‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 25%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111833 / ڈاؤنلوڈ: 3874
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

الف۔زہرا (سلام اللہ علیہا ) پر پابندی

ہر مسلمان باشعور کا عقیدہ ہے کہ خدا نے ہر انسان کو آزاد اور دوسرے کی پاپندی سے مبرا خلق کیا ہے لہٰذا اگر کو ئی شخص دوسرے شخص پر اپنی قدرت اور تسلط جمانے کی کوشش کر ے تو اس کو قرآن وسنت کی اصطلاح میںظالم کہا جا تا ہے اسی لئے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کا ئنات میں ذاتی طور پر مسلط ہو نے کا حق صرف ذات باری تعالی کو ہے لیکن بشرمیں سے انبیاء اور ان کے جانشین کو خدا نے بشر کی ہدایت اور راہ مستقیم کی طرف بلانے کی خاطر حکومت اور تسلط کا حق عطا کیا ہے پس کسی عام عادی انسان کا دوسرے پر پابندی لگا نا عقل اور فطرت کے منافی ہو نے کے علاوہ معاشرہ میں بھی اس کو ظالم کہا جا تا ہے ،لہٰذا حضرت زہرا پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر نا عقل اور فطرت کی منافی ہو نے کے باوجود ظلم بھی سمجھا جا تا ہے لہٰذا ان پر عائد کی گئی پابند یاں پڑھنے والوں کی عدالت میں پیش کی جارہی ہیں جو درج ذیل ہیں :

۶۱

(۱) اقتصادی پابندی ۔

ہر جابر اور ظالم حکمران کی سیرت اب تک یہی رہی ہے کہ جب کسی ملک اور شہر پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے تو اس نے فورا اس ملک یا شہر کے مر کزی کر دار انجا م دینے والے سر ما یہ داروںپر قابض ہو نے کی کو شش کی ہے لہٰذا تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے بے گناہ افراد کو جا بر اور ظالم حکمرانوں کے دور میں سرما یہ دار ہو نے کے جرم میں ہر طرح کی پابندی عائد کر کے ان کو حکومت سے بے دخل کیا گیا ہے تاکہ ان کی اقتصادی پا لیسیوں میں تر قی نہ ہواور اپنی حکومت اور تسلط کے لئے مانع نہ بن سکے جس بری سیرت میں ہر عام وخاص مبتلا رہے ہیں حتی حضرت پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ما ننے والے بھی آنحضرت کی سیرت طیبہ کو بالا ئے طاق رکھ کر ظالموں کی بری سیرت کو اسلام کے لباس میں اپنی کا میا بی کا ذریعہ قرار دیتے ہو ئے نظر آتے ہیں جس کی بہتر ین مثال وہ رفتار اور سلوک ہے جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ کیا گیا ہے تب ہی تو حضرت زہرا کو اپنے حق سے محروم کر کے فدک جیسے عطیہ کو غصب کر کے ان پر اقتصادی پابندی لگائی تا کہ زہرا حکو مت اور اسلام سے بے دخل رہے۔

چنا نچہ اس حقیقت کو فریقین کے معروف مور خین نے ذکر کیا ہے اگر چہ بعض نے حقائق کو پس پردہ رکھ کر بیان کر نے کی کو شش کی ہے جس کی وجہ بھی صحابہ کرام کی طرف سے پا بندی بتائی جا تی ہے وگر نہ ایک دانشمند ،مورخ ہو نے کی حیثیت سے کمال اس کا یہ ہے کہ حقا ئق کو تحقیق کے ساتھ پیش کر ے اور حقا ئق کو برہان کے بغیر پیش کر نا تحقیقات کے منافی ہے لیکن فدک خود پیغمبر اکر م کے زمانے میں اصحاب کے مابین معروف تھا اس کا خلاصہ یہ ہے

۶۲

کہ مدینہ منورہ کے نزدیک ایک سو چالیس کلو میڑکے فا صلے پر ایک علاقہ فدک کے نام سے تھا جو قدرتی طور پر سر سبز ہو نے کے باوجود کھیتی باڑی اور دیگر منا فع کے لئے بہت ہی مناسب ہو نے کے علاوہ قدرتی چشمے سے ما لا مال تھا جو دور حاضر میں سعودی عرب میں حائط یا حویط کے نام سے مشہور ہے کہ وہ جگہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھی جب اس علاقہ کے مالکوں نے اسلام کی طاقت اور پیشرفتگی کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک شخص حضرت پیغمبر کی خدمت میں روانہ کیاگیا اور آپ سے صلح کی پیشکش کی حضرت پیغمبر نے بھی ان کی پیشکش کو قبول فرمایا اس مطلب کو جناب یحییٰ ابن آدم نے بیان فرما یا ہے(۱)

لیکن پیغمبر اکرم کو یہودیوں نے صلح کر کے پور افدک دیا تھا یا اس کا آدھا اس میں علماء کے مابین اختلاف پایا جا تا ہے جناب واقدی اور بلازری نے فرمایا کہ یہودیوں نے پیغمبر اکرم کو فدک کا آدھا حصہ دیا تھا(۲)

لیکن دوسرے کچھ محققین کا نظر یہ یہ ہے کہ یہودیوں نے پیغمبر اکرم کو پورا فدک دیا ہے اس پر متعدد براہین اور شواہد بھی ذکر کئے ہیں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدک کو یہودیوں سے لینے کے بعد اپنی زندگی ہی میں حضرت زہرا کو عطیہ کیا تھا کیو نکہ تمام مذاہب کا اجماع ہے اگر کو ئی چیز جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ میں

____________________

(۱) خراج یحیی ابن قریشی

(۲) المغازی جلد ۲، فتوح البلدان، سیرت ابن ہشا م جلد ۲

۶۳

آجا ئے وہ پیغمبر اکر م کا حصہ ہے اسی لئے پیغمبر کی وفات تک کسی صحا بی یا کسی دوسرے شخص کو حضرت علی اور حضرت زہرا کی اجازت کے بغیر فدک کے در آمد ات میں کسی قسم کے تصرف کی جرأت نہ تھی اور ہمارے برادر اہل سنت سے تعلق رکھنے والے اکثر مفسرین نے اس طرح لکھا ہے کہ حضر ت پیغمبر نے فدک حضرت زہرا کو اس وقت عطیہ کیا جب یہ آیة شریفہ نازل ہو ئی :

( وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ ) (۱)

اے پیغمبر اکرم قریبی رشتہ داروں کو ان کا حق عطا کردیجئے۔

پس اس تفسیر اور آیت کے شان نزول کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے خدا کے حکم سے حضرت زہرا کو فدک دیا تھا نہ ان کو ارث میں ملا تھا لہٰذا پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد ان سے چھیننا حقیقت میں صحا بہ کرام کی طرف سے حضرت زہرا پر اقتصا دی پا بندی تھی تا کہ حضرت زہرا سخاوت کے ذریعے بنی سقیفہ کے ما جراء کو بے نقاب نہ کر سکیں اور اپنی حقانیت ثابت کر نے میں نا کام رہیں۔

جناب ابن ابی الحدید نے اس طرح لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)سورہ اسرا آیت ۲۶.

۶۴

کی وفات کے دس دن بعد حضرت زہرا کو فدک پر اعتراض کر تے ہو ئے خلیفہ وقت کی خد مت میں حا ضر کیا(۱)

اس مسئلہ کی شکایت کوحضرت علی علیہ السلام نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

بلی کا نت فی اید ینا فدک من کل ما اظلته السماء فشحّت علیها نفوس قوم وسخت عنها نفوس قوم اخرین ونعیم الحکم الله (۲)

ہاں :آسمان تلے مو جود مال دنیا میں سے صرف فدک ''ہمارے ہاتھ میں تھا جسے ایک گروہ کے طمع ولالچ نے (غاصبانہ طور پر ) ہڑپ لیا جب کہ دوسرے گر وہ (ہم اہلبیت )نے سخا وتمند انہ طریقہ پر اس سے چشم پوشی کی اور اللہ تعالی بہترین فیصلہ کر نے والاہے ۔

اور تاریخ گو اہ ہے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا فدک کی در آمدات کو راہ خدا میں خدا کی رضایت حاصل کر نے میںخرچ کر تی تھیں یعنی یتیمو ں اور فقراء و مساکین کے ما بین خرچ کر کے اپنی روز مرہ زندگی کے لوازمات کے لئے بہت ہی کم مقدار رکھا کر تی تھیں لہٰذا گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہوا :

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۶.

(۲)نہج البلاغہ نامہ ۴۵.

۶۵

۱۔ فدک پیغمبر کی ملکیت تھی جنگی غنائم میں شامل نہ تھا کیو نکہ یہ جنگ کے بغیر صلح کے نتیجہ میں حاصل ہوا تھا۔

۲۔ اہل سنت کی تفسیر کے مطا بق پیغمبر اکر م نے اپنی زندگی میں فدک حضرت زہرا کو دیا تھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت زہرا فدک کو اپنا حق سمجھنے میں حق بجانب تھی۔

۳۔پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد فدک کو حضر ت زہرا سے چھیننا حقیقت میں حضرت زہرا پر اقتصادی پابندی تھی تا کہ حضرت زہرا کو اسلام اور حق سے بے دخل کر سکیں۔

۴۔ آپ فدک کے در آمد ات کو تین حصوں میں تقسیم کیا کر تی تھی لیکن پیغمبر اکر م کے ماننے والوں نے حضرت زہرا کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو آج کل ہمارے زمانے میں اسرائیلی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں یعنی پہلے مسلما نوں کے اموال پر قابض ہو گئے پھر مسلمانوں سے ہی اپنی حقا نیت پر گواہی ما نگنے لگے لہٰذا آج ہم دنیا کے کسی حصے میں ذلت وخواری کے شکار ہو تے ہو ئے نظر آتے ہیں تو یہ حقیقت میں بی بی دو عالم پر ڈھائے گئے مظالم کا نتیجہ ہے اگر ہم پیغمبر کی وفات کے بعد با بصیرت ہستیوں کا دامن تھام لیتے تو آج امریکا اور اسرائیل کی مانند حکمران کو ہم پر تعدی کی جرأت اور طاقت نہ ہو تی ۔

۶۶

۲۔ سیاسی پابندی

دوسری پابندی یہ تھی کہ جو اقتصادی پا بندی سے پہلے پیغمبر کی وفات پا تے ہی تجھیز وتکفین سے قبل مسلمانوں کے ہا تھوں بنی سقیفہ کی شکل میں عائد ہو ئی کہ یہ پابندی اقتصادی پا بندی سے کئی گنا حضرت زہرا پر سخت گزری کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم حجتہ الوداع سے فارغ ہو نے کے بعد جب غدیر خم میں پہنچے تو :

( یا اَیٌّها الرَّسُولَ بَلِّغْ ما اُنْزِلَ اِلیکَ مِنْ رَبِّکِ وَ اِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّه یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )

پر عمل کر تے ہو ئے لاکھوں حجاج کے مجمع میں جانشین مقرر فرما یا اور صحابہ کرام بھی اس واقعہ سے غافل نہ تھے لہٰذا غدیر کا واقعہ آج فریقین کی کتابوں میں بخوبی روشن ہے اس کے باوجود حضرت پیغمبر اکر م کی روح پر واز کر تے ہی ان کی تجہیز وتد فین سے پہلے جا نشین کے تقرر کے لئے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو نا حقیقت میں حضرت زہرا اور اہل بیت رسول پر سیاسی پانبدی تھی تاکہ حضرت زہرا اور خاندان اہل بیت علیہم السلام کو اسلام اور حکومت اسلامی سے بے دخل کر سکیں اور یہ فرصت کی تلاش میں رہنے والے حضرات اور بعض صحابہ کرام کے لئے بہترین مو قع تھا کہ جس وقت حضرت زہرا اور اہل بیت پیغمبر ،پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصیبت میں صاحب عزا تھے اس وقت ان کی تجہیز وتکفین سے پہلے خلا فت جیسے عظیم منصب کے ساتھ آراء اور ووٹوں کے ذریعے کھیل کھیلاجا ئے

۶۷

اگر چہ ایسے عزائم میں پیغمبر اکر م کی رحلت سے پہلے بھی مشرکین اور کچھ مسلمان مر تکب ہو ئے تھے لیکن خدا کی مشیت اسی میں تھی کہ پیغمبر اکرم کی کا میابی اور ان برے عزائم میں مبتلا ہونے والوں کی نا کا می اور بد نا می ہو لہٰذا وہ لوگ کبھی بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں عملی جا مہ پہنا نے میں کا میاب نہ ہو سکے جوں ہی پیغمبراکرم کی رحلت ہو ئی ایسے عزائم کو عملی جا مہ پہنا کر اپنے آپ کو پیغمبر کی جا نشین بنا نا شروع کیا اس فضاء اور حالات میں حضرت زہرا(س) اور حضرت علی نے ایسی سیرت اپنائی کہ جس سے خلافت چھیننے والے مسلما نوں کے حقائق کو قیا مت تک کے بشر کو بیان کر نے کے علاوہ ان کی نااہلی اور سیا ست میں بابصیرت نہ ہو نے کو عقلی اور نقلی براہین کی روشنی میں ثابت کیا جب کہ ان لو گوں نے اپنی حقا نیت اور خلافت کی صلاحیت کو کتاب وسنت اور عقلی برہان سے ہٹ کر بے بنیاد باتوں سے اثبات کر نے کی کو شش کی لہٰذا برسوں پیغمبر اکر م کے پیچھے نمازوں اور محافل اور دیگر سیا سی امو ر میں شریک ہو نے کے باو جود طرح طرح کے جھو ٹ سے متوسل ہو ئے تب ہی تو اجماع قیاس اور استحسان وغیرہ کو قرآن پر مقدم کیا اور مفضول کو افضل پر مقدم ہو نے کے قائل ہو گئے

۶۸

لہٰذاخلا فت کا ملاک اور معیار لو گوں کی نظر اور انتخابات کو سمجھا اور امت کو خطا کر نے سے معصوم قرار دیا جب کہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے قائل نہیں ہیں پس جناب ابو بکر حضرت پیغمبر کے جا نشین ہے جب کہ حضرت علی پیغمبر اکر م کو تجہیز وتکفین دینے میں مصروف تھے اس وقت بنی سقیفہ کا یہ ماجرا حضرت علی تک پہنچا تو حضرت علی علیہ السلام نے ابن عباس سے سوال کیا بنی سقیفہ میں بلند ہو نے والی اللہ اکبر کی آواز کیا ہے ؟ ابن عباس نے کہا کہ بنی سقیفہ میں لو گوں نے عمر کی سر پر ستی میں ابو بکر کو پیغمبر اکرم کا جا نشین منتخب کیاہے حالانکہ منصب خلا فت سنبھا لنے کی صلاحیت کو کتاب وسنت اور عقل سے ہٹ کر ان کے مقابلے میں اجماع وقیاس اور ستحسان جیسی تعبیروں سے ثابت کر نا ضعیف الایمان ہو نے کی دلیل کے باوجود خاندان نبوت کے سا تھ کھلم کھلا دشمنی ہے وگر نہ غدیر خم میں صحا بہ کرام نے پیغمبر اکرم کے جا نشین منتخب ہو نے پر مبارک بادد ی تھی وہ جملات آج تک فریقین کی کتابوں میں بخ بخ یا علی کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

نیزکئی بارجناب ابو بکر نے حضرت علی کے سامنے مجمع عام میں اقرار کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے ہو تے ہوئے میں اس منصب کے لائق نہیں یہ اعتراف بھی فریقین کی کتابوں میں مو جود ہے لہٰذا نہج البلا غہ میں حضرت علی کا ایک خطبہ شقشقیہ کے نام سے مشہور ہے اس خطبہ میں بنی سقیفہ کی کہانی اور شوریٰ کی تشکیل کی حقیقت اور خود کو باقی انسانوں سے مقا ئسیہ کر نے کے ہدف کو واضح الفاظ میں بیان فر مایا ہے محمود ابن لبید نے کہا حضرت پیغمبر اکر م کی رحلت کے بعد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا شہدا احد کے قبور اور روضہ پیغمبر اکرم پر جا تی تھیںاور خدا سے شہدا کی علود رجات کی التجا ء کر نے کے بعد بابا کی جدائی اور امت محمدی کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم پر گریہ کر تی تھیں

۶۹

جب ایک دن میں حضرت حمزہ (رض) کی زیارت کو گیا تو دیکھا کہ حضرت زہرا حضرت حمزہ کی قبر مطہر پر بہت ہی خضوع اور دلسوز ی کے ساتھ گر یہ کر نے میں مشغول تھیں میں حضرت زہرا کا گر یہ ختم ہو نے کا منتظر رہا جب ختم ہوا تو میں نے پوچھا اے زہرا آپ پوری کا ئنات کی عور توں کا سردار ہو نے کے باوجود اتنا گر یہ اور التجا ء کیوں کر تی ہو؟ جب کہ آپ کی حالات دیکھ کر ہمارا دل بھی ٹوٹ جا تا آپ نے فرمایا :

اے عمررونا ہی بہتر ہے کیو نکہ حضرت رسول اکر م کی رحلت اور جدائی کی وجہ سے میں دوبارہ رسول اکرم سے ملنے کی مشتاق ہوں۔

محمود ابن لبید نے لکھا ہے پھر میں نے کچھ دوسرے مو ضو عات کے بارے میں سوال کیا انہیں میں سے ایک یہ تھا کہ اے حضرت زہرا کیا پیغمبر اکرم نے اپنا جا نشین مقرر نہیں کیا تھا ؟ حضرت زہرا نے فرمایا بہت تعجب آور سوال ہے کیا تم نے یوم الغدیر کو بھلا دیا ؟ میں نے کہا اے رسول کی بیٹی وہ تو مجھے یاد ہے لیکن اس کے بارے میں آپ کی زبان سے سننے کا خواہش مند ہوں تو آپ نے فرمایا میں خدا کو گواہ قرار دیتی ہوں کہ پیغمبر اکر م نے فرمایا :

''علی خیر من احلفه فیکم وهو الا مام بعدی وسبطایٔ وتسعة من صلب الحسین الا ئمة'' (۱)

____________________

(۱) بحار جلد ۴۲، داستان.

۷۰

(ترجمہ) علی بہترین ہستی ہے کہ جس کو میں تمہارے در میان اپنا جا نشین مقررکیا کہ وہ میرے بعد اور ان کے دو فرزند ( حسن وحسین ) اور امام حسین کے صلب سے ان کے نوفرزند تمہارے امام ہیں اگر ان سے متمسک رہیں گے تو راہ ہدایت اور نجات پائیں گے اگر ان کی مخالفت کر یں گے، تو قیامت تک تمہارے درمیان فساد برپا ہو گا ۔

اسی طرح اور بھی روایات متواتر ہ فریقین کی کتابوں میں مو جود ہیں جو خا ندان اہلبیت دوسروں پر مقدم اور دوسروں سے افضل ہو نے کو بخو بی بیان کر تی ہیں لہٰذا عقلی اور نقلی دلیل ان کی افضلیت پر ہو نے کے باوجود پیغمبر اکرم کی تجہیز وتکفین کو چھوڑکر خلا فت کے بارے میں بنی سقیفہ میں جمع ہو نا حقیقت میںحضرت زہرا اور حضرت علی علیہ السلام اور دیگر خاندان رسول کو اسلام سے بے دخل کر نا مقصود تھا لیکن حضرت علی اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ان کے پورے عزائم کو قیامت تک کے لئے بے نقاب کر دیا ۔اور مادی زندگی کے لالچ میں غرق ہو ئے افراد کی سیا ست کو بے بیصرت سیا ست قرار دئے ۔

۷۱

۳۔ خا ندانی شخصیت پر پا بندی

آپ پر کی ہوئی سختیوں میں سے سب سے پڑی سختی شخصیت کی پائمالی تھی کیو نکہ سارے اصحاب جا نتے تھے کہ کائنات میں سب سے افضل ہستی حضرت محمد ابن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہاتھے کہ جس کو نزول وحی کے دوران پیغمبر اکرم نے ہی متعدد آیات کے شان نزول کی شکل میں بیان کیا تھا اور متعدد محافل اور اجتماعات میں بھی ان کی افضلیت سے صحابہ کر ام کو اگا ہ فرما یا تھا کہ اہل بیت کو سفینہ نوح سے تشبیہ دے کر فرمایا جواہل بیت(علیہم السلام) کو ما نیں گے وہ قیامت کے دن نجات پا ئیں گے جو اہل بیت(علیہم السلام) کے مخالف ہوں گے وہ قیامت کے دن جنت سے محروم ہوں گے اور حضرت زہرا اہل بیت کے واضح ترین فرد ہے اس طرح:

'' من اذها فقد اذانی ان الله یغضب لغضبک ویر ضی لرضاک''

کے الفاظ میں بیان فرما یا تھا اور جہا ں کہیں آنحضرت سفر پر جا نے کا عزم فرماتے تھے تو حضرت زہرا سے زیادہ احترام کے ساتھ ملاقات کر تے جب حضرت زہرا آپ کی خدمت میں تشریف فرماتھی تو اس مو قع پر بھی آپ حضرت زہرا کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوجا تے تھے

۷۲

یہ تمام ان کی شخصیت اور عظمت پر واضح دلیل ہے جس سے صحابہ کرام بھی غافل نہ تھے لیکن جب پیغمبر اکرم نے دار دنیا سے داربقاء کی طرف ہجرت اور رحلت فرمائی تو صحا بہ کرام نے بہت ہی ہو شیاری کے ساتھ خلافت کا منصب چھین لیا اور بیعت کے بہا نے سے حضرت علی اور زہرا(س) کی شخصیت اور خاندان نبوت کی فضیلت کو پائمال کر نا شروع کر دیا لہٰذا مسلمانوں نے بنی سقیفہ کے ماجریٰ کے فورا بعد جناب عمر کی سر پرستی میں خاندان نبوت سے بیعت کر انے کی کو شش کی تاکہ لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ ہماری نظر میں حضرت زہرا(س) او ر حضرت علی اور باقی لوگوں میں شخصیت کے حوالہ سے کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا ہم نے ابو بکر کی بیعت کی ہے حضرت زہرا اورحضرت علی کو بھی ان کی بیعت کر نا چا ئیے یہی وجہ تھی کہ جس سے صحابہ کرام آگ اور زنجیر لے کر در زہرا پر دق الباب کر نے کی جرأت ہو ئی اور حضرت زہرا نے فرمایا تم کو ن ہو ؟

کہا میں عمر ہوں خلیفہ وقت کی طرف سے علی سے بیعت لینے کے لئے آیا ہوں دروازہ کھو لو وگر نہ دروازہ جلادوں گا ۔

۷۳

حضرت زہرا(س) نے فرمایا:

'' اے ابن الخطاب اتنی جرأت کہاں سے آئی کہ در زہرا پر حملہ کر کے علی سے بیعت لیں اتنے میں در حضرت زہرا پر حملہ کیا اور قنفذسے کہا حضرت زہرا کے دروازے کو آگ لگائو قنفذ نے آگ لگا دی اتنے میں حضرت زہرا کے درودیوار کے درمیان آنے کی وجہ سے آواز آنے لگی اے فضہ میری مدد کوآئو میرا محسن اور میرا پہلو شہیدکر دیا ہے یہ حالت صحا بہ کرام نے دیکھی لیکن خلافت کے نشہ میں حضرت زہرا کی اجا زت کے بغیر اندر داخل ہوئے اور حضرت علی کی گردن میں رسی باندھ کر خلیفہ وقت کی بیعت کے لئے لے جا نے کی کو شش کی یہ واقعہ فریقین کی کتابوں میں مو جود ہے لیکن سوال یہ ہے ایسی جرأت جو کتاب وسنت کے مخالف ہونے کے باوجود ایسے حملہ کا مقصد کیا تھا ؟

اگر ہم اس قضیہ کی تحلیل وتفسیر تعصب سے ہٹ کر کر یں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت علی اور خاندان نبوت کو حکومت اسلامی سے بے دخل کر کے خا ندان نبوت کی فضیلت اور شخصیت کو جو کتاب وسنت میں واضح طور پر بیان ہوئی ہے ۔

اس کو لو گوں کے ذہنوں سے نکا لنا ان کا اہم ترین مقصد تھا اگر چہ ا پنے مقاصد میں سے کسی ایک پر بھی برہان اور دلیل نہ بھی ہو لہٰذا آئندہ اپنی حکو مت اور سر پر ستی کے استحکام کی خاطر خاندان نبوت کی شخصیت کو زیر پا ء قرا ر دیا اسی لئے تاریخ گواہ ہے کہ بنی امیہ کا دور شروع ہو تے ہی خا ندان نبوت کو ہر چیز سے محروم کر دیا حتی خلیفہ دئوم نے کہا:

۷۴

''حسبنا کتاب اللّٰہ '' لہٰذا احادیث نبوی کی ضروت نہیں ہے اگر کو ئی احادیث نبوی کی نشر اشاعت کی تواس کوسزا دی جائے گی اور بہت سارے راویوں کی زبان پر خاندان نبوت کی فضیلت اور منا قبت پر دلالت کرنے والی روایات جاری ہو نے پر ان کی زبانیں کا ٹی گئیں جب معاویہ کا دور شروع ہوا تو حضرت علی کی تلوار سے نصب کئے ہو ئے ممبروں سے حضرت علی کی شان میں نازیبا اور نا سزا الفاظ کو استعمال کر نا نماز جمعہ کے خطبوں میں مسلمانوں کی سیرت بن گئی ان تمام مطالب کا مقصد یہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہراسلام اللہ علیہا کے ہاتھوں اسلام کی جو آبیاری ہوئی تھی اگر اسلام کی آبیاری پیغمبر اکر م کے بعد بھی ان کے ہا تھوں ہو جا تی تو معا شرے میں عدالت اور حکو مت اسلامی کی تقویت ہو تی لہٰذا ما دی مقاصد کے ساتھ زبان پر اسلام کا نعرہ بلند کر نے والوں کو لو گوں پر تسلط جما نے کا موقع نہیں ملتا اسی لئے پیغمبر اکر م کی رحلت کو غنیمت سمجھ کر حضرت علی اور حضرت زہرا کو اسلام سے بے دخل کر کے اپنے آپ کو رسول کا جا نشین منوا یا اور حکو مت اسلامی پر نا اہل قابض ہو گئے جس کا نتیجہ آج اکیسویں صدی میں مسلمان حضرات بہتر جا نتے ہیں کہ سب کا عقیدہ ہے اسلام تمام نظاموں سے بالاتر ہے اس کے باوجود اکیسویں صدی کی آبادی میں صر ف ایک ارب مسلمان بتائے جا تے ہیں جب کہ پانچ ارب آبادی اسلام کے مخالف نظر آتی ہے ۔

۷۵

چوتھی فصل:

حضرت زہرا کی سیرت

ہر انسان کی فطرت ہے کہ جب کسی دور میں کسی ہستی کی سیرت دنیوی اور اخروی زندگی کی کا میا بی اور سعا دت کے لئے مشعل راہ ہو تو اس کی سیرت پر چلنے کا خوا ہاں ہو تا ہے اسی لئیے شریعت اسلام میں عقلاء کی سیرت کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اگر عقلاء کی سیرت کے اتصال کا سلسلہ زمان معصوم تک کشف ہو تو اس کو برہان قرار دیا ہے لہٰذا حضرت زہرا کی سیرت ہم سب کے لئے اس دور حا ضر میں بہتر ین نمونہ عمل ہے کیو نکہ حضرت زہرا کی سیرت سے ہٹ کر غور کر یں تو ہمارا زمانہ سوائے گمراہی اور زرق وبرق کے علاوہ کچھ نہیں ہے اگر چہ آپ کی سیرةطیبہ کی تشریح کر نا اس مختصر کتا بچہ کا مقصد نہیں تھا فقط نمونہ کے طور چند پہلو قابل ذکر ہے:

۷۶

الف۔ ازدواجی کا موں میں آپ کی سیرت

شاید کا ئنات میں انسان کے نام سے کوئی ہستی اذدواج اور شادی کے مخالف نہ ہو، لہٰذا آدم سے لے کر خاتم تک تمام ادیان الٰہی نے ازدو اجی زندگی کو انفرادی زندگی سے افضل قرار دیتے ہو ئے شادی کی ترغیب دی گئی ہے حتی پیغمبر اکرم کا دین جو باقی تمام ادیان الٰہی کا خلاصہ اور نچوڑ سمجھا جا تا ہے اس میں شادی اور ازدوا جی زندگی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ فرما یا کہ جو ازدواج اور شادی کے مخالف ہے: '' فلیس منی'' لہٰذا ہمارے زمانے کے محققین میں سے کچھ نے شادی کے مسئلہ کو ایک امر طبعی دوسرے کچھ محققین اس کو امر فطری سمجھتے ہیں ۔

اگر چہ جناب افلاطون کے حالات زندگی کا مطالعہ کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ ازدواج اور شادی کو سلب آزادی کا سبب سمجھتا تھا تب ہی تو انہوں نے آخری عمر تک اسی نظر یہ کی بناء پر ازدواج کا اقدام نہیں کیا لیکن مو ت سے پہلے پھر بھی شادی کر کے دنیا سے رحلت کی اگرچہ کو ئی اولاد اور وارث ان سے وجود میں نہ آیا پس ازدواجی زندگی اور شادی کا مسئلہ ہر دور میں تھا اور قیامت تک رہے گا اگرچہ شادی کی کیفیت اور کمیت کے حوالہ سے ہر انسان کی طبیعت میں تفاوت ہی کیوں نہ ہو، لیکن ہم مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ازدواج اور شادی جیسے اہم مسئلہ میںحضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسی ہستی کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دینا چا ہئے تاکہ بہت سارے مفاسد اور اخروی عقاب سے نجات مل سکے آپ کی شادی کے بارے میں دو نظریہ مشہورہیں : ۱)روز پنجشنبہ سوم ہجری اکیسویں محرم کی رات کو ہوئی۔(۱)

____________________

(۱) بحارالا نوار جلد ۴۳ ص۹۳

۷۷

۲)آپ کی شادی جناب محدث قمی اور شیخ طوسی و شیخ مفید کے نقل کے مطابق یکم ذالحجہ چھ ہجری کو ہوئی۔(۱)

آپ کی شب زفاف کو جبرائیل دائیں طرف میکا ئیل بائیں طرف سترہزار فرشتے لے کر صبح تک تقدیس وتسبیح میں رہے(۲)

جعفر ابن نعیم نے احمد ابن ادر یس سے وہ ابن ہاشم سے وہ علی ابن سعید سے وہ حسین ابن خالد سے وہ جناب امام رضا علیہ اسلام سے روایت کی ہے:

قال علی قال لی رسول الله ۔۔۔(۳)

تر جمہ )حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا مجھ سے پیغمبر اکر م نے فرمایا اے علی قر یش کے مردوں نے زہرا سے خواستگار ی کر کے مجھے تھکا دیا اور مجھ سے کہنے لگے کہ آپ زہرا کی شادی ہم میں سے کسی سے نہیں کر نا چاہتے بلکہ علی سے ان کی شادی کر نے کے خواہشمند ہیں میں نے ان سے کہا خدا کی قسم میں نے منع نہیں کیا ہے بلکہ خدا نے منع کیا ہے اور خدا نے ہی زہرا کی شادی علی سے کر ائی ہے اور جبرائیل نازل ہو کر کہا اے حضرت محمد خدا نے فرمایا ہے اگر میں علی کو خلق نہ کر تا تو تیری بیٹی فاطمہ کو روئے زمین پر کوئی شریک حیات نہیں ملتا ۔

____________________

(۱)مفاتیح الجنان

(۲) بحارالا نوار جلد ۴۳ ص۹۳.

(۳) بحارالا نوار جلد ۴۳ ص۹۳.

۷۸

اگر چہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ شادی کر نے کی خاطر خواستگار ی کے پروگرام میں بہت سارے صحابہ شریک ہو کر خیالی پلائو کھا یا تھا لیکن خدا نے ہی ان کے خام خیالی کو خاک میں ملادیا اور بارہا پیغمبر اکر م نے حضرت زہرا سے خواستگار ی کر نے والے صحابہ سے فرمایا حضرت زہرا کی شادی کا مسئلہ خدا کے ہاتھ میں ہے پھر بھی اکثر او قات پیغمبر اکرم صحابہ کرام کی تکرار کے مطابق حضرت زہرا( س) سے پوچھا کر تے تھے کیا آپ فلاں صحابی کے ساتھ اذدواج کر نے پر راضی ہیں ؟

لیکن حقیقت میں پیغمبر اکر م کا اس طرح زہرا(س) سے سوال کر نا ان کی سیاست تھی کیو نکہ اگر پیغمبر قبل ازوقت حقیقت اور واقعیت کو بیان فرما تے تو مزید دشمنی اور عداوت کا باعث تھا لہٰذا پیغمبر اکرم ظاہری طور پرحضرت زہرا(س)سے پوچھتے تھے اور حضرت زہرا(س) اظہار نارضایتی فرما ئی تھی۔

ان مختصر روایات سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اگر کسی کی بیٹی کے لئے کو ئی دولت مند نام نہاد رشتہ آئے تو فوراً اس کی شہرت اور دولت کی وجہ سے قبول نہ کیجئے بلکہ بیٹی کے لئے ایک ایماندار اور امین شوہر کا انتخاب کر نا والدین کی ذمہ داری ہے کیو نکہ پیغمبر اکرم نے اتنے اصحاب جو دولت اور شہرت کے حوالے سے کسی سے پوشیدہ نہیں تھے جب حضرت زہرا (س) سے رشتہ کے طالب ہوئے تو کسی کو قبول نہیں فرمایا اسی لئے جب اصحاب حضرت زہرا(س) سے خواستگاری کر نے کے بعد نا امید ہو گئے تو وہی اصحاب حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں کہنے لگے اے علی پیغمبر اکر م اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کر نا چا ہتے ہیں

۷۹

آپ پیشکش کیجئے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم خود بندوست کریں گے حضرت علی نے ان کے مشور ہ کو قبول فرمایا اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیغمبر بھی ایسی ہستی کی پیشکش کے منتظر تھے اسی لئے جب حضرت علی نے خواہش کا اظہار فرمایا تو آنحضرت کا چہرہ منور اور خوشی سے چمک اٹھا اور فرما یا اے علی انتظار کیجئے میں فاطمہ سے اجازت لے لوں پیغمبر اسلام جناب سیدہ کی خدمت میں پہنچے اور فرمایا :

''اے زہرا آپ حضرت علی کی حالت سے واقف ہیں وہ آپ کی خوستگاری کو آئے ہیں کیاآپ ان سے شادی کر نے پر راضی ہیں ؟ جناب سیدہ شرم کی وجہ سے خاموش رہیں اور کچھ نہ بولیں آنحضرت ان کی خاموشی کو رضایت کی علامت قرار دیتے ہوئے حضرت علی کی خدمت میں آئے اور مسکر اتے ہو ئے فرمایا ، اے علی شادی کے لیے آپ کے پاس کیا چیز ہے ؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اے خدا کے حبیب میرے ما ںباپ آپ پر قربان ہو جا ئیں آپ میری حالت سے بہتر آگاہ ہیں میری پوری دولت ایک تلوار ،ایک ذرہ اور ایک اونٹ ہے(۱)

____________________

(۱)بحارجلد ۴۳ ص۱۳۳.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سے متاثر نہ ہونا''

۲)___ جب امام حسین علیہ السلام شہادت کے لئے تیار ہوگئے تو اپنے اصحاب سے یوں فرمایا:

'' کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ باطل سے نہیں روکا جا رہا ہے_ اس حالت میں مومن کو چاہیئے کہ اللہ تعالی کی ملاقات اور شہادت کے لئے آمادہ ہوجائے کیونکہ میرے نزدیک راہ خدا میں مرنا سوائے سعادت و کامیابی کے کچھ نہیں ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی سوائے افسردگی، دل تنگی، رنج اور مشقت کے کچھ نہیں ہے''

کیا ان دو پیغاموں میں خوف اور ڈرکی کوئی جھلک ہے؟ کیا ظالموں کے سامنے سر نہ جھکانے میں ذلّت و خواری ہے؟ نہیں ہرگز نہیں جو شخص شہادت کو سعادت جانتا ہوگا وہ کبھی بھی ظلم و ستم کے سامنے سر نہ جھکائے گا_ نہ صرف ہمارے ائمہ علیہم السلام اس طرح کے تھے بلکہ ان کے صحیح پیروکار اور شاگرد بھی اسی طرح کے تھے ان صحیح پیروکاروں کی بعض اہم وصیتوں کی طرف توجہ کرو_

( یہ ان لوگوں کی وصیتیں نقل ہو رہی ہیں جو عراق و ایران جنگ میں ایران کی طرف سے شہید ہوئے ہیں)

۱)___ ان میں سے ایک حوزہ علمیہ قم کے طالب علم محمود صادقی کاشانی ہیں؟

اپنے وصيّت نامہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:

'' بسم رب الشّهداء اشهد ان لا اله الّا الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمدا عبده و رسوله''

۲۴۱

خدا کا شکر ہے کہ میں نے حق کی جنگ میں جو باطل کے خلاف ہو رہی ہے شرکت کرنے کی سعادت حاصل کی ہے میرے پاس جو کچھ ہے میں نے مخلصانہ طور پر اللہ کے سامنے پیش کردیا ہے جس چیز کے اردگرد امام حسین علیہ السلام، ان کے یاران وفادار اور صدر اسلام کے شہید، پروانہ کی طرح چكّر لگا رہے تھے میں نے ھی اسے پالیا ہے یعنی وہ ہے ''شہادت''

آیا کوئی شخص یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ظالم و متجاوز اس کے اسلام و عزّت اور وطن کی طرف ہاتھ بڑھائے اور وہ خاموش دیکھتا رہے؟

اب میں جا رہا ہوں تا کہ اپنے خدا سے ملاقات کروں اس آگ کو جو میرے اندر جل رہی ہے اسے بجھا سکوں_ میں بھی اب اس باصفا جنگ کے آشیانہ کی طرف پرواز کر کے اپنے جنگجو بھائیوں کے خالی مورچوں (محاذوں) کی طرف جا رہا ہوں لیکن مجھے اپنے رہبر زمانہ، حجّت عصر نائب امام آیت اللہ خمینی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) جو آج کے بت شکن ہیں کی قدر دانی کرنی چاہیئے کیونکہ انھوں نے مجھے دنیا کے گرداب اور تاریکیوں سے کہ جن میں گر کرہیں تباہ ہونے کے قریب تھا اور وہ میرے ہادی و رہنما ہیں_

اے میرے جنگجو ساتھیو اور دوستو تم بہتر جانتے ہو کہ یہ انقلاب جو ایران میں لایا گیا ہے کس طرح کامیاب ہوا ہے

کتنے علی اکبر (ع) ، علی اصغر (ع) اور حبیب ابن مظاہر (ع) کے نقش قدم

۲۴۲

پر چلنے والوں کے قتل کئے جانے سے کامیباب ہوا ہے خدا نہ کرے کہ تم اس انقلاب سے بے توجہ ہوکر بیٹھ جاؤ اوردنیا کو آخرت پر ترجیح دو_ کسی غم و اندوہ کو اپنے پا سنہ آنے دو کیونکہ ہم ہی کامیاب ہیں_

اے میرے ماں باپ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں؟ ابّا جان مجھے یاد ہے کہ جب آپ قم آئے تھے تو میںنے دوسرے لوگوں سے کہا تھا کہ باپ کی رضا (جنگ میں جانے کے لئے) ضروری ہے لہذا آپ بغیر کسی دریغ کے دفتر میں گئے اور اپنے راضی نامہ پردستخط کردیا_

اے میری ماں مجھے یاد ہے کہ تونے میرے بڑا کرنے میں بڑی زحمتیں اٹھائی ہیںاور آخری وقت جب میں تم سے جدا ہو رہا تھا تو یوں کہا تھا کہ:

'' محمود ہوشیار رہنا اور بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''

میری پیاری ماںمیں محاذ جنگ پر تھا تو مجھے برابر تمھارا یہ جملہ یاد آتا تھا کہ بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''_ امّاں میری موت پر کہیں بے قرار نہ ہونا، لباس نہ پھاڑنا اور آخری عمر تک ناراضگی کی آگ میں نہ جلاتے رہنا کیونکہ یہ دشمن کے طعن و تشنیع کا موجب ہوجائے گا_ میں اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں کو وصيّت کرتا ہوں کہ اس انقلاب سے اور تمام جہان کے محروم طبقے کے رہبر انقلاب سے

۲۴۳

کنارہ کشی نہ کرنا_ خدا تمھارا یار و مددگار ہو''

۲)___ تہران کے شہید سيّد علی اکبر میر کوزہ گرنے اپنے بہترین اورپر مغز وصیت نامہ میں یوں تحریر کیا ہے:

'' حقیقت کے ترازو میں اللہ تعالی کے نزدیک کوئی قطرہ اس خون کے قطرہ سے کہ جو راہ خدا میں بہایا جائے بہتر نہیں ہوتا اور میں چاہتا ہوں کہ اس خون کے قطرے سے اپنے معشوق تک پہونچوں کہ جو خدا ہے_

میں وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد گریہ و زاری نہ کرنا میرے تمام دوستوں کومبارکباد دینا اور کہنا کہ وہ اس امّت اسلامی کے رہبر اور نائب امام کا ہدیہ خدا کی راہ میںہے اسی وجہ سے سيّد، جہاد کے لئے گیا ہے اور جام شہادت نوش کیا ہے''

اس شہید کے پیغام کو سنو کو ''جہاد'' دو چیزیں چاہتا ہے:

ایک وہ خون جو شہید دیتا ہے_

دوسرے شہید کا پیغام جو سب تک پہونچنا چاہیئے_

''میر باپ سے کہدینا کہ اب ہم اپنے جدّ بزرگوار کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ ان کا فرزند اس راستہ پرگیا ہے کہ جس پر امام حسین علیہ السلام اوران کی اولاد گئی تھی_ ابّا جان میری وصیت آپ کو یہ ہے کہ میرے مشن کو آگے بڑھائیں''

۳)___ خرّم شہر (جسے خونین شہر بھی کہا جاتا ہے) کے ایک فداکار پاسدار شہید حسین حمزہ کہ جنھوں نے صحیح طور سے قرآن اور وطن کی شجاعانہ و فداکارانہ پاسداری

۲۴۴

کی تھی وہ اپنی ماں کو آخری خط مں یوں لکھتے ہیں:

'' اب جب کہ تیس دنوں سے کفّار کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں اور ہر دن اس امید پر دیکھتا ہوں کہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اتنی طویل مدّت تک کیوں شہادت کا افتخار مجھے نصیب نہیں ہوا

میری پیاری ماں

میں نے تم کو بہت ڈھونڈا تا کہ تمھاری وصیت کو سنوں لیکن تمھیں نہیں پایا_ جنگ کی ابتداء سے آج تک (یعنی ۲۳/۷/ ۵۹ شمسی) ہمیشہ تمھاری ملاقات کی فکر میں تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا_

امّا جان

اگر تم مجھے نہ دیکھ سکی تو مجھے بخش دینا، تم بہتر جانتی ہو کہ میں اس انقلاب کی ابتداء سے ہمیشہ چاہتا تھا کہ اس مین میرا حصّہ رہے_ مادر جان میری موت کی خبر سننے کے بعد اشک نہ بہانا اور میری بہنون سے بھی کہنا کہ میری موت پر اشک نہ بہائیں کیونکہ ہمارے موالا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند کی موت پر اشک نہیں بہائے تھے چونکہ حضرت جانتے تھے کہ اللہ کی رضا اسی میں ہے_

مادر گرامی

شائد میرا قرآن و اسلام کی راہ میں مرنا جوانوں میں جوش پیدا کردے نہ صرف میری موت پر بلکہ تمام شہداء کی موت پر کہ جو

۲۴۵

اللہ کی راہ میں اسلام کے مقدس ہدف کے لئے ہوتی ہے، تم بھی خوش ہونا کہ اپنے فرزند کو راہ اسلام میں قربان کیا ہے_ آخرت میں حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام تم سے کوئی گلہ اور شکوہ نہ کریں گی_

یہ خط ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں کہ دشمن کے توپوں اور گولیوں کی آواز ہر طرف سے آرہی ہے_ میں اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تکبیر کہتے ہوئے تو پوں کے گولے پھٹنے سے شہید ہو رہے ہیں_

اے میرے خدا تجھے تیری وحدانيّت کی قسم دیتا ہوں اسلام کی راہ میں مجھے شہادت نصیبت کر اور میرے گناہوں کو بخش دے مجھے شہداء کی صف میں قرار دے_

خدایا مجھے طاقت و قدرت عنایت فرما اور مجھ پر لطف کر کہ عمر کے آخری لمحے تک تیرا نام میری زبان پر جاری رہے_ شکر ہے اس خدائے بزرگ کا کہ جس نے مجھ پر عنایت فرمائی ہے کہ میں اپنی جان اسلام پر قربان کروں، اسلام کامیاب ہو اور اسلام و قرآن کے دشمن نابود ہوں_ سلام ہو اس امت اسلامی کے رہبر انقلاب آقائے خمینی پر_ خداحافظ''

ان شہیدوں کے پیغام کا متن دوسرے ہزاروں شہیدوں کے پیغام کی طرف انقلاب اسلامی کی کتابوں کے بہترین صفحات پر لکھا جائے گا ہمیشہ کے لئے رہ جائے گا اور یہ آزادی و جاودانی کا درس ہوگا_ اے پڑھنے والے طالب علمو تم اس ا بدی پیغام کو دوبار پڑھنا، شہیدوں و آزاد منشوں کے پیغام سے زندگی، آزادی، شجاعت، دلیری، ایثار، مہربانی، عشق، خداپرستی، اخلاص و ایمان کا درس حاصل کرنا_

۲۴۶

سوالات

سوچویے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۲)____ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی عمر کے آخری لمحہ میں کیا کہا تھا؟ اس وصيّت میں کن کن چیزوں کو بیان کیا ہے؟

۳)___ امام حسین علیہ السلام نے راہ خدا میں قتل ہوجانے کے متعلق کیا فرمایا ہے؟ مومن کوکب شہادت اور فداکاری کے لئے تيّار ہوجانا چاہیئے؟

۴)___ طالب علم کاشانی نے اپنے وصیت نامہ کو کن جملوں سے شروع کیا ہے؟ درج ذیل جملوں کو اس کی وصيّت کے مطالعہ کے بعد پورا کیجئے:

۱)__ '' خدا کا شکر کہ مجھے توفیق ملی

۲)__ کیا کوئی برداشت کرسکتا ہے کہ

۳)__ میں اب اپنے ساتھیوں کے خالی مورچے

۴)__ اپنے رہبر، حجّت زمان، نائب امام (ع)

۵)__ خدا کرے کہ تم کفّار

۶)__ ابّا جان آپ کو یاد ہے جب آپ قم آئے تھے تو

۷)__ امّا جان مجھے یاد ہے

۸) میرے خاندان او ردوستوں کو

۲۴۷

بہادر فوجیوں اور لڑنے والوں کے لئے دعا

امام زین العابدین علیہ السلام نے ''صحیفہ سجّادیہ'' میں اسلامی سرزمین کے محافظ فوجیوں کے لئے دعا فرمائی ہے کہ جس کے بعض جملوں کا ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے،

''بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

خدایا محمد اور آل محمد علیہم الصّلوة والسّلام کی پاک روح پر رحمت نازل کر اور مسلمانوں کے ممالک کی سرحدوں کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھ، سرحدوں کے قریب رہنے والوں کی حفاظت کر اور اپنے لطف و کرم کو ان پر زیادہ کر_

خدایا محمّد و آل محمّد علیہم السلام کی پاک روح پر درود بھیج سربازوں و پاسداروں کی تعداد میں اضافہ فرما اور ان کے ہتھیاروں کو دشمنوں کے خلاف تیزو کارگر، ان کے مورچوں کو شکست سے محفوظ رکھ_

اے میرے اللہ اسلام کے سپاہیوں کے حملوں کو دشمن کے ضرر سے محفوظ رکھ، لڑنے والوں میں اتحاد، برادری و ہمکاری کے رشتے کو مضبوط کر اور انھیں ان کے کاموں کو منظم

۲۴۸

طور سے بجالانے کی توفیق عنایت فرما_

خدایا اپنے لطف سے ان کے خرچ کو پورا کر اور لڑائی کے وقت ان کا یار و مدددگار بن، اے میرے اللہ صبر و استقامت کے سائے میں انھیں کامیاب فرما، فوجی نقشے اور منصوبے میں ان کی راہنمائی فرما_

یا اللہ محمّد و آل محمد علیہم السلام کی پاک روح پر درود و رحمت بھیج ، خدایا ہمارے لڑنے والے فوجیوں کے دلوں کو جب وہ دشمن سے لڑ رہے ہوں دنیا کی فکر سے بے نیاز کردے ، ان کی توجہ زر و جواہر اور مال دنیا سے دور کر، انھیں اس طرح کردے کہ جنّت بریں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں، بہشت کی عمدہ منازل و بہشتی فرشتوں کو دیکھ رہے ہوں، بہشت میوے، بلند درخت اور نہروں کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں، اولیائ، ابرار و شہداء کی صحبت میں رہنے کے مشتاق ہوں تا کہ وہ ان ذرائع سے خوف کو اپن دل میں نہ آنے دیں، ان کی قوّت میں استحکام پیدا ہو وہ باقوت ہوکر بہتر جنگ کرسکیں اور ہرگز ان کے دل میں فرار کا خیال نہ پیدا ہو_

خدایا ان سربازوں کے وسیلے سے کہ جنھوںنے اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھی ہے دشمن کی طاقت کو شکست دے، دشمن کے درمان اختلاف پیدا کر، ان کے دلوں سے سکون و آرام کو ختم کر، ان کے ہاتھوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے خالی کر،

۲۴۹

حیرت و پریشانی میں مبتلا کر،انھیں مدد و حمایت کرنے والوں سے محروم کر، ہمیشہ ان کی تعداد میں کمی کر اور ان کے دلوں کو خوف و ہراس سے پر کر_

اے میرے اللہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں کو تجاوز سے روک دے اور ان کی زبان کو گنگ کردے_ خدایا اس طرح ظالموں پر ہلاکت کو مسلّط کر کہ دوسروں کے لئے عبرت کا درس ہوجائے تا کہ دوسرے جرات نہ کرسکیں کہ وہ ہماری سرحدوں پر حملہ کرسکیں اور اسلامی مملکت پر تجاوز کرسکیں_

پروردگار

وہ فوجی جو اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی فتح کے لئے لڑ رہے ہیں ان کی تائید فرما، لڑائی کی مشکلات کو ان پر آسان کر، اور انھیں فتح نصیب کر_ خدایا جنگجو ساتھیوں کے ذریعہ انھیں قوی کر اور اپی نعمتوں کو ان کے لئے زیادہ کر، خدایا شوق و ذوق کے اسباب ان کے لئے فراہم کر اور اپنے رشتہ داروں کے دیدار کو ان کے دلوں سے ختم کر اور وحشت و تنہائی کے غم کو ان کے دلوں سے دور کر_

خدایا فوجیوں کے دلوں کو بیوی اور اولاد کے احساس فراق کو ختم کر، انھیں حسن نیت، سلامتی و عافيّت عنایت فرما، دشمن کا خوف ان کے دلوں سے نکال دے اور انھیں عزّ و شہادت

۲۵۰

الہی

دشمن کے ساتھ لڑائی میں انھیں سخت مقابلہ اور مقاومت کی صلاحيّت عطا کر_ خدایا ہمارے سپاہیوں کو عمل و دینداری کا جذبہ عطا کر اور فیصلہ کرنے میں ان کی صحیح راہنمائی فرما_ پروردگارا اپنے لطف سے ان کو ریاء اور خودپسندی سے دور رکھ_ الہی انھیں اس طرح کردے کہ ان کی فکر، رفتار و گفتار اور حضر و سفر فقط تیرے راستے اور تیرے لئے ہو_

خداوندا

لڑائی کے وقت دشمنوں کو ان کی نگاہ میں ضعیف دکھا، ان کو دشمنوں کے اسرار اور بھیدوں سے مطلع کردے اور خود ان کے بھیدوں کو دشمنوں سے مخفی کر_ الہی اگر وہ شہادت کے درجہ پر فائز نہ ہوئے ہوں تو انھیں اس طرح کردے کہ وہ دشمن کی ہلاکت ، اسارت اور فتح و کامیابی کے بعد یقینا مسلمان ہوں_

خدایا

جو مسلمان بھی لڑنے والوں کی غیر حاضری میںان کے اہل و عیال کو پناہ میں لے لے اور ان کی ضرورتوں کو پوری کرتا رہے یا لڑنے والوں کے لئے جنگی ہتھیار و قوّت مہیا کرے یا وہ ان کی حوصلہ افزائی کرے تو اس قسم کے مسلمانوں کو اسلام کے سربازوں کا ثواب عطا فرما_ خدایا جو مسلمان، پاسداروں کے سامنے ان کی تعریف و ستائشے کرے یا ان کا شکریہ ادا کرے اور انکی غیر حاضری

۲۵۱

میں ان کی تعریف کرے تو اس قسم کے مسلمان کو جو زبان سے دین کے محافظین کی تعریف اور شکریہ ادا کرے لڑنے والوں کا ثاب و جزاء عنایت فرما اور آخرت کے ثواب و جزاء سے پہلے اسی دنیا میں اسے جزائ، خوشی و شادمانی اور نشاط بخش دے_

پروردگارا

جو مسلمان، اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہے اور مسلمانوں کے مصائب سے رنجیدہ ہوتا ہے، راہ خدا میں جہاد کو دوست رکھتا ہے لیکن جسمی ناتوانی و کمزوری یا مالی فقر یا کسی دوسرے شرعی عذر کی وجہ سے خود جہاد میں شرکت نہیں کرسکتا اس کا نام بھی عبادت کرنے والوں میں درج کر، جہاد کا ثواب اس کا نامہ اعمال میں لکھ دے اور اسے شہداء و صالحین میں شمار کر''

آمین با ربّ العالمین

۲۵۲

مندرجہ ذیل کلمات کو ملا کر ایک دعائیہ جملہ بنایئے

۱)___ خدایا اسلامی مملکت کی سرحدوں کو_ دشمن _ حملے_ پناہ میں رکھ _

۲)___ خدایا _ محافظین_ میں اضافہ فرما_

۳)___ فوجیوں_ مورچوں_ بے آسیب_ دے_

۴)___ اتحاد کو_ میں_ محکم_ دے_

۵)___ سربازان اسلام_ کو نور_ روشن کردے_

۶)___ فوجیوں کو_ کردے کہ وہ_ آنکھوں_ کو دیکھیں_

۷)___ خدایا _ ہتھیلی_ جان_ رکھنے والوں کی وجہ _ کی طاقت کو ختم کردے_

۸)___ خدایا _ جو مسلمان مجاہد_ میں_ مدد_ ہے_

۹)____ خدایا _ آخرت کی جزاء سے_ دنیاوی _ فرما_

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجیئے

۱)___ امام زین العابدین علیہ السلام دعا کے ضمن میں کن صفات کی اسلام کے فوجیوں کے لئے تمنّا کر رہے ہیں؟ ان میں سے پانچ صفتوں کو بیان کرو_

۲)___ امام علیہ السلام نے ''خدایا دشمن کی طاقت کو ختم کردے'' کے جملے کے بعد کون سی چیز کو دشمن کی شکست کا سبب قرار دیا ہے؟

۳)___ تین گرہوں کو بیان کر و جو مجاہدین کے ساتھ کے ثواب میں شریک ہوتے ہیں؟

۲۵۳

اگر ماں ناراض ہو

ایک جوان بہت سخت بیمار ہوگیا اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا_ اس خبر کے سنتے ہی اس کے رشتے دار کی عیادت کے لئے گئے_ جوان موت و حیات کے عالم میں زندگی گذار رہا تھا درد و تکلیف سے نالہ و زاری کر رہا تھا، کبھی اسے آرام آتا اور کبھی تڑپنے لگتا اس کی حالت ، غیر تھی_

پیغمبر اسلام(ص) کو خبر دی گئی کہ ایک مسلمان جوان مدّت سے بستر بیماری پر پڑا ہے اور جان کنی کے عالم میں ہے_ آپ(ص) اس کی عیادت کے لئے تشریف لے آئیں شائد آپ کے آنے کی برکت سے اسے آرام ہوجائے_ پیغمبر اسلام (ص) نے ان کی دعوت قبول کی اور اس جوان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ اس کی حالت نے پیغمبر اسلام(ص) کو متاثر کیا_ کبھی وہ ہوش میں آتا اپنے اطراف میں دیکھتا، فریاد کرتا اور کبھی بے ہوش ہوجاتا اس کی صورت بہت خوفناک ہو رہی تھی_

وہ بات بھی نہیں کرسکتا تھا گویا کوئی اسی چیز دیکھ رہا تھا جو ددوسرے نہیں دیکھ رہے تھے اور شائد اپنی زندگی کے آخری لمحات کو کاٹ رہا تھا اور اس کے سامنے آخرت کا منظر تھا اور وہاں کی سختی و عذاب کا مشاہدہ کر رہا تھا_

پیغمبر اسلام(ص) کہ جو دونوں جہاں سے آگاہ تھے آپ نے اس سے پوچھا:

'' تم کیوں اتنے پریشان ہو؟ کیوں اتنے رنج میں ہو اور فریاد کر رہے ہو؟

۲۵۴

جوان نے آنکھیں کھولیں اور پیغمبر اسلام(ص) کے نورانی چہرہ کی زیارت کی اور بہت زحمت و تکلیف سے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) مجھے معلوم ہے کہ یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں میں آخرت کی طرف جا رہا ہوں اب میں دو ترسناک اور بدنما شکلیں دیکھ رہا ہوں جو میری طرف آرہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ میری روح کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں گویا چاہتی ہیں کہ مجھے میرے برے کام کی سزادیں_ یا رسول اللہ (ص) میں ان دونوں سے ڈرتا ہوں آپ میری مدد کیجئے''

پیغمبر اسلام (ص) نے ایک ہی نگاہ سے سب کچھ سمجھ لیا تھا وہاں بیٹھنے والوں سے فرمایا:

'' کیا اس جوان کی ماں ہے؟ اسے یہاں بلایا جائے''

اس کی ماں نے بلند آواز سے گریہ کیا اورکہا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں نے اپنے اس بیٹے کے لئے بہت تکلیفیں اٹھائیں کئی کئی راتیں جاگتی رہی تا یہ سوجائے کتنے دنوں میں نے کوشش کی کہ یہ آرام سے رہے، کبھی خود بھوکی رہتی اور اپنی غذا اسے دے دیتی، اپنے منھ سے لقمہ نکال کر اس کے منھ میں ڈالتی، ان سب کے باوجود جب یہ سن بلوغ و جوانی کو پہونچا تو میری تمام زحمتوں کو بھلا بیٹھا، مجھ سے سختی سے پیش آنے لگا اور کبھی مجھے گالیاں تک دیتا_ یہ میرا احترام نہیں کرتا تھا اور اس نے میرا دل بہت دکھایا ہے _ میںنے اس کے لئے بد دعا کی ہے''_

۲۵۵

رسول خدا(ص) نے اس کی ماں سے فرمایا:

'' یقینا تیرے بیٹے کا سلوک تیرے ساتھ برا تھا اور تجھے ناراض ہونے کا حق ہوتا ہے لیکن تم پھر بھی ماں ہو، ماں مہربان اور در گذر کرنے والی ہوا کرتی ہے اس کی جہالت کو معاف کردے اور اس سے راضی ہوجاتا کہ خدا بھی تجھ سے راضی ہوجائے''

اس رنجیدہ ماں نے ایک محبت آمیز نگاہ اپنے بیٹے پر ڈالی اور کہا:

'' خدایا میںنے تیرے پیغمبر(ص) کی خاطر اپنے بیٹے کو بخش دیا ہے تو بھی اسے بخش دے'' _

پیغمبر اسلام(ص) نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراس کے بیٹے کے حق میں دعا کی اور جوان کے لئے خدا سے مغفرت طلب کی_ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعا اور اس کی ماں کے راضی ہونے کے سبب اس جوان کے گناہ بخش دیئے_

اس وقت جب کہ جوان اپنی عمر کے آخری لمحات کاٹ رہا تھا اس نے آنکھ کھولی، مسکرایا اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہ خوفناک دو شکلیں چلی گئی ہیں اور دو اچھے چہرے میری طرف آرہے ہیں'' _

اس وقت اس نے اللہ تعالی کی وحدانيّت اور حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی نبوّت کی گواہی دی اور مسکراتے ہوئے ا س کی روح، قفس عنصری سے پرواز کرگئی_

۲۵۶

خداوند عالم قرآن میں ماں باپ کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کی بے احترامی ہرگز نہ کرنا اور بلند آواز سے ان سے گفتگو نہ کرنا ہمیشہ مہربانی اور ادب سے ان کے ساتھ بات کرنا''_

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

'' جو شخص رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ کے پیوند کو مضبوط کرے اورماں باپ کے ساتھ خوش رفتار و مہربان ہو تو اس پر موت کی سختیاں آسان ہوجاتی ہیںاور دنیا میں بھی فقیر و تہی دست نہیں رہتا''_

قرآن کی آیت:

( وقضی ربّک الّا تعبدوا الّا ايّاه و بالوالدین احسانا اما یبلغنّ عندک الکبر احدهما او کلاهما فلا تقل لهما اف و لا تنهرهما و قل لهما قولا کریما ) (۱)

'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش مت کرم اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کی ہرگز بے احترامی نہ کرو اور بلند آواز سے ان کے س اتھ کلام نہ کرو اور ہمیشہ مہربان اور با ادب ہوکر ان کے ساتھ گفتگو کرو_

____________________

۱) سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۳

۲۵۷

چھٹا حصّہ

امامت اور رہبری کے بارے میں

۲۵۸

رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت

پیغمبر اسلام(ص) کی بعثت کے تین سال گذرچکے تھے آپ کی اس مدت میں اسلام کی طرف دعوت مخفی تھی_ لوگ بلکہ پیغمبر اسلام(ص) (ص) کے رشتہ دار آپ کی دعوت سے صحیح طور سے مطلع نہ تھے لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کھلے عام اسلام کی طرف دعوت دیں تا کہ سبھی تک آپ کا پیغام پہونچ جائے لہذا اس عمومی پیغام کی ابتداء اپنے قبیلے اور رشتے داروں سے شروع کی کیونکہ یہ لوگ پیغمبر اسلام (ص) کو بہتر طور سے جانتے تھے اور آپ کی صداقت سے بخوبی واقف تھے_ اسی دوران اللہ تعالی کی طرف سے یہ پیغام آیا:

'' اپنے رشتے داروں و قریبیوں کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤ اور جو لوگ تمھاری پیروی کرتے ہیں ان سے نرمی و تواضع سے پیش آؤ'' _

تمھیں علم ہوگا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے اس حکم کو حضرت علی علیہ السلام کے درمیان رکھا اور انھیں حکم دیا کہ غذا مہیا کرو، رشتے داروں اور اپنی قوم کو دعوت دوتا کہ میں انھیں اسلام کی دعوت دوں_ حضرت علی علیہ السلام نے غذا مہيّا کیا اور اپنے رشتے داروں کو دعوت دیا_

مہمانی کاون آپہونچا، تقریبا چالیس آدمی پیغمبر(ص) کے قریبی رشتے دار اس دعوت میں شریک ہوئے_ پیغمبر اسلام (ص) نے بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا اورانھیں

۲۵۹

خوش آمدید کہا_

پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت علی علیہ السلام نے مہمانوں کی پذیرائی کی تھوڑے سے کھانے میں تمام کے تمام سیر ہوگئے_ کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے گفتگو کرنی چاہی اور جب آپ نے اپنے مقصد کو بیان کیا تو ابولہب نے آپ کی بات کو کاٹ دیا_ اپنی بیہودہ و بیکار باتوں سے مجمع کو درہم و برہم کردیا اکثر حاضرین نے شور و غل شروع کردیا اور پھر متفرق ہوگئے_ اس ترتیب سے یہ مہمانی ختم ہوگئی اورپیغمبر اسلام (ص) اپنے پیغام کو نہ پہونچا سکے_

لیکن کیا پیغمبر(ص) لوگوں کو ہدایت کرنے اور اپنا پیغام پہونچانے سے ہاتھ کھینج لیں گے؟ کیا آپ مایوس و نا امید ہوجائیں گے؟ کیا آپ ان سے غضبناک ہوجائیں گے؟ نہیں نہ تو آپ ہدایت کرنے سے دستبردار ہوں گے نہ مایوس و نا امید ہوں گے اور نہ غضبناک ہوں گے بلکہ آپ دوسری دفعہ ان کو مہمان بلاتے ہیں اور ان کی اسی خندہ پیشانی سے پذیرائی کر رہے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کی ہدایت کرنے او رانھیں نجات دینے کے لئے آئے ہیں_

کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' اے میرے رشتے دارو توجہ کرو اور میری بات کو غور سے سنو اگر بات اچھی ہو تو قبول کر لو اور اگر اچھی نہ تو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہو اور یہ بات صحیح نہیں کہ تم شور و غل کر کے مجلس کو دگرگوں کردو_

اے ابوطالب کی اولاد خدا کی قسم کوئی بھی آج تک ایسا ہدیہ اپنی قوم کے لئے نہیں لایا جو میں اپنی قوم اور رشتے داروں کے لے لایا ہوں میں تمھارے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302