‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 302
مشاہدے: 102713
ڈاؤنلوڈ: 3527


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 102713 / ڈاؤنلوڈ: 3527
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد 3

مؤلف:
اردو

اس قسم کے طاغوتوں کی حکومت سے دفاع کرتے ہیں_

ان کی مدد کرنے والوں کی حمایت و مدد کے بغیر ظالم طاغوت کس طرح لوگوں کے حقوق کو ضائع اور ان پر ظلم کرسکتے ہیں؟ پس جتنے لوگ ظلم و ستم کی حکومت میں ان کی مدد کرتے ہیں وہ خود بھی ظالم ہوتے ہیں اور ظلم و خیانت میں شریک ہوتے ہیں اور اخروی عذاب و سزا میں بھی ان کے شریک ہوں گے_

برخلاف ان لوگوں کے جو اسلامی حکومت اور اسلام کے قوانین جاری کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے اور محروم طبقے کے حقوق سے دفاع کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالی کے ثواب کی جزاء میں شریک ہوں گے_

قرآن کی آیات:

( و انّ الظّالمین بعضهم اولیاء بعض و الله وليّ المتّقین ) (۱)

'' ظالم ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ پرہیز گاروں کا ولی ہے''

( و لا ترکنوا الی الّذین ظلموا فتمسّکم النّار ) (۲)

'' خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہنم کی آگ تمھیں چھوئے گی ''_

____________________

۱) سورہ جاثیہ آیت ۱۹

۲) سورہ ہود آیت ۱۱۳

۲۲۱

سوالات

یہ سوالات سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں

۱)___ جب اس جوان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے (حکومت بنی امیہ میں) کام کرنے کے متعلق پوچھا تھا تو امام (ع) نے اس کا کیا جواب دیا تھا اور امام (ع) نے اس کے لئے کیا دلیل دی تھی؟

۲)___ امام (ع) نے اس جوان کو نجات کا راستہ کیا بتایا تھا اور اسے کس چیز کی ضمانت دی تھی؟

۳)___ وہ جوان توبہ کرنے سے پہلے کیا سوچ رہا تھا اور اس مدت میں اس نے کیا سوچا؟

۴)___ اس جوان نے کس طرح توبہ کی اور کس طرح اپنے آپ کو اس گناہ سے نجات دی ؟

۵)___ اس بیماری جوان نے آخری وقت میں اپنے دوست سے کیا کہا تھا؟

۶)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ظالموں کی مدد نہ کرنے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۷)___ قیامت کے دن منادی کیا ندا دے گا اور خداوند عالم کی طرف سے کیا حکم ملے گا؟ کون لوگ ظالموں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے؟

۲۲۲

اسلام میں جہاد اوردفاع

جہاد ہر مسلمان پر واجب ہے اور یہ انسان کو آزادی دلاتا ہے_

جہاد کرنے والا آخرت میں بلند درجہ اور خدا کی خاص رحمت و مغفرت کا مستحق ہوتا ہے_

جہاد کرنے والا میدان جنگ میں آکر اپنی جان کو جنّت کے عوض فروخت کرتا ہے_

یہ معاملہ بہت سودمند ہوتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کی رضا ہر جزا سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' جو لوگ خدا کی راہ میں اس کے بندوں کی آزادی کے لئے قیام و جہاد کرتے ہیں وہ قیامت میں جنّت کے اس دروازہ سے داخل ہوں گے جس کا نام '' باب مجاہدین'' ہے اور یہ دروازہ صرف مجاہد مومنین کے لئے ہی کھولا جائے گا_ مجاہدین بہت شان و شوکت اور عزّت و وقار سے ہتھار اٹھائے تمام لوگوں کے سامنے اور سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے_

اللہ تعالی کے خاص مقرّب فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور دوسرے جنّتی ان کے مقام کو دیکھ کر غبطہ کریں گے اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ و جہاد کو ترک کردے تو خداوند عالم سے ذلّت و خواری کا لباس پہنائے گا وہ زندگی میں فقیر و نادار ہوگا اور

۲۲۳

اپنے بدن سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہوگا_ خداوند عالم امت اسلامی کو اسلحہ پر تکیہ کرنے اور گھوڑوںو سواریوں کی رعبدار آواز کی جہ سے عزّت و بے نیازی تک پہونچاتا ہے''_

جو مومن مجاہدین ایسے جہاد میں جو نجات دینے والا ہوتا ہے جنگ کے میدان میں متّحد ہوکر صفین باندھتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کر کھڑے ہوجاتے ہیں انھیں چاہیئے کہ حدود الہی کی رعایت کریں اور اس گروہ سے جس سے جنگ کر رہے ہیں پہلے یہ کہیں کہ وہ طاغوت و ظالم کی اطاعت سے دست بردار ہوجائیں اورا للہ کے بندوں کو طاغوتوں کی قیدو بند سے آزاد کرائیں اور خود بھی وہ اللہ تعالی کی اطاعت کریں، اللہ کی حکومت کو تسلیم کریں اگر وہ تسلیم نہ ہوں اور اللہ تعال کی حکومت کو قبول نہ کریں تو اس وقت ان سے امام علیہ السلام یا امّت اسلامی کے رہبر نائب امام (ع) کے اذن و اجازت سے جنگ کریں اور مستکبر و طاغوت کو نیست و نابود کردیں اور اللہ کے بندوں کو اپنی تمام قوت و طاقت سے دوسروں کی بندگی اور غلامی سے آزاد کرائیں_ اس راہ میں قتل کرنے اور قتل کئے جانے سے خوف نہ کریں کہ جس کے متعلق امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

'' سب سے بہترین موت شہادت کی موت ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے ہزار دفعہ تلوار کی ضرب سے مارا جاؤں تو یہ مرنا میرے لئے اس موت سے زیادہ پسند ہے کہ اپنے بستروں پر مروں''_

۲۲۴

وہ جہاد جو آزادی دلاتا ہے وہ امام (ع) یا نائب امام (ع) کے اذن سے ہوتا ہے اور اس طرح کا جہاد کرنا صرف طاقتور، توانا اور رشید مردوں کا وظیفہ ہے لیکن کس اسلامی سرزمین اور ان کی شرافت و عزّت پر کوئی دشمن حملہ کردے تو پھر تمام زن و مرد پر واجب ہے کہ جو چیز ان کے قبضہ میں ہوا سے لے کر اس کا دفاع کریں_

اس صورت میں جوانوں کو بھی دشمن پر گولہ بار کرنی ہوگی اور لڑکیوں پر بھی ضروری ہوگا کہ وہ دشمن پر گولیاں چلائیں تمام لوگ اسلحے اٹھائیں حملہ آور کو اپنی سرزمین سے باہر نکال دیں اور اگر ان کے پاس سنگین اسلحہ نہ ہو تو پھر پتھر اور لاٹھیوں سے د شمن پر ٹوٹ پڑیں اپنی جان کوقربان کردیں، پوری طاقت سے جنگ کریں اور خود شہادت کے رتبہ پر فائز ہوجائیں اور اپنی آنے والی نسلوں و جوانوں کے لئے شرافت و عزّت کو میراث میں چھوڑ جائیں_

اس قسم کا جہاد کہ جس کا نام دفاع ہے اس میں امام (ع) یا نائب امام (ع) کی اجازت ضروری نہیں ہوتی اس لئے کہ اسلامی معاشرے کی عزّت و شرافت اتنی اہم ہوتی ہے کہ اسلام نے ہر مسلمان پر واجب کیا ہے کہ بغیر امام (ع) یاا س کے نائب کی اجازت کے دفاع کرے

مندرجہ ذیل واقعہ میں کس طرح مسلمانوں نے بالخصوص عورتوں نے کفّار کے حملہ و اسلام کی عزّت اور اسلامی سرزمین کا دفاع کیا ہے مشاہدہ کرسکتے ہیں:

فداکار اور جری خاتون:

مدینہ میں یہ خبر پہونچی کہ کفّار مکہ حملہ کی غرض سے چل چکے ہیں اور وہ انقلاب اسلامی کے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھنیکیں گے، انصار و مہاجرین کے گھروں کو تباہ کردیں گے_

۲۲۵

پیغمبر اسلام(ص) نے فوراً جہاد کا اعلان کرادیا اور مسلمان گروہ در گروہ ان کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے دشمن مدینہ کے نزدیک پہونچ چکے تھے اور مسلمان ان کے مقابلہ کے لئے صف آرا ہوگئے ان کا راستہ روک کر ان کی پیش قدمی کو روک دیا_

عورتوں کا ایک فداکار اور با ایمان گروہ بھی اپنے شوہروں اور اولاد کے ساتھ ایمان و شرف اور اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے میدان جنگ میں پہونچ گیا_ یہ اکثر افواج اسلام کی مدد کیا کرتی تھیں فوجیوں کے لئے غذا و پانی مہیا کرتیں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں اور اپنی تقریروں سے اسلام کی سپاہ کو جہاد و جاں نثاری کے لئے تشویق دلاتی تھیں_

انھیں فداکار خواتین میں سے ایک ''نسیبہ'' تھیں جواپنے شوہر اور دو جوان بیٹوں کے ساتھ احد کے میدان میں جنگ کے لئے آئی تھیں انھوں نے بہت محبت و شوق سے پانی کی ایک بڑی مشک پر کر کے اپنے کندھے پر ڈالی اور تھکے ماندہ لڑنے والے سپاہیوں کو پانی پلا رہی تھیں، دوا اور صاف ستھرے کپڑے بھی ساتھ رکھے ہوئے تھیں اور ضرورت کے وقت زخمیوں کے زخم کو اس سے باندھتی تھیں، اپنی پر جوش اور امید دلانے والی گفتگو سے اپنے شوہر، دو بیٹوں، تمام فوجیوں اور مجاہدین کو دشمن پر سخت و تابڑ توڑ حملے کرنے کی تشویق دلا رہی تھیں_

جنگ اچھے مرحلے میں تھیں اور فتح، اسلام کے سپاہیوں کے نزدیک تھی لیکن افسوس کہ پہاڑ کے درّے پر معيّن سپاہیوں کے چند آدمی کی غفلت و نافرمانی کی وجہ سے جنگ کو نوعیت بدل گئی تھی اورمسلمانوں کے سپاہی دشمن کے سخت گھیرے میں آگئے تھے مسلمانوں کی کافی تعداد شہید ہوگئی تھی اور ان کے چند افراد جن کا ایمان قوی نہ تھا اپنے لئے ننگ و عار کو برداشت کرتے ہوئے پیغمبر (ص) کو اکیلا چھوڑ کر میدان سے فرار کر گئے تھے _

۲۲۶

پیغمبر اسلام(ص) کے پاس صرف تھوڑے سے مومن اور فداکار سپاہی رہ گئے تھے آپ (ص) کی جان خطرے میں پڑگئی تھی_ دشمن نے اپنا پورا زور پیغمبر اسلام(ص) کے قتل کرنے پر لگادیا تھا_ حضرت علی علیہ السلام اور چند دلیر سپاہی آپ کے اردگرد حلقہ باندھے ہر طرف سے حملہ کادفاع کر رہے تھے_

جنگ بہت شدید و خطرناک صورت اختیار کرچکی تھی، اسلام کے سپاہی ایک دوسرے کے بعد کینہ ور دشمن کی تلوار سے زخمی ہوکر زمین پر گر رہے تھے_ اس حالت کو دیکھنے سے جناب نسیبہ نے مشک کا تسمہ اپنے کندھے سے اتارا اور جلدی سے ایک شہید کی تلوار و ڈھال اٹھائی پیغمبر اسلام (ص) کی طرف دوڑیں اور بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمنوں کے گھیرے کو برق رفتاری سے اپنی تلوار کے حملے سے توڑا اپنے آپ کو پیغمبر اسلام (ص) تک پہونچا دیا اپنی تلوار کو دشمنوں کے سر اور ہاتھوں پر چلا کر انھیں پیغمبر(ص) سے دور ہٹادیا_

اسی دوران میں انھوں نے دیکھا کہ دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے تا کہ پیغمبر اسلام (ص) پروار کرے_ نسیبہ اس کی طرف بڑھتی ہیں اور اس پر حملہ کرتی ہیں_ دشمن جو چاہتا تھا کہ اپنا وار پیغمبر اسلام (ص) کے سرپر کرے اس نے جلدی سے وہ وار نسیبہ پر کردیا جس سے نسیبہ کا کندھا زخمی ہوجاتا ہے اس سے خون نکلنے لگا ہے اور پورا جسم خون سے رنگین ہوجاتا ہے ایک سپاہی اس نیم مردہ خاتون کو میدان جنگ سے باہر لے جاتا ہے_

جب جنگ ختم ہوگئی تو پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں زخمیوں اور مجروحین کی ملاقات کے لئے گئے اور آپ (ص) نے اس فداکار خاتون کے بارے میں فرمایا کہ:

'' اس خوفناک ماحول میں جس طرف بھی میں دیکھتا تھا نسیبہ کو دیکھتا تھا کہ وہ اپنی تلوار سے میرا دفاع کر رہی ہے''

۲۲۷

اس کے بعد نسیبہ جنگ احد کی داستان اورمسلمانوں کی فداکاری کو اپنے دوستوں سے بیان کرتی تھیں اور ان کے دلوں میں ایثار و قربانی کے جذبات کو ابھارتیں اور ان میں جنگ کے شوق کو پیدا کرتی تھیں اور کبھی اپنی قمیص اپنے کندھے سے ہٹا کر اس زخم کے نشان دوسری عورتوں کو دکھلاتی تھیں_ جنگ احد میں اور بھی بہت سی چیزیں پیش آئیں جن کا ذکر ہمارے لئے مفید ہے_

قرآن کی آیت:

( انّ الله یحب الّذین یقاتلون فی سبیله صفّا کانّهم بنیان مرصوص ) (۱)

'' خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جنگ کرتے ہیں''

____________________

۱) سورہ صف آیت ۴

۲۲۸

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ مرد مجاہدین میں اپنی جان کو کس کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اور اس معاملہ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

۲)___ مجاہدین کس طرح جنّت میں وارد ہوں گے؟

۳)__ _ جو لوگ راہ خدا میں جہاد نہین کرتے ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟

۴)___ خداوند عالم امّت اسلامی کو کس چیز سے عزّت بخشتا ہے؟

۵)___ میدان جنگ میں ایک مجاہد دوسرے مجاہد کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟

۶)___ شہادت کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے؟

۸)___ دفاع کسے کہا جاتا ہے؟ مسلمانوں کی سرزمین، شرف و عزّت سے دفاع کرنا کس کا فریضہ ہے؟

۹)___ نسیبہ، میدان احد میں پہلے کیا کام کرتی تھیں اور پھر کیوں انھوں نے لڑائی میں شرکت کی؟

۱۰)___ پیغمبر اسلام (ص) نے نسیبہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۲۲۹

شہادت کا ایک عاشق بوڑھا اور ایک خاتون جو شہید پرور تھی موت سے کون ڈرتا ہے اور کون نہیں ڈرتا ؟

جو موت کو فنا سمجھتا ہے اور آخرت پر اعتقاد نہیں رکھتا وہ موت سے ضرور ڈرے گا اور موت سے بچنے کے لئے ہر قسم کی ذلّت و عار کو برداشت کرے گا_ اس قسم کے لوگ دنیا کی محدود زندگی کو سوچتے ہیں اور اپنی پوری کوشش کو مادّی و زود گذر خواہشات کے لئے صرف کرتے ہیں اور زیادہ تر اپنے شخصی منافع کے بارے میں سوچتے ہیں اور حیوانوں کی طرح دن رات گذارتے ہیں پھر ذلّت و خواری سے مرجاتے ہیں اور وہ اپنی غفلتوں، کوتاہ نظریوں و برے کردار کی سزا پاتے ہیں_

لیکن جو انسان خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ موت نیست و نابود ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ بلند ہمّتی و بے نظیر بہادری کے ساتھ اپنی ا ور اپنے معاشرہ کی شرافت و عزّت کے لئے جنگ کرتا ہے راہ خدا اور اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لئے جان و مال دینے سے دریغ نہیں کرتا اپنی پوری توانائی کو خدا کی رضا اور بندگان خدا کی فلاح میں صرف کر کے با عزّت زندگی بسر

۲۳۰

کرتا ہے اور آخرت میں الطاف الہی سے بہر ہ مند ہوتا ہے_

قبیلہ عمر و ایسے ہی مومن انسان کا ایک مجسم نمونہ تھا جو شہادت و ایثار سے عشق رکھتا تھا چنانچہ اللہ تعالی کی ذات و آخرت پر ایمان لانے کی قدر و قیمت کو پہچاننے کے لئے اس پر افتخار گھرانے کی داستان کے ایک گوشہ بالخصوص عمرو کی داستان کو ذکر کیا جاتا ہے_

مدینہ کے مسلمانوں کو پتہ چلا کہ کفّار مکہ، مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے آر ہے ہیں، مسلمان پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے بعد دفاع کے لئے آمادہ ہوچکے تھے، مدینہ کی حالت بدل چکی تھی ہر جگہ جہاد و شہادت کی گفتگو ہو رہی تھی صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ سب شہر کے باہر جائیں اور قبل اس کے کہ دشمن میں پہونچیں شہر کے باہر ہی ان کا مقابلہ کیا جائے ج ان سپاہی اپنی ماؤں کے ہاتھ چومتے اور ان سے رخصت ہو رہے تھے اور گروہ گروہ میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہے تھے_

مرد اپنے بچوں اور بیویوں سے رخصت ہو کر احد کے پہاڑ کی طرف روانہ ہو رہے تھے_ عمرو بن جموح کے چار بہادر بیٹے جہاد کے لئے آمادہ ہوچکے تھے یہ چاروں بہادر اس سے پہلے بھی جنگوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور قرآن و اسلام سے دفاع کرنے میں ہر قسم کی فداکاری کے لئے تیاررہتے تھے_

عمرو دیکھ رہا تھا کہ اس کے فرزند کس شوق و محبّت سے اسلحوں سے آراستہ ہوکر میدان جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں اور مسلمان پیادہ و سوار، لباس جنگ زیب تن کئے تکبیر کہتے دمشن کی طرف چلے جا رہے ہیں اسے یقین ہوگیا تھا کہ ان اسلام کے سپاہیوں کو کبھی شکست نہیں ہوسکتی، وہ جنگ کے میدان میں دلیرانہ جنگ کریں گے اپنی عزّت و شرف کا دفاع کریں گے_

اس کے نتیجہ میں یا دشمن پر فتح پالیں گے یا شہادت کے درجہ پر فائز ہوں گے

۲۳۱

التہ اگر شہید ہوگئے تو اللہ تعالی کے فرشتے ان کی پاک روح کو بہشت تک لے جائیں گے اور وہ بہشت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور جوار الہی میں خوش و خرّم زندگی بسر کریں گے_

اس منظر کو دیکھ کر عمرو کی آنکھوں میں آنسو بھر آیا او ردل میں کہا:

'' کاش میرا پاؤں لنگڑا نہ ہوتا اور میں بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ جہاد کرنے جاتا''_

اسی حالت میں اس کے چاروں نوجوان بیٹے اس سے رخصت ہونے کے لئے آئے انھوں نے باپ کا ہاتھ چو ما عمرو نے ان کی پیشانی اور چہروں کو بوسہ دیا_ اسلام کے فداکاروں کے گرم خون کو اس نے نزدیک سے محسوس کیا اور اس کی حالت دگرگوں ہوگئی

'' صبر کرو صبر کرو میں بھی تمھارے ساتھ جہاد کے لئے آتا ہوں''

اس کے بیٹے حیرت زدہ ہوکر سوچنے لگے کہ کس طرح ہمارا با ہمارے ساتھ جہاد کرے گا؟ حالانکہ وہ بہت بوڑھا ہے اور اس کا ایک پاؤں بھی لنگڑا ہے ایسے انسان پر اسلامی قانون کے رو سے تو جہاد واجب ہی نہیں ہوا کرتا_

بیٹے اسی فکر میں کھڑے تھے کہ باپ نے لباس جنگ زیب تن کیا تلوار ہاتھ میں لی اور چلنے کے لئے تیار ہوگیا_ بیٹوں نے باپ کو منع کیا لیکن وہ اپنے ارادہ سے باز نہ آیا مجبوزا انھوں اپنی ماں اور بعض رشتہ داروں سے باپ کو روکنے کے لئے کہا بچّوں کے اصرار پر انھوں نے عمرو سے کہا کہ:

'' تم بڑھاپے و لنگڑا پن کی وجہ سے دشمن پر حملہ نہیں کرسکتے ہو نہ ہی اپنے سے دفاع کرسکتے ہو اور خداوند عالم نے بھی تم پر

۲۳۲

جہاد واجب نہیں کیا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ تم مدینہ میں رہ جاؤ اور یہ چار جوان بیٹے ہیں جو میدان جنگ میں جا رہے ہیں کافی ہیں''

عمرون نے جواب دیا کہ:

'' تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ کافروں کی فوج نے ہم پر حملہ کردیا ہے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کو خطرے میں ڈال دیا ہے، کیا اسلام و پیغمبر اسلام (ص) کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے؟

کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ اسلام کے جانباز سپاہی کس شوق سے جہاد کے لئے جا رہے ہیں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں یہ ساری شان و شوکت، شوق کو دیکھتا رہوں اور چپ ہوکر بیٹھ جاؤں؟

کیا تم یہ کہتے ہو کہ میں بیٹھ جاؤں اور دوسرے لوگ میدان میں جائیں کافروں کے ساتھ جنگ کریں، شہادت کے فیض اور پروردگار کے دیدار سے شرف یاب ہوں اور میں محروم رہ جاؤں؟

نہیں اور ہرگز نہیں میں پسند نہیں کرتا کہ بستر پر مروں، میں باوجودیکہ بوڑھا و لنگڑا ہوں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ شہید ہوجاؤں''_

چنانچہ انھوں نے کوشش کی کہ اس بوڑھے اور ارادے کے پكّے انسان کو جنگ سے روک دیں لیکن اس میں انھیں کامیابی نہ ملی او ربات اس پر ٹھہری کہ پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں جائیں اور آپ سے اس کے متعلق تکلیف معلوم کریں وہ لوگ حضور کے پاس گئے اور عرض کیا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تا کہ اسلام و مسلمانوں کی مدد کرسکوں اور آخر میں

۲۳۳

شہا دت کے فیض سے نوازا جاؤں لیکن میرا خاندان مجھے ادھر نہیں جانے دیتا''

پیغمبر اسلام (ص) نے جواب دیا:

'' اے عمرو جانتے ہو کہ بڑھاپے اور عضو کے ناقص ہونے کی وجہ سے تم پر جہاد واجب نہیں ہے''

عمرو نے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) کیا میرے عضو کا یہ نقص مجھے اتنے بڑے فیض اور نیکی سے محروم کرسکتا ہے؟''

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' جہاد تو تم پر واجب نہیں لیکن اگر تیرا دل چاہتا ہے کہ جہاد میں شرکت کرے تو اس سے کوئی مانع نہیں ہے''

اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے اس کے رشتہ داروں کی طرف نگا کی اور فرمایا کہ:

'' اس پر جہاد تو واجب نہیں ہے لیکن تم پر ضروری نہیں کہ اصرار کرو اور اسے اس نیکی سے روکو اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو اگر وہ چاہے تو جہاد میں شرکت کرے اور اس کے عظیم ثواب سے بہرہ مند ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسے شہادت نصیب ہوجائے''

عمرو نے خوش ہوتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیوی (ہند) اور دوسرے رشتہ داروں سے رخصت ہوکر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگیا_ اس نے میدان جنگ میں بڑی بہادری سے جنگ لڑی اپنے بیٹوں کے ساتھ داد شجاعت لی دشمنوں کی کافی تعداد کو بلاک کیا اور آخر میں اپنے بیٹوں کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوگیا_

۲۳۴

اس جنگ میں چند لوگوں کی دنیا ظلم و کم صبری اور نافرمانی کی وجہ سے شہداء کی تعداد زیادہ تھی جنگ کے خاتمہ پر شہر مدینہ کی عورتیں اپنے فرزندوں اور رشتہ داروں کے لئے میدان جنگ میں آئیں تا کہ اپنے رشتہ داروں کا حال معلوم کریں_ ہند سب سے پہلے میدان میں پہونچی اپنے شوہر، بھائی اور ایک فرزند کی لاش کو اونٹ پر رکھ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئی تا کہ وہاں ان کو دفن کردے لیکن جتنی وہ کوشش کرتی تھی اس کا وہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں جاتا تھا بہت مشکل سے کئی قدم اٹھاتا پھر ٹھہر جاتا اور واپس لوٹ جاتا گویا وہ چاہتا تھا کہ احد کی طرف ہی لوٹ جائے اسی حالت میں چند عورتوں سے اس کی ملاقات ہوگئی جو میدان جنگ کی طرف جا رہی تھیں_ ان میں پیغمبر اسلام (ص) کی ایک زوجہ بھی تھیں آپ نے ہند سے احوال پرسی کی اور سلام کیا:

کہاں سے آرہی ہو؟

احد کے میدان سے

کیا خبر ہے؟

الحمد اللہ کہ پیغمبر اسلام (ص) صحیح و سالم ہیںمسلمانوں کا ایک گروہ شہید ہوگیا ہے اور چونکہ ہمارے پیغمبر(ص) سالم ہیں لہذا دوسری مصیبتوں کو تحمّل کیا جاسکتا ہے خدا کا شکر ہے_

اونٹ پر کیا لادا ہے؟

تین شہیدوں کے جسم کو ایک میرا شوہر، ایک بیٹا اور ایک میرا بھائی ہے انھیں ہمیں لے جا رہی ہوں تا کہ مدینہ میں سپرد خاک کروں نہ جانے کیا بات ہے کہ جتنی کوشش کرتی ہوں کہ اونٹ کو مدینہ کی طرف لے چلوں اونٹ مدینہ کی طرف نہیں جاتا گویا اونٹ احد کی طرف واپس لوٹنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے پاس جائیں اور اس واقعہ کو آپ سے بیان کریں اور اس کا سبب پوچھیں_

۲۳۵

پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں گئیں اور پورے واقعہ کو آپ (ص) سے بیان کیا_ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ:

'' شاید جب تیرا شوہر جہاد میں جانے کے لئے رخصت ہو رہا تھا تو آخری کوئی بات کہی تھی اس نے کوئی دعا کی تھی؟ یا رسول اللہ (ص) کیوں نہیں آخری وقت اس نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا تھا اور کہا تھا: '' اے خدا مجھے شہادت کے فیض سے شرفیاب فرما اور پھر مجھے مدینہ واپس نہ لے آنا''

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

''خداوند عالم نے اس کی دعا کو قبول کرلیا ہے رہنے دو کیونکہ ہم تمھارے شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ یہیں دفن کردیں گے''

ہند نے قبول کیا پیغمبر اسلام (ص) نے ان تین شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ وہیں دفن کردیا اور فرمایا کہ:

'' یہ بہشت میں ابھی اکھٹے ہوں گے''

ہند نے رسول خدا (ص) سے دعا کرنے کی خواہش کی اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) دعا کیجئے کہ خداوند عالم مجھے بھی ان تینوں شہیدوں کے ساتھ محشور کرے''

پیغمبر اسلام (ص) نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس صابرہ اور شہید پرور خاتون کے لئے دعا فرمائی_ خدا کرے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی یہ دعا تمام شہید پرور ماؤں کے

۲۳۶

پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث شریف:

و فوق کل بر بر حتّی یقتل الرّجل فی سبیل الله فاذا قتل فی سبیل الله فلیس فوقه بر

'' اور ہر نیکی کے اوپر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ کوئی شخص راہ خدا میں قتل کردیا جائے اور جب کوئی راہ خدا میں قتل کردیا جائے تو پھر اس کے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے''

۲۳۷

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ کیا مسلمان ننگ و عار اورذلّت کو قبول کرسکتا ہے؟ کیا کسی ظالم سے صلح کرسکتا ہے؟

۲)___ مومن، وعدہ الہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کس امید پر میدان جنگ میں شرکت کرتا ہے؟ آخرت میں اس کی جزاء کیا ہے؟

۳)___ دو میں سے ایک کون ہے؟

۴)___ کس چیز نے عمرو کو میدان جنگ میں شریک ہونے پر ا بھارا تھا؟

۵)___ عمرو نے میدان جنگ میں شریک ہونے کے لئے کون سے دلائل دیئےھے؟

۶)___ عمرو نے جناب رسول خدا (ص) سے کیا گفتگو کی اور آخری میں اس نے کیا ارادہ کیا تھا؟

۷)___ ہند کی گفتگو ان عورتوں سے جو میدان احدم یں جا رہی تھیں کیا تھی؟

۸)____ پیغمبر اسلام (ص) نے ہند سے کیا پوچھا تھا اور اس کے جواب دینے کے بعد اس سے کیا کہا تھا؟

۲۳۸

شہیدوں کے پیغام

'' شہاد'' کتنی اچھی چیز ہے پورے شوق اور ایثار کی دنیا اس لفظ شہادت میں مخفی ہے_ جانتے ہو ''شہید'' کون ہے؟

شہید وہ بلند پایہ انسان ہے جو اللہ پر ایمان و عشق اور انسانی قدر و قیمت کے زندہ کرنے کے لئے اپنی عزیز جان کو قربان کرے_ یہ مادّی دنیا شہید کی بزرگ روح کے لئے چھوٹی اور تنگ ہے_

شہید اپنی فداکاری و بہادری سے اپنے آپ کو دنیاوی قفس سے رہا کرتا ہے اور آخرت کی نورانی وسیع دنیا کی طرف پرواز کرجاتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اپنے رب سے رزق پاتا ہے_

شہید کا نام، اس کی فداکاری، اس کا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور اس کی خلق خدا کی خدمات کا سننا یہ تمام کے تمام ایک مفید درس ہیں_

شہید کی قبر کی زیارت ، اس کے پیغام کا سننا اور اس کی وصیت کو سننا کتنا جوش و خروس لاتا ہے_

شہید کے آثار کا مشاہدہ کرنا انسان کے لئے کتنا ہی بیدار انسان کی جان میں جوش پیدا کردیتا ہے اور شہید کی یاد ایک آگاہ انسان کے لئے کتنی گرمائشے پیدا کردیتی ہے یہاں تک کہ شہید پر رونا آسمانی اور روحانی گریہ

۲۳۹

ہوتا ہے_

ذلّت و خواری کا گریہ نہیں ہوا کرتا بلکہ عشق و شوق کے آنسو ہوا کرتے ہیں_ واقعا کوئی بھی نیک عمل، شہادت سے بالاتر اور قیمتی نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کی عظمت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا ہے:

'' ہر نیک عمل کے اوپر کوئی نہ کوئی نیک عمل موجود ہوتا ہے مگر خدا کی راہ میں شہادت کہ جو ہر عمل سے بالاتر و قیمتی تر ہے اور کوئی عمل بھی اس سے بہتر و بالاتر نہیں ہے''

اسی عظیم مرتبہ و مقام تک پہونچنے کی علت تھی کہ جب حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر تلوار لگی تو آپ (ع) نے فرمایا کہ:

' ' مجھے ربّ کعبہ کی قسم کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں''

اب جب کہ تمھیں شہادت و شہید کے مقام و رتبہ سے کچھ آگاہی ہوگئی ہے ہو تو بہتر ہوگا کہ چند شہیدوں کے پیغام کو یہاں نقل کردیں کہ جن سے عشق اور آزادگی کا درس ملتا ہے_

۱)__ _ حضرت علی علیہ السلام جو ہمیشہ شہادت کی تمنّا رکھتے تھے جب آپ کی پیشانی تلوار سے زخمی کردی گوئی اور آپ اپنی عمر کے آخری لمحات کو طے کر رہے تھے تو آپ نے اس وقت یہ وصيّت فرمائی:

'' متقی و پرہیزگار بنو، دنیا کو اپنا مطمع نظر و ہدف قرار نہ دینا، دنیا کی دولت کی تلاش میں مت رہنا، دنیا کی دولت اور مقام تک نہ پہونچنے پر غمگین نہ ہونا، ہمیشہ حق کے طلبگار بنو، حق کہا کرو، یتیموں پر مہربان رہو، احکام الہی کے جاری کرنے میں مستعد رہنا اورکبھی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت

۲۴۰