‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

مؤلف: ‏آیة الله ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 302
مشاہدے: 87741
ڈاؤنلوڈ: 2355


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87741 / ڈاؤنلوڈ: 2355
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد 3

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : تعلیم دین ساده زبان میں (جلد سوم)

تصنیف : آیت اللہ ابراہیم امینی

ترجمه : علامه اختر عباس صاحب

نظرثانی : حجة الاسلام نثار احمد خان

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

تعداد : سه ہزار

کتابت : جعفرخان سلطانپور

۳

عرض ناشر

کتاب تعلیم دین سادہ زبان میں حوزہ علمیہ قم کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت آیہ اللہ ابراہیم امینی کی گراں مایہ تالیفات میں سے ایک سلسلہ ''آموزش دین در زبان سادہ'' کا اردو ترجمہ ہے_

اس کتاب کو خصوصیت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لئے تحریر کیا گیا ہے_ لیکن اس کے مطالب اعلی علمی پیمانہ کے حامل ہیں اس بناپر اعلی تعلیم یافتہ اور پختہ عمر کے افراد بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں_

بچوں اور جوانوں کی مختلف ذہنی سطحوں کے پیش نظر اس سلسلہ کتب کو چار جلدوں میں تیار کیا گیا ہے_ کتاب ہذا اس سلسلہ کتب کی چوتھی جلد کے ایک حصّہ پر مشتمل ہے جسے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر علیحدہ شائع کیا جارہا ہے_

کتاب کے مضامین گو کہ اعلی مطالب پر مشتمل ہیں لیکن انھیں دل نشین پیرائے اور سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بچّوں کے لئے قابل

۴

فہم اوردلچسپ ہوں_

اصول عقائد کے بیان کے وقت فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ نوعمر طلباء اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں_

مطالب و معانی کے بیان کے وقت یہ کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کی فطرت خداجوئی بیدار کی جائے تا کہ وہ از خود مطالب و مفاہیم سے آگاہ ہوکر انھیں دل کی گہرائیوں سے قبول کریں اور ان کا ایمان استوار پائیدار ہوجائے_

ہماری درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمین شیخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں کتابوں کا ترجمہ کیا_

ان کتابوں کو پہلا ایڈیشن پاکستان میں شائع ہوا تھا اور اب اصل متن مؤلف محترم کی نظرثانی کے بعد اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احم د ہندی کی نظرثانی اور بازنویسی کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہا ہے اپنی اس ناچیز سعی کو حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں

ہماری دلی آرزو ہے کہ قارئین گرامی کتاب سے متعلق اپنی آراء اور قیمتی مشوروں سے مطلع فرمائیں

والسلام ناشر محمد تقی انصاریان

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اہداء

پروردگار شہید اور شہادت کے بلند مرتبہ سے تو ہی واقف ہے، جن پاکبازوں نے اپنی ہستی کو تیری راہ میں قربان کر کے انسانیت پر جو عظیم احسان کیا ہے اس کا عوض تیر سوا کوئی نہیں دے سکتا، تیرا لطف ہی ان کے شایان شان ہے_

اے اللہ اگر اس ناچیز کی تیرے نزدیک کوئی قدر و قیمت ہے تو میں اس کا ثواب ایران کے اسلامی انقلاب کے عظیم رہبر نائب امام زمانہ امام خمینی رضو اللہ تعالی علیہ اور ایران کے اسلامی انقلاب کے جاں نثاروں اور تمام شہدائے اسلام کو ہدیہ کرتا ہوں امید ہے کہ وہ اپنے پرودگار کے سامنے نگاہ لطف فرمائیںگے_

مولف

اگر اس ترجمہ کا کوئی ثواب ہے

تو میری نیت بھی مولف کے ساتھ ہے

۶

پہلا حصّہ

جہاں کا خالق خدا

۷

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس حصہ کے آغاز میں ہم چند طالب علموں کی اپنے چچا سے اس دنیا کی پیدائشے کے متعلق اور اس کے نظم و ضبط سے مربوط سادہ اور آسان گفتگو پیش کریں گے اور اسی حصہ میں پھر اس موضوع پر بھر پور روشنی ڈالیں گے_

کائنات کی تخلیق میں ہم آہنگی کس بات کا ثبوت ہے؟

میرے چچا ایک خوش سلیقہ اور محنتی زمیندار ہیں، اپنی دن رات کی کوشش اور محنت سے ایک بہت عمدہ اور خوبصورت باغ اور فارخم بنا رکھا ہے_ وہ دیہات کی زندگی اور زراعت کے پیشے کو بہت دوست رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زراعت بہت عمدہ پیشہ ہے_

بہار کے موسم میں ایک دن انھوں نے ہمیں اپنے باغ میں دعوت دی تھی وہ ایک بہت زیبا اور باصفا باغ تھا اس کے درخت پھولوں سے لدے ہوئے تھے باغ کے وسط میں ایک مکان تھا ہمارے ماں، باپ اور چچا اس مکان میں چلے گئے اور ہم باغ کی سیز میں مشغول ہوگئے وہ دن بہت ہی پر کیف تھا ہم کھیل کھود میں مشغول تھے کہ اتنے میں بادل چھاگئے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی کہ جس نے ہمارے کھیل کود کو ختم کردیا_

۸

ہم دوڑتے ہوئے مکان کی طرف گئے جب ہم مکان تک پہنچے تو بالکل تر ہوچکے تھے میں نے کہا کہ بارش نے ہمارے کھیل کو ختم کردیا ہے کاش بارش نہ آتی اور ہم کھیل کود میں مشغول رہتے_

میرے چچا نے تبسم کیا اور مجھے جب کہ وہ میرے لئے گرم دودھ ڈال رہے تھے کہا کہ بہت زیادہ پریشان نہ ہو، اگر بارش نہ آئے تو ایک مدّت کے بعد پیاس اور بھوک سے گائے مرجائیں گی اس صورت میں تم کیسے دودھ پی سکو گے؟ کیا تمہیں خبر نہیں کہ ہماری اور تمام موجودات کی زندگی کا بارش سے تعلق ہوتا ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اگر بارش نہ آئے تو یہ سر سبز اور خرم درخت اور نباتات خشک اور پمردہ ہوجائیں گے؟ اگر بارش نہ آئے تو ہم بھی زندہ نہ رہ سکیں گے کیونکہ ہم حیوانات کے گوشت اور دودھ سے استفاہ کرتے ہیں اور میوہ جات اور سبزیاں اور اناج سے استفادہ کرتے ہیں؟

اس وقت ایک بچہ نے پوچھا: چچا جان باراش کس طرح بنتی ہے؟ چچا نے کہا: تم نے بہت اچھا اور عمدہ سوال کیا ہے_ کون حسن کا جواب دے سکتا ہے؟ میں جب کہ کھڑکی سے بارش کی موٹی موٹی بوندیں دیکھ رہا تھا اور بارش کے ختم ہوجانے کا انتظار کر رہا تھا_ یہ کتنا عام سوال ہے_ معلوم ہے کہ آسمان کے بادلوں سے بارش ہوتی ہے_

کاش کہ یہ بادل چھٹ جاتے اور بارش ختم ہوجاتی اور ہم پھر سے باغ میں جاتے اور کھیلتے_ چچا ہنسے اور مجھ سے کہا: بیٹے تمہیں کتنا کھیل کود کا خیال ہے_ حسن نے دوبارہ پوچھا کہ آسمان پر بادل کیسے آجاتے ہیں؟

چچا نے کہا کہ بادل دریا اور سمندر سے آسمان پر آجاتے ہیں_ حسن نے پھر پوچھا کہ بادل،

۹

آسمان پر کیسے آتے ہیں؟ یہاں تو کوئی دریا اور سمندر موجود نہیں ہے میں نے کہا: حسن کتنے سوال کر رہے ہو؟ آج تو ان سوالوں کا وقت نہیں، تم پوچھو کہ بارش کب ختم ہوگی؟ چچا ہنسے اور کہا کہ آج ہی تو ان سوالوں کا وقت ہے تم جس چیز کو نہیں جانتے اس کا سوال کرو اگر سوال نہیں کروگے تو اسے معلوم نہیں کرسکوگے_

پھر انھوں نے حسن بھائی کے لباس کی طرف اشارہ کیا اورکہا:

'' تم اپنے بھائی کے لباس پر نگاہ کرو کہ کس طرح اس سے بخارات اٹھ رہے ہیں، پانی کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ گرمی کی درجہ سے وہ بخار بن جاتا ہے اور پھر بخار اوپر اٹھتا ہے، دیکھو اکتیلی سے کس طرح بخار نکل رہے ہیں اور اوپر جارہے ہیں سمندر کا پانی بھی سورج کی تمازت سے بخار بن کر اوپر جاتا ہے اور بخارات ہوا کے چلنے سے چلنے لگتے ہیں اور ادھر ادھر حرکت کرنے لگتے ہیں اور آپس میں اکٹھے ہونے لگتے ہیں اور بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور بارش برسانے کے لئے مہیا ہوجاتے ہیں اور زمین پر بارش برساتے ہیں تا کہ درخت پانی سے سیراب ہوکر پھول اور کونپلیں نکالنے لگیں_

بارش کے قطرے تدریجاً زمین پر پڑتے ہیں اور زمین میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور پھر پہاڑوں کے دامن سے چشموں کی شکل میں پھوٹ پڑتے ہیں اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پائے جاتے ہیں اور بالآخر پھر سے دریا یا سمندر کی طرف لوٹ جاتے ہیں_

۱۰

بارش کے قطرات سخت سردی میں برف کی شکل اختیار کرلیتے اور بہت نرم و خوبصورت ہوکر زمین پر گرپڑتے ہیں_

بچّو سوچو اگر پانی نہ ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو کیا ہم زندہ رہ سکتے؟ سوچو اور دیکھو کہ اگر پانی بخارات نہ بنتا تو کیا ہوتا___؟ اور اگر بخارات، آسمان کی طرف جاتے لیکن برف اور بارش کی شکل میں دوبارہ نہ لوٹتے تو بیابان او رجنگل و زراعت اور صحرا کس طرح سیراب ہوتے___؟

____ غور کرو اور بتاؤ کہ ____؟

اگر بارش قطرہ قطرہ ہوکر نیچے نہ آتی تو کیا ہوجاتا____؟

مثلا اگربارش ایک بہت بڑی نہر کی صورت میں نیچے آتی تو کیا ہوتا؟ آیا تدریجاً زمین پر گرسکتی___ ؟ یا تمام چیزوں کو بہاکر اپنے ساتھ لے جاتی___؟

کیا تم خوب سمجھ چکے ہو کہ بارش کس طرح بنتی ہے___؟ کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ یہ زندگی بخش مادّہ پانی کس حیران کن ضبط اور ترتیب سے مادّہ میں گردش کرتا ہے___؟ اب سمجھ گئے ہو کہ سوال کرنا کتنا فائدہ رکھتا ہے_

''فرشتہ'' نامی لڑکی جواب تک غور سے گفتگو سن رہی تھی، یکدم بولی: کتنا عمدہ اور بہتر سورج، سمندر پر چمکتا ہے اور پانی بخارات بنتا ہے اور پھر اوپر چلاجاتا ہے اور بادل بن جاتا ہے اور ہوائیں اسے ادھر ادھر لے جاتی ہے اور بادل بارش کے قطرات کی

۱۱

صورت میں زمین پر گرتے ہیں اور بیابان و جنگل و زراعت و صحراء کو سیراب کردیتے ہیں_ کتنے دقیق و منظم اور بہتر طریقے سے ایکدوسرے سے ملتے ہیں_

کیا تم بتاسکتے ہو کہ یہ تمام نظم اور ایک دوسرے سے ربط کس ذات نے مختلف اشیاء میں قرار دیا ہے___؟

اس عمدہ اور دقیق ربط کو کس نے ایجاد کیا ہے؟ چچا نے کہا کہ اگر تم مجھے اجازت دو تو اس کے متعلق اپنا نظر یہ بیان کروں اس کے بعد تم بھی اپنے نظریات کا اظہار کرنا_

میرا خیال ہے کہ یہ تمام دقیق ربط اور ضبط اس چیز کی نشاندہی اور گواہی دیتا ہے کہ اسے پیدا کرنے والا بہت دانا اور قدرت رکھنے والا ہے کہ جس نے اس جہاں کو اس مستحکم نظام سے پیدا کیا ہے اور اسے چلا رہا ہے_ میری فکر یہ ہے کہ اس نے اس عمدہ اور دقیق نظام کو اس لئے بنایا ہے تا کہ جڑی، بوٹیاں، درخت و حیوان اور انسان زندہ رہ سکیں_ تمھارا کیا نظریہ ہے____؟

تمام بچّوں نے کہا: چچا جان

''آپ کی بات بالکل صحیح ہے اور درست فرما رہے ہیں_ یہ دنیا اور اس کا نظم و ضبط ایک واضح نشانی ہے کہ کوئی عالم و قادر اور خالق موجود ہے''_

درست ہے کہ بارش کس عمدہ طریقہ سے برستی ہے، بارش کتنی خوبصورت اور فائدہ مند ہے میں نے کہا: یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن بارش نے ہمارے کھیل کو دکو

۱۲

تو ختم کر کے رکھ دیا ہے اگر اسے ختم نہ کرتی تو کتنا اچھا ہوتا_ فرشتہ نامی لڑکی نے تبسّم کیا اور کہا:

'' اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بارش کے برسنے ، ہواؤں کے چلنے، زندہ موجودات اور ان میں محکم نظم و ضبط کو جو موجود ہے خالق جہان کے علم اور قدرت پر ایک واضح علامت اور نشانی قرار دیا ہے''

دیکھو قرآن کیا کہہ رہا ہے ( کہ وہ بارش کہ جسے خدا آسمان سے برساتا ہے اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور حرکت کرنے والے موجودات کو زمین پر پھیلا د یتا ہے_ ہواؤں کے چلنے اور وہ بادل کہ جو زمین اور آسمان کے درمیان موجود ہیں ان سب چیزوں میں ایک واضح نشانی موجود ہے کہ خدا عالم اور قادر ہے البتہ یہ سب ان کے لئے جو عقل اور سوچ رکھتے ہوں اور غور کریں) ہم سب نے چچا اور فرشتہ کا شکریہ ادا کیا_ چچا نے کہا:

شاباش اس پر کہ تم نے یہ تمام گفتگو سنی اور اس کا نتیجہ بھی برآمد کیا''

پھر کمرے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ دیکھو کس طرح بادل ادھر جارہے ہیں شاید چند منٹ کے بعد بارش ختم ہوجائے گی کہ باغ کی طرف جانے اور بہار کی عمدہ ہوا میں کھیل کود اور اللہ تعالی کی اس نعمت پر اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ _ تمام ہنسے اور خوشحال وہاں سے اٹھے اور کھڑکی کے نزدیک بارش کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے_

۱۳

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجئے

۱)___ جب نرگس نے کہا تھا کہ کاش بارش نہ آتی تو چچا علی نے اسے کیا جواب دیا تھا؟

۲)___ بادل آسمان پر کیسے آتے ہیں؟ یہ سوال کس نے کیا تھا؟ اور چچا علی نے اس کا کیا جواب دیا تھا؟

۳)___ ''فرشتہ'' نامی لڑکی نے کون سے سوال پوچھے تھے اور اس کا کس نے اور کیا جواب دیا تھا؟

۴)___ دنیا میں نظم و ضبط کا موجود ہونا کس چیز کی علامت ہے کوئی ایک نظم اور ربط بیان کرو_

۱۴

دنیا میں پانی کی گردش

ہم آہنگی کی ایک عمدہ اور واضح مثال ہے_ موجودات میں پانی کی تقسیم کا نظام بہت تعجب آور ہے پانی کا اصلی مرکز دریا، نہریں اور سمندر ہیں_ ان پر برکت اور مستغنی مراکز سے پانی زمین میں تقسیم ہوتا ہے_ سمندروں اور دریا کا پانی سورج کی تمازت سے آہستہ آہستہ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور آسمان کی طرف چلاجاتا ہے اور ہواؤں کی وجہ سے بخارات ادھر ادھر جات ہیں او ر حب ایک خاص حد تک دباؤ پڑتا ہے تو بخارات بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں یعنی بخارات اکٹھے ہوتے ہیں اور تیز اور سست ہوا کے چلنے سے حرکت میں آجاتے ہیں اور زمین کے مختلف گوشوں میں اکٹھے ہوکر بارش برسانے کے لئے مہیا ہوجاتے ہیں اور بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر درختوں، نباتات اور دور دراز جنگلوں کو سیراب کردیتے ہیں_

بارش کا پانی بالتدریج زمین پر آتا ہے اور زمین میں ضرورت کے ایام کے لئے ذخیرہ ہوجاتا ہے یہ ذخیرہ شدہ پانی کبھی چشموں کی صورت میں پہاڑوں کے دامن سے ابل پڑتا ہے اور کبھی انسان اپنی کوشش اور محنت سے کنویں اور نہرین بنالیتا ہے_

انسان، زمین میں چھپے ہوئے بہترین منابع ہے استفادہ کرتے ہیں_ بارش کے قطرات، خاص حالات کے تحت برف کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور گردش کرتے

۱۵

ہوئے بہت نرمی اور خوبصورتی سے زمین پر گرنے لگتے ہیں_ برف، نباتات کے لئے بہت فائدہ مند ہوتی ہے جو کہ آہستہ آہستہ پانی بن جاتی ہے اور زمین کے منابع میں ذخیرہ ہوجاتی ہے یا نہر اور دریاؤں میں جاگرتی ہے ضرورت مند لوگوں کے کام آجاتی ہے پھر سمندروں میں چلی جاتی ہے_ پانی کا بخارات بننے، اوپر چلاجانے اور ادھر ا دھر پھیل جانے کی خاصیت بھی قابل غور اور لائق توجہ ہے_

اگر ہوا میں طاقت نہ ہوتی تو بادل کیسے ہوا میں پھیلتے اور کیسے ادھر ادھر جاتے؟ اگر سورج میں گرمی اور تمازت نہ ہوتی تو کیا سمندر کے پانی بخارات میں تبدیل ہوجاتے؟ اور اگر سمندر کا پانی سوڈ گری تک گرم ہوجاتا تو کیا تمام موجودات کی ضروریات کے مطابق قرار پاتا___؟ کیا اس صورت میں انسان زندہ رہ سکتا تھا؟ اور اگر بارش قطرات کی صورت میں نہ برستی تو پھر کون سی مشکلات پیدا ہوجاتیں؟ مثلاً اگربارش اکٹھے نہر کی صورت میں زمین پر برستی تو کیا ہوتا___؟ کیا ہوسکتا کہ تدریجاً زمین پر آتی اور زمین میں ذخیرہ ہوجاتی___؟

بارش اور برف کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ ہوا کو صاف اور ستھرا کردیتی ہے اگر بارش ہوا میں زہر اور کثافت کو صاف اور پاک نہ کرتی تو کیا ہم اچھی طرح سانس لے سکتے؟ اب آپ خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ پانی و برف اور بارش میں کتنی قیمتی خصوصیات موجود ہیں_

سمندر، سورج، ہوا، بادل اور بارش کس طرح دقیق نظم و ضبط سے ایک دوسرے سے ربط کے ساتھ کام انجام دے رہے ہیں ؟ یہ کام انجام دیتے ہیں تا کہ ہماری اور حیوانات و موجودات کی زندگی کے وسائل فراہم کریں_ یہ نظم و ضبط اور ترتیب و ہماہنگی اور ہمکاری کس بات کی گواہ ہے___؟ کیا اس کا بہترین گواہ نہیں کہ اس باعظمت جہاں

۱۶

کی خلقت میں عقل اور تدبیر کو دخل ہے؟ کیا یہ نظم و ضبط اور ترتیب و ہماہنگی ہمیں یہ نہیں بتا رہی ہے کہ ایک عالم اور قادر کے وجود نے اس کی نقشہ کشی کی ہے اور یہ وہ ذات ہے کہ جس نے انسان اور تمام موجودات کو خلق فرمایا ہے اور جس چیز کی انھیں ضرورت تھی وہ بھی خلق کردی ہے_

اب جب کہ تم پانی کے خواص اور اہمیت سے اچھی طرح باخبر ہوچکے ہو تو اب دیکھنا ہے کہ اللہ تعالی نے اس نعمت کے مقابلے میں ہمارے لئے کون سا وظیفہ معین کیا ہے؟ اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس پر برکت نعمت سے استفادہ کریں اور اس ذات کی اطاعت و شکریہ ادا کریں اور متوجہ رہیں کہ اسے بیہودہ ضائع نہ کریں اور اسراف نہ کریں بالخصوص نہروں و غیرہ کو آلودہ نہ کریں اور زیرزمین منابع کی حفاظت کریں تا کہ دوسرے بھی اس سے استفادہ کرسکیں_

اس بارے میں قرآن کی آیت ہے:

الله الذی یرسل الرّیاح فتثیر سحابا فیبسطه فی السّماء کیف یشاء و یجعله کسفا فتری الودق من خلاله فاذا اصاب به من یشاء من عباده اذا هم یستبشرون

''خدا ہے کہ جس نے ہوائیں بھیجی ہیں تا کہ بادلوں کو حرکت دیں اور آسمان میں پھیلادیں اور انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بدلیں اور اکٹھا کریں بارش کے قطرات کو دیکھتے ہو کہ جو بادلوں سے نازل ہوتے ہیں_ خدا بارش کو جس کے متعلق چاہتا ہے نازل کرتا ہے تا کہ اللہ کے بندے شاد ہوں''(۱)

____________________

سورہ روم آیت نمبر ۴۸

۱۷

سوالات

ان سوالوں کے جوابات کے سوچو اور بحث کرو

۱)___ موجودات اور مادہ میں پانی کی گردش کس طرح ہوتی ہے؟

۲)___ تم پانی کے فوائد بیان کرسکتے ہو اور کتنے؟

۳)___ جانتے ہو کہ بارش کے آنے کے بعد کیوں ہوالطیف ہوجاتی ہے؟

۴)___ چشمے کس طرح بنتے ہیں؟ نہریں کس طرح وجود میں آتی ہیں، چشموں اور نہروں کا پانی کس طرح وجود میں آتا ہے؟

۵)___ ربط، ایک دوسرے کی مدد، ہم آہنگی، دقیق نظام جو جہاں میں موجود ہے اس کا تعلق طبیعت میں پانی کی گردش سے کیسے ہے؟ اسے بیان کرو_

۶)___ یہ نظم و ترتیب اور ہم آہنگی کس چیز کی گواہ ہے؟

۷)___اس حیات بخش نعمت کے مقابل ہمارا کیا وظیفہ ہے؟ اللہ تعالی نے ہمارے لئے کون سا وظیفہ معین کیا ہے؟

۱۸

ایمان او رعمل

ہماری کلاس کے استا د بہترین استادوں میں سے ہیں_ آپ پوچھیں گے کہ کیوں؟ خوش سلیقہ، بامقصد، مہربان و بردبار اور خوش اخلاق ہیں، وہ ہمیشہ نئی اور فائدہ مند چیزیں بیان کرنا چاہتے ہیں_ سبق پڑھانے میں بہت پسندیدہ طریقہ انتخاب کرتے ہیں_ شاید تمھارے استاد بھی ایسے ہی ہوں تو پھر وہ بھی ایک بہترین استاد ہوں گے_

ایک دن وہ کلاس میں آئے تو ہم ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے_ انھوں نے ہمیں سلام کیا اور ہم سب نے ان کے سلام کا جواب دیا پھر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر درس دینا شروع کردیا اور فرمایا:

''بچّو آج ہم چاہتے ہیں کہ اپنے بدن کے متعلق تازہ اور عمدہ مطالب معلوم کریں_ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ مدد سے کے صحن میں ان اینٹوں کے نزدیک بیٹھ کر درس پڑھیں جو مدرسہ کے ایک گوشہ میں نامکمل عمارت کے پاس پڑی ہیں''؟

آپ کہ یہ خواہش عمدہ تھی اور ہمیں ان کی بات سے بہت خوشی ہوئی اور ہم سب اس طرف چلے گئے مستری اور مزدوروں کو سلام کیا اور اس درس کی کلاس اس نامکمل عمارت کے پاس لگادی_ استاد نے درس دینا شروع کردیا اور فرمایا:

'' جیسے کہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ عمارت مختلف چیزوں سے یعنی

۱۹

اینٹوں، سیمنٹ اور لوے و غیرہ سے بنائی گئی ہے، تم ذرا نزدیک جاکر دیکھو کہ مستری کس طرح اس نقشہ کے مطابق کہ جسے پہلے سے بنا رکھا ہے_ تمام اجزا کو پہلے سے سوچے ہوئے مقامات پر رکھ رہا ہے اور اس کام میں ایک خاص نظم اور تربیت کی مراعات کر رہا ہے_

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی اس سے کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہے آیا تم نے کبھی اپنے بدن کی عمارت میں غور کیا ہے؟ آیا تم اپنے بدن کے چھوٹے اجزاء کو جانتے ہو___؟ ہمارے بدن کی عمارت کے چھوٹے سے چھوٹے جز کو خلیہ کہا جاتا ہے ہمارے بدن کی عمارت ان اینٹوں کی عمارت کی طرح بہت چھوٹے اجزاء سے کہ جسے خلیہ کہا جاتا ہے بنی ہوئی ہے_

تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ذرّہ بین کی اختراع سے پہلے لوگ ان خلیوں سے بے خبر تھے_ علماء نے ذرہ بین کے ذریعہ خلیوں کا پتہ چلایا جس سے معلوم ہوا کہ پورا بدن بہت باریک اور چھوٹے زندہ اجزاء سے بنایا گیا ہے اور ان کا نام خلیفہ رکھا_ بہت سے اتنے چھوٹے ہیں کہ بغیر ذرّہ بین کے نظر نہیں آتے کچھ بغیر ذرہ بین کے بھی دیکھے جاسکتے ہیں_

خلیوں کی مختلف شکلیں ہوا کرتی ہیں اور ہر ایک قسم ایک خاص کام انجام دیتی ہے مثلا معدہ کے خلیے، بدن کے اجزاء کو حرکت میں لاتے ہیں_ بینائی کے خلیے جن چیزوں کو حاصل کرتے ہیں

۲۰