‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 12%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110297 / ڈاؤنلوڈ: 3811
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کو جو باقی اور ثابت رہ جاتے ہیں_

اچھا انسان اللہ تعالی کی رضا اور محبت کے حاصل کرنے کے لئے اعمال انجام دیتا اور ہمیشہ اللہ کی یاد اور اس سے انس و محبت رکھتا ہے، اپنے آپ کو اچھے اخلاق اور نیک اعمال سے پرورش کرتا ہے اور خدائے قادر سے تقرب حاصل کرتا ہے اپنے ایمان سے خدا اور اس کی طرف توجہ سے اپنی روح اور جان کو نورانی اور باصفا بناتا ہے اور ہمیشہ ترقی کے لئے قدم اٹھاتا رہتا ہے اور اپنے انسانی کی قیمتی گوہر کی پرورش کرتا ہے_

اس کے برعکس غلط و باطل اور برے اخلاق و کردار انسان کی پاک اور حسّاس روح پر انداز ہوتے ہیں اور انسان کی ذات اور باطن کو سیاہ اور آلودہ کردیتے ہیں اور غمگینی اور افسردگی کا موجب ہوتے ہیں_ بے دین اور بدکردار دنیاوی اور حیوانی لذات میں مست ہوتا ہے اس طرح کا انسان صراط مستقیم اور ارتقاء سے دور رہتا ہے اور پستی کی طرف چلاجاتا ہے_ حیوانی اور وحشت زدہ تاری وادیوں میں گرفتار ہوکر رہ جاتا ہے ایسا انسان اپنے اس طرح کے افکار اور پلید اعمال کی وجہ سے حیوانیت اور درندگی کی عادت کو اپنے آپ میں اپنا لیتا ہے اور انسانیت کے نورانی گوہر کو اپنے آپ میں کمزور اور کم نور کردیتا ہے_

اس حقیقت کی جو ہر آگاہ او رہوشیار انسان کے سامنے واضح او رنظر آرہی ہے بہت سادہ مگر اچھے انداز میںہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے تصویر کشی کی ہے فرماتے ہیں کہ:

'' ہر انسان کی روح ایک صاف اور سفید تختی کی طرح ہے کہ

۸۱

جسے نیک کام اس کو زیادہ صاف و نورانی اور زیبا بلکہ زیباتر کردیتے ہیں اس کے برعکس برے کام اور گناہ اس پر سیاہ داغ ڈال دیتے ہیں کہ جس سے انسان روح کثیف اور پلید ہوجاتی ہے_

اگر کوئی انسان گناہ کرنے پر اصرار کرتا ہے تو یہ سیاہ داغ اس نورانی اور سفید روح کی تختی پر چھا جاتے ہیں اور گناہگار انسان کے تمام وجود کو سیاہ اور کثیف کردیتے ہیں_ ایسا سیاہ دل اور پلید انسان کہ جس نے خود سیاہی اور پلیدی کو اپنے اعمال سے اپنے آپ میں فراہم کیا ہے_ اس دنیا میں غم زدہ اور حسرت میں مبتلا رہتا ہے اور آخرت میں جہنم کی آگ میں کہ جس کو خود اس نے اپنے کاموں سے فراہم کیا ہے جلتا رہے گا''_

الحاصل:

انسان کے تمام اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں انسان کی ذات اور روح اور نامہ اعمال میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس کے علاوہ اللہ تعالی کے فرشتے جو کہ دن رات ہمارے نگراں اور محافظ ہیں اور ان کے اوپر ذات الہی جو کہ ہمارے اعمال کی ناظر اور حاضر ہے ہمارے اعمال کو محفوظ رکھتی ہے ہمارا کوئی بھی کام نابود اور ختم نہیں ہوجاتا بلکہ تمام کے تمام اعمال ہمارے حساب کے لئے باقی ہیں_ خداوند عالم قرآن میں یوں ارشاد فرماتا ہے_

ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں ڈالیں گے تا کہ

۸۲

اسے قیامت کے دن کھول کر دیکھ سکے، آج اپنے نامہ اعمال کو پڑھ اور اپنا حساب خود کر لے کہ تیرا نفس اپنے حساب کرنے کے لئے کافی ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر ۱۳)

۲)___ قیامت کے دن لوگ گروہ گروہ اٹھائے جائیں گے پس جس نے بھی ذرّہ برابر نیک کام انجام دیا ہوگا اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر برا کام انجام دیا ہوگا اس کو دیکھے گا_ (سورہ زلزال آیات ۶، ۸)

ہمارے کام اس دنیا میں فنا نہیں ہوتے بلکہ نامہ اعمال میں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن کبھی ہم ان سے غافل ہوجاتے ہیں_ موت کے بعد اور آخرت میں منتقل ہوجانے کے بعد قیامت کے دن غفلت کے پردے ہٹادیئےائیں گے اور انسان پر اپنا باطن اور اس کی اصلی ذات ظاہر ہوجائے گی اور اس کا حیران کن نامہ عمل اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا اس وقت اپنے تمام اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوگا جیسے اس نے ابھی انجام دیا ہے_

۳)___ قیامت کے دن انسان کا باطن ظاہر ہو کر رہ جائے گا اور انسان کا نامہ عمل ظاہر کر کے کھول دیا جائے گا گناہگاروں کو دیکھے گا کہ وہ اپنے برے نامہ عمل کے دیکھنے کی وجہ سے سخت خوف و ہراس میں غرق ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم پر ویل ہو کہ جس طرح کا حیرت انگیز ہمارا نامہ عمل ہے کسی چھوٹے اور بڑے کاموں کو ضبط و ثبت کرنے سے اس نے صرف نظر نہیں کیا اور تمام کے تمام کو لکھ لیا جائے گا_ اس دن تمام بندے اپنے اعمال کو حاضر دیکھیں گے تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا_ (سورہ طارق آیت نمبر۹)

۸۳

ان آیات کی روسے انسان اس جہاں سے رخصت ہوکر آخرت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے_ قیامت کے دن اپنے نامہ عمل کو دیکھے گا اور تمام کے تمام کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گا اس وقت خداوند عالم کی طرف سے خطاب ہوگا_

۴)___ اے انسان تو اپنے اعمال سے دنیا میں غافل تھا لیکن اب ہم نے تیرے دل سے غفلت کے پردے ہٹا دیئے ہیں اور تیری آنکھوں کو بینا کردیا ہے_ (سورہ ق آیت نمبر ۲۲)

قیامت کے دن جب انسان حساب و کتاب کے لئے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنی حقیقت اور واقعیت سے مطلع ہوجائے گا_ ہر ایک انسان اپنے نامہ عمل کو کھولے گا اور واضح دیکھ لے گا اور اسے دقّت سے نگاہ کرے گا اپنے تام گزرے ہوئے اعمال کو ایک دفعہ اپنے سامنے حاضر پائے گا_ اللہ تعالی نامہ عمل کے دریافت کرنے کے بارے میں یوں فرماتا ہے:

۵)___ '' نیک لوگوں کو ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے (اور اسی لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب یمین'' کہا گیا ہے ایسے لوگ خوش اور شاہدوں گے کیونکہ جان رہے ہیں کہ ن کا حساب و کتاب آسان ہے اور انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی ہے وہ کہیں گے آؤ اور ہمارے نامہ اعمال کو پڑھو_ ہمیں علم تھا کہ ایک دن حساب و کتاب کا آنے والا ہے ایسے لوگ خوشگوار زندگی بہشت میں گذاریں گے_

بے دین اور بدکردار انسانوں کو نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا (اسی لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب شمال'' کہا جاتا

۸۴

ہے) ایسے لوگ غمگین اور ناخوش ہوں گے کیونکہ وہ جان چکے ہونگے کہ ان کا حساب و کتاب بہت سخت اور دشوار ہے_ وہ کہیں گے کہ کاش یہ نامہ عمل ہمارے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور ہم اپنے اعمال و کردار اور حساب سے بے اطلاع اور غافل رہتے، کاش موت آجاتی_

ایسے انسانوں کی زندگی سخت اور غم انگیز ہوگی اور وہ جہنم کے بلند اور جلانے والے شعلوں میں ڈالے جائیں گے ( یہ سب کچھ ان کے برے اعمال کا نتیجہ ہوگا''_

آیت قرآن کریم

( ووضع الکتاب فتری المجرمین منفقین ممّا فیه و یقولوا یا ویلتنا ما لهذا الکتاب لا یغادر صغیرة و لا کبیرة الّا احصیها و وجدوا ما عملوا حاضرا و لا یظلم ربّک احدا ) (۱) _

نامہ عمل رکھا جائے گا پس گناہگار لوگ بسبب اس کے جوان میں پایا جاتا ہے اسے خوف زدہ دیکھے گا اور وہ کہے گا دائے ہو ہم پر یہ کیسا نامہ عمل ہے؟ کہ کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ہماری نہیں چھوڑتا جو کچھ ہم نے انجام دیا ہے وہ اس میں موجود ہے_ تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا_

____________________

۱) سورہ کہف آیت نمبر ۴۰

۸۵

سوالات

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے اور پسندیدہ اخلاق اور اعمال انسان کی ذات پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ نیک انسان کس طرح اپنی روح اور جان کو نورانی اور باصفا قرار دیتا ہے؟

۳)___ کن اعمال اور عقائد سے انسانی روح کثیف و پلید اور سیاہ ہوتی ہے؟ انسان کس طرح مستقیم اور نورانی راستے اور تقرب الہی سے دور ہوجاتا ہے؟

۴)____ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانی نفس اور روح پر اعمال کے اثرانداز ہونے کی کس طرح تصویر کشی کی ہے؟

۵)___ انسانی اعمال جو انسانی روح اور نفس میں ثبت ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ کون سی ذوات ہمارے اعمال کے مراتب اور محافظ ہیں؟

۶)___ قیامت کے دن جب گناہگار اپنے نامہ اعمال دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟

۷)___جب انسان قیامت کے دن اپنے نامہ عمل دیکھے گا اور اپنے تمام اعمال کا مشاہدہ کر رہا ہوگا تو اس وقت اللہ تعالی اس سے کیا خطاب کرے گا؟

۸)___ انسان کو اپنی ذات اور واقعیت کس دنیا میں پوری طرح ظاہر ہوگی؟

۹)___ قرآنی اصطلاح میں ''اصحاب یمین'' کسے کہا جاتا ہے اور جب انھیں نامہ عمل

۸۶

دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟

۱۰)___ قرآنی اصطلاح میں ''اصحاب شمال'' کسے کہا جاتا ہے جب انھیں اپنا نامہ عمل دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟ اور آخرت میں کس طرح زندگی بسر کریں گے؟

۸۷

قیامت کا منظر

لوگوں کو بتایا گیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک صحابی فوت ہوگئے ہیں ان کے دوست اور احباب اس خبر سے بہت رنجیدہ ہوئے اور ان کے لئے طلب مغفرت کی ایک مدت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی اور وہ آدمی نہیں مرا تھا اس کی اولاد رشتہ دار اور دوست و احباب بہت خوش ہوئے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے ان دو خبروں کے معلوم کرنے پر اس شخص کو یہ خط تحریر فرمایا:

'' بسم اللہ الرّحمن الرحیم

ایک اطلاع ہمیں تمھارے بارے میں ملی کو جو دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے افسوس کا باعث تھی جس نے ان کو عمزدہ کردیا_ ایک مدت کے بعد دوسری اطلاع ملی کہ پہلی خبر جھوٹی تھی اور اس نے دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کو خوش کردیا_

ان دو خبروں کے متعلق تم کیا سوچتے ہو؟ کیا تم سوچتے ہو کہ یہ خوشحالی اور خوشی پائیدار و دائمی ہے یا یہ خوشی ایک دفعہ پھر حزن و ملال میں تبدیل ہوجائے گی؟ واقعاً اگر پہلی خبر درست ہوتی تو اب تک تم آخرت کی طرف منتقل ہوگئے ہوتے، کیا تم پسند کرتے ہو کہ خداوند عالم تمھیں دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا دیتا اور نیک کاموں کے بجالانے

۸۸

کی فرصت عنایت فرماتا؟ تم یوں فکر کرو کہ پہلی خبر درست تھی اور تم آخرت کی طرف چلے گئے ہو اور موت کے مزہ کو چکھ چکے ہو اور پھر دوبارہ اس دنیا کی طرف لوٹائے گئے ہو تا کہ اعمال صالحہ بجالاؤ_

اس طرح گمان کرو کہ اللہ تعالی نے تمھیں اس دنیا میں واپس تمھاری خواہش کو قبول کرتے ہوئے لوٹا دیا ہے، اب کیا کروگے؟ آیا جلدی میں حقیقی زندگی کے لئے زاد و توشہ جمع کروگے؟ آیا ہمیشہ رہنے والی جگہ کے لئے کوئی پیشگی بھیجوگے؟

نیک کام، عمل صالح، لوگوں کی دستگیری، دعا اور عبادت ان میں سے کیا روانہ کروگے؟ جان لو کہ اگر اس سے آخرت کی طرف خالی ہاتھ کوچ کر گئے تو پھر دوبارہ واپس لوٹ کر نہیں آؤگے؟ اور سوائے افسوس و حسرت اور رنج و غم کے اور کوئی چیز نہ پاؤگے_

یہ جان لو کہ دن، رات ایک دوسرے کے پیچھے آجا رہے ہیں اور وہ تمھاری عمر کو کوتا ہ کر رہے ہیں اور موت کو تم سے قریب کر رہے ہیں اور انسان کو زندگی کے آخری نقطہ تک پہنچا رہے ہیں_ یقینا یہ آخری لحظہ بھی انسان کو آپہنچے گا اور حق کی طرف بلانے والا آخرت کی طرف لے جاکر رہے گا_ پست اور کمتر اور ہوی و ہوس اور لذائذ مادی کو کم کرو، اللہ کی طرف اور حقائق الہی کی طرف لوٹو اور آخرت کے سفر کا بار تقوی اور اعمال صالح کے ساتھ باندھو

۸۹

آئیں گے کہ جن سے گذرنا ضروری ہے_ جان لو کہ آخرت کے راستے کا توشہ، تقوی ہے ورنہ تم لڑکھڑاؤگے اور جہنم کے گہرے گڑہے ہیں جاگرو گے_ گناہوں اور اللہ کی معصیت سے بچو تا کہ بہشت میں نیک لوگوں کے ساتھ جاملو''

امیرالمومنین علیہ السلام نے اس گفتگو میںسخت موڑوں ، گزرگاہوں اور خوفناک منازل کا ارشادتا ذکر فرمایا ہے، آپ کی گفتگو میں صرف ایک اشارہ ہی کیا گیا ہے کیونکہ آخرت کی عظیم حقیقت اور قیامت کے حوادث کو سوائے اشارے کے بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی سنا جا سکتا ہے_

آخرت کے واقعات اور حوادث کو ذرا زیادہ عظمت کے ساتھ معلوم کرنے کے لئے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں، قیات ک شگفت آور مناظر کو قرآن کریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی اس عظیم واقعہ کی حقیقت کو اس طرح کہ جس طرح وہ ہے معلوم نہیں کرسکتے صرف مختصر اشارے سنے ہیں تا کہ جان لیں کہ ایک بہت سخت اور غیر قابل توصیف دن آگے آنے والا ہے اور ہمیں اپنے آپ کو تقوی اور عمل صالح سے متصف کرنا چاہیئے تا کہ ان سخت خطرناک موڑوں اور نشیب و فراز سے ہمارے لئے گذرنا آسان ہوجائے اور پروردگار کی بہشت اور رضوان پہنچتا میسّر ہوجائے_

۹۰

برزخ اور قیامت

جب کوئی گناہگار اس دنیا سے کوچ کرتا ہے تو عذاب اور رنج کا عالم برزخ میں مشاہدہ کرتا ہے اور کہتا ہے:

۱)___ ''خدایا مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹا دے تا کہ اعمال صالحہ بجالا سکوں اور اپنے گذشتہ گناہوں کا جبران کرسکوں، لوٹنے کی خواہش کرے گا لیکن ہرگز دنیا کی طرف لوٹایا نہیں جائے گا اور قیامت و روز بعث تک عذاب میں مبتلا رہے گا''(۱)

۲)___ ''قیامت کے دن سورج تاریک اور لپیٹ لیا جائے گا، ستارے بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ حرکت کریں گے اور لرزنے لگیں گے حاملہ اونٹنیاں بغیر ساربان کے رہ جائیں گی، وحوش محشور ہوں گے اور دریا جلانے والے اور شعلہ خیز ہوجائیں گے''(۲)

۳)___ ''جب آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے منتشر ہوجائیں گے اور دریا چیر دیئے جائیں گے اور دریاؤں کے پانی پراگندہ ہوجائیں گے جب کہ قبریں اوپر نیچے، ہوجائیں گی یعنی دہنس جائیں گی، اس وقت زمین لزرے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہوگا اسے باہر پھینک دے گی''(۳)

____________________

۱)___ سورہ مومنون آیات ۹۹_ ۱۰۰

۲)___ سورہ تکویر آیات ۱_ ۶

۳)___ سورہ زلزال آیات ۱_۹

۹۱

۴)___ ''جب پہاڑوئی کی طرح دھنے جائیں گے اور پاش پاش ہوجائیں گے''(۱)

۵)___ ''جب چاند کو گرہن لگے گا اور تاریک ہوجائے گا اور سورج و چاند اکٹھے ہوں گے''(۲)

۶)___ ''جب زمین بہت سخت لرزے گی اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں گے اور غبار بن کر چھاجائیں گے''(۳)

۷)___ ''جب زمین اور پہاڑ سخت لزریں گے اور پہاڑ خوفناک ٹیلے کی صورت میں بدل جائے گا''(۴)

۸)___ ''جب آسمان سخت حرکت کرے گا اور پہاڑ چلنے لگے گا''(۵)

۹)___ '' جب آسمان کے دروازے کھول دیئےائیں گے اور پہاڑ سخت حرکت کریں گے اور سراب کی طرح بے فائدہ ہوں گے'' (۶)

۱۰)___ ''جب زمین غیر زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور آسمان متغیر ہوجائے گا اور لوگ خدائے قادر کے سامنے حاضر ہوں گے ''_ (۷)

۱۱) ___ ''جب دن تیرے پروردگار کے نور س روشن اور منور ہوجائے گا''(۸)

____________________

۱) سورہ قاعد آیت۳

۲) سورہ قیامت آیات ۸_۹

۳) سورہ واقعہ آیات ۴_۶

۴)سورہ مزمل آیت ۱۴

۵)سورہ طور آیات ۹-۱۰

۶) سورہ نبا آیات ۱۹، ۲۰

۷)سورہ ابراہیم آیت ۴۸

۸) سورہ زمر آیت ۶۹

۹۲

ان آیتوں سے اجمالی طور سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اس دنیا کا موجودہ نظام خلقت تبدیل ہوجائے گا، سورج تاریک اور بے نور ہوجائے گا، چاند خاموش اور بے رونق ہوگا، ستارے پراگندہ اور پہاڑ اس عظمت کے باوجود لرزاں ہوں گے، چلنے لگیں گے اور خوفناک ٹیلوں میں تبدیل ہوجائیں گے، گرد و غبار کی صورت میں پراگندہ اور بے فائدہ ہوجائیں گے، زمین کسی اور زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور ایک وسیع میدان وجود میں آجائے گا کہ جہاں تمام لوگ حساب و کتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے_

یہ تمام قیامت کے عظیم مناظر کے مختصر اشارے تھے اس کے باوجود اس عظیم واقعیت کا ہم تصور نہیں کرسکتے صرف قرآن مجید کے ان اشارات سے اتنا سمجھتے ہیں کہ ایک بہت سخت دن آنے والا ہے ہم ایمان و عمل صالح سے اپنے آپ کو لطف الہی اور اس کے خوف سے محفوظ رکھ سکتے ہیں_

آیت:

( یوم تبدّل الارض غیر الارض و السّموات و برزوا لله الواحد القهار ) (۱)

''جس دن زمین غیر زمین میں تبدیل کی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہّار کے سامنے حاضر ہوں گے''

____________________

۱) سورہ ابراہیم آیت نمبر ۴۸

۹۳

سوالات

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ جب گناہگار انسان، عالم برزخ میں جاتا ہے اور عذاب و رنج کو دیکھتا ہے تو کون سی آرزو کرتا ہے، کیا کہتا ہے، اس کی یہ آرزو پوری کی جائے گی ؟

۲)___ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس صحابی کو اس جہاں میں دوبارہ آجانے کے بعد کیا لکھا تھا اور اسے کس بیان سے نصیحت کی تھی؟

۳)___ قرآن مجید میں قیامت کو کن خصوصیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؟

۴)___ قیامت کے سخت ہنگامے اور خوف و ہراس سے کس طرح امان میں رہ سکتے ہیں؟

۵)___ امیرالمومنین علیہ السلام کے خط میں نصرت کے لئے کس زاد اور توشے کو بیان کیا گیا ہے؟

۶)___ کون سی چیزیں انسان کو بہشت میں جانے سے روک لیتی ہیں اور کس طرح قیامت کے خطرناک اور پر پیچ راستے کو طے کرسکتے ہیں؟

۹۴

تیسرا حصّہ

پیغمبری اور پیغمبروں کے مسائل کے بارے میں

۹۵

پہاڑ کی چوٹی پر درس

ہم پہاڑ پر جانا چاہتے تھے چند ایک دوستوں سے کل پہاڑ پر جانے کے پروگرام کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ کون سے وقت جائیں؟ کون سی چیزیں اپنے ساتھ لے جائیں، کہاں سے جائیں؟

ان سوالات کے بارے میں بحث کر رہے تھے لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے تھے دوستوں میں سے ہر ایک کوئی نہ کوئی مشورہ دے رہا تھا_

آخر میں باقر نے کہا:

'' دوستو میری نگاہ میں ایک راہنما کی ضرورت ہے جو پہاڑ کے سر کرنے کا ماہر ہو وہ ہم کو بتلائے کہ کون سی چیزیں اس کے لئے ضروری ہیں اور کون سے راستے سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر جائیں اور اسے سر کریں؟

میں نے باقر سے کہا کہ راہنما کی کیا ضرورت ہے؟ ہمیں کسی راہنما کی ضرورت نہیں ہے ہم میں فکر کرنے کی قوت موجود ہے، ہم آنکھیں رکھتے ہیں سوچیں گے اور راستہ طے کرتے جائیں گے یہاں تک کہ اوپر پہنچ جائیں گے_

باقر نے جواب دیا:

''غلطی کر رہے ہو پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ہمیں پہاڑ کے حدود سے واقفیت نہیں ہے اور ہم کو جن چیزوں

۹۶

کی ضرورت ہوگی ان کی کوئی اطلاع نہیں رکھتے، ہمیں علم نہیں ہے کہ کہاں سے اوپر چڑھیں اور کون سی چیزیں اپنے ہمراہ لے جائیں مثلاً بتاؤ کہ اگر طوفان آگیا اور سخت اندھیرا چھاگیا تو کیا کریںگے، اور گر راستہ بھول گئے تو کی کریں گے؟ ''

میں جب باقر کے ان سوالات کا جواب نہ دے سکا تو مجبوراً ان کی رائے سے موافقت کرلی کہ ایک راہنما کی ضرورت ہے جو مورد اعتماد ہو اور راستوں سے واقف بھی ہوا اور اسے راہنمائی کے لئے لے جانا چاہیئے_

اس کے ایک دن ایک دوست نے بتلایا کہ دوستو میرے باپ کے دوستوں میں سے ایک ماہر کوہ نورد ہے میرے باپ نے اس سے خواہش کی ہے کہ وہ ہماری راہنمئی کا کام انجام دے وہ آج رات ہمارے گھر آئے گا تم بھی وہاں آجانا تا کہ کل چلنے کے متعلق اس سے گفتگو کریں_

ہم اس رات سعید کے گھر گئے سعید کے باپ اور اس کے دوست وہاں موجود تھے جب تمام احباب اکٹھے تو داؤدی صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ:

''دوستو میں نے سنا ہے کہ کل تم پہاڑ کے اوپر جانا چاہتے ہو کتنا عمدہ پروگرام تم نے بنایا ہے لیکن جانتے ہو کہ شاید یہ سفر خطرے اور دشواریوں سے خالی نہ ہو، خطروں سے بچنے کے لئے کی کروگے؟''

لڑکوں نے جواب دیا آپ سے مدد اور راہنمائی حاصل کریں گے_

داؤدی صاحب نے کہا:

''بہت اچھا کل چار بجے صبح چلنے کے لئے تیار ہوجانا، گرم لباس پیٹھ پر ڈالنے والا تھیلا، معمولی غذا اور اگر ہوسکے تو تھوڑی کھجور اور

۹۷

کشمکش کبھی ساتھ لے لینا میں ابتدائی مرحلے کی چیزیں ساتھ لے آؤں گا''

ہم نے راہنما کے دستور کے مطابق تمام وسائل فراہم کرلئے اور دوسرے دن صبح کے وقت خوشی سعید کے گھر پہنچ گئے تمام لڑکے وقت پر وہاں آگئے اور چلنے کے لئے تیار ہوگئے_ ایک دو لڑکے باپ کے ہمراہ آئے تھے_ تھوڑاسا راستہ بس پر طے کیا اور پہاڑ کے دامن میں پہونچ گئے_ بس سے اترے اور پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی مسجد میں صبح کی نماز ادا کی _ نماز کے بعد راہنما نے ضروری ہدایات جاری کیں اور بالخصوص یہ یاد دلایا کہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں آگے جلدی میں نہ جانا اور پیچھے بھی نہ رہ جانا_ ہم نے چلنا شروع کیا پہاڑ بہت اونچا تھا، بہت خوشنما اور زیبا تھا، چپ چاپ، سیدھا، مستحکم و متین اور باوقار اللہ تعالی کی عظمت اور قدرت کو یاد دلا رہا تھا_

راہنما آگے جارہا تھا ہم اس کے پیچھے باتیں کرتے جار ہے تھے، ہنس رہے تھے اور آگے بڑھ رہے تھے وہ ہر جگہ ہماری نگرانی کرتا تھا اور سخت مقام میں ہماری مدد و راہنمائی کرتا تھا_ کبھی خود بڑے پتھر سے اوپر جاتا اور ہم سب کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کھینچ لیتا کبھی راستہ کھلا آجاتا اور تمام لڑکے اس کی اجازت سے دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے تھے اور جب راستہ تنگ ہوجاتا تو ہم مجبور ہوجاتے تھے کہ ایک دوسرے کے پیچھے چلیں اور بہت احتیاط سے راستہ طے کریں، اس حالت میں راہنما ہمیں خبردار کرتا اور خود اس پھلنے والی جگہ کے کنارے کھڑا ہوجاتا اور ہر ایک کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے گذارتا بہت سخت پھلنے والی جگہیں راستے میں موجود تھیں ان میں سے ایک جگہ میرا پاؤں کہ اگر راہنما میرا ہاتھ نہ پکڑتا تو میں کئی سوفٹ نیچے جاگرتا_

اب میں سمجھا کہ راہنما اور رہبر کا ہونا بہت ضروری ہے راستے میں کبھی ہم ایسے راستوں پر پہونچے جہاں پتہ نہ چلتا کہ کہاں سے جائیں راہنما تھا جو ہمیں راستہ بتلاتا اور اس کی راہنمائی

۹۸

کرتا، راستے میں ہم کئی جگہوں پر بیٹھے، آرام کیا اور کچھ کھایا پیا_ یہ سفر سخت دشوار لیکن زیبا اور سبق آموز تھا بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے کے بعد غروب کے نزدیک پہاڑ کی چوٹی کے قریب پہنچ گئے، سبحا ن اللہ کتنی زیبا اور خوبصورت تھی وہ چوٹی کتنی عمدہ اور لطیف تھی آب و ہوا، تمام جگہیں وہاں سے نظر آرہی تھیں گویا ہم کسی دوسرے عالم میں آگئے تھے، خوش و خرم ہم نے پیٹھ والے تھیلے اتارے اور تھوڑی سی سادہ غذا جسے ہم اپنے ساتھ لے آئے تھے نکال کر کھائی کاش تم بھی ہوتے، واقعی اس وقت تک ہم نے اتنی مزے دار غذا نہیں کھائی تھی_ رات کو وہاں ٹھہرجانے پر اتفاق ہوگیا اور چونکہ ہم نے اپنے راہنما کے دستورات کے مطابق عمل کیا تھا لہذا تمام چیزیں ہمارے پاس موجود تھی رات ہوگئی مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ہم گفتگو میں مشغول ہوگئے_

راہنما نے کہا: پیارے بچو

'' خدا کا شکر ہے کہ ہم سلامتی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں اب تم نے مان لیا ہوگا کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنا اور کوہ نوردی کوئی معمولی کام نہیں ہوا کرتا کیا تم تنہا پہاڑ کی چوٹی سر کر سکتے تھے ؟ ''

میں نے کہا کہ آپ نے میرا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا تو میں پہاڑ کے درے میں گرگیا ہوتا_ میں اس وقت متوجہ ہوگیا تھا ک ایک صحیح راہنما اور راہبر کے ہم محتاج ہیں_

جناب داؤدی نے کہا:

''صرف کوہ پیمائی ہی راہنمائی کی محتاج نہیں ہوا کرتی بلکہ ہر سخت اور دشوار سفر راہنما اور راہبر کا محتاج ہوتا ہے مثلاً فضا میں سفر تو بہت سخت دشوار ہے جس میں بہت زیادہ راہنما کی ضرورت ہوا کرتی ہے_ لڑکوجانتے ہو کہ سب سے اہم اور پر اسرار سفر جو

۹۹

ہم کو در پیش ہے وہ کون سا سفر ہے،

لڑکوں میں سے ہر ایک نے کوئی نہ کوئی جواب دیا_ آخر میں باقر کے باپ نے کہا کہ

''میری نگاہ میں وہ سفر جو سب ہے اہم ہے وہ آخرت کا سفر ہے یہ اس جہاں سے منتقل ہوکر دوسرے جہاں میں جانے والا سفر ہے، واقعاً یہ سفر بہت پیچیدہ اور دشوار سفروں میں سے ایک ہے''_

راہنما نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم نے درست کہا ہے میرا مقصد بھی یہی سفر تھا لڑکو اس سفر کے متعلق کیا فکر کرتے ہو؟ ہم اس سفر کا راستہ کس طرح طے کریں گے اور کون سا زاد راہ اور توشہ ساتھ لے جائیں گے، اس جہاں میں راحت و آرام کے لئے کیا کریں گے؟ کون سے افراد ہمارے اس سفر میں راہنمائی کریں گے، کون ہمیں بتلائے گا کہ اس سفر کے لئے کون سا زاد راہ ساتھ لے جائیں؟ باقر کے باپ نے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکو تم موافقت کرو تو میں اس سفر کی مزید وضاحت کروں:

''آخرت کے سفر کے راہنما پیغمبر ہوا کرتے ہیں جو مخلوق اور خالق کے درمیان واسطہ اور پیغام لانے والے ہوتے ہیں، اللہ تعالی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں، زندگی کی عمدہ اور بہترین راہ و رسم کی لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں او رسعادت کی چوٹی پر چڑھنے کے لئے انسان کو راستہ بتلاتے ہیں، برے اخلاق اور اخلاقی پستیوں میں گرجانے والی وادیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، خداپرستی اور عمدہ اخلاق کے راستے بیان کرتے ہیں_

۱۰۰

پیغمبر انسانوں کی اس سفر میں مدد دیتے ہیں، ان کی راہنمائی کرتے ہیں_ اگر ہم پیغمبروں کے کلام اور ان کی راہنمائی کی اطاعت کریں تو آخرت کے سفر کے راستے کو سلامتی اور کامیابی سے طے کرلیں گے اور اپنے مقصد تک پہونچ جائیں گے''_

اس کے سننے کے بعد دوبارہ میرے دل میں وہ خطرہ یاد آیا جو مجھے راستے میں پیش آیا تھا داؤدی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہ کہ یہ سفر ہم نے اس راہنما کی راہنمائی اور مدد سے سلامتی کے ساتھ طے کیا ہے اور ہم اپنے مقصد تک پہنچ گئے ہیں_ جناب داؤدی نے ہماری طرح اپنے اوپر کمبل اوڑھ رکھا تھا میری طرف شکریہ کی نگاہ کی اور کہا کہ

''یقینا ہم مقصد تک پہنچ جائیں گے بشرطیکہ ہم پیغمبروں کی راہنمائی پر عمل کریں اور آخرت کے سفر کے لوازمات اور اسباب مہیا کریں''_

اس کے بعد ایک نگاہ لڑکوں پر ڈالی اور پوچھا: ''لڑکو کیا جانتے ہو کہ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے زاد راہ اور توشہ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

''پیغمبروں نے فرمایا ہے کہ آخرت کے سفر کا زاد راہ ایمان و تقوی اور عمل ہے، ہر انسان کی سعادت اس کے عمل اور رفتار سے وابستہ ہے، انسان جو بھی اس دنیا میں بوئے گا اسے آخرت میں کائے گا اگر اس دنیا میں خوبی کرے گا تو آخرت میں خوبی دیکھے گا اور بدی کرے گا تو آخرت میں بدی دیکھے گا_

ہر ایک انسان کا سعادتمند ہونا یا شقی ہونا، بلند و بالا یا پست و ذلیل ہونا اس کے کاموں اور اعمال سے وابستہ ہے، جو انسان پیغمبروں کی راہنمائی پر عمل کرتا ہے آخرت کے سفر کو سلامتی کے

۱۰۱

ساتھ طے کرے گا اور بلندترین مقام و سعادت کو پالے گا''_

جناب داؤدی کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو انھوں نے اپنی نگاہ ستاروں سے پر آسمان کی طرف اٹھائی اور کافی دیر تک چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھتے رہے تھوڑی دیر بعد لمبی سانس لی اور کہا:

''لڑکو تم تھک گئے ہو ہوجاؤ میں اور تمھارے باپ باری باری جاگتے اور پہرہ دیتے ہیں گے، تم میں سے جو بھی چاہے باری باری پہرہ دے سکتا ہے_ اللہ کی یاد کے ساتھ ہوجاؤ اور صبح جلدی بیدار ہوجانا کہ کل ایک بہت عمدہ پروگرام سامنے ہے''_

۱۰۲

سوالات

غور سے مندرجہ ذیل سوالات کو پڑھو، بحث کرو اور یاد کرلو

۱) ___ باقر نے یہ کیوں کہا کہ کوہ پیمائی کے لئے ایک راہنما انتخاب کرو، آخر کون سی مشکلات کا سامنا تھا؟

۲)___ کس نے کہا تھا کہ راہنما کی کیا ضرورت ہے؟ اس نے اپنے اس مطلب کے لئے کیا دلیل دی تھی؟ اس کی دلیل درست تھی؟ اور اس میں کیا نقص تھا؟

۳)___ باقر نے اسے کس طرح سمجھایا کہ راہنما کی ضرورت ہے اسے اس مطلب کے سمجھانے کے لئے کون سے سوالات کئے؟

۴)___ کیا اس نے باقر کی گفتگو کے بعد راہنما کی ضرورت کو قبول کرلیا تھا؟ واقعا اس نے کس وقت اسے قبول کیا تھا؟ خود اسی درس سے اس کی دلیل بیان کرو_

۵)___ کس نے لڑکوں کی راہنمائی اور راہبری کو قبول کیا؟ اس نے چلنے کے لئے کون سے دستورات دیئے؟ کون سے وسائل کا ذکر کیا کہ انھیں ساتھ لے آئیں اس نے خود اپنے ساتھ کن چیزوں کے لے آنے کا وعدہ کیا تھا؟

۶)___ جب صبح کی نماز پڑھ چکے اور پہاڑ پر چڑھنے کے لئے تیار ہوگئے تو راہنما نے کون سے دستورات کی یادآوری کی؟ وہ کون سے دستور تھے؟ تمھاری نگاہ میں اس دستورات میں سے کس کو اہمیت دی گئی تھی؟

۷)___ جب کبھی راستہ سخت اور دشوار آجاتا تو راہنما لڑکوں کو کیا ہدایت دیتا؟

۸)___ ہادی نے کیسے قبول کرلیا کہ راہنما اور راہبر کا وجود ضروری اور لازمی ہوتا ہے؟

۱۰۳

۹)___ جناب داؤدی کی نگاہ میں مہم ترین اور پر اسرارترین سفر کون سا تھا؟

۱۰)___ جناب داؤدی نے اس مہم اور اسرار آمیز سفر کے بارے میں لڑکوں سے کون سے سوالات کئے تھے؟

۱۱)___ باقر کے باپ نے جناب داؤدی کے سوالات کا کیا جواب دیا تھا؟ پیغمبر جو آخرت کے سفر کے راہنما ہیں کون سی ذمہ داری ان کے ذمّے ہوا کرتی ہے؟ کس صورت میں ہم سلامتی اور کامیابی کے ساتھ مقصد تک پہنچ سکتے ہیں؟

۱۲)___ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے کون سا توشہ اور زادہ راہ بیان کیا ہے ہر انسان کا بلند مقام یا پست مقام پر جانے کو کس سے مربوط جانا ہے؟

۱۳)___ جب تمام لڑکے سوگئے تو جناب داؤدی نے رہبری کا کون سا وظیفہ انجام دیا؟

۱۴)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ لڑکوں کے کل کا بہترین پروگرام کیا تھا؟

۱۰۴

پیغمبر یا آخرت کے سفر کے راہنما

انسان کی روح اور جان بہت سے مخفی راز رکھتی ہے_ کیا انسان اپنی روح و جان کے رموز سے پوری طرح واقف ہے؟ انسان کے سامنے بہت زیادہ ایسے سفر کہ جو اسرار آمیز ہیں موجود ہیں_ کیا انسان ایسے سفروں اور زندگی سے پوری اطلاع رکھتا ہے؟ کیا آخرت کے زاد راہ سے جو ضروری ہیں آگاہ ہے؟ کیا انسان، ارتقاء اور سعادت تک پہونچنے کے راستوں کو پہچانتا ہے؟ کیا راستوں کی دشواریوں اور ایسے موڑوں سے کہ جن سے انسان گرسکتا ہے خبردار ہے؟

ان سوالوں کا جواب کون سے افراد دے سکتے ہیں؟ کون سے حضرات سیدھے راستے اور کج راستے واقف ہیں؟ کون سے حضرات انسان کا راستہ بتلا سکتے ہیں ؟ کون سے حضرات انسانوں کو ان راستوں کی راہنمائی اور مدد دے سکتے ہیں؟ خدا کے فرستادہ پیغمبر ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں پس انسان ہمیشہ پیغمبروں اور راہنماؤں کے وجود کا محتاج رہا ہے اور رہے گا_

خداوند عالم کہ جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور ان کی ضروریات کو ان کے لئے فراہم کیا ہے اور انھیں ارتقاء کی راہ تک پہونچا دیا ہے_ انسان کو یعنی موجودات عالم میں سے

۱۰۵

کامل ترین اور اہم ترین موجود کو زندگی کے پر خطر آخرت کے سفر کے لئے رہبر اور راہنما کے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ اسے ا رتقاء و ہدایت اور تمام قسم کی مدد کے لئے راہنما چنا اور انھیں مبعوث کیا ہے صرف ذات الہی ہے کہ جو انسان کے جسم اور روح کے رموز اور اسرار اور اس کے گذشتہ اور آئندہ سے آگاہ ہے اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی سے پوری طرح واقف ہے_

کون اللہ تعالی سے زیادہ اور بہتر انسان کی خلقت کے رموز سے آگاہ ہے؟ کون سی ذات سوائے اللہ کے انسان کی سعادت اور ارتقاء کا آئین اس کے اختیار میں دے سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جس خدائے مہربان نے انسان کو پیدا کیا ہے اسے اس قسم کے دشوار راستے کے طے کرنے کے لئے بغیر رہبر، آئین اور راہنما کے چھوڑ دیا ہو؟ نہیں اور ہرگز نہیں اللہ تعالی نے انسان کو اس مشکل اور پیچیدہ سفر کے طے کرنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑ رکھا بلکہ اس کے لئے راہنما اور راہبر بھیجا ہے_

پیغمبروں کو اللہ تعالی نے انسانوں میں سے چنا ہے اور ضروری علوم انھیں بتایا ہے تا کہ وہ لوگوں کی مدد کریں اور انھیں ارتقاء کی منزلوں تک پہونچنے کے لئے ہدایات فرمائیں_ پیغمبر صحیح راستے اور غیر صحیح راستے کو پہچانتے ہیں اور وہ ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہوا کرتے ہیں، اللہ تعالی کا پیغام لیتے ہیں اور اسے بغیر زیادتی و کمی کے لوگوں تک پہونچاتے ہیں پیغمبر چنے ہوئے لائق انسان ہوتے ہیں کہ دین کا آئین انھیں دیا جاتا ہے اور اپنی گفتار و کردار سے لوگوں کے لئے نمونہ ہوا کرتے ہیں_ جب سے انسان پیدا کیا گیا ہے اور اس نے اس کرہ ارض پر زندگی شروع کی ہے تب سے ہمیشہ اس کے لئے پیغمبر موجود رہے ہیں_

پیغمبر لوگوں کی طرح ہوتے تھے اور انھیں جیسی زندگی بسر کرتے تھے اور لوگوں

۱۰۶

کو دین سے مطلع کرتے تھے، لوگوں کے اخلاق و ایمان اور فکر کی پرورش اور رشد کے لئے کوشش کرتے تھے، لوگوں کو خدا اور آخرت کی طرف جو ہمیشہ رہنے والا ہے متوجہ کرتے تھے_

خداپرستی، خیرخواہی، خوبی اور پاکیزگی کی طرف ان کی روح میں جذبہ اجاگر کرتے تھے، شرک و کفر اور مادہ پرستی سے مقابلہ کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ ظلم و تجاوزگری سے جنگ کرتے تھے، پیغمبر لوگوں کو اچھے اخلاق اورنیک کاموں کی طرف دعوت دیتے تھے اور برے اخلاق ، پلید و ناپسندیدہ کردار سے روکتے تھے، سعی و کوشش، پیغمبروں اور ان کے ماننے والوں کی راہنمائی سے بشر کے لئے ارتقاء کی منزل تک پہونچنا ممکن ہوا ہے_

سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہیں اور دو کے درمیان بہت سے پیغمبر آئے ہیں کہ جن کو پیغمبر اسلام(ص) نے ایک حدیث کی روسے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بتلایا ہے_ پیغمبر قبیلوں، دیہاتوں، شہروں او رملکوں میں بھیجے جاتے تھے اور وہ لوگوں کی راہنمائی، تعلیم و تربیت میں مشغول رہتے تھے_

کبھی ایک زمانہ میں کئی ایک پیغمبر مختلف مراکز میں تبلیغ کرتے تھے، پیغمبروں کی رسالت اور ذمہ داری کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوا کرتا تھا بعض پیغمبر صرف قبیلہ یا دیہات یا ایک شہر یا کئی شہروں اور دیہاتوں کے لئے مبعوث ہوا کرتے تھے لیکن ان میں سے بعض کی ماموریت کا دائرہ وسیع ہوتا یہاں تک کہ بعض کے لئے عالمی ماموریت ہوا کرتی تھی_

پیغمبروں کا ایک گروہ کتاب آسمانی رکھتا تھا لیکن بہت سے پیغمبر آسمانی کتب نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کی شریعت کی تبلیغ کرتے تھے، آسمانی تمام

۱۰۷

کی تمام کتابیں اب موجود نہیں رہیں ایک سو چار آسمانی کتابیں تھیں_ بعض پیغمبر صاحب شریعت ہوا کرتے تھے لیکن بعض دوسرے پیغمبر شریعت نہیں لائے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کی شریعت کی ترویج کیا کرتے تھے_

حضرت نوح (ع) ، حضرت ابراہیم (ع) ، حضرت موسی (ع) و حضرت عیسی (ع) اور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم ممتاز و بزرگ پیغمبروں میں سے تھے ان پانچ پیغمبروں کو اولوالعزم پیغمبر کہا جاتا ہے کہ ان میں ہر ایک صاحب شریعت تھا_

ہم مسلمان اللہ تعالی کے تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، اور سبھی کو اللہ تعالی کا بھیجا ہوا پیغمبر مانتے ہیں، ان کی محنت اور کوشش کا شکریہ ادا کرتے ہیں_ ہمارا وظیفہ ہے کہ حضرت موسی (ع) اور حضرت عیسی (ع) کے پیروکاروں کو کہ جنھیں یہودی اور عیسائی کہا جاتا ہے اور زردشتیوں سے بھی نیکی اور مہربانی سے پیش آئیں اور اسلام کی روسے جوان کے اجتماعی حقق ہیں ان کا احترام کریں_

۱۰۸

سوالات

فکر کیجئے، بحث کیجئے اور صحیح جواب تلاش کیجئے

۱)___ انسانوں کا پیغمبروں اور راہنماؤں کے محتاج ہونے کی علت کیا ہے؟

۲)___ انسانوں کے رہبر اور راہنما انسان کی پر خطر زندگی اور آخرت کے سفر کے لئے کون سے حضرات ہونے چائیں؟

۳)___کون زیادہ اور بہتر طور پر انسان کی خلقت کے راز سے آگاہ ہے اور کیوں؟

۴)___ پیغمبروں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ضروری معلومات کو پیغمبروں کے لئے کون فراہم کرتا ہے اور پیغمبروں کی ذمہ داریوں کون معین کرتا ہے؟

۵)___ کون سے ہدف کے لئے پیغمبروں کی دعوت اور کوشش ہوا کرتی تھی،

۶)___ پیغمبر اسلام(ص) نے پیغمبروں کی تعداد کتنی بتلائی ہے، آسمانی کتابوں کی تعداد کتنی ہے؟

۷)___ کیا پیغمبروں کی ماموریت کا دائر اور حدود ایک جیسے تھے اور کس طرح تھے؟

۸)___ اولوالعزم پیغمبر کون تھے، ان کی خصوصیت کیا تھی؟

۹)___ دوسرے پیغمبروں کے پیروکاروں کے متعلق ہمارا وظیفہ کیا ہے؟

۱۰)___ ہم مسلمانوں کا دوسرے پیغمبروں کے متعلق کیا عقیدہ ہے، ہم کیوں ان کا احترام کرتے ہیں؟

۱۰۹

پیغمبروں کی انسان کو ضرورت

انسان کا ہر فرد اس دنیا میں راستے کو ڈھونڈتا اور سعادت مندی طلب کرتا ہے پیاسا پانی کی طلب میں ادھر ادھر دوڑتا ہے کبھی ایک خوبصورت چمک کہ جو میدان میں نظر آتی ہے پانی سمجھ کر اس کی طرف جلدی سے دوڑتا ہے لیکن جب اس کے نزدیک پہونچتا ہے تو پانی نہیں پاتا اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑتا رہا تھا_

ایک مہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی اس دنیا وی زندگی کے علاوہ ایک اور زندگی بھی ہے، آج کے دن کے علاوہ ایک اور دن بھی آنے والا ہے، انسان اس جہاں کے علاوہ ایک اور ابدی دنیا (آخرت) میں بھی جانے والا ہے اور اس جہاں میں ہمیشہ کے لئے زندگی بسر کرے گا، کل آخرت میں اس دنیاوی جہان میں جو بویا ہوگا کاٹے گا_ انسان آخرت میں یا سعادت مند اور نجات پانے والا ہوگا یا شقی و بدبخت ہوگا_ انسان کے آخرت میں سعادت و شقاوت کا سرچشمہ اس دنیا کے اعمال ہیں اور یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے_

آج کون سا بیج بویا جائے تا کہ کل اس کا اچھا محصول حاصل کیا جائے؟ کون سا عمل انجام دیا جائے تا کہ آخرت میں سعادت مند ہوجائے؟ کس راستہ پر چلا جائے تا کہ آخرت میں اللہ تعالی کی عمدہ نعمتوں تک رسائی حاصل ہوسکے؟ کون سے برنامہ پر عمل کرے؟ کس طرح صحیح راستے کو غلط راستے سے پہچانے؟ کون راہنما ہو؟

انسان کا عمل اور کردار سعادت و کمال یا شقاوت و بدبختی کا موجب ہوا کرتا ہے

۱۱۰

لہذا انسان اپنے اعمال اور زندگی کے لئے ایک دقیق و جامع پروگرام کا محتاج ہے، ایسا پروگرام کہ جس میں انسان کی دنیاوی مصالح اور اخروی مصالح کی رعایت کی گئی ہو جس میں انسان کے جسم کا بھی لحاظ کیا گیا ہو اور اس کی روح و جان کا بھی لحاظ کیا گیا ہو_ زندگی کے اصول کو ایسا بنایا گیا ہو کہ اس کی زندگی اور آخرت پر اس کی روح کے لئے اس طرح پروگرام مرتب کیا گیا ہو کہ اسے حقیقی ارتقاء اور سعادت کے راستے پر ڈال دے تا کہ امن و قرب اور رضوان کی منزل تک فائز ہوسکے_

چند ایک سوال

کیا انسان اپنی عقل اور تدبیر سے اس قسم کا دقیق اور کامل آئین اپنے لئے منظم کرسکتا ہے؟ کیا وہ اپنی نفسانی اور آخرت کی ضروریات سے پوری طرح آگاہ ہے؟ کیا وہ اپنی اور جہان کی خلقت کے اسرار و رموز سے مطلع ہے؟ کیا انسان، روح کا جسم ہے کس طرح کا ارتباط ہے اور دنیاوی زندگی کس طرح اخروی زندگی سے مربوط ہے، سے مطلع ہے؟ کیا انسان تشخیص دے سکتا ہے کہ کون سے امور موجب ہلاکت و سقوط اور کون سے امور انسان کے نفس کو تاریک، سیاہ و آلودہ اور کثیف کردیتے ہیں؟ کیا انسان تنہا سعادت کے راستے کو غیر سعادت کے راستے سے تمیز دے سکتا ہے؟ ایسا نہیں کرسکتا، ہرگز نہیں کرسکتا اور اس قسم کی وسیع اطلاع نہیں رکھتا_

انسان اپنی کوتاہ عمر اور محدود فکر کے ذریعہ اپنی اخروی اور نفسانی سعادت اور ارتقاء کا آئین منظم نہیں کرسکتا_ پس کون شخص ایسا کرسکتا ہے؟

۱۱۱

سوائے ذات خدا کے ایسا اور کوئی نہیں کرسکتا وہ ذات ہے کہ جس نے انسان اور تمام جہان کو پیدا کیا ہے اور اس کے اسرار و رموز سے پوری طرح آشنا و آگاہ ہے اور سعادت و شقاوت کے اسباب وعوامل کو اچھی طرح جانتا ہے_ وہ ذات ہے جو انسان کی سعادت اور ارتقاء کے آئین کو منظم و مدوّن کرسکتی ہے اپنے بہترین بندوں کو اس قسم کا برنامہ دے کر انسانوں تک پہونچاتی ہے تا کہ انسان خدا کے نزدیک کوئی عذر نہ پیش کرسکے_

زندگی کے آئین اور اصول کا نام دین ہے کہ جسے خدا پیغمبروں کے ذریعے جو راہنما اور راہ شناس ہیں انسانوں تک پہونچاتا ہے، پیغمبر ممتاز اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں کہ جو اللہ تعالی سے خاص ربط رکھتے ہیں، انسان کو جاودانی زندگی دینے والا آئین خدا سے لیتے ہیں اور انسانوں تک اسے پہونچاتے ہیں_ پیغمبر انسان کی اس فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور خدا دوستی موجود ہے کون اجاگر کرتے ہیں اور اس کے راستے کی نشاندہی کرتے ہیں اور س تک پہونچنے کے راستے کو طے کرنے میں مدد دیتے ہیں تاکہ انسان اپنے خالق و خدا کو بہتر پہچانے اور اس سے آشنا ہو_ اچھے اور برے اخلاق کی شناخت میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، تذکیہ نفوس، دین کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور معاشرہ کی دیکھ بھال میں کوشش کرتے ہیں، انھیں کامل عزت اور عظمت تک پہونچاتے ہیں_

ان انسانوں کو خوشخبری ہو جو پیغمبروں کے نقش قدم پر چلتے اور اپنی دنیا کو آزادی سے سنوارتے ہیں اور آخرت میں بھی کمال سعادت و خوشنودی اور اللہ تعالی کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں اور پیغمبروں کے جوار میں با عزت سکونت اختیار کرتے ہیں_

قرآن کی آیت:

انا ارسلناک بالحق بشیرا و نذیراً و ان من امّة الّا خلافیها نذیر

۱۱۲

''ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو''_(۱)

____________________

سورہ فاطر آیت نمبر ۲۴

۱۱۳

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ اس دنیا کے اعمال کا نتیجہ آخرت میں کس طرح ملے گا؟

۲)___ آخرت میں انسان کی دو حالتیں ہوں گی وہ دو حالتیں کیا ہیں؟

۳)___ انسان کی زندگی کے آئین میں کن چیزوں کا لحاظ کیا جانا چاہیئے؟

۴)___ کیا انسان اپنی زندگی کے لئے ایک جامع اور کامل قانون خود بنا سکتا ہے؟

۵)___ انسان کی سعادت اور ارتقاء کے آئین کو کون منظم کرتا ہے اور اسے کس کے ذریعہ پہونچاتا ہے؟

۶)___ خدا کے پیغمبر پر انسان کی ہدایت کے لئے کون سی ذمہ داری ہے؟

۷)___ دین کیا چیز ہے، دین کا فائدہ انسان کی دنیا اور آخرت میں کیا ہوتا ہے؟

۱۱۴

پیغمبری میں عصمت ، شرط ہے

خداوند عالم نے پیغمبروں کو چنا ہے اور انھیں بھیجا ہے تا کہ وہ ان قوانین کو لوگوں تک پہونچائیں جو دینی زندگی کا موجب ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کی سرپرستی و راہنمائی کریں، ارتقاء کے سیدھے راستے اور اللہ تعالی تک پہونچنے کے لئے جو صرف ایک ہی سیدھا راستہ ہے، لوگوں کو بتلائیں، ان کی ہدایت کریں اور انھیں مقصد تک پہونچائیں، سعادت آور آسمانی آئین پر عمل کرنے اور دنیوی و اخروی راہ کو طے کرنے میں قول و فعل سے لوگوں کی مدد کریں، اللہ تعالیی کے قوانی کو جاری کر کے ایک اجتماعی نظام وجود میں لائیں اور اس کے ذریعہ انسانی کمالات کی پرورش کریں اور رشد کے لئے زمین ہموار کریں_

پیغمبروں کی ذمہ داریوں کو تین حصول میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱)___ قوانین الہی کو وحی کے ذریعہ حاصل کریں_

۲)___ اللہ تعالی سے حاصل شدہ قوانین اور آئین کو بغیر کسی اضافہ و کمی کے لوگوں تک پہونچائیں_

۳)___ ان قوانین اور الہی آئین کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی قولی اور عملی مدد کریں_

۱۱۵

سوالات

اس کے بعد اب ان سوالات میں خوب غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی انسان کو پیغام الہی کے لینے کے لئے معین کرے اور وہ اس میں خطا کا مرتکب ہو؟ خطا کرنے والا انسان کسی طرح اللہ تعالی کے واضح پیغام کو بغیر کسی اضافہ اور کمی کے پوری طرح لوگوں تک پہونچا سکتا ہے؟

۲)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو پیغمبری کے لئے چنے اور وہ اللہ تعالی کے پیغام پہونچانے میں خطا مرتکب ہوجائے؟ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو پیغمبری کے لئے انتخاب کرے اور وہ آسمانی آئین و احکام میں تحریف کردے؟ کیا اس صورت میں اللہ تعالی کی غرض پیغمبر کے بھیجنے میں حاصل ہوجائے گی؟ کیا اللہ کا دین اور پیغام لوگوں تک صحیح پہونچ جائے گا؟

۳)___ ان قوانین اور الہی آئین کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی قولی اور عملی مدد کریں_

۱۱۶

ہرگز نہیں خداوند عالم ایسے افراد کو جو غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں پیغام الہی کے لینے اور لوگوں تک پہونچانے کے لئے ہرگز انتخاب نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہونچائے اور حق قبول کرنے والے لوگوں کو مقصد تک پہونچائے اس غرض کے حصول کے لئے اللہ تعالی ایسے افراد کا انتخاب کرے گا جو معصوم ہوں یعنی:

۱)___ قوانین اور دین الہی کے لینے میں غلطی نہ کریں_

۲)___ اللہ تعالی کے قوانین اور آئین کو لوگوں تک بغیر کسی اضافہ اور کمی کے پہونچائیں اور کسی قسم کی خطا و تحریف اور نافرمانی کو جائز نہ سمجھیں_

۳)___ دین کے واضح احکام پر عملکرانے میں لوگوں کی عملی و قولی مدد کریں اور خود پورے طور پر اس پر عمل کریں اور لوگوں کو اس پر عمل کرائیں _

خداوند عالم کے پیغمبر قوی اور ملکوتی ارادے کے مالک اور روحانی بصیرت رکھن والے افراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے کامل پیغام پر ایمان رکھتے ہیں، وفادار ہوتے ہیں اور جو کچھ پہونچاتے اور کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں ایسے افراد اپنی بصیرت اور ہنرمندی کے لحاظ سے تمام انسانوں کے لئے کامل نمونہ ہوتے ہیں لوگ ان کی رفتار و گفتار کی پیروی کرتے ہیں_

''عصمت'' یعنی وہ عظیم طاقت وبصارت جو پیغمبر کے وجود سے مختص ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی ذمہ داری کے بجالانے میں اس کی مدد کرتی ہے اورانھیں خطا سے محفوظ رکھتی ہے_

قرآن کی آیت:

( و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله ) (نساء آیہ ۴۳)

'' ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ لوگ اس کی حکم الہی سے اطاعت کریں''

۱۱۷

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبروں کی وہ ذمہ داری جو تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے اسے بیان کیجئے_

۲)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے انسان کو اپنے پیغام لینے کے لئے انتخاب کرے جو خطا کا مرتکب ہوسکے، کیوں؟ وضاحت کیجئے _

۳)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے کو پیغمبری کے لئے چنے کہ جو اللہ تعالی کے پیغام کو ناقص اور تحریف شدہ لوگوں تک پہونچائے، کیوں؟ وضاحت کیجئے

۴)___ کیا ممکن ہے خداوند عالم ایسے شخص کو پیغمبری کے لئے منتخب کرے کہ جو اللہ تعالی کے احکام اور دستور پر عمل کرانے میں غلطی کرے ، کیوں؟ وضاحت کیجئے_

۵)___ خداوند عالم جسے پیغمبری کے لئے منتخب کرتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے، معصوم کی تین صفات کو بیان کیجئے_

۶)___ عصمت سے کیا مراد ہے؟

۷)___ پیغمبر کن لوگوں کو حقیقی سعادت اور مقصد تک پہونچاتے ہیں؟

۸)___ معاشرہ میں فضائل انسانی کس طرح رشد اور پرورش پاسکتے ہیں؟

۱۱۸

پیغمبروں کا ایک برنامہ اور پروگرام اللہ تعالی پر ایمان کا لانا ہے

پیغمبر اسلام(ص) نے صبح کی نماز مسجد میں پڑھی نماز کے بعد لوگوں کی طرف منھ کیا تا کہ ان کی احوال پرسی کریں اور ان کے حالات کو جانیں لوگوں کی صف میں ایک نوجوان کو آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد، بدن لاغر اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں نمازیوں کی صف میں بیٹھا ہوا تھا اور کبھی بے اختیار اپنی پلکوں کو بند کرتا اور اونگھ رہا تھا ایسا ظاہر کر رہا تھا کہ گویا ساری رات نہیں سویا اور عبادت و نماز میں مشغول رہا ہے_ پیغمبر اسلام(ص) نے اسے آواز دی اور پوچھا کہ ''تو نے صبح کیسے کی؟ '' جواب دیا: ''یا رسول اللہ (ص) یقین اور خدائے وحدہ پر ایمان کی حالت میں''

''ہر ایک چیز کی کوئی نہ کوئی علامت اور نشانی ہوا کرتی ہے تیرے ایمان اور یقین کی کیا علامت ہے؟ '' یا رسول اللہ (ص) ایمان اور یقین آخرت کے عذاب سے خوف و ہراس کا موجب ہوا ہے، خوراک اور خواب کو کم کردیا ہے دنیاوی امور میں بے رغبت ہوگیا ہوں گویا اپنی آنکھوں سے قیامت برپا ہونے کو دیکھ رہا ہوں اوردیکھ رہا ہوں کہ لوگ حساب و کتاب کے لئے محشور ہوگئے ہیں اور میں بھی ان میں موجود ہوں گویا بہشت والوں کو بہشتی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا

۱۱۹

دیکھ رہا ہوں کہ بہشتی بہترین مسند پر بیٹھے شرین گفتگ میں مشغول ہیں_

یا رسول اللہ (ص) جہنمیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ عذاب میں گریہ و نالہ اور استغاثہ کر رہے ہیں گویا ابھی دوزخ کی آگ اور عذاب کی آواز سن رہا ہوں''

پیغمبر اسلام (ص) نے اصحاب کی طرف جو حیرت سے اس جوان کی گفتگو سن رہے تھے متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ:

'' یہ جوان ایسا اللہ کا بندہ ہے کہ خداوند عالم نے ایمان کے وسیلہ سے اس کے دل کو روشن اور نورانی کردیا ہے''

آپ نے اس کے بعد اس جوان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ ''اے جوان تو نے بہت عمدہ حالت پیدا کی ہوئی ہے اور اس حالت کو ہاتھ سے نہ جانے دینا''_

یا رسول اللہ (ص) شہادت کی تمنا اور آرزو رکھتا ہوں دعا کیجیئے کہ راہ خدا میں شہید ہوجاؤں''_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے لئے شہادت کی دعا کی تھوڑی مدت گذری تھی کہ ایک جنگ واقع ہوئی اس جوان نے مشتاقانہ طور سے فوجی لباس پہنا، اسلام کے پاسداروں اور جہاد کرنے والوں کے ساتھ اس جنگ کی طرف روانہ ہوگیا، بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر حملہ آور ہوا اور شمشیر سے پے در پے دشمن پر حملہ کرنے لگا اور بالآخر اپنی قدیم امید تک پہونچا اور میدان جنگ میں راہ خدا میں شہید ہوگیا_

خداوند عالم اور فرشتوں کا درود و سلام ہو اس پر، تمام شہیدوں اور غیور اسلام پہ قران ہونے والوں پر_

تمام پیغمبروں کو امر کیاگیا ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالی پر ایمان لے آنے کی دعوت دیں، یقین کے درجہ تک پہونچائیں، واضح و روشن خدائی پیغام اور سعادت بخش آئین کو ان کے اختیار میں قرار دیں اور اللہ تعالی کے تقرّب کے راستے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302