‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 302
مشاہدے: 102804
ڈاؤنلوڈ: 3530


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 102804 / ڈاؤنلوڈ: 3530
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد 3

مؤلف:
اردو

کو جو باقی اور ثابت رہ جاتے ہیں_

اچھا انسان اللہ تعالی کی رضا اور محبت کے حاصل کرنے کے لئے اعمال انجام دیتا اور ہمیشہ اللہ کی یاد اور اس سے انس و محبت رکھتا ہے، اپنے آپ کو اچھے اخلاق اور نیک اعمال سے پرورش کرتا ہے اور خدائے قادر سے تقرب حاصل کرتا ہے اپنے ایمان سے خدا اور اس کی طرف توجہ سے اپنی روح اور جان کو نورانی اور باصفا بناتا ہے اور ہمیشہ ترقی کے لئے قدم اٹھاتا رہتا ہے اور اپنے انسانی کی قیمتی گوہر کی پرورش کرتا ہے_

اس کے برعکس غلط و باطل اور برے اخلاق و کردار انسان کی پاک اور حسّاس روح پر انداز ہوتے ہیں اور انسان کی ذات اور باطن کو سیاہ اور آلودہ کردیتے ہیں اور غمگینی اور افسردگی کا موجب ہوتے ہیں_ بے دین اور بدکردار دنیاوی اور حیوانی لذات میں مست ہوتا ہے اس طرح کا انسان صراط مستقیم اور ارتقاء سے دور رہتا ہے اور پستی کی طرف چلاجاتا ہے_ حیوانی اور وحشت زدہ تاری وادیوں میں گرفتار ہوکر رہ جاتا ہے ایسا انسان اپنے اس طرح کے افکار اور پلید اعمال کی وجہ سے حیوانیت اور درندگی کی عادت کو اپنے آپ میں اپنا لیتا ہے اور انسانیت کے نورانی گوہر کو اپنے آپ میں کمزور اور کم نور کردیتا ہے_

اس حقیقت کی جو ہر آگاہ او رہوشیار انسان کے سامنے واضح او رنظر آرہی ہے بہت سادہ مگر اچھے انداز میںہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے تصویر کشی کی ہے فرماتے ہیں کہ:

'' ہر انسان کی روح ایک صاف اور سفید تختی کی طرح ہے کہ

۸۱

جسے نیک کام اس کو زیادہ صاف و نورانی اور زیبا بلکہ زیباتر کردیتے ہیں اس کے برعکس برے کام اور گناہ اس پر سیاہ داغ ڈال دیتے ہیں کہ جس سے انسان روح کثیف اور پلید ہوجاتی ہے_

اگر کوئی انسان گناہ کرنے پر اصرار کرتا ہے تو یہ سیاہ داغ اس نورانی اور سفید روح کی تختی پر چھا جاتے ہیں اور گناہگار انسان کے تمام وجود کو سیاہ اور کثیف کردیتے ہیں_ ایسا سیاہ دل اور پلید انسان کہ جس نے خود سیاہی اور پلیدی کو اپنے اعمال سے اپنے آپ میں فراہم کیا ہے_ اس دنیا میں غم زدہ اور حسرت میں مبتلا رہتا ہے اور آخرت میں جہنم کی آگ میں کہ جس کو خود اس نے اپنے کاموں سے فراہم کیا ہے جلتا رہے گا''_

الحاصل:

انسان کے تمام اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں انسان کی ذات اور روح اور نامہ اعمال میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس کے علاوہ اللہ تعالی کے فرشتے جو کہ دن رات ہمارے نگراں اور محافظ ہیں اور ان کے اوپر ذات الہی جو کہ ہمارے اعمال کی ناظر اور حاضر ہے ہمارے اعمال کو محفوظ رکھتی ہے ہمارا کوئی بھی کام نابود اور ختم نہیں ہوجاتا بلکہ تمام کے تمام اعمال ہمارے حساب کے لئے باقی ہیں_ خداوند عالم قرآن میں یوں ارشاد فرماتا ہے_

ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں ڈالیں گے تا کہ

۸۲

اسے قیامت کے دن کھول کر دیکھ سکے، آج اپنے نامہ اعمال کو پڑھ اور اپنا حساب خود کر لے کہ تیرا نفس اپنے حساب کرنے کے لئے کافی ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر ۱۳)

۲)___ قیامت کے دن لوگ گروہ گروہ اٹھائے جائیں گے پس جس نے بھی ذرّہ برابر نیک کام انجام دیا ہوگا اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر برا کام انجام دیا ہوگا اس کو دیکھے گا_ (سورہ زلزال آیات ۶، ۸)

ہمارے کام اس دنیا میں فنا نہیں ہوتے بلکہ نامہ اعمال میں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن کبھی ہم ان سے غافل ہوجاتے ہیں_ موت کے بعد اور آخرت میں منتقل ہوجانے کے بعد قیامت کے دن غفلت کے پردے ہٹادیئےائیں گے اور انسان پر اپنا باطن اور اس کی اصلی ذات ظاہر ہوجائے گی اور اس کا حیران کن نامہ عمل اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا اس وقت اپنے تمام اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوگا جیسے اس نے ابھی انجام دیا ہے_

۳)___ قیامت کے دن انسان کا باطن ظاہر ہو کر رہ جائے گا اور انسان کا نامہ عمل ظاہر کر کے کھول دیا جائے گا گناہگاروں کو دیکھے گا کہ وہ اپنے برے نامہ عمل کے دیکھنے کی وجہ سے سخت خوف و ہراس میں غرق ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم پر ویل ہو کہ جس طرح کا حیرت انگیز ہمارا نامہ عمل ہے کسی چھوٹے اور بڑے کاموں کو ضبط و ثبت کرنے سے اس نے صرف نظر نہیں کیا اور تمام کے تمام کو لکھ لیا جائے گا_ اس دن تمام بندے اپنے اعمال کو حاضر دیکھیں گے تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا_ (سورہ طارق آیت نمبر۹)

۸۳

ان آیات کی روسے انسان اس جہاں سے رخصت ہوکر آخرت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے_ قیامت کے دن اپنے نامہ عمل کو دیکھے گا اور تمام کے تمام کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گا اس وقت خداوند عالم کی طرف سے خطاب ہوگا_

۴)___ اے انسان تو اپنے اعمال سے دنیا میں غافل تھا لیکن اب ہم نے تیرے دل سے غفلت کے پردے ہٹا دیئے ہیں اور تیری آنکھوں کو بینا کردیا ہے_ (سورہ ق آیت نمبر ۲۲)

قیامت کے دن جب انسان حساب و کتاب کے لئے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنی حقیقت اور واقعیت سے مطلع ہوجائے گا_ ہر ایک انسان اپنے نامہ عمل کو کھولے گا اور واضح دیکھ لے گا اور اسے دقّت سے نگاہ کرے گا اپنے تام گزرے ہوئے اعمال کو ایک دفعہ اپنے سامنے حاضر پائے گا_ اللہ تعالی نامہ عمل کے دریافت کرنے کے بارے میں یوں فرماتا ہے:

۵)___ '' نیک لوگوں کو ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے (اور اسی لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب یمین'' کہا گیا ہے ایسے لوگ خوش اور شاہدوں گے کیونکہ جان رہے ہیں کہ ن کا حساب و کتاب آسان ہے اور انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی ہے وہ کہیں گے آؤ اور ہمارے نامہ اعمال کو پڑھو_ ہمیں علم تھا کہ ایک دن حساب و کتاب کا آنے والا ہے ایسے لوگ خوشگوار زندگی بہشت میں گذاریں گے_

بے دین اور بدکردار انسانوں کو نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا (اسی لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب شمال'' کہا جاتا

۸۴

ہے) ایسے لوگ غمگین اور ناخوش ہوں گے کیونکہ وہ جان چکے ہونگے کہ ان کا حساب و کتاب بہت سخت اور دشوار ہے_ وہ کہیں گے کہ کاش یہ نامہ عمل ہمارے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور ہم اپنے اعمال و کردار اور حساب سے بے اطلاع اور غافل رہتے، کاش موت آجاتی_

ایسے انسانوں کی زندگی سخت اور غم انگیز ہوگی اور وہ جہنم کے بلند اور جلانے والے شعلوں میں ڈالے جائیں گے ( یہ سب کچھ ان کے برے اعمال کا نتیجہ ہوگا''_

آیت قرآن کریم

( ووضع الکتاب فتری المجرمین منفقین ممّا فیه و یقولوا یا ویلتنا ما لهذا الکتاب لا یغادر صغیرة و لا کبیرة الّا احصیها و وجدوا ما عملوا حاضرا و لا یظلم ربّک احدا ) (۱) _

نامہ عمل رکھا جائے گا پس گناہگار لوگ بسبب اس کے جوان میں پایا جاتا ہے اسے خوف زدہ دیکھے گا اور وہ کہے گا دائے ہو ہم پر یہ کیسا نامہ عمل ہے؟ کہ کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ہماری نہیں چھوڑتا جو کچھ ہم نے انجام دیا ہے وہ اس میں موجود ہے_ تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا_

____________________

۱) سورہ کہف آیت نمبر ۴۰

۸۵

سوالات

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے اور پسندیدہ اخلاق اور اعمال انسان کی ذات پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ نیک انسان کس طرح اپنی روح اور جان کو نورانی اور باصفا قرار دیتا ہے؟

۳)___ کن اعمال اور عقائد سے انسانی روح کثیف و پلید اور سیاہ ہوتی ہے؟ انسان کس طرح مستقیم اور نورانی راستے اور تقرب الہی سے دور ہوجاتا ہے؟

۴)____ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانی نفس اور روح پر اعمال کے اثرانداز ہونے کی کس طرح تصویر کشی کی ہے؟

۵)___ انسانی اعمال جو انسانی روح اور نفس میں ثبت ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ کون سی ذوات ہمارے اعمال کے مراتب اور محافظ ہیں؟

۶)___ قیامت کے دن جب گناہگار اپنے نامہ اعمال دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟

۷)___جب انسان قیامت کے دن اپنے نامہ عمل دیکھے گا اور اپنے تمام اعمال کا مشاہدہ کر رہا ہوگا تو اس وقت اللہ تعالی اس سے کیا خطاب کرے گا؟

۸)___ انسان کو اپنی ذات اور واقعیت کس دنیا میں پوری طرح ظاہر ہوگی؟

۹)___ قرآنی اصطلاح میں ''اصحاب یمین'' کسے کہا جاتا ہے اور جب انھیں نامہ عمل

۸۶

دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟

۱۰)___ قرآنی اصطلاح میں ''اصحاب شمال'' کسے کہا جاتا ہے جب انھیں اپنا نامہ عمل دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟ اور آخرت میں کس طرح زندگی بسر کریں گے؟

۸۷

قیامت کا منظر

لوگوں کو بتایا گیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک صحابی فوت ہوگئے ہیں ان کے دوست اور احباب اس خبر سے بہت رنجیدہ ہوئے اور ان کے لئے طلب مغفرت کی ایک مدت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی اور وہ آدمی نہیں مرا تھا اس کی اولاد رشتہ دار اور دوست و احباب بہت خوش ہوئے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے ان دو خبروں کے معلوم کرنے پر اس شخص کو یہ خط تحریر فرمایا:

'' بسم اللہ الرّحمن الرحیم

ایک اطلاع ہمیں تمھارے بارے میں ملی کو جو دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے افسوس کا باعث تھی جس نے ان کو عمزدہ کردیا_ ایک مدت کے بعد دوسری اطلاع ملی کہ پہلی خبر جھوٹی تھی اور اس نے دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کو خوش کردیا_

ان دو خبروں کے متعلق تم کیا سوچتے ہو؟ کیا تم سوچتے ہو کہ یہ خوشحالی اور خوشی پائیدار و دائمی ہے یا یہ خوشی ایک دفعہ پھر حزن و ملال میں تبدیل ہوجائے گی؟ واقعاً اگر پہلی خبر درست ہوتی تو اب تک تم آخرت کی طرف منتقل ہوگئے ہوتے، کیا تم پسند کرتے ہو کہ خداوند عالم تمھیں دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا دیتا اور نیک کاموں کے بجالانے

۸۸

کی فرصت عنایت فرماتا؟ تم یوں فکر کرو کہ پہلی خبر درست تھی اور تم آخرت کی طرف چلے گئے ہو اور موت کے مزہ کو چکھ چکے ہو اور پھر دوبارہ اس دنیا کی طرف لوٹائے گئے ہو تا کہ اعمال صالحہ بجالاؤ_

اس طرح گمان کرو کہ اللہ تعالی نے تمھیں اس دنیا میں واپس تمھاری خواہش کو قبول کرتے ہوئے لوٹا دیا ہے، اب کیا کروگے؟ آیا جلدی میں حقیقی زندگی کے لئے زاد و توشہ جمع کروگے؟ آیا ہمیشہ رہنے والی جگہ کے لئے کوئی پیشگی بھیجوگے؟

نیک کام، عمل صالح، لوگوں کی دستگیری، دعا اور عبادت ان میں سے کیا روانہ کروگے؟ جان لو کہ اگر اس سے آخرت کی طرف خالی ہاتھ کوچ کر گئے تو پھر دوبارہ واپس لوٹ کر نہیں آؤگے؟ اور سوائے افسوس و حسرت اور رنج و غم کے اور کوئی چیز نہ پاؤگے_

یہ جان لو کہ دن، رات ایک دوسرے کے پیچھے آجا رہے ہیں اور وہ تمھاری عمر کو کوتا ہ کر رہے ہیں اور موت کو تم سے قریب کر رہے ہیں اور انسان کو زندگی کے آخری نقطہ تک پہنچا رہے ہیں_ یقینا یہ آخری لحظہ بھی انسان کو آپہنچے گا اور حق کی طرف بلانے والا آخرت کی طرف لے جاکر رہے گا_ پست اور کمتر اور ہوی و ہوس اور لذائذ مادی کو کم کرو، اللہ کی طرف اور حقائق الہی کی طرف لوٹو اور آخرت کے سفر کا بار تقوی اور اعمال صالح کے ساتھ باندھو

۸۹

آئیں گے کہ جن سے گذرنا ضروری ہے_ جان لو کہ آخرت کے راستے کا توشہ، تقوی ہے ورنہ تم لڑکھڑاؤگے اور جہنم کے گہرے گڑہے ہیں جاگرو گے_ گناہوں اور اللہ کی معصیت سے بچو تا کہ بہشت میں نیک لوگوں کے ساتھ جاملو''

امیرالمومنین علیہ السلام نے اس گفتگو میںسخت موڑوں ، گزرگاہوں اور خوفناک منازل کا ارشادتا ذکر فرمایا ہے، آپ کی گفتگو میں صرف ایک اشارہ ہی کیا گیا ہے کیونکہ آخرت کی عظیم حقیقت اور قیامت کے حوادث کو سوائے اشارے کے بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی سنا جا سکتا ہے_

آخرت کے واقعات اور حوادث کو ذرا زیادہ عظمت کے ساتھ معلوم کرنے کے لئے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں، قیات ک شگفت آور مناظر کو قرآن کریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی اس عظیم واقعہ کی حقیقت کو اس طرح کہ جس طرح وہ ہے معلوم نہیں کرسکتے صرف مختصر اشارے سنے ہیں تا کہ جان لیں کہ ایک بہت سخت اور غیر قابل توصیف دن آگے آنے والا ہے اور ہمیں اپنے آپ کو تقوی اور عمل صالح سے متصف کرنا چاہیئے تا کہ ان سخت خطرناک موڑوں اور نشیب و فراز سے ہمارے لئے گذرنا آسان ہوجائے اور پروردگار کی بہشت اور رضوان پہنچتا میسّر ہوجائے_

۹۰

برزخ اور قیامت

جب کوئی گناہگار اس دنیا سے کوچ کرتا ہے تو عذاب اور رنج کا عالم برزخ میں مشاہدہ کرتا ہے اور کہتا ہے:

۱)___ ''خدایا مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹا دے تا کہ اعمال صالحہ بجالا سکوں اور اپنے گذشتہ گناہوں کا جبران کرسکوں، لوٹنے کی خواہش کرے گا لیکن ہرگز دنیا کی طرف لوٹایا نہیں جائے گا اور قیامت و روز بعث تک عذاب میں مبتلا رہے گا''(۱)

۲)___ ''قیامت کے دن سورج تاریک اور لپیٹ لیا جائے گا، ستارے بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ حرکت کریں گے اور لرزنے لگیں گے حاملہ اونٹنیاں بغیر ساربان کے رہ جائیں گی، وحوش محشور ہوں گے اور دریا جلانے والے اور شعلہ خیز ہوجائیں گے''(۲)

۳)___ ''جب آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے منتشر ہوجائیں گے اور دریا چیر دیئے جائیں گے اور دریاؤں کے پانی پراگندہ ہوجائیں گے جب کہ قبریں اوپر نیچے، ہوجائیں گی یعنی دہنس جائیں گی، اس وقت زمین لزرے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہوگا اسے باہر پھینک دے گی''(۳)

____________________

۱)___ سورہ مومنون آیات ۹۹_ ۱۰۰

۲)___ سورہ تکویر آیات ۱_ ۶

۳)___ سورہ زلزال آیات ۱_۹

۹۱

۴)___ ''جب پہاڑوئی کی طرح دھنے جائیں گے اور پاش پاش ہوجائیں گے''(۱)

۵)___ ''جب چاند کو گرہن لگے گا اور تاریک ہوجائے گا اور سورج و چاند اکٹھے ہوں گے''(۲)

۶)___ ''جب زمین بہت سخت لرزے گی اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں گے اور غبار بن کر چھاجائیں گے''(۳)

۷)___ ''جب زمین اور پہاڑ سخت لزریں گے اور پہاڑ خوفناک ٹیلے کی صورت میں بدل جائے گا''(۴)

۸)___ ''جب آسمان سخت حرکت کرے گا اور پہاڑ چلنے لگے گا''(۵)

۹)___ '' جب آسمان کے دروازے کھول دیئےائیں گے اور پہاڑ سخت حرکت کریں گے اور سراب کی طرح بے فائدہ ہوں گے'' (۶)

۱۰)___ ''جب زمین غیر زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور آسمان متغیر ہوجائے گا اور لوگ خدائے قادر کے سامنے حاضر ہوں گے ''_ (۷)

۱۱) ___ ''جب دن تیرے پروردگار کے نور س روشن اور منور ہوجائے گا''(۸)

____________________

۱) سورہ قاعد آیت۳

۲) سورہ قیامت آیات ۸_۹

۳) سورہ واقعہ آیات ۴_۶

۴)سورہ مزمل آیت ۱۴

۵)سورہ طور آیات ۹-۱۰

۶) سورہ نبا آیات ۱۹، ۲۰

۷)سورہ ابراہیم آیت ۴۸

۸) سورہ زمر آیت ۶۹

۹۲

ان آیتوں سے اجمالی طور سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اس دنیا کا موجودہ نظام خلقت تبدیل ہوجائے گا، سورج تاریک اور بے نور ہوجائے گا، چاند خاموش اور بے رونق ہوگا، ستارے پراگندہ اور پہاڑ اس عظمت کے باوجود لرزاں ہوں گے، چلنے لگیں گے اور خوفناک ٹیلوں میں تبدیل ہوجائیں گے، گرد و غبار کی صورت میں پراگندہ اور بے فائدہ ہوجائیں گے، زمین کسی اور زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور ایک وسیع میدان وجود میں آجائے گا کہ جہاں تمام لوگ حساب و کتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے_

یہ تمام قیامت کے عظیم مناظر کے مختصر اشارے تھے اس کے باوجود اس عظیم واقعیت کا ہم تصور نہیں کرسکتے صرف قرآن مجید کے ان اشارات سے اتنا سمجھتے ہیں کہ ایک بہت سخت دن آنے والا ہے ہم ایمان و عمل صالح سے اپنے آپ کو لطف الہی اور اس کے خوف سے محفوظ رکھ سکتے ہیں_

آیت:

( یوم تبدّل الارض غیر الارض و السّموات و برزوا لله الواحد القهار ) (۱)

''جس دن زمین غیر زمین میں تبدیل کی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہّار کے سامنے حاضر ہوں گے''

____________________

۱) سورہ ابراہیم آیت نمبر ۴۸

۹۳

سوالات

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ جب گناہگار انسان، عالم برزخ میں جاتا ہے اور عذاب و رنج کو دیکھتا ہے تو کون سی آرزو کرتا ہے، کیا کہتا ہے، اس کی یہ آرزو پوری کی جائے گی ؟

۲)___ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس صحابی کو اس جہاں میں دوبارہ آجانے کے بعد کیا لکھا تھا اور اسے کس بیان سے نصیحت کی تھی؟

۳)___ قرآن مجید میں قیامت کو کن خصوصیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؟

۴)___ قیامت کے سخت ہنگامے اور خوف و ہراس سے کس طرح امان میں رہ سکتے ہیں؟

۵)___ امیرالمومنین علیہ السلام کے خط میں نصرت کے لئے کس زاد اور توشے کو بیان کیا گیا ہے؟

۶)___ کون سی چیزیں انسان کو بہشت میں جانے سے روک لیتی ہیں اور کس طرح قیامت کے خطرناک اور پر پیچ راستے کو طے کرسکتے ہیں؟

۹۴

تیسرا حصّہ

پیغمبری اور پیغمبروں کے مسائل کے بارے میں

۹۵

پہاڑ کی چوٹی پر درس

ہم پہاڑ پر جانا چاہتے تھے چند ایک دوستوں سے کل پہاڑ پر جانے کے پروگرام کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ کون سے وقت جائیں؟ کون سی چیزیں اپنے ساتھ لے جائیں، کہاں سے جائیں؟

ان سوالات کے بارے میں بحث کر رہے تھے لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے تھے دوستوں میں سے ہر ایک کوئی نہ کوئی مشورہ دے رہا تھا_

آخر میں باقر نے کہا:

'' دوستو میری نگاہ میں ایک راہنما کی ضرورت ہے جو پہاڑ کے سر کرنے کا ماہر ہو وہ ہم کو بتلائے کہ کون سی چیزیں اس کے لئے ضروری ہیں اور کون سے راستے سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر جائیں اور اسے سر کریں؟

میں نے باقر سے کہا کہ راہنما کی کیا ضرورت ہے؟ ہمیں کسی راہنما کی ضرورت نہیں ہے ہم میں فکر کرنے کی قوت موجود ہے، ہم آنکھیں رکھتے ہیں سوچیں گے اور راستہ طے کرتے جائیں گے یہاں تک کہ اوپر پہنچ جائیں گے_

باقر نے جواب دیا:

''غلطی کر رہے ہو پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ہمیں پہاڑ کے حدود سے واقفیت نہیں ہے اور ہم کو جن چیزوں

۹۶

کی ضرورت ہوگی ان کی کوئی اطلاع نہیں رکھتے، ہمیں علم نہیں ہے کہ کہاں سے اوپر چڑھیں اور کون سی چیزیں اپنے ہمراہ لے جائیں مثلاً بتاؤ کہ اگر طوفان آگیا اور سخت اندھیرا چھاگیا تو کیا کریںگے، اور گر راستہ بھول گئے تو کی کریں گے؟ ''

میں جب باقر کے ان سوالات کا جواب نہ دے سکا تو مجبوراً ان کی رائے سے موافقت کرلی کہ ایک راہنما کی ضرورت ہے جو مورد اعتماد ہو اور راستوں سے واقف بھی ہوا اور اسے راہنمائی کے لئے لے جانا چاہیئے_

اس کے ایک دن ایک دوست نے بتلایا کہ دوستو میرے باپ کے دوستوں میں سے ایک ماہر کوہ نورد ہے میرے باپ نے اس سے خواہش کی ہے کہ وہ ہماری راہنمئی کا کام انجام دے وہ آج رات ہمارے گھر آئے گا تم بھی وہاں آجانا تا کہ کل چلنے کے متعلق اس سے گفتگو کریں_

ہم اس رات سعید کے گھر گئے سعید کے باپ اور اس کے دوست وہاں موجود تھے جب تمام احباب اکٹھے تو داؤدی صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ:

''دوستو میں نے سنا ہے کہ کل تم پہاڑ کے اوپر جانا چاہتے ہو کتنا عمدہ پروگرام تم نے بنایا ہے لیکن جانتے ہو کہ شاید یہ سفر خطرے اور دشواریوں سے خالی نہ ہو، خطروں سے بچنے کے لئے کی کروگے؟''

لڑکوں نے جواب دیا آپ سے مدد اور راہنمائی حاصل کریں گے_

داؤدی صاحب نے کہا:

''بہت اچھا کل چار بجے صبح چلنے کے لئے تیار ہوجانا، گرم لباس پیٹھ پر ڈالنے والا تھیلا، معمولی غذا اور اگر ہوسکے تو تھوڑی کھجور اور

۹۷

کشمکش کبھی ساتھ لے لینا میں ابتدائی مرحلے کی چیزیں ساتھ لے آؤں گا''

ہم نے راہنما کے دستور کے مطابق تمام وسائل فراہم کرلئے اور دوسرے دن صبح کے وقت خوشی سعید کے گھر پہنچ گئے تمام لڑکے وقت پر وہاں آگئے اور چلنے کے لئے تیار ہوگئے_ ایک دو لڑکے باپ کے ہمراہ آئے تھے_ تھوڑاسا راستہ بس پر طے کیا اور پہاڑ کے دامن میں پہونچ گئے_ بس سے اترے اور پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی مسجد میں صبح کی نماز ادا کی _ نماز کے بعد راہنما نے ضروری ہدایات جاری کیں اور بالخصوص یہ یاد دلایا کہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں آگے جلدی میں نہ جانا اور پیچھے بھی نہ رہ جانا_ ہم نے چلنا شروع کیا پہاڑ بہت اونچا تھا، بہت خوشنما اور زیبا تھا، چپ چاپ، سیدھا، مستحکم و متین اور باوقار اللہ تعالی کی عظمت اور قدرت کو یاد دلا رہا تھا_

راہنما آگے جارہا تھا ہم اس کے پیچھے باتیں کرتے جار ہے تھے، ہنس رہے تھے اور آگے بڑھ رہے تھے وہ ہر جگہ ہماری نگرانی کرتا تھا اور سخت مقام میں ہماری مدد و راہنمائی کرتا تھا_ کبھی خود بڑے پتھر سے اوپر جاتا اور ہم سب کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کھینچ لیتا کبھی راستہ کھلا آجاتا اور تمام لڑکے اس کی اجازت سے دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے تھے اور جب راستہ تنگ ہوجاتا تو ہم مجبور ہوجاتے تھے کہ ایک دوسرے کے پیچھے چلیں اور بہت احتیاط سے راستہ طے کریں، اس حالت میں راہنما ہمیں خبردار کرتا اور خود اس پھلنے والی جگہ کے کنارے کھڑا ہوجاتا اور ہر ایک کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے گذارتا بہت سخت پھلنے والی جگہیں راستے میں موجود تھیں ان میں سے ایک جگہ میرا پاؤں کہ اگر راہنما میرا ہاتھ نہ پکڑتا تو میں کئی سوفٹ نیچے جاگرتا_

اب میں سمجھا کہ راہنما اور رہبر کا ہونا بہت ضروری ہے راستے میں کبھی ہم ایسے راستوں پر پہونچے جہاں پتہ نہ چلتا کہ کہاں سے جائیں راہنما تھا جو ہمیں راستہ بتلاتا اور اس کی راہنمائی

۹۸

کرتا، راستے میں ہم کئی جگہوں پر بیٹھے، آرام کیا اور کچھ کھایا پیا_ یہ سفر سخت دشوار لیکن زیبا اور سبق آموز تھا بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے کے بعد غروب کے نزدیک پہاڑ کی چوٹی کے قریب پہنچ گئے، سبحا ن اللہ کتنی زیبا اور خوبصورت تھی وہ چوٹی کتنی عمدہ اور لطیف تھی آب و ہوا، تمام جگہیں وہاں سے نظر آرہی تھیں گویا ہم کسی دوسرے عالم میں آگئے تھے، خوش و خرم ہم نے پیٹھ والے تھیلے اتارے اور تھوڑی سی سادہ غذا جسے ہم اپنے ساتھ لے آئے تھے نکال کر کھائی کاش تم بھی ہوتے، واقعی اس وقت تک ہم نے اتنی مزے دار غذا نہیں کھائی تھی_ رات کو وہاں ٹھہرجانے پر اتفاق ہوگیا اور چونکہ ہم نے اپنے راہنما کے دستورات کے مطابق عمل کیا تھا لہذا تمام چیزیں ہمارے پاس موجود تھی رات ہوگئی مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ہم گفتگو میں مشغول ہوگئے_

راہنما نے کہا: پیارے بچو

'' خدا کا شکر ہے کہ ہم سلامتی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں اب تم نے مان لیا ہوگا کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنا اور کوہ نوردی کوئی معمولی کام نہیں ہوا کرتا کیا تم تنہا پہاڑ کی چوٹی سر کر سکتے تھے ؟ ''

میں نے کہا کہ آپ نے میرا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا تو میں پہاڑ کے درے میں گرگیا ہوتا_ میں اس وقت متوجہ ہوگیا تھا ک ایک صحیح راہنما اور راہبر کے ہم محتاج ہیں_

جناب داؤدی نے کہا:

''صرف کوہ پیمائی ہی راہنمائی کی محتاج نہیں ہوا کرتی بلکہ ہر سخت اور دشوار سفر راہنما اور راہبر کا محتاج ہوتا ہے مثلاً فضا میں سفر تو بہت سخت دشوار ہے جس میں بہت زیادہ راہنما کی ضرورت ہوا کرتی ہے_ لڑکوجانتے ہو کہ سب سے اہم اور پر اسرار سفر جو

۹۹

ہم کو در پیش ہے وہ کون سا سفر ہے،

لڑکوں میں سے ہر ایک نے کوئی نہ کوئی جواب دیا_ آخر میں باقر کے باپ نے کہا کہ

''میری نگاہ میں وہ سفر جو سب ہے اہم ہے وہ آخرت کا سفر ہے یہ اس جہاں سے منتقل ہوکر دوسرے جہاں میں جانے والا سفر ہے، واقعاً یہ سفر بہت پیچیدہ اور دشوار سفروں میں سے ایک ہے''_

راہنما نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم نے درست کہا ہے میرا مقصد بھی یہی سفر تھا لڑکو اس سفر کے متعلق کیا فکر کرتے ہو؟ ہم اس سفر کا راستہ کس طرح طے کریں گے اور کون سا زاد راہ اور توشہ ساتھ لے جائیں گے، اس جہاں میں راحت و آرام کے لئے کیا کریں گے؟ کون سے افراد ہمارے اس سفر میں راہنمائی کریں گے، کون ہمیں بتلائے گا کہ اس سفر کے لئے کون سا زاد راہ ساتھ لے جائیں؟ باقر کے باپ نے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکو تم موافقت کرو تو میں اس سفر کی مزید وضاحت کروں:

''آخرت کے سفر کے راہنما پیغمبر ہوا کرتے ہیں جو مخلوق اور خالق کے درمیان واسطہ اور پیغام لانے والے ہوتے ہیں، اللہ تعالی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں، زندگی کی عمدہ اور بہترین راہ و رسم کی لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں او رسعادت کی چوٹی پر چڑھنے کے لئے انسان کو راستہ بتلاتے ہیں، برے اخلاق اور اخلاقی پستیوں میں گرجانے والی وادیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، خداپرستی اور عمدہ اخلاق کے راستے بیان کرتے ہیں_

۱۰۰