۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے16%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36602 / ڈاؤنلوڈ: 7215
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

تالیف: استاد محمدی اشتہاردی

مترجم: اقبال حیدر حیدری

ناشر: موسسہ امام علی علیہ السلام ۔ قم

مقدمہ

اسلام میں مناظرہ کی اہمیت اور مقاصد کی تکمیل میں اس کا کردار

حقائق کی وضاحت اور واقعیت کی پہچان کے لئے مناظرہ اور آمنے سامنے بحث و گفتگو کرنا خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ فکری اور علمی ترقی اپنے عروج پر ہے ثقافتی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہترین اور مستحکم ترین راستہ ہے، اور اگر فرض کریں کہ تعصب، ہٹ دھرمی اور سرکشی کی بنا پر مناظرہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو کم سے کم اتمام حجت تو ہوہی جاتی ہے۔

کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ طاقت کے بل بوتہ پر اپنے عقیدہ اور آئیڈیل کو کسی پر نہیں تھونپاجاسکتا،اور اگر بالفرض کوئی زبردستی قبول بھی کرلے تو چونکہ بے بنیاد ہے جلد ہی ختم ہوجائے گا۔

خداوندعالم نے قرآن مجید میں اس موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے، اور اس کو ایک ”عام قانون“ کے طور پر بیان کیا ہے، چنانچہ خداوندعالم نے چار مقامات پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس طرح فرمایا ہے:

( قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ )( ۱ )

”ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لے آو“۔

جس وقت اسلام دوسروں کو دلیل ، برہان اور منطق کی دعوت دیتا ہے تو خود بھی اس کے لئے دلیل اور برہان ہونا چاہئے۔

چنانچہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

( اُدْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِیَ اٴَحْسَنُ )( ۲ )

”آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیںاور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے“۔

”حکمت“ سے مراد وہ مستحکم طریقے ہیں جو عقل وعلم کی بنیاد پر استوار ہوں، اور ”موعظہ حسنہ“ سے مراد معنوی و روحانی نصیحتیں ہیں جن میں عطوفت اور محبت کا پہلو پایا جاتا ہو، اور سننے والے کے پاک احساسات کو حق و حقیقت کی طرف اُبھارے، نیز ”مجادلہ“ سے مراد ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر بحث میں تنقیدی گفتگو کرنا، اور یہ طریقہ کار اگر انصاف اور حق کی رعایت کرتے ہوئے ہو تو ہٹ دھرم مخالف کو خاموش کرنے کے لئے لازم اور ضروری ہے۔

وضاحت: بعض انسانوں میں حقائق سمجھنے کی فکری صلاحیت اور قوی استعداد پائی جاتی ہے ، ایسے لوگوں کو جذب کرنے کے لئے عقلی براہین و دلائل بہترین راستہ ہے، لیکن اگر بعض افراد میں کمتر درجہ صلاحیت پائی جاتی ہے ان میں تعصب، عادت اور احساس بہت زیادہ پایا جاتا ہے، ایسے افراد کو موعظہ اور اچھی نصیحت سے دین کی دعوت دی جاتی ہے۔

اور بعض لوگ ہٹ دھرم، اور غلط فکر رکھتے ہیں ، ہر راستہ سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں

تاکہ اپنے باطل خیالات کوصحیح طریقہ سے پیش کرسکیں، ان کے نزدیک دلیل اور نصیحت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تو ایسے لوگوں سے ”مجادلہ“ کرنا چاہئے، لیکن شائستہ انداز میں مجادلہ کرنا چاہئے یعنی اخلاق حسنہ اور انصاف کے ساتھ ان سے بحث و گفتگو کی جائے۔

اس بنا پر فن مناظرہ میں پہلے مناظرہ کرنے والوں کے حالات اور احساسات کو پرکھنا چاہئے اور انھیں کے پیش نظر مناظرہ کرنا چاہئے۔

جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی مختلف مواقع پر انھیں تینوں طریقوں کو بروئے کار لاتے تھے اور انھیں کے ذریعہ مختلف لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کہ جنھوں نے تقریباً چار ہزار شاگردوں کی تربیت کی ہے ان میں سے ایک گروہ علمی میدان میں مناظرہ کے فن کا ماہر تھا، جس وقت مخالف علمی بحث و گفتگو کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا تو اپنے شاگردوں کو حکم دیتے تھے کہ ان لوگوں سے بحث و مناظرہ کریں۔

مادہ پرست اور منکرین خدا جیسے ابن ابی العَوجاء، دیصانی اور ابن مقفّع وغیرہ نے بارہا حضرت امام صادق علیہ السلام اور آپ کے شاگردوں سے بحث و گفتگو کی ہے، امام علیہ السلام ان کی باتوں کو سنتے تھے اور پھر ایک ایک کرکے ان کا جواب دیتے تھے جیسا کہ ابن ابی العَوجاء کہتا ہے:

” حضرت امام صادق( علیہ السلام) ہم سے فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو بھی دلیل ہے اس کو بیان کرو، ہم آزادانہ طور پر اپنے دلائل پیش کرتے تھے اور امام مکمل طور پر سنتے تھے، اس طرح کہ ہم یہ خیال کربیٹھتے تھے کہ ہم نے امام پر غلبہ کرلیا ہے، لیکن جب امام کی باری آتی تھی تو بہت ہی متین انداز میں ہمارے ایک ایک استدلال کی تحقیق اور چھان بین کرتے تھے اور ان کو ردّ کرتے تھے اس طرح کہ بحث و گفتگو کے لئے کسی طرح کا کوئی بہانہ باقی نہیں بچتا تھا“۔( ۳ )

قرآن مجید میں جناب ابراہیم علیہ السلام کے مناظرے

قرآن مجید میں خدا کے عظیم الشان پیغمبر جناب ابراہیم علیہ السلام کے بہت سے مناظرے بیان ہوئے ہیں، قرآن مجید میں ان کا ذکر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کی راہ پر چلنے والے اعتقادی، اجتماعی اور سیاسی مسائل میں غافل نہیں ہیں، بلکہ مختلف مورچوں پر منجملہ دینی اور ثقافتی مورچہ پر حق اور دین کے دفاع کے لئے استدلال اور منطقی گفتگو کرتے ہیں۔

جناب ابراہیم علیہ السلام کے بت شکنی سے متعلق واقعہ میں قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ انھوں نے سب بتوں کو توڑ ڈالا لیکن بڑے بت کو صحیح و سالم چھوڑ دیا، اور جب نمرود کے سامنے معاملہ رکھا گیا تو آپ سے سوال کیا گیا: ”تم نے ہمارے بتوں کو کیوں توڑا؟“

جناب ابراہیم علیہ السلام نے ا ن کے جواب میں کہا:

( قَالَ بَلْ فَعَلَهُ کَبِیرُهُمْ هَذَا فَاسْاٴَلُوهُمْ إِنْ کَانُوا یَنطِقُونَ )( ۴ )

”ابراہیم نے کہا کہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے تم ان سے دریافت کر کے دیکھو اگر یہ بول سکیں“۔

جناب ابراہیم علیہ السلام نے در حقیقت اس استدلال میں بت پرستوں کے عقیدہ کو استدلال کا وسیلہ قرار دیا، اور ایک ایسا مستحکم حربہ استعمال کیا:

بت پرستوں نے کہا: ”اے ابراہیم! تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ بت بولتے نہیں ہیں؟!“

جناب ابراہیم علیہ السلام نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا:

”پس تم ان گونگے بتوں کو کیوں پوجتے ہو، جو نہ کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور نہ کوئی کام کرنے کی قدرت رکھتے ہیں؟! اُف ہو تم پر اور تمہارے پست و ذلیل معبودوں پر، کیا تم لوگ غور و فکر نہیں کرتے؟( ۵ )

قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: نمرود (جناب ابراہیم علیہ السلام کا ہمعصر طاغوت) نے جناب ابراہیم علیہ السلام سے کہا: ”تمہارا خدا کون ہے؟“

جناب ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ”میرا خداوہ ہے جس کے قبضہ قدرت میں موت و حیات ہے، میں ایسے ہی خدا کے سامنے سجدہ کرتا ہوں“۔

نمرود نے سفسطہ (یعنی دھوکہ بازی) شروع کی جس کا سادہ لوح انسانوں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے، اور چلانا شروع کیا: ”اے بے خبر! یہ کام تو میرے ہاتھ میںبھی ہے، میں زندہ بھی کرتا ہوں اور مارتا بھی ہوں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ سزائے موت ملنے والے کو رہا کردیتا ہوں اور عام قیدی کو سزائے موت دیدیتا ہوں“!!۔

اور پھر اس نے اپنے کارندوں سے کہا: سزائے موت پانے والے مجرم کو آزاد کردو، اور ایک عام قیدی جس کے لئے سزائے موت کا حکم نہیں ہے اس کو سولی پر لٹکادو۔

اس موقع پر جناب ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے مغالطہ اور دھوکہ بازی کے مقابلہ میں اپنا استدلال شروع کرتے ہوئے یوں کہا:

”صرف موت وحیات ہی خدا کے قبضہ قدرت میں نہیں ہے بلکہ تمام عالم ہستی اسی کے فرمان کے تحت ہے، اسی بنیاد پر میرا خدا صبح سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور غروب کے وقت مغرب میں غروب کرتا ہے، اگر تو سچ کہتا ہے کہ میں لوگوں کا خدا ہے

تو تو مغرب سے سورج نکال کر مشرق میں غروب کرکے دکھا“۔

قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَبُهِتَ الَّذِی کَفَرَ وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ )( ۶ )

”تو کافر حیران رہ گیا اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا“۔

یہ تھے جناب ابراہیم علیہ السلام کے قرآن مجید میں بیان ہونے والے بہت سے نمونوں میں سے دو نمونے:

یہ نمونے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مناظرہ کے صحیح طریقوں کو سیکھنا چاہئے، اور دینی و ثقافتی سازشوں کے مقابلہ میں استدلال اور مناظروں سے مسلح ہونا چاہئے تاکہ موقع پڑنے پر حق و حقیقت کا دفاع ہوسکے۔

قرآن مجید کے سورہ نساء آیت ۷۱ میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَکُمْ ) ۔۔۔“( ۷ )

” اے ایمان لانے والو! اپنے تحفظ کا سامان سنبھال لو“۔

یہ آیہ شریفہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کو دشمن کے تمام مورچوں پر اور سازشوں کے مقابلہ کے لئے تیار رہنا چاہئے، جن میں سے ایک مورچہ ثقافتی اور فکری مورچہ ہے، جس کا فائدہ دوسرے راستوں سے زیادہ اور عمیق تر ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ ان میں سے ایک مسئلہ فکری اور ثقافتی پہلو کی شناخت اور علمی و استدلالی بحث و گفتگو میں مناظرہ اور جدل ہے جس کی شناخت کے بعد مناسب موقعوں پر حق کا دفاع کرنے کے لئے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام مخالفوں سے مناظرہ کی ضرورت کے پیش نظر فرماتے ہیں:

خَاصمُوهُم وَ بَیَّنُوا لَهُمُ الْهُدَی الَّذِی اَنْتُمْ عَلَیْهِ،وَ بَیَّنُوا لَهُمْ ضَلالَتَهُمْ وَ بَاهِلُوهُمْ فِی عَلیٍّ عَلَیْهِ السَّلام “۔( ۸ )

”مخالفین سے بحث و گفتگو کرو، اور راہ ہدایت جس پر تم ہو ان لوگوں پر واضح کرو اور ان کی گمراہی کو روشن کرو، اور حقانیت علی علیہ السلام کے بارے میں ان سے ”مباہلہ“ (ایک دوسرے پر لعنت اور باطل کے طرفداروں کے لئے خدا کی طرف سے بلا نازل ہونے کی درخواست) کرو“۔

اس بنیاد کی بنا پر خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور اسی طرح شیعوں کے عظیم الشان علماء ہمیشہ مناسب موقعوں پر بحث و گفتگو، جدل اور مناظرے کیا کرتے تھے، اور اس طریقہ سے بہت سے ا فراد کو راہ ہدایت کی راہنمائی فرماتے اور گمراہی سے نجات دیتے تھے۔( ۹ )

حضرت امام باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی ابلیس و عفاریته، یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا، و عن ان یتسلط علیهم ابلیس و شیعته النواصبُ، الا فمن انتصب کان افضل ممن جاهد الروم وا لترک والخزر، الف الف مرة، لانه یدفع عن ا دیان محبینا، و ذلک یدفع عن ابدانهم “۔( ۱۰ )

”ہمارے شیعہ علماء ان سرحدوں کے محافظوں کی فر ع ہیں جو شیطان اور اس کے لشکر والوں کے مقابلہ میں صف آراء ہیں، وہ ہمارے ضعیف شیعوں پر حملہ کرنے سے دشمن کو روکتے ہیں، نیز شیطان اور اس کے ناصبی پیروکاروں کے مسلط ہونے میں مانع ہوتے ہیں، آگاہ ہوجاؤ کہ اس طرح کا دفاع کرنے والے شیعوں کی قدر و قیمت ہزار ہزار درجہ زیادہ ہے ان سپاہیوں سے جو دشمنان اسلام ؛ روم، ترک اور خزر کے کفار سے جنگ میں شریک ہوئے ہیں، کیونکہ یہ (شیعہ علماء) اسلامی عقائد اور اسلامی ثقافت کے محافظ اور دینداروں کا دفاع کرنے والے ہیں،جبکہ مجاہدین صرف جغرافیائی اعتبار سے اسلامی سرحدوں کا دفاع کرنے والے ہیں“۔

الازہر یونیورسٹی کے ایک بزرگ استاد جناب شلتوت کا قول

”الازہر “ (مصر) یونیورسٹی کے استاد کبیر اور مفتی جناب شیخ محمود شلتوت جو اہل سنت کے ممتاز اور جیّد عالم دین تھے، اپنے ایک انٹریو میں اس طرح کہتے ہیں:

والباحث المستوعب المنصف، سیجد کثیراً فی مذهب الشیعة ما یقوی دلیله و یلتئم مع اهداف الشریعة من صلاح الاٴسرة والمجتمع، و یدفعه الی الاخذ و الارشاد الیه “۔

”وہ محقق جو انصاف کی بنیاد پر تمام پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب اسلام کے بارے میں تحقیق کرتا ہے تو بہت سے مقامات پر مذہب تشیع کے بارے میں تحقیق کرتا ہے تو اس کو ایسا لگتا ہے کہ ان کی دلیلیں بہت مستحکم، شریعت اسلام کے اہداف و مقاصد کے ہمراہ، نسل و معاشرہ کی اصلاح سے اس طرح ہم آہنگ ہیں، جس کی بنا پر انسان مذہب شیعہ اور ان کے اصول کی طرف مائل ہوجاتا ہے“۔

اور اس کے بعد نمونہ کے طور پر چند معاشرتی اور گھریلو( ۱۱ ) مسائل کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”جس وقت ان مسائل میں مجھ سے سوال ہوتا ہے تو میں شیعہ فتووں کی بنیاد پر جواب دیتا ہوں“۔( ۱۲ )

ایک عظیم الشان استاد جو قاہرہ الازہر یونیورسٹی کا مقبول استاد ہو اس کی زبان سے یہ اعتراف واقعاً بہت مفید اور امید بخش ہے، کیونکہ موصوف مذہب تشیع کو برہان و استدلال کی بنیاد پر اسلام ناب محمدی کے اہداف سے ہم آہنگ قرار دیتے ہیں، اور ان کا تاریخی فتویٰ اور مذہب تشیع کی پیروی کی صحت اور قاہرہ کے بڑے بڑے دانشوروں کی تائید کے بارے میں مناظرہ نمبر ۵۸ میں بیان ہوگا۔ (انشاء اللہ)

کتاب ھٰذا کے بارے میں:

اس کتاب میں اسلام کے عظیم الشان رہبروں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور گزشتہ اور دور حاضر کے دینی عظیم الشان علمائے کرام کے مختلف مناظرے ذکر کے گئے ہیں، جو اس چیز کو بیان کرتے ہیں کہ یہ حضرات منکرین خدا اور جاہل لوگوں سے کس طرح کا طریقہ کار اپناتے تھے نیز ان کی منطق اور استدلال کے مقابلہ میں انسانوں پر کس طرح تاثیر ہوتی تھی، جو ہمارے لئے ایک درس ہے کہ کس طرح حق و حقیقت کا دفاع کریں؟ اور فن استدلال اور صحیح مناظرہ کا کردار لوگوں کے جذب کرنے اور ان کو قانع کرنے میں بہت زیادہ موثر ہے، اسی وجہ سے مناسب ہے کہ ہم ان طریقوں کو سیکھیں اور انھیں کے ذریعہ مختلف موقع و محل پر جاہل اور گمراہ لوگوں کی ہدایت کا سامان فراہم کریں۔

یہ کتاب ،دو حصوں پر مشتمل ہے:

پہلا حصہ: جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان حضرات کے شاگردوں کے ذریعہ مختلف افراد سے مختلف موضوعات پر کئے جانے والے مناظروں کے نمونے بیان ہوئے ہیں۔

دوسرا حصہ: ممتاز علماء اور اسلامی محققین کے مختلف گروہوں سے کئے جانے والے مناظرے۔

امید ہے کہ ”ایک سو ایک مناظروں کا یہ مجموعہ “ مناظرہ کی روش اور طریقہ کی پہچان کے لئے بہترین ناصر و مونس قرار پائے، جس کے پیش نظر ”اسلامی اہداف و مقاصد“ کی تکمیل کے لئے ثمر بخش نتائج برآمد ہوں، تاکہ مستحکم علمی مناظروں کے ذریعہ ”حقیقی اسلام “ کے مخالفوں کی ”دینی اور ثقافتی سازشوں“ کا سدّ باب کرسکیں۔

والسلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ

محمد محمدی اشتہاردی

حوزہ علمیہ ،قم المقدسہ

موسم سرما، ۱۳۷۱ ھ ش

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیت ۱۱۱۔

(۲) سورہ نحل آیت ۱۲۵۔

(۳) بحار الانوار، ج۳، ص۵۸۔

(۴) سورہ انبیاء، آیت۶۳۔

(۵) سورہ نساء، آیت ۶۵۔

(۶) سورہ بقرہ، آیت ۲۵۸۔

(۷) سورہ نساء، آیت ۷۱۔

(۸) بحار الانوار، ج۱۰، ص۴۵۲۔

(۹) اس طرح کے مناظروں کے بارے میں مزید آگاہی کے لئے کتاب ”احتجاج طبرسی“ (دو جلدیں) اور بحار الانوار ج۹، اور ۱۰ کی طرف رجوع فرمائیں۔

(۱۰) احتجاج طبرسی، ج۱، ص ۱۵۵۔

(۱۱) مثال کے طور پر ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کا مسئلہ، اور طلاق کو کسی چیز پر معلق کرنے کے جائز نہ ہونا، (مثلاً کوئی شوہر اپنی زوجہ سے کہے: میں نے اگر فلاں بلڈنگ کو بیچ دیا تو تو طلاق شدہ ہے) اور مسلسل ۱۵ دفعہ سے کم دودھ پینے پر رضاعی محرمیت کا واقع نہ ہونے کا مسئلہ۔۔۔۔

(۱۲) ”الیقظہ“ اخبار، بغداد ، سال ۳۵، نمبر ۹۶، بتاریخ ۷شعبان ۱۳۷۸ھ، ”فی سبیل الوحدة الاسلامیة“ ص۲۷، تا ۳۰ کی نقل کے مطابق۔

کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دولڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(١)

ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔(٢)

نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(٣)

____________________

(١)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔

(٢)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔

(٣)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔

نتیجہ:

اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:

١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟

٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں

کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟

٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق

تھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟

٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!

٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !

البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔

٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔

ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔

٧) حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟

٣۔مؤلف کا مختصر تعارف

علامہ جلال الدین سیوطی کی شخصیت اہل علم کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے لیکن عوام الناس کے فائدہ کومد نظر رکھتے ہوئے آپ کے حالات زندگی کو اختصار کے طور پر یہاں تحریر کیا جاتا ہے :

علامہ جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان سیوطی شافعی ،یکم رجب المرجب بروز یکشنبہ ٨٤٩ ہجری، شہر اسیوط مصر میں پیدا ہوئے ، ابھی آپ کا سن پانچ سال بھی نہیں ہوا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا ، آپ پچپن سے ہی علم دین پڑھنے میں مشغول ہوگئے، اور آٹھ سال ہونے تک قرآن کریم اور دیگر درسی رائج متون کو حفظ کرلیا، اور ٨٦٤ ہجری کے ابتداء تک قانونی حیثیت سے اچھے اور مایہ ناز طالب علم کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ، آپ نے فقہ ، نحو ، اصول اور دیگر اسلامی علوم پر کافی دست رسی حاصل کی،اور اس وقت کے پچاس سے زیادہ بزرگ علماء سے کسب فیض کیا ،اور ٨٦٦ ہجری میں آپ نے اپنے علم کا کتابی شکل میں مظاہرہ کیا ،اور ٨٧١ ہجری میںمقام افتاء پر قدم رکھا ، اور ٨٧٢ ہجری سے املاء حدیث کی مجلس ترتیب دی ،آپ نے تلاش علم میں شام ، حجاز ، یمن ، ہند وستان اور مغرب متعدد سفر کئے ، اور یہاں کے علماء سے علمی مذاکرہ کیا ، علامہ موصوف نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، نحو، معانی ، بیان ، بدیع ، اصول فقہ، قرائت ، تاریخ ، اور طب جیسے موضوعات سے متعلق مختلف کتابیں تحریر کیں ،جوآج بھی مرجع خاص و عام ہیں،لہٰذا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی زحمت کش اور قوی حافظہ کے مالک تھے چنانچہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو لاکھ حدیثیں حفظ کیں ہیںاور اگر اس سے زیادہ میسور ہوتیں تو ان کو بھی حفظ کر لیتا ،آپ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ حدیثیں اس وقت روئے زمین پر موصوف کی اطلاع میں نہ تھیں،آپ کی چھوٹی اور بڑی کتابوں کو ملا کر تقریباً ٥٠٠ کتابیں ہوتی ہیں ، آپ نہایت برد بار ، پاکیزہ نفس اور پرہیزگارانسان سے تھے، ہمیشہ حکام وقت سے ملنے سے کتراتے اور ان کے تحائف اکثر ردکردیا کرتے تھے ، عمر کے آخری حصہ میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک کرکے پروردگار کی عبادت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی،آخر کار بروز پنجشنبہ ٩١١ ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا ،اور شہر خوش قوصون کے اطراف میں دفن کردیا گیا۔(١)

علامہ جلال الدین سیوطی کو جن وجوہات کی بنا پر آج تک یاد کیا جاتا ہے وہ ان کی وسعت تالیف و تصنیف ہے، علامہ ابن حماد حنبلی لکھتے ہیں : علامہ سیوطی کی تصانیف و تالیفات خود ان کے زمانہ میں شرق و غرب میں پھیل چکی تھیں ۔(٢) چنانچہ علامہ سیوطی کے وفادرارشاگرد دائودی لکھتے ہیں : ان کی تالیفات کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے ۔

علامہ سیوطی نہ صرف یہ کہ وسعت تالیف کے مالک تھے بلکہ آپ کی تالیفات میں دقت نظر بھی پائی جاتی ہے،بہر کیف یہاں پر ہم علامہ کی ان کتابوں کی ایک فہرست نقل کرتے ہیں جو ہماری دست رس میں تھیں :

١- الاتقان فی علوم القرآن ٢- مسالک الحنفاء فی اسلام والدی المصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٣- نشر العالمین فی اخبار الابوین الشریفین ٤-العرف الوردی فی اخبار المہدی ٥- احیاء المیت بفضائل اہل البیت ٦- تفسیر الدرالمنثور

٧-تفسیرالجلالین ٨- تلخیص البیان فی علامات المہدی صاحب الزمان

_____________________

(١) شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ؛ ابن حماد حنبلی۔معجم المصنفین ؛ عمر رضا کحالہ

(٢)شذرات الذہب.

٩-الثغور الباسمہ فی مناقب فاطمہ ( س) ١٠- تاریخ الخلفاء ١١- اللئالی المصنوعة فی احادیث الموضوعة ١٢- المرقاة العلیة فی شرح الاسماء النبویة ١٣- الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة (یسمی ایضاً التعظیم فی ان ابویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الجنة) ١٤- العجاجة الزرنبیة فی السلالة الزینبیة(س) ١٥- الخصائص والمعجزات النبویة ١٦- قطف ثمر فی موافقات عمر ١٧- ابواب السعادة فی اسباب الشہادة ١٨- الآیة الکبری فی شرح قصة الاسراء ١٩- بلوغ المامول فی خدمة الرسول ٢٠-تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ٢١- اتمام النعمة فی اختصاص الاسلام بہٰذہ الامة ٢٢-القول الجلی فی حدیث الولی٢٣ - الاحادیث المنیفة ٢٤- احاسن الاقتباس فی محاسن الاقتباس ٢٥- الاحتفال بالاطفال ٢٦- الاخبار الماثورة فی الاطلاء بالنورة ٢٧- اخبار الملائکة ٢٨- الاخبار المرویة فی سبب وضع العربیة ٢٩-آداب الملوک ٣٠- ادب الفتیاء ٣١- اذکار الاذکار ٣٢ -الاذکار فی ماعقدہ الشعراء من الآثار ٣٣- اربعون حدیثاً فی فضل الجہاد ٣٤ -اربعون حدیثاً فی ورقة ٣٥-اربعون حدیثاً من روایة مالک عن نافع عن ابن عمر ٣٦-الارج فی الفرج ٣٧ -الارج المسکی ٣٨- ازالة الوہن عن مسئلة الرہن ٣٩ -ازہار الاکام فی اخبار الاحکام ٤٠- الازہار الغضة فی حواشی الروضة ٤١- الازہار الفائحة علی الفاتحة ٤٢- الازہار المتناثرة فی الاخبار المتواترة ٤٣- الاساس فی مناقب بنی عباس ٤٤- الاسئلة المائة ٤٥- الاسئلة الوزیریة و اجوبتہا ٤٦ - اسعاف المبطاء برجال الموطاء ٤٧- الاشباہ والنظائر الفقہیة ٤٨-الاشباہ والنظائر النحویة ٤٩- اطراف الاشراف بالاشراف علی الاطراف ٥٠- اعذب المناہل فی حدیث من قال انا عالم فہو جاہل ٥١- اعمال الفکر فی فضل الذکر ٥٢- الافصاح ٥٣ -الاقتراح فی اصول النحوو جدلہ ٥٤- الاقتناص فی مسئلة النماص ٥٥- اکام المرجان فی احکام الجان ٥٦- الاکلیل فی استنباط التنزیل ٥٧ -الالفاظ المعرّبة ٥٨- الالفیة فی القرائت العشر ٥٩ -الالفیة فی مصطلح الحدیث ٦٠- القام الحجر لمن ذکی ساب ابی بکر و عمر ٦١- انباء الاذکیاء بحیاة الانبیاء ٦٢- الانصاف فی تمییز الاوقاف ٦٣- انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ٦٤- الویة النصر فی خصیصی بالقصر ٦٥- الاوج فی خبر عوج ٦٦- اتحاف الفرقہ برفوالخرقہ ٦٧ -البارع فی اقطاع الشارع ٦٨- بدائع الزہور فی وقائع الدہور ٦٩- البدر الّذی انجلی فی مسئلة الولا ٧٠- البدور السافرة عن امور الاخرة ٧١- البدیعة ٧٢- بذل الہمة فی طلب برائة الذمة ٧٣- البرق الوامض فی شرح تائیة ابن الفارض ٧٤- بزوغ الہلال فی الخصال الموجبة الظلال ٧٥- بسط الکف فی اتمام الصف ٧٦ - بشری الکئیب فی لقاء الحبیب ٧٧ -بغیة الرائد فی الذیل علی مجمع الزوائد ٧٨- بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین والنحاة ٧٩- بلغة المحتاج فی مناسک الحاج ٨٠- اتحاف النبلاء فی اخبارالفضلاء ٨١ -البہجة المرضیة فی شرح الالفیة ٨٢ -التاج فی اعراب مشکل المنہاج ٨٣ -تاریخ سیوط ٨٤- تاریخ العمر ٨٥- تارخ مصر ٨٦- تایید الحقیقة العلیة و تشیید الطریقة الشاذلیة ٨٧- تبییض الصحیفة ٨٨- تجرید العنایة فی تخریج احادیث الکفایة ٨٩ -تجزیل المواہب فی اختلاف المذاہب ٩٠- التحبیر لعلم التفسیر ٩١- التحدث بنعمة اﷲ ٩٢- تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ٩٣- تحفة الانجاب بمسئلة السنجاب ٩٤- تحفة الجلساء برؤیة اﷲ للنساء ٩٥ -تحفة الحبیب ٩٦- تحفة الظرفاء باسماء الخلفاء ٩٧ -تحفة الکرام باخبار الاہرام ٩٨ -تحفة المجالس و نزہة المجالس ٩٩- تحفة المذاکر فی المنتہی من تاریخ ابن عساکر ١٠٠-تحفة النابة بتلخیص المتشابة ١٠١-تحفة الناسک ١٠٢-التخبیر فی علم التفسیر ١٠٣ -تخریج احادیث الدرة الفاخرة ١٠٤ -تخریج احادیث شرح العقائد ١٠٥- تذکرة المؤتسی بمن حدث و نسی ١٠٦ -اتمام الدرایہ لقراء النقایہ ١٠٧ - التذنیب فی الروایة علی التقریب ١٠٨- ترجمان القرآن ١٠٩- ترجمة البلقینی ١١٠- ترجمة النووی ١١١ -تزیین الارائک فی ارسال النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الی الملائک ١١٢- تشنیف الاسماع بمسائل الاجماع ١١٣ -تشیید الارکان من لیس فی الامکان ابدع مما کان ١١٤ -تعریف الاعجم بحروف المعجم ١١٥ -التعریف باداب التالیف ١١٦ -تعریف الفئة اجوبة الاسئلة المائة ١١٧ -التعقیبات ١١٨ -التفسیر المأثور ١١٩-تقریب الغریب ٠ ١٢ -تقریر الاستناد فی تیسیر الاجتہاد ١٢١ -تمہید الفرش فی الخصال الموجبة لظل العرش ١٢٢- تناسق الدرر فی تناسب السو ر ٣ ١٢- تنبیہ الواقف علی شرط الواقف ١٢٤ -تنزیہ الاعتقاد عن الحلول والاتحاد ١٢٥- تنزیہ الانبیاء عن تسفیہ الاغبیاء ١٢٦ -التنفیس فی الاعتذار عن الفتیا ء والتدریس ١٢٧ -تنویر الحلک فی امکان رؤیة النبی والملک ١٢٨ -تنویر الحوالک فی شرح موطاء الامام مالک ١٢٩ -التوشیح علی التوضیح ١٣٠- التوشیح علی الجامع الصحیح ١٣١- توضیح المدرک فی تصحیح المستدرک ١٣٢ -ثلج الفؤاد فی احادیث لبس السواد ١٣٤ -الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر ١٣٥ -الجامع الکبیر ١٣٦ -الجامع فی الفرائض ١٣٧- جزء فی اسماء المدلسین ١٣٨- جزء فی الصلاة ١٣٩- جزء فی صلاة الضحی ١٤٠- الجمانة ١٤١ - الجمع والتفریق فی الانواع البدیعة ١٤٢ -جمع الجوامع ١٤٣ -الجواب الجزم عن حدیث التکبیر جزم ١٤٤- الجواب الحاتم عن سؤال الخاتم ١٤٥ -الجواہر فی علم التفسیر ١٤٦-الجہر بمنع البروز علی شاطیٔ النہر ١٤٧- حاطب اللیل و حارف سیل ١٤٨ -حاشیة علی شرح الشذور ١٤٩ -حاشیة علی القطیعة للا سنوی ١٥٠ -حاشیة علی المختصر ١٥١- الحاوی للفتاوی ١٥٢- الحجج المبینة فی التفضیل بین مکة والمدینة ١٥٣ -حسن التعریف فی عدم التحلیف ١٥٤ -حسن التسلیک فی عدم التشبیک ١٥٥ -حسن المحاضرة فی اخبار مصر والقاہرة ١٥٦ -حسن المقصد فی عمل المولد ١٥٧-لحصر والاشاعة فی اشراط الساعة ١٥٨- الحظ الوافر من المغنم فی استدراک الکافر اذا اسلم ١٥٩ - حلبة الاولیاء ١٦٠- حمائل الزہر فی فضائل السور ١٦١ -الحواشی الصغری ١٦٢- الخبر الدال علی وجود القطب والاوتاد والنجباء والابدال ١٦٣-الخلاصة فی نظم الروضة ١٦٤۔خصائص یوم الجمعة ١٦٥ -الدراری فی ابناء السراری ١٦٦ -در التاج فی اعراب مشکل المنہاج ١٦٧-در السحابة فیمن دخل مصر من الصحابة ١٦٨ -الدرر المنتشرة فی الاحادیث المشتہرة ١٦٩- الدر المنثور فی التفسیر المأثور ١٧٠ -الدر المنظم فی الاسم الاعظم ١٧١- الدر النثیر فی تلخیص نہایة ابن الاثیر ١٧٢- درج المعالی فی نصرة الغزالی علی المنکر المتعالی ١٧٣- الدرج المنیفة ١٧٤ درر البحار فی احادیث القصار ١٧٥ -درر الحکم و غررالکلم ١٧٦ -الدرة التاجیة علی الاسئلة الناجیة ١٧٧ -دفع التعسف عن اخوة یوسف ١٧٨ -دقائق الملحة ١٧٩- الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج ١٨٠- دیوان الحیوان ١٨١ -دیوان خطب ١٨٢- دیوان شعر ١٨٣-ذکر التشنیع فی مسئلة التسمیع ١٨٤- ذم زیارة الامراء ١٨٥- ذم القضاء ١٨٦ -ذم المکس ١٨٧-الذیل الممہد علی القول المسدد ١٨٨- الرحلة الدمیاطیة ١٨٩- الرحلة الفیومیة ١٩٠- الرحلةالمکیة ١٩١-رسالة فی النعال الشریفة ١٩٢-رشف الزلال ١٩٣- رفع الباس عن بنی العباس ١٩٤ -رفع الخدر عن قطع السدر ١٩٥ -رفع الخصاصة فی شرح الخلاصة ١٩٦ -رفع السنة فی نصب الزنة ١٩٧ -رفع شان الحبشان ١٩٨-رفع الصوت بذبح الموت ١٩٩ -رفع اللباس و کشف الالتباس فی ضرب المثل من القرآن والالتماس ٢٠٠-رفع منار الدین و ہدم بناء المفسدین ٢٠١- رفع الید فی الدعا ٢٠٢- الروض الاریض فی طہر المحیض ٢٠٣- الروض المکلل والورد المعلل فی المصطلح ٢٠٤ -الریاض الانیفة فی شرح اسماء خیر الخلیقة ٢٠٥-الزجاجة فی شرح سنن ابن ماجة ٢٠٦- الزند الوری فی الجواب عن السئوال الاسکندریہ ٢٠٧- الزہر الباسم فیما یزوج فیہ الحاکم ٢٠٨- زہر الربی فی شرح المجتبی ٢٠٩- زوائد الرجال علی تہذیب الکمال ٢١٠ -زوائد شعب الایمان للبیہقی ٢١١ -زوائد نوادر الاصول للحکیم الترمذی ٢١٢ -زیادات الجامع الصغیر ٢١٣ -السبل الجلیة ٢١٤- السلاف فی التفضیل بین الصلاة والطواف ٢١٥ -السلالة فی تحقیق المقر والاستحالة ٢١٦- السماح فی اخبار الرماح ٢١٧ -السیف الصیقل فی حواشی ابن عقیل ٢١٨- السیف النطار فی الفرق بین الثبوت والتکرار ٢١٩-شد الاثواب فی سد الابواب ٢٢٠- شد الرحال فی ضبط الرجال ٢٢١ -شذ العرف فی اثبات المعنی للحرف ٢٢٢- شرح ابیات تلخیص المفتاح ٢٢٣ -شرح الاستعاذة والبسملة ٢٢٤ -شرح البدیعة ٢٢٥ -شرح التدریب ٢٢٦- شرح التنبیہ ٢٢٧- شرح الرجبیة فی الفرائض ٢٢٨- شرح الروض ٢٢٩ -شرح الشاطبیة ٢٣٠ -شرح شواہد المغنی ٢٣١- شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور ٢٣٢ -شرح ضروری التصریف ٢٣٣- شرح عقود الجمان ٢٣٤ -شرح الکافیة فی التصریف ٢٣٥- شرح الکوکب الساطع ٢٣٦- شرح الکوکب الوقاد فی الاعتقاد ٢٣٧- شرح لغة الاشراف فی الاسعاف ٢٣٨- شرح الملحة ٢٣٩ -شرح النقایة ٢٤٠ -شرح بانت سعاد ٢٤١ -شرح تصریف العزی ٢٤٢- الشماریخ فی علم التاریخ ٢٤٣ -الشمعة المضیئة ٢٤٤- شوارد الفوائد ٢٤٥- الشہد ٢٤٦ -صون المنطق والکلام عن فنی المنطق والکلام ٢٤٧- ضوء الشمعة فی عدد الجمعة ٢٤٨ -ضوء الصباح فی لغات النکاح ٢٤٩ -الطب النبوی ٢٥٠ -طبقات الاصولیین ٢٥١- طبقات الحفاظ ٢٥٢- طبقات شعراء العرب ٢٥٣- طبقات الکتاب ٢٥٤ -طبقات المفسرین ٢٥٥ -طبقات النحاة الصغری ٢٥٦- طبقات النحاة الوسطی ٢٥٧ -طلوع الثریا باظہار ماکان خفیا ٢٥٨ طی اللسان عن ذم الطیلسان ٢٥٩ الظفر بقلم الظفر ٢٦٠ -العاذب السلسل فی تصحیح الخلاف المرسل ٢٦١- العشاریات ٢٦٢- عقود الجمان فی المعانی والبیان ٢٦٣ -عقود الزبرجد علی مسند الامام احمد ٢٦٤- عین الاصابة فی معرفة الصحابة ٢٦٥ -غایة الاحسان فی خلق الانسان ٢٦٦ -الغنیة فی مختصر الروضة ٢٦٧- فتح الجلیل للعبد الذلیل فی الانواع البدیعیة المستخرجة من قولہ تعالی: ''ولی الذین آمنوا'' ٦٨ ٢- الفتح القریب علی مغنی اللبیب ٢٦٩- فتح المطلب المبرور و برد الکبد المحرور فی الجواب عن الاسئلة الواردة من التکرور ٢٧٠ - فتح المغالق من انت تالق ٢٧١-فجر الثمد فی اعراب اکمل الحمد ٢٧٢ -فصل الحدة ٢٧٣ -فصل الخطاب فی قتل الکلاب ٢٧٤ -فصل الشتاء ٢٧٦ -فصل الکلام فی حکم السلام ٢٧٧- فصل الکلام فی ذم الکلام ٢٧٨ -فضل موت الاولاد ٢٧٩ -فلق الصباح فی تخریج احادیث الصحاح (یعنی صحاح اللغة للجوہری) ٢٨٠ -الفوائد المتکاثرة فی الاخبار المتواترة ٢٨١ -فہرست المرویات ٢٨٢ -قدح الزند فی السلم فی القند ٢٨٣ -القذاذة فی تحقیق محل الاستعاذة ٢٨٤ -قصیدة رائیة ٢٨٥-قطر النداء فی ورود الہمزة للنداء ٢٨٦ -قطع المجادلة عند تغییر المعاملة ٢٨٧ -قطف الازہار فی کشف الاسرار ٢٨٨- قلائد الفوائد ٢٨٩- القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ٢٩٠ -الجوبة الزکیہ عن الالغاز السبکیة ٢٩١- القول الحسن فی الذب عن السنن ٢٩٢ -القول الفصیح فی تعیین الذبیح ٢٩٣ -القول المجمل فی الرد علی المہمل ٢٩٤ -القول المشرق فی تحریم الاشتغال بالمنطق ٢٩٥- القول المشید فی الوقف المؤبد ٢٩٦-القول المضی فی الحنث فی المضی ٢٩٧ -الکافی فی زوائد المہذب علی الوافی ٢٩٨- الکاوی علی السخاوی ٢٩٩- کتاب الاعلام بحکم عیسی علیہ السلام ٣٠٠- کشف التلبیس عن قلب اہل التدلیس ٣٠١ -کشف الریب عن الجیب ٣٠٢ -کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة ٣٠٣ -کشف الضبابہ فی مسألة الاستنابة ٣٠٤ -کشف المغطاء فی شرح الموطا ء ٣٠٥- کشف النقاب عن الالقاب ٣٠٦ -الکشف عن مجاوزة ہٰذہ الامة ٧ ٣٠ -الکوکب الساطع فی نظم جمع الجوامع ٣٠٨-الکلام علی اول الفتح ٣٠٩- الکلام علی حدیث ابن عباس احفظ اﷲ یحفظک ٣١٠- الکلم الطیب والقول المختار فی المأثورة من الدعوات والاذکار ٣١١- لباب النقول فی اسباب النزول ٣١٢- لب اللباب فی تحریر الانساب ٣١٣- لبس الیلب فی الجواب عن ایراد الحلب ٣١٤ -لم الاطراف و ضم الاتراف ٣١٥ -اللمع فی اسماء من وضع الاربعون المتباینة ٣١٦ -اللمعة فی تحریر الرکعة لادراک الجمعة ٣١٧ -اللوامع والبوارق فی الجوامع والفوارق ٣١٨ -ما رواہ الواعون فی اخبار الطاعون ٣١٩ -المباحث الزکیة فی المسألة الدورکیة ٣٢٠ -مجمع البحرین و مطلع البدرین فی التفسیر ٣٢١ -مختصر الاحکام السلطانیة للماوردی ٣٢٢ -مختصر الاحیاء ٣٢٣- مختصر الالفیة ٣٢٤ -مختصر تہذیب الاحکام ٣٢٥ -مختصر تہذیب الاسماء ٣٢٦- مختصر شرح ابیات تلخیص المفتاح ٣٢٧- مختصر شفاء الغلیل فی الذم الصاحب والخلیل ٣٢٨- مختصر معجم البلدان ٣٢٩ -مختصر الملحة ٣٣٠ -المدرج الی المدرج ٣٣١- مذل العسجد لسوال المسجد ٣٣٢- مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع ٣٣٣ مرقاة الصعود الی سنن ابی داؤد ٣٣٤ -مسألة ضربی زیداً قائما ٣٣٥ -المستظرفة فی احکام دخول الحشفة ٣٣٦- المسلسلات الکبری ٣٣٧ -المصاعد العلیة فی قواعد النحویة ٣٣٨- المصابیح فی صلاة التراویح ٣٣٩-مطلع البدرین فیمن یوتی اجرین ٣٤٠- المعانی الدقیقة فی ادراک الحقیقة ٣٤١ -معترک الاقران فی مشترک القرآن ٣٤٢ -مفاتح الغیب فی التفسیر ٣٤٣- مفتاح الجنة فی الاعتصام بالکتاب والسنة ٣٤٤ مفحمات الاقران فی مبہمات القرآن ٣٤٥ -المقامات ٣٤٦ -مقاطع الحجاز ٣٤٧- الملتقط من الدرر الکامنة ٣٤٨- مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا ٣٤٩ -المنتقی ٣٥٠- منتہی الامال فی شرح حدیث '' انما الاعمال '' ٣٥١- المنجلی فی تطور الولی ٣٥٢- المنحة فی السبحة ٣٥٣- من عاش من الصحابة مأة و عشرین ٣٥٤ من وافقت کنیتہ زوجتہ من الصحابة ٣٥٥ -منہاج السنة و مفتاح الجنة ٣٥٦ -المنی فی الکنی ٣٥٧ -المہذب فی ما وقع فی القرآن من المعرب ٣٥٨- میزان المعدلة فی شرح البسملة ٣٥٩ -نتیجة الفکر فی الجہر بالذکر ٣٦٠- نشر العبیرفی تخریج احادیث الشرح الکبیر ٣٦١ -نظم التذکرة ٣٦٢ -نظم الدرر فی علوم الاثر ٣٦٣ -النفحة المسکیة والتحفة المکیة ٣٦٤-النقایة فی اربعة عشر علماً ٣٦٥- النقول المشرقة فی مسألة الفقة ٣٦٦- النکت البدیعات ٣٦٧- النکت علی الالفیة والکافیة والشافیة والشذور والنزہة ٣٦٨-نکت علی حاشیة المطول لابن العقری ٣٦٩- نکت علی شرح الشواہد للعینی ٣٧٠ -نور الحدیقة ٣٧١ -الوافی فی مختصر التنبیہ ٣٧٢- الورقات المقدمة ٣٧٣- الوسائل الی معرفة الاوائل ٣٧٤ وصول الامانی باصول التہانی ٣٧٥- ہدم الجانی علی البانی ٣٧٦- ہمع الہوامع فی شرح جمع الجوامع ٣٧٧ -الہیّة السنیة فی الہیة السنیة ٣٧٨- الید البسطی فی الصلاة الوسطی - ٣٧٩ الینبوع فیما زاد علی الروضة من الفروع ۔

٤۔ رواةِ احادیث اور علمائے اہل سنت کے اسمائے گرامی

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنے اس رسالہ میں جن جلیل القدر اور عظیم الشان راو یوں اور علمائے اہل سنت سے روایتیں نقل کی ہیں اگرچہ ان کے مختصر حالات کتاب کے حاشیہ میں نقل کردئے گئے ہیں لیکن یہاں قارئین کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اسمائے گرامی ذیل میں یکجا نقل کئے جارہے ہیں:

راویوں کے اسمائ:

١۔سعید بن جبیر ٢۔ حضرت ابن عباس ٣۔ مطلب بن ربیعہ ٤۔ زید بن ارقم ٥۔ زید بن ثابت ٦۔ ابو سعید خدری ٧۔ حضرت ابو بکر صدیق ٨۔ حضرت امام حسن ـ ٩۔ حضرت علی ـ ١٠۔ عبد اﷲ ابن عمر ١١۔ جابر بن عبد اﷲ انصاری ١٢۔ عبد اﷲ ابن جعفر ١٣۔ سلمہ بن الاکوع ١٤۔ ابو ہریرہ ١٥۔ عبد اﷲ ابن زبیر ١٦۔حضرت ابوذر ١٧۔ حضرت فاطمہ الزہرا ١٨۔ حضرت عمر فاروق ١٩۔ انس بن مالک ٢٠۔ ابن مسعود ٢١۔ مطلب بن عبد اﷲ ٢٢۔ حکیم ٢٣۔ حضرت عثمان غنی ٢٤۔ زوجہ ٔ رسول حضرت عائشہ

علمائے اہل سنت کے نام:

١۔ سعید بن منصور ٢۔ ابن المنذر ٣۔ ابی حاتم ٤۔ ابن مردویہ ٥۔ طبرانی ٦۔ ترمذی ٧۔ امام احمد بن حنبل ٨۔ نسائی ٩۔ حاکم ١٠۔ مسلم ١١۔ عبد بن حمید ١٢۔ ابو احمد ١٣۔ ابو یعلی ١٤۔ امام بخاری ١٥۔ ابن جریر ١٦۔ عقیلی ١٧۔ ابن شاہین ١٨۔ خطیب ١٩۔ دیلمی ٢٠۔ حافظ ابو نعیم ٢١۔ باوردی ٢٢۔ ابن عدی ٢٣۔ ابن حبان ٢٤ ۔ امام بیہقی ٢٥۔ ابن ابی شیبہ ٢٦۔ مسدد ٢٧۔ بزار ٢٨۔ ابن عساکر.

٥۔حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ کی مختصر توثیق

حدیث ثقلین:

حددیث ثقلین کی ٣٤ صحابہ و صحابیات نے جناب رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے، اور دور تالیف سے آج تک ہر عہد کے علماء ،انہیں حدیث و سیرت و مناقب و تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے چلے آئے ہیں:

١۔ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلا م سے بزار، محب الدین طبری ،دولالی، سخاوی،سمہودی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں حدیث ثقلین کو درج کیا ہے۔

٢۔ امام حسن ـسے،ابن قندوزی نے '' ینابیع المودة'' میں حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٣۔سلمان فار سی سے بھی قندوزی نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٤۔ حضرت ابوذرغفاری سے ( صحیح ترمذی )

٥۔ ابن عباس سے ( قندوزی)

٦۔ ابوسعیدی خدری (مسعود ی،طبری،ترمذی و غیرہ )

٧۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (ترمذی ،ابن اثیر و غیرہ)

٨۔ ابوالہیثم تیہان(سخاوی وقندوزی)

٩۔ ابورافع(سخاوی وقندوزی )

١٠۔ حذیفہ یمان(، محب الدین طبری ،مودةالقربی)

١١۔ حذیفہ بن اسید غفاری(ترمذی،ابونعیم اصفہانی،ابن اثیر ،سخاوی و غیرہ)

١٢ ۔ خزیمہ بن ثابت (سخاوی ،سہمودی،قندوزی )

١٣۔ ابوہریرہ (بزار ، سخاوی،سہمودی)

١٤ ۔ زیدبن ثابت (احمدبن حنبل، محب الدین طبری، ابن اثیر و غیرہ)

١٥ ۔ عبد اللہ بن حنطب(طبرانی،ابن اثیر وغیرہ)

١٦۔ جبیربن مطعم(ابونعیم اصفہانی و غیرہ)

١٧ ۔ براا بن عازب ( ابو نعیم اصفہانی)

١٨۔ انس بن مالک ( ابو نعیم اصفہانی )

١٩ ۔ طلحہ بن عبید اﷲ بن تمیمی( قندوزی )

٢٠۔ عبد الرحمن بن عوف( قندوزی )

٢١۔ سعد بن وقاص( قندوزی )

٢٢۔ عمرو بن عاص ( خوارزمی )

٢٣۔ سہل بن سعد انصاری (سخاوی ، سمہودی )

٢٤ ۔ عدی بن حاتم( سخاوی ،سمہودی و غیرہ)

٢٥۔ عقبہ بن عامر (سخاوی وغیرہ )

٢٦۔ ابو ایوب انصاری ( سخاوی)

٢٧۔ شریح خزاعی( سخاوی ، سمہودی و غیرہ)

٢٨۔ ابو قدامہ انصاری( سخاوی وغیرہ )

٢٩۔ ضمیرہ ٔ اسلمی( سخاوی وغیرہ)

٣٠۔ ا بو لیلی انصاری ( سخاوی ، سمہودی ، قندوزی )

٣١۔ حضرت فاطمہ الزہرا ( قندوزی )

٣٢۔ ام المومنین ام سلمہ( سخاوی س،سمہودی )

٣٣۔ ام ہانی بنت ابو طالب( سخاوی، سمہودی وغیرہ )

٣٤۔ زید بن ارقم ( صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل ، کنزالعمال ۔ سیوطی؛ در منثور،ترمذی)

حدیث ثقلین پرعلامہ ابن حجر ہیثمی کی ایک نظر :

سمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وآله وسلم ، القرآن وعترته ،وهی الاهل والنسل والرهط الادنون، ثقلین، لان الثقل کل نفیس خطیر مصون، وهٰذان کذلک، اذ کل منهما معدن للعلوم اللُّدنیّة والاسراروالحکم العلیة والاحکام الشرعیة ، ولذا حثصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی الاقتداء والتمسک بهم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن وعترت کو جو کہ آپ کے اہل ونسل و قریب تر لوگ ہیں ، ثقلین فرمایا ، اس لئے کہ ثقل '' ہر نفیس و گرانقدر شۓ کو کہتے ہیں" - اور یہ دونوں اسی طرح ہیں بھی- کیونکہ یہ دونوں علوم لدنی ، بلند اسرار و حکم اور احکام شرعی کے معد ن ہیں ، اسی لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے تمسک اور ان کی اقتداء کا حکم فرمایا ہے ۔(١)

حدیث سفینہ:

اس حدیث کوامام احمد بن حنبل ، امام مسلم ، ابن قتیبہ دینوری، بزار ، ابو یعلی موصلی ، طبری ، صولی صاحب کتاب الاوراق ، ابوالفرج اصفہانی ، طرانی، حاکم نیشاپوری ، ابن مردویہ اصفہانی ، ثعلبی ، ابو نعیم اصفہانی، ، ابن عبد البر ، خطیب بغدادی ، ابن مغازلی ، سمعانی ، فخر الدین رازی ، سبط ابن جوزی، محمد بن یوسف گنجی ، شہاب الدین حلبی ، نظام اعرج نیشاپوری، خطیب تبریزی ، طیبی شارح مشکاة، جمال الدین زرندی ، شہاب الدین قندوزی ،حموی جوینی ، ابن صباغ مالکی ، علی قاری اور عبد الرؤوف مناوی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے ۔

___________________

(١) علامہ ابن حجر ہیثمی مکی؛الصواعق المحرقة، ص٧٥.

قارئین کرام ! مقدمۂ کتاب کے طولانی ہونے کی بنا پر آپ سے بیحد معذرت خواہ ہیں، چونکہ اس کتاب سے مربوط کچھ مطالب ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے ضرورت اس بات کی محسوس ہورہی

کہ مقدمہ میں ان پر قدرے روشنی ڈالی جائے ،بہر حال اس کتاب کا پہلی دفعہ اردو ترجمہ دو بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ مؤمنین اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا تے ہوئے ناچیز کو دعائوں میں یاد رکھیں گے، آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ اقدس میں دست بہ دعا ہیں کہ تا دم آخر قرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے۔ (آمین)

والسلام

مترجم: محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی

گرام و پوسٹ بڑھیا ّ،ضلع کھیری لکھیم پور

یوپی ۔ ہندوستان

١٨ ذی الحجہ(بروز عید سعید غدیر)

مطابق ٢٩ جنوری ٢٠٠٥ ء بروز شنبہ

مقیم حال : قم مقدس ، جمہوری اسلامی ایران

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ وسلام علی عباده الذین اصطفی

هذه ستون حدیثا اسمیتها :'' اِحْیائَُ الْمَیْتْ بِفَضَائِلِ اَهْلِ الْبَیْتْ''.

تما م تعریفیں خدا وند متعال سے مخصوص ہیں ، اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر۔

یہ ساٹھ عدد حدیثیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام میں نے''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)''(فضائل ِاہل بیت سے احیاء میت)رکھا ہے ۔

کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دولڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(١)

ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔(٢)

نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(٣)

____________________

(١)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔

(٢)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔

(٣)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔

نتیجہ:

اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:

١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟

٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں

کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟

٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق

تھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟

٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!

٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !

البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔

٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔

ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔

٧) حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟

٣۔مؤلف کا مختصر تعارف

علامہ جلال الدین سیوطی کی شخصیت اہل علم کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے لیکن عوام الناس کے فائدہ کومد نظر رکھتے ہوئے آپ کے حالات زندگی کو اختصار کے طور پر یہاں تحریر کیا جاتا ہے :

علامہ جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان سیوطی شافعی ،یکم رجب المرجب بروز یکشنبہ ٨٤٩ ہجری، شہر اسیوط مصر میں پیدا ہوئے ، ابھی آپ کا سن پانچ سال بھی نہیں ہوا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا ، آپ پچپن سے ہی علم دین پڑھنے میں مشغول ہوگئے، اور آٹھ سال ہونے تک قرآن کریم اور دیگر درسی رائج متون کو حفظ کرلیا، اور ٨٦٤ ہجری کے ابتداء تک قانونی حیثیت سے اچھے اور مایہ ناز طالب علم کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ، آپ نے فقہ ، نحو ، اصول اور دیگر اسلامی علوم پر کافی دست رسی حاصل کی،اور اس وقت کے پچاس سے زیادہ بزرگ علماء سے کسب فیض کیا ،اور ٨٦٦ ہجری میں آپ نے اپنے علم کا کتابی شکل میں مظاہرہ کیا ،اور ٨٧١ ہجری میںمقام افتاء پر قدم رکھا ، اور ٨٧٢ ہجری سے املاء حدیث کی مجلس ترتیب دی ،آپ نے تلاش علم میں شام ، حجاز ، یمن ، ہند وستان اور مغرب متعدد سفر کئے ، اور یہاں کے علماء سے علمی مذاکرہ کیا ، علامہ موصوف نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، نحو، معانی ، بیان ، بدیع ، اصول فقہ، قرائت ، تاریخ ، اور طب جیسے موضوعات سے متعلق مختلف کتابیں تحریر کیں ،جوآج بھی مرجع خاص و عام ہیں،لہٰذا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی زحمت کش اور قوی حافظہ کے مالک تھے چنانچہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو لاکھ حدیثیں حفظ کیں ہیںاور اگر اس سے زیادہ میسور ہوتیں تو ان کو بھی حفظ کر لیتا ،آپ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ حدیثیں اس وقت روئے زمین پر موصوف کی اطلاع میں نہ تھیں،آپ کی چھوٹی اور بڑی کتابوں کو ملا کر تقریباً ٥٠٠ کتابیں ہوتی ہیں ، آپ نہایت برد بار ، پاکیزہ نفس اور پرہیزگارانسان سے تھے، ہمیشہ حکام وقت سے ملنے سے کتراتے اور ان کے تحائف اکثر ردکردیا کرتے تھے ، عمر کے آخری حصہ میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک کرکے پروردگار کی عبادت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی،آخر کار بروز پنجشنبہ ٩١١ ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا ،اور شہر خوش قوصون کے اطراف میں دفن کردیا گیا۔(١)

علامہ جلال الدین سیوطی کو جن وجوہات کی بنا پر آج تک یاد کیا جاتا ہے وہ ان کی وسعت تالیف و تصنیف ہے، علامہ ابن حماد حنبلی لکھتے ہیں : علامہ سیوطی کی تصانیف و تالیفات خود ان کے زمانہ میں شرق و غرب میں پھیل چکی تھیں ۔(٢) چنانچہ علامہ سیوطی کے وفادرارشاگرد دائودی لکھتے ہیں : ان کی تالیفات کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے ۔

علامہ سیوطی نہ صرف یہ کہ وسعت تالیف کے مالک تھے بلکہ آپ کی تالیفات میں دقت نظر بھی پائی جاتی ہے،بہر کیف یہاں پر ہم علامہ کی ان کتابوں کی ایک فہرست نقل کرتے ہیں جو ہماری دست رس میں تھیں :

١- الاتقان فی علوم القرآن ٢- مسالک الحنفاء فی اسلام والدی المصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٣- نشر العالمین فی اخبار الابوین الشریفین ٤-العرف الوردی فی اخبار المہدی ٥- احیاء المیت بفضائل اہل البیت ٦- تفسیر الدرالمنثور

٧-تفسیرالجلالین ٨- تلخیص البیان فی علامات المہدی صاحب الزمان

_____________________

(١) شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ؛ ابن حماد حنبلی۔معجم المصنفین ؛ عمر رضا کحالہ

(٢)شذرات الذہب.

٩-الثغور الباسمہ فی مناقب فاطمہ ( س) ١٠- تاریخ الخلفاء ١١- اللئالی المصنوعة فی احادیث الموضوعة ١٢- المرقاة العلیة فی شرح الاسماء النبویة ١٣- الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة (یسمی ایضاً التعظیم فی ان ابویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الجنة) ١٤- العجاجة الزرنبیة فی السلالة الزینبیة(س) ١٥- الخصائص والمعجزات النبویة ١٦- قطف ثمر فی موافقات عمر ١٧- ابواب السعادة فی اسباب الشہادة ١٨- الآیة الکبری فی شرح قصة الاسراء ١٩- بلوغ المامول فی خدمة الرسول ٢٠-تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ٢١- اتمام النعمة فی اختصاص الاسلام بہٰذہ الامة ٢٢-القول الجلی فی حدیث الولی٢٣ - الاحادیث المنیفة ٢٤- احاسن الاقتباس فی محاسن الاقتباس ٢٥- الاحتفال بالاطفال ٢٦- الاخبار الماثورة فی الاطلاء بالنورة ٢٧- اخبار الملائکة ٢٨- الاخبار المرویة فی سبب وضع العربیة ٢٩-آداب الملوک ٣٠- ادب الفتیاء ٣١- اذکار الاذکار ٣٢ -الاذکار فی ماعقدہ الشعراء من الآثار ٣٣- اربعون حدیثاً فی فضل الجہاد ٣٤ -اربعون حدیثاً فی ورقة ٣٥-اربعون حدیثاً من روایة مالک عن نافع عن ابن عمر ٣٦-الارج فی الفرج ٣٧ -الارج المسکی ٣٨- ازالة الوہن عن مسئلة الرہن ٣٩ -ازہار الاکام فی اخبار الاحکام ٤٠- الازہار الغضة فی حواشی الروضة ٤١- الازہار الفائحة علی الفاتحة ٤٢- الازہار المتناثرة فی الاخبار المتواترة ٤٣- الاساس فی مناقب بنی عباس ٤٤- الاسئلة المائة ٤٥- الاسئلة الوزیریة و اجوبتہا ٤٦ - اسعاف المبطاء برجال الموطاء ٤٧- الاشباہ والنظائر الفقہیة ٤٨-الاشباہ والنظائر النحویة ٤٩- اطراف الاشراف بالاشراف علی الاطراف ٥٠- اعذب المناہل فی حدیث من قال انا عالم فہو جاہل ٥١- اعمال الفکر فی فضل الذکر ٥٢- الافصاح ٥٣ -الاقتراح فی اصول النحوو جدلہ ٥٤- الاقتناص فی مسئلة النماص ٥٥- اکام المرجان فی احکام الجان ٥٦- الاکلیل فی استنباط التنزیل ٥٧ -الالفاظ المعرّبة ٥٨- الالفیة فی القرائت العشر ٥٩ -الالفیة فی مصطلح الحدیث ٦٠- القام الحجر لمن ذکی ساب ابی بکر و عمر ٦١- انباء الاذکیاء بحیاة الانبیاء ٦٢- الانصاف فی تمییز الاوقاف ٦٣- انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ٦٤- الویة النصر فی خصیصی بالقصر ٦٥- الاوج فی خبر عوج ٦٦- اتحاف الفرقہ برفوالخرقہ ٦٧ -البارع فی اقطاع الشارع ٦٨- بدائع الزہور فی وقائع الدہور ٦٩- البدر الّذی انجلی فی مسئلة الولا ٧٠- البدور السافرة عن امور الاخرة ٧١- البدیعة ٧٢- بذل الہمة فی طلب برائة الذمة ٧٣- البرق الوامض فی شرح تائیة ابن الفارض ٧٤- بزوغ الہلال فی الخصال الموجبة الظلال ٧٥- بسط الکف فی اتمام الصف ٧٦ - بشری الکئیب فی لقاء الحبیب ٧٧ -بغیة الرائد فی الذیل علی مجمع الزوائد ٧٨- بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین والنحاة ٧٩- بلغة المحتاج فی مناسک الحاج ٨٠- اتحاف النبلاء فی اخبارالفضلاء ٨١ -البہجة المرضیة فی شرح الالفیة ٨٢ -التاج فی اعراب مشکل المنہاج ٨٣ -تاریخ سیوط ٨٤- تاریخ العمر ٨٥- تارخ مصر ٨٦- تایید الحقیقة العلیة و تشیید الطریقة الشاذلیة ٨٧- تبییض الصحیفة ٨٨- تجرید العنایة فی تخریج احادیث الکفایة ٨٩ -تجزیل المواہب فی اختلاف المذاہب ٩٠- التحبیر لعلم التفسیر ٩١- التحدث بنعمة اﷲ ٩٢- تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ٩٣- تحفة الانجاب بمسئلة السنجاب ٩٤- تحفة الجلساء برؤیة اﷲ للنساء ٩٥ -تحفة الحبیب ٩٦- تحفة الظرفاء باسماء الخلفاء ٩٧ -تحفة الکرام باخبار الاہرام ٩٨ -تحفة المجالس و نزہة المجالس ٩٩- تحفة المذاکر فی المنتہی من تاریخ ابن عساکر ١٠٠-تحفة النابة بتلخیص المتشابة ١٠١-تحفة الناسک ١٠٢-التخبیر فی علم التفسیر ١٠٣ -تخریج احادیث الدرة الفاخرة ١٠٤ -تخریج احادیث شرح العقائد ١٠٥- تذکرة المؤتسی بمن حدث و نسی ١٠٦ -اتمام الدرایہ لقراء النقایہ ١٠٧ - التذنیب فی الروایة علی التقریب ١٠٨- ترجمان القرآن ١٠٩- ترجمة البلقینی ١١٠- ترجمة النووی ١١١ -تزیین الارائک فی ارسال النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الی الملائک ١١٢- تشنیف الاسماع بمسائل الاجماع ١١٣ -تشیید الارکان من لیس فی الامکان ابدع مما کان ١١٤ -تعریف الاعجم بحروف المعجم ١١٥ -التعریف باداب التالیف ١١٦ -تعریف الفئة اجوبة الاسئلة المائة ١١٧ -التعقیبات ١١٨ -التفسیر المأثور ١١٩-تقریب الغریب ٠ ١٢ -تقریر الاستناد فی تیسیر الاجتہاد ١٢١ -تمہید الفرش فی الخصال الموجبة لظل العرش ١٢٢- تناسق الدرر فی تناسب السو ر ٣ ١٢- تنبیہ الواقف علی شرط الواقف ١٢٤ -تنزیہ الاعتقاد عن الحلول والاتحاد ١٢٥- تنزیہ الانبیاء عن تسفیہ الاغبیاء ١٢٦ -التنفیس فی الاعتذار عن الفتیا ء والتدریس ١٢٧ -تنویر الحلک فی امکان رؤیة النبی والملک ١٢٨ -تنویر الحوالک فی شرح موطاء الامام مالک ١٢٩ -التوشیح علی التوضیح ١٣٠- التوشیح علی الجامع الصحیح ١٣١- توضیح المدرک فی تصحیح المستدرک ١٣٢ -ثلج الفؤاد فی احادیث لبس السواد ١٣٤ -الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر ١٣٥ -الجامع الکبیر ١٣٦ -الجامع فی الفرائض ١٣٧- جزء فی اسماء المدلسین ١٣٨- جزء فی الصلاة ١٣٩- جزء فی صلاة الضحی ١٤٠- الجمانة ١٤١ - الجمع والتفریق فی الانواع البدیعة ١٤٢ -جمع الجوامع ١٤٣ -الجواب الجزم عن حدیث التکبیر جزم ١٤٤- الجواب الحاتم عن سؤال الخاتم ١٤٥ -الجواہر فی علم التفسیر ١٤٦-الجہر بمنع البروز علی شاطیٔ النہر ١٤٧- حاطب اللیل و حارف سیل ١٤٨ -حاشیة علی شرح الشذور ١٤٩ -حاشیة علی القطیعة للا سنوی ١٥٠ -حاشیة علی المختصر ١٥١- الحاوی للفتاوی ١٥٢- الحجج المبینة فی التفضیل بین مکة والمدینة ١٥٣ -حسن التعریف فی عدم التحلیف ١٥٤ -حسن التسلیک فی عدم التشبیک ١٥٥ -حسن المحاضرة فی اخبار مصر والقاہرة ١٥٦ -حسن المقصد فی عمل المولد ١٥٧-لحصر والاشاعة فی اشراط الساعة ١٥٨- الحظ الوافر من المغنم فی استدراک الکافر اذا اسلم ١٥٩ - حلبة الاولیاء ١٦٠- حمائل الزہر فی فضائل السور ١٦١ -الحواشی الصغری ١٦٢- الخبر الدال علی وجود القطب والاوتاد والنجباء والابدال ١٦٣-الخلاصة فی نظم الروضة ١٦٤۔خصائص یوم الجمعة ١٦٥ -الدراری فی ابناء السراری ١٦٦ -در التاج فی اعراب مشکل المنہاج ١٦٧-در السحابة فیمن دخل مصر من الصحابة ١٦٨ -الدرر المنتشرة فی الاحادیث المشتہرة ١٦٩- الدر المنثور فی التفسیر المأثور ١٧٠ -الدر المنظم فی الاسم الاعظم ١٧١- الدر النثیر فی تلخیص نہایة ابن الاثیر ١٧٢- درج المعالی فی نصرة الغزالی علی المنکر المتعالی ١٧٣- الدرج المنیفة ١٧٤ درر البحار فی احادیث القصار ١٧٥ -درر الحکم و غررالکلم ١٧٦ -الدرة التاجیة علی الاسئلة الناجیة ١٧٧ -دفع التعسف عن اخوة یوسف ١٧٨ -دقائق الملحة ١٧٩- الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج ١٨٠- دیوان الحیوان ١٨١ -دیوان خطب ١٨٢- دیوان شعر ١٨٣-ذکر التشنیع فی مسئلة التسمیع ١٨٤- ذم زیارة الامراء ١٨٥- ذم القضاء ١٨٦ -ذم المکس ١٨٧-الذیل الممہد علی القول المسدد ١٨٨- الرحلة الدمیاطیة ١٨٩- الرحلة الفیومیة ١٩٠- الرحلةالمکیة ١٩١-رسالة فی النعال الشریفة ١٩٢-رشف الزلال ١٩٣- رفع الباس عن بنی العباس ١٩٤ -رفع الخدر عن قطع السدر ١٩٥ -رفع الخصاصة فی شرح الخلاصة ١٩٦ -رفع السنة فی نصب الزنة ١٩٧ -رفع شان الحبشان ١٩٨-رفع الصوت بذبح الموت ١٩٩ -رفع اللباس و کشف الالتباس فی ضرب المثل من القرآن والالتماس ٢٠٠-رفع منار الدین و ہدم بناء المفسدین ٢٠١- رفع الید فی الدعا ٢٠٢- الروض الاریض فی طہر المحیض ٢٠٣- الروض المکلل والورد المعلل فی المصطلح ٢٠٤ -الریاض الانیفة فی شرح اسماء خیر الخلیقة ٢٠٥-الزجاجة فی شرح سنن ابن ماجة ٢٠٦- الزند الوری فی الجواب عن السئوال الاسکندریہ ٢٠٧- الزہر الباسم فیما یزوج فیہ الحاکم ٢٠٨- زہر الربی فی شرح المجتبی ٢٠٩- زوائد الرجال علی تہذیب الکمال ٢١٠ -زوائد شعب الایمان للبیہقی ٢١١ -زوائد نوادر الاصول للحکیم الترمذی ٢١٢ -زیادات الجامع الصغیر ٢١٣ -السبل الجلیة ٢١٤- السلاف فی التفضیل بین الصلاة والطواف ٢١٥ -السلالة فی تحقیق المقر والاستحالة ٢١٦- السماح فی اخبار الرماح ٢١٧ -السیف الصیقل فی حواشی ابن عقیل ٢١٨- السیف النطار فی الفرق بین الثبوت والتکرار ٢١٩-شد الاثواب فی سد الابواب ٢٢٠- شد الرحال فی ضبط الرجال ٢٢١ -شذ العرف فی اثبات المعنی للحرف ٢٢٢- شرح ابیات تلخیص المفتاح ٢٢٣ -شرح الاستعاذة والبسملة ٢٢٤ -شرح البدیعة ٢٢٥ -شرح التدریب ٢٢٦- شرح التنبیہ ٢٢٧- شرح الرجبیة فی الفرائض ٢٢٨- شرح الروض ٢٢٩ -شرح الشاطبیة ٢٣٠ -شرح شواہد المغنی ٢٣١- شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور ٢٣٢ -شرح ضروری التصریف ٢٣٣- شرح عقود الجمان ٢٣٤ -شرح الکافیة فی التصریف ٢٣٥- شرح الکوکب الساطع ٢٣٦- شرح الکوکب الوقاد فی الاعتقاد ٢٣٧- شرح لغة الاشراف فی الاسعاف ٢٣٨- شرح الملحة ٢٣٩ -شرح النقایة ٢٤٠ -شرح بانت سعاد ٢٤١ -شرح تصریف العزی ٢٤٢- الشماریخ فی علم التاریخ ٢٤٣ -الشمعة المضیئة ٢٤٤- شوارد الفوائد ٢٤٥- الشہد ٢٤٦ -صون المنطق والکلام عن فنی المنطق والکلام ٢٤٧- ضوء الشمعة فی عدد الجمعة ٢٤٨ -ضوء الصباح فی لغات النکاح ٢٤٩ -الطب النبوی ٢٥٠ -طبقات الاصولیین ٢٥١- طبقات الحفاظ ٢٥٢- طبقات شعراء العرب ٢٥٣- طبقات الکتاب ٢٥٤ -طبقات المفسرین ٢٥٥ -طبقات النحاة الصغری ٢٥٦- طبقات النحاة الوسطی ٢٥٧ -طلوع الثریا باظہار ماکان خفیا ٢٥٨ طی اللسان عن ذم الطیلسان ٢٥٩ الظفر بقلم الظفر ٢٦٠ -العاذب السلسل فی تصحیح الخلاف المرسل ٢٦١- العشاریات ٢٦٢- عقود الجمان فی المعانی والبیان ٢٦٣ -عقود الزبرجد علی مسند الامام احمد ٢٦٤- عین الاصابة فی معرفة الصحابة ٢٦٥ -غایة الاحسان فی خلق الانسان ٢٦٦ -الغنیة فی مختصر الروضة ٢٦٧- فتح الجلیل للعبد الذلیل فی الانواع البدیعیة المستخرجة من قولہ تعالی: ''ولی الذین آمنوا'' ٦٨ ٢- الفتح القریب علی مغنی اللبیب ٢٦٩- فتح المطلب المبرور و برد الکبد المحرور فی الجواب عن الاسئلة الواردة من التکرور ٢٧٠ - فتح المغالق من انت تالق ٢٧١-فجر الثمد فی اعراب اکمل الحمد ٢٧٢ -فصل الحدة ٢٧٣ -فصل الخطاب فی قتل الکلاب ٢٧٤ -فصل الشتاء ٢٧٦ -فصل الکلام فی حکم السلام ٢٧٧- فصل الکلام فی ذم الکلام ٢٧٨ -فضل موت الاولاد ٢٧٩ -فلق الصباح فی تخریج احادیث الصحاح (یعنی صحاح اللغة للجوہری) ٢٨٠ -الفوائد المتکاثرة فی الاخبار المتواترة ٢٨١ -فہرست المرویات ٢٨٢ -قدح الزند فی السلم فی القند ٢٨٣ -القذاذة فی تحقیق محل الاستعاذة ٢٨٤ -قصیدة رائیة ٢٨٥-قطر النداء فی ورود الہمزة للنداء ٢٨٦ -قطع المجادلة عند تغییر المعاملة ٢٨٧ -قطف الازہار فی کشف الاسرار ٢٨٨- قلائد الفوائد ٢٨٩- القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ٢٩٠ -الجوبة الزکیہ عن الالغاز السبکیة ٢٩١- القول الحسن فی الذب عن السنن ٢٩٢ -القول الفصیح فی تعیین الذبیح ٢٩٣ -القول المجمل فی الرد علی المہمل ٢٩٤ -القول المشرق فی تحریم الاشتغال بالمنطق ٢٩٥- القول المشید فی الوقف المؤبد ٢٩٦-القول المضی فی الحنث فی المضی ٢٩٧ -الکافی فی زوائد المہذب علی الوافی ٢٩٨- الکاوی علی السخاوی ٢٩٩- کتاب الاعلام بحکم عیسی علیہ السلام ٣٠٠- کشف التلبیس عن قلب اہل التدلیس ٣٠١ -کشف الریب عن الجیب ٣٠٢ -کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة ٣٠٣ -کشف الضبابہ فی مسألة الاستنابة ٣٠٤ -کشف المغطاء فی شرح الموطا ء ٣٠٥- کشف النقاب عن الالقاب ٣٠٦ -الکشف عن مجاوزة ہٰذہ الامة ٧ ٣٠ -الکوکب الساطع فی نظم جمع الجوامع ٣٠٨-الکلام علی اول الفتح ٣٠٩- الکلام علی حدیث ابن عباس احفظ اﷲ یحفظک ٣١٠- الکلم الطیب والقول المختار فی المأثورة من الدعوات والاذکار ٣١١- لباب النقول فی اسباب النزول ٣١٢- لب اللباب فی تحریر الانساب ٣١٣- لبس الیلب فی الجواب عن ایراد الحلب ٣١٤ -لم الاطراف و ضم الاتراف ٣١٥ -اللمع فی اسماء من وضع الاربعون المتباینة ٣١٦ -اللمعة فی تحریر الرکعة لادراک الجمعة ٣١٧ -اللوامع والبوارق فی الجوامع والفوارق ٣١٨ -ما رواہ الواعون فی اخبار الطاعون ٣١٩ -المباحث الزکیة فی المسألة الدورکیة ٣٢٠ -مجمع البحرین و مطلع البدرین فی التفسیر ٣٢١ -مختصر الاحکام السلطانیة للماوردی ٣٢٢ -مختصر الاحیاء ٣٢٣- مختصر الالفیة ٣٢٤ -مختصر تہذیب الاحکام ٣٢٥ -مختصر تہذیب الاسماء ٣٢٦- مختصر شرح ابیات تلخیص المفتاح ٣٢٧- مختصر شفاء الغلیل فی الذم الصاحب والخلیل ٣٢٨- مختصر معجم البلدان ٣٢٩ -مختصر الملحة ٣٣٠ -المدرج الی المدرج ٣٣١- مذل العسجد لسوال المسجد ٣٣٢- مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع ٣٣٣ مرقاة الصعود الی سنن ابی داؤد ٣٣٤ -مسألة ضربی زیداً قائما ٣٣٥ -المستظرفة فی احکام دخول الحشفة ٣٣٦- المسلسلات الکبری ٣٣٧ -المصاعد العلیة فی قواعد النحویة ٣٣٨- المصابیح فی صلاة التراویح ٣٣٩-مطلع البدرین فیمن یوتی اجرین ٣٤٠- المعانی الدقیقة فی ادراک الحقیقة ٣٤١ -معترک الاقران فی مشترک القرآن ٣٤٢ -مفاتح الغیب فی التفسیر ٣٤٣- مفتاح الجنة فی الاعتصام بالکتاب والسنة ٣٤٤ مفحمات الاقران فی مبہمات القرآن ٣٤٥ -المقامات ٣٤٦ -مقاطع الحجاز ٣٤٧- الملتقط من الدرر الکامنة ٣٤٨- مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا ٣٤٩ -المنتقی ٣٥٠- منتہی الامال فی شرح حدیث '' انما الاعمال '' ٣٥١- المنجلی فی تطور الولی ٣٥٢- المنحة فی السبحة ٣٥٣- من عاش من الصحابة مأة و عشرین ٣٥٤ من وافقت کنیتہ زوجتہ من الصحابة ٣٥٥ -منہاج السنة و مفتاح الجنة ٣٥٦ -المنی فی الکنی ٣٥٧ -المہذب فی ما وقع فی القرآن من المعرب ٣٥٨- میزان المعدلة فی شرح البسملة ٣٥٩ -نتیجة الفکر فی الجہر بالذکر ٣٦٠- نشر العبیرفی تخریج احادیث الشرح الکبیر ٣٦١ -نظم التذکرة ٣٦٢ -نظم الدرر فی علوم الاثر ٣٦٣ -النفحة المسکیة والتحفة المکیة ٣٦٤-النقایة فی اربعة عشر علماً ٣٦٥- النقول المشرقة فی مسألة الفقة ٣٦٦- النکت البدیعات ٣٦٧- النکت علی الالفیة والکافیة والشافیة والشذور والنزہة ٣٦٨-نکت علی حاشیة المطول لابن العقری ٣٦٩- نکت علی شرح الشواہد للعینی ٣٧٠ -نور الحدیقة ٣٧١ -الوافی فی مختصر التنبیہ ٣٧٢- الورقات المقدمة ٣٧٣- الوسائل الی معرفة الاوائل ٣٧٤ وصول الامانی باصول التہانی ٣٧٥- ہدم الجانی علی البانی ٣٧٦- ہمع الہوامع فی شرح جمع الجوامع ٣٧٧ -الہیّة السنیة فی الہیة السنیة ٣٧٨- الید البسطی فی الصلاة الوسطی - ٣٧٩ الینبوع فیما زاد علی الروضة من الفروع ۔

٤۔ رواةِ احادیث اور علمائے اہل سنت کے اسمائے گرامی

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنے اس رسالہ میں جن جلیل القدر اور عظیم الشان راو یوں اور علمائے اہل سنت سے روایتیں نقل کی ہیں اگرچہ ان کے مختصر حالات کتاب کے حاشیہ میں نقل کردئے گئے ہیں لیکن یہاں قارئین کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اسمائے گرامی ذیل میں یکجا نقل کئے جارہے ہیں:

راویوں کے اسمائ:

١۔سعید بن جبیر ٢۔ حضرت ابن عباس ٣۔ مطلب بن ربیعہ ٤۔ زید بن ارقم ٥۔ زید بن ثابت ٦۔ ابو سعید خدری ٧۔ حضرت ابو بکر صدیق ٨۔ حضرت امام حسن ـ ٩۔ حضرت علی ـ ١٠۔ عبد اﷲ ابن عمر ١١۔ جابر بن عبد اﷲ انصاری ١٢۔ عبد اﷲ ابن جعفر ١٣۔ سلمہ بن الاکوع ١٤۔ ابو ہریرہ ١٥۔ عبد اﷲ ابن زبیر ١٦۔حضرت ابوذر ١٧۔ حضرت فاطمہ الزہرا ١٨۔ حضرت عمر فاروق ١٩۔ انس بن مالک ٢٠۔ ابن مسعود ٢١۔ مطلب بن عبد اﷲ ٢٢۔ حکیم ٢٣۔ حضرت عثمان غنی ٢٤۔ زوجہ ٔ رسول حضرت عائشہ

علمائے اہل سنت کے نام:

١۔ سعید بن منصور ٢۔ ابن المنذر ٣۔ ابی حاتم ٤۔ ابن مردویہ ٥۔ طبرانی ٦۔ ترمذی ٧۔ امام احمد بن حنبل ٨۔ نسائی ٩۔ حاکم ١٠۔ مسلم ١١۔ عبد بن حمید ١٢۔ ابو احمد ١٣۔ ابو یعلی ١٤۔ امام بخاری ١٥۔ ابن جریر ١٦۔ عقیلی ١٧۔ ابن شاہین ١٨۔ خطیب ١٩۔ دیلمی ٢٠۔ حافظ ابو نعیم ٢١۔ باوردی ٢٢۔ ابن عدی ٢٣۔ ابن حبان ٢٤ ۔ امام بیہقی ٢٥۔ ابن ابی شیبہ ٢٦۔ مسدد ٢٧۔ بزار ٢٨۔ ابن عساکر.

٥۔حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ کی مختصر توثیق

حدیث ثقلین:

حددیث ثقلین کی ٣٤ صحابہ و صحابیات نے جناب رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے، اور دور تالیف سے آج تک ہر عہد کے علماء ،انہیں حدیث و سیرت و مناقب و تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے چلے آئے ہیں:

١۔ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلا م سے بزار، محب الدین طبری ،دولالی، سخاوی،سمہودی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں حدیث ثقلین کو درج کیا ہے۔

٢۔ امام حسن ـسے،ابن قندوزی نے '' ینابیع المودة'' میں حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٣۔سلمان فار سی سے بھی قندوزی نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٤۔ حضرت ابوذرغفاری سے ( صحیح ترمذی )

٥۔ ابن عباس سے ( قندوزی)

٦۔ ابوسعیدی خدری (مسعود ی،طبری،ترمذی و غیرہ )

٧۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (ترمذی ،ابن اثیر و غیرہ)

٨۔ ابوالہیثم تیہان(سخاوی وقندوزی)

٩۔ ابورافع(سخاوی وقندوزی )

١٠۔ حذیفہ یمان(، محب الدین طبری ،مودةالقربی)

١١۔ حذیفہ بن اسید غفاری(ترمذی،ابونعیم اصفہانی،ابن اثیر ،سخاوی و غیرہ)

١٢ ۔ خزیمہ بن ثابت (سخاوی ،سہمودی،قندوزی )

١٣۔ ابوہریرہ (بزار ، سخاوی،سہمودی)

١٤ ۔ زیدبن ثابت (احمدبن حنبل، محب الدین طبری، ابن اثیر و غیرہ)

١٥ ۔ عبد اللہ بن حنطب(طبرانی،ابن اثیر وغیرہ)

١٦۔ جبیربن مطعم(ابونعیم اصفہانی و غیرہ)

١٧ ۔ براا بن عازب ( ابو نعیم اصفہانی)

١٨۔ انس بن مالک ( ابو نعیم اصفہانی )

١٩ ۔ طلحہ بن عبید اﷲ بن تمیمی( قندوزی )

٢٠۔ عبد الرحمن بن عوف( قندوزی )

٢١۔ سعد بن وقاص( قندوزی )

٢٢۔ عمرو بن عاص ( خوارزمی )

٢٣۔ سہل بن سعد انصاری (سخاوی ، سمہودی )

٢٤ ۔ عدی بن حاتم( سخاوی ،سمہودی و غیرہ)

٢٥۔ عقبہ بن عامر (سخاوی وغیرہ )

٢٦۔ ابو ایوب انصاری ( سخاوی)

٢٧۔ شریح خزاعی( سخاوی ، سمہودی و غیرہ)

٢٨۔ ابو قدامہ انصاری( سخاوی وغیرہ )

٢٩۔ ضمیرہ ٔ اسلمی( سخاوی وغیرہ)

٣٠۔ ا بو لیلی انصاری ( سخاوی ، سمہودی ، قندوزی )

٣١۔ حضرت فاطمہ الزہرا ( قندوزی )

٣٢۔ ام المومنین ام سلمہ( سخاوی س،سمہودی )

٣٣۔ ام ہانی بنت ابو طالب( سخاوی، سمہودی وغیرہ )

٣٤۔ زید بن ارقم ( صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل ، کنزالعمال ۔ سیوطی؛ در منثور،ترمذی)

حدیث ثقلین پرعلامہ ابن حجر ہیثمی کی ایک نظر :

سمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وآله وسلم ، القرآن وعترته ،وهی الاهل والنسل والرهط الادنون، ثقلین، لان الثقل کل نفیس خطیر مصون، وهٰذان کذلک، اذ کل منهما معدن للعلوم اللُّدنیّة والاسراروالحکم العلیة والاحکام الشرعیة ، ولذا حثصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی الاقتداء والتمسک بهم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن وعترت کو جو کہ آپ کے اہل ونسل و قریب تر لوگ ہیں ، ثقلین فرمایا ، اس لئے کہ ثقل '' ہر نفیس و گرانقدر شۓ کو کہتے ہیں" - اور یہ دونوں اسی طرح ہیں بھی- کیونکہ یہ دونوں علوم لدنی ، بلند اسرار و حکم اور احکام شرعی کے معد ن ہیں ، اسی لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے تمسک اور ان کی اقتداء کا حکم فرمایا ہے ۔(١)

حدیث سفینہ:

اس حدیث کوامام احمد بن حنبل ، امام مسلم ، ابن قتیبہ دینوری، بزار ، ابو یعلی موصلی ، طبری ، صولی صاحب کتاب الاوراق ، ابوالفرج اصفہانی ، طرانی، حاکم نیشاپوری ، ابن مردویہ اصفہانی ، ثعلبی ، ابو نعیم اصفہانی، ، ابن عبد البر ، خطیب بغدادی ، ابن مغازلی ، سمعانی ، فخر الدین رازی ، سبط ابن جوزی، محمد بن یوسف گنجی ، شہاب الدین حلبی ، نظام اعرج نیشاپوری، خطیب تبریزی ، طیبی شارح مشکاة، جمال الدین زرندی ، شہاب الدین قندوزی ،حموی جوینی ، ابن صباغ مالکی ، علی قاری اور عبد الرؤوف مناوی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے ۔

___________________

(١) علامہ ابن حجر ہیثمی مکی؛الصواعق المحرقة، ص٧٥.

قارئین کرام ! مقدمۂ کتاب کے طولانی ہونے کی بنا پر آپ سے بیحد معذرت خواہ ہیں، چونکہ اس کتاب سے مربوط کچھ مطالب ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے ضرورت اس بات کی محسوس ہورہی

کہ مقدمہ میں ان پر قدرے روشنی ڈالی جائے ،بہر حال اس کتاب کا پہلی دفعہ اردو ترجمہ دو بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ مؤمنین اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا تے ہوئے ناچیز کو دعائوں میں یاد رکھیں گے، آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ اقدس میں دست بہ دعا ہیں کہ تا دم آخر قرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے۔ (آمین)

والسلام

مترجم: محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی

گرام و پوسٹ بڑھیا ّ،ضلع کھیری لکھیم پور

یوپی ۔ ہندوستان

١٨ ذی الحجہ(بروز عید سعید غدیر)

مطابق ٢٩ جنوری ٢٠٠٥ ء بروز شنبہ

مقیم حال : قم مقدس ، جمہوری اسلامی ایران

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ وسلام علی عباده الذین اصطفی

هذه ستون حدیثا اسمیتها :'' اِحْیائَُ الْمَیْتْ بِفَضَائِلِ اَهْلِ الْبَیْتْ''.

تما م تعریفیں خدا وند متعال سے مخصوص ہیں ، اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر۔

یہ ساٹھ عدد حدیثیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام میں نے''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)''(فضائل ِاہل بیت سے احیاء میت)رکھا ہے ۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18