‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110368 / ڈاؤنلوڈ: 3818
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

اس قسم کے طاغوتوں کی حکومت سے دفاع کرتے ہیں_

ان کی مدد کرنے والوں کی حمایت و مدد کے بغیر ظالم طاغوت کس طرح لوگوں کے حقوق کو ضائع اور ان پر ظلم کرسکتے ہیں؟ پس جتنے لوگ ظلم و ستم کی حکومت میں ان کی مدد کرتے ہیں وہ خود بھی ظالم ہوتے ہیں اور ظلم و خیانت میں شریک ہوتے ہیں اور اخروی عذاب و سزا میں بھی ان کے شریک ہوں گے_

برخلاف ان لوگوں کے جو اسلامی حکومت اور اسلام کے قوانین جاری کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے اور محروم طبقے کے حقوق سے دفاع کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالی کے ثواب کی جزاء میں شریک ہوں گے_

قرآن کی آیات:

( و انّ الظّالمین بعضهم اولیاء بعض و الله وليّ المتّقین ) (۱)

'' ظالم ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ پرہیز گاروں کا ولی ہے''

( و لا ترکنوا الی الّذین ظلموا فتمسّکم النّار ) (۲)

'' خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہنم کی آگ تمھیں چھوئے گی ''_

____________________

۱) سورہ جاثیہ آیت ۱۹

۲) سورہ ہود آیت ۱۱۳

۲۲۱

سوالات

یہ سوالات سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں

۱)___ جب اس جوان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے (حکومت بنی امیہ میں) کام کرنے کے متعلق پوچھا تھا تو امام (ع) نے اس کا کیا جواب دیا تھا اور امام (ع) نے اس کے لئے کیا دلیل دی تھی؟

۲)___ امام (ع) نے اس جوان کو نجات کا راستہ کیا بتایا تھا اور اسے کس چیز کی ضمانت دی تھی؟

۳)___ وہ جوان توبہ کرنے سے پہلے کیا سوچ رہا تھا اور اس مدت میں اس نے کیا سوچا؟

۴)___ اس جوان نے کس طرح توبہ کی اور کس طرح اپنے آپ کو اس گناہ سے نجات دی ؟

۵)___ اس بیماری جوان نے آخری وقت میں اپنے دوست سے کیا کہا تھا؟

۶)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ظالموں کی مدد نہ کرنے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

۷)___ قیامت کے دن منادی کیا ندا دے گا اور خداوند عالم کی طرف سے کیا حکم ملے گا؟ کون لوگ ظالموں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے؟

۲۲۲

اسلام میں جہاد اوردفاع

جہاد ہر مسلمان پر واجب ہے اور یہ انسان کو آزادی دلاتا ہے_

جہاد کرنے والا آخرت میں بلند درجہ اور خدا کی خاص رحمت و مغفرت کا مستحق ہوتا ہے_

جہاد کرنے والا میدان جنگ میں آکر اپنی جان کو جنّت کے عوض فروخت کرتا ہے_

یہ معاملہ بہت سودمند ہوتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کی رضا ہر جزا سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے_

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

'' جو لوگ خدا کی راہ میں اس کے بندوں کی آزادی کے لئے قیام و جہاد کرتے ہیں وہ قیامت میں جنّت کے اس دروازہ سے داخل ہوں گے جس کا نام '' باب مجاہدین'' ہے اور یہ دروازہ صرف مجاہد مومنین کے لئے ہی کھولا جائے گا_ مجاہدین بہت شان و شوکت اور عزّت و وقار سے ہتھار اٹھائے تمام لوگوں کے سامنے اور سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے_

اللہ تعالی کے خاص مقرّب فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور دوسرے جنّتی ان کے مقام کو دیکھ کر غبطہ کریں گے اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ و جہاد کو ترک کردے تو خداوند عالم سے ذلّت و خواری کا لباس پہنائے گا وہ زندگی میں فقیر و نادار ہوگا اور

۲۲۳

اپنے بدن سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہوگا_ خداوند عالم امت اسلامی کو اسلحہ پر تکیہ کرنے اور گھوڑوںو سواریوں کی رعبدار آواز کی جہ سے عزّت و بے نیازی تک پہونچاتا ہے''_

جو مومن مجاہدین ایسے جہاد میں جو نجات دینے والا ہوتا ہے جنگ کے میدان میں متّحد ہوکر صفین باندھتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کر کھڑے ہوجاتے ہیں انھیں چاہیئے کہ حدود الہی کی رعایت کریں اور اس گروہ سے جس سے جنگ کر رہے ہیں پہلے یہ کہیں کہ وہ طاغوت و ظالم کی اطاعت سے دست بردار ہوجائیں اورا للہ کے بندوں کو طاغوتوں کی قیدو بند سے آزاد کرائیں اور خود بھی وہ اللہ تعالی کی اطاعت کریں، اللہ کی حکومت کو تسلیم کریں اگر وہ تسلیم نہ ہوں اور اللہ تعال کی حکومت کو قبول نہ کریں تو اس وقت ان سے امام علیہ السلام یا امّت اسلامی کے رہبر نائب امام (ع) کے اذن و اجازت سے جنگ کریں اور مستکبر و طاغوت کو نیست و نابود کردیں اور اللہ کے بندوں کو اپنی تمام قوت و طاقت سے دوسروں کی بندگی اور غلامی سے آزاد کرائیں_ اس راہ میں قتل کرنے اور قتل کئے جانے سے خوف نہ کریں کہ جس کے متعلق امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

'' سب سے بہترین موت شہادت کی موت ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے ہزار دفعہ تلوار کی ضرب سے مارا جاؤں تو یہ مرنا میرے لئے اس موت سے زیادہ پسند ہے کہ اپنے بستروں پر مروں''_

۲۲۴

وہ جہاد جو آزادی دلاتا ہے وہ امام (ع) یا نائب امام (ع) کے اذن سے ہوتا ہے اور اس طرح کا جہاد کرنا صرف طاقتور، توانا اور رشید مردوں کا وظیفہ ہے لیکن کس اسلامی سرزمین اور ان کی شرافت و عزّت پر کوئی دشمن حملہ کردے تو پھر تمام زن و مرد پر واجب ہے کہ جو چیز ان کے قبضہ میں ہوا سے لے کر اس کا دفاع کریں_

اس صورت میں جوانوں کو بھی دشمن پر گولہ بار کرنی ہوگی اور لڑکیوں پر بھی ضروری ہوگا کہ وہ دشمن پر گولیاں چلائیں تمام لوگ اسلحے اٹھائیں حملہ آور کو اپنی سرزمین سے باہر نکال دیں اور اگر ان کے پاس سنگین اسلحہ نہ ہو تو پھر پتھر اور لاٹھیوں سے د شمن پر ٹوٹ پڑیں اپنی جان کوقربان کردیں، پوری طاقت سے جنگ کریں اور خود شہادت کے رتبہ پر فائز ہوجائیں اور اپنی آنے والی نسلوں و جوانوں کے لئے شرافت و عزّت کو میراث میں چھوڑ جائیں_

اس قسم کا جہاد کہ جس کا نام دفاع ہے اس میں امام (ع) یا نائب امام (ع) کی اجازت ضروری نہیں ہوتی اس لئے کہ اسلامی معاشرے کی عزّت و شرافت اتنی اہم ہوتی ہے کہ اسلام نے ہر مسلمان پر واجب کیا ہے کہ بغیر امام (ع) یاا س کے نائب کی اجازت کے دفاع کرے

مندرجہ ذیل واقعہ میں کس طرح مسلمانوں نے بالخصوص عورتوں نے کفّار کے حملہ و اسلام کی عزّت اور اسلامی سرزمین کا دفاع کیا ہے مشاہدہ کرسکتے ہیں:

فداکار اور جری خاتون:

مدینہ میں یہ خبر پہونچی کہ کفّار مکہ حملہ کی غرض سے چل چکے ہیں اور وہ انقلاب اسلامی کے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھنیکیں گے، انصار و مہاجرین کے گھروں کو تباہ کردیں گے_

۲۲۵

پیغمبر اسلام(ص) نے فوراً جہاد کا اعلان کرادیا اور مسلمان گروہ در گروہ ان کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے دشمن مدینہ کے نزدیک پہونچ چکے تھے اور مسلمان ان کے مقابلہ کے لئے صف آرا ہوگئے ان کا راستہ روک کر ان کی پیش قدمی کو روک دیا_

عورتوں کا ایک فداکار اور با ایمان گروہ بھی اپنے شوہروں اور اولاد کے ساتھ ایمان و شرف اور اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے میدان جنگ میں پہونچ گیا_ یہ اکثر افواج اسلام کی مدد کیا کرتی تھیں فوجیوں کے لئے غذا و پانی مہیا کرتیں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں اور اپنی تقریروں سے اسلام کی سپاہ کو جہاد و جاں نثاری کے لئے تشویق دلاتی تھیں_

انھیں فداکار خواتین میں سے ایک ''نسیبہ'' تھیں جواپنے شوہر اور دو جوان بیٹوں کے ساتھ احد کے میدان میں جنگ کے لئے آئی تھیں انھوں نے بہت محبت و شوق سے پانی کی ایک بڑی مشک پر کر کے اپنے کندھے پر ڈالی اور تھکے ماندہ لڑنے والے سپاہیوں کو پانی پلا رہی تھیں، دوا اور صاف ستھرے کپڑے بھی ساتھ رکھے ہوئے تھیں اور ضرورت کے وقت زخمیوں کے زخم کو اس سے باندھتی تھیں، اپنی پر جوش اور امید دلانے والی گفتگو سے اپنے شوہر، دو بیٹوں، تمام فوجیوں اور مجاہدین کو دشمن پر سخت و تابڑ توڑ حملے کرنے کی تشویق دلا رہی تھیں_

جنگ اچھے مرحلے میں تھیں اور فتح، اسلام کے سپاہیوں کے نزدیک تھی لیکن افسوس کہ پہاڑ کے درّے پر معيّن سپاہیوں کے چند آدمی کی غفلت و نافرمانی کی وجہ سے جنگ کو نوعیت بدل گئی تھی اورمسلمانوں کے سپاہی دشمن کے سخت گھیرے میں آگئے تھے مسلمانوں کی کافی تعداد شہید ہوگئی تھی اور ان کے چند افراد جن کا ایمان قوی نہ تھا اپنے لئے ننگ و عار کو برداشت کرتے ہوئے پیغمبر (ص) کو اکیلا چھوڑ کر میدان سے فرار کر گئے تھے _

۲۲۶

پیغمبر اسلام(ص) کے پاس صرف تھوڑے سے مومن اور فداکار سپاہی رہ گئے تھے آپ (ص) کی جان خطرے میں پڑگئی تھی_ دشمن نے اپنا پورا زور پیغمبر اسلام(ص) کے قتل کرنے پر لگادیا تھا_ حضرت علی علیہ السلام اور چند دلیر سپاہی آپ کے اردگرد حلقہ باندھے ہر طرف سے حملہ کادفاع کر رہے تھے_

جنگ بہت شدید و خطرناک صورت اختیار کرچکی تھی، اسلام کے سپاہی ایک دوسرے کے بعد کینہ ور دشمن کی تلوار سے زخمی ہوکر زمین پر گر رہے تھے_ اس حالت کو دیکھنے سے جناب نسیبہ نے مشک کا تسمہ اپنے کندھے سے اتارا اور جلدی سے ایک شہید کی تلوار و ڈھال اٹھائی پیغمبر اسلام (ص) کی طرف دوڑیں اور بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمنوں کے گھیرے کو برق رفتاری سے اپنی تلوار کے حملے سے توڑا اپنے آپ کو پیغمبر اسلام (ص) تک پہونچا دیا اپنی تلوار کو دشمنوں کے سر اور ہاتھوں پر چلا کر انھیں پیغمبر(ص) سے دور ہٹادیا_

اسی دوران میں انھوں نے دیکھا کہ دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے تا کہ پیغمبر اسلام (ص) پروار کرے_ نسیبہ اس کی طرف بڑھتی ہیں اور اس پر حملہ کرتی ہیں_ دشمن جو چاہتا تھا کہ اپنا وار پیغمبر اسلام (ص) کے سرپر کرے اس نے جلدی سے وہ وار نسیبہ پر کردیا جس سے نسیبہ کا کندھا زخمی ہوجاتا ہے اس سے خون نکلنے لگا ہے اور پورا جسم خون سے رنگین ہوجاتا ہے ایک سپاہی اس نیم مردہ خاتون کو میدان جنگ سے باہر لے جاتا ہے_

جب جنگ ختم ہوگئی تو پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں زخمیوں اور مجروحین کی ملاقات کے لئے گئے اور آپ (ص) نے اس فداکار خاتون کے بارے میں فرمایا کہ:

'' اس خوفناک ماحول میں جس طرف بھی میں دیکھتا تھا نسیبہ کو دیکھتا تھا کہ وہ اپنی تلوار سے میرا دفاع کر رہی ہے''

۲۲۷

اس کے بعد نسیبہ جنگ احد کی داستان اورمسلمانوں کی فداکاری کو اپنے دوستوں سے بیان کرتی تھیں اور ان کے دلوں میں ایثار و قربانی کے جذبات کو ابھارتیں اور ان میں جنگ کے شوق کو پیدا کرتی تھیں اور کبھی اپنی قمیص اپنے کندھے سے ہٹا کر اس زخم کے نشان دوسری عورتوں کو دکھلاتی تھیں_ جنگ احد میں اور بھی بہت سی چیزیں پیش آئیں جن کا ذکر ہمارے لئے مفید ہے_

قرآن کی آیت:

( انّ الله یحب الّذین یقاتلون فی سبیله صفّا کانّهم بنیان مرصوص ) (۱)

'' خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جنگ کرتے ہیں''

____________________

۱) سورہ صف آیت ۴

۲۲۸

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ مرد مجاہدین میں اپنی جان کو کس کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اور اس معاملہ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

۲)___ مجاہدین کس طرح جنّت میں وارد ہوں گے؟

۳)__ _ جو لوگ راہ خدا میں جہاد نہین کرتے ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟

۴)___ خداوند عالم امّت اسلامی کو کس چیز سے عزّت بخشتا ہے؟

۵)___ میدان جنگ میں ایک مجاہد دوسرے مجاہد کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟

۶)___ شہادت کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے؟

۸)___ دفاع کسے کہا جاتا ہے؟ مسلمانوں کی سرزمین، شرف و عزّت سے دفاع کرنا کس کا فریضہ ہے؟

۹)___ نسیبہ، میدان احد میں پہلے کیا کام کرتی تھیں اور پھر کیوں انھوں نے لڑائی میں شرکت کی؟

۱۰)___ پیغمبر اسلام (ص) نے نسیبہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۲۲۹

شہادت کا ایک عاشق بوڑھا اور ایک خاتون جو شہید پرور تھی موت سے کون ڈرتا ہے اور کون نہیں ڈرتا ؟

جو موت کو فنا سمجھتا ہے اور آخرت پر اعتقاد نہیں رکھتا وہ موت سے ضرور ڈرے گا اور موت سے بچنے کے لئے ہر قسم کی ذلّت و عار کو برداشت کرے گا_ اس قسم کے لوگ دنیا کی محدود زندگی کو سوچتے ہیں اور اپنی پوری کوشش کو مادّی و زود گذر خواہشات کے لئے صرف کرتے ہیں اور زیادہ تر اپنے شخصی منافع کے بارے میں سوچتے ہیں اور حیوانوں کی طرح دن رات گذارتے ہیں پھر ذلّت و خواری سے مرجاتے ہیں اور وہ اپنی غفلتوں، کوتاہ نظریوں و برے کردار کی سزا پاتے ہیں_

لیکن جو انسان خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ موت نیست و نابود ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ بلند ہمّتی و بے نظیر بہادری کے ساتھ اپنی ا ور اپنے معاشرہ کی شرافت و عزّت کے لئے جنگ کرتا ہے راہ خدا اور اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لئے جان و مال دینے سے دریغ نہیں کرتا اپنی پوری توانائی کو خدا کی رضا اور بندگان خدا کی فلاح میں صرف کر کے با عزّت زندگی بسر

۲۳۰

کرتا ہے اور آخرت میں الطاف الہی سے بہر ہ مند ہوتا ہے_

قبیلہ عمر و ایسے ہی مومن انسان کا ایک مجسم نمونہ تھا جو شہادت و ایثار سے عشق رکھتا تھا چنانچہ اللہ تعالی کی ذات و آخرت پر ایمان لانے کی قدر و قیمت کو پہچاننے کے لئے اس پر افتخار گھرانے کی داستان کے ایک گوشہ بالخصوص عمرو کی داستان کو ذکر کیا جاتا ہے_

مدینہ کے مسلمانوں کو پتہ چلا کہ کفّار مکہ، مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے آر ہے ہیں، مسلمان پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے بعد دفاع کے لئے آمادہ ہوچکے تھے، مدینہ کی حالت بدل چکی تھی ہر جگہ جہاد و شہادت کی گفتگو ہو رہی تھی صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ سب شہر کے باہر جائیں اور قبل اس کے کہ دشمن میں پہونچیں شہر کے باہر ہی ان کا مقابلہ کیا جائے ج ان سپاہی اپنی ماؤں کے ہاتھ چومتے اور ان سے رخصت ہو رہے تھے اور گروہ گروہ میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہے تھے_

مرد اپنے بچوں اور بیویوں سے رخصت ہو کر احد کے پہاڑ کی طرف روانہ ہو رہے تھے_ عمرو بن جموح کے چار بہادر بیٹے جہاد کے لئے آمادہ ہوچکے تھے یہ چاروں بہادر اس سے پہلے بھی جنگوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور قرآن و اسلام سے دفاع کرنے میں ہر قسم کی فداکاری کے لئے تیاررہتے تھے_

عمرو دیکھ رہا تھا کہ اس کے فرزند کس شوق و محبّت سے اسلحوں سے آراستہ ہوکر میدان جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں اور مسلمان پیادہ و سوار، لباس جنگ زیب تن کئے تکبیر کہتے دمشن کی طرف چلے جا رہے ہیں اسے یقین ہوگیا تھا کہ ان اسلام کے سپاہیوں کو کبھی شکست نہیں ہوسکتی، وہ جنگ کے میدان میں دلیرانہ جنگ کریں گے اپنی عزّت و شرف کا دفاع کریں گے_

اس کے نتیجہ میں یا دشمن پر فتح پالیں گے یا شہادت کے درجہ پر فائز ہوں گے

۲۳۱

التہ اگر شہید ہوگئے تو اللہ تعالی کے فرشتے ان کی پاک روح کو بہشت تک لے جائیں گے اور وہ بہشت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور جوار الہی میں خوش و خرّم زندگی بسر کریں گے_

اس منظر کو دیکھ کر عمرو کی آنکھوں میں آنسو بھر آیا او ردل میں کہا:

'' کاش میرا پاؤں لنگڑا نہ ہوتا اور میں بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ جہاد کرنے جاتا''_

اسی حالت میں اس کے چاروں نوجوان بیٹے اس سے رخصت ہونے کے لئے آئے انھوں نے باپ کا ہاتھ چو ما عمرو نے ان کی پیشانی اور چہروں کو بوسہ دیا_ اسلام کے فداکاروں کے گرم خون کو اس نے نزدیک سے محسوس کیا اور اس کی حالت دگرگوں ہوگئی

'' صبر کرو صبر کرو میں بھی تمھارے ساتھ جہاد کے لئے آتا ہوں''

اس کے بیٹے حیرت زدہ ہوکر سوچنے لگے کہ کس طرح ہمارا با ہمارے ساتھ جہاد کرے گا؟ حالانکہ وہ بہت بوڑھا ہے اور اس کا ایک پاؤں بھی لنگڑا ہے ایسے انسان پر اسلامی قانون کے رو سے تو جہاد واجب ہی نہیں ہوا کرتا_

بیٹے اسی فکر میں کھڑے تھے کہ باپ نے لباس جنگ زیب تن کیا تلوار ہاتھ میں لی اور چلنے کے لئے تیار ہوگیا_ بیٹوں نے باپ کو منع کیا لیکن وہ اپنے ارادہ سے باز نہ آیا مجبوزا انھوں اپنی ماں اور بعض رشتہ داروں سے باپ کو روکنے کے لئے کہا بچّوں کے اصرار پر انھوں نے عمرو سے کہا کہ:

'' تم بڑھاپے و لنگڑا پن کی وجہ سے دشمن پر حملہ نہیں کرسکتے ہو نہ ہی اپنے سے دفاع کرسکتے ہو اور خداوند عالم نے بھی تم پر

۲۳۲

جہاد واجب نہیں کیا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ تم مدینہ میں رہ جاؤ اور یہ چار جوان بیٹے ہیں جو میدان جنگ میں جا رہے ہیں کافی ہیں''

عمرون نے جواب دیا کہ:

'' تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ کافروں کی فوج نے ہم پر حملہ کردیا ہے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کو خطرے میں ڈال دیا ہے، کیا اسلام و پیغمبر اسلام (ص) کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے؟

کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ اسلام کے جانباز سپاہی کس شوق سے جہاد کے لئے جا رہے ہیں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں یہ ساری شان و شوکت، شوق کو دیکھتا رہوں اور چپ ہوکر بیٹھ جاؤں؟

کیا تم یہ کہتے ہو کہ میں بیٹھ جاؤں اور دوسرے لوگ میدان میں جائیں کافروں کے ساتھ جنگ کریں، شہادت کے فیض اور پروردگار کے دیدار سے شرف یاب ہوں اور میں محروم رہ جاؤں؟

نہیں اور ہرگز نہیں میں پسند نہیں کرتا کہ بستر پر مروں، میں باوجودیکہ بوڑھا و لنگڑا ہوں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ شہید ہوجاؤں''_

چنانچہ انھوں نے کوشش کی کہ اس بوڑھے اور ارادے کے پكّے انسان کو جنگ سے روک دیں لیکن اس میں انھیں کامیابی نہ ملی او ربات اس پر ٹھہری کہ پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں جائیں اور آپ سے اس کے متعلق تکلیف معلوم کریں وہ لوگ حضور کے پاس گئے اور عرض کیا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تا کہ اسلام و مسلمانوں کی مدد کرسکوں اور آخر میں

۲۳۳

شہا دت کے فیض سے نوازا جاؤں لیکن میرا خاندان مجھے ادھر نہیں جانے دیتا''

پیغمبر اسلام (ص) نے جواب دیا:

'' اے عمرو جانتے ہو کہ بڑھاپے اور عضو کے ناقص ہونے کی وجہ سے تم پر جہاد واجب نہیں ہے''

عمرو نے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) کیا میرے عضو کا یہ نقص مجھے اتنے بڑے فیض اور نیکی سے محروم کرسکتا ہے؟''

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' جہاد تو تم پر واجب نہیں لیکن اگر تیرا دل چاہتا ہے کہ جہاد میں شرکت کرے تو اس سے کوئی مانع نہیں ہے''

اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے اس کے رشتہ داروں کی طرف نگا کی اور فرمایا کہ:

'' اس پر جہاد تو واجب نہیں ہے لیکن تم پر ضروری نہیں کہ اصرار کرو اور اسے اس نیکی سے روکو اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو اگر وہ چاہے تو جہاد میں شرکت کرے اور اس کے عظیم ثواب سے بہرہ مند ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسے شہادت نصیب ہوجائے''

عمرو نے خوش ہوتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیوی (ہند) اور دوسرے رشتہ داروں سے رخصت ہوکر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگیا_ اس نے میدان جنگ میں بڑی بہادری سے جنگ لڑی اپنے بیٹوں کے ساتھ داد شجاعت لی دشمنوں کی کافی تعداد کو بلاک کیا اور آخر میں اپنے بیٹوں کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوگیا_

۲۳۴

اس جنگ میں چند لوگوں کی دنیا ظلم و کم صبری اور نافرمانی کی وجہ سے شہداء کی تعداد زیادہ تھی جنگ کے خاتمہ پر شہر مدینہ کی عورتیں اپنے فرزندوں اور رشتہ داروں کے لئے میدان جنگ میں آئیں تا کہ اپنے رشتہ داروں کا حال معلوم کریں_ ہند سب سے پہلے میدان میں پہونچی اپنے شوہر، بھائی اور ایک فرزند کی لاش کو اونٹ پر رکھ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئی تا کہ وہاں ان کو دفن کردے لیکن جتنی وہ کوشش کرتی تھی اس کا وہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں جاتا تھا بہت مشکل سے کئی قدم اٹھاتا پھر ٹھہر جاتا اور واپس لوٹ جاتا گویا وہ چاہتا تھا کہ احد کی طرف ہی لوٹ جائے اسی حالت میں چند عورتوں سے اس کی ملاقات ہوگئی جو میدان جنگ کی طرف جا رہی تھیں_ ان میں پیغمبر اسلام (ص) کی ایک زوجہ بھی تھیں آپ نے ہند سے احوال پرسی کی اور سلام کیا:

کہاں سے آرہی ہو؟

احد کے میدان سے

کیا خبر ہے؟

الحمد اللہ کہ پیغمبر اسلام (ص) صحیح و سالم ہیںمسلمانوں کا ایک گروہ شہید ہوگیا ہے اور چونکہ ہمارے پیغمبر(ص) سالم ہیں لہذا دوسری مصیبتوں کو تحمّل کیا جاسکتا ہے خدا کا شکر ہے_

اونٹ پر کیا لادا ہے؟

تین شہیدوں کے جسم کو ایک میرا شوہر، ایک بیٹا اور ایک میرا بھائی ہے انھیں ہمیں لے جا رہی ہوں تا کہ مدینہ میں سپرد خاک کروں نہ جانے کیا بات ہے کہ جتنی کوشش کرتی ہوں کہ اونٹ کو مدینہ کی طرف لے چلوں اونٹ مدینہ کی طرف نہیں جاتا گویا اونٹ احد کی طرف واپس لوٹنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے پاس جائیں اور اس واقعہ کو آپ سے بیان کریں اور اس کا سبب پوچھیں_

۲۳۵

پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں گئیں اور پورے واقعہ کو آپ (ص) سے بیان کیا_ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ:

'' شاید جب تیرا شوہر جہاد میں جانے کے لئے رخصت ہو رہا تھا تو آخری کوئی بات کہی تھی اس نے کوئی دعا کی تھی؟ یا رسول اللہ (ص) کیوں نہیں آخری وقت اس نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا تھا اور کہا تھا: '' اے خدا مجھے شہادت کے فیض سے شرفیاب فرما اور پھر مجھے مدینہ واپس نہ لے آنا''

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

''خداوند عالم نے اس کی دعا کو قبول کرلیا ہے رہنے دو کیونکہ ہم تمھارے شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ یہیں دفن کردیں گے''

ہند نے قبول کیا پیغمبر اسلام (ص) نے ان تین شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ وہیں دفن کردیا اور فرمایا کہ:

'' یہ بہشت میں ابھی اکھٹے ہوں گے''

ہند نے رسول خدا (ص) سے دعا کرنے کی خواہش کی اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) دعا کیجئے کہ خداوند عالم مجھے بھی ان تینوں شہیدوں کے ساتھ محشور کرے''

پیغمبر اسلام (ص) نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس صابرہ اور شہید پرور خاتون کے لئے دعا فرمائی_ خدا کرے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی یہ دعا تمام شہید پرور ماؤں کے

۲۳۶

پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث شریف:

و فوق کل بر بر حتّی یقتل الرّجل فی سبیل الله فاذا قتل فی سبیل الله فلیس فوقه بر

'' اور ہر نیکی کے اوپر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ کوئی شخص راہ خدا میں قتل کردیا جائے اور جب کوئی راہ خدا میں قتل کردیا جائے تو پھر اس کے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے''

۲۳۷

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ کیا مسلمان ننگ و عار اورذلّت کو قبول کرسکتا ہے؟ کیا کسی ظالم سے صلح کرسکتا ہے؟

۲)___ مومن، وعدہ الہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کس امید پر میدان جنگ میں شرکت کرتا ہے؟ آخرت میں اس کی جزاء کیا ہے؟

۳)___ دو میں سے ایک کون ہے؟

۴)___ کس چیز نے عمرو کو میدان جنگ میں شریک ہونے پر ا بھارا تھا؟

۵)___ عمرو نے میدان جنگ میں شریک ہونے کے لئے کون سے دلائل دیئےھے؟

۶)___ عمرو نے جناب رسول خدا (ص) سے کیا گفتگو کی اور آخری میں اس نے کیا ارادہ کیا تھا؟

۷)___ ہند کی گفتگو ان عورتوں سے جو میدان احدم یں جا رہی تھیں کیا تھی؟

۸)____ پیغمبر اسلام (ص) نے ہند سے کیا پوچھا تھا اور اس کے جواب دینے کے بعد اس سے کیا کہا تھا؟

۲۳۸

شہیدوں کے پیغام

'' شہاد'' کتنی اچھی چیز ہے پورے شوق اور ایثار کی دنیا اس لفظ شہادت میں مخفی ہے_ جانتے ہو ''شہید'' کون ہے؟

شہید وہ بلند پایہ انسان ہے جو اللہ پر ایمان و عشق اور انسانی قدر و قیمت کے زندہ کرنے کے لئے اپنی عزیز جان کو قربان کرے_ یہ مادّی دنیا شہید کی بزرگ روح کے لئے چھوٹی اور تنگ ہے_

شہید اپنی فداکاری و بہادری سے اپنے آپ کو دنیاوی قفس سے رہا کرتا ہے اور آخرت کی نورانی وسیع دنیا کی طرف پرواز کرجاتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اپنے رب سے رزق پاتا ہے_

شہید کا نام، اس کی فداکاری، اس کا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور اس کی خلق خدا کی خدمات کا سننا یہ تمام کے تمام ایک مفید درس ہیں_

شہید کی قبر کی زیارت ، اس کے پیغام کا سننا اور اس کی وصیت کو سننا کتنا جوش و خروس لاتا ہے_

شہید کے آثار کا مشاہدہ کرنا انسان کے لئے کتنا ہی بیدار انسان کی جان میں جوش پیدا کردیتا ہے اور شہید کی یاد ایک آگاہ انسان کے لئے کتنی گرمائشے پیدا کردیتی ہے یہاں تک کہ شہید پر رونا آسمانی اور روحانی گریہ

۲۳۹

ہوتا ہے_

ذلّت و خواری کا گریہ نہیں ہوا کرتا بلکہ عشق و شوق کے آنسو ہوا کرتے ہیں_ واقعا کوئی بھی نیک عمل، شہادت سے بالاتر اور قیمتی نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کی عظمت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا ہے:

'' ہر نیک عمل کے اوپر کوئی نہ کوئی نیک عمل موجود ہوتا ہے مگر خدا کی راہ میں شہادت کہ جو ہر عمل سے بالاتر و قیمتی تر ہے اور کوئی عمل بھی اس سے بہتر و بالاتر نہیں ہے''

اسی عظیم مرتبہ و مقام تک پہونچنے کی علت تھی کہ جب حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر تلوار لگی تو آپ (ع) نے فرمایا کہ:

' ' مجھے ربّ کعبہ کی قسم کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں''

اب جب کہ تمھیں شہادت و شہید کے مقام و رتبہ سے کچھ آگاہی ہوگئی ہے ہو تو بہتر ہوگا کہ چند شہیدوں کے پیغام کو یہاں نقل کردیں کہ جن سے عشق اور آزادگی کا درس ملتا ہے_

۱)__ _ حضرت علی علیہ السلام جو ہمیشہ شہادت کی تمنّا رکھتے تھے جب آپ کی پیشانی تلوار سے زخمی کردی گوئی اور آپ اپنی عمر کے آخری لمحات کو طے کر رہے تھے تو آپ نے اس وقت یہ وصيّت فرمائی:

'' متقی و پرہیزگار بنو، دنیا کو اپنا مطمع نظر و ہدف قرار نہ دینا، دنیا کی دولت کی تلاش میں مت رہنا، دنیا کی دولت اور مقام تک نہ پہونچنے پر غمگین نہ ہونا، ہمیشہ حق کے طلبگار بنو، حق کہا کرو، یتیموں پر مہربان رہو، احکام الہی کے جاری کرنے میں مستعد رہنا اورکبھی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت

۲۴۰

سے متاثر نہ ہونا''

۲)___ جب امام حسین علیہ السلام شہادت کے لئے تیار ہوگئے تو اپنے اصحاب سے یوں فرمایا:

'' کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ باطل سے نہیں روکا جا رہا ہے_ اس حالت میں مومن کو چاہیئے کہ اللہ تعالی کی ملاقات اور شہادت کے لئے آمادہ ہوجائے کیونکہ میرے نزدیک راہ خدا میں مرنا سوائے سعادت و کامیابی کے کچھ نہیں ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی سوائے افسردگی، دل تنگی، رنج اور مشقت کے کچھ نہیں ہے''

کیا ان دو پیغاموں میں خوف اور ڈرکی کوئی جھلک ہے؟ کیا ظالموں کے سامنے سر نہ جھکانے میں ذلّت و خواری ہے؟ نہیں ہرگز نہیں جو شخص شہادت کو سعادت جانتا ہوگا وہ کبھی بھی ظلم و ستم کے سامنے سر نہ جھکائے گا_ نہ صرف ہمارے ائمہ علیہم السلام اس طرح کے تھے بلکہ ان کے صحیح پیروکار اور شاگرد بھی اسی طرح کے تھے ان صحیح پیروکاروں کی بعض اہم وصیتوں کی طرف توجہ کرو_

( یہ ان لوگوں کی وصیتیں نقل ہو رہی ہیں جو عراق و ایران جنگ میں ایران کی طرف سے شہید ہوئے ہیں)

۱)___ ان میں سے ایک حوزہ علمیہ قم کے طالب علم محمود صادقی کاشانی ہیں؟

اپنے وصيّت نامہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:

'' بسم رب الشّهداء اشهد ان لا اله الّا الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمدا عبده و رسوله''

۲۴۱

خدا کا شکر ہے کہ میں نے حق کی جنگ میں جو باطل کے خلاف ہو رہی ہے شرکت کرنے کی سعادت حاصل کی ہے میرے پاس جو کچھ ہے میں نے مخلصانہ طور پر اللہ کے سامنے پیش کردیا ہے جس چیز کے اردگرد امام حسین علیہ السلام، ان کے یاران وفادار اور صدر اسلام کے شہید، پروانہ کی طرح چكّر لگا رہے تھے میں نے ھی اسے پالیا ہے یعنی وہ ہے ''شہادت''

آیا کوئی شخص یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ظالم و متجاوز اس کے اسلام و عزّت اور وطن کی طرف ہاتھ بڑھائے اور وہ خاموش دیکھتا رہے؟

اب میں جا رہا ہوں تا کہ اپنے خدا سے ملاقات کروں اس آگ کو جو میرے اندر جل رہی ہے اسے بجھا سکوں_ میں بھی اب اس باصفا جنگ کے آشیانہ کی طرف پرواز کر کے اپنے جنگجو بھائیوں کے خالی مورچوں (محاذوں) کی طرف جا رہا ہوں لیکن مجھے اپنے رہبر زمانہ، حجّت عصر نائب امام آیت اللہ خمینی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) جو آج کے بت شکن ہیں کی قدر دانی کرنی چاہیئے کیونکہ انھوں نے مجھے دنیا کے گرداب اور تاریکیوں سے کہ جن میں گر کرہیں تباہ ہونے کے قریب تھا اور وہ میرے ہادی و رہنما ہیں_

اے میرے جنگجو ساتھیو اور دوستو تم بہتر جانتے ہو کہ یہ انقلاب جو ایران میں لایا گیا ہے کس طرح کامیاب ہوا ہے

کتنے علی اکبر (ع) ، علی اصغر (ع) اور حبیب ابن مظاہر (ع) کے نقش قدم

۲۴۲

پر چلنے والوں کے قتل کئے جانے سے کامیباب ہوا ہے خدا نہ کرے کہ تم اس انقلاب سے بے توجہ ہوکر بیٹھ جاؤ اوردنیا کو آخرت پر ترجیح دو_ کسی غم و اندوہ کو اپنے پا سنہ آنے دو کیونکہ ہم ہی کامیاب ہیں_

اے میرے ماں باپ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں؟ ابّا جان مجھے یاد ہے کہ جب آپ قم آئے تھے تو میںنے دوسرے لوگوں سے کہا تھا کہ باپ کی رضا (جنگ میں جانے کے لئے) ضروری ہے لہذا آپ بغیر کسی دریغ کے دفتر میں گئے اور اپنے راضی نامہ پردستخط کردیا_

اے میری ماں مجھے یاد ہے کہ تونے میرے بڑا کرنے میں بڑی زحمتیں اٹھائی ہیںاور آخری وقت جب میں تم سے جدا ہو رہا تھا تو یوں کہا تھا کہ:

'' محمود ہوشیار رہنا اور بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''

میری پیاری ماںمیں محاذ جنگ پر تھا تو مجھے برابر تمھارا یہ جملہ یاد آتا تھا کہ بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''_ امّاں میری موت پر کہیں بے قرار نہ ہونا، لباس نہ پھاڑنا اور آخری عمر تک ناراضگی کی آگ میں نہ جلاتے رہنا کیونکہ یہ دشمن کے طعن و تشنیع کا موجب ہوجائے گا_ میں اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں کو وصيّت کرتا ہوں کہ اس انقلاب سے اور تمام جہان کے محروم طبقے کے رہبر انقلاب سے

۲۴۳

کنارہ کشی نہ کرنا_ خدا تمھارا یار و مددگار ہو''

۲)___ تہران کے شہید سيّد علی اکبر میر کوزہ گرنے اپنے بہترین اورپر مغز وصیت نامہ میں یوں تحریر کیا ہے:

'' حقیقت کے ترازو میں اللہ تعالی کے نزدیک کوئی قطرہ اس خون کے قطرہ سے کہ جو راہ خدا میں بہایا جائے بہتر نہیں ہوتا اور میں چاہتا ہوں کہ اس خون کے قطرے سے اپنے معشوق تک پہونچوں کہ جو خدا ہے_

میں وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد گریہ و زاری نہ کرنا میرے تمام دوستوں کومبارکباد دینا اور کہنا کہ وہ اس امّت اسلامی کے رہبر اور نائب امام کا ہدیہ خدا کی راہ میںہے اسی وجہ سے سيّد، جہاد کے لئے گیا ہے اور جام شہادت نوش کیا ہے''

اس شہید کے پیغام کو سنو کو ''جہاد'' دو چیزیں چاہتا ہے:

ایک وہ خون جو شہید دیتا ہے_

دوسرے شہید کا پیغام جو سب تک پہونچنا چاہیئے_

''میر باپ سے کہدینا کہ اب ہم اپنے جدّ بزرگوار کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ ان کا فرزند اس راستہ پرگیا ہے کہ جس پر امام حسین علیہ السلام اوران کی اولاد گئی تھی_ ابّا جان میری وصیت آپ کو یہ ہے کہ میرے مشن کو آگے بڑھائیں''

۳)___ خرّم شہر (جسے خونین شہر بھی کہا جاتا ہے) کے ایک فداکار پاسدار شہید حسین حمزہ کہ جنھوں نے صحیح طور سے قرآن اور وطن کی شجاعانہ و فداکارانہ پاسداری

۲۴۴

کی تھی وہ اپنی ماں کو آخری خط مں یوں لکھتے ہیں:

'' اب جب کہ تیس دنوں سے کفّار کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں اور ہر دن اس امید پر دیکھتا ہوں کہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اتنی طویل مدّت تک کیوں شہادت کا افتخار مجھے نصیب نہیں ہوا

میری پیاری ماں

میں نے تم کو بہت ڈھونڈا تا کہ تمھاری وصیت کو سنوں لیکن تمھیں نہیں پایا_ جنگ کی ابتداء سے آج تک (یعنی ۲۳/۷/ ۵۹ شمسی) ہمیشہ تمھاری ملاقات کی فکر میں تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا_

امّا جان

اگر تم مجھے نہ دیکھ سکی تو مجھے بخش دینا، تم بہتر جانتی ہو کہ میں اس انقلاب کی ابتداء سے ہمیشہ چاہتا تھا کہ اس مین میرا حصّہ رہے_ مادر جان میری موت کی خبر سننے کے بعد اشک نہ بہانا اور میری بہنون سے بھی کہنا کہ میری موت پر اشک نہ بہائیں کیونکہ ہمارے موالا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند کی موت پر اشک نہیں بہائے تھے چونکہ حضرت جانتے تھے کہ اللہ کی رضا اسی میں ہے_

مادر گرامی

شائد میرا قرآن و اسلام کی راہ میں مرنا جوانوں میں جوش پیدا کردے نہ صرف میری موت پر بلکہ تمام شہداء کی موت پر کہ جو

۲۴۵

اللہ کی راہ میں اسلام کے مقدس ہدف کے لئے ہوتی ہے، تم بھی خوش ہونا کہ اپنے فرزند کو راہ اسلام میں قربان کیا ہے_ آخرت میں حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام تم سے کوئی گلہ اور شکوہ نہ کریں گی_

یہ خط ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں کہ دشمن کے توپوں اور گولیوں کی آواز ہر طرف سے آرہی ہے_ میں اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تکبیر کہتے ہوئے تو پوں کے گولے پھٹنے سے شہید ہو رہے ہیں_

اے میرے خدا تجھے تیری وحدانيّت کی قسم دیتا ہوں اسلام کی راہ میں مجھے شہادت نصیبت کر اور میرے گناہوں کو بخش دے مجھے شہداء کی صف میں قرار دے_

خدایا مجھے طاقت و قدرت عنایت فرما اور مجھ پر لطف کر کہ عمر کے آخری لمحے تک تیرا نام میری زبان پر جاری رہے_ شکر ہے اس خدائے بزرگ کا کہ جس نے مجھ پر عنایت فرمائی ہے کہ میں اپنی جان اسلام پر قربان کروں، اسلام کامیاب ہو اور اسلام و قرآن کے دشمن نابود ہوں_ سلام ہو اس امت اسلامی کے رہبر انقلاب آقائے خمینی پر_ خداحافظ''

ان شہیدوں کے پیغام کا متن دوسرے ہزاروں شہیدوں کے پیغام کی طرف انقلاب اسلامی کی کتابوں کے بہترین صفحات پر لکھا جائے گا ہمیشہ کے لئے رہ جائے گا اور یہ آزادی و جاودانی کا درس ہوگا_ اے پڑھنے والے طالب علمو تم اس ا بدی پیغام کو دوبار پڑھنا، شہیدوں و آزاد منشوں کے پیغام سے زندگی، آزادی، شجاعت، دلیری، ایثار، مہربانی، عشق، خداپرستی، اخلاص و ایمان کا درس حاصل کرنا_

۲۴۶

سوالات

سوچویے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۲)____ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی عمر کے آخری لمحہ میں کیا کہا تھا؟ اس وصيّت میں کن کن چیزوں کو بیان کیا ہے؟

۳)___ امام حسین علیہ السلام نے راہ خدا میں قتل ہوجانے کے متعلق کیا فرمایا ہے؟ مومن کوکب شہادت اور فداکاری کے لئے تيّار ہوجانا چاہیئے؟

۴)___ طالب علم کاشانی نے اپنے وصیت نامہ کو کن جملوں سے شروع کیا ہے؟ درج ذیل جملوں کو اس کی وصيّت کے مطالعہ کے بعد پورا کیجئے:

۱)__ '' خدا کا شکر کہ مجھے توفیق ملی

۲)__ کیا کوئی برداشت کرسکتا ہے کہ

۳)__ میں اب اپنے ساتھیوں کے خالی مورچے

۴)__ اپنے رہبر، حجّت زمان، نائب امام (ع)

۵)__ خدا کرے کہ تم کفّار

۶)__ ابّا جان آپ کو یاد ہے جب آپ قم آئے تھے تو

۷)__ امّا جان مجھے یاد ہے

۸) میرے خاندان او ردوستوں کو

۲۴۷

بہادر فوجیوں اور لڑنے والوں کے لئے دعا

امام زین العابدین علیہ السلام نے ''صحیفہ سجّادیہ'' میں اسلامی سرزمین کے محافظ فوجیوں کے لئے دعا فرمائی ہے کہ جس کے بعض جملوں کا ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے،

''بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

خدایا محمد اور آل محمد علیہم الصّلوة والسّلام کی پاک روح پر رحمت نازل کر اور مسلمانوں کے ممالک کی سرحدوں کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھ، سرحدوں کے قریب رہنے والوں کی حفاظت کر اور اپنے لطف و کرم کو ان پر زیادہ کر_

خدایا محمّد و آل محمّد علیہم السلام کی پاک روح پر درود بھیج سربازوں و پاسداروں کی تعداد میں اضافہ فرما اور ان کے ہتھیاروں کو دشمنوں کے خلاف تیزو کارگر، ان کے مورچوں کو شکست سے محفوظ رکھ_

اے میرے اللہ اسلام کے سپاہیوں کے حملوں کو دشمن کے ضرر سے محفوظ رکھ، لڑنے والوں میں اتحاد، برادری و ہمکاری کے رشتے کو مضبوط کر اور انھیں ان کے کاموں کو منظم

۲۴۸

طور سے بجالانے کی توفیق عنایت فرما_

خدایا اپنے لطف سے ان کے خرچ کو پورا کر اور لڑائی کے وقت ان کا یار و مدددگار بن، اے میرے اللہ صبر و استقامت کے سائے میں انھیں کامیاب فرما، فوجی نقشے اور منصوبے میں ان کی راہنمائی فرما_

یا اللہ محمّد و آل محمد علیہم السلام کی پاک روح پر درود و رحمت بھیج ، خدایا ہمارے لڑنے والے فوجیوں کے دلوں کو جب وہ دشمن سے لڑ رہے ہوں دنیا کی فکر سے بے نیاز کردے ، ان کی توجہ زر و جواہر اور مال دنیا سے دور کر، انھیں اس طرح کردے کہ جنّت بریں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں، بہشت کی عمدہ منازل و بہشتی فرشتوں کو دیکھ رہے ہوں، بہشت میوے، بلند درخت اور نہروں کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں، اولیائ، ابرار و شہداء کی صحبت میں رہنے کے مشتاق ہوں تا کہ وہ ان ذرائع سے خوف کو اپن دل میں نہ آنے دیں، ان کی قوّت میں استحکام پیدا ہو وہ باقوت ہوکر بہتر جنگ کرسکیں اور ہرگز ان کے دل میں فرار کا خیال نہ پیدا ہو_

خدایا ان سربازوں کے وسیلے سے کہ جنھوںنے اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھی ہے دشمن کی طاقت کو شکست دے، دشمن کے درمان اختلاف پیدا کر، ان کے دلوں سے سکون و آرام کو ختم کر، ان کے ہاتھوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے خالی کر،

۲۴۹

حیرت و پریشانی میں مبتلا کر،انھیں مدد و حمایت کرنے والوں سے محروم کر، ہمیشہ ان کی تعداد میں کمی کر اور ان کے دلوں کو خوف و ہراس سے پر کر_

اے میرے اللہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں کو تجاوز سے روک دے اور ان کی زبان کو گنگ کردے_ خدایا اس طرح ظالموں پر ہلاکت کو مسلّط کر کہ دوسروں کے لئے عبرت کا درس ہوجائے تا کہ دوسرے جرات نہ کرسکیں کہ وہ ہماری سرحدوں پر حملہ کرسکیں اور اسلامی مملکت پر تجاوز کرسکیں_

پروردگار

وہ فوجی جو اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی فتح کے لئے لڑ رہے ہیں ان کی تائید فرما، لڑائی کی مشکلات کو ان پر آسان کر، اور انھیں فتح نصیب کر_ خدایا جنگجو ساتھیوں کے ذریعہ انھیں قوی کر اور اپی نعمتوں کو ان کے لئے زیادہ کر، خدایا شوق و ذوق کے اسباب ان کے لئے فراہم کر اور اپنے رشتہ داروں کے دیدار کو ان کے دلوں سے ختم کر اور وحشت و تنہائی کے غم کو ان کے دلوں سے دور کر_

خدایا فوجیوں کے دلوں کو بیوی اور اولاد کے احساس فراق کو ختم کر، انھیں حسن نیت، سلامتی و عافيّت عنایت فرما، دشمن کا خوف ان کے دلوں سے نکال دے اور انھیں عزّ و شہادت

۲۵۰

الہی

دشمن کے ساتھ لڑائی میں انھیں سخت مقابلہ اور مقاومت کی صلاحيّت عطا کر_ خدایا ہمارے سپاہیوں کو عمل و دینداری کا جذبہ عطا کر اور فیصلہ کرنے میں ان کی صحیح راہنمائی فرما_ پروردگارا اپنے لطف سے ان کو ریاء اور خودپسندی سے دور رکھ_ الہی انھیں اس طرح کردے کہ ان کی فکر، رفتار و گفتار اور حضر و سفر فقط تیرے راستے اور تیرے لئے ہو_

خداوندا

لڑائی کے وقت دشمنوں کو ان کی نگاہ میں ضعیف دکھا، ان کو دشمنوں کے اسرار اور بھیدوں سے مطلع کردے اور خود ان کے بھیدوں کو دشمنوں سے مخفی کر_ الہی اگر وہ شہادت کے درجہ پر فائز نہ ہوئے ہوں تو انھیں اس طرح کردے کہ وہ دشمن کی ہلاکت ، اسارت اور فتح و کامیابی کے بعد یقینا مسلمان ہوں_

خدایا

جو مسلمان بھی لڑنے والوں کی غیر حاضری میںان کے اہل و عیال کو پناہ میں لے لے اور ان کی ضرورتوں کو پوری کرتا رہے یا لڑنے والوں کے لئے جنگی ہتھیار و قوّت مہیا کرے یا وہ ان کی حوصلہ افزائی کرے تو اس قسم کے مسلمانوں کو اسلام کے سربازوں کا ثواب عطا فرما_ خدایا جو مسلمان، پاسداروں کے سامنے ان کی تعریف و ستائشے کرے یا ان کا شکریہ ادا کرے اور انکی غیر حاضری

۲۵۱

میں ان کی تعریف کرے تو اس قسم کے مسلمان کو جو زبان سے دین کے محافظین کی تعریف اور شکریہ ادا کرے لڑنے والوں کا ثاب و جزاء عنایت فرما اور آخرت کے ثواب و جزاء سے پہلے اسی دنیا میں اسے جزائ، خوشی و شادمانی اور نشاط بخش دے_

پروردگارا

جو مسلمان، اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہے اور مسلمانوں کے مصائب سے رنجیدہ ہوتا ہے، راہ خدا میں جہاد کو دوست رکھتا ہے لیکن جسمی ناتوانی و کمزوری یا مالی فقر یا کسی دوسرے شرعی عذر کی وجہ سے خود جہاد میں شرکت نہیں کرسکتا اس کا نام بھی عبادت کرنے والوں میں درج کر، جہاد کا ثواب اس کا نامہ اعمال میں لکھ دے اور اسے شہداء و صالحین میں شمار کر''

آمین با ربّ العالمین

۲۵۲

مندرجہ ذیل کلمات کو ملا کر ایک دعائیہ جملہ بنایئے

۱)___ خدایا اسلامی مملکت کی سرحدوں کو_ دشمن _ حملے_ پناہ میں رکھ _

۲)___ خدایا _ محافظین_ میں اضافہ فرما_

۳)___ فوجیوں_ مورچوں_ بے آسیب_ دے_

۴)___ اتحاد کو_ میں_ محکم_ دے_

۵)___ سربازان اسلام_ کو نور_ روشن کردے_

۶)___ فوجیوں کو_ کردے کہ وہ_ آنکھوں_ کو دیکھیں_

۷)___ خدایا _ ہتھیلی_ جان_ رکھنے والوں کی وجہ _ کی طاقت کو ختم کردے_

۸)___ خدایا _ جو مسلمان مجاہد_ میں_ مدد_ ہے_

۹)____ خدایا _ آخرت کی جزاء سے_ دنیاوی _ فرما_

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجیئے

۱)___ امام زین العابدین علیہ السلام دعا کے ضمن میں کن صفات کی اسلام کے فوجیوں کے لئے تمنّا کر رہے ہیں؟ ان میں سے پانچ صفتوں کو بیان کرو_

۲)___ امام علیہ السلام نے ''خدایا دشمن کی طاقت کو ختم کردے'' کے جملے کے بعد کون سی چیز کو دشمن کی شکست کا سبب قرار دیا ہے؟

۳)___ تین گرہوں کو بیان کر و جو مجاہدین کے ساتھ کے ثواب میں شریک ہوتے ہیں؟

۲۵۳

اگر ماں ناراض ہو

ایک جوان بہت سخت بیمار ہوگیا اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا_ اس خبر کے سنتے ہی اس کے رشتے دار کی عیادت کے لئے گئے_ جوان موت و حیات کے عالم میں زندگی گذار رہا تھا درد و تکلیف سے نالہ و زاری کر رہا تھا، کبھی اسے آرام آتا اور کبھی تڑپنے لگتا اس کی حالت ، غیر تھی_

پیغمبر اسلام(ص) کو خبر دی گئی کہ ایک مسلمان جوان مدّت سے بستر بیماری پر پڑا ہے اور جان کنی کے عالم میں ہے_ آپ(ص) اس کی عیادت کے لئے تشریف لے آئیں شائد آپ کے آنے کی برکت سے اسے آرام ہوجائے_ پیغمبر اسلام (ص) نے ان کی دعوت قبول کی اور اس جوان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ اس کی حالت نے پیغمبر اسلام(ص) کو متاثر کیا_ کبھی وہ ہوش میں آتا اپنے اطراف میں دیکھتا، فریاد کرتا اور کبھی بے ہوش ہوجاتا اس کی صورت بہت خوفناک ہو رہی تھی_

وہ بات بھی نہیں کرسکتا تھا گویا کوئی اسی چیز دیکھ رہا تھا جو ددوسرے نہیں دیکھ رہے تھے اور شائد اپنی زندگی کے آخری لمحات کو کاٹ رہا تھا اور اس کے سامنے آخرت کا منظر تھا اور وہاں کی سختی و عذاب کا مشاہدہ کر رہا تھا_

پیغمبر اسلام(ص) کہ جو دونوں جہاں سے آگاہ تھے آپ نے اس سے پوچھا:

'' تم کیوں اتنے پریشان ہو؟ کیوں اتنے رنج میں ہو اور فریاد کر رہے ہو؟

۲۵۴

جوان نے آنکھیں کھولیں اور پیغمبر اسلام(ص) کے نورانی چہرہ کی زیارت کی اور بہت زحمت و تکلیف سے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) مجھے معلوم ہے کہ یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں میں آخرت کی طرف جا رہا ہوں اب میں دو ترسناک اور بدنما شکلیں دیکھ رہا ہوں جو میری طرف آرہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ میری روح کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں گویا چاہتی ہیں کہ مجھے میرے برے کام کی سزادیں_ یا رسول اللہ (ص) میں ان دونوں سے ڈرتا ہوں آپ میری مدد کیجئے''

پیغمبر اسلام (ص) نے ایک ہی نگاہ سے سب کچھ سمجھ لیا تھا وہاں بیٹھنے والوں سے فرمایا:

'' کیا اس جوان کی ماں ہے؟ اسے یہاں بلایا جائے''

اس کی ماں نے بلند آواز سے گریہ کیا اورکہا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں نے اپنے اس بیٹے کے لئے بہت تکلیفیں اٹھائیں کئی کئی راتیں جاگتی رہی تا یہ سوجائے کتنے دنوں میں نے کوشش کی کہ یہ آرام سے رہے، کبھی خود بھوکی رہتی اور اپنی غذا اسے دے دیتی، اپنے منھ سے لقمہ نکال کر اس کے منھ میں ڈالتی، ان سب کے باوجود جب یہ سن بلوغ و جوانی کو پہونچا تو میری تمام زحمتوں کو بھلا بیٹھا، مجھ سے سختی سے پیش آنے لگا اور کبھی مجھے گالیاں تک دیتا_ یہ میرا احترام نہیں کرتا تھا اور اس نے میرا دل بہت دکھایا ہے _ میںنے اس کے لئے بد دعا کی ہے''_

۲۵۵

رسول خدا(ص) نے اس کی ماں سے فرمایا:

'' یقینا تیرے بیٹے کا سلوک تیرے ساتھ برا تھا اور تجھے ناراض ہونے کا حق ہوتا ہے لیکن تم پھر بھی ماں ہو، ماں مہربان اور در گذر کرنے والی ہوا کرتی ہے اس کی جہالت کو معاف کردے اور اس سے راضی ہوجاتا کہ خدا بھی تجھ سے راضی ہوجائے''

اس رنجیدہ ماں نے ایک محبت آمیز نگاہ اپنے بیٹے پر ڈالی اور کہا:

'' خدایا میںنے تیرے پیغمبر(ص) کی خاطر اپنے بیٹے کو بخش دیا ہے تو بھی اسے بخش دے'' _

پیغمبر اسلام(ص) نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراس کے بیٹے کے حق میں دعا کی اور جوان کے لئے خدا سے مغفرت طلب کی_ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعا اور اس کی ماں کے راضی ہونے کے سبب اس جوان کے گناہ بخش دیئے_

اس وقت جب کہ جوان اپنی عمر کے آخری لمحات کاٹ رہا تھا اس نے آنکھ کھولی، مسکرایا اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہ خوفناک دو شکلیں چلی گئی ہیں اور دو اچھے چہرے میری طرف آرہے ہیں'' _

اس وقت اس نے اللہ تعالی کی وحدانيّت اور حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی نبوّت کی گواہی دی اور مسکراتے ہوئے ا س کی روح، قفس عنصری سے پرواز کرگئی_

۲۵۶

خداوند عالم قرآن میں ماں باپ کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کی بے احترامی ہرگز نہ کرنا اور بلند آواز سے ان سے گفتگو نہ کرنا ہمیشہ مہربانی اور ادب سے ان کے ساتھ بات کرنا''_

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

'' جو شخص رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ کے پیوند کو مضبوط کرے اورماں باپ کے ساتھ خوش رفتار و مہربان ہو تو اس پر موت کی سختیاں آسان ہوجاتی ہیںاور دنیا میں بھی فقیر و تہی دست نہیں رہتا''_

قرآن کی آیت:

( وقضی ربّک الّا تعبدوا الّا ايّاه و بالوالدین احسانا اما یبلغنّ عندک الکبر احدهما او کلاهما فلا تقل لهما اف و لا تنهرهما و قل لهما قولا کریما ) (۱)

'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش مت کرم اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کی ہرگز بے احترامی نہ کرو اور بلند آواز سے ان کے س اتھ کلام نہ کرو اور ہمیشہ مہربان اور با ادب ہوکر ان کے ساتھ گفتگو کرو_

____________________

۱) سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۳

۲۵۷

چھٹا حصّہ

امامت اور رہبری کے بارے میں

۲۵۸

رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت

پیغمبر اسلام(ص) کی بعثت کے تین سال گذرچکے تھے آپ کی اس مدت میں اسلام کی طرف دعوت مخفی تھی_ لوگ بلکہ پیغمبر اسلام(ص) (ص) کے رشتہ دار آپ کی دعوت سے صحیح طور سے مطلع نہ تھے لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کھلے عام اسلام کی طرف دعوت دیں تا کہ سبھی تک آپ کا پیغام پہونچ جائے لہذا اس عمومی پیغام کی ابتداء اپنے قبیلے اور رشتے داروں سے شروع کی کیونکہ یہ لوگ پیغمبر اسلام (ص) کو بہتر طور سے جانتے تھے اور آپ کی صداقت سے بخوبی واقف تھے_ اسی دوران اللہ تعالی کی طرف سے یہ پیغام آیا:

'' اپنے رشتے داروں و قریبیوں کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤ اور جو لوگ تمھاری پیروی کرتے ہیں ان سے نرمی و تواضع سے پیش آؤ'' _

تمھیں علم ہوگا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے اس حکم کو حضرت علی علیہ السلام کے درمیان رکھا اور انھیں حکم دیا کہ غذا مہیا کرو، رشتے داروں اور اپنی قوم کو دعوت دوتا کہ میں انھیں اسلام کی دعوت دوں_ حضرت علی علیہ السلام نے غذا مہيّا کیا اور اپنے رشتے داروں کو دعوت دیا_

مہمانی کاون آپہونچا، تقریبا چالیس آدمی پیغمبر(ص) کے قریبی رشتے دار اس دعوت میں شریک ہوئے_ پیغمبر اسلام (ص) نے بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا اورانھیں

۲۵۹

خوش آمدید کہا_

پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت علی علیہ السلام نے مہمانوں کی پذیرائی کی تھوڑے سے کھانے میں تمام کے تمام سیر ہوگئے_ کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے گفتگو کرنی چاہی اور جب آپ نے اپنے مقصد کو بیان کیا تو ابولہب نے آپ کی بات کو کاٹ دیا_ اپنی بیہودہ و بیکار باتوں سے مجمع کو درہم و برہم کردیا اکثر حاضرین نے شور و غل شروع کردیا اور پھر متفرق ہوگئے_ اس ترتیب سے یہ مہمانی ختم ہوگئی اورپیغمبر اسلام (ص) اپنے پیغام کو نہ پہونچا سکے_

لیکن کیا پیغمبر(ص) لوگوں کو ہدایت کرنے اور اپنا پیغام پہونچانے سے ہاتھ کھینج لیں گے؟ کیا آپ مایوس و نا امید ہوجائیں گے؟ کیا آپ ان سے غضبناک ہوجائیں گے؟ نہیں نہ تو آپ ہدایت کرنے سے دستبردار ہوں گے نہ مایوس و نا امید ہوں گے اور نہ غضبناک ہوں گے بلکہ آپ دوسری دفعہ ان کو مہمان بلاتے ہیں اور ان کی اسی خندہ پیشانی سے پذیرائی کر رہے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کی ہدایت کرنے او رانھیں نجات دینے کے لئے آئے ہیں_

کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' اے میرے رشتے دارو توجہ کرو اور میری بات کو غور سے سنو اگر بات اچھی ہو تو قبول کر لو اور اگر اچھی نہ تو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہو اور یہ بات صحیح نہیں کہ تم شور و غل کر کے مجلس کو دگرگوں کردو_

اے ابوطالب کی اولاد خدا کی قسم کوئی بھی آج تک ایسا ہدیہ اپنی قوم کے لئے نہیں لایا جو میں اپنی قوم اور رشتے داروں کے لے لایا ہوں میں تمھارے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302