‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 18%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111835 / ڈاؤنلوڈ: 3874
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۶ ۔مردوں کے لئے خالص ریشم کے کپڑے کا استعمال حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ ہاں اگر اس میں اتنا سوت وغیرہ ملا دیا جائے کہ وہ ریشمی نہ کہلائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۷ ۔ سونے کے توروں سے بنے ہوئے کپڑوں کا ستعمال مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح مردوں کے لئے سونے سے زینت اور آرائش بھی ناجائز ہے۔ جیسے سونے کی انگوٹھی ، چین ، چشمہ کا فریم ، گھڑی ، بٹن وغیرہ ۔ عورتوں کے لئے یہ تمام باتیں جائز ہیں۔

مردوں کے لئے سونے کا استعمال نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں حرام ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سونے میں خالص کی قید نہیں بلکہ اگر مخلوط بھی ہے تو بھی ناجائز ہے۔ جب تک کہ اس میں تانبا یا کوئی دوسری دھات اتنی نہ ملا دی جائے کہ اسے سونا نہ کہہ سکیں۔

سوالات :

۱ ۔ نماز میں مرد اور عورت کو کتنا جسم چھپانا واجب ہے ؟

۲ ۔ نماز کے لباس کی تین شرطیں بیان کرو ؟

۳ ۔ نائلون کے کپڑے میں نماز کب ناجائز ہے ؟

۴۱

اکیسواں سبق

مکان

مکان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان نماز ادا کرتا ہے اس جگہ کے لئے پاک ہونے کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ نجس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جگہ کی تری بدن اور کپڑے تک نہ پہونچ جائے مگر سجدہ کی جگہ کا پاک ہونا بہرحال ضروری ہے۔

مکان نماز میں حسب ذیل شرائط ضروری ہیں :

۱ ۔ مباح و جائز ہو ۔ دوسرے کی زمین پر یا مشتر کہ اراض میں بغیر مالک و شریک کی اجازت کے نماز باطل ہے۔ عام موقوفات یعنی مسجد وغیرہ میں جو پہلے جگہ لے لے اُسے اُس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جائےگی۔ اجازت کے صریح بیان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مالک کے راضی رہنے کا یقین ہونا کافی ہے۔

۲ ۔ نماز میں معصوم کی قبر کے آگے نہ ہونا چاہئے بلکہ پیچھے پڑھے یا زیادہ سے زیادہ برابر کھڑا ہو آگے ہونا خلاف ادب ہے ہاں اگر کافی ٖاصلہ ہو جائے یا درمیان میں کوئی چیز جائل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۳ ۔ نماز کی جگہ کو ساکن اور ٹھرا ہوا ہونا چاہئے۔ چلتی ہوئی گاڑی پر اس وقت تک نماز جائز ہے جبکہ آخر وقت تک اُتر کر یا رُکی ہوئی گاڑی میں نماز پڑھنا ممکن رہے۔

۴۲

یوں تو نماز کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہے لیکن مسجد کو دیگر مقامات پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے چاہے وہاں نماز جماعت ہو یا نہ ہو۔ جماعت کا ہونا مزید ثواب و برکت کا باعث ہے۔

مسجد کی عظمت یہ ہے کہ عام مسجدوں میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جامع مسجد میں سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز بغیر مسجد میں پڑھے مقبول نہیں ہو سکتی سوا اس کے کہ کوئی مجبوری ہو اور دوسری روایت یہ ہے کہ مسجد روز قیامت ان نمازوں سے فریاد کرےگی جو نماز پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں آتے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا نجس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

۲ ۔ ریل پر نماز کیونکر پڑھی جائےگی ؟

۳ ۔ معصوم کی قبر کے آگے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

۴ ۔ گھر کی نماز اور عام مسجد کی نما میں کیا فرق ہے ؟ عام مسجد اور جامع مسجد کی نماز میں کیا فرق ہے ؟

۵ ۔ جامع مسجد مین ایک نماز کا ثواب کیا ہے ؟

۶ ۔ چلتی ہوئی گاڑی میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟

۴۳

بائیسواں سبق

اذان و اقامت

اذان و اقامت صرف پنچگانہ نمازوں کے لئے مستحب ہے اور انتہائی تاکید کے ساتھ مستحب ہے۔ باقی نمازوں میں اذان و اقامت ناجائز ہے چاہے وہ واجب ہوں یا غیر واجب۔ اذان اور اقامت میں حسب ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے :

۱ ۔ نیت ۔ یعنی دونوں کو قربت کی نیت سے انجام سے اس لئے کہ کسی عبادت میں بغیر قصد قربت کے ثواب نہیں مل سکتا۔

۲ ۔ عقل ۔ دیوانے کی اذان و اقامت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

۳ ۔ بلوغ ، نابالغ کی اذان و اقامت ناکافی ہے۔

۴ ۔ ذکوریت ، عورت کی اذان و اقامت مرد کے لئے نا کافی ہے البتہ عورت کا اذان و اقامت کہنا عورتوں کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ ترتیب ۔ پہلے اذان اس کے بعد اقامت کہنا چاہئے۔

۶ ۔ موالات ۔ اذان کے بعد جلد ہی اقامت اور اقامت کے بعد فوراً نماز پڑھے۔ سلسلہ کے ٹوٹ جانے سے اذان و اقامت بیکار ہو جاتی ہے۔

۷ ۔ عربی ۔ اُردو میں یا غلط عربی میں اذان و اقامت درست نہیں ہے۔

۴۴

۸ ۔ وقت ۔

نماز کے وقت سے پہلے اس کا ادا کرنا غلط ہے البتہ قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے اس لئے اس کا وقت ہر وقت رہتا ہے۔ اذان کے لئے طہارت ۔ قیام ۔ استقبال قبلہ مسجد ہے لیکن اقامت میں طہارت و قیام ضروری ہے۔ یہ رسم کہ اقامت کہتے کہتے قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہو گئے فرادی نماز میں بالکل نامناسب ہے اس طرح اقامت کا ثواب نہیں مل سکتا۔ اذان و اقامت دونوں میں ذکر رسولؐ اکرم کے بعد ذکر امیرالمومنین علیؐ ابن ابی طالبؐ ہونا چاہئے جو اذان کا جز نہیں ہے۔ لیکن حکم پیغمرؐ کی بنا پر مسحب ہے۔

اگر کوئی شخص اذان و اقامت دونوں بھول جائے اور نماز شروع کر دے تو اس کے لئے جائز ہے کہ رکوع میں پہونچنے سے پہلے نماز کو توڑ دے اور اذان و اقامت کہہ کر پھر نماز شروع کرے لیکن اگر صورف اقامت بھول گیا ہے تو الحمد شروع کرنے کے بعد نماز نہیں توڑ سکتا البتہ اس سے پہلے توڑ سکتا ہے۔ تنہا اذان کے بھول جانے سے نماز نہیں توڑی جا سکتی۔ اسی طرح کسی ایک کے بھی قصداً چھوڑ دینے پر نماز کا قطع کرنا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نابالغ کی اذان و اقامت کیا کافی ہے ؟

۲ ۔ اقامت و نماز کے درمیان وقت کا فاصلہ کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر نمازی اذان و اقامت بھول کر نماز شروع کر دے تو کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ اقامت کی کوئی تین شرطیں بتاؤ ؟

۵ ۔ اذان اور اقامت میں جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے وہ کتنی ہیں ؟

۴۵

تئیسواں سبق

واجبات نماز

نماز میں گیارہ چیزیں واجب ہیں اور انھیں کے مجموعہ کا نام نماز ہے۔

نیت : تکبیرۃ الاحرام ۔ قیام ۔ قرائت ۔ ذکر ۔ رکوع ۔ سجود ۔ تشہد ۔ سلام ۔ ترتیب ۔ موالات ۔ ان میں سے پانچ واجب کن ہیں یعنی ان کی کمی زیادتی بھولے سے بھی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ نیت تکبیرۃ الاحرام۔ قیام ۔ رکوع ۔ دونوں سجدے باقی سب غیر رکن ہیں یعنی ان کو قصداً چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن بھولے سے باطل نہیں ہوتی بلکہ ان کی قضا کرنا پڑتی ہے۔

نیت :

نیت رکن ہے اس کو ہمیشہ دل میں ہونا چاہئے زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز احتیاط میں تو زبان سے ادا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔

تکبیرۃ الاحرام ۔

نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا رکن نماز ہے اور پوری نماز میں یہی ایک تکبیر واجب ہے اس کے علاوہ تمام تکبیریں سنت ہیں۔

قیام۔

انسان اپنے مکان بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے رونہ بیٹھ کر پڑھے اور اگ بیمار یا کمزور ہے تو جتنی دیر کھڑا رہ سکے ٹھرا رہے پھر اگر طاقت آ جائے تو پھر کھڑا ہو جائے اور جو بیٹھ بھی نہ سکے وہ لیٹ جائے داہنے یا بائیں کروٹ یا چت۔ بشرطیکہ قبلہ کی طرف اس کا چہرہ رہے۔ قیام ۔ الحمد اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور اسی طرح رکوع سے پہلے بھی رکن ہے یعنی رکوع میں قیام سے جانا چاہئے یہی قیام متصل برکوع ہے۔ اس قیام کے رکن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر انسان حمد و سورہ کے بعد بھولے سے سجدہ کے لئے جھک گیا اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اب وہیں سے رکوع میں نہیں جا سکتا ورنہ نماز باطل ہو جائےگی بلکہ اسے چاہئے کہ سیدھے کھڑا ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے۔

۴۶

قرات ۔ تکبیر کے بعد پہلی دو رکعت میں الحمد اور اس کے بعد کوئی ایک سورہ پڑھنا واجب ہے۔ البتہ واجب سجدہوں والے سورے نہ پڑھے اور اتنے لمبے سورے نہ پڑھے کہ نماز کا وقت نکل جائے۔ جماعت کی حالت میں یہی دو سورے ماموم نہیں پڑھتا ہے ورنہ باقی نماز ماموم خود ادا کرےگا۔ آخری دو رکعتوں میں انسان کو اختیار ہے چاہے سورہ حمد پڑھے یا ایک مرتبہسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ لِلهِ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ للهُ وَ اللهُ اَکبَر پڑھے۔ تین مرتبہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

رکوع ۔ نماز کا ایک اہم رکن ہے اگر اتفاقاً کبھی رہ جائے یا ایک سے دو ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ رکوع میں اتنا جھکنا چاہئے کہ ہتھیلی گٹھنے تک پہونچ سکے۔ گٹھنے پر ہتھیلی کا رکھنا واجب نہیں ہے۔ رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ یا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کلمات کو بار بار دھرانا افضل و مستحب ہے۔ رکوع ختم کرنے کے بعد سیدھے کھڑا ہو کر سجدہ میں جائے اس لئے کہ یہ قیام بھی واجب ہے۔ کھڑے ہونے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ۔ اللہ اکبر کہنا مستحب ہے۔

سجدہ ۔

یہ بھی نماز کا ایک رکن ہے لیکن دونوں ملاکر جس کا مطلب یہ ہے کہ دو کے چار ہو جائیں یا اتفاق سے کسی رکعت میں ایک بھی نہ ہو سکے تو نماز باطل ہو جائےگی۔ سجدہ میں سات اعضا ، کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے۔ پیشانی ۔ دونوں ہتھیلیاں ۔ دونوں گٹھنے ۔ دونوں پیر کے انگوٹھے سجدہ کا ذکرسبحان ربی الا علیٰ و بحمده یا تین مرتبہسبحان الله ہے۔ سجدہ مٹی پر ہوگا یا جو چیزیں زمین سے اُگی ہوں ان پر ہوگا بشرطیکہ وہ کھانے اور پہننے میں کام نہ آتی ہوں۔ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے کہ یہ خاک اسلامی قربانیوں کو یاد دلانے والی اور مسلمانوں میں جوش عقیدت کو ابھارنے والی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سجدہ کا جو ازارسی خاک پاک میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر پاک مٹی ، لکڑی ، پتے پر اپنے شرائط کے ساتھ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۷

تشہد ۔

دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دونوں سجدوں کے نعد تشہد واجب ہے جس کی صورت یہ ہےاَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّد ! اگر کوئی شخص تشہد بھول جائے اور بھول کر کھڑا ہو جائے تو فوراً بیٹھ کر تشہد پڑھے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو کرے۔

سلام ۔

نماز کے خاتمہ پر ایک سلام واجب ہے چاہےاِلسِّلاِمُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینُ "یا "اَلسَّلاَم عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ بہر حال مستحب ہے۔ سلام نماز کا جز ہے۔

ترتیب ۔

نماز کو اپنی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے مثلا نیت کر کے تکبیر کہے پھر سورہ حمد پڑھے دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے۔ رکوع سے اُٹھ کر سجدہ میں جائے۔ ایک سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرا سجدہ کریں پھر اسی طرح دوسری رکعت پڑھے۔ اگر دو ہی رکعت پڑھنا ہے تو سجدہ کے بعد تشہد و سلام پڑھ کر ختم کر دے ورنہ باقہ نماز اسی ترتیب سے ادا کرے۔

موالات ۔

نماز کے تمام اگعال کو پے در پے ہونا چاہئے۔ درمیان میں اتنا فاصلہ یا ایسی خاموشی نہ ہو جائے کہ صورت نماز ہی ختم ہو جائے۔

قنوت ۔

یہ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے مستحب ہے اس میں ایک صلوات کا پڑھنا بھی کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ارکان نماز کتنے ہیں اور ان کا کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ کون سا قیام رکن ہے اور قیام متصل برکوع کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ واجب نماز کتنے ہیں ؟

۴ ۔موالات کسے کہتے ہیں ؟

۴۸

چوبیسواں سبق

مبطلات نماز

نو چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱ ۔ کسی ایسے حدث کا صادر ہو جانا جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے اسلئے کہ ان چیزوں سے طہارت ختم ہو جاتی ہے اور طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔

۲ ۔ پورے بدن کا قبلہ سے منحرف ہو جانا یا تنہا چہرا کا اس قدر مڑ جانا جس سے پس پشت تک کی چیزیں دیکھ سکے، رہ گیا داہنے بائیں تھوڑا سا انحراف و التفات ہوتو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

۳ ۔ حالت نماز میں ایسے کام انجام دینا جو جائز ہیں یا جن کے کرنے سے نماز کی صورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے ناچنا ۔ گانا ۔ سینا پرونا وغیرہ

اسکے علاوہ ہاتھوں کو حرکت دینا کسی ضرورت سے جھکنا ۔ دو ایک قدم آگے پیچھے ۔ داہنے بائیں ہٹ جانا ۔ خطرہ میں سانپ بیچھو کا قتل کر دینا ۔ بچہ کو گود میں اٹھا لینا یا اس قسم کے دوسرے معمولی افعال سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیہ حرکت کی حالت میں خاموش رہے کوئی ذکر وغیرہ کا خاص خیال رکھے۔بلا ضرورت یہ باتیں کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔

۴۹

۴ ۔ کلام نماز کی حالت میں علاوہ ذکر و دعا کے کسی بھی لفظ کا استعمال کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ دعا وغیرہ میں بھی خطاب پروردگار عالم سے ہونا چاہئے کسی آدمی سے خطاب کر کے اسے دعا دینا ناجائز ہے۔نماز پڑھنے والے کو سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی سلام کر دی تو فوراً سلام علیکم کہہ کر جواب دینا چاہئے علیکم السلام کہہ کر نہیں۔ اگر پوری جماعت کو سلام کیا جائے تو ایک شخص کا جواب کافی ہے لیکن اگر سب جواب کو ٹال جائیں گے تو گناہ میں بھی سب شریک رہیںگے۔

ہندوستان کے رسمی سلام "اداب عرض " ہے۔ تسلیمات وغیرہ جیسے فقروں کا جواب واجب نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں تو ان الفاظ کا ادا کرنا جائز بھی نہیں ہے۔

۵ ۔ نماز میں آواز کے ساتھ یا اتنی شدت سے ہنسنا کہ سارا چہرہ سرخ ہو جائے خواہ آواز نہ بھی نکلے نماز کو باطل کر دیتا ہے البتہ معمولی مسکراہٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہنسی سے جب چہرہ سرخ ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

۶ ۔ گریہ و بکا ۔ حالت نماز میں دنیاوی کاموں کے لئے رونا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دفعتاً خود بخود رونا آ گیا اور انسان اس پر قابو نہ پا سکا جب بھی نماز باطل ہو جائےگی۔ سیدالشہدا پر گریہ کرنا خدا کی خوشنودی کی نیت سے جائز ہے۔

۵۰

۷ ۔ کھانا پینا ۔ نماز کی حالت میں کسی مقدار میں بھی کھانا پینا ناجائز ہے بلکہ مبطل نماز ہے ہاں اگر منھ میں شکر وغیرہ کے کچھ ریزے رہ گئے ہیں اور وہ پگھل کر اندر چلے جائیں تو اس سے کوئی اثر نماز پر نہیں پڑتا۔ اگر کوئی شخص درمیان نماز میں بھولے سے کھانے پینے میں مشغول ہو گیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی بشرطیہ نمازی جانماز پر معلوم ہوتا ہو دسترخوان پر نہیں۔ اس حکم سے صرف وہ شخص آزاد ہے جو نماز وتر پڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت اُسے روزہ رکھنا ہے۔ ایسے آدمی کو نہ اختیار رہے کہ نماز کی حالت میں پانی پی لے ۔ کھانا وہ بھی نہیں کھا سکتا۔ پانی پینے میں بھی قبلہ کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔

۸ ۔ تکفیر ۔ نماز میں ہاتھ باندھنا شریعت اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔

۹ ۔ سورہ حمد کے خاتمہ پر عام مسلمانوں کی طرح آمین کہنا فقہ آل محمدؐ کی رو سے ناجائز بلکہ مبطل نماز ہے اتفاقی طور سے زبان سے نکل جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۱

یہ وہ مقامات ہیں جہاں نماز خود بخود باطل ہو جاتی ہے اس کے علاوہ کسی موقع پر بھی باطل ضرورت نماز کا قطع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ایسا ہو سکتا ہے چاہے وہ ضرورت دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض حالات میں اگر جان و مال و آبرو کا خطرہ ہے تو نماز کا توڑ دینا واجب ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز توڑتے وقت ایک سلام پڑھے۔

تنبیہ ۔

نماز یومیہ میں صبح ، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتیں بآواز پڑھی جائیںگی۔ ظہر و عصر مکمل اور مغربین کی آخری رکعتیں آہستہ پڑھی جائینگی لیکن یہ خیال رہے کہ بات صرف حمد و سورہ کے بارے میں ہے اس کے علاوہ پوری نماز کے بارے میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے آہستہ پڑھے یا بآواز۔ حمد و سورہ اور دیگر ذکر و دعا کے پڑھنے میں عربی قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ حمد و سورہ بآواز پڑھتے وقت ہر ہر حرف کا آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ مثلا ضآلین کا نون بھی آواز سے ادا کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ حالت نماز میں سانپ ، بچھو کا مارنا کیسا ہے نماز صحیح رہے گی یا باطل ہو جائےگی ؟

۲ ۔ کیا مسکراہٹ سے نماز باطل ہو جائےگی ؟

۳ ۔ نماز میں پانی پینا کیسا ہے ؟

۴ ۔ تکفیر کے معنی کیا ہیں ؟

۵ ۔ مبطلات نماز بتلائیے ؟

۶ ۔ کیا حالت نماز میں آداب عرض ، یا تسلیمات عرض کہا جائے تو نماز صحیح ہوگی ؟

۵۲

پچیسواں سبق

آداب ذکر و قرائت

۱ ۔ نیت کے موقع پر بعض حضرات قربتہً الا اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ " الی اللہ " ہے۔

۲ ۔ صلوات میںاَللهُم سَلِّ سے کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ رسولؐ اکرم کے لئے بد دعا ہے اصل لفظصَلِّ صاد سے ادا ہوتا ہے۔

۳ ۔اَشهَدُ اَن لاَ اِلٰهَ اِلاَّ الله میں اَن کا نون گرا کر الف کو بعد کے لام سے ملا کراَلاَّ اِلٰهَ پڑھنا چاہئے۔

۴ ۔ صلوات میں محمدٍّ و آلِ محمد میں واؤ پر تشدید دیکر وال کو واؤ سے ملاکر پڑھنا چاہئے۔

۵ ۔ کفو احد مٰیں لفظ کفوا کو کُفُواً واؤ کے ساتھ اور کُفُواً ۔ کُفؤاً ہمزہ کے ساتھ چار طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

۶ ۔ حی علی الصلوۃ اور قد قامت الصلوۃ میں "ت" کو "ہ" پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وقف اور ٹھراؤ میں گول ۃ "ہ "سے بدل جاتی ہے۔

۷ ۔ تشہد میںاَشهَدُ اَنَّ مُحمَداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ میں عَبدَہُ کے دال پر پیش ہونا چاہئے زبر غلط ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد میں المستقیم پر ٹھہر بھی سکتے ہیں اور المستقیمَ پڑھ کر بعد سے ملا بھی سکتے ہیں۔

۹ ۔ نماز کی حالت میں جتنے بھی ذکر واجب یا مستحب ہیں سب کو سکون و اطمینان کی حالت میں ادا کرنا چاہئے حرکت و اضطراب میں سوائےبِحولِ الله وَ قُوتهِ اَقُومُ وَ اَقعُد کے کسی ذکر کا ادا کرنا مناسب نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟

۲ ۔ نیت میں اِلا اللہ درست ہے یا اِلی اللہ صحیح ہے ؟

۳ ۔ نماز میں وہ کون سی چیز ہے جس کو حرکت کی حالت میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

۵۳

چھبیسواں سبق

نماز قضا

اگر انسان سے اپنی نماز ترک ہو گئی ہے یا بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نماز واجب ہو گئی ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ان سب کی قضا ادا کرے قضا نماز تمام احکام مین باطل ادا جیسی ہے اگر سفر کی قجا ہے تو گھر میں بھی قصر ہی ادا کی جائے گی اور اسی طرح بر عکس۔ اگر جہری ہے تو جہری رہےگی اخفاقی ہے تو اخفاقی رہےگی۔فرادی بھی ہو سکتی ہے جماعت سے بھی ہو سکتی ہے ترتیب کا لحاظ بھی ضروری ہوگا۔ مثلا پہلے ظہر کی پھر عصر کی پہلے مغرب کی پھر عشاء کی البتہ یہ ممکن ہے کہ صبح کی قضا نماز ظہرین کی ادا کے بعد پڑھے یا ظہرین کی قضا نماز مغربین کی ادا کے بعد پڑھے۔ قضا کا کوئی وقت معین نہیں ہے ہر نماز کی قضا ہر وقت پرھی جا سکتی ہے۔

والدین کی نماز اگر خود ادا ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اجرت دے کر پڑھوائے اجرت پڑھنے والا مرنے والے کی طرف سے نیت کر کے ویسی نماز پڑھے جیسی نماز مرنے والے کی قضا ہوئی ہے۔ لیکن جہر و اخفات میں اپنا طاظ کرے گا یعنی اگر مرد عورت کی طرف سے پڑھ رہا ہے تب بھی جس نماز میں مرد سورے آواز سے پڑھتا ہے اس نماز میں آواز سے ہی پڑھےگا۔ بڑے بیٹے کے علاوہ قضاء والد کسی دوسرے پر واجب نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ بڑے بیٹے کی نالائقی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر اولاد و اعزاء کو ازراہ ہمدردی اس فیضہ کو ادا کر دینا چاہئے۔ عورت پر زمانہ حیض و نفاس میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اس زمانہ کے روزے کی قضا ضروری ہے۔

۵۴

مردے کی طرف سے اگر کوئی شخص ازخود نماز ادا کر دے تو وارث کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیمار آدمی قضائے عمری کو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بلکہ صحت کا انتظار کرےگا۔ ہاں اگر صحت سے مایوس ہو گیا ہے تو بیٹھ کر ہی ادا کرےگا۔عام طور سے جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز کو زندگی بھر کا کفارہ مشہور کر دیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ قضا کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ جہری نمازیں کون ہیں اور اخفائی کون ؟

۲ ۔ باپ کی نماز کس بیٹے پر واجب ہے ؟

۳ ۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۵۵

ستائیسواں سبق

نماز کی غلطیاں

بھول

نماز مین غلطیوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، بھول اور شک۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ انسان حالت نماز میں کسی واجب کے ادا کرنے سے غافل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اگر بھولی بات اگلے رکن میں داخل ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو فوراً پلٹ کر اسے بجا لائے اور اگر رکن میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے جیسے رکوع میں پہونچکر سورہ حمد یا دوسرے سورہ کا بھول جانا یاد آیا تو ایسی حالت میں جس چیز کو بھولا ہے اگر وہ خود رکن نہیں ہے تو نماز کو آگے پڑھا دے اور بعد میں ہر بھولی ہوئی بات کے لئے دو سجدہ سہو کرے اور اگر بھولی ہوئی بات خود رکن تھی تو نماز باطل ہو گئی پھر سے پڑھے۔ اگر پلٹ کر واجب کو ادا کرنے میں کوئی زیادتی ہو گئی ہے تو اس زیادتی کے لئے بھی سجدہ سہو کرےگا۔ مثلا کھڑے ہو جانے کے بعد یاد آئے کہ تشہد نہیں پڑھا ہے تو فوراً بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے اس لئے کہ کھڑا ہو کر پھر بیٹھنا پڑا اور تشہد کے بعد پھر کھڑا ہونا پڑا۔ اس زیادتی کے لئے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

۵۶

سجدہ سہو چھ اسباب سے واجب ہوگا۔

۱ ۔ بھولے سے درمیان نماز میں کلام کر لینا ایسے میں نماز باطل نہ ہوگی بلکہ سجدہ سہو کرےگا۔

۲ ۔ بے محل سلام پڑھ دینا۔

۳ ۔دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت یا حالت قیام میں چوتھی یا پانچویں یا یا پانچویں اور چھٹی رکعت میں شک کرنا۔

۴ ۔ ایک سجدہ کا بھول جانا دونوں کے بھولنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے وہ رکن ہیں۔

۵ ۔ بے محل کھڑا ہو جانا جیسے کہ دوسری رکعت میں بجائے تشہد کے قیام کرنا۔ ایسے میں بیٹھ کر تشہد پڑھےگا۔ اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرےگا۔

۶ ۔ خود تشہد کا فراموش کر دینا اور بعد والی رکعت کے رکوع میں جاکر یاد آنا۔

سجدہ سہو کی ترکیب

نماز کے ختم ہوتے ہی قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر فوراً دل میں نیت کرے کہ دو سجدہ سہو فلاں غلطی کی بنا پر کرتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اور یہ قصد کر کے فوراً سجدہ میں جائے اور یہ ذکر کرے " "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَيهُّا النَّنِیُ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ " پھر سر اٹھا کر دوبارہ سجدہ کرے اور یہی ذکر پڑھے پھر سر اٹھا کر تشہد و سلام پڑھ کر کلام تمام کرے۔

اگر نماز میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گہا تھا تو خاتمہ نماز پر پہلے اس سجدہ یا تشہد کی قضا کرے، اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔

۵۷

شک

نماز میں شک پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ کبھی شک کا تعلق نماز کے

افعال سے ہوتا ہے اور کبھی نماز کی رکعتوں سے۔ افعال میں شک کا مطلبیہ ہے کہ دوران نماز تکبیر کہنے ، حمد یا سورہ پڑھنے ، رکوع یا سجدہ کونے وغیرہ میں شک ہو جائے ، ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر بعد والے عمل میں داخل ہونے کے بعد کسی پہلے والے فعل میں شک ہوا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائےگی بلکہ نماز کو صحیح قرار دیا جائےگا مثلا کسی شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے وقت سورہ حمد کے پڑھنے میں شک ہو گیا تو وہ بجائے پلٹنے کے نماز آگے پڑھتا رہےگا اور انشاء اللہ صحیح رہےگی۔

رکعات میں شک کا مطلب یہ ہے کہ رکعتوں کی صحیح تعداد یاد نہ رہے اس شک کی بظاہر بہت سی صورتیں ہیں لیکن صرف ۹ صورتوں میں نماز صحیح ہو سکتی ہے۔ باقی تمام صورتوں میں باطل ہوگی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی دماغ پر زور دے کہ صحیح بات یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو شریعت کی تفصیل یہ ہے۔

ان قوانین کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد یہ شک ہو کہ یہ سجدہ دوسری رکعت کا تھا یا تیسری رکعت کا۔ ایسی صورت میں تیسری سمجھ کر اسی حساب سے نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اس لئے کہ اگر واقعی دوسری رکعت تھی تو ایک ہی رکعت کی کمی ہوئی ہے۔

۵۸

۲ ۔تیسری اور چوتھی رکعت کے بارے میں کسی حالت میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی قرار دے کر نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

۳ ۔ دوسری سجدہ کے بعد دو اور چار میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی رکعت ورار دے کر نمام تمام کرے اور دو رکعت نماز احتیاط پڑھے۔

۴ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک کرے کہ یہ رکعت دوسری تھی یا تیسری یا چوتھی ۔ ایسے میں چوتھی سمجھے اور پہلے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پرھے پھر دو رکعت بیٹھ کر۔

۵ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ رکعت چوتھی تھی یا پانچویں ۔ ایسے میں نماز وہیں پر تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔

۶ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ چوتھی ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں فوراً بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۷ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیسری ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھا کر نماز ختم کر دے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۸ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیاری ہے یا چوتھی یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور دو رکعت کھڑے ہو کر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۹ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ پانچویں ہے یا چھٹی ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔ نیز بنا پر احتیاط واجب بےجا قیام کے لئے دو سجدہ مزید کرے۔

۵۹

شک کے بارے میں یہ بات ضرور ہیش نظر رہنی چاہے کہ یہ سارے احکام صرف اس نماز کے لئے ہیں جس میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ سہ رکعتی نماز یعنی مغرب اور دو رکعتی نماز یعنی صبح اور حالت سفر کی ظہر و عصر و عشا کا حکم یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی کسی مقدار میں غور کرے اگر کوئی بات یاد آ جائے تو اس پر عمل کرے ورنہ نماز کو اسی جگہ سے توڑ دے اور دوبارہ چروع کرے۔

نماز احتیاط

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اصل نماز کے ختم کرنے کے بعد فوراً ہی بلا فاصلہ نیت کرے کہ نماز احتیاط ایک رکعت یا دو رکعت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اس نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد فقط سورہ حمد اور وہ بھی آہستہ پڑھ کر رکوع اور سجدہ کرے اگر ایک رکعتی ہے تو تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ورنہ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اور سجدوں کے بعد تشہد و سلام ادا کر کے نماز ختم کر دے۔ نماز احتیاط میں الحمد کے علاوہ دوسرا سورہ یا قنوت نہیں پڑھا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر نماز میں کسی واجب کو ادا کرنا بھول جائے تو کیا کرے ؟

۲ ۔ سجدہ سہو کہاں واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ سجدہ سہو اور نماز احتیاط کی ترکیب بتاؤ ؟

۴ ۔ شک کی کتنی صورتوں میں نماز صحیح رہےگی ؟

۵ ۔ نماز احتیاط یا سجدہ سہو چھوڑ کر کیا نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۶۰

موجود ہیں، سے استفادہ کرتے ہیں اور انسانوں کے لئے غذا اور پوشاک مہيّا کرتے ہیں، حیوان چارہ کھاتے ہیں اور انسانوں کے لئے خوراک اور پوشاک مہیا کرتے ہیں_

خلاصہ

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

جب ابّا کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو فرشتہ خانم نے سیب سے بھری ہوئی ٹرے اٹھائی اور ماں کے سامنے پیش کی اور کہا اس سے کچھ لیجیئے کیونکہ آپ نے نہیں سنا

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

اس کے بعد ٹرے اس نے چچا کے سامنے پیش کی اور چچا نے وہ سیب سے بھری ٹرے ابّا اور ہمارے سامنے پیش کی اور ہنستے ہوئے فرمایا بچّو تم بھی سیب اٹھاؤ اور اسکے کھاؤ اور کہیں غفلت میں کھانا شروع نہ کردینا پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لینا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا_ ہم چاہتے ہیں کہ تمام اکٹھے باغ میں چلیں اور سیب چینیں کیونکہ آج عصر کے وقت کچھ سیب مجاہدین کی بس کے ذریعے فوجیوں اور ملک کے حفاظت کرنے والے پاسداروں کو بھیجنے ہیں تا کہ وہ بھی اللہ تعالی کی اس نعمت سے استفادہ کریں کیونکہ وہ اسلام کے سپاہی اور قرآن کے محافظ ہیں اور دین و وطن اور اسلامی انقلاب کی پاسداری کرتے ہیں_ اٹھو اور باغ چلیں اور باقی گفتگو کو کل اور اس کے بعد کے لئے چھوڑ دیتے ہیں_

۶۱

سوالات:

یہ سوالات، بحث اور گفتگو کرنے کے لئے بیان کئے گئے ہیں

۱)___ جب نرگس اور اس کے بہن بھائی چچا کے باغ تک پہنچے تو باغ کا دروازہ بند تھا یا کھلا ہوا تھا؟ کیا نظارہ اور ماحول تھا؟ بچے کیا چاہتے تھے؟ کہ باپ نے انھیں کہا کہ ٹھہرو تا کہ دروازہ کھٹکھٹائیں_

۲)___جب ان کے چچا علی نے دیکھا کہ دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں تو اس نے کیا کہا تھا؟ تمھاری نگاہ میں چچا علی خوش اخلاق تھے؟ اس کے ثابت کرنے کے لئے اس سبق اور سابقہ سبق سے کچھ دلائل بیان کرسکتے ہو؟

۳)___ جب چچا علی نے نرگس اور دوسرے بچوں کو سیب دیئے تو کیا کہا؟ حسن نے اس وقت کیا کہا؟ آپ کی نگاہ میں حسن کیسا بچہ ہے؟ آیا غور و فکر کرنے والا لڑکا ہے اور کیوں؟

۴)___ جب چچا علی ہنسے اور اپنے بھائی سے کہا کہ تم نے بہت اچھا درس حاضر کردیا ہے تو اس کے بھائی نے اس کا کیا جواب دیا؟ کیا تم اس کی طرح پانی کی گردش اور دنیا کی خلقت کی غرض و غایت کی توضیح بیان کرسکتے ہو؟ یقینا ایسا کرسکو گے؟ تجربہ کرو_

۵)___ نرگس کے باپ نے اپنی گفتگو کو بطور خلاصہ ایک شعر میں بیان کیا، کیا تمھیں وہ شعر یاد ہے؟ فرشتہ خانم نے اس شعر کو کس طرح پڑھا تھا؟ تمھاری نگاہ میں فرشتہ خانم خوش سلیقہ اور خوش ذوق لڑکی ہے اور کیوں؟

۶۲

۶)___ اللہ تعالی کی نعمتوں کو غفلت کی حالت میں نہ کھا بیٹھنے کے لئے ہمیں کون سا کام انجام دینا چاہئے؟ علی نے اس بارے میں کیا کہاتھا؟

۷)___ چچا علی نے کہا تھا کہ وہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ کریں گے، اس سے ان کا قصد کن لوگوں کے متعلق تھا_ وہ کیوں پسند کرتا تھا کہ وہ لوگ بھی اس سے استفادہ کریں وہ اللہ تعالی کا شکریہ کون سے اعمال کر کے بجالاتے ہیں؟

۶۳

(۲) عمل کا ثمر

ہم جمعرات کو صبح جلدی میں اٹھے باغ کے وسط میں بہنے والی نہر سے وضو کیا اور کمرے میں جا کر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے_ چچا علی نے نماز کے بعد بلند آواز سے قرآن اور دعا پڑھنی شروع کردی ہم بھی ان کے ہمراہ دعا اور قرآن پڑھنے لگے، کاش تم بھی ہوتے کیسی عمدہ نماز اور با اخلاص دعا پڑھی گئی، کتنی بہترین صبح تھی، بہت اچھی ہوا اور باصفا ماحول تھا_ کاش تم بھی وہاں ہوتے اور سورج بلند پہاڑوں اور خوش و خرم اور سبزہ زار جنگلوں سے خوبصورتی کے ساتھ نکلنے کا نظارہ کرتے، ابّا کھڑکی کے پیچھے کھڑے تھے اور سورج کے طلوع کا حسین منظر دیکھ رہے تھے اور کل والے شعر کو گنگنا رہے تھے:

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

چچا علی کی بیوی فرشتہ خانم نے سماور کو جلایا_ میں نے اور حسن نے طاقچے سے ایک رسالہ اٹھایا اور اس کے ورق الٹنے لگا اس کے ایک صفحہ پر ایک شہید کا وصیت نامہ نظر سے گذرا_ فرشتہ خانم نے پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ تھوڑا آواز سے پڑھو کہ میں بھی سن سکوں_ صفحہ کی ابتداء میں ایک آیت کا یہ ترجمہ لکھا ہوا تھا:

۶۴

''جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں انھیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں''

اس کے بعد اس شہید کا یہ وصیت نامہ درج تھا_

''اللہ کے راستے میں شہید ہونا کتنا اچھا ہے یہ پھول کی خوشبو کی طرح ہے میں اس سرزمین میں دشمن سے اتنا لڑوں گا کہ یا فتح ہمارے نصیب ہوگی اور یا درجہ شہادت پر فائز ہوجاؤںگا_

اگر اسلام اور قرآن کی راہ میں شہید ہونے کی لیاقت نصیب ہوگی تو اس وقت میری ماں کو اس کی مبارکباد دینا کیونکہ میں اللہ کا مہمان ہوگیا ہوں واقعاً خدا کی راہ میں مرنا کتنا اچھا ہے''

حسن نے پوچھا چچا جان شہید کیسے اللہ کی مہمان کے لئے جاتا ہے، موت کیا ہے اور شہادت کیا ہے___؟ چچا بولے ''ناشتہ کے بعد ان سوالات کے بارے میں گفتگو کروں گا اب تم ناشتہ کرلو''_ جب ہم ناشتہ کرچکے تو میری ماں کی مدد سے فرشتہ خانم نے دسترخوان اکٹھا کیا اور اس وقت چچا بولے:

''تمھیں یاد ہے کہ آبا نے کل کیا کہا تھا؟ تمھیں یاد ہے کہ کائنات کی خلقت اور اس کے اغراض و مقاصد کے سلسلے میں انھوں نے مطالب بیان کئے تھے ____؟ جیسے کہ ابّا نے بیان کیا تھا کہ عالم مادی، اللہ تعالی کے ارادے او رحکم سے ہمیشہ تغیر و تبدل میں ہے تا کہ اس سے وہ انسانوں کی خدمت بجالائے اور ہماری کوشش و محنت کو بار آور قرار دے اپنی زندگی میں غور کرو_

۶۵

انسان ابتداء میں کمزور اور ایک چھوٹا سا وجود تھا، سرعت کے ساتھ اس عمدہ ہدف کی طرف جو اس کے لئے اللہ تعالی نے معین کر رکھا تھا حرکت کر رہا تھا، دودھ پیتا تھا اور بڑھ رہا تھا، غذا کھاتا تھا اور بڑا ہو رہا تھا اور رشد کر رہا تھا، کام کرتا تھا اور تجربہ حاصل کر رہا تھا اور خارجی دنیا سے وابستگی حاصل کر رہا تھا، علم حاصل کرتا تھا اور مادّی دنیا کی طبعی ثروت سے اور اپنے کام کے نتائج اور حیوانات و نباتات اور درختوں کی کوشش سے ا ستفادہ کر رہا تھا، اپنے جسم اور جان کی پرورش کر رہا تھا مختصر یہ کہ تمام موجودات عالم کوشش اور محنت کر رہے ہیں تا کہ وہ انسان کی خدمت بجالائیں اور انسان کی زندگی کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اسے کمال تک پہنچائیں لیکن اسی حالت میں اسے موت آپہنچتی ہے اور انسان کا جسم حرکت کرنا بند کردیتا ہے''_

آپ کیا فکر کرتے ہیں___؟ کیا انسان موت کے آجانے سے فنا اور نابود ہوجاتا ہے___؟ اس صورت میں تمام عالم کے موجودات کی تلاش اور کوشش جو انسان کی زندگی کے لئے کر رہے تھے بے کار نہ ہوگی___؟ اور تمام عالم کے موجودات کی کوشش اور حرکت لغو اور بے فائدہ نہ ہوگی___؟ کیا انسان اپنی کوشش اور محنت کا کوئی صحیح اور مثبت نتیجہ حاصل نہیں کرتا___؟ کیا انسان اور تمام عالم کی کوشش اور تلاش بے کار نہ ہوجائے گی___؟

نہیں اور بالکل نہیں انسان اور تمام عالم اور جہاں کی خلقت، لغو اور بے غرض

۶۶

نہیں ہے_ خداوند عالم نے اس منظم کائنات کو فنا اور نابود ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو ہمیشگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ اس جہاں سے عالم آخرت کی طرف جو باقی اور ہمیشہ رہنے والا ہے منتقل ہوجاتا ہے اور آخرت میں ان تمام کاموں کا ثمرہ پائے گا جو اس مادّی عالم میں انجام دیئے ہوتے ہیں اور پھر اس عالم آخرت میں ہمیشہ کے لئے زندگی گذارے گا_

موت ایک پل ہے جو نیک بندوں کو آخرت اور اللہ تعالی کی محبت و شفقت کی طرف منتقل کردیتا ہے_ اللہ تعالی کی یہ محبت اور نعمتیں اس کے نیک کاموں کا ثمرہ ہوا کرتی ہیں_ یہ پل گناہگار انسنوں کو ان کے برے کردار کی سزا اور جہنم کے سخت عذاب تک جا پہونچاتا ہے_

اب تم سمجھے کہ موت کیا ہوتی ہے___؟ موت ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا نام ہے جس طرح تم اپنے گھر سے پھل چننے کے لئے اس باغ میں آئے ہو اسی طرح نیک بندے اللہ تعالی کی خوبصورت بہشت میں اللہ اور اس کے نیک اچھے بندوں کی مہمانی میں جائیں گے_ اللہ کے نیک بندے جو اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے احکام کو بجالاتے ہیں اور اپنی روح اور جان کو اللہ تعالی کے اولیاء کی محبت سے پرورش کرتے ہیں وہ آخرت میں اپنے کاموں کا ثمرہ اٹھائیں گے اور بہت میں جائیں گے اور اللہ تعالی کی عمدہ بہشت کی نعمتوں سے جو انھیں اپنے اچھے کردار اور ایمان کی وجہ سے ملیں گی استفادہ کریں گے_ اس وقت میری بہن مریم نے پوچھا:

چچا جان شہادت کیا ہوتی ہے___؟ شہادت یعنی ہم اللہ کے راستے میں اللہ تعالی کے رہبر کے حکم سے کافروں اور ظالموں سے جنگ کریں

۶۷

تا کہ مارے جائیں_ شہید بھی اس دنیا میں عزت و شرافت اور وقار پاتا ہے اور آخرت میں سب سے بلند و بالا مقامات پر فائز ہوتا ہے وہ پیغمبروں و نیک اور صالح انسانوں کا ہمنشین ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی خاص نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے_ بہشت میں رہنے والے شہید کے مقام اور رتبے سے غبطہ کریں گے_

میرے پیارے بچو جان لو کہ آخرت کی نعمتیں اسے ملیں گی جو اس دنیا کی نعمتوں سے صحیح طریقے سے استفادہ کرتا ہے، اللہ کی یاد اور اطاعت سے غفلت نہیں کرتا یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ہم انی کوشش اور محنت کا کامل نتیجہ آخرت میں حاصل کریں گے_

یہ دنیا زراعت، محنت و کوشش اور عبادت کرنے کا زمانہ ہے اور آخرت اس زراعت کے کاٹنے اور ثمرہ حاصل کرنے کے زمانے کا نام ہے_ اب اٹھو اور باغ میں چلیں اور باقی ماندہ سیب چنیں کل جمعہ ہے اور کچھ افراد خدمت خلق کرنے والے ادارے کہ جس کا نام ''جہاد سازندگی'' ہے کل ہماری مدد کے لئے آئیں گے_ جب ہم ان درختوں کی طرف جو سیبوں سے لدے ہوئے تھے جا رہے تھے تا کہ باقی ماندہ سیب چنیں تو سب کے سب یہ پڑھ رہے تھے _

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

۶۸

سوالات

یہ اس لئے کئے گئے ہیں تا کہ تم سوچ سکو، بحث کرو اور جواب دو

۱)___ حسن نے اپنے چچا سے موت اور شہادت کے متعلق کیا پوچھا___؟

۲)___اللہ تعالی ان لوگوں کے متعلق جو راہ خدا میں مارے جاتے ہیں کیا فرماتا ہے؟

۳)___ آخرت کی نعمتیں کسے ملیں گی؟

۶۹

آخرت کی طرف منتقل ہونا

ہمارے بے پایاں درود و سلام ہوں انقلاب اسلامی ایران کے شہیدوں پر کہ جنھوں نے اپنی رفتار سے ہمیں شجاعت و دلیری اور دینداری کا درس دیا ہے اور اپنی روش سے عزت اور بزرگی ہمیں سمجھائی ہے_

شہید احمد رضا جن کی یاد باعظمت رہے اور ان کا آخرت میں مقام، بہشت جاویداں ہو کہ جنھوں نے ایک بلند مقام شہید کی طرح اپنے مہم وصیت نامہ میں یوں لکھا ہے:

''انسان ایک دن دنیا میں آتا ہے اور ایک دن دنیا سے چلاجاتا ہے صرف اس کا کردار اور عمل دنیا میں رہ جاتا ہے موت ہمارا انجام ہے، کتنا اچھا ہو کہ انسان کسی غرض و ہدف اور خاص مکتب کے لئے مارا جائے_

میری موت سے پریشان نہ ہونا کیونکہ میں اللہ تعالی کے نزدیک زندہ ہوں اور زرق پاتا ہوں، صرف میرا جسم تمھارے درمیان سے چلاگیا ہے، میرے مرنے سے پریشان نہ ہونا اور میرے لئے سیاہ لباس نہ پہننا یعنی عزاداری نہ کرنا_ میری

۷۰

پیاری اماں میں جانتا ہوں کہ تم میری موت سے پریشان ہوگی لیکن یہ تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک بہرہ مند ہوتے ہیں_

میں امید رکھتا ہوں کہ خداوند عالم مجھے انھیں شہیدوں میں سے قرار دے گا''_

اس محترم شہید نے دوسرے آگاہ شہیدوں کی طرح حق کے راستے کو پہچان لیا ہے اور بالکل درست کہا ہے کہ موت، زندگی کی انتہا نہیں ہے بلکہ موت، زندگی کے گذرنے کا وسیلہ ہے اور ایک قسم کی زندگی کے تبدیل ہوجانے کا نام ہے، موت ایک طبعی اور کامل عادی امر ہے یہ خوف اور وحشت کا موجب قرار نہ پانا چاہیئے_

''موت ہر انسان کے لئے مساوی نہیں ہوا کرتی بلکہ بعض انسانوں کے لئے موت سخت ہوا کرتی ہے اور بعض انسانوں کے لئے بہت زیادہ آسان اور سہل ہوا کرتی ہے بلکہ لذت بخش اور مدہ دینے والی ہواکرتی ہے _ ان لوگوں کے لئے موت، سخت اور دشوار ہوتی ہے جو دنیا اور مال و ثروت اور مقام و اقتدار و لذائذ دنیا کے عاشق و شیفتہ ہوں اور خداوند عالم کو فراموش کرچکے ہوں اور کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کرلیا ہو اور اللہ کی مخلوق پر ظلم کرتے ہوں''_

۷۱

اس قسم کے مادّی دنیا کے دوست انسان نے دنیا کے اقتدار اور زر و زیور اور جاہ و مقام کے محبت کر رکھی ہوتی ہے_ اللہ و آخرت اور خداپرست انسانوں سے محبت نہیں رکھتے ان لوگوں کے لئے اس عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونا بہت سخت ہوتا ہے اس قسم کے لوگ اخروی دنیا کو آباد نہیں کرتے اور اس کے سفر کے لئے کوئی زاد راہ نہیں رکھتے یہ لوگ کس طرح اس دنیا سے قطع روابط کرسکتے ہیں___؟ کس طرح وہ آخرت کے ویران اور دردناک گھر کی طرف کوچ کرسکتے ہیں___؟ اس لحاظ سے موت کی سختی اور جان کا سخت نکلنا دنیاوی اور مادّی امور سے دلبستگی کے معیار اور گناہوں کی مقدار پر مبنی ہوگا_

لیکن انسانوں کا دوسرا گروہ جو اللہ تعالی اور پیغمبروں کے دستور کے پیروکار اور اہل آخرت اور ہمیشہ اللہ کی یاد میں رہنے والے ہوتے ہیں اور اللہ سے محبت و انس رکھتے ہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں میں اللہ تعالی کی محبت اور ولایت نے نفوذ کیا ہوا ہوتا ہے، اللہ کی اطاعت اور اس کے سیدھے راستے پر گامزن رہتے ہیں اور جنھوں نے اپنے نیک اعمال اور بندگان خدا کی خدمت سے اپنی آخرت کو آباد کیا ہوتا ہے ان لوگوں کے لئے اس مادی دنیا سے قطع روابط صرف مشکل ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا استقبال بھی کرتے ہیں_

ایسے لوگ موت سے کیوں کبھرائیوں___ ؟ انھوں نے دنیاوی لذات سے دلبستگی نہیں کی ہوتی تا کہ مرنا ان کے لئے سخت ہو یہ محبت اور رغبت سے اپنی پاک روح اور جان کو اللہ تعالی کے فرشتوں کے سپرد کر کے بہشت کی طرف چلے جاتے ہیں_

جنت کی نعمتیں اور کتنے عمدہ ہدایا اللہ تعالی کے نیک اور حب دار بندوں

۷۲

کے لئے آخرت کے جہاں میں موجود ہیں_

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے وفادار ساتھیوں سے جو شہادت کے انتظار میں تھے شب عاشوریوں فرمایا:

''اے میرے وفادار ساتھیو دشمن سے جہاد کرنے اور دین سے دفاع کرنے میں پائیدار بنو اور جان لو کہ موت ایک پل کی طرح ہے جو تمھیں سختیوں اور دشواریوں سے نجات دلائے گی اور عالم آخرت کی طرف منتقل کردے گی_ ایسا کوئی ہوسکتا ہے جو ایک سخت اور دردناک قیدخانے آباد اور بہترین باغ کی طرف منتقل نہ ہو___؟ لیکن تمھارے دشمنوں کے لئے موت ایک ایسا پل ہے جو ایک خوبصورت محل سے سخت اور دردناک زندوان کی طرف منتقل کردیتی ہے''_

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے موت کی یوں توصیف کی ہے:

''مرد مومن کے لئے موت ایک میلا اور کثیف اذیت وہ لباس کا اتارنا، ہاتھ، پاؤں اور گردن سے غل و زنجیر کا نکالنا اور اس کے عوض میں عمدہ اور معطر لباس پہننا اور بہترین سواری پر سوار ہوکر بہترین جگہ کی طرف جانے کا نام ہے_

کافر اور بدکردار کے لئے موت، عمدہ اور راحت دہ لباس کا اتارنا اور بہترین و راحت دہ مکان سے نکل کر بدترین و کثیف ترین لباس پہن کر وحشتناک اور دردناک ترین جگہ کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے''_

۷۳

حضرت امام حسین اور حضرت امام زین العابدین علیہما السلام کی موت کے بارے میں یوں تعریف اور توصیف کے بعد کون مومن اور نیک انسان موت اور شہادت سے ڈرے گا اور ذلت و خواری کو برداشت کرے گا___؟

آیت قرآن مجید:

( کل نفس ذائقة الموت ثم الینا ترجعون ) (۱)

''ہر انسان، موت کا ذائقہ چھکے گا اور پھر ہماری طرف لوٹ آئے گا''_

____________________

۱) سورہ عنکبوت آیت نمبر ۵۷

۷۴

سوالات

سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے گئے ہیں

۱)___ ایران میں انقلاب اسلامی کے شہداء نے اپنی رفتار اور کردار سے کون درس دیا ہے___؟

۲)___ احمد رضا خادم شہید نے اپنے وصیت نامے میں کیا لکھا تھا اور اپنی ماں کو کیا پیغام دیا تھا___؟

۳)___ کیا موت تمام انسانوں کے لئے برابر ہے بعض کے لئے کیوں سخت اور تکلیف دہ ہے اور دوسرے بعض کے لئے کیوں آسان اور خوشی کا باعث ہے___؟

۴)___ حضرت امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے وفادار ساتھیوں سے کیا فرمایا___؟

۵)___ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے موت کی کیا تعریف کی ہے؟

۶)___ مسلمان انسان، موت اور شہادت سے کیوں نہیں ڈرتا اور کیوں ذلت اور خواری کو برداشت نہیں کرتا___؟

تذكّر:

ہم تمام شہیدوں کے وصیت نامے نقل نہیں کرسکے آپ درس میں شہیدوں کے وصیت نامے نقل کرسکتے ہیں اور اس کے لئے ان کے خاندان کی طرف رجوع کر کے معلومات حاصل کرسکتے ہیں_

۷۵

تکامل انسان یا خلقت عالم کی آخری غرض و غایت سورج نکلتا ہے، بادل برستے ہیں، درخت گل اور شگوفے نکالتے ہیں اور میوے دیتے ہیں، صاف و شفاف چشمے پتھروں کے درمیان سے پھوٹتے ہیں تا کہ انسان ان کے پاک پانی کو پیئے_ رات جاتی ہے اور دن آتا ہے تا کہ ہم انسان دن کی روشنی اور گرمی میں محنت کریں اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں_

دن چلاجاتا ہے اور رات آتی ہے تا کہ ہم تاریکی میں راحت اور آرام کریں اور دوسرے دن نشاط و خوشی سے عبادت کرسکیں_ سورج، چاند، بادل، ہوا، آسمان و زمین تمام کے تمام کوشش کر رہے ہیں تا کہ انسان کی پرورش کریں اور نادانی و ناتوانی سے دانائی اور توانائی تک پہنچائیں اور اس کے حجم و روح کی پرورش کریں_

نباتات و حیوانات سب کے سب انسان کی خدمت کے لئے ہیں اور وہ انسان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اس کی رشد و پرورش کا وظیفہ انجام دے رہے ہیں تمام

۷۶

کوشش کر رہے ہیں تا کہ ا نسان زندگی گزار سکے لیکن اسی درمیان انسان کو موت آجاتی ہے اور انسان کا جسم حرکت کرنے سے رک جاتا ہے تم کیا فکر کرتے ہو___؟

کیا تمام جہاں کے موجودات اس لئے کوشش کر رہے ہیں کہ انسان چند ایک دن زندہ رہ سکے اور اس کے بعد مرکر فنا ہوجائے____؟

اس صورت میں تمام جہاں کی کوشش بے کار اور بے ہدف نہ ہوگی___؟ کیا یقین کرسکتے ہو کہ جہاں کی خلقت میں کوئی غرض و غایت نہیں ہے؟ کیا اللہ تعالی نے اتنی بڑی کائنات کو بے کار اور بے ہدف پیدا کیا ہے ؟ کیا خداوند عالم نے اس جہاں کو پیدا کیا ہے کہ وہ ایک مدت کے بعد اس عظیم کوشش او رتلاش کے بعد نابود ہوجائے؟

اگر خداوند عالم نے اسے فنا کے لئے پیدا کیا ہو تا تو کیا اس کا ابتداء میں پیدا کرنا ممکن بھی ہوتا___ ؟ خداوند عالم نے ان سوالات کا چند آیتوں میں جواب دیا ہے:

آیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تم کو عبث خلق کیا ہے اور تم ہمارے پاس آخرت میں لوٹ نہیں آؤگے؟ اس طرح ہرگز نہیں ہے وہ خدا جو تمام جہاں کا حاکم اور اسے چلانے والا ہے کبھی بھی عبث اور بلافائدہ کام انجام نہیں دیتا_ (سورہ مومنوں آیت نمبر ۱۱۵)

ہم نے انسان کو معزز قرار دیا ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر ۷۰)

آیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ وہ بیہودہ اور باطل چھوڑ دیا گیا ہے؟ (سورہ قیامت آیت نمبر ۳۶)

تم تمام انسان اللہ کی طرف لوٹ آؤگے اس وقت اللہ تعالی تمھیں

۷۷

تمھارے کردار سے مطلع کرے گا کیونکہ اللہ تعالی جو کچھ تمھارے دل میں ہے آگاہ ہے (زمر آیت ۳۹) _

پس آپ کو علم ہوگیا ہوگا کہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور موت اسے نابود اور فنا نہیں کرتی بلکہ انسان مرنے سے ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف منتقل ہوجاتا ہے_ انسان اس عالم مادی میں اپنے جسم اور روح دونوں کو پرورش دیتا ہے تا کہ دوسری دنیا کی طرف منتقل ہوکر اپنے اعمال اور کردار کا ثمرہ اور نتیجہ دیکھ سکے اس دوسری دنیا کو آخرت کہتے ہیں کہ جس میں انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہے گا_

اگر انسان اپنی زندگی کو پیغمبروں کی تعلیم کے مطابق سنوارے، اللہ تعالی اور اس کے اولیاء کی ولایت کو قبول کرے اور نیک و صالح ہوجائے تو پھر آخرت میں خوش و خرم اور آسودگی کی زندگی بسر کرے گا اور پیغمبروں اور اماموں کے ساتھ زندگی بسر کرے گا لیکن اگر دستور الہی اور پیغمبروں اور ائمہ کی ولایت و رہبری سے انحراف کرے اور سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے تو سخت خطرناک وادیوں میں جاگرے گا اور آخرت میں سوائے بدبختی اور عذاب کے کچھ بھی نہ دیکھے گا_

قرآن کی آیت:

( افحسبتم انّما خلقناکم عبثا و انّکم الینا لا ترجعون ) (۱)

کی تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہاری بارگاہ میں لوٹائے نہ جاؤگے؟

___________________

سورہ مومنون آیت نمبر ۱۱۵

۷۸

سوالات

سوالات یہ اس لئے کئے جار ہے ہیں تا کہ غور کرو اور اس پر بحث کرو

۱)___ کیا انسان عبث خلق کیا گیا ہے خداوند عالم نے اس سوال کا کیا جواب دیا ہے؟

۲)___ انسان، حیوانات اور نباتات سے کس طرح بہرہ مند ہوتا ہے؟

۳)___ انسان اپنے کام کا نتیجہ کس دنیا میں دیکھے گا؟

۴)___ انسان کون سے کاموں کے بجالانے سے آخرت میں سعادت مند ہوگا؟

۵)___ جو انسان اللہ تعالی اور اس کے اولیاء اور پیغمبروں کی ولایت کو قبول نہ کرے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟

۷۹

نامہ اعمال

کبھی تم نے اپنے گذرے ہوئے زمانے کے متعلق سوچا ہے اور ان گذرے ہوئے اعمال کو سامنے لائے ہو___؟ نمونے کے طور پر اپنے گذرے ہوئے کاموں میں سے کسی کام کے متعلق سوچ سکتے ہو اور اسے یاد کرسکتے ہو___؟ ممکن ہے تمھیں اپنے بعض کاموں کے یاد کرنے پر خوشی ہو اور ممکن ہے بعض دوسرے کاموں پر پشیمانی ہو_

ہمارے تمام کام اور گذری باتیں اسی طرح روح اور ضمیر کی تختی پر ثبت ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ ہم ان میں سے بعض کاموں کو بظاہر فراموش کرچکے ہوں لیکن اس کے باوجود تمام کے تمام اعمال ہماری روح میں ثبت ہیں_ ہماری روح اور جان ایک دقیق فیلم کے نیگیٹوں کی طرح ہے بلکہ اس بھی دقیق اور حساس ہے جس طرح فیلم کے نیگٹیو موجو ات کی تصویروں کو لے لیتی ہے اور محفوظ رکھتی ہے اسی طرح ہماری جان اور روح ہمارے تمام کاموں اور اخلاق و اعتقادات کو ضبط کر کے اپنے آپ میں محفوظ کرلیتی ہے روح انھیں اعمال کے واسطے سے یا ارتقاء کی طرف بڑھتی ہے یا سقوط اور نزول کا راستہ اختیار کرلیتی ہے_

ہمارے عمدہ اور اچھے اخلاق ہماری روح کو با صفا اور نورانی کردیتے ہیں نیک اعمال اور اچھے اخلاق، عمدہ آثار اور خوشی انسان کی روح میں چھوڑتے ہیں

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302