‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110335 / ڈاؤنلوڈ: 3816
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سے متاثر نہ ہونا''

۲)___ جب امام حسین علیہ السلام شہادت کے لئے تیار ہوگئے تو اپنے اصحاب سے یوں فرمایا:

'' کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ باطل سے نہیں روکا جا رہا ہے_ اس حالت میں مومن کو چاہیئے کہ اللہ تعالی کی ملاقات اور شہادت کے لئے آمادہ ہوجائے کیونکہ میرے نزدیک راہ خدا میں مرنا سوائے سعادت و کامیابی کے کچھ نہیں ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی سوائے افسردگی، دل تنگی، رنج اور مشقت کے کچھ نہیں ہے''

کیا ان دو پیغاموں میں خوف اور ڈرکی کوئی جھلک ہے؟ کیا ظالموں کے سامنے سر نہ جھکانے میں ذلّت و خواری ہے؟ نہیں ہرگز نہیں جو شخص شہادت کو سعادت جانتا ہوگا وہ کبھی بھی ظلم و ستم کے سامنے سر نہ جھکائے گا_ نہ صرف ہمارے ائمہ علیہم السلام اس طرح کے تھے بلکہ ان کے صحیح پیروکار اور شاگرد بھی اسی طرح کے تھے ان صحیح پیروکاروں کی بعض اہم وصیتوں کی طرف توجہ کرو_

( یہ ان لوگوں کی وصیتیں نقل ہو رہی ہیں جو عراق و ایران جنگ میں ایران کی طرف سے شہید ہوئے ہیں)

۱)___ ان میں سے ایک حوزہ علمیہ قم کے طالب علم محمود صادقی کاشانی ہیں؟

اپنے وصيّت نامہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:

'' بسم رب الشّهداء اشهد ان لا اله الّا الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمدا عبده و رسوله''

۲۴۱

خدا کا شکر ہے کہ میں نے حق کی جنگ میں جو باطل کے خلاف ہو رہی ہے شرکت کرنے کی سعادت حاصل کی ہے میرے پاس جو کچھ ہے میں نے مخلصانہ طور پر اللہ کے سامنے پیش کردیا ہے جس چیز کے اردگرد امام حسین علیہ السلام، ان کے یاران وفادار اور صدر اسلام کے شہید، پروانہ کی طرح چكّر لگا رہے تھے میں نے ھی اسے پالیا ہے یعنی وہ ہے ''شہادت''

آیا کوئی شخص یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ظالم و متجاوز اس کے اسلام و عزّت اور وطن کی طرف ہاتھ بڑھائے اور وہ خاموش دیکھتا رہے؟

اب میں جا رہا ہوں تا کہ اپنے خدا سے ملاقات کروں اس آگ کو جو میرے اندر جل رہی ہے اسے بجھا سکوں_ میں بھی اب اس باصفا جنگ کے آشیانہ کی طرف پرواز کر کے اپنے جنگجو بھائیوں کے خالی مورچوں (محاذوں) کی طرف جا رہا ہوں لیکن مجھے اپنے رہبر زمانہ، حجّت عصر نائب امام آیت اللہ خمینی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) جو آج کے بت شکن ہیں کی قدر دانی کرنی چاہیئے کیونکہ انھوں نے مجھے دنیا کے گرداب اور تاریکیوں سے کہ جن میں گر کرہیں تباہ ہونے کے قریب تھا اور وہ میرے ہادی و رہنما ہیں_

اے میرے جنگجو ساتھیو اور دوستو تم بہتر جانتے ہو کہ یہ انقلاب جو ایران میں لایا گیا ہے کس طرح کامیاب ہوا ہے

کتنے علی اکبر (ع) ، علی اصغر (ع) اور حبیب ابن مظاہر (ع) کے نقش قدم

۲۴۲

پر چلنے والوں کے قتل کئے جانے سے کامیباب ہوا ہے خدا نہ کرے کہ تم اس انقلاب سے بے توجہ ہوکر بیٹھ جاؤ اوردنیا کو آخرت پر ترجیح دو_ کسی غم و اندوہ کو اپنے پا سنہ آنے دو کیونکہ ہم ہی کامیاب ہیں_

اے میرے ماں باپ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں؟ ابّا جان مجھے یاد ہے کہ جب آپ قم آئے تھے تو میںنے دوسرے لوگوں سے کہا تھا کہ باپ کی رضا (جنگ میں جانے کے لئے) ضروری ہے لہذا آپ بغیر کسی دریغ کے دفتر میں گئے اور اپنے راضی نامہ پردستخط کردیا_

اے میری ماں مجھے یاد ہے کہ تونے میرے بڑا کرنے میں بڑی زحمتیں اٹھائی ہیںاور آخری وقت جب میں تم سے جدا ہو رہا تھا تو یوں کہا تھا کہ:

'' محمود ہوشیار رہنا اور بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''

میری پیاری ماںمیں محاذ جنگ پر تھا تو مجھے برابر تمھارا یہ جملہ یاد آتا تھا کہ بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''_ امّاں میری موت پر کہیں بے قرار نہ ہونا، لباس نہ پھاڑنا اور آخری عمر تک ناراضگی کی آگ میں نہ جلاتے رہنا کیونکہ یہ دشمن کے طعن و تشنیع کا موجب ہوجائے گا_ میں اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں کو وصيّت کرتا ہوں کہ اس انقلاب سے اور تمام جہان کے محروم طبقے کے رہبر انقلاب سے

۲۴۳

کنارہ کشی نہ کرنا_ خدا تمھارا یار و مددگار ہو''

۲)___ تہران کے شہید سيّد علی اکبر میر کوزہ گرنے اپنے بہترین اورپر مغز وصیت نامہ میں یوں تحریر کیا ہے:

'' حقیقت کے ترازو میں اللہ تعالی کے نزدیک کوئی قطرہ اس خون کے قطرہ سے کہ جو راہ خدا میں بہایا جائے بہتر نہیں ہوتا اور میں چاہتا ہوں کہ اس خون کے قطرے سے اپنے معشوق تک پہونچوں کہ جو خدا ہے_

میں وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد گریہ و زاری نہ کرنا میرے تمام دوستوں کومبارکباد دینا اور کہنا کہ وہ اس امّت اسلامی کے رہبر اور نائب امام کا ہدیہ خدا کی راہ میںہے اسی وجہ سے سيّد، جہاد کے لئے گیا ہے اور جام شہادت نوش کیا ہے''

اس شہید کے پیغام کو سنو کو ''جہاد'' دو چیزیں چاہتا ہے:

ایک وہ خون جو شہید دیتا ہے_

دوسرے شہید کا پیغام جو سب تک پہونچنا چاہیئے_

''میر باپ سے کہدینا کہ اب ہم اپنے جدّ بزرگوار کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ ان کا فرزند اس راستہ پرگیا ہے کہ جس پر امام حسین علیہ السلام اوران کی اولاد گئی تھی_ ابّا جان میری وصیت آپ کو یہ ہے کہ میرے مشن کو آگے بڑھائیں''

۳)___ خرّم شہر (جسے خونین شہر بھی کہا جاتا ہے) کے ایک فداکار پاسدار شہید حسین حمزہ کہ جنھوں نے صحیح طور سے قرآن اور وطن کی شجاعانہ و فداکارانہ پاسداری

۲۴۴

کی تھی وہ اپنی ماں کو آخری خط مں یوں لکھتے ہیں:

'' اب جب کہ تیس دنوں سے کفّار کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں اور ہر دن اس امید پر دیکھتا ہوں کہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اتنی طویل مدّت تک کیوں شہادت کا افتخار مجھے نصیب نہیں ہوا

میری پیاری ماں

میں نے تم کو بہت ڈھونڈا تا کہ تمھاری وصیت کو سنوں لیکن تمھیں نہیں پایا_ جنگ کی ابتداء سے آج تک (یعنی ۲۳/۷/ ۵۹ شمسی) ہمیشہ تمھاری ملاقات کی فکر میں تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا_

امّا جان

اگر تم مجھے نہ دیکھ سکی تو مجھے بخش دینا، تم بہتر جانتی ہو کہ میں اس انقلاب کی ابتداء سے ہمیشہ چاہتا تھا کہ اس مین میرا حصّہ رہے_ مادر جان میری موت کی خبر سننے کے بعد اشک نہ بہانا اور میری بہنون سے بھی کہنا کہ میری موت پر اشک نہ بہائیں کیونکہ ہمارے موالا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند کی موت پر اشک نہیں بہائے تھے چونکہ حضرت جانتے تھے کہ اللہ کی رضا اسی میں ہے_

مادر گرامی

شائد میرا قرآن و اسلام کی راہ میں مرنا جوانوں میں جوش پیدا کردے نہ صرف میری موت پر بلکہ تمام شہداء کی موت پر کہ جو

۲۴۵

اللہ کی راہ میں اسلام کے مقدس ہدف کے لئے ہوتی ہے، تم بھی خوش ہونا کہ اپنے فرزند کو راہ اسلام میں قربان کیا ہے_ آخرت میں حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام تم سے کوئی گلہ اور شکوہ نہ کریں گی_

یہ خط ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں کہ دشمن کے توپوں اور گولیوں کی آواز ہر طرف سے آرہی ہے_ میں اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تکبیر کہتے ہوئے تو پوں کے گولے پھٹنے سے شہید ہو رہے ہیں_

اے میرے خدا تجھے تیری وحدانيّت کی قسم دیتا ہوں اسلام کی راہ میں مجھے شہادت نصیبت کر اور میرے گناہوں کو بخش دے مجھے شہداء کی صف میں قرار دے_

خدایا مجھے طاقت و قدرت عنایت فرما اور مجھ پر لطف کر کہ عمر کے آخری لمحے تک تیرا نام میری زبان پر جاری رہے_ شکر ہے اس خدائے بزرگ کا کہ جس نے مجھ پر عنایت فرمائی ہے کہ میں اپنی جان اسلام پر قربان کروں، اسلام کامیاب ہو اور اسلام و قرآن کے دشمن نابود ہوں_ سلام ہو اس امت اسلامی کے رہبر انقلاب آقائے خمینی پر_ خداحافظ''

ان شہیدوں کے پیغام کا متن دوسرے ہزاروں شہیدوں کے پیغام کی طرف انقلاب اسلامی کی کتابوں کے بہترین صفحات پر لکھا جائے گا ہمیشہ کے لئے رہ جائے گا اور یہ آزادی و جاودانی کا درس ہوگا_ اے پڑھنے والے طالب علمو تم اس ا بدی پیغام کو دوبار پڑھنا، شہیدوں و آزاد منشوں کے پیغام سے زندگی، آزادی، شجاعت، دلیری، ایثار، مہربانی، عشق، خداپرستی، اخلاص و ایمان کا درس حاصل کرنا_

۲۴۶

سوالات

سوچویے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۲)____ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی عمر کے آخری لمحہ میں کیا کہا تھا؟ اس وصيّت میں کن کن چیزوں کو بیان کیا ہے؟

۳)___ امام حسین علیہ السلام نے راہ خدا میں قتل ہوجانے کے متعلق کیا فرمایا ہے؟ مومن کوکب شہادت اور فداکاری کے لئے تيّار ہوجانا چاہیئے؟

۴)___ طالب علم کاشانی نے اپنے وصیت نامہ کو کن جملوں سے شروع کیا ہے؟ درج ذیل جملوں کو اس کی وصيّت کے مطالعہ کے بعد پورا کیجئے:

۱)__ '' خدا کا شکر کہ مجھے توفیق ملی

۲)__ کیا کوئی برداشت کرسکتا ہے کہ

۳)__ میں اب اپنے ساتھیوں کے خالی مورچے

۴)__ اپنے رہبر، حجّت زمان، نائب امام (ع)

۵)__ خدا کرے کہ تم کفّار

۶)__ ابّا جان آپ کو یاد ہے جب آپ قم آئے تھے تو

۷)__ امّا جان مجھے یاد ہے

۸) میرے خاندان او ردوستوں کو

۲۴۷

بہادر فوجیوں اور لڑنے والوں کے لئے دعا

امام زین العابدین علیہ السلام نے ''صحیفہ سجّادیہ'' میں اسلامی سرزمین کے محافظ فوجیوں کے لئے دعا فرمائی ہے کہ جس کے بعض جملوں کا ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے،

''بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

خدایا محمد اور آل محمد علیہم الصّلوة والسّلام کی پاک روح پر رحمت نازل کر اور مسلمانوں کے ممالک کی سرحدوں کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھ، سرحدوں کے قریب رہنے والوں کی حفاظت کر اور اپنے لطف و کرم کو ان پر زیادہ کر_

خدایا محمّد و آل محمّد علیہم السلام کی پاک روح پر درود بھیج سربازوں و پاسداروں کی تعداد میں اضافہ فرما اور ان کے ہتھیاروں کو دشمنوں کے خلاف تیزو کارگر، ان کے مورچوں کو شکست سے محفوظ رکھ_

اے میرے اللہ اسلام کے سپاہیوں کے حملوں کو دشمن کے ضرر سے محفوظ رکھ، لڑنے والوں میں اتحاد، برادری و ہمکاری کے رشتے کو مضبوط کر اور انھیں ان کے کاموں کو منظم

۲۴۸

طور سے بجالانے کی توفیق عنایت فرما_

خدایا اپنے لطف سے ان کے خرچ کو پورا کر اور لڑائی کے وقت ان کا یار و مدددگار بن، اے میرے اللہ صبر و استقامت کے سائے میں انھیں کامیاب فرما، فوجی نقشے اور منصوبے میں ان کی راہنمائی فرما_

یا اللہ محمّد و آل محمد علیہم السلام کی پاک روح پر درود و رحمت بھیج ، خدایا ہمارے لڑنے والے فوجیوں کے دلوں کو جب وہ دشمن سے لڑ رہے ہوں دنیا کی فکر سے بے نیاز کردے ، ان کی توجہ زر و جواہر اور مال دنیا سے دور کر، انھیں اس طرح کردے کہ جنّت بریں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں، بہشت کی عمدہ منازل و بہشتی فرشتوں کو دیکھ رہے ہوں، بہشت میوے، بلند درخت اور نہروں کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں، اولیائ، ابرار و شہداء کی صحبت میں رہنے کے مشتاق ہوں تا کہ وہ ان ذرائع سے خوف کو اپن دل میں نہ آنے دیں، ان کی قوّت میں استحکام پیدا ہو وہ باقوت ہوکر بہتر جنگ کرسکیں اور ہرگز ان کے دل میں فرار کا خیال نہ پیدا ہو_

خدایا ان سربازوں کے وسیلے سے کہ جنھوںنے اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھی ہے دشمن کی طاقت کو شکست دے، دشمن کے درمان اختلاف پیدا کر، ان کے دلوں سے سکون و آرام کو ختم کر، ان کے ہاتھوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے خالی کر،

۲۴۹

حیرت و پریشانی میں مبتلا کر،انھیں مدد و حمایت کرنے والوں سے محروم کر، ہمیشہ ان کی تعداد میں کمی کر اور ان کے دلوں کو خوف و ہراس سے پر کر_

اے میرے اللہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں کو تجاوز سے روک دے اور ان کی زبان کو گنگ کردے_ خدایا اس طرح ظالموں پر ہلاکت کو مسلّط کر کہ دوسروں کے لئے عبرت کا درس ہوجائے تا کہ دوسرے جرات نہ کرسکیں کہ وہ ہماری سرحدوں پر حملہ کرسکیں اور اسلامی مملکت پر تجاوز کرسکیں_

پروردگار

وہ فوجی جو اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی فتح کے لئے لڑ رہے ہیں ان کی تائید فرما، لڑائی کی مشکلات کو ان پر آسان کر، اور انھیں فتح نصیب کر_ خدایا جنگجو ساتھیوں کے ذریعہ انھیں قوی کر اور اپی نعمتوں کو ان کے لئے زیادہ کر، خدایا شوق و ذوق کے اسباب ان کے لئے فراہم کر اور اپنے رشتہ داروں کے دیدار کو ان کے دلوں سے ختم کر اور وحشت و تنہائی کے غم کو ان کے دلوں سے دور کر_

خدایا فوجیوں کے دلوں کو بیوی اور اولاد کے احساس فراق کو ختم کر، انھیں حسن نیت، سلامتی و عافيّت عنایت فرما، دشمن کا خوف ان کے دلوں سے نکال دے اور انھیں عزّ و شہادت

۲۵۰

الہی

دشمن کے ساتھ لڑائی میں انھیں سخت مقابلہ اور مقاومت کی صلاحيّت عطا کر_ خدایا ہمارے سپاہیوں کو عمل و دینداری کا جذبہ عطا کر اور فیصلہ کرنے میں ان کی صحیح راہنمائی فرما_ پروردگارا اپنے لطف سے ان کو ریاء اور خودپسندی سے دور رکھ_ الہی انھیں اس طرح کردے کہ ان کی فکر، رفتار و گفتار اور حضر و سفر فقط تیرے راستے اور تیرے لئے ہو_

خداوندا

لڑائی کے وقت دشمنوں کو ان کی نگاہ میں ضعیف دکھا، ان کو دشمنوں کے اسرار اور بھیدوں سے مطلع کردے اور خود ان کے بھیدوں کو دشمنوں سے مخفی کر_ الہی اگر وہ شہادت کے درجہ پر فائز نہ ہوئے ہوں تو انھیں اس طرح کردے کہ وہ دشمن کی ہلاکت ، اسارت اور فتح و کامیابی کے بعد یقینا مسلمان ہوں_

خدایا

جو مسلمان بھی لڑنے والوں کی غیر حاضری میںان کے اہل و عیال کو پناہ میں لے لے اور ان کی ضرورتوں کو پوری کرتا رہے یا لڑنے والوں کے لئے جنگی ہتھیار و قوّت مہیا کرے یا وہ ان کی حوصلہ افزائی کرے تو اس قسم کے مسلمانوں کو اسلام کے سربازوں کا ثواب عطا فرما_ خدایا جو مسلمان، پاسداروں کے سامنے ان کی تعریف و ستائشے کرے یا ان کا شکریہ ادا کرے اور انکی غیر حاضری

۲۵۱

میں ان کی تعریف کرے تو اس قسم کے مسلمان کو جو زبان سے دین کے محافظین کی تعریف اور شکریہ ادا کرے لڑنے والوں کا ثاب و جزاء عنایت فرما اور آخرت کے ثواب و جزاء سے پہلے اسی دنیا میں اسے جزائ، خوشی و شادمانی اور نشاط بخش دے_

پروردگارا

جو مسلمان، اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہے اور مسلمانوں کے مصائب سے رنجیدہ ہوتا ہے، راہ خدا میں جہاد کو دوست رکھتا ہے لیکن جسمی ناتوانی و کمزوری یا مالی فقر یا کسی دوسرے شرعی عذر کی وجہ سے خود جہاد میں شرکت نہیں کرسکتا اس کا نام بھی عبادت کرنے والوں میں درج کر، جہاد کا ثواب اس کا نامہ اعمال میں لکھ دے اور اسے شہداء و صالحین میں شمار کر''

آمین با ربّ العالمین

۲۵۲

مندرجہ ذیل کلمات کو ملا کر ایک دعائیہ جملہ بنایئے

۱)___ خدایا اسلامی مملکت کی سرحدوں کو_ دشمن _ حملے_ پناہ میں رکھ _

۲)___ خدایا _ محافظین_ میں اضافہ فرما_

۳)___ فوجیوں_ مورچوں_ بے آسیب_ دے_

۴)___ اتحاد کو_ میں_ محکم_ دے_

۵)___ سربازان اسلام_ کو نور_ روشن کردے_

۶)___ فوجیوں کو_ کردے کہ وہ_ آنکھوں_ کو دیکھیں_

۷)___ خدایا _ ہتھیلی_ جان_ رکھنے والوں کی وجہ _ کی طاقت کو ختم کردے_

۸)___ خدایا _ جو مسلمان مجاہد_ میں_ مدد_ ہے_

۹)____ خدایا _ آخرت کی جزاء سے_ دنیاوی _ فرما_

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجیئے

۱)___ امام زین العابدین علیہ السلام دعا کے ضمن میں کن صفات کی اسلام کے فوجیوں کے لئے تمنّا کر رہے ہیں؟ ان میں سے پانچ صفتوں کو بیان کرو_

۲)___ امام علیہ السلام نے ''خدایا دشمن کی طاقت کو ختم کردے'' کے جملے کے بعد کون سی چیز کو دشمن کی شکست کا سبب قرار دیا ہے؟

۳)___ تین گرہوں کو بیان کر و جو مجاہدین کے ساتھ کے ثواب میں شریک ہوتے ہیں؟

۲۵۳

اگر ماں ناراض ہو

ایک جوان بہت سخت بیمار ہوگیا اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا_ اس خبر کے سنتے ہی اس کے رشتے دار کی عیادت کے لئے گئے_ جوان موت و حیات کے عالم میں زندگی گذار رہا تھا درد و تکلیف سے نالہ و زاری کر رہا تھا، کبھی اسے آرام آتا اور کبھی تڑپنے لگتا اس کی حالت ، غیر تھی_

پیغمبر اسلام(ص) کو خبر دی گئی کہ ایک مسلمان جوان مدّت سے بستر بیماری پر پڑا ہے اور جان کنی کے عالم میں ہے_ آپ(ص) اس کی عیادت کے لئے تشریف لے آئیں شائد آپ کے آنے کی برکت سے اسے آرام ہوجائے_ پیغمبر اسلام (ص) نے ان کی دعوت قبول کی اور اس جوان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ اس کی حالت نے پیغمبر اسلام(ص) کو متاثر کیا_ کبھی وہ ہوش میں آتا اپنے اطراف میں دیکھتا، فریاد کرتا اور کبھی بے ہوش ہوجاتا اس کی صورت بہت خوفناک ہو رہی تھی_

وہ بات بھی نہیں کرسکتا تھا گویا کوئی اسی چیز دیکھ رہا تھا جو ددوسرے نہیں دیکھ رہے تھے اور شائد اپنی زندگی کے آخری لمحات کو کاٹ رہا تھا اور اس کے سامنے آخرت کا منظر تھا اور وہاں کی سختی و عذاب کا مشاہدہ کر رہا تھا_

پیغمبر اسلام(ص) کہ جو دونوں جہاں سے آگاہ تھے آپ نے اس سے پوچھا:

'' تم کیوں اتنے پریشان ہو؟ کیوں اتنے رنج میں ہو اور فریاد کر رہے ہو؟

۲۵۴

جوان نے آنکھیں کھولیں اور پیغمبر اسلام(ص) کے نورانی چہرہ کی زیارت کی اور بہت زحمت و تکلیف سے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) مجھے معلوم ہے کہ یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں میں آخرت کی طرف جا رہا ہوں اب میں دو ترسناک اور بدنما شکلیں دیکھ رہا ہوں جو میری طرف آرہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ میری روح کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں گویا چاہتی ہیں کہ مجھے میرے برے کام کی سزادیں_ یا رسول اللہ (ص) میں ان دونوں سے ڈرتا ہوں آپ میری مدد کیجئے''

پیغمبر اسلام (ص) نے ایک ہی نگاہ سے سب کچھ سمجھ لیا تھا وہاں بیٹھنے والوں سے فرمایا:

'' کیا اس جوان کی ماں ہے؟ اسے یہاں بلایا جائے''

اس کی ماں نے بلند آواز سے گریہ کیا اورکہا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں نے اپنے اس بیٹے کے لئے بہت تکلیفیں اٹھائیں کئی کئی راتیں جاگتی رہی تا یہ سوجائے کتنے دنوں میں نے کوشش کی کہ یہ آرام سے رہے، کبھی خود بھوکی رہتی اور اپنی غذا اسے دے دیتی، اپنے منھ سے لقمہ نکال کر اس کے منھ میں ڈالتی، ان سب کے باوجود جب یہ سن بلوغ و جوانی کو پہونچا تو میری تمام زحمتوں کو بھلا بیٹھا، مجھ سے سختی سے پیش آنے لگا اور کبھی مجھے گالیاں تک دیتا_ یہ میرا احترام نہیں کرتا تھا اور اس نے میرا دل بہت دکھایا ہے _ میںنے اس کے لئے بد دعا کی ہے''_

۲۵۵

رسول خدا(ص) نے اس کی ماں سے فرمایا:

'' یقینا تیرے بیٹے کا سلوک تیرے ساتھ برا تھا اور تجھے ناراض ہونے کا حق ہوتا ہے لیکن تم پھر بھی ماں ہو، ماں مہربان اور در گذر کرنے والی ہوا کرتی ہے اس کی جہالت کو معاف کردے اور اس سے راضی ہوجاتا کہ خدا بھی تجھ سے راضی ہوجائے''

اس رنجیدہ ماں نے ایک محبت آمیز نگاہ اپنے بیٹے پر ڈالی اور کہا:

'' خدایا میںنے تیرے پیغمبر(ص) کی خاطر اپنے بیٹے کو بخش دیا ہے تو بھی اسے بخش دے'' _

پیغمبر اسلام(ص) نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراس کے بیٹے کے حق میں دعا کی اور جوان کے لئے خدا سے مغفرت طلب کی_ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعا اور اس کی ماں کے راضی ہونے کے سبب اس جوان کے گناہ بخش دیئے_

اس وقت جب کہ جوان اپنی عمر کے آخری لمحات کاٹ رہا تھا اس نے آنکھ کھولی، مسکرایا اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہ خوفناک دو شکلیں چلی گئی ہیں اور دو اچھے چہرے میری طرف آرہے ہیں'' _

اس وقت اس نے اللہ تعالی کی وحدانيّت اور حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی نبوّت کی گواہی دی اور مسکراتے ہوئے ا س کی روح، قفس عنصری سے پرواز کرگئی_

۲۵۶

خداوند عالم قرآن میں ماں باپ کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کی بے احترامی ہرگز نہ کرنا اور بلند آواز سے ان سے گفتگو نہ کرنا ہمیشہ مہربانی اور ادب سے ان کے ساتھ بات کرنا''_

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

'' جو شخص رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ کے پیوند کو مضبوط کرے اورماں باپ کے ساتھ خوش رفتار و مہربان ہو تو اس پر موت کی سختیاں آسان ہوجاتی ہیںاور دنیا میں بھی فقیر و تہی دست نہیں رہتا''_

قرآن کی آیت:

( وقضی ربّک الّا تعبدوا الّا ايّاه و بالوالدین احسانا اما یبلغنّ عندک الکبر احدهما او کلاهما فلا تقل لهما اف و لا تنهرهما و قل لهما قولا کریما ) (۱)

'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش مت کرم اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کی ہرگز بے احترامی نہ کرو اور بلند آواز سے ان کے س اتھ کلام نہ کرو اور ہمیشہ مہربان اور با ادب ہوکر ان کے ساتھ گفتگو کرو_

____________________

۱) سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۳

۲۵۷

چھٹا حصّہ

امامت اور رہبری کے بارے میں

۲۵۸

رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت

پیغمبر اسلام(ص) کی بعثت کے تین سال گذرچکے تھے آپ کی اس مدت میں اسلام کی طرف دعوت مخفی تھی_ لوگ بلکہ پیغمبر اسلام(ص) (ص) کے رشتہ دار آپ کی دعوت سے صحیح طور سے مطلع نہ تھے لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کھلے عام اسلام کی طرف دعوت دیں تا کہ سبھی تک آپ کا پیغام پہونچ جائے لہذا اس عمومی پیغام کی ابتداء اپنے قبیلے اور رشتے داروں سے شروع کی کیونکہ یہ لوگ پیغمبر اسلام (ص) کو بہتر طور سے جانتے تھے اور آپ کی صداقت سے بخوبی واقف تھے_ اسی دوران اللہ تعالی کی طرف سے یہ پیغام آیا:

'' اپنے رشتے داروں و قریبیوں کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤ اور جو لوگ تمھاری پیروی کرتے ہیں ان سے نرمی و تواضع سے پیش آؤ'' _

تمھیں علم ہوگا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے اس حکم کو حضرت علی علیہ السلام کے درمیان رکھا اور انھیں حکم دیا کہ غذا مہیا کرو، رشتے داروں اور اپنی قوم کو دعوت دوتا کہ میں انھیں اسلام کی دعوت دوں_ حضرت علی علیہ السلام نے غذا مہيّا کیا اور اپنے رشتے داروں کو دعوت دیا_

مہمانی کاون آپہونچا، تقریبا چالیس آدمی پیغمبر(ص) کے قریبی رشتے دار اس دعوت میں شریک ہوئے_ پیغمبر اسلام (ص) نے بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا اورانھیں

۲۵۹

خوش آمدید کہا_

پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت علی علیہ السلام نے مہمانوں کی پذیرائی کی تھوڑے سے کھانے میں تمام کے تمام سیر ہوگئے_ کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے گفتگو کرنی چاہی اور جب آپ نے اپنے مقصد کو بیان کیا تو ابولہب نے آپ کی بات کو کاٹ دیا_ اپنی بیہودہ و بیکار باتوں سے مجمع کو درہم و برہم کردیا اکثر حاضرین نے شور و غل شروع کردیا اور پھر متفرق ہوگئے_ اس ترتیب سے یہ مہمانی ختم ہوگئی اورپیغمبر اسلام (ص) اپنے پیغام کو نہ پہونچا سکے_

لیکن کیا پیغمبر(ص) لوگوں کو ہدایت کرنے اور اپنا پیغام پہونچانے سے ہاتھ کھینج لیں گے؟ کیا آپ مایوس و نا امید ہوجائیں گے؟ کیا آپ ان سے غضبناک ہوجائیں گے؟ نہیں نہ تو آپ ہدایت کرنے سے دستبردار ہوں گے نہ مایوس و نا امید ہوں گے اور نہ غضبناک ہوں گے بلکہ آپ دوسری دفعہ ان کو مہمان بلاتے ہیں اور ان کی اسی خندہ پیشانی سے پذیرائی کر رہے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کی ہدایت کرنے او رانھیں نجات دینے کے لئے آئے ہیں_

کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' اے میرے رشتے دارو توجہ کرو اور میری بات کو غور سے سنو اگر بات اچھی ہو تو قبول کر لو اور اگر اچھی نہ تو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہو اور یہ بات صحیح نہیں کہ تم شور و غل کر کے مجلس کو دگرگوں کردو_

اے ابوطالب کی اولاد خدا کی قسم کوئی بھی آج تک ایسا ہدیہ اپنی قوم کے لئے نہیں لایا جو میں اپنی قوم اور رشتے داروں کے لے لایا ہوں میں تمھارے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت

۲۶۰

کی خوشخبری لایا ہوں_

اے میرے معزز رشتے دارو تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو اگر میں تمھیں بتاؤں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے بیٹھا ہے اور تم پر حملہ کرناچاہتا ہے تو کیا میری اس بات کا یقین کر لو گے؟ کیا دفاع کے لئے تیار ہوجاؤ گے؟ ''

تمام حاضرین نے کہا کہ:

'' ہاں اے محمد(ص) ہم نے تمھیں سچّا اور صحیح آدمی پایا ہے''_

'' میں تمھاری بھلائی و سعادت کو چاہتا ہوں، کبھی تم سے جھوٹ نہیں بولتا اور نہ خیانت کرتا ہوں_ لوگو تم اس دنیا میں بے کار خوق نہیں کئے گئے ہو اور موت، زندگی کی انتہاء نہیں ہے تم اس جہان سے آخرت کے جہان کی طرف منتقل ہوگے تا کہ اپنے اعمال کی جزاء دیکھ سکو_

اے میرے رشتے دارو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور تمام انسانوں کی ہدایت و نجات کے لئے بھیجا گیا ہوں، مجھے اب حکم ملا ہے کہ میں تمھیں توحید، خداپرستی و دین اسلام کی طرف بلاؤں او رعذاب الہی سے ڈراؤں_ میں اس حکم کی بجا آؤری میں استقامت سے کام لوں گا_ تم میں سے جو بھی میری اس دعوت کو قبول کرے اور میری مدد کرے وہ میرا بھائی، میراوصّی، میرا خلیفہ اور میرا جانشین ہوگا''_

مجمع پر سنّاٹا چھایا ہواتھا چنانچہ ایک کونے سے ایک نوجوان اٹھا اور اس نے کہا:

۲۶۱

'' یا رسول اللہ (ص) میں اللہ تعالی کی وحدانيّت، روز جزاء کی حقّانیت اور آپ کی پیغمبری کی گواہی دیتا ہوں اور اس آسمانی پیغام کی کامیابی کے لئے آپ کی مدد کروں گا''_

جانتے ہو کہ یہ نوجوان کون تھا؟

پیغمبر اسلام(ص) نے ایک محبت آمیز نگاہ اس کی طرف کی اور اپنے مہمانوں کے سامنے اپنی بات کو دوبارہ بیان کیا_ اس دفعہ بھی سب خاموش بیٹھے رہے اور پھر وہی جوان اٹھا او راسی وعدہ کا تکرار کیا_ پیغمبر (ص) نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر تیسری دفعہ تکرار کیا_ پھر وہی جوان اٹھا اور اپنی مدد کا ہاتھ پیغمبر اسلام(ص) کی طرف بڑھایا_ اس وقت رسول خدا (ص) نے اسے اپنے پاس بلایا اس کا ہاتھ پکڑا او رحاضرین کے سامنے فرمایا:

''انّ هذا اخی و وصیيّی و خلیفتی فیکم فاسمعوا له و اطیعوا (۱)

'' یہ نوجوان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو''_

تمام مہان اٹھ گئے ان میں سے بعض ہنستے ہوئے اپنے غصّے کو چھپا رہے تھے اور سب نے جناب ابوطالب (ع) سے کہا:

'' سنا ہے کہ محمد(ص) کیا کہہ رہے ہیں؟ سنا ہے کہ انھوں نے تمھیں کیا حکم دیا ہے ؟ تمھیں حکم دیا ہے کہ آج کے بعد اپنے فرزند کی اطاعت کرو''_

____________________

۱) یہ واقعہ اہل سنّت کی بھی مستند کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۳۲، الکامل فی التاریخ جلد ۲ صفحہ ۶۲

۲۶۲

پیغمبر اکرم(ص) نے اس مجلس میں اپنی دعوت کو واضح طور سے بیان کر کے اپنی ذمّہ داری کو انجام دیا اور اپنے آئندہ کے پروگرام سے بھی حاضرین کو مطلع کیا اپنا وزیر و جانشین معيّن کردیا دین اسلام و مسلمانوں کے لئے رہبر چن لیا اور رہبری کی اطاعت کو واجب و لازم قرار دے دیا_

حاضرین نے پیغمبر اسلام(ص) کی گفتگوسے کیا سمجھا ____؟ کیا انھوں نے بھی یہی سمجھا تھا؟ کیا انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ پیغمبر اسلام (ص) ، علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا وزیر اور مسلمانوں کے لئے اپنے بعد ان کا رہبر بنادیا ہے؟

اگر وہ یہ نہ سمجھے ہوتے تو کس طر ہنستے اور مزاح کرتے اور ابوطالب (ع) سے کہتے کہ محمد(ص) نے تمھیں حکم دیا ہے کہ آج کے بعد اپنے فرزند کی اطاعت کیا کرو

قرآن مجید کی آیت:

( و انذر عشیرتک الاقربین و اخفض جناحک لمن اتّبعک من المؤمنین ) (۱)

'' اپنے رشتے داروں کو خدا کے عذاب سے ڈراو اور ان مومنین کے ساتھ جو تمھاری پیروی کرتے ہیں نرمی اورملائمت سے پیش آو''_

____________________

۱) سورہ شعراء آیت ۲۱۵

۲۶۳

سوالات

ان سوالات کے بارے میں بحث کرو

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کا دوسرا تبلیغی مرحلہ کس طرح شروع ہوا اور اس مرحلہ کے لئے خدا کی طرف سے کیا حکم ملا؟

۲)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس کو انجام دینے کے لئے کیا حکم دیا اور علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو کیا حکم دیا؟

۳)___ کس نے پہلے نشست کو خراب کیا تھا؟ اور کیوں؟

۴)___ کیا پیغمبر (ص) نے ان کے کہنے سے اپنے ارادے کو بدل دیا تھا؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) نے دوسرے دن مہمانوں سے کیا کہا تھا اور ان سے کیا مطالبہ کیا تھا؟

۶)___ مہمانوں نے ابوطالب (ع) سے کیا کہا تھا ا ور کیوں؟

۷)___ اس دعوت کا کیا مقصد تھا؟

۲۶۴

پیغمبر(ص) کی دو قیمتی امانتیں

پیغمبر اسلام (ص) اپنی عمر کے آخری سال مكّہ تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کو جو بھی استطاعت رکھتا ہے وہ اس سال حج میں شریک ہو_ پیغمبر(ص) کی دعوت پر مسلمانوں کی کثیر تعداد مكّہ گئی حج کے اعمال و مناسک کو پیغمبر اسلام (ص) سے لوگوں نے یاد کئے اور وہ حج کے پر عظمت و پر شکوہ اعمال کو پیغمبر(ص) کے ساتھ بجالائے_

پیغمبر اسلام(ص) حج اور زیارت وداع کے مراسم کو ختم کرنے کے بعد دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ایک کارواں کی شکل میں روانہ ہوئے_ حجاز کی جلا دینے والی گرمی اور بے آب و گیاہ میدان کو طے کرنے کے بعد غدیرخم پہونچے_ پیغمبر اسلام (ص) اس جگہ اپنے اونٹ سے اترے اور قافلے والوں کو بھی وہیں اترنے کا حکم دیا_ وہ لوگ جو پیغمبر (ص) سے آگے نکل چکے تھے انھیں واپس بالا یاگیا اور جو ابھی پیچھے تھے ان کا انتظار کیا گیا_

ظہر کے نزدیک ہوا بہت گرم تھی، گرمی کی شدّت سے انسانوں کے سر اور پاؤں جل رہے تھے بعض لوگوں نے اپنی عبائیں سر پر ڈال رکھی تھیں، بعض نے اپنے پاؤں کپڑوں سے لیپٹ دیئے تھے اور بعض لوگ اپنے اونٹوں کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے_ سب لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیابات ہے؟ کیا پیغمبر اسلام(ص) کوئی اہم کام انجام دینے والے ہیں؟

جب لوگ آپ سے پوچھتے تو آپ انھیں جواب دیتے تھے کہ:

'' ظہر کی نماز کے بعد بتاؤں گا''_

۲۶۵

ظہر کی نماز کا وقت آگیا_ پیغمبر اسلام(ص) نماز کے لئے کھڑے ہوئے لوگوں نے آپ کی اقتداء کی اور آپ کے ساتھ با جماعت نماز پڑھی_ نماز کے بعد پیغمبر (ص) ایک بلند جگہ کھڑے ہوئے اس وقت ہر طرف سکوت طاری تھا اور سبھی کی توجہ پیغمبر اسلام (ص) کی طرف تھی آپ نے ذکر الہی سے اپنے خطبہ کی ابتداء کی اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد لوگوں کو وعظ اور نصیحت کی اس کے بعد فرمایا:

'' لوگو ہر انسان کے لئے موت حتمی ہے میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح مرجاؤں گا، خدا کا فرشتہ بہت جلد میری روح قبض کرنے کے لئے آنے والا ہے، میں اور تم سب کے سب اللہ کے سامنے دین اسلام کے بارے میں جواب گوہوں گے اور ہم سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا_

میں نے اپنے وظیفہ پر عمل کردیا ہے خدا کے پیغام کو تم تک پہونچا دیا ہے تمھاری راہنمائی و رہبری انجام دے دی ہے اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ میری موت نزدیک ہے خدا نے مجھے اپنی طرف بلالیا ہے اور مجھے اس کی طرف جانا ہے_

لوگو میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن دو گراں بہا چیزیں تمھارے درمیان بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے اگر تم نے ان سے تمسّک کیا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک قرآن اور دوسرے میرے اہلبیت (ع) ہیں_

قرآن، اللہ کی کتاب اور ایک مضبوط رسّی ہے جو آسمان

۲۶۶

سے اتری ہے اور دوسری امانت میرے اہلبیت (ع) ہیں_ اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں امانتیں آپس میں جدا نہ ہوں گی اور قیامت تک ایک رہیں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گی_ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم ان سے کیا سلوک کروگے؟ ''

اس کے بعد آپ (ص) نے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنے نزدیک بلایا اور آپ (ع) کا ہاتھ پکڑکر لوگوں کے سامنے بلند کیا اور فرمایا:

'' لوگو اب تک تمھاری رہبری میرے ذمّہ تھی_ کیا میں خدا کی طرف سے تمھارا رہبر اور صاحب اختیار نہ تھا؟ کیا میں تمھارا ولی اور رہبر نہ تھا؟''

سب نے جواب دیا:

'' ہاں یا رسول اللہ (ص) آپ ہمارے پیشوا اور رہبر تھے''_

اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے بلند آواز سے فرمایا:

'' جس کا میں مولا تھا اب علی (ع) اس کے مولا ہیں جس نے میری ولایت کو قبول کیا ہے اب علی (ع) اس کے ولی ہیں''_

اس کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور یوں فرمایا:

'' خدایا جس نے علی (ع) کی ولایت کو قبول کرلیا ہے اس کو تو اپنی سرپرستی اور ولایت میں رکھ، خدایا علی (ع) کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما اور علی (ع) سے دشمنی کرنے والوں سے دشمنی رکھ''

۲۶۷

نتیجہ:

پیغمبر اسلام(ص) کے غدیر کے تاریخی خطبہ اور اس حدیث غدیر سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس حدیث میں اپنی عمر کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا، انقلاب اسلامی کے ہمیشہ رہنے اورترقی کرنے کے لئے دو قیمتی چیزوں کا اعلان کیا اور لوگوں کو اس سے روشناس کرایا تا کہ دینی، اجتماعی اور سیاسی مشکلات کے حل کرنے میں لوگ ان کی طرف رجوع کریں_ ان میں سے ایک '' قرآن'' ہے اور اس کے متعلق لوگوں سے فرمایا تھا:

'' اپنی مشکلات کے حل کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرنا اس کے پڑھنے، سمجھنے ، اس سے مانوس ہونے، اس کے آئین دوسرے میرے '' اہلبیت (ع) '' ہیں_

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی دینی، سیاسی اور اجتماعی ضروریات میں آپ کے اہلبیت (ع) کی طرف کہ جو پوری طرح قرآن و معارف اسلامی کے جاننے والے ہیں رجوع کریں او رقرآن کو ان کی راہنمائی میں سمجھنے کی کوشش کریں، اسلام کے فردی و اجتماعی قوانین ان سے حاصل کریں اور ان کے قول و فعل کی پیروی کریں، ان سے محبت کریں، ان کی ولایت و رہبری کہ جو در حقیقت پیغمبر(ص) کی ولایت کا دوام ہے، کو قبول کریں اور خداوند عالم کے

۲۶۸

آئین کی روشنی میں اپنی فردی اور اجتماعی زندگی گذاریں_

۲)__ _قرآن اور عترت ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہیں، مسلمان اپنی دنیاوی و اخروی سعادت کے حصول کے لئے ان دو قیمتی چیزوں کے محتاج ہیں، قرآن کے محتاج اس لئے ہیں کہ زندگی کا آئین و دستور اس سے لیں اور اہلبیت (ع) کے محتاج اس لئے ہیں کہ قرآن کے معارف و احکام کو ان سے سکیھیں اہلبیت (ع) ہی ان لوگوں کی ہدایت کریں اور پیغمبر اسلام (ص) کے مقدس اہداف کو عملی جامہ پہنائیں_

۳)___جو مسلمان، قرآن کے دستور اور اہلبیت (ع) کی پیروی کرتے ہیں وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوں گے اور دنیا و آخرت کی سعادت کو حاصل کریں گے_

۴)___ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اہلبیت (ع) کی ایک فرد بتایا ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ حضرت علی (ع) کی ولایت و رہبری کو قبول کریں _ پیغمبر اسلام (ص) نے جن کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے ان کی تعداد کو پوری طرح واضح کردیا ہے_

یہ حدیث کہ جس میں پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو دو قیمتی چیزوں کے متعلق وصيّت کی ہے '' حدیث ثقلین'' کے نام سے مشہور ہے اور یہ ان احادیث میں سے ہے کہ جو مسلّم اور قطعی ہے اس حدیث کے راویوں نے اسے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے یہ حدیث شیعہ اور سنّی کی معتبر کتابوں میں موجود ہے_(۱)

____________________

۱) البدایہ و النہایہ جلد ۵_ صحیح مسلم جلد ۴ _ مستدرک حاکم جلد ۳_ مجمع الزوائد جلد ۹_ اور ان کے علاوہ دوسری بہت زیادہ شیعہ اور سنّی کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے_

۲۶۹

پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا:

قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و الہ: انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و اہل بیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض

'' میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں_ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میرے اہلبیت (ع) ، یہ دونوں جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے''_

۲۷۰

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر(ص) کی دو قیمتی چیزیں کیا تھیں؟ ان کے بارے میں آپ نے مسلمانوں کو کیا حکم دیا ہے؟

۲)___ پیغمبر (ص) نے غدیر خم میں کس کو پہنچوایا تھا اس کے بارے میں کیا فرما اور کیا دعا کی تھی؟

۳)___ پہنچوانے سے پہلے آپ نے لوگوں سے کیا پوچھا تھا اور آپ کا ان سوالوں سے کیا مقصد تھا؟

۴)___ پیغمبر (ص) نے دینی ، اجتماعی اور سیاسی مشکلات کے حل کے لے کس شخص کو معيّن فرمایا ہے؟

۵)___ مسلمانوں کا ان دو چیزوں کے متعلق کیا فریضہ ہے؟

۶)___ قرآن اور عترت ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، اس کی وضاحت کیجیئے

۷)___ مسلمان کس طرح دنیا اور آخرت کی سعادت کو حاصل کرسکتا ہے اور کس کی رہبری کو قبول کر کے؟

۲۷۱

اسلام میں امامت

اسلام ایک مقدّس اور عالمی دین ہے جو انسان کی زندگی کی ہر ضرورت کے لئے کافی ہے چنانچہ اس نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین ودستور وضع کئے ہیں_

انسان کے انفرادی امور کے لئے الگ قانون وضع کئے ہیں اور اجتماعی امور کے لئے الگ، لہذا احکام اسلامی کو دو حیثیت سے دیکھنا ہوگا_ ایک وہ جن کا تعلق افراد سے ہے جیسے نماز، روزہ، حج اور طہارت و غیرہ اوردوسرے اجتماعی احکام ہیں جیسے جہاد، دفاع، قضا، حدود، دیات، قصاص، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور اقتصادی و سیاسی

اگر چہ انفرادی احکام میں بھی اجتماعی و سیاسی پہلو ہے اور اسی طرح اجتماعی احکام میں انفرادی فائدہ بھی ہے یہ دونوں تقریبا ایک ہی جیسے ہیں_ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی احکام لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرنے، معاشرہ میں نظم ، ضبط، امنيّت اور حفاظت کے لئے ہوتے ہیں_ اسلام کے اجتماعی و سیاسی احکام، معاشرہ میں فلاح و بہبود کی بقاء کے ضامن ہوتے ہیں تا کہ لوگ اپنے عبادی فرائض کو انجام دے سکیں لیکن اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کو جاری کرنا اور ان پر عمل کرانا شخصی طور پر ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے حکومت کی ضرورت ہے لہذا مسلمان، اسلامی حکومت کے ذریعہ ہی اسلام کے اجتماعی قوانین کو جاری کرسکتا ہے اور طاقت کے زور پر اسلامی قوانین کو عملی جامہ

۲۷۲

پہنا سکتا ہے اور اسلامی سرزمین کو دشمنوں سے لے سکتا ہے_

حالانکہ اس قسم کے تشکیلات ہر ملک کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی حکومت میں حکومت کے لارکان، اسلام کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور اس کی رہبری ایک دیندار، دین شناس اور پرہیزگار شخص کے ذمّہ ہوتی ہے اور اس کے لئے یہ عہدہ خود خداوند عالم کی طرف سے ہوتا ہے_

پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں اسلامی حکومت کیسے تھی؟

رسول خدا(ص) کے زمانہ میں مسلمانوں کی رہبری خود آپ کے ذمّہ تھی آپ اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کو جاری کرتے تھے اور معاشرہ کو اسلامی طریقے سے چلاتے تھے جہاد و دفاع کا حکم خود آپ دیا کرتے تھے ، فوج کا کمانڈر خود معيّن کرتے تھے لیکن حکم آپ خود دیا کرتے تھے، آپ کے زیر فیصلے ہوتے تھے_

آپ قاضی کی تربیت کرتے انھیں دور و نزدیک کے شہروں اوردیہاتوں میں روانہ کرتے تھے تا کہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کریں، اسلام کے قوانین کے مطابق لوگوں کی مشکلات کو حل کریں اور حدود الہی کو جاری کریں_ بیت المال کی تقسیم آپ کے زیر نظر ہوا کرتی تھی اور جنگ میں ہاتھ آنے والے مال کی تقسیم بھی خود آپ ہی کے ذمّہ تھی_

اس کے علاوہ پیغمبر اسلام (ص) کا خداوند عالم سے ایک خاص ربط تھا آپ قوانین الہی کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے تھے اور انھیں لوگوں تک پہونچاتے تھے، معاشرہ کو حکم الہی کے مطابق چلاتے تھے یہاں تک کہ آپ کی آنکھ بند ہوگئی_

۲۷۳

رسول خدا (ص) کے بعد اسلامی حکومت:

رسول خدا (ص) کے بعد دین اسلام اور احاکم و قوانین اسلامی کی حفاظت کون کرے؟ کیا اسلامی معاشرہ کو پیغمبر اسلام(ص) کے بعد کسی رہبر کی ضرورت نہیں؟ کیا پیغمبر اسلام (ص) اسلامی معاشرہ کو بغیر کسی رہبر کے چھوڑ گئے اور آپ نے اس بارے میں کوئی وصيّت نہیں کی؟

حالانکہ پیغمبر اسلام (ص) نے دین اسلام کو ہمیشہ رہنے والا اور آخری دین بنایا ہے پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس آخری دین کے لئے محافظ معيّن نہ کیا ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی معاشرہ کو کسی رہبر کے بغیر چھوڑ کر گئے ہوں؟ حالانکہ کبھی آپ نے کسی فوج کو بغیر اس کے سردار کے جنگ کے لئے نہیں بھیجا بلکہ کبھی احتیاط کے طور پر چند سرداروں کو معيّن کرتے تھے تا کہ ایک کی شہادت سے دوسرا سردار فوج کو کنٹرول کرسکے_

یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسلام کی نوازئیدہ مملکت کو پیغمبر(ص) کوئی ولی معيّن کئے بغیر چھوڑ کر چلے جائیں حالانکہ بعض صورتوں میں آپ اگر تھوڑے دنوں کے لئے بھی سفر پر جاتے تھے تو مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے کسی کو معيّن کرتے تھے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے نو بنیاد اسلامی معاشرہ کو بغیر سرپرست اور رہبر کے چھوڑ دیا ہو؟

حالانکہ جب بھی کسی جگہ کو فتح کرتے تو آپ فوراً کسی شخص کو اس کا سرپرست معيّن کردیتے تھے_ جو پیغمبر (ص) اتنا دور اندیش، مستقبل شناس اور امّت اسلامی کے اجتماعی و سیاسی

۲۷۴

مسائل پر اتنی توجہ دیتا ہو تو کیا اس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی معاشرہ کے لئے رہبر کی ضرورت سے غافل تھا؟ نہیں ہرگز نہیں

پیغمبر اسلام (ص) ، ضرورت امام (ع) سے بخوبی واقف تھے آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ اسلام کے قوانین و احکام کی حفاظت کے لئے ایک ایسے رہبر کا وجود ضروری ہے جو دین اسلام کے قوانین اور احکام کا عالم ہو_ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ پیغمبر(ص) کی ذمّہ داریوں کو کون بخوبی انجام دے سکتا ہے_

ہمارا عقیدہ:

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ایسے کام سے کہ جس سے اسلام کی رگ حیات وابستہ تھی غفلت نہیں کی بلکہ بہت سے مواقع پر اس کا اظہار بھی کیا اور پیغمبر کی نظر میں یہ اتنا اہم کام تھا کہ آپ نے اسلام کی پہلی ہی دعوت میں کہ جس میں آپ نے اپنے رشتے داروں کو اپنے گھر بلایا تھا حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی و خلافت کا اعلان کردیاتھا_

مختلف مواقع پر اس یاد دہانی بھی کرتے تھے آپ کو اپنا خلیفہ اور مسلمانوں کا رہبر ولی بتاتے تھے اور آخری اعلان حکم الہی سے غدیر خم میں کیا _ پیغمبر گرامی (ص) نے حکم خدا سے کئی ہزار مسلمانوں کے سامنے جو حج سے واپس آرہے تھے رسمی طور سے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا وصی اور لوگوں کا امام منتخب کیا_

حضرت علی علیہ السلام نے بھی حکم الہی سے اپنے بعد امام حسن علیہ السلام کو امامت کے لئے معيّن فرمایا اور لوگوں کو اس سے آگاہ کیا اسی طرح ہر امام (ع) اپنے بعد کے امام (ع)

۲۷۵

کو معيّن کرتا اور لوگوں کو اس کی حبر دیتا تھا یہاں تک کہ نوبت بارہویں امام (ع) تک پہونچی اور وہ اب بھی زندہ ہیں تمام مسلمانوں کے ولی اور امام ہیں لیکن اس وقت آپ پردہ غیب میں ہیں_

غیبت کے زمانے میں:

امام عصر (ع) کی غیبت کے زمانے میں مسلمانوں کی رہبری ایک فقیہ عادل کے ذمہ ہوتی ہے جو بارہویں امام حضرت حجّت بن الحسن (ع) کانائب ہوتا ہے وہ دین کے قوانین و احکام کو بیان کرتا ہے اور مسلمانوں کو دنیا و آخرت کی سعادت کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور وہ بارہویں امام (ع) کے ظہور کے عقیدہ کو مستحکم کرتا ہے_

قرآن کی آیت:

( و جعلنا منهم ائمة یهدون بامرنا لمّا صبروا و کانوا بایاتنا یوقنون ) (۱)

'' اور ان ہی میں سے ہم نے کچھ لوگوں کو چونکہ انھوں نے صبر کیا تھا پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اورہماری آیتوں کا دل سے یقین رکھتے تھے''_

____________________

۱) سورہ سجدہ آیت ۲۴

۲۷۶

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ جانتے ہو کہ ہماری حکومت کے ارکان کیا ہیں؟ حکومت اسلامی کا سب سے اہم رکن کیا ہے؟

۲)___ صدر اسلام کی حکومت میں پیغمبر اسلام (ص) کے کیا فرائض تھے؟

۳)___ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) ، تازہ اسلامی مملکت کو بغیر رہبر کے چھوڑ کر چلے جائیں؟ اس سوال کے جواب کو جواب کو جو اس درس میں بیان ہوئے ہیں بیان کرو_

۴)___ ہمارا عقیدہ اسلامی معاشرہ کے لئے رہبر کی تعیین کے متعلق کیا ہے؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) نے مختلف مواقع پر رہبری کے مسئلہ کو بیان کیا ہے ان میں سے دو مواقع کو بیان کرو_

۶)___ بارہویں امام (ع) کے غیبت کے زمانے میں مسلمانوں کی رہبری کس کے ذمّہ ہے؟

۷)___ مسلمانوں کے رہبر کو کیا کرنا چاہیئے؟

۲۷۷

اسلام کا نمونہ مرد

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت بے نظیر تھی، بچپن سے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہے وہیں بڑے ہوئے اورآپ نے اسی گھر میں زندگی کے آداب و اخلاق یاد کئے_ پیغمبر اسلام (ص) بعثت سے پہلے، سال میں ایک مرتبہ غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور وہاں خدا سے راز و نیاز کرتے تھے_

حضرت علی علیہ السلام ان دنوں آپ کے لئے غذا لے جایا کرتے تھے اور کبھی خود بھی وہیں ورہ جاتے تھے پیغمبر (ع) کی عبادات کودیکھا کرتے تھے_ ایک دن جب پیغمبر اسلام(ص) اس پہاڑ میں عبادت میںمشغول تھے تو خداوند عالم کی طرف سے ایک فرشتہ آیا اور پیغمبری کے منصب کو آپ کے حوالہ کیا_

حضرت علی علیہ السلام اس وقت آپ ہی کے پاس تھے اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ نقل کیا کہ:

'' میں پیغمبر(ص) کے ساتھ غار حراء میں تھا اور آنحضرت میں پیغمبری کی علامتیں دیکھ رہا تھا''_

حضرت علی علیہ السلام پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اپنے اسلام اور پیغمبر(ص) پر ایمان کو ظاہر کیا ہے آپ کی اس وقت دس سال سے زیادہ عمر نہ تھی لیکن آپ اتنے عقلمند تھے کہ وصی اور نبوت کے حقائق کو درک کر رہے تھے اور بغیر کسی

۲۷۸

خوف و ہراس کے پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ نما زجماعت کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے_

تبلیغ کے سلسلہ میں آپ پیغمبر (ص) کی دن رات مدد کیا کرتے تھے جیسا کہ معلوم ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے بعثت کے تیسرے سال اپنے رشتے داروں کو مہمانی کے لئے بلایا انھیں اسلام کی دعوت دی اور ان سے اپنی مدد کے لئے کہا_ اس مہمانی میں سوائے حضرت علی (ع) کے کسی نے بھی پیغمبر اسلام (ص) کی دعوت کو قبول نہ کیا اور نہ ہی مدد کرنے کا وعدہ کیا_

اس وقت حضرت علی علیہ السلام کی عمر مبارک تیرہ، چودہ سال کی تھی آپ نے پورے یقین سے پیغمبر اسلام(ص) کی دعوت کو قبول کیا اور آپ سے مدد کرنے کا پیمان باندھا اس قسم کا اقدام آپ کی کامل بصیرت و آگاہی کی علامت ہے اسی وجہ سے پیغمبر ا سلام (ص) نے آپ کو اپنا وزیر، خلیفہ و جانشین بنایا اور تمام حاضرین کے سامنے اس کا اظہار بھی کیا_

اسی دن سے حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کے خلیفہ ہوئے اور اپنی اس عظیم ذمہ داری کی وجہ سے جو خدا کی طرف سے آپ پر ڈالی گئی تھی آپ پیغمبر(ص) کی مشکلات میں مدد کرتے اور آپ کی ہر طرح سے حفاظت کرتے تھے_ حضرت علی علیہ السلام کا پیغمبر اسلام(ص) سے والہا نہ محبت کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ پیغمبر (ص) کی حفاظت کی خاطر، خطرناک ترین موقعہ پر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر آپ کی جان کی حفاظت کرتے تھے_

جب مكّہ کے بت پرستوں نے مصمّم ارادہ کرلیا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو قتل کردیں تو خدا کی طرف سے حضور (ص) کو حکم ملا کہ رات کے وقت مكّہ سے نکل جائیں مدینہ کی طرف

۲۷۹

ہجرت کرجائیں دشمنوں کو اس کا علم نہ ہو اور کسی آدمی کو اپنی جگہ پر سلادیں_ پیغمبر اسلام(ص) نے یہ بات حضرت علی علیہ السلام سے بیان کی آپ نے بڑے شوق سے اس دعوت کو قبول کیا اور رات کے وقت بستر پیغمبر(ص) پر سوگئے_ آپ زمانے کے سب سے زیادہ بہادر تھے تمام جنگوں میں شریک ہوتے تھے، اسلام کی کامیابی اورانسانوں کو کفر و ظلم سے نجات دینے کے لئے میدان جنگ میں پہلی صف میں دشمنوں کے ساتھ لڑا کرتے تھے_

آپ جہاد و شہادت کے عاشق تھے، کسی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ ہمیشہ میدان جنگ میں آگے آگے رہتے تھے اورکبھی میدان جنگ سے فرار نہیںکرتے تھے آپ فرماتے تھے:

'' خدا کی قسم اگر تمام عرب اکٹھے ہو کر میرے ساتھ جنگ کریں تو بھی میں ان سے جنگ کرنے سے گریز نہیںکروں گا اور ان کے سامنے تسلیم نہیں ہوں گا، خدا کی قسم کہ اگر میدان جنگ میںت لوار کی ہزار ضربتوں سے درجہ شہادت پر پہونچوں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اسے بستر پر مروں''_

جب جنگ احد میں وفادار محافظ قتل کئے جاچکے یا وہ زخمی ہوگئے اور ایک گروہ نے پیغمبر اسلام (ص) کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور وہ فرار کر گئے تھے تو حضرت علی (ع) ہی یک و تنہا پیغمبر (ص) کی حفاظت کر رہے تھے اور آپ نے اس قدر اپنے طاقتور بازو سے تلوار چلائی کہ ہاتف غیبی کی آواز آئی:

'' کوئی مرد سوائے علی (ع) کے مرد نہیں اور کوئی تلوار سوائے ان کی تلوار کے تلوار نہیں ہے'' _

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302