‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110347 / ڈاؤنلوڈ: 3816
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اعصاب کے ذریعہ مغز تک منتقل کردیتے ہیں_

ہاضمہ کے خلیے اس کے لیس دار پانی کے ساتھ مل کر غذا کے ہضم کرنے کے نظام کو انجام دیتے ہیں_ یہاں تک کہ بدن کی ہڈیوں کے لئے بھی زندہ خلیے موجود ہوا کرتے ہیں_ بدن کے خلیے ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب سے بدن میں رکھے گئے ہیں ان کے درمیان تعجب آور ہماہنگی اور ہمکاری موجود ہے یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام اور ضرورت کو انجام دیتے ہیں_

یوں نہیں ہوتا کہ معدہ کے ہاضمہ کے خلیے صرف اپنے لئے غذا مہیا کریں بلکہ تمام بدن کے دوسرے خلیے کی بھی خدمات انجام دیتے ہیں اور تمام اعضاء کے لئے غذا بناتے ہیں اگر کسی عضو پر تکلیف وارد ہو تو تمام خلیے اکٹھے ہوکر اس عضو کی تکلیف کو درست کرنا شروع کردیتے ہیں_

ہاں بچو اس نظم و ضبط اور تعجب و ہمکاری سے جو ہمارے بدن میں رکھ دی گئی ہے اس سے ہم کیا سمجھتے ہیں___؟

کیا یہ نہیں سمجھ لیتے کہ ان کو پیدا کرنے والا عالم اور قادر ہے کہ جس نے ہمارے بدن میں ایک خاص نظام اور ہماہنگی کو خلق کیا ہے اور وہ عالم اور قادر ذات ''خدا'' ہے_

بچو تم جان چکے ہو کہ خلیے کس تعجب و نظم اور ترتیب سے ایک دوسرے کی ہمکاری کرتے ہیں___؟

۲۱

اور ایک دوسرے کی مدد و کمک کرتے ہیں اسی وجہ سے خلیے زندہ رہتے ہیں اور زندگی کرتے ہیں_

ہم انسان بھی خالق مہربان کے حکم اور اس کے برگزیدہ بندوں کی رہبری میں انھیں بدن کے خلیوں کی طرح ایک دوسرے کی مدد و ہمکاری اور کمک کریں اگر ہم ایک دوسرے کی مدد کیا کریں تو اس جہاں میں آزاد و کامیاب اور سربلند زندگی کرسکیں گے اور آخرت میں سعادت مند اور خوش و خرم ہوا کریں گے اور اللہ تعالی ہمیں بہت نیک جزا عنایت فرمائے گا_

میں تم سب سے خواہش کرتا ہوں کہ راستے میں جو انیٹیں پڑی ہوئی ہیں سب ملکر انھیں راستے سے ہٹاکر اس مکان کے اندر داخل کردو تا کہ ان مزدوروں کی مدد کرسکو''_

تمام بچوں نے اپنے استاد کی اس پیش کش کو خوش و خرم قبول کرتے ہوئے تھوڑی مدت میں ان تمام اینٹوں کو مکان کے اندر رکھ دیا جو باہر بکھری پڑی ہوئی تھیں_ استاد نے آخر میں فرمایا:

''آج کا سبق ایمان اور عمل کا درس تھا ہم اپنے بدن کی ساخت کے مطالعہ سے اپنے خدا سے بہتر آشنا ہوگئے ہیں اور مزدوروں کی مدد کرنے سے ایک نیک عمل بھی بجالائے ہیں اور اپنے خدا کو خوشنود کیا ہے''_

۲۲

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجئے

۱)___ ہمارے بدن کی ساختمان کے چھوٹے سے چھوٹے جز کا کیا نام ہے؟ تم کو کتنے خلیوں کے نام یاد ہیں___؟

۲)___ معدہ کے ہاضمہ کے خلیہ کا دوسرے خلیوں سے کیا ربط ہے___؟

۳)___ جب کسی خلیہ کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کی ترمیم کردینے سے ہم کیا سمجھتے ہیں، خلی کے ایک دوسرے سے ربط رکھنے سے کیا سمجھا جاتا ہے___؟

۴)___ اگر ہمارے بدن کے خلیے ایک دوسرے سے ہماہنگی نہ کرتے تو کیا ہم زندگی کرسکتے___؟

۵)___ ہمارے بدن میں تعجب آور جو ہماہنگی اور ہمکاری پائی جاتی ہے اس سے ہم کیا سمجھتے ہیں___؟

۶)___ ہم انسان کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کریں___؟

۷)___ استاد نے آخر میں کیا خواہش ظاہر کی، تمھارے خیال میں استاد نے وہ خواہش کیوں ظاہر کی___؟

۸)___ کیا بتاسکتے ہو کہ استاد نے اس سبق کو کیوں ایمان اور عمل کا نام دیا___؟

۲۳

بہترین سبق

دوسرے دن وہی استاد کلاس میں آئے اور کل والی بحث کو پھر سے شروع کردیا اور فرمایا: ''پیارے بچو تم نے کل کے سبق میں پڑھا تھا کہ ہمارے بدن کی ساخت چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر ہوئی ہے کہ جنھیں خلیے کہا جاتا ہے یہ خلیے ایک خاص نظم اور ترتیب سے رکھے گئے ہیں اور خلیے کی ہر ایک قسم اپنے کام سے خو ب آشنا ہے اور اسے بخوبی انجام دیتی ہے_

آج بھی میں اسی کے متعلق گفتگو کروں گا جانتے ہو کہ خلیہ کو کس طرح بنایا گیا ہے، خلیہ ایک خاص مادہ سے بنایا گیا ہے کو جو انڈے کی سفیدی کی طرح ہوتا ہے اور اس کا نام پروٹو پلازم رکھا گیا ہے اور پھر یہی پروٹو پلازم کئی مواد اور اجزاء سے مرکب ہوتا ہے_ تمھیں معلوم ہے کہ ایک سل میں کتنے اجزاء ہیں اور اس میں کام کرنے والے اجزاء کون سے ہیں عمدہ کام کرنے والا جزو وہی پروٹوپلازم ہے یہ حرکت کرتا ہے اور اکسیجن لیتا ہے اور کاربن خارج کرتا ہے، غذا حاصل کرتا ہے تا کہ زندہ رہ سکے پروٹوپلازم غذا کی کچھ مقدار کو دوسرے نئے پروٹوپلازم بنانے میں

۲۴

صرف کرکے تولید مثل کرتا ہے اسی وجہ سے زندہ موجودات رشد کرتے ہوئے اپنی زندگی کو دوام بخشتے ہیں جو اجزاء کو جو بے کار ہوجاتے ہیں ان کی جگہ دوسرے اس قسم کے اجزاء بناتا ہے اور خراب شدہ کی ترمیم کردیتا ہے_

ہر سل کے اندر بہت چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں کہ جنھیں سل کا حصہ یعنی مغز یا گٹھلی کہاجاتا ہے کیا تم جانتے ہو کہ سیلز ( CELLS ) کے یہ مغز کیا کام انجام دیتے ہیں___؟ کیا تم ایک سیل اور ایک اینٹ کا فرق بتاسکتے ہو؟ کیا تم بتاسکتے ہو کہ ان دونوں کی ساخت میں کیا فرق ہے___؟ بچوں نے ان سوالوں کے جوابات دیئے اور ان کے کئی فرق بیان کئے_ اس کے بعد استاد نے پھر سے اسی بحث کو شروع کیا اور پوچھا کہ:

'' کیا تم اپنے بدن میں سیلز کی تعداد کو جانتے ہو؟ کیا جانتے ہو کہ صرف انسان کے مغز میں تقریباً دس میلیارد سیلز موجود ہیں_ کیا تمھیں علم ہے کہ انسان کے خون میں تقریباً پندرہ تریلیوں سیلز موجود ہوتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام سیلز زندہ ہوتے ہیں اور اپنا کام بہت دقت سے ایک خاص نظم و ترتیب سے بخوبی انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام کو پایہ تکمیل پہنچاتے ہیں_

غذا اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور کاربن باہر خارج کردیتے ہیں، تولید مثل کرتے رہتے ہیں_ بعض دیکھنے کے لئے

۲۵

اور بعض سننے کے لئے، بعض ذائقہ اور شامہ کے لئے وسیلہ بنتے ہیں، بعض سے گرمی و سردی اور سختی محسوس کیا جاتا ہے اور یہ بدن کے تمام کاموں کو انجام دیتے ہیں_

انسان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں_ میرے عزیز طالب علمو ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک منظم عمارت کا بنانے والا کوئی نہ ہو بغیر نقشے اور غرض و غایت کے موجود ہوجائے_ تم ایک عمارت کی ترتیب اور نظم سے سمجھ جاتے ہو کہ اس کے بنانے میں عقل اور شعور کو دخل ہے اور یہ از خود بغیر غرض و غایت کے وجود میں نہیں آئی بالخصوص ایسی عمارت کہ جس کے تمام اجزاء آپس میں ایک خاص ارتباط و ہم آہنگی اور ہمکاری رکھتے ہوں_

بچو تم اپنے بدن کی عمارت کی ساخت کے بارے میں کیا کہتے ہو___؟ تم اپنے بدن کے بہت دقیق اور ہم آہنگ سیلز کے متعلق کیا سوچتے ہو___؟ تم ایک ایسی عمارت کے متعلق کہ جو کئی ہزار اینٹوں اور دوسرے ازجزاء سے بنائی گئی ہو کبھی یہ احتمال نہیں دیتے کہ یہ خود بخود وجود میں آگئی ہوگی بلکہ اس میں کوئی شک اورتردید نہیں کرتے کہ اس کے بنانے والے نے اسے علم سے ایک خاص نقشے کو سامنے رکھ کر ایک خاص غرض کے لئے بنایا ہے___؟ اپنے بدن کے متعلق جو کئی ملیارد سیلز سے جو ایک خاص نظم اور ترتیب و تعجب آور ہمکاری اور اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں

۲۶

بنایا گیا ہے_ تم اس کے متعلق کیا نظر رکھتے ہو؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ یہ از خود بن گیا ہوگا___؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ اس کا بنانے والا اور نقشہ کشی کرنے والا کوئی بھی نہ ہوگا؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ اس کا بنانے والا عالم اور قادر نہ ہوگا___؟

کیا احتمال دے سکتے ہو کہ اس کے بنانے میں کوئی غرض و غایت مقصود نہ ہوگی تم کیا کہتے ہو___؟ بتلاؤ

کیا نہیں کہوگے کہ پیدا کرنے والا ایک بہت بڑا عالم اور قادر ہے اور سب کا پہلے سے حساب کر کے انسان کے بدن کو ملیارد سیلز سے اس طرح منظم اور زیبا خلق فرما ہے_ سچ کہہ رہے ہو کہ ہم اس دقیق و زیبا نظم سے جو تعجب آور ہے سمجھ جاتے ہیں کہ اسے خلق کرنے والا عالم اور قادر ہے کہ جس نے اسے اس طرح خلق فرمایا ہے اور اس کو چلا رہا ہے_

سوچو اگر بدن کے سیلز کو غذا اور آکسیجن نہ پہنچے تو وہ کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں اور کام کرسکتے ہیں ؟ اگر غذا کو ہضم کرنے کے لئے سیلز غذا کو جذب اور ہضم نہ کرتے تو بدن کے دوسرے سیلز کہاں سے غذا حاصل کرتے، کس طرح بڑھتے اور رشد کرتے؟ کس طرح تولید مثل کرتے؟

اگر ہاتھ کے اعصاب کے سیلز مدد نہ کریں تو کس طرح غذا کو منھ تک لے جایا جاسکتا ہے؟ اگر پانی و غذا اور آکسیجن موجود نہ ہوتے تو کہاں سے غذا حاصل کی جاتی؟ اگر بدن کے سیلز میں تعاون اور ہمکاری موجود نہ ہوتی تو کیا ہمارا زندگی کو باقی رکھنا ممکن ہوتا؟

۲۷

کیا ان تمام ربط اور ہم آہنگی کے دیکھنے سے خالق کے دانا اور توانا ہونے تک نہیں پہنچا جاسکتا؟ ہم بہت اشتیاق سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس ذات کو بہتر پہچانیں اور اس کا زیادہ شکریہ ادا کریں ہمارے وظائف میں داخل ہے کہ دستورات اور احکام کو معلوم کریں اور ان کی پیروی کریں تا کہ دنیا میں آزاد و کامیاب اور سربلند ہوں اور آخرت میں سعادت مند اور خوش و خرم بنیں_

بچو میں بہت خوش ہوں کہ آج میں نے تمھیں بہترین سبق پڑھایا ہے یہ ''خداشناسی'' کا سبق ہے جو میں نے تمھیں بتلایا ہے_ ''خداشناسی'' کا سبق تمام علوم طبعی اور جہاں شناسی کی کتابوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے''

قرآن مجید کی ایک آیت:

( و فی الارض ایات للموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون ) (۱)

'' زمین میں خداوند عالم کے وجود کے لئے یقین رکھنے والوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں اور خود تمھارے وجود میں بھی اس کے وجود کے لئے علامتیں موجود ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ہو___؟

____________________

۱) سورہ ذاریات آیت نمبر ۲۱

۲۸

سوالات

ان سوالات کے جواب دیجئے

۱) ___ ایک سیل کی تصویر بنایئےور اس کے مختلف اجزاء کے نام بتلایئے

۲)___ تم کن کن سیل کو جانتے ہو، کیا ان کی تصویریں بناسکتے ہو___؟ ایک ایسی تصویر بنایئےو کتاب میں موجود نہ ہو_

۳)___ اپنے بدن کے سیلز کی تعداد کو جانتے ہو___؟ حروف میں لکھو

۴)___ کیا تم بدن کے سیل کا فرق ایک اینٹ سے بتلاسکتے ہو____؟

۵)___ تمام اعضاء کے ربط اور ہم آہنگی سے تم کیا سمجھتے ہو، کیا اس قسم کی مخلوق بغیر کسی غرض اور غایت کے وجود میں آسکتی ہے___؟

۶)___ اگر سیلز کے درمیان تعاون و ربط اور ہم آہنگی نہ ہوتی تو کیا زندگی باقی رکھنا ممکن ہوتا___؟

۷)___ بدن کے سیلز اور ان کے درمیان ربط و ہم آہنگی سے تم کیا سمجھتے ہو_

۸)___ اپنے خالق کے بارے میں ہمارا کیا فریضہ ہے، اگر اس کے احکام کو معلوم کرلیں اور ان کی پیروی کریں تو کس طرح کی زندگی بسر کریں گے___؟

۹)___ کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ استاد نے اس سبق میں کتنے سوال بیان کئے ہیں سبق کو غور سے پڑھو اور دیکھو کہ تمھارا اندازہ ٹھیک ہے؟ سوالوں کو لکھو_

۱۰)___ اس سبق میں اور پہلے دوسبقوں میں تم نے کچھ خالق جہاں کے صفات معلوم کئے ہیں کیا ان کو بیان کرسکتے ہو___؟

۲۹

آپ ربط و ہم آہنگی کے مشاہدے سے کیا سمجھتے ہیں؟

تم یہاں دو قسم کی شکلیں دیکھ رہے ہو ان میں سے کون سی شکل منظم اور مرتبط ہے اور کون سی شکل غیر منظم اور غیر مرتبط ہے؟ کیا بتلاسکتے ہو کہ منظم شکل اور غیر منظم شکل میں کیا فرق موجود ہے___؟

۳۰

ایک منظم اورمرتبط شکل میں ایک خاص غرض اور غایت ہے اس کے تمام اجزاء اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ ان کے ارتباط سے اسی غرض اور غایت تک پہنچنا ممکن ہے اسی بناپر اس شکل کو منظم اور مرتبط کہا جاسکتا ہے کہ جس کے تمام اجزاء بطور کامل ایک دوسرے سے ہم آہنگی او رہمکاری رکھتے ہوں اور ان تمام سے ایک خاص غرض اور غایت حاصل کی جاسکتی ہو مثلا شکل نمبر دو کو ایک منظم اور مرتبط شکل کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے تمام اجزاء اس طرح بنائے گئے ہیں کہ جن سے ایک خاص غرض اور غایت مراد ہے اور وہ ہے ''سوار ہونا'' اور راستہ طے کرنا_

کسی منظم شکل میں ہر ایک جزء کو اس کی مخصوص جگہ پر رکھا جاتا ہے اور وہ دوسرے اجزاء کے ساتھ مل کر ایک مخصوص کام انجام دیتی ہے اگر اسی اس جگہ نہ رکھا جائے تو اس سے پورا کام حاصل نہ کیا جاسکے گا اور وہ کام ناقص انجام پائے گا_

جب ہم دیکھ رہے ہوں کہ کوئی چیز منظم اور مرتبط ہے اور اس کے مختلف اجزاء کسی خاص حساب سے ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور اس کا ہر جزء ایک مخصوص کام اور ایک خاص اندازے سے انجام دے رہا ہو مثلا شکل نمبر دو میں پہئے ایک خاص مقدار سے بنائے اور ایک خاص جنس سے بنائے گئے ہیں_ گدی بیٹھنے کے لئے، بریک روکنے کے لئے، گھنٹی ہوشیار کرنے کے لئے، بتیاں اور پیٹروں کی جگہ ایک خاص جنس سے بنائی گئی ہے اور یہ ایک خاص اندازے اور حساب سے ایک دوسرے سے مرتبط کر کے رکھے گئے ہیں کہ اگر وہ اس طرح منظم اور حساب کے ساتھ رکھے نہ جاتے تو وہ کسی کام نہ آتے اور وہ اس غرض و غایت کی بجاآوری نکے لئے بے فائدہ ہوتے کہ جوان سے مقصود تھی_

اب تم ان سوالوں کے جوابات دو_

۳۱

ایک منظم اور مرتبط شکل کے مشاہدے سے کہ جو وقت اور حساب سے کسی خاص جنس سے کسی خاص ہیئت میں بنائی گئی ہو اور اس کے اجزاء کے ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کے کام میں تعاون سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ایسی شکل اور چیز کے بنانے والے کے متعلق یہ نہ سمجھیں گے کہ وہ باشعور و عالم و دانا اور اس قسم کی چیز کے بنانے پر قادر تھا اور ایسی ذات کا ہونا اس صورت میں ضروری نہ ہوگا؟ اگر کوئی عالم اور قادر نہ ہو تو کیا شکل نمبر ایک کو شکل نمبر دو میں تبدیل کرسکتا ہے___؟ حالانکہ شکل نمبر ایک بھی خاص اجزاء متفرق کا مجموعہ ہے کہ جسے ایک خاص جنس او رکسی خاص شکل و اندازے کے مطابق بنایا گیا ہے جس کے بنانے میں بھی ایک عالم اور قادر کی ضرورت ہے_ کیا تم یہ بتاسکتے ہو کہ ایک منظم شکل کے دیکھنے سے اس کے بنانے والے کے متعلق اس کے قادر، عالم و دانا ہونے اور آیندہ نگری کو معلوم نہیں کیا جاسکتا ___؟

دنیا اور اپنے خالق کے قادر و عالم ہونے کے متعلق اس سے زیادہ معرفت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے بدن کے بنانے اور اس میں حیرت انگیز نظم و ربط اور دنیا کی دوسری اشیاء کو دیکھیں اور سوچیں کہ بدن کے جس حصہ کو دیکھیں اس میں حیران کن ہم آہنگی او رتعجب انگیز نظم و ربط کو دیکھ سکتے ہیں؟

بینائی اور سماعت کے حصے کو غور سے دیکھیں یا دل کے کام کو ملاحظہ کریں یا پھیھپڑے اور جکر کو غور سے دیکھیں تو ان میں سے ہر ایک میں سوائے ایک خاص نظم اور ربط کے کچھ اور دیکھ سکیں گے___؟

(اس کے بعد والے سبق میں ہم کلیہ اور پیشاب کے باہر پھینکنے والے حصّے کو بیان کریں گے)

۳۲

اپنے آپ کو دیکھیں

آپ نے ابھی گردے دیکھے ہیں اگر نہیں دیکھے تو ایک گوسفند کے گردے لے آئیں اور انھیں غور سے، قریب سے دیکھیں_ انسان کے بھی دو گردے ہوتے ہیں_ تم بھی یقینا دو گردے رکھتے ہو_ کیا تم دو عدد عمدہ اور چھوٹے عضو کے کام اور اہمیت کو جانتے ہو؟ کیا تم جانتے ہو کہ اگر تمھآرے بدن میں یہ چھوٹے دو عضو نہ رکھے جاتے تو کیا ہوتا___؟ آپ کے پیدا ہونے کے دن ہی آپ کے تمام بدن میں زہریلا مواد پیدا ہوجاتا اور زیادہ مواد اکٹھا ہوکر تمام بدن پر چھا جاتا اور پھر تمھاری موت یقینی ہوجاتی_

کیا تم جانتے ہو کہ پیشاب کے خارج کرنے والا عضو اور حصہ کن کن چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے___؟ کیا تم جانتے ہو کہ خود پیشاب کن کن چیزوں سے بنتا ہے اور کس طرح بدن سے خارج ہوتا ہے؟ انسان کے بدن میں کچھ زائد مواد اکٹھا ہوجاتا ہے کہ جس کا بدن میں باقی رہنا انسان کی سلامتی اور زندگی کے لئے خطرناک ہوتا ہے ضروری ہے کہ وہ انسانی بدن سے خارج ہوجائے اس زائد مواد میں سے ایک سفید رنگ کا ماہ ہے کہ جسے (اورہ) کہاجاتا ہے یہ حیوانی غذا اور ان پروٹین سے جو بدن کے سیلز کے کام آتے ہیں پیدا ہوجاتا ہے یہ اور دوسرے مواد جو مضر ہوتے ہیں ایک عمدہ اور شائستہ حصہ کے ذریعہ جو خون سے پیشاب کو حاصل کرتا ہے اور بدن سے باہر نکال دیتا ہے وہ حصہ جو پیشاب بناتا اور باہر پھینکتا ہے ایک بہت منظم و دقیق عضو اور حصّہ

۳۳

ہے کہ جس میں سیکڑوں دقیق اور عمدہ اجزاء رکھے گئے ہیں کہ جس سے بہت زیادہ تعجب اور حیرت ہوتی ہے_

درج ذیل شکل کو دیکھئے اور غور سے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ پیشاب والا عضو اور مقام کن کن چیزوں سے بنایاگیا ہے_

مثانہ گردےونیرنالی وگردے:

گردے لوبیا کی شکل کے ہوتے ہیں سرخ رنگ معدے اور جگر کے پیچھے دو عضو ہوتے ہیں اور انسان کے مہروں کے ستون کے دونوں طرف واقع ہوتے ہیں_ ہر انسان کے دو گردے ہوتے ہیں، گردوں کی ساخت کئی نالیوں سے ہوتی ہے _ تم جانتے ہو کہ گردے کتنی نالیوں سے بنائے گئے ہیں___؟

ہر ایک گردے میں ایک ملیون کے قریب نالیاں ہوتی ہیں ان کے اطراف میں مو ہرگیا سے جالی نے گھیر رکھا ہے، خون ایک بڑی سرخ رگ کے ذریعہ ان میں داخل ہوتا ہے اور ان میں گردش کرنے کے بعد ایک سیاہ رگ سے خارج ہوجاتا ہے، اس سرخ رگ کو بڑے اہتمام سے بنایا گیا ہے کہ جس کی تفصیل تم علوم طبعی کی کتابوں میں پڑھا کرتے ہو_

۲)نیرنالی :

ہر ایک گردے سے ایک نالی باہر نکلی ہوتی ہے جو مثانہ سے گردے کو ملائے رکھتی ہے اس نالی کا نام ''نیرنالی'' ہے انھیں میں خون سے زائد مواد اکٹھا ہوجاتا ہے او رپیشاب گردے سے مثانہ میں وارد ہوجاتا ہے_

۳) مثانہ:

یہ ایک چھوٹاسا کیسہ ہے کہ جن کی کیفیت پلاسٹیک کی طرح ہوتی ہے کہ جو کہ پھیل سکتا ہے یہ انسان کے پیٹ کے نیچے کی طرف واقع

۳۴

ہوتا ہے_ جب مثانہ کی دیوار خالی ہو تو یہ تقریبا پندرہ ملی میٹر تک کا ضخیم ہوتا ہے اور جب یہ پیشاب سے پر ہوجائے تو پھیل جاتا ہے اور اس کی دیوار کی ضخامت تین سے چار ملی میٹر تک ہوجاتی ہے_ مثانہ کی دیوار میں تین عدد مسل ماہیچہ رکھے ہوئے ہیں کہ جو پیشاب کے خارج ہونے کے وقت اس کے منقبض ہونے میں مدد دیتے ہیں_

۴) پیشاب کے خارج ہونے کا راستہ:

یہ مثانہ کو باہر کی طرف مرتبط کرتا ہے، ابتداء میں اس میں دو ماہیچہ ہوتے ہیں کہ جو عام حالات میں پیشاب کو خارج ہونے سے روکے رکھتے ہیں، بدن میں گردے ایک صاف کرنے والی چھلنی کی طرح ہوتے ہیں_ سرخ رگ کے ذریعہ خون گردے میں وارد ہوتاہے_

۳۵

اور وہ مویرگ میں تقسیم ہوجاتا ہے اور جب ان سے عبور کرتا ہے تو اپنے ہمراہ معمولی پانی اور اورہ، آسیدہ، اوریک، نمک اور گلوگز جالیوں سے ترشح کرتے ہوئے پیشاب کی نالیوں میں وارد ہوتا ہے_ اس وقت معمولی پانی، نمک اور گلوگز ان نالیوں کی دیواروں میں جذب ہوکر دوبارہ خون میں لوٹ جاتا ہے_

تعجب اس ہوتا ہے کہ اگر بدن میں پانی ضرورت کے مطابق نہ ہو تو پھر زائد پانی گردوں سے مثانہ میں وارد نہیں ہوتا اور صرف اورہ، آسید، اوریک اور معمولی پانی پیشاب کی نالیوں سے نیرنالیوں میں وارد ہوتا ہے اور وہاں سے قطرہ قطرہ ہوکر مثانہ میں جمع ہوتا رہتا ہے_

گردے نہ صرف کمال وقت سے اورہ، رسید، اوریک کو خون سے لیتے ہیں اور اسے صاف کرتے ہیں بلکہ بدن کے مختلف مواد کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں مثلاً اگر خون میں شوگر یا نمک ضرورت سے زائد ہوجائے تو زائد مقدار کو لے کر بدن سے باہر پھینک دیتے ہیں_

مثانہ کافی مقدار میں پیشاب کو محفوظ رکرسکتا ہے اور جب پیشاب کی مقدار بہت زیادہ ہوجائے اور مثانہ کی ظرفیت پر ہوجائے تو پھر وہی ماہیچہ حرکت کرتے ہیں اور اس صورت میں وہی دو ماہیچے پیشاب کے مجری کو کھولتے اور بند کرتے ہیں اور پیشاب کی ایک مقدار مثانہ میں وارد ہوجاتی ہے اور اس میں سوزش پیدا کردیتی ہے اگر اسے اپنے اختیار سے باہر نہ نکالا گیا تو پھر مثانہ کا منھ قہراً کھل جاتا ہے اور پیشاب باہر نکل آتا ہے_

آپ اس وقت اور تعجب آور صنعت کے بارے میں جو اس عضو کے کام میں لائی گئی ہے خوب سوچیں اور اس نظم، مزید ہم آہنگی کو جو خون کی گردش گردوں میں اور گردوں

۳۶

کا ارتباط ینرنالی سے اور اس کا مثانہ سے موجود ہے_ تامّل اور غور سے دیکھیں تو کیا یہ ایک ایسا حصہ نہ ہوگا جو منظم اور کسی خاص غرض کے لئے بنایا گیا ہو___؟

یا یہ ایک ایسا حصہ اور عضو ہوگا کہ جس میں کوئی غرض اور غایت مد نظر نہ رکھی گئی ہو بلکہ اسے ایک غیر منظم حصہ مانا جائے___؟ کیا گردوں کی کوئی خاص غرض ہوگی کہ جس کا اسے ذمہ دار اور پابند سمجھا جائے___؟ کیا ہم اس خون کے باوجود جو زہر سے اور زائد مواد سے پر ہو زندہ رہ سکتے تھے___؟ اگر یہ عضو مرتبط اور ہم آہنگ نہ ہوتا اور نیرنالی کی نالیاں نہ ہوتیں تو گردے زائد مواد کو خون سے لے کر کہاں پہنچاتے___؟

اگر ہمارا مثانہ نہ ہوتا کہ جس میں پیشاب جمع ہوجاتا ہے تو مجبوراً پیشاب قطرہ قطرہ ہوکر باہر نکلتا رہتا تو اس وقت کیا کرتے___؟ اگر پیشاب کے خارج کرنے کے دروازے ہمارے اختیار میں نہ ہوتے تو پھر کیا ہوتا___؟

اس دقیق اور مہم عضو اور حساس حصّہ کے دیکھنے سے ہم کیا سمجھتے ہیں؟ اس منظم اور دقیق حساب سے جو اس عضو میں رکھا گیا ہے اور اس حصہ کی اس طرح کی شکل ہے جو بنائی گئی ہے اور اس میں جو نظام ربط اور ہم آہنگی رکھی گئی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ہمیں یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ یہ منظم اور دقیق حساب جو اس عضو اور بدن کے دوسرے اعضاء میں موجود ہے از خود، بغیر کسی غرض اور حساب کے موجود نہیں ہوا___؟

کیا یہ کسی عاقل اور صاحب بصیرت کے لئے ممکن ہے کہ وہ قبول کر لے کہ سیاہ اور خاموش، بے شعور طبیعت و مادّہ سے یہ تعجب آور اور حیران کن نظم، وجود میں آیا ہے؟ صاحب عقل اور سمجھدار اناسان کو یقین ہوجائے گا کہ کسی عالم اور قادر ذات نے اسے خلق فرمایا ہے کہ جس میں اس نے ایک خاص غرض و غایت، مد نظر رکھی ہے اس سوچ کے بعد ہر عقلمند کا ان تمام اسرار اور مصالح کے دیکھنے کے بعد خالق جہاں جو ''عالم اور توانا'' ہے

۳۷

کے متعلق یقین زیادہ محکم اور مضبوط ہوجائے گا، اس کی اس عظیم قدرت اور فراوانی نعمت کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا_

قرآن کی آیت :

( قل انظروا ماذا فی السّموات و الارض ) ___(۱)

'' کہہ دیجئے کہ جو کچھ زمین اور آسمان میں موجود ہے اسے دیکھو''

____________________

۱) سورہ یونس آیت نمبر ۱۰۱

۳۸

سوالات

جواب دیجئے

۱) ___ایک منظم و مرتبط شکل میں اور ایک غیر منظم و غیر مرتبط شکل میں کیا فرق ہے؟

۲)___ ایک ایسے حصہ سے جو منظم اور مرتبط ہوگیا سمجھاتا جاتا ہے___؟

۳)___ ایک حصہ کے بنانے میں جو منظم اور پناتلا ہو اس کے بنانے والے کے لئے عالم اور قادر ہونا ضروری سمجھتے ہو اور کیوں___؟ وضاحت کرو_

۴)___ تمھارے گردے کتنے ہیںاور بدن کے کس حصہ میں واقع ہیں؟ بیان کرو اور گردوں کی شکل بناؤ

۵)___ گردوں کی ساخت کس طرح ہوتی ہے اور ان کا کام کی ہے؟ کیا گوسفند کا گردہ کلاس میں لاسکتے ہو؟ وضاحت کرو_

۶)___ رنیرنالی کا کیا کام ہے؟ مثانہ کی دیوار کس طرح ہوتی ہے اور مثانہ کا کیا کام ہے___؟

۷)___ گردوں کے بعض تعجب آور کام کو بتایئے

۸)___ گردوں کے کام اور دوسرے اعضاء سے ان کے ارتباط کو دیکھنے سے کیا سمجھاجاتا ہے؟ کیا تمھیں یہ ایک بے غرض اور غیر منظم حصہ نظر آتا ہے یا یہ ایک منظم اور بامقصد عضو معلوم ہوتا ہے؟

۹)___ ہم جہان عالم کی پر اسرار اور مصالح کی پیدائشے و خلقت سے کیا سمجھتے ہیں اور اس سے کیا نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں___؟

۳۹

خالق جہان کے صفات کمالیہ

۱) ___ تم چل سکتے ہو، فکر کرسکتے ہو، کھاپی سکتے ہو اور کتاب پڑھ سکتے ہو؟ لیکن کیا یہی کام پتھر کا ایک ٹکڑا انجام دے سکتا ہے؟

یقینا جواب دوگے کہ نہیں یہ کام پتھر انجام نہیں دے سکتا پس تم ان کاموں کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہو لیکن پتھر ایسی قدرت نہیں رکھتا_ کیا تم ان امور کے لحاظ سے پتھر پر کوئی خصوصیت رکھتے ہو___؟ کون سی خصوصیت___؟ تم کامل ہو یا پتھر کا ٹکڑا___؟ کیا جواب دوگے___؟

یقینا تمھارا یہ جواب ٹھیک ہوگا کہ تم یہ کام کرسکتے ہو لیکن پتھر یہ کام نہیں کرسکتا پس تم کامل تر ہوگئے کیونکہ ان کاموں کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہو تو پھر قدرت کو ایک کمال کی صفت قرار دیا جاسکتا ہے یعنی قدرت، کمال کی صفت ہے_

۲)___ تم بہت سی چیزوں کو جانتے ہو یعنی تمھیں ان کا علم ہے، تمھارے دوست بھی بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں اور انھیں بھی ان کا علم ہے_ مخلوقات میں سے بعض کو علم ہوتا ہے اور بعض کو علم نہیں ہوتا_ انسان ان میں سے کون سی قسم میں داخل ہے؟ پتھر، لکڑی اور لوہا ان میں سے کون سی قسم میں داخل ہیں؟

۴۰

ان دو میں سے کون سی قسم کامل تر اور قیمتی ہے؟ علم رکھنے والی مخلوقات اہم ہیں یا وہ جو بے علم ہیں___؟ اس کا کیا جواب دوگے___؟

یقینا تم ٹھیک اور درست جواب دوگے کہ انسان، علم رکھتا ہے اور پتھر، لکڑی و لوہا و غیرہ علم نہیں رکھتے، یقینا وہ مخلوق جو علم رکھتی ہے وہ کامل تر اور اس سے بہتر ہے جو مخلوق بے علم ہے_ تم نے جواب ٹھیک دیا لہذا علم ایک کمال والی صفت ہے جو شخص یہ کمال رکھتا ہو وہ بغیر شک کے اس سے کامل تر ہوگا جو یہ کمال والی صفت نہ رکھتا ہو_

۳)___ بعض مخلوقات زندہ ہیں جیسے حیوانات، نباتات اور انسان لیکن بعض دوسرے زندہ نہیں ہیں جیسے پتھر، لکڑی اور لوہا و غیرہ_ ان دو میں سے کون کامل تر ہے؟ زندہ مخلوقات زندگی رکھتے ہیں یا وہ مخلوقات جو زندہ نہیں ہیں زندگی رکھتے ہیں؟ اس کا کیا جواب دوگے؟

یقینا تم درست جواب دوگے اور زندگی و حیات بھی ایک صفت کمال ہے اب تک ہم نے معلوم کرلیا کہ علم، قدرت اور حیات یہ تینوں صفت کمال ہیں اور مخلوقات میں سے بہت سے ان تینوں صفات کے حامل ہوتے ہیں یعنی دانا، توانا اور زندہ ہوتے ہیں ان زندہ و دانا اور توانا مخلوقات کو اللہ تعالی نے خلق فرمایا ہے اور اللہ تعالی نے یہ کمالات انھیں عنایت فرمایا ہے جس خدا نے انھیں یہ کمالات دیئے ہیں وہ خود بھی ان کمالات کو بہتر اور بالاتر رکھتا ہے یعنی وہ ذات بھی ان صفات کمالیہ سے متصف ہے_

۴۱

تم نے سابقہ درس میں کائنات میں دقیق نظام اور تعجب آور ارتباط کو اجمالی طور پر معلوم کرلیا ہے اور تم جان چکے ہو کہ کتنی عمدہ اور بارک کا دیگری خلقت عالم میں رکھی گئی ہے اور کس دقیق ہم آہنگی و ارتباط سے یہ جہان خلق کیا گیا ہے اور تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ساری مخلوقات کو اللہ تعالی نے اسی طرح خلق فرمایا ہے ایسا دقیق اور تعجب آور جہان کس چیز کا گواہ ہے___؟ ہمیں اس جہاں کی ترتیب اور عمدہ ہم آہنگی کیا سبق دیتی ہے؟ اس دقیق اور پر شکوہ نظام سے کیا سمجھتے ہیں____؟

مخلوقات کے مطالعے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اس جہان کو ایک زندہ و عالم اور قادر ذات نے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں اس کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہے کہ جس سے وہ مطلع تھا_

جہان کی مخلوقات کو ایک خاص قانون اور نظام کے ماتحت پیدا کر کے اسے چلا رہا ہے اور اسے اسی غرض و غایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے_ اب تک ہم نے سمجھ لیا کہ جہان کا پیدا کرنے والا خدا مہربان اور تمام اشیاء کا عالم ہے، تمام کو دیکھتا ہے اور کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ و مخفی نہیں ہے، معمولی سے معمولی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے وہ ذات ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور تمام بندوں کے اعمال سے مطلع ہے اور انھیں ان کی جزا دے گا_

ہم نے جان لیا کہ خدا قادر ہے یعنی ہر کام کے انجام دینے پر قدرت رکھتا ہے، اس کی قدرت اور توانائی محدود نہیں ہے، تمام مخلوقات کو اس نے ہی پیدا کیا ہے اور انھیں چلا رہا ہے_

ہم نے جان لیا کہ خدا حی و زندہ ہے اور تمام امور کو علم و دانائی سے انجام دیتا ہے ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس عظیم خالق و عالم اور قادر کے سامنے ہمارا فریضہ کیا ہے؟

۴۲

قرآن مجید کی آیت:

( یخلق ما یشاء و هو العلیم القدیر ) ___(۱)

'' خدا جسے چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور وہ دانا و توانا ہے''

____________________

۱) سورہ روم آیت نمبر ۵۳

۴۳

توحید اور شرک

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند عالم کی طرف سے ایسے زمانے میں پیغمبری کے لئے مبعوث ہوئے جس زمانے کے اکثر لوگ جاہل، مشرک اور بت پرست تھے اور ان کا گمان تھا کہ اس عالم کو چلانے میں خدا کے علاوہ دوسروں کو بھی دخل ہے_ خدا کا شریک قرار دیتے تھے_ خدائے حيّ و عالم او رقادر یکتا کی پرستش اور اطاعت کرنے کے بجائے عاجز و بے جان بتوں کی پرستش کی کرتے تھے اور ان کے لئے نذر و قربانی کرتے اور ان سے طلب حاجت کرتے تھے_

ظالم و جابر اور طاغوت قسم کے لوگوں کو برگزیدہ افراد جانتے تھے اور انھیں بالاتر اور واجب الاطاعت گمان کرتے تھے ان کی حکومت اور سلطنت کو قبول کرتے تھے_ اپنی سعادت و شقاوت، خوش بختی و بدبختی، موت اور زندگی کو ان کے ارادے میں منحصر جانتے تھے اور عبادت کی حد تک ان کی اطاعت کرتے تھے اور ان کے سامنے عاجزی اور اظہار بندگی کیا کرتے تھے_ جاہل اور مشرک انسان اپنی خدا داد استقلال کو فراموش کرچکے تھے اور غلامانہ روش کی طرف ظالموں اور طاغوتوں کے مطیع و فرمانبردار تھے اور ان کے سامنے عبادت کرتے تھے اور ان کا سجدہ کیا کرتے تھے لوگ بت پرستی میں مشغول تھے اور اسی میں خوش تھے اور استحصال کرنے والے لوگوں کے جان و مال پر مسلط تھے اور ان کی محنت کو غارت کر رہے تھے لوگوں کی اکثریت فقر اور فاقہ میں زندگی بسر کرتی تھی اور وہ جرات نہیں کرسکتے کہ وہ

۴۴

اپنے زمانے کے طاغتوں سے اپنے حقوق لے سکیں_ بت پرستی، شخصیت پرستی، قوم پرستی، وطن پرستی اور خود پرسنی نے لوگوں کو متفرق اور پراگندہ کر رکھا تھا اور استحصال کرنے والے اس اختلاف کو وسیع کر رہے تھے_

اس قسم کی تمام پرستش شرک کا پرتو اور مظاہرہ تھا اور لوگوں کی بدبختی کا سب سے بڑا عامل یہی شرک تھا_ ان تمام مصائب کا علاج کیا تھا___؟ ایسے لوگوں کی نجات جو بدبختی میں جل رہے تھے کس میں تھی؟ کس طرح ان تمام مظالم اور ستم سے نجات حاصل کرسکتے تھے؟ انھیں ایسے رہبر کی ضرورت تھی جو روشن فکر اور بدار و ہوشیار ہو جو انھیں بت پرستی اور شرک سے نجات دلائے اور توحید و خداپرستی کی طرف لے جائے ایسے زمانے میں خداوند عالم کی طرف سے حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو پیغمبری اور رہبری کے لئے چناگیا_ آپ(ص) نے اپنا پہلا اور اہم کام شرک و بت پرستی سے مقابلہ کرنا قرار دیا_ آپ (ص) نے لوگوں کو پہلی دعوت میں فرمایا کہ کہو:

''قولوا لا اله الّا الله تفلحوا''

''یعنی کلمہ توحید پڑھو اور نجات حاصل کرو_ اس پر ایمان لے آؤ کہ سوائے خدائے ذوالجلال کے اور کوئی معبود نہیں تا کہ نجات حاصل کرسکو''

اس کلام سے کیا مراد ہے سمجھتے ہو؟ یعنی مختلف خدا اور جھوٹے خداؤں کو دور پھینکو اور دنیا کے حقیقی خالق کی اطاعت اور عبادت کرو_ ظالموں کی حکومت سے باہر نکلو اور اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے رہبر اور پیغمبر کی حکومت اور ولایت کو قبول کرو تا کہ آزاد اور سربلند اور سعادت مند ہوجاؤ_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ لوگو

''کائنات کا خالق اورچلانے والا صرف خدا ہے _جو قادر مطلق

۴۵

ہے_ خداوند عالم کی ذات ہی تو ہے جس نے خلقت اور نظام جہان کا قانون مقرر کیا ہے اور اسے چلا رہا ہے اس کی ذات اور اس کے ارادے سے دن رات بنتے اور آتے جاتے ہیں_ آسمان سے زمین پر بارش اور برف گرتی ہے_ درخت اور نباتات میوے اور پھول دیتے ہیں، انسان اور حیوان روزی حاصل کرتے ہیں، اللہ ہی نے جو حّی و قيّوم اور عالم و قادر ہے تمام موجودات کو خلق فرمایا اور وہ ان سے بے نیاز ہے، تمام موجودات اس کے محتاج اور نیازمند ہیں، اللہ تعالی کی مدد کے بغیر کسی بھی موجود سے کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا جان لو کہ اللہ تعالی نے دنیا کا نظام کسی کے سپرد نہیں کیا_

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے لوگو جان لو کہ تمام انسان اللہ تعالی کی مخلوق ہیں تمام کے ساتھ عادلانہ سلوک ہونا چاہیئے سیاہ، سفید، زرد، سرخ، مرد، عورت، عرب، غیر عرب تمام بشر کے افراد ہیں اور انھیں آزادی و زندگی کا حق حاصل ہے، اللہ تعالی کے نزدیک مقرّب انسان وہ ہے جو متقی ہو_ اللہ تعالی نے زمین اور تمام طبعی منابع اور خزانوں کو انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے اور تمام انسانوں کو حق حاصل ہے کہ ان فائدے حاصل کرے ہر ایک انسان کو حق حاصل ہے کہ اپنی محنت اور کوشش سے زمین کو آباد کرے اور اپنی ضرورت کے

۴۶

مطابق اس کے منابع طبعی سے استفادہ کرے اور لوگوں کو فائدے پہنچائے_ پیغمبر اسلام(ص) فرمایا کرتے تھے: لوگو ظالموں کے مطیع اور غلام نہ بنو خداوند عالم نے تمھیں آزاد خلق فرمایا ہے، تمھارا ولی اور صاحب اختیار خدا ہے، خداوند عالم تمھارا مالک اور مختار ہے کہ جس نے تمھیں خلق فرمایا ہے، تمھاری رہبری اور ولایت کا حق اسی کو حاصل ہے_ اللہ تعالی اور ان حضرات کے علاوہ جو اس کی طرف سے اس کا پیغام بندوں تک پہنچاتے اور اس کے احکام سے مطلع کرتے ہیں اور کوئی واجب الاطاعت نہیں ہے، پرہیزگاری اختیار کرو اور میری اطاعت کرو تا کہ میں تمھیں ان ظالموں کے شر سے نجات دلاؤں، تم سب آزاد ہو اور ظالموں و ستمگروں کے غلام اور قیدی نہ بنو، خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرو اور اس کے علاوہ کسی سے امید وابستہ نہ رکھو صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کی رضا کے لئے کام بجالاؤ اور ایک دل ہوکر ایک غرض اور ہدف کو بجالاؤ، جھوٹے معبودوں اور اختلاف ڈالنے والوں کو دور پھینک دو، تمام کے تمام توحید کے علم کے سایہ میں اکٹھے ہوجاؤ تا کہ آزاد و سربلند اور سعادتمند بن جاؤ، تمام کاموں کو صرف خدا کے لئے اور خدا کی یاد کے لئے بجالاؤ صرف اللہ تعالی سے مدد اور کمک طلب کرو تا کہ اس مبارزہ میں کامیاب ہوجاؤ''

قرآن مجید کی آیت:

( من یشرک بالله فقد ضل ضلالا بعیدا ) ___(۱)

''جس شخص نے اللہ کے ساتھ شریک قرار دیا وہ سخت گمراہی میں پڑا''

____________________

۱) سوره نساء / ۱۱۶

۴۷

سوالات

سوچنے، مباحثہ کرنے اور جواب دینے کیلئے ہیں

۱)___ بت پرستی اور شرک کے مظاہرات کون سے ہوتے ہیں؟

۲)___استحصال کرنے والے کیوں لوگوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرتے ہیں؟

۳)___ توحید سے کیا مراد ہے اور شرک کا کیا مطلب ہے؟

۴)___ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مہم کام او رپروگرام کیا تھا؟

۵)___ اسلام کے فلاح اور نجات دینے کے لئے کون سا پیغام ہے اور اس کا معنی کیا ہے؟

۶)___ اللہ تعالی کے نزدیک کون سا انسان مقرب ہے، اللہ تعالی کے نزدیک برتری کس میں ہے؟

۷)___ ظالموں کے لئے دوسروں پر حق ولایت اور حکومت ہوا کرتا ہے، انسان کا حقیقی مالک اور مختار کرون ہے؟

۸)___ مستکبرین پر کامیابی کا صحیح راستہ کون سا ہے؟

۴۸

عدل خدا

خداوند عالم نے اس جہاں کو ایک خاص نظم اور دقیق حساب پر پیدا کیا ہے اور ہر ایک مخلوق میں ایک خاص خاصیت عنایت فرمائی ہے، دن کو سورج کے نکلتے سے گرم اور روشن کیا ہے تا کہ لوگ اس میں سخت اور کوشش کر کے روزی کما سکیں رات کو تاریک اور خاموش قرار دیا ہے تا کہ لوگ اس میں راحت اور آرام کرسکیں ہر ایک چیز کی خلقت میں ایک اندازہ اور حساب قرار دیا ہے_

انھیں خصوصیات اور لوازمات کے نتیجے میں جہاں کی اشیاء خلقت کے لحاظ سے بہت عمدہ قسم کی زیبائی سے مزيّن ہیں_ سوچئے اگر آگ اپنی ان خصوصیات کے ساتھ موجود نہ ہوتی تو اس عالم کا رخ کیسا ہوتا___؟

فکر کیجئے اگر پانی اپنے ان خواص کے ساتھ جو اس میں موجود ہیں نہ ہوتا تو کیا زمین پر زندگی حاصل ہوسکتی___؟ غور کیجئے اگر زمین میں قوت جاذبہ نہ ہوتی تو کیا کچھ سامنے آتا؟ کیا تم اس صورت میں یہاں بیٹھ سکتے اور درس پڑھ سکتے تھے؟

ہرگز نہیں کیونکہ اس صورت میں زمین اس سرعت کی وجہ سے جو زمین اپنے ارد گرد اور سورج کے اردگرد کر رہی ہے تمام چیزوں کو یہاں تک کہ تمھیں اور تمھارے دوستوں کو فضا میں پھینک دیتی، ہمارا موجودہ زمانے میں زندہ رہنے کا نظم اور قانون ان خواص اور قوانین کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالی نے طبع اور مادّہ کے اندر رکھ چھوڑا ہے اگر یہ قوانین اس دنیا میں موجود نہ ہوتے تو زندگی کرنا حاصل نہ ہوتا گرچہ اس عالم

۴۹

کے موجودہ قوانین کبھی ہمارے لئے پریشانی کو بھی فراہم کردیتے ہیں مثلاً ہوئی جہاز کو ان قوانین طبعی کے ما تحت اڑایا جاتا ہے اور آسمان پر لے جاتا ہے جو ان مواد اور طبائع میں موجود ہیں اور انھیں قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے ہوئے اسے آسمان پرتیز اور سرعت سے حرکت میں لایا جاتا ہے_

قانون جاذبہ اور اصطلاک و ٹکراؤ سے ہوائی جہاز کو زمین پر اتارا جاتا ہے ہوائی جہاز کے مسافر اسی قانون سے استفادہ کرتے ہوئے ہوائی جہاز سے نیچے اترتے ہیں اور زمین پر چلتے ہیں اور اپنی اپنی منزل تک جا پہنچتے ہیں لیکن یہی ہوائی جہاز جب اس کا ایندھن اور پیٹرول فضا میں ختم ہوجائے تو زمین کا قانون جاذبہ فوراً سے زمین کی طرف کھینچتا ہے اور ہوائی جہاز زمین پر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا کہ جس سے اس میں سوار بعض فوراً دم توڑ دیتے ہیں اور کچھ زخمی اور بیکار ہوکر رہ جاتے ہیں اس صورت میں قصور کس کا ہے___؟

ٹھیک ہے کہ ہم اس صورت میں تمّنا کریں گے کہ کاش زمین میں قوت جاذبہ نہ ہوتی اور اس صورت میں قوت جاذبہ اپنا کام اور عمل انجام نہ دیتی___؟ کیا یہ ٹھیک ہے کہ ہم یہ آرزو کریں کہ کاش زمین اس ہوائی جہاز کو جس کا ایندھن ختم ہوگیا ہے اپنی طرف نہ کھینچتی___؟ سمجھتے ہوکہ اس آرزو کے معنی اور نتائج کیا ہوں گے___؟ اس خواہش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلقت کا قانون ہماری پسند کے مطابق ہوجائے کہ اگر ہم چاہیں اور پسند کریں تو قانون عمل کرے اور جب ہم نہ چاہیں اور پسند نہ کریں تو قانون عمل نہ کرے کیا اس صورت میں اسے قانون کہنا اور قانون کا نام دینا درست ہوگا___؟ اور پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کس شخص کی خواہش اور تمنا پر قانون عمل کرے___؟

۵۰

اس صورت میں سوچئے کہ ہر ج و مرج لازم نہ آ تا___ ؟ ممکن ہے کہ آپ اس شخص کو جو ہوائی جہاز کے گرجانے کی صورت میں بیکار ہوگیا ہے دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ وہ اس کی وجہ سے اندھا ہوگیا ہے اور اس کا ایک ہاتھ کٹ چکا ہے اور پاؤں سے معذور ہوگی ہے اور یہ کہیں اور سوچیں کہ کس نے اس پر ظلم کیا ہے___؟ اور کس نے اسے اس طرح ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں سے محروم کردیا ہے___؟

کیا ت م خدا کی عدالت میں شک کروگے کہ جس نے زمین کو قوت جاذبہ عنایت فرمائی ہے___؟ یا اس شخص کی عدالت اور قابليّت میں شک کروگے کہ جس نے زمین کے اس قوت جاذبہ کے قانون اور دوسرے طبائع کے قوانین سے صحیح طور سے استفادہ نہیں کیا ہے___؟ اس شخص کی قابليّت اور لیاقت میں شک کروگے کہ جس نے ہوائی جہاز میں بقدر ضرورت ایندھین نہیں ڈالا تھا___؟

اللہ تعالی نے ہر ایک موجود کو ایک خاص استعداد اور کمال سے پیدا کیا ہے اور دنیا پر کچھ عمومی قوانین اور طریقے معین کردیئے ہیں اور ہر چیز کے لئے ایک خاص حساب اور نظم قرار دیا ہے_ ہم انسانوں پر ضروری ہے کہ ہم ان قوانین سے صحیح طریقے سے استفادہ کریں تا کہ اللہ تعالی کے فیض و کرم اور رحمت و عدل سے صحیح طور سے مستفید ہوسکیں مثلا ماں کے رحم میں جو بچہ بڑھتا اور رشد کرتا ہے تو وہ اس عالم پر تمام مسلّط قوانین سے پیروی کرتا ہے اگر ماں، باپ یا دوسرے مخيّر حضرات خلقت کے قوانین کو صحیح طور پر استعمال کریں گے تو بچہ صحیح و سالم انھیں مل سکے گا بخلاف اگر وہ سگریٹ نوش یا شراب خور ہوئے تو سگریٹ یا شراب کے زہر سے یقینا بچے کے بدن میں نقص پیدا ہوجائے گا جس طرح کہ ہوائی جہاز کے گرنے نے نقص ایجاد کردیا تھا اور کسی کو آنکھ یا ہاتھ سے

۵۱

محروم کردیتا تھا_ شرابی ماں کا بچہ دنیا میں بیماری لے کر پیدا ہوتا ہے وہ ماں جو ضرر رساں دوائیں استعمال کریں ہے اس کا بچّہ دنیا میں معیوب پیدا ہوتا ہے، بچے کی ماں یا باپ یا اس کے لواحقین، قوانین صحت کی مراعات نہیں کرتے تو بچہ خلقت کے لحاظ سے ناقص پیدا ہوتا ہے یہ اور دوسرے نقائص ان قوانین کا نتیجہ ہیں جو اللہ تعالی نے دنیا پر مسلط کر رکھا ہے اور یہ تمام قوانین، اللہ تعالی کے عدل سے صادر ہوتے ہیں_

ہم تب کیا کہیں گے جب کوئی ماں باپ کہ جو قوانین صحت کی رعایت کرتے ہیں اور بچہ سالم دنیا میں آتا ہے اور وہ ماں باپ جو قوانین صحت کی رعایت نہ کریں اور ان کا بچہ بھی سالم دنیا میں آتا ہے کیا یہ کہ دنیا بے نظم اور بے قانون ہے اور اس پر کوئی قانون حکم فرما نہیں ہے_ کیا یہ نہیں سوچیں گے کہ جہاں میں ہرج اور مرج اور گربڑ ہے کہ جس میں کوئی خاص نظم اور حساب نہیںہے اور کوئی قانون اس پر حکم فرما نہیں ہے؟ کیا یہ نہیں کہیں

ے کہ جہاں کا خلق کرنے والا ظلم کو جائز قرار دیتا ہے____؟ کیوں کہ ان ماں باپ کو جو قانون کے پوری طرح پابند ہیں انھیں ایک سالم بچہ عنایت فرماتا ہے اور ان ماں باپ کو بھی جو کسی قانون کی پابندی نہیں کرتے سالم بچہ عنایت کرتا ہے تو پھر ان دونوں میں کیا فرق ہوگا___؟ جس نے کام کیا ہو اور قانون کی پابندی کی ہو وہ اس شخص کے ساتھ مساوی اور برابر ہو کہ جس نے قانون کی پابندی نہ کی ہو___؟ کیا دونوں ایک جیسے منزل مقصود تک پہنچیں گے، گیا آپ اس طرح سوچ سکتے ہیں___؟ ہرگز نہیں کیونکہ تمھیں لم ہے کہ دنیا ایک قانون اور نظم کے ساتھ چلائی جا رہی ہے اور اسے لاقونی اور ہرج و مرج سے نہیں چلایا جارہا ہے _

تمھیں علم ہے کہ اللہ تعالی نے ہر ایک موجود کے لئے علّت قرار دی ہے_ طبائع

۵۲

اور مواد عالم میں قوانین اللہ تعالی کے ارادے سے رکھے گئے ہیں، وہ اپنا عمل انجام دے رہے ہیں اور کسی کی خواہش و تمنّا کے مطابق نہیں بدلتے ہیں البتہ کبھی ایک یا کئی قانون ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ان سے بعض چیزیں وجود میں آجاتی ہیں جو ہماری پسند کے مطابق نہیں ہوتیں لیکن دنیا کے نظام میں اس قسم کے وجود سے فرار ممکن نہیں ہوسکتا یہی اللہ تعالی کا عدل نہیں ہے کہ جن قوانین کو اس نے عالم پر مسطل کردیا ہے انھیں خراب کردے اور لاقانونيّت اور ہرج و مرج کا موجب بنے بلکہ اللہ تعالی کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مخلوق کو اس کی خاص استعداد کی روسے وجود عنایت فرمائے اور اسے کمال تک پہنچائے_ خداوند عالم تمام حالات میں عادل ہوتا ہے یہ انسان ہی ہے جو اپنے اعمال اور نادانی و جہالت کی وجہ سے اپنے اور دوسروں پر ظلم اور مشکلیں کھڑی کرتا ہے_

ایک سوال

ہوسکتا ہے آپ کہیں کہ ماں باپ نے قانون کی لاپرواہی کرتے ہوئے شراب یا دوسری ضرر رساں دوائیں استعمال کر کے بچے کو غیر سالم اور بے کار وجود میں لائے اور اس قسم کے نقصان کے سبب بنے کہ جس کے نتیجے میں ایک بیکار اور ناقص فرد دینا میں آیا اور یہ ٹھیک ان قوانین کے ماتحت ہوا ہے جو اللہ تعالی نے خلقت کے لئے بر بناء عدل معین کر رکھا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں بچے کا کیا قصور ہے کہ وہ دنیا میں ناقص پیدا ہو اور تمام عمر بیکار زندگی بسر کرے____

جواب

اس کا جواب یہ ہے کہ بچے کا کوئی بھی قصور نہیں ہے خداوند عالم بھی اس پر اس کی

۵۳

طاقت اور قدرت سے زیادہ حکم اور تکلیف نہیں دے گا اور وہ اس امکانی حد میں جو اس میں موجود ہے اپنے وظائف شرعی پر عمل کرے تو وہ اللہ تعالی سے بہترین جزا کا مستحق ہوگا اس قسم کے افراد اگر متقی اور مومن ہوں تو وہ دوسرے مومنین کی طرح اللہ تعالی کے نزدیک محترم اور عزیز ہونگے اور اپنے وظائف پر ٹھیک طرح سے عمل پیراہوں تو آخرت میں ایک بلند درجے پر فائز ہوں گے_

اس بحث کا خلاصہ اور تکمیل

سابقہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خداوند عالم عادل ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے خاص قوانین اس دنیا کے لئے وضع کئے ہیں اور ہر ایک مخلوق میں ایک خاص استعداد اور ودیعت کر رکھی ہے_ اگر ہم ان قوانین اور خصوصیات کی جو اللہ تعالی نے معین کی ہیں رعایت کریں تو پھر ہم اس کے فیض اور رحمت سے مستفید ہوں گے اور اس کے عدل و فضل کے سایہ میں اس نتیجے تک جا پہنچیں گے جو مدّ نظر ہوگا اور ان قوانین عالم سے جو اللہ تعالی کے ارادے سے معین کئے گئے ہیں لاپروائی کریں تو ہم خود اپنے اوپر ظلم کریں گے اور اس بے اعتنائی کا نتیجہ یقینا دیکھیں گے_

خداوند عالم کا آخرت میں عادل ہونے سے بھی یہی مراد ہے یعنی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ لوگوں کو اچھائی اور برائی سے آگاہ کردیا ہے اچھے کاموں کے لئے اچھی جزاء اور برے کاموں کے لئے بری سزا معین کر رکھی ہے_ خداوند عالم آخرت میں کسی پر ظلم نہ کرے گا ہر ایک کو ان کے اعمال کے مطابق جزاء اور سزا دے گا جس نے نیکوکاری، خداپرستی کا راستہ اختیار کیا ہوگا تو وہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے مستفید ہوگا اور

۵۴

اگر باطل اور مادہ پرستی کا شیوہ اپنا یا ہوگا اور دوسروں پر ظلم و تعدّی روا رکھی ہوگی تو آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوگا اور اپنے برے کاموں کی سزا پائے گا_

قرآن مجید کی آیت:

( و ما کان الله لیظلمهم و لکن کانوا انفسهم یظلمون ) (۱)

''خداوند عالم کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں''

____________________

۱) سورہ عنکبوت آیت نمبر ۴۰

۵۵

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ کچھ طبعی قوانین بتلایئے

۲)___ کیا یہ درست ہے کہ ہم یہ آرزو کرں کہ کاش زمین میں قوت جاذبہ موجود نہ ہوتی کیوں؟ توضیح کیجئے

۳)___ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا عادل ہے تو اس سے کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ تمام کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے خواہ اس نے کہ جس نے کام کیا ہے اور اس نے کہ جس نے کوئی کام نہیں کیا؟

۴)___ اللہ تعالی کے عادل ہونے کا کیا تقاضہ ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی اپنے قوانین طبعی کو ہوا اور ہوس کے مطابق بدل دیتا ہے یا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی اپنے معین کردہ قوانین کے مطابق ہر ایک انسان کو نعمت اور کمال عنایت کرتا ہے_

۵)___ بعض انسان جو ناقص عنصر والے ہوتے ہیں یہ کن عوامل کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے؟ کیا اس سے اللہ تعالی کی عدالت یا قوانین طبعی کے خلاف ہونے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے؟

۶)___ اگر کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں اس کی شراب خوری کی وجہ سے اس بچے کی طرح رشد کرے کہ جس کی ماں سالم اور متقی ہو اگر ایسی مساوات ہوجائے تو یہ کس کا نتیجہ ہوگا، کیا یہ عدل الہی کی نشانی ہوگی؟

۵۶

دوسرا حصّہ

آخرت کے مسائل کے بارے میں

۵۷

ہم ان دو درسوں میں چند طالب علموں سے گفتگو کریں گے اورخلقت کی غرض بیان کر کے جہان آخرت کی طرف متوجہ کریں گےاس کے بعد انھیں مطالب کو دلیل سے بطور جدّی بیان کریں گے

(۱) عمل کا ثمر

گرمی کا موسم نزدیک آرہا ہے فصل کاٹنے کا وقت پہنچنے والا ہے_ ''علی'' چچا نے ہمیں دعوت دی ہے تا کہ فصل کاٹنے اور میوے چننے میں اس کی مدد کریں_ ہم نے صبح سویرے جلدی میں حرکت کی جب ہم اپنے چچا کے باغ تک پہنچے تو سورج نکل چکا تھا باغ کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا، موٹے اور سرخ سیب درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں کے درمیان سے نظر آرہے تھے_

میں اور میری بہت نے جب چاہا کہ باغ کے اندر داخل ہوں تو ہمارے باپ نے کہا ٹھہرو تا کہ دروازہ کھٹکھٹائیں اور باغ میں اندر جانے کے لئے اجازت لیں اور تب باغ کے اندر داخل ہوں_ ابّا نے پتھر کے ساتھ دروازے کے باہر لگی میخوں کو مارا چچا کی آواز سننے کے بعد ہم باغ کے اندر داخل ہوگئے_ تمھاری جگہ خالی تھی یعنی کاش کہ تم بھی وہاں ہوتے اور دیکھتے کہ کتنی بہترین اور پر لطف ہوا اور عمدہ ماحول تھا، سرخ اور موٹے سیب درختوں پر لٹک رہے تھے اور ہوا کے چلنے سے آہستہ آہستہ

۵۸

حرکت کر رہے تھے اور کبھی کوئی نہ کوئی زمین پر بھی گرپڑتا تھا اور دور تک جاپہنچتا تھا جب باغ کے وسط میں بنے ہوئے کمرے تک پہنچے تو چچا علی دوڑتے ہوئے ہمارے استقبال کے لئے آرہے تھے ہم نے انھیں سلام کیا اور انھوں نے ہمیں خوش روئی اور خوشی سے خوش آمد کہا اور ہمیں اس کمرے میں لے گئے جہاں ناشتہ و غیرہ رکھا ہوا تھا ایک بہت بڑی ٹرے کمرے کے وسط میں پڑی ہوئی تھی کمرے کے وسط میں سیب بھی موجود تھے_

چچا نے سیبوں کی طرف اشارہ کیا اور مجھے اور دوسرے بچوں سے فرمایا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میں اب دن رات کی محنت اور اس کے نتیجے تک پہنچ چکا ہوں درختوں نے بہت اچھا پھل دیا ہے، ان عمدہ اور خوش ذائقہ سیبوں کو اللہ تعالی نے تمھارے لئے پیدا کیا ہے تمھیں دیا ہوگا کہ جب تم بہار کے موسم میں یہاں آئے تھے اور معمولی بارش کے باعث تمھیں یاد ہوگا کہ جب تم بہار کے موسم میں یہاں آئے تھے اور معمولی بارش کے باعث تمھیں کچھ تکلیف بھی اٹھانی پڑی تھی اگر بارش نہ ہوتی اور پانی موجود نہ ہوتا تو میری کوشش اور محنت بے فائدہ اور بے نتیجہ ہوتی، درخت پانی نہ ہونے سے خشک ہوجاتے اور پھر ایسے عمدہ اور خوش مزہ سیب کیسے ہاتھ آتے؟

حسن نے کہا: ہاں چچا وہ دن کیسا عمدہ تھا ہم یہاں کھیلتے تھے اور کچھ کام بھی کیا کرتے تھے اور کچھ نئی معلومات بھی حاصل کیا کرتے تھے_ چچا نے جواب دیا اب تم ناشتہ کروں اس کے بعد اس دن کی گفتگو کو دوبارہ دہرائیں گے اس سے نیا نتیجہ نکالیں گے اس کے بعد سیب چننے اور اپنی محنت کا ثمرہ لینے کے لئے باغ میں جائیں گے_

ناشتہ کرنے کے بعد چچا علی نے زہراء سے کہا: بیٹی زہرائ تمھیں یاد ہے کہ اس دن پانی کی گردش کے متعلق کیا کہا تھا___؟ ننھی زہراء نے کہا ہاں مجھے یاد ہے آپ نے احمد کے لباس کی طرف اشارہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بارش

۵۹

بادلوں سے برستی ہے_ ہم زہراء کے اس عمدہ اور مختصر جواب سے ہنسے_ ابّا نے کہا: کیوں ہسنتے ہو؟ زہراء سچ تو کہہ رہی ہے سورج کی روشنی سمندر پر پڑتی ہے اور سمندر کا پانی سورج کی حرارت سے بخار بنتا ے اور اوپر کی طرف چلا جاتا ہے ہوائیں ان بخارات کو ادھر ادھر لے جاتی ہیں ہوا کی سردی اوپر والے بخارات کو بادلوں میں تبدیل کردیتی ہے_

یہ گھنے بادل اور بخارات زمین کی قوت جاذبہ کے واسطے سے زمین کی طرف کھچے آتے ہیں اور بارش کی صورت میں قطرہ قطرہ ہوکر زمین پر برسنے لگتے ہیں، بارش کا پانی نہروں اور ندیوں میں جاری ہونے لگتا ہے تا کہ اسے حیوانات اور انسان پئیں اور سیراب ہوں اور کچھ پانی آہستہ آہستہ زمین میں جذب ہونے لگتا ہے اور انسانوں کی ضروریات کے لئے وہاں ذخیرہ ہوجاتا ہے یہی ذخیرہ شدہ پانی کبھی چشموں کی صورت میں باہر نکل آتا ہے اور انسانوں کے ہاتھوں آتا ہے یا وہیں زمین کے اندر ہی رہ جاتا ہے اور انسان اپنی محنت و کوشش کے ذریعے سے کنویں، ٹیوب دیل و غیرہ بنا کر اس سے استفادہ کرتا ہے_

چچا ہنسے اور کہا: تم نے کتنا عمدہ درس حاضر کر رکھا ہے ابا نے چچا کی طرف دیکھا او رکہا کہ چونکہ آپ نے ایک عمدہ اور اچھا سبق پڑھایا ہے او رکہا ہے کہ تمام موجودات اسی طرح ایک پائیدار قوانین اور دقیق نظام پر خلق کئے گئے ہیں اور ایک معین غرض اور ہدف کی طرف جا رہے ہیں_ ماد ی دنیا اللہ تعالی کے ارادے اور فرمان کے ماتحت ہمیشہ بدلتی او رحرکت کر رہی ہے تا کہ انسانوں کی خدمت انجام دے پائے انسانوں کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور ان کی کوششوں کو نتیجہ آور قرار دیا جاتا ہے درخت اور نباتات، آب و ہوا اور سورج کی روشنی اور معدنی مواد جو زمین کے اندر

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302