‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 18%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110427 / ڈاؤنلوڈ: 3821
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کو جو باقی اور ثابت رہ جاتے ہیں_

اچھا انسان اللہ تعالی کی رضا اور محبت کے حاصل کرنے کے لئے اعمال انجام دیتا اور ہمیشہ اللہ کی یاد اور اس سے انس و محبت رکھتا ہے، اپنے آپ کو اچھے اخلاق اور نیک اعمال سے پرورش کرتا ہے اور خدائے قادر سے تقرب حاصل کرتا ہے اپنے ایمان سے خدا اور اس کی طرف توجہ سے اپنی روح اور جان کو نورانی اور باصفا بناتا ہے اور ہمیشہ ترقی کے لئے قدم اٹھاتا رہتا ہے اور اپنے انسانی کی قیمتی گوہر کی پرورش کرتا ہے_

اس کے برعکس غلط و باطل اور برے اخلاق و کردار انسان کی پاک اور حسّاس روح پر انداز ہوتے ہیں اور انسان کی ذات اور باطن کو سیاہ اور آلودہ کردیتے ہیں اور غمگینی اور افسردگی کا موجب ہوتے ہیں_ بے دین اور بدکردار دنیاوی اور حیوانی لذات میں مست ہوتا ہے اس طرح کا انسان صراط مستقیم اور ارتقاء سے دور رہتا ہے اور پستی کی طرف چلاجاتا ہے_ حیوانی اور وحشت زدہ تاری وادیوں میں گرفتار ہوکر رہ جاتا ہے ایسا انسان اپنے اس طرح کے افکار اور پلید اعمال کی وجہ سے حیوانیت اور درندگی کی عادت کو اپنے آپ میں اپنا لیتا ہے اور انسانیت کے نورانی گوہر کو اپنے آپ میں کمزور اور کم نور کردیتا ہے_

اس حقیقت کی جو ہر آگاہ او رہوشیار انسان کے سامنے واضح او رنظر آرہی ہے بہت سادہ مگر اچھے انداز میںہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے تصویر کشی کی ہے فرماتے ہیں کہ:

'' ہر انسان کی روح ایک صاف اور سفید تختی کی طرح ہے کہ

۸۱

جسے نیک کام اس کو زیادہ صاف و نورانی اور زیبا بلکہ زیباتر کردیتے ہیں اس کے برعکس برے کام اور گناہ اس پر سیاہ داغ ڈال دیتے ہیں کہ جس سے انسان روح کثیف اور پلید ہوجاتی ہے_

اگر کوئی انسان گناہ کرنے پر اصرار کرتا ہے تو یہ سیاہ داغ اس نورانی اور سفید روح کی تختی پر چھا جاتے ہیں اور گناہگار انسان کے تمام وجود کو سیاہ اور کثیف کردیتے ہیں_ ایسا سیاہ دل اور پلید انسان کہ جس نے خود سیاہی اور پلیدی کو اپنے اعمال سے اپنے آپ میں فراہم کیا ہے_ اس دنیا میں غم زدہ اور حسرت میں مبتلا رہتا ہے اور آخرت میں جہنم کی آگ میں کہ جس کو خود اس نے اپنے کاموں سے فراہم کیا ہے جلتا رہے گا''_

الحاصل:

انسان کے تمام اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں انسان کی ذات اور روح اور نامہ اعمال میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس کے علاوہ اللہ تعالی کے فرشتے جو کہ دن رات ہمارے نگراں اور محافظ ہیں اور ان کے اوپر ذات الہی جو کہ ہمارے اعمال کی ناظر اور حاضر ہے ہمارے اعمال کو محفوظ رکھتی ہے ہمارا کوئی بھی کام نابود اور ختم نہیں ہوجاتا بلکہ تمام کے تمام اعمال ہمارے حساب کے لئے باقی ہیں_ خداوند عالم قرآن میں یوں ارشاد فرماتا ہے_

ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں ڈالیں گے تا کہ

۸۲

اسے قیامت کے دن کھول کر دیکھ سکے، آج اپنے نامہ اعمال کو پڑھ اور اپنا حساب خود کر لے کہ تیرا نفس اپنے حساب کرنے کے لئے کافی ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر ۱۳)

۲)___ قیامت کے دن لوگ گروہ گروہ اٹھائے جائیں گے پس جس نے بھی ذرّہ برابر نیک کام انجام دیا ہوگا اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر برا کام انجام دیا ہوگا اس کو دیکھے گا_ (سورہ زلزال آیات ۶، ۸)

ہمارے کام اس دنیا میں فنا نہیں ہوتے بلکہ نامہ اعمال میں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن کبھی ہم ان سے غافل ہوجاتے ہیں_ موت کے بعد اور آخرت میں منتقل ہوجانے کے بعد قیامت کے دن غفلت کے پردے ہٹادیئےائیں گے اور انسان پر اپنا باطن اور اس کی اصلی ذات ظاہر ہوجائے گی اور اس کا حیران کن نامہ عمل اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا اس وقت اپنے تمام اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوگا جیسے اس نے ابھی انجام دیا ہے_

۳)___ قیامت کے دن انسان کا باطن ظاہر ہو کر رہ جائے گا اور انسان کا نامہ عمل ظاہر کر کے کھول دیا جائے گا گناہگاروں کو دیکھے گا کہ وہ اپنے برے نامہ عمل کے دیکھنے کی وجہ سے سخت خوف و ہراس میں غرق ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم پر ویل ہو کہ جس طرح کا حیرت انگیز ہمارا نامہ عمل ہے کسی چھوٹے اور بڑے کاموں کو ضبط و ثبت کرنے سے اس نے صرف نظر نہیں کیا اور تمام کے تمام کو لکھ لیا جائے گا_ اس دن تمام بندے اپنے اعمال کو حاضر دیکھیں گے تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا_ (سورہ طارق آیت نمبر۹)

۸۳

ان آیات کی روسے انسان اس جہاں سے رخصت ہوکر آخرت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے_ قیامت کے دن اپنے نامہ عمل کو دیکھے گا اور تمام کے تمام کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گا اس وقت خداوند عالم کی طرف سے خطاب ہوگا_

۴)___ اے انسان تو اپنے اعمال سے دنیا میں غافل تھا لیکن اب ہم نے تیرے دل سے غفلت کے پردے ہٹا دیئے ہیں اور تیری آنکھوں کو بینا کردیا ہے_ (سورہ ق آیت نمبر ۲۲)

قیامت کے دن جب انسان حساب و کتاب کے لئے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنی حقیقت اور واقعیت سے مطلع ہوجائے گا_ ہر ایک انسان اپنے نامہ عمل کو کھولے گا اور واضح دیکھ لے گا اور اسے دقّت سے نگاہ کرے گا اپنے تام گزرے ہوئے اعمال کو ایک دفعہ اپنے سامنے حاضر پائے گا_ اللہ تعالی نامہ عمل کے دریافت کرنے کے بارے میں یوں فرماتا ہے:

۵)___ '' نیک لوگوں کو ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے (اور اسی لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب یمین'' کہا گیا ہے ایسے لوگ خوش اور شاہدوں گے کیونکہ جان رہے ہیں کہ ن کا حساب و کتاب آسان ہے اور انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی ہے وہ کہیں گے آؤ اور ہمارے نامہ اعمال کو پڑھو_ ہمیں علم تھا کہ ایک دن حساب و کتاب کا آنے والا ہے ایسے لوگ خوشگوار زندگی بہشت میں گذاریں گے_

بے دین اور بدکردار انسانوں کو نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا (اسی لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب شمال'' کہا جاتا

۸۴

ہے) ایسے لوگ غمگین اور ناخوش ہوں گے کیونکہ وہ جان چکے ہونگے کہ ان کا حساب و کتاب بہت سخت اور دشوار ہے_ وہ کہیں گے کہ کاش یہ نامہ عمل ہمارے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور ہم اپنے اعمال و کردار اور حساب سے بے اطلاع اور غافل رہتے، کاش موت آجاتی_

ایسے انسانوں کی زندگی سخت اور غم انگیز ہوگی اور وہ جہنم کے بلند اور جلانے والے شعلوں میں ڈالے جائیں گے ( یہ سب کچھ ان کے برے اعمال کا نتیجہ ہوگا''_

آیت قرآن کریم

( ووضع الکتاب فتری المجرمین منفقین ممّا فیه و یقولوا یا ویلتنا ما لهذا الکتاب لا یغادر صغیرة و لا کبیرة الّا احصیها و وجدوا ما عملوا حاضرا و لا یظلم ربّک احدا ) (۱) _

نامہ عمل رکھا جائے گا پس گناہگار لوگ بسبب اس کے جوان میں پایا جاتا ہے اسے خوف زدہ دیکھے گا اور وہ کہے گا دائے ہو ہم پر یہ کیسا نامہ عمل ہے؟ کہ کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ہماری نہیں چھوڑتا جو کچھ ہم نے انجام دیا ہے وہ اس میں موجود ہے_ تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا_

____________________

۱) سورہ کہف آیت نمبر ۴۰

۸۵

سوالات

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے اور پسندیدہ اخلاق اور اعمال انسان کی ذات پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ نیک انسان کس طرح اپنی روح اور جان کو نورانی اور باصفا قرار دیتا ہے؟

۳)___ کن اعمال اور عقائد سے انسانی روح کثیف و پلید اور سیاہ ہوتی ہے؟ انسان کس طرح مستقیم اور نورانی راستے اور تقرب الہی سے دور ہوجاتا ہے؟

۴)____ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانی نفس اور روح پر اعمال کے اثرانداز ہونے کی کس طرح تصویر کشی کی ہے؟

۵)___ انسانی اعمال جو انسانی روح اور نفس میں ثبت ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ کون سی ذوات ہمارے اعمال کے مراتب اور محافظ ہیں؟

۶)___ قیامت کے دن جب گناہگار اپنے نامہ اعمال دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟

۷)___جب انسان قیامت کے دن اپنے نامہ عمل دیکھے گا اور اپنے تمام اعمال کا مشاہدہ کر رہا ہوگا تو اس وقت اللہ تعالی اس سے کیا خطاب کرے گا؟

۸)___ انسان کو اپنی ذات اور واقعیت کس دنیا میں پوری طرح ظاہر ہوگی؟

۹)___ قرآنی اصطلاح میں ''اصحاب یمین'' کسے کہا جاتا ہے اور جب انھیں نامہ عمل

۸۶

دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟

۱۰)___ قرآنی اصطلاح میں ''اصحاب شمال'' کسے کہا جاتا ہے جب انھیں اپنا نامہ عمل دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟ اور آخرت میں کس طرح زندگی بسر کریں گے؟

۸۷

قیامت کا منظر

لوگوں کو بتایا گیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک صحابی فوت ہوگئے ہیں ان کے دوست اور احباب اس خبر سے بہت رنجیدہ ہوئے اور ان کے لئے طلب مغفرت کی ایک مدت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی اور وہ آدمی نہیں مرا تھا اس کی اولاد رشتہ دار اور دوست و احباب بہت خوش ہوئے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے ان دو خبروں کے معلوم کرنے پر اس شخص کو یہ خط تحریر فرمایا:

'' بسم اللہ الرّحمن الرحیم

ایک اطلاع ہمیں تمھارے بارے میں ملی کو جو دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے افسوس کا باعث تھی جس نے ان کو عمزدہ کردیا_ ایک مدت کے بعد دوسری اطلاع ملی کہ پہلی خبر جھوٹی تھی اور اس نے دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کو خوش کردیا_

ان دو خبروں کے متعلق تم کیا سوچتے ہو؟ کیا تم سوچتے ہو کہ یہ خوشحالی اور خوشی پائیدار و دائمی ہے یا یہ خوشی ایک دفعہ پھر حزن و ملال میں تبدیل ہوجائے گی؟ واقعاً اگر پہلی خبر درست ہوتی تو اب تک تم آخرت کی طرف منتقل ہوگئے ہوتے، کیا تم پسند کرتے ہو کہ خداوند عالم تمھیں دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا دیتا اور نیک کاموں کے بجالانے

۸۸

کی فرصت عنایت فرماتا؟ تم یوں فکر کرو کہ پہلی خبر درست تھی اور تم آخرت کی طرف چلے گئے ہو اور موت کے مزہ کو چکھ چکے ہو اور پھر دوبارہ اس دنیا کی طرف لوٹائے گئے ہو تا کہ اعمال صالحہ بجالاؤ_

اس طرح گمان کرو کہ اللہ تعالی نے تمھیں اس دنیا میں واپس تمھاری خواہش کو قبول کرتے ہوئے لوٹا دیا ہے، اب کیا کروگے؟ آیا جلدی میں حقیقی زندگی کے لئے زاد و توشہ جمع کروگے؟ آیا ہمیشہ رہنے والی جگہ کے لئے کوئی پیشگی بھیجوگے؟

نیک کام، عمل صالح، لوگوں کی دستگیری، دعا اور عبادت ان میں سے کیا روانہ کروگے؟ جان لو کہ اگر اس سے آخرت کی طرف خالی ہاتھ کوچ کر گئے تو پھر دوبارہ واپس لوٹ کر نہیں آؤگے؟ اور سوائے افسوس و حسرت اور رنج و غم کے اور کوئی چیز نہ پاؤگے_

یہ جان لو کہ دن، رات ایک دوسرے کے پیچھے آجا رہے ہیں اور وہ تمھاری عمر کو کوتا ہ کر رہے ہیں اور موت کو تم سے قریب کر رہے ہیں اور انسان کو زندگی کے آخری نقطہ تک پہنچا رہے ہیں_ یقینا یہ آخری لحظہ بھی انسان کو آپہنچے گا اور حق کی طرف بلانے والا آخرت کی طرف لے جاکر رہے گا_ پست اور کمتر اور ہوی و ہوس اور لذائذ مادی کو کم کرو، اللہ کی طرف اور حقائق الہی کی طرف لوٹو اور آخرت کے سفر کا بار تقوی اور اعمال صالح کے ساتھ باندھو

۸۹

آئیں گے کہ جن سے گذرنا ضروری ہے_ جان لو کہ آخرت کے راستے کا توشہ، تقوی ہے ورنہ تم لڑکھڑاؤگے اور جہنم کے گہرے گڑہے ہیں جاگرو گے_ گناہوں اور اللہ کی معصیت سے بچو تا کہ بہشت میں نیک لوگوں کے ساتھ جاملو''

امیرالمومنین علیہ السلام نے اس گفتگو میںسخت موڑوں ، گزرگاہوں اور خوفناک منازل کا ارشادتا ذکر فرمایا ہے، آپ کی گفتگو میں صرف ایک اشارہ ہی کیا گیا ہے کیونکہ آخرت کی عظیم حقیقت اور قیامت کے حوادث کو سوائے اشارے کے بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی سنا جا سکتا ہے_

آخرت کے واقعات اور حوادث کو ذرا زیادہ عظمت کے ساتھ معلوم کرنے کے لئے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں، قیات ک شگفت آور مناظر کو قرآن کریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی اس عظیم واقعہ کی حقیقت کو اس طرح کہ جس طرح وہ ہے معلوم نہیں کرسکتے صرف مختصر اشارے سنے ہیں تا کہ جان لیں کہ ایک بہت سخت اور غیر قابل توصیف دن آگے آنے والا ہے اور ہمیں اپنے آپ کو تقوی اور عمل صالح سے متصف کرنا چاہیئے تا کہ ان سخت خطرناک موڑوں اور نشیب و فراز سے ہمارے لئے گذرنا آسان ہوجائے اور پروردگار کی بہشت اور رضوان پہنچتا میسّر ہوجائے_

۹۰

برزخ اور قیامت

جب کوئی گناہگار اس دنیا سے کوچ کرتا ہے تو عذاب اور رنج کا عالم برزخ میں مشاہدہ کرتا ہے اور کہتا ہے:

۱)___ ''خدایا مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹا دے تا کہ اعمال صالحہ بجالا سکوں اور اپنے گذشتہ گناہوں کا جبران کرسکوں، لوٹنے کی خواہش کرے گا لیکن ہرگز دنیا کی طرف لوٹایا نہیں جائے گا اور قیامت و روز بعث تک عذاب میں مبتلا رہے گا''(۱)

۲)___ ''قیامت کے دن سورج تاریک اور لپیٹ لیا جائے گا، ستارے بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ حرکت کریں گے اور لرزنے لگیں گے حاملہ اونٹنیاں بغیر ساربان کے رہ جائیں گی، وحوش محشور ہوں گے اور دریا جلانے والے اور شعلہ خیز ہوجائیں گے''(۲)

۳)___ ''جب آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے منتشر ہوجائیں گے اور دریا چیر دیئے جائیں گے اور دریاؤں کے پانی پراگندہ ہوجائیں گے جب کہ قبریں اوپر نیچے، ہوجائیں گی یعنی دہنس جائیں گی، اس وقت زمین لزرے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہوگا اسے باہر پھینک دے گی''(۳)

____________________

۱)___ سورہ مومنون آیات ۹۹_ ۱۰۰

۲)___ سورہ تکویر آیات ۱_ ۶

۳)___ سورہ زلزال آیات ۱_۹

۹۱

۴)___ ''جب پہاڑوئی کی طرح دھنے جائیں گے اور پاش پاش ہوجائیں گے''(۱)

۵)___ ''جب چاند کو گرہن لگے گا اور تاریک ہوجائے گا اور سورج و چاند اکٹھے ہوں گے''(۲)

۶)___ ''جب زمین بہت سخت لرزے گی اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں گے اور غبار بن کر چھاجائیں گے''(۳)

۷)___ ''جب زمین اور پہاڑ سخت لزریں گے اور پہاڑ خوفناک ٹیلے کی صورت میں بدل جائے گا''(۴)

۸)___ ''جب آسمان سخت حرکت کرے گا اور پہاڑ چلنے لگے گا''(۵)

۹)___ '' جب آسمان کے دروازے کھول دیئےائیں گے اور پہاڑ سخت حرکت کریں گے اور سراب کی طرح بے فائدہ ہوں گے'' (۶)

۱۰)___ ''جب زمین غیر زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور آسمان متغیر ہوجائے گا اور لوگ خدائے قادر کے سامنے حاضر ہوں گے ''_ (۷)

۱۱) ___ ''جب دن تیرے پروردگار کے نور س روشن اور منور ہوجائے گا''(۸)

____________________

۱) سورہ قاعد آیت۳

۲) سورہ قیامت آیات ۸_۹

۳) سورہ واقعہ آیات ۴_۶

۴)سورہ مزمل آیت ۱۴

۵)سورہ طور آیات ۹-۱۰

۶) سورہ نبا آیات ۱۹، ۲۰

۷)سورہ ابراہیم آیت ۴۸

۸) سورہ زمر آیت ۶۹

۹۲

ان آیتوں سے اجمالی طور سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اس دنیا کا موجودہ نظام خلقت تبدیل ہوجائے گا، سورج تاریک اور بے نور ہوجائے گا، چاند خاموش اور بے رونق ہوگا، ستارے پراگندہ اور پہاڑ اس عظمت کے باوجود لرزاں ہوں گے، چلنے لگیں گے اور خوفناک ٹیلوں میں تبدیل ہوجائیں گے، گرد و غبار کی صورت میں پراگندہ اور بے فائدہ ہوجائیں گے، زمین کسی اور زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور ایک وسیع میدان وجود میں آجائے گا کہ جہاں تمام لوگ حساب و کتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے_

یہ تمام قیامت کے عظیم مناظر کے مختصر اشارے تھے اس کے باوجود اس عظیم واقعیت کا ہم تصور نہیں کرسکتے صرف قرآن مجید کے ان اشارات سے اتنا سمجھتے ہیں کہ ایک بہت سخت دن آنے والا ہے ہم ایمان و عمل صالح سے اپنے آپ کو لطف الہی اور اس کے خوف سے محفوظ رکھ سکتے ہیں_

آیت:

( یوم تبدّل الارض غیر الارض و السّموات و برزوا لله الواحد القهار ) (۱)

''جس دن زمین غیر زمین میں تبدیل کی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہّار کے سامنے حاضر ہوں گے''

____________________

۱) سورہ ابراہیم آیت نمبر ۴۸

۹۳

سوالات

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ جب گناہگار انسان، عالم برزخ میں جاتا ہے اور عذاب و رنج کو دیکھتا ہے تو کون سی آرزو کرتا ہے، کیا کہتا ہے، اس کی یہ آرزو پوری کی جائے گی ؟

۲)___ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس صحابی کو اس جہاں میں دوبارہ آجانے کے بعد کیا لکھا تھا اور اسے کس بیان سے نصیحت کی تھی؟

۳)___ قرآن مجید میں قیامت کو کن خصوصیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؟

۴)___ قیامت کے سخت ہنگامے اور خوف و ہراس سے کس طرح امان میں رہ سکتے ہیں؟

۵)___ امیرالمومنین علیہ السلام کے خط میں نصرت کے لئے کس زاد اور توشے کو بیان کیا گیا ہے؟

۶)___ کون سی چیزیں انسان کو بہشت میں جانے سے روک لیتی ہیں اور کس طرح قیامت کے خطرناک اور پر پیچ راستے کو طے کرسکتے ہیں؟

۹۴

تیسرا حصّہ

پیغمبری اور پیغمبروں کے مسائل کے بارے میں

۹۵

پہاڑ کی چوٹی پر درس

ہم پہاڑ پر جانا چاہتے تھے چند ایک دوستوں سے کل پہاڑ پر جانے کے پروگرام کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ کون سے وقت جائیں؟ کون سی چیزیں اپنے ساتھ لے جائیں، کہاں سے جائیں؟

ان سوالات کے بارے میں بحث کر رہے تھے لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے تھے دوستوں میں سے ہر ایک کوئی نہ کوئی مشورہ دے رہا تھا_

آخر میں باقر نے کہا:

'' دوستو میری نگاہ میں ایک راہنما کی ضرورت ہے جو پہاڑ کے سر کرنے کا ماہر ہو وہ ہم کو بتلائے کہ کون سی چیزیں اس کے لئے ضروری ہیں اور کون سے راستے سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر جائیں اور اسے سر کریں؟

میں نے باقر سے کہا کہ راہنما کی کیا ضرورت ہے؟ ہمیں کسی راہنما کی ضرورت نہیں ہے ہم میں فکر کرنے کی قوت موجود ہے، ہم آنکھیں رکھتے ہیں سوچیں گے اور راستہ طے کرتے جائیں گے یہاں تک کہ اوپر پہنچ جائیں گے_

باقر نے جواب دیا:

''غلطی کر رہے ہو پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ہمیں پہاڑ کے حدود سے واقفیت نہیں ہے اور ہم کو جن چیزوں

۹۶

کی ضرورت ہوگی ان کی کوئی اطلاع نہیں رکھتے، ہمیں علم نہیں ہے کہ کہاں سے اوپر چڑھیں اور کون سی چیزیں اپنے ہمراہ لے جائیں مثلاً بتاؤ کہ اگر طوفان آگیا اور سخت اندھیرا چھاگیا تو کیا کریںگے، اور گر راستہ بھول گئے تو کی کریں گے؟ ''

میں جب باقر کے ان سوالات کا جواب نہ دے سکا تو مجبوراً ان کی رائے سے موافقت کرلی کہ ایک راہنما کی ضرورت ہے جو مورد اعتماد ہو اور راستوں سے واقف بھی ہوا اور اسے راہنمائی کے لئے لے جانا چاہیئے_

اس کے ایک دن ایک دوست نے بتلایا کہ دوستو میرے باپ کے دوستوں میں سے ایک ماہر کوہ نورد ہے میرے باپ نے اس سے خواہش کی ہے کہ وہ ہماری راہنمئی کا کام انجام دے وہ آج رات ہمارے گھر آئے گا تم بھی وہاں آجانا تا کہ کل چلنے کے متعلق اس سے گفتگو کریں_

ہم اس رات سعید کے گھر گئے سعید کے باپ اور اس کے دوست وہاں موجود تھے جب تمام احباب اکٹھے تو داؤدی صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ:

''دوستو میں نے سنا ہے کہ کل تم پہاڑ کے اوپر جانا چاہتے ہو کتنا عمدہ پروگرام تم نے بنایا ہے لیکن جانتے ہو کہ شاید یہ سفر خطرے اور دشواریوں سے خالی نہ ہو، خطروں سے بچنے کے لئے کی کروگے؟''

لڑکوں نے جواب دیا آپ سے مدد اور راہنمائی حاصل کریں گے_

داؤدی صاحب نے کہا:

''بہت اچھا کل چار بجے صبح چلنے کے لئے تیار ہوجانا، گرم لباس پیٹھ پر ڈالنے والا تھیلا، معمولی غذا اور اگر ہوسکے تو تھوڑی کھجور اور

۹۷

کشمکش کبھی ساتھ لے لینا میں ابتدائی مرحلے کی چیزیں ساتھ لے آؤں گا''

ہم نے راہنما کے دستور کے مطابق تمام وسائل فراہم کرلئے اور دوسرے دن صبح کے وقت خوشی سعید کے گھر پہنچ گئے تمام لڑکے وقت پر وہاں آگئے اور چلنے کے لئے تیار ہوگئے_ ایک دو لڑکے باپ کے ہمراہ آئے تھے_ تھوڑاسا راستہ بس پر طے کیا اور پہاڑ کے دامن میں پہونچ گئے_ بس سے اترے اور پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی مسجد میں صبح کی نماز ادا کی _ نماز کے بعد راہنما نے ضروری ہدایات جاری کیں اور بالخصوص یہ یاد دلایا کہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں آگے جلدی میں نہ جانا اور پیچھے بھی نہ رہ جانا_ ہم نے چلنا شروع کیا پہاڑ بہت اونچا تھا، بہت خوشنما اور زیبا تھا، چپ چاپ، سیدھا، مستحکم و متین اور باوقار اللہ تعالی کی عظمت اور قدرت کو یاد دلا رہا تھا_

راہنما آگے جارہا تھا ہم اس کے پیچھے باتیں کرتے جار ہے تھے، ہنس رہے تھے اور آگے بڑھ رہے تھے وہ ہر جگہ ہماری نگرانی کرتا تھا اور سخت مقام میں ہماری مدد و راہنمائی کرتا تھا_ کبھی خود بڑے پتھر سے اوپر جاتا اور ہم سب کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کھینچ لیتا کبھی راستہ کھلا آجاتا اور تمام لڑکے اس کی اجازت سے دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے تھے اور جب راستہ تنگ ہوجاتا تو ہم مجبور ہوجاتے تھے کہ ایک دوسرے کے پیچھے چلیں اور بہت احتیاط سے راستہ طے کریں، اس حالت میں راہنما ہمیں خبردار کرتا اور خود اس پھلنے والی جگہ کے کنارے کھڑا ہوجاتا اور ہر ایک کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے گذارتا بہت سخت پھلنے والی جگہیں راستے میں موجود تھیں ان میں سے ایک جگہ میرا پاؤں کہ اگر راہنما میرا ہاتھ نہ پکڑتا تو میں کئی سوفٹ نیچے جاگرتا_

اب میں سمجھا کہ راہنما اور رہبر کا ہونا بہت ضروری ہے راستے میں کبھی ہم ایسے راستوں پر پہونچے جہاں پتہ نہ چلتا کہ کہاں سے جائیں راہنما تھا جو ہمیں راستہ بتلاتا اور اس کی راہنمائی

۹۸

کرتا، راستے میں ہم کئی جگہوں پر بیٹھے، آرام کیا اور کچھ کھایا پیا_ یہ سفر سخت دشوار لیکن زیبا اور سبق آموز تھا بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے کے بعد غروب کے نزدیک پہاڑ کی چوٹی کے قریب پہنچ گئے، سبحا ن اللہ کتنی زیبا اور خوبصورت تھی وہ چوٹی کتنی عمدہ اور لطیف تھی آب و ہوا، تمام جگہیں وہاں سے نظر آرہی تھیں گویا ہم کسی دوسرے عالم میں آگئے تھے، خوش و خرم ہم نے پیٹھ والے تھیلے اتارے اور تھوڑی سی سادہ غذا جسے ہم اپنے ساتھ لے آئے تھے نکال کر کھائی کاش تم بھی ہوتے، واقعی اس وقت تک ہم نے اتنی مزے دار غذا نہیں کھائی تھی_ رات کو وہاں ٹھہرجانے پر اتفاق ہوگیا اور چونکہ ہم نے اپنے راہنما کے دستورات کے مطابق عمل کیا تھا لہذا تمام چیزیں ہمارے پاس موجود تھی رات ہوگئی مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ہم گفتگو میں مشغول ہوگئے_

راہنما نے کہا: پیارے بچو

'' خدا کا شکر ہے کہ ہم سلامتی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں اب تم نے مان لیا ہوگا کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنا اور کوہ نوردی کوئی معمولی کام نہیں ہوا کرتا کیا تم تنہا پہاڑ کی چوٹی سر کر سکتے تھے ؟ ''

میں نے کہا کہ آپ نے میرا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا تو میں پہاڑ کے درے میں گرگیا ہوتا_ میں اس وقت متوجہ ہوگیا تھا ک ایک صحیح راہنما اور راہبر کے ہم محتاج ہیں_

جناب داؤدی نے کہا:

''صرف کوہ پیمائی ہی راہنمائی کی محتاج نہیں ہوا کرتی بلکہ ہر سخت اور دشوار سفر راہنما اور راہبر کا محتاج ہوتا ہے مثلاً فضا میں سفر تو بہت سخت دشوار ہے جس میں بہت زیادہ راہنما کی ضرورت ہوا کرتی ہے_ لڑکوجانتے ہو کہ سب سے اہم اور پر اسرار سفر جو

۹۹

ہم کو در پیش ہے وہ کون سا سفر ہے،

لڑکوں میں سے ہر ایک نے کوئی نہ کوئی جواب دیا_ آخر میں باقر کے باپ نے کہا کہ

''میری نگاہ میں وہ سفر جو سب ہے اہم ہے وہ آخرت کا سفر ہے یہ اس جہاں سے منتقل ہوکر دوسرے جہاں میں جانے والا سفر ہے، واقعاً یہ سفر بہت پیچیدہ اور دشوار سفروں میں سے ایک ہے''_

راہنما نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم نے درست کہا ہے میرا مقصد بھی یہی سفر تھا لڑکو اس سفر کے متعلق کیا فکر کرتے ہو؟ ہم اس سفر کا راستہ کس طرح طے کریں گے اور کون سا زاد راہ اور توشہ ساتھ لے جائیں گے، اس جہاں میں راحت و آرام کے لئے کیا کریں گے؟ کون سے افراد ہمارے اس سفر میں راہنمائی کریں گے، کون ہمیں بتلائے گا کہ اس سفر کے لئے کون سا زاد راہ ساتھ لے جائیں؟ باقر کے باپ نے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکو تم موافقت کرو تو میں اس سفر کی مزید وضاحت کروں:

''آخرت کے سفر کے راہنما پیغمبر ہوا کرتے ہیں جو مخلوق اور خالق کے درمیان واسطہ اور پیغام لانے والے ہوتے ہیں، اللہ تعالی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں، زندگی کی عمدہ اور بہترین راہ و رسم کی لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں او رسعادت کی چوٹی پر چڑھنے کے لئے انسان کو راستہ بتلاتے ہیں، برے اخلاق اور اخلاقی پستیوں میں گرجانے والی وادیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، خداپرستی اور عمدہ اخلاق کے راستے بیان کرتے ہیں_

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سے متاثر نہ ہونا''

۲)___ جب امام حسین علیہ السلام شہادت کے لئے تیار ہوگئے تو اپنے اصحاب سے یوں فرمایا:

'' کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ باطل سے نہیں روکا جا رہا ہے_ اس حالت میں مومن کو چاہیئے کہ اللہ تعالی کی ملاقات اور شہادت کے لئے آمادہ ہوجائے کیونکہ میرے نزدیک راہ خدا میں مرنا سوائے سعادت و کامیابی کے کچھ نہیں ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی سوائے افسردگی، دل تنگی، رنج اور مشقت کے کچھ نہیں ہے''

کیا ان دو پیغاموں میں خوف اور ڈرکی کوئی جھلک ہے؟ کیا ظالموں کے سامنے سر نہ جھکانے میں ذلّت و خواری ہے؟ نہیں ہرگز نہیں جو شخص شہادت کو سعادت جانتا ہوگا وہ کبھی بھی ظلم و ستم کے سامنے سر نہ جھکائے گا_ نہ صرف ہمارے ائمہ علیہم السلام اس طرح کے تھے بلکہ ان کے صحیح پیروکار اور شاگرد بھی اسی طرح کے تھے ان صحیح پیروکاروں کی بعض اہم وصیتوں کی طرف توجہ کرو_

( یہ ان لوگوں کی وصیتیں نقل ہو رہی ہیں جو عراق و ایران جنگ میں ایران کی طرف سے شہید ہوئے ہیں)

۱)___ ان میں سے ایک حوزہ علمیہ قم کے طالب علم محمود صادقی کاشانی ہیں؟

اپنے وصيّت نامہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:

'' بسم رب الشّهداء اشهد ان لا اله الّا الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمدا عبده و رسوله''

۲۴۱

خدا کا شکر ہے کہ میں نے حق کی جنگ میں جو باطل کے خلاف ہو رہی ہے شرکت کرنے کی سعادت حاصل کی ہے میرے پاس جو کچھ ہے میں نے مخلصانہ طور پر اللہ کے سامنے پیش کردیا ہے جس چیز کے اردگرد امام حسین علیہ السلام، ان کے یاران وفادار اور صدر اسلام کے شہید، پروانہ کی طرح چكّر لگا رہے تھے میں نے ھی اسے پالیا ہے یعنی وہ ہے ''شہادت''

آیا کوئی شخص یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ظالم و متجاوز اس کے اسلام و عزّت اور وطن کی طرف ہاتھ بڑھائے اور وہ خاموش دیکھتا رہے؟

اب میں جا رہا ہوں تا کہ اپنے خدا سے ملاقات کروں اس آگ کو جو میرے اندر جل رہی ہے اسے بجھا سکوں_ میں بھی اب اس باصفا جنگ کے آشیانہ کی طرف پرواز کر کے اپنے جنگجو بھائیوں کے خالی مورچوں (محاذوں) کی طرف جا رہا ہوں لیکن مجھے اپنے رہبر زمانہ، حجّت عصر نائب امام آیت اللہ خمینی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) جو آج کے بت شکن ہیں کی قدر دانی کرنی چاہیئے کیونکہ انھوں نے مجھے دنیا کے گرداب اور تاریکیوں سے کہ جن میں گر کرہیں تباہ ہونے کے قریب تھا اور وہ میرے ہادی و رہنما ہیں_

اے میرے جنگجو ساتھیو اور دوستو تم بہتر جانتے ہو کہ یہ انقلاب جو ایران میں لایا گیا ہے کس طرح کامیاب ہوا ہے

کتنے علی اکبر (ع) ، علی اصغر (ع) اور حبیب ابن مظاہر (ع) کے نقش قدم

۲۴۲

پر چلنے والوں کے قتل کئے جانے سے کامیباب ہوا ہے خدا نہ کرے کہ تم اس انقلاب سے بے توجہ ہوکر بیٹھ جاؤ اوردنیا کو آخرت پر ترجیح دو_ کسی غم و اندوہ کو اپنے پا سنہ آنے دو کیونکہ ہم ہی کامیاب ہیں_

اے میرے ماں باپ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں؟ ابّا جان مجھے یاد ہے کہ جب آپ قم آئے تھے تو میںنے دوسرے لوگوں سے کہا تھا کہ باپ کی رضا (جنگ میں جانے کے لئے) ضروری ہے لہذا آپ بغیر کسی دریغ کے دفتر میں گئے اور اپنے راضی نامہ پردستخط کردیا_

اے میری ماں مجھے یاد ہے کہ تونے میرے بڑا کرنے میں بڑی زحمتیں اٹھائی ہیںاور آخری وقت جب میں تم سے جدا ہو رہا تھا تو یوں کہا تھا کہ:

'' محمود ہوشیار رہنا اور بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''

میری پیاری ماںمیں محاذ جنگ پر تھا تو مجھے برابر تمھارا یہ جملہ یاد آتا تھا کہ بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''_ امّاں میری موت پر کہیں بے قرار نہ ہونا، لباس نہ پھاڑنا اور آخری عمر تک ناراضگی کی آگ میں نہ جلاتے رہنا کیونکہ یہ دشمن کے طعن و تشنیع کا موجب ہوجائے گا_ میں اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں کو وصيّت کرتا ہوں کہ اس انقلاب سے اور تمام جہان کے محروم طبقے کے رہبر انقلاب سے

۲۴۳

کنارہ کشی نہ کرنا_ خدا تمھارا یار و مددگار ہو''

۲)___ تہران کے شہید سيّد علی اکبر میر کوزہ گرنے اپنے بہترین اورپر مغز وصیت نامہ میں یوں تحریر کیا ہے:

'' حقیقت کے ترازو میں اللہ تعالی کے نزدیک کوئی قطرہ اس خون کے قطرہ سے کہ جو راہ خدا میں بہایا جائے بہتر نہیں ہوتا اور میں چاہتا ہوں کہ اس خون کے قطرے سے اپنے معشوق تک پہونچوں کہ جو خدا ہے_

میں وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد گریہ و زاری نہ کرنا میرے تمام دوستوں کومبارکباد دینا اور کہنا کہ وہ اس امّت اسلامی کے رہبر اور نائب امام کا ہدیہ خدا کی راہ میںہے اسی وجہ سے سيّد، جہاد کے لئے گیا ہے اور جام شہادت نوش کیا ہے''

اس شہید کے پیغام کو سنو کو ''جہاد'' دو چیزیں چاہتا ہے:

ایک وہ خون جو شہید دیتا ہے_

دوسرے شہید کا پیغام جو سب تک پہونچنا چاہیئے_

''میر باپ سے کہدینا کہ اب ہم اپنے جدّ بزرگوار کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ ان کا فرزند اس راستہ پرگیا ہے کہ جس پر امام حسین علیہ السلام اوران کی اولاد گئی تھی_ ابّا جان میری وصیت آپ کو یہ ہے کہ میرے مشن کو آگے بڑھائیں''

۳)___ خرّم شہر (جسے خونین شہر بھی کہا جاتا ہے) کے ایک فداکار پاسدار شہید حسین حمزہ کہ جنھوں نے صحیح طور سے قرآن اور وطن کی شجاعانہ و فداکارانہ پاسداری

۲۴۴

کی تھی وہ اپنی ماں کو آخری خط مں یوں لکھتے ہیں:

'' اب جب کہ تیس دنوں سے کفّار کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں اور ہر دن اس امید پر دیکھتا ہوں کہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اتنی طویل مدّت تک کیوں شہادت کا افتخار مجھے نصیب نہیں ہوا

میری پیاری ماں

میں نے تم کو بہت ڈھونڈا تا کہ تمھاری وصیت کو سنوں لیکن تمھیں نہیں پایا_ جنگ کی ابتداء سے آج تک (یعنی ۲۳/۷/ ۵۹ شمسی) ہمیشہ تمھاری ملاقات کی فکر میں تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا_

امّا جان

اگر تم مجھے نہ دیکھ سکی تو مجھے بخش دینا، تم بہتر جانتی ہو کہ میں اس انقلاب کی ابتداء سے ہمیشہ چاہتا تھا کہ اس مین میرا حصّہ رہے_ مادر جان میری موت کی خبر سننے کے بعد اشک نہ بہانا اور میری بہنون سے بھی کہنا کہ میری موت پر اشک نہ بہائیں کیونکہ ہمارے موالا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند کی موت پر اشک نہیں بہائے تھے چونکہ حضرت جانتے تھے کہ اللہ کی رضا اسی میں ہے_

مادر گرامی

شائد میرا قرآن و اسلام کی راہ میں مرنا جوانوں میں جوش پیدا کردے نہ صرف میری موت پر بلکہ تمام شہداء کی موت پر کہ جو

۲۴۵

اللہ کی راہ میں اسلام کے مقدس ہدف کے لئے ہوتی ہے، تم بھی خوش ہونا کہ اپنے فرزند کو راہ اسلام میں قربان کیا ہے_ آخرت میں حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام تم سے کوئی گلہ اور شکوہ نہ کریں گی_

یہ خط ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں کہ دشمن کے توپوں اور گولیوں کی آواز ہر طرف سے آرہی ہے_ میں اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تکبیر کہتے ہوئے تو پوں کے گولے پھٹنے سے شہید ہو رہے ہیں_

اے میرے خدا تجھے تیری وحدانيّت کی قسم دیتا ہوں اسلام کی راہ میں مجھے شہادت نصیبت کر اور میرے گناہوں کو بخش دے مجھے شہداء کی صف میں قرار دے_

خدایا مجھے طاقت و قدرت عنایت فرما اور مجھ پر لطف کر کہ عمر کے آخری لمحے تک تیرا نام میری زبان پر جاری رہے_ شکر ہے اس خدائے بزرگ کا کہ جس نے مجھ پر عنایت فرمائی ہے کہ میں اپنی جان اسلام پر قربان کروں، اسلام کامیاب ہو اور اسلام و قرآن کے دشمن نابود ہوں_ سلام ہو اس امت اسلامی کے رہبر انقلاب آقائے خمینی پر_ خداحافظ''

ان شہیدوں کے پیغام کا متن دوسرے ہزاروں شہیدوں کے پیغام کی طرف انقلاب اسلامی کی کتابوں کے بہترین صفحات پر لکھا جائے گا ہمیشہ کے لئے رہ جائے گا اور یہ آزادی و جاودانی کا درس ہوگا_ اے پڑھنے والے طالب علمو تم اس ا بدی پیغام کو دوبار پڑھنا، شہیدوں و آزاد منشوں کے پیغام سے زندگی، آزادی، شجاعت، دلیری، ایثار، مہربانی، عشق، خداپرستی، اخلاص و ایمان کا درس حاصل کرنا_

۲۴۶

سوالات

سوچویے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۲)____ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی عمر کے آخری لمحہ میں کیا کہا تھا؟ اس وصيّت میں کن کن چیزوں کو بیان کیا ہے؟

۳)___ امام حسین علیہ السلام نے راہ خدا میں قتل ہوجانے کے متعلق کیا فرمایا ہے؟ مومن کوکب شہادت اور فداکاری کے لئے تيّار ہوجانا چاہیئے؟

۴)___ طالب علم کاشانی نے اپنے وصیت نامہ کو کن جملوں سے شروع کیا ہے؟ درج ذیل جملوں کو اس کی وصيّت کے مطالعہ کے بعد پورا کیجئے:

۱)__ '' خدا کا شکر کہ مجھے توفیق ملی

۲)__ کیا کوئی برداشت کرسکتا ہے کہ

۳)__ میں اب اپنے ساتھیوں کے خالی مورچے

۴)__ اپنے رہبر، حجّت زمان، نائب امام (ع)

۵)__ خدا کرے کہ تم کفّار

۶)__ ابّا جان آپ کو یاد ہے جب آپ قم آئے تھے تو

۷)__ امّا جان مجھے یاد ہے

۸) میرے خاندان او ردوستوں کو

۲۴۷

بہادر فوجیوں اور لڑنے والوں کے لئے دعا

امام زین العابدین علیہ السلام نے ''صحیفہ سجّادیہ'' میں اسلامی سرزمین کے محافظ فوجیوں کے لئے دعا فرمائی ہے کہ جس کے بعض جملوں کا ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے،

''بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

خدایا محمد اور آل محمد علیہم الصّلوة والسّلام کی پاک روح پر رحمت نازل کر اور مسلمانوں کے ممالک کی سرحدوں کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھ، سرحدوں کے قریب رہنے والوں کی حفاظت کر اور اپنے لطف و کرم کو ان پر زیادہ کر_

خدایا محمّد و آل محمّد علیہم السلام کی پاک روح پر درود بھیج سربازوں و پاسداروں کی تعداد میں اضافہ فرما اور ان کے ہتھیاروں کو دشمنوں کے خلاف تیزو کارگر، ان کے مورچوں کو شکست سے محفوظ رکھ_

اے میرے اللہ اسلام کے سپاہیوں کے حملوں کو دشمن کے ضرر سے محفوظ رکھ، لڑنے والوں میں اتحاد، برادری و ہمکاری کے رشتے کو مضبوط کر اور انھیں ان کے کاموں کو منظم

۲۴۸

طور سے بجالانے کی توفیق عنایت فرما_

خدایا اپنے لطف سے ان کے خرچ کو پورا کر اور لڑائی کے وقت ان کا یار و مدددگار بن، اے میرے اللہ صبر و استقامت کے سائے میں انھیں کامیاب فرما، فوجی نقشے اور منصوبے میں ان کی راہنمائی فرما_

یا اللہ محمّد و آل محمد علیہم السلام کی پاک روح پر درود و رحمت بھیج ، خدایا ہمارے لڑنے والے فوجیوں کے دلوں کو جب وہ دشمن سے لڑ رہے ہوں دنیا کی فکر سے بے نیاز کردے ، ان کی توجہ زر و جواہر اور مال دنیا سے دور کر، انھیں اس طرح کردے کہ جنّت بریں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں، بہشت کی عمدہ منازل و بہشتی فرشتوں کو دیکھ رہے ہوں، بہشت میوے، بلند درخت اور نہروں کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں، اولیائ، ابرار و شہداء کی صحبت میں رہنے کے مشتاق ہوں تا کہ وہ ان ذرائع سے خوف کو اپن دل میں نہ آنے دیں، ان کی قوّت میں استحکام پیدا ہو وہ باقوت ہوکر بہتر جنگ کرسکیں اور ہرگز ان کے دل میں فرار کا خیال نہ پیدا ہو_

خدایا ان سربازوں کے وسیلے سے کہ جنھوںنے اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھی ہے دشمن کی طاقت کو شکست دے، دشمن کے درمان اختلاف پیدا کر، ان کے دلوں سے سکون و آرام کو ختم کر، ان کے ہاتھوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے خالی کر،

۲۴۹

حیرت و پریشانی میں مبتلا کر،انھیں مدد و حمایت کرنے والوں سے محروم کر، ہمیشہ ان کی تعداد میں کمی کر اور ان کے دلوں کو خوف و ہراس سے پر کر_

اے میرے اللہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں کو تجاوز سے روک دے اور ان کی زبان کو گنگ کردے_ خدایا اس طرح ظالموں پر ہلاکت کو مسلّط کر کہ دوسروں کے لئے عبرت کا درس ہوجائے تا کہ دوسرے جرات نہ کرسکیں کہ وہ ہماری سرحدوں پر حملہ کرسکیں اور اسلامی مملکت پر تجاوز کرسکیں_

پروردگار

وہ فوجی جو اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی فتح کے لئے لڑ رہے ہیں ان کی تائید فرما، لڑائی کی مشکلات کو ان پر آسان کر، اور انھیں فتح نصیب کر_ خدایا جنگجو ساتھیوں کے ذریعہ انھیں قوی کر اور اپی نعمتوں کو ان کے لئے زیادہ کر، خدایا شوق و ذوق کے اسباب ان کے لئے فراہم کر اور اپنے رشتہ داروں کے دیدار کو ان کے دلوں سے ختم کر اور وحشت و تنہائی کے غم کو ان کے دلوں سے دور کر_

خدایا فوجیوں کے دلوں کو بیوی اور اولاد کے احساس فراق کو ختم کر، انھیں حسن نیت، سلامتی و عافيّت عنایت فرما، دشمن کا خوف ان کے دلوں سے نکال دے اور انھیں عزّ و شہادت

۲۵۰

الہی

دشمن کے ساتھ لڑائی میں انھیں سخت مقابلہ اور مقاومت کی صلاحيّت عطا کر_ خدایا ہمارے سپاہیوں کو عمل و دینداری کا جذبہ عطا کر اور فیصلہ کرنے میں ان کی صحیح راہنمائی فرما_ پروردگارا اپنے لطف سے ان کو ریاء اور خودپسندی سے دور رکھ_ الہی انھیں اس طرح کردے کہ ان کی فکر، رفتار و گفتار اور حضر و سفر فقط تیرے راستے اور تیرے لئے ہو_

خداوندا

لڑائی کے وقت دشمنوں کو ان کی نگاہ میں ضعیف دکھا، ان کو دشمنوں کے اسرار اور بھیدوں سے مطلع کردے اور خود ان کے بھیدوں کو دشمنوں سے مخفی کر_ الہی اگر وہ شہادت کے درجہ پر فائز نہ ہوئے ہوں تو انھیں اس طرح کردے کہ وہ دشمن کی ہلاکت ، اسارت اور فتح و کامیابی کے بعد یقینا مسلمان ہوں_

خدایا

جو مسلمان بھی لڑنے والوں کی غیر حاضری میںان کے اہل و عیال کو پناہ میں لے لے اور ان کی ضرورتوں کو پوری کرتا رہے یا لڑنے والوں کے لئے جنگی ہتھیار و قوّت مہیا کرے یا وہ ان کی حوصلہ افزائی کرے تو اس قسم کے مسلمانوں کو اسلام کے سربازوں کا ثواب عطا فرما_ خدایا جو مسلمان، پاسداروں کے سامنے ان کی تعریف و ستائشے کرے یا ان کا شکریہ ادا کرے اور انکی غیر حاضری

۲۵۱

میں ان کی تعریف کرے تو اس قسم کے مسلمان کو جو زبان سے دین کے محافظین کی تعریف اور شکریہ ادا کرے لڑنے والوں کا ثاب و جزاء عنایت فرما اور آخرت کے ثواب و جزاء سے پہلے اسی دنیا میں اسے جزائ، خوشی و شادمانی اور نشاط بخش دے_

پروردگارا

جو مسلمان، اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہے اور مسلمانوں کے مصائب سے رنجیدہ ہوتا ہے، راہ خدا میں جہاد کو دوست رکھتا ہے لیکن جسمی ناتوانی و کمزوری یا مالی فقر یا کسی دوسرے شرعی عذر کی وجہ سے خود جہاد میں شرکت نہیں کرسکتا اس کا نام بھی عبادت کرنے والوں میں درج کر، جہاد کا ثواب اس کا نامہ اعمال میں لکھ دے اور اسے شہداء و صالحین میں شمار کر''

آمین با ربّ العالمین

۲۵۲

مندرجہ ذیل کلمات کو ملا کر ایک دعائیہ جملہ بنایئے

۱)___ خدایا اسلامی مملکت کی سرحدوں کو_ دشمن _ حملے_ پناہ میں رکھ _

۲)___ خدایا _ محافظین_ میں اضافہ فرما_

۳)___ فوجیوں_ مورچوں_ بے آسیب_ دے_

۴)___ اتحاد کو_ میں_ محکم_ دے_

۵)___ سربازان اسلام_ کو نور_ روشن کردے_

۶)___ فوجیوں کو_ کردے کہ وہ_ آنکھوں_ کو دیکھیں_

۷)___ خدایا _ ہتھیلی_ جان_ رکھنے والوں کی وجہ _ کی طاقت کو ختم کردے_

۸)___ خدایا _ جو مسلمان مجاہد_ میں_ مدد_ ہے_

۹)____ خدایا _ آخرت کی جزاء سے_ دنیاوی _ فرما_

سوالات

ان سوالات کے جوابات دیجیئے

۱)___ امام زین العابدین علیہ السلام دعا کے ضمن میں کن صفات کی اسلام کے فوجیوں کے لئے تمنّا کر رہے ہیں؟ ان میں سے پانچ صفتوں کو بیان کرو_

۲)___ امام علیہ السلام نے ''خدایا دشمن کی طاقت کو ختم کردے'' کے جملے کے بعد کون سی چیز کو دشمن کی شکست کا سبب قرار دیا ہے؟

۳)___ تین گرہوں کو بیان کر و جو مجاہدین کے ساتھ کے ثواب میں شریک ہوتے ہیں؟

۲۵۳

اگر ماں ناراض ہو

ایک جوان بہت سخت بیمار ہوگیا اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا_ اس خبر کے سنتے ہی اس کے رشتے دار کی عیادت کے لئے گئے_ جوان موت و حیات کے عالم میں زندگی گذار رہا تھا درد و تکلیف سے نالہ و زاری کر رہا تھا، کبھی اسے آرام آتا اور کبھی تڑپنے لگتا اس کی حالت ، غیر تھی_

پیغمبر اسلام(ص) کو خبر دی گئی کہ ایک مسلمان جوان مدّت سے بستر بیماری پر پڑا ہے اور جان کنی کے عالم میں ہے_ آپ(ص) اس کی عیادت کے لئے تشریف لے آئیں شائد آپ کے آنے کی برکت سے اسے آرام ہوجائے_ پیغمبر اسلام (ص) نے ان کی دعوت قبول کی اور اس جوان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ اس کی حالت نے پیغمبر اسلام(ص) کو متاثر کیا_ کبھی وہ ہوش میں آتا اپنے اطراف میں دیکھتا، فریاد کرتا اور کبھی بے ہوش ہوجاتا اس کی صورت بہت خوفناک ہو رہی تھی_

وہ بات بھی نہیں کرسکتا تھا گویا کوئی اسی چیز دیکھ رہا تھا جو ددوسرے نہیں دیکھ رہے تھے اور شائد اپنی زندگی کے آخری لمحات کو کاٹ رہا تھا اور اس کے سامنے آخرت کا منظر تھا اور وہاں کی سختی و عذاب کا مشاہدہ کر رہا تھا_

پیغمبر اسلام(ص) کہ جو دونوں جہاں سے آگاہ تھے آپ نے اس سے پوچھا:

'' تم کیوں اتنے پریشان ہو؟ کیوں اتنے رنج میں ہو اور فریاد کر رہے ہو؟

۲۵۴

جوان نے آنکھیں کھولیں اور پیغمبر اسلام(ص) کے نورانی چہرہ کی زیارت کی اور بہت زحمت و تکلیف سے کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) مجھے معلوم ہے کہ یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں میں آخرت کی طرف جا رہا ہوں اب میں دو ترسناک اور بدنما شکلیں دیکھ رہا ہوں جو میری طرف آرہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ میری روح کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں گویا چاہتی ہیں کہ مجھے میرے برے کام کی سزادیں_ یا رسول اللہ (ص) میں ان دونوں سے ڈرتا ہوں آپ میری مدد کیجئے''

پیغمبر اسلام (ص) نے ایک ہی نگاہ سے سب کچھ سمجھ لیا تھا وہاں بیٹھنے والوں سے فرمایا:

'' کیا اس جوان کی ماں ہے؟ اسے یہاں بلایا جائے''

اس کی ماں نے بلند آواز سے گریہ کیا اورکہا:

'' یا رسول اللہ (ص) میں نے اپنے اس بیٹے کے لئے بہت تکلیفیں اٹھائیں کئی کئی راتیں جاگتی رہی تا یہ سوجائے کتنے دنوں میں نے کوشش کی کہ یہ آرام سے رہے، کبھی خود بھوکی رہتی اور اپنی غذا اسے دے دیتی، اپنے منھ سے لقمہ نکال کر اس کے منھ میں ڈالتی، ان سب کے باوجود جب یہ سن بلوغ و جوانی کو پہونچا تو میری تمام زحمتوں کو بھلا بیٹھا، مجھ سے سختی سے پیش آنے لگا اور کبھی مجھے گالیاں تک دیتا_ یہ میرا احترام نہیں کرتا تھا اور اس نے میرا دل بہت دکھایا ہے _ میںنے اس کے لئے بد دعا کی ہے''_

۲۵۵

رسول خدا(ص) نے اس کی ماں سے فرمایا:

'' یقینا تیرے بیٹے کا سلوک تیرے ساتھ برا تھا اور تجھے ناراض ہونے کا حق ہوتا ہے لیکن تم پھر بھی ماں ہو، ماں مہربان اور در گذر کرنے والی ہوا کرتی ہے اس کی جہالت کو معاف کردے اور اس سے راضی ہوجاتا کہ خدا بھی تجھ سے راضی ہوجائے''

اس رنجیدہ ماں نے ایک محبت آمیز نگاہ اپنے بیٹے پر ڈالی اور کہا:

'' خدایا میںنے تیرے پیغمبر(ص) کی خاطر اپنے بیٹے کو بخش دیا ہے تو بھی اسے بخش دے'' _

پیغمبر اسلام(ص) نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراس کے بیٹے کے حق میں دعا کی اور جوان کے لئے خدا سے مغفرت طلب کی_ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعا اور اس کی ماں کے راضی ہونے کے سبب اس جوان کے گناہ بخش دیئے_

اس وقت جب کہ جوان اپنی عمر کے آخری لمحات کاٹ رہا تھا اس نے آنکھ کھولی، مسکرایا اور کہا:

'' یا رسول اللہ (ص) آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہ خوفناک دو شکلیں چلی گئی ہیں اور دو اچھے چہرے میری طرف آرہے ہیں'' _

اس وقت اس نے اللہ تعالی کی وحدانيّت اور حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی نبوّت کی گواہی دی اور مسکراتے ہوئے ا س کی روح، قفس عنصری سے پرواز کرگئی_

۲۵۶

خداوند عالم قرآن میں ماں باپ کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کی بے احترامی ہرگز نہ کرنا اور بلند آواز سے ان سے گفتگو نہ کرنا ہمیشہ مہربانی اور ادب سے ان کے ساتھ بات کرنا''_

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

'' جو شخص رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ کے پیوند کو مضبوط کرے اورماں باپ کے ساتھ خوش رفتار و مہربان ہو تو اس پر موت کی سختیاں آسان ہوجاتی ہیںاور دنیا میں بھی فقیر و تہی دست نہیں رہتا''_

قرآن کی آیت:

( وقضی ربّک الّا تعبدوا الّا ايّاه و بالوالدین احسانا اما یبلغنّ عندک الکبر احدهما او کلاهما فلا تقل لهما اف و لا تنهرهما و قل لهما قولا کریما ) (۱)

'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش مت کرم اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کی ہرگز بے احترامی نہ کرو اور بلند آواز سے ان کے س اتھ کلام نہ کرو اور ہمیشہ مہربان اور با ادب ہوکر ان کے ساتھ گفتگو کرو_

____________________

۱) سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۳

۲۵۷

چھٹا حصّہ

امامت اور رہبری کے بارے میں

۲۵۸

رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت

پیغمبر اسلام(ص) کی بعثت کے تین سال گذرچکے تھے آپ کی اس مدت میں اسلام کی طرف دعوت مخفی تھی_ لوگ بلکہ پیغمبر اسلام(ص) (ص) کے رشتہ دار آپ کی دعوت سے صحیح طور سے مطلع نہ تھے لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کھلے عام اسلام کی طرف دعوت دیں تا کہ سبھی تک آپ کا پیغام پہونچ جائے لہذا اس عمومی پیغام کی ابتداء اپنے قبیلے اور رشتے داروں سے شروع کی کیونکہ یہ لوگ پیغمبر اسلام (ص) کو بہتر طور سے جانتے تھے اور آپ کی صداقت سے بخوبی واقف تھے_ اسی دوران اللہ تعالی کی طرف سے یہ پیغام آیا:

'' اپنے رشتے داروں و قریبیوں کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤ اور جو لوگ تمھاری پیروی کرتے ہیں ان سے نرمی و تواضع سے پیش آؤ'' _

تمھیں علم ہوگا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے اس حکم کو حضرت علی علیہ السلام کے درمیان رکھا اور انھیں حکم دیا کہ غذا مہیا کرو، رشتے داروں اور اپنی قوم کو دعوت دوتا کہ میں انھیں اسلام کی دعوت دوں_ حضرت علی علیہ السلام نے غذا مہيّا کیا اور اپنے رشتے داروں کو دعوت دیا_

مہمانی کاون آپہونچا، تقریبا چالیس آدمی پیغمبر(ص) کے قریبی رشتے دار اس دعوت میں شریک ہوئے_ پیغمبر اسلام (ص) نے بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا اورانھیں

۲۵۹

خوش آمدید کہا_

پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت علی علیہ السلام نے مہمانوں کی پذیرائی کی تھوڑے سے کھانے میں تمام کے تمام سیر ہوگئے_ کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے گفتگو کرنی چاہی اور جب آپ نے اپنے مقصد کو بیان کیا تو ابولہب نے آپ کی بات کو کاٹ دیا_ اپنی بیہودہ و بیکار باتوں سے مجمع کو درہم و برہم کردیا اکثر حاضرین نے شور و غل شروع کردیا اور پھر متفرق ہوگئے_ اس ترتیب سے یہ مہمانی ختم ہوگئی اورپیغمبر اسلام (ص) اپنے پیغام کو نہ پہونچا سکے_

لیکن کیا پیغمبر(ص) لوگوں کو ہدایت کرنے اور اپنا پیغام پہونچانے سے ہاتھ کھینج لیں گے؟ کیا آپ مایوس و نا امید ہوجائیں گے؟ کیا آپ ان سے غضبناک ہوجائیں گے؟ نہیں نہ تو آپ ہدایت کرنے سے دستبردار ہوں گے نہ مایوس و نا امید ہوں گے اور نہ غضبناک ہوں گے بلکہ آپ دوسری دفعہ ان کو مہمان بلاتے ہیں اور ان کی اسی خندہ پیشانی سے پذیرائی کر رہے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کی ہدایت کرنے او رانھیں نجات دینے کے لئے آئے ہیں_

کھانا کھانے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' اے میرے رشتے دارو توجہ کرو اور میری بات کو غور سے سنو اگر بات اچھی ہو تو قبول کر لو اور اگر اچھی نہ تو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہو اور یہ بات صحیح نہیں کہ تم شور و غل کر کے مجلس کو دگرگوں کردو_

اے ابوطالب کی اولاد خدا کی قسم کوئی بھی آج تک ایسا ہدیہ اپنی قوم کے لئے نہیں لایا جو میں اپنی قوم اور رشتے داروں کے لے لایا ہوں میں تمھارے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302