‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 25%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111416 / ڈاؤنلوڈ: 3860
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ان دو میں سے کون سی قسم کامل تر اور قیمتی ہے؟ علم رکھنے والی مخلوقات اہم ہیں یا وہ جو بے علم ہیں___؟ اس کا کیا جواب دوگے___؟

یقینا تم ٹھیک اور درست جواب دوگے کہ انسان، علم رکھتا ہے اور پتھر، لکڑی و لوہا و غیرہ علم نہیں رکھتے، یقینا وہ مخلوق جو علم رکھتی ہے وہ کامل تر اور اس سے بہتر ہے جو مخلوق بے علم ہے_ تم نے جواب ٹھیک دیا لہذا علم ایک کمال والی صفت ہے جو شخص یہ کمال رکھتا ہو وہ بغیر شک کے اس سے کامل تر ہوگا جو یہ کمال والی صفت نہ رکھتا ہو_

۳)___ بعض مخلوقات زندہ ہیں جیسے حیوانات، نباتات اور انسان لیکن بعض دوسرے زندہ نہیں ہیں جیسے پتھر، لکڑی اور لوہا و غیرہ_ ان دو میں سے کون کامل تر ہے؟ زندہ مخلوقات زندگی رکھتے ہیں یا وہ مخلوقات جو زندہ نہیں ہیں زندگی رکھتے ہیں؟ اس کا کیا جواب دوگے؟

یقینا تم درست جواب دوگے اور زندگی و حیات بھی ایک صفت کمال ہے اب تک ہم نے معلوم کرلیا کہ علم، قدرت اور حیات یہ تینوں صفت کمال ہیں اور مخلوقات میں سے بہت سے ان تینوں صفات کے حامل ہوتے ہیں یعنی دانا، توانا اور زندہ ہوتے ہیں ان زندہ و دانا اور توانا مخلوقات کو اللہ تعالی نے خلق فرمایا ہے اور اللہ تعالی نے یہ کمالات انھیں عنایت فرمایا ہے جس خدا نے انھیں یہ کمالات دیئے ہیں وہ خود بھی ان کمالات کو بہتر اور بالاتر رکھتا ہے یعنی وہ ذات بھی ان صفات کمالیہ سے متصف ہے_

۴۱

تم نے سابقہ درس میں کائنات میں دقیق نظام اور تعجب آور ارتباط کو اجمالی طور پر معلوم کرلیا ہے اور تم جان چکے ہو کہ کتنی عمدہ اور بارک کا دیگری خلقت عالم میں رکھی گئی ہے اور کس دقیق ہم آہنگی و ارتباط سے یہ جہان خلق کیا گیا ہے اور تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ساری مخلوقات کو اللہ تعالی نے اسی طرح خلق فرمایا ہے ایسا دقیق اور تعجب آور جہان کس چیز کا گواہ ہے___؟ ہمیں اس جہاں کی ترتیب اور عمدہ ہم آہنگی کیا سبق دیتی ہے؟ اس دقیق اور پر شکوہ نظام سے کیا سمجھتے ہیں____؟

مخلوقات کے مطالعے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اس جہان کو ایک زندہ و عالم اور قادر ذات نے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں اس کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہے کہ جس سے وہ مطلع تھا_

جہان کی مخلوقات کو ایک خاص قانون اور نظام کے ماتحت پیدا کر کے اسے چلا رہا ہے اور اسے اسی غرض و غایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے_ اب تک ہم نے سمجھ لیا کہ جہان کا پیدا کرنے والا خدا مہربان اور تمام اشیاء کا عالم ہے، تمام کو دیکھتا ہے اور کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ و مخفی نہیں ہے، معمولی سے معمولی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے وہ ذات ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور تمام بندوں کے اعمال سے مطلع ہے اور انھیں ان کی جزا دے گا_

ہم نے جان لیا کہ خدا قادر ہے یعنی ہر کام کے انجام دینے پر قدرت رکھتا ہے، اس کی قدرت اور توانائی محدود نہیں ہے، تمام مخلوقات کو اس نے ہی پیدا کیا ہے اور انھیں چلا رہا ہے_

ہم نے جان لیا کہ خدا حی و زندہ ہے اور تمام امور کو علم و دانائی سے انجام دیتا ہے ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس عظیم خالق و عالم اور قادر کے سامنے ہمارا فریضہ کیا ہے؟

۴۲

قرآن مجید کی آیت:

( یخلق ما یشاء و هو العلیم القدیر ) ___(۱)

'' خدا جسے چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور وہ دانا و توانا ہے''

____________________

۱) سورہ روم آیت نمبر ۵۳

۴۳

توحید اور شرک

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند عالم کی طرف سے ایسے زمانے میں پیغمبری کے لئے مبعوث ہوئے جس زمانے کے اکثر لوگ جاہل، مشرک اور بت پرست تھے اور ان کا گمان تھا کہ اس عالم کو چلانے میں خدا کے علاوہ دوسروں کو بھی دخل ہے_ خدا کا شریک قرار دیتے تھے_ خدائے حيّ و عالم او رقادر یکتا کی پرستش اور اطاعت کرنے کے بجائے عاجز و بے جان بتوں کی پرستش کی کرتے تھے اور ان کے لئے نذر و قربانی کرتے اور ان سے طلب حاجت کرتے تھے_

ظالم و جابر اور طاغوت قسم کے لوگوں کو برگزیدہ افراد جانتے تھے اور انھیں بالاتر اور واجب الاطاعت گمان کرتے تھے ان کی حکومت اور سلطنت کو قبول کرتے تھے_ اپنی سعادت و شقاوت، خوش بختی و بدبختی، موت اور زندگی کو ان کے ارادے میں منحصر جانتے تھے اور عبادت کی حد تک ان کی اطاعت کرتے تھے اور ان کے سامنے عاجزی اور اظہار بندگی کیا کرتے تھے_ جاہل اور مشرک انسان اپنی خدا داد استقلال کو فراموش کرچکے تھے اور غلامانہ روش کی طرف ظالموں اور طاغوتوں کے مطیع و فرمانبردار تھے اور ان کے سامنے عبادت کرتے تھے اور ان کا سجدہ کیا کرتے تھے لوگ بت پرستی میں مشغول تھے اور اسی میں خوش تھے اور استحصال کرنے والے لوگوں کے جان و مال پر مسلط تھے اور ان کی محنت کو غارت کر رہے تھے لوگوں کی اکثریت فقر اور فاقہ میں زندگی بسر کرتی تھی اور وہ جرات نہیں کرسکتے کہ وہ

۴۴

اپنے زمانے کے طاغتوں سے اپنے حقوق لے سکیں_ بت پرستی، شخصیت پرستی، قوم پرستی، وطن پرستی اور خود پرسنی نے لوگوں کو متفرق اور پراگندہ کر رکھا تھا اور استحصال کرنے والے اس اختلاف کو وسیع کر رہے تھے_

اس قسم کی تمام پرستش شرک کا پرتو اور مظاہرہ تھا اور لوگوں کی بدبختی کا سب سے بڑا عامل یہی شرک تھا_ ان تمام مصائب کا علاج کیا تھا___؟ ایسے لوگوں کی نجات جو بدبختی میں جل رہے تھے کس میں تھی؟ کس طرح ان تمام مظالم اور ستم سے نجات حاصل کرسکتے تھے؟ انھیں ایسے رہبر کی ضرورت تھی جو روشن فکر اور بدار و ہوشیار ہو جو انھیں بت پرستی اور شرک سے نجات دلائے اور توحید و خداپرستی کی طرف لے جائے ایسے زمانے میں خداوند عالم کی طرف سے حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو پیغمبری اور رہبری کے لئے چناگیا_ آپ(ص) نے اپنا پہلا اور اہم کام شرک و بت پرستی سے مقابلہ کرنا قرار دیا_ آپ (ص) نے لوگوں کو پہلی دعوت میں فرمایا کہ کہو:

''قولوا لا اله الّا الله تفلحوا''

''یعنی کلمہ توحید پڑھو اور نجات حاصل کرو_ اس پر ایمان لے آؤ کہ سوائے خدائے ذوالجلال کے اور کوئی معبود نہیں تا کہ نجات حاصل کرسکو''

اس کلام سے کیا مراد ہے سمجھتے ہو؟ یعنی مختلف خدا اور جھوٹے خداؤں کو دور پھینکو اور دنیا کے حقیقی خالق کی اطاعت اور عبادت کرو_ ظالموں کی حکومت سے باہر نکلو اور اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے رہبر اور پیغمبر کی حکومت اور ولایت کو قبول کرو تا کہ آزاد اور سربلند اور سعادت مند ہوجاؤ_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ لوگو

''کائنات کا خالق اورچلانے والا صرف خدا ہے _جو قادر مطلق

۴۵

ہے_ خداوند عالم کی ذات ہی تو ہے جس نے خلقت اور نظام جہان کا قانون مقرر کیا ہے اور اسے چلا رہا ہے اس کی ذات اور اس کے ارادے سے دن رات بنتے اور آتے جاتے ہیں_ آسمان سے زمین پر بارش اور برف گرتی ہے_ درخت اور نباتات میوے اور پھول دیتے ہیں، انسان اور حیوان روزی حاصل کرتے ہیں، اللہ ہی نے جو حّی و قيّوم اور عالم و قادر ہے تمام موجودات کو خلق فرمایا اور وہ ان سے بے نیاز ہے، تمام موجودات اس کے محتاج اور نیازمند ہیں، اللہ تعالی کی مدد کے بغیر کسی بھی موجود سے کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا جان لو کہ اللہ تعالی نے دنیا کا نظام کسی کے سپرد نہیں کیا_

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے لوگو جان لو کہ تمام انسان اللہ تعالی کی مخلوق ہیں تمام کے ساتھ عادلانہ سلوک ہونا چاہیئے سیاہ، سفید، زرد، سرخ، مرد، عورت، عرب، غیر عرب تمام بشر کے افراد ہیں اور انھیں آزادی و زندگی کا حق حاصل ہے، اللہ تعالی کے نزدیک مقرّب انسان وہ ہے جو متقی ہو_ اللہ تعالی نے زمین اور تمام طبعی منابع اور خزانوں کو انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے اور تمام انسانوں کو حق حاصل ہے کہ ان فائدے حاصل کرے ہر ایک انسان کو حق حاصل ہے کہ اپنی محنت اور کوشش سے زمین کو آباد کرے اور اپنی ضرورت کے

۴۶

مطابق اس کے منابع طبعی سے استفادہ کرے اور لوگوں کو فائدے پہنچائے_ پیغمبر اسلام(ص) فرمایا کرتے تھے: لوگو ظالموں کے مطیع اور غلام نہ بنو خداوند عالم نے تمھیں آزاد خلق فرمایا ہے، تمھارا ولی اور صاحب اختیار خدا ہے، خداوند عالم تمھارا مالک اور مختار ہے کہ جس نے تمھیں خلق فرمایا ہے، تمھاری رہبری اور ولایت کا حق اسی کو حاصل ہے_ اللہ تعالی اور ان حضرات کے علاوہ جو اس کی طرف سے اس کا پیغام بندوں تک پہنچاتے اور اس کے احکام سے مطلع کرتے ہیں اور کوئی واجب الاطاعت نہیں ہے، پرہیزگاری اختیار کرو اور میری اطاعت کرو تا کہ میں تمھیں ان ظالموں کے شر سے نجات دلاؤں، تم سب آزاد ہو اور ظالموں و ستمگروں کے غلام اور قیدی نہ بنو، خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرو اور اس کے علاوہ کسی سے امید وابستہ نہ رکھو صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کی رضا کے لئے کام بجالاؤ اور ایک دل ہوکر ایک غرض اور ہدف کو بجالاؤ، جھوٹے معبودوں اور اختلاف ڈالنے والوں کو دور پھینک دو، تمام کے تمام توحید کے علم کے سایہ میں اکٹھے ہوجاؤ تا کہ آزاد و سربلند اور سعادتمند بن جاؤ، تمام کاموں کو صرف خدا کے لئے اور خدا کی یاد کے لئے بجالاؤ صرف اللہ تعالی سے مدد اور کمک طلب کرو تا کہ اس مبارزہ میں کامیاب ہوجاؤ''

قرآن مجید کی آیت:

( من یشرک بالله فقد ضل ضلالا بعیدا ) ___(۱)

''جس شخص نے اللہ کے ساتھ شریک قرار دیا وہ سخت گمراہی میں پڑا''

____________________

۱) سوره نساء / ۱۱۶

۴۷

سوالات

سوچنے، مباحثہ کرنے اور جواب دینے کیلئے ہیں

۱)___ بت پرستی اور شرک کے مظاہرات کون سے ہوتے ہیں؟

۲)___استحصال کرنے والے کیوں لوگوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرتے ہیں؟

۳)___ توحید سے کیا مراد ہے اور شرک کا کیا مطلب ہے؟

۴)___ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مہم کام او رپروگرام کیا تھا؟

۵)___ اسلام کے فلاح اور نجات دینے کے لئے کون سا پیغام ہے اور اس کا معنی کیا ہے؟

۶)___ اللہ تعالی کے نزدیک کون سا انسان مقرب ہے، اللہ تعالی کے نزدیک برتری کس میں ہے؟

۷)___ ظالموں کے لئے دوسروں پر حق ولایت اور حکومت ہوا کرتا ہے، انسان کا حقیقی مالک اور مختار کرون ہے؟

۸)___ مستکبرین پر کامیابی کا صحیح راستہ کون سا ہے؟

۴۸

عدل خدا

خداوند عالم نے اس جہاں کو ایک خاص نظم اور دقیق حساب پر پیدا کیا ہے اور ہر ایک مخلوق میں ایک خاص خاصیت عنایت فرمائی ہے، دن کو سورج کے نکلتے سے گرم اور روشن کیا ہے تا کہ لوگ اس میں سخت اور کوشش کر کے روزی کما سکیں رات کو تاریک اور خاموش قرار دیا ہے تا کہ لوگ اس میں راحت اور آرام کرسکیں ہر ایک چیز کی خلقت میں ایک اندازہ اور حساب قرار دیا ہے_

انھیں خصوصیات اور لوازمات کے نتیجے میں جہاں کی اشیاء خلقت کے لحاظ سے بہت عمدہ قسم کی زیبائی سے مزيّن ہیں_ سوچئے اگر آگ اپنی ان خصوصیات کے ساتھ موجود نہ ہوتی تو اس عالم کا رخ کیسا ہوتا___؟

فکر کیجئے اگر پانی اپنے ان خواص کے ساتھ جو اس میں موجود ہیں نہ ہوتا تو کیا زمین پر زندگی حاصل ہوسکتی___؟ غور کیجئے اگر زمین میں قوت جاذبہ نہ ہوتی تو کیا کچھ سامنے آتا؟ کیا تم اس صورت میں یہاں بیٹھ سکتے اور درس پڑھ سکتے تھے؟

ہرگز نہیں کیونکہ اس صورت میں زمین اس سرعت کی وجہ سے جو زمین اپنے ارد گرد اور سورج کے اردگرد کر رہی ہے تمام چیزوں کو یہاں تک کہ تمھیں اور تمھارے دوستوں کو فضا میں پھینک دیتی، ہمارا موجودہ زمانے میں زندہ رہنے کا نظم اور قانون ان خواص اور قوانین کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالی نے طبع اور مادّہ کے اندر رکھ چھوڑا ہے اگر یہ قوانین اس دنیا میں موجود نہ ہوتے تو زندگی کرنا حاصل نہ ہوتا گرچہ اس عالم

۴۹

کے موجودہ قوانین کبھی ہمارے لئے پریشانی کو بھی فراہم کردیتے ہیں مثلاً ہوئی جہاز کو ان قوانین طبعی کے ما تحت اڑایا جاتا ہے اور آسمان پر لے جاتا ہے جو ان مواد اور طبائع میں موجود ہیں اور انھیں قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے ہوئے اسے آسمان پرتیز اور سرعت سے حرکت میں لایا جاتا ہے_

قانون جاذبہ اور اصطلاک و ٹکراؤ سے ہوائی جہاز کو زمین پر اتارا جاتا ہے ہوائی جہاز کے مسافر اسی قانون سے استفادہ کرتے ہوئے ہوائی جہاز سے نیچے اترتے ہیں اور زمین پر چلتے ہیں اور اپنی اپنی منزل تک جا پہنچتے ہیں لیکن یہی ہوائی جہاز جب اس کا ایندھن اور پیٹرول فضا میں ختم ہوجائے تو زمین کا قانون جاذبہ فوراً سے زمین کی طرف کھینچتا ہے اور ہوائی جہاز زمین پر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا کہ جس سے اس میں سوار بعض فوراً دم توڑ دیتے ہیں اور کچھ زخمی اور بیکار ہوکر رہ جاتے ہیں اس صورت میں قصور کس کا ہے___؟

ٹھیک ہے کہ ہم اس صورت میں تمّنا کریں گے کہ کاش زمین میں قوت جاذبہ نہ ہوتی اور اس صورت میں قوت جاذبہ اپنا کام اور عمل انجام نہ دیتی___؟ کیا یہ ٹھیک ہے کہ ہم یہ آرزو کریں کہ کاش زمین اس ہوائی جہاز کو جس کا ایندھن ختم ہوگیا ہے اپنی طرف نہ کھینچتی___؟ سمجھتے ہوکہ اس آرزو کے معنی اور نتائج کیا ہوں گے___؟ اس خواہش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلقت کا قانون ہماری پسند کے مطابق ہوجائے کہ اگر ہم چاہیں اور پسند کریں تو قانون عمل کرے اور جب ہم نہ چاہیں اور پسند نہ کریں تو قانون عمل نہ کرے کیا اس صورت میں اسے قانون کہنا اور قانون کا نام دینا درست ہوگا___؟ اور پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کس شخص کی خواہش اور تمنا پر قانون عمل کرے___؟

۵۰

اس صورت میں سوچئے کہ ہر ج و مرج لازم نہ آ تا___ ؟ ممکن ہے کہ آپ اس شخص کو جو ہوائی جہاز کے گرجانے کی صورت میں بیکار ہوگیا ہے دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ وہ اس کی وجہ سے اندھا ہوگیا ہے اور اس کا ایک ہاتھ کٹ چکا ہے اور پاؤں سے معذور ہوگی ہے اور یہ کہیں اور سوچیں کہ کس نے اس پر ظلم کیا ہے___؟ اور کس نے اسے اس طرح ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں سے محروم کردیا ہے___؟

کیا ت م خدا کی عدالت میں شک کروگے کہ جس نے زمین کو قوت جاذبہ عنایت فرمائی ہے___؟ یا اس شخص کی عدالت اور قابليّت میں شک کروگے کہ جس نے زمین کے اس قوت جاذبہ کے قانون اور دوسرے طبائع کے قوانین سے صحیح طور سے استفادہ نہیں کیا ہے___؟ اس شخص کی قابليّت اور لیاقت میں شک کروگے کہ جس نے ہوائی جہاز میں بقدر ضرورت ایندھین نہیں ڈالا تھا___؟

اللہ تعالی نے ہر ایک موجود کو ایک خاص استعداد اور کمال سے پیدا کیا ہے اور دنیا پر کچھ عمومی قوانین اور طریقے معین کردیئے ہیں اور ہر چیز کے لئے ایک خاص حساب اور نظم قرار دیا ہے_ ہم انسانوں پر ضروری ہے کہ ہم ان قوانین سے صحیح طریقے سے استفادہ کریں تا کہ اللہ تعالی کے فیض و کرم اور رحمت و عدل سے صحیح طور سے مستفید ہوسکیں مثلا ماں کے رحم میں جو بچہ بڑھتا اور رشد کرتا ہے تو وہ اس عالم پر تمام مسلّط قوانین سے پیروی کرتا ہے اگر ماں، باپ یا دوسرے مخيّر حضرات خلقت کے قوانین کو صحیح طور پر استعمال کریں گے تو بچہ صحیح و سالم انھیں مل سکے گا بخلاف اگر وہ سگریٹ نوش یا شراب خور ہوئے تو سگریٹ یا شراب کے زہر سے یقینا بچے کے بدن میں نقص پیدا ہوجائے گا جس طرح کہ ہوائی جہاز کے گرنے نے نقص ایجاد کردیا تھا اور کسی کو آنکھ یا ہاتھ سے

۵۱

محروم کردیتا تھا_ شرابی ماں کا بچہ دنیا میں بیماری لے کر پیدا ہوتا ہے وہ ماں جو ضرر رساں دوائیں استعمال کریں ہے اس کا بچّہ دنیا میں معیوب پیدا ہوتا ہے، بچے کی ماں یا باپ یا اس کے لواحقین، قوانین صحت کی مراعات نہیں کرتے تو بچہ خلقت کے لحاظ سے ناقص پیدا ہوتا ہے یہ اور دوسرے نقائص ان قوانین کا نتیجہ ہیں جو اللہ تعالی نے دنیا پر مسلط کر رکھا ہے اور یہ تمام قوانین، اللہ تعالی کے عدل سے صادر ہوتے ہیں_

ہم تب کیا کہیں گے جب کوئی ماں باپ کہ جو قوانین صحت کی رعایت کرتے ہیں اور بچہ سالم دنیا میں آتا ہے اور وہ ماں باپ جو قوانین صحت کی رعایت نہ کریں اور ان کا بچہ بھی سالم دنیا میں آتا ہے کیا یہ کہ دنیا بے نظم اور بے قانون ہے اور اس پر کوئی قانون حکم فرما نہیں ہے_ کیا یہ نہیں سوچیں گے کہ جہاں میں ہرج اور مرج اور گربڑ ہے کہ جس میں کوئی خاص نظم اور حساب نہیںہے اور کوئی قانون اس پر حکم فرما نہیں ہے؟ کیا یہ نہیں کہیں

ے کہ جہاں کا خلق کرنے والا ظلم کو جائز قرار دیتا ہے____؟ کیوں کہ ان ماں باپ کو جو قانون کے پوری طرح پابند ہیں انھیں ایک سالم بچہ عنایت فرماتا ہے اور ان ماں باپ کو بھی جو کسی قانون کی پابندی نہیں کرتے سالم بچہ عنایت کرتا ہے تو پھر ان دونوں میں کیا فرق ہوگا___؟ جس نے کام کیا ہو اور قانون کی پابندی کی ہو وہ اس شخص کے ساتھ مساوی اور برابر ہو کہ جس نے قانون کی پابندی نہ کی ہو___؟ کیا دونوں ایک جیسے منزل مقصود تک پہنچیں گے، گیا آپ اس طرح سوچ سکتے ہیں___؟ ہرگز نہیں کیونکہ تمھیں لم ہے کہ دنیا ایک قانون اور نظم کے ساتھ چلائی جا رہی ہے اور اسے لاقونی اور ہرج و مرج سے نہیں چلایا جارہا ہے _

تمھیں علم ہے کہ اللہ تعالی نے ہر ایک موجود کے لئے علّت قرار دی ہے_ طبائع

۵۲

اور مواد عالم میں قوانین اللہ تعالی کے ارادے سے رکھے گئے ہیں، وہ اپنا عمل انجام دے رہے ہیں اور کسی کی خواہش و تمنّا کے مطابق نہیں بدلتے ہیں البتہ کبھی ایک یا کئی قانون ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ان سے بعض چیزیں وجود میں آجاتی ہیں جو ہماری پسند کے مطابق نہیں ہوتیں لیکن دنیا کے نظام میں اس قسم کے وجود سے فرار ممکن نہیں ہوسکتا یہی اللہ تعالی کا عدل نہیں ہے کہ جن قوانین کو اس نے عالم پر مسطل کردیا ہے انھیں خراب کردے اور لاقانونيّت اور ہرج و مرج کا موجب بنے بلکہ اللہ تعالی کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مخلوق کو اس کی خاص استعداد کی روسے وجود عنایت فرمائے اور اسے کمال تک پہنچائے_ خداوند عالم تمام حالات میں عادل ہوتا ہے یہ انسان ہی ہے جو اپنے اعمال اور نادانی و جہالت کی وجہ سے اپنے اور دوسروں پر ظلم اور مشکلیں کھڑی کرتا ہے_

ایک سوال

ہوسکتا ہے آپ کہیں کہ ماں باپ نے قانون کی لاپرواہی کرتے ہوئے شراب یا دوسری ضرر رساں دوائیں استعمال کر کے بچے کو غیر سالم اور بے کار وجود میں لائے اور اس قسم کے نقصان کے سبب بنے کہ جس کے نتیجے میں ایک بیکار اور ناقص فرد دینا میں آیا اور یہ ٹھیک ان قوانین کے ماتحت ہوا ہے جو اللہ تعالی نے خلقت کے لئے بر بناء عدل معین کر رکھا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں بچے کا کیا قصور ہے کہ وہ دنیا میں ناقص پیدا ہو اور تمام عمر بیکار زندگی بسر کرے____

جواب

اس کا جواب یہ ہے کہ بچے کا کوئی بھی قصور نہیں ہے خداوند عالم بھی اس پر اس کی

۵۳

طاقت اور قدرت سے زیادہ حکم اور تکلیف نہیں دے گا اور وہ اس امکانی حد میں جو اس میں موجود ہے اپنے وظائف شرعی پر عمل کرے تو وہ اللہ تعالی سے بہترین جزا کا مستحق ہوگا اس قسم کے افراد اگر متقی اور مومن ہوں تو وہ دوسرے مومنین کی طرح اللہ تعالی کے نزدیک محترم اور عزیز ہونگے اور اپنے وظائف پر ٹھیک طرح سے عمل پیراہوں تو آخرت میں ایک بلند درجے پر فائز ہوں گے_

اس بحث کا خلاصہ اور تکمیل

سابقہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خداوند عالم عادل ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے خاص قوانین اس دنیا کے لئے وضع کئے ہیں اور ہر ایک مخلوق میں ایک خاص استعداد اور ودیعت کر رکھی ہے_ اگر ہم ان قوانین اور خصوصیات کی جو اللہ تعالی نے معین کی ہیں رعایت کریں تو پھر ہم اس کے فیض اور رحمت سے مستفید ہوں گے اور اس کے عدل و فضل کے سایہ میں اس نتیجے تک جا پہنچیں گے جو مدّ نظر ہوگا اور ان قوانین عالم سے جو اللہ تعالی کے ارادے سے معین کئے گئے ہیں لاپروائی کریں تو ہم خود اپنے اوپر ظلم کریں گے اور اس بے اعتنائی کا نتیجہ یقینا دیکھیں گے_

خداوند عالم کا آخرت میں عادل ہونے سے بھی یہی مراد ہے یعنی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ لوگوں کو اچھائی اور برائی سے آگاہ کردیا ہے اچھے کاموں کے لئے اچھی جزاء اور برے کاموں کے لئے بری سزا معین کر رکھی ہے_ خداوند عالم آخرت میں کسی پر ظلم نہ کرے گا ہر ایک کو ان کے اعمال کے مطابق جزاء اور سزا دے گا جس نے نیکوکاری، خداپرستی کا راستہ اختیار کیا ہوگا تو وہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے مستفید ہوگا اور

۵۴

اگر باطل اور مادہ پرستی کا شیوہ اپنا یا ہوگا اور دوسروں پر ظلم و تعدّی روا رکھی ہوگی تو آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوگا اور اپنے برے کاموں کی سزا پائے گا_

قرآن مجید کی آیت:

( و ما کان الله لیظلمهم و لکن کانوا انفسهم یظلمون ) (۱)

''خداوند عالم کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں''

____________________

۱) سورہ عنکبوت آیت نمبر ۴۰

۵۵

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ کچھ طبعی قوانین بتلایئے

۲)___ کیا یہ درست ہے کہ ہم یہ آرزو کرں کہ کاش زمین میں قوت جاذبہ موجود نہ ہوتی کیوں؟ توضیح کیجئے

۳)___ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا عادل ہے تو اس سے کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ تمام کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے خواہ اس نے کہ جس نے کام کیا ہے اور اس نے کہ جس نے کوئی کام نہیں کیا؟

۴)___ اللہ تعالی کے عادل ہونے کا کیا تقاضہ ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی اپنے قوانین طبعی کو ہوا اور ہوس کے مطابق بدل دیتا ہے یا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالی اپنے معین کردہ قوانین کے مطابق ہر ایک انسان کو نعمت اور کمال عنایت کرتا ہے_

۵)___ بعض انسان جو ناقص عنصر والے ہوتے ہیں یہ کن عوامل کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے؟ کیا اس سے اللہ تعالی کی عدالت یا قوانین طبعی کے خلاف ہونے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے؟

۶)___ اگر کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں اس کی شراب خوری کی وجہ سے اس بچے کی طرح رشد کرے کہ جس کی ماں سالم اور متقی ہو اگر ایسی مساوات ہوجائے تو یہ کس کا نتیجہ ہوگا، کیا یہ عدل الہی کی نشانی ہوگی؟

۵۶

دوسرا حصّہ

آخرت کے مسائل کے بارے میں

۵۷

ہم ان دو درسوں میں چند طالب علموں سے گفتگو کریں گے اورخلقت کی غرض بیان کر کے جہان آخرت کی طرف متوجہ کریں گےاس کے بعد انھیں مطالب کو دلیل سے بطور جدّی بیان کریں گے

(۱) عمل کا ثمر

گرمی کا موسم نزدیک آرہا ہے فصل کاٹنے کا وقت پہنچنے والا ہے_ ''علی'' چچا نے ہمیں دعوت دی ہے تا کہ فصل کاٹنے اور میوے چننے میں اس کی مدد کریں_ ہم نے صبح سویرے جلدی میں حرکت کی جب ہم اپنے چچا کے باغ تک پہنچے تو سورج نکل چکا تھا باغ کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا، موٹے اور سرخ سیب درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں کے درمیان سے نظر آرہے تھے_

میں اور میری بہت نے جب چاہا کہ باغ کے اندر داخل ہوں تو ہمارے باپ نے کہا ٹھہرو تا کہ دروازہ کھٹکھٹائیں اور باغ میں اندر جانے کے لئے اجازت لیں اور تب باغ کے اندر داخل ہوں_ ابّا نے پتھر کے ساتھ دروازے کے باہر لگی میخوں کو مارا چچا کی آواز سننے کے بعد ہم باغ کے اندر داخل ہوگئے_ تمھاری جگہ خالی تھی یعنی کاش کہ تم بھی وہاں ہوتے اور دیکھتے کہ کتنی بہترین اور پر لطف ہوا اور عمدہ ماحول تھا، سرخ اور موٹے سیب درختوں پر لٹک رہے تھے اور ہوا کے چلنے سے آہستہ آہستہ

۵۸

حرکت کر رہے تھے اور کبھی کوئی نہ کوئی زمین پر بھی گرپڑتا تھا اور دور تک جاپہنچتا تھا جب باغ کے وسط میں بنے ہوئے کمرے تک پہنچے تو چچا علی دوڑتے ہوئے ہمارے استقبال کے لئے آرہے تھے ہم نے انھیں سلام کیا اور انھوں نے ہمیں خوش روئی اور خوشی سے خوش آمد کہا اور ہمیں اس کمرے میں لے گئے جہاں ناشتہ و غیرہ رکھا ہوا تھا ایک بہت بڑی ٹرے کمرے کے وسط میں پڑی ہوئی تھی کمرے کے وسط میں سیب بھی موجود تھے_

چچا نے سیبوں کی طرف اشارہ کیا اور مجھے اور دوسرے بچوں سے فرمایا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میں اب دن رات کی محنت اور اس کے نتیجے تک پہنچ چکا ہوں درختوں نے بہت اچھا پھل دیا ہے، ان عمدہ اور خوش ذائقہ سیبوں کو اللہ تعالی نے تمھارے لئے پیدا کیا ہے تمھیں دیا ہوگا کہ جب تم بہار کے موسم میں یہاں آئے تھے اور معمولی بارش کے باعث تمھیں یاد ہوگا کہ جب تم بہار کے موسم میں یہاں آئے تھے اور معمولی بارش کے باعث تمھیں کچھ تکلیف بھی اٹھانی پڑی تھی اگر بارش نہ ہوتی اور پانی موجود نہ ہوتا تو میری کوشش اور محنت بے فائدہ اور بے نتیجہ ہوتی، درخت پانی نہ ہونے سے خشک ہوجاتے اور پھر ایسے عمدہ اور خوش مزہ سیب کیسے ہاتھ آتے؟

حسن نے کہا: ہاں چچا وہ دن کیسا عمدہ تھا ہم یہاں کھیلتے تھے اور کچھ کام بھی کیا کرتے تھے اور کچھ نئی معلومات بھی حاصل کیا کرتے تھے_ چچا نے جواب دیا اب تم ناشتہ کروں اس کے بعد اس دن کی گفتگو کو دوبارہ دہرائیں گے اس سے نیا نتیجہ نکالیں گے اس کے بعد سیب چننے اور اپنی محنت کا ثمرہ لینے کے لئے باغ میں جائیں گے_

ناشتہ کرنے کے بعد چچا علی نے زہراء سے کہا: بیٹی زہرائ تمھیں یاد ہے کہ اس دن پانی کی گردش کے متعلق کیا کہا تھا___؟ ننھی زہراء نے کہا ہاں مجھے یاد ہے آپ نے احمد کے لباس کی طرف اشارہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بارش

۵۹

بادلوں سے برستی ہے_ ہم زہراء کے اس عمدہ اور مختصر جواب سے ہنسے_ ابّا نے کہا: کیوں ہسنتے ہو؟ زہراء سچ تو کہہ رہی ہے سورج کی روشنی سمندر پر پڑتی ہے اور سمندر کا پانی سورج کی حرارت سے بخار بنتا ے اور اوپر کی طرف چلا جاتا ہے ہوائیں ان بخارات کو ادھر ادھر لے جاتی ہیں ہوا کی سردی اوپر والے بخارات کو بادلوں میں تبدیل کردیتی ہے_

یہ گھنے بادل اور بخارات زمین کی قوت جاذبہ کے واسطے سے زمین کی طرف کھچے آتے ہیں اور بارش کی صورت میں قطرہ قطرہ ہوکر زمین پر برسنے لگتے ہیں، بارش کا پانی نہروں اور ندیوں میں جاری ہونے لگتا ہے تا کہ اسے حیوانات اور انسان پئیں اور سیراب ہوں اور کچھ پانی آہستہ آہستہ زمین میں جذب ہونے لگتا ہے اور انسانوں کی ضروریات کے لئے وہاں ذخیرہ ہوجاتا ہے یہی ذخیرہ شدہ پانی کبھی چشموں کی صورت میں باہر نکل آتا ہے اور انسانوں کے ہاتھوں آتا ہے یا وہیں زمین کے اندر ہی رہ جاتا ہے اور انسان اپنی محنت و کوشش کے ذریعے سے کنویں، ٹیوب دیل و غیرہ بنا کر اس سے استفادہ کرتا ہے_

چچا ہنسے اور کہا: تم نے کتنا عمدہ درس حاضر کر رکھا ہے ابا نے چچا کی طرف دیکھا او رکہا کہ چونکہ آپ نے ایک عمدہ اور اچھا سبق پڑھایا ہے او رکہا ہے کہ تمام موجودات اسی طرح ایک پائیدار قوانین اور دقیق نظام پر خلق کئے گئے ہیں اور ایک معین غرض اور ہدف کی طرف جا رہے ہیں_ ماد ی دنیا اللہ تعالی کے ارادے اور فرمان کے ماتحت ہمیشہ بدلتی او رحرکت کر رہی ہے تا کہ انسانوں کی خدمت انجام دے پائے انسانوں کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور ان کی کوششوں کو نتیجہ آور قرار دیا جاتا ہے درخت اور نباتات، آب و ہوا اور سورج کی روشنی اور معدنی مواد جو زمین کے اندر

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

اس جملے سے حضرت شعيب يہ كہنا چاہتے ہيں كہ اس كام ميں ميراصرف روحانى ، انسانى اور تربيتى مقصدہے ميں ايسے حقائق كو جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جانتے اور انسان ہميشہ اس چيز كا دشمن ہوتاہے جسے نہيں جانتا ہے _

اس كے بعد يہ عظيم پيغمبر مزيد كہتے ہيں :يہ گمان نہ كرنا كہ ميں تمہيں كسى چيز سے منع كروں اور پھر خود اسى كى جستجو ميں لگ جائوں ''_(۱)

تمہيں كہوں كم فروشى نہ كرو اور دھوكا بازى اور ملاوٹ نہ كرو ليكن ميں خود يہ اعمال انجام دوں كہ دولت و ثروت اكھٹا كرنے لگوں يا تمہيں تو بتوں كى پرستش سے منع كروں مگر خودان كے سامنے سر تعظيم خم كروں نہيں ايسا ہرگز نہيں ہے _

اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ حضرت شعيب پر الزام لگاتے تھے كہ خود يہ فائدہ اٹھانے كا ارادہ ركھتا ہے لہذا وہ صراحت سے اس امر كى نفى كرتے ہيں _

آخر ميں ان سے كہتے ہيں :

''ميرا صرف ايك ہدف اور مقصد ہے اور وہ ہے اپنى قدرت واستطاعت كے مطابق تمہارى اور تمہارے معاشرے كى اصلاح ''_(۲)

يہ وہى ہدف ہے جو تمام پيغمبروں كے پيش نطر رہا ہے ،يعنى عقيدے كى اصلاح، اخلاق كى اصلاح، عمل كى اصلاح ، روابط اور اجتماعى نطاموں كى اصلاح _

''اور اس ہدف تك پہنچنے كے لئے صرف خدا سے توفيق طلب كرتا ہوں ''(۳)

مشكلات كے حل كے لئے اس كى مدد پر بھروسہ كرتے ہوئے كو شش كرتاہوں اور اس راہ ميں سختياں گوارا كرنے كےلئے اس كى طرف رجوع كرتا ہوں _

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۸۸

(۲)سورہ ہود آيت۸۸

(۳)سورہ ہود آيت ۸۸

۲۶۱

اس كے بعد انہيں ايك اخلاقى نكتے كى طرف متوجہ كيا گيا ہے اور وہ يہ كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى سے بغض وعداوت كى بناء پر يا تعصب اور ہٹ دھرمى سے اپنے تمام مصالح نظر انداز كرديتا ہے اور انجام كو فراموش كرديتا ہے ،چنانچہ حضرت شعيب نے ان سے فرمايا : ''اے ميرى قوم ايسا نہ ہوكہ ميرى دشمنى اور عداوت تمہيں گناہ، عصياں اور سركشى پر ابھارے اور كہيں ايسانہ ہو كہ وہى بلائيں ، مصيبتيں ، تكليفيں عذاب اور سزائيں جو قوم نوح ، قوم ہود يا قوم صالح كو پہنچيں وہ تمہيں بھى آليں ،يہاں تك كہ قوم لوط كے شہروں كا زير وزبر ہونا اور ان پر سنگبارى كا واقعہ تم سے كوئي دور نہيں ہے''_(۱)

نہ ان كا زمانہ تم سے كوئي دور ہے اور نہ ان كے علاقے تم سے دور ہيں اور نہ ہى تمہارے اعمال اور گناہ ان لوگوں سے كچھ كم ہيں _''مدين'' كہ جو قوم شعيب كا مركز تھا وہ قوم لوط كے علاقے سے كوئي زيادہ فاصلے پر نہيں تھا_ كيونكہ دونوں شامات كے علاقوں ميں تھے_زمانے كے لحاظ سے اگر چہ كچھ فاصلہ تھاتا ہم اتنا نہيں كہ ان كى تاريخ فراموش ہوچكى ہوتي_باقى رہا عمل كے لحاظ سے تو اگر چہ قوم لوط كے جنسى انحرافات نماياں تھے اور قوم شعيب كے اقتصادى انحرافات زيادہ تھے_ اور ظاہراًبہت مختلف تھے ليكن دونوں معاشرے ميں فساد پيدا كرنے،اجتماعى نظام خراب كرنے،اخلاقى فضائل كو نابود كرنے اور برائي پھيلانے ميں ايك دوسرے سے مشابہت ركھتے تھے_

ايك دوسرے كو دھمكياں

يہ عظيم پيغمبرحضرت شعيب كہ انتہائي جچے تلے،بليغ اور دلنشين كلام كى وجہ سے جن كا لقب،''خطيب الانبياء ''ہے،ان كا كلام ان لوگوں كے لئے روحانى ومادى زند گى كى راہيں كھولنے والاتھا_انہوں نے بڑے صبر،حوصلے،متانت اور دلسوزى كے ساتھ ان سے تمام باتيں كيں ليكن ہم ديكھ رہے ہيں كہ اس گمراہ قوم نے انہيں كس طرح سے جواب ديا_

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۸۹

۲۶۲

انہوں نے چار جملوں ميں كہ جو ڈھٹائي،جہالت اور بے خبرى كا مظہر تھے آپ(ع) كو جواب ديا:

پہلے وہ كہنے لگے:''اے شعيب(ع) تمہارى زيادہ تر باتيں ہمارى سمجھ ميں نہيں آتيں ''_(۱)

بنيادى طور پر تيرى باتوں كا كوئي سر پير نہيں ،ان ميں كوئي خاص بات اور منطق ہى نہيں كہ ہم ان پر كوئي غوروفكر كريں _ لہذا ان ميں كوئي ايسى چيز نہيں جس پر ہم عمل كريں اس ليے تم اپنے آ پ كو زيادہ نہ تھكائو اور دوسرے لوگوں كے پيچھے جائو_

''دوسرا يہ كہ ہم تجھے اپنے مابين كمزور پاتے ہيں ''_(۲)

لہذا گر تم يہ سوچتے ہو كہ تم اپنى بے منطق باتيں طاقت كے بل پر منوالوگے تو يہ بھى تمہارى غلط فہمى ہے_

يہ گمان نہ كروں كہ اگر ہم تم سے پوچھ گچھ نہيں كرتے تو يہ تمہارى طاقت كے خوف سے ہے_اگر تيرى قوم و قبيلہ كا احترام پيش نظر نہ ہوتا تو ہم تجھے بد ترين طريقے سے قتل كرديتے اور تجھے سنگسار كرتے_(۳)

آخر ميں انہوں نے كہا:

''تو ہمارے ليے كوئي طاقتور اور ناقابل شكست نہيں ہے''_(۴)

اگر چہ تو اپنے قبيلے كے بزرگوں ميں شمار ہوتا ہے ليكن جو پروگرام تيرے پيش نظر ہے اس كى وجہ سے ہمارى نگاہ ميں كوئي وقعت اور منزلت نہيں ہے_

حضرت شعيب(ع) ان باتوں كے نشتروں اور توہين آميز رويّے سے(سيخ پا ہوكر)اٹھ كرنہيں گئے بلكہ آپ(ع) نے اس طرح انہيں پر منطق اور بليغ پيرائے ميں جواب ديا:''اے قومميرے قبيلے كے يہ چند افراد تمہارے نزديك خدا سے زيادہ عزيز ہيں _''(۵)

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۹۱ (۲)سورہ ھود آيت ۹۱

(۳)سورہ شعيب آيت۹۱ (۴)سورہ ھود آيت۹۱

(۵)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۳

تم ميرے خاندان كى خاطر كہ جو تمہارے بقول چند نفر سے زيادہ نہيں ہے ،مجھے آزار نہيں پہنچاتے ہو،توكيوں خدا كے ليے تم ميرى باتوں كو قبول نہيں كرتے ہو_ كيا عظمت خدا كے سامنے چندافرادكى كوئي حيثيت ہے؟

كيا تم خدا كے لئے كسى احترام كے قائل ہو''جبكہ اسے اور اس كے فرمان كو تم نے پس پشت ڈال ديا ہے_''(۱)

آخر ميں حضرت شعيب(ع) كہتے ہيں :'' يہ خيال نہ كرو كہ خدا تمہارے اعمال كو نہيں ديكھتا اور تمہارى باتيں نہيں سنتا_ يقين جانو كہ ميرا پروردگار ان تمام اعمال پر محيط ہے جو تم انجام ديتے ہو''_(۲)

بليغ سخن ور وہ ہے كہ جو اپنى باتوں ميں مدمقابل كى تمام تنقيدوں كا جواب دے_قوم شعيب(ع) كے مشركين نے چونكہ اپنى باتوں كے آخر ميں ضمناًانہيں سنگسار كرنے كى دھمكى دى تھى اور ان كے سامنے اپنى طاقت كا اظہار كيا تھا لہذا ان كى دھمكى كے جواب ميں حضرت شعيب(ع) نے اپنے موقف كواس طرح سے بيان كيا:

اے ميرى قومجو كچھ تمہارے بس ميں ہے كر گزرواور اس ميں كوتاہى نہ كرو اور جو كچھ تم سے ہو سكتا ہے اس ميں رورعايت نہ كرو_ميں بھى اپنا كام كروں گا_ليكن تم جلد سمجھ جائو گے كہ كون رسوا كن عذاب ميں گرفتار ہوتا ہے اور كون جھوٹا ہے ميں يا تم _

اور اب جبكہ معاملہ اس طرح ہے تو تم بھى انتظار كرو اور ميں بھى انتظار كرتا ہوں ،تم اپنى طاقت،تعداد،سرمائے اور اثرورسوخ سے مجھ پر كاميابى كے انتظار ميں رہو اور ميں بھى اس انتظار ميں ہوں كہ عنقريب دردناك عذاب الہى تم جيسى گمراہ قوم كے دامن گير ہو اور تمہيں صفحہ ہستى سے مٹادے_

مدين كے تباہ كاروں كا انجام

گزشتہ اقوام كى سرگزشت كے بارے ميں قرآن مجيد ميں ہم نے بارہا پڑھا ہے كہ پہلے مرحلے ميں

____________________

(۱)سورہء ھود آيت۹۲

(۲)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۴

انبياء انہيں خدا كى طرف دعوت دينے كے ليے قيام كرتے تھے اور ہر طرح سے تعليم و تربيت اور پند ونصيحت ميں كوئي گنجائش نہيں چھوڑتے تھے_ دوسرے مرحلے ميں جب ايك گروہ پر پند و نصائح كا كوئي اثر نہ ہوتا تو انہيں عذاب الہى سے ڈراتے تاكہ وہ آخرى افراد تسليم حق ہوجائيں جو قبوليت كى اہليت ركھتے ہيں اور راہ خدا كى طرف پلٹ آئيں نيز اتمام حجت ہو جائے_

تيسرے مرحلے ميں جب ان پركوئي چيز مو ثر نہ ہوتى تو روئے زمين كى ستھرائي اور پاك سازى كر ليے سنت الہى كے مطابق عذاب آجاتا اور راستے كے ان كانٹوں كو دور كرديتا _

قوم شعيب(ع) يعنى اہل مدين كا بھى آخر كار مرحلہ انجام آپہنچا_چنانچہ قرآن كہتا ہے: ''جب(اس گمراہ، ظالم اور ہٹ دھرم قوم كو عذاب ديئے جانے كے بارے ميں ) ہمارا فرمان آپہنچا تو ہم نے شعيب(ع) اور اس پر ايمان لانے والوں كو اپنى رحمت كى بركت سے نجات دي_''(۱) ''پھر آسمانى پكار اور مرگ آفريں عظيم صيحہ نے ظالموں اور ستمگروں كو اپنى گرفت ميں لے ليا_''(۲)

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں _''صيحہ'' ہرقسم كى عظيم آواز اور پكار كے معنى ميں ہے، قرآن نے بعض قوموں كى نابودى صيحہ آسمانى كے ذريعے بتائي ہے_ يہ صيحہ احتمالاًصاعقہ كے ذريعے يا اس كى مانند ہوتى ہے اور جيسا كہ ہم نے قوم ثمود كى داستان ميں بيان كيا ہے كہ صوتى امواج بعض اوقات اس قدر قوى ہوسكتى ہيں كہ ايك گروہ كى موت كا سبب بن جائيں _

اس كے بعد فرمايا گيا ہے:''اس آسمانى صيحہ كے اثر سے قوم شعيب كے لوگ اپنے گھروں ميں منہ كے بل جاگرے اور مرگئے اور ان كے بے جان جسم درس عبرت بنے ہو ايك مدت تك وہيں پڑے رہے''_(۳)

ان كى زندگى كى كتاب اس طرح بندكردى گئي كہ ''گويا كبھى وہ اس سرزمين كے ساكن ہى نہ تھے''_

____________________

(۱)سورہ ھودآيت۹۴

(۲)سورہ ھود آيت۹۴

(۳)سورہ ھود آيت۹۴

۲۶۵

سات روز تك شدت كى گرمى پڑى اور ہوا بالكل نہ چلي، اس كے بعد اچانك آسمان پر بادل آئے، ہوا چلى ان كو گھروں سے نكال پھينكا، گرمى كى وجہ سے بادل كے سايہ كے نيچے چلے گئے_

اس وقت صاعقہ موت كا پيغام لے كر آئي خطرناك آواز، آگ كى بارش اور زمين ميں زلزلہ آگيا، اس طرح وہ سب نابود ہوگئے_

وہ تمام دولت وثروت كہ جس كى خاطر انہوں نے گناہ اور ظلم و ستم كيے نابود ہوگئي_ انكى زمينيں اور زرق برق زندگى ختم ہوگئي اور ان كا شور وغو غا خاموش ہوگيا اور آخر كار جيسا كہ قوم عادوثمود كى داستان كے آخر ميں بيان ہوا ہے فرمايا گيا ہے:دورہو سرزمين مدين لطف و رحمت پروردگار سے جيسے كہ قوم ثمود دور ہوئي_(۱)

''واضح ہے كہ يہاں ''مدين''سے مراد اہل مدين ہيں جو رحمت خدا سے دور ہوئے''_

____________________

(۱)سورہ ھود آيت۹۵

۲۶۶

حضرت موسى عليہ السلام

تمام پيغمبر كى نسبت قرآن ميں حضرت موسى (ع) كا واقعہ زيادہ آيا ہے_تيس سے زيادہ سورتوں ميں موسى (ع) و فرعون اور بنى اسرائيل كے واقعہ كى طرف سومرتبہ سے زيادہ اشارہ ہوا ہے_

اگر ہم ان آيتوں كى الگ الگ شرح كريں ااس كے بعد ان سب كو ايك دوسرے كے ساتھ ملا ديں تو بعض افراد كے اس توہم كے برخلاف كہ قرآن ميں تكرار سے كام ليا گيا ہے،ہم كو معلوم ہوگا كہ قرآن ميں نہ صرف تكرار نہيں ہے بلكہ ہر سورہ ميں جو بحث چھيڑى گئي ہے اس كى مناسبت سے اس سرگزشت كا ايك حصہ شاہد كے طور پر پيش كيا گيا ہے_

ضمناًيہ بات بھى ذہن ميں ركھنا چايئےہ اس زمانے ميں مملكت مصر نسبتاً وسيع مملكت تھي_وہاں كے رہنے والوں كا تمدن بھى حضرت نوح(ع) ،ہود(ع) اور شعيب(ع) كى اقوام سے زيادہ ترقى يافتہ تھا_ لہذا حكومت فراعنہ كى مقاومت بھى زيادہ تھي_

اسى بناء پر حضرت موسى (ع) كى تحريك اور نہضت بھى اتنى اہميت كى حامل ہوئي كہ اس ميں بہت زيادہ عبرت انگيز نكات پائے جاتے ہيں _بنابريں اس قرآن ميں حضرت موسى (ع) كى زندگى اور بنى اسرائيل كے حالات كے مختلف پہلوئوں پر روشنى ڈالى گئي ہے_

كلى طور پر اس عظيم پيغمبر(ع) كى زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_

۲۶۷

حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے پانچ ادوار

۱_پيدائش سے لے كر آغوش فرعون ميں آپ(ع) كى پرورش تك كا زمانہ_

۲_مصر سے آپ(ع) كا نكلنا اور شہر مدين ميں حضرت شعيب(ع) كے پاس كچھ دقت گزارنا_

۳_آپ(ع) كى بعثت كا زمانہ اور فرعون اور اس كى حكومت والوں سے آپ(ع) كے متعدد تنازعے_

۴_فرعونيوں كے چنگل سے موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى نجات اور وہ حوادث جو راستہ ميں اور بيت المقدس پہنچنے پر رونما ہوئے_

۵_حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كے درميان كشمكش كا زمانہ_

ولادت حضرت موسى عليہ السلام

حكومت فرعون نے بنى اسرئيل كے يہاں جو نومولود بيٹے ہوتے تھے انہيں قتل كرنے كا ايك وسيع پروگرام بنايا تھا_ يہاں تك كہ فرعون كى مقرر كردہ دائياں بنى اسرائيل كى باردار عورتوں كى نگرانى كرتى تھيں _

ان دائيوں ميں سے ايك والدہ موسى (ع) كى دوست بن گئي تھي_ (شكم مادر ميں موسى (ع) كا حمل مخفى رہا اوراس كے آثار ظاہر نہ ہوئے) جس وقت مادر موسى (ع) كو يہ احساس ہوا كہ بچے كى ولادت كا وقت قريب ہے تو آپ نے كسى كے ذريعہ اپنى دوست دائي كو بلانے بھيجا_جب وہ آگئي تو اس سے كہا:ميرے پيٹ ميں ايك فرزند ہے،آج مجھے تمہارى دوستى اور محبت كى ضرورت ہے_

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام پيدا ہوگئے تو آپ كى آنكھوں ميں ايك خاص نور چمك رہا تھا،چنانچہ اسے ديكھ كر وہ دايہ كاپنے لگى اور اس كے دل كى گہرائي ميں محبت كى ايك بجلى سماگئي،جس نے اس كے دل كى تمام فضاء كو روشن كرديا_

يہ ديكھ كر وہ دايہ، مادر موسى (ع) سے مخاطب ہوكر بولى كہ ميرا يہ خيال تھا كہ حكومت كے دفتر ميں جاكے اس بچے كے پيدا ہونے كى خبر دوں تاكہ جلاد آئيں اور اسے قتل كرديں اور ميں اپنا انعام پالوں _ مگر ميں كيا كروں

۲۶۸

كہ ميں اپنے دل ميں اس نوزائيدہ بچے كى شديد محبت كا احساس كرتى ہوں _ يہاں تك كہ ميں يہ نہيں چاہتى كہ اس كا بال بھى بيكا ہو_اس كى اچھى طرح حفاظت كرو_ميرا خيال ہے كہ آخر كار يہى ہمارا دشمن ہوگا_

جناب موسى عليہ السلام تنور ميں

وہ دايہ مادر موسى (ع) كے گھر سے باہر نكلي_ تو حكومت كے بعض جاسوسوں نے اسے ديكھ ليا_ انھوں نے تہيہ كرليا كہ وہ گھر ميں داخل ہوجائيں گے_ موسى (ع) كى بہن نے اپنى ماں كو اس خطرے سے آگاہ كرديا ماں يہ سن كے گھبراگئي_ اس كى سمجھ ميں نہ آتا تھا كہ اب كيا كرے_

اس شديد پريشانى كے عالم ميں جب كہ وہ بالكل حواس باختہ ہورہى تھياس نے بچے كو ايك كپڑے ميں لپيٹا او رتنور ميں ڈال ديا_ اس دوران ميں حكومت كے آدمى آگئے_مگر وہاں انھوں نے روشن تنور كے سوا كچھ نہ ديكھا_ انھوں نے مادر موسى (ع) سے تفتيش شرو ع كردى _ پوچھا_دايہ يہاں كيا كررہى تھي_؟ موسى (ع) كى ماں نے كہا كہ وہ ميرى سہيلى ہے مجھ سے ملنے آئي تھى _حكومت كے كارندے مايوس ہوكے واپس ہوگئے_

اب موسى (ع) كى ماں كو ہوش آيا_ آپ نے اپنى بيٹى سے پوچھا كہ بچہ كہاں ہے؟ اس نے لاعلمى كا اظہار كيا_ ناگہاں تنور كے اندر سے بچہ كے رونے كى آواز آئي_ اب ماں تنور كى طرف دوڑى _كيا ديكھتى ہے كہ خدا نے اس كے لئے آتش تنور كو ''ٹھنڈا اور سلامتى كہ جگہ''بناديا ہے_ وہى خدا جس نے حضرت ابراھيم(ع) كے ليے آتش نمرود كو ''برد وسلام''بناديا تھا_ اس نے اپنا ہاتھ بڑھايا اور بچے كو صحيح وسالم باہر نكال ليا_

ليكن پھر بھى ماں محفوظ نہ تھي_كيونكہ حكومت كے كارندے دائيں بائيں پھرتے رہتے اور جستجو ميں لگے رہتے تھے_ كسى بڑے خطرے كے ليے يہى كافى تھا كہ وہ ايك نوزائيد بچے كے رونے كى آواز سن ليتے_

اس حالت ميں خدا كے ايك الہام نے ماں كے قلب كو روشن كرديا_وہ الہام ايسا تھا كہ ماں كو بظاہر ايك خطرناك كام پر آمادہ كررہا تھا_مگر پھر بھى ماں اس ارادے سے اپنے دل ميں سكون محسوس كرتى تھي_

۲۶۹

''ہم نے موسى (ع) كى ماں كى طرف وحى كى كہ اسے دودھ پلا اور جب تجھے اس كے بارے ميں كچھ خوف پيدا ہوتو اسے دريا ميں ڈال دينا اور ڈرنا نہيں اور نہ غمگين ہونا كيونكہ ہم اسے تيرے پاس لوٹا ديں گے اور اسے رسولوں ميں سے قرار ديں گے_(۱)

اس نے كہا: ''خدا كى طرف سے مجھ پريہ فرض عائد ہوا ہے_ ميں اسے ضرور انجام دوں گي''_اس نے پختہ ارادہ كرليا كہ ميں اس الہام كو ضرور عملى جامہ پہنائوں گى اور اپنے نوزائيدہ بچے كو دريائے نيل ميں ڈال دوں گي_

اس نے ايك مصرى بڑھئي كو تلاش كيا (وہ بڑھئي قبطى اور فرعون كى قوم ميں سے تھا)اس نے اس بڑھئي سے درخواست كى كہ ميرے ليے ايك چھوٹا سا صندوق بنادے_

بڑھئي نے پوچھا:جس قسم كا صندوقچہ تم بنوانا چاہتى ہو اسے كس كام ميں لائوگي؟

موسى (ع) كى ماں جو دروغ گوئي كى عادى نہ تھى اس نازك مقام پر بھى سچ بولنے سے باز نہ رہي_اس نے كہا:ميں بنى اسرائيل كى ايك عورت ہوں _ميرا ايك نوزائيد بچہ لڑكا ہے_ميں اس بچے كو اس صندوق ميں چھپانا چاہتى ہوں _

اس قبطى بڑھئي نے اپنے دل ميں يہ پختہ ارادہ كرليا كہ جلادوں كو يہ خبر پہنچادےگا_وہ تلاش كركے ان كے پاس پہنچ گيا_ مگر جب وہ انھيں يہ خبر سنانے لگاتو اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس كى زبان بند ہوگئي_ وہ صرف ہاتھوں سے اشارے كرتا تھا اور چاہتا تھا كہ ان علامتوں سے انھيں اپنا مطلب سمجھا دے_ حكومت كے كارندوں نے اس كى حركات ديكھ كر يہ سمجھا كہ يہ شخص ہم سے مذاق كررہا ہے_اس ليے اسے مارا اور باہر نكال ديا_

جيسے ہى وہ اس دفتر سے باہر نكلا اس كے ہوش و حواس يكجاہوگئے، وہ پھر جلادوں كے پاس گيا اور اپنى حركات سے پھر ماركھائي_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۷

۲۷۰

آخر اس نے يہ سمجھا كہ اس واقعے ميں ضرور كوئي الہى راز پوشيدہ ہے_چنانچہ اس نے صندوق بناكے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو دےديا_

دريا كى موجيں گہوارے سے بہتر

غالباًصبح كا وقت تھا_ابھى اہل مصر محو خواب تھے_مشرق سے پو پھٹ رہى تھي_ماں نے نوزائيدہ بچے اور صندوق كو دريائے نيل كے كنارے لائي،بچے كو آخرى مرتبہ دودھ پلايا_پھر اسے،مخصوص صندوق ميں ركھا(جس ميں يہ خصوصيت تھى كہ ايك چھوٹى كشتى كى طرح پانى پر تيرسكے)پھر اس صندوق كو نيل كى موجوں كے سپرد كرديا_ نيل كى پر شور موجوں نے اس صندوق كوجلدہى ساحل سے دور كرديا_ماں كنارے كھڑى ديكھ رہى تھى _ معاًاسے ايسا محسوس ہوا كہ اس كا دل سينے سے نكل كر موجوں كے اوپر تيررہاہے_اس دقت،اگر الطاف الہى اس كے دل كو سكون و قرار نہ بخشتا تو يقينا وہ زور زور سے رونے لگتى اور پھر سارا راز فاش ہو جاتا،كسى آدمى ميں يہ قدرت نہيں ہے كہ ان حساس لمحات ميں ماں پر جو گزررہى تھي_الفاظ ميں اس كا نقشہ كھينچ سكے مگر _ ايك فارسى شاعرہ نے كسى حد تك اس منظر كو اپنے فصيح اور پر از جذبات اشعار ميں مجسم كيا ہے_

۱_مادر موسى (ع) چو موسى (ع) رابہ نيل ---درفگند از گفتہ رب جليل

۲_خودز ساحل كرد باحسرت نگاہ ---گفت كاى فرزند خرد بى گناہ

۳_گر فراموشت كند لطف خداى ---چون رہى زين كشتى بى ناخداي

۴_وحى آمد كاين چہ فكر باطل است ---رہرو ما اينك اندر منزل است

۵_ماگرفتيم آنچہ را انداختى ----دست حق را ديدى ونشاختي

۶_سطح آب از گاہوارش خوشتراست ---دايہ اش سيلاب و موجش مادراست

۷_رودھا از خودنہ طغيان مى كنند--- آنچہ مى گوئيم ما آن مى كنند

۲۷۱

۸_ما بہ دريا حكم طوفان مى دہيم

ما بہ سيل وموج فرماں مى دہيم

۹_نقش ہستى نقشى از ايوان ما است

خاك وباد وآب سرگردان ماست

۱۰_بہ كہ برگردى بہ ما بسپاريش

كى تو از ما دوسترمى داريش؟(۱)

۱_جب موسى (ع) كى ماں نے حكم الہى كے مطابق موسى (ع) كو دريائے نيل ميں ڈال ديا_

۲_وہ ساحل پركھڑى ہوئي حسرت سے ديكھ رہى تھى اور كہہ رہى تھى كہ اے ميرے بے گناہ ننھے بيٹے

۳_اگر لطف الہى تيرے شامل حال نہ ہو تو ،تو اس كشتى ميں كيسے سلامت رہ سكتا ہے جس كا كوئي نا خدا نہيں ہے_

۴_حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو اس وقت وحى ہوئي كہ تيرى يہ كيا خام خيالى ہے ہمارا مسافر تو سوئے منزل رواں ہے_

۵_تونے جب اس بچے كو دريا ميں ڈالاتھا تو ہم نے اسے اسى وقت سنبھال ليا تھا _ تو نے خدا كا ہاتھ ديكھا مگر اسے پہچانا نہيں _

۶_اس وقت پانى كى سطح(اس كے ليے)اس كے گہوارے سے زيادہ راحت بخش ہے_دريا كا سيلاب اس كى دايہ گيرى كررہا ہے اور اس كى موجيں آغوش مادر بنى ہوئي ہيں _

۷_ديكھوں دريائوں ميں ان كے ارادہ و اختيار سے طغيانى نہيں آتي_وہ ہمارے حكم كے مطيع ہيں وہ وہى كرتے ہيں جو ہمارا امر ہوتا ہے_

۸_ہم ہى سمندروں كو طوفانى ہونے كاحكم ديتے ہيں اور ہم ہى سيل دريا كو روانى اور امواج بحر كو تلاطم كا فرمان بھيجتے ہيں _

____________________

(۱)از ديوان پروين اعتصامي

۲۷۲

۹_ہستى كا نقش ہمارے ايوان كے نقوش ميں سے ايك نقش ہے جو كچھ ہے،يہ كائنات تو اس كامشتے ازخروارى نمونہ ہے_ اور خاك،پاني،ہوا اور آتش ہمارے ہى اشارے سے متحرك ہيں _

۱۰_بہتر يہى ہے كہ تو بچے كو ہمارے سپرد كردے اور خود واپس چلى جا_ كيونكہ تو اس سے ہم سے زيادہ محبت نہيں كرتي_

دلوں ميں حضرت مو سى عليہ السلام كى محبت

اب ديكھناچاہيئے فرعون كے محل ميں كيا ہورہا تھا؟

روايات ميں مذكور ہے كہ فرعون كى ايك اكلوتى بيٹى تھي_وہ ايك سخت بيمارى سے شديد تكليف ميں تھي_فرعون نے اس كا بہت كچھ علاج كرايا مگر بے سود_اس نے كاہنوں سے پوچھا_ انھوں نے كہا:''اے فرعون ہم پيشن گوئي كرتے ہيں كہ اس دريا ميں سے ايك آدمى تيرے محل ميں داخل ہوگا_اگر اس كے منہ كى رال اس بيمار كے جسم پر ملى جائے گى تو اسے شفا ہوجائيگي_

چنانچہ فرعون اور اس كى ملكہ آسيہ ايسے واقعے كے انتظار ميں تھے كہ ناگہاں ايك روز انھيں ايك صندوق نظر آيا جو موجوں كى سطح پر تير رہا تھا_فرعون نے حكم ديا كہ سركارى ملازمين فوراً ديكھيں كہ يہ صندوق كيسا ہے اور اسے پانى ميں سے نكال ليں _ديكھيں كہ اس ميں كيا ہے؟

نوكروں نے وہ عجيب صندوق فرعون كے سامنے لاكے ركھ ديا_ كسى كو اس كا ڈھكنا كھولنے كى ہمت نہ ہوئي_ مطابق مشيت الہي،يہ لازمى تھا كہ حضرت موسى (ع) كى نجات كے ليے صندوق كا ڈھكنا فرعون ہى كے ہاتھ سے كھولا جائے،چنانچہ ايسا ہى ہوا_

جس وقت فرعون كى ملكہ نے اس بچے كو ديكھا تو اسے يوں محسوس ہواكہ ايك بجلى چمكى ہے جس نے اس كے دل كو منور كرديا ہے_

ان دونوں بالخصوص فرعون كى ملكہ كے دل ميں اس بچے كى محبت نے گھر بناليا اور جب اس بچے كا

۲۷۳

آب دہن اس كے ليے موجب شفا ہوگيا تو يہ محبت اور بھى زيادہ ہوگئي _

قرآن ميں يہ واقعہ اس طرح مذكور ہے كہ:_فرعون كے اہل خانہ نے موسى (ع) كو نيل كى موجوں كے اوپر سے پكڑ ليا_ تا كہ وہ ان كا دشمن اور ان كے ليے باعث اندوہ ہوجائے_(۱)

''يہ امر بديہى ہے كہ فرعون كے اہل خانہ نے اس بچے كے قنداقہ(وہ كپڑاجس ميں بچہ كو لپيٹتے ہيں )كو اس نيت سے دريا سے نہيں نكالا تھا كہ اپنے جانى دشمن كو اپنى گود ميں پاليں ،بلكہ وہ لوگ بقول ملكہ فرعون،اپنے ليے ايك نور چشم حاصل كرناچاہتے تھے_

ليكن انجام كار ايسا ہى ہوا،اس معنى و مراد كى تعبير ميں لطافت يہى ہے كہ خدا اپنى قدرت كا اظہار كرنا چاہتا ہے كہ وہ كس طرح اس گروہ كو جنھوں نے اپنى تمام قوتيں اور وسائل،بنى اسرائيل كى اولاد ذكور كو قتل كرنے كے ليے وقف كرديا تھا،اس خدمت پر مامور كرے كہ جس بچے كو نابود كرنے كے ليے انھوں نے يہ پروگرام بنايا تھا،اسى كوو وہ اپنى جان كى طرح عزيز ركھيں اور اسى كى پرورش كريں _

قرآن كى آيات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس بچے كى بابت فرعون،اس كى ملكہ اور ديگر اہل خاندان ميں باہم نزاع اور اختلاف بھى ہوا تھا،كيونكہ قرآن شريف ميں يوں بيان ہے:فرعون كى بيوى نے كہا كہ يہ بچہ ميرى اور تيرى آنكھوں كا نور ہے_ اسے قتل نہ كرو_ ممكن ہے يہ ہمارے ليے نفع بخش ہو يا ہم اسے ہم اپنا بيٹابنا ليں _(۲)

ايسا معلوم ہوتا ہے كہ فرعون بچے كے چہرے اور دديگر علامات سے،من جملہ ان كے اسے صندوق ميں ركھنے اور دريائے نيل ميں بہادينے سے يہ سمجھ گيا تھا كہ يہ بنى اسرائيل ميں سے كسى كا بچہ ہے_

يہ سمجھ كر ناگہاں ،بنى اسرائيل ميں سے ايك آدمى كى بغاوت اور اس كى سلطنت كے زوال كا كابوس اس كى روح پر مسلط ہوگيا اور وہ اس امر كا خواہاں ہوا كہ اس كا وہ ظالمانہ قانون،جو بنى اسرائيل كے تمام نوزاد اطفال كے ليے جارى كيا گيا تھا اس بچے پر بھى نافذ ہو_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۸

(۲)قصص آيت ۹

۲۷۴

فرعون كے خوشامدى درباريوں او ررشتہ داروں نے بھى اس امر ميں فرعون كى تائيد و حمايت كى اور كہا اس كى كوئي دليل نہيں ہے كہ يہ بچہ قانون سے مستثنى رہے_

ليكن فرعون كى بيوى آسيہ جس كے بطن سے كوئي لڑكا نہ تھا اور اس كا پاك دل فرعون كے درباريوں كى مانند نہ تھا،اس بچے كے ليے محبت كا كان بن گيا تھا_ چنانچہ وہ ان سب كى مخالفت پرآمادہ ہوگئي اور چونكہ اس قسم كے گھريلو اختلافات ميں فتح ہميشہ عورتوں كى ہوتى ہے،وہ بھى جيت گئي_

اگر اس گھريلو جھگڑے پر،دختر فرعون كى شفايابى كے واقعے كا بھى اضافہ كرليا جائے تواس اختلاف باہمى ميں آسيہ كى فتح كا امكان روشن تر ہو جاتا ہے_

قرآن ميں ايك بہت ہى پر معنى فقرہ ہے:''وہ نہيں جانتے تھے كہ كيا كررہے ہيں :''(۱)

البتہ وہ بالكل بے خبر تھے كہ خدا كا واجب النفوذ فرمان اور اس كى شكست ناپذير مشيت نے يہ تہيہ كرليا ہے كہ يہ طفل نوزاد انتہائي خطرات ميں پرورش پائے _ اور كسى آدمى ميں بھى ارادہ و مشيت الہى سے سرتابى كى جرا ت اور طاقت نہيں ہے''_

اللہ كى عجيب قدرت

اس چيز كانام قدرت نمائي نہيں ہے كہ خداآسمان و زمين كے لشكروں كو مامور كركے كسى پُرقوت اور ظالم قوم كو نيست و نابود كردے_

بلكہ قدرت نمائي يہ ہے كہ ان ہى جباران مستكبر سے يہ كا م لے كر وہ اپنے آپ كو خود ہى نيست و نابود كرليں اور ان كے دل و دماغ ميں ايسے خيالات پيدا ہوجائيں كہ بڑے شوق سے لكڑياں جمع كريں اور اس كى آگ ميں جل مريں ،اپنے ليے خودہى قيدخانہ بنائيں اور اسميں اسير ہوكے جان دے ديں ، اپنے ليے خود ہى صليب كھڑى كريں اور اس پر چڑھ مرجائيں _

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۹

۲۷۵

فرعون اوراسكے زور منداور ظالم ساتھيوں كے ساتھ بھى يہى پيش آيا_ چنانچہ تمام مراحل ميں حضرت موسى (ع) كى نجات اور پرورش انہى كے ہاتھوں سے ہوئي،حضرت موسى (ع) كى دايہ قبطيوں ميں سے تھي،صندوق موسى (ع) كو امواج نيل سے نكالنے اور نجات دينے والے متعلقين فرعون تھے،صندوق كا ڈھكنا كھولنے والا خود فرعون يا اس كى اہليہ تھي،اور آخر كا ر فرعون شكن اور مالك غلبہ و اقتدار موسى (ع) كے ليے امن و آرام اور پرورش كى جگہ خود فرعون كا محل قرار پايا_ يہ ہے پروردگار عالم خدا كى قدرت_

موسى عليہ السلام پھر آغوش مادر ميں

حضرت موسى عليہ السلام كى ماں نے اس طرح سے جيسا كہ ہم نے پيشتر بيان كيا ہے،اپنے فرزند كو دريائے نيل كى لہروں كے سپرد كرديا_ مگر اس عمل كے بعد اس كے دل ميں جذبات كا يكايك شديد طوفان اٹھنے لگا،نوزائيدہ بيٹے كى ياد،جس كے سوا اس كے دل ميں كچھ نہ تھا،اس كے احساسات پر غالب آگئي تھي،قريب تھا كہ وہ دھاڑيں مار كر رونے لگے اور اپنا راز فاش كردے،قريب تھا كہ چيخ مارے اور اپنے بيٹے كى جدائي ميں نالے كرے_

ليكن عنايت خداوندى اس كے شامل حال رہى جيسا كہ قرآن ميں مذكور ہے:''موسى عليہ السلام كى ماں كا دل اپنے فرزند كى ياد كے سوا ہر چيز سے خالى ہوگيا،اگر ہم نے اس كا دل ايمان اور اميد كے نور سے روشن نہ كيا ہوتا تو قريب تھا كہ وہ راز فاش كرديتي_ ليكن ہم نے يہ اس ليے كيا تاكہ وہ اہل ايمان ميں سے رہے''_(۱)

يہ قطعى فطرى امر ہے كہ: ايك ماں جو اپنے بچے كو اس صورت حال سے اپنے پاس سے جدا كرے وہ اپنى اولاد كے سوا ہر شے كو بھول جائے گي_ اور اس كے حواس ايسے باختہ ہو جائيں گے كہ ان خطرات كا لحاظ

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۰

۲۷۶

كيے بغير جو اس كے اور اس كے بيٹے دونوں كے سر پر منڈلارہے تھے فرياد كرے اور اپنے دل كا راز فاش كردے_

ليكن وہ خدا جس نے اس ماں كے سپرد يہ اہم فريضہ كيا تھا،اسى نے اس كے دل كو ايسا حوصلہ بھى بخشا كہ وعدہ الہى پر اس كا ايمان ثابت رہے اور اسے يہ يقين رہے كہ اس كا بچہ خدا كے ہاتھ ميں ہے آخر كار وہ پھر اسى كے پاس آجائے گا اور پيغمبر بنے گا_

اس لطف خداوندى كے طفيل ماں كے دل كا سكون لوٹ آيامگر اسے آرزورہى كہ وہ اپنے فرزندكے حال سے باخبر رہے'' اس لئے اس نے موسى عليہ السلام كى بہن سے كہاكہ جا تو ديكھتى رہ كہ اس پر كيا گزرتى ہے''_(۱)

موسى عليہ السلام كى بہن ماں كا حكم بجالائي اور اتنے فاصلہ سے جہاں سے سب كچھ نظر آتا تھا ديكھتى رہى _ اس نے دور سے ديكھا كہ فرعون كے عمال اس كے بھائي كے صندوق كو پانى ميں سے نكال رہے ہيں اور موسى عليہ السلام كو صندوق ميں سے نكال كر گود ميں لے رہے ہيں _

''مگر وہ لوگ اس بہن كى ا س كيفيت حال سے بے خبر تھے_''_(۲)

بہر حال ارادہ الہى يہ تھا كہ يہ طفل نوزاد جلد اپنى ماں كے پاس واپس جائے اور اس كے دل كو قرار آئے_اس ليے فرمايا گيا ہے :''ہم نے تمام دودھ پلانے والى عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا''_(۳)

يہ طبيعى ہے كہ شير خوار نوزاد چندگھنٹے گزرتے ہى بھوك سے رونے لگتا ہے اور بے تاب ہوجاتا ہے_ درين حال لازم تھا كہ موسى عليہ السلام كو دودھ پلانے كے ليے كسى عورت كى تلاش كى جاتي_ خصوصاً جبكہ ملكہ مصر اس بچے سے نہايت دل بستگى ركھتى تھى اور اسے اپنى جان كے برابر عزيز ركھتى تھي_

محل كے تمام خدام حركت ميں آگئے اور دربدر كسى دودھ پلانے والى كو تلاش كرنے لگے_مگر يہ عجيب بات تھى كہ وہ كسى كا دودھ پيتا ہى نہ تھا_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۱

(۲)سورہ قصص آيت۱۱

(۳)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۷

ممكن ہے كہ وہ بچہ ان عورتوں كى صورت ہى سے ڈرتا ہو اور ان كے دودھ كا مزہ(جس سے وہ آشنا نہ تھا) اسے اس كا ذائقہ ناگوار اور تلخ محسوس ہوتا ہو_اس بچے كا طور كچھ اس طرح كا تھا گويا كہ ان (دودھ پلانے والي)عورتوں كى گود سے اچھل كے دورجاگرے در اصل يہ خدا كى طرف سے''تحريم تكويني''تھى كہ اس نے تمام عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا_

بچہ لحظہ بہ لحظہ زيادہ بھوكا اور زيادہ بيتاب ہوتا جاتا تھا_ بار بار رورہا تھا اور اس كى آواز سے فرعون كے محل ميں شور ہورہا تھا_ اور ملكہ كا دل لرز رہا تھا_

خدمت پرمامور لوگوں نے اپنى تلاش كو تيز تر كرديا_ ناگہاں قريب ہى انھيں ايك لڑكى مل جاتى ہے_ وہ ان سے يہ كہتى ہے:ميں ايك ايسے خاندان كو جانتى ہوں جو اس بچے كى كفالت كرسكتا ہے_ وہ لوگ اس كے ساتھ اچھا سلوك كريں گے_

''كيا تم لوگ يہ پسند كروگے كہ ميں تمہيں وہاں لے چلوں ''؟(۱)

ميں بنى اسرائيل ميں سے ايك عورت كو جانتى ہوں جس كى چھاتيوں ميں دودھ ہے اور اس كا دل محبت سے بھرا ہوا ہے_ اس كا ايك بچہ تھا وہ اسے كھو چكى ہے_ وہ ضرور اس بچے كو جو محل ميں پيدا ہوا ہے،دودھ پلانے پر آمادہ ہوجائے گي_

وہ تلاش كرنے والے خدام يہ سن كر خوش ہوگئے اور موسى عليہ السلام كى ماں كو فرعون كے محل ميں لے گئے_ اس بچے نے جونہى اپنى ماں كى خوشبو سونگھى اس كا دودھ پينے لگا_ اور اپنى ماں كا روحانى رس چوس كر اس ميں جان تازہ آگئي_اسكى آنكھوں ميں خوشى كا نور چمكنے لگا_

اس وقت وہ خدام جو ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے تھے_ بہت ہى زيادہ خوش و خرم تھے_ فرعون كى بيوى بھى اس وقت اپنى خوشى كو نہ چھپا سكي_ممكن ہے اس وقت لوگوں نے كہا ہوكہ تو كہاں چلى گئي تھي_ہم تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے _ تجھ پر اورتيرے شير مشكل كشا پر آفرين ہے_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۸

صرف تيرا ہى دودھ كيوں پيا

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام ماں كا دودھ پينے لگے،فرعون كے وزير ہامان نے كہا: مجھے لگتا ہے كہ تو ہى اسكى ماں ہے_ بچے نے ان تمام عورتوں ميں سے صرف تيرا ہى دودھ كيوں قبول كرليا؟

ماں نے كہا:اس كى وجہ يہ ہے كہ ميں ايسى عورت ہوں جس كے دودھ ميں سے خوشبو آتى ہے_ ميرا دودھ نہايت شيريں ہے_ اب تك جو بچہ بھى مجھے سپرد كيا گيا ہے_ وہ فوراً ہى ميرا دودھ پينے لگتا ہے_

حاضرين دربار نے اس قول كى صداقت كو تسليم كرليا اور ہر ايك نے حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو گراں بہا ہديے اور تحفے ديے_

ايك حديث جو امام باقر عليہ السلام سے مروى ہے اس ميں منقول ہے كہ:''تين دن سے زيادہ كا عرصہ نہ گزرا تھا كہ خدانے كے بچے كواس كى ماں كے پاس لوٹا ديا''_

بعض اہل دانش كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ليے يہ''تحريم تكويني''(يعنى دوسرى عورتوں كا حرام كيا جانا)اس سبب سے تھاكہ خدا يہ نہيں چاہتا تھا كہ ميرا فرستادہ پيغمبر ايسا دودھ پيئے جو حرام سے آلودہ ہو اور ايسا مال كھاكے بنا ہو جو چوري،نا جائز ذرائع،رشوت اور حق الناس كو غصب كركے حاصل كيا گيا ہو_

خدا كى مشيت يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى صالحہ ماں كے پاك دودھ سے غذا حاصل كريں _تاكہ وہ اہل دنيا كے شر كے خلاف ڈٹ جائيں اور اہل شروفساد سے نبردآزمائي كرسكيں _

''ہم نے اس طرح موسى عليہ السلام كو اس كى ماں كے پاس لوٹا ديا_تاكہ اس كى آنكھيں روشن ہوجائيں اور اس كے دل ميں غم واندوہ باقى نہ رہے اور وہ يہ جان لے كہ خدا كا وعدہ حق ہے_ اگر چہ اكثر لوگ يہ نہيں جانتے''_(۱)

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۱۳

۲۷۹

اس مقام پر ايك سوال پيدا ہوتا ہے اور وہ يہ ہے كہ:كيا وابستگان فرعون نے موسى عليہ السلام كو پورے طور سے ماں كے سپرد كرديا تھا كہ وہ اسے گھر لے جائے اور دودھ پلايا كرے اور دوران رضاعت روزانہ يا كبھى كبھى بچے كو محل ميں لايا كرے تا كہ ملكہ مصر اسے ديكھ ليا كرے يا يہ كہ بچہ محل ہى ميں رہتا تھا اور موسى عليہ السلام كى ماں معين اوقات ميں آكر اسے دودھ پلاجاتى تھي؟

مذكورہ بالا دونوں احتمالات كے ليے ہمارے پاس كوئي واضح دليا نہيں ہے_ ليكن احتمال اول زيادہ قرين قياس ہے_

ايك اور سوال يہ ہے كہ:

آيا عرصہ شير خوارگى كے بعد حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل ميں چلے گئے يا ان كا تعلق اپنى ماں اور خاندان كے ساتھ باقى رہا اور محل سے وہاں آتے جاتے رہے؟

اس مسئلے كے متعلق بعض صاحبان نے يہ كہا ہے كہ شير خوار گى كے بعد آپ كى ماں نے انھيں فرعون اور اس كى بيوى آسيہ كے سپرد كرديا تھا اور حضرت موسى عليہ السلام ان دونوں كے پاس پرورش پاتے رہے_

اس ضمن ميں راويوں نے فرعون كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كى طفلانہ(مگر با معنى )باتوں كا ذكر كيا ہے كہ اس مقام پر ہم ان كو بعذر طول كلام كے پيش نظر قلم انداز كرتے ہيں _ ليكن فرعون كا يہ جملہ جے اس نے بعثت موسى عليہ السلام كے بعد كہا:

''كيا ہم نے تجھے بچپن ميں پرورش نہيں كيا اور كيا تو برسوں تك ہمارے درميان نہيں رہا''_(۱)

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام چند سال تك فرعون كے محل ميں رہتے تھے_

على ابن ابراھيم كى تفسير سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام تازمانہ بلوغ فرعون كے محل ميں نہايت احترام كے ساتھ رہے_مگر ان كى توحيد كے بارے ميں واضح باتيں فرعون كو سخت ناگوار ہوتى تھيں _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۱۸

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302