۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے0%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف: استاد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات:

مشاہدے: 32730
ڈاؤنلوڈ: 4903

تبصرے:

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32730 / ڈاؤنلوڈ: 4903
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

تیسرا حصہ و چوتھاحصہ

۷۶۔صحابہ کو برا بھلا کہنے کے سلسلہ میں دوسرا مناظرہ

شیخ حسین بن عبد الصمد کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد میں نے اس حنفی عالم دین کو دیکھا جواب شیعہ ہو چکا تھا مگر وہ حد درجہ پریشان تھا کیونکہ یہ بات اس کے دل میں رسوخ کر گئی تھی کہ اصحاب پیغمبر کی اتنی قدر و منزلت ہونے کے باوجود شیعہ انھیں برا بھلا کہتے ہیں، میں نے اس سے کہا: ”اگر تم اس بات کا وعدہ کرو کہ انصاف سے فیصلہ کرو گے اور میری بات کو راز میں رکھو گے تو میں اصحاب کو بر ابھلا کہنے کا راز بتادوں گا جب اس نے بہت ہی سختی سے قسم کھائی اور وعدہ کیا کہ خدا کی قسم انصاف سے فیصلہ کروں گا اور جب تک زندہ رہوں گا اس وقت تک تمہاری بات تقیہ کے طور پر راز میں رکھوں گا“۔

تب میں نے کہا: ”جن لوگوں نے عثمان کو قتل کیا ہے ان کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟‘

اس نے کہا: ”ان صحابیوں نے یہ کام اپنے اجتہاد کی بنا پر انجام دیا ہے لہٰذا وہ گنہگار نہیں ہوں گے جیسا کہ ہمارے علماء نے اس بات کی وضاحت کی ہے“۔

حسین: ”عائشہ ،طلحہ ،زبیر اور ان کے پیرو کار وں کے بارے میں تمہار ا کیا نظریہ ہے جنھوں نے جنگ جمل برپا کی اور نتیجہ میں دونوں طرف سے سولہ ہزار افراد قتل ہو گئے“۔

اور اسی طرح معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں کیا نظریہ ہے جنھوں نے جنگ صفین بھڑکائی، اور حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کی جس کے نتیجہ میں دونوں طرف سے ساٹھ ہزار افراد قتل ہوئے۔

(ہدایت یافتہ )حنفی عالم: ”یہ تمام جنگیں بھی عثمان کے قتل کی طرح اجتہاد کی بنیاد پر تھیں“۔

حسین: ”کیا اجتہاد مسلمانوں کے ایک گروہ سے صرف مخصوص ہے اور دوسرا گروہ اجتہاد کا حق نہیں رکھتا ؟“

(ہدایت یافتہ )حنفی عالم: ”نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہر گروہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے“۔

حسین: ”جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بزرگ صحابہ اور مومنوں کے خلیفہ کے قتل اور آنحضرت کے چچا زاد بھائی ،جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے سلسلہ میں اجتہاد جائز ہے، یعنی جب اجتہاد کی رو سے اس شخصیت سے جنگ کرنا جائز ہے جو علم و تقویٰ، فضل و زہد میں سب سے زیادہ نمایاں اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب سے زیادہ قریبی ہو جن کی شمشیر کے ذریعہ اسلام استوار ہو ا اور جن کی تعریف ہمیشہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کرتے ہوں، جنھیں آپ نے مسلمانوں کا رہبر قرار دیا ہو کیونکہ خدا وند متعال کا قول ہے:

( إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ )( ۱ )

”تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول ہے اور مومنین (جو حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں) ہیں“۔

یہ بات علماء کے نزدیک مسلم الثبوت ہے کہ یہاں مومنین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں،( ۲ ) اس کے علاوہ بھی بہت سی روایتوں میں اس طرح کی باتیں ملتی ہیں۔اب تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ ایسے باعظمت اشخاص کے خلاف اجتہاد ہو سکتا ہے ؟اور اگر ان کے خلاف اجتہاد ہو سکتا ہے تو پھر ایسا ہی اجتہاد کر کے کیا ۔۔۔کوئی مسلمان رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ”بعض صحابہ“کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا؟ ہم صرف ان صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ انھوں نے اہل بیت رسول کے ساتھ برا سلوک کیا ہے انھیں ستا یا ہے اور ان کے اوپر ظلم کیا ہے لیکن جو لوگ اہل بیت رسول اکرم کو دوست رکھتے تھے ہم بھی انھیں دوست رکھتے ہیں جیسے سلمان ،مقداد،عمار،ابوذروغیرہ اور ہم ان لوگوں کی دوستی کے ذریعہ خدا کا قرب چاہتے ہیں۔اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق ہمارا یہی عقیدہ ہے اور سب و شتم کرنا ایک طرح کی لعنت وملامت ہے جسے خدا چاہے تو قبول کرے اور چاہے تو نہ قبول کرے مگر یہ اصحاب کا خون بہانے کی طرح ہر گز نہیں ہو سکتا یہ معاویہ ہی تھا جس نے حضرت علی علیہ السلام کو برا بھلا کہنے کے لئے ستر ہزار منبر مخصوص کر رکھے تھے اور یہ روش ۸۰ سال تک جاری رہی لیکن اس کے باوجودبھی وہ حضرت علی علیہ السلام کی منزل میں کسی طرح کی کمی نہ کر سکا اسی طرح شیعہ بھی خاندان رسالت کے دشمنوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اسے از روئے اجتہا د جائز سمجھتے ہیں با لفرض اگر ان لوگوں نے اپنے اس اجتہاد میں غلطی کی ہوگی تو ان پر گناہ نہیں ہوگا۔ توضیح کے طور پر یہ کہیں کہ اصحاب پیغمبر کئی طرح کے تھے بعض قابل تعریف اور بعض منافق صفت تھے اور بعض اصحاب کی تعریف قرآن میں آجانے سے دوسرے بعض صحابہ کا فسق وفجورختم نہیں ہوتا، اصحاب کو برا بھلا کہنے کے سلسلے میں ہمارا اجتہاد ان لوگوں کے نیک اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیرو اصحاب کے لئے ہمارا یہ اعتقاد ہر گز نہیں ہے۔

حنفی عالم نے بڑے تعجب سے کہا: ”کیا بغیر کسی دلیل کے اجتہاد جائز ہے ؟“

حسین: ”ہمارے مجتہدین کی دلیلیں بڑی واضح ہیں“۔

حنفی عالم: ”ان میں سے کوئی ایک بتاو“۔

حسین بن عبد الصمد نے بہت سی دلیلیں بیان کیں جن میں جناب فاطمہ زہرا سلام علیہا پر ہوئے مظالم کا بھی ذکر کیا اور سورہ احزاب کی ۵۷ ویں آیت بھی پڑھی جس میں آیا ہے:

( إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمْ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ) “۔( ۳ )

”بلا شبہ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا وآخرت میں لعنت کرتا ہے“۔( ۴ )

۷۷۔آیہ ”رضوان“ کے بارے میں ایک مناظرہ

مجھے یاد ہے کہ ایک شافعی عالم سے میری ملاقات ہوئی جو قرآن کی آیات و احادیث سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا تھا اس نے شیعوں پر اس طرح اعتراض کرنا شروع کردیا۔

شیعہ لوگ اصحاب پیغمبر پر لعن وطعن کرتے ہیں یہ کام قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کے مطابق خدا وند متعال ان سے خوش و راضی ہے جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کر چکے ہوں ان پر لعن و طعن کرنا صحیح نہیں ہے۔

اس سلسلہ میں سورہ فتح کی ۱۸ ویں آیت میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:

( لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَاٴَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَاٴَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیبًا ) “۔

”بالتحقیق خدا وند متعال ان مومنوں سے راضی ہوا جو اس درخت کے نیچے تمہاری بیعت کر رہے تھے خدا کو ان کے دل کی بات معلوم تھی لہٰذا اس نے ا ن پر سیکنہ نازل کیا اور انھیں فتح قریب سے نوازا“۔

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کے آٹھویں سال ماہ ذی الحجة میں چودہ ہزار مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے مکہ عمرہ کرنے کی خاطر روانہ ہوئے تھے ان لوگوں میں عثمان، ابو بکر ،عمر اور طلحہ وزبیر جیسے لوگ بھی شامل تھے لیکن جیسے ہی یہ لوگ ”عسفان نامی “ایک مقام پر پہنچے تو انھیں خبر ملی کہ مشرکوں نے مسلمانوں کو روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے لہٰذا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ حدیبیہ (جو مکہ سے بیس کلیو میٹر کے فاصلہ پر ہے اور وہاں آب و غذا اور درخت موجود ہیں)کے پاس کوئی حتمی بات طے نہ ہونے تک ٹھہرے رہیں۔

پھر آپ نے عثمان اور چند دوسرے لوگوں کو قریش کے پاس بات چیت کے لئے روانہ کر دیا اچھی خاصی دیر ہوجانے کے بعد بھی جب ان کے بارے میں کچھ اطلاع نہ ملی تو یہ خبر اڑ گئی کہ عثمان کوقتل کر دیا گیا ہے یہ سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر مسلمانوں سے تجدید بیعت کرائی اور اسی بیعت کو ”بیعت رضوان “کے نام سے جانا جاتا ہے۔رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے مسلمانوں سے عہد لیا کہ آخری وقت تک مشرکوں سے لڑیں گے مگر کچھ ہونے سے پہلے یہ لوگ واپس آگئے مکر اس بیعت کی خبر سے مشرک بڑے مرعوب ہوگئے اور انھوں نے سہیل بن عمر کو آنحضرت کی خدمت میں بھیجا اور آخر کار اس بات پر صلح ہو گئی کہ مسلمان اگلے سال مکہ آئیں لیکن اِس سال واپس چلے جائیں۔( ۵ )

مولف:

پہلی بات تو یہ کہ یہ آیت ان لوگوں کے لئے ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے۔

دوسری بات یہ کہ یہ آیت بیعت میں شامل ہونے والے منافقوں جیسے عبد اللہ ابی اور اوس بن خولی وغیرہ کو شامل نہیں کرتی، کیونکہ آیت میں مومن کی شرط ہے اور یہ لوگ ہر گز مومن نہیں تھے۔

تیسری بات یہ کہ مذکورہ آیت کہتی ہے کہ خداوند عالم اس وقت ان لوگوں سے راضی ہوا جب انھوں نے بیعت کی نہ کہ ہمیشہ ان سے راضی رہے گا۔

اسی دلیل کے لئے ہم قرآن مجید کے اسی سورہ میں پڑھتے ہیں:

( فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَی نَفْسِهِ وَمَنْ اٴَوْفَی بِمَا عَاهَدَ عَلَیْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِیهِ اٴَجْرًا عَظِیمًا ) “۔

”جو بھی اپنا عہد توڑتا ہے وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے اور جو اللہ سے کئے گئے عہد کو پورا کرتا ہے تو اللہ اسے عظیم اجر دے گا“۔

اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نکث یعنی بیعت توڑنے کا امکان موجود تھا جیسا کہ بعد میں چند جگہوں پر یہ بات آشکار ہوئی۔اسی طرح یہ آیت ابدی رضایت پر دلالت نہیںکرتی بلکہ انھیں میں سے ممکن ہے کہ دو گروہ ہو جائیں جن میں ایک وفادار ثابت ہو اور دوسر عہد شکن۔اس کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ اس آیت سے خارج ہو گئے جنھوں نے وفا نہیں کی اور اسی کی وجہ سے ہماری لعن وطعن ان پر پڑتی ہے اور اس بات میں آیت کی رو سے کوئی اشکال بھی نہیں ہے۔

قبروں کے پاس بیٹھنے کے سلسلہ میں ایک مناظرہ

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کمیٹی کے سر پرست نے ایک شیعہ عالم پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: ”تم لوگ کیوں قبر کے پاس بیٹھتے ہو جب کہ اس طرح کا کام حرام ہے“۔

شیعہ عالم: ”اگر قبروں کے پاس بیٹھنا حرام ہے تو مسجد الحرام میں حجر اسماعیل کے قریب جہاں بہت سے پیغمبروں اور جناب ہاجرہ کی قبریں موجود ہیں بیٹھنا بھی حرام ہوگا لیکن ابھی تک کسی مفتی نے اس کا فتویٰ نہیں دیا۔

بہت سی ایسی روایتیں اور احادیث ملتی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قبروں کے پاس بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے کتاب بخاری جو تم لوگوں کے نزدیک قرآن کی طرح معتبر ہے اس میں علی علیہ السلام سے روایت موجود ہے:

”میں بقیع میں بیٹھا ہوا تھا کہ پیغمبر میرے پاس آئے اور بیٹھ گئے اور میں بھی ان کے قریب جاکر بیٹھ گیا تو آنحضرت نے قبر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:

”ہر انسان کے لئے دو گھروں میں سے ایک گھر ہوتا ہے ایک گھر جنت ہے اور دوسرا دوزخ۔۔“( ۶ )

اس آیت کی بنا پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبر کے پاس بیٹھے اور وہاں جو دوسرے لوگ موجود تھے ان کو آپ نے اس سے منع بھی نہیں کیا۔( ۷ )

۷۸۔ ”عشرہ مبشرہ “کے سلسلہ میں ایک مناظرہ

اہل سنت کے میں احمد اپنی کتاب مسند (ج ۱ ، ص ۱۹۳) میں اپنی سند کے ساتھ عبد الرحمن بن عوف سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

ابو بکر فی الجنة وعمر فی الجنة وعلی فی الجنة ۔۔۔الخ“۔

”ابو بکر ،عمر ،علی ،عثمان ،طلحہ ،وزبیر،عبد الرحمن بن عوف،سعد بن ابی وقاص،سعید بن زید ابو عبیدہ جراح“۔( ۸ )

اہل سنت حضرات اس گڑھی ہوئی حدیث کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان دس آدمیوں کے نام ”عشرہ مبشرہ“کے عنوان سے تختیوں پر کندہ کر کے مقدس، مقامات جیسے مسجد نبوی وغیرہ میں نصب کرتے ہیں۔یہ اتنی مشہور بات ہے جس کے متعلق تقریبا ًسبھی کو علم ہے اسی سلسلہ میں ذیل کے مناظرہ کو ملاحظہ فرمائیں:

ایک شیعہ عالم دین کہتے ہیں: ”ایک روز میں کسی کام سے مدینہ میں نہی عن المنکر کے ادارہ میں گیا تو وہاں موجود اس کے سر پرست سے میری بات چیت ہونے لگی جو آخر کا عشرہ مبشرہ تک جا پہنچی“۔

میں نے کہا: ”میں تم سے ایک سوال کر نا چاہتا ہوں“۔

سر پرست: ”پوچھو“۔

میں: ”یہ کس طرح جائز ہے کہ ایک جنتی دوسرے جنتی سے جنگ کرے طلحہ اور زبیر عائشہ کے پر چم تلے بصرہ آکر حضرت علی علیہ السلام سے جنگ لڑیں جب کہ یہ لوگ جنتی تھے اور یہ جنگ جمل بہت سے لوگوں کے قتل کا سبب بنی اور قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیهَا )( ۹ )

”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے تو اس کی جزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا“۔

اس آیت کے پیش نظر جو لوگ بھی جنگ جمل میں لوگوں کے قتل کا سبب بنے ہیں انھیں جہنمی ہونا چاہئے اور اب یہ چاہے علی علیہ السلام ہوں یا طلحہ وزبیر ہوں لہٰذا اس جنگ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ حدیث صحیح معلوم نہیں ہوتی۔

سر پرست: ”اس جنگ میں شرکت کرنے والے وہ افراد جن کا تم نے نام لیا ہے مجتہد تھے انھوں نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ کام انجا م دیا ہے لہٰذا وہ گنہگار نہیں ہوں گے“۔

شیعہ عالم: ”نص کے مقابلہ میں اجتہاد جائز نہیں ہے کیا تمام کے تمام مسلمانوں نے یہ نقل نہیں کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:

”یا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔( ۱۰ )

”اے علی !تمہاری جنگ میری جنگ ہے اور تمہاری صلح میری صلح“۔

اور اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:

”من اطاع علیاً فقد اطاعنی ومن عصا علیا ً فقد عصانی ۔“( ۱۱ )

”جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی“۔

اور اسی طرح آپ نے فرمایا:

علی مع الحق والحق مع علی ،یدور الحق معه حیثما دار “۔( ۱۲ )

”علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے حق ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے وہ جیسے بھی چلیں“۔

اس بنا پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسمائے مذکورہ میں ایک طرف حق ہے اور وہ علی علیہ السلام کی ذات ہے اور حدیث ”عشرہ مبشرہ “محض جھوٹ ہے کیونکہ باطل کے طرفداروں کو جنت نصیب نہیں ہو سکتی۔

دوسری بات یہ کہ عبد الرحمن بن عوف خود اس حدیث کا راوی ہے جو خود ان دس جنتی افراد میںشامل ہے اور یہ وہی عبد الرحمن ہے جس نے عمر کی وفات کے بعد شوریٰ تشکیل ہونے کے دن علی علیہ السلام پر تلوار تان لی تھی اور ان سے کہا تھا: ”بیعت کرو ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا“، یہی وہ عبدالرحمن ہے جس نے عثمان کی مخالفت کی اور عثمان نے اسے منافق کہہ کر یاد کیا ، کیا یہ تمام چیزوں مذکورہ روایت سے مطابقت رکھتی ہیں؟ اور کیا عبد الرحمن ان دس افراد میں سے ہو سکتا ہے جنھیں جنت کی بشارت دی گئی ہو؟

کیا ابو بکر و عمر کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جب کہ یہ دونوں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا سبب بنے ؟اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان سے آخری عمر تک ناراض رہیں ہوں؟

کیا عمر نے حضرت علی کو ابو بکر کی بیعت کے لئے رسی باندھ کر کھینچتے ہوئے یہ نہیں کہا تھا کہ بیعت کرو نہیں تو قتل کر دئے جاوگے؟

کیا طلحہ و زبیر عثمان کے قتل پر مصر نہ تھے ؟کیا یہ دونوں اس امام کی اطاعت سے خارج نہیں ہو گئے جس کی اطاعت واجب قرار دی گئی تھی؟کیا ان دونوں نے جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے مقابل تلوار نہیں چلائی ؟

اس کے علاوہ ان دس لوگوں میں صرف سعد بن وقاص نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے اور جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ عثمان کو کس نے قتل کیا تو وہ جواب میں کہتا ہے۔”عثمان اس تلوار سے قتل کئے گئے جسے عائشہ نے غلاف سے باہر نکالا طلحہ نے اسے تیز کیا اور علی نے زہر میں بجھا یا تھا“۔

کیا آپس کی ان تمام مخالفت اور منافقت کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سب لوگ جنتی ہیں؟ ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔

اور خود یہ حدیث سند کے لحاظ سے بھی مخدوش اور مردود ہے کیونکہ اس کی سند عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن وقاص میں سے کسی ایک پر تمام ہوئی ہے اور روایات میں عبد الرحمن کی سند کا سلسلہ بھی متصل نہیں ہے لہٰذا یہ اپنے اعتبار سے گر جاتی ہے اور سعید بن زید کے بارے میں یہ روایت معاویہ کے دور خلافت میں کوفہ میں نقل کی گئی ہے اور معاویہ کے دور سے پہلے کبھی کسی نے یہ حدیث نہیں سنی تھی جس کی بنا پر صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاویہ کا کارنامہ ہے۔( ۱۳ )

۷۹۔قبروں پر پیسے ڈالنا

قبرستان بقیع میں ایک بورڈ پر لکھا ہوا ہے ”لا یجوز رمی النقود علی القبور“قبروں پر پیسہ ڈالنا جائز نہیں ہے“۔

ایک روز امر بالمعروف کمیٹی کا سر پرست بقیع میں آیا تو اس نے دیکھا کہ کچھ قبروں پر پیسے پڑے ہوئے ہیں اس نے مجھے دیکھا تو مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا: ”یہ پیسے زائروں کو دے دو ان کا قبروں پر ڈالنا حرام ہے“۔

شیعہ عالم: ”کس دلیل سے قبروں پر پیسے ڈالنا حرام ہے کیا قرآن اور سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اس بات کی نہی ہوئی ہے ؟جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ تمہارے لئے ہر وہ چیز جائز ہے جس سے تمہیں منع نہ کیا گیا ہو“۔

سر پرست: ”قرآن میں آیا ہے ”اِنَّمَا الصَّدْقَةُ لِلْفُقْرَاءِ( ۱۴ ) صدقہ صرف فقراء کے لئے ہے“۔

شیعہ عالم: ”یہ پیسے بھی قبر کے فقیر مجاوراٹھاتے ہیں“۔

سرپرست: ”قبر کے مجاور فقیر نہیں ہیں“۔

شیعہ عالم: ”کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہ فقیر ہی ہوں کیونکہ مدد اور بخشش کے لئے یہ قطعاً حرام نہیں ہے اگر کوئی شخص کسی مقصد کے تحت خدا کی راہ میں اپنا تمام مال کسی دولت مند کو بھی دیدے تو کیا کوئی حرج ہے جیسا کہ شادیوں میں دولہا اور دلہن کے سر سے پیسے نچھاور کرتے ہیں اور غیر فقیر بھی یہ پیسے اٹھا تے ہیں اور جس آیت کو تم نے پڑھاہے اس میں صدقہ کے لئے آٹھ مصرف ذکر ہوئے ہیں جس میں سے ایک اللہ کی راہ بھی ہے اور جب مسلمان اولیاء خدا کی قبروں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ”ہماری جان ومال آپ پر فدا ہو“، اب اگر ایک شخص اپنی دوستی اور محبت کی وجہ سے اپنا تمام مال یا اس کا کچھ حصہ اسے بخش دے تو عرفا ًاس میں کیا برائی ہے خداوند متعال نے اپنی دلیل اورذاتی رائے سے کسی حلال کو حرام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ ہم سورہ نحل کی ۱۱۶ ویں آیت میں پڑھتے ہیں:

( وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ اٴَلْسِنَتُکُمْ الْکَذِبَ هَذَا حَلاَلٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَی اللهِ الْکَذِبَ ) “۔

”اور اپنی زبان سے نکلنے والے جھوٹ کی وجہ سے یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام تاکہ تم خدا پر جھوٹ باندھ سکو“۔

کیا خداوند متعال نے تمہیں اپنی طرف سے قانون گڑ ھنے کی اجازت دی ہے اور ہر چیز جو تمہارے ذوق کے مطابق نہ ہو تم اسے حرام اور شرک قرار دے دو، تم بدعت کے مقابلہ کی آڑ میں ہرحلال کو حرام قرار دے دیتے ہو کیا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ حلال کو حرام کرنا خود ایک بدعت ہے اور جو لوگ اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ خود جان لیں کہ انھوں نے صراط مستقیم کو چھوڑ دیا ہے جیسا کہ ہم اس آیت میں پڑھتے ہیں :

( ان الذین یفترون علی الله الکذب لا یفلحون )

”جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے“۔

۸۰۔ ہر طرف سے شرک کی آواز

سعودی منڈیوں میں بہت ہی سستی شئے ہے ، یہ سودا ہر جگہ دستیاب ہے، وہاں کی امر بالمعروف کمیٹی جھوٹی سی بات کو لے کر مومن کو مشرک بنا دیتی ہے! گویا ان کی تھیلوں میں شرک اور شرک کی تہمت لگانے کے علاوہ اور کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے یہ لوگ اس سلسلہ میں صرف زبانی باتوں ہی پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ شیعوں کی مختلف مشہور کتابوں پر بھی حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں مثال کے طور پر شیعوں کے مشہور ومعروف محقق و عالم استاد شیخ رضا مظفر کی یہ عبارت:

”فکانت الدعوة للتشیع لا بی الحسن علیہ السلام من صاحب الرسالة تمشی منہ جنبا لجنب مع الدعوة للشھادتین“۔

”حضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کی طرف دعوت توحید و رسالت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھی ہے“۔

ایک وہابی مولف نے اپنی کتاب ”الشیعہ والتشیع“ میں جو سعودی عرب میں چھپ چکی ہے لکھا ہے:

ان النبی حسب دعویٰ المظفّری کان یجعل علیّاً شریکاً له فی نبوته و رسالته “۔( ۱۵ )

”رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مظفر کے دعوے کے مطابق علی علیہ السلام کو اپنے نبوت و رسالت میں شریک قرار دیتے تھے“۔

____________________

(۱) سورہ مائدہ ، آیت ۵۵۔

(۲) تمام مفسروں کے اتفاق رائے سے یہ آیت امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب آپ نے رکوع کے عالم میں انگوٹھی فقیر کو دی تھی اہل سنت کی جن کتابوں میں یہ بات ذکر ہوئی ہے ان کی تعداد تیس سے زائد ہے جیسے ذخائر العقبی،ٰ ص۸۸،فتح القدیر، ج۲،ص۵۰، اسباب النزول واحدی،ص۱۴۸، کنز العمال ،ج۶ ص۳۹۱ وغیرہ مزیدمعلومات کے لئے کتاب” احقاق الحق“ج۲، ص ۳۹۹ سے ۴۱۰ کا مطالعہ کریں۔

(۳) سورہ احزاب آیت ۵۷۔

(۴) المناظرہ، تالیف شیخ حسین بن عبد الصمد ،طبع موسسہ قائم آل محمد (خلاصہ اور وضاحت کے ساتھ)

(۵) تاریخ طبری ،۲،ص ۲۸۱ کا خلاصہ۔

(۶) صحیح بخاری ،ج۲،ص۱۳۰ (مطبع الشعب ، ۱۳۷۸ھ۔

(۷) مناظرات فی الحرمین الشریفین ، مناظرہ نمبر ۱۳۔

(۸) صحیح ترمذی ،ج۱۳،ص۱۸۲ ، سنن ابی داود ،ص۲،ص۲۶۴ ، وغیرہ میں یہی حدیث تھوڑے سے فرق کے ساتھ “سعید بن زید ”سے بھی نقل ہوئی ہے (الغدیر ،ج۱۰،ص۱۱۸)

(۹) سورہ نساء، آیت ۹۳۔

(۱۰) مناقب ابن مغازلی ،ص۵۰۔مناقب خوارزمی ،ص۷۶۶و۲۴۔

(۱۱) کنز العمال ،ج۶،ص۱۵۷ ۔الامامة ولسیاسة ،ص۷۳۔مجمع الزوائد ،ہیثمی ،ج۷،ص۲۳۵ وغیرہ ۔

(۱۲) کنز العمال ،ج۶،ص۱۵۷ ۔الامامة والسیاسة ،ص۷۳۔مجمع الزوائد ،ہیثمی ،ج۷،ص۲۳۵ وغیرہ ۔

(۱۳) شرح در الغدیر ،ج۱۰، ص۱۲۲ تا ۱۲۸ ۔

(۱۴) سورہ بقرہ ، آیت ۶۰۔

(۱۵) الشیعہ و التشیع، ص ۲۰۔