‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110426 / ڈاؤنلوڈ: 3821
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

خلیفہ کو بھی نہیں جھٹلاتا ہوں''

قاضی نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا:

'' یا علی (ع) آپ مدّعی ہیں اور مدّعی کو ایسے دو گواہ کو جو قابل قبول ہوں لانے چاہئیں اگر آپ کے پاس گواہ ہیں تو انھیں عدال میں لائیں تا کہ وہ گواہی دیں''

امیرالمومنین (ع) قاضی کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ گواہی کے قبول کئے جانے کے کیا شرائط ہیں آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ:

'' میں اس طرح کے گواہ نہیں رکھتا''

قاضی نے کہا:

'' جب آپ کے پاس گواہ نہیں ہیں تو شریعت کی رو سے آپ کا حق ثابت نہیں ہوتا''_

چنانچہ وہ عیسائی زرہ لے کر عدالت سے باہر گیا اور تھوڑی دور چلنے کے بعد سوچنے لگا کہ کتنا بہترین دین اور کتنی عادلانہ حکومت ہے کہ ایک مسلمانوں کے پیشوا اور ایک عیسائی آدمی کو قاضی کے سامنے برابر اور مساوی قرار دیتا ہے_ مسلمانوں کا پیشوا قاضی سے کہتا ہے کہ '' بیٹھ جاؤ تمھیں ایک قاضی کی حیثیت سے قضاوت کے وقت میرا زیادہ احترام نہیں کرنا چاہیئے، قاضی کو نگاہ کرنے میں بھی طرفین میں عدالت اور مساوات برتنی چاہیئے کتنی عادلانہ قضاوت ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی کے حق میں اگر چہ وہ مسلمانوں کا پیشوا ہی کیوں نہ ہو فیصلہ صادر نہیں کرتی_

وہ تھوڑی دیر کھڑا سوچتا رہا پھر واپس لوٹا لیکن خوشحال ہوکر نہیں بلکہ پریشانی کے عالم میں لوگوں کے سامنے قاضی سے کہتا ہے:

۲۰۱

''مسلمانو میں اس فیصلہ سے حیرت زدہ ہوں اور یقین نہیں ہوتا کہ قاضی نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے اور مسلمانوں کے پیشوا کے خلاف حکم سنایا ہے، اس عدالت کا حکم بالکل غیر جانبدارانہ تھا اور اس طرح کا فیصلہ صرف پیغمبروں (ع) کے دین میں ہی دیکھا جاسکتا ہے_

مجھے تعجب ہوتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) و رسول خدا(ص) کا خلیفہ اور میں ایک عیسائی عدالت میں قانون کی رو سے مساوی ہیں، جہاں اسلام کا پیشوا عدالت میں حاضر ہوتا ہے اور اپنے اجتماعی مقام اور رتبہ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا

کیسے یہ ہوگیا کہ وہ قاضی کہ جسے وہی پیشوا معین کرتا ہے اس کے حق میں فیصلہ نہیں دیتا؟ کس طرح مانا جائے کہ قاضی اسلام کے رہبر و امیرالمومنین کے خلاف حکم صادر کردیتا ہے اور قضاوت کے قوانین کو ہر حیثیت سے ترجیح دیتا ہے_

یہ عدالت اور یوں فیصلہ کرنا تمھارے دین و مذہب کے حق ہونے کی نشانی ہے میں تمھارے دین کو قبول کرتا ہوں اور مسلمان ہوتا ہوں''_

اس وقت اس نے کلمہ شہادتین: اشہد ان لا الہ الّا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ''

زبان پر جاری کیا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ:

'' خدا کی قسم حق آپ کے ساتھ ہے اور آپ اپنے دعوی میں سچے ہیں یہ زرہ آپ کی ہے جب آپ مسلمانوں کے لشکر کے

۲۰۲

ساتھ صفین کی جنگ میں جا رہے تھے تو یہ زرہ اونٹ سے گرپڑی تھی اور آپ اس سے آگے نکل گئے تھے میں نے اسے اٹھایا تھا اور اسے گھر لے آیا تھا یقینا یہ زرہ آپ ہی کی ہے اور میں معافی چاہتا ہوں''_

امیرالمومنین (ع) لوگوں کو ہدایت کرنا بہت پسند کرتے تھے اس کے مسلمان ہونے سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا:

'' تمھارے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے یہ زرہ میں تمھیں بخشتا ہوں اور یہ گھوڑا بھی تمھیں دیتا ہوں''

اس مرد نے اسلامی عالت کی عادلانہ رفتار کی وجہ سے اسلام کو محبت اور عشق سے قبول کیا اور امیرالمومنین (ع) کے خاص پیرو کاروں میں سے ہوگیا اور وہ دین اسلام کا اتنا شیفتہ ہوگیا کہ اسلامی فوج سے منسلک ہوگیا اور بہت بہادری سے نہروان کی جنگ میں شرکت کی ا ور اسلام کی حفاظت کی یہاں تک کہ اپنے کو اسلام اور انسانی آزادی کے لئے قربان کردیا اور شہادت کے بلند درجہ پر فائز ہوگیا_

توضیح اور تحقیق:

معاشرہ میں عادلانہ قوانین کا ہونا اور اس پر عمل کرانا اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اگر معاشرہ میں قانون کی حکومت ہو تو لوگ امن میں رہیں گے مطمئن ہوکر کاموں میں مشغول رہیں گے اپنی اور دوسرے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے میں کوشا رہیں گے کیونکہ صحیح قانون کے اجراء سے ہی اختلاف اور بد نظمی کو روکا جاسکتا ہے_ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جاسکتی ہے_

۲۰۳

قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور سبھی کو اللہ تعالی کے قوانین کا احترام کرنا چاہیئے اور اپنی مشکلات کو قانون کے دائرہ میں حل کرنا چاہیئےور عدالت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے اگر چہ وہ حکم ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو_ قاضی اور قانون جاری کرنے والوں کا سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیئے حق و عدالت کی پیروی کرنا چاہیئے اور کسی بھی موقع پر غلط حمایت نہیں کرنا چاہیئے بلکہ دوستی اور دشمنی کو مدّ نظر رکھے بغیر قضاوت کرنا چاہیئے_

قرآن کی آیت:

( یا ايّها الّذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء الله و لو علی انفسکم او الوالدین و الاقربین ان یکن غنیا او فقیرا فالله اولی بهما فلا تتّبعوا الهوی ان تعدلوا و ان تلوا او تعرضوا فان الله کان بما تعملون خبیرا ) (۱)

'' اے ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ قیامت کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور قرباء ہی کے خلاف کیوں نہ ہو جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولی ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے''_

____________________

۱) سورہ نساء آیت ۱۳۵

۲۰۴

سوالات

یہ سوالات اس لئے ہیں تا کہ زیادہ غور و فکر کرسکو

۱)___ جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ عیسائی کے ہاتھ میں دیکھی تھی تو اس سے کیا کہا تھا؟

۲)___ کیا اس عیسائی نے حضرت علی (ع) کی بات کو مانا تھا او رجواب میں کیا کہا تھا؟

۳)___ جب اس عیسائی نے امیرالمومنین (ع) کو زرہ واپس نہ کی تھی تو امیرالمومنین (ع) نے اس سے کیا کہا تھا؟

۴)___ قاضی نے امیرالمومنین (ع) کے ساتھ کون سا سلوک کیا اور حضرت علی (ع) نے اس سے بیٹھنے کے لئے کیون کہا تھا؟

۵)___ قاضی نے آپ کے جھگڑے میں کس طرح قضاوت کی اور کس کے حق میں فیصلہ دیا اور کیوں؟

۶)___ وہ عیسائی کیوں مسلمان ہوگیا تھا؟ اس کے مسلمان ہونے کا سبب کیا تھا؟

۷)___ اس تازہ عیسائی مسلمان کا انجام کیا ہوا تھا؟ تمھاری نظر میں وہ اس مرتبہ تک کیسے پہونچا تھا؟

۹)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ صحیح قانون کے اجر اسے امن کا کیون احساس ہوتا ہے؟

۱۰)___ صحیح قانون کے اجرا سے ظلم و جور کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟

۱۱)____ قاضیوں کو طرفین سے کیسا سلوک کرنا چاہیئے؟

۲۰۵

۱۲)___ دو نزاع کرنے والوں میں سے ایک کو مدّعی کہا جاتا ہے اور جانتے ہو کہ دوسرے کو کیا کہا جاتا ہے؟

۱۳)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں عدالت و انصاف کے بارے میں مومنین کا کیا فریضہ معین کیا ہے؟

۱۴)___ عیسائی کے سا تھ امیرالمومنین علیہ السلام کے سلوک کو وضاحت سے بیان کرو_

۱۵)___ کبھی تم نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کیا ہے؟ کیا عدالت و مساوات کی رعایت کی ہے؟ کیا تم میں فیصلہ کرنے کے شرائط موجود ہیں؟

۲۰۶

اسلام میں برادری

ہم ساتویں امام حضرت امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے میرے دوستوں میں سے محمد نام کا ایک دوست بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا_ امام موسی کاظم علیہ السلام میرے تبسم اور اس کی طرف دیکھنے سے سمجھ رہے تھے کہ میں محمد کو بہت چاہتا ہوں آپ کافی دیر تک ہم دونوں کو دیکھتے رہے اور پھر فرمایا:

'' محمد کو تم بہت دوست رکھتے ہو''

میں نے غرض کی:

''جی ہاں اے فرزند پیغمبر(ص) چونکہ محمد ایک متقی و با ایمان انسان ہے اور آپ کے دوستوں میں سے ہے لہذا میں اسے دوست رکھتا ہوں''_

امام علیہ السلام نے فرمایا:

'' ضرور تمھں اسے دوست رکھنا چاہیئے محمد ایک مرد مومن ہے اور تمام مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ ان کا آپس میں سلوک دو بھائیوں جیسا ہو_

کیا جانتے ہے؟ کیا جانتے ہو کہ جو مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت کرے اور اسے دوھوکہ دے خداوند عالم اسے اپنی رحمت

۲۰۷

سے دور کردیتا ہے؟ جانتے ہو کہ بھائیوں کو ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے اور ایک دوسرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے؟

دیکھو کسی بھائی کو اس کی ضرورت کی چیز سے محروم نہ کرنا کیونکہ ایسا شخص خدا کی رحمت سے دور رہتا ہے_ دیکھو کبھی کسی بھائی کی غیر حاضری میں اس کی غیبت اور بدگوئی نہ کرنا یا اس کو اپنے سے دور نہ کرنا کہ خداوند عالم بھی تمھیں اپنی رحمت سے دور کردے گا_

اسلام کی رو سے مسلمان مرد اور عورت ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں اور اسلام نہ یہ کہ ایک دوسرے کو بھائی بہن کہہ کہ بلانے کو کہتا ہے بلکہ ان سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے سے بھائیوں اور بہنوں کی طرح مہربانی و صمیمیت سے مددگار ہوں_ سچّے بہن بھائی کبھی بھی ایک دوسرے سے بے تفاوت نہیں رہ سکتے اور وہ ایک دوسے کے اعضاء کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر بدن کا ایک عضو و رد کرے تو دوسرا عضو بھی درد کرتا ہے _ مومنین بھی ایسے ہوا کرتے ہیں کہ اگر کسی مومن کو کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو دوسرے بھی درد و رنج کا احساس کرتے ہیں اور اس مومن بھائی یا بہت کی مدد کے لئے پہونچ جاتے ہیں اور اس کے درد و رنج کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں''_

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرما ہے کہ:

۲۰۸

'' مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر برادری کا حق رکھتے ہیں اگر ایک بھائی بھوکا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنے پیٹ کو مختلف رنگ برنگ غذا سے پر کرسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی پیاسا ہو تو دوسرا بھائی سیراب ہوسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی لباس نہ رکھتا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنی پسند کا لباس پہن سکتا ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کافی حق رکھتا ہے کہ وہ اسے بجالائے''

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی چند ذمّہ داریاں میں:

۱)___ '' ملاقات کے وقت اسے سلام کرے_

۲)___ اگر بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرے_

۳)___ اگر مرجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرے_

۴)___ اگر اسے دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کردے_

۵)___ اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسرے مسلمان اور مومن کے لئے بھی پسند کرے اور جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتا وہ دوسرے کے لئے بھی پسند نہ کرے''_

۲۰۹

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو فرائض ہیں انھیں بتاؤ_

۲)___ مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشے کو بیان کرو اور بتاؤ کہ مومن واقعی ایک دوسرے سے کس طرح کی رفتار کرے اور جب کوئی مومن مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے تو دوسرے مومن کو کیا کرنا چاہیئے؟

۳)___ امام موسی کاظم علیہ السلام نے محمّد کے دوست سے جو آپ کے اصحاب میں سے تھا مومنین کے ایک دوسرے کے فرائض کے سلسلہ میں کیا فرمایا تھا؟

۲۱۰

اسلام اور مساوات

ایک دن پیغمبر اسلام(ص) اپنے چند اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے اسی وقت جناب سلمان فارسی جو پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں محترم تھے آگئے آنحضرت (ص) نے اپنی گفتگوختم کرتے ہوئے سلمان فارسی کو بڑے احترام اور خندہ پیشانی سے اپنے پہلو میں بٹھایا_ آپ کی اس محبت آمیز رفتار اور بہت زیادہ احترام سے آپ کے ایک صحابی کو غصہ آیا اور گستاخانہ انداز میں کہا کہ:

'' سلمان کو ہمارے درمیان ہم سے بلند جگہ نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ ہم سے نیچے بیٹھنا چاہیئے کیونکہ وہ فارسی زبان ہیں اور ہم عربی زبان'' _

پیغمبر اسلام(ص) اس صحابی کی گفتگو سے غضبناک ہوئے اور فرمایا:

'' نہیں ایسا نہیں ہے فارسی یا عربی ہونا قابل امتیاز اور فخر نہیں ہوا کرتا، رنگ اور قبیلہ فضیلت کاموجب نہیں ہوا کرتا، سفید کو سیاہ پر برتری نہیں ہے بلکہ جو چیز خداوند عالم کے نزدیک برتری کا موجب ہے وہ ''تقوی'' ہے_

جو بھی تقوی میں زیادہ ہوگا وہ اللہ کے نزدیک معزز ہوگا،

اسلام برابری کا دین ہے اور دین اسلام بے اساس و خیالی امتیازات کی مخالفت کرتا ہے_ اسلام کی نگاہ میں سلمان فارسی ، صہیب رومی، حمزہ، جعفر ابن ابیطالب اور دوسرے مسلمان سب کے سب برابر

۲۱۱

ہیں_ برتری اور فضیلت کا معیار صرف تقوی اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ کرنے میں ہے_ اللہ تعالی کے نزدیک ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہی برتری ہوا کرتی ہے کیونکہ سب کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور خداوند عالم نے تقوی کو فضیلت و برتری کا معیار قرار دیا ہے''_

خداوند عالم انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کی ضروریات کو پہلے سے مہیا کیا ہے اور انھیں اس کے اختیار میں دیا ہے اسی طرح خدا نے زمین کو پیدا کیا ہے تا کہ انسان اس پر زندگی بسر کرے اپنی کوشش سے اسے آباد کرے اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو اپنے اور دوسروں کے لئے روزی حاصل کرے_

انسان اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ کئے بغیر اور خاص طور سے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا_ خداوند عالم نے پانی کو انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ اسے پیئں اور اس سے زراعت کریں اور حیوانوں کو پالیں_ زمین کے معاون اور اس کی اندرونی دولت کو انسانوں کے فائدے کے لئے خلق کیا ہے تا کہ انسان غور و فکر کے ذریعہ دنیا کے اسرار و رموز سے واقف ہو اور ان نعمتوں سے کہ جو زمین کے اندر ہیں بہرہ مند ہو اور انھیں مخلوق خدا کی سعادت و آرام اور رفاہ کے لئے استعمال میں لائے ( زمین یا پانی، ہوا اور زمین کی دوسری دولت سارے انسانوں سے متعلق ہے اور سبھی اس سے فائدہ حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں_

سارے انسان اللہ کے بندے ہیں اور وہ زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں سفید، سیاہ، زرد، سرخ، عورت، مرد، دیہاتی، شہری، عرب اور عجم سب کے سب انسان ہیں اور سب کو حق پہونچتا ہے کہ کھانے پینے اور زندگ کے دوسرے وسائل سے بہرہ مند

۲۱۲

ہوں_ سبھی کو محنت کرنا چاہیئے اور اسلام کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے غیر آباد زمین کو آباد کرنا چاہیئے اور زمین کے اندر چھپی ہوئی دولت کو نکال کر اپنے معاشرہ کے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہیئے_

کسی انسان کو حق نہیں پہونچتا کہ وہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے اور زندگی کے وسائل سے محروم کردے جس طرح خدا کے نزدیک سارے انسان برابر ہیں اسی طرح ایک اسلامی مملکت کی نظر میں بھی برابر ہیں_ اسلامی مملک کو عوام کی ضروریات کو فراہم کرنا چاہیئے اورا ن کی خوراک و پوشاک اورمسکن کا بغیر کسی جانبداری کے انتظام کرنا چاہیئے_

اسلامی حکومت کو چاہیئے کہ جہالت کو ختم کردے اور سبھی کو اسلامی تعلیم سے بہرہ مند کرے اور عوام کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کا انتظام کرے_ اسلامی مملکت کا یہ وظیفہ ہے کہ تمام رعایا کی مدد سے مجبور اور بوڑھوں کے لئے سامان زندگی کو مہیا کرے_ اسلامی حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ کرنے والوں کے ظلم و تعدی کو روکے اور ان کے درمیان عدل او نصاف سے کام لے اور ان لوگوں پر زیادہ توجہ دے جو محروم و ضعیف اور سر حد و دیہات کے رہنے والے ہیں تا کہ ان کی زندگی دوسرے افراد کی زندگی کے برابر آجائے_

خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام عدل و انصاف، برابری اور برادری کا دین ہے_ کسی کو دوسرے پر سوائے تقوی کے کوئی امتیاز نہیں حاصل ہے صرف مومن اور پرہیزگار اپنے ایمان اورتقوی کے مراتب کے لحاظ سے ''اللہ کے نزدیک معزّز ترین وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور زیادہ متقی ہے''_

۲۱۳

قرآن مجید کی آیات:

( و الارض وضعها للانام ) (۱)

'' اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے قرار دیا ہے''

( هو الّذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ) (۲)

'' اللہ ہی تو وہ ہے کہ جس نے زمین کی ساری چیزیں تمھارے لئے خلق کی ہیں''

( انّ اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۳)

'' معزز ترین تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو''_

____________________

۱) سورہ رحمن آیت ۱۰

۲) سورہ بقرہ آیت ۲۹

۳) سورہ حجرات آیت ۱۳

۲۱۴

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱) ___پیغمبر اسلام(ص) ، جناب سلمان فارسی کا کیوں زیادہ احترام کرتے تھے؟

۲)____ پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں انسان کے لئے کون سی چیز باعث فضیلت ہے؟ اور کیوں؟

۳)___ لارث زمین، معاون (کانیں) اور زمین میں موجود ثروت کس کی ملکيّت ہے؟ اوران کس کی اجازت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟

۴)___ حکومت اسلامی کو مسلمانوں کی مدد کے لئے کون سا اقدام کرنا چاہیئے؟

۵)____ اسلامی حکومت کو اپنی منصوبہ بندیوں میں کس کو ترجیح دینی چاہیئے؟

۲۱۵

ظالموں کی مدد مت کرو

'' بنی امیہ کی حکومت ایک غاصب اور ظالم حکومت ہے میں تمھیں اجازت نہیں دیتا کہ ظالم حکومت کی خدمت کرو اور اپنے عمل سے ان کی تائید کرو''

( امام صادق علیہ السلام)

یہ بات امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے جواب میں کہی تھی کہ جس نے آپ سے سوال کیا تھا '' کیا میں بنی امیہ کے خلفاء کی خدمت کرسکتا ہوں؟ کیونکہ میں ایک مدت سے بنی امیہ کے دربار میں کرتا ہوں اور بہت کافی مال میں نے حاصل کیا ہے اور اس کے حصول میں بہت زیادہ احتیاط و دقّت سے بھی کام نہیں لیا ہے لہذا اب کیا کروں؟

اس مال کا جو میرے پاس موجود ہے کیا حکم ہے حلال ہے یا حرام؟ کیا میں اس کام میں مشغول رہ سکتا ہوں؟ میرا ہونا یا نہ ہونا ان کی حکومت میں کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا؟ اگر میں نے وہ کام انجام نہ دیا تو دوسرے موجود ہیں جو اس کام کو انجام دے دیں گے''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:

'' اگر بنی امیہ کو مدد گار نہ ملتے تو وہ لوگوں پر ظلم نہ کرتے کیونکہ حکومت خودبخود تو نہیں چلتی بلکہ اس کے لئے وزیر، معاون، مدیر و کام کرنے والے ضروری ہوتے ہیں یہی لوگ حکوت کو چلاتے ہیں اگر تم اور تم جیسے دوسرے لوگ بنی امیہ کی مدد نہ کرتے تو

۲۱۶

وہ کس طرح لوگوں کو ہماری الہی حکومت سے محروم کرسکتے تھے؟ کس طرح وہ فتنہ اور فساد برپا کرسکتے تھے؟ اگر لوگ ظالموں کی تائید نہ کریں اور ان کے اجتماعات و محافل میں شریک نہ ہوں تو وہ کس طرح اپنے مقاصد تک پہونچ سکتے ہیں؟

نہیں ہرگز نہیں میں کسی مسلمان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ ظالموں کی حکومت میں نوکری کرے اور اپنے کام سے ان کی مدد کرے''

سائل نے چونکہ امام علیہ السلام کے حکم کی اطاعت کرنے کا مصمّم ارادہ کیا تھا سوچنے لگا اور اپنے سے کہا کہ کیا میں اس گناہ سے اپنے آپ کو نجات دے سکتا ہوں؟ کاش میں ظالموں کی مدد نہ کرتا اب کس طرح توبہ کروں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام توبہ کے آثار کو اس کے چہرہ پر مشاہدہ کر رہے تھے آپ نے فرمایا:

' ' ہاں تم اس سے توبہ کرسکتے ہو اور خداوند عالم تیری توبہ قبول بھی کرے گا لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کیا اسے انجام دے سکوگے؟

جوان نے کہا کہ:

'' ہاں میں حاضر ہوں اور خداوند عالم سے اپنے ارادہ کی تکمیل میں مدد چاہتا ہوں''

امام جعفر صادق علیہ السلام تھوڑا سا روئے اور پھر فرمایا:

'' جو مال تو نے بنی امیہ کی غاصب و ظالم حکومت سے غیر شرعی طریقہ سے حاصل کیا ہے وہ تیرا مال نہیں ہے اور اس میں تیرا تصرف

۲۱۷

کرنا حرام ہے وہ تمام کا تمام اس کے مالکوں کو واپس کردو_

اگر مالکوں کو پہچانتے ہو تو خود انھیں کو واپس کرو اور اگر انھیں نہیں پہچانتے تو ان کی طرف سے صدقہ دے دو تو میں تمھارے لئے بہشت کی ضمانت لیتا ہوں''

وہ سوچنے لگا کیونکہ ساری دولت فقراء کو دینی ہوگی لیکن اس نے سوچا کہ دنیا کی سختیوں کو برداشت کیاجاسکتا ہے اس لئے کہ یہ ختم ہوجانے والی ہیں لیکن آخرت کی سختی اور عذاب دائمی ہے لامحالہ ان دو میں سے ایک کو اختیار کرنا ہوگا لہذا بہتر ہے دنیا کی تکلیف و رنج کو قبول کرلوں اور اپنے آپ کو آخرت کے دائمی عذاب سے چھٹکارا دے دوں اس نے اپنا سرا اوپر اٹھایا اور امام علیہ السلام سے عرض کیا کہ:

'' میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا''

اس کے بعد وہ وہاں سے اٹھا اور امام (ع) سے رخصت ہوکر چلاگیا_ علی بن حمزہ جو اس کا دوست اور ہمسفر بھی تھا وہ کہتا ہے کہ:

'' جب ہم کوفہ پہونچے تو میرا یہ دوست سیدھا گھر گیا مجھے کئی دن تک اس کی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ مجھے اطلاع ملی کہ اس نے اپنی ساری دولت کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے_ جس کو پہچانتا تھا اس کا مال اسے واپس کردیا ہے اور جسے نہیں پہچانتا تھا تو اس کی طرف سے فقراء اور ناداروں کو صدقہ دے دیا ہے یہاں تک کہ اس نے اپنے بدن کے لباس کو بھی دے دیا ہے اور پہننے کے لئے کسی سے لباس عاریة لیا ہے اب تو اس کے پاس لباس ہے اور نہ خوراک_

۲۱۸

میںنے تھوڑی خوراک و لباس اس کے لئے مہیا کیا اور اس کی ملاقات کے لئے اس کے پاس گیا اس سے مل کر بہت خوش ہو اور اس کے اس عمدہ عمل کی تعریف کی_ میری ملاقات کو تقریباً ایک مہینہ گزرا تھا کہ مجھے خبر ملی کہ وہ جوا ن بیمار ہوگیا ہے میں اس کی عیادت کے لئے گیا اور وہ جب تک بیمار رہا اس کی عیادت کو جاتا تھا اور اس کے نورانی چہرہ کو دیکھ کر خوشحال ہوتا تھا_

ایک دن میں اس کے سر ہانے بیٹھا تھا کہ اس نے میری طرف نگاہ کی اور بلند آواز میں کہا: '' بھائی امام (ع) نے اپنے عمدہ کو پورا کردیا ہے میں ابھی سے بہشت میں اپنی جگہ دیکھ رہا ہوں''

اس کے بعد اس نے کلمہ شہادتین پڑھا اوردنیا سے رخصت ہوگیا''

توضیح اور تحقیق:

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

'' ظالم ایک دوسرے کے دوست و مددگار ہوتے ہیں اور ان کے بعض دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن اللہ پرہیزگاروں کا یار و مددگار ہے''_

نیز ارشاد ہوتا ہے:

'' جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان کی طرف ہرگز میلان نہ کرو اور ان

۲۱۹

پر ہرگز اعتماد نہ کرو کہ وہ بالآخر دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے''_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' قیامت کے دن اللہ تعالی کی طرف سے منادی ندا دے گا; ظالم کہاں ہیں؟ ظالموں کے مددگارکہاں ہیں؟ تمام ظالموں اور ان کے مددگاروں کو حاضر کرو یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی کہ جنھوں نے ظالموں کی حکومت میں سیاہی اور قلم سے ان کی مد کی ہے یا ان کے لئے خطوط لکھے ہیں یہ تمام لوگ حاضر ہوں گے اور خداوند عالم کے حکم سے انھیں ظالموں کے ساتھ دوزخ میں ڈالا جائے گا'' _

کیونکہ ظالم اکیلے قادر نہیںہوتا کہ وہ لوگوں کے حقوق کو غصب کرے اور ان پر ظلم و ستم کرے اپنے غیر انسانی اور پلید اہداف و اغراض تک پہونچنے کے لئے دوسروں سے مدد لیتا ہے کسی کو رشتہ اور عہدہ دے کر دھوکہ دیتا ہے اور کسی کو ما ل و دولت دے کر اپنے اردگرد اکٹھا کرتا ہے اور کسی کو ڈرا دھمکا کر اپنی طرف لاتا ہے اس طرح سے اپنی طاغوتی طاقت کو محکم و مضبوط بناتا ہے پھر خون پسینہ سے جمع کی ہوئی دولت کو غصب کرتا ہے اور دوسروں پر تجاوز کرتا ہے_

ظالم حکومت کے مامورین، طاغوت انسانوں کے لئے دوسرے لوگوں پر تجاوز اور خیانت کا راستہ ہموار کرتے ہیں وہ اس طرح سے محروم و زحمت کش افراد پر ظلم کرنے کا دروازہ کھول دیتے ہیں_ مدّاح قسم کے لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور طاغوت کے مکروہ چہرے کو محبوب اور پسندیدہ ظاہر کرتے ہیں، روشن فکر قسم کے خائن لوگ ان طاغوتی قوانی کو مرتب کرتے ہیں اور خائن قسم کے وزیر، طاغوتی قوانین جو لوگوں کے ضرر کے لئے بنائے جاتے ہیں ان پر عمل کراتے ہیں اور مسلّح فوج کے حاکم و کمانڈر افراد

۲۲۰

اس قسم کے طاغوتوں کی حکومت سے دفاع کرتے ہیں_

ان کی مدد کرنے والوں کی حمایت و مدد کے بغیر ظالم طاغوت کس طرح لوگوں کے حقوق کو ضائع اور ان پر ظلم کرسکتے ہیں؟ پس جتنے لوگ ظلم و ستم کی حکومت میں ان کی مدد کرتے ہیں وہ خود بھی ظالم ہوتے ہیں اور ظلم و خیانت میں شریک ہوتے ہیں اور اخروی عذاب و سزا میں بھی ان کے شریک ہوں گے_

برخلاف ان لوگوں کے جو اسلامی حکومت اور اسلام کے قوانین جاری کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے اور محروم طبقے کے حقوق سے دفاع کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالی کے ثواب کی جزاء میں شریک ہوں گے_

قرآن کی آیات:

( و انّ الظّالمین بعضهم اولیاء بعض و الله وليّ المتّقین ) (۱)

'' ظالم ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ پرہیز گاروں کا ولی ہے''

( و لا ترکنوا الی الّذین ظلموا فتمسّکم النّار ) (۲)

'' خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہنم کی آگ تمھیں چھوئے گی ''_

____________________

۱) سورہ جاثیہ آیت ۱۹

۲) سورہ ہود آیت ۱۱۳

۲۲۱

سوالات

یہ سوالات سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں

۱)___ جب اس جوان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے (حکومت بنی امیہ میں) کام کرنے کے متعلق پوچھا تھا تو امام (ع) نے اس کا کیا جواب دیا تھا اور امام (ع) نے اس کے لئے کیا دلیل دی تھی؟

۲)___ امام (ع) نے اس جوان کو نجات کا راستہ کیا بتایا تھا اور اسے کس چیز کی ضمانت دی تھی؟

۳)___ وہ جوان توبہ کرنے سے پہلے کیا سوچ رہا تھا اور اس مدت میں اس نے کیا سوچا؟

۴)___ اس جوان نے کس طرح توبہ کی اور کس طرح اپنے آپ کو اس گناہ سے نجات دی ؟

۵)___ اس بیماری جوان نے آخری وقت میں اپنے دوست سے کیا کہا تھا؟

۶)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ظالموں کی مدد نہ کرنے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۷)___ قیامت کے دن منادی کیا ندا دے گا اور خداوند عالم کی طرف سے کیا حکم ملے گا؟ کون لوگ ظالموں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے؟

۲۲۲

اسلام میں جہاد اوردفاع

جہاد ہر مسلمان پر واجب ہے اور یہ انسان کو آزادی دلاتا ہے_

جہاد کرنے والا آخرت میں بلند درجہ اور خدا کی خاص رحمت و مغفرت کا مستحق ہوتا ہے_

جہاد کرنے والا میدان جنگ میں آکر اپنی جان کو جنّت کے عوض فروخت کرتا ہے_

یہ معاملہ بہت سودمند ہوتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کی رضا ہر جزا سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' جو لوگ خدا کی راہ میں اس کے بندوں کی آزادی کے لئے قیام و جہاد کرتے ہیں وہ قیامت میں جنّت کے اس دروازہ سے داخل ہوں گے جس کا نام '' باب مجاہدین'' ہے اور یہ دروازہ صرف مجاہد مومنین کے لئے ہی کھولا جائے گا_ مجاہدین بہت شان و شوکت اور عزّت و وقار سے ہتھار اٹھائے تمام لوگوں کے سامنے اور سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے_

اللہ تعالی کے خاص مقرّب فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور دوسرے جنّتی ان کے مقام کو دیکھ کر غبطہ کریں گے اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ و جہاد کو ترک کردے تو خداوند عالم سے ذلّت و خواری کا لباس پہنائے گا وہ زندگی میں فقیر و نادار ہوگا اور

۲۲۳

اپنے بدن سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہوگا_ خداوند عالم امت اسلامی کو اسلحہ پر تکیہ کرنے اور گھوڑوںو سواریوں کی رعبدار آواز کی جہ سے عزّت و بے نیازی تک پہونچاتا ہے''_

جو مومن مجاہدین ایسے جہاد میں جو نجات دینے والا ہوتا ہے جنگ کے میدان میں متّحد ہوکر صفین باندھتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کر کھڑے ہوجاتے ہیں انھیں چاہیئے کہ حدود الہی کی رعایت کریں اور اس گروہ سے جس سے جنگ کر رہے ہیں پہلے یہ کہیں کہ وہ طاغوت و ظالم کی اطاعت سے دست بردار ہوجائیں اورا للہ کے بندوں کو طاغوتوں کی قیدو بند سے آزاد کرائیں اور خود بھی وہ اللہ تعالی کی اطاعت کریں، اللہ کی حکومت کو تسلیم کریں اگر وہ تسلیم نہ ہوں اور اللہ تعال کی حکومت کو قبول نہ کریں تو اس وقت ان سے امام علیہ السلام یا امّت اسلامی کے رہبر نائب امام (ع) کے اذن و اجازت سے جنگ کریں اور مستکبر و طاغوت کو نیست و نابود کردیں اور اللہ کے بندوں کو اپنی تمام قوت و طاقت سے دوسروں کی بندگی اور غلامی سے آزاد کرائیں_ اس راہ میں قتل کرنے اور قتل کئے جانے سے خوف نہ کریں کہ جس کے متعلق امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

'' سب سے بہترین موت شہادت کی موت ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے ہزار دفعہ تلوار کی ضرب سے مارا جاؤں تو یہ مرنا میرے لئے اس موت سے زیادہ پسند ہے کہ اپنے بستروں پر مروں''_

۲۲۴

وہ جہاد جو آزادی دلاتا ہے وہ امام (ع) یا نائب امام (ع) کے اذن سے ہوتا ہے اور اس طرح کا جہاد کرنا صرف طاقتور، توانا اور رشید مردوں کا وظیفہ ہے لیکن کس اسلامی سرزمین اور ان کی شرافت و عزّت پر کوئی دشمن حملہ کردے تو پھر تمام زن و مرد پر واجب ہے کہ جو چیز ان کے قبضہ میں ہوا سے لے کر اس کا دفاع کریں_

اس صورت میں جوانوں کو بھی دشمن پر گولہ بار کرنی ہوگی اور لڑکیوں پر بھی ضروری ہوگا کہ وہ دشمن پر گولیاں چلائیں تمام لوگ اسلحے اٹھائیں حملہ آور کو اپنی سرزمین سے باہر نکال دیں اور اگر ان کے پاس سنگین اسلحہ نہ ہو تو پھر پتھر اور لاٹھیوں سے د شمن پر ٹوٹ پڑیں اپنی جان کوقربان کردیں، پوری طاقت سے جنگ کریں اور خود شہادت کے رتبہ پر فائز ہوجائیں اور اپنی آنے والی نسلوں و جوانوں کے لئے شرافت و عزّت کو میراث میں چھوڑ جائیں_

اس قسم کا جہاد کہ جس کا نام دفاع ہے اس میں امام (ع) یا نائب امام (ع) کی اجازت ضروری نہیں ہوتی اس لئے کہ اسلامی معاشرے کی عزّت و شرافت اتنی اہم ہوتی ہے کہ اسلام نے ہر مسلمان پر واجب کیا ہے کہ بغیر امام (ع) یاا س کے نائب کی اجازت کے دفاع کرے

مندرجہ ذیل واقعہ میں کس طرح مسلمانوں نے بالخصوص عورتوں نے کفّار کے حملہ و اسلام کی عزّت اور اسلامی سرزمین کا دفاع کیا ہے مشاہدہ کرسکتے ہیں:

فداکار اور جری خاتون:

مدینہ میں یہ خبر پہونچی کہ کفّار مکہ حملہ کی غرض سے چل چکے ہیں اور وہ انقلاب اسلامی کے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھنیکیں گے، انصار و مہاجرین کے گھروں کو تباہ کردیں گے_

۲۲۵

پیغمبر اسلام(ص) نے فوراً جہاد کا اعلان کرادیا اور مسلمان گروہ در گروہ ان کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے دشمن مدینہ کے نزدیک پہونچ چکے تھے اور مسلمان ان کے مقابلہ کے لئے صف آرا ہوگئے ان کا راستہ روک کر ان کی پیش قدمی کو روک دیا_

عورتوں کا ایک فداکار اور با ایمان گروہ بھی اپنے شوہروں اور اولاد کے ساتھ ایمان و شرف اور اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے میدان جنگ میں پہونچ گیا_ یہ اکثر افواج اسلام کی مدد کیا کرتی تھیں فوجیوں کے لئے غذا و پانی مہیا کرتیں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں اور اپنی تقریروں سے اسلام کی سپاہ کو جہاد و جاں نثاری کے لئے تشویق دلاتی تھیں_

انھیں فداکار خواتین میں سے ایک ''نسیبہ'' تھیں جواپنے شوہر اور دو جوان بیٹوں کے ساتھ احد کے میدان میں جنگ کے لئے آئی تھیں انھوں نے بہت محبت و شوق سے پانی کی ایک بڑی مشک پر کر کے اپنے کندھے پر ڈالی اور تھکے ماندہ لڑنے والے سپاہیوں کو پانی پلا رہی تھیں، دوا اور صاف ستھرے کپڑے بھی ساتھ رکھے ہوئے تھیں اور ضرورت کے وقت زخمیوں کے زخم کو اس سے باندھتی تھیں، اپنی پر جوش اور امید دلانے والی گفتگو سے اپنے شوہر، دو بیٹوں، تمام فوجیوں اور مجاہدین کو دشمن پر سخت و تابڑ توڑ حملے کرنے کی تشویق دلا رہی تھیں_

جنگ اچھے مرحلے میں تھیں اور فتح، اسلام کے سپاہیوں کے نزدیک تھی لیکن افسوس کہ پہاڑ کے درّے پر معيّن سپاہیوں کے چند آدمی کی غفلت و نافرمانی کی وجہ سے جنگ کو نوعیت بدل گئی تھی اورمسلمانوں کے سپاہی دشمن کے سخت گھیرے میں آگئے تھے مسلمانوں کی کافی تعداد شہید ہوگئی تھی اور ان کے چند افراد جن کا ایمان قوی نہ تھا اپنے لئے ننگ و عار کو برداشت کرتے ہوئے پیغمبر (ص) کو اکیلا چھوڑ کر میدان سے فرار کر گئے تھے _

۲۲۶

پیغمبر اسلام(ص) کے پاس صرف تھوڑے سے مومن اور فداکار سپاہی رہ گئے تھے آپ (ص) کی جان خطرے میں پڑگئی تھی_ دشمن نے اپنا پورا زور پیغمبر اسلام(ص) کے قتل کرنے پر لگادیا تھا_ حضرت علی علیہ السلام اور چند دلیر سپاہی آپ کے اردگرد حلقہ باندھے ہر طرف سے حملہ کادفاع کر رہے تھے_

جنگ بہت شدید و خطرناک صورت اختیار کرچکی تھی، اسلام کے سپاہی ایک دوسرے کے بعد کینہ ور دشمن کی تلوار سے زخمی ہوکر زمین پر گر رہے تھے_ اس حالت کو دیکھنے سے جناب نسیبہ نے مشک کا تسمہ اپنے کندھے سے اتارا اور جلدی سے ایک شہید کی تلوار و ڈھال اٹھائی پیغمبر اسلام (ص) کی طرف دوڑیں اور بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمنوں کے گھیرے کو برق رفتاری سے اپنی تلوار کے حملے سے توڑا اپنے آپ کو پیغمبر اسلام (ص) تک پہونچا دیا اپنی تلوار کو دشمنوں کے سر اور ہاتھوں پر چلا کر انھیں پیغمبر(ص) سے دور ہٹادیا_

اسی دوران میں انھوں نے دیکھا کہ دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے تا کہ پیغمبر اسلام (ص) پروار کرے_ نسیبہ اس کی طرف بڑھتی ہیں اور اس پر حملہ کرتی ہیں_ دشمن جو چاہتا تھا کہ اپنا وار پیغمبر اسلام (ص) کے سرپر کرے اس نے جلدی سے وہ وار نسیبہ پر کردیا جس سے نسیبہ کا کندھا زخمی ہوجاتا ہے اس سے خون نکلنے لگا ہے اور پورا جسم خون سے رنگین ہوجاتا ہے ایک سپاہی اس نیم مردہ خاتون کو میدان جنگ سے باہر لے جاتا ہے_

جب جنگ ختم ہوگئی تو پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں زخمیوں اور مجروحین کی ملاقات کے لئے گئے اور آپ (ص) نے اس فداکار خاتون کے بارے میں فرمایا کہ:

'' اس خوفناک ماحول میں جس طرف بھی میں دیکھتا تھا نسیبہ کو دیکھتا تھا کہ وہ اپنی تلوار سے میرا دفاع کر رہی ہے''

۲۲۷

اس کے بعد نسیبہ جنگ احد کی داستان اورمسلمانوں کی فداکاری کو اپنے دوستوں سے بیان کرتی تھیں اور ان کے دلوں میں ایثار و قربانی کے جذبات کو ابھارتیں اور ان میں جنگ کے شوق کو پیدا کرتی تھیں اور کبھی اپنی قمیص اپنے کندھے سے ہٹا کر اس زخم کے نشان دوسری عورتوں کو دکھلاتی تھیں_ جنگ احد میں اور بھی بہت سی چیزیں پیش آئیں جن کا ذکر ہمارے لئے مفید ہے_

قرآن کی آیت:

( انّ الله یحب الّذین یقاتلون فی سبیله صفّا کانّهم بنیان مرصوص ) (۱)

'' خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جنگ کرتے ہیں''

____________________

۱) سورہ صف آیت ۴

۲۲۸

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ مرد مجاہدین میں اپنی جان کو کس کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اور اس معاملہ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

۲)___ مجاہدین کس طرح جنّت میں وارد ہوں گے؟

۳)__ _ جو لوگ راہ خدا میں جہاد نہین کرتے ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟

۴)___ خداوند عالم امّت اسلامی کو کس چیز سے عزّت بخشتا ہے؟

۵)___ میدان جنگ میں ایک مجاہد دوسرے مجاہد کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟

۶)___ شہادت کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے؟

۸)___ دفاع کسے کہا جاتا ہے؟ مسلمانوں کی سرزمین، شرف و عزّت سے دفاع کرنا کس کا فریضہ ہے؟

۹)___ نسیبہ، میدان احد میں پہلے کیا کام کرتی تھیں اور پھر کیوں انھوں نے لڑائی میں شرکت کی؟

۱۰)___ پیغمبر اسلام (ص) نے نسیبہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۲۲۹

شہادت کا ایک عاشق بوڑھا اور ایک خاتون جو شہید پرور تھی موت سے کون ڈرتا ہے اور کون نہیں ڈرتا ؟

جو موت کو فنا سمجھتا ہے اور آخرت پر اعتقاد نہیں رکھتا وہ موت سے ضرور ڈرے گا اور موت سے بچنے کے لئے ہر قسم کی ذلّت و عار کو برداشت کرے گا_ اس قسم کے لوگ دنیا کی محدود زندگی کو سوچتے ہیں اور اپنی پوری کوشش کو مادّی و زود گذر خواہشات کے لئے صرف کرتے ہیں اور زیادہ تر اپنے شخصی منافع کے بارے میں سوچتے ہیں اور حیوانوں کی طرح دن رات گذارتے ہیں پھر ذلّت و خواری سے مرجاتے ہیں اور وہ اپنی غفلتوں، کوتاہ نظریوں و برے کردار کی سزا پاتے ہیں_

لیکن جو انسان خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ موت نیست و نابود ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ بلند ہمّتی و بے نظیر بہادری کے ساتھ اپنی ا ور اپنے معاشرہ کی شرافت و عزّت کے لئے جنگ کرتا ہے راہ خدا اور اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لئے جان و مال دینے سے دریغ نہیں کرتا اپنی پوری توانائی کو خدا کی رضا اور بندگان خدا کی فلاح میں صرف کر کے با عزّت زندگی بسر

۲۳۰

کرتا ہے اور آخرت میں الطاف الہی سے بہر ہ مند ہوتا ہے_

قبیلہ عمر و ایسے ہی مومن انسان کا ایک مجسم نمونہ تھا جو شہادت و ایثار سے عشق رکھتا تھا چنانچہ اللہ تعالی کی ذات و آخرت پر ایمان لانے کی قدر و قیمت کو پہچاننے کے لئے اس پر افتخار گھرانے کی داستان کے ایک گوشہ بالخصوص عمرو کی داستان کو ذکر کیا جاتا ہے_

مدینہ کے مسلمانوں کو پتہ چلا کہ کفّار مکہ، مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے آر ہے ہیں، مسلمان پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے بعد دفاع کے لئے آمادہ ہوچکے تھے، مدینہ کی حالت بدل چکی تھی ہر جگہ جہاد و شہادت کی گفتگو ہو رہی تھی صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ سب شہر کے باہر جائیں اور قبل اس کے کہ دشمن میں پہونچیں شہر کے باہر ہی ان کا مقابلہ کیا جائے ج ان سپاہی اپنی ماؤں کے ہاتھ چومتے اور ان سے رخصت ہو رہے تھے اور گروہ گروہ میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہے تھے_

مرد اپنے بچوں اور بیویوں سے رخصت ہو کر احد کے پہاڑ کی طرف روانہ ہو رہے تھے_ عمرو بن جموح کے چار بہادر بیٹے جہاد کے لئے آمادہ ہوچکے تھے یہ چاروں بہادر اس سے پہلے بھی جنگوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور قرآن و اسلام سے دفاع کرنے میں ہر قسم کی فداکاری کے لئے تیاررہتے تھے_

عمرو دیکھ رہا تھا کہ اس کے فرزند کس شوق و محبّت سے اسلحوں سے آراستہ ہوکر میدان جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں اور مسلمان پیادہ و سوار، لباس جنگ زیب تن کئے تکبیر کہتے دمشن کی طرف چلے جا رہے ہیں اسے یقین ہوگیا تھا کہ ان اسلام کے سپاہیوں کو کبھی شکست نہیں ہوسکتی، وہ جنگ کے میدان میں دلیرانہ جنگ کریں گے اپنی عزّت و شرف کا دفاع کریں گے_

اس کے نتیجہ میں یا دشمن پر فتح پالیں گے یا شہادت کے درجہ پر فائز ہوں گے

۲۳۱

التہ اگر شہید ہوگئے تو اللہ تعالی کے فرشتے ان کی پاک روح کو بہشت تک لے جائیں گے اور وہ بہشت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور جوار الہی میں خوش و خرّم زندگی بسر کریں گے_

اس منظر کو دیکھ کر عمرو کی آنکھوں میں آنسو بھر آیا او ردل میں کہا:

'' کاش میرا پاؤں لنگڑا نہ ہوتا اور میں بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ جہاد کرنے جاتا''_

اسی حالت میں اس کے چاروں نوجوان بیٹے اس سے رخصت ہونے کے لئے آئے انھوں نے باپ کا ہاتھ چو ما عمرو نے ان کی پیشانی اور چہروں کو بوسہ دیا_ اسلام کے فداکاروں کے گرم خون کو اس نے نزدیک سے محسوس کیا اور اس کی حالت دگرگوں ہوگئی

'' صبر کرو صبر کرو میں بھی تمھارے ساتھ جہاد کے لئے آتا ہوں''

اس کے بیٹے حیرت زدہ ہوکر سوچنے لگے کہ کس طرح ہمارا با ہمارے ساتھ جہاد کرے گا؟ حالانکہ وہ بہت بوڑھا ہے اور اس کا ایک پاؤں بھی لنگڑا ہے ایسے انسان پر اسلامی قانون کے رو سے تو جہاد واجب ہی نہیں ہوا کرتا_

بیٹے اسی فکر میں کھڑے تھے کہ باپ نے لباس جنگ زیب تن کیا تلوار ہاتھ میں لی اور چلنے کے لئے تیار ہوگیا_ بیٹوں نے باپ کو منع کیا لیکن وہ اپنے ارادہ سے باز نہ آیا مجبوزا انھوں اپنی ماں اور بعض رشتہ داروں سے باپ کو روکنے کے لئے کہا بچّوں کے اصرار پر انھوں نے عمرو سے کہا کہ:

'' تم بڑھاپے و لنگڑا پن کی وجہ سے دشمن پر حملہ نہیں کرسکتے ہو نہ ہی اپنے سے دفاع کرسکتے ہو اور خداوند عالم نے بھی تم پر

۲۳۲

جہاد واجب نہیں کیا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ تم مدینہ میں رہ جاؤ اور یہ چار جوان بیٹے ہیں جو میدان جنگ میں جا رہے ہیں کافی ہیں''

عمرون نے جواب دیا کہ:

'' تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ کافروں کی فوج نے ہم پر حملہ کردیا ہے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کو خطرے میں ڈال دیا ہے، کیا اسلام و پیغمبر اسلام (ص) کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے؟

کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ اسلام کے جانباز سپاہی کس شوق سے جہاد کے لئے جا رہے ہیں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں یہ ساری شان و شوکت، شوق کو دیکھتا رہوں اور چپ ہوکر بیٹھ جاؤں؟

کیا تم یہ کہتے ہو کہ میں بیٹھ جاؤں اور دوسرے لوگ میدان میں جائیں کافروں کے ساتھ جنگ کریں، شہادت کے فیض اور پروردگار کے دیدار سے شرف یاب ہوں اور میں محروم رہ جاؤں؟

نہیں اور ہرگز نہیں میں پسند نہیں کرتا کہ بستر پر مروں، میں باوجودیکہ بوڑھا و لنگڑا ہوں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ شہید ہوجاؤں''_

چنانچہ انھوں نے کوشش کی کہ اس بوڑھے اور ارادے کے پكّے انسان کو جنگ سے روک دیں لیکن اس میں انھیں کامیابی نہ ملی او ربات اس پر ٹھہری کہ پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں جائیں اور آپ سے اس کے متعلق تکلیف معلوم کریں وہ لوگ حضور کے پاس گئے اور عرض کیا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تا کہ اسلام و مسلمانوں کی مدد کرسکوں اور آخر میں

۲۳۳

شہا دت کے فیض سے نوازا جاؤں لیکن میرا خاندان مجھے ادھر نہیں جانے دیتا''

پیغمبر اسلام (ص) نے جواب دیا:

'' اے عمرو جانتے ہو کہ بڑھاپے اور عضو کے ناقص ہونے کی وجہ سے تم پر جہاد واجب نہیں ہے''

عمرو نے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) کیا میرے عضو کا یہ نقص مجھے اتنے بڑے فیض اور نیکی سے محروم کرسکتا ہے؟''

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' جہاد تو تم پر واجب نہیں لیکن اگر تیرا دل چاہتا ہے کہ جہاد میں شرکت کرے تو اس سے کوئی مانع نہیں ہے''

اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے اس کے رشتہ داروں کی طرف نگا کی اور فرمایا کہ:

'' اس پر جہاد تو واجب نہیں ہے لیکن تم پر ضروری نہیں کہ اصرار کرو اور اسے اس نیکی سے روکو اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو اگر وہ چاہے تو جہاد میں شرکت کرے اور اس کے عظیم ثواب سے بہرہ مند ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسے شہادت نصیب ہوجائے''

عمرو نے خوش ہوتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیوی (ہند) اور دوسرے رشتہ داروں سے رخصت ہوکر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگیا_ اس نے میدان جنگ میں بڑی بہادری سے جنگ لڑی اپنے بیٹوں کے ساتھ داد شجاعت لی دشمنوں کی کافی تعداد کو بلاک کیا اور آخر میں اپنے بیٹوں کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوگیا_

۲۳۴

اس جنگ میں چند لوگوں کی دنیا ظلم و کم صبری اور نافرمانی کی وجہ سے شہداء کی تعداد زیادہ تھی جنگ کے خاتمہ پر شہر مدینہ کی عورتیں اپنے فرزندوں اور رشتہ داروں کے لئے میدان جنگ میں آئیں تا کہ اپنے رشتہ داروں کا حال معلوم کریں_ ہند سب سے پہلے میدان میں پہونچی اپنے شوہر، بھائی اور ایک فرزند کی لاش کو اونٹ پر رکھ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئی تا کہ وہاں ان کو دفن کردے لیکن جتنی وہ کوشش کرتی تھی اس کا وہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں جاتا تھا بہت مشکل سے کئی قدم اٹھاتا پھر ٹھہر جاتا اور واپس لوٹ جاتا گویا وہ چاہتا تھا کہ احد کی طرف ہی لوٹ جائے اسی حالت میں چند عورتوں سے اس کی ملاقات ہوگئی جو میدان جنگ کی طرف جا رہی تھیں_ ان میں پیغمبر اسلام (ص) کی ایک زوجہ بھی تھیں آپ نے ہند سے احوال پرسی کی اور سلام کیا:

کہاں سے آرہی ہو؟

احد کے میدان سے

کیا خبر ہے؟

الحمد اللہ کہ پیغمبر اسلام (ص) صحیح و سالم ہیںمسلمانوں کا ایک گروہ شہید ہوگیا ہے اور چونکہ ہمارے پیغمبر(ص) سالم ہیں لہذا دوسری مصیبتوں کو تحمّل کیا جاسکتا ہے خدا کا شکر ہے_

اونٹ پر کیا لادا ہے؟

تین شہیدوں کے جسم کو ایک میرا شوہر، ایک بیٹا اور ایک میرا بھائی ہے انھیں ہمیں لے جا رہی ہوں تا کہ مدینہ میں سپرد خاک کروں نہ جانے کیا بات ہے کہ جتنی کوشش کرتی ہوں کہ اونٹ کو مدینہ کی طرف لے چلوں اونٹ مدینہ کی طرف نہیں جاتا گویا اونٹ احد کی طرف واپس لوٹنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے پاس جائیں اور اس واقعہ کو آپ سے بیان کریں اور اس کا سبب پوچھیں_

۲۳۵

پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں گئیں اور پورے واقعہ کو آپ (ص) سے بیان کیا_ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ:

'' شاید جب تیرا شوہر جہاد میں جانے کے لئے رخصت ہو رہا تھا تو آخری کوئی بات کہی تھی اس نے کوئی دعا کی تھی؟ یا رسول اللہ (ص) کیوں نہیں آخری وقت اس نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا تھا اور کہا تھا: '' اے خدا مجھے شہادت کے فیض سے شرفیاب فرما اور پھر مجھے مدینہ واپس نہ لے آنا''

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

''خداوند عالم نے اس کی دعا کو قبول کرلیا ہے رہنے دو کیونکہ ہم تمھارے شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ یہیں دفن کردیں گے''

ہند نے قبول کیا پیغمبر اسلام (ص) نے ان تین شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ وہیں دفن کردیا اور فرمایا کہ:

'' یہ بہشت میں ابھی اکھٹے ہوں گے''

ہند نے رسول خدا (ص) سے دعا کرنے کی خواہش کی اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) دعا کیجئے کہ خداوند عالم مجھے بھی ان تینوں شہیدوں کے ساتھ محشور کرے''

پیغمبر اسلام (ص) نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس صابرہ اور شہید پرور خاتون کے لئے دعا فرمائی_ خدا کرے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی یہ دعا تمام شہید پرور ماؤں کے

۲۳۶

پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث شریف:

و فوق کل بر بر حتّی یقتل الرّجل فی سبیل الله فاذا قتل فی سبیل الله فلیس فوقه بر

'' اور ہر نیکی کے اوپر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ کوئی شخص راہ خدا میں قتل کردیا جائے اور جب کوئی راہ خدا میں قتل کردیا جائے تو پھر اس کے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے''

۲۳۷

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ کیا مسلمان ننگ و عار اورذلّت کو قبول کرسکتا ہے؟ کیا کسی ظالم سے صلح کرسکتا ہے؟

۲)___ مومن، وعدہ الہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کس امید پر میدان جنگ میں شرکت کرتا ہے؟ آخرت میں اس کی جزاء کیا ہے؟

۳)___ دو میں سے ایک کون ہے؟

۴)___ کس چیز نے عمرو کو میدان جنگ میں شریک ہونے پر ا بھارا تھا؟

۵)___ عمرو نے میدان جنگ میں شریک ہونے کے لئے کون سے دلائل دیئےھے؟

۶)___ عمرو نے جناب رسول خدا (ص) سے کیا گفتگو کی اور آخری میں اس نے کیا ارادہ کیا تھا؟

۷)___ ہند کی گفتگو ان عورتوں سے جو میدان احدم یں جا رہی تھیں کیا تھی؟

۸)____ پیغمبر اسلام (ص) نے ہند سے کیا پوچھا تھا اور اس کے جواب دینے کے بعد اس سے کیا کہا تھا؟

۲۳۸

شہیدوں کے پیغام

'' شہاد'' کتنی اچھی چیز ہے پورے شوق اور ایثار کی دنیا اس لفظ شہادت میں مخفی ہے_ جانتے ہو ''شہید'' کون ہے؟

شہید وہ بلند پایہ انسان ہے جو اللہ پر ایمان و عشق اور انسانی قدر و قیمت کے زندہ کرنے کے لئے اپنی عزیز جان کو قربان کرے_ یہ مادّی دنیا شہید کی بزرگ روح کے لئے چھوٹی اور تنگ ہے_

شہید اپنی فداکاری و بہادری سے اپنے آپ کو دنیاوی قفس سے رہا کرتا ہے اور آخرت کی نورانی وسیع دنیا کی طرف پرواز کرجاتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اپنے رب سے رزق پاتا ہے_

شہید کا نام، اس کی فداکاری، اس کا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور اس کی خلق خدا کی خدمات کا سننا یہ تمام کے تمام ایک مفید درس ہیں_

شہید کی قبر کی زیارت ، اس کے پیغام کا سننا اور اس کی وصیت کو سننا کتنا جوش و خروس لاتا ہے_

شہید کے آثار کا مشاہدہ کرنا انسان کے لئے کتنا ہی بیدار انسان کی جان میں جوش پیدا کردیتا ہے اور شہید کی یاد ایک آگاہ انسان کے لئے کتنی گرمائشے پیدا کردیتی ہے یہاں تک کہ شہید پر رونا آسمانی اور روحانی گریہ

۲۳۹

ہوتا ہے_

ذلّت و خواری کا گریہ نہیں ہوا کرتا بلکہ عشق و شوق کے آنسو ہوا کرتے ہیں_ واقعا کوئی بھی نیک عمل، شہادت سے بالاتر اور قیمتی نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کی عظمت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا ہے:

'' ہر نیک عمل کے اوپر کوئی نہ کوئی نیک عمل موجود ہوتا ہے مگر خدا کی راہ میں شہادت کہ جو ہر عمل سے بالاتر و قیمتی تر ہے اور کوئی عمل بھی اس سے بہتر و بالاتر نہیں ہے''

اسی عظیم مرتبہ و مقام تک پہونچنے کی علت تھی کہ جب حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر تلوار لگی تو آپ (ع) نے فرمایا کہ:

' ' مجھے ربّ کعبہ کی قسم کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں''

اب جب کہ تمھیں شہادت و شہید کے مقام و رتبہ سے کچھ آگاہی ہوگئی ہے ہو تو بہتر ہوگا کہ چند شہیدوں کے پیغام کو یہاں نقل کردیں کہ جن سے عشق اور آزادگی کا درس ملتا ہے_

۱)__ _ حضرت علی علیہ السلام جو ہمیشہ شہادت کی تمنّا رکھتے تھے جب آپ کی پیشانی تلوار سے زخمی کردی گوئی اور آپ اپنی عمر کے آخری لمحات کو طے کر رہے تھے تو آپ نے اس وقت یہ وصيّت فرمائی:

'' متقی و پرہیزگار بنو، دنیا کو اپنا مطمع نظر و ہدف قرار نہ دینا، دنیا کی دولت کی تلاش میں مت رہنا، دنیا کی دولت اور مقام تک نہ پہونچنے پر غمگین نہ ہونا، ہمیشہ حق کے طلبگار بنو، حق کہا کرو، یتیموں پر مہربان رہو، احکام الہی کے جاری کرنے میں مستعد رہنا اورکبھی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302