‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 18%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111831 / ڈاؤنلوڈ: 3874
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

خلیفہ کو بھی نہیں جھٹلاتا ہوں''

قاضی نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا:

'' یا علی (ع) آپ مدّعی ہیں اور مدّعی کو ایسے دو گواہ کو جو قابل قبول ہوں لانے چاہئیں اگر آپ کے پاس گواہ ہیں تو انھیں عدال میں لائیں تا کہ وہ گواہی دیں''

امیرالمومنین (ع) قاضی کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ گواہی کے قبول کئے جانے کے کیا شرائط ہیں آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ:

'' میں اس طرح کے گواہ نہیں رکھتا''

قاضی نے کہا:

'' جب آپ کے پاس گواہ نہیں ہیں تو شریعت کی رو سے آپ کا حق ثابت نہیں ہوتا''_

چنانچہ وہ عیسائی زرہ لے کر عدالت سے باہر گیا اور تھوڑی دور چلنے کے بعد سوچنے لگا کہ کتنا بہترین دین اور کتنی عادلانہ حکومت ہے کہ ایک مسلمانوں کے پیشوا اور ایک عیسائی آدمی کو قاضی کے سامنے برابر اور مساوی قرار دیتا ہے_ مسلمانوں کا پیشوا قاضی سے کہتا ہے کہ '' بیٹھ جاؤ تمھیں ایک قاضی کی حیثیت سے قضاوت کے وقت میرا زیادہ احترام نہیں کرنا چاہیئے، قاضی کو نگاہ کرنے میں بھی طرفین میں عدالت اور مساوات برتنی چاہیئے کتنی عادلانہ قضاوت ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی کے حق میں اگر چہ وہ مسلمانوں کا پیشوا ہی کیوں نہ ہو فیصلہ صادر نہیں کرتی_

وہ تھوڑی دیر کھڑا سوچتا رہا پھر واپس لوٹا لیکن خوشحال ہوکر نہیں بلکہ پریشانی کے عالم میں لوگوں کے سامنے قاضی سے کہتا ہے:

۲۰۱

''مسلمانو میں اس فیصلہ سے حیرت زدہ ہوں اور یقین نہیں ہوتا کہ قاضی نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے اور مسلمانوں کے پیشوا کے خلاف حکم سنایا ہے، اس عدالت کا حکم بالکل غیر جانبدارانہ تھا اور اس طرح کا فیصلہ صرف پیغمبروں (ع) کے دین میں ہی دیکھا جاسکتا ہے_

مجھے تعجب ہوتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) و رسول خدا(ص) کا خلیفہ اور میں ایک عیسائی عدالت میں قانون کی رو سے مساوی ہیں، جہاں اسلام کا پیشوا عدالت میں حاضر ہوتا ہے اور اپنے اجتماعی مقام اور رتبہ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا

کیسے یہ ہوگیا کہ وہ قاضی کہ جسے وہی پیشوا معین کرتا ہے اس کے حق میں فیصلہ نہیں دیتا؟ کس طرح مانا جائے کہ قاضی اسلام کے رہبر و امیرالمومنین کے خلاف حکم صادر کردیتا ہے اور قضاوت کے قوانین کو ہر حیثیت سے ترجیح دیتا ہے_

یہ عدالت اور یوں فیصلہ کرنا تمھارے دین و مذہب کے حق ہونے کی نشانی ہے میں تمھارے دین کو قبول کرتا ہوں اور مسلمان ہوتا ہوں''_

اس وقت اس نے کلمہ شہادتین: اشہد ان لا الہ الّا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ''

زبان پر جاری کیا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ:

'' خدا کی قسم حق آپ کے ساتھ ہے اور آپ اپنے دعوی میں سچے ہیں یہ زرہ آپ کی ہے جب آپ مسلمانوں کے لشکر کے

۲۰۲

ساتھ صفین کی جنگ میں جا رہے تھے تو یہ زرہ اونٹ سے گرپڑی تھی اور آپ اس سے آگے نکل گئے تھے میں نے اسے اٹھایا تھا اور اسے گھر لے آیا تھا یقینا یہ زرہ آپ ہی کی ہے اور میں معافی چاہتا ہوں''_

امیرالمومنین (ع) لوگوں کو ہدایت کرنا بہت پسند کرتے تھے اس کے مسلمان ہونے سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا:

'' تمھارے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے یہ زرہ میں تمھیں بخشتا ہوں اور یہ گھوڑا بھی تمھیں دیتا ہوں''

اس مرد نے اسلامی عالت کی عادلانہ رفتار کی وجہ سے اسلام کو محبت اور عشق سے قبول کیا اور امیرالمومنین (ع) کے خاص پیرو کاروں میں سے ہوگیا اور وہ دین اسلام کا اتنا شیفتہ ہوگیا کہ اسلامی فوج سے منسلک ہوگیا اور بہت بہادری سے نہروان کی جنگ میں شرکت کی ا ور اسلام کی حفاظت کی یہاں تک کہ اپنے کو اسلام اور انسانی آزادی کے لئے قربان کردیا اور شہادت کے بلند درجہ پر فائز ہوگیا_

توضیح اور تحقیق:

معاشرہ میں عادلانہ قوانین کا ہونا اور اس پر عمل کرانا اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اگر معاشرہ میں قانون کی حکومت ہو تو لوگ امن میں رہیں گے مطمئن ہوکر کاموں میں مشغول رہیں گے اپنی اور دوسرے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے میں کوشا رہیں گے کیونکہ صحیح قانون کے اجراء سے ہی اختلاف اور بد نظمی کو روکا جاسکتا ہے_ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جاسکتی ہے_

۲۰۳

قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور سبھی کو اللہ تعالی کے قوانین کا احترام کرنا چاہیئے اور اپنی مشکلات کو قانون کے دائرہ میں حل کرنا چاہیئےور عدالت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے اگر چہ وہ حکم ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو_ قاضی اور قانون جاری کرنے والوں کا سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیئے حق و عدالت کی پیروی کرنا چاہیئے اور کسی بھی موقع پر غلط حمایت نہیں کرنا چاہیئے بلکہ دوستی اور دشمنی کو مدّ نظر رکھے بغیر قضاوت کرنا چاہیئے_

قرآن کی آیت:

( یا ايّها الّذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء الله و لو علی انفسکم او الوالدین و الاقربین ان یکن غنیا او فقیرا فالله اولی بهما فلا تتّبعوا الهوی ان تعدلوا و ان تلوا او تعرضوا فان الله کان بما تعملون خبیرا ) (۱)

'' اے ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ قیامت کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور قرباء ہی کے خلاف کیوں نہ ہو جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولی ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے''_

____________________

۱) سورہ نساء آیت ۱۳۵

۲۰۴

سوالات

یہ سوالات اس لئے ہیں تا کہ زیادہ غور و فکر کرسکو

۱)___ جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ عیسائی کے ہاتھ میں دیکھی تھی تو اس سے کیا کہا تھا؟

۲)___ کیا اس عیسائی نے حضرت علی (ع) کی بات کو مانا تھا او رجواب میں کیا کہا تھا؟

۳)___ جب اس عیسائی نے امیرالمومنین (ع) کو زرہ واپس نہ کی تھی تو امیرالمومنین (ع) نے اس سے کیا کہا تھا؟

۴)___ قاضی نے امیرالمومنین (ع) کے ساتھ کون سا سلوک کیا اور حضرت علی (ع) نے اس سے بیٹھنے کے لئے کیون کہا تھا؟

۵)___ قاضی نے آپ کے جھگڑے میں کس طرح قضاوت کی اور کس کے حق میں فیصلہ دیا اور کیوں؟

۶)___ وہ عیسائی کیوں مسلمان ہوگیا تھا؟ اس کے مسلمان ہونے کا سبب کیا تھا؟

۷)___ اس تازہ عیسائی مسلمان کا انجام کیا ہوا تھا؟ تمھاری نظر میں وہ اس مرتبہ تک کیسے پہونچا تھا؟

۹)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ صحیح قانون کے اجر اسے امن کا کیون احساس ہوتا ہے؟

۱۰)___ صحیح قانون کے اجرا سے ظلم و جور کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟

۱۱)____ قاضیوں کو طرفین سے کیسا سلوک کرنا چاہیئے؟

۲۰۵

۱۲)___ دو نزاع کرنے والوں میں سے ایک کو مدّعی کہا جاتا ہے اور جانتے ہو کہ دوسرے کو کیا کہا جاتا ہے؟

۱۳)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں عدالت و انصاف کے بارے میں مومنین کا کیا فریضہ معین کیا ہے؟

۱۴)___ عیسائی کے سا تھ امیرالمومنین علیہ السلام کے سلوک کو وضاحت سے بیان کرو_

۱۵)___ کبھی تم نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کیا ہے؟ کیا عدالت و مساوات کی رعایت کی ہے؟ کیا تم میں فیصلہ کرنے کے شرائط موجود ہیں؟

۲۰۶

اسلام میں برادری

ہم ساتویں امام حضرت امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے میرے دوستوں میں سے محمد نام کا ایک دوست بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا_ امام موسی کاظم علیہ السلام میرے تبسم اور اس کی طرف دیکھنے سے سمجھ رہے تھے کہ میں محمد کو بہت چاہتا ہوں آپ کافی دیر تک ہم دونوں کو دیکھتے رہے اور پھر فرمایا:

'' محمد کو تم بہت دوست رکھتے ہو''

میں نے غرض کی:

''جی ہاں اے فرزند پیغمبر(ص) چونکہ محمد ایک متقی و با ایمان انسان ہے اور آپ کے دوستوں میں سے ہے لہذا میں اسے دوست رکھتا ہوں''_

امام علیہ السلام نے فرمایا:

'' ضرور تمھں اسے دوست رکھنا چاہیئے محمد ایک مرد مومن ہے اور تمام مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ ان کا آپس میں سلوک دو بھائیوں جیسا ہو_

کیا جانتے ہے؟ کیا جانتے ہو کہ جو مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت کرے اور اسے دوھوکہ دے خداوند عالم اسے اپنی رحمت

۲۰۷

سے دور کردیتا ہے؟ جانتے ہو کہ بھائیوں کو ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے اور ایک دوسرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے؟

دیکھو کسی بھائی کو اس کی ضرورت کی چیز سے محروم نہ کرنا کیونکہ ایسا شخص خدا کی رحمت سے دور رہتا ہے_ دیکھو کبھی کسی بھائی کی غیر حاضری میں اس کی غیبت اور بدگوئی نہ کرنا یا اس کو اپنے سے دور نہ کرنا کہ خداوند عالم بھی تمھیں اپنی رحمت سے دور کردے گا_

اسلام کی رو سے مسلمان مرد اور عورت ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں اور اسلام نہ یہ کہ ایک دوسرے کو بھائی بہن کہہ کہ بلانے کو کہتا ہے بلکہ ان سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے سے بھائیوں اور بہنوں کی طرح مہربانی و صمیمیت سے مددگار ہوں_ سچّے بہن بھائی کبھی بھی ایک دوسرے سے بے تفاوت نہیں رہ سکتے اور وہ ایک دوسے کے اعضاء کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر بدن کا ایک عضو و رد کرے تو دوسرا عضو بھی درد کرتا ہے _ مومنین بھی ایسے ہوا کرتے ہیں کہ اگر کسی مومن کو کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو دوسرے بھی درد و رنج کا احساس کرتے ہیں اور اس مومن بھائی یا بہت کی مدد کے لئے پہونچ جاتے ہیں اور اس کے درد و رنج کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں''_

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرما ہے کہ:

۲۰۸

'' مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر برادری کا حق رکھتے ہیں اگر ایک بھائی بھوکا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنے پیٹ کو مختلف رنگ برنگ غذا سے پر کرسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی پیاسا ہو تو دوسرا بھائی سیراب ہوسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی لباس نہ رکھتا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنی پسند کا لباس پہن سکتا ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کافی حق رکھتا ہے کہ وہ اسے بجالائے''

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی چند ذمّہ داریاں میں:

۱)___ '' ملاقات کے وقت اسے سلام کرے_

۲)___ اگر بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرے_

۳)___ اگر مرجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرے_

۴)___ اگر اسے دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کردے_

۵)___ اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسرے مسلمان اور مومن کے لئے بھی پسند کرے اور جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتا وہ دوسرے کے لئے بھی پسند نہ کرے''_

۲۰۹

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو فرائض ہیں انھیں بتاؤ_

۲)___ مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشے کو بیان کرو اور بتاؤ کہ مومن واقعی ایک دوسرے سے کس طرح کی رفتار کرے اور جب کوئی مومن مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے تو دوسرے مومن کو کیا کرنا چاہیئے؟

۳)___ امام موسی کاظم علیہ السلام نے محمّد کے دوست سے جو آپ کے اصحاب میں سے تھا مومنین کے ایک دوسرے کے فرائض کے سلسلہ میں کیا فرمایا تھا؟

۲۱۰

اسلام اور مساوات

ایک دن پیغمبر اسلام(ص) اپنے چند اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے اسی وقت جناب سلمان فارسی جو پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں محترم تھے آگئے آنحضرت (ص) نے اپنی گفتگوختم کرتے ہوئے سلمان فارسی کو بڑے احترام اور خندہ پیشانی سے اپنے پہلو میں بٹھایا_ آپ کی اس محبت آمیز رفتار اور بہت زیادہ احترام سے آپ کے ایک صحابی کو غصہ آیا اور گستاخانہ انداز میں کہا کہ:

'' سلمان کو ہمارے درمیان ہم سے بلند جگہ نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ ہم سے نیچے بیٹھنا چاہیئے کیونکہ وہ فارسی زبان ہیں اور ہم عربی زبان'' _

پیغمبر اسلام(ص) اس صحابی کی گفتگو سے غضبناک ہوئے اور فرمایا:

'' نہیں ایسا نہیں ہے فارسی یا عربی ہونا قابل امتیاز اور فخر نہیں ہوا کرتا، رنگ اور قبیلہ فضیلت کاموجب نہیں ہوا کرتا، سفید کو سیاہ پر برتری نہیں ہے بلکہ جو چیز خداوند عالم کے نزدیک برتری کا موجب ہے وہ ''تقوی'' ہے_

جو بھی تقوی میں زیادہ ہوگا وہ اللہ کے نزدیک معزز ہوگا،

اسلام برابری کا دین ہے اور دین اسلام بے اساس و خیالی امتیازات کی مخالفت کرتا ہے_ اسلام کی نگاہ میں سلمان فارسی ، صہیب رومی، حمزہ، جعفر ابن ابیطالب اور دوسرے مسلمان سب کے سب برابر

۲۱۱

ہیں_ برتری اور فضیلت کا معیار صرف تقوی اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ کرنے میں ہے_ اللہ تعالی کے نزدیک ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہی برتری ہوا کرتی ہے کیونکہ سب کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور خداوند عالم نے تقوی کو فضیلت و برتری کا معیار قرار دیا ہے''_

خداوند عالم انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کی ضروریات کو پہلے سے مہیا کیا ہے اور انھیں اس کے اختیار میں دیا ہے اسی طرح خدا نے زمین کو پیدا کیا ہے تا کہ انسان اس پر زندگی بسر کرے اپنی کوشش سے اسے آباد کرے اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو اپنے اور دوسروں کے لئے روزی حاصل کرے_

انسان اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ کئے بغیر اور خاص طور سے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا_ خداوند عالم نے پانی کو انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ اسے پیئں اور اس سے زراعت کریں اور حیوانوں کو پالیں_ زمین کے معاون اور اس کی اندرونی دولت کو انسانوں کے فائدے کے لئے خلق کیا ہے تا کہ انسان غور و فکر کے ذریعہ دنیا کے اسرار و رموز سے واقف ہو اور ان نعمتوں سے کہ جو زمین کے اندر ہیں بہرہ مند ہو اور انھیں مخلوق خدا کی سعادت و آرام اور رفاہ کے لئے استعمال میں لائے ( زمین یا پانی، ہوا اور زمین کی دوسری دولت سارے انسانوں سے متعلق ہے اور سبھی اس سے فائدہ حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں_

سارے انسان اللہ کے بندے ہیں اور وہ زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں سفید، سیاہ، زرد، سرخ، عورت، مرد، دیہاتی، شہری، عرب اور عجم سب کے سب انسان ہیں اور سب کو حق پہونچتا ہے کہ کھانے پینے اور زندگ کے دوسرے وسائل سے بہرہ مند

۲۱۲

ہوں_ سبھی کو محنت کرنا چاہیئے اور اسلام کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے غیر آباد زمین کو آباد کرنا چاہیئے اور زمین کے اندر چھپی ہوئی دولت کو نکال کر اپنے معاشرہ کے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہیئے_

کسی انسان کو حق نہیں پہونچتا کہ وہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے اور زندگی کے وسائل سے محروم کردے جس طرح خدا کے نزدیک سارے انسان برابر ہیں اسی طرح ایک اسلامی مملکت کی نظر میں بھی برابر ہیں_ اسلامی مملک کو عوام کی ضروریات کو فراہم کرنا چاہیئے اورا ن کی خوراک و پوشاک اورمسکن کا بغیر کسی جانبداری کے انتظام کرنا چاہیئے_

اسلامی حکومت کو چاہیئے کہ جہالت کو ختم کردے اور سبھی کو اسلامی تعلیم سے بہرہ مند کرے اور عوام کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کا انتظام کرے_ اسلامی مملکت کا یہ وظیفہ ہے کہ تمام رعایا کی مدد سے مجبور اور بوڑھوں کے لئے سامان زندگی کو مہیا کرے_ اسلامی حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ کرنے والوں کے ظلم و تعدی کو روکے اور ان کے درمیان عدل او نصاف سے کام لے اور ان لوگوں پر زیادہ توجہ دے جو محروم و ضعیف اور سر حد و دیہات کے رہنے والے ہیں تا کہ ان کی زندگی دوسرے افراد کی زندگی کے برابر آجائے_

خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام عدل و انصاف، برابری اور برادری کا دین ہے_ کسی کو دوسرے پر سوائے تقوی کے کوئی امتیاز نہیں حاصل ہے صرف مومن اور پرہیزگار اپنے ایمان اورتقوی کے مراتب کے لحاظ سے ''اللہ کے نزدیک معزّز ترین وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور زیادہ متقی ہے''_

۲۱۳

قرآن مجید کی آیات:

( و الارض وضعها للانام ) (۱)

'' اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے قرار دیا ہے''

( هو الّذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ) (۲)

'' اللہ ہی تو وہ ہے کہ جس نے زمین کی ساری چیزیں تمھارے لئے خلق کی ہیں''

( انّ اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۳)

'' معزز ترین تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو''_

____________________

۱) سورہ رحمن آیت ۱۰

۲) سورہ بقرہ آیت ۲۹

۳) سورہ حجرات آیت ۱۳

۲۱۴

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱) ___پیغمبر اسلام(ص) ، جناب سلمان فارسی کا کیوں زیادہ احترام کرتے تھے؟

۲)____ پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں انسان کے لئے کون سی چیز باعث فضیلت ہے؟ اور کیوں؟

۳)___ لارث زمین، معاون (کانیں) اور زمین میں موجود ثروت کس کی ملکيّت ہے؟ اوران کس کی اجازت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟

۴)___ حکومت اسلامی کو مسلمانوں کی مدد کے لئے کون سا اقدام کرنا چاہیئے؟

۵)____ اسلامی حکومت کو اپنی منصوبہ بندیوں میں کس کو ترجیح دینی چاہیئے؟

۲۱۵

ظالموں کی مدد مت کرو

'' بنی امیہ کی حکومت ایک غاصب اور ظالم حکومت ہے میں تمھیں اجازت نہیں دیتا کہ ظالم حکومت کی خدمت کرو اور اپنے عمل سے ان کی تائید کرو''

( امام صادق علیہ السلام)

یہ بات امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے جواب میں کہی تھی کہ جس نے آپ سے سوال کیا تھا '' کیا میں بنی امیہ کے خلفاء کی خدمت کرسکتا ہوں؟ کیونکہ میں ایک مدت سے بنی امیہ کے دربار میں کرتا ہوں اور بہت کافی مال میں نے حاصل کیا ہے اور اس کے حصول میں بہت زیادہ احتیاط و دقّت سے بھی کام نہیں لیا ہے لہذا اب کیا کروں؟

اس مال کا جو میرے پاس موجود ہے کیا حکم ہے حلال ہے یا حرام؟ کیا میں اس کام میں مشغول رہ سکتا ہوں؟ میرا ہونا یا نہ ہونا ان کی حکومت میں کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا؟ اگر میں نے وہ کام انجام نہ دیا تو دوسرے موجود ہیں جو اس کام کو انجام دے دیں گے''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:

'' اگر بنی امیہ کو مدد گار نہ ملتے تو وہ لوگوں پر ظلم نہ کرتے کیونکہ حکومت خودبخود تو نہیں چلتی بلکہ اس کے لئے وزیر، معاون، مدیر و کام کرنے والے ضروری ہوتے ہیں یہی لوگ حکوت کو چلاتے ہیں اگر تم اور تم جیسے دوسرے لوگ بنی امیہ کی مدد نہ کرتے تو

۲۱۶

وہ کس طرح لوگوں کو ہماری الہی حکومت سے محروم کرسکتے تھے؟ کس طرح وہ فتنہ اور فساد برپا کرسکتے تھے؟ اگر لوگ ظالموں کی تائید نہ کریں اور ان کے اجتماعات و محافل میں شریک نہ ہوں تو وہ کس طرح اپنے مقاصد تک پہونچ سکتے ہیں؟

نہیں ہرگز نہیں میں کسی مسلمان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ ظالموں کی حکومت میں نوکری کرے اور اپنے کام سے ان کی مدد کرے''

سائل نے چونکہ امام علیہ السلام کے حکم کی اطاعت کرنے کا مصمّم ارادہ کیا تھا سوچنے لگا اور اپنے سے کہا کہ کیا میں اس گناہ سے اپنے آپ کو نجات دے سکتا ہوں؟ کاش میں ظالموں کی مدد نہ کرتا اب کس طرح توبہ کروں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام توبہ کے آثار کو اس کے چہرہ پر مشاہدہ کر رہے تھے آپ نے فرمایا:

' ' ہاں تم اس سے توبہ کرسکتے ہو اور خداوند عالم تیری توبہ قبول بھی کرے گا لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کیا اسے انجام دے سکوگے؟

جوان نے کہا کہ:

'' ہاں میں حاضر ہوں اور خداوند عالم سے اپنے ارادہ کی تکمیل میں مدد چاہتا ہوں''

امام جعفر صادق علیہ السلام تھوڑا سا روئے اور پھر فرمایا:

'' جو مال تو نے بنی امیہ کی غاصب و ظالم حکومت سے غیر شرعی طریقہ سے حاصل کیا ہے وہ تیرا مال نہیں ہے اور اس میں تیرا تصرف

۲۱۷

کرنا حرام ہے وہ تمام کا تمام اس کے مالکوں کو واپس کردو_

اگر مالکوں کو پہچانتے ہو تو خود انھیں کو واپس کرو اور اگر انھیں نہیں پہچانتے تو ان کی طرف سے صدقہ دے دو تو میں تمھارے لئے بہشت کی ضمانت لیتا ہوں''

وہ سوچنے لگا کیونکہ ساری دولت فقراء کو دینی ہوگی لیکن اس نے سوچا کہ دنیا کی سختیوں کو برداشت کیاجاسکتا ہے اس لئے کہ یہ ختم ہوجانے والی ہیں لیکن آخرت کی سختی اور عذاب دائمی ہے لامحالہ ان دو میں سے ایک کو اختیار کرنا ہوگا لہذا بہتر ہے دنیا کی تکلیف و رنج کو قبول کرلوں اور اپنے آپ کو آخرت کے دائمی عذاب سے چھٹکارا دے دوں اس نے اپنا سرا اوپر اٹھایا اور امام علیہ السلام سے عرض کیا کہ:

'' میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا''

اس کے بعد وہ وہاں سے اٹھا اور امام (ع) سے رخصت ہوکر چلاگیا_ علی بن حمزہ جو اس کا دوست اور ہمسفر بھی تھا وہ کہتا ہے کہ:

'' جب ہم کوفہ پہونچے تو میرا یہ دوست سیدھا گھر گیا مجھے کئی دن تک اس کی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ مجھے اطلاع ملی کہ اس نے اپنی ساری دولت کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے_ جس کو پہچانتا تھا اس کا مال اسے واپس کردیا ہے اور جسے نہیں پہچانتا تھا تو اس کی طرف سے فقراء اور ناداروں کو صدقہ دے دیا ہے یہاں تک کہ اس نے اپنے بدن کے لباس کو بھی دے دیا ہے اور پہننے کے لئے کسی سے لباس عاریة لیا ہے اب تو اس کے پاس لباس ہے اور نہ خوراک_

۲۱۸

میںنے تھوڑی خوراک و لباس اس کے لئے مہیا کیا اور اس کی ملاقات کے لئے اس کے پاس گیا اس سے مل کر بہت خوش ہو اور اس کے اس عمدہ عمل کی تعریف کی_ میری ملاقات کو تقریباً ایک مہینہ گزرا تھا کہ مجھے خبر ملی کہ وہ جوا ن بیمار ہوگیا ہے میں اس کی عیادت کے لئے گیا اور وہ جب تک بیمار رہا اس کی عیادت کو جاتا تھا اور اس کے نورانی چہرہ کو دیکھ کر خوشحال ہوتا تھا_

ایک دن میں اس کے سر ہانے بیٹھا تھا کہ اس نے میری طرف نگاہ کی اور بلند آواز میں کہا: '' بھائی امام (ع) نے اپنے عمدہ کو پورا کردیا ہے میں ابھی سے بہشت میں اپنی جگہ دیکھ رہا ہوں''

اس کے بعد اس نے کلمہ شہادتین پڑھا اوردنیا سے رخصت ہوگیا''

توضیح اور تحقیق:

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

'' ظالم ایک دوسرے کے دوست و مددگار ہوتے ہیں اور ان کے بعض دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن اللہ پرہیزگاروں کا یار و مددگار ہے''_

نیز ارشاد ہوتا ہے:

'' جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان کی طرف ہرگز میلان نہ کرو اور ان

۲۱۹

پر ہرگز اعتماد نہ کرو کہ وہ بالآخر دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے''_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' قیامت کے دن اللہ تعالی کی طرف سے منادی ندا دے گا; ظالم کہاں ہیں؟ ظالموں کے مددگارکہاں ہیں؟ تمام ظالموں اور ان کے مددگاروں کو حاضر کرو یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی کہ جنھوں نے ظالموں کی حکومت میں سیاہی اور قلم سے ان کی مد کی ہے یا ان کے لئے خطوط لکھے ہیں یہ تمام لوگ حاضر ہوں گے اور خداوند عالم کے حکم سے انھیں ظالموں کے ساتھ دوزخ میں ڈالا جائے گا'' _

کیونکہ ظالم اکیلے قادر نہیںہوتا کہ وہ لوگوں کے حقوق کو غصب کرے اور ان پر ظلم و ستم کرے اپنے غیر انسانی اور پلید اہداف و اغراض تک پہونچنے کے لئے دوسروں سے مدد لیتا ہے کسی کو رشتہ اور عہدہ دے کر دھوکہ دیتا ہے اور کسی کو ما ل و دولت دے کر اپنے اردگرد اکٹھا کرتا ہے اور کسی کو ڈرا دھمکا کر اپنی طرف لاتا ہے اس طرح سے اپنی طاغوتی طاقت کو محکم و مضبوط بناتا ہے پھر خون پسینہ سے جمع کی ہوئی دولت کو غصب کرتا ہے اور دوسروں پر تجاوز کرتا ہے_

ظالم حکومت کے مامورین، طاغوت انسانوں کے لئے دوسرے لوگوں پر تجاوز اور خیانت کا راستہ ہموار کرتے ہیں وہ اس طرح سے محروم و زحمت کش افراد پر ظلم کرنے کا دروازہ کھول دیتے ہیں_ مدّاح قسم کے لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور طاغوت کے مکروہ چہرے کو محبوب اور پسندیدہ ظاہر کرتے ہیں، روشن فکر قسم کے خائن لوگ ان طاغوتی قوانی کو مرتب کرتے ہیں اور خائن قسم کے وزیر، طاغوتی قوانین جو لوگوں کے ضرر کے لئے بنائے جاتے ہیں ان پر عمل کراتے ہیں اور مسلّح فوج کے حاکم و کمانڈر افراد

۲۲۰

تفصیل آپ سابقہ اوراق میں پڑھ چکے ہیں ۔

عہد شیخین میں انہوں نے کیا کچھ حاصل کیا ؟ اس کی معمولی سی جھلک بلاذری کے اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے :

ہشام بن عروہ اپنے باپ سےروایت کرتے ہیں کہ : حضرت ابو بکر نے زبیر کو "حرف" اور قتاۃ" کی تمام جاگیر الاٹ کی تھی ۔

مدائنی نے مجھے بتایا کہ :-

"قتاۃ" ایک برساتی نالہ ہے جو طائف سے آتا ہے اور "ارحضیہ"اور "قرقرۃ الکدر" کے پاس سے گزرتا ہے پھر "معاویہ بند" آتا ہے اور پھر موڑ کاٹ کر یہ نالہ شہدائے احد کے پاس سے گزر تا ہے ۔

ہشام بن عروہ روایت کرتے ہیں :- حضرت عمر لوگوں کی جاگیریں الاٹ کرنے لگے تو وادی عقیق میں پہنچے اور کہا کہ زمین کے خواہش مند کہاں ہیں ؟ میں نے اس سے بہتر زمین کہیں نہیں دیکھی ۔زبیر نے کہا: یہ زمین مجھے الاٹ کر دیں ۔ حضرت عمر نے وہ تمام جاگیر انہیں الاٹ کردی "(۱) ۔

بلاذری کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخصیات کسی کی مفت حمایت کرنے کے عادی نہ تھیں ۔انھوں نے ہر دور میں اپنی حمایت کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کی تھی ۔

لیکن حضرت علی جیسا عادل امام جس نے اپنے بھائی کو ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں دیا تھا وہ ان دونوں کو کیا دیتا ؟

بعض مورخین نے ایک واقعہ لکھا ہے جس سے بخوبی علم ہوسکتا ہے کہ طلحہ وزبیر علی علیہ السلام پر ناراض کیوں تھے ؟

"طلحہ و زبیر نے خروج سے پہلے محمد بن طلحہ کو حضرت علی (ع) کی خدمت میں

____________________

(۱):-بلاذری ۔فتوح البلاذری ۔ص ۲۶۔

۲۲۱

بھیجا اور اس نے آکر دونوں کا یہ پیغام آپ کے گوش گزار کیا :-

ہم نے آپ کی راہ ہموار کی ہم نے لوگوں کو عثمان کے خلاف برانگیختہ کیا یہاں تک کہ وہ قتل ہوگیا ۔ اور ہم نے دیکھا کہ لوگ آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی رہنمائی کی اور سب سے پہلے ہم نے آپ کی بیعت کی ہم نے آپ کے سامنے عرب کی گردنیں جھکادی ہیں ۔ ہماری وجہ سے مہاجرین و انصار نے آپ کی بیعت کی ہے ۔لیکن ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ جب آپ حاکم بن گئے تو آپ نے ہم سے منہ موڑ لیا اور ہمیں غلاموں اور کنیزوں کی طرح ذلیل کیا ۔

جب محمد بن طلحہ کی زبانی حضرت علی (ع) نے یہ پیغام سنا تو اسے فرمایا تم ان کے پاس جاؤ اور پوچھو وہ کیا چاہتے ہیں ؟

وہ گيا اور واپس آکر کہا کہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک کو بصرہ کا حاکم بنایا جائے اور دوسرے کو کوفہ کا حاکم بنایا جائے ۔ یہ سن کر حضرت علی (ع) نے فرمایا :- ایسا کرنے سے فساد پھیل جائے گا اور یہ دونوں میرے لئے باقی شہروں کی حکومت کو بھی دشوار بنادیں گے اب جب کہ یہ دونوں میرے پاس مدینہ میں ہیں پھر بھی ان سے مطمئن نہیں ہوں اور اگر انہیں اہم علاقوں کا حاکم بنا دوں تو سازش کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔

جب یہ دونوں نے حضرت علی (ع) کا یہ ٹکاسا جواب سنا تو بڑے مایوس ہوئے اور انہیں اپنے تمام عزائم خاک میں ملتے ہوئے نظر آئے تو وہ حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم عمرہ کرنے کے لئے مکہ جانا چاہتے ہیں ، آپ ہمیں جانے کی اجازت دیں حضرت علی نے فرمایا کہ پہلے تم قسم کھاؤ کہ میری بیعت نہ توڑو گے اور غداری نہ کروگے ۔اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ کرو گے اور عمرہ کے بعد واپس اپن گھر کو آجاؤ گے ۔

ان دونوں نے حلفیہ طور پر یہ تمام باتیں تسلیم کیں تو حضرت علی (ع) نے انہیں

۲۲۲

عمرے کے لئے جانے کی اجازت دی ۔اس کے بعد انہوں نے جو کیا سو کیا ۔"(۱)

اور جب یہ دونوں حضرات مکہ جارہے تھے تو حضرت علی (ع) نے ان سے فرمایا کہ تم دونوں مجھے یہ بتا سکتے ہو کہ کبھی میں نے تمہیں تمہارے کسی حق سے محروم کیا ہے ؟ یا میں نے تمہارے مقرر شدہ وظیفہ میں کسی طرح کی کوئی کمی کی ہے ؟ اور کیا تم نے کبھی ایسا موقع بھی دیکھا جب کسی مظلوم نے میرے پاس فریاد کی ہو اور میں نے اسے اس کا حق دلانے میں کوئی کوتاہی کی ہو ؟

خدا کی قسم ! مجھے خلافت کا نہ کوئی شوق تھا اور نہ ہی حکومت کبھی میرا مطمع نظر رہی ہے ۔ تم نے ہی مجھے حکومت وامارات کی دعوت دی تو میں نے قبول کرلی اور جب میں نے حکومت سنبھالی تو میں نے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی قرآن نے مجھے حاکم اور رعیت کے باہمی حقوق وفرائض بتائے تومیں نے احکام قرآن کو اپنا رہنما اصول بنایا اور سنت نبوی کی میں نے اقتدا کی ۔

اس رہنمائی کے حصول کے لئے مجھے تمہاری رائے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی اور کے مشورہ کی مجھے احتیاج محسوس ہوئی ۔ اور آج تک کوئی ایسا مقدمہ بھی میرے پاس نہیں لایا گیا ۔ جس کے لئے مجھے تمہارے مشورہ کی ضرورت پڑتی ۔

حضرت علی (ع) نے طلحہ وزبیر کے فتنہ کو ان الفاظ سے اجاگر کیا :- "خدا کی قسم ! وہ مجھ پر کوئی الزام ثابت نہیں کرسکتے اور انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف نہیں کیا ۔ وہ اس حق کے طلب کر رہے ہیں جسے انہوں نے خود چھوڑ ا تھا ۔۔۔۔اور اس خون کا بدلہ طلب کررہے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا تھا ۔(۲)

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید /شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ۔ص ۴-۹ طبع مصر

(۲):- :-ابن ابی الحدید /شرح نہج البلاغہ ۔جلد دوم ۔ص۴۰۵

۲۲۳

جنگ جمل کے محرّک بصرہ میں

طلحہ اور زبیر ام المومنین کو اپنے ساتھ لے کر بصرہ کی جانب روانہ ہوئے اور وہ اپنے تئیں خون عثمان کا مطالبہ کررہے تھے ۔

جب کہ ان کا یہ مطالبہ دینی اور معروضی حالات دونوں کے تحت ناجائز تھا ۔

۱:- دینی اعتبار سے انہیں مطالبہ کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کیونکہ حضرت عثمان لاولد نہیں تھے ان کی اولاد موجود تھی۔ ان کے فرزند عمرو کو حق پہنچتا تھا کہ وہ خلیفۃ المسلمین کے پاس اپنے باپ کے خون کا دعوی کرتا ۔ اور خلیفۃ المسلمین تحقیق کرکے مجرمین کو سزا دیتے ۔

حضرت عثمان کی اولاد کی موجودگی میں طلحہ و زبیر اور ام المومنین کو خون عثمان کے مطالبہ کا کوئی جواز نہیں تھا ۔

۲:-خون کا مطالبہ لے کر اٹھنے والے افراد نے بہت سے غلط کام کئے ، انہوں نے بے گناہ افراد کو ناحق قتل کیا ۔ بصرہ کے بیت المال کو لوٹا اور بصرہ میں مسلمانوں بالخصوص حاکم بصرہ ناجائز تشدد کیا ۔ جس کی انسانیت اور شریعت میں اجازت نہیں ہے ۔

۳:- قاتلین کی تلاش کے لئے محرکین جمل مصر کی بجائے بصرہ کیوں گئے ؟

۴:- ام المومنین عائشہ کو گھر سے باہر نکلنے کا حق نہ تھا کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں "وقرن فی بیوتکن " کے تحت گھر میں بیٹھنے کاحکم دیا تھا ۔انہوں نے میدان میں آکر حق خداوندی کی نافرمانی کی ۔

۵:- کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ایک شورش کے ختم کرنے کے لئے اس سے بھی بڑی شورش بپا کی جائے ۔اور بالخصوص جب کہ شورشی افراد کو علم تھا کہ حضرت علی کا دامن خون عثمان کے چھینٹوں سے پاک ہے حضرت علی

۲۲۴

نے قاتلین عثمان کو کسی قسم کے عہدے بھی تو نہیں دئیے تھے ۔محرکین جمل پہلے عثمان پر ناراض تھے اور بعد ازاں علی (ع) پر ناراض ہوئے لیکن ناراضگی کے اسباب میں فرق تھا ۔

حضرت عثمان پر اس لئےناراض تھے کہ ان کی مالی پالیسی غیر متوازن اور غیر عادلانہ تھی اور حضرت علی (ع) پر اس لئے ناراض تھے کہ ان کی پالیسی عدل کے مطابق تھی۔

اسی عادلانہ پالیسی کے مد نظر حضرت علی (ع) نے اقتدار پرست افراد کو کسی محکمہ کا سربراہ نہیں بنایا تھا اور حضرت علی (ع) کی یہ پالیسی ان کے لئے حضرت عثمان کی پالیسیوں سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ۔

موجودہ سیاسی اصطلاح میں یہ کہنا بالکل مناسب ہوگا کہ :- حضرت علی اس انقلاب کے بعد تخت نشین ہوئے اور جس انقلاب میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا اور اس انقلاب کا ثمر حضرت علی کی جھولی میں آکر گرا تھا اور انقلابی افراد کو اس میں کچھ حصہ نہیں ملا تھا ۔

علاوہ ازیں طلحہ ، زبیر اور ام المومنین کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر علی (ع) کی حکومت مستحکم ہوگئی تو ان پر قتل عثمان کی فرد جرم عائد ہوسکتی تھی ۔

اسی خطرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے طلحہ وزبیر نے عہد شکنی کی اور ام المومنین کو ساتھ ملا کر بصرہ روانہ ہوئے ۔راستے میں ایک چشمہ کے پاس سے ان کا گزر ہوا اور وہاں کتے بی بی صاحبہ کے محمل کے گرد بھونگنے لگے جس سے بی بی کا اونٹ بدکنے لگا تو ایک ساربان نے کہا :-

اللہ "حواب" کے کتوں کو غارت کرے ۔یہاں کتے کتنے زیادہ ہیں ۔

جب "حواب " کے الفاظ بی بی صاحبہ نے سنے تو فرمایا ۔مجھے واپس لے چلو میں آگے نہیں جاؤں گی ۔ کیونکہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا تھا کہ ایک دفعہ

۲۲۵

انہوں نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ میری ایک بیوی کو "حواب " کے کتے بھونک رہے ہیں پھر مجھے فرمایا تھا کہ "حمیرا" وہ عورت تم نہ بننا ۔یہ سن کر زبیر نے کہا کہ ہم حواب سے گزر آئے ہیں بعد ازاں طلحہ و زبیر نے پچاس اعرابیوں کو رشوت دے کر بی بی کے پاس گواہی دلوائی کہ اس چشمہ کا نا م حواب نہیں ہے ۔

تاریخ اسلام میں یہ پہلی اجتماعی جھوٹی گواہی تھی ۔

حضرت علی نے والی بصرہ عثمان بن حنیف کو خط تحریر کیا جس میں آپ نے لکھا ۔باغی افراد نے اللہ سے وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے عہد شکنی کی ۔جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم انہیں اطاعت کی دعوت دو ۔اگر مان لیں تو ان سے اچھا سلوک کرو ۔

خط ملنے کے بعد والی بصرہ نے ابو الاسود دؤلی اور عمرو بن حصین خزاعی کو ان کے پاس بھیجا۔

بصرہ کی دونوں معززشخصیات کے پاس گئیں اور انہیں وعظ ونصیحت کی ام المومنین نے کہا تم طلحہ و زبیر سے ملاقت کرو ۔

چنانچہ وہ وہاں سے اٹھ کر زبیر کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ آپ بصرہ کیوں آئے ہیں ؟ زبیر نے کہا ہم عثمان کے خون کابدلہ لینے یہاں آئے ہیں ۔

بصرہ کے معززین نے کہا کہ "مگر عثمان بصرہ میں تو قتل نہیں ہوئے آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں ؟ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ عثمان کے قاتل کون ہیں اور کہاں ہیں ۔تم دونوں نے ام المومنین ہی عثمان کے سب سے بڑے دشمن تھے ۔ تم نے ہی لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکایا اور جب وہ قتل ہوگئے تو تم ہی بدلہ لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ علاوہ ازیں تم نے چند دن پہلے بلاجبر واکراہ حضرت علی (ع) کی بیعت کی تھی اور اب بیعت شکنی کرکے ان کے خلاف لشکر کشی کررہے ہو۔

یہ باتیں سن کر زبیر نے کہا کہ طلحہ سے جاکر ملاقات کرو زبیر کے پاس سے اٹھ کر امن کے خواہاں دونوں افراد طلحہ کے پاس گئے اس سے گفتگو کرکے وہ

۲۲۶

اس نتیجہ پر پہنچے کہ :طلحہ کسی قسم کے صلح کے لئے آمادہ نہیں ہے وہ ہر قیمت پر جنگ کرنا چاہتے ہے ۔

اسی دوران بصرہ کا ایک معزز شخص عبداللہ بن حکیم تمیمی خطوط کا ایک پلندہ لے کر طلحہ و زبیر کے پاس آیا اور کہا کہ کیا یہ تم دونوں کے خطوط نہیں ہیں جو تم نے ہمیں روانہ کئے تھے ؟

طلحہ اور زبیر نے کہا جی ہاں ۔

عبداللہ بن حکیم نے کہا : پھر خدا کا خوف کرو ،کل تک تم ہمیں خط لکھا کرتے تھے کہ عثمان کو خلافت سے معزول کردو ،اگر وہ معزول نہ ہونا چاہے تو اسے قتل کردو اورجب وہ قتل ہوگیا تو تم اس کے خون کا بدلہ لینے کیلئے آگئے ہو۔

والی بصرہ عثمان بن حنیف طلحہ وزبیر کے پاس آگئے ۔انہیں اللہ ،رسول اور اسلام کے واسطے دے کر انہیں یاد لایا کہ وہ حضرت علی (ع) کی بیعت بھی کرچکے ہیں ۔ اسی لئے انہیں شورش سے باز رہنا چاہئیے ۔

ان دونوں نے کہا کہ ہم خون عثمان کابدلہ لینے آئے ہیں ۔

والی بصرہ نے کہا :- تم دونوں کاخون عثمان سے کیا تعلق ہے ؟ خون عثمان کے مطالبہ کاحق صرف اسکی اولاد کو حاصل ہے اور اسکی اولاد بھی موجود ہے ۔

طلحہ اور زبیر اور والی بصرہ کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا اور اس معاہدہ کو باقاعدہ تحریر کیاگیا ۔

اس معاہدہ میں یہ الفاظ تھ ےکہ فریقین خلیفۃ المسلمین کی آمد یا انتظار کریں گے اور کسی قسم کی جنگ نہ کریں گے ۔

چند دن تو بصرہ میں اس معاہدہ کی وجہ سے امن قائم رہا ۔بعدازاں طلحہ اور زبیر نے قبائل کے سربراہوں کو خطوط لکھے اور انہیں اپنی حمایت پر امادہ کیا ۔ ان کے بہکانے پر بنی ازد ،ضبہ ،قیس بن غیلان ،بنی عمرو بن تمیم ،بنی حنظلہ ،اور بنی دارم کے

۲۲۷

افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی جبکہ بنی مجاشع کے دیندار افراد نے انکی مخالفت کی ۔

طلحہ وزبیر ن ےبعد آزاں ایک اور غداری کی انہوں نے اپنے بہی خواہوں کو ایک رات میں مسلح کیا اور زرہوں کے اوپر قمیصیں پہنائیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ افراد غیر مسلح ہیں ۔ اس رات بڑی بارش برس رہی تھی اور طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں ۔اسی ماحول میں یہ اپنے ساتھیوں کو لے کر مسجد میں داخل ہوئے والی بصرہ عثمان بن حنیف نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھے تو طلحہ وزبیر کے مسلح ساتھیوں نے ایک شدید جھڑپ کے بعد انہیں پیچھے ہٹا کر زبیر کو آگے کردیا ۔بیت المال کے مسلح محافظوں نے مداخلت کرکے زبیر کوپیچھے ہٹایا اور عثمان بن حنیف کو آگے کھڑا کردیا ۔ اتنے میں زبیر کے اور مسلح ساتھی مسجد میں پہنچ گئے اور انہوں حکومتی افراد سے سخت جنگ کرکے زبیر کو مصلائے امامت پر کھڑا کردیا ۔ انہیں جھڑپوں کی وجہ سے سورج طلوع ہونے کا آگیا اور نمازیوں نے چیخ کر کہاکہ نماز قضا ہو رہی ہے ۔ چنانچہ زبیر نے مصلائے امامت پر جبرا قبضہ کرکے نماز پڑھائی ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد زبیر نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ عثمان بن حنیف کو گرفتار کرکے سخت سزادو ۔زبیر کے ساتھیوں نے والی بصرہ کو پکڑ کر اسے سخت سزا دی اور اس بے چارے کی داڑھی ،ابرو اور سر کے بال نوچ ڈالے اور بیت المال کے محافظوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور مسلمانوں کے بیت المال کو طلحہ وزبیر کے حکم پر لوٹ لیا گیا ۔

بیت المال کے محافظین اور والی بصرہ کو قید کرکے ام المومنین کے پاس لایا گیا تو "مہربان ماں " نے محافظین کے قتل کا حکم صادرفرمایا(۱) ۔

"ناکثین " کی بحث کی تکمیل کے لئے ہم ایک اور روایت کو نقل کرنا پسند کرتے ہیں ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ :-

جب حضرت عثمان محصور تھے تو ام المومنین مکہ چلی گئی تھیں ۔اور حج

____________________

(۱):- تاریخ طبری وشرح ابن ابی الحدید ۔جلد دوم ۔ ص ۴۹۷۔۵۰۱

۲۲۸

سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آرہی تھیں اور مقام "سرف "پہ پہنچیں تو بنی لیث کے خاندان کے ایک فرد سے جس کا نام عبیداللہ بن ابی سلمہ تھا ملاقات ہوئی ۔

بی بی نے اس سے مدینہ کے حالات پو چھے تو اس نے بتایا کہ عثمان قتل ہوچکے ہیں ۔ بی بی نے پھر پوچھا کہ عثمان کے بعد حکومت کس کو ملی ؟

اس نے بتایا کہ حکومت حضرت علی (ع) کو ملی ہے ۔

اس وقت شدّت تاسف سے ام المومنین نےکہا " کاش آسمان زمین پہ گر جاتا ۔ مجھے مکّہ واپس لے چلو اورکہہ رہی تھیں کہ ہائے عثمان مظلوم مارا گیا ۔

عبیداللہ بن ابی سلمہ نے کہا کہ بی بی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ آپ کل تک تو کہتی تھیں کہ "نعثل " کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے "۔

اس کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے ۔

فمنک البداء ومنک الغبر ومنک الریاح ومنک المطر

وانت امرت بقتل الامام وقلت لنا انّه قد کفر

فهبنا اطعناک فی قتله وقاتله عندنا من قد امر

"ابتدا آپ کی طرفسے ہے ۔گردو غبار بھی آپ کی طرف سے ہے ۔تیزآندھی اور بارش بھی آپ کی طرف سے ہے ۔آپ نے ہمیں خلیفہ کے قتل کا حکم دیا تھا اور کہا کرتی تھیں کہ وہ کافر ہوگیا ۔ ہم نے آپ کا کہا مان کر اسے قتل کیا ہے ۔ اور ہماری نظر میں اس کا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے ۔"

اس کے بعد ام المومنین مکّہ آگئیں اور لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کرنا شروع کیا اور کہتی تھیں کہ ناحق قتل ہوگیا ۔عثمان روئے زمین پر بسنے والے تمام افراد سے بہتر تھا۔ عبداللہ بن عامر بصرہ سے بہت سا مال لایا اور ام المومنین کی نذر کیا ۔اسی طرح سے یعلی بن امیہ بھی یمن سے بہت بڑی دولت لے کر آیا اور ساری دولت بی بی کے قدموں میں ڈھیر کردی ۔اوربی بی کو بصرہ کی طرف جانے کا مشورہ دیا ۔

اس وقت مکّہ میں اور بھی ازواج رسول موجود تھیں ۔بی بی عائشہ نے

۲۲۹

انہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کا مشورہ دیا ۔

حضرت ام سلمہ نے اس کی شدید مخالفت کی اور عائشہ سے کہا:- خدا کا خوف کرو ،اللہ نے ہمیں اپنے گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے ۔جنگ کی کمان سنبھالنے کا حکم دیا ۔ حضرت حفصہ بنت عمر بی بی عائشہ کے ساتھ تیار ہونے لگیں تو ان کے بھائی عبداللہ بن عمر نے انہیں سمجھایا اور انہیں اس مہم جوئی سے باز رکھا ۔ ام المومنین طلحہ وزبیر کو ساتھ لے کر روانہ ہوئیں تو مروان بن حکم نے کہا کہ ان دونوں میں سے امامت کو ن کرائے گا ؟

عبداللہ بن زبیر نے کہا : میرا باپ امامت کرائے گا اور محمد بن طلحہ نے کہا کہ میرا باپ امامت کرائے گا ۔

جب اس جھگڑے کی اطلاع بی بی عائشہ کو ملی تو انہوں نے مروان کو پیغام بھیجا کہ تو ہمارے درمیان جھگڑا پیدا کرنا چاہتاہے ؟

نماز میرا بھانجہ عبداللہ بن زبیر پڑھائے گا ۔

اس گروہ سے تعلق رکھنے والا ایک فرد معاذ بن عبداللہ کہا کرتاتھا کہ : خدا کا شکر ہے کہ ہم ناکام ہوگئے ،اگر ہم بالفرض کامیاب ہوجاتے تو زبیر طلحہ کو کبھی حکومت نہ کرنے دیتا اور طلحہ بھی زبیر کو ایک دن کی حکومت کی اجازت نہ دیتا ۔اس طرح ہم آپس میں لڑکر ختم ہوجاتے ۔

جب باغیوں کا یہ گروہ بصرہ جارہا تھا تو راستے میں سعید بن العاص نے مروان بن الحکم سے ملاقات کی اورکہا کہ :جن لوگوں سے ہم نے بدلہ لینا تھا وہ تو تمہارے ساتھ ہیں ۔ قتل عثمان کے بدلہ کی صحیح صورت یہ ہے کہ ان محرکین کو قتل کردو اور بعد ازاں اپن ےگھر وں کی راہ لو ۔

بصرہ پہنچ کر طلحہ وزبیر ن ےحضرت عثمان کی مظلومیت کی درد بھری داستان لوگوں کو سنائی اور ان کے خون کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا اور ام المومنین

۲۳۰

نے بھی کھلے عام تقریر کی ۔

اس پر جاریہ بن قدامہ سعدی نے کھڑے ہو کر کہا : ام المومنین ! عثمان جیسے ہزاروں افراد بھی قتل ہوجاتے تو بھی وہ اتنا صدمہ نہ ہوتا جتنا کہ تمہارے باہر آنے کا ہمیں صدمہ پہنچا ہے ۔زوجہ رسول ہونے کے ناطے اللہ نے آپ کو حرمت وعزت عطا کی تھی لیکن تم نے اس حرمت کے پردے کو خود ہی پھاڑ ڈالا اور پردے کو چھوڑ کر جنگوں میں آگئیں ۔

بنی سعد کا ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور طلحہ وزبیر کو مخاطب کرکے کہا :-کیا میدان میں تم دونوں اپنی بیویاں بھی ساتھ لائے ہو؟

اگر نہیں لائے تو تمہیں حیا آنی چاہئیے کہ اپنی بیویوں کو تم نے پردے کے پیچھے بٹھایا اور رسول خدا (ص) کی بیوی کو میدان کو میدان میں لے آئے ہو؟

بعد ازاں اس نے اسی مفہوم کی ادائیگی کے لئے کچھ اشعار بھی پڑھے ۔

پھر یہ لوگ بصرہ آئے اور وہاں انہوں نے عذر سے کام لیتے ہوئے عثمان بن حنیف کو گرفتار کیا اور اس کے بال نوچ ڈالے اور اس چالیس کوڑے مارے ۔ بصرہ سے ام المومنین نے زید بن صوحان کو درج ذیل خط لکھا :- رسول خدا (ص) کی پیاری بیوی عائشہ کی جانب سے اپنے خالص فرزند زید بن صوحان کے نام !

اما بعد : جب میرا یہ خط تجھے ملے تو ہماری مدد کے لئے چلا آ اور اگر تو نہ آسکے تو لوگوں کو علی (ع) سے متنفّر کر۔

زید بن صوحان نے اس خط کا جواب درج ذیل الفاظ میں دیا : اگر آپ واپس چلی جائیں اور اپنے گھر میں بیٹھ جائیں تو میں آپ کا خالص فرزند ہوں ، ورنہ میں آپ کا سب سے پہلا مخالف ہوں ۔

پھر زید نے حاضرین سے کہا کہ :- اللہ ام المومنین کے حال پر رحم فرمائے ۔اسے حکم ملا تھا کہ وہ گھر میں

۲۳۱

بیٹھے اور ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ ہم جنگ کریں ۔انہوں نے اپنے حکم کو پس پشت ڈال دیا اور وہ اس حکم پر عمل کرنے لگی ہیں جو کہ ہمیں دیاگیا تھا ۔

ایک دفعہ طلحہ وزبیر اجلاس عام سے خطاب کررہے تھے کہ بنی بعد قیس کے ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا :-

اے گروہ مہاجرین ! ہماری بات سنیں ۔جب رسول (ص) کی وفات ہوئی تو تم نے ایک شخص کی بیعت کرلی تھی ۔ہم نے اسے تسلیم کر لیا تھا ۔ اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے ہم سے مشہورہ کئے بغیر ایک شخص کو نامزد کیا تھا ۔ ہم نے اسے بھی تسلیم کیا تھا ۔ اور جب اس کی وفات کا وقت آیا تو اس نے خلافت کے لئے چھ افراد پر مشتمل شوری تشکیل دی تھی۔ اور اس شوری کے لئے ہم سے کسی نے مشورہ طلب نہیں کیا تھا ۔ اور پھر ایک شخص شوری کے ذریعہ سے منتخب ہوا تو ہم نے اسے بھی تسلیم کیا تھا ۔پھر تمہیں اس میں عیب نظرآئے ۔تم نے ہمارے مشورہ کے بغیر اسے قتل کردیا اور تم نے علی (ع) کی بیعت کی تم بھی ہم سے تم نے مشورہ نہیں لیا تھا اب آپ ہمیں بتائیں کہ علی (ع) سے کون سی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہم اس کے خلاف جنگ کریں ؟

کیا اس نے اللہ کا مال کسی کو ناحق دیا ہے ؟

کیا اس نے حق کے دامن کو چھوڑ کر باطل کو اپنا لیا ہے ؟

یا اس سے کوئی غلط کام سرزد ہوا ہے ؟

آخر ہمیں بتائیں کہ علی (ع) نے وہ کون سا ایسا جرم کیا ہے جس کی وجہ سے اس سے جنگ ناگزیر ہوگئی ہے ؟

نوجوان کی اس جسارت کی وجہ سے چند لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھے تو اس کے قبیلہ کے افراد نے اسے بچا لیا ۔

وہ دن تو جیسے تیسے گزر گیا ۔ دوسرے دن باغیوں نے اس کے گھر پہ حملہ کرکے

۲۳۲

اسے قتل کردیا اور اس کے علاوہ اس کی قوم کے ستر دیگر افراد کو بھی قتل کردیا ۔

اس فتنہ کو فروکرنے کے لئے علی (ع) بصرہ آئے جہاں شدید جنگ ہوئی ۔ حضرت علی (ع) کامیاب ہوئے ۔طلحہ اور زبیر مارے گئے ۔

ام المومنین نے عبداللہ بن حلف کے مکال میں پناہ لی ۔حضرت امیر المومنین نے اپنے لشکر میں اعلان کردیا کہ کسی زخمی کو قتل نہ کیا جائے ،کسی عورت پہ ہاتھ نہ اٹھایا جائے ، کسی کے گھر میں داخل ہو کر مال نہ لوٹا جائے ۔

پھر امیر المومنین نے زوجہ رسول (ص) کو چالیس عورتوں کےہمراہ واپس مدینہ بھیج دیا اور اس کی مزید حفاظت کے لئے اس کے بھائی محمد بن ابو بکر کو ہمراہ روانہ کیا ۔ حضرت عائشہ نے بصرہ سے روانہ ہوتے وقت کہا ۔ہمیں ایک دوسرے پر ناراض نہیں ہونا چاہیئے ۔میرے اور علی (ع)کے درمیان تنازعات کی وہی نوعیت ہے جو کہ دیور اور بھابھی کے تنازعات کی ہوا کرتی ہے ۔

محرّکین جمل کے جرائم

گروہ ناکثین کی کارستانیاں آپ نے ملاحظہ فرمائیں ۔ اس پورے ہنگامے میں ان لوگوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ۔

۱:- طلحہ وزبیر نے پچاس افراد کو رشوت دے کر جھوٹی گواہی دلائی کہ اس چشمہ کا نام "حواب" نہیں ہے ۔اور یہ تاریخ اسلام کی پہلی اجتماعی جھوٹی گواہی تھی اور اسلام میں جھوٹی گواہی کتنا بڑا جرم ہے ؟

اس کے لئے صحیح بخاری کی اس حدیث کا مطالعہ فرمائیں ۔

"قال رسول الله اکبر الکبائر عندالله الاشراک بالله وعقوق الوالدین وشهادة الزور ثلاثا اقولها او اقول شهادة الزور فما زال یکرّرها قلنا لیته سکت "

رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک بد ترین گناہ اس کے ساتھ شرک

۲۳۳

کرنا ،والدین کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی ہے ۔

آپ نے ان الفاظ کا بار بار تکرار کیا ۔ یہاں تک کہ ہم کہنے لگے : کاش کہ آپ خاموش ہوجائیں ۔

۲:- ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ام المومنین "حواب " کا سن کر واپس کبھی اپنے گھر نہ جاتیں کیونکہ جھوٹے گواہ انہیں بتارہے تھے کہ وہ تھوڑی دیرپہلے "حواب" سے گزر چکی ہیں ۔

ام المومنین کے دل میں فرمان رسول کا رتی برابر بھی احساس ہوتا تو بھی انہیں واپس چلے جانا چاہئے تھا ۔

۳:- طلحہ وزبیر نے حضرت علی کی بیعت کرکے عہد شکنی کی تھی اور بعد ازاں عثمان بن حنیف کے ساتھ معاہدہ کرکے عہد شکنی کا ارتکاب کیا تھا ۔

۴:- انہوں نے مسجد اور نماز کی حرمت پامال کی اور بیت المال کے محافظین کو ناحق قتل کیا ۔ جب کہ قرآن مجید میں قتل مومن کی بہت بڑی سزا بیان ہوئی ہے ۔

۵:- محرکین جمل نے حضرت عثمان بن حنیف کے تمام بال نوچ ڈالے تھے اور ان کا "مثلہ" کیا تھا ۔ اب آئیے رسول اسلام (ص) کی تعلیمات کو بھی دیکھ لیں ۔

حضرت عمر نے رسول خدا (ص)کی خدمت میں عرض کی تھی کہ :سہیل بن عمرو کفار مکہ کا خطیب ہے ۔ وہ کفار کو ہمیشہ اپنے خطبات کے ذریعہ برانگیختہ کیا کرتا ہے ۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کے نچلے دودانت توڑ دیتا ہوں ۔اس کے بعد اس کی خطابت کے جوش میں وہ روانی نہیں رہے گی اور وہ یوں کسی کو اسلام کی مخالفت پر امادہ کرنے کے قابل نہ رہے گا ۔

رسول خدا (ص) نے حضرت عمر کو سختی س منع فرمایا اور ارشاد فرمایا :"میں کسی کی صورت نہیں بگاڑوں گا ورنہ اللہ میری صورت بگاڑدے گا اگر چہ کہ میں نبی ہوں :"(۱)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ رسول خدا (ص) نے تو بد ترین مشرک کا حلیہ بگاڑنے کی

____________________

(۱):- تاریخ طبری ۔جلد دوم ۔ص ۲۸۹

۲۳۴

اجازت نہیں دی ۔لیکن طلحہ وزبیر نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایک شریف اور امین مسلمان کا حلیہ تبدیل کردیا تھا کیا اسلام میں اس فعل شنیع کی اجازت ہے ؟

۶:- حضرت عثمان کے قتل ،اور بصرہ کے لوٹنے کا باہمی ربط کیا ہے ؟

۷:- جو کچھ بلوائیوں نے حضرت عثمان کے ساتھ سلوک کیا وہ نامناسب تھا جو سلوک طلحہ وزبیر نے عثمان بن حنیف کے ساتھ کیا ۔کیا وہ اسلامی طرز عمل کے مطابق تھا ؟

۸:- اسلام میں ایفائے عہد کی تاکید کی گئی ہے اور عہد شکنی کو منافقت کی علامت قرار دیا گیا ہے ۔جیسا کہ امام مسلم نے رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کی ہے ۔

"قال رسول الله ص اربع من کنّ فیه کا منافقا خالصا ومن کا نت فیه خصلة منهن کانت فیه خصلة من نفاق حتی یدعها اذا حدّث کذب واذا عاهد غدر واذا اخلف خاصم فجر "

"رسول خدا(ص) نے فرمایا : جس میں چار علامتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ایک علامت ہو تو اس میں بھی منافقت کی علامت ہے ۔یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے :-

۱:- جب بو لے تو جھوٹ بولے ۔

۲:- جب معاہدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔

۳: جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ۔

۴:- جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے ۔"(۱)

اور گروہ ناکثین میں جتنی علامات پائی جاتی تھیں اس کا فیصلہ ہم اپنے انصاف پسند قارئین پر چھوڑتے ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنے قارئین سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ وہ ناکثین کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ امیرالمومنین کے طرز عمل کو بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

ہمیں اپنے باضمیر اور انصاف پسند قارئین سے امید ہے کہ وہ خود ہی اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ علی (ع) اوران کے حریفوں کے درمیان زمین وآسمان ،حق وباطل اور نور وظلمت جتنا فاصلہ پایا جاتا ہے ۔

____________________

(۱):- صحیح مسلم ۔جلد اول ۔ص ۴۲

۲۳۵

فصل پنجم

گروہ قاسطین (منکرین حق)

"ویحک عمّار تقتلک الفئة الباغیة تدعوهم الی الله ویدعونک الی النار"

(فرمان رسول اکرم ص)

عمّار ! تجھ کو پر افسوس ہے ۔تجھے باغی گروہ قتل کرے گا ۔تو انہیں اللہ کی طرف دعوت دے گا اور وہ تجھے دوزخ کی طرف بلائیں گے ۔

انزلنی الدّهر ثمّ انزلنی

حتی قیل علیّ ومعاویة

"زمانے نے مجھے میرے مقام سے نیچے کیا اور بہت ہی نیچے کیا ۔ یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے کہ علی اور معاویہ ۔"(الامام علی بن ابی طالب علیہ السلام )

ہم نے سابقہ فصل میں ناکثین کی تحریک کا اکیا جائزہ لیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک نے اسلامی دنیا میں سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کی تھی ۔

ناکثین کی تحریک کا نتیجہ حق وباطل کی جنگ کی صورت میں نمودار ہوا ۔

واقعہ جمل کی وجہ سے معاویہ اور اس کے ہم نواؤں کے حوصلے بلند ہوئے اور انہیں اسلامی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت برپا کرنے کی جراءت ہوئی اور واقعہ جمل کی وجہ سے معاویہ کو اتنی فرصت مل گئی جس میں اس نے شر اور بدی کی قوتوں کو جمع کیا اور دین حنیف کے مقابلہ میں علم بغاوت بلند کیا ۔معاویہ کے پرچم تلے وہ تمام افراد آکر جمع ہوئے جنہیں خدشہ تھا کہ علی ان پر حد جاری کرینگے وہ سب بھاگ کر معاویہ کے پاس آگئے تھے ۔ جس کی مثال عبیداللہ بن عمر بن خطاب ہے ۔

۲۳۶

جب ابو لولؤ نے حضرت عمر پر وار کیا تھا اور حضرت عمر اس کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئےچل بسے تھے ۔ تو ان کے فرزند عبیداللہ بن عمر نے تلوار اٹھا کر ابو لولؤ کو قتل کیا ۔اور اس کے علاوہ ایک ایرانی سردار جو کہ اسلام قبول کر چکا تھا اور اس کا نام ہرمزان تھا ، اسے اور ایک ذمی شخص جفینہ کو قتل کردیا ۔

حضرت عثمان جیسے ہی خلیفہ منتخب ہوتے تھے حضرت علی (ع) نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ عبیداللہ نے قانون ہاتھ میں لے کر شریعت نبوی کا مذاق اڑایا ہے ۔اس نے دو بے گناہ افراد کو ناحق قتل کیا ہے لہذا اس پر حد شرعی کو نافذ کرنا چاہیئے ۔

حضرت عثمان نے اس مطالبہ پر کوئی توجہ نہ دی اور کہا کہ کل اسکا باپ قتل ہوا اور آج اس کے بیٹے کو قتل کیا جائے ؟

الغرض حضرت عثمان نے مجرم کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور اس سے کوئی بازپرس نہ کی ۔

حضرت عثمان کے بعد جیسے ہی حضرت علی (ع) نے اقتدار سنبھالا تو عبیداللہ کو اپنی جان کے لالے پڑگئے ۔حضرت علی (ع) کے مثالی عدل سے ڈر کر شام چلا آیا اور معاویہ نے اس کا خیر مقد م کیا ۔(۱)

اسی طرح سے مصقلہ بن ھبیرہ شیبانی نے خرّیت بن راشد اسامی خارجی کے بقیۃ السیف پانچ سو افراد کو خرید کو آزاد کیا ۔لیکن جب عبداللہ بن عباس نے اس سے قیمت کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ : اگر میں اس سے زیادہ رقم عثمان سے مانگتا تو وہ بے دریغ مجھے دے دیتے ۔

چنانچہ رقم کی ادائیگی کی بجائے وہ معاویہ کے پاس شام چلاگیا اور معاویہ نے اسے طبرستان کا گورنر بنا دیا ۔

بعد ازاں اس نے اپنے بھائی نعیم بن ھبیرہ کو بھی معاویہ کے پاس آنے

____________________

(۱):-المسعودی ۔مروج الذھب ومعادن لجوہر ۔جلد دوم ۔ص ۲۶۱

۲۳۷

کی ترغیب دی ۔(۱)

جگر خوار ماں کا بیٹا حضرت علی (ع) کے مخالفین اور ان کی عدالت سے بھاگے ہوے افراد کے لئے کمین گاہ بن گیا تھا اور اس نے مسلم معاشرہ میں فساد کی تخم ریزی کی اور دین متین کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور مخالفت دین کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ۔

معاویہ کے کردار کے اثرات صرف اس کے اپنے دور تک محدود نہیں رہے ۔بلکہ امت مسلمہ اس کا آج تک خمیازہ بھگت رہی ہے ۔

خون عثمان کا بہانہ کرکے معاویہ نے دین اسلام کے ضروریات کا انکار کیا ۔ہماری نظر میں عظمت انسانیت پر سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ علی (ع) جیسے انسان کے مقابلے میں معاویہ کو قابل ذکر انسان تصور کیا گیا ۔ جی ہاں ی وہ عظیم انسان تھے جن کے والد ابو طالب تھے جو کہ رسولخدا (ص) کے مربی تھے اور معاویہ کا باپ ابو سفیان تھا جس نے اسلام اور رسول اسلام کے خلاف ہمیشہ جنگیں کیں ۔

علی (ع) کی ماں فاطمہ بنت اسد تھیں جنہیں رسول خدا (ص) اپنی ماں قراردیا کرتے تھے اور معاویہ کی ماں ہند جگر خوار تھی ۔

معاویہ کی بیوی میسونہ عیسائیوں کی بیٹی تھی ۔ علی کی زوجہ حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا (ص) کے جگر کا ٹکرا تھیں جن کی تعظیم کے لئے رسول خدا (ص) اپنی مسند چھوڑ دیتے تھے ۔ اور انہیں سیدۃ نساء العالمین کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔

معاویہ اور میسونہ کی مشترکہ تربیت کا مجسمہ یزید لعین تھا اور علی وزہرا (س) کی آغوش میں پلنے والے حسن وحسین تھے جو کہ جوانان جنت کے سردار تھے

معاویہ کا باپ ابو سفیان اور ماں ہند فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے جب کہ ان کے پاس اپنی جان ومال بچانے کے لئے اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین ۔الفتنتہ الکبری ۔ علی وبنوہ ۔ص ۱۲۷

۲۳۸

نہیں تھا ۔

اگر معاویہ خون عثمان کے مطالبہ میں مخلص تھا تو اس کا فرض بنتا تھا کہ وہ امت اسلامیہ کے زعیم حضرت علی (ع) کی بیعت کرتا اور پھر حضرت عثمان کی اولاد کو ساتھ لے کر حضرت علی (ع) کے پاس ان کے خون کا مقدمہ درج کراتا اور انصاف حاصل کرتا ۔

لیکن حقیقت یہ کہ معاویہ صرف اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتاتھا اسے خون عثمان سے کوئی دل چسپی نہیں تھی اور اس کا تاریخی ثبوت یہ ہے کہ جب معاویہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان نے خون عثمان کو مکمل طور پر فراموش کردیا اور حضرت عثمان کے کسی قاتل سے اس نے کوئی تعرض نہیں کیا ۔

خون عثمان کا بہانہ کرکے معاویہ نے دولت بھی حاصل کرلی اور دشمنان علی کی پارٹی منظم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور آخر کار حکومت بھی حاصل کرلی غرضیکہ معاویہ نے سب کچھ حاصل کیا لیکن صرف ایک چیز اسے حاصل نہ ہوئی اور وہ چیز خون عثمان کا بدلہ تھی ۔

حقیقت تویہ ہے کہ معاویہ خود ذہنی طور پر یہ چاہتا تھا کہ حضرت عثمان کسی نہ کسی طرح قتل ہوں اور وہ ان کا "دلی دم" بن کر اقتدار حاصل کرسکے ۔ حضرت عثمان کافی ایام تک اپنے گھر میں محصور رہے تھے اور اس دوران اگر معاویہ چاہتا تو فوج بھیج کر ان کی گلوخلاصی کراسکتا تھا لیکن اس نے جان بچا کر خاموشی اختیار کرلی تھی تاکہ حالات اپنے منطقی نتیجہ تک پہنچ سکیں اور اس کے بعد وہ خود بنی امیہ کا "ہیرو" بن کر منظر عام پر آسکے ۔

معاویہ نے ابو الطفیل کو ایک مرتبہ ملامت کرتے ہوئے کہا تھا کہ : تجھ پر افسوس ہے تو نے حضرت عثمان کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔

۲۳۹

ابو الطفیل نے کہا:- میں اس وقت باقی مہاجرین وانصار کی طرح خاموش رہا لیکن تمہارے پاس تو شام جیسا بڑا صوبہ تھا اسکے باوجود تو نے اسکی مدد کیو ں نہ کی ؟

معاویہ نے کہا : اس کے خون کے بدلہ کا نعرہ لگا کر میں عثمان کی مدد کررہا ہوں ۔ یہ سن کر ابو الطفیل ہنسنے لگے اور کہا کہ تیرا اور عثمان کا معاملہ بھی وہی ہے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا تھا "

لا لفینّک بعد الموت تندبنی ۔۔۔ وفی حیاتی ما زودتّنی زادا

"اپنے مرنے کے بعد میں تجھے اپنے اوپر روتا ہا دیکھوں گا جب کہ تونے میری زندگی میں کسی طرح کی مدد نہیں کی تھی ۔"

معاویہ نے مخالفین عثمان کو کلیدی مناصب پرفائز کیا ہوا تھا ۔

سابقہ صفحات میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان نے عمرو بن العاص کو حکومت سے معزول کردیا تھا ۔ اس کے بعد عمرو بن العاص نے لوگوں کو حضرت عثمان کے خلاف بھڑکانا شروع کیا ۔ان کے اپنے قول کے مطابق انہیں کوئی چرواہا بھی ملتا تو اسے بھی عثمان کی مخالفت پر آمادہ کرتے تھے ۔ اور جب حضرت عثمان قتل ہوگئے تو اس وقت عمر بن العاص نے اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کرکے کہا تھا :-

" میں عبداللہ کاباپ ہوں میں نے آج تک جس زخم کو بھی کریدا اس سے خون ضرور نکالا ۔"(۱)

حضرت عثمان کے اس مخالف کو معاویہ نے اپنے ساتھ ملایا اور وہ معاویہ کا مشیر اعظم تھا ۔

عمرو بن العاص جیسے عثمان دشمن شخص کو اتنا بڑا منصب دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معاویہ کو عثمان کے خون سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔اسے

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302