

جو پیغمبر اسلام(ص) کے مدینہ کے دس سال کے عرصے میں نازل ہوئے ہیں انھیں مدنی سورے کہاجاتا ہے_

قرآن مجید جبرئیل کے ذریعہ نازل ہوتا تھا جناب جبرئیل عین ان الفاظ اور کلمات کو جو قرآن مجید کے ہیں پیغمبر اسلام(ص) کے پاس لے کر آتے تھے جب کوئی آیت نازل ہوتی تو پیغمبر اسلام(ص) اسے لوگوں کے سامنے پڑھ دیتے اور ایک جماعت جو لکھنا جانتی تھی بعینہ ا س آیت کو لکھ لیتی اور اسے اکٹھا کرتی رہتی تھی_

ان میں سے ایک حضرت علی علیہ السلام تھے کہ قرآن کی تمام آیات کو بڑی دقّت سے اور اسی ترتیب سے کہ جس طرح نازل ہوئی تھیں لکھ لیتے تھے اور اگر کبھی آپ کسی آیت کے نازل ہونے کے وقت موجودنہ ہوتے تھے تو جب آپ حاضر ہوتے پیغمبر اسلام(ص) آپ کے لئے پڑھ دیتے تھے_ بہت سے مسلمانوں نے اس وقت تک جو آیات نازل ہوچکی تھیں حفظ کرلیا تھا اور انھیں حافظ قرآن کہا جاتا تھا البتہ مسلمانوں ک ایک گروہ قرآن کے بعض حصہ کا حافظ تھا_

پیغمبر اسلام (ص) قرآن کے حفظ کرنے کی تشویق و ترغیب دیا کرتے تھے یہاں تک کہ قرآن کا حفظ کرنا مسلمانوں میں ایک قابل فخر اور صاحب امتیاز شمار ہونے لگا تھا_ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) کی وفات کے بعد جس طرح قرآں لکھا تھا سب کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور اس کو اسی نزول ترتیب سے جمع کر کے منظم اور محفوظ کرلیا تھا_ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے چند مہینے کے بعد کہا جانے لگا کہ اگر قرآں کے حافظ تدریجاً مرگئے یا جنگوں میں شہید ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟

لہذا یہ طے پایا کہ لکھے ہوئے قرآن کی حفاظت کی جائے اس غرض کے لئے جناب ابوبکر کے حکم کے مطابق کئی ایک افراد کو قرآن کے مختلف نسخوں کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا گیا

۱۵۰

تا کہ ان نسخوں کو ایک دوسروے سے ملا کر اور قرآن کے حافظوں سے تطبیق کر کے ایک نسخہ قرآن مجید کا ترتیب دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ایسے کئی ایک نسخے مرتب کئے گئے جو مورد اعتماد تھے اور پھر انھیں سے دوسرے قرآن مجید لکھ کر تمام ممالک اسلامی میں بھیج دیئے گئے_

یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اس زمانہ میں عربی رسم الخط میں نقطے اور اعراب کا لگانا مرسوم نہ تھا یہ تمام قرآن مجید بغیر نقطے اور اعراب کے لکھے گئے تھے_ تیسرے خلیفہ کے زمانہ میں اسلام کافی پھیل چکا تھا قرآن کا بغیر نقطے اور اعراب کا ہونا اور لوگوں میں لہجہ و غیرہ کے اختلاف کی وجہ سے بعض قرآن کے کلمات میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا لہذا تیسرے خلیفہ نے پیغمبر(ص) کے بعض اصحاب کے مشورے سے حکم دیا کہ لکھنے والی جماعت میں سے ایک جماعت آیات اور قرآن مجید کے سوروں کو پیغمبر(ص) کے لہجہ میں جو حجازی لہجہ تھا تمام موجودہ نسخوں سے لکھیں اور قرآن مجید کے حفاظ سے مل کر صرف ایک کامل نسخہ مرتب کریں تا کہ اس نسخہ کو رسمی قرار دیتے ہوئے قابل اعتماد قرار دیا جائے اور پھر اسی نسخہ سے متعدد قرآن مجید لکھ کر سرزمین اسلام کے اہم مراکز کی طرف روانہ کردیئے گئے لیکن یہ نسخہ بھی بغیر اعراب اورنقطوں کے مرتب کیا گیا تھا کہ جس کا پڑھا جانا مشکل تھا ۵۳_ ۵۰ ھ میں قراں پر اعراب ڈال گئے اس کے بعد عبدالملک کے زمانہ میں قرآن مجید پر نقطے ڈالے گئے_

مسلمان تمام زمانوں میں قرآن مجید کی بہت اہمیت اور فداکاری سے سابقہ زمانے کی طرح حفاظت کرتے رہے اور یہ موجودہ قرآن مجید اسی اصلی نسخہ سے لیا گیا ہے اور بغیر کسی کمی و زیارتی کے ہم تک پہونچا ہے_ اس عظیم کتاب میں ارادہ الہی، مسلمانوں کی ہمّت و فداکاری سے نہ تو معمولی تغیر ہو اور نہ ہی تحریف ہوئی_

قرآن مجید ایک کامل و جامع کتاب ہے جو کچھ انسان کی تربیت اورہدایت کے لئے

۱۵۱

ضروری ہے وہ اس میں بطور کلّی موجود ہے، جو انسان قرآن کے دستور و احکام پر عمل کرے گا قرآن اس کے لئے دنیاوری اور اخروی سعادت کا ضامن ہے_ جو کچھ قرآن مجید میں موجود ہے اسے بطور فہرست یوں بیان کیا جاسکتا ہے:

۱)____ خلقت و پیدائشے کے اسرار و رموز میں تفكّر اور تدبّر کی دعوت_

۲)___ خداشناسی، صفات خدا، شرک سے مقابلہ، معاد، جنّت و جہنّم کی تعریف، نبوت، امامت، شفاعت، ملائکہ اور پیغمبروں کے معجزا ت کا بیان_

۳)___ پیغمبروں کی دعوت کا طریقہ، لوگوں کی ہدایت اور ارشاد کرنے کے طریقوں میں پیغمبروں کی جد و جہد و فداکاری کا ذکر، پیغمبروں کا ظالموں و طاغتوں سے طویل مقابلہ، مستکبرین کے حالات اور ان کی تاریخ_

۴)___ اسلام کی طرف دعوت اور شرک و نفاق سے مقابلہ_

۵)___ عبادات اور احکام کا بیان جیسے نماز، روزہ، وضو، غسل، تیمّم، حج و ز کوة اور جہاد_

۶)___اجتماعی احکام اور قوانین_ _

۷)___ اچّھے و برے اخلاق اور نیک اخلاق اپنا نے کی دعوت_

اب جب کہ اللہ تعالی کی خاص عنایت،مسلمانوں کی کوشش و فداکاری اور اس کی حفاظت سے یہ عظیم کتاب ہم تک بغیر کسی تغیر و تبدیلی کے پہونچی ہے تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ کے اس مہم پیغام کی قدر کریں اور اس کی حفاظت کریں، اس کے مطالب کے سمجھنے اور اس کے دستورات، احکام و رہنمائی پر عمل کرنے میں کوشش کریں اور کوشش کریں کہ اسے درست و صحیح پڑھیں اور اس کے علوم سے بہرہ مند و مستفید ہوں_

۱۵۲

قرآن کے حیات بخش و نورانی آئین کو اپنے معاشرے میں بہتر طور سے اوردقّت سے جاری کریں اور اس پر عمل کریں تا کہ اس دنیا میں سربلندی و عزت سے زندگی بسر کرسکیں اور آخرت میں ایک انسان کے بلندترین مقام تک پہونچ سکیں اور اللہ تعالی کی رضایت اور اجر عظیم سے نوازے جائیں_

قرآن مجید کی آیت:

( انّ هذا القرآن یهدی للّتی هی اقوم و یبشر المومنین الّذین یعملون الصّالحات انّ لهم اجر کبیرا ) (۱)

''بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے''

____________________

۱) سورہ اسراء آیت ۹

۱۵۳

سوالات سوچیئے اور جواب دیجیئے

۱)___ قرآن کی نظر میں انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟

۲)___ کتنی آئتوں کو سورہ کہا جاتا ہے اور قرآن کے کتنے سورے ہیں؟

۳)___ قرآن کا کون سا سورہ بسم اللہ سے شروع نہیں ہوتا اس سورہ کی ابتداء کی بات سے ہوتی ہے؟

۴)___ سب سے چھوٹا، سب سے بڑا اور سب سے آخری سورہ جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوا کون سا ہے؟

۵)___ مكّی اور مدنی کن سوروں کو کہا جاتا ہے؟

۶)___ جب قرآن مجید کی آئتیں نازل ہوتی تھیں تو مسلمان اسے کس طرح محفوظ کرتے تھے؟

۷)___ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے اس قرآن کو کہ جسے بڑی محنت و دقّت سے لکھا تھا کیسے اور کس ترتیب سے جمع کیا تھا؟

۸)___ تیسرے خلیفہ کے زمانہ میں اصلی قرآن کے لہجے کو باقی رکھنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے تھے؟

۹)___ قرآن کے مطالب کو کتنی اقسام میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے؟ ان قسموں کو بیان کیجئے؟

۱۰)___ ہم مسلمانوں کا قرآن کے متعلق کیا فریضہ ہے اور اس کے سمجھنے اور حفاظت میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟

۱۱)___ قرآن لوگوں کو کس طرح بلاتا ہے اور کن کن لوگوں کو خوشخبری دیتا ہے؟

۱۵۴

اگر نعمت کی قدرت نہ کریں

کیا تم نے یمن کا نام سنا ہے؟ جانتے ہو کہ یہ کہاں واقع ہے؟ سابقہ زمانے میں ''سبا'' نامی قوم اس شہر اور سرزمین میں آباد تھی یہ بہت خوبصورت اور آباد شہر تھا اس کے اطراف میں باغ ہی باغ تھے کہ جس میں مختلف اقسام کے درخت پائے جاتے تھے جیسے سیب، گلابی، زرد آلود، البالو، انجیر، انگور و انار اور مالٹے و غیرہ کے درخت تھے ان کے علاوہ دوسرے سرسبز اور خوبصورت درخت بھی موجود تھے_

صاف و شفاف پانی کی نہریں ان باغات اور درختوں سے گذرتی تھیں_ مختلف قسم کے میوے، سرخ سیب، زرد گلابی، سرخ البالو، بڑے اور صاف انگور کے گچھّے، بڑے انار اور سبز و ترش ٹماٹر تھے جو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا جیسے چھوٹے بڑے بجلی کے قمقمے درختوں کی شاخوں پر لٹک رہے ہوں_

جب نسیم چلتی تو درختوں کی شاخوں او رٹہنیوں سے ٹکراتی ہوئی شہر کی فضا کو اس طرح معطر کردیتی کہ گویا بہشت کی زیبائی اور خوشبو یاد آنے لگتی ہو یہ تمام خوبصورتی اور یہ پھول و پھل یہ درخت اور ان کے نہاں تمام کی تمام پروردگار کی قدرت نمائی تھی_

قوم سبا ان تمام خوشنما مناظر کے دیکھنے کے بعد کیا کہتی تھی؟ اہل قوم خدا کی ان تمام نعمتوں اور الطاف کا کس طرح شکریہ ادا کرتے تھے اور کیا کہتے تھے؟ بہترین مکانات میں زندگی بسر کرتے تھے اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے استفادہ کرتے تھے_

۱۵۵

اطراف کے دیہات بھی آباد اور سرسبز تھے گویا پہاڑ کے دامن میں پھولوں، عطر اور سبزے کا بیابان موجود ہے یہ نعمتیں اور آبادی تمام کی تمام زیادہ پانی اور زخیز زمین کی برکت اور لوگوں کی محنت و کوشش سے تھیں_ سبا کی قوم کا شتکاری میں ماہر تھی پہاڑوں میں بہت بڑے بند باندھ رکھے تھے کہ جس میں بارش و غیرہ کے پانی کو ذخیرہ کرلیتے تھے جو دریا کی صورت میں موجزن نظر آتا تھا_

زراعت کے موسم میں دریاؤں کے پانی کو استعمال کرتے تھے اور اپنے کھیتوں اور باغوں کو اس سے سیراب کرتے تھے، سبا کی قوم محنتی، دیانت دار اور مہربان قسم کے لوگ تھے، عدالت، فداکاری اور چشم پوشی سے کام لیتے تھے، خدائے مہربان کی پرستش کرتے تھے اور نعمت سے اٹی ہوئی اور سرسبز زمین پر خوشی ونشاظ سے زندگی بسر کرتے تھے اور خداوند عالم کا اس نعمت پر شکریہ ادا کرتے تھے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کا ایک گروہ گناہ و معصیت اور ہوس پرستی میں مشغول تھا وہ آہستہ آہستہ خدا کو فراموش کرچکا تھا اور اس کی نعمتوں کا کفران کرتا تھا گویا وہ یوں سمجھتے تھے کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہتے والی ہیں اور قیامت و آ خرت آنے والی نہیں ہے_

دوسرے لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے اور انھیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں کرتے تھے ان کے درمیان جو پیغمبر تھے وہ دن رات لوگوں کی ہدایت میں کوشاں تھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے اور فرماتے تھے:

'' لوگو ان تمام نعمتوں کی قدر کرو، خدا کے احکام کی پیروری کرو تقوی اختیار کرو، میری رہبری و رہنمائی کی اطاعت و پیروی کرو، عادل و صحیح انسان بنو_ لوگو اگر تم نے عدالت و خداپرستی سے روگردانی کی اور اپنے کو ہوس پرستی، شکم پر دری اور گناہ سے

۱۵۶

پر کردیا تو اللہ تعالی کا تم پر غضب ہوگا اور تمھیں ان نعمتوں سے محروم کردے گا_

لوگو تم صرف کھانے اور پینے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ہو بلکہ تمھاری خلقت میں ایک نہایت اعلی غرض مقصود ہے اپنی خلقت کی غرض کو نہ بھولو، عیش و آرام و شکم پروری اور گناہ سے پرہیز کرو تا کہ دنیا و آخرت میں کامیاب رہو، انسانی اخلاق کو اپناؤ، بے کاری و سستی اور تجاوزگری سے اپنے کو رو کو تا کہ خداوند عالم پر نعمتوں کو زیادہ کرے اور آخرت میں ان نعمتوں سے بھی بہتر تھیں عنایت فرمائے_

لوگو گناہ گاروں کو گناہ و معصیت سے کیوں نہیں روکتے؟ اور اللہ تعالی کے دین کی حفاظت کیوں نہیں کرتے؟ اور گناہگاروں کے سامنے غضبناک کیوں نہیں ہوتے؟

لیکن بہت افسوس کہ وہ لوگ گناہوں سے دستبردار نہ ہوئے اور نہ دوسرے لوگ ان گناہگاروں کے خلاف کوئی کار روائی کرتے تھے، ان کے دل سخت و تاریک ہوچکے تھے پیغمبری کی حق بات ان میں اثر نہیں کرتی تھی، ان کے اصلاح کی امید ختم ہوگئی تھی یہاں تک کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوا اور خدا و رسول کے ا حکام کی نافرمانی کا مزہ چکھا اور آنے والوں کے لئے عبرت بنے_

اللہ تعالی کے حکم سے دریا کا کنارہ ٹوٹ گیا ایک خطرناک و عظیم سیلاب آیا اور ادھر پہاڑ پھٹا اس نے تمام باغات او رگھروں کو ویران کردیا اور جو کچھ اس کے سامنے آیا اسے بہا کے لے گیا اس خوبصرت و پر نعمت شہر اور ان عظیم الشان عمارتوں سے سوائے ویرانے کے جو خاک اور پتھروں کے اندر دب چکی تھیں کچھ باقی نہ رہا صرف ان کا قصہ و نام باقی رہ گیا تا کہ آئندہ نسلوں کے لئے اللہ تعالی کے غضب اور قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور دوسروں کے

۱۵۷

لئے بیدار ہونے کا درس عبرت باقی رہ جائے_ سبا کی قوم نے اپنی ناشکری و کفران نعمت کی سزا دنیا میں دیکھ لی اور ہر ناشکرے کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے_

اب ذرا ہمیں بھی سوچنا چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی کی نعمتوں کا کس طرح شکریہ ادا کر رہے ہیں، آیا ہم خداوند عالم کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں؟ اللہ کی نعمتوں کو کس طرح خرچ کرتے ہیں کیا اسراف اور فضول خرچی سے اجتناب کرتے ہیں؟ کیا ہم خدا کی خوشنودی کے لئے اللہ کی مخلوق او راپنے وطن کی خدمت کرتے ہیں؟ کس طرح ہمیں دنیا کے محروم اور مستضعف طبقہ کی خدمت کرنی چاہیئے اور کس طرح دو بڑے واجبات یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنا چاہیئے ؟

آیت قرآن:

( لقد کان لسبا فی مسکنهم آیة جنّتان عن یمین و شمال کلوا من رزق ربّکم و اشکرو له بلده طيّبه و ربّ غفور ) (۱)

''قوم سبا کے لئے تو یقینا خود انھیں کے گھروں میں قدرت خدا کی ایک بڑی نشانی تھی کہ ان کے شہر کے دونوں طرف داہنے بائیں ہرے بھرے باغات تھے اور ان کو حکم تھا کہ اپنے پروردگار کی دی ہوئی روزی کھاؤ (پیو) او راس کا شکر ادا کرو دنیا میں ایسا پاکیزہ شہر اور آخرت میں پروردگار سا بخشنے والا''

____________________

۱) سورہ سبا آیت ۱۵

۱۵۸

سوالات

یہ سوالات سوچنے اور جواب دینے کے لئے ہیں

۱)___ قوم سبا کا شہر اور وطن کیسا تھا؟ اس کی خوبیوں کو بیان کیجئے _

۲)___ کیا اللہ نے اپنی نعمتوں کو بغیر ان کی سعی و کوشش کے دیا تھا؟

۳)___ قوم سبا کے افراد کیسے تھے؟

۴)___ خدا کا قوم سبا سے اپنی نعمتوں کو چھین لینے کی علت کیا تھی، کیا تم کے تمام ہوا و ہوس کے شکار تھے؟

۵)___ قوم سبا میں موجود پیغمبران سے کیا کہا کرتے تھے، انھیں کن چیزوں کی طرف متوجہ کرتے تھے اور کن کاموں کے بجالانے کی دعت دیتے تھے؟

۶)___ قوم سبا پر کیوں اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا، کیا سبھی گناہگار تھے؟

۷)___ قوم سبا کے واقعہ کو پڑھنے اور سننے سے دوسرے انسانوں کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟

۸)___ ہم اللہ کی نعمتوں کا کس طرح شکریہ ادا کریں اور اپنے ملک کی تعمیر کے لئے کیا کریں؟

۹)___ اللہ کے دو اہم واجبات پر کس طرح عمل کریں اور وہ کون سے دو فریضے ہیں؟

۱۵۹

چوتھا حصّہ

پیغمبر اسلام (ص) اور آپ کے اصحاب کے بارے میں

۱۶۰

پیغمبر اسلام(ص) کی مخفی تبلیغ

ابتداء ہی سے پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت عالمی تھی خداوند عالم نے انھیں پوری دنیا کے لئے نبی بنا کر بھیجا تھا آپ کا یہ عزم تھا کہ پوری دنیا کے کفر و شرک او رمادی گری سے مقابلہ کریں_ دنیا کے مظلوم و محروم طبقے کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلوائیں اور سبھی کو اسلام کے مقدس قانون اور خداپرستی کی طرف دعوت دیں_

پیغمبر اسلام (ص) ابتداء ہی سے اتنی بڑی ذمہ داری سے آگاہ تھے مشکلات و دشواریوں کی طرف پوری طرح متوجہ تھے آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ اس قسم کا کام آسان اور معمولی نہیں ہے بہت سی مشکلات سامنے آئیں گی آپ مشکلات کا خندہ پیشانی سے استقبال کر رہے تھے اور اللہ تعالی کے فرمان کے بجالانے کے لئے آمادہ تھے_ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی دعوت کو اللہ کے حکم سے بغیر عجلت پسندی کے شروع کیا اور صبر و استقامت اور عاقبت اندیشی سے پوری احتیاط کے ساتھ حالات کو دیکھتے ہوئے تبلیغ میں مشغول ہوگئے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس کام میں جلدبازی مضرثابت ہوسکتی ہے اسی لئے آپ نے اللہ کے حکم سے اپنی تبلیغ کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا اور پہلے اس طریقہ سے ابتداء کی جو ممکن ہوسکتا تھا_

پیغمبر اسلام(ص) نے بعثت کی ابتداء میں اپنی دعوت کو اپنی دعوت کو اپنی باوفا بیوی جناب خدیجہ (ع) اور فداکار چچازاد بھائی حضرت علی علیہ السلام سے جو آپ کے گھر میں رہتے تھے شروع کیا_ اللہ تعالی کی طرف سے اپنی اہم ذمہ داری کو انھیں دو کے درمیان ذکر کیا_ فداکاری و باوفا خاتون

۱۶۱

جناب خدیجہ (ع) اور طاقتور و مہربان جوان حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) کی بات سنی اور اسلام کا اظہار کردیا اور وعدہ کیا کہ آپ کے اس کام میں مدد کریں گے_

پیغمبر اسلام (ص) اپنی پہلی دعوت میں ہی کامیاب ہوگئے آپ انھیں دو فداکاروں اور صحیح مددگاروں سے اپنی آسمانی دعوت کی تبلیغ میں مدد طلب کرتے تھے آپ نے ایک طاقتور تبلیغی مرکز اپنے گھر میں بنالیا تھا_ پیغمبر اسلام(ص) ان دو کے ساتھ کبھی گھر میں اور کبھی مسجدالحرام میں اکٹھے نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے_ تھوڑے ونوں کے بعد زید کہ جو پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہتے تھے دین مقدس اسلام پر ایمان لے آئے اور پیغمبر اسلام (ص) کی فکر داخلی لحاظ کے کاملاً مطمئن اور آرام ہوگئی یہاں مناسب ہے کہ تھوڑی سی جناب زید سے واقفیت حاصل کریں_

جناب زید حضرت خدیجہ (ع) کے غلام تھے جناب خدیجہ (ع) نے انھیں پیغمبر اسلام (ص) کو بخش دیا تھا اور آنحضرت (ص) نے انھیں آزاد کردیا تھا وہ باپ کے گھر واپس جاسکتے تھے اور ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے تھے لیکن وہ پیغمبر اسلام (ص) کے اخلاق و صداقت کے اتنا شیفتہ ہوچکے تھے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ رہنے اور زندگی گذارنے کو ترجیح دیتے تھے اور آنحضرت (ص) کے گھر ہی رہ رہے تھے_

پیغمبر اسلام (ص) نے اسلام کی دعوت کو پوری طرح مخفی شروع کیا تھا جب بھی کسی سمجھدار اور روشن دل، آگاہ اور آمادہ انسان کو دیکھتے تو اس سے اپنے مدعا کو بیان کرتے اور قرآن کی آیات اس کے سامنے پڑھتے اس کی وضاحت کرتے اور اسے اسلام لانے کی دعوت دیتے تھے کبھی یہ کام مسجد الحرام کے کسی گوشہ میں، کبھی صفا و مروہ کے کنارے اور کبھی اپنے گھر میں انجام دیتے تھے_

آپ نے تین سال تک اسی روش سے اپنی دعوت کی تبلیغ کی اس مدت میں آپ

۱۶۲

بہت استقلال اور صبر سے فرد فرد سے علیحدہ گفتگو کرتے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیتے اور مسلمانوں سے ملحق ہوجاتے تھے_ اس تین سال کے عرصے میں مسلمان اسلام کو ظاہر نہیں کرتے تھے اور اپنی نماز ادھر ادھر مخفی طور سے پڑھا کرتے تھے کا فر و شرک بھی چونکہ اسلام کے نفوذ اور وسعت سے زیادہ مطلع نہیں ہوا کرتے تھے لہذا وہ بھی اپنا ردّ عمل ظاہر نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی دعوت تبلیغ بے نتیجہ و بے اثر اورپھر چونکہ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو خداپرستی و توحید کی دعوت دیا کرتے تھے اور واضح طور سے بتوں کی مذمت نہیں کیا کرتے تھے لہذا وہ اس سے کوئی خطرہ کا احساس نہیں کیا کرتے تھے_ ان تین سالوں میں خود پیغمبر اسلام(ص) اورمسلمانوں مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے کوئی بھی ان کو پریشان نہیں کرتا تھا لیکن بعثت کے تیسرے سال کے آخر میں ایک واقعہ رونما ہوا کہ جس نے مسلمانوں کو دگرگوں کردیا اور واقعہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے اطراف کے پہاڑ میں مخفی طور سے نماز پڑھنے اورمناجات کرنے میں مشغول تھا_ چند بت پرستوں کا وہاں سے گذر ہوا مسلمانوں کا منظم طور سے رکوع و سجود کرنا ان کے غصہ کا موجب ہوا غصّہ میں آکر انھوں نے مسلمانوں کا برا بھلا کہنا شروع کردیا اور مسلمانوں کی نماز و دعا کا مذاق اڑایا_

مسلمان بھی ان کی بے ادبی و گستاخی سے غصہ میں آگئے ان کا جواب دینا شروع کردیا اور نتیجہ ایک دوسرے کو مارنے و جھگڑا کرنے تک جا پہونچا مسلمانوں کی ایک فرد سعد نامی کہ جنھیں بہت سخت غصہ آیا ہوا تھا اپنے قریب سے اونٹ کی ایک ہڈی اٹھائی اور دوڑتے ہوئے ایک مشرک کے قریب پہونچے اور پورے غصے کے عالم میں اس کے سرپر ماری اس کا سر پھٹ گیا اور خون جاری ہوگیا_

بت پرست مکہ واپس لوٹ آئے اور مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے حادثہ

۱۶۳

کا اپنے لوگوں سے تذکرہ کیا مکہ کے سرداروں سے پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے پیروکاروں کی حالت کو بیان کیا اس وقت سے مشرکوں نے خطرے کو محسوس کرلیا_

پیغمبر اسلام(ص) جناب ارقم کے گھر مخفی طور سے گئے اور وہاں چھپ گئے انھیں دنوں جناب ارقم مسلمان ہوئے تھے مسلمان تنہائی میں پوری طرح لوگوں سے ملاقات کرتے اور اسے اسلام کی دعوت دیتے اور جب پوری طرح مطمئن ہوجاتے تو اسے مخفی طور سے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر لے جاتے تا کہ آپ اس کے سامنے قرآن پڑھیں اور اپنی آسمانی دعوت کی وضاحت کریں اسے خداپرستی و توحید کی طرف بلائیں اور اسلام کی صحیح دعوت دیں_

انھیں دنوں ایک گروہ اسلام لے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ ملحق ہوگیا_ پیغمبر اسلام(ص) کو ان تین سال کی دن رات کی محنت سے کافی کامیابی مل چکی تھی آپ نے زحمتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے چالیس فداکاری مسلمانوں کو ترتیب دیا اور اس کو اس زمانہ کے لحاظ سے اہم کامیابی کہی جاسکتی ہے_

اس زمانہ میں اسلام نے قدرت و طاقت حاصل کرلی تھی اور کفر و بت پرستی کی دنیا میں ایک طاقتور مرکز حاصل کرلیا تھا کیونکہ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ان میں چالیس آدمی صحیح طور پر فداکاری و جانبازی پر آمادہ تھے اور اپنی جان ہاتھوں پر رکھ کر اسلام سے دفاع کرتے تھے_ ان تین سالوں میں اسلام کے پودے نے زمین میں اپنی جگہ بنالی تھی اور اپنی جڑیں دور دور تک پھیلادی تھیں لہذا اب اس درخت کا کاٹنا کوئی معمولی کام نہیں تھا اب پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت و تبلیغ کے دوسرے مرحلہ پر اپنا کام شروع کرسکتے تھے_

قرآن مجید کی آیت:

لقد من الله علی المؤمنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم یتلوا علیهم ایاته و یزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین_

۱۶۴

'' خداوند عالم نے مومنین پر منّت کی جب کہ ان میں انھیں کا ایک رسول بھیجا تا کہ ان پر اللہ کی آیات پڑھے اور ان کا تذکیہ کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں غرق تھے''(۱)

____________________

۱) سورہ آل عمران ۱۶۲

۱۶۵

عالمی دعوت کا اعلان

مكّہ میں مشہور ہوچکا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اپنے آپ کو پیغمبر کہنا شروع کردیا ہے اور ایک گروہ نے آپکی دعوت کو قبول بھی کرلیا ہے اور آپ کی مدد کرنے کا وعدہ بھی کرلیا ہے_ آپ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بلایا اور ایک مجمع عمومی میںانھیں اسلام لانے کی دعوت دی اور اپنی مدد کرنے کو ان سے کہا اور تمام بزرگان قریش کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا و زیر و جانشین مقرر کیا اور تعجب اس میں ہے کہ اس مجمع میں جناب ابوطالب نے آپ سے کوئی اعتراض آمیز گفتگو نہیں کی تھی کہ جس سے گویا ظاہر ہوتا تھا کہ جناب ابوطالب(ع) بھی آپ کی حمایت و مدد کریں گے_ مكّہ کے لوگ اس واقعہ کو ایک دوسرے سے تعجب سے نقل کرتے تھے اب وقت آچکا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت و رسالت کو ظاہر بظاہر اور اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کریں اور ان کو راہ راست کی ہدایت کریں چنانچہ خداوند عالم کی طرف سے آپ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ:

'' اے محمد(ص) (ص) جو کچھ ہم نے تم کو حکم دیا ہے اسے علناً بیان کرو اور حق کو باطل سے جدا کرو و بت پرستوں اور ان کے استہزاء سے مت گھبراؤ کہ ہم انھیں سزا دیں گے''

پیغمبر اسلام(ص) اس پیغام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوہ صفا پر گئے کیونکہ عالم طور پر اہم اعلانات اسی پہاڑ پر ہوا کرتے تھے_ پیغمبر اسلام(ص) پہاڑ کے ایک پتھر کے اوپر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے کہا:

۱۶۶

'' اے مكّہ والو اے قریش والو اے جوانو اے لوگو''

پیغمبر اسلام (ص) کی یہ بلند و آسمانی آواز کہ جس میں خداوند عالم پر ایمان، اس سے عشق اور لوگوں کی ہدایت کرنے کا جذبہ پایا جاتا تھا تمام مکہ والوں کے کان تک پہونچی_ لوگ گھروں سے باہر نکلے اور اس آسمانی آواز کی طرف دوڑے تا کہ پیغمبر اسلام(ص) کی باتیں سن سکیں لوگ گروہ در گروہ آپ کے اردگرد جمع ہوتے گئے اور بے صبری سے نئے واقعہ کو جاننے کا انتظار کرنے لگے پیغمبر اسلام(ص) نے اس مجمع کی طرف نگاہ کی اور فرمایا:

'' اے مکہ والو اے قریش کے مرد و زن اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے ہے اور تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا میری تصدیق کروگے اور کیا دفاع کے لئے تیار ہوجاؤ گے؟

سب نے کہا:

'' اے محمد(ص) ہاں اے محمد(ص) ہاں ہم تمھیں امین، سچّا اور صحیح آدمی سمجھتے ہیں اب تک تم سے کوئی جھوٹ نہیں سنا''

پیغمبر اسلام (ص) نے اس طریقے سے اپنی امانت و صداقت انھیں یاد دلائی اور ان سے اس کا اقرار کرالیا اور اس کے بعد فرمایا:

'' اے لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں، تمھارے اور ساری دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں_ اے لوگو جان لو کہ موت کے آجانے سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی جیسے تم سوجاتے ہو تو مرجاتے ہو اور جب بیدار ہوتے ہوا زندہ ہوجاتے ہو، اسی طرح مرنے کے بعد بھی دوبارہ زندہ ہوگے، قیامت کے دن حساب کتاب کے لئے حاضر کئے جاؤگے اور تمھاری رفتار و گفتار کا حساب و کتاب لیا جائے گا

۱۶۷

نیک کاموں کی جزا اور برے کاموں کی سخت سزا پاؤگے_

اے لوگو میں تمھارے لئے بہترین آئین و قانون لایا ہوں_

دینا و آخرت کی سعادت کی خوشخبری لایا ہوں کہو لا الہ الّا اللہ تا کہ نجات و فلاح پاؤ، خدا کو ایک مان کر عبادت کرو اور ایمان کے ذریعہ تمام دنیا کو عرب کو اور غیر عرب کو یگانہ پرستی کے پرچم تلے لے آو''

مكّہ کے اشراف و بت پرست پیغمبر اسلام (ص) کے اس بیان سے حیرت زدہ ہوگئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے:

'' تعجب ہے محمد(ص) کیا کہہ رہا ہے؟ کس طرح اس نے جرات کی ہے؟ کہ ہمارے سامنے ایک خدا کے ہونے کی بات کرے؟ اسے کس طرح جرات ہوئی کہ ہمارے سامنے ہمارے بتوں کی جو ہمارے خدا ہیں نفی کرے؟

کیا ابوطالب (ع) نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے؟ کیا طاقتور مرید اس کے ہوگئے ہیں کہ جس سے ہم بے خبر رہے ہیں؟ ''

اس وقت ابولہب نے سخت غصّہ میں کہا:

''تم پروائے ہو اسی پیغام کے لئے ہمیں اپنے گھروں سے بلایا ہے؟

لوگ اٹھ گئے اور ہر ایک کوئی نہ کوئی بات کر رہا تھا_ کچھ کہہ رہے تھے: سنا ہے تم نے کہ محمد(ص) نے کیا کہا ہے وہ کہہ رہا تھا کہ:

''میں خداوند عالم کی طرف سے پیغام لایا ہوں''

کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک انسان اللہ کی طرف سے پیغام لے آئے ؟

۱۶۸

کیا ہوسکتا ہے کہ انسان پیغمبر ہوجائے؟ پیغمبر کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم اب ایک خدا کی عبادت کریں؟ کیا ہمارے باپ دادا ایک طویل مدت سے بت پرست نہ تھے؟ کیا اب ہم ان بتوں کوچھوڑدیں؟ محمد(ص) کی دعوت و تبلیغ کو کس طرح روکیں؟ کیا ابوطالب (ع) محمد(ص) کی حمایت و مدد کریں گے؟

پیغمبر اسلام(ص) پہاڑ سے نیچے اترے اور اپنے گھر واپس لوٹ آئے اس کے بعد آپ اپنی رسالت و دعوت کو علنی طور پر بیان کیا کرتے تھے اور کسی کی پروا نہیں کیا کرتے تھے لوگوں کو خداپرستی کی علنی دعوت دیا کرتے تھے_ پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت میں صرف ایک خدا کی پرستش پر زور دیا کرتے تھے اور بتوں پر بہت کم تنقید کرتے تھے_ بت پرست بھی اس سے مطمئن تھے اور آپ کو زیادہ نہیں چھیڑتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے:

'' ہم اپنے دین پر اور محمد(ص) اپنے دین پر رہیں بہتر یہی ہے کہ جناب ابوطالب (ع) کے احترام اور ان کی شخصیت کا خیال رکھتے ہوئے محمد(ص) کو اسی حالت پر چھوڑدیں اور دیکھیں کہ آگے کیا ہوتا ہے''

اس لحاظ سے پیغمبر اسلام(ص) کی تبلیغ کا یہ تیسرا مرحلہ بخوبی انجام پا رہا تھا اور آپ حالات کے انتظار میں تھے کہ موقع ملے اور آپ اپنی تبلیغ کا چوتھا مرحلہ شروع کریں_

کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام (ص) نے چوتھے مرحلہ کا آغاز کس سے کیا تھا؟ اس مرحلہ میں آپ کا نقطہ نظر کیا تھا اور کس چیز پر آپ اصرار کیا کرتے تھے؟

قرآن کی آیت:

فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین انّا کفیناک المستهزئین

''جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے ظاہر کردیں اور مشرکین کی پروا نہ کریں ہم مسخرہ کرنے والوں کے شر سے آپ کو کفایت کریں گے'' (سورہ حجر ۹۵)

۱۶۹

سوالات

ان سوالات کے بارے میں اپنے دوست سے بحث کیجئے اور درست و کامل جواب کا انتخاب کیجیئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کی تبلیغ کا تیسرا مرحلہ کس طرح شروع ہوا، اس مرحلہ کے شروع کرنے کے لئے اللہ تعالی سے آپ کو کیا حکم ملا تھا؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اس فرمان کے لئے کیا کام انجام دیا تھا اور کہاں؟

۳)___ ان لوگوں سے جو وہاں اکٹھے ہوئے تھے پیغمبر اسلام(ص) نے کیا اقرار لیا تھا اور آپ کا اس سے کیا مقصد تھا؟

۴)___ اپنی رسالت کا اعلان کس طرح کیا، پیغام میں کن چیزوں کا ذکر تھا؟ ان کو بیان کرو_

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) اس مرحلہ میں کس چیز کے بیان کو اہمیت دیتے تھے_

۶)___ بزرگان مكّہ پیغمبر اسلام(ص) کے اس پیغام کو سننے کے بعد ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے؟

۷)___ کیا مكّہ کے مشرکین اس مرحلہ میں پیغمبر اسلام(ص) سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے اور کیوں؟

۱۷۰

ہر قسم کی سازش کی نفی

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو اللہ کی طرف ہدایت کرتے تھے آپ دن رات لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے سخت محنت کیا کرتے تھے، اسلام کے حیات بخش آئین کی ترویج میں کو شاں رہتے تھے اب جب کہ مسلمانوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اسلام کی طاقت پھیلتی جارہی تھی تو آپ نے حق کو باطل سے جدا کرنے اور بتوں و بت پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اقدام کیا تا کہ بت پرستی کا عبث فعل سارے لوگوں پر واضح ہوجائے لوگ اپنی بدبختی و ذلت کے اسباب و عوامل کو پہچانیں کیونکہ اگر لوگ اپنی ذلت و رسوائی کی علت کو نہ جانیں گے تو کس طرح اسے ختم کرسکیں گے؟ اگر لوگ بت پرستی کے رواج دینے والوں کے غلط مقصد سے آگاہ نہ ہوں گے تو کس طرح اس کا مقابلہ کرسکیں گے؟ اگر لوگ بت پرستوں کے سرداورں کی فریب کاری سے مطلع نہ ہوں گے تو کس طرح ان سے نجات حاصل کرسکیںگے؟

لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیئے اور اللہ تعالی کا واضح پیغام لوگوں کے سامنے پڑھا جانا چاہیئے اسی لئے پیغمبر اسلام(ص) نے اپنی دعوت کے چوتھے مرحلہ کو شروع کریا اور بت پرستی کی پوری طرح مذمت اور اس پر تنقید کی، بت پرستی کے رواج دینے والے سرداروں کے اندرونی اغراض کو واضح بیان کر کے ان کو ذلیل کیا اور ان کے ظلم و پلید مقاصد سے پردہ اٹھایا_

بت پرستی کے سرداروں نے اس سے زیادہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرلیا اور اپنے پلید

۱۷۱

منافع کے خطرے میں پڑنے سے خوفناک ہوگئے اور سوچنے لگے کہ کس طرح اسلام کی طاقت کا مقابلہ کیا جائے اور کس طرح لوگوں کو خداپرستی سے دور رکھا جائے کیا محمد (ص) کو ان کی تبلیغ سے روکا جا سکتا ہے؟

پہلے پہل تو انھوں نے بات چیت اور صلح و صفائی کی خواہش کی بت پرستوں کے چند سردار جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے کہا:

'' اے ابوطالب (ع) آپ کیوں خاموش بیٹھے ہیں؟ کیوں ہمارے کام کے متعلق نہیں سوچتے؟ کیوں محمد (ص) کو کچھ نہیں کہتے؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے شہر کے امن کو ختم کرکے اور ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کرکے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے؟ کیا نہیں جانتے کہ وہ ہمارے غلاموں کو دھوکہ دیتے ہیں؟

اب تک ہم آپ کے احترام کی وجہ سے ان سے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن اب انھوں نے پاؤں پھیلانا شروع کردیا ہے اورہمارے بتوں کے متعلق جسارت کرنی شروع کردی ہے کیا آپ نے سنا ہے کہ وہ بت پرستی کو ایک سفیہانہ کام بتلاتے ہیں؟ کیا جانتے ہیں کہ وہ ہمارے باپ دادا کو گمراہ و نادان بتلاتے ہیں؟ کیا ہم اب بھی اس کو برداشت کرسکتے ہیں؟ آپ انھیں بلائیں اور ان سے کہیں کہ اس قسم کی باتوں سے دست بردار ہوجائیں''_

جناب ابوطالب (ع) نے اپنے بھتیجے سے ملاقات کی اور بت پرستوں کی بات کو ان کے سامنے بیان کیا اور کہا:

۱۷۲

'' اے میرے بھتیجے انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم بتوں کے بارے میں جسارت کرتے ہو اور بت پرستی کو ایک غیر عاقلانہ کام بتلاتے ہو انھوں نے خواہش کی ہے کہ تم اس کام سے دست بردار ہوجاؤ صرف اسلام کے آئین و قانون کی تبلیغ و ترویج کرو بتوں اور بت پرستوں سے سرو کار نہ رکھو''_

پیغمبر اکرم (ص) نے جناب ابوطالب (ع) کے جواب میں فرمایا:

'' چچا جان لوگوں کی پوری بدبختی اسی بت پرستی میں ہے یہ سردار بت پرستی کے بہانے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق کو غصب کرتے ہیں_ ایک خدا کی طرف بلانا، بتوں کی نفی، اللہ تعالی کی بندگی اور ظالموں کے پنجے سے آزادی کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے_ چا جان مجھے خداوند عالم کی طرف سے ایسا ہی حکم ملا ہے اور اس کام کو انجام دیتا ہوں گا''

بت پرستوں کی طرف سے صلح و صفائی اورمصالحت کی کئی دفعہ خواہش کی گئی تھی انھوں نے کئی دفعہ اس بارے میں جناب ابوطالب (ع) سے بات چیت کی لیکن اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو اور بالآخرہ انھوں نے سوچا کہ محمد(ص) کو جاہ مال کا وعدہ دے کر دھوکہ دیا جائے یا ڈرایا اور دھمکایا جائے لہذا پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے یوں گفتگو کی:

'' اے ابوطالب (ع) محمد (ص) سے پوچھ کہ تمھاری اس تبلیغ کا کیا مقصد ہے اور کیا چاہتے ہو؟ کیا مال و دولت چاہتے ہو؟ کیا طاقت و قدرت اور حکومت چاہتے ہو؟ کیا بیوی اور اچھی زندگی چاہتے ہو؟ اگر مال و دولت چاہتے ہو تو ہم اسے اتنی دولت دے دیں گے

۱۷۳

کہ وہ قریش کا ثروت مند ترین فرد ہوجائے_ اگر جاہ و جلال چاہتے تو حجاز کی حکومت و زمامداری اس کے اختیار میں دے دیں گے اور اگر ابھی زندگی و بیوی چاہتے ہو تو اس کے لئے خوبصورت ترین اور بہترین عورت انتخاب کردیتے ہیں_

جو بھی وہ چاہیں ہم اس کے پورا کرنے کے لئے حاضر ہیں لیکن صرف ایک شرط ہے کہ وہ اپنی گفتگو سے دست بردار ہوجائیں اور ہمارے بتوں سے کوئی سر و کار نہ رکھیں''

پیغمبر اسلام (ص) ان کی ان خواہشات کے جواب میں جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہیں گے؟ کیا یہ وعدے انھیں فریب دے سکیں گے؟ کیا لوگوں کی ہدایت و نجات سے دست بردار ہوجائیں گے؟ کیا ظالموں کی خوشنودی کو اللہ تعالی کی خوشنودی اور محروم طبقے کی خوشنودی پر ترجیح دے دیں گے؟ نہیں اور ہرگز انہیں وہ اپنے راستہ سے نہیں ہٹیں گے اور یقینا یہ جواب دیں گے:

'' چچا جان یہ میری تبلیغ اپنی طرف سے نہیں ہے کہ میں اس سے دست بردار ہوجاؤں بلکہ یہ خدا کی طرف سے ہے خدا نے مجھے پیغمبری کے لئے چنا ہے کہ تا کہ اس کا پیغام لوگوں تک پہونچاؤں اور انھیں ظلم و ستم اور گمراہی سے نجات دلواؤں، خداپرستی و توحید کی دعوت دوں''_

اس وقت جناب ابوطالب (ع) آپ پر محبت بھری نگاہ کئے ہوئے تھے اور آپ کہہ رہے تھے:

'' چچا جان خدا کی قسم اگر چمکتے ہوئے سورج کو میرے دائیں ہاتھ

۱۷۴

پر رکھ دیں اور روشن چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر (یعنی تمام ثروت و جہان کی زیبائی اور قدرت مجھے بخش دیں) تب بھی میں اس فریضہ کی ادائیگی سے دست بردار نہ ہوں گا یہاں تک کہ میں اس میں کامیاب اور فتحمند ہوجاؤں یا شہید کردیا جاؤں_

چچا جان ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ان خواہشات کی جگہ صرف ایک کلمہ لا الہ الّا اللہ کہہ دیں تا کہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں''_

جب بت پرستوں کو جاہ و جلال اور مال و دولت کی لالچ دینے سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور کہا:

'' اے ابوطالب (ع) تم ہمارے شہر و قبیلہ کے سردار اور ہماری اس مشکل کو تم ہی حل کرو کہ تمھیں ایک خوبصورت بچہ دیتے ہیں تا کہ اسے تم اپنا بیٹا بنالو، محمد(ص) کی حمایت سے دست بردار ہوجاؤ اور ہم اسے قتل کردیں''_

ابوطالب (ع) ان کی اس بات کو سنتے ہی غصہ میں آگئے اور ان سے کہا:

'' اپنے بھتیجے کو تمھیں دے دوں تا کہ تم اسے قتل کردو یہ تمھاری کتنی شرمناک بات ہے قسم خدا کی ایک لحظہ کے لئے بھی محمد (ص) کی حمایت اور مدد سے ہاتھ نہ کھینچوں گا''_

اب ہم مسلمانوں کا بھی یہی فریضہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اس راستہ پر چلیں اور کفر مادی گری، طاغوت و طاغوتوں کا مقابلہ کریں اور ان کی ہر طرح کی مدد سے پرہیز کریں تا کہ دنیا کے مظلوم اور محروم طبقے کو نجات دلاسکیں_ دیکھیں ہم کس حد تک ا س فریضہ کی انجام دہی میں کامیاب ہوتے ہیں_

۱۷۵

قرآن کی آیت:

( فلذلک فادع واستقم کما امرت و لا تتّبع اهوائهم و قل امنت بما انزل الله من کتاب و امرت لاعدل بینکم الله ربّنا و ربّکم ) (۱)

'' آپ اسی کے لئے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان کے خواہشات کا اتباع نہ کریں اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان انصاف کروں اللہ ہمارا اور تمھارا دونوں کا پروردگار ہے''_

____________________

۱) سورہ شوری آیت ۱۵

۱۷۶

سوالات

ان سوالات کے صحیح جوابات دیجئے اوران پر اچھی طرح بحث کیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کے چوتھے مرحلہ کی خصوصیات کیا تھیں، آپ اس مرحلہ میں کیوں بتوں اور بت پرستوں کی مذمت کیا کرتے تھے؟

۲)___ بت پرستوں کے سردار کیوں خطرہ محسوس کرتے تھے؟ کیا تدبیریں انھوں نے سوچیں اور جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہا تھا؟

۳)___ پیغمبر (ص) نے ان کی سازشوں کو کس طرح ٹھکرایا؟

۴)___ بت پرستوں کے سرداروں نے اپنی سازش کو کس صورت مین پیش کیا انھوں نے کون سے وعدے کئے تھے اور پیغمبر اسلام (ص) کا جواب کیا تھا؟

۱۷۷

پیغمبر (ص) اور مستضعف

مسجد نبوی کے نزدیک ایک بر آمدہ تھا کہ جس کی دیواریں گارے اور مٹی کی انیٹوں سے بنائی گئی تھیں اور اس کی چھت خرما کے پتوں کی تھی اور اسے صفّہ کہا جاتا تھا_ مسلمانوں کا ایک نادار گروہ کہ جن کا مدینہ میں کوئی گھر نہ تھا اسی صفّہ میں رہا کرتے تھے_ پیغمبر خدا (ص) ان سے بہت مانوس تھے ان کے پاس بیٹھتے اور گفتگو کیا کرتے تھے آپ انھیں دوست رکھتے تھے اور اپنے اصحاب سے کہا کرتے تھے کہ ان کی مہمان نوازی و دلجوئی کیا کریں_ آپ کبھی انھیں اپنے گھر لے آتے اور بہت احترام سے ان کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے اور کبھی ان کے پاس کھانا لے جایا کرتے تھے_

یہ اللہ کے نیک بندے پیغمبر اسلام (ص) کے اردگرد بیٹھا کرتے تھے اور آپ سے مانوس تھے دین کے احکام پوچھتے اور قرآن و احادیث یاد کیا کرتے تھے_ جب پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں ہوا کرتے تھے تو اکثر یہی لوگ اور مدینہ کے دوسرے فقراء پیغمبر(ص) کے اردگرد بیٹھتے اور آپ کی باتوں کو سنتے تھے اہل وطن بھی ان کا احترام کیا کرتے تھے_

پیغمبر اسلام (ص) کی معاشرہ کے تمام محروم اور مستضعف طبقے سے اسی قسم کی رفتار ہوا کرتی تھی لیکن بعض لوگ پیغمبر اسلام (ص) کی اس رفترا کو ناپسند کرتے تھے اور کبھی کبھار آپ پر اعتراض بھی کرتے تھے اور کہتے تھے آپ کیوں اتنی اس فقیر اور چھوٹے طبقے سے آمد و رفت رکھتے ہیں اور ان سے اچھا سلوک کرتے ہیں ؟ آپ انھیں اپنے پاس بیٹھتے کی کیوں اجازت دیتے ہیں؟

۱۷۸

فقراء کے سا تھ بیٹھنا آپ کے مقام و مرتبہ کو کم کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اشراف و مالدار لوگ آپ سے دوری کرتے ہیں کیونکہ وہ فقراء کے ساتھ زانو ملاکر بیٹھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس فعل کو وہ اپنے لئے کسرشان سمجھتے ہیں اگر آپ انھیں اپنے سے دور کردیں تو ثروتمند اور اشراف اسلام کی طرف زیادہ رغبت کریں گے اور ان کی توجہ و مدد سے اسلام مضبوط ہوگا لیکن اعتراض کرنے والے ایسے لوگ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کا مبعوث ہونا انھیں جاہلیت کے رسوم اور وقار کو بدلنے کے لئے ہوا کرتا ہے_

اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کا بھیجا تا کہ آپ اپنی گفتار و رفتار سے صحیح وقار کو قائم کریں اور لوگوں سے کہیں کہ شرافت و تقوی اللہ پر ایمان لانے میں ہے_ اسلام کی نگاہ میں اسے شریف کہا جاتا ہے جو متقی و مومن ہوا اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لے آتے ہیں وہی در حقیقت شریف و بزرگوار ہیں_

انھیں مستضعفین میں سے ایک خدا اور رسول (ص) اور آخرت پر ایمان لانے والے جناب سلمان فارسی تھے ان کے پاس ایک اون کی عبا تھی کہ وہی ان کا دسترخوان و بستر تھا اور اسی کو رات میں اوڑھتے اور دن میں اس کو لباس بناتے تھے_ پیغمبر اسلام (ص) سلمان فارسی سے بہت محبت کرتے ت ھے اور انھیں شرافت و تقوی سے متصف بیان کرتے تھے اوراپنے اہلبیت (ع) میں شمار کیا کرتے تھے_

ایک دن جناب سلمان فارسی پیغمبر اسلام (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھیں اشراف میں سے ایک آپ کے پاس آیا اور ایک نگاہ سلمان فارسی کے پھٹے لباس، آفتاب سے جلے ہوئے چہرہ اور ورم شدہ ہاتھوں پر ڈالی اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) جب ہم آپ کے پاس آتے ہیں تو یہ فقیر پھٹا لباس پہنے آپ کے پاس ہوتا ہے بہتر ہے کہ آپ اس کے

۱۷۹

فرمائیں کہ وہ آپ کے پاس کم آیا کرے اور آپ سے دور بیٹھا کرے''_

جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اس قسم کے لوگوں کے جواب میں کیا فرمایا؟ آپ نے فرمایا کہ

'' کسی انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت نہیں ہوا کرتی عرب، عجم، سیا ہ و سفید سب کے سب اللہ کے بندے اور حضرت اکرم (ع) کی اولاد ہیں، فضیلت و شرافت، تقوی اور پرہیزگاری سے ہوا کرتی ہے''

یہی رسول خدا (ص) کی دوستی و دشمنی کا معیار تھا آپ متقیوں کے دوست اور ان پر مہربان تھے اگر چہ پھٹے لباس پہنے ہوئے فقیر و نادار ہی کیوں نہ ہوں اور آپ مستکبرین سے جو اللہ تعالی سے بے خبر ہوا کرتے تھے دشمنی رکھا کرتے تھے اگر چہ وہ مالدار اور طاقتور ہی کیوں نہ ہوں_

ایک دن ایک متقی انسان پیغمبر اسلام (ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور بات کرنے میں منہمک تھا اسی حالت میں مدینہ کے اشراف و مالدار طبقہ سے ایک آدمی حضور (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا پیغمبر اسلام (ص) نے اسے فرمایا کہ یہاں نزدیک آکر بیٹھو لیکن وہ دور ہی بیٹھ گیا_ آپ اس کے اس فعل سے بہت متاثر ہوئے اورناراضگی کے عالم میں فرمایا:

'' کیوں نزدیک آکر نہیں بیٹھتے ہو؟ کیا ڈرگئے ہو کہ اس مومن کا فقر اور نادانی تیری طرف سرایت کر جائے گی؟ تو نے سوچا کہ شاید تیری دولت سے کچھ کم ہوجائے گا؟ ''

یہ شخص بجائے اس کے کہ اپنی خودخواہی اور کبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تکبّر سے کہنے یہ شخص بجائے اس کے کہ اپنی خودخواہی اور کبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تکبّر سے کہنے لگا کہ:

'' ہم نہیں چاہتے کہ ان جیسے فقیر اور بے سر و پا انسانوں کے ساتھ بیٹھیں بہتر یہ ہوگا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ یہاں کم آیا کریں اور دور ہوکر بیٹھا کریں''_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302