۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے0%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف: استاد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات:

مشاہدے: 32776
ڈاؤنلوڈ: 4915

تبصرے:

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32776 / ڈاؤنلوڈ: 4915
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

چوتھاحصہ

اس مصنف سے مناظرہ

اگر یہ ہوا وہوس میں اپنے دین کو بیچ کھانے والا وہابی ذرا بھی شیعوں کے عقائد سے واقفیت رکھتا تو شیخ رضا المظفر پر اس طرح کا احمقانہ اعتراض نہ

کرتا۔

اگر اس طرح کی بات شرک ہوتیں تو قرآن میں یہ آیت کبھی ذکر نہ ہوتی:

( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ )( ۱۶ )

”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اور تم میں سے جو اولی الامر ہو“۔

اس آیت میں اولی الامر ، اللہ اور رسول کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں اور سب نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اولی الامر کے واضح ترین مصادیق ہیں۔

کیا اس صورت حال میں یہ کہنا ممکن ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے اس آیت کو پڑھ کر توحید کی طرف دعوت دینے کے بجائے شرک کی دعوت دی ہے ؟

جہاں تک رسالت کی دعوت کے ساتھ امامت کی دعوت کا ہر جگہ ہونا ہے تو یہ ایک حتمی بات ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت کے بعد امامت علی اور آپ کی خلافت کی تبلیغ کرنا ہے اسی لئے آپ جس طرح اپنی رسالت اور توحید خداوندی کی تبلیغ کرتے تھے اسی طرح علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کرتے اور انھیں اس طرف دعوت دیا کرتے تھے اس کا شرک سےکوئی ربط نہیں ہے۔

مزید وضاحت کے لئے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ جب سورہ شعراء کی یہ آیت نازل ہوئی:

( وَاٴَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاٴَقْرَبِینَ )( ۱۷ )

”اور اپنے رشتہ داروں کو ڈراو“۔

تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور اس میں آپ نے یہ اعلان کیا:

کون شخص ایسا ہے جو اس کام میں میری مدد کرے اور اس کے بدلے وہ میرا بھائی ،وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ ہو جائے ؟“

اس وقت کوئی بھی علی علیہ السلام کے علاوہ نہیں اٹھا تھا اور جب کئی دفعہ دہرانے کے بعد بھی علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہ اٹھا تو آپ نے فرمایا:

ان هذا اخی ووصي وخلیفتي فیکم فاسمعوا له واطیعوه “۔( ۱۸ )

”بلاشبہ یہی میرا بھائی ،وصی اور میرے بعد تم لوگوں میںمیراجانشین ہے لہٰذا تم لوگ اس کی باتیں سنو اور اس کی اطاعت کرو“۔

شیعہ اسی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ جب بھی پیغمبر اپنی رسالت اور خدا کی وحدانیت کی دعوت دیا کرتے تھے تو علی علیہ السلام کی امامت کو بھی بتا دیتے تھے کیا وفات کے بعد علی کی خلافت کی طرف دعوت دینا شرک ہے کیا نبوت کی دعوت کے ساتھ ساتھ امامت کی دعوت دینا شرک ہے؟( ۱۹ ) اور کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو اصل نبوت میں اپنا شریک بنا لیا ؟

ہائے رے بے انصافی۔

۸۱۔ حج کے (سیاسی پہلو کے) بارے میں دو علماء کا مناظرہ

اسلامی انقلاب (ایران)کی کامیابی کے بعد پید اہوئے اہم مسائل کے بانی حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ نے اپنے بیانیہ میں یہ اعلان کیا:

”حج کی دو قسمیں ہیں:حج ابراہیمی اور حج بو جہلی! حج صرف ایک عبادت ہی نہیں بلکہ ایک مکتب اور بہترین جامع یونیور سٹی ہے۔

لہٰذا ایرانیوں اور حضرت امام خمینی کے مقلدین کے نظر میں حج کی اہمیت مزید واضح ہو گئی اور ”مشرکین سے برائت“ کا مسئلہ پیش آیا ،جس کے بہت سے مثبت آثار پائے جاتے ہیں۔

اسی وجہ سے حجاز کے درباری ملاو ں اور بعض پرانے نام نہاد علماء نے اشکال و اعتراض کرنا شروع کر دیا ، چنانچہ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ حج میں کسی طرح کی سیاست اور شور شرابہ نہیں ہونا چاہئے ،اور گذشتہ کی طرح صرف خشک عبادت کے طور پر حج کے اعمال بجالانا چاہئے جب کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:

( جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاسِ ) “۔( ۲۰ )

”اللہ نے کعبہ کو جو بیت الحرام ہے اس کو لوگوں کے قیام اور صلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے“۔

”مومنین کے قیام “کے وسیع معنی کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ خانہ کعبہ کے زیر سایہ اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو دور کریں ،اور اپنی زندگی کے معنوی ومادی مختلف پہلووں کو بہتر بنا نے کے لئے کوشش کرتے ہوئے سعادت کی منزلوں کو طے کریں۔

اس بنیاد پر دو عالموں (نام نہاد عالم اور دانشور عالم )کے درمیان ایک مناظرہ ہوا:

عالم نما: یہ کیا شور شرابہ اور بدعتیں ہیں جو حج میں داخل کر دی گئی ہیں ،حج کے دوران کسی بھی طرح کی سیاست اور جنگ وجدال نہیں ہونا چاہئے اور بالکل چین وسکون کے ساتھ حج کے اعمال انجام دینا چاہئے ،حج خود سازی اور رو ح کی پاکیزگی کے لئے ایک بہترین عبادت ہے ،اس میں کسی طرح کے نعرے زندہ باد یا مردہ باد نہیں ہونا چاہئے ،حج ابراہیمی اور حج بوجہلی ،واقعا ً ایک نئی چیز ہے اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں سنا!

عقلمندعالم: ہمارے عقیدہ کے مطابق جس طرح ہم علوی اسلام اور لعنتی معاویہ کا اسلام رکھتے ہیں، اسی طرح حج کی بھی دو قسمیں ہیں ابراہیمی ومحمدی حج ،اور بوجہلی ویزیدی حج۔

عالم نما: حج؛ نماز و روزہ کسی طرح ایک عبادت ہے لہٰذا اس میں سیاست اور غیر خدائی کاموں سے پر ہیز کرنا چاہئے۔

عقلمندعالم: سیاست صحیح معنی میں عین دین ہے، یہ دین سے ہرگز جدا نہیں ہے بعض عبادتیں باوجود اس کے کہ عبادت ہیں اور گناہوں کے دور ہونے اور صفائے نفس کے لئے پاکیزہ ترین اور خالص ترین سبب ہیں۔

لیکن یہی عبادتیں سیاسی مقاصد تک پہنچنے کا سب سے بہترین وسیلہ بھی ہیں کیونکہ روح عبادت خدا کی طرف توجہ دینا ہے اور سیاست کی روح مخلوق خداپر توجہ کرنے کا نام ہے ،اور یہ دونوں حج کے مسائل میں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دیا جائے تو پھر حج،حج نہیں رہے گا۔

واضح الفاظ میں یوں سمجھئے کہ حج کے لئے ایک جھلکا ہے اور ایک مغز ،جو لوگ صرف حج کے ظاہری عبادتی پہلو پر توجہ کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ انھوں نے حج کو حقیقت سے خالی کر لیا ہے اور مغز کو دور پھینک دیا ہے اور صرف ظاہری جھلکے کو لے لیا ہے ،مکہ معظمہ کا ایک نام ”ام القریٰ“یعنی دیہات اور شہروں کی ماں ہے۔( ۲۱ ) جس طرح ماں اپنے بچوں کو کھانا دیتی ہے ،اور ان کوپرورش اور تربیت کرتی ہے اسی طرح مکہ معظمہ پر لازم ہے کہ وہ فکری ،سیاسی اور معنوی لحاظ سے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو غذا فراہم کرے ،اور ان کی اسلامی رشد و نموکے لحاظ سے تربیت کرے۔

عالم نما: ہم مسلمان ہیں ،قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں کیا قرآن کریم کا ارشا د نہیں ہے؟:

( ولا جدال فی الحج )( ۲۲ )

”حج میں کوئی جنگ وجدال نہیں ہونا چاہئے “؟

لہٰذا حج کے اعمال میں ایک حاجی کو جنگ وجدال اور تو تومیں میں نہیں کرنا چاہئے ،جس حج میں مظاہرہ ،نعرہ بازی اور شور شرابہ ہو تو ایسا حج جدا ل ہے جس سے قرآن نے روکا ہے۔

عقلمندعالم: مذکورہ آیت میں جس جدل سے روکا گیا ہے اس سے مراد مومنین کے درمیان تو تو میں میں ہے ،کہ قسم بخدا ایسا نہیں ہے یا قسم بخدا ایسا ہے۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام منقول احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”جدال کے معنی جھوٹی قسم کھانا ہے۔یا جو کام گناہ سے متعلق ہو، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلا م فرماتے ہیں:

”جس مجادلہ میں قسم کھائی جائے ،لیکن اس سے مراد کسی مومن کا احترام ہو ،تو ایسے جد ل سے آیت میں ممانعت نہیں کی گئی ہے:بلکہ آیت میں نہی شدہ جدال سے مراد وہ جدال ہے جس میں گناہ کا تصور پایاجائے اور انسان اپنے ایمانی برادر پر غلبہ کرنا چاہئے( ۲۳ ) لیکن اگر دین کے استحکام اور اس کے دفاع کے لئے ہو تو نہ صرف گناہ نہیں ہے بلکہ بہترین عبادت اور عظیم اطاعت ہے۔

علامہ فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں مذکورہ آیت (سورہ بقرہ آیت ۱۹۷) کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: ”تمام علمائے علم کلام اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ دینی امور میں جدال کرنا عظیم اطاعت ہے“۔اس کے بعد اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کی آیات سے استدلال کرتے ہیں،منجملہ سورہ نحل کی ۱۲۵ ویں آیت جس میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

( اُدْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِیَ اٴَحْسَنُ ) “۔

”آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے“۔

اسی طرح سورہ ہود کی آیت نمبر ۳۲ میں پڑھتے ہیں جہاں کفار کی باتوں کو بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے:

( یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَاٴَکْثَرْتَ جِدَالَنَا ) “۔

”(اور ان لوگوں نے کہا:) اے نوح ! آپ نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت جھگڑا کیا“۔

اس آیہ شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے جدال کرتے تھے، اور یہ بات واضح ہے کہ جناب نوح علیہ السلام کا جدال صرف دعوت الٰہی ،یکتا پرستی اور دینی استحکام کے لئے ہوتا تھا۔

لہٰذا جس جدال سے حج میں نہی کی گئی ہے ،اس سے باطل اور بے ہودہ کاموں میں جدال ہے، نہ کہ وہ جدال جو حق وحقیقت کو ثابت کرنے کے لئے ہو۔

عالم نما:قرآن مجید کی بہت سی آیات میں جدال کی مذمت کی گئی ہے اور اس کوغیر مومن کا کام قرار دیا گیا ،مثلاً سورہ غافر کی آیت نمبر ۴ میں ارشاد ہوتا ہے:

( مَا یُجَادِلُ فِی آیَاتِ اللهِ إِلاَّ الَّذِینَ کَفَرُوا ) “۔

”اللہ کی نشانیوں میں صرف وہ جھگڑا کرتے ہیں جو کافر ہوگئے ہیں۔۔۔“۔

سورہ حج آیت نمبر ۶۸ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِنْ جَادَلُوکَ فَقُلْ اللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ )

”اور اگر یہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے“۔

اسی طرح سورہ انعام آیت ۱۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلاَتَاٴْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی اٴَوْلِیَائِهِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ اٴَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ )

”اور دیکھو جس پر نام خدا نہ لیا گیا ہو ا سے نہ کھانا کہ یہ فسق ہے اور بے شک شیاطین تو اپنے والوں کی طرف خفیہ اشارہ کرتے ہی رہتے ہیں تاکہ یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کرلی تو تمہارا شمار بھی مشرکین میں ہوجائے گا“۔

عقلمندعالم: قرآن مجید میں لفظ”جدال“کے مختلف استعمال سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدال کے وسیع معنی ہیں،جس کی مجموعی طور پر دوقسم ہیں:

۱) پسندیدہ۔

۲) نا پسند۔

جس وقت بحث و گفتگو اور دوسروں کی بات پر اعتراض حق وحقیقت روشن ہونے اور صحیح راستہ کی ہدایت کے لئے ہو تو یہ ایک مناسب اور پسندیدہ عمل ہے اور بہت سے مقامات پر یہ جدال واجب ہے ،نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہے، لیکن اگر باطل کو ثابت کرنے اور ناحق بات کو ثابت کرنے کے لئے ہو تو واقعا ً ایسا جدال مذموم اور ناپسند ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ حج کے دوران ہر جدال کو ناپسند قرار نہیں دیا جا سکتا۔

عالم نما:میری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ عبادت کو سیاست سے نہیں ملانا چاہئے ،حج جیسی مقدس عبادت اور بلند مقام ،سیاست ،نعرہ بازی اور مظاہرہ کرنے کے لئے نہیں ہے ،یہ مقام مخصوص عبادت یعنی حج کے لئے ہے ،کسی دوسری جگہ پر سیاست کی باتیں کریں۔

عقلمندعالم: اسلامی عبادت میں عبادی پہلو کے علاوہ دیگر پہلو بھی پائے جاتے ہیں ، چنانچہ حج میں عبادی پہلو کے ساتھ ساتھ اجتماعی، سیاسی، اخلاقی، اقتصادی اور ثقافتی پہلو بھی پائے جاتے ہیں کامل اور حقیقی حج وہی ہے جس میں تمام پہلووں سے فیض حاصل کیاجائے،اوراگر حج میں سیاسی پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے تو ا یسا حج ناقص ہوگا۔

ہم یہاں پر اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے حضرت امام خمینی کے بہترین کلام کو نقل کرتے ہیں:

”حج اکبر فلسفوں میں سے ایک فلسفہ اس کا ایک سیاسی پہلو ہے جس کو ختم کرنے کے لئے ہر طرف سے ظالم کوشش کر رہے ہیں ،اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے پروپیگنڈہ کا اثر مسلمانوں پر بھی ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں کا سفر حج صرف خشک عبادت بنتا جا رہا ہے جس میں مسلمانوں کی مصلحتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ،جس وقت سے فریضہ حج قرار دیا گیا ہے اسی وقت سے اس کا سیاسی پہلو عبادی پہلو سے کم نہیں رہا ہے ،سیاسی پہلو اپنی سیاست کے علاوہ خود بھی عبادت ہے“۔( ۲۴ )

موصوف ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ”لبیک لبیک “کے ذریعہ تمام بتوں کی نفی کریں اور ”لا“کے نعروں کے ذریعہ تمام سرکش و طاغوت نمالوگوں کے خلاف آواز بلند کریں،خانہ کعبہ کے طواف میں(کہ جو عشق الٰہی کی نشانی ہے)دل کو دوسروں سے خالی کریں،اور دل میںغیر حق کے خوف کو نکال پھینکیںاور خدا کے عشق کے برابر چھوٹے بڑے بتوں اور سرکشوں نیز طاغوت سے وابستہ لوگوں سے برائت کریں،کیونکہ خداوند عالم اور اولیائے الٰہی ان سے بیزار ہیں“۔( ۲۵ )

لہٰذا حج،عبادت اور سیاست دونوں کامجموعہ ہے ،اور چونکہ اسلامی سیاست بھی عین عبادت ہے ،لہٰذا ہم اسلامی سیاست کو حج سے کیسے دور کرسکتے ہیں،مثال کے طور پر اگر کسی سیب سے ا س کے پانی کو نکالیں تو کیا باقی بچے گا ؟ کیا کوڑے کو سیب کہا جا سکتا ہے؟

عالم نما: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام نیز ان کے ممتاز شاگرد ہمارے لئے نمونہ عمل اور حجت ہیں،یہ حضرات حج کے دوران صرف اعمال حج انجام دیتے تھے،ان کو سیاست سے کوئی مطلب نہ تھا۔

عقلمندعالم: یہ بات بغیر دلیل کے ہے ،اتفاقا ً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے شاگرد مناسب موقع پر خانہ کعبہ کے نزدیک سیاسی ،اجتماعی اور ثقافتی مسائل بیان کر تے تھے اور ان مختلف پہلووں پر اہمیت دیتے تھے ،ہم یہاں پر نمونہ کے طور پر چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔پیغمبر اکرم اور آپ کے ساتھیوں کا طواف کرتے وقت تو حیدی مظاہرہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کے ساتویں سال (یعنی فتح مکہ سے ایک سال قبل)”صلح حدیبیہ “ کے تحت اس بات کا حق رکھتے تھے کہ عمرہ کرنے کے لئے مکہ معظمہ جائیں اور تین دن مکہ میں ہیں،چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ،احرام باندھ کر بہت ہی شان و شوکت کے ساتھ میںمکہ داخل ہوئے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے ،پیغمبر اکرم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھنے کئے لئے کفار قریش کے مرد وعورت چھوٹے بڑے سبھی آئے تھے، آنحضرت اور آپ کے اصحاب کی ہیبت ان کی آنکھوں کو خیرہ کئے ہوئے تھی ،اس سیاسی اہم اور حساس موقع پر آنحضرت نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

”اپنے شانوں کو کھول دو اور شکوہ مند طور پر طواف کرو،تاکہ مشرکین تمہاری ضخیم کھال اور طاقتور بازوں کو دیکھ لیں“

آپ کے اصحاب نے آپ کے فرمان کی پیروی کی اور مشرکین خانہ کعبہ کے چاروں طرف صف لگائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب کے عظم الشان طواف کو دیکھ رہے تھے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس وقت ”لبیک اللهم لبیک “کے نعروں کی آواز بلند ہوتی تھی ”عبد اللہ بن رواحہ“(اسلامی لشکر کے سرداروں میں سے ایک شخص)جنھوں نے اپنی تلوار کو حمائل کیا ہوا تھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلند آوازمیں بجلی کی کڑک کی طرح اس طرح ”رجز“پڑھتے تھے اور یہ نعرہ لگاتے تھے:

خلو بنی الکفار عن سبیله

خلو فکل الخیر فی قبوله

یا رب انی مومن لقیله

انی رایت الحق فی قبوله

”اے کافر زادو!پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ سے ہٹ جاو،راستہ چھوڑ دو اور جان لو کہ تمام خیرو سعادت رسول اللہ کی رسالت کو قبول کرنے میں ہیں“۔

پالنے والے! میں آنحضرت کے قول پر ایمان رکھتا ہوں ،اور حق کو آپ کے فرمان کو قبول کرنے پاتا ہوں“۔( ۲۶ )

اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کے لئے طواف کعبہ، شان وشوکت اوراظہار قدرت کا مظہر بن گیا جس کا تماشہ مشرکین کر رہے تھے ،حالانکہ عبادت تھی لیکن مشرکین کو مغلوب کرنے کے لئے سیاست اور اسلامی شان وشوکت کا ایک نمونہ تھا۔

۲۔امام حسین علیہ السلام کا حج کے زمانہ میں معاویہ پر شدید اعتراض

۵۸ ہجری (یعنی مرگ معاویہ سے دو سال پہلے )کا زمانہ تھا معاویہ طغیانی اور سرکشی پر کمر باندھے علویوں اور اما م علی علیہ السلام کی شیعوں کے قتل کا در پہ تھا اور ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کرتا تھا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام بھی اس سال حج کے لئے تشریف لے گئے، مناسک حج کے دوران سر زمین منیٰ میں بنی ہاشم ،شیعوں اور انصار کے ممتاز افراد کو ایک اجتماع کی دعوت دی، جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد جمع ہوئے جن میں کچھ تابعین اور اصحاب رسول کے فرزند ان بھی تھے، حضرت امام حسین علیہ السلام اس اجتماع میں کھڑے ہوئے اور ایک پر جوش تقریر کی ،چنانچہ حمد وثناء الٰہی کے بعد فرمایا:

اما بعد !بے شک پس طاغوت (معاویہ) نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کو آپ تمام حضرات اسے جانتے ہیں، آپ لوگوں نے دیکھا ہے اور اس کے گواہ ہیں، اس کی خبریں تم تک پہنچی ہیں میں تم سے کچھ چیز وں کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں اگر صحیح ہوں تو میری تصدیق کرنا اور اگر جھوٹ بولوں تو مجھے جھٹلادینا، میری باتوں کو سنو اور ذہن نشین کرلو اور اعمال حج کےبعد جب اپنے وطن جاؤ تو اپنے قابل اطمینان لوگوں تک یہ میرا پیغام پہنچا دینا، اور ان کو معاویہ کے ظلم و ستم کے مقابلہ کی دعوت دینا، مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو ”حق“ نیست و نابود ہوجائے گا، لیکن خداوندعالم اپنے نور کو کامل کرے گا اگرچہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ لگے“۔

اس موقع پر امام حسین علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت اور ان کے فرزندوں کی امامت پر قرآن مجید کی آیات اور احادیث رسول بیان کی، جب آپ کی گفتگو کا ایک حصہ ختم ہو جاتا تھا تو حاضرین یہ کہتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے کلام کی تصدیق کرتے تھے:

اللهم نعم، قد سمعناه و شهدناه “ ۔

”ہم خداکو گواہ قرار دیتے ہیں کہ اس کلام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے سنااور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں“۔

آخر کلام میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا:

” تمہیں خدا کی قسم! جس وقت اپنے وطن پہنچو تو اپنے قابل اطمینان افراد تک میرا یہ پیغام پہنچادینا اور ان کو میرے پیغام سے آگاہ کردینا“۔( ۲۷ )

یہ واقعہ بھی حج کے درمیان سیاسی فائدہ کا ایک نمونہ ہے، جس میں امام علیہ السلام نے حج کے دوران مسلمانوں کے اجتماع سے ظالم و طاغوت معاویہ کے خلاف اقدام فرمایا۔

اس لحاظ سے اس واقعہ میں ہم ابراہیمی حج کو دیکھتے ہیں جو صرف خشک عبادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اہم سیاسی مسائل بھی بیان ہوئے ہیں، سخت حالات میں حق کی رہبری کا مسئلہ ظالم اور طاغوت کی رہبری سے نفرت جیسے مسائل پر گفتگو ہوئی ہے جو مکمل طور پر سیاسی مسائل ہیں۔

۳۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کا اپنے ہم عصر طاغوت سے خانہ کعبہ میں مقابلہ

ایک مشہور و معروف تاریخی واقعہ جس میں حج کے مراسم کے ساتھ سیاسی مسائل بھی پائے جاتے ہیں، امام سجاد علیہ السلام کا خانہ کعبہ میں مراسم حج کے دوران اموی طاغوت ہشام بن عبد الملک کے ساتھ مقابلہ ہے جس کا خلاصہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں:

عبد الملک کی خلافت کا زمانہ (اموی سلسلہ خلافت کا پانچواں خلیفہ) تھا اس کا فرزند ہشام حج کے لئے شہر مکہ میں داخل ہوا، وہ طواف کے وقت حجر اسود کو چومنا چاہتا تھا لیکن کثیر ازدحام کی وجہ سے قریب نہ جاسکتا، چنانچہ حجر اسود کے قریب ہشام کے لئے ایک منبر رکھا گیا، وہ منبر پر گیا، ہشام کے پاس کچھ لوگ جمع ہوگئے اور وہ طواف کرنے والوں کو دیکھنے لگا، اچانک دیکھا کہ امام سجاد علیہ السلام بھی طواف میں مشغول ہیں، امام علیہ السلام جب حجر اسود کو چومنا چاہتے تھے تو لوگوں نے راستہ دیا اور آپ نے بہت ہی آرام سے نزدیک جاکر حجر اسود کو بوسہ لیا۔

اس موقع پر ایک شامی مرد نے ہشام سے کہا:

”یہ شخص کون ہے جس کا اتنا احترام ہورہا ہے؟“

ہشام نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا: ” میں نہیں جانتا“۔

اس حساس موقع پر خاندان رسالت کا انقلابی شاعر فرزدق جو ائمہ علیہم السلام کے شاگردوں میں تھا اس نے اس شامی مرد سے کہا:

”ولکنی اعرفہ“(لیکن میں ان کو پیچانتا ہوں“۔)

شامی نے کہا:تو پھر بتاو کہ یہ شخص کون ہے؟

فرزدق نے اما م سجاد علیہ السلام کی شان میں وہ مشہور ومعروف اور عظیم الشان قصیدہ پڑھا، جس کہ ۴۱ شعر ہیں اور جس کا مطلع یوں آغاز ہوتا ہے:

هذاالذی تعرف البطحاء و طاٴته

والبیت یعرفه والحل و الحرم

”یہ وہ شخص ہے کہ مکہ معظمہ کے سنگریز ہ اس کے پیروں کے نشانوں کو پہنچانتے ہیں، خانہ کعبہ اور حجاز کے بیابان، داخل حرم اور بیرون حرم اس کو پہچانتے ہیں“۔

یہ سنتے ہی ہشام کو غصہ ہو آگیا اور فرزدق کو قیدکرنے کا حکم دیدیا ،جس وقت امام سجاد علیہ السلام کو فرزدق کے قیدی بنائے جانے کی خبر ملی تو ان کے لئے دعا کی اور ان کی دلجوئی کی ،ان کے لئے بارہ ہزار درہم بھیجے،لیکن فرزدق نے ان درہموں کو قبول نہ کیا جس کے بعد امام علیہ السلام نے ان کو پیغام بھجوایا:

”تمہیں اس حق کی قسم جو ہم تم پر رکھتے ہیں ،اس مبلغ (ہدیہ)کو ہماری طرف سے قبول کر لو ،خدا وند عالم تمہاری کی پاک نیت اور تمہارے مقام سے واقف ہے “اس موقع پر فرزدق نے اس مبلغ کو قبول کر لیا،اور قید میں ہشام کی مذمت میں اشعار کہے۔( ۲۸ )

اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام خانہ کعبہ کے طواف کے وقت ہشام کی شان و شوکت پر کوئی توجہ نہیں کرتے اور فرزدق کے کلام کی تائید کرتی ہیں جو مکمل طور پر سیاسی پہلو رکھتی تھی اور ان کی احوال پرسی کی،ا ن کے لئے دعاکی اور ۱۲۰۰۰/ درہم ان کے لئے بھیجے ، نیز ان کی پاک وپاکیزہ نیت کی قدر دانی کی،اور بھر پور طریقہ سے ان کی تائید کی۔

کیا یہ واقعہ اور امام علیہ السلام کی تائید اس چیز کی عکاسی نہیں کرتی کہ حج کے عظیم الشان موقع پر سیاسی مسائل کا بیان کرنا ائمہ معصومین علیہم السلام کے نزدیک مقبول اور محبوب کام تھا؟!

۴۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی سیاسی وصیت

جلیل القدر محدث ثقة الاسلام شیخ کلینی علیہ الرحمة موثق سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:ہمارے پدر بزرگوار(امام محمد باقر علیہ السلا م)نے وصیت فرمائی کہ میرے مال کا ایک حصہ وقف کرنا تاکہ سر زمین منیٰ میں د س سال تک مجھ پر گریہ کیا جائے اور میرے مظلومیت پر آنسو ں بہائے جائیں“۔( ۲۹ )

یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے یہ وصیت کیوں نہ فرمائی کہ مدینہ میں ان کی قبر پر عزاداری کی جائے! اور یہ کیوں نہ وصیت فرمائی کہ حج کے موسم کے علاوہ مکہ یا منیٰ میں ان پر عزاداری کریں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام علیہ السلام چاہتے تھے کہ جب حج کے موسم کے دوران لوگ منیٰ میں جمع ہو جائیں اس وقت ان کے لئے عزاداری ہو ،مجلس برپا ہوتا کہ ظالموں کا پتہ چل جائے اور لوگوں پر بنی امیہ کا ظالمانہ کردار مسلمانوں کے بارے میں ان کی حق تلفی اور ظلم وستم واضح ہو جائے ،نیز اس طرح کے دوسرے مسائل بیان کئے جائیں،پس معلوم یہ ہوا کہ موسم حج میں ضروری سیاسی مسائل کا بیان کرنااس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ جس کے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام وصیت فرماتے ہیں، اور اپنے مال کا ایک حصہ وقف کرتے ہیں۔

احکام حج عبادت وسیاست دونوں کا مجموعہ ہے

جب ہم حج کے احکام کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے علاوہ عین سیاست ہیں، مثال کے طور پر درج ذیل چند نمونے:

جب انسان، حج کے لئے احرام پہنتا ہے تو لباس کے دو حصوں سے اپنے بدن کو چھپاتا ہے، تمام لوگ چاہے غریب ہو یا امیر ،حاکم ہو یا ریاعا، سب ایک طرح کے بن جاتے ہیں ،لہٰذایہ بھی ذات پات اور طبقہ بندی کا مقابلہ ہے جو کہ سیاسی لحاظ سے ایک اہم مسئلہ ہے۔

۲ ۔احرام کے احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ انسان کسی کو یہاں تک جانوروں اورگھاس کو بھی نقصان نہ پہنچائے،حشرات کو مارنا بھی حرام ہے ،حرم میں درخت اور گھاس کا اکھاڑنا بھی حرام ہے ،بدن سے بال اکھاڑنابھی حرام ہے ،اسلحہ ساتھ لینا بھی حرام ہے ،۔۔۔یہ تمام احکام ہمیں امنیت اور امن وامان کا درس دیتے ہیں جو حکومت کے سیاسی پہلو وںمیں ایک اہم مسئلہ ہے۔

۳ ۔طواف کعبہ کے وقت جب سات چکر پورے ہو جائیں تو مستحب ہے کہ حجر اسودپر ہاتھ پھیریں ،امام جعفر صادق علیہ السلام ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:

وهو یمین الله فی ارضه یبایع بها خلقه( ۳۰ )

”حجر اسود زمین پر دست خدا ہے خداوند عالم اس کے ذریعہ اپنی مخلوق سے بیعت کرتا ہے“۔

یعنی مسلمان اس پر اپنا ہاتھ رکھ کرخدا سے بیعت کرتے ہیں۔

اصولی طورپر ”بیعت “مکمل طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے ،خدا سے بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیری راہ میں قدم بڑھاتے ہیں اور تیرے دشمنوں جیسے امریکہ اور اسرائیل نیز دیگر تمام مشرکین وکفار سے دشمنی کرتے ہیں۔

۴ ۔منیٰ کے میدان میں ”رمی جمرات“کرتے ہیں اور ان کی طرف جو شیطان کا محاذ ہے پتھر مارتے ہیں اس عمل کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ امریکہ ،اسرائیل اور دیگر شیطانی طاقتوں کے مظہر کی طرف پتھر پھینکنا چاہئے ہمیں دشمن کی پہچان اس طرح ہو کہ پتھر اس نشانہ پر ماریں جو ”جمرہ“پر جا کر لگے ،اگر تھوڑا بھی ادھر ادھر لگے تو وہ صحیح نہیں ہے۔

۵ ۔منیٰ کی قربان گاہ میں،اونٹ ،گائے یا بکرا قربانی کریں جو ایثار اور فدا کاری کا درس اور شیطانیت کے مظہر سے مقابلہ کے لئے سیاست کا اہم رکن ہے۔

یہاں پریہ چیز ذکر کردینا ضروری ہے کہ جس وقت امام مہدی (عج)ظہور فرمائیں گے ،تو خانہ کعبہ کے پاس ظہور ہوگا ،وہیں پر آپ کے ۳۱۳/ انصار آپ کی بیعت کریں گے۔( ۳۱ )

اس بنا پر ہے کہ حضرت فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا:

جعل الله الحج تشییداً للدین “۔( ۳۲ )

”خدا وند عالم نے حج کو دینی بنیاد کے استحکام کے لئے واجب قرار دیا ہے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

لا یزال الدین قائما ما قامت الکعبة( ۳۳ )

”جب تک خانہ کعبہ پا بر جا ہے اسلام بھی پا برجا ہے“۔

واقعاً یہ حقیقت ہے کہ جب حج میں صرف اس کے عبادی پہلو پر اکتفاء کی جائے اور حج کے اہم ترین پہلو یعنی سیاسی پہلو کو نظرانداز کر دیا جائے تو کیا پھر کیا دینی بنیادیں مستحکم اور مضبوط ہو سکتی ہیں؟!

۸۲۔ عبد المطلب اور ابو طالب کی قبروں کی زیارت اور ان کے ایمان کے بارے میں ایک مناظرہ

اشارہ:

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جناب ”عبد المطلب“ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے دادا کی قبر اور ”ابو طالب“حضرت علی علیہ السلام کے پدر بزرگوار کی قبر ”قبرستان حجون“میں ایک جگہ ہیں،اورجب شیعہ حضرات مکہ معظمہ مشرف ہوتے ہیں تو حتی الامکان ان دونوں بزرگو کی قبور کی زیارت کے لئے جاتے ہیں، لیکن اہل سنت اس سلسلہ میں کوئی اہمیت نہیں دیتے ،بلکہ اس کو جائز نہیں مانتے۔

اس چیز کے پیش نظر درج ذیل مناظرہ پر توجہ فرمائیں:

ایک شیعہ عالم نقل کرتے ہیں: میرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کمیٹی کے سرپرست کے درمیان حضرت عبد المطلب اور جناب ابوطالب کی قبروں کی زیارت کے حوالہ سے گفتگو ہوئی۔

اس نے کہا: آپ شیعہ لوگ عبد المطلب اور ابوطالب کی قبروں کی زیارت کے لئے کیوں جاتے ہیں؟

میں نے کہا:کیاکوئی مشکل ہے؟

سر پرست: عبد المطلب ”فَتْرت“(خدا کی طرف سے پیغمبر نہ ہونے کا زمانہ)میں زندگی کرتے تھے ،کیونکہ جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آٹھ سال کے تھے اور مبعوث بر سالت نہیں ہوئے تھے اس وقت عبد المطلب کا انتقال ہوا،لہٰذا دین توحیدی اس زمانہ میں نہیں تھا ،اس بنا پر آپ حضرات کسی بنیاد پر ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں؟!

اور ابو طالب (نعوذ باللہ)مشرک دنیا سے گئے ہیں،لہٰذا مشرک کی زیارت کے لئے جانا جائز نہیں ہے؟!

میں نے کہا:کوئی بھی مسلمان جناب عبد المطلب کو مشرک کہنے کے لئے تیار نہیں ہے،وہ اسی زمانہ میں خدا پرست اور یکتا پرست تھے،وہ دین ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرتے تھے ،یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصیاء میں سے تھے وہ اہل سنت کی کتابوں میں وارد ہونے والی روایات کے مطابق ابرہہ کے حملہ کے وقت جو خانہ کعبہ کو ویران کرنے آیا تھا ،اور سورہ فیل کے مطابق وہ خود ہلاک ہو گیا ،جس وقت عبد المطلب اپنے اونٹ کے لئے ابرہہ کے پاس گئے تو ابرہہ نے کہا:میرے لحاظ سے آپ بہت پست آدمی ہیں اپنے اونٹ لینے کے لئے توآگئے لیکن اپنے دین اور دینی عبادتگاہ ”کعبہ“ کے بارے میں کچھ نہیں کہتے “!

جناب عبد المطلب نے جواب دیا:

انا رب الابل ،وان للبیت ربا سیمنعه “۔

”میں اونٹوں کا مالک ہو،اور اس گھر کا بھی ایک مالک (خدا)ہے جو عنقریب خود اس کا دفاع کرے گا“۔

اس کے بعد جناب عبد المطلب خانہ کعبہ کے پاس آئے اور خانہ کعبہ کے دروازہ کا حلقہ پکڑ کر دعا کی ،نیز چند اشعار پڑھے۔جن میں سے ایک شعر کا مضمون یہ ہے:

”پالنے والے !ہر شخص اپنے اہل خانہ کا دفاع کرتا ہے ،توبھی اپنے حرم امن میں رہنے والوں کا دفاع فرما“( ۳۴ )

یہی موقع وہ تھا کہ عبد المطلب کی دعا قبول ہوئی ،خداوند عالم نے ابابیلوں کے گروہ کو بھیجاجنھوں نے ابرہہ کے لشکر کو نابود کردیا ،سورہ فیل اس سلسلہ میں نازل ہوا۔

اور شیعہ روایات میںبیان ہوا ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:خدا کی قسم،میرے پدر گزرگوار ابو طالب ،دادا عبد المطلب اور ہاشم بن عبد مناف نے ہر گز بتوںکی پرستش نہیں کی۔

یہ حضرات کعبہ کی طرف نماز پڑھتے تھے ،اور جناب ابراہیم علیہ السلام کے دین کے مطابق عمل کرتے تھے“۔( ۳۵ )

اب رہی بات ایمان ابو طالب کی بات تو:

اولاً: ائمہ اہل بیت علیہم السلام اور شیعہ علماء کے اجماع کی بناپر وہ مسلمان اور مومن اس دنیا سے گئے ہیں۔

ابن ابی الحدید (جو اہل سنت کے مشہور ومعروف عالم دین ہیں)نقل کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے سوال کی: ”کیا جناب ابو طالب مومن تھے؟“امام علیہ السلام نے فرمایا: ”جی ہاں“

ایک دوسرے شخص نے امام سجاد علیہ السلام سے سوال کیا: ”یہاں کے کچھ لوگ جناب ابوطالب کو کافر کہتے ہیں“۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: واقعا ً تعجب ہے اس بات پر کہ یہ لوگ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم اور جناب ابو طالب کو ناجائز نسبت دیتے ہیں ،پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم نے مومن عورت کا کافر مرد سے نکاح کو ممنوع قرار دیا ہے ،جب کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد اسلام میں سبقت کرنے والوں میں تھیں،اور جناب ابو طالب کی آخری عمر تک فاطمہ بنت اسد ان کی زوجیت پر باقی رہیں“( ۳۶ )

ثانیاً: اہل سنت کے علماء اور بہت سے راویوںنے نقل کیا ہے:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عقیل بن ابو طالب سے فرمایا:

انی احبک حبین ،حبا لقرابتک منی وحبا لما کنت اعلم من حب عمی ابی طالب ایاک “۔( ۳۷ )

”میں تم سے دہری محبت کرتا ہوں ایک رشتہ داری کی بنا پر دوسرے اس وجہ سے کہ میرے چچا ابو طالب تمہیں دوست رکھتے تھے “۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گفتگو بہترین گواہ ہے کہ آنحضرت ایمان ابو طالب پر عقیدہ رکھتے تھے، ورنہ تو کافر کی دوستی کوئی اہمیت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عقیل سے محبت کریں۔( ۳۸ )

مزید وضاحت:

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ برادران اہل سنت اپنے آباء واجداد کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ابو طالب کے ایمان نہ لانے کو نسل بہ نسل نقل کرتے چلے آئے ہیں،لیکن اس چیز سے غافل ہیں کہ ان کی معتبر اور مستند کتابوں میں دسیوں بلکہ سیکڑوں روایت موجود ہیں جو ایمان ابوطالب پر بہترین دلیل اور گواہ ہیں ،لیکن حقیقت میں حضرت ابو طالب کو مشرک کہنے کا راز متعصب اور ہٹ دھرم لوگوںکی ان کے فرزند امام علی علیہ السلام سے عداوت اور دشمنی ہے اور یہ تعصب بنی امیہ کے زمانہ سے آج تک جاری ہے خود حضرت علی علیہ السلام کی قسم کہ اگر ابو طالب آپ کے باپ نہ ہوتے تو حضرت ابو طالب کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مخلص مومن اور پاکیزہ ترین چچا اور قریش کی سب سے زیادہ مومن شخصیت کے عنوان سے پہچنواتے۔

حقیر کی ملاقات علامہ امینی مرحوم صاحب کتاب ”الغدیر “کے فرزند ارجمند سے ہوئی ،جناب ابو طالب کے بارے میں گفتگو ہونے لگی تو موصوف نے فرمایا:جس وقت ہم نجف اشرف میں تھے ،تو ہم نے سنا کہ ”احمد خیری“مصری دانشور حضرت ابو طالب کے بارے میں کوئی کتاب لکھ رہے ہیں ،ہم نے ان کو ایک خط لکھا کہ آپ اس کتاب کو اس وقت تک نہ چھپوائیں کہ جب تک الغدیر کی ساتویں جلد (جو ابھی تک نہیں چھپی اور چھاپ خانہ میں ہے)آپ تک نہ پہنچچائے جس وقت الغدیر کی ساتویں جلد چھپ گئی (جس کا آخری حصہ حضرت ابو طالب کے بارے میں ہے)فوراً ہی ان کے لئے کتاب بھیجی کچھ مدت کے بعد جناب ”احمدخیری“کا خط آیا جس میں شکریہ کے بعد تحریر تھا کہ الغدیر کی ساتویں جلد مجھے ملی،میں نے اس کتاب کو بغور مطالعہ کیا،اس کتاب نے ابو طالب کے بارے میں میرا عقیدہ بالکل بدل دیا ،اور میں نے ابوطالب کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا بالکل بر عکس ہو گیا اور میرا نظریہ بالکل بد ل گیا ہے اور مجھے ایک نئی فکر مل گئی ہے۔

آخر میں موصوف نے لکھا تھا:حضرت ابو طالب کا دفاع اور ان کا جہاد و کوشش (اسلام کے ثبات اور اسلام کی نشر واشاعت میں)اس قدر زیادہ ہیں کہ تمام مسلمانوں کے ایمان میں ان کا حصہ ہے اور تمام مسلمان ان کے مقروض ہیں“

سر پرست: اگرا یمان ابو طالب اتنا واضح و روشن ہے تو پھرہمارے علماء ابو طالب کے بارے میں کیوںمختلف باتیں کہتے ہیں اور بعض نے تو ان کے کفر کی وضاحت کی ہے ،اس مشکل کا راز کیا ہے؟!

میں نے کہا: جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ معاویہ کی حکومت کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے نامناسب الفاظ یہاں تک کہ نماز کی قنوت میں بھی لعنت کی جاتی تھی، اور تقریبا ً ۸۰ سال منبر کے اوپر سے (نعوذ باللہ) آپ پر لعنت کی جاتی تھی ،زر خرید قلموں نے جھوٹی اور بے بنیاد روایات گڑھ کر جناب ابوطالب کو کافر بتادیا، تاکہ حضرت علی علیہ السلام کو کافر زادہ کے عنوان سے لوگوں میں مشہور کیا جائے،اور قطعی طور پر آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہی جعلی روایات آپ لوگوں کی کتابوں میں داخل ہوگئیں جس نے ذہنوں میں یہ چیز ڈال دی ہے ،ورنہ ایمان ابو طالب مکمل طور پر واضح ہے۔

ایک دوسرا راز یہ ہے کہ جناب ابو طالب راہ اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دفاع میں خاص طریقہ سے تقیہ کے عالم میں رفتار کرتے تھے، تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بہتر طور پر حمایت کر سکیں،اور اگر وہ علنی طور پر ایمان کااظہار فرماتے تو آغاز بعثت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حمایت بہتر اور شائستہ طور پر نہیں کر سکتے تھے۔

اس لحاظ سے بہت سی روایات کے مطابق حضرت ابو طالب کی مثال ”مومن آل فرعون“اور ”اصحاب کہف“کی طرح ہے جو دین کی ترقی و سر فرازی کے لئے اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے ،تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام میں ایک طولانی روایت کی ضمن میں بیان ہوا ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ”خداوندعالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کی کہ میں آپ کی دو گروہوں کے ذریعہ مدد کروںگا ،ایک گروہ مخفی طور اور دوسرا گروہ ظاہری طور پر مدد کرے گا، پہلے گروہ کے سب سے بہترین رئیس جناب ”ابواطالب “اور دوسرے گروہ کے سب سے بہتر سر پرست ان کے فرزند حضرت علی علیہ السلام ہیں“( ۳۹ )

اہل علم پر یہ بات واضح ہے کہ یہ دونوں گروہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے ہیں، مخفیانہ مقابلہ ظاہری مقابلہ سے کم نہیں ہوتا ہے۔

ایمان ابو طالب کے بارے میں ایک اور مناظرہ

ایک مدرسہ میں میرے اور اہل سنت کے عالم کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کے پدر بزرگوار جناب ابوطالب کے ایمان کے سلسلہ میں ایک مناظرہ ہوا:

سنی عالم:ہماری معتبرکتابوں میں ابو طالب کے بارے میں روایات مختلف بیان ہوئی ہیں ،بعض میں ان کی مدح و ثنا کی گئی ہے اور بعض میں ان کی مذمت کی گئی ہے۔

مولف:(ائمہ معصومین علیہم السلام جو عترت پیامبر صلی الله علیه و آله وسلم ہیں کی پیروی کرتے ہوئے) شیعہ علماء کا اتفاق اس بات پر ہے کہ جناب ابو طالب ایک ممتاز شخصیت ،مومن اور راہ اسلام میں بہت زیادہ کوشش کرنے والے فرد ہیں۔

سنی عالم:اگر ایسا ہے تو پھر(جناب )ابو طالب کے ایمان نہ لانے پر بہت سی روایات موجود ہیں؟

مولف:جناب ابو طالب کا جرم یہ ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے پدر بزرگوار ہیں، حضرت علی علیہ السلام کے سرسخت دشمن جن میں سر فہرست معاویہ ہے (علیہا الہاویہ) سب نے بیت المال سے دین فروشوں کو ہزار وں دینار دئے تاکہ جعلی اور جھوٹی روایتیں گڑھیں اور ان روایت گڑھنے والے سیم و زر کے غلاموں کی بے شرمی نے اتنا کام کیا کہ ابو ہریرہ (جو جھوٹی روایت گڑھنے میں مشہور ہے)سے نقل کیا گیا کہ اس نے کہا:

”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رحلت کے وقت وصیت کی کہ علی کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے“!( ۴۰ )

لہٰذامعاویہ اور دیگر بنی امیہ خلفاء کے زمانہ میں شکم پرست اور بے شرم وذلیل لوگوں نےجناب ابوطالب کے مشر ک ہونے پر جعلی احادیث گڑھی ظاہر سی بات تھی ،ان لوگوں نے جناب ابوطالبعلیہ السلام کے سلسلہ میں اس قدر غلط پروپیگنڈہ کیا جس کا ہزاروں حصہ بھی ابو سفیان کے بارے میں بھی نہیں کیا اس کا باطن پلید تھا اور پوری زندگی کے کارنامے سیاہ تھے۔

چنانچہ اس گندی سیاست کے تحت ہی جناب ابو طالب پر مشرک ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے۔

سنی عالم:قرآن مجید کے سورہ انعام آیت ۲۶ میں ارشاد خداوندی ہے:

( وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَیَنْاٴَوْنَ عَنْه )

”اور دوسروں کو اس سے روکتے ہیں ،اور خود بھی اس سے دوری کرتے ہیں“

اس آیت سے مر اد(بعض ہمارے مفسرین کے قول کے مطابق) یہ ہے کہ ”بعض لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دفاع کرتے تھے ،لیکن پھر بھی خود پیغمبر سے دوری کرتے تھے “

یہ آیت ابو طالب جیسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو دشمنوں کے مقابلہ میں پیغمبر کا دفاع کرتے تھے لیکن ایمان کے لحاظ سے ان سے دوری کرتے تھے !

مولف کا قول:اولاً: جیسا کہ ہم بیان کریںگے:آیت کے معنی اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ نے کئے ہیں۔

ثانیا ً: بالفرض اگر ہم مان بھی لیں کہ یہی معنی صحیح ہیں تو بھی کس دلیل کے تحت یہ آیہ شریفہ جناب ابوطالب کے بارے میں صادق آتی ہے ؟!

سنی عالم: دلیل یہ ہے کہ ”سفیان ثوری حبیب ابن ابی ثابت“ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا: ”یہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، چونکہ لوگوں کو پیغمبر اکرم کے آزار و اذیت پہنچانے سے روکتے تھے ،لیکن خود اسلام سے دور رہے “( ۴۱ )

مولف: آپ کے جواب میں مجبوراً چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں:

۱ ۔آیت کے معنی اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ نے کئے ہیں بلکہ آیت کے قبل وبعد کے پیش نظر کفار ومشرکین کے بارے میں ہے جس کے ظاہر ی معنی یہ ہیں: ”وہ لوگ (کفار)لوگوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی سے روکتے تھے اور خود بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دور ی کرتے تھے“( ۴۲ ) لہٰذا آیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دفاع کی کوئی بات نہیں ہے۔

۲ ۔لفظ ”ینئون “دوری کے معنی میں ہے ،جب کہ جناب ابو طالب ہمیشہ پیغمبر اکرم کے ساتھ رہے اور کبھی بھی آپ سے دور ی نہیں کی۔

۳ ۔سفیان ثوری کی روایت جس میں ابن عباس کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ انھوں نے کہا:مذکورہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ روایت چند لحاظ سے قابل تردید ہے:

الف:سفیان ثوری ،یہاں تک کہ خود بزرگ علمائے اہل سنت کے اعتراف کی بنا پر جھوٹا اور غیر موثق ہے۔( ۴۳ )

اور ابن مبارک سے منقول ہے کہ سفیان (ثوری) تدلیس کرتا تھا یعنی جھوٹ بولتا تھا اورحق کو ناحق اور ناحق کو حق کر کے پیش کرتا تھا۔( ۴۴ )

اس مذکورہ روایت کا دوسرا راوی ”حبیب بن ابی ثابت “ہے اور یہ بھی ابو حیان کے قول کے مطابق تدلیس سے کام لیتا تھا۔( ۴۵ )

ان تمام چیزوں کے علاوہ مذکورہ روایت ،مرسل ہے یعنی حبیب اور ابن عباس کے درمیانی راوی حذف ہیں۔

ب: ابن عباس ان مشہور ومعروف افراد میں سے ہیں جو ایمان ابو طالب کا عقیدہ رکھتے تھے، لہٰذا کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس طرح کی روایت نقل کریں؟!

اس کے علاوہ جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ جناب ابن عباس نے مذکورہ آیت کے معنی اس طرح کئے ہیں: ”کفار لوگوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی سے روکتے تھے ،اور خود بھی آنحضرت سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے“۔

ج: مذکورہ روایت کہتی ہے:یہ آیت صرف ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کہ لفظ ”ینھون“اور ”ینئون“جمع کے صیغے ہیں۔

اس بنا پر بعض تفسیر کے مطابق مذکورہ آیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچاوں کو شامل ہے کیونکہ آنحضرتکے دس چچا تھے، لیکن ان میں سے تین مومن چچا یعنی حمزہ، عباس اور ابو طالب کو شامل نہیں ہے۔

مزید وضاحت:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین سے دوری کرتے تھے جیسا کہ اپنے چچا ابو لہب سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے لیکن جناب ابوطالب کے ساتھ ان کی آخری عمر تک خصوصی رابطہ تھا، چنانچہ آنحضرت نے آپ کی وفات کے سال کو ”عام الحزن“(غم کا سال )نام رکھا اور ان کے جنازہ کی تشییع کے وقت فرماتے جاتے تھے:

”وابتاہ واحزناہ! علیک کنت عندک بمنزلة العین من الحدقة والروح من الجسد“( ۴۶ )

”اے پدر بزرگوار!آپ کی موت میرے نزدیک کس قدر غمناک ہے ،میں آپ کے نزدیک آنکھ میں پتلی کی مانند اور بدن میں روح کی طرح تھا“( ۴۷ )

کیا واقعاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایسی ناجائز تہمت لگائی جا سکتی ہے کہ آپ کسی مشرک کی اس طرح تعریف کریںاور اس کی وفات پر اس قدر غم و اندوہ کا اظہار کریں جب کہ قرآن مجید میں متعدد آیات یہ اعلان کرتی ہیں کہ مشرکین سے بیزاری اختیار کرو؟!

۸۳۔ کیا حضرت علی علیہ السلام بہت قیمتی انگوٹھی پہنچتے تھے

اشارہ

ہم سورہ مائدہ کی ۵۵ ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔

( إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ )

”تمہارا ولی صرف خدا ،اس کا رسول اور وہ صاحب ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔

شیعہ اور سنی دونوںسے متواتر روایت نقل ہوئی ہے کہ یہ آیت امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آپ کی رہبری اور ولایت کی دلیل ہے۔

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مولائے کائنات علی بن ابی طالب علیہ السلام مسجد میں نمازپڑھ رہے تھے ایک سائل نے آکر سوال کیا تو کسی نے اسے کچھ نہیں دیا۔ حضرت علی علیہ السلام اس وقت رکوع میں تھے اور اسی رکوع کی حالت میں آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کی انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا اور سائل نے آکر آپ کی انگلی سے وہ انگو ٹھی اتارلی۔ اس طرح آپ نے نماز میں صدقہ کے طور پر اپنی انگوٹھی فقیر کو دے دی، اس کے بعد آپ کی تعریف و تمجید میں یہ آیت نازل ہوئی۔( ۴۸ )

اب آپ ایک یونیورسٹی کے طالب علم کاایک عالم دین سے مناظرہ ملاحظہ فرمائیں:

طالب علم: ”میں نے سنا ہے کہ جو انگوٹھی علی علیہ السلام نے فقیر کو دی تھی وہ بہت ہی قیمتی تھی اور بعض کتب جیسے تفسیر برہان(ج ۱ ،ص ۴۸۵) میں ملتا ہے کہ اس انگوٹھی کا نگینہ ۵ مثقال سرخ یاقوت تھا جس کی قیمت شام کے خزانہ کے برابر تھی، حضرت علی علیہ السلام یہ انگوٹھی کہاں سے لائے تھے ؟کیا علی علیہ السلام حُسن وتزئین پسند تھے ؟کیا اتنی قیمتی انگوٹھی پہننا فضول خرچی نہیں ہے؟تصویر کے دوسرے رخ سے امام علی علیہ السلام کی طرف یہ نسبت دینا بالکل غلط ہے کیونکہ وہ لباس ،کھانے اور دوسری دنیوی اشیاء میں حد درجہ زہد سے کام لیتے تھے جیسا کہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:

فوالله ما کنزت من دنیا کم تبراً ولاادخرت من غنائمها وفراً ولا اعددت لبالی ثوبی طمر ا ولا حزت من ارضها شبرا ولا اخذت منه الا کقوت اتان دبرةٍ “۔

”خدا کی قسم !میں تمہاری دنیا سے سونا چاندی جمع نہیں کرتا اور غنائم اور ثروتوں کا ذخیرہ نہیں کرتا اور اس پرانے لباس کی جگہ کوئی نیا لباس نہیں بنواتا اور اس کی زمین سے ایک بالشت بھی میں نے اپنے قبضہ میں نہیں کیا اور اس دنیا سے اپنی تھوڑی سی خوراک سے زیادہ نہیں لیا ہے۔( ۴۹ )

عالم دین: ”یہ گراں قیمت انگوٹھی کے بارے میں فالتوبات ہے جو بالکل بے بیناد ہے اور متعدد روایتوں کے ذریعہ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ہرگز اس طرح کی انگوٹھی کا ذکر نہیں ہوا ہے اور صرف تفسیر برہان میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ اس انگوٹھی کی قیمت ملک شام کے خزانہ کے برابر تھی یہ روایت ”مرسلہ“ہے اور ممکن ہے کہ اس کے راویوں نے مولائے کائنات کی اہمیت کو کم کرنے کی خاطر اس روایت کو گڑھا ہو“۔

طالب علم: ”بہر حال انگوٹھی قیمتی تھی یہ بات تویقینی ہے ورنہ پھر فقیر کا پیٹ کیسے بھرتا؟“

عالم دین: ”شاعر کے قول کے مطابق اگر ہم فرض کر لیں کہ یہ انگوٹھی بہت قیمتی تھی جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

بر وای گدای مسکین درخانہ علی زن

کہ نگین پادشاہی دھد از کرم ،گدا را

تاریخ میں ملتا ہے کہ یہ انگوٹھی ”مروان بن طوق “نامی ایک مشرک کی تھی امام علیہ السلام جنگ کے دوران جب اس پر کامیاب ہوگئے تو اسے قتل کر کے غنیمت کے طور پر اس کے ہاتھ سے یہ انگوٹھی اتارلی اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی خدمت میں لے کر آئے تو آپ نے فرمایا: ”اس انگوٹھی کو مال غنیمت سمجھ کر تم اپنے پاس رکھو“، ساتھ ساتھ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ جانتے تھے کہ اگر علی علیہ السلام اس انگوٹھی کو لے بھی لیں گے تو کسی امین کی طرح اس کی حفاظت کریں گے اور مناسب مو قع پر اسے کسی محتاج و فقیر کو دے دیں گے۔

اس طرح یہ انگوٹھی آپ نے خریدی نہیں تھی اور ابھی یہ انگوٹھی حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں چند دن ہی رہی ہوگی کہ صرف ایک محتاج کی آواز سن کر آپ نے اسے دے دیا۔( ۵۰ ) طالب علم: ” لوگ نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نماز کے وقت خشوع و خضوع میں اس حدتک غرق ہوجاتے تھے کہ امام حسن علیہ السلام کے حکم کے مطابق جنگ صفین میں ان کے پیر میں لگے تیر کو نماز کی حالت میں نکال لیا گیا تھا لیکن انھیں احساس تک نہ ہوا اب اگر اس طرح ہے تو حالت رکوع میں انھوں نے اس فقیر کی آوازکیسے سن لی اور انگوٹھی اسے دےدی؟“

عالم دین: ” جو لوگ اس طرح کا اعتراض کرتے ہیں وہ یقینا غفلت میں ہیں کیونکہ محتاج وفقیر کی آواز سننا اپنی ذات کی طرف متوجہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو جہ خدا کی طرف عین توجہ ہے۔علی علیہ السلام نماز میں اپنے سے بیگانہ تھے نہ کہ خدا سے ، واضح طور پر نماز کی حالت میں زکوٰة دینا عبادت کے ضمن میں عبادت ہے اور جو روح عبادت کے لئے غیر مناسب ہے وہ مادی اور دنیاوی چیزیں ہیں لیکن جو توجہ خدا وند متعال کی راہ میں ہو وہ یقینا روح عبادت کے موافق ہے اور تقویت کرنے والی ہے۔

البتہ یہ جاننا چاہئے کہ خدا کی توجہ میں غرق ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا احساس بے اختیاری طور پر اس کے ہاتھ سے جاتا رہا ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ جو چیز خداکی مرضی کے مطابق نہیں ہے اس سے اپنی توجہ ہٹالے۔

۸۴۔ کیوں علی علیہ السلام کا نام قرآن میں نہیں ؟

علمائے اہل سنت اور اہل تشیع کی ایک بہت ہی گرماگرم مجلس تھی جس میں تمام افراد اس بات پر متقق تھے کہ بغیر کسی تعصب کے اور حسن نیت کے ساتھ مذاہب اسلام کے مذہب حقہ کے متعلق مذاکرہ کریں ،چنانچہ اس مناظرہ کا آغازاس طرح ہوا:

سنی عالم: ”اگر علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بلا فصل خلیفہ ہیں تو یہ ضروری تھا کہ قرآن مجیدمیں اس چیز کا ذکر ہوتا تاکہ مسلمان اختلاف کا شکار نہ ہوتے“۔

شیعہ عالم: ”زید بن حارثہ کے علاوہ قرآن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے کسی صحابی کا نام نہیں آیا ہے اور زید بن حارثہ کا نام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیدکی سابق بیوی”زینب“کے ساتھ شادی کے سلسلہ میں آیا ہے“۔( ۵۱ )

سنی عالم: ”جس طرح ایک جزئی اور فرعی حکم کی مناسبت کی وجہ سے زید کا نام قرآن میں آیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری تھا کہ علی علیہ السلام کا نام ان کی امامت کے سلسلہ میں آئے“۔

شیعہ عالم: ”اگر علی علیہ السلام کا ذکر قرآن میں ہوتا تو آپ کے دشمن کی کثرت سے وہ لوگ قرآن ہی کو تحریف کر دیتے لہٰذا مناسب یہی تھا کہ خدا آپ کی رہبری اور ولایت کا ذکر اوصاف سے کرے کیونکہ قرآن کی یہ روش رہی ہے کہ اس نے کلیات بیان کئے ہیں اور اس کا مصداق پیغمبر اکرم نے معین کیا“۔

سنی عالم: ”قرآن میں علی علیہ السلام کے اوصاف کہاںپر بیان ہوئے ہیں؟“

شیعہ عالم: ”سیکڑوں آیات میں علی علیہ السلام کا ذکر موجود ہے اور بہت سی آیتیں تو حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئیں ()جیسے آیت ولایت (سورہ مائدہ ۵۵) آیت اطاعت (سورہ نساء ۵۹) آیت مباہلہ(سورہ آل عمران ۶۶۱) آیہ تطہیر (سورہ احزاب ۲۳) غدیر خم میں آیہ بلّغ(سورہ مائدہ ۷) آیت انذار(سورہ شعراء) آیت مودت (سورہ شوریٰ ۲۳) آیت اکمال (سورہ مائدہ ۳۰) وغیرہ۔( ۵۲ )

مذکورہ آیتوں میں ہر ایک آیت کی شان نزول کے ساتھ ساتھ شیعہ اور سنی روایتوں میں یہ نقل

( وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا )( ۵۳ )

”اور رسول جو تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے منع کردے اسے چھوڑ دو“

اور حدیث ثقلین کے مطابق جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا ہے: ”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت۔۔۔“اور اسی طرح تمہاری متعدد روایتوں کے مطابق آنحضرت نے یہ فرمایا: ”میں دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں ،قرآن اوراپنی سنت “اس وجہ سے ہمیں چاہئے کہ سنت یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باتوں پر غور کریں اور ان پر عمل کریں اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ مذکورہ آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی بیناد پر علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے قرآن مجید نے امام علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین اور بلا فصل خلیفہ بتایا اگر چہ مصلحت کی بنا پر آپ کا قرآن میں نام نہیں آیا ہے۔قرآن میں صرف چار جگہوں پر سول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام آیا ہے لیکن ان کے اوصاف سیکڑوں مرتبہ ذکر ہوئے ہیں۔(( ۵۴ ) )

۸۵۔ شیعہ مذہب کی پیروی (ہی) صحیح ہے

مذکورہ نشست میں بقیہ مناظرہ اس طرح آگے بڑھا:

سنی عالم نے اپنی بات بدل کر کہا: ”اب اگر یہ بنا رکھی جائے کہ پانچ مذہب میں سے کسی ایک کی پیروی کریں تو کس مذہب کی پیروی کرناہمارے لئے بہتر ہے ؟“

شیعہ عالم: ” اگر انصاف سے دیکھیں تو مذہب جعفری کی پیروی کرنا چاہئے کیونکہ مذہب جعفری مکتب امام جعفر صادق علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لیا گیا ہے اور جو بھی اسلامی احکام امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے بیان ہوئے ہیں وہ یقینا قرآن اور سنت نبوی سے اخذ کئے گئے ہیں کیونکہ بہر حال ”گھر کی بات ، گھر والے زیادہ بہتر جانتے ہیں“۔(جس کی تفصیل مناظرہ ۷۴ میں گزر چکی ہے)

اس بحث کی تکمیل کے لئے”الازہریونیورسٹی“ کے مشہور و عظیم استاد مفتی ”شیخ محمود شلتوت“ کے فتوے کو نقل کرتے ہیں جو دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیة“کے لئے انھوں نے دیا تھا اور ۱۳۷۹ ھ میں ”رسالة الاسلام “ داراالتقریب میں یہ فتویٰ چھپ چکا ہے۔

”جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا اتباع کیا جائے یاوہ جو بغیر ہدایت کئے ہدایت پاہی نہیں سکتا(تمہیں کیا ہوگیا ہے) تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟

اس بنا پر اصلح اور متقی کا انتخاب سو فیصد اسلامی اور عقلی طریقہ ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:

من تقدم علی المسلمین وهو یری ان فیهم من هو افضل منه فقد خان الله ورسوله والمومنین

”جو مسلمانوں کے کام کے لئے آگے بڑھے جب کہ وہ دیکھ رہا ہو کہ ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو اس سے افضل ہے تو بلا شبہ اس نے اللہ ،اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی“۔(الغدیر،ج ۷)

شیخ محمود شلتوت کا تاریخی فتوی

شیخ شلتوت اپنے اس عظیم فتوے کے ایک حصہ میں لکھتے ہیں:

انّ مذهب الجعفریه المعروف بمذهب الشیعة الامامیة الاثنا عشریه، مذهب یجوز التعبد به شرعاً، کسائر مذاهب اهل السنة، فینبغی للمسلمین ان یعرفوا ذلک، و اَن یتخلّصوا من العصبیة بغیر الحق لمذاهب معینة، فما کان دین الله و ما کانت شریعته بتابعة لمذهب، او مقصورة علی مذهب، فالکلّ مجتهدون مقبولون عند الله تعالیٰ یجوز لمن لیس اهلاً للنّظر و الاجتهاد تقلیدهم و العمل بما یقرّرونه فی فقههم، و لا فرق فی ذلک بین العبادات و المعاملات( ۵۵ )

”مذہب جعفری جو شیعہ اثنا عشری کے نام سے مشہور ہے اس کی پیروی اور اس پر اعتقاد رکھناسنی مذہب کے دوسرے تمام مسلکوں کی طرح جائز ہے لہٰذا مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اس کے متعلق آگاہی پیدا کریں اور بے جا تعصب اور عنادسے باز رہیں اس مذہب کے تمام علماء مجتہد ہیں اور اللہ کے نزدیک ان کے فتاوے مقبول ہیں۔

لہٰذا جو خود مجتہد نہ ہو اس کے لئے ان کے تقلید کرنا جائز ہے اور انھوں نے اپنی فقہ میں جو احکام درج کئے ہیں ان پر عمل کریں اس سلسلے میں عبادات اور معاملات میں کوئی فرق نہیں ہے“۔

اہل سنت کے اساتذہ اور عظیم مفکرین جیسے محمود فخام جامعة الازہر کے سابق استاد ،عبد الرحمن البخاری، قاہرہ کی مساجد کے متولی اور عبد الفتاح عبد المقصود مصر کے زبردست مولف و غیرہ نے شیخ محمود کے اس فتوے کی تائید کی ، چنانچہ شیخ فخام کہتے ہیں۔

”خدا وند متعال شیخ شلتوت پر رحمت نازل کرے کہ انھوں نے اس عظیم اور اہم بات پر توجہ دی اور نہایت بہادری سے ہمیشہ زندہ رہنے والا فتویٰ دیا کہ مذہب شیعہ اثنا عشری ایک فقہی اور اسلامی مذہب ہے اور یہ قرآن و سنت کے دلائل کی بنیاد پر استوار ہوا ہے لہٰذا اس پر عمل جائز ہے“۔

عبد الرحمن بخاری کہتے ہیں:

”میں آج بھی اپنا فتوی مذہب اربعہ میں منحصر نہ سمجھتے ہوئے شیخ محمود شلتوت کے فتوے کی بنیاد پر فتویٰ دیتا ہوں کہ شیخ شلتوت امام ومجہتد ہیں اور ان کی رائے عین حقیقت ہوا کرتی ہے“۔

عبد الفتاح عبد المقصود لکھتے ہیں:

”مذہب شیعہ اثنا عشری اس لائق ہے کہ سنی مذہب میں موجود تمام مسالک کے ساتھ اس کی بھی پیروی کی جائے، سنی مذہب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ عمل صرف اس وقت صحیح ہوگا جب ایسے مسلک کی پیروی کی جائے جو سب سے افضل وبرتر ہو ،جب ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ شیعہ مذہب کے اصل منبع حضرت علی علیہ السلام ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد وہ سب سے زیادہ احکام دین جاننے والے تھے“۔( ۵۶ )

____________________

(۱۶) سورہ نساء آیت ۵۹۔

(۱۷) سورہ شعراء آیت ۲۱۴۔

(۱۸) یہ حدیث ”یوم الانذار “کے نام سے معروف ہے ،اس کے بہت سارے مدارک ہیں منجملہ: تاریخ طبری،ج۲،ص۶۳، تاریخ ابن اثیر ،ج۲، ۔تاریخ ابو الفداء ،ج۱، وغیرہ، مزید وضاحت کے لئے کتاب احقاق الحق ،ج۴،ص ۶۲ کے بعد رجوع کریں۔

(۱۹) کتاب ”آہین وہابیت“ سے اقتباس، ۱۲ تا ۱۴۔

(۲۰) سورہ مائدہ ، آیت ۹۷۔

(۲۱) ”لِتُنذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَهَا “(سورہ انعام آیت ۹۲ سورہ شوریٰ آیت۷۔)

(۲۲) سورہ بقرہ آیت ۱۹۷۔

(۲۳) مجمع البیان ،ج۲ ،ص۲۹۴۔

(۲۴) صحیفہ نور ،ج۱۸ ،ص۶۶،۶۷۔

(۲۵) صحیفہ نور ،ج۲، ص۱۸۔

(۲۶) کحل البصر سے اقتباس ،ص۱۱۹ ،مجمع البیان ،ج۹،ص۱۲۷۔

(۲۷) احتجاج طبرسی، ج۲، ص ۱۸، ۱۹۔

(۲۸) بحار الانوار ،ج۴۶،ص۱۲۷۔

(۲۹) منتہی الامال ،۲ ص۷۹۔

(۳۰) وسائل الشیعہ ،ج۹ ،ص۴۰۶۔

(۳۱) سنن ابن ماجہ ،ج۲،ص۱۸ ،۱۹ ۔بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۱۶۔

(۳۲) اعیان الشیعہ،چاپ جدید ،ج۱ ،ص۱۴۔

(۳۳) وسائل الشیعہ ،ج۸،ص۱۴۔

(۳۴) شرح سیرہ ابن ہشام ،ج۱، ص۳۸ تا ۶۲، بلوغ الارب ،آلوسی ،ج۱ ،ص۲۵۰ تا۲۶۳۔

(۳۵) کمال الدین ،ص۱۰۴۔تفسیر برہان ج۲،ص۷۹۵۔

(۳۶) شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ج۳ ،ص۳۱۲۔

(۳۷) استیعاب ،ج۲، ص۵۰۹،ذخائر العقبیٰ،ص۲۲۲۔

(۳۸) اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے کتاب الغدیر ،ج۷ ص۳۳۰ تا ۴۰۹ ملاحظہ کریں۔

(۳۹) الحجة علی الذاھب ،ص۳۶۱۔

(۴۰) شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ج۱، ص ۳۵۸، ۳۶۰۔

(۴۱) تفسیر ابن کثیر ،ج ۲، ص ۱۲۸۔

(۴۲) جیسا کہ ابن عباس نے مذکورہ آیت کے یہی معنی کئے ہیں ۔(الغدیر ،ج۸)

(۴۳) میزان الاعتدال ،ص۳۹۸۔

(۴۴) تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۱۱۵۔

(۴۵) تہذیب التہذیب ،ج۳،ص۱۷۹۔

(۴۶) تاریخ طبری ،نقل از کتاب ابو طالب مومن قریش۔

(۴۷) یہاں پر گفتگو بہت ہے ،کتاب الغدیر ،ج۷،اور ابو طالب مومن قریش ، ص۳۰۳ تا ۳۱۱ پر رجوع فرمائیں۔

(۴۸) کتاب غایة المرام میں اس سلسلہ میں اہل سنت کے ۱۲۴ اور اہل تشیع سے ۱۹ روایتیں نقل ہوئی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی (منہاج البراعة، ج ۲، ص ۳۵۰)

(۴۹) نہج البلاغہ، نامہ ۴۵، اس خط کے مطابق آپ کے لئے اس طرح کی انگوٹھی پہننے کی بات ایک تہمت ہے ۔

(۵۰) وقایع الایام، خیابانی (صیام) ص ۶۲۷۔

(۵۱) ”فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا “سورہ احزاب، آیت ۳۷۔

(۵۲) ان آیات سے مزید آگاہی کے لئے کتاب دلائل الصدق ج ۲، ص ۷۳ تا ۳۲۱ کی طرف رجوع کریں کہ جہاں اس سلسلہ میں ۸۲ آیت ذکر ہوئی ہیں۔

ہوا ہے کہ یہ آیتیں سب کی سب امام علی علیہ السلام کی خلافت بلا فصل اور ان کی ولایت و رہبری کے لئے نازل ہوئی ہیں اور خداوند عالم کا رشاد ہے۔

(۵۳) سورہ حشر، آیت ۷۔

(۵۴) اصولا اگر عقلی اور احساساتی پہلووں کو مد نظر رکھ کر یہ دیکھا جائے کہ قرآن مجید میں جو کچھ بھی اچھائیوں کا ذکر ہوا جیسے تقویٰ، علم، جہاد، ہجرت اور سخاوت ان کا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد حقیقی مصداق کون ہے جو سب پر برتری رکھتا ہے تو حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں نظرآئے گا کیونکہ جب تک بزرگی کے اسباب فراہم نہ ہوں اس وقت تک بڑی جگہ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا لہٰذا قرآن کی آیت ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد ہدایت کے لئے حضرت علی کا دروازہ دکھاتی ہے مگر کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن فرماتا ہے:

اٴَ فَمَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَهِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُهْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ “ (سورہ یونس، آیت ۳۵)

(۵۵) مجلہ رسالہ الاسلام ،ارکان رسمی ”دارالتقریب بین المذاہب الا سلامیة بالقاہرة ،سال ۱۱، نمبر ۳،سال ۱۳۷۹ ھ۔

(۵۶) فی سبیل الوحدة الاسلامیة، سید مرتضی الرضوی، ص۵۲،۵۴،و۵۵۔