‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110288 / ڈاؤنلوڈ: 3809
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : تعلیم دین ساده زبان میں (جلد سوم)

تصنیف : آیت اللہ ابراہیم امینی

ترجمه : علامه اختر عباس صاحب

نظرثانی : حجة الاسلام نثار احمد خان

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

تعداد : سه ہزار

کتابت : جعفرخان سلطانپور

۳

عرض ناشر

کتاب تعلیم دین سادہ زبان میں حوزہ علمیہ قم کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت آیہ اللہ ابراہیم امینی کی گراں مایہ تالیفات میں سے ایک سلسلہ ''آموزش دین در زبان سادہ'' کا اردو ترجمہ ہے_

اس کتاب کو خصوصیت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لئے تحریر کیا گیا ہے_ لیکن اس کے مطالب اعلی علمی پیمانہ کے حامل ہیں اس بناپر اعلی تعلیم یافتہ اور پختہ عمر کے افراد بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں_

بچوں اور جوانوں کی مختلف ذہنی سطحوں کے پیش نظر اس سلسلہ کتب کو چار جلدوں میں تیار کیا گیا ہے_ کتاب ہذا اس سلسلہ کتب کی چوتھی جلد کے ایک حصّہ پر مشتمل ہے جسے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر علیحدہ شائع کیا جارہا ہے_

کتاب کے مضامین گو کہ اعلی مطالب پر مشتمل ہیں لیکن انھیں دل نشین پیرائے اور سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بچّوں کے لئے قابل

۴

فہم اوردلچسپ ہوں_

اصول عقائد کے بیان کے وقت فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ نوعمر طلباء اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں_

مطالب و معانی کے بیان کے وقت یہ کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کی فطرت خداجوئی بیدار کی جائے تا کہ وہ از خود مطالب و مفاہیم سے آگاہ ہوکر انھیں دل کی گہرائیوں سے قبول کریں اور ان کا ایمان استوار پائیدار ہوجائے_

ہماری درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمین شیخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں کتابوں کا ترجمہ کیا_

ان کتابوں کو پہلا ایڈیشن پاکستان میں شائع ہوا تھا اور اب اصل متن مؤلف محترم کی نظرثانی کے بعد اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احم د ہندی کی نظرثانی اور بازنویسی کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہا ہے اپنی اس ناچیز سعی کو حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں

ہماری دلی آرزو ہے کہ قارئین گرامی کتاب سے متعلق اپنی آراء اور قیمتی مشوروں سے مطلع فرمائیں

والسلام ناشر محمد تقی انصاریان

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اہداء

پروردگار شہید اور شہادت کے بلند مرتبہ سے تو ہی واقف ہے، جن پاکبازوں نے اپنی ہستی کو تیری راہ میں قربان کر کے انسانیت پر جو عظیم احسان کیا ہے اس کا عوض تیر سوا کوئی نہیں دے سکتا، تیرا لطف ہی ان کے شایان شان ہے_

اے اللہ اگر اس ناچیز کی تیرے نزدیک کوئی قدر و قیمت ہے تو میں اس کا ثواب ایران کے اسلامی انقلاب کے عظیم رہبر نائب امام زمانہ امام خمینی رضو اللہ تعالی علیہ اور ایران کے اسلامی انقلاب کے جاں نثاروں اور تمام شہدائے اسلام کو ہدیہ کرتا ہوں امید ہے کہ وہ اپنے پرودگار کے سامنے نگاہ لطف فرمائیںگے_

مولف

اگر اس ترجمہ کا کوئی ثواب ہے

تو میری نیت بھی مولف کے ساتھ ہے

۶

پہلا حصّہ

جہاں کا خالق خدا

۷

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس حصہ کے آغاز میں ہم چند طالب علموں کی اپنے چچا سے اس دنیا کی پیدائشے کے متعلق اور اس کے نظم و ضبط سے مربوط سادہ اور آسان گفتگو پیش کریں گے اور اسی حصہ میں پھر اس موضوع پر بھر پور روشنی ڈالیں گے_

کائنات کی تخلیق میں ہم آہنگی کس بات کا ثبوت ہے؟

میرے چچا ایک خوش سلیقہ اور محنتی زمیندار ہیں، اپنی دن رات کی کوشش اور محنت سے ایک بہت عمدہ اور خوبصورت باغ اور فارخم بنا رکھا ہے_ وہ دیہات کی زندگی اور زراعت کے پیشے کو بہت دوست رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زراعت بہت عمدہ پیشہ ہے_

بہار کے موسم میں ایک دن انھوں نے ہمیں اپنے باغ میں دعوت دی تھی وہ ایک بہت زیبا اور باصفا باغ تھا اس کے درخت پھولوں سے لدے ہوئے تھے باغ کے وسط میں ایک مکان تھا ہمارے ماں، باپ اور چچا اس مکان میں چلے گئے اور ہم باغ کی سیز میں مشغول ہوگئے وہ دن بہت ہی پر کیف تھا ہم کھیل کھود میں مشغول تھے کہ اتنے میں بادل چھاگئے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی کہ جس نے ہمارے کھیل کود کو ختم کردیا_

۸

ہم دوڑتے ہوئے مکان کی طرف گئے جب ہم مکان تک پہنچے تو بالکل تر ہوچکے تھے میں نے کہا کہ بارش نے ہمارے کھیل کو ختم کردیا ہے کاش بارش نہ آتی اور ہم کھیل کود میں مشغول رہتے_

میرے چچا نے تبسم کیا اور مجھے جب کہ وہ میرے لئے گرم دودھ ڈال رہے تھے کہا کہ بہت زیادہ پریشان نہ ہو، اگر بارش نہ آئے تو ایک مدّت کے بعد پیاس اور بھوک سے گائے مرجائیں گی اس صورت میں تم کیسے دودھ پی سکو گے؟ کیا تمہیں خبر نہیں کہ ہماری اور تمام موجودات کی زندگی کا بارش سے تعلق ہوتا ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اگر بارش نہ آئے تو یہ سر سبز اور خرم درخت اور نباتات خشک اور پمردہ ہوجائیں گے؟ اگر بارش نہ آئے تو ہم بھی زندہ نہ رہ سکیں گے کیونکہ ہم حیوانات کے گوشت اور دودھ سے استفاہ کرتے ہیں اور میوہ جات اور سبزیاں اور اناج سے استفادہ کرتے ہیں؟

اس وقت ایک بچہ نے پوچھا: چچا جان باراش کس طرح بنتی ہے؟ چچا نے کہا: تم نے بہت اچھا اور عمدہ سوال کیا ہے_ کون حسن کا جواب دے سکتا ہے؟ میں جب کہ کھڑکی سے بارش کی موٹی موٹی بوندیں دیکھ رہا تھا اور بارش کے ختم ہوجانے کا انتظار کر رہا تھا_ یہ کتنا عام سوال ہے_ معلوم ہے کہ آسمان کے بادلوں سے بارش ہوتی ہے_

کاش کہ یہ بادل چھٹ جاتے اور بارش ختم ہوجاتی اور ہم پھر سے باغ میں جاتے اور کھیلتے_ چچا ہنسے اور مجھ سے کہا: بیٹے تمہیں کتنا کھیل کود کا خیال ہے_ حسن نے دوبارہ پوچھا کہ آسمان پر بادل کیسے آجاتے ہیں؟

چچا نے کہا کہ بادل دریا اور سمندر سے آسمان پر آجاتے ہیں_ حسن نے پھر پوچھا کہ بادل،

۹

آسمان پر کیسے آتے ہیں؟ یہاں تو کوئی دریا اور سمندر موجود نہیں ہے میں نے کہا: حسن کتنے سوال کر رہے ہو؟ آج تو ان سوالوں کا وقت نہیں، تم پوچھو کہ بارش کب ختم ہوگی؟ چچا ہنسے اور کہا کہ آج ہی تو ان سوالوں کا وقت ہے تم جس چیز کو نہیں جانتے اس کا سوال کرو اگر سوال نہیں کروگے تو اسے معلوم نہیں کرسکوگے_

پھر انھوں نے حسن بھائی کے لباس کی طرف اشارہ کیا اورکہا:

'' تم اپنے بھائی کے لباس پر نگاہ کرو کہ کس طرح اس سے بخارات اٹھ رہے ہیں، پانی کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ گرمی کی درجہ سے وہ بخار بن جاتا ہے اور پھر بخار اوپر اٹھتا ہے، دیکھو اکتیلی سے کس طرح بخار نکل رہے ہیں اور اوپر جارہے ہیں سمندر کا پانی بھی سورج کی تمازت سے بخار بن کر اوپر جاتا ہے اور بخارات ہوا کے چلنے سے چلنے لگتے ہیں اور ادھر ادھر حرکت کرنے لگتے ہیں اور آپس میں اکٹھے ہونے لگتے ہیں اور بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور بارش برسانے کے لئے مہیا ہوجاتے ہیں اور زمین پر بارش برساتے ہیں تا کہ درخت پانی سے سیراب ہوکر پھول اور کونپلیں نکالنے لگیں_

بارش کے قطرے تدریجاً زمین پر پڑتے ہیں اور زمین میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور پھر پہاڑوں کے دامن سے چشموں کی شکل میں پھوٹ پڑتے ہیں اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پائے جاتے ہیں اور بالآخر پھر سے دریا یا سمندر کی طرف لوٹ جاتے ہیں_

۱۰

بارش کے قطرات سخت سردی میں برف کی شکل اختیار کرلیتے اور بہت نرم و خوبصورت ہوکر زمین پر گرپڑتے ہیں_

بچّو سوچو اگر پانی نہ ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو کیا ہم زندہ رہ سکتے؟ سوچو اور دیکھو کہ اگر پانی بخارات نہ بنتا تو کیا ہوتا___؟ اور اگر بخارات، آسمان کی طرف جاتے لیکن برف اور بارش کی شکل میں دوبارہ نہ لوٹتے تو بیابان او رجنگل و زراعت اور صحرا کس طرح سیراب ہوتے___؟

____ غور کرو اور بتاؤ کہ ____؟

اگر بارش قطرہ قطرہ ہوکر نیچے نہ آتی تو کیا ہوجاتا____؟

مثلا اگربارش ایک بہت بڑی نہر کی صورت میں نیچے آتی تو کیا ہوتا؟ آیا تدریجاً زمین پر گرسکتی___ ؟ یا تمام چیزوں کو بہاکر اپنے ساتھ لے جاتی___؟

کیا تم خوب سمجھ چکے ہو کہ بارش کس طرح بنتی ہے___؟ کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ یہ زندگی بخش مادّہ پانی کس حیران کن ضبط اور ترتیب سے مادّہ میں گردش کرتا ہے___؟ اب سمجھ گئے ہو کہ سوال کرنا کتنا فائدہ رکھتا ہے_

''فرشتہ'' نامی لڑکی جواب تک غور سے گفتگو سن رہی تھی، یکدم بولی: کتنا عمدہ اور بہتر سورج، سمندر پر چمکتا ہے اور پانی بخارات بنتا ہے اور پھر اوپر چلاجاتا ہے اور بادل بن جاتا ہے اور ہوائیں اسے ادھر ادھر لے جاتی ہے اور بادل بارش کے قطرات کی

۱۱

صورت میں زمین پر گرتے ہیں اور بیابان و جنگل و زراعت و صحراء کو سیراب کردیتے ہیں_ کتنے دقیق و منظم اور بہتر طریقے سے ایکدوسرے سے ملتے ہیں_

کیا تم بتاسکتے ہو کہ یہ تمام نظم اور ایک دوسرے سے ربط کس ذات نے مختلف اشیاء میں قرار دیا ہے___؟

اس عمدہ اور دقیق ربط کو کس نے ایجاد کیا ہے؟ چچا نے کہا کہ اگر تم مجھے اجازت دو تو اس کے متعلق اپنا نظر یہ بیان کروں اس کے بعد تم بھی اپنے نظریات کا اظہار کرنا_

میرا خیال ہے کہ یہ تمام دقیق ربط اور ضبط اس چیز کی نشاندہی اور گواہی دیتا ہے کہ اسے پیدا کرنے والا بہت دانا اور قدرت رکھنے والا ہے کہ جس نے اس جہاں کو اس مستحکم نظام سے پیدا کیا ہے اور اسے چلا رہا ہے_ میری فکر یہ ہے کہ اس نے اس عمدہ اور دقیق نظام کو اس لئے بنایا ہے تا کہ جڑی، بوٹیاں، درخت و حیوان اور انسان زندہ رہ سکیں_ تمھارا کیا نظریہ ہے____؟

تمام بچّوں نے کہا: چچا جان

''آپ کی بات بالکل صحیح ہے اور درست فرما رہے ہیں_ یہ دنیا اور اس کا نظم و ضبط ایک واضح نشانی ہے کہ کوئی عالم و قادر اور خالق موجود ہے''_

درست ہے کہ بارش کس عمدہ طریقہ سے برستی ہے، بارش کتنی خوبصورت اور فائدہ مند ہے میں نے کہا: یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن بارش نے ہمارے کھیل کو دکو

۱۲

تو ختم کر کے رکھ دیا ہے اگر اسے ختم نہ کرتی تو کتنا اچھا ہوتا_ فرشتہ نامی لڑکی نے تبسّم کیا اور کہا:

'' اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بارش کے برسنے ، ہواؤں کے چلنے، زندہ موجودات اور ان میں محکم نظم و ضبط کو جو موجود ہے خالق جہان کے علم اور قدرت پر ایک واضح علامت اور نشانی قرار دیا ہے''

دیکھو قرآن کیا کہہ رہا ہے ( کہ وہ بارش کہ جسے خدا آسمان سے برساتا ہے اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور حرکت کرنے والے موجودات کو زمین پر پھیلا د یتا ہے_ ہواؤں کے چلنے اور وہ بادل کہ جو زمین اور آسمان کے درمیان موجود ہیں ان سب چیزوں میں ایک واضح نشانی موجود ہے کہ خدا عالم اور قادر ہے البتہ یہ سب ان کے لئے جو عقل اور سوچ رکھتے ہوں اور غور کریں) ہم سب نے چچا اور فرشتہ کا شکریہ ادا کیا_ چچا نے کہا:

شاباش اس پر کہ تم نے یہ تمام گفتگو سنی اور اس کا نتیجہ بھی برآمد کیا''

پھر کمرے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ دیکھو کس طرح بادل ادھر جارہے ہیں شاید چند منٹ کے بعد بارش ختم ہوجائے گی کہ باغ کی طرف جانے اور بہار کی عمدہ ہوا میں کھیل کود اور اللہ تعالی کی اس نعمت پر اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ _ تمام ہنسے اور خوشحال وہاں سے اٹھے اور کھڑکی کے نزدیک بارش کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے_

۱۳

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجئے

۱)___ جب نرگس نے کہا تھا کہ کاش بارش نہ آتی تو چچا علی نے اسے کیا جواب دیا تھا؟

۲)___ بادل آسمان پر کیسے آتے ہیں؟ یہ سوال کس نے کیا تھا؟ اور چچا علی نے اس کا کیا جواب دیا تھا؟

۳)___ ''فرشتہ'' نامی لڑکی نے کون سے سوال پوچھے تھے اور اس کا کس نے اور کیا جواب دیا تھا؟

۴)___ دنیا میں نظم و ضبط کا موجود ہونا کس چیز کی علامت ہے کوئی ایک نظم اور ربط بیان کرو_

۱۴

دنیا میں پانی کی گردش

ہم آہنگی کی ایک عمدہ اور واضح مثال ہے_ موجودات میں پانی کی تقسیم کا نظام بہت تعجب آور ہے پانی کا اصلی مرکز دریا، نہریں اور سمندر ہیں_ ان پر برکت اور مستغنی مراکز سے پانی زمین میں تقسیم ہوتا ہے_ سمندروں اور دریا کا پانی سورج کی تمازت سے آہستہ آہستہ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور آسمان کی طرف چلاجاتا ہے اور ہواؤں کی وجہ سے بخارات ادھر ادھر جات ہیں او ر حب ایک خاص حد تک دباؤ پڑتا ہے تو بخارات بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں یعنی بخارات اکٹھے ہوتے ہیں اور تیز اور سست ہوا کے چلنے سے حرکت میں آجاتے ہیں اور زمین کے مختلف گوشوں میں اکٹھے ہوکر بارش برسانے کے لئے مہیا ہوجاتے ہیں اور بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر درختوں، نباتات اور دور دراز جنگلوں کو سیراب کردیتے ہیں_

بارش کا پانی بالتدریج زمین پر آتا ہے اور زمین میں ضرورت کے ایام کے لئے ذخیرہ ہوجاتا ہے یہ ذخیرہ شدہ پانی کبھی چشموں کی صورت میں پہاڑوں کے دامن سے ابل پڑتا ہے اور کبھی انسان اپنی کوشش اور محنت سے کنویں اور نہرین بنالیتا ہے_

انسان، زمین میں چھپے ہوئے بہترین منابع ہے استفادہ کرتے ہیں_ بارش کے قطرات، خاص حالات کے تحت برف کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور گردش کرتے

۱۵

ہوئے بہت نرمی اور خوبصورتی سے زمین پر گرنے لگتے ہیں_ برف، نباتات کے لئے بہت فائدہ مند ہوتی ہے جو کہ آہستہ آہستہ پانی بن جاتی ہے اور زمین کے منابع میں ذخیرہ ہوجاتی ہے یا نہر اور دریاؤں میں جاگرتی ہے ضرورت مند لوگوں کے کام آجاتی ہے پھر سمندروں میں چلی جاتی ہے_ پانی کا بخارات بننے، اوپر چلاجانے اور ادھر ا دھر پھیل جانے کی خاصیت بھی قابل غور اور لائق توجہ ہے_

اگر ہوا میں طاقت نہ ہوتی تو بادل کیسے ہوا میں پھیلتے اور کیسے ادھر ادھر جاتے؟ اگر سورج میں گرمی اور تمازت نہ ہوتی تو کیا سمندر کے پانی بخارات میں تبدیل ہوجاتے؟ اور اگر سمندر کا پانی سوڈ گری تک گرم ہوجاتا تو کیا تمام موجودات کی ضروریات کے مطابق قرار پاتا___؟ کیا اس صورت میں انسان زندہ رہ سکتا تھا؟ اور اگر بارش قطرات کی صورت میں نہ برستی تو پھر کون سی مشکلات پیدا ہوجاتیں؟ مثلاً اگربارش اکٹھے نہر کی صورت میں زمین پر برستی تو کیا ہوتا___؟ کیا ہوسکتا کہ تدریجاً زمین پر آتی اور زمین میں ذخیرہ ہوجاتی___؟

بارش اور برف کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ ہوا کو صاف اور ستھرا کردیتی ہے اگر بارش ہوا میں زہر اور کثافت کو صاف اور پاک نہ کرتی تو کیا ہم اچھی طرح سانس لے سکتے؟ اب آپ خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ پانی و برف اور بارش میں کتنی قیمتی خصوصیات موجود ہیں_

سمندر، سورج، ہوا، بادل اور بارش کس طرح دقیق نظم و ضبط سے ایک دوسرے سے ربط کے ساتھ کام انجام دے رہے ہیں ؟ یہ کام انجام دیتے ہیں تا کہ ہماری اور حیوانات و موجودات کی زندگی کے وسائل فراہم کریں_ یہ نظم و ضبط اور ترتیب و ہماہنگی اور ہمکاری کس بات کی گواہ ہے___؟ کیا اس کا بہترین گواہ نہیں کہ اس باعظمت جہاں

۱۶

کی خلقت میں عقل اور تدبیر کو دخل ہے؟ کیا یہ نظم و ضبط اور ترتیب و ہماہنگی ہمیں یہ نہیں بتا رہی ہے کہ ایک عالم اور قادر کے وجود نے اس کی نقشہ کشی کی ہے اور یہ وہ ذات ہے کہ جس نے انسان اور تمام موجودات کو خلق فرمایا ہے اور جس چیز کی انھیں ضرورت تھی وہ بھی خلق کردی ہے_

اب جب کہ تم پانی کے خواص اور اہمیت سے اچھی طرح باخبر ہوچکے ہو تو اب دیکھنا ہے کہ اللہ تعالی نے اس نعمت کے مقابلے میں ہمارے لئے کون سا وظیفہ معین کیا ہے؟ اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس پر برکت نعمت سے استفادہ کریں اور اس ذات کی اطاعت و شکریہ ادا کریں اور متوجہ رہیں کہ اسے بیہودہ ضائع نہ کریں اور اسراف نہ کریں بالخصوص نہروں و غیرہ کو آلودہ نہ کریں اور زیرزمین منابع کی حفاظت کریں تا کہ دوسرے بھی اس سے استفادہ کرسکیں_

اس بارے میں قرآن کی آیت ہے:

الله الذی یرسل الرّیاح فتثیر سحابا فیبسطه فی السّماء کیف یشاء و یجعله کسفا فتری الودق من خلاله فاذا اصاب به من یشاء من عباده اذا هم یستبشرون

''خدا ہے کہ جس نے ہوائیں بھیجی ہیں تا کہ بادلوں کو حرکت دیں اور آسمان میں پھیلادیں اور انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بدلیں اور اکٹھا کریں بارش کے قطرات کو دیکھتے ہو کہ جو بادلوں سے نازل ہوتے ہیں_ خدا بارش کو جس کے متعلق چاہتا ہے نازل کرتا ہے تا کہ اللہ کے بندے شاد ہوں''(۱)

____________________

سورہ روم آیت نمبر ۴۸

۱۷

سوالات

ان سوالوں کے جوابات کے سوچو اور بحث کرو

۱)___ موجودات اور مادہ میں پانی کی گردش کس طرح ہوتی ہے؟

۲)___ تم پانی کے فوائد بیان کرسکتے ہو اور کتنے؟

۳)___ جانتے ہو کہ بارش کے آنے کے بعد کیوں ہوالطیف ہوجاتی ہے؟

۴)___ چشمے کس طرح بنتے ہیں؟ نہریں کس طرح وجود میں آتی ہیں، چشموں اور نہروں کا پانی کس طرح وجود میں آتا ہے؟

۵)___ ربط، ایک دوسرے کی مدد، ہم آہنگی، دقیق نظام جو جہاں میں موجود ہے اس کا تعلق طبیعت میں پانی کی گردش سے کیسے ہے؟ اسے بیان کرو_

۶)___ یہ نظم و ترتیب اور ہم آہنگی کس چیز کی گواہ ہے؟

۷)___اس حیات بخش نعمت کے مقابل ہمارا کیا وظیفہ ہے؟ اللہ تعالی نے ہمارے لئے کون سا وظیفہ معین کیا ہے؟

۱۸

ایمان او رعمل

ہماری کلاس کے استا د بہترین استادوں میں سے ہیں_ آپ پوچھیں گے کہ کیوں؟ خوش سلیقہ، بامقصد، مہربان و بردبار اور خوش اخلاق ہیں، وہ ہمیشہ نئی اور فائدہ مند چیزیں بیان کرنا چاہتے ہیں_ سبق پڑھانے میں بہت پسندیدہ طریقہ انتخاب کرتے ہیں_ شاید تمھارے استاد بھی ایسے ہی ہوں تو پھر وہ بھی ایک بہترین استاد ہوں گے_

ایک دن وہ کلاس میں آئے تو ہم ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے_ انھوں نے ہمیں سلام کیا اور ہم سب نے ان کے سلام کا جواب دیا پھر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر درس دینا شروع کردیا اور فرمایا:

''بچّو آج ہم چاہتے ہیں کہ اپنے بدن کے متعلق تازہ اور عمدہ مطالب معلوم کریں_ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ مدد سے کے صحن میں ان اینٹوں کے نزدیک بیٹھ کر درس پڑھیں جو مدرسہ کے ایک گوشہ میں نامکمل عمارت کے پاس پڑی ہیں''؟

آپ کہ یہ خواہش عمدہ تھی اور ہمیں ان کی بات سے بہت خوشی ہوئی اور ہم سب اس طرف چلے گئے مستری اور مزدوروں کو سلام کیا اور اس درس کی کلاس اس نامکمل عمارت کے پاس لگادی_ استاد نے درس دینا شروع کردیا اور فرمایا:

'' جیسے کہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ عمارت مختلف چیزوں سے یعنی

۱۹

اینٹوں، سیمنٹ اور لوے و غیرہ سے بنائی گئی ہے، تم ذرا نزدیک جاکر دیکھو کہ مستری کس طرح اس نقشہ کے مطابق کہ جسے پہلے سے بنا رکھا ہے_ تمام اجزا کو پہلے سے سوچے ہوئے مقامات پر رکھ رہا ہے اور اس کام میں ایک خاص نظم اور تربیت کی مراعات کر رہا ہے_

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی اس سے کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہے آیا تم نے کبھی اپنے بدن کی عمارت میں غور کیا ہے؟ آیا تم اپنے بدن کے چھوٹے اجزاء کو جانتے ہو___؟ ہمارے بدن کی عمارت کے چھوٹے سے چھوٹے جز کو خلیہ کہا جاتا ہے ہمارے بدن کی عمارت ان اینٹوں کی عمارت کی طرح بہت چھوٹے اجزاء سے کہ جسے خلیہ کہا جاتا ہے بنی ہوئی ہے_

تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ذرّہ بین کی اختراع سے پہلے لوگ ان خلیوں سے بے خبر تھے_ علماء نے ذرہ بین کے ذریعہ خلیوں کا پتہ چلایا جس سے معلوم ہوا کہ پورا بدن بہت باریک اور چھوٹے زندہ اجزاء سے بنایا گیا ہے اور ان کا نام خلیفہ رکھا_ بہت سے اتنے چھوٹے ہیں کہ بغیر ذرّہ بین کے نظر نہیں آتے کچھ بغیر ذرہ بین کے بھی دیکھے جاسکتے ہیں_

خلیوں کی مختلف شکلیں ہوا کرتی ہیں اور ہر ایک قسم ایک خاص کام انجام دیتی ہے مثلا معدہ کے خلیے، بدن کے اجزاء کو حرکت میں لاتے ہیں_ بینائی کے خلیے جن چیزوں کو حاصل کرتے ہیں

۲۰

اعصاب کے ذریعہ مغز تک منتقل کردیتے ہیں_

ہاضمہ کے خلیے اس کے لیس دار پانی کے ساتھ مل کر غذا کے ہضم کرنے کے نظام کو انجام دیتے ہیں_ یہاں تک کہ بدن کی ہڈیوں کے لئے بھی زندہ خلیے موجود ہوا کرتے ہیں_ بدن کے خلیے ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب سے بدن میں رکھے گئے ہیں ان کے درمیان تعجب آور ہماہنگی اور ہمکاری موجود ہے یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام اور ضرورت کو انجام دیتے ہیں_

یوں نہیں ہوتا کہ معدہ کے ہاضمہ کے خلیے صرف اپنے لئے غذا مہیا کریں بلکہ تمام بدن کے دوسرے خلیے کی بھی خدمات انجام دیتے ہیں اور تمام اعضاء کے لئے غذا بناتے ہیں اگر کسی عضو پر تکلیف وارد ہو تو تمام خلیے اکٹھے ہوکر اس عضو کی تکلیف کو درست کرنا شروع کردیتے ہیں_

ہاں بچو اس نظم و ضبط اور تعجب و ہمکاری سے جو ہمارے بدن میں رکھ دی گئی ہے اس سے ہم کیا سمجھتے ہیں___؟

کیا یہ نہیں سمجھ لیتے کہ ان کو پیدا کرنے والا عالم اور قادر ہے کہ جس نے ہمارے بدن میں ایک خاص نظام اور ہماہنگی کو خلق کیا ہے اور وہ عالم اور قادر ذات ''خدا'' ہے_

بچو تم جان چکے ہو کہ خلیے کس تعجب و نظم اور ترتیب سے ایک دوسرے کی ہمکاری کرتے ہیں___؟

۲۱

اور ایک دوسرے کی مدد و کمک کرتے ہیں اسی وجہ سے خلیے زندہ رہتے ہیں اور زندگی کرتے ہیں_

ہم انسان بھی خالق مہربان کے حکم اور اس کے برگزیدہ بندوں کی رہبری میں انھیں بدن کے خلیوں کی طرح ایک دوسرے کی مدد و ہمکاری اور کمک کریں اگر ہم ایک دوسرے کی مدد کیا کریں تو اس جہاں میں آزاد و کامیاب اور سربلند زندگی کرسکیں گے اور آخرت میں سعادت مند اور خوش و خرم ہوا کریں گے اور اللہ تعالی ہمیں بہت نیک جزا عنایت فرمائے گا_

میں تم سب سے خواہش کرتا ہوں کہ راستے میں جو انیٹیں پڑی ہوئی ہیں سب ملکر انھیں راستے سے ہٹاکر اس مکان کے اندر داخل کردو تا کہ ان مزدوروں کی مدد کرسکو''_

تمام بچوں نے اپنے استاد کی اس پیش کش کو خوش و خرم قبول کرتے ہوئے تھوڑی مدت میں ان تمام اینٹوں کو مکان کے اندر رکھ دیا جو باہر بکھری پڑی ہوئی تھیں_ استاد نے آخر میں فرمایا:

''آج کا سبق ایمان اور عمل کا درس تھا ہم اپنے بدن کی ساخت کے مطالعہ سے اپنے خدا سے بہتر آشنا ہوگئے ہیں اور مزدوروں کی مدد کرنے سے ایک نیک عمل بھی بجالائے ہیں اور اپنے خدا کو خوشنود کیا ہے''_

۲۲

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجئے

۱)___ ہمارے بدن کی ساختمان کے چھوٹے سے چھوٹے جز کا کیا نام ہے؟ تم کو کتنے خلیوں کے نام یاد ہیں___؟

۲)___ معدہ کے ہاضمہ کے خلیہ کا دوسرے خلیوں سے کیا ربط ہے___؟

۳)___ جب کسی خلیہ کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کی ترمیم کردینے سے ہم کیا سمجھتے ہیں، خلی کے ایک دوسرے سے ربط رکھنے سے کیا سمجھا جاتا ہے___؟

۴)___ اگر ہمارے بدن کے خلیے ایک دوسرے سے ہماہنگی نہ کرتے تو کیا ہم زندگی کرسکتے___؟

۵)___ ہمارے بدن میں تعجب آور جو ہماہنگی اور ہمکاری پائی جاتی ہے اس سے ہم کیا سمجھتے ہیں___؟

۶)___ ہم انسان کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کریں___؟

۷)___ استاد نے آخر میں کیا خواہش ظاہر کی، تمھارے خیال میں استاد نے وہ خواہش کیوں ظاہر کی___؟

۸)___ کیا بتاسکتے ہو کہ استاد نے اس سبق کو کیوں ایمان اور عمل کا نام دیا___؟

۲۳

بہترین سبق

دوسرے دن وہی استاد کلاس میں آئے اور کل والی بحث کو پھر سے شروع کردیا اور فرمایا: ''پیارے بچو تم نے کل کے سبق میں پڑھا تھا کہ ہمارے بدن کی ساخت چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر ہوئی ہے کہ جنھیں خلیے کہا جاتا ہے یہ خلیے ایک خاص نظم اور ترتیب سے رکھے گئے ہیں اور خلیے کی ہر ایک قسم اپنے کام سے خو ب آشنا ہے اور اسے بخوبی انجام دیتی ہے_

آج بھی میں اسی کے متعلق گفتگو کروں گا جانتے ہو کہ خلیہ کو کس طرح بنایا گیا ہے، خلیہ ایک خاص مادہ سے بنایا گیا ہے کو جو انڈے کی سفیدی کی طرح ہوتا ہے اور اس کا نام پروٹو پلازم رکھا گیا ہے اور پھر یہی پروٹو پلازم کئی مواد اور اجزاء سے مرکب ہوتا ہے_ تمھیں معلوم ہے کہ ایک سل میں کتنے اجزاء ہیں اور اس میں کام کرنے والے اجزاء کون سے ہیں عمدہ کام کرنے والا جزو وہی پروٹوپلازم ہے یہ حرکت کرتا ہے اور اکسیجن لیتا ہے اور کاربن خارج کرتا ہے، غذا حاصل کرتا ہے تا کہ زندہ رہ سکے پروٹوپلازم غذا کی کچھ مقدار کو دوسرے نئے پروٹوپلازم بنانے میں

۲۴

صرف کرکے تولید مثل کرتا ہے اسی وجہ سے زندہ موجودات رشد کرتے ہوئے اپنی زندگی کو دوام بخشتے ہیں جو اجزاء کو جو بے کار ہوجاتے ہیں ان کی جگہ دوسرے اس قسم کے اجزاء بناتا ہے اور خراب شدہ کی ترمیم کردیتا ہے_

ہر سل کے اندر بہت چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں کہ جنھیں سل کا حصہ یعنی مغز یا گٹھلی کہاجاتا ہے کیا تم جانتے ہو کہ سیلز ( CELLS ) کے یہ مغز کیا کام انجام دیتے ہیں___؟ کیا تم ایک سیل اور ایک اینٹ کا فرق بتاسکتے ہو؟ کیا تم بتاسکتے ہو کہ ان دونوں کی ساخت میں کیا فرق ہے___؟ بچوں نے ان سوالوں کے جوابات دیئے اور ان کے کئی فرق بیان کئے_ اس کے بعد استاد نے پھر سے اسی بحث کو شروع کیا اور پوچھا کہ:

'' کیا تم اپنے بدن میں سیلز کی تعداد کو جانتے ہو؟ کیا جانتے ہو کہ صرف انسان کے مغز میں تقریباً دس میلیارد سیلز موجود ہیں_ کیا تمھیں علم ہے کہ انسان کے خون میں تقریباً پندرہ تریلیوں سیلز موجود ہوتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام سیلز زندہ ہوتے ہیں اور اپنا کام بہت دقت سے ایک خاص نظم و ترتیب سے بخوبی انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام کو پایہ تکمیل پہنچاتے ہیں_

غذا اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور کاربن باہر خارج کردیتے ہیں، تولید مثل کرتے رہتے ہیں_ بعض دیکھنے کے لئے

۲۵

اور بعض سننے کے لئے، بعض ذائقہ اور شامہ کے لئے وسیلہ بنتے ہیں، بعض سے گرمی و سردی اور سختی محسوس کیا جاتا ہے اور یہ بدن کے تمام کاموں کو انجام دیتے ہیں_

انسان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں_ میرے عزیز طالب علمو ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک منظم عمارت کا بنانے والا کوئی نہ ہو بغیر نقشے اور غرض و غایت کے موجود ہوجائے_ تم ایک عمارت کی ترتیب اور نظم سے سمجھ جاتے ہو کہ اس کے بنانے میں عقل اور شعور کو دخل ہے اور یہ از خود بغیر غرض و غایت کے وجود میں نہیں آئی بالخصوص ایسی عمارت کہ جس کے تمام اجزاء آپس میں ایک خاص ارتباط و ہم آہنگی اور ہمکاری رکھتے ہوں_

بچو تم اپنے بدن کی عمارت کی ساخت کے بارے میں کیا کہتے ہو___؟ تم اپنے بدن کے بہت دقیق اور ہم آہنگ سیلز کے متعلق کیا سوچتے ہو___؟ تم ایک ایسی عمارت کے متعلق کہ جو کئی ہزار اینٹوں اور دوسرے ازجزاء سے بنائی گئی ہو کبھی یہ احتمال نہیں دیتے کہ یہ خود بخود وجود میں آگئی ہوگی بلکہ اس میں کوئی شک اورتردید نہیں کرتے کہ اس کے بنانے والے نے اسے علم سے ایک خاص نقشے کو سامنے رکھ کر ایک خاص غرض کے لئے بنایا ہے___؟ اپنے بدن کے متعلق جو کئی ملیارد سیلز سے جو ایک خاص نظم اور ترتیب و تعجب آور ہمکاری اور اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں

۲۶

بنایا گیا ہے_ تم اس کے متعلق کیا نظر رکھتے ہو؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ یہ از خود بن گیا ہوگا___؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ اس کا بنانے والا اور نقشہ کشی کرنے والا کوئی بھی نہ ہوگا؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ اس کا بنانے والا عالم اور قادر نہ ہوگا___؟

کیا احتمال دے سکتے ہو کہ اس کے بنانے میں کوئی غرض و غایت مقصود نہ ہوگی تم کیا کہتے ہو___؟ بتلاؤ

کیا نہیں کہوگے کہ پیدا کرنے والا ایک بہت بڑا عالم اور قادر ہے اور سب کا پہلے سے حساب کر کے انسان کے بدن کو ملیارد سیلز سے اس طرح منظم اور زیبا خلق فرما ہے_ سچ کہہ رہے ہو کہ ہم اس دقیق و زیبا نظم سے جو تعجب آور ہے سمجھ جاتے ہیں کہ اسے خلق کرنے والا عالم اور قادر ہے کہ جس نے اسے اس طرح خلق فرمایا ہے اور اس کو چلا رہا ہے_

سوچو اگر بدن کے سیلز کو غذا اور آکسیجن نہ پہنچے تو وہ کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں اور کام کرسکتے ہیں ؟ اگر غذا کو ہضم کرنے کے لئے سیلز غذا کو جذب اور ہضم نہ کرتے تو بدن کے دوسرے سیلز کہاں سے غذا حاصل کرتے، کس طرح بڑھتے اور رشد کرتے؟ کس طرح تولید مثل کرتے؟

اگر ہاتھ کے اعصاب کے سیلز مدد نہ کریں تو کس طرح غذا کو منھ تک لے جایا جاسکتا ہے؟ اگر پانی و غذا اور آکسیجن موجود نہ ہوتے تو کہاں سے غذا حاصل کی جاتی؟ اگر بدن کے سیلز میں تعاون اور ہمکاری موجود نہ ہوتی تو کیا ہمارا زندگی کو باقی رکھنا ممکن ہوتا؟

۲۷

کیا ان تمام ربط اور ہم آہنگی کے دیکھنے سے خالق کے دانا اور توانا ہونے تک نہیں پہنچا جاسکتا؟ ہم بہت اشتیاق سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس ذات کو بہتر پہچانیں اور اس کا زیادہ شکریہ ادا کریں ہمارے وظائف میں داخل ہے کہ دستورات اور احکام کو معلوم کریں اور ان کی پیروی کریں تا کہ دنیا میں آزاد و کامیاب اور سربلند ہوں اور آخرت میں سعادت مند اور خوش و خرم بنیں_

بچو میں بہت خوش ہوں کہ آج میں نے تمھیں بہترین سبق پڑھایا ہے یہ ''خداشناسی'' کا سبق ہے جو میں نے تمھیں بتلایا ہے_ ''خداشناسی'' کا سبق تمام علوم طبعی اور جہاں شناسی کی کتابوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے''

قرآن مجید کی ایک آیت:

( و فی الارض ایات للموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون ) (۱)

'' زمین میں خداوند عالم کے وجود کے لئے یقین رکھنے والوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں اور خود تمھارے وجود میں بھی اس کے وجود کے لئے علامتیں موجود ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ہو___؟

____________________

۱) سورہ ذاریات آیت نمبر ۲۱

۲۸

سوالات

ان سوالات کے جواب دیجئے

۱) ___ ایک سیل کی تصویر بنایئےور اس کے مختلف اجزاء کے نام بتلایئے

۲)___ تم کن کن سیل کو جانتے ہو، کیا ان کی تصویریں بناسکتے ہو___؟ ایک ایسی تصویر بنایئےو کتاب میں موجود نہ ہو_

۳)___ اپنے بدن کے سیلز کی تعداد کو جانتے ہو___؟ حروف میں لکھو

۴)___ کیا تم بدن کے سیل کا فرق ایک اینٹ سے بتلاسکتے ہو____؟

۵)___ تمام اعضاء کے ربط اور ہم آہنگی سے تم کیا سمجھتے ہو، کیا اس قسم کی مخلوق بغیر کسی غرض اور غایت کے وجود میں آسکتی ہے___؟

۶)___ اگر سیلز کے درمیان تعاون و ربط اور ہم آہنگی نہ ہوتی تو کیا زندگی باقی رکھنا ممکن ہوتا___؟

۷)___ بدن کے سیلز اور ان کے درمیان ربط و ہم آہنگی سے تم کیا سمجھتے ہو_

۸)___ اپنے خالق کے بارے میں ہمارا کیا فریضہ ہے، اگر اس کے احکام کو معلوم کرلیں اور ان کی پیروی کریں تو کس طرح کی زندگی بسر کریں گے___؟

۹)___ کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ استاد نے اس سبق میں کتنے سوال بیان کئے ہیں سبق کو غور سے پڑھو اور دیکھو کہ تمھارا اندازہ ٹھیک ہے؟ سوالوں کو لکھو_

۱۰)___ اس سبق میں اور پہلے دوسبقوں میں تم نے کچھ خالق جہاں کے صفات معلوم کئے ہیں کیا ان کو بیان کرسکتے ہو___؟

۲۹

آپ ربط و ہم آہنگی کے مشاہدے سے کیا سمجھتے ہیں؟

تم یہاں دو قسم کی شکلیں دیکھ رہے ہو ان میں سے کون سی شکل منظم اور مرتبط ہے اور کون سی شکل غیر منظم اور غیر مرتبط ہے؟ کیا بتلاسکتے ہو کہ منظم شکل اور غیر منظم شکل میں کیا فرق موجود ہے___؟

۳۰

ایک منظم اورمرتبط شکل میں ایک خاص غرض اور غایت ہے اس کے تمام اجزاء اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ ان کے ارتباط سے اسی غرض اور غایت تک پہنچنا ممکن ہے اسی بناپر اس شکل کو منظم اور مرتبط کہا جاسکتا ہے کہ جس کے تمام اجزاء بطور کامل ایک دوسرے سے ہم آہنگی او رہمکاری رکھتے ہوں اور ان تمام سے ایک خاص غرض اور غایت حاصل کی جاسکتی ہو مثلا شکل نمبر دو کو ایک منظم اور مرتبط شکل کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے تمام اجزاء اس طرح بنائے گئے ہیں کہ جن سے ایک خاص غرض اور غایت مراد ہے اور وہ ہے ''سوار ہونا'' اور راستہ طے کرنا_

کسی منظم شکل میں ہر ایک جزء کو اس کی مخصوص جگہ پر رکھا جاتا ہے اور وہ دوسرے اجزاء کے ساتھ مل کر ایک مخصوص کام انجام دیتی ہے اگر اسی اس جگہ نہ رکھا جائے تو اس سے پورا کام حاصل نہ کیا جاسکے گا اور وہ کام ناقص انجام پائے گا_

جب ہم دیکھ رہے ہوں کہ کوئی چیز منظم اور مرتبط ہے اور اس کے مختلف اجزاء کسی خاص حساب سے ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور اس کا ہر جزء ایک مخصوص کام اور ایک خاص اندازے سے انجام دے رہا ہو مثلا شکل نمبر دو میں پہئے ایک خاص مقدار سے بنائے اور ایک خاص جنس سے بنائے گئے ہیں_ گدی بیٹھنے کے لئے، بریک روکنے کے لئے، گھنٹی ہوشیار کرنے کے لئے، بتیاں اور پیٹروں کی جگہ ایک خاص جنس سے بنائی گئی ہے اور یہ ایک خاص اندازے اور حساب سے ایک دوسرے سے مرتبط کر کے رکھے گئے ہیں کہ اگر وہ اس طرح منظم اور حساب کے ساتھ رکھے نہ جاتے تو وہ کسی کام نہ آتے اور وہ اس غرض و غایت کی بجاآوری نکے لئے بے فائدہ ہوتے کہ جوان سے مقصود تھی_

اب تم ان سوالوں کے جوابات دو_

۳۱

ایک منظم اور مرتبط شکل کے مشاہدے سے کہ جو وقت اور حساب سے کسی خاص جنس سے کسی خاص ہیئت میں بنائی گئی ہو اور اس کے اجزاء کے ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کے کام میں تعاون سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ایسی شکل اور چیز کے بنانے والے کے متعلق یہ نہ سمجھیں گے کہ وہ باشعور و عالم و دانا اور اس قسم کی چیز کے بنانے پر قادر تھا اور ایسی ذات کا ہونا اس صورت میں ضروری نہ ہوگا؟ اگر کوئی عالم اور قادر نہ ہو تو کیا شکل نمبر ایک کو شکل نمبر دو میں تبدیل کرسکتا ہے___؟ حالانکہ شکل نمبر ایک بھی خاص اجزاء متفرق کا مجموعہ ہے کہ جسے ایک خاص جنس او رکسی خاص شکل و اندازے کے مطابق بنایا گیا ہے جس کے بنانے میں بھی ایک عالم اور قادر کی ضرورت ہے_ کیا تم یہ بتاسکتے ہو کہ ایک منظم شکل کے دیکھنے سے اس کے بنانے والے کے متعلق اس کے قادر، عالم و دانا ہونے اور آیندہ نگری کو معلوم نہیں کیا جاسکتا ___؟

دنیا اور اپنے خالق کے قادر و عالم ہونے کے متعلق اس سے زیادہ معرفت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے بدن کے بنانے اور اس میں حیرت انگیز نظم و ربط اور دنیا کی دوسری اشیاء کو دیکھیں اور سوچیں کہ بدن کے جس حصہ کو دیکھیں اس میں حیران کن ہم آہنگی او رتعجب انگیز نظم و ربط کو دیکھ سکتے ہیں؟

بینائی اور سماعت کے حصے کو غور سے دیکھیں یا دل کے کام کو ملاحظہ کریں یا پھیھپڑے اور جکر کو غور سے دیکھیں تو ان میں سے ہر ایک میں سوائے ایک خاص نظم اور ربط کے کچھ اور دیکھ سکیں گے___؟

(اس کے بعد والے سبق میں ہم کلیہ اور پیشاب کے باہر پھینکنے والے حصّے کو بیان کریں گے)

۳۲

اپنے آپ کو دیکھیں

آپ نے ابھی گردے دیکھے ہیں اگر نہیں دیکھے تو ایک گوسفند کے گردے لے آئیں اور انھیں غور سے، قریب سے دیکھیں_ انسان کے بھی دو گردے ہوتے ہیں_ تم بھی یقینا دو گردے رکھتے ہو_ کیا تم دو عدد عمدہ اور چھوٹے عضو کے کام اور اہمیت کو جانتے ہو؟ کیا تم جانتے ہو کہ اگر تمھآرے بدن میں یہ چھوٹے دو عضو نہ رکھے جاتے تو کیا ہوتا___؟ آپ کے پیدا ہونے کے دن ہی آپ کے تمام بدن میں زہریلا مواد پیدا ہوجاتا اور زیادہ مواد اکٹھا ہوکر تمام بدن پر چھا جاتا اور پھر تمھاری موت یقینی ہوجاتی_

کیا تم جانتے ہو کہ پیشاب کے خارج کرنے والا عضو اور حصہ کن کن چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے___؟ کیا تم جانتے ہو کہ خود پیشاب کن کن چیزوں سے بنتا ہے اور کس طرح بدن سے خارج ہوتا ہے؟ انسان کے بدن میں کچھ زائد مواد اکٹھا ہوجاتا ہے کہ جس کا بدن میں باقی رہنا انسان کی سلامتی اور زندگی کے لئے خطرناک ہوتا ہے ضروری ہے کہ وہ انسانی بدن سے خارج ہوجائے اس زائد مواد میں سے ایک سفید رنگ کا ماہ ہے کہ جسے (اورہ) کہاجاتا ہے یہ حیوانی غذا اور ان پروٹین سے جو بدن کے سیلز کے کام آتے ہیں پیدا ہوجاتا ہے یہ اور دوسرے مواد جو مضر ہوتے ہیں ایک عمدہ اور شائستہ حصہ کے ذریعہ جو خون سے پیشاب کو حاصل کرتا ہے اور بدن سے باہر نکال دیتا ہے وہ حصہ جو پیشاب بناتا اور باہر پھینکتا ہے ایک بہت منظم و دقیق عضو اور حصّہ

۳۳

ہے کہ جس میں سیکڑوں دقیق اور عمدہ اجزاء رکھے گئے ہیں کہ جس سے بہت زیادہ تعجب اور حیرت ہوتی ہے_

درج ذیل شکل کو دیکھئے اور غور سے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ پیشاب والا عضو اور مقام کن کن چیزوں سے بنایاگیا ہے_

مثانہ گردےونیرنالی وگردے:

گردے لوبیا کی شکل کے ہوتے ہیں سرخ رنگ معدے اور جگر کے پیچھے دو عضو ہوتے ہیں اور انسان کے مہروں کے ستون کے دونوں طرف واقع ہوتے ہیں_ ہر انسان کے دو گردے ہوتے ہیں، گردوں کی ساخت کئی نالیوں سے ہوتی ہے _ تم جانتے ہو کہ گردے کتنی نالیوں سے بنائے گئے ہیں___؟

ہر ایک گردے میں ایک ملیون کے قریب نالیاں ہوتی ہیں ان کے اطراف میں مو ہرگیا سے جالی نے گھیر رکھا ہے، خون ایک بڑی سرخ رگ کے ذریعہ ان میں داخل ہوتا ہے اور ان میں گردش کرنے کے بعد ایک سیاہ رگ سے خارج ہوجاتا ہے، اس سرخ رگ کو بڑے اہتمام سے بنایا گیا ہے کہ جس کی تفصیل تم علوم طبعی کی کتابوں میں پڑھا کرتے ہو_

۲)نیرنالی :

ہر ایک گردے سے ایک نالی باہر نکلی ہوتی ہے جو مثانہ سے گردے کو ملائے رکھتی ہے اس نالی کا نام ''نیرنالی'' ہے انھیں میں خون سے زائد مواد اکٹھا ہوجاتا ہے او رپیشاب گردے سے مثانہ میں وارد ہوجاتا ہے_

۳) مثانہ:

یہ ایک چھوٹاسا کیسہ ہے کہ جن کی کیفیت پلاسٹیک کی طرح ہوتی ہے کہ جو کہ پھیل سکتا ہے یہ انسان کے پیٹ کے نیچے کی طرف واقع

۳۴

ہوتا ہے_ جب مثانہ کی دیوار خالی ہو تو یہ تقریبا پندرہ ملی میٹر تک کا ضخیم ہوتا ہے اور جب یہ پیشاب سے پر ہوجائے تو پھیل جاتا ہے اور اس کی دیوار کی ضخامت تین سے چار ملی میٹر تک ہوجاتی ہے_ مثانہ کی دیوار میں تین عدد مسل ماہیچہ رکھے ہوئے ہیں کہ جو پیشاب کے خارج ہونے کے وقت اس کے منقبض ہونے میں مدد دیتے ہیں_

۴) پیشاب کے خارج ہونے کا راستہ:

یہ مثانہ کو باہر کی طرف مرتبط کرتا ہے، ابتداء میں اس میں دو ماہیچہ ہوتے ہیں کہ جو عام حالات میں پیشاب کو خارج ہونے سے روکے رکھتے ہیں، بدن میں گردے ایک صاف کرنے والی چھلنی کی طرح ہوتے ہیں_ سرخ رگ کے ذریعہ خون گردے میں وارد ہوتاہے_

۳۵

اور وہ مویرگ میں تقسیم ہوجاتا ہے اور جب ان سے عبور کرتا ہے تو اپنے ہمراہ معمولی پانی اور اورہ، آسیدہ، اوریک، نمک اور گلوگز جالیوں سے ترشح کرتے ہوئے پیشاب کی نالیوں میں وارد ہوتا ہے_ اس وقت معمولی پانی، نمک اور گلوگز ان نالیوں کی دیواروں میں جذب ہوکر دوبارہ خون میں لوٹ جاتا ہے_

تعجب اس ہوتا ہے کہ اگر بدن میں پانی ضرورت کے مطابق نہ ہو تو پھر زائد پانی گردوں سے مثانہ میں وارد نہیں ہوتا اور صرف اورہ، آسید، اوریک اور معمولی پانی پیشاب کی نالیوں سے نیرنالیوں میں وارد ہوتا ہے اور وہاں سے قطرہ قطرہ ہوکر مثانہ میں جمع ہوتا رہتا ہے_

گردے نہ صرف کمال وقت سے اورہ، رسید، اوریک کو خون سے لیتے ہیں اور اسے صاف کرتے ہیں بلکہ بدن کے مختلف مواد کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں مثلاً اگر خون میں شوگر یا نمک ضرورت سے زائد ہوجائے تو زائد مقدار کو لے کر بدن سے باہر پھینک دیتے ہیں_

مثانہ کافی مقدار میں پیشاب کو محفوظ رکرسکتا ہے اور جب پیشاب کی مقدار بہت زیادہ ہوجائے اور مثانہ کی ظرفیت پر ہوجائے تو پھر وہی ماہیچہ حرکت کرتے ہیں اور اس صورت میں وہی دو ماہیچے پیشاب کے مجری کو کھولتے اور بند کرتے ہیں اور پیشاب کی ایک مقدار مثانہ میں وارد ہوجاتی ہے اور اس میں سوزش پیدا کردیتی ہے اگر اسے اپنے اختیار سے باہر نہ نکالا گیا تو پھر مثانہ کا منھ قہراً کھل جاتا ہے اور پیشاب باہر نکل آتا ہے_

آپ اس وقت اور تعجب آور صنعت کے بارے میں جو اس عضو کے کام میں لائی گئی ہے خوب سوچیں اور اس نظم، مزید ہم آہنگی کو جو خون کی گردش گردوں میں اور گردوں

۳۶

کا ارتباط ینرنالی سے اور اس کا مثانہ سے موجود ہے_ تامّل اور غور سے دیکھیں تو کیا یہ ایک ایسا حصہ نہ ہوگا جو منظم اور کسی خاص غرض کے لئے بنایا گیا ہو___؟

یا یہ ایک ایسا حصہ اور عضو ہوگا کہ جس میں کوئی غرض اور غایت مد نظر نہ رکھی گئی ہو بلکہ اسے ایک غیر منظم حصہ مانا جائے___؟ کیا گردوں کی کوئی خاص غرض ہوگی کہ جس کا اسے ذمہ دار اور پابند سمجھا جائے___؟ کیا ہم اس خون کے باوجود جو زہر سے اور زائد مواد سے پر ہو زندہ رہ سکتے تھے___؟ اگر یہ عضو مرتبط اور ہم آہنگ نہ ہوتا اور نیرنالی کی نالیاں نہ ہوتیں تو گردے زائد مواد کو خون سے لے کر کہاں پہنچاتے___؟

اگر ہمارا مثانہ نہ ہوتا کہ جس میں پیشاب جمع ہوجاتا ہے تو مجبوراً پیشاب قطرہ قطرہ ہوکر باہر نکلتا رہتا تو اس وقت کیا کرتے___؟ اگر پیشاب کے خارج کرنے کے دروازے ہمارے اختیار میں نہ ہوتے تو پھر کیا ہوتا___؟

اس دقیق اور مہم عضو اور حساس حصّہ کے دیکھنے سے ہم کیا سمجھتے ہیں؟ اس منظم اور دقیق حساب سے جو اس عضو میں رکھا گیا ہے اور اس حصہ کی اس طرح کی شکل ہے جو بنائی گئی ہے اور اس میں جو نظام ربط اور ہم آہنگی رکھی گئی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ہمیں یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ یہ منظم اور دقیق حساب جو اس عضو اور بدن کے دوسرے اعضاء میں موجود ہے از خود، بغیر کسی غرض اور حساب کے موجود نہیں ہوا___؟

کیا یہ کسی عاقل اور صاحب بصیرت کے لئے ممکن ہے کہ وہ قبول کر لے کہ سیاہ اور خاموش، بے شعور طبیعت و مادّہ سے یہ تعجب آور اور حیران کن نظم، وجود میں آیا ہے؟ صاحب عقل اور سمجھدار اناسان کو یقین ہوجائے گا کہ کسی عالم اور قادر ذات نے اسے خلق فرمایا ہے کہ جس میں اس نے ایک خاص غرض و غایت، مد نظر رکھی ہے اس سوچ کے بعد ہر عقلمند کا ان تمام اسرار اور مصالح کے دیکھنے کے بعد خالق جہاں جو ''عالم اور توانا'' ہے

۳۷

کے متعلق یقین زیادہ محکم اور مضبوط ہوجائے گا، اس کی اس عظیم قدرت اور فراوانی نعمت کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا_

قرآن کی آیت :

( قل انظروا ماذا فی السّموات و الارض ) ___(۱)

'' کہہ دیجئے کہ جو کچھ زمین اور آسمان میں موجود ہے اسے دیکھو''

____________________

۱) سورہ یونس آیت نمبر ۱۰۱

۳۸

سوالات

جواب دیجئے

۱) ___ایک منظم و مرتبط شکل میں اور ایک غیر منظم و غیر مرتبط شکل میں کیا فرق ہے؟

۲)___ ایک ایسے حصہ سے جو منظم اور مرتبط ہوگیا سمجھاتا جاتا ہے___؟

۳)___ ایک حصہ کے بنانے میں جو منظم اور پناتلا ہو اس کے بنانے والے کے لئے عالم اور قادر ہونا ضروری سمجھتے ہو اور کیوں___؟ وضاحت کرو_

۴)___ تمھارے گردے کتنے ہیںاور بدن کے کس حصہ میں واقع ہیں؟ بیان کرو اور گردوں کی شکل بناؤ

۵)___ گردوں کی ساخت کس طرح ہوتی ہے اور ان کا کام کی ہے؟ کیا گوسفند کا گردہ کلاس میں لاسکتے ہو؟ وضاحت کرو_

۶)___ رنیرنالی کا کیا کام ہے؟ مثانہ کی دیوار کس طرح ہوتی ہے اور مثانہ کا کیا کام ہے___؟

۷)___ گردوں کے بعض تعجب آور کام کو بتایئے

۸)___ گردوں کے کام اور دوسرے اعضاء سے ان کے ارتباط کو دیکھنے سے کیا سمجھاجاتا ہے؟ کیا تمھیں یہ ایک بے غرض اور غیر منظم حصہ نظر آتا ہے یا یہ ایک منظم اور بامقصد عضو معلوم ہوتا ہے؟

۹)___ ہم جہان عالم کی پر اسرار اور مصالح کی پیدائشے و خلقت سے کیا سمجھتے ہیں اور اس سے کیا نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں___؟

۳۹

خالق جہان کے صفات کمالیہ

۱) ___ تم چل سکتے ہو، فکر کرسکتے ہو، کھاپی سکتے ہو اور کتاب پڑھ سکتے ہو؟ لیکن کیا یہی کام پتھر کا ایک ٹکڑا انجام دے سکتا ہے؟

یقینا جواب دوگے کہ نہیں یہ کام پتھر انجام نہیں دے سکتا پس تم ان کاموں کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہو لیکن پتھر ایسی قدرت نہیں رکھتا_ کیا تم ان امور کے لحاظ سے پتھر پر کوئی خصوصیت رکھتے ہو___؟ کون سی خصوصیت___؟ تم کامل ہو یا پتھر کا ٹکڑا___؟ کیا جواب دوگے___؟

یقینا تمھارا یہ جواب ٹھیک ہوگا کہ تم یہ کام کرسکتے ہو لیکن پتھر یہ کام نہیں کرسکتا پس تم کامل تر ہوگئے کیونکہ ان کاموں کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہو تو پھر قدرت کو ایک کمال کی صفت قرار دیا جاسکتا ہے یعنی قدرت، کمال کی صفت ہے_

۲)___ تم بہت سی چیزوں کو جانتے ہو یعنی تمھیں ان کا علم ہے، تمھارے دوست بھی بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں اور انھیں بھی ان کا علم ہے_ مخلوقات میں سے بعض کو علم ہوتا ہے اور بعض کو علم نہیں ہوتا_ انسان ان میں سے کون سی قسم میں داخل ہے؟ پتھر، لکڑی اور لوہا ان میں سے کون سی قسم میں داخل ہیں؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302