‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 302
مشاہدے: 103846
ڈاؤنلوڈ: 3607


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 103846 / ڈاؤنلوڈ: 3607
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد 3

مؤلف:
اردو

پیغمبر اسلام(ص) کی مخفی تبلیغ

ابتداء ہی سے پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت عالمی تھی خداوند عالم نے انھیں پوری دنیا کے لئے نبی بنا کر بھیجا تھا آپ کا یہ عزم تھا کہ پوری دنیا کے کفر و شرک او رمادی گری سے مقابلہ کریں_ دنیا کے مظلوم و محروم طبقے کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلوائیں اور سبھی کو اسلام کے مقدس قانون اور خداپرستی کی طرف دعوت دیں_

پیغمبر اسلام (ص) ابتداء ہی سے اتنی بڑی ذمہ داری سے آگاہ تھے مشکلات و دشواریوں کی طرف پوری طرح متوجہ تھے آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ اس قسم کا کام آسان اور معمولی نہیں ہے بہت سی مشکلات سامنے آئیں گی آپ مشکلات کا خندہ پیشانی سے استقبال کر رہے تھے اور اللہ تعالی کے فرمان کے بجالانے کے لئے آمادہ تھے_ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی دعوت کو اللہ کے حکم سے بغیر عجلت پسندی کے شروع کیا اور صبر و استقامت اور عاقبت اندیشی سے پوری احتیاط کے ساتھ حالات کو دیکھتے ہوئے تبلیغ میں مشغول ہوگئے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس کام میں جلدبازی مضرثابت ہوسکتی ہے اسی لئے آپ نے اللہ کے حکم سے اپنی تبلیغ کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا اور پہلے اس طریقہ سے ابتداء کی جو ممکن ہوسکتا تھا_

پیغمبر اسلام(ص) نے بعثت کی ابتداء میں اپنی دعوت کو اپنی دعوت کو اپنی باوفا بیوی جناب خدیجہ (ع) اور فداکار چچازاد بھائی حضرت علی علیہ السلام سے جو آپ کے گھر میں رہتے تھے شروع کیا_ اللہ تعالی کی طرف سے اپنی اہم ذمہ داری کو انھیں دو کے درمیان ذکر کیا_ فداکاری و باوفا خاتون

۱۶۱

جناب خدیجہ (ع) اور طاقتور و مہربان جوان حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) کی بات سنی اور اسلام کا اظہار کردیا اور وعدہ کیا کہ آپ کے اس کام میں مدد کریں گے_

پیغمبر اسلام (ص) اپنی پہلی دعوت میں ہی کامیاب ہوگئے آپ انھیں دو فداکاروں اور صحیح مددگاروں سے اپنی آسمانی دعوت کی تبلیغ میں مدد طلب کرتے تھے آپ نے ایک طاقتور تبلیغی مرکز اپنے گھر میں بنالیا تھا_ پیغمبر اسلام(ص) ان دو کے ساتھ کبھی گھر میں اور کبھی مسجدالحرام میں اکٹھے نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے_ تھوڑے ونوں کے بعد زید کہ جو پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہتے تھے دین مقدس اسلام پر ایمان لے آئے اور پیغمبر اسلام (ص) کی فکر داخلی لحاظ کے کاملاً مطمئن اور آرام ہوگئی یہاں مناسب ہے کہ تھوڑی سی جناب زید سے واقفیت حاصل کریں_

جناب زید حضرت خدیجہ (ع) کے غلام تھے جناب خدیجہ (ع) نے انھیں پیغمبر اسلام (ص) کو بخش دیا تھا اور آنحضرت (ص) نے انھیں آزاد کردیا تھا وہ باپ کے گھر واپس جاسکتے تھے اور ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے تھے لیکن وہ پیغمبر اسلام (ص) کے اخلاق و صداقت کے اتنا شیفتہ ہوچکے تھے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ رہنے اور زندگی گذارنے کو ترجیح دیتے تھے اور آنحضرت (ص) کے گھر ہی رہ رہے تھے_

پیغمبر اسلام (ص) نے اسلام کی دعوت کو پوری طرح مخفی شروع کیا تھا جب بھی کسی سمجھدار اور روشن دل، آگاہ اور آمادہ انسان کو دیکھتے تو اس سے اپنے مدعا کو بیان کرتے اور قرآن کی آیات اس کے سامنے پڑھتے اس کی وضاحت کرتے اور اسے اسلام لانے کی دعوت دیتے تھے کبھی یہ کام مسجد الحرام کے کسی گوشہ میں، کبھی صفا و مروہ کے کنارے اور کبھی اپنے گھر میں انجام دیتے تھے_

آپ نے تین سال تک اسی روش سے اپنی دعوت کی تبلیغ کی اس مدت میں آپ

۱۶۲

بہت استقلال اور صبر سے فرد فرد سے علیحدہ گفتگو کرتے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیتے اور مسلمانوں سے ملحق ہوجاتے تھے_ اس تین سال کے عرصے میں مسلمان اسلام کو ظاہر نہیں کرتے تھے اور اپنی نماز ادھر ادھر مخفی طور سے پڑھا کرتے تھے کا فر و شرک بھی چونکہ اسلام کے نفوذ اور وسعت سے زیادہ مطلع نہیں ہوا کرتے تھے لہذا وہ بھی اپنا ردّ عمل ظاہر نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی دعوت تبلیغ بے نتیجہ و بے اثر اورپھر چونکہ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو خداپرستی و توحید کی دعوت دیا کرتے تھے اور واضح طور سے بتوں کی مذمت نہیں کیا کرتے تھے لہذا وہ اس سے کوئی خطرہ کا احساس نہیں کیا کرتے تھے_ ان تین سالوں میں خود پیغمبر اسلام(ص) اورمسلمانوں مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے کوئی بھی ان کو پریشان نہیں کرتا تھا لیکن بعثت کے تیسرے سال کے آخر میں ایک واقعہ رونما ہوا کہ جس نے مسلمانوں کو دگرگوں کردیا اور واقعہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے اطراف کے پہاڑ میں مخفی طور سے نماز پڑھنے اورمناجات کرنے میں مشغول تھا_ چند بت پرستوں کا وہاں سے گذر ہوا مسلمانوں کا منظم طور سے رکوع و سجود کرنا ان کے غصہ کا موجب ہوا غصّہ میں آکر انھوں نے مسلمانوں کا برا بھلا کہنا شروع کردیا اور مسلمانوں کی نماز و دعا کا مذاق اڑایا_

مسلمان بھی ان کی بے ادبی و گستاخی سے غصہ میں آگئے ان کا جواب دینا شروع کردیا اور نتیجہ ایک دوسرے کو مارنے و جھگڑا کرنے تک جا پہونچا مسلمانوں کی ایک فرد سعد نامی کہ جنھیں بہت سخت غصہ آیا ہوا تھا اپنے قریب سے اونٹ کی ایک ہڈی اٹھائی اور دوڑتے ہوئے ایک مشرک کے قریب پہونچے اور پورے غصے کے عالم میں اس کے سرپر ماری اس کا سر پھٹ گیا اور خون جاری ہوگیا_

بت پرست مکہ واپس لوٹ آئے اور مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے حادثہ

۱۶۳

کا اپنے لوگوں سے تذکرہ کیا مکہ کے سرداروں سے پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے پیروکاروں کی حالت کو بیان کیا اس وقت سے مشرکوں نے خطرے کو محسوس کرلیا_

پیغمبر اسلام(ص) جناب ارقم کے گھر مخفی طور سے گئے اور وہاں چھپ گئے انھیں دنوں جناب ارقم مسلمان ہوئے تھے مسلمان تنہائی میں پوری طرح لوگوں سے ملاقات کرتے اور اسے اسلام کی دعوت دیتے اور جب پوری طرح مطمئن ہوجاتے تو اسے مخفی طور سے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر لے جاتے تا کہ آپ اس کے سامنے قرآن پڑھیں اور اپنی آسمانی دعوت کی وضاحت کریں اسے خداپرستی و توحید کی طرف بلائیں اور اسلام کی صحیح دعوت دیں_

انھیں دنوں ایک گروہ اسلام لے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ ملحق ہوگیا_ پیغمبر اسلام(ص) کو ان تین سال کی دن رات کی محنت سے کافی کامیابی مل چکی تھی آپ نے زحمتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے چالیس فداکاری مسلمانوں کو ترتیب دیا اور اس کو اس زمانہ کے لحاظ سے اہم کامیابی کہی جاسکتی ہے_

اس زمانہ میں اسلام نے قدرت و طاقت حاصل کرلی تھی اور کفر و بت پرستی کی دنیا میں ایک طاقتور مرکز حاصل کرلیا تھا کیونکہ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ان میں چالیس آدمی صحیح طور پر فداکاری و جانبازی پر آمادہ تھے اور اپنی جان ہاتھوں پر رکھ کر اسلام سے دفاع کرتے تھے_ ان تین سالوں میں اسلام کے پودے نے زمین میں اپنی جگہ بنالی تھی اور اپنی جڑیں دور دور تک پھیلادی تھیں لہذا اب اس درخت کا کاٹنا کوئی معمولی کام نہیں تھا اب پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت و تبلیغ کے دوسرے مرحلہ پر اپنا کام شروع کرسکتے تھے_

قرآن مجید کی آیت:

لقد من الله علی المؤمنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم یتلوا علیهم ایاته و یزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین_

۱۶۴

'' خداوند عالم نے مومنین پر منّت کی جب کہ ان میں انھیں کا ایک رسول بھیجا تا کہ ان پر اللہ کی آیات پڑھے اور ان کا تذکیہ کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں غرق تھے''(۱)

____________________

۱) سورہ آل عمران ۱۶۲

۱۶۵

عالمی دعوت کا اعلان

مكّہ میں مشہور ہوچکا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اپنے آپ کو پیغمبر کہنا شروع کردیا ہے اور ایک گروہ نے آپکی دعوت کو قبول بھی کرلیا ہے اور آپ کی مدد کرنے کا وعدہ بھی کرلیا ہے_ آپ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بلایا اور ایک مجمع عمومی میںانھیں اسلام لانے کی دعوت دی اور اپنی مدد کرنے کو ان سے کہا اور تمام بزرگان قریش کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا و زیر و جانشین مقرر کیا اور تعجب اس میں ہے کہ اس مجمع میں جناب ابوطالب نے آپ سے کوئی اعتراض آمیز گفتگو نہیں کی تھی کہ جس سے گویا ظاہر ہوتا تھا کہ جناب ابوطالب(ع) بھی آپ کی حمایت و مدد کریں گے_ مكّہ کے لوگ اس واقعہ کو ایک دوسرے سے تعجب سے نقل کرتے تھے اب وقت آچکا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت و رسالت کو ظاہر بظاہر اور اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کریں اور ان کو راہ راست کی ہدایت کریں چنانچہ خداوند عالم کی طرف سے آپ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ:

'' اے محمد(ص) (ص) جو کچھ ہم نے تم کو حکم دیا ہے اسے علناً بیان کرو اور حق کو باطل سے جدا کرو و بت پرستوں اور ان کے استہزاء سے مت گھبراؤ کہ ہم انھیں سزا دیں گے''

پیغمبر اسلام(ص) اس پیغام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوہ صفا پر گئے کیونکہ عالم طور پر اہم اعلانات اسی پہاڑ پر ہوا کرتے تھے_ پیغمبر اسلام(ص) پہاڑ کے ایک پتھر کے اوپر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے کہا:

۱۶۶

'' اے مكّہ والو اے قریش والو اے جوانو اے لوگو''

پیغمبر اسلام (ص) کی یہ بلند و آسمانی آواز کہ جس میں خداوند عالم پر ایمان، اس سے عشق اور لوگوں کی ہدایت کرنے کا جذبہ پایا جاتا تھا تمام مکہ والوں کے کان تک پہونچی_ لوگ گھروں سے باہر نکلے اور اس آسمانی آواز کی طرف دوڑے تا کہ پیغمبر اسلام(ص) کی باتیں سن سکیں لوگ گروہ در گروہ آپ کے اردگرد جمع ہوتے گئے اور بے صبری سے نئے واقعہ کو جاننے کا انتظار کرنے لگے پیغمبر اسلام(ص) نے اس مجمع کی طرف نگاہ کی اور فرمایا:

'' اے مکہ والو اے قریش کے مرد و زن اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے ہے اور تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا میری تصدیق کروگے اور کیا دفاع کے لئے تیار ہوجاؤ گے؟

سب نے کہا:

'' اے محمد(ص) ہاں اے محمد(ص) ہاں ہم تمھیں امین، سچّا اور صحیح آدمی سمجھتے ہیں اب تک تم سے کوئی جھوٹ نہیں سنا''

پیغمبر اسلام (ص) نے اس طریقے سے اپنی امانت و صداقت انھیں یاد دلائی اور ان سے اس کا اقرار کرالیا اور اس کے بعد فرمایا:

'' اے لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں، تمھارے اور ساری دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں_ اے لوگو جان لو کہ موت کے آجانے سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی جیسے تم سوجاتے ہو تو مرجاتے ہو اور جب بیدار ہوتے ہوا زندہ ہوجاتے ہو، اسی طرح مرنے کے بعد بھی دوبارہ زندہ ہوگے، قیامت کے دن حساب کتاب کے لئے حاضر کئے جاؤگے اور تمھاری رفتار و گفتار کا حساب و کتاب لیا جائے گا

۱۶۷

نیک کاموں کی جزا اور برے کاموں کی سخت سزا پاؤگے_

اے لوگو میں تمھارے لئے بہترین آئین و قانون لایا ہوں_

دینا و آخرت کی سعادت کی خوشخبری لایا ہوں کہو لا الہ الّا اللہ تا کہ نجات و فلاح پاؤ، خدا کو ایک مان کر عبادت کرو اور ایمان کے ذریعہ تمام دنیا کو عرب کو اور غیر عرب کو یگانہ پرستی کے پرچم تلے لے آو''

مكّہ کے اشراف و بت پرست پیغمبر اسلام (ص) کے اس بیان سے حیرت زدہ ہوگئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے:

'' تعجب ہے محمد(ص) کیا کہہ رہا ہے؟ کس طرح اس نے جرات کی ہے؟ کہ ہمارے سامنے ایک خدا کے ہونے کی بات کرے؟ اسے کس طرح جرات ہوئی کہ ہمارے سامنے ہمارے بتوں کی جو ہمارے خدا ہیں نفی کرے؟

کیا ابوطالب (ع) نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے؟ کیا طاقتور مرید اس کے ہوگئے ہیں کہ جس سے ہم بے خبر رہے ہیں؟ ''

اس وقت ابولہب نے سخت غصّہ میں کہا:

''تم پروائے ہو اسی پیغام کے لئے ہمیں اپنے گھروں سے بلایا ہے؟

لوگ اٹھ گئے اور ہر ایک کوئی نہ کوئی بات کر رہا تھا_ کچھ کہہ رہے تھے: سنا ہے تم نے کہ محمد(ص) نے کیا کہا ہے وہ کہہ رہا تھا کہ:

''میں خداوند عالم کی طرف سے پیغام لایا ہوں''

کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک انسان اللہ کی طرف سے پیغام لے آئے ؟

۱۶۸

کیا ہوسکتا ہے کہ انسان پیغمبر ہوجائے؟ پیغمبر کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم اب ایک خدا کی عبادت کریں؟ کیا ہمارے باپ دادا ایک طویل مدت سے بت پرست نہ تھے؟ کیا اب ہم ان بتوں کوچھوڑدیں؟ محمد(ص) کی دعوت و تبلیغ کو کس طرح روکیں؟ کیا ابوطالب (ع) محمد(ص) کی حمایت و مدد کریں گے؟

پیغمبر اسلام(ص) پہاڑ سے نیچے اترے اور اپنے گھر واپس لوٹ آئے اس کے بعد آپ اپنی رسالت و دعوت کو علنی طور پر بیان کیا کرتے تھے اور کسی کی پروا نہیں کیا کرتے تھے لوگوں کو خداپرستی کی علنی دعوت دیا کرتے تھے_ پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت میں صرف ایک خدا کی پرستش پر زور دیا کرتے تھے اور بتوں پر بہت کم تنقید کرتے تھے_ بت پرست بھی اس سے مطمئن تھے اور آپ کو زیادہ نہیں چھیڑتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے:

'' ہم اپنے دین پر اور محمد(ص) اپنے دین پر رہیں بہتر یہی ہے کہ جناب ابوطالب (ع) کے احترام اور ان کی شخصیت کا خیال رکھتے ہوئے محمد(ص) کو اسی حالت پر چھوڑدیں اور دیکھیں کہ آگے کیا ہوتا ہے''

اس لحاظ سے پیغمبر اسلام(ص) کی تبلیغ کا یہ تیسرا مرحلہ بخوبی انجام پا رہا تھا اور آپ حالات کے انتظار میں تھے کہ موقع ملے اور آپ اپنی تبلیغ کا چوتھا مرحلہ شروع کریں_

کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام (ص) نے چوتھے مرحلہ کا آغاز کس سے کیا تھا؟ اس مرحلہ میں آپ کا نقطہ نظر کیا تھا اور کس چیز پر آپ اصرار کیا کرتے تھے؟

قرآن کی آیت:

فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین انّا کفیناک المستهزئین

''جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے ظاہر کردیں اور مشرکین کی پروا نہ کریں ہم مسخرہ کرنے والوں کے شر سے آپ کو کفایت کریں گے'' (سورہ حجر ۹۵)

۱۶۹

سوالات

ان سوالات کے بارے میں اپنے دوست سے بحث کیجئے اور درست و کامل جواب کا انتخاب کیجیئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کی تبلیغ کا تیسرا مرحلہ کس طرح شروع ہوا، اس مرحلہ کے شروع کرنے کے لئے اللہ تعالی سے آپ کو کیا حکم ملا تھا؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اس فرمان کے لئے کیا کام انجام دیا تھا اور کہاں؟

۳)___ ان لوگوں سے جو وہاں اکٹھے ہوئے تھے پیغمبر اسلام(ص) نے کیا اقرار لیا تھا اور آپ کا اس سے کیا مقصد تھا؟

۴)___ اپنی رسالت کا اعلان کس طرح کیا، پیغام میں کن چیزوں کا ذکر تھا؟ ان کو بیان کرو_

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) اس مرحلہ میں کس چیز کے بیان کو اہمیت دیتے تھے_

۶)___ بزرگان مكّہ پیغمبر اسلام(ص) کے اس پیغام کو سننے کے بعد ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے؟

۷)___ کیا مكّہ کے مشرکین اس مرحلہ میں پیغمبر اسلام(ص) سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے اور کیوں؟

۱۷۰

ہر قسم کی سازش کی نفی

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو اللہ کی طرف ہدایت کرتے تھے آپ دن رات لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے سخت محنت کیا کرتے تھے، اسلام کے حیات بخش آئین کی ترویج میں کو شاں رہتے تھے اب جب کہ مسلمانوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اسلام کی طاقت پھیلتی جارہی تھی تو آپ نے حق کو باطل سے جدا کرنے اور بتوں و بت پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اقدام کیا تا کہ بت پرستی کا عبث فعل سارے لوگوں پر واضح ہوجائے لوگ اپنی بدبختی و ذلت کے اسباب و عوامل کو پہچانیں کیونکہ اگر لوگ اپنی ذلت و رسوائی کی علت کو نہ جانیں گے تو کس طرح اسے ختم کرسکیں گے؟ اگر لوگ بت پرستی کے رواج دینے والوں کے غلط مقصد سے آگاہ نہ ہوں گے تو کس طرح اس کا مقابلہ کرسکیں گے؟ اگر لوگ بت پرستوں کے سرداورں کی فریب کاری سے مطلع نہ ہوں گے تو کس طرح ان سے نجات حاصل کرسکیںگے؟

لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیئے اور اللہ تعالی کا واضح پیغام لوگوں کے سامنے پڑھا جانا چاہیئے اسی لئے پیغمبر اسلام(ص) نے اپنی دعوت کے چوتھے مرحلہ کو شروع کریا اور بت پرستی کی پوری طرح مذمت اور اس پر تنقید کی، بت پرستی کے رواج دینے والے سرداروں کے اندرونی اغراض کو واضح بیان کر کے ان کو ذلیل کیا اور ان کے ظلم و پلید مقاصد سے پردہ اٹھایا_

بت پرستی کے سرداروں نے اس سے زیادہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرلیا اور اپنے پلید

۱۷۱

منافع کے خطرے میں پڑنے سے خوفناک ہوگئے اور سوچنے لگے کہ کس طرح اسلام کی طاقت کا مقابلہ کیا جائے اور کس طرح لوگوں کو خداپرستی سے دور رکھا جائے کیا محمد (ص) کو ان کی تبلیغ سے روکا جا سکتا ہے؟

پہلے پہل تو انھوں نے بات چیت اور صلح و صفائی کی خواہش کی بت پرستوں کے چند سردار جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے کہا:

'' اے ابوطالب (ع) آپ کیوں خاموش بیٹھے ہیں؟ کیوں ہمارے کام کے متعلق نہیں سوچتے؟ کیوں محمد (ص) کو کچھ نہیں کہتے؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے شہر کے امن کو ختم کرکے اور ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کرکے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے؟ کیا نہیں جانتے کہ وہ ہمارے غلاموں کو دھوکہ دیتے ہیں؟

اب تک ہم آپ کے احترام کی وجہ سے ان سے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن اب انھوں نے پاؤں پھیلانا شروع کردیا ہے اورہمارے بتوں کے متعلق جسارت کرنی شروع کردی ہے کیا آپ نے سنا ہے کہ وہ بت پرستی کو ایک سفیہانہ کام بتلاتے ہیں؟ کیا جانتے ہیں کہ وہ ہمارے باپ دادا کو گمراہ و نادان بتلاتے ہیں؟ کیا ہم اب بھی اس کو برداشت کرسکتے ہیں؟ آپ انھیں بلائیں اور ان سے کہیں کہ اس قسم کی باتوں سے دست بردار ہوجائیں''_

جناب ابوطالب (ع) نے اپنے بھتیجے سے ملاقات کی اور بت پرستوں کی بات کو ان کے سامنے بیان کیا اور کہا:

۱۷۲

'' اے میرے بھتیجے انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم بتوں کے بارے میں جسارت کرتے ہو اور بت پرستی کو ایک غیر عاقلانہ کام بتلاتے ہو انھوں نے خواہش کی ہے کہ تم اس کام سے دست بردار ہوجاؤ صرف اسلام کے آئین و قانون کی تبلیغ و ترویج کرو بتوں اور بت پرستوں سے سرو کار نہ رکھو''_

پیغمبر اکرم (ص) نے جناب ابوطالب (ع) کے جواب میں فرمایا:

'' چچا جان لوگوں کی پوری بدبختی اسی بت پرستی میں ہے یہ سردار بت پرستی کے بہانے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق کو غصب کرتے ہیں_ ایک خدا کی طرف بلانا، بتوں کی نفی، اللہ تعالی کی بندگی اور ظالموں کے پنجے سے آزادی کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے_ چا جان مجھے خداوند عالم کی طرف سے ایسا ہی حکم ملا ہے اور اس کام کو انجام دیتا ہوں گا''

بت پرستوں کی طرف سے صلح و صفائی اورمصالحت کی کئی دفعہ خواہش کی گئی تھی انھوں نے کئی دفعہ اس بارے میں جناب ابوطالب (ع) سے بات چیت کی لیکن اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو اور بالآخرہ انھوں نے سوچا کہ محمد(ص) کو جاہ مال کا وعدہ دے کر دھوکہ دیا جائے یا ڈرایا اور دھمکایا جائے لہذا پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے یوں گفتگو کی:

'' اے ابوطالب (ع) محمد (ص) سے پوچھ کہ تمھاری اس تبلیغ کا کیا مقصد ہے اور کیا چاہتے ہو؟ کیا مال و دولت چاہتے ہو؟ کیا طاقت و قدرت اور حکومت چاہتے ہو؟ کیا بیوی اور اچھی زندگی چاہتے ہو؟ اگر مال و دولت چاہتے ہو تو ہم اسے اتنی دولت دے دیں گے

۱۷۳

کہ وہ قریش کا ثروت مند ترین فرد ہوجائے_ اگر جاہ و جلال چاہتے تو حجاز کی حکومت و زمامداری اس کے اختیار میں دے دیں گے اور اگر ابھی زندگی و بیوی چاہتے ہو تو اس کے لئے خوبصورت ترین اور بہترین عورت انتخاب کردیتے ہیں_

جو بھی وہ چاہیں ہم اس کے پورا کرنے کے لئے حاضر ہیں لیکن صرف ایک شرط ہے کہ وہ اپنی گفتگو سے دست بردار ہوجائیں اور ہمارے بتوں سے کوئی سر و کار نہ رکھیں''

پیغمبر اسلام (ص) ان کی ان خواہشات کے جواب میں جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہیں گے؟ کیا یہ وعدے انھیں فریب دے سکیں گے؟ کیا لوگوں کی ہدایت و نجات سے دست بردار ہوجائیں گے؟ کیا ظالموں کی خوشنودی کو اللہ تعالی کی خوشنودی اور محروم طبقے کی خوشنودی پر ترجیح دے دیں گے؟ نہیں اور ہرگز انہیں وہ اپنے راستہ سے نہیں ہٹیں گے اور یقینا یہ جواب دیں گے:

'' چچا جان یہ میری تبلیغ اپنی طرف سے نہیں ہے کہ میں اس سے دست بردار ہوجاؤں بلکہ یہ خدا کی طرف سے ہے خدا نے مجھے پیغمبری کے لئے چنا ہے کہ تا کہ اس کا پیغام لوگوں تک پہونچاؤں اور انھیں ظلم و ستم اور گمراہی سے نجات دلواؤں، خداپرستی و توحید کی دعوت دوں''_

اس وقت جناب ابوطالب (ع) آپ پر محبت بھری نگاہ کئے ہوئے تھے اور آپ کہہ رہے تھے:

'' چچا جان خدا کی قسم اگر چمکتے ہوئے سورج کو میرے دائیں ہاتھ

۱۷۴

پر رکھ دیں اور روشن چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر (یعنی تمام ثروت و جہان کی زیبائی اور قدرت مجھے بخش دیں) تب بھی میں اس فریضہ کی ادائیگی سے دست بردار نہ ہوں گا یہاں تک کہ میں اس میں کامیاب اور فتحمند ہوجاؤں یا شہید کردیا جاؤں_

چچا جان ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ان خواہشات کی جگہ صرف ایک کلمہ لا الہ الّا اللہ کہہ دیں تا کہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں''_

جب بت پرستوں کو جاہ و جلال اور مال و دولت کی لالچ دینے سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور کہا:

'' اے ابوطالب (ع) تم ہمارے شہر و قبیلہ کے سردار اور ہماری اس مشکل کو تم ہی حل کرو کہ تمھیں ایک خوبصورت بچہ دیتے ہیں تا کہ اسے تم اپنا بیٹا بنالو، محمد(ص) کی حمایت سے دست بردار ہوجاؤ اور ہم اسے قتل کردیں''_

ابوطالب (ع) ان کی اس بات کو سنتے ہی غصہ میں آگئے اور ان سے کہا:

'' اپنے بھتیجے کو تمھیں دے دوں تا کہ تم اسے قتل کردو یہ تمھاری کتنی شرمناک بات ہے قسم خدا کی ایک لحظہ کے لئے بھی محمد (ص) کی حمایت اور مدد سے ہاتھ نہ کھینچوں گا''_

اب ہم مسلمانوں کا بھی یہی فریضہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اس راستہ پر چلیں اور کفر مادی گری، طاغوت و طاغوتوں کا مقابلہ کریں اور ان کی ہر طرح کی مدد سے پرہیز کریں تا کہ دنیا کے مظلوم اور محروم طبقے کو نجات دلاسکیں_ دیکھیں ہم کس حد تک ا س فریضہ کی انجام دہی میں کامیاب ہوتے ہیں_

۱۷۵

قرآن کی آیت:

( فلذلک فادع واستقم کما امرت و لا تتّبع اهوائهم و قل امنت بما انزل الله من کتاب و امرت لاعدل بینکم الله ربّنا و ربّکم ) (۱)

'' آپ اسی کے لئے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان کے خواہشات کا اتباع نہ کریں اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان انصاف کروں اللہ ہمارا اور تمھارا دونوں کا پروردگار ہے''_

____________________

۱) سورہ شوری آیت ۱۵

۱۷۶

سوالات

ان سوالات کے صحیح جوابات دیجئے اوران پر اچھی طرح بحث کیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کے چوتھے مرحلہ کی خصوصیات کیا تھیں، آپ اس مرحلہ میں کیوں بتوں اور بت پرستوں کی مذمت کیا کرتے تھے؟

۲)___ بت پرستوں کے سردار کیوں خطرہ محسوس کرتے تھے؟ کیا تدبیریں انھوں نے سوچیں اور جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہا تھا؟

۳)___ پیغمبر (ص) نے ان کی سازشوں کو کس طرح ٹھکرایا؟

۴)___ بت پرستوں کے سرداروں نے اپنی سازش کو کس صورت مین پیش کیا انھوں نے کون سے وعدے کئے تھے اور پیغمبر اسلام (ص) کا جواب کیا تھا؟

۱۷۷

پیغمبر (ص) اور مستضعف

مسجد نبوی کے نزدیک ایک بر آمدہ تھا کہ جس کی دیواریں گارے اور مٹی کی انیٹوں سے بنائی گئی تھیں اور اس کی چھت خرما کے پتوں کی تھی اور اسے صفّہ کہا جاتا تھا_ مسلمانوں کا ایک نادار گروہ کہ جن کا مدینہ میں کوئی گھر نہ تھا اسی صفّہ میں رہا کرتے تھے_ پیغمبر خدا (ص) ان سے بہت مانوس تھے ان کے پاس بیٹھتے اور گفتگو کیا کرتے تھے آپ انھیں دوست رکھتے تھے اور اپنے اصحاب سے کہا کرتے تھے کہ ان کی مہمان نوازی و دلجوئی کیا کریں_ آپ کبھی انھیں اپنے گھر لے آتے اور بہت احترام سے ان کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے اور کبھی ان کے پاس کھانا لے جایا کرتے تھے_

یہ اللہ کے نیک بندے پیغمبر اسلام (ص) کے اردگرد بیٹھا کرتے تھے اور آپ سے مانوس تھے دین کے احکام پوچھتے اور قرآن و احادیث یاد کیا کرتے تھے_ جب پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں ہوا کرتے تھے تو اکثر یہی لوگ اور مدینہ کے دوسرے فقراء پیغمبر(ص) کے اردگرد بیٹھتے اور آپ کی باتوں کو سنتے تھے اہل وطن بھی ان کا احترام کیا کرتے تھے_

پیغمبر اسلام (ص) کی معاشرہ کے تمام محروم اور مستضعف طبقے سے اسی قسم کی رفتار ہوا کرتی تھی لیکن بعض لوگ پیغمبر اسلام (ص) کی اس رفترا کو ناپسند کرتے تھے اور کبھی کبھار آپ پر اعتراض بھی کرتے تھے اور کہتے تھے آپ کیوں اتنی اس فقیر اور چھوٹے طبقے سے آمد و رفت رکھتے ہیں اور ان سے اچھا سلوک کرتے ہیں ؟ آپ انھیں اپنے پاس بیٹھتے کی کیوں اجازت دیتے ہیں؟

۱۷۸

فقراء کے سا تھ بیٹھنا آپ کے مقام و مرتبہ کو کم کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اشراف و مالدار لوگ آپ سے دوری کرتے ہیں کیونکہ وہ فقراء کے ساتھ زانو ملاکر بیٹھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس فعل کو وہ اپنے لئے کسرشان سمجھتے ہیں اگر آپ انھیں اپنے سے دور کردیں تو ثروتمند اور اشراف اسلام کی طرف زیادہ رغبت کریں گے اور ان کی توجہ و مدد سے اسلام مضبوط ہوگا لیکن اعتراض کرنے والے ایسے لوگ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کا مبعوث ہونا انھیں جاہلیت کے رسوم اور وقار کو بدلنے کے لئے ہوا کرتا ہے_

اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کا بھیجا تا کہ آپ اپنی گفتار و رفتار سے صحیح وقار کو قائم کریں اور لوگوں سے کہیں کہ شرافت و تقوی اللہ پر ایمان لانے میں ہے_ اسلام کی نگاہ میں اسے شریف کہا جاتا ہے جو متقی و مومن ہوا اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لے آتے ہیں وہی در حقیقت شریف و بزرگوار ہیں_

انھیں مستضعفین میں سے ایک خدا اور رسول (ص) اور آخرت پر ایمان لانے والے جناب سلمان فارسی تھے ان کے پاس ایک اون کی عبا تھی کہ وہی ان کا دسترخوان و بستر تھا اور اسی کو رات میں اوڑھتے اور دن میں اس کو لباس بناتے تھے_ پیغمبر اسلام (ص) سلمان فارسی سے بہت محبت کرتے ت ھے اور انھیں شرافت و تقوی سے متصف بیان کرتے تھے اوراپنے اہلبیت (ع) میں شمار کیا کرتے تھے_

ایک دن جناب سلمان فارسی پیغمبر اسلام (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھیں اشراف میں سے ایک آپ کے پاس آیا اور ایک نگاہ سلمان فارسی کے پھٹے لباس، آفتاب سے جلے ہوئے چہرہ اور ورم شدہ ہاتھوں پر ڈالی اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) جب ہم آپ کے پاس آتے ہیں تو یہ فقیر پھٹا لباس پہنے آپ کے پاس ہوتا ہے بہتر ہے کہ آپ اس کے

۱۷۹

فرمائیں کہ وہ آپ کے پاس کم آیا کرے اور آپ سے دور بیٹھا کرے''_

جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اس قسم کے لوگوں کے جواب میں کیا فرمایا؟ آپ نے فرمایا کہ

'' کسی انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت نہیں ہوا کرتی عرب، عجم، سیا ہ و سفید سب کے سب اللہ کے بندے اور حضرت اکرم (ع) کی اولاد ہیں، فضیلت و شرافت، تقوی اور پرہیزگاری سے ہوا کرتی ہے''

یہی رسول خدا (ص) کی دوستی و دشمنی کا معیار تھا آپ متقیوں کے دوست اور ان پر مہربان تھے اگر چہ پھٹے لباس پہنے ہوئے فقیر و نادار ہی کیوں نہ ہوں اور آپ مستکبرین سے جو اللہ تعالی سے بے خبر ہوا کرتے تھے دشمنی رکھا کرتے تھے اگر چہ وہ مالدار اور طاقتور ہی کیوں نہ ہوں_

ایک دن ایک متقی انسان پیغمبر اسلام (ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور بات کرنے میں منہمک تھا اسی حالت میں مدینہ کے اشراف و مالدار طبقہ سے ایک آدمی حضور (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا پیغمبر اسلام (ص) نے اسے فرمایا کہ یہاں نزدیک آکر بیٹھو لیکن وہ دور ہی بیٹھ گیا_ آپ اس کے اس فعل سے بہت متاثر ہوئے اورناراضگی کے عالم میں فرمایا:

'' کیوں نزدیک آکر نہیں بیٹھتے ہو؟ کیا ڈرگئے ہو کہ اس مومن کا فقر اور نادانی تیری طرف سرایت کر جائے گی؟ تو نے سوچا کہ شاید تیری دولت سے کچھ کم ہوجائے گا؟ ''

یہ شخص بجائے اس کے کہ اپنی خودخواہی اور کبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تکبّر سے کہنے یہ شخص بجائے اس کے کہ اپنی خودخواہی اور کبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تکبّر سے کہنے لگا کہ:

'' ہم نہیں چاہتے کہ ان جیسے فقیر اور بے سر و پا انسانوں کے ساتھ بیٹھیں بہتر یہ ہوگا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ یہاں کم آیا کریں اور دور ہوکر بیٹھا کریں''_

۱۸۰