‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 18%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110369 / ڈاؤنلوڈ: 3818
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اس وقت جبرئیل اللہ تعالی کی طرف سے یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ:

'' اے پیغمبر (ص) ان لوگوں کو جو صبح و شام اللہ کی یاد میں ہوتے ہیں اور نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس میں سوائے اللہ تعالی کے رضا کے اور کوئی غرض نہیں رکھتے اپنے سے دور نہ ہٹانا ان کا حساب تم سے اور تمھارا حساب ان سے نہیں لیا جائے گا (سبھی اللہ کے بندے ہیں اور خدا تمھارے اعمال و کردار سے واقف ہے) اگر تم نے انھیں اپنے سے دور کیا تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے''

رسول خدا(ص) نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء و محروم اور مستضعف طبقہ سے اپنا ربط زیادہ کردیا اور ان سے زیادہ آمد و رفت رکھتے تھے اور ان سے بہت گرمجوشی و محبت اور پیار سے گفتگو کیا کرتے تھے کیونکہ خداوند عالم نے انھیں اس آیت میں نماز قائم کرنے اور صبح و شام اللہ کی یاد میں رہنے اور رضائے خدا کے لئے کام کرنے والا شمار کیا ہے ان کی نماز و دعا کو بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا ہے پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے فرمایا:

'' لوگوں کی ملامت کی پروا نہ کیا کرو اور پورے اطمینان سے میرے پاس آیا کرو کہ میں تمھاری ہمنشینی پر فخر اور مباہات کرتا ہوں''_

۱۸۱

پیغمبر(ص) کی رفتار اور اخلاق:

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم بہت خوش اخلاق اور مہربان تھے وہ ہر ایک کے خیرخواہ و دلسوز تھے اور سبھی کی ہدایت کرنے میں کو شاں رہتے تھے بالخصوص فقراء اور بے چاروں کے ساتھ زیادہ لطف و عنایت کیا کرتے تھے ان کے ساتھ مخلصانہ رویہ برتتے تھے اور ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر ان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے_

آپ لوگوں کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح تھے، بڑوں کا احترام کیا کرتے تھے اور چھوٹوں اور جوانوں سے بڑا نرم رویہ رکھتے تھے، بچوں کو سلام کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے

'' کہ میں چاہتا ہوں کہ بچوں کو سلام کرنا عام رواج پاجائے تا کہ تمام مسلمان اس اچھی روش کی پیروی کریں اور بچوں کو سلام اور ان کا احترام کریں''

پیغمبر اسلام (ص) تمام انسانوں اور ہمارے لئے زندگی کا نمونہ اور اسوہ ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

'' پیغمبر خدا(ص) مومنین کے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں تمام مومنین کو چاہیئے کہ آپ کی رفتار و کردار اور اخلاق سے درس حاصل کریں اور آپ کی پیروی کریں''

پیغمبر اسلام (ص) اپنے رشتہ داروں سے آمد و رفت رکھا کرتے تھے ان پر احسان کیا کرتے تھے اور مسلمانوں سے بطور تاکید فرمایا کرتے تھے کہ:

'' رشتہ داروں سے آمد و رفت، مہر و محبت اورمخلصانہ ارتباط رکھا کرو

۱۸۲

اورمشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو''_

رسول خدا(ص) بیماروں کی عیادت کیا کرتے اور ان کے جنازوں میں شریک ہوا کرتے تھے اور مسلمانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ:

'' وہ بھی جنازوں میں شریک ہوا کریں اور جو لوگ مرگئے ہیں ان کے لئے اللہ تعالی سے رحمت و مغفرت طلب کیا کریں، جنازے کو دیکھنے سے عبرت حاصل کریں، بیدار ہوں، جان لیں کہ ان کی زندگی بھی ختم ہوجائے گی اور آخرت کے راستہ کے لئے بہترین زاد راہ تقوی ہے''_

پیغمبر اسلام(ص) لباس و خوراک میں بہت کفایت شعاری سے کام لیتے تھے، مختلف طرح کے کھانوں سے پرہیز کیا کرتے تھے آپ کی غذا سادہ اور تھوڑی ہوا کرتی تھی، آپ کا لباس سادہ اور کم قیمت کا ہوا کرتا تھا_ معاشرہ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور آپ اپنے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے، کبھی اپنے لباس کو خود اپنے ہاتھوں سے پیوند لگایا کرتے تھے اور کبھی اپنی جوتیوں کوٹا نکتے تھے_

آپ بہت متواضع او رمخلص تھے جب کسی محفل میں وارد ہوتے تو وہاں بیٹھ جاتے جہاں جگہ خالی نظر آتی کسی خاص جگہ پر بیٹھتے کے متمنی نہ ہوتے تھے تمام اہل فلس کا احترام کیا کرتے تھے اور گفتگو کرنے کے وقت سبھی کی طرف متوجہ ہوا کرتے تھے، دوسروں کی بات کو غور سے سنتے تھے کسی کی بات کو نہیں کاٹتے تھے آپ بہت با حیا اور کم گو تھے_ ضرورت سے زیادہ بات نہیں کیا کرتے تھے کبھی مزاح بھی کرلیا کرتے تھے لیکن پوری طرح متوجہ ہوتے تھے کہ اس سے کس کی دل آزاری نہ ہو اور ناحق بات بھی نہ ہو_

غیبت، تہمت ، افتراء و جھوٹ اور ہر بری بات سے اجتناب کیا کرتے تھے لوگوں

۱۸۳

سے ہدیئے کو قبول کرتے ت ھے لیکن کوشش کرتے تھے کہ اس سے بہتر اور زیادہ اسے واپس کریں_ مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کریں تا کہ محبت زیادہ ہو اور کینہ دلوں سے دور ہو_ ولیمہ کی سادہ دعوت و مہمانی کو قبول کیا کرتے تھے اور فقراء و محروم طبقے کے ساتھ وہاں جایا کرتے تھے آپ اس قدر خوش اخلاق اور مہربان تھے کہ خداوند عالم آپ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

'' اے پیغمبر (ص) تیرا خلق و عادت بہت عظیم و پسندیدہ ہے اور تو مومنین کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہے''_

قرآن مجید کی آیت:

( و لا تطرد الّذین یدعون ربّهم بالغداة و العشّی یریدون و جهه ما علیک من حسابهم من شییء و ما من حسابک علیهم من شییء فتطردهم فتکون من الظّالمین ) (۱)

'' خبردار جو لوگ صبح و شام اپنے خدا کو پکارتے ہیں اور خدا ہی کو مقصود بنائے ہوئے ہیں انھیں اپنی بزم سے الگ نہ کیجئے نہ آپ کے ذمہ ان کا حساب ہے اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے کہ آپ انھیں دھتکاریں اور اس طرح ظالموں میں شمار ہوجائیں''_

____________________

۱) سورہ انعام آیت ۵۲

۱۸۴

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ اصحاب صفّہ کن لوگوں کو کہا جاتا ہے، پیغمبر اسلام(ص) کا ان کے ساتھ کیسا سلوک تھا؟

۲)___ کون سے لوگ پیغمبر(ص) پر محروم طبقے کے ساتھ بیٹھنے پر اعتراض کیا کرتے تھے اور پیغمبر اسلام(ص) سے کیا کہا کرتے تھے؟

۳)___ جاہلیت کی چند رسوم کو شمار کرو اور بتلاؤ کہ اسلام میں پیغمبر (ص) کے نزدیک ان کی کیا قیمت تھی اور ان رسوم کے بدلنے میں پیغمبر اسلام(ص) کیا اقدام کرتے تھے؟

۴)___ اسلامی تہذیب میں کسے شریف انسان کہا جاتا ہے؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) کا رویہ جناب مسلمان فارسی کے ساتھ کیسا تھا؟ پیغمبر (ص) سلمان فارسی کو کیوں دوست رکھتے تھے اور ان کا کیوں احترام کرتے تھے؟

۶)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس شخص کو کہ جس نے پیغمبر (ص) پر سلمان فارسی کے ساتھ بیٹھنے پر اعتراض کیا تھا کیاب جواب دیا تھا؟

۷)___ رسول خدا (ص) کا کسی سے دوستی اور روشنی کرنے کا کیا معیار تھا؟

۸)___ جبرئیل نے محروم طبقے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے سلسلہ میں کیا پیغام دیا تھا؟

۹)___ ''اسوہ'' کے کہتے ہیں اور کون شخص مسلمانں کے لئے ''اسوہ'' بن سکتا ہے؟

۱۰)___ مندرجہ ذیل چیزوں میں پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت کو بیان کرو:

فقراء اور ناداروں کے ساتھ گھر میں خوراک و غذا کے بارے میں

لوگوں کی ہدایت کرنے میں مزاح کرنے، بات سننے اور بات

بڑوں، چھوٹوں اور جوانوں کے ساتھ کرنے، ہدیہ دینے و ہدیہ لینے

رشتہ داروں، بیماروں و مردوں کے ساتھ اور مہمانی کے سلسلہ میں

۱۸۵

پانچواں حصّہ

اسلام اور اس کے سیاسی و اجتماعی اور اخلاقی امور

۱۸۶

اسلام کی عظیم امّت

قرآن مجید تمام مسلمانوں کو ایک امّت قرار دیتا ہے کیونکہ سبھی ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں اور ایک پیغمبر (ص) و معاد کو قبول کرتے ہیں اور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو اللہ تعالی کا آخری پیغمبر مانتے ہیں ، قرآن کو آسمانی اور عملی آئین تسلیم کرتے ہیں، سبھی کا ایک ہدف ہے اور وہ ہے احکام الہی کا تمام جہاں میں جاری کرنا اورنظام توحیدی کو عمل میں لانا_ نظام توحیدی اس نظام کو کہا جانتا ہے جو خداپرستی، اللہ تعالی کی رہبری اور احکام الہی کے اجرا پر مبنی ہو_

کیا تم مسلمانوں کی تعداد کو جانتے ہو؟ کیا کبھی اتنی کثیر جمعیت کی طاقت کا اندازہ لگایا ہے؟ مسلمانوں کی تعداد پوری دنیا میں بہت زیادہ ہے (جو تقریباً ایک ارب ہے) مسلمان مختلف شہروں، قصبوں، صوبوں، ملکوں اور برّا عظموں میں رہتے ہیں، مختلف اقوام پر مشتمل ہیں، مختلف زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں، مختلف جگہوں پر مختلف گروہوں پر حکومت کرتے ہیں اور انھوں نے اپنی حکومت کے لئے سرحدین بنا رکھی ہیں_

لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ یہ تمام کے تمام اپنے ملک کے افراد کے حالات کو نظر رکھتے ہیں اور بقیہ مسلمانوں کے لئے جوان ممالک کے باہر دوسرے ممالک میں زندگی گذارتے ہیں کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ انھیں اجنبی و بیگانہ سمجھتے ہیں لیکن اسلام اور قرآن اس کوتاہ فکری کو قبول نہیں کرتا بلکہ تمام جہاں کے مسلمانوں کو خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کسی

۱۸۷

زبان میں بھی باتیں کریں ایک امّت قرار دیتا ہے_ خیالی اور وہمی سرحدیں تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتیں اگر چہ مسلمانوں کی سرزمینیں مختلف حکومتوں سے ہی کیوں نہ چلائی جارہی ہوں_ مسلمان ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ نہیں ہیں بلکہ تمام کے تمام اسلام، مسلمان اور اس عظیم اسلامی معاشرے میں مشترک ذمہ دار ہیں_

اسلامی حکومت کے سر براہوں کو نہیں چاہیئے اور نہ ہی وہ کرسکتے ہیں کہ اسلامی حکومتوں کو ایک دوسرے سے اجنبی قرار دیں اور وہ بے خبر رہیں حالانکہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:

'' جو بھی مسلمانوں کے امور کی صلاح کی فکر میں نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے''_

پیغمبر اسلام (ص) کے اس فرمان کے بعد کیا وہی سرحدیں اور خطوط مسلمانوں کو ایک دوسرے سے اجنبی قرار دے سکتی ہیں؟ کیا جغرافی حدود اسلامی برادری اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داریوں کو محدود کرسکتی ہیں؟ کیا ایک ثروت مند ملک کہ جس کی آمدنی بہت زیادہ ہو دوسری اسلامی حکومتوں سے جو فقیر ہو بے پروا رہ سکتا ہے؟ کیاایک اسلامی آزاد اور ترقی یافتہ ملک دوسرے اسلامی ملک سے جو دوسروں کے زیر تسلط ہو بے توجہ رہ سکتا ہے، کیا حکم نہیں ہے کہ ہر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمانوں کے امور کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے؟

اسلامی سرزمین سے د فاع کرنا:

اگر کسی مسلمان حکومت پر کوئی ظالم حملہ کردے تو جانتے ہو کہ دوسرے اسلامی ممالک کی کیا ذمہ داری ہے؟ تمام ممالک اسلامی پر واجب اور لازم ہے کہ اپنی تمام قوت اور فوج کو لے کر اس ظالم حملہ آور پر حملہ کردیں اور اس متجاوز ظلم کو پوری طاقت سے اس ملک

۱۸۸

سے دور کریں کہ جس پر اس نے حملہ کیا تھا اس لئے کہ ایک اسلامی حکومت پر حملہ کرنا پوری دنیائے اسلام اور پیغمبر اسلامی(ص) کی عظیم امت پر حملہ کرنا ہوتا ہے_

اگر پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں اسلامی ملک کے کسی گوشہ پر حملہ کیا جاتا تو پیغمبر اسلام (ص) کیا کرتے اور اپنا اس کے متعلق کیا ردّ عمل ظاہر کرتے؟ کیا یہ ہوسکتا تھا کہ آپ خاموش رہتے اور کوئی عملی اقدام نہ کرتے؟

ہرگز نہیں یہ ممکن ہی نہیں تھا بلکہ پیغمبر اسلام (ص) مسلمانوں کے عظیم لشکر کو اسلام کی سرزمین کے دفاع کے لئے روانہ کرتے اور جب تک دشمن کو وہاں سے نہ ہٹا دیتے آرام سے نہ بیٹھتے_ پیغمبر اکرم(ص) نے اس عظیم ذمہ داری کی بجا آوری موجودہ زمانہ میں اسلامی معاشرہ کے رہبران الہی پر ڈال رکھی ہے اور اس کی بجاآوری انھیں کی ذمہ داری ہے_

تمام مسلمانوں سے اور بالخصوص ان مذہبی رہبروں سے امید ہے کہ وہ اسلامی ممالک کی سرزمین کی اور اسلام کی اعلی و ارفع قدر و قیمت کی پوری طاقت و قوت سے حفاظت کریں اور اجنبیوں کے مظالم کو اسلامی مملک سے دور رکھیں_

مشترک دشمن کے مقابل مسلمانوں کا اتحاد:

مسلمانوں کو یہ حقیقت ماننی چاہیئے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کی برادری اور خلوص سے زندگی کرنی چاہیئے اور کفر و مادی گری جو تمام مسلمانوں کامشترک دشمن ہے اس کے مقابل متحد ہونا چاہیئے_

اسلام کے دشمن ہی نے تو مسلمانوں میں اختلاف ڈال کر یہ ملک اور وہ ملک یہ قوم اور وہ قوم یہ برا عظم اور وہ برّا عظم بنا رکھا ہے حالانکہ تمام مسلمان ایک اور صرف ایک ملّت

۱۸۹

ہیں اور انھیں مشترک دشمن کے مقابل یعنی کفرو مادّی گری و جہان خوار اور استکبار کے سامنے متحد ہوکر مقابلہ کرنا چاہیئے اس صورت میں دشمن کبھی جرات نہ کرسکے گا کہ اسلامی سرزمین کے کسی گوشہ پر تجاوز کرسکے اور ان کی دولت و ثروت کو لوٹ لے جائے اور مسلمانوں کی عزت و شرف اور صحیح فرہنگ کو نابود کرسکے_

جہان اسلام کی وحدت اور استقلال کی حفاظت:

مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ کفر سے چشم پوشی کرتے ہوئے جہان اسلام کی وحدت اور ان کی داخلی طاقت کی تقویت اور اس کے کامل استقلال کے لئے کوشش کریں تا کہ وہ شرق و غرب کے شدید و خطرناک طوفان کے مقابل آزاد اور باوقار زندگی بسر کرسکیں_

مسلمان تب ہی فتحیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے جب وہ اپنی عظیم طاقت پر انحصار کرے اور اسلام کے دشمن پر سہارا نہ کرے اسلام کے دشمن کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے_ اسلام کے دشمنی دوستی کا اظہار بھی کریں تو وہ جھوٹ بولتے ہیں اور سوائے مکر و حیلہ اور ثروت کو لوٹنے کے اور کوئی ان کی غرض نہیں ہوتی اور ان کے عہد و پیمان پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:

''کافروں کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ ان کے عہد و پیمان بے اعتبار اور بے فائدہ ہوا کرتے ہیں''_

مسلمانوں کو متحد ہونا چاہیئے اور کسی بھی حکومت کو اجازت نہ دیں کہ اسلامی ممالک میں معمولی مداخلت بھی کرسکیں_

۱۹۰

خدا قرآن میں فرماتا ہے:

( '' و الّذین معه اشدّاء علی الکفّار رحماء بینهم ) (۱)

'' یعنی مومنین کو کافروں کے مقابل میں سخت ہونا چاہیئے اور آپس میں بہت مہربان اور ہمدرد''

لہذا ساری دنیا کے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے سر براہوں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ ایک اسلامی وسیع نظری کی بناپر تمام عالم اسلام کو ایک جانیں اور آپس میں ہمدردی، تعاون و برادری اور اتحاد کا معاہدہ کریں اور اسلامی کی اعلی ترین مصالح کی خاطر معمولی اختلافات سے صرف نظر کریں، اختلاف پیدا کرنے والے عوامل و اسباب کا مقابلہ کریں اور اپنے معمولی اختلاف و کدورتوں کو حسن نیت اور حسن اخلاق سے ححل کریں اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کریں کہ عالم اسلام اورمسلمانوں کی صفوں میں اختلاف پیدا نہ ہو_

متجاوز سے نمٹنے کا طریقہ:

اگر مسلمانوں کی حکومت میں سے کوئی حکومت دوسروں کے ایماء پر کسی دوسری مسلمان حکومت پر حملہ کرے تو سارے مسلمانوں بالخصوص ممالک اسلامی کے سر براہوں کی ذمہ داری ہوگی کہ فوراً ان کے اختلاف کو حل کریں، ان میں صلح و صفائی کرادیں اور عالم اسلام کو بہت بڑے خطرے یعنی اختلاف و تفرقہ سے نجات دلائیں اور پوری غیر جانبداری سے متجاوز کو پہچانیں اس کا اعلان کریں اور اس کو حکم دین کہ وہ اپنے تجاوز سے دست بردار ہوجائے اور اگر اس

____________________

۱) سورہ فتح آیت ۲۹

۱۹۱

کے باوجود بھی وہ اپنی ضد پر باقی رہے اور اپنے تجاوز سے دست بردار نہ ہو پھر فریضہ کیا ہوگا؟

تمام مسلمانوں کا فریضہ ہوگا کہ متجاوز سے اعلان جنگ کریں اور پوری طاقت سے یہاں تک کہ خونریزی و جنگ سے اسے سرکوب کریں اسے اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹادیں اور پھر ان دو جنگ کرنے والے ملکوں میں مصالحت کرائیں اور انھیں، پہلی والی حسن نیت اور خوش بینی کی طرف لوٹادیں_

اس طریقہ سے عالم اسلام کو اختلاف و تفرقہ سے محفوظ رکھیں تا کہ کافر خود اپنے منھ کی کھائے اور اسے اجازت نہ دیں کہ وہ مسلمانوں کے امو رمیں اگر چہ ان میں صلح کرانا ہی کیوں نہ ہو مداخلت کرے_ قرآن مجید نے مسلمانوں کی یہی ذمہ داری بیان کی ہے_

قرآن مجید کی آیت:

و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینهما فان بغت احدیهما علی الاخری فقاتلوا الّتی تبغی حتّی تفییء الی امر الله فان فانت فاصلحوا بینهما بالعدل و اقسطو انّ الله یحبّ المقسطین انّما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم و اتّقوا الله لعلکم ترحمون(۱)

'' اور اگر مومنین میں سے دو فرقے آپس میں لڑپڑیں تو ان دونوں میں صلح کرادو پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو جو فرقہ زیادتی کرے تم بھی اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرے پھر جب رجوع کرے تو فریقین میں مساوات کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف سے کام لو بیشک خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے مومنین تو آپس میں بس بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں میل جول کرادیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہوتا کہ تم پر رحم کیا جائے''_

____________________

۱) سورہ حجرات آیات ۹_ ۱۰

۱۹۲

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ مسلمان کن عقائد میں مشترک ہیں؟

۲)___ امّت واحدہ سے کیا مراد ہے؟ قرآن اور اسلام کا مسلمانوں کے متعلق کیا نظریہ ہے؟

۳)___ کیا جغرافیائی حدود مسلمانوں کی ذمّہ داریوں کو محدود کرسکتی ہیں، کیوں اور کس طرح؟

۴)___ اگر کسی مسلمانو ملک پر غیر حملہ کردے تو دوسرے اسلامی ممالک کا اور مسلمانوں عالم کا فریضہ کیا ہے؟

۵)___ تمام مسلمانوں کے مشترک دشمن کون ہیں، ان دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کیا ذمّہ داری ہے؟

۶)___ قرآں، کافروں سے کس قسم کا معاملہ انجام دینے کو کہتا ہے، کیا اس کی وضاحت کرسکتے ہو؟

۷)___ مسلمانوں کا آپس میں کیسا سلوک ہونا چاہیئے؟

۸)___ کافروں اور تجاوز کرنے والوں سے کیسا معاملہ کرنا چاہیئے اور ان سے کس قسم کا ربط رکھنا چاہیئے؟

۹)___ اگر اسلامی ممالک میں سے کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کردے تو اس وقت تمام مسلمانوں کی کیا ذمہ داری ہے؟

۱۰)___ اگر حملہ آور حق کو قبول نہ کرے تو پھر مسلمانوں کا کیا فریضہ ہے؟

۱۹۳

اجتہاد اور رہبری

کسی بیماری تشخیص اور اس کے علاج میں کس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے؟ کسی لوہار یا زمیندار کی طرف جو علم طب سے واقفیت نہیں رکھتا یا ایک طبیب اور ڈاکٹر کی طرف؟

یقینا ایک ڈاکٹر کی طرف رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ ڈاکٹر ہی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ لوہار اور زمیندار ایسی صلاحیت نہیں رکھتا_

کسی بلڈنگ یا مکان کا نقشہ بنوانے اور پھر مکان و بلڈنگ تیار کرنے میں کس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے؟

کیا کسی مدرسہ کے معلم یا نفسیاتی ماہر کی طرف؟ یا کسی انجینڑ اور معماری کی طرف؟ یقینا انجینئر اور معمار اس کام کو جانتے ہیں_ کسی کام کے سلسلہ میں اس کے ماہر کی طرف رجوع کرنا ایک ضروری اور فطری چیز ہے_ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تمام فنون اورکاموں میں اس کے ماہر ہوجائیں؟ کیا ان سوالوں کے جواب دے سکتے ہو؟

احکام و قوانین اسلام اور دین واقعی معلوم کرنے کے لئے کس کی طرف رجوع کرنا چاہیئے؟

کیا دین واقعی معلوم کرنے کے لئے ہم ایک سائنسداں یا نفسیاتی ماہر یا ڈاکٹر کی طرف رجوع کرسکتے ہیں؟

نہیں کیونکہ ان لوگوں کو دین کے قوانین اور احکام سے پوری طرح واقفیت نہیں ہوتی لہذا دوسرے علوم و فنون کی طرح علم دین کی شناخت کے لئے بھی کسی ماہر و متخصّص کی ضرورت ہے

۱۹۴

دین کے احکام کے استنباط کا ماہر و متخصّص مجتہد اور فقیہ ہوا کرتا ہے ہم قوانین اسلام اور احکام دین کے معلوم کرنے کے لئے مجتہدین کی طرف رجوع کرتے ہیں اور انھیں کو مراجع تقلید کہتے ہیں_

ایک فقیہ اور مجتہد احام اسلامی کے استنباط کرنے کے لئے کئی سالوں تک درس و تدریس میں مشغول رہتا ہے اور اپنی محنت و کوشش سے تمام احادیث اور قرآنی آیات سے پوری طرح آگاہی حاصل کرتا ہے_ احادیث اور آیات قرآنی کے سمجھنے کے لئے مختلف علوم کی ضرورت ہوتی ہے فقیہہ ان تمام علوم کو حاصل کرتا ہے، عربی زبان و ادب سے اچھی طرح آگاہ ہوتا ہے، عربی زبان کے قواعد اور دستور کو بخوبی جانتا ہے، عربی زبان کے جملے اور کلمات سے مطالب کو اخذ کرتا ہے_

علم اصول فقہ کہ جس پر اجتہاد موقوف ہوتا ہے اس میں پوری طرح دسترس رکھتا ہے علم حدیث اور روایت میں وہ مجتہد ہوتا ہے وہ حدیث اور قرآن شناس ہوتا ہے وہ معتبر حدیث کو غیر معتبر حدیث سے اور حدیث صحیح کو حدیث ضعیف سے تمیز دیتا ہے کیونکہ ہر حدیث معتبر اور قابل اعتماد نہیں ہوا کرتی کتب احادیث میں ایسی حدیثیں جو مجہول اور جھوٹی ہیں کہ جنھیں پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ معصومین (ع) نے نہیں فرمایا موجود ہیں ایسی جھوٹی اور مجہول احادیث کو واقعی اور صحیح احادیث سے تمیز دینا ایک اہم کام ہے کہ جسے صرف مجتہد انجام دے سکتا ہے_

ہر حدیث کو قرآن اور دوسرے احادیث کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے اور اس کام کو ہر شخص نہیں کرسکتا صرف مجتہد اور فقیہہ ہی اسلام کے واقعی احکام اور قوانین کو آیات اور سیکٹروں احادیث کی کتابوں میں تلاش کرتا ہے لیکن وہ شخص جو احکام اسلامی کے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتا اگر چہ وہ دوسرے علوم کا ماہر ہی کیوں نہ ہو اسے حق نہیں

۱۹۵

پہونچتا کہ وہ قوانین اور احکام اسلامی کو استنباط کرے_

فقیہہ اور مجتہد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو اچھی طرح جانتا ہو اور احکام و قوانین کا خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی، سیاسی ہوں یا اخلاقی اچھی طرح علم رکھتا ہو_ معاشرہ کی مختلف ضروریات سے آگاہ ہو، دنیا میں رونما ہونے والے حوادث خاص طور سے عالم اسلام کے حالات سے بخوبی واقف ہو اور معاشرہ کی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی اجتہادی قوت سے اس کامل سوچے اور شجاعت و تدبّری سے اس کی رہبری کر سکے اور اس سلسلہ میں باخبر افراد سے مشورہ بھی لے_

اجتہادی طاقت اس عظیم اسلامی معاشرہ کو حرکت میں رکھتی ہے اور مسلمانوں کی عظیم طاقت و قدرت کی رہبری کرتی ہے_ مجتہد اور فقیہہ کج فکری، تعدی و سستی اور غلط قسم کی جاہلوں کی تاویلات اور اہل باطل کی بدعات کو روکتا ہے اور مسلمانوں کو اسلام کے صحیح راستہ پر چلا کردینا و آخرت کی سعادت اور سربلندی تک پہونچاتا ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' فقہائ، پیغمبر(ص) کی طرف سے اس امّت کے امین ہوا کرتے ہیں''_

حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

''دین کے قوانین اور امور کا اجر ان علماء کے ہاتھ سے ہوا کرتا ہے کہ جو دین کے حلال اور حرام کے امین ہوتے ہیں''

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' ہمیشہ لوگوں میں ایسے علماء اور متقی پیدا ہوتے رہیں گے جو دین کی حمایت کریں گے، جاہلوں کی غلط تعریفوں اور تفسیروں کو

۱۹۶

روکیں گے، الہ باطل کی بدعتوں کا مقابلہ کریں گے اور جذباتی انسانوں کی غلط تاویلات میں حائل ہوں گے''_

اس فقیہہ کی تقلید کرنی چاہیئے جو عادل، متقی، بقیہ تمام مجتہدوں سے زیادہ آگاہ ہو اور رہبری کی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتا ہو_ اس قسم کا فقیہ اور مجتہد احکام دین کے استنباط کے علاوہ بارہویں امام حضرت مہدی علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں رہبری اور حکومت کو بھی اپنے ذمہ لے سکتا ہے اور مسلمان ایسے اسلام شناس فقیہہ کی حکومت اور رہبری کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی عاقلانہ رہبری سے بہرہ مند ہوتے ہیں، اسلام کے سیدھے راستہ کو اسی سے حاصل کرتے ہیں اس کے اوامر کی اطاعت اور اس کی رہبری و حکومت کو قبول کر کے حقیقی کامیابی حاصل کرتے ہیں_

۱۹۷

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجیئے

۱)___ دین اسلام کے قوانین اور احکام معلوم کرنے کے لئے کس شخص کی طرف رجوع کرنا چاہیئے؟

۲)___ مجتہد کو دین کے احکام استنباط کرنے میں کن کن علوم کو جاننا چاہیئے؟

۳)___ کیا ہر حدیث پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ احادیث کو کن علوم کی روشنی میں قبول کیا جاتا ہے؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) نے فقہاء کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۶)___ کس فقیہہ کی تقلید کرنی چاہیئے؟

۷)___ اسلام کی رہبری اور حکومت کس کے پاس ہونی چاہیئے اس کی اور لوگوں کی کیا ذمّہ داری ہوتی ہے؟

۱۹۸

قانون میں سب مساوی ہیں

حضرت علی علیہ السلام کوفہ کے بازار سے گذر رہے تھے ایک زرہ ایک عیسائی کے ہاتھ میں دیکھی کہ وہ اسے فروخت کر رہا ہے حضرت علی علیہ السلام اس زمانہ میں تمام اسلامی مملکت کے ولی اور خلیفہ تھے آپ اس عیسائی کے نزدیک گئے اور اس زرہ کو غور سے دیکھا پھر اس بیچنے والے عیسائی سے کہا کہ:

'' زرہ تو میری ہے کافی دن ہوگئے ہیں کہ یہ گم ہوگئی تھی اب چونکہ یہ تمھارے پاس ہے لہذا یہ مجھے واپس کردو''_

عیسائی نے واپس دینے سے انکار کیا اور کہا کہ:

'' یہ زرہ میری ہے آپ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے''

زرہ کو آپ سے جھٹکے سے واپس لے لیا_ لوگ اکٹھے ہوگئے تا کہ دیکھیں کہ اتنی بڑی شخصیت کا مالک کیا کردار ادا کرتا ہے اور یہ دیکھیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس عیسائی آدمی سے کیا کہتے ہیں اور کس طرح اپنے حق کو لیتے ہیں_ شاید چند آدمی آپ کی حمایت بھی کرنا چاہتے تھے اور اس عیسائی سے زرہ واپس لے کر حضرت علی علیہ السلام کو دینا چاہتے تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ:

'' نہیں تمھیں اس سے کوئی سرو کار نہیں ہے اسلام حق اور عدالت کا دین ہے اس سلسلہ میں قانون موجود ہے اور میں قانون اور قاضی کے فیصلہ کو تسلیم کروں گا''_

۱۹۹

آپ نے اس وقت بہت نرم دلی اور خندہ پیشانی سے اس عیسائی سے فرمایا کہ:

'' مجھے یقین ہے کہ یہ زرہ میری ہے یہ مجھے دے دو ورنہ آؤ ہم قاضی کے پاس چلتے ہیں تا کہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے''_

عیسائی نے امام علیہ السلام کی خواہش کو مانا اور آنحضرت کے ساتھ اپنے جگھڑے کے ختم کرنے کے لئے قاضی کے پاس گیا اور جو نہی قاضی نے امیرالمومنین علیہ السلام کو دیکھا تو وہ آپ کے احترام میں کھڑا ہوگیا لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ

''ہم فیصلہ کرانے کے لئے یہاں آئے ہیں اور قاضی کو چاہیئے کہ طرفین کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے تمھیں ایک قاضی کی حیثیت سے میرا زیادہ احترام نہیں کرنا چاہیئے_ قاضی کو نگاہ کرنے اور توجہ کرنے میں بھی طرفین کے ساتھ مساوات سے کام لینا چاہیئے_ آؤ اور ہمارے درمیان فیصلہ کرو''_

قاضی اپنی قضاوت کی مخصوص جگہ پر بیٹھا حضرت علی (ع) اور وہ عیسائی بھی قاضی کے سامنے بیٹھے_ قاضی نے اختلاف کے متعلق پوچھا_

امیرالمومنین (ع) نے فرمایا کہ:

'' یہ زرہ جو اس کے پاس ہے یہ میری ہے میں نے اسے نہ کسی کو بخشا ہے اور نہ کسی کو فروخت کیا ہے چند دین پہلے گم ہوگئی تھی اور اب یہ اس کے پاس ہے''

قاضی نے اس عیسائی سے کہا کہ:

''علی ابن ابیطالب (ع) ادعا کر رہے ہیں کہ زرہ ان کی ہے تم اس کے متعلق کیا کہتے ہو؟ کیا یہ زرہ تمھاری ہے؟ لیکن مسلمانوں کے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''واذا رائیتم اهل الریب والبدع من بعدی فاظهروا البراء ة منهم واکثروا من سبهم والقول فیهم والوقیعة..'' ( ۱)

اگر میرے بعد اہل شک اور بدعت گزاروں کو دیکھو تو ان سے بیزاری و نفرت کا اظہار کرو ان پر سب وشتم کرو اور ان کی برائی کو بیان کرو ( تاکہ معاشرے میں ان کا مقام گر جائے اور ان کی بات کی اہمیت نہ رہے )

۵۔بدعت گذار کا احترام ، دین کی نابودی:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''من تبسم فی وجه مبتدع فقد اعان علی هدم دینه '' ( ۲ )

جو شخص بدعت گذار کے سامنے اظہار تبسم کرے اس نے دین کی نابودی میں اس کی مدد کی ہے ۔

نیز فرمایا:''من مشیٰ الی صاحب بدعة فوقره فقد مشی فی هدم الاسلام '' .( ۳ )

جو شخص بدعت گذار کی ہمراہی اور ا س کا احترام کرے درحققیت اس نے دین اسلام کی نابودی کی طرف ایک قدم بڑھایا ۔

____________________

(۱)اصول کافی ۲: ۴۳۷۵، باب مجالسة اہل المعاصی

(۲) بحار الانوار۴۷: ۲۱۷،مناقب ابن شہر آشوب ۳: ۳۷۵ ؛ مستدرک الوسائل ۱۲: ۳۲۲.

(۳)محاسن برقی ۱: ۲۰۸ ؛ ثواب الاعمال شیخ صدوق : ۲۵۸؛ من لا یحضرہ الفقیہ ۳: ۵۷۲؛ بحار الانوار۲:۳۰۴.

۲۲۱

۶۔ بدعت کا مقابلہ کرنے کاحکم :

مرحوم کلینی (رحمة اللہ علیہ )نے محمد بن جمہور کے واسطے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''اذا ظهرت البدع فی امتی فلیظهر العالم علمه ، فمن لم یفعل فعلیه لعنة الله '' ۔( ۱ )

ترجمہ: جب میری امت میں بدعات ظاہر ہونے لگیں تو علماء پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کا اظہار کریں ( اور اس بدعت کا راستہ روکیں ) پس جو ایسا نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

کیا بزرگان دین کی یاد منانا بدعت ہے ؟

اس فصل کے شروع میں بیان کر چکے کہ وہابی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے میلاد اور انکی وفات کے سوگ منانے کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔

سابق سعودی مفتی اعظم بن باز کا فتویٰ بھی نقل کرچکے کہ وہ کہتا ہے :

میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جائز نہیں ہے چونکہ دین میں بدعت شمار ہوتا ہے اس لئے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ و تابعین نے یہ کام انجام نہیں دیا :( ۲ )

اسی طرح سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے مراسم سوگواری کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :

انبیاء و اولیاء کی وفات کی یاد مانا جائز نہیں ہے چونکہ یہ دین میں بدعت اور شرک کا وسیلہ ہے ۔(۳)

____________________

(۱)اصول کافی ۱: ۲۵۴،باب البدع.

( ۲)لایجوز الاحتفال بمولد الرسول الله صلی الله علیه وسلم ولا غیره ؛ لان ذلک من البدع المحدثة فی الدین ، لان الرسول (ص)لم یفعله ولاخلفاؤه الراشدون ولا غیرهم من الصحابة رضی الله عنهم والتابعون لهم باحسان فی القرون المفضلة ''مجموع فتاوی ومقالات متنوعة ۱:۱۸۳ وفتاوی اللجنة الدایمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۱۸.

(۳)لا یجوز احتفال بمن مات من الانبیاء والصالحین والاحیاء ذکراهم بالموالد و...لان جمیع ماذکر من البدع المحدثة فی الدین ومن وسایل الشرک ''.فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳:۵۴ ، فتوای شماره ۱۷۷۴

۲۲۲

انبیاء کے میلاد کا قرآن سے اثبات

گذشتہ مطالب سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی یاد منانے پر قرآن و سنت میں ایسے اطلاقات و عمومات موجود ہیں جو اس کی مشروعیت کو ثابت کرتے ہیں ۔

۱۔یہ درحقیقت تعظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے :

خداوند متعال فرماتا ہے :

( فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنزِلَ مَعَهُ أوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ ) ( ۲ )

ترجمہ : ...پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا حترام کیا اس کی مدد کی اور

____________________

(۲) سورۂ اعراف: ۱۵۷.

۲۲۳

اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیت فلاح یافتہ اورکامیاب ہیں ۔

جب جملہ (وَعَزَّرُوہُ )سے بطور کلی تعظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ثابت ہوتی ہے تومیلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جشن اور اس کی خوشی بھی تعظیم و تکریم نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک مصداق ہے ۔

۲۔ یہ اجر رسالت ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْها َجْرًا ِالاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ( ۱ )

ترجمہ : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ان سے کہہ دو کہ میں تم سے اجر رسالت نہیں چاہتا مگر یہ کہ میرے اہل بیت سے محبت کرو ۔

خداوند متعال نے اس آیت شریفہ میں اہل بیت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے محبت ودوستی کو اجر رسالت قرار دیا ہے تو اہل بیت علیہم السلام کی ہر طرح کی تعظیم و تکریم چاہے وہ ان کی ولادت کے دن خوشی مناکر ہویا ان کی شہادت کے ایام میں عزاداری کی مجالس برپا کرکے یہ سب حکم خدا پر لبیک کہتے ہوئے ان سے محبت و مودت کا اظہار کرنا ہے ۔

۳۔ میلاالنبی بھی جشن نزول مائدہ کے مانند:

قابل غور نکتہ آسمانی دسترخوان کے نزول کی مناسبت سے بنی اسرائیل کی

____________________

(۱) سورۂ شوریٰ:۲۳.

۲۲۴

سالانہ عید کے جشن کی داستان ہے جس کے بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے :

( اللّٰهُمَّ رَبَّنَا اَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَائِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ) ( ۱ )

ترجمہ: پروردگار ! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول وآخر کے لئے عید ہو جائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے ۔

جب نزول مائدہ جیسی عارضی نعمت سالانہ عیدبن سکتی ہے تو پھر ولادت وبعثت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )جو بشریت کے لئے نعمت جاودانہ ہے وہ کیسے عید اور خوشی کا باعث نہیں بن سکتی ۔

سعودی عرب کی قومی عیدیں

تعجب آور بات تو یہ ہے کہ اسی مجلس نے سعودی عرب کی سرکاری عیدوں کے بارے میں لکھا ہے :

''وماکان المقصود منه ( العید ) تنظیم الاعمال مثلا لمصلحة الامة وضبط امورها ؛ کاسبوع المرور ، وتنظیم مواعید الدراسیة والاجتماع الموظفین للعمل ونحوذلک ، مما یفضی به الی

____________________

(۱)سورۂ مائدہ: ۱۱۴.

۲۲۵

التقرب والعبادة والتعظیم بالاصالة ، فهو من البدع العادیة التی لا یشملها قوله صلی الله علیه وسلم احدث فی امرنا ما لیس منه فهو رد ، فلا حرج فیه ؛ بل یکون مشروعاً '' ( ۱ )

اگر ان عیدوں کے منانے کا مقصد قوم کی مصلحت اور ان کے امور کی تنظیم ہو جیسے ہفتہ پولیس ، تعلیمی سال کا آغاز ، سر کاری ملازموں کا اجتماع وغیرہ جن میں عبادت اور تقرب خدا کا قصد نہیں کیا جاتا تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور یہ نہی پیغمبر میں شامل نہیں ہوں گی ۔

واضح ہے کہ ایسا تفکر ، فکری جمود کی انتہاء ہے اس لئے کہ اگر چہ جشن ولادت کی مخالفت ایک فطری امر کی مخالفت کرنا ہے بلکہ جشن ولادت اور سرکاری جشن میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ اپنی اولاد کی ولادت کی خوشی منانے والا شخص ہر گز عبادت یا تقرب خداکا ارادہ نہیں کرتا ( تاکہ اس کا یہ جشن منانا بدعت قرار پائے )۔

____________________

(۱) فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۸۸، فتویٰ ۹۴۰۳.

۲۲۶

فصل ہفتم

انبیاء واولیاء سے توسل کا حرام قراردینا

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات

۱۔ ابن تیمیہ کانظریہ

مسلمانوں پر وہابیوں کے اعتراضات میں سے بنیادی ترین اعتراض ان کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور اولیائے خدا سے توسل کرنے کے بارے میں ہے جسے بہانہ بناکر وہ مسلمانوں پر شرک کی تہمت لگاتے ہیں ۔

مفکر وہابیت ابن تیمیہ کہتا ہے :

''من یاتی الی قبر نبی او صالح، ویساله حاجته ،ویستنجده ، مثل ان یساله ان یزیل مرضه ، او یقضی دینه ، او نحو ذلک مما لا یقدر علیه الا الله فهذا شرک صریح ، یجب ان یستتاب صاحبه، فان تاب والاقتل .وقال: قول کثیر من الضلال: هذااقرب الی الله منی :. وانا بعید من الله لایمکننی ان ادعوه الا بهذه الواسطة ونحو ذلک من اقوال المشرکین ''.( ۱ )

اگر کوئی شخص قبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )یا کسی ولی کی قبر کے پاس اس سے حاجت طلب کرے مثلاً اپنی بیماری کی شفا یا قرض کی ادائیگی کی درخواست کرے جس پر خدا کے سوا کوئی قادر نہیں تو یہ واضح شرک ہے لہٰذا ایسے شخص کو توبہ پرآمادہ کیا جائے اگر توبہ کرلے تو صحیح ورنہ اسے قتل کر دیا جائے ۔نیز کہا ہے :جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کو اس لئے واسطہ بناتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ خدا کے قریب ہے تو یہ بات شرک اور اس کا کہنے والا مشرک ہے ۔

۲۔ نظریہ محمد بن عبد الوہاب:

مجدد افکار ابن تیمیہ محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے :

''وان قصدهم الملائکة والانبیاء ، والاولیاء یریدون شفاعتهم والتقرب الی الله بذلک ، هو الذی احل دماء هم واموالهم '' .( ۲ )

____________________

(۱) زیارة القبور والاستنجادبالمقبور :۱۵۶؛ الھدیة السنیة : ۴۰؛کشف الارتیاب :۲۱۴.

(۲)کشف الشبہات ، ص ۵۸، ط، دار العلم بیروت و مجموع مؤلفات الشیخ محمد بن الوہاب ۶: ۱۱۵، رسالة کشف الشبہات

۲۲۷

یہ لوگ ملائکہ ، انبیاء اورا ولیاء سے شفاعت طلب کرتے ہیں اور انھیں تقرب خدا کا وسیلہ قرار دیتے ہیں یہی چیز ان کے مال کے حلال اور قتل کے جائز ہونے کا باعث بنی ہے ۔

محمد بن عبد الوہاب نے شاہ فہد کے دادا محمد بن سعود سے کئے ہوئے معاہدہ کو پورا کرنے کی خاطریہ اعلان کیا :

جو شخص انبیاء و اولیاء کو واسطہ قرار دے اور ان سے شفاعت طلب کرے اس کا مال و جان مباح ہے ۔(..)

دوسری جگہ لکھا ہے :

''من ظن ان بین الله وبین خلقه وسائط ترفع الیهم الحوائج فقد ظن بالله سوء الظن '' .( ۱ )

جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا اور مخلوق کے درمیان واسطے موجود ہیں جو ان کی حاجات کو خدا تک پہنچاتے ہیں تو اس نے خد اکے بارے میں سوء ظن کیا ۔

''ان محمداصلی الله علیه وسلم ، لم یفرّق بین من اعتقد فی الاصنام ومن اعتقد فی الصالحین ؛ بل قاتلهم کلهم وحکم بکفرهم '' ( ۲ )

____________________

(۱) مجموعہ مولفات شیخ محمدبن عبد الوہاب ۵: ۲۴۱.

(۲)حوالہ سابق ۶: ۱۴۶.

۲۲۸

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بت پرستوں اور اولیاء کو وسیلہ قرار دینے والوں میں فرق نہ کرتے بلکہ ان سب کوکافر قرار دے کرا ن سے جنگ کا حکم صادر فرمایا:

''لا یصح دین الاسلام الا بالبرأة ممن یتقرب الی الله بالصلحاء و تکفیر هم '' ( ۱ )

کسی شخص سے اس وقت تک اسلام قبول نہ ہو گا جب تک وہ صالحین کو تقرب خدا کا واسطہ بنانے والوں سے بیزاری کا اعلان اور انھیں کافر نہ سمجھ لے ۔

''من عبد الله لیلا ونهارا ثم دعا نبیاً او ولیاً عند قبره ، فقد اتخذ الهین اثنین ، ولم یشهد ان لا اله الا الله ؛ لان الا له هو الموعد '' .( ۲ )

اگر کوئی شخص دن رات عبادت کرے اور پھر قبر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا ولی کے پاس آکر اسے پکارے تو اس نے دو معبودوں کی پرستش کی اور اس نے توحید کی گواہی نہیں دی اس لئے کہ معبود وہی ہوتا ہے جسے انسان پکار تا ہے ۔

مرتد کے حکم کے بارے میں کہتا ہے :

''اجماع المذاهب کلهم علی ان من جعل بینه وبین الله وسائط یدعوهم انه کافر مرتد حلال المال والدم '' ( ۳ )

____________________

(۱)حوالہ سابق.

(۲)حوالہ سابق

(۳) حوالہ سابق

۲۲۹

تمام مذاہب اسلامی کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے تو وہ کافرو مرتد ہے اور ا س کامال وجان مباح ہے ۔

ارے، محمدبن عبد الوہاب نے اپنے جھوٹے خیالات کے ذریعہ مسلمانوں کے کفر کو ثابت کر کے جہاد کا اعلان کر تے ہوئے بدو عربوں کے احساسات کو ابھارا اور پھر محمدبن سعود کی مدد سے لشکر آمادہ کر کے مسلمانوں کے شہروں اور دیہاتوں پر حملہ کر کے خون کی ندیاں بہائیں اور ان کے اموال کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا ۔( ۱)

۳۔ سعودی مجلس فتویٰ کا نظریہ :

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے شیعہ کے ساتھ شادی کے بارے میں سوال کا جوا ب دیتے ہوئے اس کے حرام ہونے کی علت یوں بیان کی ہے :

''لایجوز تزویج بنات اهل السنة من ابناء الشیعة ولا من الشیوعیین ، واذا وقع النکاح فهو باطل، لا ن المعروف عن الشیعة دعاء اهل البیت،والا ستغاثة بهم ، وذلک شرک اکبر '' .( ۲ )

اہل سنت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی شیعہ یا کیمونسٹ بچوں سے کریں اگر ایسا نکاح واقع ہو جائے تو باطل ہے اس لئے کہ مشہور یہ ہے کہ شیعہ اہل بیت سے تو سل کرتے ہیں اور یہ شرک اکبر ہے ۔

____________________

(۱) تاریخ نجد :۹۵ ، فصل الثالث ، الغزوات ؛ تاریخ آل سعود۱:۳۱؛تاریخچۂ نقد وبررسی وہابی ہا :۱۳۔ ۷۶.

(۲)فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۱۸: ۲۹۸.

۲۳۰

ایک اور سوال کے جواب میں یوں فتویٰ دیا:

''اذاکان الواقع کما ذکرت من دعائهم علیا والحسن والحسین ونحوهم فهم مشرکین شرکا اکبر یخرج من ملة الاسلام فلا یحل ان نزوجهم المسلمات ، ولا یحل لنا ان نتزوج من نسائهم ، ولا یحل لنا ان ناکل من ذبائحهم '' .( ۱ )

اگر یہ حقیقت ہے جیسا کہ سوال میں بیان ہو اہے کہ وہ لوگ (یاعلی ) (یاحسن) (یا حسین )کہتے ہیں تو وہ مشرک اور دین اسلام سے خارج ہیں ان سے اپنی بیٹیوں کی شادی کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ذبح کئے ہوئے حیوان کا گوشت کھانا جائز ہے جب کہ اسی مجلس نے یہودی اور مسیحی کے ساتھ شادی کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :

یجوز للمسلم ان یتزوج کتابیة یهودیة او نصرانیة اذا کانت محصنة وهی الحرة العفیفة '' ( ۲ )

مسلمان کا اہل کتاب یہودی یا مسیحی لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے مگر یہ کہ وہ بدکار نہ ہو ۔

افسوس اور تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ یہی مجلس اسلام کے نام پر یہود ونصاریٰ

____________________

(۱)حوالہ سابق۳: ۳۷۳فتویٰ نمبر ۳۰۸.

(۲) حوالہ سابق ۱۸:۳۱۵.

۲۳۱

کے ساتھ تو نکاح کو جائز قرار دے رہی جن کے شرک آلود چہرے کو قرآن نے آشکار کرتے ہوئے فرمایا:

( وَقَالَتْ الْیَهُودُ عُزَیْر ابْنُ ﷲ وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِیحُ ابْنُ ﷲ ذَلِکَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ یُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ ﷲ أَنَّی یُؤْفَکُونَ ) ( ۱ )

ترجمہ: اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں ان باتوں میں یہ بالکل ان کے مثل ہیں جو ان کے پہلے کفار کہا کرتے تھے ۔

لیکن شیعوں کے ساتھ نکاح کو باطل وحرام قرار دے رہی جب کہ شیعہ شہادتین کاا قرار کرتے ہیں قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں تمام احکام خد اکو بجا لاتے ہیں اور اپنے مذہب کو اہل بیت علیہم السلام سے لیا ہے ۔

۴۔ سعودی مفتی اعظم کا نظریہ :

طائف میں سعودی عرب کے مفتی اعظم جنا ب شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں اس نے توسل اور وسیلہ کے حرام ہونے کے بارے میں جو دلیل بیان کی وہ یہ تھی کہ وفات کے بعد پیغمبر کا رابطہ اس عالم سے منقطع ہو چکا ہے اور وہ کسی چیز پر قادر نہیں یہاں تک کہ وہ کسی کے حق میں دعا بھی

نہیں کر سکتے ۔ بنا بر ایں عاجز سے توسل کرنا اور اسے وسیلہ بنا نا عقلی طور پر باطل اور موجب شرک ہوگا ۔(۲)

____________________

(۱) سورۂ توبہ: ۳۰.

(۲)۲۴ جمادی الثانی ۱۴۲۴ ہجری بمطابق ۲۰۰۳ ء کوطے شدہ پروگرام کے مطابق حجة الاسلام والمسلمین جناب نواب صاحب ( مکہ مکرمہ میں رہبر معظم کے نمائندے ) کے ہمراہ طائف کا سفر کیا جہاں مفتی اعظم سعودی عرب جناب شیخ عبد العزیز عبد اللہ آل الشیخ سے ملاقات کی اور تقریبا ایک گھنٹہ نکاح متعہ ، سجدہ اور توسل و وسیلہ کے موضوع پر بحث کی ۔ یہ ساری بحث ریکارڈ شدہ ( valiasr - aj. com )پر موجود ہے ۔

۲۳۲

توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات کی رد

الف:انبیاء سے توسل قرآن میں ثابت ہے

۱۔ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل پر حکم قرآن :

انبیاء علیہم السلام سے ان کی زندگی میں شفاعت طلب کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شیعہ عقائد سے کسی قسم کاکوئی تضاد نہیں پایاجاتا ۔ جیساکہ خداوند متعال کا فرمان ہے :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) (۱)

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴.

۲۳۳

میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔

۲۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی زندگی اور اس کے بعد توسل کا ثابت ہونا :

اردن کے اہل سنت عالم دین محمود سعید ممدوح توسل کے جوازکے بارے میں علمائے اہل سنت کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

اس آیت شریفہ( إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ... )

میں گناہگاروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بخشش کے لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو واسطہ اور شفیع قرار دیں ۔ یہ حکم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حیات اور اس کے بعد دونوں حالتوں کو شامل ہے اور اگر کوئی اسے فقط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک محدود کرنا چاہے تو وہ غلطی کا شکار ہوا اور راستہ سے اتر گیا اس لئے کہ جب بھی کوئی فعل حرف شرط کے بعد آتا ہے تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے اور کسی عبارت کے مفہوم کے عام اور کلی ہونے کی سب سے واضح ترین صورت یہی ہے جیساکہ کتاب ( ارشاد الفحول ) کے صفحہ نمبر ۲۲ پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

استاد محترم علامہ محقق سید عبد اللہ صدیق غماری لکھتے ہیں : یہ آیت شریفہ عموم رکھتی ہے اور حیات وممات دونوں کو شامل ہوگی اور ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معین کرنا دلیل کا محتاج ہے جوموجود نہیں ہے ۔

۲۳۴

قرآنی آیات کی شرح اور اس مقدس کتاب کی تفسیر کرنے والے حضرات نے بھی اس آیت شریفہ سے عموم ہی سمجھا ہے اس لئے کہ تمام مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں عتبیٰ سے ایک اعرابی شخص کے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آنے کی داستان نقل کی ہے ۔

ابن کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : بعض بزرگان مانند شیخ ابو نصر صباغ نے اس مشہور داستان کو عتبی سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی داخل ہوا اور کہا: ''السلام علیک یا رسول اللہ... ''.( ۱ )

۳۔ مالک کا توسل کے جواز پر قرآن سے استدلال

ایک مرتبہ جب عباسی خلیفہ منصور دوانقی مسجد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں زیارت میں مشغول تھا اور بلند آواز سے سلام اور دعا پڑھ رہا تھا تو اہل سنت کے امام مالک سے پوچھا :

''استقبل القبلة وادعوا ام استقبل رسول الله (صلی الله علیه وسلم ) و ادعو'' .

کیا زیارت کے بعد قبلہ کا رخ کرکے خد اکو پکاروں یا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی طرف منہ کر کے دعا کروں ؟

امام مالک نے کہا :

____________________

(۱)رفع المنارةفی تخریج احادیث التوسل و الزیارة : ۵۷.

۲۳۵

''ولم تصرف وجهک عنه وهو وسیلتک ووسیلة ابیک آدم الی الله تعالیٰ ؟ بل استقبل واستشفع به فیشفعه الله فیک ''

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنا چہرہ کیوں موڑنا چاہتے ہو جب کہ وہ تو آپ اور آپ کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی وسیلہ ہیں بلکہ قبر آنحضرت کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو اور ان سے شفاعت طلب کروخدا وند متعال ان کی شفاعت کو قبول کرتا ہے اس لئے کہ اس نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) ( ۱ )

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔( ۲ )

۴۔ برادران یوسفصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حضرت یعقوب علیہ السلام سے توسل :

قرآن مجید نے جناب یوسف علیہ السلام کی داستان میں ان کے بھائیوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:

( یَاَأبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ ) ( ۳ )

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴. (۲) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ۱: ۲۸.

(۳) سورۂ یوسف: ۹۷.

۲۳۶

بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :( قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی ) ( ۱ )

میں عنقریب تمہارے حق میں دعا کروں گا ۔

ب: بعثت سے پہلے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل

۱۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلقت سے پہلے ان سے توسل :

رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خلقت سے پہلے گذشتہ انبیاء علیہم السلام کا ان سے توسل اور انھیں وسیلہ قرار دینا ایک مسلم اور غیر قابل انکار مسئلہ ہے چونکہ کتب اہل سنت کے اندر اس موضوع پر اس قدر صحیح روایات موجو دہیں جو انبیاء وا ولیاء سے کسی بھی قسم کے توسل کے شرک ہونے کے وہابی نظریہ کی ہر طرح کی توجیہ و تاویل کا راستہ مسدود کر دیتی ہیں جن میں سے چند ایک روایات کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں :

اہل سنت کے بزرگ عالم دین حاکم نیشاپوری اپنی کتاب( ۲ ) میں عمر بن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا:

''لما اقترف آدم الخطیئة قال: یا رب اسئلک بحق محمد

____________________

(۱) سورۂ یوسف: ۹۸

(۲) المستدرک علی الصحیحین .۲:۶۷۲۔۴۲۲۷اور۲:۶۱۵تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، طبعہ دارالمعرفت بیروت

۲۳۷

لما غفرت لی فقال الله تعالیٰ : یا آدم وکیف عرفت محمد ا ً ولم اخلقه ؟ قال: یا رب لانک لما خلقتنی بیدک ، ونفخت فی من روحک ، رفعت راسی ، فرایت علی قوائم العرش مکتوبا لا اله الا الله ، محمد رسول الله ، فعرفت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک ؛'' .

جب حضرت آدم علیہ السلام مصیبت میں مبتلاہوئے تو خد اوند متعال کو رسول اکرم کا واسطہ دے کر بخشش طلب کی ۔

خداوند متعال نے فرمایا : اے آدم ! تو نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیسے پہچانا جب کہ ابھی تو ہم نے اسے خلق ہی نہیں کیا ؟

حضرت آدم نے عرض کیا: جب تونے مجھے خلق کیا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا میری نظر عرش پر پڑی تو دیکھا کہ عرش کے ستونوں پر لکھا ہے :

''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ '' میں سمجھ گیا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی محبوب ترین ہستی ہیں اسی لئے تو ان کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے

''فقال الله: صدقت یا آدم انه لا حب الخلق ، اذا سئالتنی بحقه فقد غفرت لک ، ولولا محمد ما خلقتک''.

خدا وند متعال نے فرمایا: ہاں! تونے سچ کہا کہ وہ پوری مخلوق میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور اب جب تو نے مجھے اس کا واسطہ دیا ہے تو میں نے تجھے معاف کر دیا اور اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلق نہ کیا ہوتا تو تجھے بھی خلق نہ کرتا ۔

۲۳۸

حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :ھذا حدیث صحیح الاسناد''( ۱ ) اس حدیث کی سندصحیح ہے :

بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوة میں اس حدیث کونقل کیا ہے۔( ۲ )

ذہبی اس کتاب کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ پوری کتاب ہدایت اور نور ہے اسی طرح طبرانی نے اپنی کتاب معجم صغیر( ۳ ) اور سبکی نے شفاء السقام( ۴ ) میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے ، سمہودی نے وفاء الوفاء( ۵ ) اور قسطلانی نے بھی المواہب نیة( ۶ ) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

۲۔ آنحضر تصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شیر خوارگی میں جناب عبد المطلب کا ان سے توسل :

اہل سنت کے معروف عالم شہرستانی اپنی کتاب ملل ونحل میں لکھتے ہیں :

جب سرزمین مکہ کو قحط نے اپنی لپیٹ میں لیا اور بادلوں نے برسنے سے انکار

____________________

(۱)مستدرک علی الصحیحین ۲: ۴۲۲۷۶۷۲و۲: ۶۱۵، تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، دار المعرفة بیروت

(۲) دلائل النبوة ۵: ۴۸۹.

(۳)معجم صغیر۲:۸۲.

(۴)شفاء السقام فی زیارة خیر الانام :۱۲۰

(۵) وفاء الوفاء ۴: ۳۷۱.

(۶) المواہب اللدنیة ۴: ۵۹۴.

۲۳۹

کر دیا تو اہل مکہ کے لئے زندگی کرنا ناگزیر ہوگیا ۔ جناب عبد المطلب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا :

''یارب !بحق هذا الغلام ورماه ثانیا وثالثا وکان یقول : بحق هذا الغلام اسقنا غیثا ، مغیثا، دائما، هاطلا، فلم یلبث ساعة ان طبق السحاب وجه السماء ، وامطر حتی خافوا علی المسجد '' .( ۱ )

خدا یا اس بچے کا واسطہ اپنی رحمت کا نزول فرما: ابھی تھوری ہی دیر گذری تھی کہ مکہ پر بادل چھانے لگے اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ ڈرگئے کہ کہیں خانہ کعبہ سیلاب میں ہی نہ بہہ جائے ۔

ابن حجرکہتا ہے :

جب عبد المطلب نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا واسطہ دے کر بارش طلب کی تو سرداران مکہ عبد اللہ بن جد عان اور حرب بن امیہ حضرت عبد المطلب کے پاس آئے اور کہنے لگی :''ھنیائً لک ! ابا البطحاء ''( ۲ ) اے حجاز کے باپ تجھے یہ بچہ مبارک ہو ۔

اسی طرح ابن حجر یہ بھی لکھتا ہے :

____________________

(۱)الملل والنحل ۲: ۲۴۹.

(۲) الاصابة فی تمییز الصحابة۸:۱۳۶ ، ترجمہ رقیقة بنت ابی صیفی بن ہاشم

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302