۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے0%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف: استاد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات:

مشاہدے: 32791
ڈاؤنلوڈ: 4916

تبصرے:

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32791 / ڈاؤنلوڈ: 4916
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

۹۱۔حضرت علی علیہ السلام کی عظمت اور مسئلہ وحی کے بارے میں مناظرہ

مسجد لوگوں سے چھلک رہی تھی اور ایک عالم دین نے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں تقریر کرتے کرتے مندرجہ ذیل روایت کو نقل کیا:

”ایک روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی مانگا تو اس وقت آپ کے پاس صرف علی ،جناب فاطمہعلیہ السلام اور امام حسن وامام حسین علیہم السلام موجود تھے۔آپ کو پانی لاکر دیا گیا آپ نے پہلے اسے امام حسن علیہ السلام کی طرف بڑھا دیا اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اور آخر میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرف بڑھا یا تو آپ نے فرمایا: ”ھنیئا ًمریئا لک، آپ کے لئے گوارا رہو“۔

لیکن جب علی علیہ السلام کی طرف پانی بڑھا یا اور آپ نے پانی پیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:

هنیئا مریئا لک یا وليّ وحجتی علی خلقی “۔

” اے میرے ولی اور میری امت پر میری حجت آپ کے لئے گوارا رہو“۔

اور آپ سجدہ میں چلے گئے، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے پوچھا: ”آپ کے سجدہ کا کیا راز تھا ؟ “، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”جب تم لوگوں نے پانی پیا اور میں نے کہا: ”ھنیئا مریئا “تو میرے کانوں میں آوازا ٓئی کہ میرے ساتھ ساتھ فرشتے بھی یہی کہہ رہے ہیں لیکن جب علی علیہ السلام نے پانی پیا اور ان کے لئے میں نے ”هنیئا مریئا لک “کہا تو میرے کانوں میں خدا کی آواز پہنچی کہ وہ بھی یہی کہہ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی نعمت پر سجدہ شکر بجالایا“۔( ۸۸ )

سامع: ”کیا خدا بولتا ہے کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم نے اس کی آواز سنی ؟ “

مقرر: ”خدا وند متعال مکان یا فضا میں آواز پیدا کردیتا ہے جسے اس کا پیغمبر سنتا ہے بالفاظ دیگر: انبیاء اور خدا میں تین طرح سے ارتباط ہوتا ہے۔

۱) قلب پر القاء کرنا جو بہت سے انبیاء پر وحی نازل ہونے کے بارے میں پایاجاتا ہے۔

۲) جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ جو وحی خدا لانے والے ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ آیت ۹۷ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

۳) حجاب کے پیچھے سے یاکسی چیز میں آواز ایجاد کرنا جیسا کہ خد اوند متعال نے جنا ب موسیٰ علیہ السلام سے بات کی۔

وَکَلَّمَ اللهُ مُوسَی تَکْلِیمًا( ۸۹ )

”اور (اللہ نے) موسیٰ سے با قاعدہ گفتگو کی ہے“۔

اسی طرح سورہ طہ کی ۱۱ ویں اور ۱۲ ویں آیت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگ کے اندر سے خدا کی ا ٓواز سنی۔

فَلَمَّا اٴَتَاهَا نُودِی یَامُوسَی إِنِّی اٴَنَا رَبُّکَ

” جب وہ اس (آگ )کے پاس آئے تو ندادی گئی اے موسیٰ !بلا شبہ میں تمہارا پروردگار ہوں“۔

سورہ شوریٰ کی ۵۱ ویں آیت میں ان تین طریقوں کی وحی کی وضاحت کی گئی ہے اس طرح خداوند عالم فضایا کسی ایک چیز میں آواز پیدا کرتا ہے جسے اس کے انبیا سنتے ہیں۔

سامع: ”معاف کرنا میں خیال کررہا تھا کہ وحی کی صرف ایک قسم ہے جو صرف جناب جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ آتی ہے لیکن آپ کے بیان سے معلومات میں اضافہ ہو ا اور ساتھ ساتھ میں یہ بھی سمجھ گیا کہ خدا وند متعال کے نزدیک علی علیہ السلام کی منزلت کیا ہے جیسا کہ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کے ساتھ ہم زبان ہو کر فرمایا: ”هنیئا مریئا “۔

لیکن میرادوسرا سوال یہ ہے کہ کیاقرآن کی آیتوں کے علاوہ بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کے طور پر کچھ چیزیں نازل ہوئی ہیں؟ “

مقرر: ”ہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآنی آیات کے علاوہ احکام وغیرہ کے بارے میں بہت سی باتیں بتاتے تھے جو تمام کی تمام وحی الٰہی ہوتی تھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معارف اور احکام الٰہی کو صرف وحی کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جیسا کہ سورہ نجم کی دوسری اور تیسری آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

( وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْهَوَی إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحَی )

”اور وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتاوہ وہی کہتا ہے جو وحی ہوتی ہے“۔

۹۲۔ایک طالب علم اور عالم دین کے درمیان ایک مناظرہ

ایک جگہ کچھ مومنین بیٹھے ہوئے جن میں ایک طالب علم اور ایک عالم دین کے درمیان اس طرح مناظرہ ہوا۔

طالب عالم: ”قرآن میں چند جگہوں( ۹۰ ) میں منجملہ سورہ اعراف کی ۱۴۳ ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے عرض کیا:

( رَبِّ اٴَرِنِی اٴَنظُرْ إِلَیْکَ )

”پالنے والے توخود کو دکھا دے تاکہ میں تجھے دیکھ سکوں“۔

لیکن خداوند متعال نے فرمایا:

( لن ترانی )

”تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے“۔

میرا سوال یہ ہے کہ خدا وند متعال نہ جسم رکھتا ہے نہ کوئی مکان رکھتا ہے اور نہ دیکھنے والی چیز ہےحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اولو العزم پیغمبر ہوتے ہوئے بھی کیسے اس طرح کا سوال کیا جب کہ اگر کوئی عام آدمی بھی اس طرح کا سوال کرے تو لوگ اسے اچھا نہیں کہیں گے ؟ “

عالم دین: ”احتمال پایا جاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ سوال دل کی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے ہونہ کہ ان ظاہری آنکھوں سے ،جناب موسیٰ علیہ السلام اپنے دل کے ذریعہ روحی اور فکری شہود تک پہنچنا چاہتے تھے یعنی ”خدا یا مجھے ایسا بنا دے کہ میرے قلب میں تیرا یقین کوٹ کوٹ کر بھر جائے گویا میں تجھے دیکھ رہا ہوں“( ۹۱ ) اور بہت سی جگہوں پر لفظ ”رویت“اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاًہم کہتے ہیں ”میں اپنے اندر ایسی طاقت دیکھ رہا ہوں کہ میں یہ کام باآسانی انجام دے سکتا ہوں: جب کہ قدرت دیکھنے والی چیز نہیں ہے“۔

طالب علم: ”اس طرح کی تفسیر آیت کے ظاہری لفظ کے خلاف ہے کیونکہ ظاہر لفظ ”ارنی“ اپنے کو مجھے دکھا،آنکھ سے دیکھنے پر دلالت کرتاہے جیسے خدا کے جواب ”لن ترانی“سے سمجھا جا سکتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا سوال انھیں آنکھوں سے دیکھنے کے لئے تھا اور اگر رویت اور شہود سے مراد فکری، روحی اور باطنی رویت ہوتی تو خدا وند متعال ہر گز منفی جواب نہ دیتا اس طرح کا شہود خداوندمتعال اپنے خاص بندوں کو یقینی طور پر عطا کر تا ہے“۔

عالم دین: ”فرض کریں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے خدا کو دیکھنے کی خواہش کی تھی جیسا کہ ظاہری الفاظ سے سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر ہم تاریخ میں اس واقعہ کی تحقیق کریں تو ہمیں ملتا ہے کہ یہ سوال ان کی قوم کی طرف سے تھا جسے جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی زبان سے ادا کیا تھا کیونکہ ان کی قوم والے اس بات پراصرار کر رہے تھے کہ وہ خدا کو دیکھیں گے اس لئے انھیں مجبور اً یہ جملہ ادا کرنا پڑا“۔

تو ضیح کے طور پر یہ عرض کیا جائے کہ فرعونیوں کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی نجات کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے درمیان دوسری بہت سی باتیں وجود میں آئیں ان میں سے ایک یہ کہ بنی اسرائیل کے کچھ افراد جناب موسیٰ علیہ السلام سے ضد کررہے تھے کہ ہم خدا کو دیکھیں گے بغیر دیکھے خدا پر ایمان نہیں لاسکتے۔جناب موسیٰ علیہ السلام آخر میں مجبور ہو کر بنی اسرائیل کے ۷۰ افراد کو لے کر کوہ طور پر گئے اور وہاں پہنچ کر آپ نے کی خداکی بارگاہ میں ان کے سوال کو بیان کیا، خداوندعالم نے جناب موسی علیہ السلام کو وحی کی ”لن ترانی۔۔۔“ تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، (سورہ اعراف، آیت ۱۴۳) ، جواب نے اس بارے میں بنی اسرائیل کے لئے تمام چیزوں کو روشن کردیا۔

لہٰذا موسی علیہ السلام نے سوال رویت کواپنی قوم کی زبان سے کیا تھا کیونکہ

آپ نے اپنی قوم کی ضد پر خدا سے اس طرح کا سوال کرنے پر مجبور تھے، لیکن جب زلزلہ آیا تو جناب موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ تمام ۷۰ افراد ہلاک ہوگئے اور جناب موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے عرض کیا:

( اتهلکنا بما فعل السفهاء منّا )( ۹۲ )

”کیا تو ہمیں اس کام کے لئے ہلاک کر رہا ہے جو ہمارے بیوقوفوں نے انجام دیا ہے ؟ “

جس کے بعد خداوند متعال نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: ”تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ پاوگے لیکن کوہ طور پر چکر لگاو اگر یہ خود اپنی جگہ پر باقی رہ گیا تو مجھے دیکھ لو گے “، جب خدا وند متعال کی کوہ طورپر تجلی ہوئی توکوہ طورٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جناب موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے اورجب ہوش آیاتو خدا وند متعال سے کہا:

( سُبْحَانَکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَاٴَنَا اٴَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ )( ۹۳ )

”پاک پاکیزہ ہے تو، میں نے توبہ کی اور میں سب سے پہلا مومن ہوں“۔

پہاڑ پرالٰہی جلوہ (جیسے گرج، چمک اوربجلی) کے ظاہر ہونا اپنے آثار ظاہر کرنے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو خدا وند متعال نے اپنی قدرت نمائی سے ایسا بے ہوش کیا کہ تم لوگ سمجھ لو کہ جب خدا کی ایک قدرت کا اثر کا تحمل نہیں کر سکتے تو اس کے پورے وجود کو سمجھنے کی کوشش کیوں کرتے ہو؟ تم ہر گز اپنی ان مادی آنکھوں سے خداوند متعال کے مجرد وجود کو نہیں دیکھ سکتے ہو اس طرح جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے خداوند متعال کو قلب کی آنکھوں سے دیکھا اور ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اسے ان ظاہری آنکھوں سے ہر گز نہیں دیکھا جا سکتا ہے“۔

طالب علم: ”آپ کے اس مفصل بیان کا بہت شکریہ میں اس موضوع پر مطمئن ہو گیا اور اس چیز کی امید رکھتا ہوں کہ اسی طرح آپ منطقی استدلال سے میرے باقی دوسرے شبہات کوبھی جنھیں میں انشاء اللہ کسی دوسرے وقت بیان کروں گا بیان فرمائیں گے“۔

عالم دین: ”قابل توجہ بات تو یہ کہ اہل سنت کے اکثر مفسرین آیت الکرسی کی تفسیر کرتے ہوئے جنا ب موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مشابہ دوسرایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:

”جناب موسیٰ علیہ السلام نے عالم خواب (یا بیداری کی حالت میں) میں فرشتوں کو دیکھا تو ان سے سوال کیا کہ ”کیا ہمارا خداسوتاہے ؟خداوند متعال نے اپنی فرشتوں پر وحی کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو سونے نہ دو فرشتوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو تین بار نیند سے بیدار کیا اور ان کے ساتھ وہ لگے رہے تاکہ وہ سونے نہ پائیں جناب موسیٰ علیہ السلام تھک کر چور ہو گئے اور نیند کا احساس کیا تو خداوند متعال کی وحی کے مطابق ان کے دونوں ہاتھوں میں پانی بھری دو شیشیاں تھما دی گئیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام اپنے دونوں ہاتھوں میں ان دونوں شیشیوں کو لئے ہوئے ان کی حفاظت کر رہے تھے یہ دیکھ فرشتے چلے گئے اور ابھی چند لمحے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ نیند کا اثر غالب آیااور اسی وقت ان کے ہاتھ سے شیشیاں چھوٹ کر گر گئیں اور وہ چور چور ہو گئیں۔خدا وند متعال نے جناب موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی میں زمین وآسمان کو اپنی قدرت سے بچائے ہوئے ہوں ”فلو اخذنی نوم اونعاس لزالتا( ۹۴ ) اگر نیند یا ہلکی سی جھپکی بھی مجھ پر غالب آجائے تو زمین وآسمان فنا ہو جائیں۔

یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کیسے فرشتوں سے اس طرح کا سوال کیا جب کہ وہ پیغمبر تھے اور جانتے تھے کہ خداوند متعال جسم کی تمام ضرورتوں جیسے نیند وغیرہ سے پاک وپاکیز ہے؟

فخر رازی اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں: ”اگر ہم فرض کریں کہ مذکورہ روایت صحیح ہے تو ہمیں مجبورا ً کہنا پڑے گا کہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ سوال نہ تھا بلکہ ان کی جاہل اور ہٹ دھرم قوم کا سوال تھا“۔( ۹۵ )

واضح طور پر یوں کہا جائے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے اصرار اور ضد سے پریشان ہوکر خدا وند متعال کی بارگاہ میں اس طرح کا سوال کرتے تھے تاکہ خدا وند متعال انھیں اپنی واضح نشانیوں کے ذریعہ ہدایت کردے اور جناب موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے شیشیوں کا ٹوٹنا اگر چہ ایک بہت ہی معمولی سا حادثہ ہے لیکن عام لوگوں کو سمجھانے کے لئے یہ بہت ہی اہم اور ضروری تھا۔

ممکن ہے یہ بھی کہا جائے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں اس طرح کے پس وپیش والے لوگ تھے جو اس طرح کی باتیں کیا کرتے تھے جناب موسیٰ علیہ السلام نے ایسے لوگوں کی ہدایت کے لئے خداوند عالم سے اس طرح سوال کیا تاکہ اس کے واضح جواب میں اپنی قوم کو گمراہی سے نجات دے سکیں۔

۹۳۔طالب علم اور عالم دین کے درمیان مہر کے مسئلہ میں دوسرا مناظرہ

طالب علم: ”میں نے مکرر یہ بات سنی ہے کہ اسلام نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ عورتوں کی مہر کم سے کم رکھی جائے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:

شوم المراٴة غلاء المهر “ ۔( ۹۶ )

منحوس عورت وہ ہے جس کی مہر زیادہ ہو“۔

افضل نساء امتی اصبحن وجهاواقلهن مهرا “( ۲)(۹۷)

”میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جو سب سے زیادہ خوبصورت اور ہنس مکھ ہوں اور جن کا مہر سب سے کم ہو“۔

لیکن قرآن کریم میں دوجگہ ایسی آیتیں پائی جاتی ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ مہر قرار دینا بہتر کہا گیا ہے اور قرآن نے بھی اس بات پر رضایت کا اظہار کیا ہے“۔

عالم دین: ”قرآن میں کہاں اس طرح کی باتیں آئی ہیں ؟ “

طالب علم: ”پہلی جگہ سورہ نساء کی بیسویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

( وَإِنْ اٴَرَدْتُمْ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَکَانَ زَوْجٍ وَآتَیْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَتَاٴْخُذُوا مِنْهُ شَیْئًا ) “۔

”اور اگر تم نے اپنی بیوی کے بجائے کسی اور عورت سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو جو تم نے اسے مال کثیر دیا تھا اس میں سے کچھ واپس نہ لو“۔

لفظ ”قنطار “کے معنی بہت سے مال ہو تے ہیں۔جو ہزاروں درہم ودینا رکے لئے کہاجا تا ہے۔قرآن کی اس آیت میں لفظ قنطار لایا گیا ہے جس پر قرآن نے کسی طرح کہ تنقید بھی نہیں کی ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ان سے کچھ واپس نہ لو، اس طرح اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی مہر زیادہ قرار دینا بری بات نہیں ہے ورنہ قرآن اس بری بات پر ضرور کچھ نہ کچھ کہتا۔

اسی بنا پر روایت میں آیا ہے کہ عمربن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں جب دیکھا کہ لوگ عورتوں کی مہر زیادہ سے زیادہ رکھ رہے ہیں تو وہ منبر پر گئے اور لوگوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: ”تم لوگ کیوں زیادہ مہر رکھتے ہو“۔اور خبردار کیا کہ اب اگر میں نے سن لیا کہ کسی نے اپنی بیوی کی مہر چار سو درہم سے زیادہ رکھی ہے تو اس پر حد جاری کروں گا اور چار سو درہم سے زیادہ رقم کو بیت المال میں جمع کردوں گا“۔

ایک عورت نے منبر کے نیچے سے کہا:

”کیا تم مجھے چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے منع کرتے ہو اور اگر کسی نے زیادہ رکھی تو اس سے لینے کو کہتے ہو ؟ “

عمر نے کہا: ”ہاں“۔

عورت نے کہا: ”کیا قرآن کی یہ آیت تم نے نہیں سنی ہے جس میں خدا وند متعال فرماتا ہے:

( وَآتَیْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَتَاٴْخُذُوا مِنْهُ شَیْئًا )( ۹۸ )

”اور اگر تم کسی زوجہ کو مال کثیر بھی (بعنوان مہر) دے چکے ہو تو خبردار اس میں سے کچھ واپس نہ لینا“۔

عمر نے اس عورت کی بات کی تصدیق کی اور استغفار کرتے ہوئے کہا:

کل الناس افقه من عمر حتی المخدرات فی الحجال “۔( ۹۹ )

”تمام لوگ یہاں تک کہ پردہ میں رہنے والی عورتیں بھی عمر سے زیادہ فقیہ ہیں۔

عالم دین: ”مذکورہ آیت کی شان نزول یہ ہے کہ اسلام سے پہلے،زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ اگر کوئی شخص اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیکر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا تو اس پر بری بری تہمتیں لگاتا تھا تاکہ وہ پریشان ہو کر اپنی وصول شدہ مہر کو واپس دے کر طلاق لے لے اور بعد میں اسی مہر کو وہ اپنی دوسری بیوی کے لئے معین کر دے۔

اسلام کی نظر میں مہر کا کم قرار دینا بہتر ہے لیکن اگر کسی سے یہ فعل سرزد ہوگیا اور اس نے عورت کی زیادہ مہر معین کر دی تو بعد میں بغیر عورت کی رضامندی کے اس کو کم نہیں کیا جا سکتا۔اسی بنا پر مذکورہ آیت مہر کو کم رکھنے کے حکم سے کسی طرح بھی منافات نہیں رکھتی اور حضرت عمر اور عورت کے بحث میں یہ کہنا چاہئے کہ عورت کا جواب بالکل صحیح تھا کیونکہ عمرنے کہا تھا کہ اگر کسی نے چار سو درہم سے زیادہ مہر معین کی تو اضافی رقم لے کر بیت المال میں جمع کر دی جائے گی، عورت نے مذکورہ آیت پڑھ کر عمر سے کہا مہر،معین کرنے کے بعد تم بقیہ رقم واپس لینے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔عمر نے بھی عورت کی اس بات کو قبول کرلیا۔

نتیجہ یہ کہ اسلام میں کم مہر رکھنا مستحب موکد ہے لیکن اگر اس سنت کو کسی نے ترک کیا اور زیادہ مہر رکھ دیا تو بغیر عورت کی رضایت کے اسے کم کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

طالب علم: ”آپ کے اس مفصل بیان کا شکریہ جو بہت ہی منطقی تھا اورمیں اس سے قانع ہو گیا۔۔۔ اب مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کی خدمت میں دوسرا سوال پیش کروں“۔

عالم دین: ”فرمائیں“۔

طالب علم: ”قرآن کریم میں جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب شعیب علیہ السلام کا واقعہ ملتا ہے جب جناب موسیٰ علیہ السلام فرعونیوں کے ڈر سے بھاگ کر مدائن شہر پہنچے اور آخر میں جناب شعیب علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئے تو جناب شعیب علیہ السلام نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہا:

( قَالَ إِنِّی اٴُرِیدُ اٴَنْ اٴُنکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ هَاتَیْنِ عَلَی اٴَنْ تَاٴْجُرَنِی ثَمَانِیَةَ حِجَجٍ فَإِنْ اٴَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا اٴُرِیدُ اٴَنْ اٴَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللهُ مِنْ الصَّالِحِین )( ۱۰۰ )

”میں اپنی ان دونوں بیٹیوں (صفورا ولعیا)میں سے کسی ایک کی شادی تمہارے ساتھ اس شرط پر کرنا چاہتاہوں کہ تم آٹھ سال تک میرے یہاں کام کرو اور اگر تم نے اسے دس کردیا تو یہ تمہاری مرضی ہے ،میں تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اور تم انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پاوگے“۔

جناب موسیٰ علیہ السلام نے جناب شعیب کی اس خواہش کی قدر کی اور ان کی درخواست قبول کیا۔

یہ واضح سی بات ہے کہ آٹھ سال کا م کرنا بہت ہی زیادہ مہر ہے جسے خدا کے دو نبیوں نے قبول کیا ہے اور قرآن نے بھی بغیر کسی تنقید کے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔

قرآن مجیدکی تنقید نہ کرنا زیادہ مہر قرارد ینے کی اجازت دیتا ہے۔

عالم دین: ”جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب شعیب علیہ السلام کے واقعہ کے بارے میں یہ معلوم ناچاہئے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی جناب شعیب علیہ السلام کی لڑکیوں کے ساتھ شادی معمولی شادی نہیں تھی بلکہ یہ ایک مقدمہ تھا تاکہ موسیٰ علیہ السلام شہر مدائن کے ”شیخ “جناب شعیب علیہ السلام کے مکتب میں کافی دن تک رہ کر علم وکمال حاصل کریں۔

اگر چہ درست ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان کے یہاں کئی سال کام کر کے مہر ادا کی لیکن شعیب علیہ السلام نے بھی موسیٰ علیہ السلام اور ان کی بیوی کا خرچ چلا یا اور اگر موسیٰ علیہ السلام اور ان کی بیوی کی زندگی کا خرچ موسیٰ علیہ السلام کی مزدوری سے کم کر دیا جائے تو بہت کم مال باقی بچتا ہے اور اس لحاظ سے مہر کی مقداربہت کم قرار پائے گی۔

لہٰذا اس طرح جناب شعیب کی بیٹی کا بھاری مہر در اصل جنا ب موسیٰ کی مادی ومعنوی زندگی کے تحفظ کے لئے ایک مقدمہ تھا جو جناب شعیب نے اپنی بیٹی کی مرضی سے انجام دیا تھا۔

واضح اور روشن عبارت میں یہ عرض کیا جائے کہ جناب شعیب علیہ السلام ظاہری طور پر بھاری اور زیادہ مہر قرار دے کر مقصد موسیٰ علیہ السلام کی تنہائی ختم کرنا چاہتے تھے نہ کہ ان کا مقصد انھیں اس مہر سے پریشان کرنا تھا بلکہ ان کا مقصد موسیٰ علیہ السلام کی زندگی سہل اور آسان بنانا تھا جیسا کہ انھوں نے فرمایا: ”ماارید ان اشق علیک “ ،”میں تمہیں زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتا“۔

طالب علم: ”آپ کے دل کش اور استدلالی بیان کا بہت شکریہ، سچ مچ جناب شعیب علیہ السلام نے ذہانت اور ہوشمند انہ تدبیر سے جناب موسیٰ علیہ السلام کی بہت اچھی خدمت کی“۔

۹۴۔معاویہ پر لعنت کے جواز سے متعلق ایک مناظرہ

عظیم مرجع مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید عبد اللہ شیرازی فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے تقریبا ً بیس افراد جو خراسان کے اطراف و نواح جیسے’ ’تربت جام“وغیرہ سے حج کے لئے مدینہ منورہ آئے ہوئے تھے وہاں پر میں بھی انھیں کے ساتھ باغ صفا میں رہتا تھا۔

ایک روز میرے قریب ہی رہنے والے کچھ اصفہانی حجاج کے ساتھ یہ طے پایا کہ مجلس عزا منعقد کی جائے کیونکہ عزاداری اور محرم کے دن بھی قریب ہیں خراسان کے اطراف تربت وغیرہ کے سنی کے حجاج جو باغ صفا کے ایک بڑے ہال میں رہتے تھے جگہ کے لحاظ سے وہ بہت ہی وسیع وعریض جگہ تھا لہٰذا ہم لوگوں نے ان سے باغ صفا میں کے اس ایوان عزاداری کی در خواست کی تو ان لوگوں نے ہماری درخواست کو قبول کرلیا اور کافی مدد بھی کی۔

اسی دوران مدینہ کے رہنے والے کچھ سنی اہل علم حضرات اُن ایرانی سنیوں سے ملاقات کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔میرے اور ان کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کی عظمت ومنزلت کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی اور وہ ہماری بات کی تصدیق کررہے تھے، اور اس گفتگو کے درمیان انھوں نے بہت سی حدیثیں حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نقل کیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام کے لئے فرمایا:

لحمک لحمی و دمک دمی “۔

”تمہارا گوشت میرا گوشت تمہارا خون میرا خون ہے“۔

اور اسی طرح کی دوسری بہت سی روایتیں بھی نقل ہوئی ہیں جو علی علیہ السلام کی دوستی، پیغمبر اکرم کی دوستی اور علی علیہ السلام کی دشمنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دشمنی پر دلالت کرتی ہیں۔

یہاں تک کہ ہماری گفتگو کا سلسلہ لعن معاویہ تک بات پہنچا تو ان لوگوں نے کہا: ”معاویہ پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے لیکن یزید پر لعنت کرنا چاہئے کیونکہ اس نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا ہے“۔

میں نے کہا: ”تمہارے مذہب کے مطابق پر لعنت کرنا جائز ہونا چاہئے کیونکہ اس پر لعنت کرنے کا جواز تمہاری ابھی حال میں کہی ہوئی باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

اللهم عاد من عاداه “۔

(خدایا تو اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے )

یہ بات مسلم ہے کہ معاویہ حضرت علی علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا یہاں تک کہ مرتے وقت تک آپ سے دشمنی روارکھی اور توبہ و استغفار بھی نہیں کیا اور اس طرح اس نے آپ کی دشمنی کی وجہ سے آخری عمر تک آپ کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑا جب کہ اس چیز کو وہ آسانی سے چھوڑا سکتا تھا۔اس دلیل کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کے دشمنوں کے لئے بددعا کی ہے اور معاویہ حضرت علی علیہ السلام کا جانی دشمن تھا لہٰذا اس پر لعنت کرنا جائز ہے۔( ۱۰۱ )

یہاں پر توضیح کے طور پر اس بات پر توجہ رہے کہ اہل سنت کی معتبر کتابوں کے مطابق رسول اسلام نے خود ابو سفیان، معاویہ اور یزید پر لعنت کی ہے،( ۱۰۲ ) یہاں تک کہ فرمایا: ”جب بھی معاویہ کو منبر کے پر دیکھو،اسے قتل کردو۔( ۱۰۳ )

اورا گر یہ کہا جائے (جیسا کہ معاویہ کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں)کہ معاویہ نے اجتہاد کی رو سے علی علیہ السلام سے دشمنی کی تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ نص کے مقابلہ میں ہر گز اجتہاد جائز نہیں ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی باطنی خباثت سے اچھی طرح آگاہ تھے جس کی وجہ سے آپ نے اس کو اس طرح بددعا دی۔اہل سنت کی روایات کے مطابق رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک دن اس پر اس طرح لعنت کی:

”خدایا معاویہ اور عمر وعاص کو جہنم میں ڈال دے“۔( ۱۰۴ )

اہل سنت حضرات کے یہاں جو اصحاب محترم اور قابل قبول سمجھے جاتے ہیں انھوں نے بھی معاویہ کے بارے میں سخت باتیں کہیں ہیں، (اس کی مزید وضاحت کے لئے آپ کتاب الغدیر جلد ۱۰ صفحہ ۱۳۹ سے ۱۷۷ کا مطالعہ کریں)

شیخ حر عاملی (متوفی ۱۱۰۴ ھ ) غزالی صاحب کتاب ”احیاء العلوم “کی بات کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: غزالی نے صراحت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ یزید اور حجاج پر لعن وطعن کرنا جائز نہیں ہے“!!

اس کے شیخ حر عاملی فرماتے ہیں: ”خاندان رسالت سے دشمنی و عداوت رکھنا کیا اس سے بھی زیادہ ممکن ہے جو غزالی ان سے رکھتا تھا؟ جب کہ شیعہ اور سنی دونوں روایتوں سے نقل ہو ا ہے کہ ایک روز ابو سفیان اونٹ پر سوار تھا معاویہ اس کی مہار پکڑے ہوئے اسے کھینچ رہا تھا اور یزید پیچھے سے ہانک رہا تھا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تینوں کو دیکھ کر فرمایا:

لعن الله الراکب والقائد والسائق “۔

”خدا! سوار ،مہارپکڑنے والے اور ہانکنے والے تینوں پر لعنت کرے“۔

اس کے بعد شیخ حر عاملی کہتے ہیں: ”کیا خدا وند متعال نے قرآن مجید (کے سورہ نساء میں آیت ۹۳) میں یہ نہیں فرمایا ہے:

( وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ وَاٴَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِیماً )

”اور جو بھی مومن کو عمداً قتل کرتا ہے اس کی جزا جہنم ہوتی ہے وہ وہاں ہمیشہ رہے گا، اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے اور اس پر لعنت بھیجتا ہے اور اس کے لئے درد ناک عذاب تیار رکھتا ہے“۔

کیا غزالی اس بات کا معتقد ہے کہ امام حسین علیہ السلام مومن نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کے قاتل یزید پر لعنت جائزنہیں سمجھتا ہے ، کیا بے انصافی ہے!!؟( ۱۰۵ )

۹۵۔ امام حسین علیہ السلام پر گریہ سے متعلق واعظ اور سامع کے درمیان مناظرہ

ایک بہت ہی پڑھے لکھے واعظ نے منبر پر تقریر کے دوران امام حسین علیہ السلام پر رونے کے سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کیں جن میں ایک یہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

کل عین باکیة یوم القیامة الاعین بکت علی مصائب الحسین فانها ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة “۔( ۱۰۶ )

”روز قیامت ہر آنکھ گریہ کنا ں ہوگی لیکن امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر رونے والی آنکھیں خدا کی نعمت دیکھ کر ہشاش وبشاس ہوں گی“۔

منبر سے اترنے کے بعد ایک سامع اور واعظ کے درمیان حسب ذیل طریقہ سے مناظرہ ہوا:

سامع: ”یہ تمام اجر وثواب گریہ امام حسین علیہ السلام پر کیوں ہے ؟ جب کہ امام حسین علیہ السلام دنیا میں عظیم انقلاب لا کر کامیاب و سربلند ہوئے اور اپنے خون سے یزیدیوں کو رسوا کیا اور ان کے چہرے ہمیشہ کے لئے کالے کر دیئے اور آخرت میں اس کے بدلے آپ کو بہترین مقام دیا گیا ہے اور آج بھی آپ برزخ اور جنت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔اور اسلامی نظریہ کے مطابق امام حسین علیہ السلام زندہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید سورہ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُون )( ۱۰۷ )

”اور اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے والوں کو مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں“۔

واعظ: ”میں نے ایسی متعدد روایتیں دیکھی ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری اور عزاداری کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اس گریہ و زاری کو برابر زندہ رکھنے کے بارے میں کہا گیا ہے اور شیعہ وسنی دونوں روایتوں میں آیا ہے کہ روز قیامت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خداوند متعال کی بارگاہ میں اس طرح عرض کریں گی:

اللهم اقبل شفاعتی فیمن بکی علی ولدی الحسین “۔

”پالنے والے میرے بیٹے حسین پر گریہ کرنے والوں کے لئے میری شفاعت قبول کر“۔

اسی روایت کے ذیل میں آیا ہے:

فیقبل الله شفاعتها ویدخل الباکین علی الحسین علیه السلام فی الجنة “۔( ۱۰۸ )

”خدا وند عالم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شفاعت قبول کرے گا اور امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والوں کو جنت میں داخل کرے گا“۔

متعدد روایتوں کے مطابق انبیاء علیہم السلام اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا ہے اور عزاداری برپا کی ہے۔

کیا اگر ہم اولیائے خدا اور بارگاہ خدا وندی کے مقرب بندوں کی پیروی میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کریں توکوئی اعتراض کا مقام ہے ؟نہیں قطعاً نہیں، بلکہ اس عظیم سنت کو زندہ کرنے اور ائمہ علیہم السلام کی اس چیزکی اقتداء میں بہت ہی اجر وثواب ہے یہاں پر ائمہ معصومین علیہم السلام نے گریہ امام حسین علیہ السلام کو کتنی اہمیت دی ہے اس کے بارے میں سے دو عجیب واقعے نقل کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں:

۱ ۔ایک روز امام سجاد علیہ السلام نے سنا: ایک شخص بازار میں یہ کہہ رہا ہے: میں ایک مسافر ہوں مجھ پر رحم کرو۔(انا الغریب فارحمونی )

امام سجاد علیہ السلام اس کے پاس گئے اور اس کی طرف متوجہ ہو کر آپ نے فرمایا:

”اگر تیری قسمت اسی (شہر مدینہ میں)مرنا ہوگی تو کیا یہاں تیری لاش کو بے گوروکفن چھوڑ دیا جائے گا ؟“

اس غریب مرد نے کہا: ”اللہ اکبر کس طرح میرے جنازہ کو دفن نہیں کریں گے جب کہ میں مسلمان ہوں اور اسلامی امت کی آنکھوں کے سامنے ہوں“۔

امام سجاد علیہ السلا م نے روتے ہوئے فرمایا:

وا اسفاه علیک یا ابتاه تبقی ثلاثة ایام بلادفن وانت ابن بنت رسول الله “۔( ۱۰۹ )

”کتنے افسوس کی بات ہے اے میرے بابا!رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے ہوتے ہوئے بھی آپ کی لاش تین روز تک بے گوروکفن زمین پر پڑی رہی“۔

۲ ۔تاریخ میں آیا ہے کہ منصور دوانقی (دوسرا عباسی خلیفہ)نے مدینہ میں اپنے والی کو حکم دیا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر میں آگ لگا دو۔

والی مدینہ نے حکم پانے کے بعد آگ اور لکڑی جمع کروائی اور امام جعفرصادق علیہ السلام کے گھر میں آگ لگادی اور گھر کے دالان سے جب شعلے بھڑکنے لگے تو مخدرات عصمت گھر میں رونے یٹنے لگیں یہاں تک کہ ان کی آواز گھر سے باہر پہنچ گئی امام جعفر صادق علیہ السلام نے بڑی مشکل سے آگ بجھا ئی اس کے دوسرے دن کچھ شیعہ حضرات آپ کی احوال پرسی کے لئے گئے تو دیکھا کہ آپ محزون ہیں اور گریہ فرمارہے ہیں ان لوگوں نے کہا: ”کیا دشمنوں کے اس عمل اور ان کی گستاخی پر آپ گریہ کر رہے ہیں جب کہ آپ کے خاندان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے؟ “

امام جعفر صادق علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”میںکل کے واقعہ پر نہیں روہا ہوں بلکہ اس بات پر رورہا ہوں کہ جب گھر میں آگ کا شعلہ بھڑکنے لگا تو میں نے دیکھا کہ میرے ہوتے ہوئے عورتیں اور بچیاں ایک کمرے سے دوسرے کمرے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ بھاگ کر پناہ لے رہی تھیں تاکہ انھیں آگ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔

فتذکرت عیال جدی الحسین یوم عاشوراء لما هجم القوم علیهم ومنادیهم ینادی احرقوا بیوت الظالمین “۔( ۱۱۰ )

تو اس وقت مجھے روز عاشورہ اپنے جد امام حسین علیہ السلام کے مصیبت زدہ اہل حرم کی یا د آگئے جب ایک منادی ندا دے رہا تھا کہ ظالموں کے گھروں کو جلا دو“۔

دو مذکورہ واقعے اور اس کے علاوہ بہت سے قرائن سے سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام ائمہ علیہم السلام ہمیشہ چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور ان کی عزاداری برابر لوگوں کے دلوں میں تازہ دم رہے اسی بنیاد پر ہم ان کی پیروی میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت زندہ رکھنے کے لئے ان پر گریہ کرتے ہیں اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس عمل پرہمیں عظیم اجر وثواب عطا ہوگا۔

امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرنا اور غمگین ہونا اتنا عظیم اور مقدس عمل ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام زیارت امام حسین علیہ السلام کے ضمن میں فرماتے ہیں:

السلام علی الجیوب المضرجات “۔( ۱۱۱ )

”سلام ان گریبانوں پر جو امام حسین علیہ السلا کے غم میں چاک ہوئے ہوں“۔

سامع: ”آپ کی اس راہنمائی کا بہت بہت شکریہ ،بیشک ہمیں اپنی زندگی میں چاہئے کہ ہم ائمہ علیہم السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں، لیکن یہاں میرا مطلب یہ ہے کہ تمام احکام حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہیں تمام احکام اپنے ساتھ ایک ہدف لئے ہوئے ہیں اور کتنا بہتر ہے اگر ہم ان تمام احکام کو با معرفت انجام دیں نہ کہ اندھی تقلید کرتے ہوئے۔

اسی بنا پرمیرا سوال یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کا کیا مقصد اور کیا سبب ہے ؟ “

واعظ: ”امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور اس کے مقصد کی وضاحت کے سلسلے میں چند باتیں کہی جاسکتی ہیں:

۱ ۔شعائر اللہ کی تعظیم: مرحوم مومن پر گریہ کرنا ایک طرح کا احترام ہے اور یہ گریہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ معاشرہ میں اس کے چلے جانے سے ایک خلا واقع ہو گیا ہے اور وہ اب موجود نہیں ہے تاکہ لوگ اس کے وجود سے فائدہ اٹھائیں۔یہ گریہ اس کے باطنی احساسات ہیں جو مومن کے دنیا سے چلے جانے پر وجود میں آتے ہیں کیونکہ جب وہ مومن اس دنیا میں تھا لو گ اس سے مختلف طرح سے مستفید ہوتے رہتے تھے، گریہ ایک فطری عمل ہے اور جو شخص جتنا عظیم ہوگا دنیا والے اس پر اسی حساب سے زیادہ گریہ کریں گے۔جو دنیا سے جاتا ہے اور اس کے اوپر کوئی گریہ نہیں کرتا تو گویا یہ اس کی ایک طرح کی بے احترامی ہے۔

ایک شخص نے امام علی علیہ السلام سے پوچھا: ”نیک اخلاق کیا ہے ؟ “آپ نے جواب دیا:

ان تعاشروا الناس معاشرة ان عشتم حنواالیکم وان متم بکوا علیکم “۔( ۱۱۲ )

”لوگوں سے اس طرح سلوک کرو کہ جب تک زندہ رہو وہ تمہارے اشتیاق میں تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں اور جب تم مر جاو تو تم پر گریہ کریں“۔

ہر قوم وملت میں یہ رسم پائی جاتی ہے کہ جب بھی اس کے درمیان سے کوئی بزرگ شخصیت اٹھ جاتی ہے تو لوگ اس کے انتقال پر گریہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی دین محمد ی پر شہادت بھی ایک عظیم اور ہمیشہ باقی رہنے والا واقعہ ہے جس پر گریہ کرنا ان کے ہدف و مقصد کوزندہ رکھنا دینی شعائر کی تعظیم سمجھا جاتا ہے۔

اور قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ( ۱۱۳ )

”اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی۔--“

۲ ۔عاطفی گریہ: امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی ایک روز (عاشورا) میں جگر سوز شہادت ہر انسان کے دل کو کباب کر دیتی ہے اور ہر انسان کا دل ظالم و ستمگر کے خلاف بر انگیختہ ہوجاتا ہے کربلا کا الم ناک واقعہ اس قدر دل ہلا دینے والا ہے کہ اسے زمانہ نہ کبھی بھلا سکتا ہے اور نہ ہی اسے پرانا بنا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر: عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق جنا ب عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں نےانھیں پھانسی دے کر قتل کر دیا اب تم معلوم کر سکتے ہو کہ عیسائی اس یاد کو دنیا کے چپہ چپہ میں لوگوں کے دلوں میں تازہ کرتے ہیں اور غم کا اظہار کرتے ہیں یہاں تک کہ صلیب اپنے لباس اور اپنے کلیسا وغیرہ پر نصب کرکے اسے اپنی علامت قرار دیتے ہیں۔

جب کہ قتل عیسیٰ (عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق)واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے بہت ہی کم اہمیت کا حامل ہے۔

اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور ان کی عزاداری لوگوں کی محبت کو بر انگیختہ ہونے اور ان کے عظیم اہداف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔

ایک استاد کے بقول: ”عقل کی ترجمان ہمیشہ زبان رہی ہے لیکن عشق کا ترجمان آنکھ ہے جہاں احساس اور درد ہوں اورآنسو گریں وہاں عشق ضرور پایا جاتا ہے لیکن جہاں لفظوں کو ترتیب دے کر جملہ چھانٹے وہاں عقل پائی جاتی ہے“۔

اس بنا پر جس طرح مقرر کے زبردست دلائل اور پر زور خطابت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ اس خاص مذہب سے وابستہ ہے اسی طرح آنکھوں سے گرنے والا آنسو کا ایک قطرہ دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ کی طرح ہوتا ہے۔( ۱۱۴ )

مقاصد کی تکمیل اور دشمن کی مغلوبیت کے لئے احساساتی پہلوایک اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ان کو یکسر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے کیونکہ یہ بھی کسی انقلاب کی آہٹیں ہوا کرتے ہیں۔

۳ ۔گریہ تائید ہے: امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا ایک طرح سے ان کے قیام اور ان کے اہداف کی تائید ہے یہ گریہ عمیق ترین شعور و احساسات کو دشمنوں اور ستمگروں کے خلاف ابھارتا ہے جس کے معنی یہ ہیں: اے امام حسین علیہ السلام! آپ ہمارے قلب و جان اور احساسات کے گھروں میں پ موجود ہیں“:

زندہ در قبر دل ما بدن کشتہ تو است

جان مائی و تورا قبر حقیقت دل است

یہ زبان حال شیعہ ہے جو ہر زمان ومکان میں تین ستونوں پر استوار ہے۔

۱ ۔ہمارا قلب اس مبداء ایمان کی خاطر تلاش کرتا ہے جس کے لئے امام حسین علیہ السلام قتل کئے گئے۔

۲ ۔ہمارے کان ان کی سیرت و گفتار کو سنتے ہیں۔

۳ ۔ہماری آنکھیں آنسو بہا کر کربلا کے درد ناک واقعہ کو لوگوں کے دلوں پر نقش کرتی ہیں۔

اگر مذکورہ اسباب میں سے کسی ایک سبب کی وجہ سے گریہ ہواتو یہ سو فی صد ایک سالم فطرت تقاضہ کے تحت عمل میں آیا ہے اس طرح کے گریہ میں کوئی حرج کی بات کیا بلکہ یہ تو امام حسین علیہ السلام کے قیام و انقلاب کے لئے بہت سے فوائد کا حامل بھی ہے۔

۴ ۔ پیام آور اور رسواگر گریہ: ہر انسان جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی کیفیت شہادت سنتا ہے کہ وہ بھوکے پیاسے عورتوں اور بچوں کے سامنے جلتی ہوئی زمین پر شہید کر دئیے گئے تو بے اختیا ر اس کے قلب و دماغ میں انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پورے وجود سے یزید کی پلیدی اور قساوت قلبی پر لعنت وملامت کرتا ہے۔

اسی طرح امام حسین علیہ السلام پر گریہ ہر زمان مکان میں ظلم اور ظالم کے خلاف ایک آواز اور ایک طرح کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور کبھی کبھی یہی گریہ دشمن کو کچلنے کا بہترین ذریعہ بن ہوجاتا ہے۔لہٰذ جہاں بھی گریہ بے رحم دشمنوں کی رسوائی کا سبب بنے اور الٰہی پیغام لوگوں تک پہنچ جائے تو اسے ایک قسم کا نہی عن المنکر دین کے راستے کو استوار کرنے اور ظلم و ستم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں عملی اقدام کہا جاسکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ گریہ کی چند قسمیں ہیں جیسے خوف خدا سے گریہ ،شوق کا گریہ، محبت کا گرم وپیام آور گریہ وغیرہ اگر اس گریہ کا صحیح اور مناسب مقصد ہو تو یہ گریہ اپنی تمام قسموں میں سب سی زیادہ اچھا ہے۔

ہاں ایک گریہ مایوسی ،لاچاری،عاجزی اور شکست کی وجہ سے ہوتا ہے جسے گریہ ذلت کہتے ہیں اور اس طرح کا گریہ ان عظیم ہستیوں سے بہت دور ہے اور اولیائے خدا اور اس کے آزاد بندے اس طرح کا گریہ کبھی نہیں کرتے۔

اسی طرح گریہ اور عزاداری کی دو قسم ہے ”مثبت اور منفی“منفی گریہ قابل مذمت اور نقصان دہ ہے لیکن مثبت گریہ اپنے ساتھ بہت سے اصلاحی فوائد لئے ہوئے ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ گریہ کبھی کبھی نہی عن المنکر اور طاغوتیوں کے خلاف قیامت برپاکرنے اور جہاد کی صف میں کھڑے ہو کر جنگ کرنے کا سب سے اچھا اسلحہ ثابت ہوتا ہے۔

سامع: ”میرے سوال کے جواب میں آپ کے منطقی جامع اور مانع بیان کا بہت شکریہ“۔

واعظ: ”یہاں پر اس مناظرہ کی تکمیل میں کچھ اور باتیں بتاتا چلوں:

اسلام کے بعض دستور العملمیں سیاسی پہلو بھی لایا جاتا ہے ، چنانچہ عزاداری کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ گریہ کرنے یہاں تک کہ رونے والوں جیسی صورت بنانے (تباکی) میں ایک سیاسی پہلو پوشیدہ ہے، (جیسا کہ مناظرہ نمر ۸۱ میں آپ نے امام محمد باقر علیہ السلام کی اپنے اوپر دس سال تک گریہ کرنے کی وصیت میں پڑھا۔)

ائمہ علیہم السلام واقعہ کربلا کے سبب عزاداری کے ضمن میں حق وباطل کے چہرہ کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور لوگوں کو غفلت سے نکالنا چاہتے تھےے، لہٰذا انھوں نے ہر موقع اور مناسبت سے واقعہ عاشورہ کو زندہ رکھا، یہاں تک کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

”امام سجاد علیہ السلام کی انگوٹھی کے نگینہ پر یہ لکھا تھا“:

خزیٰ و شقی قاتل الحسین بن علی علیه السلام “۔( ۱۱۵ )

”حسین بن علی علیہ السلام کا قاتل ذلیل اور رسوا ہوا“۔

حقیقتاً امام سجاد علیہ السلام نے اپنی انگوٹھی پر اس جملہ کو صرف اس لئے کندہ کروارکھا تھا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام لوگوںکے دلوں میں تازہ دم ہوتی رہے اور لوگوں کی نظر جب بھی میری اس انگوٹھی پر پڑے توانھیں بنی امیہ کے مظالم یاد آجائیں اور سیاسی لحاظ سے بیدا ررہیں۔

ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور گریہ دو طرح کا ہے۔ مثبت ومنفی، اب اس میں منفی اور قابل مذمت وہ گریہ ہے جو رونے والوں کے عجز وناتوانی اور شکست کو ثابت کرے لیکن مثبت وہ گریہ ہے جو لوگوں کی عزت، شجاعت ،صلاحیت اور بیداری کا سبب بنے۔

____________________

(۸۸) مشارق الانوار سے اقتباس ، بحار الانوار، ج ۷۶ ،ص ۵۷ کی نقل کے مطابق۔

(۸۹) سورہ نساء آیت ۱۶۴۔

(۹۰) سورہ بقرہ آیت ۵۵۔۵۶سورہ نساء آیت ۱۵۳ سورہ اعراف آیت ۱۵۵کی طرف رجوع فرمائیں۔

(۹۱) جیسا کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے قیامت کے سلسلہ میں اسی طرح کا سوال کیا تھا سورہ بقرہ آیت ۲۶۰۔

(۹۲) سورہ اعراف آیت ۱۵۵۔

(۹۳) سورہ اعراف آیت ۱۴۳۔

(۹۴) تفسیر روح البیان ،ج ۱،ص۴۰۰ ،تفسیر قرطبی ،ج ۲،ص۱۰۱۸۔تفسیر فخر رازی ،ج۷،ص۹۔

(۹۵) تفسیر فخر رازی ،ج۷، ص۹۔

(۹۶) وسائل الشیعہ ،ج۱۵ ،ص۱۰۔

(۹۷) وسائل الشیعہ ،ج۱۵ ،ص۱۰۔

(۹۸) سورہ نساء آیت ۲۰۔

(۹۹) تفسیر در منثور ،ج۲،ص۱۳۳۔تفسیر ابن کثیر ،ج۱ص۴۶۸۔تفسیر قرطبی ،کشاف ،غرائب القرآن ،اسی آیت کے ذیل میں ۔

(۱۰۰) سورہ قصص، آیت ۲۷۔

(۱۰۱) الاحتجاجات العشرہ سے اقتباس ،احتجاج ۵۔

(۱۰۲) تاریخ طبری ،ج۱۱،ص۱۳۵۷۔تذکرة الخواص ،ص۲۰۹۔کتاب صفین ،ص۲۲۰۔

(۱۰۳) تاریخ بغداد ج۱۲، ص۱۸۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴، ص۳۳۔

(۱۰۴) کتاب صفین ابن مزاحم ،ص۲۱۹۔مسند بن حنبل ج۴،ص۲۴۸میں ان کے نام کے جگہ ”فلاں فلاں “آیا ہے ۔

(۱۰۵) الاثنی عشریہ فی الرد علی الصوفیہ،تالف شیخ حرعاملی ،ص۱۶۴۔

(۱۰۶) بحار ،ج۴۴،ص۲۹۳۔

(۱۰۷) سورہ آل عمران آیت ۱۶۹۔

(۱۰۸) الاحتجاجات العشرة،ص۲۰۔

(۱۰۹) ماساة الحسین ،تالیف:الخطیب شیخ عبد الوہاب الکاشی ،ص۱۵۲۔

(۱۱۰) ماساة الحسین ،تالیف:الخطیب شیخ عبد الوہاب الکاشی ،ص۱۳۵،۱۳۶۔

(۱۱۱) الوقایع والحوادث،ج۳،ص۳۰۷۔

(۱۱۲) ماساة الحسین علیہ السلام ،ص۱۳۷۔

(۱۱۳) سورہ حج آیت ۳۲۔

(۱۱۴) انگیزہ پیدائش مذہب ،ص۱۵۰۔

(۱۱۵) منتہی الآمال ،ج۲،ص۳۔