‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110327 / ڈاؤنلوڈ: 3815
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

موجود ہیں، سے استفادہ کرتے ہیں اور انسانوں کے لئے غذا اور پوشاک مہيّا کرتے ہیں، حیوان چارہ کھاتے ہیں اور انسانوں کے لئے خوراک اور پوشاک مہیا کرتے ہیں_

خلاصہ

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

جب ابّا کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو فرشتہ خانم نے سیب سے بھری ہوئی ٹرے اٹھائی اور ماں کے سامنے پیش کی اور کہا اس سے کچھ لیجیئے کیونکہ آپ نے نہیں سنا

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

اس کے بعد ٹرے اس نے چچا کے سامنے پیش کی اور چچا نے وہ سیب سے بھری ٹرے ابّا اور ہمارے سامنے پیش کی اور ہنستے ہوئے فرمایا بچّو تم بھی سیب اٹھاؤ اور اسکے کھاؤ اور کہیں غفلت میں کھانا شروع نہ کردینا پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لینا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا_ ہم چاہتے ہیں کہ تمام اکٹھے باغ میں چلیں اور سیب چینیں کیونکہ آج عصر کے وقت کچھ سیب مجاہدین کی بس کے ذریعے فوجیوں اور ملک کے حفاظت کرنے والے پاسداروں کو بھیجنے ہیں تا کہ وہ بھی اللہ تعالی کی اس نعمت سے استفادہ کریں کیونکہ وہ اسلام کے سپاہی اور قرآن کے محافظ ہیں اور دین و وطن اور اسلامی انقلاب کی پاسداری کرتے ہیں_ اٹھو اور باغ چلیں اور باقی گفتگو کو کل اور اس کے بعد کے لئے چھوڑ دیتے ہیں_

۶۱

سوالات:

یہ سوالات، بحث اور گفتگو کرنے کے لئے بیان کئے گئے ہیں

۱)___ جب نرگس اور اس کے بہن بھائی چچا کے باغ تک پہنچے تو باغ کا دروازہ بند تھا یا کھلا ہوا تھا؟ کیا نظارہ اور ماحول تھا؟ بچے کیا چاہتے تھے؟ کہ باپ نے انھیں کہا کہ ٹھہرو تا کہ دروازہ کھٹکھٹائیں_

۲)___جب ان کے چچا علی نے دیکھا کہ دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں تو اس نے کیا کہا تھا؟ تمھاری نگاہ میں چچا علی خوش اخلاق تھے؟ اس کے ثابت کرنے کے لئے اس سبق اور سابقہ سبق سے کچھ دلائل بیان کرسکتے ہو؟

۳)___ جب چچا علی نے نرگس اور دوسرے بچوں کو سیب دیئے تو کیا کہا؟ حسن نے اس وقت کیا کہا؟ آپ کی نگاہ میں حسن کیسا بچہ ہے؟ آیا غور و فکر کرنے والا لڑکا ہے اور کیوں؟

۴)___ جب چچا علی ہنسے اور اپنے بھائی سے کہا کہ تم نے بہت اچھا درس حاضر کردیا ہے تو اس کے بھائی نے اس کا کیا جواب دیا؟ کیا تم اس کی طرح پانی کی گردش اور دنیا کی خلقت کی غرض و غایت کی توضیح بیان کرسکتے ہو؟ یقینا ایسا کرسکو گے؟ تجربہ کرو_

۵)___ نرگس کے باپ نے اپنی گفتگو کو بطور خلاصہ ایک شعر میں بیان کیا، کیا تمھیں وہ شعر یاد ہے؟ فرشتہ خانم نے اس شعر کو کس طرح پڑھا تھا؟ تمھاری نگاہ میں فرشتہ خانم خوش سلیقہ اور خوش ذوق لڑکی ہے اور کیوں؟

۶۲

۶)___ اللہ تعالی کی نعمتوں کو غفلت کی حالت میں نہ کھا بیٹھنے کے لئے ہمیں کون سا کام انجام دینا چاہئے؟ علی نے اس بارے میں کیا کہاتھا؟

۷)___ چچا علی نے کہا تھا کہ وہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ کریں گے، اس سے ان کا قصد کن لوگوں کے متعلق تھا_ وہ کیوں پسند کرتا تھا کہ وہ لوگ بھی اس سے استفادہ کریں وہ اللہ تعالی کا شکریہ کون سے اعمال کر کے بجالاتے ہیں؟

۶۳

(۲) عمل کا ثمر

ہم جمعرات کو صبح جلدی میں اٹھے باغ کے وسط میں بہنے والی نہر سے وضو کیا اور کمرے میں جا کر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے_ چچا علی نے نماز کے بعد بلند آواز سے قرآن اور دعا پڑھنی شروع کردی ہم بھی ان کے ہمراہ دعا اور قرآن پڑھنے لگے، کاش تم بھی ہوتے کیسی عمدہ نماز اور با اخلاص دعا پڑھی گئی، کتنی بہترین صبح تھی، بہت اچھی ہوا اور باصفا ماحول تھا_ کاش تم بھی وہاں ہوتے اور سورج بلند پہاڑوں اور خوش و خرم اور سبزہ زار جنگلوں سے خوبصورتی کے ساتھ نکلنے کا نظارہ کرتے، ابّا کھڑکی کے پیچھے کھڑے تھے اور سورج کے طلوع کا حسین منظر دیکھ رہے تھے اور کل والے شعر کو گنگنا رہے تھے:

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

چچا علی کی بیوی فرشتہ خانم نے سماور کو جلایا_ میں نے اور حسن نے طاقچے سے ایک رسالہ اٹھایا اور اس کے ورق الٹنے لگا اس کے ایک صفحہ پر ایک شہید کا وصیت نامہ نظر سے گذرا_ فرشتہ خانم نے پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ تھوڑا آواز سے پڑھو کہ میں بھی سن سکوں_ صفحہ کی ابتداء میں ایک آیت کا یہ ترجمہ لکھا ہوا تھا:

۶۴

''جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں انھیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں''

اس کے بعد اس شہید کا یہ وصیت نامہ درج تھا_

''اللہ کے راستے میں شہید ہونا کتنا اچھا ہے یہ پھول کی خوشبو کی طرح ہے میں اس سرزمین میں دشمن سے اتنا لڑوں گا کہ یا فتح ہمارے نصیب ہوگی اور یا درجہ شہادت پر فائز ہوجاؤںگا_

اگر اسلام اور قرآن کی راہ میں شہید ہونے کی لیاقت نصیب ہوگی تو اس وقت میری ماں کو اس کی مبارکباد دینا کیونکہ میں اللہ کا مہمان ہوگیا ہوں واقعاً خدا کی راہ میں مرنا کتنا اچھا ہے''

حسن نے پوچھا چچا جان شہید کیسے اللہ کی مہمان کے لئے جاتا ہے، موت کیا ہے اور شہادت کیا ہے___؟ چچا بولے ''ناشتہ کے بعد ان سوالات کے بارے میں گفتگو کروں گا اب تم ناشتہ کرلو''_ جب ہم ناشتہ کرچکے تو میری ماں کی مدد سے فرشتہ خانم نے دسترخوان اکٹھا کیا اور اس وقت چچا بولے:

''تمھیں یاد ہے کہ آبا نے کل کیا کہا تھا؟ تمھیں یاد ہے کہ کائنات کی خلقت اور اس کے اغراض و مقاصد کے سلسلے میں انھوں نے مطالب بیان کئے تھے ____؟ جیسے کہ ابّا نے بیان کیا تھا کہ عالم مادی، اللہ تعالی کے ارادے او رحکم سے ہمیشہ تغیر و تبدل میں ہے تا کہ اس سے وہ انسانوں کی خدمت بجالائے اور ہماری کوشش و محنت کو بار آور قرار دے اپنی زندگی میں غور کرو_

۶۵

انسان ابتداء میں کمزور اور ایک چھوٹا سا وجود تھا، سرعت کے ساتھ اس عمدہ ہدف کی طرف جو اس کے لئے اللہ تعالی نے معین کر رکھا تھا حرکت کر رہا تھا، دودھ پیتا تھا اور بڑھ رہا تھا، غذا کھاتا تھا اور بڑا ہو رہا تھا اور رشد کر رہا تھا، کام کرتا تھا اور تجربہ حاصل کر رہا تھا اور خارجی دنیا سے وابستگی حاصل کر رہا تھا، علم حاصل کرتا تھا اور مادّی دنیا کی طبعی ثروت سے اور اپنے کام کے نتائج اور حیوانات و نباتات اور درختوں کی کوشش سے ا ستفادہ کر رہا تھا، اپنے جسم اور جان کی پرورش کر رہا تھا مختصر یہ کہ تمام موجودات عالم کوشش اور محنت کر رہے ہیں تا کہ وہ انسان کی خدمت بجالائیں اور انسان کی زندگی کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اسے کمال تک پہنچائیں لیکن اسی حالت میں اسے موت آپہنچتی ہے اور انسان کا جسم حرکت کرنا بند کردیتا ہے''_

آپ کیا فکر کرتے ہیں___؟ کیا انسان موت کے آجانے سے فنا اور نابود ہوجاتا ہے___؟ اس صورت میں تمام عالم کے موجودات کی تلاش اور کوشش جو انسان کی زندگی کے لئے کر رہے تھے بے کار نہ ہوگی___؟ اور تمام عالم کے موجودات کی کوشش اور حرکت لغو اور بے فائدہ نہ ہوگی___؟ کیا انسان اپنی کوشش اور محنت کا کوئی صحیح اور مثبت نتیجہ حاصل نہیں کرتا___؟ کیا انسان اور تمام عالم کی کوشش اور تلاش بے کار نہ ہوجائے گی___؟

نہیں اور بالکل نہیں انسان اور تمام عالم اور جہاں کی خلقت، لغو اور بے غرض

۶۶

نہیں ہے_ خداوند عالم نے اس منظم کائنات کو فنا اور نابود ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو ہمیشگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ اس جہاں سے عالم آخرت کی طرف جو باقی اور ہمیشہ رہنے والا ہے منتقل ہوجاتا ہے اور آخرت میں ان تمام کاموں کا ثمرہ پائے گا جو اس مادّی عالم میں انجام دیئے ہوتے ہیں اور پھر اس عالم آخرت میں ہمیشہ کے لئے زندگی گذارے گا_

موت ایک پل ہے جو نیک بندوں کو آخرت اور اللہ تعالی کی محبت و شفقت کی طرف منتقل کردیتا ہے_ اللہ تعالی کی یہ محبت اور نعمتیں اس کے نیک کاموں کا ثمرہ ہوا کرتی ہیں_ یہ پل گناہگار انسنوں کو ان کے برے کردار کی سزا اور جہنم کے سخت عذاب تک جا پہونچاتا ہے_

اب تم سمجھے کہ موت کیا ہوتی ہے___؟ موت ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا نام ہے جس طرح تم اپنے گھر سے پھل چننے کے لئے اس باغ میں آئے ہو اسی طرح نیک بندے اللہ تعالی کی خوبصورت بہشت میں اللہ اور اس کے نیک اچھے بندوں کی مہمانی میں جائیں گے_ اللہ کے نیک بندے جو اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے احکام کو بجالاتے ہیں اور اپنی روح اور جان کو اللہ تعالی کے اولیاء کی محبت سے پرورش کرتے ہیں وہ آخرت میں اپنے کاموں کا ثمرہ اٹھائیں گے اور بہت میں جائیں گے اور اللہ تعالی کی عمدہ بہشت کی نعمتوں سے جو انھیں اپنے اچھے کردار اور ایمان کی وجہ سے ملیں گی استفادہ کریں گے_ اس وقت میری بہن مریم نے پوچھا:

چچا جان شہادت کیا ہوتی ہے___؟ شہادت یعنی ہم اللہ کے راستے میں اللہ تعالی کے رہبر کے حکم سے کافروں اور ظالموں سے جنگ کریں

۶۷

تا کہ مارے جائیں_ شہید بھی اس دنیا میں عزت و شرافت اور وقار پاتا ہے اور آخرت میں سب سے بلند و بالا مقامات پر فائز ہوتا ہے وہ پیغمبروں و نیک اور صالح انسانوں کا ہمنشین ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی خاص نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے_ بہشت میں رہنے والے شہید کے مقام اور رتبے سے غبطہ کریں گے_

میرے پیارے بچو جان لو کہ آخرت کی نعمتیں اسے ملیں گی جو اس دنیا کی نعمتوں سے صحیح طریقے سے استفادہ کرتا ہے، اللہ کی یاد اور اطاعت سے غفلت نہیں کرتا یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ہم انی کوشش اور محنت کا کامل نتیجہ آخرت میں حاصل کریں گے_

یہ دنیا زراعت، محنت و کوشش اور عبادت کرنے کا زمانہ ہے اور آخرت اس زراعت کے کاٹنے اور ثمرہ حاصل کرنے کے زمانے کا نام ہے_ اب اٹھو اور باغ میں چلیں اور باقی ماندہ سیب چنیں کل جمعہ ہے اور کچھ افراد خدمت خلق کرنے والے ادارے کہ جس کا نام ''جہاد سازندگی'' ہے کل ہماری مدد کے لئے آئیں گے_ جب ہم ان درختوں کی طرف جو سیبوں سے لدے ہوئے تھے جا رہے تھے تا کہ باقی ماندہ سیب چنیں تو سب کے سب یہ پڑھ رہے تھے _

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

۶۸

سوالات

یہ اس لئے کئے گئے ہیں تا کہ تم سوچ سکو، بحث کرو اور جواب دو

۱)___ حسن نے اپنے چچا سے موت اور شہادت کے متعلق کیا پوچھا___؟

۲)___اللہ تعالی ان لوگوں کے متعلق جو راہ خدا میں مارے جاتے ہیں کیا فرماتا ہے؟

۳)___ آخرت کی نعمتیں کسے ملیں گی؟

۶۹

آخرت کی طرف منتقل ہونا

ہمارے بے پایاں درود و سلام ہوں انقلاب اسلامی ایران کے شہیدوں پر کہ جنھوں نے اپنی رفتار سے ہمیں شجاعت و دلیری اور دینداری کا درس دیا ہے اور اپنی روش سے عزت اور بزرگی ہمیں سمجھائی ہے_

شہید احمد رضا جن کی یاد باعظمت رہے اور ان کا آخرت میں مقام، بہشت جاویداں ہو کہ جنھوں نے ایک بلند مقام شہید کی طرح اپنے مہم وصیت نامہ میں یوں لکھا ہے:

''انسان ایک دن دنیا میں آتا ہے اور ایک دن دنیا سے چلاجاتا ہے صرف اس کا کردار اور عمل دنیا میں رہ جاتا ہے موت ہمارا انجام ہے، کتنا اچھا ہو کہ انسان کسی غرض و ہدف اور خاص مکتب کے لئے مارا جائے_

میری موت سے پریشان نہ ہونا کیونکہ میں اللہ تعالی کے نزدیک زندہ ہوں اور زرق پاتا ہوں، صرف میرا جسم تمھارے درمیان سے چلاگیا ہے، میرے مرنے سے پریشان نہ ہونا اور میرے لئے سیاہ لباس نہ پہننا یعنی عزاداری نہ کرنا_ میری

۷۰

پیاری اماں میں جانتا ہوں کہ تم میری موت سے پریشان ہوگی لیکن یہ تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک بہرہ مند ہوتے ہیں_

میں امید رکھتا ہوں کہ خداوند عالم مجھے انھیں شہیدوں میں سے قرار دے گا''_

اس محترم شہید نے دوسرے آگاہ شہیدوں کی طرح حق کے راستے کو پہچان لیا ہے اور بالکل درست کہا ہے کہ موت، زندگی کی انتہا نہیں ہے بلکہ موت، زندگی کے گذرنے کا وسیلہ ہے اور ایک قسم کی زندگی کے تبدیل ہوجانے کا نام ہے، موت ایک طبعی اور کامل عادی امر ہے یہ خوف اور وحشت کا موجب قرار نہ پانا چاہیئے_

''موت ہر انسان کے لئے مساوی نہیں ہوا کرتی بلکہ بعض انسانوں کے لئے موت سخت ہوا کرتی ہے اور بعض انسانوں کے لئے بہت زیادہ آسان اور سہل ہوا کرتی ہے بلکہ لذت بخش اور مدہ دینے والی ہواکرتی ہے _ ان لوگوں کے لئے موت، سخت اور دشوار ہوتی ہے جو دنیا اور مال و ثروت اور مقام و اقتدار و لذائذ دنیا کے عاشق و شیفتہ ہوں اور خداوند عالم کو فراموش کرچکے ہوں اور کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کرلیا ہو اور اللہ کی مخلوق پر ظلم کرتے ہوں''_

۷۱

اس قسم کے مادّی دنیا کے دوست انسان نے دنیا کے اقتدار اور زر و زیور اور جاہ و مقام کے محبت کر رکھی ہوتی ہے_ اللہ و آخرت اور خداپرست انسانوں سے محبت نہیں رکھتے ان لوگوں کے لئے اس عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونا بہت سخت ہوتا ہے اس قسم کے لوگ اخروی دنیا کو آباد نہیں کرتے اور اس کے سفر کے لئے کوئی زاد راہ نہیں رکھتے یہ لوگ کس طرح اس دنیا سے قطع روابط کرسکتے ہیں___؟ کس طرح وہ آخرت کے ویران اور دردناک گھر کی طرف کوچ کرسکتے ہیں___؟ اس لحاظ سے موت کی سختی اور جان کا سخت نکلنا دنیاوی اور مادّی امور سے دلبستگی کے معیار اور گناہوں کی مقدار پر مبنی ہوگا_

لیکن انسانوں کا دوسرا گروہ جو اللہ تعالی اور پیغمبروں کے دستور کے پیروکار اور اہل آخرت اور ہمیشہ اللہ کی یاد میں رہنے والے ہوتے ہیں اور اللہ سے محبت و انس رکھتے ہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں میں اللہ تعالی کی محبت اور ولایت نے نفوذ کیا ہوا ہوتا ہے، اللہ کی اطاعت اور اس کے سیدھے راستے پر گامزن رہتے ہیں اور جنھوں نے اپنے نیک اعمال اور بندگان خدا کی خدمت سے اپنی آخرت کو آباد کیا ہوتا ہے ان لوگوں کے لئے اس مادی دنیا سے قطع روابط صرف مشکل ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا استقبال بھی کرتے ہیں_

ایسے لوگ موت سے کیوں کبھرائیوں___ ؟ انھوں نے دنیاوی لذات سے دلبستگی نہیں کی ہوتی تا کہ مرنا ان کے لئے سخت ہو یہ محبت اور رغبت سے اپنی پاک روح اور جان کو اللہ تعالی کے فرشتوں کے سپرد کر کے بہشت کی طرف چلے جاتے ہیں_

جنت کی نعمتیں اور کتنے عمدہ ہدایا اللہ تعالی کے نیک اور حب دار بندوں

۷۲

کے لئے آخرت کے جہاں میں موجود ہیں_

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے وفادار ساتھیوں سے جو شہادت کے انتظار میں تھے شب عاشوریوں فرمایا:

''اے میرے وفادار ساتھیو دشمن سے جہاد کرنے اور دین سے دفاع کرنے میں پائیدار بنو اور جان لو کہ موت ایک پل کی طرح ہے جو تمھیں سختیوں اور دشواریوں سے نجات دلائے گی اور عالم آخرت کی طرف منتقل کردے گی_ ایسا کوئی ہوسکتا ہے جو ایک سخت اور دردناک قیدخانے آباد اور بہترین باغ کی طرف منتقل نہ ہو___؟ لیکن تمھارے دشمنوں کے لئے موت ایک ایسا پل ہے جو ایک خوبصورت محل سے سخت اور دردناک زندوان کی طرف منتقل کردیتی ہے''_

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے موت کی یوں توصیف کی ہے:

''مرد مومن کے لئے موت ایک میلا اور کثیف اذیت وہ لباس کا اتارنا، ہاتھ، پاؤں اور گردن سے غل و زنجیر کا نکالنا اور اس کے عوض میں عمدہ اور معطر لباس پہننا اور بہترین سواری پر سوار ہوکر بہترین جگہ کی طرف جانے کا نام ہے_

کافر اور بدکردار کے لئے موت، عمدہ اور راحت دہ لباس کا اتارنا اور بہترین و راحت دہ مکان سے نکل کر بدترین و کثیف ترین لباس پہن کر وحشتناک اور دردناک ترین جگہ کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے''_

۷۳

حضرت امام حسین اور حضرت امام زین العابدین علیہما السلام کی موت کے بارے میں یوں تعریف اور توصیف کے بعد کون مومن اور نیک انسان موت اور شہادت سے ڈرے گا اور ذلت و خواری کو برداشت کرے گا___؟

آیت قرآن مجید:

( کل نفس ذائقة الموت ثم الینا ترجعون ) (۱)

''ہر انسان، موت کا ذائقہ چھکے گا اور پھر ہماری طرف لوٹ آئے گا''_

____________________

۱) سورہ عنکبوت آیت نمبر ۵۷

۷۴

سوالات

سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے گئے ہیں

۱)___ ایران میں انقلاب اسلامی کے شہداء نے اپنی رفتار اور کردار سے کون درس دیا ہے___؟

۲)___ احمد رضا خادم شہید نے اپنے وصیت نامے میں کیا لکھا تھا اور اپنی ماں کو کیا پیغام دیا تھا___؟

۳)___ کیا موت تمام انسانوں کے لئے برابر ہے بعض کے لئے کیوں سخت اور تکلیف دہ ہے اور دوسرے بعض کے لئے کیوں آسان اور خوشی کا باعث ہے___؟

۴)___ حضرت امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے وفادار ساتھیوں سے کیا فرمایا___؟

۵)___ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے موت کی کیا تعریف کی ہے؟

۶)___ مسلمان انسان، موت اور شہادت سے کیوں نہیں ڈرتا اور کیوں ذلت اور خواری کو برداشت نہیں کرتا___؟

تذكّر:

ہم تمام شہیدوں کے وصیت نامے نقل نہیں کرسکے آپ درس میں شہیدوں کے وصیت نامے نقل کرسکتے ہیں اور اس کے لئے ان کے خاندان کی طرف رجوع کر کے معلومات حاصل کرسکتے ہیں_

۷۵

تکامل انسان یا خلقت عالم کی آخری غرض و غایت سورج نکلتا ہے، بادل برستے ہیں، درخت گل اور شگوفے نکالتے ہیں اور میوے دیتے ہیں، صاف و شفاف چشمے پتھروں کے درمیان سے پھوٹتے ہیں تا کہ انسان ان کے پاک پانی کو پیئے_ رات جاتی ہے اور دن آتا ہے تا کہ ہم انسان دن کی روشنی اور گرمی میں محنت کریں اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں_

دن چلاجاتا ہے اور رات آتی ہے تا کہ ہم تاریکی میں راحت اور آرام کریں اور دوسرے دن نشاط و خوشی سے عبادت کرسکیں_ سورج، چاند، بادل، ہوا، آسمان و زمین تمام کے تمام کوشش کر رہے ہیں تا کہ انسان کی پرورش کریں اور نادانی و ناتوانی سے دانائی اور توانائی تک پہنچائیں اور اس کے حجم و روح کی پرورش کریں_

نباتات و حیوانات سب کے سب انسان کی خدمت کے لئے ہیں اور وہ انسان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اس کی رشد و پرورش کا وظیفہ انجام دے رہے ہیں تمام

۷۶

کوشش کر رہے ہیں تا کہ ا نسان زندگی گزار سکے لیکن اسی درمیان انسان کو موت آجاتی ہے اور انسان کا جسم حرکت کرنے سے رک جاتا ہے تم کیا فکر کرتے ہو___؟

کیا تمام جہاں کے موجودات اس لئے کوشش کر رہے ہیں کہ انسان چند ایک دن زندہ رہ سکے اور اس کے بعد مرکر فنا ہوجائے____؟

اس صورت میں تمام جہاں کی کوشش بے کار اور بے ہدف نہ ہوگی___؟ کیا یقین کرسکتے ہو کہ جہاں کی خلقت میں کوئی غرض و غایت نہیں ہے؟ کیا اللہ تعالی نے اتنی بڑی کائنات کو بے کار اور بے ہدف پیدا کیا ہے ؟ کیا خداوند عالم نے اس جہاں کو پیدا کیا ہے کہ وہ ایک مدت کے بعد اس عظیم کوشش او رتلاش کے بعد نابود ہوجائے؟

اگر خداوند عالم نے اسے فنا کے لئے پیدا کیا ہو تا تو کیا اس کا ابتداء میں پیدا کرنا ممکن بھی ہوتا___ ؟ خداوند عالم نے ان سوالات کا چند آیتوں میں جواب دیا ہے:

آیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تم کو عبث خلق کیا ہے اور تم ہمارے پاس آخرت میں لوٹ نہیں آؤگے؟ اس طرح ہرگز نہیں ہے وہ خدا جو تمام جہاں کا حاکم اور اسے چلانے والا ہے کبھی بھی عبث اور بلافائدہ کام انجام نہیں دیتا_ (سورہ مومنوں آیت نمبر ۱۱۵)

ہم نے انسان کو معزز قرار دیا ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر ۷۰)

آیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ وہ بیہودہ اور باطل چھوڑ دیا گیا ہے؟ (سورہ قیامت آیت نمبر ۳۶)

تم تمام انسان اللہ کی طرف لوٹ آؤگے اس وقت اللہ تعالی تمھیں

۷۷

تمھارے کردار سے مطلع کرے گا کیونکہ اللہ تعالی جو کچھ تمھارے دل میں ہے آگاہ ہے (زمر آیت ۳۹) _

پس آپ کو علم ہوگیا ہوگا کہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور موت اسے نابود اور فنا نہیں کرتی بلکہ انسان مرنے سے ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف منتقل ہوجاتا ہے_ انسان اس عالم مادی میں اپنے جسم اور روح دونوں کو پرورش دیتا ہے تا کہ دوسری دنیا کی طرف منتقل ہوکر اپنے اعمال اور کردار کا ثمرہ اور نتیجہ دیکھ سکے اس دوسری دنیا کو آخرت کہتے ہیں کہ جس میں انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہے گا_

اگر انسان اپنی زندگی کو پیغمبروں کی تعلیم کے مطابق سنوارے، اللہ تعالی اور اس کے اولیاء کی ولایت کو قبول کرے اور نیک و صالح ہوجائے تو پھر آخرت میں خوش و خرم اور آسودگی کی زندگی بسر کرے گا اور پیغمبروں اور اماموں کے ساتھ زندگی بسر کرے گا لیکن اگر دستور الہی اور پیغمبروں اور ائمہ کی ولایت و رہبری سے انحراف کرے اور سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے تو سخت خطرناک وادیوں میں جاگرے گا اور آخرت میں سوائے بدبختی اور عذاب کے کچھ بھی نہ دیکھے گا_

قرآن کی آیت:

( افحسبتم انّما خلقناکم عبثا و انّکم الینا لا ترجعون ) (۱)

کی تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہاری بارگاہ میں لوٹائے نہ جاؤگے؟

___________________

سورہ مومنون آیت نمبر ۱۱۵

۷۸

سوالات

سوالات یہ اس لئے کئے جار ہے ہیں تا کہ غور کرو اور اس پر بحث کرو

۱)___ کیا انسان عبث خلق کیا گیا ہے خداوند عالم نے اس سوال کا کیا جواب دیا ہے؟

۲)___ انسان، حیوانات اور نباتات سے کس طرح بہرہ مند ہوتا ہے؟

۳)___ انسان اپنے کام کا نتیجہ کس دنیا میں دیکھے گا؟

۴)___ انسان کون سے کاموں کے بجالانے سے آخرت میں سعادت مند ہوگا؟

۵)___ جو انسان اللہ تعالی اور اس کے اولیاء اور پیغمبروں کی ولایت کو قبول نہ کرے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟

۷۹

نامہ اعمال

کبھی تم نے اپنے گذرے ہوئے زمانے کے متعلق سوچا ہے اور ان گذرے ہوئے اعمال کو سامنے لائے ہو___؟ نمونے کے طور پر اپنے گذرے ہوئے کاموں میں سے کسی کام کے متعلق سوچ سکتے ہو اور اسے یاد کرسکتے ہو___؟ ممکن ہے تمھیں اپنے بعض کاموں کے یاد کرنے پر خوشی ہو اور ممکن ہے بعض دوسرے کاموں پر پشیمانی ہو_

ہمارے تمام کام اور گذری باتیں اسی طرح روح اور ضمیر کی تختی پر ثبت ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ ہم ان میں سے بعض کاموں کو بظاہر فراموش کرچکے ہوں لیکن اس کے باوجود تمام کے تمام اعمال ہماری روح میں ثبت ہیں_ ہماری روح اور جان ایک دقیق فیلم کے نیگیٹوں کی طرح ہے بلکہ اس بھی دقیق اور حساس ہے جس طرح فیلم کے نیگٹیو موجو ات کی تصویروں کو لے لیتی ہے اور محفوظ رکھتی ہے اسی طرح ہماری جان اور روح ہمارے تمام کاموں اور اخلاق و اعتقادات کو ضبط کر کے اپنے آپ میں محفوظ کرلیتی ہے روح انھیں اعمال کے واسطے سے یا ارتقاء کی طرف بڑھتی ہے یا سقوط اور نزول کا راستہ اختیار کرلیتی ہے_

ہمارے عمدہ اور اچھے اخلاق ہماری روح کو با صفا اور نورانی کردیتے ہیں نیک اعمال اور اچھے اخلاق، عمدہ آثار اور خوشی انسان کی روح میں چھوڑتے ہیں

۸۰

کو جو باقی اور ثابت رہ جاتے ہیں_

اچھا انسان اللہ تعالی کی رضا اور محبت کے حاصل کرنے کے لئے اعمال انجام دیتا اور ہمیشہ اللہ کی یاد اور اس سے انس و محبت رکھتا ہے، اپنے آپ کو اچھے اخلاق اور نیک اعمال سے پرورش کرتا ہے اور خدائے قادر سے تقرب حاصل کرتا ہے اپنے ایمان سے خدا اور اس کی طرف توجہ سے اپنی روح اور جان کو نورانی اور باصفا بناتا ہے اور ہمیشہ ترقی کے لئے قدم اٹھاتا رہتا ہے اور اپنے انسانی کی قیمتی گوہر کی پرورش کرتا ہے_

اس کے برعکس غلط و باطل اور برے اخلاق و کردار انسان کی پاک اور حسّاس روح پر انداز ہوتے ہیں اور انسان کی ذات اور باطن کو سیاہ اور آلودہ کردیتے ہیں اور غمگینی اور افسردگی کا موجب ہوتے ہیں_ بے دین اور بدکردار دنیاوی اور حیوانی لذات میں مست ہوتا ہے اس طرح کا انسان صراط مستقیم اور ارتقاء سے دور رہتا ہے اور پستی کی طرف چلاجاتا ہے_ حیوانی اور وحشت زدہ تاری وادیوں میں گرفتار ہوکر رہ جاتا ہے ایسا انسان اپنے اس طرح کے افکار اور پلید اعمال کی وجہ سے حیوانیت اور درندگی کی عادت کو اپنے آپ میں اپنا لیتا ہے اور انسانیت کے نورانی گوہر کو اپنے آپ میں کمزور اور کم نور کردیتا ہے_

اس حقیقت کی جو ہر آگاہ او رہوشیار انسان کے سامنے واضح او رنظر آرہی ہے بہت سادہ مگر اچھے انداز میںہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے تصویر کشی کی ہے فرماتے ہیں کہ:

'' ہر انسان کی روح ایک صاف اور سفید تختی کی طرح ہے کہ

۸۱

جسے نیک کام اس کو زیادہ صاف و نورانی اور زیبا بلکہ زیباتر کردیتے ہیں اس کے برعکس برے کام اور گناہ اس پر سیاہ داغ ڈال دیتے ہیں کہ جس سے انسان روح کثیف اور پلید ہوجاتی ہے_

اگر کوئی انسان گناہ کرنے پر اصرار کرتا ہے تو یہ سیاہ داغ اس نورانی اور سفید روح کی تختی پر چھا جاتے ہیں اور گناہگار انسان کے تمام وجود کو سیاہ اور کثیف کردیتے ہیں_ ایسا سیاہ دل اور پلید انسان کہ جس نے خود سیاہی اور پلیدی کو اپنے اعمال سے اپنے آپ میں فراہم کیا ہے_ اس دنیا میں غم زدہ اور حسرت میں مبتلا رہتا ہے اور آخرت میں جہنم کی آگ میں کہ جس کو خود اس نے اپنے کاموں سے فراہم کیا ہے جلتا رہے گا''_

الحاصل:

انسان کے تمام اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں انسان کی ذات اور روح اور نامہ اعمال میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس کے علاوہ اللہ تعالی کے فرشتے جو کہ دن رات ہمارے نگراں اور محافظ ہیں اور ان کے اوپر ذات الہی جو کہ ہمارے اعمال کی ناظر اور حاضر ہے ہمارے اعمال کو محفوظ رکھتی ہے ہمارا کوئی بھی کام نابود اور ختم نہیں ہوجاتا بلکہ تمام کے تمام اعمال ہمارے حساب کے لئے باقی ہیں_ خداوند عالم قرآن میں یوں ارشاد فرماتا ہے_

ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں ڈالیں گے تا کہ

۸۲

اسے قیامت کے دن کھول کر دیکھ سکے، آج اپنے نامہ اعمال کو پڑھ اور اپنا حساب خود کر لے کہ تیرا نفس اپنے حساب کرنے کے لئے کافی ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر ۱۳)

۲)___ قیامت کے دن لوگ گروہ گروہ اٹھائے جائیں گے پس جس نے بھی ذرّہ برابر نیک کام انجام دیا ہوگا اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر برا کام انجام دیا ہوگا اس کو دیکھے گا_ (سورہ زلزال آیات ۶، ۸)

ہمارے کام اس دنیا میں فنا نہیں ہوتے بلکہ نامہ اعمال میں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن کبھی ہم ان سے غافل ہوجاتے ہیں_ موت کے بعد اور آخرت میں منتقل ہوجانے کے بعد قیامت کے دن غفلت کے پردے ہٹادیئےائیں گے اور انسان پر اپنا باطن اور اس کی اصلی ذات ظاہر ہوجائے گی اور اس کا حیران کن نامہ عمل اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا اس وقت اپنے تمام اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوگا جیسے اس نے ابھی انجام دیا ہے_

۳)___ قیامت کے دن انسان کا باطن ظاہر ہو کر رہ جائے گا اور انسان کا نامہ عمل ظاہر کر کے کھول دیا جائے گا گناہگاروں کو دیکھے گا کہ وہ اپنے برے نامہ عمل کے دیکھنے کی وجہ سے سخت خوف و ہراس میں غرق ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم پر ویل ہو کہ جس طرح کا حیرت انگیز ہمارا نامہ عمل ہے کسی چھوٹے اور بڑے کاموں کو ضبط و ثبت کرنے سے اس نے صرف نظر نہیں کیا اور تمام کے تمام کو لکھ لیا جائے گا_ اس دن تمام بندے اپنے اعمال کو حاضر دیکھیں گے تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا_ (سورہ طارق آیت نمبر۹)

۸۳

ان آیات کی روسے انسان اس جہاں سے رخصت ہوکر آخرت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے_ قیامت کے دن اپنے نامہ عمل کو دیکھے گا اور تمام کے تمام کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گا اس وقت خداوند عالم کی طرف سے خطاب ہوگا_

۴)___ اے انسان تو اپنے اعمال سے دنیا میں غافل تھا لیکن اب ہم نے تیرے دل سے غفلت کے پردے ہٹا دیئے ہیں اور تیری آنکھوں کو بینا کردیا ہے_ (سورہ ق آیت نمبر ۲۲)

قیامت کے دن جب انسان حساب و کتاب کے لئے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنی حقیقت اور واقعیت سے مطلع ہوجائے گا_ ہر ایک انسان اپنے نامہ عمل کو کھولے گا اور واضح دیکھ لے گا اور اسے دقّت سے نگاہ کرے گا اپنے تام گزرے ہوئے اعمال کو ایک دفعہ اپنے سامنے حاضر پائے گا_ اللہ تعالی نامہ عمل کے دریافت کرنے کے بارے میں یوں فرماتا ہے:

۵)___ '' نیک لوگوں کو ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے (اور اسی لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب یمین'' کہا گیا ہے ایسے لوگ خوش اور شاہدوں گے کیونکہ جان رہے ہیں کہ ن کا حساب و کتاب آسان ہے اور انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی ہے وہ کہیں گے آؤ اور ہمارے نامہ اعمال کو پڑھو_ ہمیں علم تھا کہ ایک دن حساب و کتاب کا آنے والا ہے ایسے لوگ خوشگوار زندگی بہشت میں گذاریں گے_

بے دین اور بدکردار انسانوں کو نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا (اسی لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب شمال'' کہا جاتا

۸۴

ہے) ایسے لوگ غمگین اور ناخوش ہوں گے کیونکہ وہ جان چکے ہونگے کہ ان کا حساب و کتاب بہت سخت اور دشوار ہے_ وہ کہیں گے کہ کاش یہ نامہ عمل ہمارے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور ہم اپنے اعمال و کردار اور حساب سے بے اطلاع اور غافل رہتے، کاش موت آجاتی_

ایسے انسانوں کی زندگی سخت اور غم انگیز ہوگی اور وہ جہنم کے بلند اور جلانے والے شعلوں میں ڈالے جائیں گے ( یہ سب کچھ ان کے برے اعمال کا نتیجہ ہوگا''_

آیت قرآن کریم

( ووضع الکتاب فتری المجرمین منفقین ممّا فیه و یقولوا یا ویلتنا ما لهذا الکتاب لا یغادر صغیرة و لا کبیرة الّا احصیها و وجدوا ما عملوا حاضرا و لا یظلم ربّک احدا ) (۱) _

نامہ عمل رکھا جائے گا پس گناہگار لوگ بسبب اس کے جوان میں پایا جاتا ہے اسے خوف زدہ دیکھے گا اور وہ کہے گا دائے ہو ہم پر یہ کیسا نامہ عمل ہے؟ کہ کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ہماری نہیں چھوڑتا جو کچھ ہم نے انجام دیا ہے وہ اس میں موجود ہے_ تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا_

____________________

۱) سورہ کہف آیت نمبر ۴۰

۸۵

سوالات

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے اور پسندیدہ اخلاق اور اعمال انسان کی ذات پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ نیک انسان کس طرح اپنی روح اور جان کو نورانی اور باصفا قرار دیتا ہے؟

۳)___ کن اعمال اور عقائد سے انسانی روح کثیف و پلید اور سیاہ ہوتی ہے؟ انسان کس طرح مستقیم اور نورانی راستے اور تقرب الہی سے دور ہوجاتا ہے؟

۴)____ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانی نفس اور روح پر اعمال کے اثرانداز ہونے کی کس طرح تصویر کشی کی ہے؟

۵)___ انسانی اعمال جو انسانی روح اور نفس میں ثبت ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ کون سی ذوات ہمارے اعمال کے مراتب اور محافظ ہیں؟

۶)___ قیامت کے دن جب گناہگار اپنے نامہ اعمال دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟

۷)___جب انسان قیامت کے دن اپنے نامہ عمل دیکھے گا اور اپنے تمام اعمال کا مشاہدہ کر رہا ہوگا تو اس وقت اللہ تعالی اس سے کیا خطاب کرے گا؟

۸)___ انسان کو اپنی ذات اور واقعیت کس دنیا میں پوری طرح ظاہر ہوگی؟

۹)___ قرآنی اصطلاح میں ''اصحاب یمین'' کسے کہا جاتا ہے اور جب انھیں نامہ عمل

۸۶

دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟

۱۰)___ قرآنی اصطلاح میں ''اصحاب شمال'' کسے کہا جاتا ہے جب انھیں اپنا نامہ عمل دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟ اور آخرت میں کس طرح زندگی بسر کریں گے؟

۸۷

قیامت کا منظر

لوگوں کو بتایا گیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک صحابی فوت ہوگئے ہیں ان کے دوست اور احباب اس خبر سے بہت رنجیدہ ہوئے اور ان کے لئے طلب مغفرت کی ایک مدت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی اور وہ آدمی نہیں مرا تھا اس کی اولاد رشتہ دار اور دوست و احباب بہت خوش ہوئے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے ان دو خبروں کے معلوم کرنے پر اس شخص کو یہ خط تحریر فرمایا:

'' بسم اللہ الرّحمن الرحیم

ایک اطلاع ہمیں تمھارے بارے میں ملی کو جو دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے افسوس کا باعث تھی جس نے ان کو عمزدہ کردیا_ ایک مدت کے بعد دوسری اطلاع ملی کہ پہلی خبر جھوٹی تھی اور اس نے دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کو خوش کردیا_

ان دو خبروں کے متعلق تم کیا سوچتے ہو؟ کیا تم سوچتے ہو کہ یہ خوشحالی اور خوشی پائیدار و دائمی ہے یا یہ خوشی ایک دفعہ پھر حزن و ملال میں تبدیل ہوجائے گی؟ واقعاً اگر پہلی خبر درست ہوتی تو اب تک تم آخرت کی طرف منتقل ہوگئے ہوتے، کیا تم پسند کرتے ہو کہ خداوند عالم تمھیں دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا دیتا اور نیک کاموں کے بجالانے

۸۸

کی فرصت عنایت فرماتا؟ تم یوں فکر کرو کہ پہلی خبر درست تھی اور تم آخرت کی طرف چلے گئے ہو اور موت کے مزہ کو چکھ چکے ہو اور پھر دوبارہ اس دنیا کی طرف لوٹائے گئے ہو تا کہ اعمال صالحہ بجالاؤ_

اس طرح گمان کرو کہ اللہ تعالی نے تمھیں اس دنیا میں واپس تمھاری خواہش کو قبول کرتے ہوئے لوٹا دیا ہے، اب کیا کروگے؟ آیا جلدی میں حقیقی زندگی کے لئے زاد و توشہ جمع کروگے؟ آیا ہمیشہ رہنے والی جگہ کے لئے کوئی پیشگی بھیجوگے؟

نیک کام، عمل صالح، لوگوں کی دستگیری، دعا اور عبادت ان میں سے کیا روانہ کروگے؟ جان لو کہ اگر اس سے آخرت کی طرف خالی ہاتھ کوچ کر گئے تو پھر دوبارہ واپس لوٹ کر نہیں آؤگے؟ اور سوائے افسوس و حسرت اور رنج و غم کے اور کوئی چیز نہ پاؤگے_

یہ جان لو کہ دن، رات ایک دوسرے کے پیچھے آجا رہے ہیں اور وہ تمھاری عمر کو کوتا ہ کر رہے ہیں اور موت کو تم سے قریب کر رہے ہیں اور انسان کو زندگی کے آخری نقطہ تک پہنچا رہے ہیں_ یقینا یہ آخری لحظہ بھی انسان کو آپہنچے گا اور حق کی طرف بلانے والا آخرت کی طرف لے جاکر رہے گا_ پست اور کمتر اور ہوی و ہوس اور لذائذ مادی کو کم کرو، اللہ کی طرف اور حقائق الہی کی طرف لوٹو اور آخرت کے سفر کا بار تقوی اور اعمال صالح کے ساتھ باندھو

۸۹

آئیں گے کہ جن سے گذرنا ضروری ہے_ جان لو کہ آخرت کے راستے کا توشہ، تقوی ہے ورنہ تم لڑکھڑاؤگے اور جہنم کے گہرے گڑہے ہیں جاگرو گے_ گناہوں اور اللہ کی معصیت سے بچو تا کہ بہشت میں نیک لوگوں کے ساتھ جاملو''

امیرالمومنین علیہ السلام نے اس گفتگو میںسخت موڑوں ، گزرگاہوں اور خوفناک منازل کا ارشادتا ذکر فرمایا ہے، آپ کی گفتگو میں صرف ایک اشارہ ہی کیا گیا ہے کیونکہ آخرت کی عظیم حقیقت اور قیامت کے حوادث کو سوائے اشارے کے بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی سنا جا سکتا ہے_

آخرت کے واقعات اور حوادث کو ذرا زیادہ عظمت کے ساتھ معلوم کرنے کے لئے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں، قیات ک شگفت آور مناظر کو قرآن کریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی اس عظیم واقعہ کی حقیقت کو اس طرح کہ جس طرح وہ ہے معلوم نہیں کرسکتے صرف مختصر اشارے سنے ہیں تا کہ جان لیں کہ ایک بہت سخت اور غیر قابل توصیف دن آگے آنے والا ہے اور ہمیں اپنے آپ کو تقوی اور عمل صالح سے متصف کرنا چاہیئے تا کہ ان سخت خطرناک موڑوں اور نشیب و فراز سے ہمارے لئے گذرنا آسان ہوجائے اور پروردگار کی بہشت اور رضوان پہنچتا میسّر ہوجائے_

۹۰

برزخ اور قیامت

جب کوئی گناہگار اس دنیا سے کوچ کرتا ہے تو عذاب اور رنج کا عالم برزخ میں مشاہدہ کرتا ہے اور کہتا ہے:

۱)___ ''خدایا مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹا دے تا کہ اعمال صالحہ بجالا سکوں اور اپنے گذشتہ گناہوں کا جبران کرسکوں، لوٹنے کی خواہش کرے گا لیکن ہرگز دنیا کی طرف لوٹایا نہیں جائے گا اور قیامت و روز بعث تک عذاب میں مبتلا رہے گا''(۱)

۲)___ ''قیامت کے دن سورج تاریک اور لپیٹ لیا جائے گا، ستارے بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ حرکت کریں گے اور لرزنے لگیں گے حاملہ اونٹنیاں بغیر ساربان کے رہ جائیں گی، وحوش محشور ہوں گے اور دریا جلانے والے اور شعلہ خیز ہوجائیں گے''(۲)

۳)___ ''جب آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے منتشر ہوجائیں گے اور دریا چیر دیئے جائیں گے اور دریاؤں کے پانی پراگندہ ہوجائیں گے جب کہ قبریں اوپر نیچے، ہوجائیں گی یعنی دہنس جائیں گی، اس وقت زمین لزرے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہوگا اسے باہر پھینک دے گی''(۳)

____________________

۱)___ سورہ مومنون آیات ۹۹_ ۱۰۰

۲)___ سورہ تکویر آیات ۱_ ۶

۳)___ سورہ زلزال آیات ۱_۹

۹۱

۴)___ ''جب پہاڑوئی کی طرح دھنے جائیں گے اور پاش پاش ہوجائیں گے''(۱)

۵)___ ''جب چاند کو گرہن لگے گا اور تاریک ہوجائے گا اور سورج و چاند اکٹھے ہوں گے''(۲)

۶)___ ''جب زمین بہت سخت لرزے گی اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں گے اور غبار بن کر چھاجائیں گے''(۳)

۷)___ ''جب زمین اور پہاڑ سخت لزریں گے اور پہاڑ خوفناک ٹیلے کی صورت میں بدل جائے گا''(۴)

۸)___ ''جب آسمان سخت حرکت کرے گا اور پہاڑ چلنے لگے گا''(۵)

۹)___ '' جب آسمان کے دروازے کھول دیئےائیں گے اور پہاڑ سخت حرکت کریں گے اور سراب کی طرح بے فائدہ ہوں گے'' (۶)

۱۰)___ ''جب زمین غیر زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور آسمان متغیر ہوجائے گا اور لوگ خدائے قادر کے سامنے حاضر ہوں گے ''_ (۷)

۱۱) ___ ''جب دن تیرے پروردگار کے نور س روشن اور منور ہوجائے گا''(۸)

____________________

۱) سورہ قاعد آیت۳

۲) سورہ قیامت آیات ۸_۹

۳) سورہ واقعہ آیات ۴_۶

۴)سورہ مزمل آیت ۱۴

۵)سورہ طور آیات ۹-۱۰

۶) سورہ نبا آیات ۱۹، ۲۰

۷)سورہ ابراہیم آیت ۴۸

۸) سورہ زمر آیت ۶۹

۹۲

ان آیتوں سے اجمالی طور سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اس دنیا کا موجودہ نظام خلقت تبدیل ہوجائے گا، سورج تاریک اور بے نور ہوجائے گا، چاند خاموش اور بے رونق ہوگا، ستارے پراگندہ اور پہاڑ اس عظمت کے باوجود لرزاں ہوں گے، چلنے لگیں گے اور خوفناک ٹیلوں میں تبدیل ہوجائیں گے، گرد و غبار کی صورت میں پراگندہ اور بے فائدہ ہوجائیں گے، زمین کسی اور زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور ایک وسیع میدان وجود میں آجائے گا کہ جہاں تمام لوگ حساب و کتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے_

یہ تمام قیامت کے عظیم مناظر کے مختصر اشارے تھے اس کے باوجود اس عظیم واقعیت کا ہم تصور نہیں کرسکتے صرف قرآن مجید کے ان اشارات سے اتنا سمجھتے ہیں کہ ایک بہت سخت دن آنے والا ہے ہم ایمان و عمل صالح سے اپنے آپ کو لطف الہی اور اس کے خوف سے محفوظ رکھ سکتے ہیں_

آیت:

( یوم تبدّل الارض غیر الارض و السّموات و برزوا لله الواحد القهار ) (۱)

''جس دن زمین غیر زمین میں تبدیل کی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہّار کے سامنے حاضر ہوں گے''

____________________

۱) سورہ ابراہیم آیت نمبر ۴۸

۹۳

سوالات

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ جب گناہگار انسان، عالم برزخ میں جاتا ہے اور عذاب و رنج کو دیکھتا ہے تو کون سی آرزو کرتا ہے، کیا کہتا ہے، اس کی یہ آرزو پوری کی جائے گی ؟

۲)___ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس صحابی کو اس جہاں میں دوبارہ آجانے کے بعد کیا لکھا تھا اور اسے کس بیان سے نصیحت کی تھی؟

۳)___ قرآن مجید میں قیامت کو کن خصوصیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؟

۴)___ قیامت کے سخت ہنگامے اور خوف و ہراس سے کس طرح امان میں رہ سکتے ہیں؟

۵)___ امیرالمومنین علیہ السلام کے خط میں نصرت کے لئے کس زاد اور توشے کو بیان کیا گیا ہے؟

۶)___ کون سی چیزیں انسان کو بہشت میں جانے سے روک لیتی ہیں اور کس طرح قیامت کے خطرناک اور پر پیچ راستے کو طے کرسکتے ہیں؟

۹۴

تیسرا حصّہ

پیغمبری اور پیغمبروں کے مسائل کے بارے میں

۹۵

پہاڑ کی چوٹی پر درس

ہم پہاڑ پر جانا چاہتے تھے چند ایک دوستوں سے کل پہاڑ پر جانے کے پروگرام کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ کون سے وقت جائیں؟ کون سی چیزیں اپنے ساتھ لے جائیں، کہاں سے جائیں؟

ان سوالات کے بارے میں بحث کر رہے تھے لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے تھے دوستوں میں سے ہر ایک کوئی نہ کوئی مشورہ دے رہا تھا_

آخر میں باقر نے کہا:

'' دوستو میری نگاہ میں ایک راہنما کی ضرورت ہے جو پہاڑ کے سر کرنے کا ماہر ہو وہ ہم کو بتلائے کہ کون سی چیزیں اس کے لئے ضروری ہیں اور کون سے راستے سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر جائیں اور اسے سر کریں؟

میں نے باقر سے کہا کہ راہنما کی کیا ضرورت ہے؟ ہمیں کسی راہنما کی ضرورت نہیں ہے ہم میں فکر کرنے کی قوت موجود ہے، ہم آنکھیں رکھتے ہیں سوچیں گے اور راستہ طے کرتے جائیں گے یہاں تک کہ اوپر پہنچ جائیں گے_

باقر نے جواب دیا:

''غلطی کر رہے ہو پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ہمیں پہاڑ کے حدود سے واقفیت نہیں ہے اور ہم کو جن چیزوں

۹۶

کی ضرورت ہوگی ان کی کوئی اطلاع نہیں رکھتے، ہمیں علم نہیں ہے کہ کہاں سے اوپر چڑھیں اور کون سی چیزیں اپنے ہمراہ لے جائیں مثلاً بتاؤ کہ اگر طوفان آگیا اور سخت اندھیرا چھاگیا تو کیا کریںگے، اور گر راستہ بھول گئے تو کی کریں گے؟ ''

میں جب باقر کے ان سوالات کا جواب نہ دے سکا تو مجبوراً ان کی رائے سے موافقت کرلی کہ ایک راہنما کی ضرورت ہے جو مورد اعتماد ہو اور راستوں سے واقف بھی ہوا اور اسے راہنمائی کے لئے لے جانا چاہیئے_

اس کے ایک دن ایک دوست نے بتلایا کہ دوستو میرے باپ کے دوستوں میں سے ایک ماہر کوہ نورد ہے میرے باپ نے اس سے خواہش کی ہے کہ وہ ہماری راہنمئی کا کام انجام دے وہ آج رات ہمارے گھر آئے گا تم بھی وہاں آجانا تا کہ کل چلنے کے متعلق اس سے گفتگو کریں_

ہم اس رات سعید کے گھر گئے سعید کے باپ اور اس کے دوست وہاں موجود تھے جب تمام احباب اکٹھے تو داؤدی صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ:

''دوستو میں نے سنا ہے کہ کل تم پہاڑ کے اوپر جانا چاہتے ہو کتنا عمدہ پروگرام تم نے بنایا ہے لیکن جانتے ہو کہ شاید یہ سفر خطرے اور دشواریوں سے خالی نہ ہو، خطروں سے بچنے کے لئے کی کروگے؟''

لڑکوں نے جواب دیا آپ سے مدد اور راہنمائی حاصل کریں گے_

داؤدی صاحب نے کہا:

''بہت اچھا کل چار بجے صبح چلنے کے لئے تیار ہوجانا، گرم لباس پیٹھ پر ڈالنے والا تھیلا، معمولی غذا اور اگر ہوسکے تو تھوڑی کھجور اور

۹۷

کشمکش کبھی ساتھ لے لینا میں ابتدائی مرحلے کی چیزیں ساتھ لے آؤں گا''

ہم نے راہنما کے دستور کے مطابق تمام وسائل فراہم کرلئے اور دوسرے دن صبح کے وقت خوشی سعید کے گھر پہنچ گئے تمام لڑکے وقت پر وہاں آگئے اور چلنے کے لئے تیار ہوگئے_ ایک دو لڑکے باپ کے ہمراہ آئے تھے_ تھوڑاسا راستہ بس پر طے کیا اور پہاڑ کے دامن میں پہونچ گئے_ بس سے اترے اور پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی مسجد میں صبح کی نماز ادا کی _ نماز کے بعد راہنما نے ضروری ہدایات جاری کیں اور بالخصوص یہ یاد دلایا کہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں آگے جلدی میں نہ جانا اور پیچھے بھی نہ رہ جانا_ ہم نے چلنا شروع کیا پہاڑ بہت اونچا تھا، بہت خوشنما اور زیبا تھا، چپ چاپ، سیدھا، مستحکم و متین اور باوقار اللہ تعالی کی عظمت اور قدرت کو یاد دلا رہا تھا_

راہنما آگے جارہا تھا ہم اس کے پیچھے باتیں کرتے جار ہے تھے، ہنس رہے تھے اور آگے بڑھ رہے تھے وہ ہر جگہ ہماری نگرانی کرتا تھا اور سخت مقام میں ہماری مدد و راہنمائی کرتا تھا_ کبھی خود بڑے پتھر سے اوپر جاتا اور ہم سب کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کھینچ لیتا کبھی راستہ کھلا آجاتا اور تمام لڑکے اس کی اجازت سے دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے تھے اور جب راستہ تنگ ہوجاتا تو ہم مجبور ہوجاتے تھے کہ ایک دوسرے کے پیچھے چلیں اور بہت احتیاط سے راستہ طے کریں، اس حالت میں راہنما ہمیں خبردار کرتا اور خود اس پھلنے والی جگہ کے کنارے کھڑا ہوجاتا اور ہر ایک کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے گذارتا بہت سخت پھلنے والی جگہیں راستے میں موجود تھیں ان میں سے ایک جگہ میرا پاؤں کہ اگر راہنما میرا ہاتھ نہ پکڑتا تو میں کئی سوفٹ نیچے جاگرتا_

اب میں سمجھا کہ راہنما اور رہبر کا ہونا بہت ضروری ہے راستے میں کبھی ہم ایسے راستوں پر پہونچے جہاں پتہ نہ چلتا کہ کہاں سے جائیں راہنما تھا جو ہمیں راستہ بتلاتا اور اس کی راہنمائی

۹۸

کرتا، راستے میں ہم کئی جگہوں پر بیٹھے، آرام کیا اور کچھ کھایا پیا_ یہ سفر سخت دشوار لیکن زیبا اور سبق آموز تھا بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے کے بعد غروب کے نزدیک پہاڑ کی چوٹی کے قریب پہنچ گئے، سبحا ن اللہ کتنی زیبا اور خوبصورت تھی وہ چوٹی کتنی عمدہ اور لطیف تھی آب و ہوا، تمام جگہیں وہاں سے نظر آرہی تھیں گویا ہم کسی دوسرے عالم میں آگئے تھے، خوش و خرم ہم نے پیٹھ والے تھیلے اتارے اور تھوڑی سی سادہ غذا جسے ہم اپنے ساتھ لے آئے تھے نکال کر کھائی کاش تم بھی ہوتے، واقعی اس وقت تک ہم نے اتنی مزے دار غذا نہیں کھائی تھی_ رات کو وہاں ٹھہرجانے پر اتفاق ہوگیا اور چونکہ ہم نے اپنے راہنما کے دستورات کے مطابق عمل کیا تھا لہذا تمام چیزیں ہمارے پاس موجود تھی رات ہوگئی مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ہم گفتگو میں مشغول ہوگئے_

راہنما نے کہا: پیارے بچو

'' خدا کا شکر ہے کہ ہم سلامتی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں اب تم نے مان لیا ہوگا کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنا اور کوہ نوردی کوئی معمولی کام نہیں ہوا کرتا کیا تم تنہا پہاڑ کی چوٹی سر کر سکتے تھے ؟ ''

میں نے کہا کہ آپ نے میرا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا تو میں پہاڑ کے درے میں گرگیا ہوتا_ میں اس وقت متوجہ ہوگیا تھا ک ایک صحیح راہنما اور راہبر کے ہم محتاج ہیں_

جناب داؤدی نے کہا:

''صرف کوہ پیمائی ہی راہنمائی کی محتاج نہیں ہوا کرتی بلکہ ہر سخت اور دشوار سفر راہنما اور راہبر کا محتاج ہوتا ہے مثلاً فضا میں سفر تو بہت سخت دشوار ہے جس میں بہت زیادہ راہنما کی ضرورت ہوا کرتی ہے_ لڑکوجانتے ہو کہ سب سے اہم اور پر اسرار سفر جو

۹۹

ہم کو در پیش ہے وہ کون سا سفر ہے،

لڑکوں میں سے ہر ایک نے کوئی نہ کوئی جواب دیا_ آخر میں باقر کے باپ نے کہا کہ

''میری نگاہ میں وہ سفر جو سب ہے اہم ہے وہ آخرت کا سفر ہے یہ اس جہاں سے منتقل ہوکر دوسرے جہاں میں جانے والا سفر ہے، واقعاً یہ سفر بہت پیچیدہ اور دشوار سفروں میں سے ایک ہے''_

راہنما نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم نے درست کہا ہے میرا مقصد بھی یہی سفر تھا لڑکو اس سفر کے متعلق کیا فکر کرتے ہو؟ ہم اس سفر کا راستہ کس طرح طے کریں گے اور کون سا زاد راہ اور توشہ ساتھ لے جائیں گے، اس جہاں میں راحت و آرام کے لئے کیا کریں گے؟ کون سے افراد ہمارے اس سفر میں راہنمائی کریں گے، کون ہمیں بتلائے گا کہ اس سفر کے لئے کون سا زاد راہ ساتھ لے جائیں؟ باقر کے باپ نے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکو تم موافقت کرو تو میں اس سفر کی مزید وضاحت کروں:

''آخرت کے سفر کے راہنما پیغمبر ہوا کرتے ہیں جو مخلوق اور خالق کے درمیان واسطہ اور پیغام لانے والے ہوتے ہیں، اللہ تعالی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں، زندگی کی عمدہ اور بہترین راہ و رسم کی لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں او رسعادت کی چوٹی پر چڑھنے کے لئے انسان کو راستہ بتلاتے ہیں، برے اخلاق اور اخلاقی پستیوں میں گرجانے والی وادیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، خداپرستی اور عمدہ اخلاق کے راستے بیان کرتے ہیں_

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302