‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 18%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111818 / ڈاؤنلوڈ: 3873
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس کی لاش روم کے مرغزار میں پڑی تھی نہ کہ اس کے باپ کی ملکیت میں جہاں وہ چاہتا تھا۔

رومیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا آغاز یہ تھا کہ عامر نے اس کے سر پر اپنی تلوار کی ایک ضرب سے کمر تک اسے دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا !

ابن عساکر یہ چند شعر ذکر کرنے کے بعد نافع کے حالات کو دار قطنی اور ابن ماکولا سے سیف کے ذریعہ نقل کرکے اپنی بات تمام کرتا ہے ۔

لیکن طبری سیف سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے نافع کے اشعار سے صرف درج ذیل دو شعر نقل کرتا ہے :

ہمارے سوار فوجیوں نے سمندر جیسی زیبا اور وسیع سرزمین ''مدائن'' پر قدم رکھا....

اس کے بعد ١٦ھکے حوادث کے ضمن میں جلولا کی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرتا ہے ۔سیف سے ایک روایت میں جلولا کی جنگ کے بارے میں نافع سے منسوب چار شعر کو حسب ذیل نقل کرتاہے :

'' جلولا '' کی جنگ میں ہمارے پہلوانوں نے قوی شیروں کی طرح میدان کا رزار میں حملے کئے ۔

میں ایرانیوں کو چیر پھاڑ کے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتا تھا ،اور کہتا تھا ،مجوسیوں کے ناپاک بدن نابود ہو جائیں ۔

اس دن جب سر تن سے جدا ہو رہے تھے ،'' فیروزان '' ہمارے چنگل سے بچ نکلا اور بھاگ گیا لیکن '' مہران '' مارا گیا۔

جب ہمارے دشمن موت کے گھاٹ اتاردئے گئے تو رات کو بیابانوں کے درندے ان کی لاشوں کے استقبال کے لئے آئے ۔

ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہم نے طبری کی کتاب میں مذکورہ اشعار کے چھ قطعات کے علاوہ نافع سے مربوط کوئی اور شعر نہیں پایا ،جب کہ ابن ماکولا''نافع '' کی تشریح میں کہتا ہے :

۸۱

سیف نے کہا ہے کہ اس نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کافی شہرت حاصل کی ہے اور بہت سے شعر کہے ہیں

ابن حجر کہتا ہے:

سیف نے اس سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جن میں نافع نے اپنے خاندان پر ناز کیا ہے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی سورما کے نام پر بہت سے اشعار کہے ہیں اور طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان اشعار کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔

ہم نے '' نافع'' کے کافی تعداد میں کہے گئے اشعار کی جستجو کی لیکن ان میں سے تھوڑے ہی اشعار حموی اور حمیری کے ہاں دستیاب ہوئے کہ ان دو عالموں نے اپنی بات کے اقتضا کے مطابق مقامات کی تشریح کرتے ہوے شاہد کے طور پر ان سے استناد کیا ہے ۔ہم ہر ایک فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے خلاصہ بیان کرنے کے بعد ان اشعار کی طرف بھی اشارہ کریں گے ۔

شاعر نافع ،ایران میں

طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر فتح '' ہمدان'' ''رے'' اور ''گرگان '' کے بارے میں اپنی تاریخ میں مفصل طور پر درج کیا ہے ہم یہاں پر اس کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں :

خلیفہ عمر نے ہمدان اور اس کے مشرق میں واقع دیگر سر زمینوں کو خراسان تک فتح کرنے کا حکم '' نعیم بن مقرن '' کے نام جاری کیا اور اسے حکم دیا کہ ان علاقوں کو فتح کرے ۔

نعیم نے اطاعت کرتے ہوئے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی ،اس جنگ میں گرگان کے لوگ بادشاہ کی مدد کے لئے آئے دونوں لشکر کوہ رے کے دامن میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے نعیم اپنے فوجیوں کے ایک حصے کو چوری چھپے محاذ جنگ کے پیچھے بھیج چکا تھا ۔اس نے پوری طاقت کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا ۔ایرانی چوں کہ آگے پیچھے دونوں طرف سے اسلامی فوج کی زد میں آچکے تھے اس لئے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے سخت شکست و حزیمت سے دو چار ہوئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔اس گیرودار میں بے شمار ایرانی کام آئے ۔

۸۲

نعیم نے فتح پانے کے بعد غنائم جنگی کا پانچویں حصہ ''اسود بن قطبہ'' کی سرپرستی میں چند دیگر معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا ۔

جب عمر کو فتح کا پیغام پہنچا خلیفہ نے حکم دیا کہ '' نعیم '' اپنے بھائی '' سوید بن مقرن '' کو ''قومس'' کی فتح پر مامور کرے۔

سوید خلیفہ کے حکم سے ایک لشکر لے کر '' قومس '' کی طرف روانہ ہوا اور اس جگہ کو کسی قسم کی مزاحمت اور خوں ریز ی کے بغیر فتح کر لیا۔

اس کے بعد طبرستان کے علاقہ پر بھی ایک فوجی معاہدے کے تحت قبضہ کیا ۔ وہا ں سے گرگان کا رخ کیا اور '' بسطام'' کے مقام پر پڑائو ڈالا اور وہیں سے بادشاہ '' رزبان صول'' کے نام خط لکھا اور اسے تسلیم و اطاعت کرنے کو کہا ''رزبان '' نے مثبت جواب دیا اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دے کر جنگ سے دوری اختیار کی ۔ یہ عہد نامہ ١٨ ھ کو لکھا گیا اور طرفین میں رد و بدل ہوا۔

مذکورا بالا باتیں طبری کے بیانات کا خلاصہ تھیں :

حمیری لفظ '' رے '' کی طرف اشارہ کرکے اسی داستان کو لکھتا ہے :

.....اور ابو بجید نافع بن اسود نے ''رے'' کی جنگ میں یہ اشعار کہے تھے : کیا ہماری محبوبہ کو یہ خبر ملی کہ جو گروہ ''رے '' میں ہمارے مقابلے میں جنگ کے لئے اٹھا تھا، وہ موت کا زہر کھا کر ہلاک ہوگیا؟!

وہ دو محاذوں پر پوری قدرت کے ساتھ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ہمارے مقابلے میں آئے

ان کے گھوڑے یک رنگ ، یا سیاہ تھے یا سرخ ۔ ایسے گھوڑ ے تھے کہ بعض اوقات ہمارے حملوں کے مقابلے میں تاب نہ لاتے ہوئے فرار کو قرار پر ترجیح دیتے تھے ہم نے ان کو پہاڑ کے دامن میں ایک ایک کرکے یا دو دو کرکے پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کو قتل کرکے اپنی تمنا پوری کی۔

خدا جزائے خیر دے اس گروہ کو جس نے دشمن کے سر پر انتقام کی تلوار ماری اور اجر دے انھیں جنہوں نے ایسا کام انجام دیا۔

۸۳

حموی نے بھی ''بسطام'' اور ''گرگان'' کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں پر استناد کرکے ''نافع بن اسود '' کا نام لیا ہے۔ مثلاً ''بسطام اور اس کی فتح کے بارے میں لکھتا ہے:

خلیفہ عمر نے حکم جاری کیا تھا کہ ''نعیم بن مقرن'' ''رے'' اور ''قومس'' کی طرف لشکر کشی کرے اور یہ لشکر کشی ١٨و١٩ھ میں واقع ہوئی ہے۔

نعیم کا ہراول دستہ اس کے بھائی ''سوید بن مقرن '' کی سرپرستی میں ''رے '' اور ''قومس'' کی طرف روانہ ہوا ۔ چونکہ ان دونوں علاقوں کے باشندوں میں لڑنے کی طاقت نہ تھی ۔ اس لئے انہوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سرانجام ان کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم! اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ ہم میدانِ جنگ میں حاضر ہونے اور اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے میں دوسروں سے زیادہ سزاوار ہیں !

جب صبح سویرے جنگ کا بگل بجتا ہے تو یہ ہم خاندان تمیمی ہیں جو خوشی خوشی اس کا مثبت جواب دیتے ہیں ۔

ہم نے ''بسطام '' کی سخت اور وسیع جنگ میں دشمن کو نابود کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی۔

اس کام میں ہم نے اپنے نیزے گھمائے اور انھیں دشمن کے خون سے رنگین کیا۔

لفظ ''گرگان'' اور ''رے'' کے سلسلہ میں حموی کی دلیل

حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لکھتا ہے :

جب سوید بن مقرن نے ١٨ھمیں ''بسطام '' کی فتح سے فراغت پائی تو اس نے گرگان کے بادشاہ ''زربان صول'' کے نام ایک خط لکھا اور اسے اطاعت کرنے کا حکم دیا اور خود سپاہ لے کر گرگان کی طرف روانہ ہوا۔ زربان نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوا۔ سوید صلح کو قبول کرتے ہوئے گرگان میں داخل ہوا اور صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے مین یہ شعر کہے ہیں :

۸۴

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا، جس سے پہلے رے ہے ۔ اس کے بعد صحرا نشین گرگان کی طرف روانہ ہوئے۔

حموی شہر ''رے''کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ابوبجید، جو لشکر میں شامل تھا''رے'' کا یوں ذکر کرتا ہے:

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا جس کے پہلے رے ہے۔ اس کے بعد صحرا نشین اس کی طرف بڑھے ۔ ہمیں ''رے '' کی چراگاہ اور سبزہ زار جو زینت و نعمت کے سبب ہیں بہت پسند آئے۔

پوپھٹتے ان سبزوں میں عجیب رونق ہوتی ہے جو بڑے بادشاہوں کی شادیوں کی یاد

تازہ کرتی ہے.

حموی مذکورہ اشعار کو بیان کرنے کے بعد ''گرگان'' کے بارے میں تشریح کرکے اپنی بات ختم کرتا ہے.

مذکورہ مطالب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے ''رے '' اور ''گرگان ''کی تشریح میں سیف کی باتوں اور اس کی داستانوں پر اعتماد کیا ہے ۔ اس نے ان داستانوں کی سیف سے نقل کرکے اپنی عادت کے مطابق رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں سے ان ہی دلاور یوں کو ذکرکیا ہے جو فرضی ابو بجید اور جعلی کمانڈر سوید سے مربوط ہیں ، اور سوید کو ''صیغۂ تکبیر ''سے ''سواد '' نقل کیاہے ۔ اس کے بعد اسے بلاذری اور دیگر دانشوروں کی روایتوں سے ربط دیتا ہے جنہوں نے سپاہ کی قیادت کا عہدہ دار ''عروۂ طائی '' کو بتایا ہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

بلا ذری نے ''رے ''اور ''قومس''کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر نے اپنے کارگزار عمار یاسر کو حکم دیا کہ ''عروة بن خیل طائی'' کو ''رے '' کو فتح کرنے پر مامور کرے ۔ عروہ نے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی اور اسے فتح کیا۔ اس کے بعد خود مدینہ چلاگیا اور اس فتح کی نوید خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی۔

۸۵

''رے '' کی فتح کے بعد خلیفہ کے حکم سے ''سلمة الضبی'' نے سپاہ کی کمانڈ سنبھالی اور فوج کے ساتھ ''قومس'' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کی طرف لشکر کشی کی ''قومس '' کے باشندوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سلمہ کے ساتھ معاہدہ کیا اور پانچ لاکھ درہم جزیہ کے طور پر ادا کئے۔

بلاذری نے گرگان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے:

خلیفہ ٔعثمان نے ٢٩ھ میں کوفہ کی حکومت پر ''سعید بن عاص اموی'' کو مقرر کیا .سعید نے گرگان کو فتح کرنے کی غرض سے اس علاقہ کی طرف فوج کشی کی اور گرگان کے بادشاہ کے ساتھ دولاکھ درہم پر صلح کی اور اس علاقے کو اپنے علاقوں میں شامل کیا .اس کے بعد سرزمین طبرستان کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا.

ہم نے یہاں پر بلاذری کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

موازنہ کا نتیجہ

سیف نے اپنی روایت میں سرزمین رے کے فاتح کے طور پر ''نعیم بن مقرن'' کا ذکر کیا ہے اور ''قومس'' ''طبرستان'' ''بسطام'' اور ''گرگان'' کے فاتح کے طور پر اس کے بھائی ''سوید '' کا نام لیا ہے اور ان تمام فتوحات کو ١٨و١٩ھ میں انجام پانا بتاتاہے، جبکہ دوسرے معروف اور نامور مورخین نے سرزمین ''رے'' کا فاتح ''عروة بن زید خیل طائی '' کو بتایا ہے اور ''قومس '' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کو فتح کرنے والے اس کے جانشین کا نام ''سلمةالضبی'' بیان کیا ہے اور گرگان اور طبرستان کا فاتح ''سعید اموی '' کو بنایاہے خاص کر اس موخر الذکر فتح کی تاریخ خلافت ِعثمان کا زمانہ ٢٩ھ ثبت کیا ہے !!یہ سیف اور دیگر مورخین کی روایتوں میں نمایاں اختلافات کے نکات ہیں ۔

ان روایتوں کا مذکورہ سرسری جائزہ اور مختصر موازنہ انجام دینے سے یہ آسانی کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں پر کس قدر اعتماد کیا ہے اور ان روایتوں اور علاقوں کی فتح کو صحیح اور معتبر جانا ہے کہ اس طرح نظم و نثر کی صورت میں سیف کی روایتوں کو قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ یہاں پر ہم ایک بار پھر حموی کی تحریر پر غور کرتے ہیں

۸۶

برجان برگان!

حموی کی ''معجم البلدان''میں لفظ ''برجان'' کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:

مسلمانوں نے ''برجان '' کو عثمان کی خلافت کے دوران فتح کیا .ابوبجید تمیمی نے اس فتح کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

پہلے ہم نے گرگان پر حملہ کیا، ہمارے سوار دستوں کو میدان کا ر زار میں دیکھ کر اس کی حکومت متزلزل ہوکر سرنگوں ہوگئی۔

شام کے وقت جب ہم نے حملہ روکا، تو وہاں کے لوگ سرزمین روم اور برجان کے درمیان سراسیمہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

اسی کتاب میں لفظ ''رزیق '' کے بارے میں آیا ہے:

ایران کے بادشاہ کسریٰ کے بیٹے ، یزدگرد شہریار کے قتل کا واقعہ ایک پن چکی میں پیش آیا ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

ہم تمیمیوں نے سراسیمہ بھاگتے ہوئے یزدگرد کے شکم کو خنجر سے چاک کرکے ہلاک کردیا ۔ ''مرو'' کی جنگ میں ہم ان کے مقابلے پر آئے ۔کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تیز پنجوں والے پہاڑی چیتے ہیں !

ہم نے ''رزیق'' کی جنگ میں ان کو تہس نہس کرکے ان کی ہڈیوں کو چکلنا چور کرڈالا.

سورج ڈوبنے تک ہم ان کے میمنہ اور میسرہ پر مسلسل حملے کرتے رہے

خدا کی قسم !اگر خدا کا ارادہ نہ ہوتا، تو ''رزیق'' کی جنگ میں دشمنوں میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچتا۔

رزیق

طبری نے ''برجان '' کی فتح کے بارے میں جس کا حموی نے نام لیا ہے اور اسی طرح ''رزیق'' میں یزدگرد شہریار کے تمیمیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بارے میں سیف سے کچھ نقل نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کرتے ۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ساسانیوں کا آخری بادشاہ یزدگردخود ایرانیوں کے ہاتھوں ماراگیا ہے۔

۸۷

اگر طبری نے یزد گرد کے مارے جانے کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتاب میں در ج کیا ہوتا ، تو ہمیں پتہ چلتا کہ سیف نے آوارہ اور دربدر ہوئے ساسانی بادشاہ کے تمیمی دلاوروں کے خنجر کی ضربات سے مارے جانے کی کیسی منظر کشی کی ہے تا کہ اپنے افسانوی شاعر ابوبجید کے ذریعہ یزدگرد کے مارے جانے کے بارے میں شعر کہلوا کر قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخار کا اضافہ کرتا.

ابوبجید ، کتاب ''صفین''میں

یہاں تک بیان شدہ مطالب نافع کے بارے میں تھے، جو ہم نے ان علماء کے ہاں پائے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نصر بن مزاحم نے بھی جنگ صفین میں ابوبجید کا نام لیا ہے اپنی کتاب ''صفین'' کے صفحہ ٥٦٤ میں لکھتا ہے:

ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے جنگ صفین میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :

میری طرف سے ''علی کو درود پہنچاؤاور ان سے کہنا : جس نے آپ کا فرمان قبول کیا ، اس نے سختیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے

علی نے اسلام کے گنبد کو ویرانی کے بعد پھر سے تعمیر کیا ۔ یہ عمارت پھر سے کھڑی ہوکر پائیدار ہوگئی ہے۔

گویا اسلام کی ویر انی کے بعد ایک نیا پیغمبر آیا اور اس نے نابود شدہ طریقوں کو پھر سے زندہ کیا ۔

نصر اس داستان میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

اور جب علی جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو نافع نے یہ اشعار کہے:

ہم نے دمشق اور اس کے اطراف کی سرزمینوں کے کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا!

کتنی جوان عورتیں اس جنگ صفین میں اپنے شوہروں کے قتل ہونے کے بعد ان کے نیزوں کی وارث بن کر بیوہ ہوچکی ہیں ؟!

وہ اپنے شوہروں کے سوگ میں بیٹھی ہیں ، جو انھیں قیامت تک نہیں ملیں گے ۔

ہم تمیمی ایسے جنگجوہیں کہ ہمارے نیزے دشمن کو اس طرح لگتے ہیں کہ ان کا بچنا

۸۸

مشکل ہوتا ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ نصر ابوبجید کے رزمیہ اشعار کہاں سے لایا ہے ؟کیا نافع کانام اور اس کے اشعار سیف کے علاوہ کسی اور کی زبان پر بھی آئے ہیں ؟

اس سلسلے میں ہم نصر بن مزاحم کی کتا ب ''صفین'' کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں اور اس کے صفحہ ٦١٢ پرا س طرح پڑھتے ہیں :

...''عمر وبن شمر'' سے متعلق گفتگو کے ضمن میں اس طرح آیا ہے:

جب علی صفین کی جنگ سے واپس ہوئے ، (تو عمرو بن شمرنے) اس طرح شعر کہے :

وکم قدر ترکنا فی دمشق و ارضھا...

کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ہم نے ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا ؟!...تا آخر۔

یہاں تک کہ وہ صفحہ ٦١٣ پر لکھتا ہے:

اور سیف کی روایت میں آیا ہے کہ: ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح نغمہ سرائی کی ہے:

الا ابلغا عنی علیا تحیة ، فقد قبل

میرا سلام علی کو پہنچاؤ اور ان سے کہو کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے مشکلات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے... تاآخر۔

یہاں پر نصر بھی اپنے مآخذ ،یعنی سیف کا کھلم کھلا نام لیتا ہے.

۸۹

لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اسلام کی مشہور اور فیصلہ کن جنگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے اور ان جنگوں کو بھی اپنے خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے وجود سے محروم نہیں کیا ہے تا کہ اس طرح وہ ہر جنگ میں اپنے خاندان یعنی قبیلۂ تمیم کے کسی طرح افتخارات کا اضافہ کرنے کی کوشش کرے ۔ حقیقت میں سیف کے بارے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ''کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر اس مکار لومڑی کے نقش قدم نہ پائے جائیں ''!!

اس طرح علماء اور دانشوروں نے سیف کے افسانوں اور اس کی ذہنی مخلوقات کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ بعض اوقات ان مطالب کو سیف سے نسبت دیکر مآخذ کو کھلم کھلا بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی روایت کے راوی کانام نہیں لیتے ۔ یہی امر سبب ہوتا ہے کہ محقق ایسی روایتوں سے دوچار ہوکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اور یہ امور تاریخی حقائق کی تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لئے حیرت و تعجب کا سبب بنتے ہیں ، ان ہی میں ابن حجر کے وہ مطالب بھی ہیں جو اس نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں نافع کے حالات کے بارے میں درج کئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو:

دار ''قطنی '' نے اپنی کتاب ''مؤلف'' میں لکھا ہے کہ ابوبجید نافع بن اسود نے عراق کی سرزمینوں کی فتح میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں اس نے چند اشعار بھی کہے ہیں ، من جملہ

وہ کہتا ہے:

اگر پوچھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میرا خاندان ''اسید ''ہے اور میری اصل ، افتخارات کا منبع و سرچشمہ ہے

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

...اور سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں

۹۰

ہم اس بات کونہیں بھولے ہیں کہ سیف کی نظر میں قبیلۂ ''اسید'' جو افتخارات کا منبع اور شرافت کا معدن ہے ، حقیقیت میں وہی سیف کا خاندان یعنی قبیلۂ تمیم ہے۔

جو کچھ بیان ہوا ، اس کے پیش نظر ہم ، ادیب اور نامور عالم ''مرزبانی'' کویہ حق دیتے ہیں کہ وہ سیف کے افسانوی شاعر اور صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، نافع بن اسود کے لئے اپنی کتاب ''معجم الشعراء '' میں جگہ معین کرے اور اس کے وجود کو ایک مسلم حقیقت تصور کرے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالے اور سیف نے اس سے نسبت دیکر جو اشعار لکھے ہیں ان کو اپنی کتاب میں درج کرے۔

کتاب ''معجم الشعرائ'' تالیف مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ ) میں مؤلف کی حیات تک پانچ ہزار سے زائد عرب شعراء کی زندگی کے حالات درج ہیں ۔لیکن اس کتاب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہمیں دستیاب ہواہے اور اس کابڑا حصہ ،مؤلف کی وفات کو ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کی وجہ سے نیست ونابود ہوگیاہے۔اسی لئے اس میں نافع اور اس کے باپ ،اسود کے حالات نہیں پائے جاتے۔

لیکن ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے سیف کے ان دو جعلی اصحاب کے اشعار نقل کرکے ان دو افسانوی شاعروں کے بارے میں ہمارے لئے مذکورہ کتاب میں موجود کمی کی کسی حد تک تلافی کی ہے ۔اگر چہ مذکورہ کتاب کسی کمی کے بغیر بھی ہم تک پہنچ جاتی تو وہ ہمیں اس بارے میں کسی صورت سے مدد نہ کرتی ،کیونکہ ''مرزبانی'' نے اکثرو بیشتر شعراء کے حالات کی تشریح اور ان کے اشعار مآخذ اور سند کا ذکرکئے بغیر اپنی کتاب میں درج کئے ہیں ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ سیف کے تمام یا اکثر افسانوی شعراء اور ان کے اشعار حقیقی شعراء کے عنوان سے مرزبانی کی کتاب میں درج نہ ہوئے ہوں ؟!

ہم دوبارہ اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں اور نافع کے بارے میں ابن حجر کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ابن حجر نے مرزبانی کی کتاب ''معجم الشعرائ'' کا حوالہ دے کر نافع کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے:

۹۱

مرزبانی کہتاہے :ابو بجید نے جس نے دوران جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو درک کیا ہے عبد اللہ بن منذر حلاحل تمیمی کے سوگ میں چند دردناک اشعار کہے ہیں ۔

اس عبد اللہ نے ،خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور وہاں پر مارا گیاہے ۔اس (مرزبانی) نے عبد اللہ منذر کے سوگ میں نافع کے مرثیہ ''ماکان یعدل...'' کے مطلع سے درج کیاہے کہ میں (ابن حجر ) نے مذکورہ اشعار اسی عبداللہ منذر کی تشریح کے ذیل میں نقل کئے ہیں ۔

اس کے بعد ابن حجر اپنی کتاب ''اصابہ'' میں عبد اللہ منذر کی تشریح میں لکھتاہے :

''مرزبانی '' نے اپنی کتاب ''معجم الشعراء ''میں ذکر کیاہے کہ عبد اللہ منذر نے خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جگہ پر ماراگیا۔نافع بن اسود تمیمی ،جو خود اس جنگ میں موجود تھا ،نے عبد اللہ کے سوگ میں یہ اشعار کہے ہیں :

جاؤ ،خدا تمھیں ایسے جواں مرد سے دور نہ رکھے جو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ،بذل وبخشش کرنے والا اور انجمنوں اور محفلوں والا انسان تھا !

تمام لوگوں میں اس جیسا مردنہ تھا اور جدوجہد اور بذل وبخشش میں اس کا کوئی مانند نہ تھا۔

تم (عبد اللہ )چلے گئے اور خاندان عمرو اور قبیلہ تمیم کے دوسرے خاندانوں کو تنہا چھوڑ گئے تا کہ وہ نیازمندی اور بیچارگی کے وقت فخر کے ساتھ تمھارا نام زبان پر لائیں ۔

اس شعر میں سیف کے قبیلہ تمیم کے بارے میں خاص کر اس کے اپنے خاندان بنی عمرو کے بارے میں افتخارات کا اظہار واضح طور سے مشہود ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے نقل کرکے نافع بن اسود کے حالات کی تشریح میں مندرجہ ذیل دوشعر اور درج کئے ہیں :

جنگی غنائم کی کتنی بڑی مقدار ہمارے ہاتھ آئی جب کہ ہم بلند قامت گھوڑوں پر سوار تھے۔

۹۲

کتنے بہادروں کو ہم نے تلوار کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتاردیا اور لاش خور ، ان کی لاشوں پر اچھل کود کررہے تھے۔

''ابن حجر''،''مرزبانی'' کی تحریر اور اس کی کتاب میں درج کئے گئے اشعار پر اعتماد کرتے ہوئے عبد اللہ منذر حلاحل کو اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیتاہے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتاہے ،جبکہ کسی بھی دوسرے تاریخی مآخذ اور عربوں کے شجرہ نسب میں اس کا نام کہیں ذکر نہیں ہواہے ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ یہ عبد اللہ بھی سیف کے دوسرے افسانوی سورماؤں کی طرح اس کاجعل کردہ اور خیالی کردار نہ ہو؟

ہم نافع کے بارے میں گفتگو کا خاتمہ ابن عساکر کی اس بات سے کرتے ہیں جہاں وہ اپنی بات کے آغاز پر نافع کے بارے میں لکھتاہے :

اس شاعر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کازمانہ درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور

۹۳

پہنچاہے :

ہمیں ابن عساکر کی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی ،صرف نافع کے اشعار کے پانچویں بند میں آیاہے :

صدر اسلام میں ایسے پیشرو تھے،جو اپنی مہاجرت میں عظمت وافتخار سے سربلند ہوکر مھاجرین کے مقام تک پہنچاہے۔

ابن عساکر کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ نافع نے خلیفہ عمر سے حدیث نقل کی ہے ۔

ہمیں اس سلسلے میں سیف کے جعلیات میں نافع کی زبانی عمر کی حدیث نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

روایت کی تحقیق

نصر بن مزاحم ،ابن ماکولا ،ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء ودانشور ،نافع کے بارے میں اپنی بات کو بلاواسطہ سیف سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں سیف کے کسی راوی یا راویوں کا نام نہیں لیتے اور صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ :

''سیف کہتاہے ....'' اور ان علماء نے دار قطنی سے نقل کرتے ہوئے بھی اس روش کی رعایت کی ہے۔

لیکن ابن عساکر جہاں پر فتح دمشق کے بارے میں نافع کے اشعار کو اپنی کتاب میں سیف سے نقل کرتاہے وہاں سیف کے راویوں کانام اس صورت میں لیتاہے ۔

سیف نے ''ابو عثمان '' سے اور اس نے ''خالد'' و''عبادہ'' سے یوں نقل کیاہے

اور اس طرح حدیث کے راویوں کاذکر کرتاہے ۔

ان راویوں کی تحقیق کے سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ابو عثمان کا سیف نے ذکر کیا ہے ، در حقیقت یہ '' یزید بن غسان '' کے لئے سیف کی جعل کردہ کنیت ہے ۔ہم نے سیف کے اسناد کی تحقیق کے دوران اسی کتاب کی پہلی جلد میں اس نام کے سلسلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا حقیقت میں ہر گز کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ '' خالد '' اور ''عبادہ'' دونوں مجہول الھویہ ہیں ۔

۹۴

تاریخ طبری میں نافع کے بارے میں سیف سے دو روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں چند راویوں کا نام لیا گیا ہے کہ یہ نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں حقیقت میں سیف ان کا نام لے کر دوسرے موارد کی طرح یہاں پر بھی اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے ان حدیثوں کو حقیقی راویوں سے منسوب کرتا ہے ۔اور ہم بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سیف کی دروغ بافی کے گناہ کو ان راویوں کی گردن پر نہ ڈالیں ،خاص کر جب کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جو ان راویوں پر اس قسم کی تہمتیں لگاتاہے۔

بحث کا خلاصہ

قطبہ بن مالک تمیمی عمر ی کا پوتا ابو بجید نافع بن اسود ایک افسانوی صحابی ہے جسے سیف نے ایک قوی اور مشہور شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔

اسے یمامہ کی جنگ میں خالد بن ولید کے ساتھ دکھایا ہے '' عبد اللہ حلاحلی تمیمی '' کے سوگوار کی حیثیت سے پیش کیا ہے دمشق اور بصری کی فتوحات میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور ان تمام واقعات کے بارے میں اس کی زبان سے اشعار ذکر کئے ہیں ۔

اس نے قادسیہ اور مدائن کی جنگیں دیکھی ہیں اور ان سے ہر ایک کے لئے دلفریب رزمیہ اشعار لکھے ہیں ۔

رومیوں کے ساتھ جنگ کے بارے میں ایک شعلہ بار قصیدہ اور '' جلولا'' و ''رے '' کی جنگوں کے بارے میں رزمیہ اشعار بھی اس کے نام درج ہیں ۔

سیف کی روایتوں کے مطابق گرگان ،گیلان اور برجان کی جنگوں کے بارے میں بھی اس نے زیبا اشعار کہے ہیں اور اپنے قبیلہ تمیم کے بارے میں دلاوریوں اور افتخارات کے قصیدہ لکھے ہیں ؛

۹۵

نافع کے افسانہ کا سر چشمہ

ان تمام افسانوں کا سر چشمہ سیف کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے لیکن ان افسانوں کی اشاعت اور پھیلائو میں درج ذیل دانشوروں اور علماء نے اپنی اپنی نوبت کے مطابق ابو بجید نافع بن اسود کی داستان کو بلا واسطہ یا با واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

١)۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ھ )

٢)۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ )

٣)۔ ابن ماکولا ( وفات ٤٧٥ھ )

ان تینوں علماء نے صراحت سے کہا ہے کہ نافع کی داستان انھوں نے سیف سے نقل کی ہے

٤)۔ ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ) اس نے اپنے مطالب کو سیف اور ابن ماکولا سے نقل کیا ہے

٥)۔ طبری ( وفات ٣١٠ھ ) اس نے سیف سے مطالب نقل کرکے ان کے اسناد کا بھی ذکر کیا ہے.

٦)۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ )

٧)۔ ابن کثیر (وفات ٧٧٤ھ)

٨)۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ)

ان تین دانشوروں نے بھی نافع کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

٩)۔ مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ)

١٠)۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ)

١١)۔ حمیری (وفات ٩٢٠ھ)

نافع کے بارے میں جن مطالب کو با واسطہ یا بلا واسطہ مذکورہ بالا دانشوروں نے نقل کیا ہے مؤخرالذکر تین علماء نے بھی اپنی روایت کے مآخذ کی طرف اشارہ کئے بغیر ان ہی مطالب کو اپنی کتابوں میں نقل اور درج کیا ہے ۔

۹۶

نافع کے بارے میں سیف کے افسانوں کے نتائج

سیف نے مالک تمیمی کے پوتے بو بجید نافع بن اسود کو اپنے خیال میں خاندان بنی عمرو تمیم سے خلق کیا ہے ،اسے ایک شریف ،شاعر اور ایک صحابی کی حیثیت سے ذکر کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہا ت اور سربلندی کا سبب قرار دیا ہے ۔

اسے بالکل اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے وفادار اور ثابت قدم صحابیوں میں شمار کیا ہے ۔ جیسے اس سے پہلے اس کے قبیلے کے بھائی قعقاع بن عمرو کو وقت کے نامور سورما اور دلاور کے طور پر خلق کرکے حضرت علی علیہ السلام کے دوستدارکی حیثیت سے ذکر کیا تھا ۔چوں کہ ہم نے حدیث اور رجال کی کتابوں کے علاوہ دیگر مأخذ میں کافی جستجو اور تحقیق کے باوجود ان افسانوی باپ بیٹے کا سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نام و نشاں نہیں پایا ۔ اس لئے ان کو سیف کے جعلی اور افسانوی اشخاص میں شمار کرتے ہیں ۔

سیف جو اپنے قبیلے اور خاندان کے افتخارات کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں کرتا ،اپنے افسانوی شاعر کے ذریعہ اپنے قبیلہ تمیم بالاخص خاندان ''اسید'' وبنی عمرو کے بارے میں ستائشوں کے دلخواہ قصیدے لکھواکر ان کو سر بلندی اور شہرت بخشتاہے اور نافع کے باپ ''اسود بن قطبہ'' کی زبان پر جاری کرائے گئے اشعار میں بھی انہی مقاصد کی پیروی کرتاہے ۔

غور کیجئے کہ ،وہ کس طرح اپنے خاندان کے حق میں داد سخن دیتے ہوئے خود ستائی کرتاہے ، ملاحظہ ہو:

حجاز کے تمام منصفوں نے اس کی گواہی دی اور اعتراف کیا ہے کہ خاندان تمیم دنیا کے عظیم بادشاہوں کے برابر ہے!

یہ تلاش کوششیں ،خاندان تمیم کی سخاوت وبخشش کا نتیجہ ہے نہ کہ سست اور کمزور اشخاص کا۔

خدائے تعالیٰ نے ایسا ارادہ کیاہے کہ صرف قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے افراد دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرکے انھیں دور کریں ۔

۹۷

قبائل تمیم کے تمام افراد بخوبی جانتے ہیں کہ میدان جنگ میں حاضری اور غنائم کو حاصل کرنے میں قیادت وسرپرستی کی باگ ڈور قدیم زمانے سے قبیلہ اسید کے خاندان بنی عمرو ہی کے ہاتھوں میں تھی۔

یہ اور ان سے کہیں زیادہ اشعار کو سیف نے ان دو شاعر باپ بیٹوں کی زبان پر جاری کیاہے ۔اور ان کے ذریعہ قبیلہ تمیم اور اسید کے خاندان بنی عمرو کی اسی طرح ستائش کی ہے جیسے اس سے پہلے اس نے خاندان تمیم کے اپنے دو بے مثال افسانوی سورما،''قعقاع''و''عاصم'' کی جنگوں میں ان کی تعجب خیز شجاعتوں اور دلاوریوں کو دکھاکر مالک تمیمی کے خاندان کو قبیلہ تمیم کے تمام افتخارات کا سرچشمہ ثابت کیاتھا اسے اپنے قبیلے کا چمکتا ستارہ بناکر پیش کیاتھا۔

اس قابل فخر خاندان تمیم کے افراد کا جس طرح سیف نے تصورکیا ہے ،اس کا اندازہ اس کے مندرجہ ذیل شجرہ نسب کے خاکہ سے کیا جاسکتاہے :

مالک تمیمی

عمرو

قطبہ

قعقاع

عاصم

اسود

اعور

عمرو

نافع

۹۸

سیف نے اپنے اسی خیالی خاندان میں چار اصحاب وجنگی سردار ،دو تابعین،چھ رزمیہ شعراء اور احادیث کے راوی جعل کئے ہیں ۔

اس قبیلہ کے لئے سیف کے جعل کئے گئے مذکورہ فخرومباہات کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے چند منہ بولے بیٹے بھی خلق کرکے اس خاندان کے افتخارات میں چارچاند لگائے ہیں کہ انشاء اللہ ہم اس موضوع پر الگ سے بحث وتحقیق کریں گے۔

قارئین محترم سے گذارش ہے کہ تاریخ ،حدیث ،انساب ،ادبیات،طبقات صحابی،شعرائ، رجال اوراخبار واحادیث کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کیا سیف کی احادیث اور اس کے افسانوں کے علاوہ بھی کہیں اس افسانوی خاندان کا نام ونشان ملتاہے ؟!

۹۹

چوتھا حصہ : قبیلہ تمیم کے چند اصحاب

* ٦۔عفیف بن منذر تمیمی

* ٧۔زیاد بن حنظلہ تمیمی

* ٨۔حرملہ بن مریطہ تمیمی

* ٩۔حرملہ بن سلمی تمیمی

* ١٠۔ربیع بن مطر بن ثلج تمیمی

* ١١۔ربعی بن افکل تمیمی

* ١٢۔اط بن ابی اط تمیمی

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

خلیفہ کو بھی نہیں جھٹلاتا ہوں''

قاضی نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا:

'' یا علی (ع) آپ مدّعی ہیں اور مدّعی کو ایسے دو گواہ کو جو قابل قبول ہوں لانے چاہئیں اگر آپ کے پاس گواہ ہیں تو انھیں عدال میں لائیں تا کہ وہ گواہی دیں''

امیرالمومنین (ع) قاضی کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ گواہی کے قبول کئے جانے کے کیا شرائط ہیں آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ:

'' میں اس طرح کے گواہ نہیں رکھتا''

قاضی نے کہا:

'' جب آپ کے پاس گواہ نہیں ہیں تو شریعت کی رو سے آپ کا حق ثابت نہیں ہوتا''_

چنانچہ وہ عیسائی زرہ لے کر عدالت سے باہر گیا اور تھوڑی دور چلنے کے بعد سوچنے لگا کہ کتنا بہترین دین اور کتنی عادلانہ حکومت ہے کہ ایک مسلمانوں کے پیشوا اور ایک عیسائی آدمی کو قاضی کے سامنے برابر اور مساوی قرار دیتا ہے_ مسلمانوں کا پیشوا قاضی سے کہتا ہے کہ '' بیٹھ جاؤ تمھیں ایک قاضی کی حیثیت سے قضاوت کے وقت میرا زیادہ احترام نہیں کرنا چاہیئے، قاضی کو نگاہ کرنے میں بھی طرفین میں عدالت اور مساوات برتنی چاہیئے کتنی عادلانہ قضاوت ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی کے حق میں اگر چہ وہ مسلمانوں کا پیشوا ہی کیوں نہ ہو فیصلہ صادر نہیں کرتی_

وہ تھوڑی دیر کھڑا سوچتا رہا پھر واپس لوٹا لیکن خوشحال ہوکر نہیں بلکہ پریشانی کے عالم میں لوگوں کے سامنے قاضی سے کہتا ہے:

۲۰۱

''مسلمانو میں اس فیصلہ سے حیرت زدہ ہوں اور یقین نہیں ہوتا کہ قاضی نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے اور مسلمانوں کے پیشوا کے خلاف حکم سنایا ہے، اس عدالت کا حکم بالکل غیر جانبدارانہ تھا اور اس طرح کا فیصلہ صرف پیغمبروں (ع) کے دین میں ہی دیکھا جاسکتا ہے_

مجھے تعجب ہوتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) و رسول خدا(ص) کا خلیفہ اور میں ایک عیسائی عدالت میں قانون کی رو سے مساوی ہیں، جہاں اسلام کا پیشوا عدالت میں حاضر ہوتا ہے اور اپنے اجتماعی مقام اور رتبہ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا

کیسے یہ ہوگیا کہ وہ قاضی کہ جسے وہی پیشوا معین کرتا ہے اس کے حق میں فیصلہ نہیں دیتا؟ کس طرح مانا جائے کہ قاضی اسلام کے رہبر و امیرالمومنین کے خلاف حکم صادر کردیتا ہے اور قضاوت کے قوانین کو ہر حیثیت سے ترجیح دیتا ہے_

یہ عدالت اور یوں فیصلہ کرنا تمھارے دین و مذہب کے حق ہونے کی نشانی ہے میں تمھارے دین کو قبول کرتا ہوں اور مسلمان ہوتا ہوں''_

اس وقت اس نے کلمہ شہادتین: اشہد ان لا الہ الّا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ''

زبان پر جاری کیا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ:

'' خدا کی قسم حق آپ کے ساتھ ہے اور آپ اپنے دعوی میں سچے ہیں یہ زرہ آپ کی ہے جب آپ مسلمانوں کے لشکر کے

۲۰۲

ساتھ صفین کی جنگ میں جا رہے تھے تو یہ زرہ اونٹ سے گرپڑی تھی اور آپ اس سے آگے نکل گئے تھے میں نے اسے اٹھایا تھا اور اسے گھر لے آیا تھا یقینا یہ زرہ آپ ہی کی ہے اور میں معافی چاہتا ہوں''_

امیرالمومنین (ع) لوگوں کو ہدایت کرنا بہت پسند کرتے تھے اس کے مسلمان ہونے سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا:

'' تمھارے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے یہ زرہ میں تمھیں بخشتا ہوں اور یہ گھوڑا بھی تمھیں دیتا ہوں''

اس مرد نے اسلامی عالت کی عادلانہ رفتار کی وجہ سے اسلام کو محبت اور عشق سے قبول کیا اور امیرالمومنین (ع) کے خاص پیرو کاروں میں سے ہوگیا اور وہ دین اسلام کا اتنا شیفتہ ہوگیا کہ اسلامی فوج سے منسلک ہوگیا اور بہت بہادری سے نہروان کی جنگ میں شرکت کی ا ور اسلام کی حفاظت کی یہاں تک کہ اپنے کو اسلام اور انسانی آزادی کے لئے قربان کردیا اور شہادت کے بلند درجہ پر فائز ہوگیا_

توضیح اور تحقیق:

معاشرہ میں عادلانہ قوانین کا ہونا اور اس پر عمل کرانا اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اگر معاشرہ میں قانون کی حکومت ہو تو لوگ امن میں رہیں گے مطمئن ہوکر کاموں میں مشغول رہیں گے اپنی اور دوسرے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے میں کوشا رہیں گے کیونکہ صحیح قانون کے اجراء سے ہی اختلاف اور بد نظمی کو روکا جاسکتا ہے_ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جاسکتی ہے_

۲۰۳

قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور سبھی کو اللہ تعالی کے قوانین کا احترام کرنا چاہیئے اور اپنی مشکلات کو قانون کے دائرہ میں حل کرنا چاہیئےور عدالت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے اگر چہ وہ حکم ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو_ قاضی اور قانون جاری کرنے والوں کا سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیئے حق و عدالت کی پیروی کرنا چاہیئے اور کسی بھی موقع پر غلط حمایت نہیں کرنا چاہیئے بلکہ دوستی اور دشمنی کو مدّ نظر رکھے بغیر قضاوت کرنا چاہیئے_

قرآن کی آیت:

( یا ايّها الّذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء الله و لو علی انفسکم او الوالدین و الاقربین ان یکن غنیا او فقیرا فالله اولی بهما فلا تتّبعوا الهوی ان تعدلوا و ان تلوا او تعرضوا فان الله کان بما تعملون خبیرا ) (۱)

'' اے ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ قیامت کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور قرباء ہی کے خلاف کیوں نہ ہو جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولی ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے''_

____________________

۱) سورہ نساء آیت ۱۳۵

۲۰۴

سوالات

یہ سوالات اس لئے ہیں تا کہ زیادہ غور و فکر کرسکو

۱)___ جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ عیسائی کے ہاتھ میں دیکھی تھی تو اس سے کیا کہا تھا؟

۲)___ کیا اس عیسائی نے حضرت علی (ع) کی بات کو مانا تھا او رجواب میں کیا کہا تھا؟

۳)___ جب اس عیسائی نے امیرالمومنین (ع) کو زرہ واپس نہ کی تھی تو امیرالمومنین (ع) نے اس سے کیا کہا تھا؟

۴)___ قاضی نے امیرالمومنین (ع) کے ساتھ کون سا سلوک کیا اور حضرت علی (ع) نے اس سے بیٹھنے کے لئے کیون کہا تھا؟

۵)___ قاضی نے آپ کے جھگڑے میں کس طرح قضاوت کی اور کس کے حق میں فیصلہ دیا اور کیوں؟

۶)___ وہ عیسائی کیوں مسلمان ہوگیا تھا؟ اس کے مسلمان ہونے کا سبب کیا تھا؟

۷)___ اس تازہ عیسائی مسلمان کا انجام کیا ہوا تھا؟ تمھاری نظر میں وہ اس مرتبہ تک کیسے پہونچا تھا؟

۹)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ صحیح قانون کے اجر اسے امن کا کیون احساس ہوتا ہے؟

۱۰)___ صحیح قانون کے اجرا سے ظلم و جور کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟

۱۱)____ قاضیوں کو طرفین سے کیسا سلوک کرنا چاہیئے؟

۲۰۵

۱۲)___ دو نزاع کرنے والوں میں سے ایک کو مدّعی کہا جاتا ہے اور جانتے ہو کہ دوسرے کو کیا کہا جاتا ہے؟

۱۳)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں عدالت و انصاف کے بارے میں مومنین کا کیا فریضہ معین کیا ہے؟

۱۴)___ عیسائی کے سا تھ امیرالمومنین علیہ السلام کے سلوک کو وضاحت سے بیان کرو_

۱۵)___ کبھی تم نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کیا ہے؟ کیا عدالت و مساوات کی رعایت کی ہے؟ کیا تم میں فیصلہ کرنے کے شرائط موجود ہیں؟

۲۰۶

اسلام میں برادری

ہم ساتویں امام حضرت امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے میرے دوستوں میں سے محمد نام کا ایک دوست بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا_ امام موسی کاظم علیہ السلام میرے تبسم اور اس کی طرف دیکھنے سے سمجھ رہے تھے کہ میں محمد کو بہت چاہتا ہوں آپ کافی دیر تک ہم دونوں کو دیکھتے رہے اور پھر فرمایا:

'' محمد کو تم بہت دوست رکھتے ہو''

میں نے غرض کی:

''جی ہاں اے فرزند پیغمبر(ص) چونکہ محمد ایک متقی و با ایمان انسان ہے اور آپ کے دوستوں میں سے ہے لہذا میں اسے دوست رکھتا ہوں''_

امام علیہ السلام نے فرمایا:

'' ضرور تمھں اسے دوست رکھنا چاہیئے محمد ایک مرد مومن ہے اور تمام مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ ان کا آپس میں سلوک دو بھائیوں جیسا ہو_

کیا جانتے ہے؟ کیا جانتے ہو کہ جو مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت کرے اور اسے دوھوکہ دے خداوند عالم اسے اپنی رحمت

۲۰۷

سے دور کردیتا ہے؟ جانتے ہو کہ بھائیوں کو ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے اور ایک دوسرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے؟

دیکھو کسی بھائی کو اس کی ضرورت کی چیز سے محروم نہ کرنا کیونکہ ایسا شخص خدا کی رحمت سے دور رہتا ہے_ دیکھو کبھی کسی بھائی کی غیر حاضری میں اس کی غیبت اور بدگوئی نہ کرنا یا اس کو اپنے سے دور نہ کرنا کہ خداوند عالم بھی تمھیں اپنی رحمت سے دور کردے گا_

اسلام کی رو سے مسلمان مرد اور عورت ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں اور اسلام نہ یہ کہ ایک دوسرے کو بھائی بہن کہہ کہ بلانے کو کہتا ہے بلکہ ان سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے سے بھائیوں اور بہنوں کی طرح مہربانی و صمیمیت سے مددگار ہوں_ سچّے بہن بھائی کبھی بھی ایک دوسرے سے بے تفاوت نہیں رہ سکتے اور وہ ایک دوسے کے اعضاء کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر بدن کا ایک عضو و رد کرے تو دوسرا عضو بھی درد کرتا ہے _ مومنین بھی ایسے ہوا کرتے ہیں کہ اگر کسی مومن کو کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو دوسرے بھی درد و رنج کا احساس کرتے ہیں اور اس مومن بھائی یا بہت کی مدد کے لئے پہونچ جاتے ہیں اور اس کے درد و رنج کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں''_

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرما ہے کہ:

۲۰۸

'' مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر برادری کا حق رکھتے ہیں اگر ایک بھائی بھوکا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنے پیٹ کو مختلف رنگ برنگ غذا سے پر کرسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی پیاسا ہو تو دوسرا بھائی سیراب ہوسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی لباس نہ رکھتا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنی پسند کا لباس پہن سکتا ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کافی حق رکھتا ہے کہ وہ اسے بجالائے''

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی چند ذمّہ داریاں میں:

۱)___ '' ملاقات کے وقت اسے سلام کرے_

۲)___ اگر بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرے_

۳)___ اگر مرجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرے_

۴)___ اگر اسے دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کردے_

۵)___ اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسرے مسلمان اور مومن کے لئے بھی پسند کرے اور جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتا وہ دوسرے کے لئے بھی پسند نہ کرے''_

۲۰۹

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو فرائض ہیں انھیں بتاؤ_

۲)___ مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشے کو بیان کرو اور بتاؤ کہ مومن واقعی ایک دوسرے سے کس طرح کی رفتار کرے اور جب کوئی مومن مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے تو دوسرے مومن کو کیا کرنا چاہیئے؟

۳)___ امام موسی کاظم علیہ السلام نے محمّد کے دوست سے جو آپ کے اصحاب میں سے تھا مومنین کے ایک دوسرے کے فرائض کے سلسلہ میں کیا فرمایا تھا؟

۲۱۰

اسلام اور مساوات

ایک دن پیغمبر اسلام(ص) اپنے چند اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے اسی وقت جناب سلمان فارسی جو پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں محترم تھے آگئے آنحضرت (ص) نے اپنی گفتگوختم کرتے ہوئے سلمان فارسی کو بڑے احترام اور خندہ پیشانی سے اپنے پہلو میں بٹھایا_ آپ کی اس محبت آمیز رفتار اور بہت زیادہ احترام سے آپ کے ایک صحابی کو غصہ آیا اور گستاخانہ انداز میں کہا کہ:

'' سلمان کو ہمارے درمیان ہم سے بلند جگہ نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ ہم سے نیچے بیٹھنا چاہیئے کیونکہ وہ فارسی زبان ہیں اور ہم عربی زبان'' _

پیغمبر اسلام(ص) اس صحابی کی گفتگو سے غضبناک ہوئے اور فرمایا:

'' نہیں ایسا نہیں ہے فارسی یا عربی ہونا قابل امتیاز اور فخر نہیں ہوا کرتا، رنگ اور قبیلہ فضیلت کاموجب نہیں ہوا کرتا، سفید کو سیاہ پر برتری نہیں ہے بلکہ جو چیز خداوند عالم کے نزدیک برتری کا موجب ہے وہ ''تقوی'' ہے_

جو بھی تقوی میں زیادہ ہوگا وہ اللہ کے نزدیک معزز ہوگا،

اسلام برابری کا دین ہے اور دین اسلام بے اساس و خیالی امتیازات کی مخالفت کرتا ہے_ اسلام کی نگاہ میں سلمان فارسی ، صہیب رومی، حمزہ، جعفر ابن ابیطالب اور دوسرے مسلمان سب کے سب برابر

۲۱۱

ہیں_ برتری اور فضیلت کا معیار صرف تقوی اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ کرنے میں ہے_ اللہ تعالی کے نزدیک ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہی برتری ہوا کرتی ہے کیونکہ سب کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور خداوند عالم نے تقوی کو فضیلت و برتری کا معیار قرار دیا ہے''_

خداوند عالم انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کی ضروریات کو پہلے سے مہیا کیا ہے اور انھیں اس کے اختیار میں دیا ہے اسی طرح خدا نے زمین کو پیدا کیا ہے تا کہ انسان اس پر زندگی بسر کرے اپنی کوشش سے اسے آباد کرے اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو اپنے اور دوسروں کے لئے روزی حاصل کرے_

انسان اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ کئے بغیر اور خاص طور سے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا_ خداوند عالم نے پانی کو انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ اسے پیئں اور اس سے زراعت کریں اور حیوانوں کو پالیں_ زمین کے معاون اور اس کی اندرونی دولت کو انسانوں کے فائدے کے لئے خلق کیا ہے تا کہ انسان غور و فکر کے ذریعہ دنیا کے اسرار و رموز سے واقف ہو اور ان نعمتوں سے کہ جو زمین کے اندر ہیں بہرہ مند ہو اور انھیں مخلوق خدا کی سعادت و آرام اور رفاہ کے لئے استعمال میں لائے ( زمین یا پانی، ہوا اور زمین کی دوسری دولت سارے انسانوں سے متعلق ہے اور سبھی اس سے فائدہ حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں_

سارے انسان اللہ کے بندے ہیں اور وہ زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں سفید، سیاہ، زرد، سرخ، عورت، مرد، دیہاتی، شہری، عرب اور عجم سب کے سب انسان ہیں اور سب کو حق پہونچتا ہے کہ کھانے پینے اور زندگ کے دوسرے وسائل سے بہرہ مند

۲۱۲

ہوں_ سبھی کو محنت کرنا چاہیئے اور اسلام کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے غیر آباد زمین کو آباد کرنا چاہیئے اور زمین کے اندر چھپی ہوئی دولت کو نکال کر اپنے معاشرہ کے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہیئے_

کسی انسان کو حق نہیں پہونچتا کہ وہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے اور زندگی کے وسائل سے محروم کردے جس طرح خدا کے نزدیک سارے انسان برابر ہیں اسی طرح ایک اسلامی مملکت کی نظر میں بھی برابر ہیں_ اسلامی مملک کو عوام کی ضروریات کو فراہم کرنا چاہیئے اورا ن کی خوراک و پوشاک اورمسکن کا بغیر کسی جانبداری کے انتظام کرنا چاہیئے_

اسلامی حکومت کو چاہیئے کہ جہالت کو ختم کردے اور سبھی کو اسلامی تعلیم سے بہرہ مند کرے اور عوام کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کا انتظام کرے_ اسلامی مملکت کا یہ وظیفہ ہے کہ تمام رعایا کی مدد سے مجبور اور بوڑھوں کے لئے سامان زندگی کو مہیا کرے_ اسلامی حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ کرنے والوں کے ظلم و تعدی کو روکے اور ان کے درمیان عدل او نصاف سے کام لے اور ان لوگوں پر زیادہ توجہ دے جو محروم و ضعیف اور سر حد و دیہات کے رہنے والے ہیں تا کہ ان کی زندگی دوسرے افراد کی زندگی کے برابر آجائے_

خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام عدل و انصاف، برابری اور برادری کا دین ہے_ کسی کو دوسرے پر سوائے تقوی کے کوئی امتیاز نہیں حاصل ہے صرف مومن اور پرہیزگار اپنے ایمان اورتقوی کے مراتب کے لحاظ سے ''اللہ کے نزدیک معزّز ترین وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور زیادہ متقی ہے''_

۲۱۳

قرآن مجید کی آیات:

( و الارض وضعها للانام ) (۱)

'' اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے قرار دیا ہے''

( هو الّذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ) (۲)

'' اللہ ہی تو وہ ہے کہ جس نے زمین کی ساری چیزیں تمھارے لئے خلق کی ہیں''

( انّ اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۳)

'' معزز ترین تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو''_

____________________

۱) سورہ رحمن آیت ۱۰

۲) سورہ بقرہ آیت ۲۹

۳) سورہ حجرات آیت ۱۳

۲۱۴

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱) ___پیغمبر اسلام(ص) ، جناب سلمان فارسی کا کیوں زیادہ احترام کرتے تھے؟

۲)____ پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں انسان کے لئے کون سی چیز باعث فضیلت ہے؟ اور کیوں؟

۳)___ لارث زمین، معاون (کانیں) اور زمین میں موجود ثروت کس کی ملکيّت ہے؟ اوران کس کی اجازت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟

۴)___ حکومت اسلامی کو مسلمانوں کی مدد کے لئے کون سا اقدام کرنا چاہیئے؟

۵)____ اسلامی حکومت کو اپنی منصوبہ بندیوں میں کس کو ترجیح دینی چاہیئے؟

۲۱۵

ظالموں کی مدد مت کرو

'' بنی امیہ کی حکومت ایک غاصب اور ظالم حکومت ہے میں تمھیں اجازت نہیں دیتا کہ ظالم حکومت کی خدمت کرو اور اپنے عمل سے ان کی تائید کرو''

( امام صادق علیہ السلام)

یہ بات امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے جواب میں کہی تھی کہ جس نے آپ سے سوال کیا تھا '' کیا میں بنی امیہ کے خلفاء کی خدمت کرسکتا ہوں؟ کیونکہ میں ایک مدت سے بنی امیہ کے دربار میں کرتا ہوں اور بہت کافی مال میں نے حاصل کیا ہے اور اس کے حصول میں بہت زیادہ احتیاط و دقّت سے بھی کام نہیں لیا ہے لہذا اب کیا کروں؟

اس مال کا جو میرے پاس موجود ہے کیا حکم ہے حلال ہے یا حرام؟ کیا میں اس کام میں مشغول رہ سکتا ہوں؟ میرا ہونا یا نہ ہونا ان کی حکومت میں کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا؟ اگر میں نے وہ کام انجام نہ دیا تو دوسرے موجود ہیں جو اس کام کو انجام دے دیں گے''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:

'' اگر بنی امیہ کو مدد گار نہ ملتے تو وہ لوگوں پر ظلم نہ کرتے کیونکہ حکومت خودبخود تو نہیں چلتی بلکہ اس کے لئے وزیر، معاون، مدیر و کام کرنے والے ضروری ہوتے ہیں یہی لوگ حکوت کو چلاتے ہیں اگر تم اور تم جیسے دوسرے لوگ بنی امیہ کی مدد نہ کرتے تو

۲۱۶

وہ کس طرح لوگوں کو ہماری الہی حکومت سے محروم کرسکتے تھے؟ کس طرح وہ فتنہ اور فساد برپا کرسکتے تھے؟ اگر لوگ ظالموں کی تائید نہ کریں اور ان کے اجتماعات و محافل میں شریک نہ ہوں تو وہ کس طرح اپنے مقاصد تک پہونچ سکتے ہیں؟

نہیں ہرگز نہیں میں کسی مسلمان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ ظالموں کی حکومت میں نوکری کرے اور اپنے کام سے ان کی مدد کرے''

سائل نے چونکہ امام علیہ السلام کے حکم کی اطاعت کرنے کا مصمّم ارادہ کیا تھا سوچنے لگا اور اپنے سے کہا کہ کیا میں اس گناہ سے اپنے آپ کو نجات دے سکتا ہوں؟ کاش میں ظالموں کی مدد نہ کرتا اب کس طرح توبہ کروں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام توبہ کے آثار کو اس کے چہرہ پر مشاہدہ کر رہے تھے آپ نے فرمایا:

' ' ہاں تم اس سے توبہ کرسکتے ہو اور خداوند عالم تیری توبہ قبول بھی کرے گا لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کیا اسے انجام دے سکوگے؟

جوان نے کہا کہ:

'' ہاں میں حاضر ہوں اور خداوند عالم سے اپنے ارادہ کی تکمیل میں مدد چاہتا ہوں''

امام جعفر صادق علیہ السلام تھوڑا سا روئے اور پھر فرمایا:

'' جو مال تو نے بنی امیہ کی غاصب و ظالم حکومت سے غیر شرعی طریقہ سے حاصل کیا ہے وہ تیرا مال نہیں ہے اور اس میں تیرا تصرف

۲۱۷

کرنا حرام ہے وہ تمام کا تمام اس کے مالکوں کو واپس کردو_

اگر مالکوں کو پہچانتے ہو تو خود انھیں کو واپس کرو اور اگر انھیں نہیں پہچانتے تو ان کی طرف سے صدقہ دے دو تو میں تمھارے لئے بہشت کی ضمانت لیتا ہوں''

وہ سوچنے لگا کیونکہ ساری دولت فقراء کو دینی ہوگی لیکن اس نے سوچا کہ دنیا کی سختیوں کو برداشت کیاجاسکتا ہے اس لئے کہ یہ ختم ہوجانے والی ہیں لیکن آخرت کی سختی اور عذاب دائمی ہے لامحالہ ان دو میں سے ایک کو اختیار کرنا ہوگا لہذا بہتر ہے دنیا کی تکلیف و رنج کو قبول کرلوں اور اپنے آپ کو آخرت کے دائمی عذاب سے چھٹکارا دے دوں اس نے اپنا سرا اوپر اٹھایا اور امام علیہ السلام سے عرض کیا کہ:

'' میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا''

اس کے بعد وہ وہاں سے اٹھا اور امام (ع) سے رخصت ہوکر چلاگیا_ علی بن حمزہ جو اس کا دوست اور ہمسفر بھی تھا وہ کہتا ہے کہ:

'' جب ہم کوفہ پہونچے تو میرا یہ دوست سیدھا گھر گیا مجھے کئی دن تک اس کی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ مجھے اطلاع ملی کہ اس نے اپنی ساری دولت کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے_ جس کو پہچانتا تھا اس کا مال اسے واپس کردیا ہے اور جسے نہیں پہچانتا تھا تو اس کی طرف سے فقراء اور ناداروں کو صدقہ دے دیا ہے یہاں تک کہ اس نے اپنے بدن کے لباس کو بھی دے دیا ہے اور پہننے کے لئے کسی سے لباس عاریة لیا ہے اب تو اس کے پاس لباس ہے اور نہ خوراک_

۲۱۸

میںنے تھوڑی خوراک و لباس اس کے لئے مہیا کیا اور اس کی ملاقات کے لئے اس کے پاس گیا اس سے مل کر بہت خوش ہو اور اس کے اس عمدہ عمل کی تعریف کی_ میری ملاقات کو تقریباً ایک مہینہ گزرا تھا کہ مجھے خبر ملی کہ وہ جوا ن بیمار ہوگیا ہے میں اس کی عیادت کے لئے گیا اور وہ جب تک بیمار رہا اس کی عیادت کو جاتا تھا اور اس کے نورانی چہرہ کو دیکھ کر خوشحال ہوتا تھا_

ایک دن میں اس کے سر ہانے بیٹھا تھا کہ اس نے میری طرف نگاہ کی اور بلند آواز میں کہا: '' بھائی امام (ع) نے اپنے عمدہ کو پورا کردیا ہے میں ابھی سے بہشت میں اپنی جگہ دیکھ رہا ہوں''

اس کے بعد اس نے کلمہ شہادتین پڑھا اوردنیا سے رخصت ہوگیا''

توضیح اور تحقیق:

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

'' ظالم ایک دوسرے کے دوست و مددگار ہوتے ہیں اور ان کے بعض دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن اللہ پرہیزگاروں کا یار و مددگار ہے''_

نیز ارشاد ہوتا ہے:

'' جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان کی طرف ہرگز میلان نہ کرو اور ان

۲۱۹

پر ہرگز اعتماد نہ کرو کہ وہ بالآخر دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے''_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' قیامت کے دن اللہ تعالی کی طرف سے منادی ندا دے گا; ظالم کہاں ہیں؟ ظالموں کے مددگارکہاں ہیں؟ تمام ظالموں اور ان کے مددگاروں کو حاضر کرو یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی کہ جنھوں نے ظالموں کی حکومت میں سیاہی اور قلم سے ان کی مد کی ہے یا ان کے لئے خطوط لکھے ہیں یہ تمام لوگ حاضر ہوں گے اور خداوند عالم کے حکم سے انھیں ظالموں کے ساتھ دوزخ میں ڈالا جائے گا'' _

کیونکہ ظالم اکیلے قادر نہیںہوتا کہ وہ لوگوں کے حقوق کو غصب کرے اور ان پر ظلم و ستم کرے اپنے غیر انسانی اور پلید اہداف و اغراض تک پہونچنے کے لئے دوسروں سے مدد لیتا ہے کسی کو رشتہ اور عہدہ دے کر دھوکہ دیتا ہے اور کسی کو ما ل و دولت دے کر اپنے اردگرد اکٹھا کرتا ہے اور کسی کو ڈرا دھمکا کر اپنی طرف لاتا ہے اس طرح سے اپنی طاغوتی طاقت کو محکم و مضبوط بناتا ہے پھر خون پسینہ سے جمع کی ہوئی دولت کو غصب کرتا ہے اور دوسروں پر تجاوز کرتا ہے_

ظالم حکومت کے مامورین، طاغوت انسانوں کے لئے دوسرے لوگوں پر تجاوز اور خیانت کا راستہ ہموار کرتے ہیں وہ اس طرح سے محروم و زحمت کش افراد پر ظلم کرنے کا دروازہ کھول دیتے ہیں_ مدّاح قسم کے لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور طاغوت کے مکروہ چہرے کو محبوب اور پسندیدہ ظاہر کرتے ہیں، روشن فکر قسم کے خائن لوگ ان طاغوتی قوانی کو مرتب کرتے ہیں اور خائن قسم کے وزیر، طاغوتی قوانین جو لوگوں کے ضرر کے لئے بنائے جاتے ہیں ان پر عمل کراتے ہیں اور مسلّح فوج کے حاکم و کمانڈر افراد

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302