‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110429 / ڈاؤنلوڈ: 3821
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

پیغمبر اسلام(ص) کی مخفی تبلیغ

ابتداء ہی سے پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت عالمی تھی خداوند عالم نے انھیں پوری دنیا کے لئے نبی بنا کر بھیجا تھا آپ کا یہ عزم تھا کہ پوری دنیا کے کفر و شرک او رمادی گری سے مقابلہ کریں_ دنیا کے مظلوم و محروم طبقے کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلوائیں اور سبھی کو اسلام کے مقدس قانون اور خداپرستی کی طرف دعوت دیں_

پیغمبر اسلام (ص) ابتداء ہی سے اتنی بڑی ذمہ داری سے آگاہ تھے مشکلات و دشواریوں کی طرف پوری طرح متوجہ تھے آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ اس قسم کا کام آسان اور معمولی نہیں ہے بہت سی مشکلات سامنے آئیں گی آپ مشکلات کا خندہ پیشانی سے استقبال کر رہے تھے اور اللہ تعالی کے فرمان کے بجالانے کے لئے آمادہ تھے_ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی دعوت کو اللہ کے حکم سے بغیر عجلت پسندی کے شروع کیا اور صبر و استقامت اور عاقبت اندیشی سے پوری احتیاط کے ساتھ حالات کو دیکھتے ہوئے تبلیغ میں مشغول ہوگئے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس کام میں جلدبازی مضرثابت ہوسکتی ہے اسی لئے آپ نے اللہ کے حکم سے اپنی تبلیغ کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا اور پہلے اس طریقہ سے ابتداء کی جو ممکن ہوسکتا تھا_

پیغمبر اسلام(ص) نے بعثت کی ابتداء میں اپنی دعوت کو اپنی دعوت کو اپنی باوفا بیوی جناب خدیجہ (ع) اور فداکار چچازاد بھائی حضرت علی علیہ السلام سے جو آپ کے گھر میں رہتے تھے شروع کیا_ اللہ تعالی کی طرف سے اپنی اہم ذمہ داری کو انھیں دو کے درمیان ذکر کیا_ فداکاری و باوفا خاتون

۱۶۱

جناب خدیجہ (ع) اور طاقتور و مہربان جوان حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) کی بات سنی اور اسلام کا اظہار کردیا اور وعدہ کیا کہ آپ کے اس کام میں مدد کریں گے_

پیغمبر اسلام (ص) اپنی پہلی دعوت میں ہی کامیاب ہوگئے آپ انھیں دو فداکاروں اور صحیح مددگاروں سے اپنی آسمانی دعوت کی تبلیغ میں مدد طلب کرتے تھے آپ نے ایک طاقتور تبلیغی مرکز اپنے گھر میں بنالیا تھا_ پیغمبر اسلام(ص) ان دو کے ساتھ کبھی گھر میں اور کبھی مسجدالحرام میں اکٹھے نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے_ تھوڑے ونوں کے بعد زید کہ جو پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہتے تھے دین مقدس اسلام پر ایمان لے آئے اور پیغمبر اسلام (ص) کی فکر داخلی لحاظ کے کاملاً مطمئن اور آرام ہوگئی یہاں مناسب ہے کہ تھوڑی سی جناب زید سے واقفیت حاصل کریں_

جناب زید حضرت خدیجہ (ع) کے غلام تھے جناب خدیجہ (ع) نے انھیں پیغمبر اسلام (ص) کو بخش دیا تھا اور آنحضرت (ص) نے انھیں آزاد کردیا تھا وہ باپ کے گھر واپس جاسکتے تھے اور ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے تھے لیکن وہ پیغمبر اسلام (ص) کے اخلاق و صداقت کے اتنا شیفتہ ہوچکے تھے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ رہنے اور زندگی گذارنے کو ترجیح دیتے تھے اور آنحضرت (ص) کے گھر ہی رہ رہے تھے_

پیغمبر اسلام (ص) نے اسلام کی دعوت کو پوری طرح مخفی شروع کیا تھا جب بھی کسی سمجھدار اور روشن دل، آگاہ اور آمادہ انسان کو دیکھتے تو اس سے اپنے مدعا کو بیان کرتے اور قرآن کی آیات اس کے سامنے پڑھتے اس کی وضاحت کرتے اور اسے اسلام لانے کی دعوت دیتے تھے کبھی یہ کام مسجد الحرام کے کسی گوشہ میں، کبھی صفا و مروہ کے کنارے اور کبھی اپنے گھر میں انجام دیتے تھے_

آپ نے تین سال تک اسی روش سے اپنی دعوت کی تبلیغ کی اس مدت میں آپ

۱۶۲

بہت استقلال اور صبر سے فرد فرد سے علیحدہ گفتگو کرتے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیتے اور مسلمانوں سے ملحق ہوجاتے تھے_ اس تین سال کے عرصے میں مسلمان اسلام کو ظاہر نہیں کرتے تھے اور اپنی نماز ادھر ادھر مخفی طور سے پڑھا کرتے تھے کا فر و شرک بھی چونکہ اسلام کے نفوذ اور وسعت سے زیادہ مطلع نہیں ہوا کرتے تھے لہذا وہ بھی اپنا ردّ عمل ظاہر نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی دعوت تبلیغ بے نتیجہ و بے اثر اورپھر چونکہ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو خداپرستی و توحید کی دعوت دیا کرتے تھے اور واضح طور سے بتوں کی مذمت نہیں کیا کرتے تھے لہذا وہ اس سے کوئی خطرہ کا احساس نہیں کیا کرتے تھے_ ان تین سالوں میں خود پیغمبر اسلام(ص) اورمسلمانوں مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے کوئی بھی ان کو پریشان نہیں کرتا تھا لیکن بعثت کے تیسرے سال کے آخر میں ایک واقعہ رونما ہوا کہ جس نے مسلمانوں کو دگرگوں کردیا اور واقعہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے اطراف کے پہاڑ میں مخفی طور سے نماز پڑھنے اورمناجات کرنے میں مشغول تھا_ چند بت پرستوں کا وہاں سے گذر ہوا مسلمانوں کا منظم طور سے رکوع و سجود کرنا ان کے غصہ کا موجب ہوا غصّہ میں آکر انھوں نے مسلمانوں کا برا بھلا کہنا شروع کردیا اور مسلمانوں کی نماز و دعا کا مذاق اڑایا_

مسلمان بھی ان کی بے ادبی و گستاخی سے غصہ میں آگئے ان کا جواب دینا شروع کردیا اور نتیجہ ایک دوسرے کو مارنے و جھگڑا کرنے تک جا پہونچا مسلمانوں کی ایک فرد سعد نامی کہ جنھیں بہت سخت غصہ آیا ہوا تھا اپنے قریب سے اونٹ کی ایک ہڈی اٹھائی اور دوڑتے ہوئے ایک مشرک کے قریب پہونچے اور پورے غصے کے عالم میں اس کے سرپر ماری اس کا سر پھٹ گیا اور خون جاری ہوگیا_

بت پرست مکہ واپس لوٹ آئے اور مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے حادثہ

۱۶۳

کا اپنے لوگوں سے تذکرہ کیا مکہ کے سرداروں سے پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے پیروکاروں کی حالت کو بیان کیا اس وقت سے مشرکوں نے خطرے کو محسوس کرلیا_

پیغمبر اسلام(ص) جناب ارقم کے گھر مخفی طور سے گئے اور وہاں چھپ گئے انھیں دنوں جناب ارقم مسلمان ہوئے تھے مسلمان تنہائی میں پوری طرح لوگوں سے ملاقات کرتے اور اسے اسلام کی دعوت دیتے اور جب پوری طرح مطمئن ہوجاتے تو اسے مخفی طور سے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر لے جاتے تا کہ آپ اس کے سامنے قرآن پڑھیں اور اپنی آسمانی دعوت کی وضاحت کریں اسے خداپرستی و توحید کی طرف بلائیں اور اسلام کی صحیح دعوت دیں_

انھیں دنوں ایک گروہ اسلام لے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ ملحق ہوگیا_ پیغمبر اسلام(ص) کو ان تین سال کی دن رات کی محنت سے کافی کامیابی مل چکی تھی آپ نے زحمتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے چالیس فداکاری مسلمانوں کو ترتیب دیا اور اس کو اس زمانہ کے لحاظ سے اہم کامیابی کہی جاسکتی ہے_

اس زمانہ میں اسلام نے قدرت و طاقت حاصل کرلی تھی اور کفر و بت پرستی کی دنیا میں ایک طاقتور مرکز حاصل کرلیا تھا کیونکہ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ان میں چالیس آدمی صحیح طور پر فداکاری و جانبازی پر آمادہ تھے اور اپنی جان ہاتھوں پر رکھ کر اسلام سے دفاع کرتے تھے_ ان تین سالوں میں اسلام کے پودے نے زمین میں اپنی جگہ بنالی تھی اور اپنی جڑیں دور دور تک پھیلادی تھیں لہذا اب اس درخت کا کاٹنا کوئی معمولی کام نہیں تھا اب پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت و تبلیغ کے دوسرے مرحلہ پر اپنا کام شروع کرسکتے تھے_

قرآن مجید کی آیت:

لقد من الله علی المؤمنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم یتلوا علیهم ایاته و یزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین_

۱۶۴

'' خداوند عالم نے مومنین پر منّت کی جب کہ ان میں انھیں کا ایک رسول بھیجا تا کہ ان پر اللہ کی آیات پڑھے اور ان کا تذکیہ کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں غرق تھے''(۱)

____________________

۱) سورہ آل عمران ۱۶۲

۱۶۵

عالمی دعوت کا اعلان

مكّہ میں مشہور ہوچکا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اپنے آپ کو پیغمبر کہنا شروع کردیا ہے اور ایک گروہ نے آپکی دعوت کو قبول بھی کرلیا ہے اور آپ کی مدد کرنے کا وعدہ بھی کرلیا ہے_ آپ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بلایا اور ایک مجمع عمومی میںانھیں اسلام لانے کی دعوت دی اور اپنی مدد کرنے کو ان سے کہا اور تمام بزرگان قریش کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا و زیر و جانشین مقرر کیا اور تعجب اس میں ہے کہ اس مجمع میں جناب ابوطالب نے آپ سے کوئی اعتراض آمیز گفتگو نہیں کی تھی کہ جس سے گویا ظاہر ہوتا تھا کہ جناب ابوطالب(ع) بھی آپ کی حمایت و مدد کریں گے_ مكّہ کے لوگ اس واقعہ کو ایک دوسرے سے تعجب سے نقل کرتے تھے اب وقت آچکا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت و رسالت کو ظاہر بظاہر اور اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کریں اور ان کو راہ راست کی ہدایت کریں چنانچہ خداوند عالم کی طرف سے آپ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ:

'' اے محمد(ص) (ص) جو کچھ ہم نے تم کو حکم دیا ہے اسے علناً بیان کرو اور حق کو باطل سے جدا کرو و بت پرستوں اور ان کے استہزاء سے مت گھبراؤ کہ ہم انھیں سزا دیں گے''

پیغمبر اسلام(ص) اس پیغام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوہ صفا پر گئے کیونکہ عالم طور پر اہم اعلانات اسی پہاڑ پر ہوا کرتے تھے_ پیغمبر اسلام(ص) پہاڑ کے ایک پتھر کے اوپر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے کہا:

۱۶۶

'' اے مكّہ والو اے قریش والو اے جوانو اے لوگو''

پیغمبر اسلام (ص) کی یہ بلند و آسمانی آواز کہ جس میں خداوند عالم پر ایمان، اس سے عشق اور لوگوں کی ہدایت کرنے کا جذبہ پایا جاتا تھا تمام مکہ والوں کے کان تک پہونچی_ لوگ گھروں سے باہر نکلے اور اس آسمانی آواز کی طرف دوڑے تا کہ پیغمبر اسلام(ص) کی باتیں سن سکیں لوگ گروہ در گروہ آپ کے اردگرد جمع ہوتے گئے اور بے صبری سے نئے واقعہ کو جاننے کا انتظار کرنے لگے پیغمبر اسلام(ص) نے اس مجمع کی طرف نگاہ کی اور فرمایا:

'' اے مکہ والو اے قریش کے مرد و زن اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے ہے اور تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا میری تصدیق کروگے اور کیا دفاع کے لئے تیار ہوجاؤ گے؟

سب نے کہا:

'' اے محمد(ص) ہاں اے محمد(ص) ہاں ہم تمھیں امین، سچّا اور صحیح آدمی سمجھتے ہیں اب تک تم سے کوئی جھوٹ نہیں سنا''

پیغمبر اسلام (ص) نے اس طریقے سے اپنی امانت و صداقت انھیں یاد دلائی اور ان سے اس کا اقرار کرالیا اور اس کے بعد فرمایا:

'' اے لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں، تمھارے اور ساری دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں_ اے لوگو جان لو کہ موت کے آجانے سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی جیسے تم سوجاتے ہو تو مرجاتے ہو اور جب بیدار ہوتے ہوا زندہ ہوجاتے ہو، اسی طرح مرنے کے بعد بھی دوبارہ زندہ ہوگے، قیامت کے دن حساب کتاب کے لئے حاضر کئے جاؤگے اور تمھاری رفتار و گفتار کا حساب و کتاب لیا جائے گا

۱۶۷

نیک کاموں کی جزا اور برے کاموں کی سخت سزا پاؤگے_

اے لوگو میں تمھارے لئے بہترین آئین و قانون لایا ہوں_

دینا و آخرت کی سعادت کی خوشخبری لایا ہوں کہو لا الہ الّا اللہ تا کہ نجات و فلاح پاؤ، خدا کو ایک مان کر عبادت کرو اور ایمان کے ذریعہ تمام دنیا کو عرب کو اور غیر عرب کو یگانہ پرستی کے پرچم تلے لے آو''

مكّہ کے اشراف و بت پرست پیغمبر اسلام (ص) کے اس بیان سے حیرت زدہ ہوگئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے:

'' تعجب ہے محمد(ص) کیا کہہ رہا ہے؟ کس طرح اس نے جرات کی ہے؟ کہ ہمارے سامنے ایک خدا کے ہونے کی بات کرے؟ اسے کس طرح جرات ہوئی کہ ہمارے سامنے ہمارے بتوں کی جو ہمارے خدا ہیں نفی کرے؟

کیا ابوطالب (ع) نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے؟ کیا طاقتور مرید اس کے ہوگئے ہیں کہ جس سے ہم بے خبر رہے ہیں؟ ''

اس وقت ابولہب نے سخت غصّہ میں کہا:

''تم پروائے ہو اسی پیغام کے لئے ہمیں اپنے گھروں سے بلایا ہے؟

لوگ اٹھ گئے اور ہر ایک کوئی نہ کوئی بات کر رہا تھا_ کچھ کہہ رہے تھے: سنا ہے تم نے کہ محمد(ص) نے کیا کہا ہے وہ کہہ رہا تھا کہ:

''میں خداوند عالم کی طرف سے پیغام لایا ہوں''

کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک انسان اللہ کی طرف سے پیغام لے آئے ؟

۱۶۸

کیا ہوسکتا ہے کہ انسان پیغمبر ہوجائے؟ پیغمبر کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم اب ایک خدا کی عبادت کریں؟ کیا ہمارے باپ دادا ایک طویل مدت سے بت پرست نہ تھے؟ کیا اب ہم ان بتوں کوچھوڑدیں؟ محمد(ص) کی دعوت و تبلیغ کو کس طرح روکیں؟ کیا ابوطالب (ع) محمد(ص) کی حمایت و مدد کریں گے؟

پیغمبر اسلام(ص) پہاڑ سے نیچے اترے اور اپنے گھر واپس لوٹ آئے اس کے بعد آپ اپنی رسالت و دعوت کو علنی طور پر بیان کیا کرتے تھے اور کسی کی پروا نہیں کیا کرتے تھے لوگوں کو خداپرستی کی علنی دعوت دیا کرتے تھے_ پیغمبر اسلام(ص) اپنی دعوت میں صرف ایک خدا کی پرستش پر زور دیا کرتے تھے اور بتوں پر بہت کم تنقید کرتے تھے_ بت پرست بھی اس سے مطمئن تھے اور آپ کو زیادہ نہیں چھیڑتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے:

'' ہم اپنے دین پر اور محمد(ص) اپنے دین پر رہیں بہتر یہی ہے کہ جناب ابوطالب (ع) کے احترام اور ان کی شخصیت کا خیال رکھتے ہوئے محمد(ص) کو اسی حالت پر چھوڑدیں اور دیکھیں کہ آگے کیا ہوتا ہے''

اس لحاظ سے پیغمبر اسلام(ص) کی تبلیغ کا یہ تیسرا مرحلہ بخوبی انجام پا رہا تھا اور آپ حالات کے انتظار میں تھے کہ موقع ملے اور آپ اپنی تبلیغ کا چوتھا مرحلہ شروع کریں_

کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام (ص) نے چوتھے مرحلہ کا آغاز کس سے کیا تھا؟ اس مرحلہ میں آپ کا نقطہ نظر کیا تھا اور کس چیز پر آپ اصرار کیا کرتے تھے؟

قرآن کی آیت:

فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین انّا کفیناک المستهزئین

''جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے ظاہر کردیں اور مشرکین کی پروا نہ کریں ہم مسخرہ کرنے والوں کے شر سے آپ کو کفایت کریں گے'' (سورہ حجر ۹۵)

۱۶۹

سوالات

ان سوالات کے بارے میں اپنے دوست سے بحث کیجئے اور درست و کامل جواب کا انتخاب کیجیئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کی تبلیغ کا تیسرا مرحلہ کس طرح شروع ہوا، اس مرحلہ کے شروع کرنے کے لئے اللہ تعالی سے آپ کو کیا حکم ملا تھا؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اس فرمان کے لئے کیا کام انجام دیا تھا اور کہاں؟

۳)___ ان لوگوں سے جو وہاں اکٹھے ہوئے تھے پیغمبر اسلام(ص) نے کیا اقرار لیا تھا اور آپ کا اس سے کیا مقصد تھا؟

۴)___ اپنی رسالت کا اعلان کس طرح کیا، پیغام میں کن چیزوں کا ذکر تھا؟ ان کو بیان کرو_

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) اس مرحلہ میں کس چیز کے بیان کو اہمیت دیتے تھے_

۶)___ بزرگان مكّہ پیغمبر اسلام(ص) کے اس پیغام کو سننے کے بعد ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے؟

۷)___ کیا مكّہ کے مشرکین اس مرحلہ میں پیغمبر اسلام(ص) سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے اور کیوں؟

۱۷۰

ہر قسم کی سازش کی نفی

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو اللہ کی طرف ہدایت کرتے تھے آپ دن رات لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے سخت محنت کیا کرتے تھے، اسلام کے حیات بخش آئین کی ترویج میں کو شاں رہتے تھے اب جب کہ مسلمانوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اسلام کی طاقت پھیلتی جارہی تھی تو آپ نے حق کو باطل سے جدا کرنے اور بتوں و بت پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اقدام کیا تا کہ بت پرستی کا عبث فعل سارے لوگوں پر واضح ہوجائے لوگ اپنی بدبختی و ذلت کے اسباب و عوامل کو پہچانیں کیونکہ اگر لوگ اپنی ذلت و رسوائی کی علت کو نہ جانیں گے تو کس طرح اسے ختم کرسکیں گے؟ اگر لوگ بت پرستی کے رواج دینے والوں کے غلط مقصد سے آگاہ نہ ہوں گے تو کس طرح اس کا مقابلہ کرسکیں گے؟ اگر لوگ بت پرستوں کے سرداورں کی فریب کاری سے مطلع نہ ہوں گے تو کس طرح ان سے نجات حاصل کرسکیںگے؟

لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیئے اور اللہ تعالی کا واضح پیغام لوگوں کے سامنے پڑھا جانا چاہیئے اسی لئے پیغمبر اسلام(ص) نے اپنی دعوت کے چوتھے مرحلہ کو شروع کریا اور بت پرستی کی پوری طرح مذمت اور اس پر تنقید کی، بت پرستی کے رواج دینے والے سرداروں کے اندرونی اغراض کو واضح بیان کر کے ان کو ذلیل کیا اور ان کے ظلم و پلید مقاصد سے پردہ اٹھایا_

بت پرستی کے سرداروں نے اس سے زیادہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرلیا اور اپنے پلید

۱۷۱

منافع کے خطرے میں پڑنے سے خوفناک ہوگئے اور سوچنے لگے کہ کس طرح اسلام کی طاقت کا مقابلہ کیا جائے اور کس طرح لوگوں کو خداپرستی سے دور رکھا جائے کیا محمد (ص) کو ان کی تبلیغ سے روکا جا سکتا ہے؟

پہلے پہل تو انھوں نے بات چیت اور صلح و صفائی کی خواہش کی بت پرستوں کے چند سردار جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے کہا:

'' اے ابوطالب (ع) آپ کیوں خاموش بیٹھے ہیں؟ کیوں ہمارے کام کے متعلق نہیں سوچتے؟ کیوں محمد (ص) کو کچھ نہیں کہتے؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے شہر کے امن کو ختم کرکے اور ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کرکے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے؟ کیا نہیں جانتے کہ وہ ہمارے غلاموں کو دھوکہ دیتے ہیں؟

اب تک ہم آپ کے احترام کی وجہ سے ان سے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن اب انھوں نے پاؤں پھیلانا شروع کردیا ہے اورہمارے بتوں کے متعلق جسارت کرنی شروع کردی ہے کیا آپ نے سنا ہے کہ وہ بت پرستی کو ایک سفیہانہ کام بتلاتے ہیں؟ کیا جانتے ہیں کہ وہ ہمارے باپ دادا کو گمراہ و نادان بتلاتے ہیں؟ کیا ہم اب بھی اس کو برداشت کرسکتے ہیں؟ آپ انھیں بلائیں اور ان سے کہیں کہ اس قسم کی باتوں سے دست بردار ہوجائیں''_

جناب ابوطالب (ع) نے اپنے بھتیجے سے ملاقات کی اور بت پرستوں کی بات کو ان کے سامنے بیان کیا اور کہا:

۱۷۲

'' اے میرے بھتیجے انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم بتوں کے بارے میں جسارت کرتے ہو اور بت پرستی کو ایک غیر عاقلانہ کام بتلاتے ہو انھوں نے خواہش کی ہے کہ تم اس کام سے دست بردار ہوجاؤ صرف اسلام کے آئین و قانون کی تبلیغ و ترویج کرو بتوں اور بت پرستوں سے سرو کار نہ رکھو''_

پیغمبر اکرم (ص) نے جناب ابوطالب (ع) کے جواب میں فرمایا:

'' چچا جان لوگوں کی پوری بدبختی اسی بت پرستی میں ہے یہ سردار بت پرستی کے بہانے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق کو غصب کرتے ہیں_ ایک خدا کی طرف بلانا، بتوں کی نفی، اللہ تعالی کی بندگی اور ظالموں کے پنجے سے آزادی کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے_ چا جان مجھے خداوند عالم کی طرف سے ایسا ہی حکم ملا ہے اور اس کام کو انجام دیتا ہوں گا''

بت پرستوں کی طرف سے صلح و صفائی اورمصالحت کی کئی دفعہ خواہش کی گئی تھی انھوں نے کئی دفعہ اس بارے میں جناب ابوطالب (ع) سے بات چیت کی لیکن اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو اور بالآخرہ انھوں نے سوچا کہ محمد(ص) کو جاہ مال کا وعدہ دے کر دھوکہ دیا جائے یا ڈرایا اور دھمکایا جائے لہذا پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے یوں گفتگو کی:

'' اے ابوطالب (ع) محمد (ص) سے پوچھ کہ تمھاری اس تبلیغ کا کیا مقصد ہے اور کیا چاہتے ہو؟ کیا مال و دولت چاہتے ہو؟ کیا طاقت و قدرت اور حکومت چاہتے ہو؟ کیا بیوی اور اچھی زندگی چاہتے ہو؟ اگر مال و دولت چاہتے ہو تو ہم اسے اتنی دولت دے دیں گے

۱۷۳

کہ وہ قریش کا ثروت مند ترین فرد ہوجائے_ اگر جاہ و جلال چاہتے تو حجاز کی حکومت و زمامداری اس کے اختیار میں دے دیں گے اور اگر ابھی زندگی و بیوی چاہتے ہو تو اس کے لئے خوبصورت ترین اور بہترین عورت انتخاب کردیتے ہیں_

جو بھی وہ چاہیں ہم اس کے پورا کرنے کے لئے حاضر ہیں لیکن صرف ایک شرط ہے کہ وہ اپنی گفتگو سے دست بردار ہوجائیں اور ہمارے بتوں سے کوئی سر و کار نہ رکھیں''

پیغمبر اسلام (ص) ان کی ان خواہشات کے جواب میں جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہیں گے؟ کیا یہ وعدے انھیں فریب دے سکیں گے؟ کیا لوگوں کی ہدایت و نجات سے دست بردار ہوجائیں گے؟ کیا ظالموں کی خوشنودی کو اللہ تعالی کی خوشنودی اور محروم طبقے کی خوشنودی پر ترجیح دے دیں گے؟ نہیں اور ہرگز انہیں وہ اپنے راستہ سے نہیں ہٹیں گے اور یقینا یہ جواب دیں گے:

'' چچا جان یہ میری تبلیغ اپنی طرف سے نہیں ہے کہ میں اس سے دست بردار ہوجاؤں بلکہ یہ خدا کی طرف سے ہے خدا نے مجھے پیغمبری کے لئے چنا ہے کہ تا کہ اس کا پیغام لوگوں تک پہونچاؤں اور انھیں ظلم و ستم اور گمراہی سے نجات دلواؤں، خداپرستی و توحید کی دعوت دوں''_

اس وقت جناب ابوطالب (ع) آپ پر محبت بھری نگاہ کئے ہوئے تھے اور آپ کہہ رہے تھے:

'' چچا جان خدا کی قسم اگر چمکتے ہوئے سورج کو میرے دائیں ہاتھ

۱۷۴

پر رکھ دیں اور روشن چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر (یعنی تمام ثروت و جہان کی زیبائی اور قدرت مجھے بخش دیں) تب بھی میں اس فریضہ کی ادائیگی سے دست بردار نہ ہوں گا یہاں تک کہ میں اس میں کامیاب اور فتحمند ہوجاؤں یا شہید کردیا جاؤں_

چچا جان ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ان خواہشات کی جگہ صرف ایک کلمہ لا الہ الّا اللہ کہہ دیں تا کہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں''_

جب بت پرستوں کو جاہ و جلال اور مال و دولت کی لالچ دینے سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور کہا:

'' اے ابوطالب (ع) تم ہمارے شہر و قبیلہ کے سردار اور ہماری اس مشکل کو تم ہی حل کرو کہ تمھیں ایک خوبصورت بچہ دیتے ہیں تا کہ اسے تم اپنا بیٹا بنالو، محمد(ص) کی حمایت سے دست بردار ہوجاؤ اور ہم اسے قتل کردیں''_

ابوطالب (ع) ان کی اس بات کو سنتے ہی غصہ میں آگئے اور ان سے کہا:

'' اپنے بھتیجے کو تمھیں دے دوں تا کہ تم اسے قتل کردو یہ تمھاری کتنی شرمناک بات ہے قسم خدا کی ایک لحظہ کے لئے بھی محمد (ص) کی حمایت اور مدد سے ہاتھ نہ کھینچوں گا''_

اب ہم مسلمانوں کا بھی یہی فریضہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اس راستہ پر چلیں اور کفر مادی گری، طاغوت و طاغوتوں کا مقابلہ کریں اور ان کی ہر طرح کی مدد سے پرہیز کریں تا کہ دنیا کے مظلوم اور محروم طبقے کو نجات دلاسکیں_ دیکھیں ہم کس حد تک ا س فریضہ کی انجام دہی میں کامیاب ہوتے ہیں_

۱۷۵

قرآن کی آیت:

( فلذلک فادع واستقم کما امرت و لا تتّبع اهوائهم و قل امنت بما انزل الله من کتاب و امرت لاعدل بینکم الله ربّنا و ربّکم ) (۱)

'' آپ اسی کے لئے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان کے خواہشات کا اتباع نہ کریں اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان انصاف کروں اللہ ہمارا اور تمھارا دونوں کا پروردگار ہے''_

____________________

۱) سورہ شوری آیت ۱۵

۱۷۶

سوالات

ان سوالات کے صحیح جوابات دیجئے اوران پر اچھی طرح بحث کیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کے چوتھے مرحلہ کی خصوصیات کیا تھیں، آپ اس مرحلہ میں کیوں بتوں اور بت پرستوں کی مذمت کیا کرتے تھے؟

۲)___ بت پرستوں کے سردار کیوں خطرہ محسوس کرتے تھے؟ کیا تدبیریں انھوں نے سوچیں اور جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہا تھا؟

۳)___ پیغمبر (ص) نے ان کی سازشوں کو کس طرح ٹھکرایا؟

۴)___ بت پرستوں کے سرداروں نے اپنی سازش کو کس صورت مین پیش کیا انھوں نے کون سے وعدے کئے تھے اور پیغمبر اسلام (ص) کا جواب کیا تھا؟

۱۷۷

پیغمبر (ص) اور مستضعف

مسجد نبوی کے نزدیک ایک بر آمدہ تھا کہ جس کی دیواریں گارے اور مٹی کی انیٹوں سے بنائی گئی تھیں اور اس کی چھت خرما کے پتوں کی تھی اور اسے صفّہ کہا جاتا تھا_ مسلمانوں کا ایک نادار گروہ کہ جن کا مدینہ میں کوئی گھر نہ تھا اسی صفّہ میں رہا کرتے تھے_ پیغمبر خدا (ص) ان سے بہت مانوس تھے ان کے پاس بیٹھتے اور گفتگو کیا کرتے تھے آپ انھیں دوست رکھتے تھے اور اپنے اصحاب سے کہا کرتے تھے کہ ان کی مہمان نوازی و دلجوئی کیا کریں_ آپ کبھی انھیں اپنے گھر لے آتے اور بہت احترام سے ان کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے اور کبھی ان کے پاس کھانا لے جایا کرتے تھے_

یہ اللہ کے نیک بندے پیغمبر اسلام (ص) کے اردگرد بیٹھا کرتے تھے اور آپ سے مانوس تھے دین کے احکام پوچھتے اور قرآن و احادیث یاد کیا کرتے تھے_ جب پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں ہوا کرتے تھے تو اکثر یہی لوگ اور مدینہ کے دوسرے فقراء پیغمبر(ص) کے اردگرد بیٹھتے اور آپ کی باتوں کو سنتے تھے اہل وطن بھی ان کا احترام کیا کرتے تھے_

پیغمبر اسلام (ص) کی معاشرہ کے تمام محروم اور مستضعف طبقے سے اسی قسم کی رفتار ہوا کرتی تھی لیکن بعض لوگ پیغمبر اسلام (ص) کی اس رفترا کو ناپسند کرتے تھے اور کبھی کبھار آپ پر اعتراض بھی کرتے تھے اور کہتے تھے آپ کیوں اتنی اس فقیر اور چھوٹے طبقے سے آمد و رفت رکھتے ہیں اور ان سے اچھا سلوک کرتے ہیں ؟ آپ انھیں اپنے پاس بیٹھتے کی کیوں اجازت دیتے ہیں؟

۱۷۸

فقراء کے سا تھ بیٹھنا آپ کے مقام و مرتبہ کو کم کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اشراف و مالدار لوگ آپ سے دوری کرتے ہیں کیونکہ وہ فقراء کے ساتھ زانو ملاکر بیٹھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس فعل کو وہ اپنے لئے کسرشان سمجھتے ہیں اگر آپ انھیں اپنے سے دور کردیں تو ثروتمند اور اشراف اسلام کی طرف زیادہ رغبت کریں گے اور ان کی توجہ و مدد سے اسلام مضبوط ہوگا لیکن اعتراض کرنے والے ایسے لوگ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کا مبعوث ہونا انھیں جاہلیت کے رسوم اور وقار کو بدلنے کے لئے ہوا کرتا ہے_

اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کا بھیجا تا کہ آپ اپنی گفتار و رفتار سے صحیح وقار کو قائم کریں اور لوگوں سے کہیں کہ شرافت و تقوی اللہ پر ایمان لانے میں ہے_ اسلام کی نگاہ میں اسے شریف کہا جاتا ہے جو متقی و مومن ہوا اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لے آتے ہیں وہی در حقیقت شریف و بزرگوار ہیں_

انھیں مستضعفین میں سے ایک خدا اور رسول (ص) اور آخرت پر ایمان لانے والے جناب سلمان فارسی تھے ان کے پاس ایک اون کی عبا تھی کہ وہی ان کا دسترخوان و بستر تھا اور اسی کو رات میں اوڑھتے اور دن میں اس کو لباس بناتے تھے_ پیغمبر اسلام (ص) سلمان فارسی سے بہت محبت کرتے ت ھے اور انھیں شرافت و تقوی سے متصف بیان کرتے تھے اوراپنے اہلبیت (ع) میں شمار کیا کرتے تھے_

ایک دن جناب سلمان فارسی پیغمبر اسلام (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھیں اشراف میں سے ایک آپ کے پاس آیا اور ایک نگاہ سلمان فارسی کے پھٹے لباس، آفتاب سے جلے ہوئے چہرہ اور ورم شدہ ہاتھوں پر ڈالی اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) جب ہم آپ کے پاس آتے ہیں تو یہ فقیر پھٹا لباس پہنے آپ کے پاس ہوتا ہے بہتر ہے کہ آپ اس کے

۱۷۹

فرمائیں کہ وہ آپ کے پاس کم آیا کرے اور آپ سے دور بیٹھا کرے''_

جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اس قسم کے لوگوں کے جواب میں کیا فرمایا؟ آپ نے فرمایا کہ

'' کسی انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت نہیں ہوا کرتی عرب، عجم، سیا ہ و سفید سب کے سب اللہ کے بندے اور حضرت اکرم (ع) کی اولاد ہیں، فضیلت و شرافت، تقوی اور پرہیزگاری سے ہوا کرتی ہے''

یہی رسول خدا (ص) کی دوستی و دشمنی کا معیار تھا آپ متقیوں کے دوست اور ان پر مہربان تھے اگر چہ پھٹے لباس پہنے ہوئے فقیر و نادار ہی کیوں نہ ہوں اور آپ مستکبرین سے جو اللہ تعالی سے بے خبر ہوا کرتے تھے دشمنی رکھا کرتے تھے اگر چہ وہ مالدار اور طاقتور ہی کیوں نہ ہوں_

ایک دن ایک متقی انسان پیغمبر اسلام (ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور بات کرنے میں منہمک تھا اسی حالت میں مدینہ کے اشراف و مالدار طبقہ سے ایک آدمی حضور (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا پیغمبر اسلام (ص) نے اسے فرمایا کہ یہاں نزدیک آکر بیٹھو لیکن وہ دور ہی بیٹھ گیا_ آپ اس کے اس فعل سے بہت متاثر ہوئے اورناراضگی کے عالم میں فرمایا:

'' کیوں نزدیک آکر نہیں بیٹھتے ہو؟ کیا ڈرگئے ہو کہ اس مومن کا فقر اور نادانی تیری طرف سرایت کر جائے گی؟ تو نے سوچا کہ شاید تیری دولت سے کچھ کم ہوجائے گا؟ ''

یہ شخص بجائے اس کے کہ اپنی خودخواہی اور کبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تکبّر سے کہنے یہ شخص بجائے اس کے کہ اپنی خودخواہی اور کبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تکبّر سے کہنے لگا کہ:

'' ہم نہیں چاہتے کہ ان جیسے فقیر اور بے سر و پا انسانوں کے ساتھ بیٹھیں بہتر یہ ہوگا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ یہاں کم آیا کریں اور دور ہوکر بیٹھا کریں''_

۱۸۰

اس وقت جبرئیل اللہ تعالی کی طرف سے یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ:

'' اے پیغمبر (ص) ان لوگوں کو جو صبح و شام اللہ کی یاد میں ہوتے ہیں اور نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس میں سوائے اللہ تعالی کے رضا کے اور کوئی غرض نہیں رکھتے اپنے سے دور نہ ہٹانا ان کا حساب تم سے اور تمھارا حساب ان سے نہیں لیا جائے گا (سبھی اللہ کے بندے ہیں اور خدا تمھارے اعمال و کردار سے واقف ہے) اگر تم نے انھیں اپنے سے دور کیا تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے''

رسول خدا(ص) نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء و محروم اور مستضعف طبقہ سے اپنا ربط زیادہ کردیا اور ان سے زیادہ آمد و رفت رکھتے تھے اور ان سے بہت گرمجوشی و محبت اور پیار سے گفتگو کیا کرتے تھے کیونکہ خداوند عالم نے انھیں اس آیت میں نماز قائم کرنے اور صبح و شام اللہ کی یاد میں رہنے اور رضائے خدا کے لئے کام کرنے والا شمار کیا ہے ان کی نماز و دعا کو بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا ہے پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے فرمایا:

'' لوگوں کی ملامت کی پروا نہ کیا کرو اور پورے اطمینان سے میرے پاس آیا کرو کہ میں تمھاری ہمنشینی پر فخر اور مباہات کرتا ہوں''_

۱۸۱

پیغمبر(ص) کی رفتار اور اخلاق:

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم بہت خوش اخلاق اور مہربان تھے وہ ہر ایک کے خیرخواہ و دلسوز تھے اور سبھی کی ہدایت کرنے میں کو شاں رہتے تھے بالخصوص فقراء اور بے چاروں کے ساتھ زیادہ لطف و عنایت کیا کرتے تھے ان کے ساتھ مخلصانہ رویہ برتتے تھے اور ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر ان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے_

آپ لوگوں کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح تھے، بڑوں کا احترام کیا کرتے تھے اور چھوٹوں اور جوانوں سے بڑا نرم رویہ رکھتے تھے، بچوں کو سلام کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے

'' کہ میں چاہتا ہوں کہ بچوں کو سلام کرنا عام رواج پاجائے تا کہ تمام مسلمان اس اچھی روش کی پیروی کریں اور بچوں کو سلام اور ان کا احترام کریں''

پیغمبر اسلام (ص) تمام انسانوں اور ہمارے لئے زندگی کا نمونہ اور اسوہ ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

'' پیغمبر خدا(ص) مومنین کے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں تمام مومنین کو چاہیئے کہ آپ کی رفتار و کردار اور اخلاق سے درس حاصل کریں اور آپ کی پیروی کریں''

پیغمبر اسلام (ص) اپنے رشتہ داروں سے آمد و رفت رکھا کرتے تھے ان پر احسان کیا کرتے تھے اور مسلمانوں سے بطور تاکید فرمایا کرتے تھے کہ:

'' رشتہ داروں سے آمد و رفت، مہر و محبت اورمخلصانہ ارتباط رکھا کرو

۱۸۲

اورمشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو''_

رسول خدا(ص) بیماروں کی عیادت کیا کرتے اور ان کے جنازوں میں شریک ہوا کرتے تھے اور مسلمانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ:

'' وہ بھی جنازوں میں شریک ہوا کریں اور جو لوگ مرگئے ہیں ان کے لئے اللہ تعالی سے رحمت و مغفرت طلب کیا کریں، جنازے کو دیکھنے سے عبرت حاصل کریں، بیدار ہوں، جان لیں کہ ان کی زندگی بھی ختم ہوجائے گی اور آخرت کے راستہ کے لئے بہترین زاد راہ تقوی ہے''_

پیغمبر اسلام(ص) لباس و خوراک میں بہت کفایت شعاری سے کام لیتے تھے، مختلف طرح کے کھانوں سے پرہیز کیا کرتے تھے آپ کی غذا سادہ اور تھوڑی ہوا کرتی تھی، آپ کا لباس سادہ اور کم قیمت کا ہوا کرتا تھا_ معاشرہ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور آپ اپنے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے، کبھی اپنے لباس کو خود اپنے ہاتھوں سے پیوند لگایا کرتے تھے اور کبھی اپنی جوتیوں کوٹا نکتے تھے_

آپ بہت متواضع او رمخلص تھے جب کسی محفل میں وارد ہوتے تو وہاں بیٹھ جاتے جہاں جگہ خالی نظر آتی کسی خاص جگہ پر بیٹھتے کے متمنی نہ ہوتے تھے تمام اہل فلس کا احترام کیا کرتے تھے اور گفتگو کرنے کے وقت سبھی کی طرف متوجہ ہوا کرتے تھے، دوسروں کی بات کو غور سے سنتے تھے کسی کی بات کو نہیں کاٹتے تھے آپ بہت با حیا اور کم گو تھے_ ضرورت سے زیادہ بات نہیں کیا کرتے تھے کبھی مزاح بھی کرلیا کرتے تھے لیکن پوری طرح متوجہ ہوتے تھے کہ اس سے کس کی دل آزاری نہ ہو اور ناحق بات بھی نہ ہو_

غیبت، تہمت ، افتراء و جھوٹ اور ہر بری بات سے اجتناب کیا کرتے تھے لوگوں

۱۸۳

سے ہدیئے کو قبول کرتے ت ھے لیکن کوشش کرتے تھے کہ اس سے بہتر اور زیادہ اسے واپس کریں_ مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کریں تا کہ محبت زیادہ ہو اور کینہ دلوں سے دور ہو_ ولیمہ کی سادہ دعوت و مہمانی کو قبول کیا کرتے تھے اور فقراء و محروم طبقے کے ساتھ وہاں جایا کرتے تھے آپ اس قدر خوش اخلاق اور مہربان تھے کہ خداوند عالم آپ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

'' اے پیغمبر (ص) تیرا خلق و عادت بہت عظیم و پسندیدہ ہے اور تو مومنین کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہے''_

قرآن مجید کی آیت:

( و لا تطرد الّذین یدعون ربّهم بالغداة و العشّی یریدون و جهه ما علیک من حسابهم من شییء و ما من حسابک علیهم من شییء فتطردهم فتکون من الظّالمین ) (۱)

'' خبردار جو لوگ صبح و شام اپنے خدا کو پکارتے ہیں اور خدا ہی کو مقصود بنائے ہوئے ہیں انھیں اپنی بزم سے الگ نہ کیجئے نہ آپ کے ذمہ ان کا حساب ہے اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے کہ آپ انھیں دھتکاریں اور اس طرح ظالموں میں شمار ہوجائیں''_

____________________

۱) سورہ انعام آیت ۵۲

۱۸۴

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ اصحاب صفّہ کن لوگوں کو کہا جاتا ہے، پیغمبر اسلام(ص) کا ان کے ساتھ کیسا سلوک تھا؟

۲)___ کون سے لوگ پیغمبر(ص) پر محروم طبقے کے ساتھ بیٹھنے پر اعتراض کیا کرتے تھے اور پیغمبر اسلام(ص) سے کیا کہا کرتے تھے؟

۳)___ جاہلیت کی چند رسوم کو شمار کرو اور بتلاؤ کہ اسلام میں پیغمبر (ص) کے نزدیک ان کی کیا قیمت تھی اور ان رسوم کے بدلنے میں پیغمبر اسلام(ص) کیا اقدام کرتے تھے؟

۴)___ اسلامی تہذیب میں کسے شریف انسان کہا جاتا ہے؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) کا رویہ جناب مسلمان فارسی کے ساتھ کیسا تھا؟ پیغمبر (ص) سلمان فارسی کو کیوں دوست رکھتے تھے اور ان کا کیوں احترام کرتے تھے؟

۶)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس شخص کو کہ جس نے پیغمبر (ص) پر سلمان فارسی کے ساتھ بیٹھنے پر اعتراض کیا تھا کیاب جواب دیا تھا؟

۷)___ رسول خدا (ص) کا کسی سے دوستی اور روشنی کرنے کا کیا معیار تھا؟

۸)___ جبرئیل نے محروم طبقے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے سلسلہ میں کیا پیغام دیا تھا؟

۹)___ ''اسوہ'' کے کہتے ہیں اور کون شخص مسلمانں کے لئے ''اسوہ'' بن سکتا ہے؟

۱۰)___ مندرجہ ذیل چیزوں میں پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت کو بیان کرو:

فقراء اور ناداروں کے ساتھ گھر میں خوراک و غذا کے بارے میں

لوگوں کی ہدایت کرنے میں مزاح کرنے، بات سننے اور بات

بڑوں، چھوٹوں اور جوانوں کے ساتھ کرنے، ہدیہ دینے و ہدیہ لینے

رشتہ داروں، بیماروں و مردوں کے ساتھ اور مہمانی کے سلسلہ میں

۱۸۵

پانچواں حصّہ

اسلام اور اس کے سیاسی و اجتماعی اور اخلاقی امور

۱۸۶

اسلام کی عظیم امّت

قرآن مجید تمام مسلمانوں کو ایک امّت قرار دیتا ہے کیونکہ سبھی ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں اور ایک پیغمبر (ص) و معاد کو قبول کرتے ہیں اور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو اللہ تعالی کا آخری پیغمبر مانتے ہیں ، قرآن کو آسمانی اور عملی آئین تسلیم کرتے ہیں، سبھی کا ایک ہدف ہے اور وہ ہے احکام الہی کا تمام جہاں میں جاری کرنا اورنظام توحیدی کو عمل میں لانا_ نظام توحیدی اس نظام کو کہا جانتا ہے جو خداپرستی، اللہ تعالی کی رہبری اور احکام الہی کے اجرا پر مبنی ہو_

کیا تم مسلمانوں کی تعداد کو جانتے ہو؟ کیا کبھی اتنی کثیر جمعیت کی طاقت کا اندازہ لگایا ہے؟ مسلمانوں کی تعداد پوری دنیا میں بہت زیادہ ہے (جو تقریباً ایک ارب ہے) مسلمان مختلف شہروں، قصبوں، صوبوں، ملکوں اور برّا عظموں میں رہتے ہیں، مختلف اقوام پر مشتمل ہیں، مختلف زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں، مختلف جگہوں پر مختلف گروہوں پر حکومت کرتے ہیں اور انھوں نے اپنی حکومت کے لئے سرحدین بنا رکھی ہیں_

لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ یہ تمام کے تمام اپنے ملک کے افراد کے حالات کو نظر رکھتے ہیں اور بقیہ مسلمانوں کے لئے جوان ممالک کے باہر دوسرے ممالک میں زندگی گذارتے ہیں کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ انھیں اجنبی و بیگانہ سمجھتے ہیں لیکن اسلام اور قرآن اس کوتاہ فکری کو قبول نہیں کرتا بلکہ تمام جہاں کے مسلمانوں کو خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کسی

۱۸۷

زبان میں بھی باتیں کریں ایک امّت قرار دیتا ہے_ خیالی اور وہمی سرحدیں تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتیں اگر چہ مسلمانوں کی سرزمینیں مختلف حکومتوں سے ہی کیوں نہ چلائی جارہی ہوں_ مسلمان ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ نہیں ہیں بلکہ تمام کے تمام اسلام، مسلمان اور اس عظیم اسلامی معاشرے میں مشترک ذمہ دار ہیں_

اسلامی حکومت کے سر براہوں کو نہیں چاہیئے اور نہ ہی وہ کرسکتے ہیں کہ اسلامی حکومتوں کو ایک دوسرے سے اجنبی قرار دیں اور وہ بے خبر رہیں حالانکہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:

'' جو بھی مسلمانوں کے امور کی صلاح کی فکر میں نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے''_

پیغمبر اسلام (ص) کے اس فرمان کے بعد کیا وہی سرحدیں اور خطوط مسلمانوں کو ایک دوسرے سے اجنبی قرار دے سکتی ہیں؟ کیا جغرافی حدود اسلامی برادری اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داریوں کو محدود کرسکتی ہیں؟ کیا ایک ثروت مند ملک کہ جس کی آمدنی بہت زیادہ ہو دوسری اسلامی حکومتوں سے جو فقیر ہو بے پروا رہ سکتا ہے؟ کیاایک اسلامی آزاد اور ترقی یافتہ ملک دوسرے اسلامی ملک سے جو دوسروں کے زیر تسلط ہو بے توجہ رہ سکتا ہے، کیا حکم نہیں ہے کہ ہر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمانوں کے امور کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے؟

اسلامی سرزمین سے د فاع کرنا:

اگر کسی مسلمان حکومت پر کوئی ظالم حملہ کردے تو جانتے ہو کہ دوسرے اسلامی ممالک کی کیا ذمہ داری ہے؟ تمام ممالک اسلامی پر واجب اور لازم ہے کہ اپنی تمام قوت اور فوج کو لے کر اس ظالم حملہ آور پر حملہ کردیں اور اس متجاوز ظلم کو پوری طاقت سے اس ملک

۱۸۸

سے دور کریں کہ جس پر اس نے حملہ کیا تھا اس لئے کہ ایک اسلامی حکومت پر حملہ کرنا پوری دنیائے اسلام اور پیغمبر اسلامی(ص) کی عظیم امت پر حملہ کرنا ہوتا ہے_

اگر پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں اسلامی ملک کے کسی گوشہ پر حملہ کیا جاتا تو پیغمبر اسلام (ص) کیا کرتے اور اپنا اس کے متعلق کیا ردّ عمل ظاہر کرتے؟ کیا یہ ہوسکتا تھا کہ آپ خاموش رہتے اور کوئی عملی اقدام نہ کرتے؟

ہرگز نہیں یہ ممکن ہی نہیں تھا بلکہ پیغمبر اسلام (ص) مسلمانوں کے عظیم لشکر کو اسلام کی سرزمین کے دفاع کے لئے روانہ کرتے اور جب تک دشمن کو وہاں سے نہ ہٹا دیتے آرام سے نہ بیٹھتے_ پیغمبر اکرم(ص) نے اس عظیم ذمہ داری کی بجا آوری موجودہ زمانہ میں اسلامی معاشرہ کے رہبران الہی پر ڈال رکھی ہے اور اس کی بجاآوری انھیں کی ذمہ داری ہے_

تمام مسلمانوں سے اور بالخصوص ان مذہبی رہبروں سے امید ہے کہ وہ اسلامی ممالک کی سرزمین کی اور اسلام کی اعلی و ارفع قدر و قیمت کی پوری طاقت و قوت سے حفاظت کریں اور اجنبیوں کے مظالم کو اسلامی مملک سے دور رکھیں_

مشترک دشمن کے مقابل مسلمانوں کا اتحاد:

مسلمانوں کو یہ حقیقت ماننی چاہیئے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کی برادری اور خلوص سے زندگی کرنی چاہیئے اور کفر و مادی گری جو تمام مسلمانوں کامشترک دشمن ہے اس کے مقابل متحد ہونا چاہیئے_

اسلام کے دشمن ہی نے تو مسلمانوں میں اختلاف ڈال کر یہ ملک اور وہ ملک یہ قوم اور وہ قوم یہ برا عظم اور وہ برّا عظم بنا رکھا ہے حالانکہ تمام مسلمان ایک اور صرف ایک ملّت

۱۸۹

ہیں اور انھیں مشترک دشمن کے مقابل یعنی کفرو مادّی گری و جہان خوار اور استکبار کے سامنے متحد ہوکر مقابلہ کرنا چاہیئے اس صورت میں دشمن کبھی جرات نہ کرسکے گا کہ اسلامی سرزمین کے کسی گوشہ پر تجاوز کرسکے اور ان کی دولت و ثروت کو لوٹ لے جائے اور مسلمانوں کی عزت و شرف اور صحیح فرہنگ کو نابود کرسکے_

جہان اسلام کی وحدت اور استقلال کی حفاظت:

مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ کفر سے چشم پوشی کرتے ہوئے جہان اسلام کی وحدت اور ان کی داخلی طاقت کی تقویت اور اس کے کامل استقلال کے لئے کوشش کریں تا کہ وہ شرق و غرب کے شدید و خطرناک طوفان کے مقابل آزاد اور باوقار زندگی بسر کرسکیں_

مسلمان تب ہی فتحیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے جب وہ اپنی عظیم طاقت پر انحصار کرے اور اسلام کے دشمن پر سہارا نہ کرے اسلام کے دشمن کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے_ اسلام کے دشمنی دوستی کا اظہار بھی کریں تو وہ جھوٹ بولتے ہیں اور سوائے مکر و حیلہ اور ثروت کو لوٹنے کے اور کوئی ان کی غرض نہیں ہوتی اور ان کے عہد و پیمان پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:

''کافروں کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ ان کے عہد و پیمان بے اعتبار اور بے فائدہ ہوا کرتے ہیں''_

مسلمانوں کو متحد ہونا چاہیئے اور کسی بھی حکومت کو اجازت نہ دیں کہ اسلامی ممالک میں معمولی مداخلت بھی کرسکیں_

۱۹۰

خدا قرآن میں فرماتا ہے:

( '' و الّذین معه اشدّاء علی الکفّار رحماء بینهم ) (۱)

'' یعنی مومنین کو کافروں کے مقابل میں سخت ہونا چاہیئے اور آپس میں بہت مہربان اور ہمدرد''

لہذا ساری دنیا کے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے سر براہوں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ ایک اسلامی وسیع نظری کی بناپر تمام عالم اسلام کو ایک جانیں اور آپس میں ہمدردی، تعاون و برادری اور اتحاد کا معاہدہ کریں اور اسلامی کی اعلی ترین مصالح کی خاطر معمولی اختلافات سے صرف نظر کریں، اختلاف پیدا کرنے والے عوامل و اسباب کا مقابلہ کریں اور اپنے معمولی اختلاف و کدورتوں کو حسن نیت اور حسن اخلاق سے ححل کریں اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کریں کہ عالم اسلام اورمسلمانوں کی صفوں میں اختلاف پیدا نہ ہو_

متجاوز سے نمٹنے کا طریقہ:

اگر مسلمانوں کی حکومت میں سے کوئی حکومت دوسروں کے ایماء پر کسی دوسری مسلمان حکومت پر حملہ کرے تو سارے مسلمانوں بالخصوص ممالک اسلامی کے سر براہوں کی ذمہ داری ہوگی کہ فوراً ان کے اختلاف کو حل کریں، ان میں صلح و صفائی کرادیں اور عالم اسلام کو بہت بڑے خطرے یعنی اختلاف و تفرقہ سے نجات دلائیں اور پوری غیر جانبداری سے متجاوز کو پہچانیں اس کا اعلان کریں اور اس کو حکم دین کہ وہ اپنے تجاوز سے دست بردار ہوجائے اور اگر اس

____________________

۱) سورہ فتح آیت ۲۹

۱۹۱

کے باوجود بھی وہ اپنی ضد پر باقی رہے اور اپنے تجاوز سے دست بردار نہ ہو پھر فریضہ کیا ہوگا؟

تمام مسلمانوں کا فریضہ ہوگا کہ متجاوز سے اعلان جنگ کریں اور پوری طاقت سے یہاں تک کہ خونریزی و جنگ سے اسے سرکوب کریں اسے اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹادیں اور پھر ان دو جنگ کرنے والے ملکوں میں مصالحت کرائیں اور انھیں، پہلی والی حسن نیت اور خوش بینی کی طرف لوٹادیں_

اس طریقہ سے عالم اسلام کو اختلاف و تفرقہ سے محفوظ رکھیں تا کہ کافر خود اپنے منھ کی کھائے اور اسے اجازت نہ دیں کہ وہ مسلمانوں کے امو رمیں اگر چہ ان میں صلح کرانا ہی کیوں نہ ہو مداخلت کرے_ قرآن مجید نے مسلمانوں کی یہی ذمہ داری بیان کی ہے_

قرآن مجید کی آیت:

و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینهما فان بغت احدیهما علی الاخری فقاتلوا الّتی تبغی حتّی تفییء الی امر الله فان فانت فاصلحوا بینهما بالعدل و اقسطو انّ الله یحبّ المقسطین انّما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم و اتّقوا الله لعلکم ترحمون(۱)

'' اور اگر مومنین میں سے دو فرقے آپس میں لڑپڑیں تو ان دونوں میں صلح کرادو پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو جو فرقہ زیادتی کرے تم بھی اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرے پھر جب رجوع کرے تو فریقین میں مساوات کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف سے کام لو بیشک خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے مومنین تو آپس میں بس بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں میل جول کرادیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہوتا کہ تم پر رحم کیا جائے''_

____________________

۱) سورہ حجرات آیات ۹_ ۱۰

۱۹۲

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ مسلمان کن عقائد میں مشترک ہیں؟

۲)___ امّت واحدہ سے کیا مراد ہے؟ قرآن اور اسلام کا مسلمانوں کے متعلق کیا نظریہ ہے؟

۳)___ کیا جغرافیائی حدود مسلمانوں کی ذمّہ داریوں کو محدود کرسکتی ہیں، کیوں اور کس طرح؟

۴)___ اگر کسی مسلمانو ملک پر غیر حملہ کردے تو دوسرے اسلامی ممالک کا اور مسلمانوں عالم کا فریضہ کیا ہے؟

۵)___ تمام مسلمانوں کے مشترک دشمن کون ہیں، ان دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کیا ذمّہ داری ہے؟

۶)___ قرآں، کافروں سے کس قسم کا معاملہ انجام دینے کو کہتا ہے، کیا اس کی وضاحت کرسکتے ہو؟

۷)___ مسلمانوں کا آپس میں کیسا سلوک ہونا چاہیئے؟

۸)___ کافروں اور تجاوز کرنے والوں سے کیسا معاملہ کرنا چاہیئے اور ان سے کس قسم کا ربط رکھنا چاہیئے؟

۹)___ اگر اسلامی ممالک میں سے کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کردے تو اس وقت تمام مسلمانوں کی کیا ذمہ داری ہے؟

۱۰)___ اگر حملہ آور حق کو قبول نہ کرے تو پھر مسلمانوں کا کیا فریضہ ہے؟

۱۹۳

اجتہاد اور رہبری

کسی بیماری تشخیص اور اس کے علاج میں کس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے؟ کسی لوہار یا زمیندار کی طرف جو علم طب سے واقفیت نہیں رکھتا یا ایک طبیب اور ڈاکٹر کی طرف؟

یقینا ایک ڈاکٹر کی طرف رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ ڈاکٹر ہی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ لوہار اور زمیندار ایسی صلاحیت نہیں رکھتا_

کسی بلڈنگ یا مکان کا نقشہ بنوانے اور پھر مکان و بلڈنگ تیار کرنے میں کس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے؟

کیا کسی مدرسہ کے معلم یا نفسیاتی ماہر کی طرف؟ یا کسی انجینڑ اور معماری کی طرف؟ یقینا انجینئر اور معمار اس کام کو جانتے ہیں_ کسی کام کے سلسلہ میں اس کے ماہر کی طرف رجوع کرنا ایک ضروری اور فطری چیز ہے_ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تمام فنون اورکاموں میں اس کے ماہر ہوجائیں؟ کیا ان سوالوں کے جواب دے سکتے ہو؟

احکام و قوانین اسلام اور دین واقعی معلوم کرنے کے لئے کس کی طرف رجوع کرنا چاہیئے؟

کیا دین واقعی معلوم کرنے کے لئے ہم ایک سائنسداں یا نفسیاتی ماہر یا ڈاکٹر کی طرف رجوع کرسکتے ہیں؟

نہیں کیونکہ ان لوگوں کو دین کے قوانین اور احکام سے پوری طرح واقفیت نہیں ہوتی لہذا دوسرے علوم و فنون کی طرح علم دین کی شناخت کے لئے بھی کسی ماہر و متخصّص کی ضرورت ہے

۱۹۴

دین کے احکام کے استنباط کا ماہر و متخصّص مجتہد اور فقیہ ہوا کرتا ہے ہم قوانین اسلام اور احکام دین کے معلوم کرنے کے لئے مجتہدین کی طرف رجوع کرتے ہیں اور انھیں کو مراجع تقلید کہتے ہیں_

ایک فقیہ اور مجتہد احام اسلامی کے استنباط کرنے کے لئے کئی سالوں تک درس و تدریس میں مشغول رہتا ہے اور اپنی محنت و کوشش سے تمام احادیث اور قرآنی آیات سے پوری طرح آگاہی حاصل کرتا ہے_ احادیث اور آیات قرآنی کے سمجھنے کے لئے مختلف علوم کی ضرورت ہوتی ہے فقیہہ ان تمام علوم کو حاصل کرتا ہے، عربی زبان و ادب سے اچھی طرح آگاہ ہوتا ہے، عربی زبان کے قواعد اور دستور کو بخوبی جانتا ہے، عربی زبان کے جملے اور کلمات سے مطالب کو اخذ کرتا ہے_

علم اصول فقہ کہ جس پر اجتہاد موقوف ہوتا ہے اس میں پوری طرح دسترس رکھتا ہے علم حدیث اور روایت میں وہ مجتہد ہوتا ہے وہ حدیث اور قرآن شناس ہوتا ہے وہ معتبر حدیث کو غیر معتبر حدیث سے اور حدیث صحیح کو حدیث ضعیف سے تمیز دیتا ہے کیونکہ ہر حدیث معتبر اور قابل اعتماد نہیں ہوا کرتی کتب احادیث میں ایسی حدیثیں جو مجہول اور جھوٹی ہیں کہ جنھیں پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ معصومین (ع) نے نہیں فرمایا موجود ہیں ایسی جھوٹی اور مجہول احادیث کو واقعی اور صحیح احادیث سے تمیز دینا ایک اہم کام ہے کہ جسے صرف مجتہد انجام دے سکتا ہے_

ہر حدیث کو قرآن اور دوسرے احادیث کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے اور اس کام کو ہر شخص نہیں کرسکتا صرف مجتہد اور فقیہہ ہی اسلام کے واقعی احکام اور قوانین کو آیات اور سیکٹروں احادیث کی کتابوں میں تلاش کرتا ہے لیکن وہ شخص جو احکام اسلامی کے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتا اگر چہ وہ دوسرے علوم کا ماہر ہی کیوں نہ ہو اسے حق نہیں

۱۹۵

پہونچتا کہ وہ قوانین اور احکام اسلامی کو استنباط کرے_

فقیہہ اور مجتہد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو اچھی طرح جانتا ہو اور احکام و قوانین کا خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی، سیاسی ہوں یا اخلاقی اچھی طرح علم رکھتا ہو_ معاشرہ کی مختلف ضروریات سے آگاہ ہو، دنیا میں رونما ہونے والے حوادث خاص طور سے عالم اسلام کے حالات سے بخوبی واقف ہو اور معاشرہ کی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی اجتہادی قوت سے اس کامل سوچے اور شجاعت و تدبّری سے اس کی رہبری کر سکے اور اس سلسلہ میں باخبر افراد سے مشورہ بھی لے_

اجتہادی طاقت اس عظیم اسلامی معاشرہ کو حرکت میں رکھتی ہے اور مسلمانوں کی عظیم طاقت و قدرت کی رہبری کرتی ہے_ مجتہد اور فقیہہ کج فکری، تعدی و سستی اور غلط قسم کی جاہلوں کی تاویلات اور اہل باطل کی بدعات کو روکتا ہے اور مسلمانوں کو اسلام کے صحیح راستہ پر چلا کردینا و آخرت کی سعادت اور سربلندی تک پہونچاتا ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' فقہائ، پیغمبر(ص) کی طرف سے اس امّت کے امین ہوا کرتے ہیں''_

حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

''دین کے قوانین اور امور کا اجر ان علماء کے ہاتھ سے ہوا کرتا ہے کہ جو دین کے حلال اور حرام کے امین ہوتے ہیں''

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' ہمیشہ لوگوں میں ایسے علماء اور متقی پیدا ہوتے رہیں گے جو دین کی حمایت کریں گے، جاہلوں کی غلط تعریفوں اور تفسیروں کو

۱۹۶

روکیں گے، الہ باطل کی بدعتوں کا مقابلہ کریں گے اور جذباتی انسانوں کی غلط تاویلات میں حائل ہوں گے''_

اس فقیہہ کی تقلید کرنی چاہیئے جو عادل، متقی، بقیہ تمام مجتہدوں سے زیادہ آگاہ ہو اور رہبری کی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتا ہو_ اس قسم کا فقیہ اور مجتہد احکام دین کے استنباط کے علاوہ بارہویں امام حضرت مہدی علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں رہبری اور حکومت کو بھی اپنے ذمہ لے سکتا ہے اور مسلمان ایسے اسلام شناس فقیہہ کی حکومت اور رہبری کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی عاقلانہ رہبری سے بہرہ مند ہوتے ہیں، اسلام کے سیدھے راستہ کو اسی سے حاصل کرتے ہیں اس کے اوامر کی اطاعت اور اس کی رہبری و حکومت کو قبول کر کے حقیقی کامیابی حاصل کرتے ہیں_

۱۹۷

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجیئے

۱)___ دین اسلام کے قوانین اور احکام معلوم کرنے کے لئے کس شخص کی طرف رجوع کرنا چاہیئے؟

۲)___ مجتہد کو دین کے احکام استنباط کرنے میں کن کن علوم کو جاننا چاہیئے؟

۳)___ کیا ہر حدیث پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ احادیث کو کن علوم کی روشنی میں قبول کیا جاتا ہے؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) نے فقہاء کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۶)___ کس فقیہہ کی تقلید کرنی چاہیئے؟

۷)___ اسلام کی رہبری اور حکومت کس کے پاس ہونی چاہیئے اس کی اور لوگوں کی کیا ذمّہ داری ہوتی ہے؟

۱۹۸

قانون میں سب مساوی ہیں

حضرت علی علیہ السلام کوفہ کے بازار سے گذر رہے تھے ایک زرہ ایک عیسائی کے ہاتھ میں دیکھی کہ وہ اسے فروخت کر رہا ہے حضرت علی علیہ السلام اس زمانہ میں تمام اسلامی مملکت کے ولی اور خلیفہ تھے آپ اس عیسائی کے نزدیک گئے اور اس زرہ کو غور سے دیکھا پھر اس بیچنے والے عیسائی سے کہا کہ:

'' زرہ تو میری ہے کافی دن ہوگئے ہیں کہ یہ گم ہوگئی تھی اب چونکہ یہ تمھارے پاس ہے لہذا یہ مجھے واپس کردو''_

عیسائی نے واپس دینے سے انکار کیا اور کہا کہ:

'' یہ زرہ میری ہے آپ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے''

زرہ کو آپ سے جھٹکے سے واپس لے لیا_ لوگ اکٹھے ہوگئے تا کہ دیکھیں کہ اتنی بڑی شخصیت کا مالک کیا کردار ادا کرتا ہے اور یہ دیکھیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس عیسائی آدمی سے کیا کہتے ہیں اور کس طرح اپنے حق کو لیتے ہیں_ شاید چند آدمی آپ کی حمایت بھی کرنا چاہتے تھے اور اس عیسائی سے زرہ واپس لے کر حضرت علی علیہ السلام کو دینا چاہتے تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ:

'' نہیں تمھیں اس سے کوئی سرو کار نہیں ہے اسلام حق اور عدالت کا دین ہے اس سلسلہ میں قانون موجود ہے اور میں قانون اور قاضی کے فیصلہ کو تسلیم کروں گا''_

۱۹۹

آپ نے اس وقت بہت نرم دلی اور خندہ پیشانی سے اس عیسائی سے فرمایا کہ:

'' مجھے یقین ہے کہ یہ زرہ میری ہے یہ مجھے دے دو ورنہ آؤ ہم قاضی کے پاس چلتے ہیں تا کہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے''_

عیسائی نے امام علیہ السلام کی خواہش کو مانا اور آنحضرت کے ساتھ اپنے جگھڑے کے ختم کرنے کے لئے قاضی کے پاس گیا اور جو نہی قاضی نے امیرالمومنین علیہ السلام کو دیکھا تو وہ آپ کے احترام میں کھڑا ہوگیا لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ

''ہم فیصلہ کرانے کے لئے یہاں آئے ہیں اور قاضی کو چاہیئے کہ طرفین کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے تمھیں ایک قاضی کی حیثیت سے میرا زیادہ احترام نہیں کرنا چاہیئے_ قاضی کو نگاہ کرنے اور توجہ کرنے میں بھی طرفین کے ساتھ مساوات سے کام لینا چاہیئے_ آؤ اور ہمارے درمیان فیصلہ کرو''_

قاضی اپنی قضاوت کی مخصوص جگہ پر بیٹھا حضرت علی (ع) اور وہ عیسائی بھی قاضی کے سامنے بیٹھے_ قاضی نے اختلاف کے متعلق پوچھا_

امیرالمومنین (ع) نے فرمایا کہ:

'' یہ زرہ جو اس کے پاس ہے یہ میری ہے میں نے اسے نہ کسی کو بخشا ہے اور نہ کسی کو فروخت کیا ہے چند دین پہلے گم ہوگئی تھی اور اب یہ اس کے پاس ہے''

قاضی نے اس عیسائی سے کہا کہ:

''علی ابن ابیطالب (ع) ادعا کر رہے ہیں کہ زرہ ان کی ہے تم اس کے متعلق کیا کہتے ہو؟ کیا یہ زرہ تمھاری ہے؟ لیکن مسلمانوں کے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302