‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 302
مشاہدے: 103179
ڈاؤنلوڈ: 3567


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 103179 / ڈاؤنلوڈ: 3567
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد 3

مؤلف:
اردو

ان دو میں سے کون سی قسم کامل تر اور قیمتی ہے؟ علم رکھنے والی مخلوقات اہم ہیں یا وہ جو بے علم ہیں___؟ اس کا کیا جواب دوگے___؟

یقینا تم ٹھیک اور درست جواب دوگے کہ انسان، علم رکھتا ہے اور پتھر، لکڑی و لوہا و غیرہ علم نہیں رکھتے، یقینا وہ مخلوق جو علم رکھتی ہے وہ کامل تر اور اس سے بہتر ہے جو مخلوق بے علم ہے_ تم نے جواب ٹھیک دیا لہذا علم ایک کمال والی صفت ہے جو شخص یہ کمال رکھتا ہو وہ بغیر شک کے اس سے کامل تر ہوگا جو یہ کمال والی صفت نہ رکھتا ہو_

۳)___ بعض مخلوقات زندہ ہیں جیسے حیوانات، نباتات اور انسان لیکن بعض دوسرے زندہ نہیں ہیں جیسے پتھر، لکڑی اور لوہا و غیرہ_ ان دو میں سے کون کامل تر ہے؟ زندہ مخلوقات زندگی رکھتے ہیں یا وہ مخلوقات جو زندہ نہیں ہیں زندگی رکھتے ہیں؟ اس کا کیا جواب دوگے؟

یقینا تم درست جواب دوگے اور زندگی و حیات بھی ایک صفت کمال ہے اب تک ہم نے معلوم کرلیا کہ علم، قدرت اور حیات یہ تینوں صفت کمال ہیں اور مخلوقات میں سے بہت سے ان تینوں صفات کے حامل ہوتے ہیں یعنی دانا، توانا اور زندہ ہوتے ہیں ان زندہ و دانا اور توانا مخلوقات کو اللہ تعالی نے خلق فرمایا ہے اور اللہ تعالی نے یہ کمالات انھیں عنایت فرمایا ہے جس خدا نے انھیں یہ کمالات دیئے ہیں وہ خود بھی ان کمالات کو بہتر اور بالاتر رکھتا ہے یعنی وہ ذات بھی ان صفات کمالیہ سے متصف ہے_

۴۱

تم نے سابقہ درس میں کائنات میں دقیق نظام اور تعجب آور ارتباط کو اجمالی طور پر معلوم کرلیا ہے اور تم جان چکے ہو کہ کتنی عمدہ اور بارک کا دیگری خلقت عالم میں رکھی گئی ہے اور کس دقیق ہم آہنگی و ارتباط سے یہ جہان خلق کیا گیا ہے اور تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ساری مخلوقات کو اللہ تعالی نے اسی طرح خلق فرمایا ہے ایسا دقیق اور تعجب آور جہان کس چیز کا گواہ ہے___؟ ہمیں اس جہاں کی ترتیب اور عمدہ ہم آہنگی کیا سبق دیتی ہے؟ اس دقیق اور پر شکوہ نظام سے کیا سمجھتے ہیں____؟

مخلوقات کے مطالعے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اس جہان کو ایک زندہ و عالم اور قادر ذات نے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں اس کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہے کہ جس سے وہ مطلع تھا_

جہان کی مخلوقات کو ایک خاص قانون اور نظام کے ماتحت پیدا کر کے اسے چلا رہا ہے اور اسے اسی غرض و غایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے_ اب تک ہم نے سمجھ لیا کہ جہان کا پیدا کرنے والا خدا مہربان اور تمام اشیاء کا عالم ہے، تمام کو دیکھتا ہے اور کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ و مخفی نہیں ہے، معمولی سے معمولی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے وہ ذات ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور تمام بندوں کے اعمال سے مطلع ہے اور انھیں ان کی جزا دے گا_

ہم نے جان لیا کہ خدا قادر ہے یعنی ہر کام کے انجام دینے پر قدرت رکھتا ہے، اس کی قدرت اور توانائی محدود نہیں ہے، تمام مخلوقات کو اس نے ہی پیدا کیا ہے اور انھیں چلا رہا ہے_

ہم نے جان لیا کہ خدا حی و زندہ ہے اور تمام امور کو علم و دانائی سے انجام دیتا ہے ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس عظیم خالق و عالم اور قادر کے سامنے ہمارا فریضہ کیا ہے؟

۴۲

قرآن مجید کی آیت:

( یخلق ما یشاء و هو العلیم القدیر ) ___(۱)

'' خدا جسے چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور وہ دانا و توانا ہے''

____________________

۱) سورہ روم آیت نمبر ۵۳

۴۳

توحید اور شرک

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند عالم کی طرف سے ایسے زمانے میں پیغمبری کے لئے مبعوث ہوئے جس زمانے کے اکثر لوگ جاہل، مشرک اور بت پرست تھے اور ان کا گمان تھا کہ اس عالم کو چلانے میں خدا کے علاوہ دوسروں کو بھی دخل ہے_ خدا کا شریک قرار دیتے تھے_ خدائے حيّ و عالم او رقادر یکتا کی پرستش اور اطاعت کرنے کے بجائے عاجز و بے جان بتوں کی پرستش کی کرتے تھے اور ان کے لئے نذر و قربانی کرتے اور ان سے طلب حاجت کرتے تھے_

ظالم و جابر اور طاغوت قسم کے لوگوں کو برگزیدہ افراد جانتے تھے اور انھیں بالاتر اور واجب الاطاعت گمان کرتے تھے ان کی حکومت اور سلطنت کو قبول کرتے تھے_ اپنی سعادت و شقاوت، خوش بختی و بدبختی، موت اور زندگی کو ان کے ارادے میں منحصر جانتے تھے اور عبادت کی حد تک ان کی اطاعت کرتے تھے اور ان کے سامنے عاجزی اور اظہار بندگی کیا کرتے تھے_ جاہل اور مشرک انسان اپنی خدا داد استقلال کو فراموش کرچکے تھے اور غلامانہ روش کی طرف ظالموں اور طاغوتوں کے مطیع و فرمانبردار تھے اور ان کے سامنے عبادت کرتے تھے اور ان کا سجدہ کیا کرتے تھے لوگ بت پرستی میں مشغول تھے اور اسی میں خوش تھے اور استحصال کرنے والے لوگوں کے جان و مال پر مسلط تھے اور ان کی محنت کو غارت کر رہے تھے لوگوں کی اکثریت فقر اور فاقہ میں زندگی بسر کرتی تھی اور وہ جرات نہیں کرسکتے کہ وہ

۴۴

اپنے زمانے کے طاغتوں سے اپنے حقوق لے سکیں_ بت پرستی، شخصیت پرستی، قوم پرستی، وطن پرستی اور خود پرسنی نے لوگوں کو متفرق اور پراگندہ کر رکھا تھا اور استحصال کرنے والے اس اختلاف کو وسیع کر رہے تھے_

اس قسم کی تمام پرستش شرک کا پرتو اور مظاہرہ تھا اور لوگوں کی بدبختی کا سب سے بڑا عامل یہی شرک تھا_ ان تمام مصائب کا علاج کیا تھا___؟ ایسے لوگوں کی نجات جو بدبختی میں جل رہے تھے کس میں تھی؟ کس طرح ان تمام مظالم اور ستم سے نجات حاصل کرسکتے تھے؟ انھیں ایسے رہبر کی ضرورت تھی جو روشن فکر اور بدار و ہوشیار ہو جو انھیں بت پرستی اور شرک سے نجات دلائے اور توحید و خداپرستی کی طرف لے جائے ایسے زمانے میں خداوند عالم کی طرف سے حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو پیغمبری اور رہبری کے لئے چناگیا_ آپ(ص) نے اپنا پہلا اور اہم کام شرک و بت پرستی سے مقابلہ کرنا قرار دیا_ آپ (ص) نے لوگوں کو پہلی دعوت میں فرمایا کہ کہو:

''قولوا لا اله الّا الله تفلحوا''

''یعنی کلمہ توحید پڑھو اور نجات حاصل کرو_ اس پر ایمان لے آؤ کہ سوائے خدائے ذوالجلال کے اور کوئی معبود نہیں تا کہ نجات حاصل کرسکو''

اس کلام سے کیا مراد ہے سمجھتے ہو؟ یعنی مختلف خدا اور جھوٹے خداؤں کو دور پھینکو اور دنیا کے حقیقی خالق کی اطاعت اور عبادت کرو_ ظالموں کی حکومت سے باہر نکلو اور اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے رہبر اور پیغمبر کی حکومت اور ولایت کو قبول کرو تا کہ آزاد اور سربلند اور سعادت مند ہوجاؤ_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ لوگو

''کائنات کا خالق اورچلانے والا صرف خدا ہے _جو قادر مطلق

۴۵

ہے_ خداوند عالم کی ذات ہی تو ہے جس نے خلقت اور نظام جہان کا قانون مقرر کیا ہے اور اسے چلا رہا ہے اس کی ذات اور اس کے ارادے سے دن رات بنتے اور آتے جاتے ہیں_ آسمان سے زمین پر بارش اور برف گرتی ہے_ درخت اور نباتات میوے اور پھول دیتے ہیں، انسان اور حیوان روزی حاصل کرتے ہیں، اللہ ہی نے جو حّی و قيّوم اور عالم و قادر ہے تمام موجودات کو خلق فرمایا اور وہ ان سے بے نیاز ہے، تمام موجودات اس کے محتاج اور نیازمند ہیں، اللہ تعالی کی مدد کے بغیر کسی بھی موجود سے کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا جان لو کہ اللہ تعالی نے دنیا کا نظام کسی کے سپرد نہیں کیا_

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے لوگو جان لو کہ تمام انسان اللہ تعالی کی مخلوق ہیں تمام کے ساتھ عادلانہ سلوک ہونا چاہیئے سیاہ، سفید، زرد، سرخ، مرد، عورت، عرب، غیر عرب تمام بشر کے افراد ہیں اور انھیں آزادی و زندگی کا حق حاصل ہے، اللہ تعالی کے نزدیک مقرّب انسان وہ ہے جو متقی ہو_ اللہ تعالی نے زمین اور تمام طبعی منابع اور خزانوں کو انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے اور تمام انسانوں کو حق حاصل ہے کہ ان فائدے حاصل کرے ہر ایک انسان کو حق حاصل ہے کہ اپنی محنت اور کوشش سے زمین کو آباد کرے اور اپنی ضرورت کے

۴۶

مطابق اس کے منابع طبعی سے استفادہ کرے اور لوگوں کو فائدے پہنچائے_ پیغمبر اسلام(ص) فرمایا کرتے تھے: لوگو ظالموں کے مطیع اور غلام نہ بنو خداوند عالم نے تمھیں آزاد خلق فرمایا ہے، تمھارا ولی اور صاحب اختیار خدا ہے، خداوند عالم تمھارا مالک اور مختار ہے کہ جس نے تمھیں خلق فرمایا ہے، تمھاری رہبری اور ولایت کا حق اسی کو حاصل ہے_ اللہ تعالی اور ان حضرات کے علاوہ جو اس کی طرف سے اس کا پیغام بندوں تک پہنچاتے اور اس کے احکام سے مطلع کرتے ہیں اور کوئی واجب الاطاعت نہیں ہے، پرہیزگاری اختیار کرو اور میری اطاعت کرو تا کہ میں تمھیں ان ظالموں کے شر سے نجات دلاؤں، تم سب آزاد ہو اور ظالموں و ستمگروں کے غلام اور قیدی نہ بنو، خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرو اور اس کے علاوہ کسی سے امید وابستہ نہ رکھو صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کی رضا کے لئے کام بجالاؤ اور ایک دل ہوکر ایک غرض اور ہدف کو بجالاؤ، جھوٹے معبودوں اور اختلاف ڈالنے والوں کو دور پھینک دو، تمام کے تمام توحید کے علم کے سایہ میں اکٹھے ہوجاؤ تا کہ آزاد و سربلند اور سعادتمند بن جاؤ، تمام کاموں کو صرف خدا کے لئے اور خدا کی یاد کے لئے بجالاؤ صرف اللہ تعالی سے مدد اور کمک طلب کرو تا کہ اس مبارزہ میں کامیاب ہوجاؤ''

قرآن مجید کی آیت:

( من یشرک بالله فقد ضل ضلالا بعیدا ) ___(۱)

''جس شخص نے اللہ کے ساتھ شریک قرار دیا وہ سخت گمراہی میں پڑا''

____________________

۱) سوره نساء / ۱۱۶

۴۷

سوالات

سوچنے، مباحثہ کرنے اور جواب دینے کیلئے ہیں

۱)___ بت پرستی اور شرک کے مظاہرات کون سے ہوتے ہیں؟

۲)___استحصال کرنے والے کیوں لوگوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرتے ہیں؟

۳)___ توحید سے کیا مراد ہے اور شرک کا کیا مطلب ہے؟

۴)___ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مہم کام او رپروگرام کیا تھا؟

۵)___ اسلام کے فلاح اور نجات دینے کے لئے کون سا پیغام ہے اور اس کا معنی کیا ہے؟

۶)___ اللہ تعالی کے نزدیک کون سا انسان مقرب ہے، اللہ تعالی کے نزدیک برتری کس میں ہے؟

۷)___ ظالموں کے لئے دوسروں پر حق ولایت اور حکومت ہوا کرتا ہے، انسان کا حقیقی مالک اور مختار کرون ہے؟

۸)___ مستکبرین پر کامیابی کا صحیح راستہ کون سا ہے؟

۴۸

عدل خدا

خداوند عالم نے اس جہاں کو ایک خاص نظم اور دقیق حساب پر پیدا کیا ہے اور ہر ایک مخلوق میں ایک خاص خاصیت عنایت فرمائی ہے، دن کو سورج کے نکلتے سے گرم اور روشن کیا ہے تا کہ لوگ اس میں سخت اور کوشش کر کے روزی کما سکیں رات کو تاریک اور خاموش قرار دیا ہے تا کہ لوگ اس میں راحت اور آرام کرسکیں ہر ایک چیز کی خلقت میں ایک اندازہ اور حساب قرار دیا ہے_

انھیں خصوصیات اور لوازمات کے نتیجے میں جہاں کی اشیاء خلقت کے لحاظ سے بہت عمدہ قسم کی زیبائی سے مزيّن ہیں_ سوچئے اگر آگ اپنی ان خصوصیات کے ساتھ موجود نہ ہوتی تو اس عالم کا رخ کیسا ہوتا___؟

فکر کیجئے اگر پانی اپنے ان خواص کے ساتھ جو اس میں موجود ہیں نہ ہوتا تو کیا زمین پر زندگی حاصل ہوسکتی___؟ غور کیجئے اگر زمین میں قوت جاذبہ نہ ہوتی تو کیا کچھ سامنے آتا؟ کیا تم اس صورت میں یہاں بیٹھ سکتے اور درس پڑھ سکتے تھے؟

ہرگز نہیں کیونکہ اس صورت میں زمین اس سرعت کی وجہ سے جو زمین اپنے ارد گرد اور سورج کے اردگرد کر رہی ہے تمام چیزوں کو یہاں تک کہ تمھیں اور تمھارے دوستوں کو فضا میں پھینک دیتی، ہمارا موجودہ زمانے میں زندہ رہنے کا نظم اور قانون ان خواص اور قوانین کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالی نے طبع اور مادّہ کے اندر رکھ چھوڑا ہے اگر یہ قوانین اس دنیا میں موجود نہ ہوتے تو زندگی کرنا حاصل نہ ہوتا گرچہ اس عالم

۴۹

کے موجودہ قوانین کبھی ہمارے لئے پریشانی کو بھی فراہم کردیتے ہیں مثلاً ہوئی جہاز کو ان قوانین طبعی کے ما تحت اڑایا جاتا ہے اور آسمان پر لے جاتا ہے جو ان مواد اور طبائع میں موجود ہیں اور انھیں قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے ہوئے اسے آسمان پرتیز اور سرعت سے حرکت میں لایا جاتا ہے_

قانون جاذبہ اور اصطلاک و ٹکراؤ سے ہوائی جہاز کو زمین پر اتارا جاتا ہے ہوائی جہاز کے مسافر اسی قانون سے استفادہ کرتے ہوئے ہوائی جہاز سے نیچے اترتے ہیں اور زمین پر چلتے ہیں اور اپنی اپنی منزل تک جا پہنچتے ہیں لیکن یہی ہوائی جہاز جب اس کا ایندھن اور پیٹرول فضا میں ختم ہوجائے تو زمین کا قانون جاذبہ فوراً سے زمین کی طرف کھینچتا ہے اور ہوائی جہاز زمین پر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا کہ جس سے اس میں سوار بعض فوراً دم توڑ دیتے ہیں اور کچھ زخمی اور بیکار ہوکر رہ جاتے ہیں اس صورت میں قصور کس کا ہے___؟

ٹھیک ہے کہ ہم اس صورت میں تمّنا کریں گے کہ کاش زمین میں قوت جاذبہ نہ ہوتی اور اس صورت میں قوت جاذبہ اپنا کام اور عمل انجام نہ دیتی___؟ کیا یہ ٹھیک ہے کہ ہم یہ آرزو کریں کہ کاش زمین اس ہوائی جہاز کو جس کا ایندھن ختم ہوگیا ہے اپنی طرف نہ کھینچتی___؟ سمجھتے ہوکہ اس آرزو کے معنی اور نتائج کیا ہوں گے___؟ اس خواہش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلقت کا قانون ہماری پسند کے مطابق ہوجائے کہ اگر ہم چاہیں اور پسند کریں تو قانون عمل کرے اور جب ہم نہ چاہیں اور پسند نہ کریں تو قانون عمل نہ کرے کیا اس صورت میں اسے قانون کہنا اور قانون کا نام دینا درست ہوگا___؟ اور پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کس شخص کی خواہش اور تمنا پر قانون عمل کرے___؟

۵۰

اس صورت میں سوچئے کہ ہر ج و مرج لازم نہ آ تا___ ؟ ممکن ہے کہ آپ اس شخص کو جو ہوائی جہاز کے گرجانے کی صورت میں بیکار ہوگیا ہے دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ وہ اس کی وجہ سے اندھا ہوگیا ہے اور اس کا ایک ہاتھ کٹ چکا ہے اور پاؤں سے معذور ہوگی ہے اور یہ کہیں اور سوچیں کہ کس نے اس پر ظلم کیا ہے___؟ اور کس نے اسے اس طرح ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں سے محروم کردیا ہے___؟

کیا ت م خدا کی عدالت میں شک کروگے کہ جس نے زمین کو قوت جاذبہ عنایت فرمائی ہے___؟ یا اس شخص کی عدالت اور قابليّت میں شک کروگے کہ جس نے زمین کے اس قوت جاذبہ کے قانون اور دوسرے طبائع کے قوانین سے صحیح طور سے استفادہ نہیں کیا ہے___؟ اس شخص کی قابليّت اور لیاقت میں شک کروگے کہ جس نے ہوائی جہاز میں بقدر ضرورت ایندھین نہیں ڈالا تھا___؟

اللہ تعالی نے ہر ایک موجود کو ایک خاص استعداد اور کمال سے پیدا کیا ہے اور دنیا پر کچھ عمومی قوانین اور طریقے معین کردیئے ہیں اور ہر چیز کے لئے ایک خاص حساب اور نظم قرار دیا ہے_ ہم انسانوں پر ضروری ہے کہ ہم ان قوانین سے صحیح طریقے سے استفادہ کریں تا کہ اللہ تعالی کے فیض و کرم اور رحمت و عدل سے صحیح طور سے مستفید ہوسکیں مثلا ماں کے رحم میں جو بچہ بڑھتا اور رشد کرتا ہے تو وہ اس عالم پر تمام مسلّط قوانین سے پیروی کرتا ہے اگر ماں، باپ یا دوسرے مخيّر حضرات خلقت کے قوانین کو صحیح طور پر استعمال کریں گے تو بچہ صحیح و سالم انھیں مل سکے گا بخلاف اگر وہ سگریٹ نوش یا شراب خور ہوئے تو سگریٹ یا شراب کے زہر سے یقینا بچے کے بدن میں نقص پیدا ہوجائے گا جس طرح کہ ہوائی جہاز کے گرنے نے نقص ایجاد کردیا تھا اور کسی کو آنکھ یا ہاتھ سے

۵۱

محروم کردیتا تھا_ شرابی ماں کا بچہ دنیا میں بیماری لے کر پیدا ہوتا ہے وہ ماں جو ضرر رساں دوائیں استعمال کریں ہے اس کا بچّہ دنیا میں معیوب پیدا ہوتا ہے، بچے کی ماں یا باپ یا اس کے لواحقین، قوانین صحت کی مراعات نہیں کرتے تو بچہ خلقت کے لحاظ سے ناقص پیدا ہوتا ہے یہ اور دوسرے نقائص ان قوانین کا نتیجہ ہیں جو اللہ تعالی نے دنیا پر مسلط کر رکھا ہے اور یہ تمام قوانین، اللہ تعالی کے عدل سے صادر ہوتے ہیں_

ہم تب کیا کہیں گے جب کوئی ماں باپ کہ جو قوانین صحت کی رعایت کرتے ہیں اور بچہ سالم دنیا میں آتا ہے اور وہ ماں باپ جو قوانین صحت کی رعایت نہ کریں اور ان کا بچہ بھی سالم دنیا میں آتا ہے کیا یہ کہ دنیا بے نظم اور بے قانون ہے اور اس پر کوئی قانون حکم فرما نہیں ہے_ کیا یہ نہیں سوچیں گے کہ جہاں میں ہرج اور مرج اور گربڑ ہے کہ جس میں کوئی خاص نظم اور حساب نہیںہے اور کوئی قانون اس پر حکم فرما نہیں ہے؟ کیا یہ نہیں کہیں

ے کہ جہاں کا خلق کرنے والا ظلم کو جائز قرار دیتا ہے____؟ کیوں کہ ان ماں باپ کو جو قانون کے پوری طرح پابند ہیں انھیں ایک سالم بچہ عنایت فرماتا ہے اور ان ماں باپ کو بھی جو کسی قانون کی پابندی نہیں کرتے سالم بچہ عنایت کرتا ہے تو پھر ان دونوں میں کیا فرق ہوگا___؟ جس نے کام کیا ہو اور قانون کی پابندی کی ہو وہ اس شخص کے ساتھ مساوی اور برابر ہو کہ جس نے قانون کی پابندی نہ کی ہو___؟ کیا دونوں ایک جیسے منزل مقصود تک پہنچیں گے، گیا آپ اس طرح سوچ سکتے ہیں___؟ ہرگز نہیں کیونکہ تمھیں لم ہے کہ دنیا ایک قانون اور نظم کے ساتھ چلائی جا رہی ہے اور اسے لاقونی اور ہرج و مرج سے نہیں چلایا جارہا ہے _

تمھیں علم ہے کہ اللہ تعالی نے ہر ایک موجود کے لئے علّت قرار دی ہے_ طبائع

۵۲

اور مواد عالم میں قوانین اللہ تعالی کے ارادے سے رکھے گئے ہیں، وہ اپنا عمل انجام دے رہے ہیں اور کسی کی خواہش و تمنّا کے مطابق نہیں بدلتے ہیں البتہ کبھی ایک یا کئی قانون ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ان سے بعض چیزیں وجود میں آجاتی ہیں جو ہماری پسند کے مطابق نہیں ہوتیں لیکن دنیا کے نظام میں اس قسم کے وجود سے فرار ممکن نہیں ہوسکتا یہی اللہ تعالی کا عدل نہیں ہے کہ جن قوانین کو اس نے عالم پر مسطل کردیا ہے انھیں خراب کردے اور لاقانونيّت اور ہرج و مرج کا موجب بنے بلکہ اللہ تعالی کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مخلوق کو اس کی خاص استعداد کی روسے وجود عنایت فرمائے اور اسے کمال تک پہنچائے_ خداوند عالم تمام حالات میں عادل ہوتا ہے یہ انسان ہی ہے جو اپنے اعمال اور نادانی و جہالت کی وجہ سے اپنے اور دوسروں پر ظلم اور مشکلیں کھڑی کرتا ہے_

ایک سوال

ہوسکتا ہے آپ کہیں کہ ماں باپ نے قانون کی لاپرواہی کرتے ہوئے شراب یا دوسری ضرر رساں دوائیں استعمال کر کے بچے کو غیر سالم اور بے کار وجود میں لائے اور اس قسم کے نقصان کے سبب بنے کہ جس کے نتیجے میں ایک بیکار اور ناقص فرد دینا میں آیا اور یہ ٹھیک ان قوانین کے ماتحت ہوا ہے جو اللہ تعالی نے خلقت کے لئے بر بناء عدل معین کر رکھا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں بچے کا کیا قصور ہے کہ وہ دنیا میں ناقص پیدا ہو اور تمام عمر بیکار زندگی بسر کرے____

جواب

اس کا جواب یہ ہے کہ بچے کا کوئی بھی قصور نہیں ہے خداوند عالم بھی اس پر اس کی

۵۳

طاقت اور قدرت سے زیادہ حکم اور تکلیف نہیں دے گا اور وہ اس امکانی حد میں جو اس میں موجود ہے اپنے وظائف شرعی پر عمل کرے تو وہ اللہ تعالی سے بہترین جزا کا مستحق ہوگا اس قسم کے افراد اگر متقی اور مومن ہوں تو وہ دوسرے مومنین کی طرح اللہ تعالی کے نزدیک محترم اور عزیز ہونگے اور اپنے وظائف پر ٹھیک طرح سے عمل پیراہوں تو آخرت میں ایک بلند درجے پر فائز ہوں گے_

اس بحث کا خلاصہ اور تکمیل

سابقہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خداوند عالم عادل ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے خاص قوانین اس دنیا کے لئے وضع کئے ہیں اور ہر ایک مخلوق میں ایک خاص استعداد اور ودیعت کر رکھی ہے_ اگر ہم ان قوانین اور خصوصیات کی جو اللہ تعالی نے معین کی ہیں رعایت کریں تو پھر ہم اس کے فیض اور رحمت سے مستفید ہوں گے اور اس کے عدل و فضل کے سایہ میں اس نتیجے تک جا پہنچیں گے جو مدّ نظر ہوگا اور ان قوانین عالم سے جو اللہ تعالی کے ارادے سے معین کئے گئے ہیں لاپروائی کریں تو ہم خود اپنے اوپر ظلم کریں گے اور اس بے اعتنائی کا نتیجہ یقینا دیکھیں گے_

خداوند عالم کا آخرت میں عادل ہونے سے بھی یہی مراد ہے یعنی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ لوگوں کو اچھائی اور برائی سے آگاہ کردیا ہے اچھے کاموں کے لئے اچھی جزاء اور برے کاموں کے لئے بری سزا معین کر رکھی ہے_ خداوند عالم آخرت میں کسی پر ظلم نہ کرے گا ہر ایک کو ان کے اعمال کے مطابق جزاء اور سزا دے گا جس نے نیکوکاری، خداپرستی کا راستہ اختیار کیا ہوگا تو وہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے مستفید ہوگا اور

۵۴

اگر باطل اور مادہ پرستی کا شیوہ اپنا یا ہوگا اور دوسروں پر ظلم و تعدّی روا رکھی ہوگی تو آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوگا اور اپنے برے کاموں کی سزا پائے گا_

قرآن مجید کی آیت:

( و ما کان الله لیظلمهم و لکن کانوا انفسهم یظلمون ) (۱)

''خداوند عالم کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں''

____________________

۱) سورہ عنکبوت آیت نمبر ۴۰

۵۵

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ کچھ طبعی قوانین بتلایئے

۲)___ کیا یہ درست ہے کہ ہم یہ آرزو کرں کہ کاش زمین میں قوت جاذبہ موجود نہ ہوتی کیوں؟ توضیح کیجئے

۳)___ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا عادل ہے تو اس سے کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ تمام کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے خواہ اس نے کہ جس نے کام کیا ہے اور اس نے کہ جس نے کوئی کام نہیں کیا؟

۴)___ اللہ تعالی کے عادل ہونے کا کیا تقاضہ ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی اپنے قوانین طبعی کو ہوا اور ہوس کے مطابق بدل دیتا ہے یا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی اپنے معین کردہ قوانین کے مطابق ہر ایک انسان کو نعمت اور کمال عنایت کرتا ہے_

۵)___ بعض انسان جو ناقص عنصر والے ہوتے ہیں یہ کن عوامل کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے؟ کیا اس سے اللہ تعالی کی عدالت یا قوانین طبعی کے خلاف ہونے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے؟

۶)___ اگر کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں اس کی شراب خوری کی وجہ سے اس بچے کی طرح رشد کرے کہ جس کی ماں سالم اور متقی ہو اگر ایسی مساوات ہوجائے تو یہ کس کا نتیجہ ہوگا، کیا یہ عدل الہی کی نشانی ہوگی؟

۵۶

دوسرا حصّہ

آخرت کے مسائل کے بارے میں

۵۷

ہم ان دو درسوں میں چند طالب علموں سے گفتگو کریں گے اورخلقت کی غرض بیان کر کے جہان آخرت کی طرف متوجہ کریں گےاس کے بعد انھیں مطالب کو دلیل سے بطور جدّی بیان کریں گے

(۱) عمل کا ثمر

گرمی کا موسم نزدیک آرہا ہے فصل کاٹنے کا وقت پہنچنے والا ہے_ ''علی'' چچا نے ہمیں دعوت دی ہے تا کہ فصل کاٹنے اور میوے چننے میں اس کی مدد کریں_ ہم نے صبح سویرے جلدی میں حرکت کی جب ہم اپنے چچا کے باغ تک پہنچے تو سورج نکل چکا تھا باغ کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا، موٹے اور سرخ سیب درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں کے درمیان سے نظر آرہے تھے_

میں اور میری بہت نے جب چاہا کہ باغ کے اندر داخل ہوں تو ہمارے باپ نے کہا ٹھہرو تا کہ دروازہ کھٹکھٹائیں اور باغ میں اندر جانے کے لئے اجازت لیں اور تب باغ کے اندر داخل ہوں_ ابّا نے پتھر کے ساتھ دروازے کے باہر لگی میخوں کو مارا چچا کی آواز سننے کے بعد ہم باغ کے اندر داخل ہوگئے_ تمھاری جگہ خالی تھی یعنی کاش کہ تم بھی وہاں ہوتے اور دیکھتے کہ کتنی بہترین اور پر لطف ہوا اور عمدہ ماحول تھا، سرخ اور موٹے سیب درختوں پر لٹک رہے تھے اور ہوا کے چلنے سے آہستہ آہستہ

۵۸

حرکت کر رہے تھے اور کبھی کوئی نہ کوئی زمین پر بھی گرپڑتا تھا اور دور تک جاپہنچتا تھا جب باغ کے وسط میں بنے ہوئے کمرے تک پہنچے تو چچا علی دوڑتے ہوئے ہمارے استقبال کے لئے آرہے تھے ہم نے انھیں سلام کیا اور انھوں نے ہمیں خوش روئی اور خوشی سے خوش آمد کہا اور ہمیں اس کمرے میں لے گئے جہاں ناشتہ و غیرہ رکھا ہوا تھا ایک بہت بڑی ٹرے کمرے کے وسط میں پڑی ہوئی تھی کمرے کے وسط میں سیب بھی موجود تھے_

چچا نے سیبوں کی طرف اشارہ کیا اور مجھے اور دوسرے بچوں سے فرمایا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میں اب دن رات کی محنت اور اس کے نتیجے تک پہنچ چکا ہوں درختوں نے بہت اچھا پھل دیا ہے، ان عمدہ اور خوش ذائقہ سیبوں کو اللہ تعالی نے تمھارے لئے پیدا کیا ہے تمھیں دیا ہوگا کہ جب تم بہار کے موسم میں یہاں آئے تھے اور معمولی بارش کے باعث تمھیں یاد ہوگا کہ جب تم بہار کے موسم میں یہاں آئے تھے اور معمولی بارش کے باعث تمھیں کچھ تکلیف بھی اٹھانی پڑی تھی اگر بارش نہ ہوتی اور پانی موجود نہ ہوتا تو میری کوشش اور محنت بے فائدہ اور بے نتیجہ ہوتی، درخت پانی نہ ہونے سے خشک ہوجاتے اور پھر ایسے عمدہ اور خوش مزہ سیب کیسے ہاتھ آتے؟

حسن نے کہا: ہاں چچا وہ دن کیسا عمدہ تھا ہم یہاں کھیلتے تھے اور کچھ کام بھی کیا کرتے تھے اور کچھ نئی معلومات بھی حاصل کیا کرتے تھے_ چچا نے جواب دیا اب تم ناشتہ کروں اس کے بعد اس دن کی گفتگو کو دوبارہ دہرائیں گے اس سے نیا نتیجہ نکالیں گے اس کے بعد سیب چننے اور اپنی محنت کا ثمرہ لینے کے لئے باغ میں جائیں گے_

ناشتہ کرنے کے بعد چچا علی نے زہراء سے کہا: بیٹی زہرائ تمھیں یاد ہے کہ اس دن پانی کی گردش کے متعلق کیا کہا تھا___؟ ننھی زہراء نے کہا ہاں مجھے یاد ہے آپ نے احمد کے لباس کی طرف اشارہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بارش

۵۹

بادلوں سے برستی ہے_ ہم زہراء کے اس عمدہ اور مختصر جواب سے ہنسے_ ابّا نے کہا: کیوں ہسنتے ہو؟ زہراء سچ تو کہہ رہی ہے سورج کی روشنی سمندر پر پڑتی ہے اور سمندر کا پانی سورج کی حرارت سے بخار بنتا ے اور اوپر کی طرف چلا جاتا ہے ہوائیں ان بخارات کو ادھر ادھر لے جاتی ہیں ہوا کی سردی اوپر والے بخارات کو بادلوں میں تبدیل کردیتی ہے_

یہ گھنے بادل اور بخارات زمین کی قوت جاذبہ کے واسطے سے زمین کی طرف کھچے آتے ہیں اور بارش کی صورت میں قطرہ قطرہ ہوکر زمین پر برسنے لگتے ہیں، بارش کا پانی نہروں اور ندیوں میں جاری ہونے لگتا ہے تا کہ اسے حیوانات اور انسان پئیں اور سیراب ہوں اور کچھ پانی آہستہ آہستہ زمین میں جذب ہونے لگتا ہے اور انسانوں کی ضروریات کے لئے وہاں ذخیرہ ہوجاتا ہے یہی ذخیرہ شدہ پانی کبھی چشموں کی صورت میں باہر نکل آتا ہے اور انسانوں کے ہاتھوں آتا ہے یا وہیں زمین کے اندر ہی رہ جاتا ہے اور انسان اپنی محنت و کوشش کے ذریعے سے کنویں، ٹیوب دیل و غیرہ بنا کر اس سے استفادہ کرتا ہے_

چچا ہنسے اور کہا: تم نے کتنا عمدہ درس حاضر کر رکھا ہے ابا نے چچا کی طرف دیکھا او رکہا کہ چونکہ آپ نے ایک عمدہ اور اچھا سبق پڑھایا ہے او رکہا ہے کہ تمام موجودات اسی طرح ایک پائیدار قوانین اور دقیق نظام پر خلق کئے گئے ہیں اور ایک معین غرض اور ہدف کی طرف جا رہے ہیں_ ماد ی دنیا اللہ تعالی کے ارادے اور فرمان کے ماتحت ہمیشہ بدلتی او رحرکت کر رہی ہے تا کہ انسانوں کی خدمت انجام دے پائے انسانوں کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور ان کی کوششوں کو نتیجہ آور قرار دیا جاتا ہے درخت اور نباتات، آب و ہوا اور سورج کی روشنی اور معدنی مواد جو زمین کے اندر

۶۰