‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 302
مشاہدے: 103110
ڈاؤنلوڈ: 3563


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 103110 / ڈاؤنلوڈ: 3563
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد 3

مؤلف:
اردو

موجود ہیں، سے استفادہ کرتے ہیں اور انسانوں کے لئے غذا اور پوشاک مہيّا کرتے ہیں، حیوان چارہ کھاتے ہیں اور انسانوں کے لئے خوراک اور پوشاک مہیا کرتے ہیں_

خلاصہ

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

جب ابّا کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو فرشتہ خانم نے سیب سے بھری ہوئی ٹرے اٹھائی اور ماں کے سامنے پیش کی اور کہا اس سے کچھ لیجیئے کیونکہ آپ نے نہیں سنا

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

اس کے بعد ٹرے اس نے چچا کے سامنے پیش کی اور چچا نے وہ سیب سے بھری ٹرے ابّا اور ہمارے سامنے پیش کی اور ہنستے ہوئے فرمایا بچّو تم بھی سیب اٹھاؤ اور اسکے کھاؤ اور کہیں غفلت میں کھانا شروع نہ کردینا پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لینا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا_ ہم چاہتے ہیں کہ تمام اکٹھے باغ میں چلیں اور سیب چینیں کیونکہ آج عصر کے وقت کچھ سیب مجاہدین کی بس کے ذریعے فوجیوں اور ملک کے حفاظت کرنے والے پاسداروں کو بھیجنے ہیں تا کہ وہ بھی اللہ تعالی کی اس نعمت سے استفادہ کریں کیونکہ وہ اسلام کے سپاہی اور قرآن کے محافظ ہیں اور دین و وطن اور اسلامی انقلاب کی پاسداری کرتے ہیں_ اٹھو اور باغ چلیں اور باقی گفتگو کو کل اور اس کے بعد کے لئے چھوڑ دیتے ہیں_

۶۱

سوالات:

یہ سوالات، بحث اور گفتگو کرنے کے لئے بیان کئے گئے ہیں

۱)___ جب نرگس اور اس کے بہن بھائی چچا کے باغ تک پہنچے تو باغ کا دروازہ بند تھا یا کھلا ہوا تھا؟ کیا نظارہ اور ماحول تھا؟ بچے کیا چاہتے تھے؟ کہ باپ نے انھیں کہا کہ ٹھہرو تا کہ دروازہ کھٹکھٹائیں_

۲)___جب ان کے چچا علی نے دیکھا کہ دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں تو اس نے کیا کہا تھا؟ تمھاری نگاہ میں چچا علی خوش اخلاق تھے؟ اس کے ثابت کرنے کے لئے اس سبق اور سابقہ سبق سے کچھ دلائل بیان کرسکتے ہو؟

۳)___ جب چچا علی نے نرگس اور دوسرے بچوں کو سیب دیئے تو کیا کہا؟ حسن نے اس وقت کیا کہا؟ آپ کی نگاہ میں حسن کیسا بچہ ہے؟ آیا غور و فکر کرنے والا لڑکا ہے اور کیوں؟

۴)___ جب چچا علی ہنسے اور اپنے بھائی سے کہا کہ تم نے بہت اچھا درس حاضر کردیا ہے تو اس کے بھائی نے اس کا کیا جواب دیا؟ کیا تم اس کی طرح پانی کی گردش اور دنیا کی خلقت کی غرض و غایت کی توضیح بیان کرسکتے ہو؟ یقینا ایسا کرسکو گے؟ تجربہ کرو_

۵)___ نرگس کے باپ نے اپنی گفتگو کو بطور خلاصہ ایک شعر میں بیان کیا، کیا تمھیں وہ شعر یاد ہے؟ فرشتہ خانم نے اس شعر کو کس طرح پڑھا تھا؟ تمھاری نگاہ میں فرشتہ خانم خوش سلیقہ اور خوش ذوق لڑکی ہے اور کیوں؟

۶۲

۶)___ اللہ تعالی کی نعمتوں کو غفلت کی حالت میں نہ کھا بیٹھنے کے لئے ہمیں کون سا کام انجام دینا چاہئے؟ علی نے اس بارے میں کیا کہاتھا؟

۷)___ چچا علی نے کہا تھا کہ وہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ کریں گے، اس سے ان کا قصد کن لوگوں کے متعلق تھا_ وہ کیوں پسند کرتا تھا کہ وہ لوگ بھی اس سے استفادہ کریں وہ اللہ تعالی کا شکریہ کون سے اعمال کر کے بجالاتے ہیں؟

۶۳

(۲) عمل کا ثمر

ہم جمعرات کو صبح جلدی میں اٹھے باغ کے وسط میں بہنے والی نہر سے وضو کیا اور کمرے میں جا کر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے_ چچا علی نے نماز کے بعد بلند آواز سے قرآن اور دعا پڑھنی شروع کردی ہم بھی ان کے ہمراہ دعا اور قرآن پڑھنے لگے، کاش تم بھی ہوتے کیسی عمدہ نماز اور با اخلاص دعا پڑھی گئی، کتنی بہترین صبح تھی، بہت اچھی ہوا اور باصفا ماحول تھا_ کاش تم بھی وہاں ہوتے اور سورج بلند پہاڑوں اور خوش و خرم اور سبزہ زار جنگلوں سے خوبصورتی کے ساتھ نکلنے کا نظارہ کرتے، ابّا کھڑکی کے پیچھے کھڑے تھے اور سورج کے طلوع کا حسین منظر دیکھ رہے تھے اور کل والے شعر کو گنگنا رہے تھے:

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

چچا علی کی بیوی فرشتہ خانم نے سماور کو جلایا_ میں نے اور حسن نے طاقچے سے ایک رسالہ اٹھایا اور اس کے ورق الٹنے لگا اس کے ایک صفحہ پر ایک شہید کا وصیت نامہ نظر سے گذرا_ فرشتہ خانم نے پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ تھوڑا آواز سے پڑھو کہ میں بھی سن سکوں_ صفحہ کی ابتداء میں ایک آیت کا یہ ترجمہ لکھا ہوا تھا:

۶۴

''جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں انھیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں''

اس کے بعد اس شہید کا یہ وصیت نامہ درج تھا_

''اللہ کے راستے میں شہید ہونا کتنا اچھا ہے یہ پھول کی خوشبو کی طرح ہے میں اس سرزمین میں دشمن سے اتنا لڑوں گا کہ یا فتح ہمارے نصیب ہوگی اور یا درجہ شہادت پر فائز ہوجاؤںگا_

اگر اسلام اور قرآن کی راہ میں شہید ہونے کی لیاقت نصیب ہوگی تو اس وقت میری ماں کو اس کی مبارکباد دینا کیونکہ میں اللہ کا مہمان ہوگیا ہوں واقعاً خدا کی راہ میں مرنا کتنا اچھا ہے''

حسن نے پوچھا چچا جان شہید کیسے اللہ کی مہمان کے لئے جاتا ہے، موت کیا ہے اور شہادت کیا ہے___؟ چچا بولے ''ناشتہ کے بعد ان سوالات کے بارے میں گفتگو کروں گا اب تم ناشتہ کرلو''_ جب ہم ناشتہ کرچکے تو میری ماں کی مدد سے فرشتہ خانم نے دسترخوان اکٹھا کیا اور اس وقت چچا بولے:

''تمھیں یاد ہے کہ آبا نے کل کیا کہا تھا؟ تمھیں یاد ہے کہ کائنات کی خلقت اور اس کے اغراض و مقاصد کے سلسلے میں انھوں نے مطالب بیان کئے تھے ____؟ جیسے کہ ابّا نے بیان کیا تھا کہ عالم مادی، اللہ تعالی کے ارادے او رحکم سے ہمیشہ تغیر و تبدل میں ہے تا کہ اس سے وہ انسانوں کی خدمت بجالائے اور ہماری کوشش و محنت کو بار آور قرار دے اپنی زندگی میں غور کرو_

۶۵

انسان ابتداء میں کمزور اور ایک چھوٹا سا وجود تھا، سرعت کے ساتھ اس عمدہ ہدف کی طرف جو اس کے لئے اللہ تعالی نے معین کر رکھا تھا حرکت کر رہا تھا، دودھ پیتا تھا اور بڑھ رہا تھا، غذا کھاتا تھا اور بڑا ہو رہا تھا اور رشد کر رہا تھا، کام کرتا تھا اور تجربہ حاصل کر رہا تھا اور خارجی دنیا سے وابستگی حاصل کر رہا تھا، علم حاصل کرتا تھا اور مادّی دنیا کی طبعی ثروت سے اور اپنے کام کے نتائج اور حیوانات و نباتات اور درختوں کی کوشش سے ا ستفادہ کر رہا تھا، اپنے جسم اور جان کی پرورش کر رہا تھا مختصر یہ کہ تمام موجودات عالم کوشش اور محنت کر رہے ہیں تا کہ وہ انسان کی خدمت بجالائیں اور انسان کی زندگی کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اسے کمال تک پہنچائیں لیکن اسی حالت میں اسے موت آپہنچتی ہے اور انسان کا جسم حرکت کرنا بند کردیتا ہے''_

آپ کیا فکر کرتے ہیں___؟ کیا انسان موت کے آجانے سے فنا اور نابود ہوجاتا ہے___؟ اس صورت میں تمام عالم کے موجودات کی تلاش اور کوشش جو انسان کی زندگی کے لئے کر رہے تھے بے کار نہ ہوگی___؟ اور تمام عالم کے موجودات کی کوشش اور حرکت لغو اور بے فائدہ نہ ہوگی___؟ کیا انسان اپنی کوشش اور محنت کا کوئی صحیح اور مثبت نتیجہ حاصل نہیں کرتا___؟ کیا انسان اور تمام عالم کی کوشش اور تلاش بے کار نہ ہوجائے گی___؟

نہیں اور بالکل نہیں انسان اور تمام عالم اور جہاں کی خلقت، لغو اور بے غرض

۶۶

نہیں ہے_ خداوند عالم نے اس منظم کائنات کو فنا اور نابود ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو ہمیشگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ اس جہاں سے عالم آخرت کی طرف جو باقی اور ہمیشہ رہنے والا ہے منتقل ہوجاتا ہے اور آخرت میں ان تمام کاموں کا ثمرہ پائے گا جو اس مادّی عالم میں انجام دیئے ہوتے ہیں اور پھر اس عالم آخرت میں ہمیشہ کے لئے زندگی گذارے گا_

موت ایک پل ہے جو نیک بندوں کو آخرت اور اللہ تعالی کی محبت و شفقت کی طرف منتقل کردیتا ہے_ اللہ تعالی کی یہ محبت اور نعمتیں اس کے نیک کاموں کا ثمرہ ہوا کرتی ہیں_ یہ پل گناہگار انسنوں کو ان کے برے کردار کی سزا اور جہنم کے سخت عذاب تک جا پہونچاتا ہے_

اب تم سمجھے کہ موت کیا ہوتی ہے___؟ موت ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا نام ہے جس طرح تم اپنے گھر سے پھل چننے کے لئے اس باغ میں آئے ہو اسی طرح نیک بندے اللہ تعالی کی خوبصورت بہشت میں اللہ اور اس کے نیک اچھے بندوں کی مہمانی میں جائیں گے_ اللہ کے نیک بندے جو اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے احکام کو بجالاتے ہیں اور اپنی روح اور جان کو اللہ تعالی کے اولیاء کی محبت سے پرورش کرتے ہیں وہ آخرت میں اپنے کاموں کا ثمرہ اٹھائیں گے اور بہت میں جائیں گے اور اللہ تعالی کی عمدہ بہشت کی نعمتوں سے جو انھیں اپنے اچھے کردار اور ایمان کی وجہ سے ملیں گی استفادہ کریں گے_ اس وقت میری بہن مریم نے پوچھا:

چچا جان شہادت کیا ہوتی ہے___؟ شہادت یعنی ہم اللہ کے راستے میں اللہ تعالی کے رہبر کے حکم سے کافروں اور ظالموں سے جنگ کریں

۶۷

تا کہ مارے جائیں_ شہید بھی اس دنیا میں عزت و شرافت اور وقار پاتا ہے اور آخرت میں سب سے بلند و بالا مقامات پر فائز ہوتا ہے وہ پیغمبروں و نیک اور صالح انسانوں کا ہمنشین ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی خاص نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے_ بہشت میں رہنے والے شہید کے مقام اور رتبے سے غبطہ کریں گے_

میرے پیارے بچو جان لو کہ آخرت کی نعمتیں اسے ملیں گی جو اس دنیا کی نعمتوں سے صحیح طریقے سے استفادہ کرتا ہے، اللہ کی یاد اور اطاعت سے غفلت نہیں کرتا یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ہم انی کوشش اور محنت کا کامل نتیجہ آخرت میں حاصل کریں گے_

یہ دنیا زراعت، محنت و کوشش اور عبادت کرنے کا زمانہ ہے اور آخرت اس زراعت کے کاٹنے اور ثمرہ حاصل کرنے کے زمانے کا نام ہے_ اب اٹھو اور باغ میں چلیں اور باقی ماندہ سیب چنیں کل جمعہ ہے اور کچھ افراد خدمت خلق کرنے والے ادارے کہ جس کا نام ''جہاد سازندگی'' ہے کل ہماری مدد کے لئے آئیں گے_ جب ہم ان درختوں کی طرف جو سیبوں سے لدے ہوئے تھے جا رہے تھے تا کہ باقی ماندہ سیب چنیں تو سب کے سب یہ پڑھ رہے تھے _

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند

تا تو نانی بہ کف آری و بہ غفلت نخوری

۶۸

سوالات

یہ اس لئے کئے گئے ہیں تا کہ تم سوچ سکو، بحث کرو اور جواب دو

۱)___ حسن نے اپنے چچا سے موت اور شہادت کے متعلق کیا پوچھا___؟

۲)___اللہ تعالی ان لوگوں کے متعلق جو راہ خدا میں مارے جاتے ہیں کیا فرماتا ہے؟

۳)___ آخرت کی نعمتیں کسے ملیں گی؟

۶۹

آخرت کی طرف منتقل ہونا

ہمارے بے پایاں درود و سلام ہوں انقلاب اسلامی ایران کے شہیدوں پر کہ جنھوں نے اپنی رفتار سے ہمیں شجاعت و دلیری اور دینداری کا درس دیا ہے اور اپنی روش سے عزت اور بزرگی ہمیں سمجھائی ہے_

شہید احمد رضا جن کی یاد باعظمت رہے اور ان کا آخرت میں مقام، بہشت جاویداں ہو کہ جنھوں نے ایک بلند مقام شہید کی طرح اپنے مہم وصیت نامہ میں یوں لکھا ہے:

''انسان ایک دن دنیا میں آتا ہے اور ایک دن دنیا سے چلاجاتا ہے صرف اس کا کردار اور عمل دنیا میں رہ جاتا ہے موت ہمارا انجام ہے، کتنا اچھا ہو کہ انسان کسی غرض و ہدف اور خاص مکتب کے لئے مارا جائے_

میری موت سے پریشان نہ ہونا کیونکہ میں اللہ تعالی کے نزدیک زندہ ہوں اور زرق پاتا ہوں، صرف میرا جسم تمھارے درمیان سے چلاگیا ہے، میرے مرنے سے پریشان نہ ہونا اور میرے لئے سیاہ لباس نہ پہننا یعنی عزاداری نہ کرنا_ میری

۷۰

پیاری اماں میں جانتا ہوں کہ تم میری موت سے پریشان ہوگی لیکن یہ تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک بہرہ مند ہوتے ہیں_

میں امید رکھتا ہوں کہ خداوند عالم مجھے انھیں شہیدوں میں سے قرار دے گا''_

اس محترم شہید نے دوسرے آگاہ شہیدوں کی طرح حق کے راستے کو پہچان لیا ہے اور بالکل درست کہا ہے کہ موت، زندگی کی انتہا نہیں ہے بلکہ موت، زندگی کے گذرنے کا وسیلہ ہے اور ایک قسم کی زندگی کے تبدیل ہوجانے کا نام ہے، موت ایک طبعی اور کامل عادی امر ہے یہ خوف اور وحشت کا موجب قرار نہ پانا چاہیئے_

''موت ہر انسان کے لئے مساوی نہیں ہوا کرتی بلکہ بعض انسانوں کے لئے موت سخت ہوا کرتی ہے اور بعض انسانوں کے لئے بہت زیادہ آسان اور سہل ہوا کرتی ہے بلکہ لذت بخش اور مدہ دینے والی ہواکرتی ہے _ ان لوگوں کے لئے موت، سخت اور دشوار ہوتی ہے جو دنیا اور مال و ثروت اور مقام و اقتدار و لذائذ دنیا کے عاشق و شیفتہ ہوں اور خداوند عالم کو فراموش کرچکے ہوں اور کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کرلیا ہو اور اللہ کی مخلوق پر ظلم کرتے ہوں''_

۷۱

اس قسم کے مادّی دنیا کے دوست انسان نے دنیا کے اقتدار اور زر و زیور اور جاہ و مقام کے محبت کر رکھی ہوتی ہے_ اللہ و آخرت اور خداپرست انسانوں سے محبت نہیں رکھتے ان لوگوں کے لئے اس عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونا بہت سخت ہوتا ہے اس قسم کے لوگ اخروی دنیا کو آباد نہیں کرتے اور اس کے سفر کے لئے کوئی زاد راہ نہیں رکھتے یہ لوگ کس طرح اس دنیا سے قطع روابط کرسکتے ہیں___؟ کس طرح وہ آخرت کے ویران اور دردناک گھر کی طرف کوچ کرسکتے ہیں___؟ اس لحاظ سے موت کی سختی اور جان کا سخت نکلنا دنیاوی اور مادّی امور سے دلبستگی کے معیار اور گناہوں کی مقدار پر مبنی ہوگا_

لیکن انسانوں کا دوسرا گروہ جو اللہ تعالی اور پیغمبروں کے دستور کے پیروکار اور اہل آخرت اور ہمیشہ اللہ کی یاد میں رہنے والے ہوتے ہیں اور اللہ سے محبت و انس رکھتے ہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں میں اللہ تعالی کی محبت اور ولایت نے نفوذ کیا ہوا ہوتا ہے، اللہ کی اطاعت اور اس کے سیدھے راستے پر گامزن رہتے ہیں اور جنھوں نے اپنے نیک اعمال اور بندگان خدا کی خدمت سے اپنی آخرت کو آباد کیا ہوتا ہے ان لوگوں کے لئے اس مادی دنیا سے قطع روابط صرف مشکل ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا استقبال بھی کرتے ہیں_

ایسے لوگ موت سے کیوں کبھرائیوں___ ؟ انھوں نے دنیاوی لذات سے دلبستگی نہیں کی ہوتی تا کہ مرنا ان کے لئے سخت ہو یہ محبت اور رغبت سے اپنی پاک روح اور جان کو اللہ تعالی کے فرشتوں کے سپرد کر کے بہشت کی طرف چلے جاتے ہیں_

جنت کی نعمتیں اور کتنے عمدہ ہدایا اللہ تعالی کے نیک اور حب دار بندوں

۷۲

کے لئے آخرت کے جہاں میں موجود ہیں_

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے وفادار ساتھیوں سے جو شہادت کے انتظار میں تھے شب عاشوریوں فرمایا:

''اے میرے وفادار ساتھیو دشمن سے جہاد کرنے اور دین سے دفاع کرنے میں پائیدار بنو اور جان لو کہ موت ایک پل کی طرح ہے جو تمھیں سختیوں اور دشواریوں سے نجات دلائے گی اور عالم آخرت کی طرف منتقل کردے گی_ ایسا کوئی ہوسکتا ہے جو ایک سخت اور دردناک قیدخانے آباد اور بہترین باغ کی طرف منتقل نہ ہو___؟ لیکن تمھارے دشمنوں کے لئے موت ایک ایسا پل ہے جو ایک خوبصورت محل سے سخت اور دردناک زندوان کی طرف منتقل کردیتی ہے''_

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے موت کی یوں توصیف کی ہے:

''مرد مومن کے لئے موت ایک میلا اور کثیف اذیت وہ لباس کا اتارنا، ہاتھ، پاؤں اور گردن سے غل و زنجیر کا نکالنا اور اس کے عوض میں عمدہ اور معطر لباس پہننا اور بہترین سواری پر سوار ہوکر بہترین جگہ کی طرف جانے کا نام ہے_

کافر اور بدکردار کے لئے موت، عمدہ اور راحت دہ لباس کا اتارنا اور بہترین و راحت دہ مکان سے نکل کر بدترین و کثیف ترین لباس پہن کر وحشتناک اور دردناک ترین جگہ کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے''_

۷۳

حضرت امام حسین اور حضرت امام زین العابدین علیہما السلام کی موت کے بارے میں یوں تعریف اور توصیف کے بعد کون مومن اور نیک انسان موت اور شہادت سے ڈرے گا اور ذلت و خواری کو برداشت کرے گا___؟

آیت قرآن مجید:

( کل نفس ذائقة الموت ثم الینا ترجعون ) (۱)

''ہر انسان، موت کا ذائقہ چھکے گا اور پھر ہماری طرف لوٹ آئے گا''_

____________________

۱) سورہ عنکبوت آیت نمبر ۵۷

۷۴

سوالات

سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے گئے ہیں

۱)___ ایران میں انقلاب اسلامی کے شہداء نے اپنی رفتار اور کردار سے کون درس دیا ہے___؟

۲)___ احمد رضا خادم شہید نے اپنے وصیت نامے میں کیا لکھا تھا اور اپنی ماں کو کیا پیغام دیا تھا___؟

۳)___ کیا موت تمام انسانوں کے لئے برابر ہے بعض کے لئے کیوں سخت اور تکلیف دہ ہے اور دوسرے بعض کے لئے کیوں آسان اور خوشی کا باعث ہے___؟

۴)___ حضرت امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے وفادار ساتھیوں سے کیا فرمایا___؟

۵)___ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے موت کی کیا تعریف کی ہے؟

۶)___ مسلمان انسان، موت اور شہادت سے کیوں نہیں ڈرتا اور کیوں ذلت اور خواری کو برداشت نہیں کرتا___؟

تذكّر:

ہم تمام شہیدوں کے وصیت نامے نقل نہیں کرسکے آپ درس میں شہیدوں کے وصیت نامے نقل کرسکتے ہیں اور اس کے لئے ان کے خاندان کی طرف رجوع کر کے معلومات حاصل کرسکتے ہیں_

۷۵

تکامل انسان یا خلقت عالم کی آخری غرض و غایت سورج نکلتا ہے، بادل برستے ہیں، درخت گل اور شگوفے نکالتے ہیں اور میوے دیتے ہیں، صاف و شفاف چشمے پتھروں کے درمیان سے پھوٹتے ہیں تا کہ انسان ان کے پاک پانی کو پیئے_ رات جاتی ہے اور دن آتا ہے تا کہ ہم انسان دن کی روشنی اور گرمی میں محنت کریں اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں_

دن چلاجاتا ہے اور رات آتی ہے تا کہ ہم تاریکی میں راحت اور آرام کریں اور دوسرے دن نشاط و خوشی سے عبادت کرسکیں_ سورج، چاند، بادل، ہوا، آسمان و زمین تمام کے تمام کوشش کر رہے ہیں تا کہ انسان کی پرورش کریں اور نادانی و ناتوانی سے دانائی اور توانائی تک پہنچائیں اور اس کے حجم و روح کی پرورش کریں_

نباتات و حیوانات سب کے سب انسان کی خدمت کے لئے ہیں اور وہ انسان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اس کی رشد و پرورش کا وظیفہ انجام دے رہے ہیں تمام

۷۶

کوشش کر رہے ہیں تا کہ ا نسان زندگی گزار سکے لیکن اسی درمیان انسان کو موت آجاتی ہے اور انسان کا جسم حرکت کرنے سے رک جاتا ہے تم کیا فکر کرتے ہو___؟

کیا تمام جہاں کے موجودات اس لئے کوشش کر رہے ہیں کہ انسان چند ایک دن زندہ رہ سکے اور اس کے بعد مرکر فنا ہوجائے____؟

اس صورت میں تمام جہاں کی کوشش بے کار اور بے ہدف نہ ہوگی___؟ کیا یقین کرسکتے ہو کہ جہاں کی خلقت میں کوئی غرض و غایت نہیں ہے؟ کیا اللہ تعالی نے اتنی بڑی کائنات کو بے کار اور بے ہدف پیدا کیا ہے ؟ کیا خداوند عالم نے اس جہاں کو پیدا کیا ہے کہ وہ ایک مدت کے بعد اس عظیم کوشش او رتلاش کے بعد نابود ہوجائے؟

اگر خداوند عالم نے اسے فنا کے لئے پیدا کیا ہو تا تو کیا اس کا ابتداء میں پیدا کرنا ممکن بھی ہوتا___ ؟ خداوند عالم نے ان سوالات کا چند آیتوں میں جواب دیا ہے:

آیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تم کو عبث خلق کیا ہے اور تم ہمارے پاس آخرت میں لوٹ نہیں آؤگے؟ اس طرح ہرگز نہیں ہے وہ خدا جو تمام جہاں کا حاکم اور اسے چلانے والا ہے کبھی بھی عبث اور بلافائدہ کام انجام نہیں دیتا_ (سورہ مومنوں آیت نمبر ۱۱۵)

ہم نے انسان کو معزز قرار دیا ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر ۷۰)

آیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ وہ بیہودہ اور باطل چھوڑ دیا گیا ہے؟ (سورہ قیامت آیت نمبر ۳۶)

تم تمام انسان اللہ کی طرف لوٹ آؤگے اس وقت اللہ تعالی تمھیں

۷۷

تمھارے کردار سے مطلع کرے گا کیونکہ اللہ تعالی جو کچھ تمھارے دل میں ہے آگاہ ہے (زمر آیت ۳۹) _

پس آپ کو علم ہوگیا ہوگا کہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور موت اسے نابود اور فنا نہیں کرتی بلکہ انسان مرنے سے ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف منتقل ہوجاتا ہے_ انسان اس عالم مادی میں اپنے جسم اور روح دونوں کو پرورش دیتا ہے تا کہ دوسری دنیا کی طرف منتقل ہوکر اپنے اعمال اور کردار کا ثمرہ اور نتیجہ دیکھ سکے اس دوسری دنیا کو آخرت کہتے ہیں کہ جس میں انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہے گا_

اگر انسان اپنی زندگی کو پیغمبروں کی تعلیم کے مطابق سنوارے، اللہ تعالی اور اس کے اولیاء کی ولایت کو قبول کرے اور نیک و صالح ہوجائے تو پھر آخرت میں خوش و خرم اور آسودگی کی زندگی بسر کرے گا اور پیغمبروں اور اماموں کے ساتھ زندگی بسر کرے گا لیکن اگر دستور الہی اور پیغمبروں اور ائمہ کی ولایت و رہبری سے انحراف کرے اور سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے تو سخت خطرناک وادیوں میں جاگرے گا اور آخرت میں سوائے بدبختی اور عذاب کے کچھ بھی نہ دیکھے گا_

قرآن کی آیت:

( افحسبتم انّما خلقناکم عبثا و انّکم الینا لا ترجعون ) (۱)

کی تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہاری بارگاہ میں لوٹائے نہ جاؤگے؟

___________________

سورہ مومنون آیت نمبر ۱۱۵

۷۸

سوالات

سوالات یہ اس لئے کئے جار ہے ہیں تا کہ غور کرو اور اس پر بحث کرو

۱)___ کیا انسان عبث خلق کیا گیا ہے خداوند عالم نے اس سوال کا کیا جواب دیا ہے؟

۲)___ انسان، حیوانات اور نباتات سے کس طرح بہرہ مند ہوتا ہے؟

۳)___ انسان اپنے کام کا نتیجہ کس دنیا میں دیکھے گا؟

۴)___ انسان کون سے کاموں کے بجالانے سے آخرت میں سعادت مند ہوگا؟

۵)___ جو انسان اللہ تعالی اور اس کے اولیاء اور پیغمبروں کی ولایت کو قبول نہ کرے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟

۷۹

نامہ اعمال

کبھی تم نے اپنے گذرے ہوئے زمانے کے متعلق سوچا ہے اور ان گذرے ہوئے اعمال کو سامنے لائے ہو___؟ نمونے کے طور پر اپنے گذرے ہوئے کاموں میں سے کسی کام کے متعلق سوچ سکتے ہو اور اسے یاد کرسکتے ہو___؟ ممکن ہے تمھیں اپنے بعض کاموں کے یاد کرنے پر خوشی ہو اور ممکن ہے بعض دوسرے کاموں پر پشیمانی ہو_

ہمارے تمام کام اور گذری باتیں اسی طرح روح اور ضمیر کی تختی پر ثبت ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ ہم ان میں سے بعض کاموں کو بظاہر فراموش کرچکے ہوں لیکن اس کے باوجود تمام کے تمام اعمال ہماری روح میں ثبت ہیں_ ہماری روح اور جان ایک دقیق فیلم کے نیگیٹوں کی طرح ہے بلکہ اس بھی دقیق اور حساس ہے جس طرح فیلم کے نیگٹیو موجو ات کی تصویروں کو لے لیتی ہے اور محفوظ رکھتی ہے اسی طرح ہماری جان اور روح ہمارے تمام کاموں اور اخلاق و اعتقادات کو ضبط کر کے اپنے آپ میں محفوظ کرلیتی ہے روح انھیں اعمال کے واسطے سے یا ارتقاء کی طرف بڑھتی ہے یا سقوط اور نزول کا راستہ اختیار کرلیتی ہے_

ہمارے عمدہ اور اچھے اخلاق ہماری روح کو با صفا اور نورانی کردیتے ہیں نیک اعمال اور اچھے اخلاق، عمدہ آثار اور خوشی انسان کی روح میں چھوڑتے ہیں

۸۰