۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے16%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36606 / ڈاؤنلوڈ: 7218
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

1

۱۶۔عبد اللہ دیصانی کا مسلمان ہونا

ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام کے بہترین شاگرد تھے۔ایک دن ایک منکر خدا نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا: ”کیا تمہارا خدا ہے“۔

ہشام: ”ہاں“۔

عبد اللہ: ”آیا تمہارا خدا قادر ہے ؟ “

ہشام: ”ہاں میرا خدا قادر ہے اور تمام چیزوں پر قابض بھی ہے“۔

عبد اللہ: ”کیا تمہارا خدا ساری دنیا کو ایک انڈے میں سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ ہی انڈا بڑا ہوا۔؟ “

ہشام: ”اس سوال کے جواب کے لئے مجھے مہلت دو“۔

عبد اللہ: ”میں تمہیں ایک سال کی مہلت دیتا ہوں“۔

ہشام یہ سوال سن کر امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: ”اے فرزند رسول !،عبد اللہ دیصانی نے مجھ سے ایک ایسا سوال کیا جس کے جواب کے لئے صرف خداوند متعال اور آپ کا سہارا لیا جا سکتا ہے“۔

امام علیہ السلام: ”اس نے کیا سوال کیا ہے ؟ “

ہشام: ”اس نے کہا کہ کیا تمہارا خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس وسیع دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا ہو ؟ “

امام علیہ السلام: ”اے ہشام! تمہارے پاس کتنے حواس ہیں ؟ “

ہشام: ”میرے پانچ حواس ہیں“۔(سامعہ ،باصرہ، ذائقہ ،لامسہ اور شامہ )

امام علیہ السلام: ”ان میں سب سے چھوٹی حس کون سی ہے ؟ “

ہشام: ”باصرہ“۔

امام علیہ السلام: ”آنکھوں کا وہ ڈھیلا جس سے دیکھتے ہو، کتنا بڑا ہے ؟ “

ہشام: ”ایک چنے کے دانے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹا ہے“۔

امام علیہ السلام: ”اے ہشام ! ذرا اوپر اور سامنے دیکھ کر مجھے بتاو کہ کیا دکھتے ہو ؟“

ہشام نے دیکھا اور کہا: ”زمین، آسمان ،گھر، محل ،بیابان ،پہاڑ اور نہروں کو دیکھ رہا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”جو خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس پوری دنیا کو تمہاری چھو ٹی سے آنکھ میں سمو دے وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے اور نہ دنیا چھوٹی ہو نہ انڈہ بڑا ہو۔

ہشام نے جھک کر امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہاتھ اور پیروں کا بوسہ دیتے ہوئے کہا: ”اے فرزند رسول ! بس یہی جواب میرے لئے کافی ہے“۔( ۱ )

ہشام اپنے گھر آئے اور دوسرے ہی دن عبد اللہ ان سے جاکر کہنے لگا:“۔میں سلام عرض کرنے آیا ہوں نہ کہ اپنے سوال کے جواب کے لئے“۔

ہشام نے کہا: ”تم اگر اپنے کل کے سوال کا جواب چاہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے، اس کے بعد آپ نے امام علیہ السلام کا جواب اسے سنا دیا۔

عبد اللہ دیصانی نے فیصلہ کیا کہ خود ہی امام کی خدمت میں پہنچ کر اپنے سوالات پیش کرے۔

وہ امام کے گھر کی طرف چل پڑا، دروازے پر پہنچ کر اس نے اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوگیا۔اندر جانے کے بعد وہ امام کے قریب آکر بیٹھ گیا اورا پنی بات شروع کرتے ہوئے کہنے لگا:

”اے جعفر بن محمد مجھے میرے معبود کی طرف جانے کا راستہ بتا دو“۔

امام علیہ السلام نے پوچھا:

”تمہارا نام کیا ہے ؟ “

عبد اللہ باہر نکل گیا اور اس نے نام نہیں بتایا۔اس کے دوستوں نے اس سے کہا:

تم نے اپنا نام کیوں نہیں بتایا؟“

اس نے جواب دیا:

”میں اگر اپنا نام عبد اللہ (خدا بندہ )بتاتا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ تم جس کے بندہ ہو ، وہ کون ہے ؟

عبد اللہ کے دوستوں نے کہا:

”امام علیہ السلام کے پاس واپس جاواور ان سے یہ کہو آپ مجھے میرے معبود کا پتہ بتائیں اور میرا نام نہ پوچھیں“۔

عبد اللہ واپس گیا اور جا کر امام علیہ السلام سے عرض کیا:

”آپ مجھے خدا کی طرف ہدایت کریں مگر میرا نام نہ پوچھیں“۔

امام علیہ السلام نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے فرمایا:

”وہاں بیٹھ جاو“۔

عبد اللہ بیٹھ گیا۔اسی وقت ایک بچہ ہاتھ میں ایک انڈا لئے کھیلتا ہوا وہاں پہنچ گیا ،امام علیہ السلام نے بچہ سے فرمایا:

لاو انڈہ مجھے دے دو“۔

امام علیہ السلام نے انڈہ کو ہاتھ میں لے کر عبد اللہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”اے دیصانی !اس انڈہ کی طرف دیکھ جو ایک چھلکے سے ڈھکا ہوا ہے اور چند جھلیوں میں مقید ہے۔

۱ ۔موٹی جھلی۔

۲ ۔موٹی جھلی کے نیچے نازک اور پتلی جھلی پائی جاتی ہے۔

۳ ۔اور نازک اور پتلی جھلی کے نیچے پگھلی ہوئی چاند ی(انڈہ کی سفیدی ) ہے۔

۴ ۔اس کے بعد پگھلا ہوا سونا (انڈے کی زردی)ہے مگر نہ یہ اس پگھلی ہوئی چاندی سے ملتا ہے اور نہ وہ پگھلی ہوئی چاندی اس سونے میں ملی ہوتی ہے بلکہ یہ اپنی اسی حالت پر باقی ہے نہ کوئی اس انڈے سے باہر آیا ہے جو یہ کہے کہ میں نے اسے بنایا ہے اور نہ ہی باہر سے کوئی اندر ہی گیا ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ میں نے اسے تباہ کیا ہے ،نہ یہ معلوم کہ یہ نر کے لئے ہے یامادہ کے لئے اچانک کچھ مدت کے بعد یہ شگافتہ ہوتا ہے اور اس میں سے ایک پرندہ مور کی طرح رنگ برنگ پروں کے ساتھ باہر آجاتا ہے کیا تیری نظر میں اس طرح کی ظریف وباریک تخلیقات کے لئے کوئی مدبر و خالق موجود نہیں ہے ؟ “

عبد اللہ دیصانی نے یہ سوال سن کر تھوڑی دیر تک سر جھکائے رکھا(اس کے قلب میں ایمان روشن ہو چکا تھا )اور پھر اس نے بلند آواز میں کہا: ” میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے وہ وحدہ لاشریک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماس کے رسول ہیں اور آپ خدا کی طرف سے لوگوں کے امام معین کئے گئے ہیں، میں اپنے باطل عقیدہ سے توبہ کرتا ہوں اور پشیمان ہوں۔( ۲ )

۱۷۔ایک ثنوی کو امام علیہ السلام کا جواب

ایک ثنوی (دو خدا کا عقیدہ رکھنے والا) امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آکر اپنے عقیدہ کے اثبات میں گفتگو کرنے لگا، اس کا عقیدہ یہ تھا کہ اس جہان ہستی کے دو خدا ہیں، ایک نیکیوں کا خدا ہے اور دوسرابرائیوں کا۔

اگر تو یہ کہتا ہے کہ خدا دو ہیں تو وہ ان تین تصورات سے خارج نہیں ہو سکتے:

۱ ۔یا دونوں طاقتور اور قدیم ہیں۔

۲ ۔یا دونوں ضعیف و ناتواں ہیں۔

۳ ۔یا ایک قوی و مضبوط اور دوسرا ضعیف و ناتواں ہے۔

پہلی صورت کے مطابق ،کیوں پہلا خدا دوسرے کی خدائی کو ختم نہیں کر دیتا تاکہ وہ اکیلا ہی پوری دنیا پر حکومت کرے ؟(یہ نظام کائنات جو ایک ہے اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ اس کا حاکم بھی ایک ہے ،جو قوی و مطلق ہے)

تیسری صورت بھی اس بات کی دلیل بن رہی ہے کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور ہماری بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہم اسی کو خدا کہتے ہیں جو قوی ومضبوط ہے اور دوسرا اس لئے خدا نہیں کیونکہ وہ ضعیف و ناتواں ہے ،اور یہ اس کے خدا نہ ہونے کی دلیل ہے۔

دوسری صورت میں (اگر دونوں ضعیف وناتواں ہوں)یا دونوں کسی ایک جہت سے متفق ہوں اور دوسری جہت سے مختلف( ۳ ) تو اس صورت میں لازم آتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک (مابہ الامتیاز ہو) ( یعنی ان دونوں خداوں میں ایک خدا کے پاس کوئی ایک شئے ہے جو دوسرے کے پاس نہ ہو) اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ ( مابہ الامتیاز )ا مر وجودی قدیم ہو (یعنی وہ شئے اس میں ہمیشہ پائی جاتی ہو ) اور شروع سے ہی وہ ان دوخداوں کے ساتھ موجود رہے تاکہ ان کی ”دوئیت“ صحیح ہو۔

اس صورت میں ”تین خدا وجود میں آجائیں گے اور اسی طرح چار خدا پانچ خدا اور اس سے بھی زیادہ ،بلکہ بے انتہا خداوں کا معتقد ہونا پڑے گا۔

ہشام کہتے ہیں: اس ثنوی نے دوگانہ پر ستی سے ہٹ کر اصل وجود خدا کی بحث شروع کردی اس کے سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا: ”خدا کے وجود پر آپ کی کیا دلیل ہے ؟“

امام جعفرصادق علیہ السلام: ”دنیا کی یہ تمام چیزیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ ان کا کوئی بنانے والا ہے جیسے تم جب کسی اونچی اور مضبوط عمارت کو دیکھتے ہو تو تمہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے بھلے ہی تم نے اس کے معمار کو نہ دیکھا ہو“۔

ثنویہ: ”خدا کیا ہے ؟ “

امام علیہ السلام: ”خدا ،تمام چیزوں سے ہٹ کر ایک چیز ہے اور دوسرے الفاظ میں اس طرح کہ وہ تمام چیزوں کے معنی ومفہوم کو ثابت کرتا ہے اوروہ تمام کی حقیقت ہے لیکن جسم اور شکل نہیں رکھتا اور وہ کسی حس سے نہیں سمجھا جا سکتا ،وہ خیالوں میں نہیں ہے اور زمانہ کے گزرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتااور نہ ہی وہ اسے بدل سکتا ہے۔( ۴ )

۱۸۔ منصور کے حضور میں امام جعفر صادق علیہ السلام اور ابو حنیفہ کا مناظرہ

ابن شہر آشوب ،مسند ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسن بن زیاد نے کہا: ابو حنیفہ (حنفی مذہب کے رہبر ) سے سوال کیا گیا کہ تم نے ابھی تک جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ عظیم فقیہ کون ہے ؟

ابو حنیفہ نے جواب میں کہا: ”لوگوں میں سے سب سے زیادہ عظیم فقیہ جعفر بن محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام )ہیں، منصور دوانقی (عباسی حکومت کا دوسر ا خلیفہ ) جب امام کو اپنے پاس لے گیا تھا تو اس نے میرے پاس اس طرح پیغام بھیجا:

اے ابو حنیفہ !جعفر بن محمد (امام جعفر صاد ق علیہ السلام ) کو لوگ بہت زیادہ چاہنے لگے ہیں تم کچھ سخت و پیچیدہ سوالات آمادہ کرو، اور ان سے مناظرہ کرو“۔ (تاکہ وہ ان کے جواب نہ دے پائیں اور اس طرح ان کی مبقولیت میں کمی ہو جائے ) میں نے چالیس سوالات تیار کئے جس کے بعد منصور نے شہر ”حیرہ“(بصرہ اور مکہ کے درمیان )میں مجھے حاضر ہونے کے لئے کہا ،میں ان کے پاس گیا تو دیکھا امام جعفر صادق علیہ السلام اس کے داہنے جانب بیٹھےے ہوئے ہیں ،جیسے ہی میری نظر امام جعفر صادق علیہ السلام پر پڑی میں ان کی عظمت وجلالت سے اتنا مرعوب ہوا کہ اتنا آج تک منصور سے نہیں ہوا تھا۔میں نے منصور کو سلام کیا ، اس نے مجھے بیٹھنے کا اشا رہ کیا، میں بیٹھ گیا پھر منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف رخ کر کے کہا: ”اے ابا عبد اللہ !یہ ابو حنیفہ ہے“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں میں اسے پہچانتا ہوں“۔

اس کے بعد منصور نے میری طرف رخ کر کے کہا: ”اے ابو حنیفہ تو اپنے سوالات پیش کر“۔

میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنا ایک ایک سوال پوچھ ڈالا انھوں نے ان سب کا جواب دیا اور آپ جواب کے دوران فرماتے تھے“۔اس مسئلہ میں تم اس طرح کہتے ہو ،اہل مدینہ اس طرح کہتے ہیں ،ان کے بعض جوابات میرے نظریئے کے مطابق تھے اور بعض اہل مدینہ کے اور بعض دونوں کے مخالف تھے۔

یہا ں تک کہ میں نے اپنے چالیس سوالات کر ڈالے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر سوال کا جواب بطور احسن واکمل دیا، اس کے بعد ابو حنیفہ کہتا ہے:

الیس اعلم الناس ،اعلمهم باختلاف الناس ۔“

”کیا سب سے زیادہ آگاہ اور دانشور شخص وہ نہیں ہے جو لوگوں کے مختلف نظریوں کو سب سے زیادہ جانتا ہو“۔( ۵ )

۱۹۔ایسا مناظرہ جس نے ایک ”خدا نما “کو بے بس کردیا

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں”جعد بن درہم “نامی ایک شخص تھا جس نے اسلام کے خلاف بہت سی بدعتیں ایجاد کی تھیں اور اس نے چند لوگوں کو اپنا شاگرد بنا لیا تھا۔آخر کار اسے عید قربان کے دن سزائے موت دے دی گئی۔

اس نے ایک دن تھوڑی خا ک اور پانی لے کر ایک شیشی میں ڈالا چند دنوں بعد اس میں کیڑے مکوڑے پیدا ہو گئے۔وہ شیشی لے کر لوگوں کے درمیان آکر یہ دعویٰ کرنے لگا۔ان کیڑے مکوڑوں کو میں نے پیدا کیا ہے ،چونکہ ان کی پیدائش کا سبب میں بنا ہوں لہٰذا میں ہی ان کا خالق و خدا ہوں“۔

چند مسلمانوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اس سے پوچھو کہ شیشی میں کیڑوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اس میں نر و مادہ کتنے ہیں ،ان کا وزن کتنا ہے ؟اس سے کہو کہ ان کی شکل بدل دے ، کیونکہ جو ان کا خالق ہوگا وہ اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہوگا کہ ان کی شکل بدل دے“۔

ان چند مسلمانوں نے اس سے انھیں سوالات کے ذریعہ مناظرہ کیا اور وہ ان کے جوابات سے قاصر رہا اس طرح اس کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا اور اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔( ۶ )

۲۰۔تم یہ جواب حجاز سے لے آئے ہو

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں بہت ہی مشہور و معروف ،ابو شاکر دیصانی نام کا ایک شخص تھا جو توحید کا انکار کرتا تھا اور اس بات کا معتقد تھا کہ ایک نور کا خدا ہے اور دوسرا ظلمت کا۔وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتا تھا کہ اپنی کلامی بحث چھیڑ کر اپنے عقیدے کو ثابت کرے اور اسلام کو نیچا دکھائے، اس نے عقیدہ دیصانیہ کی بنیا د ڈالی تھی اوراس کے کچھ شاگرد بھی تھے۔یہاںتک کہ ہشام بن حکم بھی کچھ دنوں تک اس کے شاگرد رہے تھے، ہم یہاں پر اس کے اعتراض کا ایک نمونہ نقل کرتے ہیں تو جہ فرمائیں:

ابو شاکر نے خود اپنی فکر کے مطابق قرآن کریم میں ایک قابل اعتراض بات ڈھونڈ نکالی۔ایک روز اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد ہشام بن حکم سے کہا: ”مجھے قرآن میں ایک ایسی آیت ملی ہے جو ہمارے عقیدے (ثنویہ) کی تصدیق کرتی ہے“۔

ہشام: ”کس آیت کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ “

ابو شاکر: ”سورہ زخرف کی ۸۴ ویں آیت پڑھتا ہوں:

( وَهُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِی الْاٴَرْضِ إِلَهٌ )

”اور جو آسمان میں خدا ہے اور زمین میں خدا ہے“۔

اس بنا پر ایک معبود آسما ن کا ہے اور دوسرا زمین کا ہے۔

ہشام کہتے ہیں: ”میں سمجھ نہیں سکا کہ اس کا جواب کس طرح دوں، لہٰذا اسی سال میں جب خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوا تو میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں جا کر یہ مسئلہ پیش کردیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”یہ ایک بے دین خبیث کی بات ہے جب تم واپس جاو تو اس سے پوچھو کہ کوفے میں تیرا کیا نام ہے ؟وہ کہے گا فلاں، ”تم پھر کہو “: تیرا بصرہ میں کیانام ہے؟ ”وہ کہے گا کہ فلاں، تب تم اس سے کہو ”ہمارا پروردگار بھی اسی طرح ہے ، آسمان میں اس کا نام ”الہ“ ہے اور زمین میں بھی اس کا نام ”الہ “ہے بیشک دریاوں صحراوں اور ہر جگہ کا وہی معبود الہ ہے“۔

ہشام کہتے ہیں: ”جب میں واپس لوٹا تو ابو شاکر کے پاس جاکر میں نے اسے یہ جواب سنا دیا۔

اس نے کہا: ”یہ تمہاری بات نہیں ہے، تم اسے حجاز سے لے آئے ہو“۔( ۷ )

۲۱۔امام علیہ السلام کے شاگردوں کا ایک مردشامی سے مناظرہ

امام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانہ میں شام کا ایک دانشور( ۸ ) (مکہ ) میںآپ کی خدمت میں پہنچا اور اپنا تعارف اس نے اس طرح کرایا: ”میں علم کلام،علم فقہ اور احکام الٰہی کو اچھی طرح سے جانتا ہوں اور میں یہاں آپ کے شاگردوں سے بحث ومناظرہ کے لئے حاضر ہوا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”تیری باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث پر مبنی ہوں گی یا تیری خود کی ہوں گی؟“

شامی دانشور: ”پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیثیں بھی ہوں گی اور میری کچھ ذاتی باتیں بھی ہوں گی“۔

امام علیہ السلام: ”تو پھر تو پیغمبر کا شریک کار ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں میں ان کا شریک نہیں ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”کیا تجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں“۔

امام علیہ السلام: ”کیا تو جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت واجب جانتا ہے اسی طرح اپنی بھی اطاعت واجب جانتا ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں میں اپنی اطاعت واجب نہیں جانتا“۔

اب امام جعفر صادق علیہ السلام انے ایک شاگرد (یونس بن یعقوب )کی طرف رخ کرکے فرمایا:

”اے یونس ! اس شخص نے بحث ومناظرہ شروع کرنے سے پہلے ہی شکست کھالی (کیونکہ اس نے بغیر کسی دلیل کے اپنی بات کو حجت سمجھا ،حجت جانا ) اے یونس ! اگر تم علم کلام( ۹ ) اچھی طرح جانتے تو اس شامی مرد سے مناظرہ کرتے“۔

یونس: ”افسوس کہ میں علم کلام سے آگاہی نہیں رکھتا میں آپ پر فدا ہوں آپ نے علم کلام سے منع فرمایا اور کہا ہے: ”قابل افسوس ہیں وہ لوگ جو علم کلام سے سروکار رکھتے ہیں اور کہتے ہیں “یہ صحیح ہے ،یہ غلط ہے۔یہ بات نتیجہ تک پہنچتی ہے ،یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور یہ چیز سمجھ میں نہیں آتی“۔

امام علیہ السلام: ”میں نے جو منع کیا تھا وہ اس صورت میں تھا کہ اسے اختیار کرنے والے ہماری باتوں کو چھوڑدیں اور جو خود جانتے ہیں اسی پر تکیہ کریں۔ اے یونس ! باہر جاو اور دیکھو اگر علم کلام جاننے والا میرا کو ئی شاگرد ہو تو اسے یہاں لے آو“۔

یونس: ”میں باہر گیا اور تین افراد (حمران بن اعین ،مومن الطاق احول اور ہشام بن حکم )جو علم کلام میں کافی مہارت رکھتے تھے انھیں لے کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ ساتھ میں نے قیس بن ماصر کو بھی لے لیا جو میری نظر میں علم کلام میں ان تمام لوگوں سے زیادہ ماہر تھے اور انھوں نے امام سجاد علیہ السلام سے یہ علم حاصل کیا تھا۔جب سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ گئے تو امام جعفر صادق علیہ السلام خیمے سے باہر آئے یہ وہی خیمہ تھا جو کہ مکہ میں حرم کے بغل میں آپ کے لئے لگایاگیا تھا اور آپ حج شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی سے وہاں رہنے لگے تھے تبھی امام کی نظر ایک ایسے اونٹ پر پڑی جو دوڑتے ہوئے آرہا تھا امام نے فرمایا: ”خدا کی قسم اس اونٹ پر ہشام سوار ہو کر آرہے ہیں“۔

لوگوں نے سوچا کہ امام کی مراد عقیل کے بیٹے ہیں کیونکہ امام انھیں بہت چاہتے تھے اچانک لوگوں نے دیکھا کہ اونٹ نزدیک ہوا اور اس پر” ہشام بن حکم“سوار تھے (امام کے ایک بہترین شاگرد) وہ اس وقت نوجوان تھے اور ابھی جلدی ہی ان کی ڈارھی نکلی تھی موجودہ لوگوں میں ان کی عمر سب سے کم تھی تقریبا ً سبھی ان سے بڑے تھے۔امام نے ہشام کو جیسے ہی دیکھا بڑے پر جوش انداز میں ان کا استقبال کرتے ہوئے جگہ دی اور ان کی شان میں یہ حدیث فرمائی:

ناصرنا بقلبه ولسانه ویده “۔

ہشام قلب و زبان اور اپنے تمام اعضاء سے ہمارا ناصر ومددگار ہے“۔

اسی وقت امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے تمام موجود شاگردوں میں سے ایک ایک سے فرمایا: ”اس شامی دانشور سے تم لوگ بحث ومناظرہ کرو“۔ آپ نے خصوصی طور پر حمران سے فرمایا: ”شامی مرد سے مناظرہ کرو“۔انھوں نے اس سے مناظرہ کیا ابھی چند لمحے نہیں گزرے تھے کہ شامی، حمران کے سامنے بے بس ہو گیا اس کے بعد امام علیہ السلا م نے مومن الطاق( ۱۰ ) سے فرمایا: ”طاق مرد شامی سے مناظرہ کرو“۔انھوں نے مرد شامی سے مناظرہ شروع کیا ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ طاق مرد شامی پر کامیاب و کامران ہوگئے۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے ہشام بن سالم سے فرمایا: ”تم بھی شامی مرد سے باتیں کرو“، وہ بھی گئے اور اس سے باتیں کی لیکن ہشان بن سالم مرد شامی پر غالب نہیں آئے بلکہ دونوں برابر رہے“۔

اب امام علیہ السلام نے قیس بن ماصر سے فرمایا: ”تم جا کر اس سے مناظرہ کرو“۔قیس نے شامی سے مناظرہ شروع کیا امام علیہ السلام اس مناظرہ کو سن رہے تھے اور مسکرارہے تھے کیونکہ شامی مرد قیس کے مقابل بے بس ہو گیا تھا اور اس کی بے بسی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے جسے اچھی طرح دیکھا جا سکتا تھا۔( ۱۱ )

۲۲۔شامی دانشورسے ہشام کا زبردست مناظرہ

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مکہ میں شامی دانشور اور اپنے شاگردوں کے درمیان ہوئے مناظرہ میں (جس کی تفصیل اس سے پہلے مناظرہ میں گزرچکی ہے) ایک جوان نے (ہشام بن حکم) کی طرف رخ کر کے فرمایا: ”اس سے مناظرہ کرو“۔شامی دانشور مناظرہ کے لئے تیار ہو گیا اس طرح ہشام بن حکم اورشامی دانشور کا مناظرہ شروع ہوا۔

شامی دانشور (ہشام کی طرف رخ کر کے )اے جوان! اس مرد (امام جعفر صادق علیہ السلام) کی امامت کے سلسلہ میں مجھ سے سوال کر(میں تجھ سے اس شخص کے بارے میں باتیں کرنا چاہتا ہوں )“

ہشام امام کی شان میں گستاخی اور بے ادبی سے)اس قدر غصہ ہوئے کہ ان کابدن کانپنے لگا اور اسی حالت میں انھوں نے شامی دانشور سے کہا: ”کیا تیرا پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں خیر و سعادت زیادہ چاہتا ہے یا خود بندہ اپنے بارے میں بہتر سمجھتے ہیں ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں بلکہ پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں ان سے زیادہ خیر وسعادت چاہتا ہے“۔

ہشام: ”خدا وند متعال نے انسانوں کی خیر وسعادت کے لئے کیا کیا ہے ؟ “

شامی دانشور: ”خدا وند متعال نے اپنی حجت کو ان پر معین کیا ہے تاکہ وہ منتشر نہ ہونے پائیں وہ اپنے بندوں میں اپنی حجت کے ذریعہ الفت ومحبت پیدا کرتا ہے تاکہ ان کی بے سرو سامانی اس دوستی اور الفت کی وجہ سے ختم ہو جائے اور اس طرح خداوند متعال اپنے بندوں کو قانون الٰہی سے آگاہ کرتا ہے“۔

ہشام: ”وہ حجت کون ہے ؟ “

شامی دانشور: ”وہ رسول خدا ہیں“۔

ہشام: ”رسول خدا کے بعد کون ہے ؟ “

شامی دانشور: ”پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد قرآن وسنت حجت خدا ہیں“۔

ہشام: ”کیا قرآن وسنت آج ہمارے اختلاف کو ختم کرنے میں سود مند ثابت ہو سکتے ہیں؟ “

شامی دانشور: ”ہاں“۔

ہشام: ”پھر ہمارے تمہارے درمیان کیوں اختلاف ہے جس کی وجہ سے تم شام سے یہاں مکہ آئے ہو ؟ “

شامی دانشوراس سوال کے جواب میں خاموش ہو گیا امام جعفرصادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ”کیوں نہیں کچھ بولتے ؟ “

شامی دانشور: ”اگر ہشام کے سوال کا جواب میں اس طرح دوں کہ قرآن وسنت ہمارے اختلاف کو ختم کرتے ہیں تو یہ بے ہودہ بات ہوگی کیونکہ الفاظ قرآن سے طرح طرح کے معنی مراد لئے جاتے ہیں۔اور اگر کہوں کہ ہمارا اختلاف قرآن و سنت کے سمجھنے میں ہے تو اس طرح میرے عقیدہ کو ضرر پہنچتا ہے اور اگر ہم دونوں کے دونوں دعویٰ کریں کہ ہم حق پر ہیں تو اس صورت میں بھی قرآن و سنت ہم دونوں کے اختلاف میں کسی طرح سود مند ثابت نہیں ہو سکتے ہیں لیکن یہی (مذکورہ دلیل) میرے عقیدہ کے لئے نفع بخش ہو سکتی ہے مگر ہشام کے عقیدہ کے لئے نہیں“۔

امام علیہ السلام: ”اس مسئلہ کو ہشام (جو علم وکمال سے سر شار ہے )سے پوچھو وہ تمہیں قانع کنندہ جواب دیں گے“۔

شامی دانشور: ”آیا خدا وند متعال نے کسی کو عالم بشریت کے لئے بھیجا ہے تاکہ لوگ آپس میں متحد و ہم آہنگ رہیں ؟اور وہ ان کے اختلاف کو ختم کرے اور انھیں حق وباطل کے بارے میں توضیح دے ؟

ہشام: ” رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانے میں یا آج ؟ “

شامی دانشور: ”رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں تو وہ خو دتھے لیکن آج وہ شخص کون ہے ؟ “

ہشام نے ،امام علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”یہ شخص جو مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر جگہ سے لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور یہی حجت خدا اور ہمارے تمہارے اختلاف کو ختم کرنے والے ہیں کیونکہ یہ وارث علم نبوت ہیں جو ان کے باپ دادا سے انھیں ملا ہے اور یہی ہیں جو زمین وآسمان کی باتوں کو ہمیں بتاتے ہیں“۔

شامی دانشور: ”میں کس طرح سمجھوں کہ یہ شخص (امام جعفر صادق علیہ السلام )وہی حجت حق ہے“۔

ہشام: ”جو بھی چاہو پوچھ لوتاکہ ان کے حجت خدا ہونے پر تمہیں دلیل مل جائے“۔

شامی دانشور: ”اے ہشام ! تم نے یہ کہہ کر میرے لئے کسی طرح کا کوئی عذر نہیں چھوڑا ہے، اب مجھ پر واجب ہے کہ میں سوال کروں اور حقیقت تک پہنچوں“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام: ”کیا تم یہی جاننا چاہتے ہو کہ شام سے یہاں تک کہ سفر کے دوران تمہیں کیا کیا چیزیں پیش آئیں ؟ اور امام علیہ السلام نے اس کے سفر کی کیفیت کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیانات سے شامی دانشور حیرت زدہ ہو گیا تھا اور اب اس نے حقیقت کو پالیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت اس کے قلب میں ایمان کا چراغ روشن ہوگیا اور بڑی خوشی کے ساتھ اس نے کہا: ”آپ نے سچ کہا، خدا کی قسم میں اب (حقیقی) اسلام لایا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”بلکہ ابھی ابھی تو خدا پر ایمان لے آیااور اسلام ،ایمان سے پہلے ہے۔اسلام کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں اور آپس میں شادیاں کرتے ہیں لیکن ایمان کے ذریعہ لوگ خدا کے یہاں اجر وثواب کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ اجر وثواب ایمان پر ہی ہے تو بھی مسلمان تھا لیکن ہماری امامت کو قبول نہیں کرتا تھا اور اب ہماری امامت کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے تمام نیک اعمال کے ثواب کے لائق ہو گیا ہے۔

شامی دانشور: ”آپ نے صحیح فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور آپ ان کے جانشین ہیں“۔

اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں سے ان کے مناظرہ کی کیفیت اس طرح بیان کی:

آپ نے حمران سے فرمایا: ”تم اپنی بات کو احادیث سے ہم آہنگ کرتے ہو اور اس طرح حق تک پہنچ جاتے ہو“۔اور ہشام بن سالم سے فرمایا: ”تم احادیث کو حاصل کرنے میں کافی جستجو اور سعی کرتے ہو لیکن اس کے حاصل کر نے اور اسے سمجھنے کی صحیح صلاحیت نہیں رکھتے“۔اسی طرح آپ نے مومن الطاق سے فرمایا: ”تم قیاس اور تشبیہ کے ذریعہ بحث شروع کرتے ہو اور موضوع بحث سے ہٹ جاتے ہو تم باطل کو باطل ہی کے ذریعہ ردّ کرتے ہو اور تمہارا باطلی استدلال بہت ہی زربردست ہوتا ہے۔اور آپ نے قیس بن ماصر سے فرمایا: ”تم اس طرح بات کرتے ہو کہ اپنی بات کو حدیث کے قریب کرنا چاہتے ہو لیکن دور ہو جاتے ہو، حق کو باطل کے ساتھ اس طرح مخلوط کردیتے ہو کہ تھوڑا سا حق بہت سی باطل چیزوں سے انسان کو بے نیاز کر دیتا ہے، تم اور مومن طاق بحث کے دوران ایک طرف سے دوسری طرف بھا گتے ہو اور تم دونوں اس میں اچھی خاصی مہارت رکھتے ہو“۔

یونس کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ امام علیہ السلام نے جو قیس اور مومن کے سلسلہ میں کہا ہے وہی ہشام کے بارے میں بھی کہیں گے لیکن آپ نے ہشام کی بڑی تعریف کی اور ان کی شان میں فرمایا:

یا هشام لا تکاد تقع تلوی رجلیک إذا هممت بالارض طرت “۔

”اے ہشام ! تمہارے دونوں پیر کبھی زمین پر ٹکنے نہیں پاتے جیسے ہی تم شکست کے قریب پہنچتے ہو فورا ً اڑجاتے ہو“۔

(یعنی جیسے ہی تم اپنے اندر لا چاری اور شکست کے آثار محسوس کرتے ہو بڑی مہارت سے خود کو بچالیتے ہو۔)

اس کے بعد آپ نے ہشام سے فرمایا: ”تم جیسے لوگوں کو مقرروں سے مناظرہ کرنا چاہئے اور یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ بحث کے دوران لغزش نہ ہونے پائے کیونکہ خداوند متعال اس طرح کے مناظرہ اور بحث میں ہماری مدد کو پہنچتا ہے تاکہ ہم اس کے مسائل کو واضح کر سکیں۔( ۱۲ )

اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہشام بن حکم کے بارے میں فرمایا:

”ہشام ہمارے حق کا دفاع کرنے والے، ہمارے نظریات کو لوگوں تک پہنچانے والے، ہماری حقانیت کو ثابت کرنے والے اور بیہودہ باتیںاور لغو کلام کرنے والے دشمنوں کا دندان شکن جواب دینے والے ہیں ،جس نے ہشام بن حکم کی پیروی کی اور ان کے افکار میں غور خوض کیا اس نے گویا ہماری پیروی کی اور جس نے ان کی مخالفت کی اس نے ہماری مخالفت کی“۔( ۱۳ )

۲۳۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حضور ایک جاثلیق کا مسلمان ہونا

امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد ہشام بن حکم وغیرہ سے شیخ صدوق علیہ الرحمةنے روایت کی ہے کہ ایک بہت ہی پڑھا لکھا عیسائی تھا جس کا نام ”بریھہ“تھا لیکن اسے لوگ ”جاثلیق“( ۱۴ ) کہا کرتے تھے۔وہ ستر سال سے مذہب عیسائیت پر باقی تھا اور وہ برابر اسلام اور حق کی تلاش میں جستجو اور کوشش کرتا رہتا تھا۔اس کے ساتھ ایک عورت رہتی تھی جو سالہا سال سے اس کی خدمت کرتی چلی آرہی تھی۔

بریھہ نے مذہب عیسائیت کے ہیچ اور گھٹیا استدلال کو اس عورت سے اس لئے چھپا رکھا تھا کہ وہ اس کے اس راز سے آگاہ نہ ہو سکے۔بریھہ برابر اسلام کے بارے میں سوالات کیا کرتا تھا اور اسلام کے راہبر علمائے صالح کی تلاش میں رہتا تھا اور اسلامی مفکروں کے حصول میں اس نے کافی جستجو اور تحقیق کی تھی ہر فرقہ اور ہر گروہ میں جا کر ان کے عقائد کے سلسلہ میں تحقیق کرتا رہتا لیکن حق اس کے ہاتھ نہ آتا تھا۔

جاثلیق ان لوگوں سے کہتاہے: اگر تمہارے راہنما حق پر ہوتے تو تم میں بھی تھوڑا بہت حق ضرور پایا جاتا۔

یہاں تک کہ اس نے اپنی جستجواور تحقیق کے درمیان شیعوں کے بارے میں اور ہشام بن حکم کا نام سنا۔

یونس بن عبد الرحمن (امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد )کہتے ہیں کہ ہشام نے کہا: ”ایک روز میں اپنی دکان (جو باب الکرخ میں واقع تھی) پر بیٹھا ہوا تھا اور کچھ لوگ مجھ سے قرآن پڑھ رہے تھے کہ نا آگاہ دیکھا کہ عیسائیوں کا ایک گروہ بریھہ کے ساتھ چلا آرہا ہے جس میں بعض پادری تھے اور بعض دوسرے مختلف مذہبی منصب دار تھے وہ تقریبا ً سو افراد تھے، کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سروں پر عیسائیت کی مخصوص لمبی ٹوپیاں لگائے تھے۔بریھہ جاثلیق اکبر بھی ان لوگوں کے درمیان موجود تھا وہ سب میری دوکان کے پاس اکٹھا ہو گئے اور بریھہ کے لئے ایک مخصوص کرسی لگائی گئی وہ اس پر بیٹھ گیا۔اس کے دوسرے ساتھی اپنے اپنے عصاو ں پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔

بریھہ نے کہا: ”مسلمانوں میں کوئی ایسا علم کلام کامشہور عالم نہیں ہے جس سے میں نے عیسائیت مذہب کی حقانیت کے بارے میں بحث نہ کی ہو مگر میں نے ان میں ایسی چیز نہیں پایا جس سے میں شکست کھا جاوں، اب میں تیرے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ اسلام کی حقانیت کے بارے میں تجھ سے مناظرہ کروں“۔

یونس نے ہشام اور جاثلیق کے درمیان ہونے والے پورے مناظرہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد کہا: ”تمام نصرانی ادھر ادھر بکھر گئے۔وہ آپس میں کہہ رہے تھے ”اے کاش !ہم ہشام کے سامنے نہ آئے ہوتے “بریھہ بھی واقعہ کے بعد بہت غم زدہ ہوا وہ اپنے گھر واپس آیا اور جو عورت اسکی خدمت کرتی تھی اس نے اس سے کہا: ”کیا وجہ ہے کہ میں تجھے غمگین و پریشان دیکھ رہی ہوں ؟ “

بریھہ نے ہشام کے ساتھ ہوئے مناظرہ کی تفصیل اسے بتادی اور کہا کہ میرے غم زدہ ہونے کی وجہ یہی ہے۔

اس عورت نے بریھہ سے کہا: ”وائے ہو تم پر!!تم حق پر رہنا چاہتے ہو یا باطل پر ؟ “

بریھہ نے جواب دیا: ”میں حق پر رہنا چاہتا ہوں“۔

اس عورت نے کہا: ”تمہیں جہاں بھی حق نظر آئے وہیں چلے جاو اور ہٹ دھرمی سے دور رہو کیونکہ یہ ایک طرح کا شک ہے اور شک بہت ہی بری چیز ہے اور شک کرنے والے جہنمی ہوتے ہیں“۔

بریھہ نے اس عورت کی بات کو قبول کر لیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ صبح ہوتے ہی ہشام کے پاس جائے گا۔ صبح ہوتے ہی وہ ہشام کے پاس پہنچ گیا اس نے دیکھا کہ ہشام کا کوئی ساتھی موجود نہیں ہے اس نے کہا: ”اے ہشام ! کیا تمہاری نظر میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی رائے کو تم بہتر جانتے ہو اور جس کی تم پیروی کرسکو؟“

ہشام نے کہا: ”ہاں اے بریھہ!“۔

بریھہ نے اس شخص کے اوصاف کے متعلق پوچھا اور ہشام نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے اوصاف بتا دیئے، بریھہ امام جعفر صادق علیہ السلا م سے ملاقات کا مشتاق ہو گیا لہٰذا ہشام کے ساتھ اس نے عراق سے مدینہ کا سفر اختیار کیا ،وہ خادمہ بھی ان کے ساتھ تھی ان کا ارادہ تو یہ تھا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام سے ملاقات کریںمگر آپ کے گھر کے دالان ہی میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملا قات ہو گئی۔

”ثاقب المناقب “کی روایت کے مطابق ہشام نے ان کو سلام کیا بریھہ نے بھی ان کی تقلید میں آپ کو سلام کیا اس کے بعد امام جعفرصاد ق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کی علت بتائی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اس وقت بہت کم عمر تھے(شیخ صدوق کی روایت کے مطابق ہشام نے بریھہ کی پورا واقعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو سنادیا )

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے جاثلیق کی گفتگو

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اے بریھہ ! تو اپنی کتاب انجیل کے بارے میں کس حد تک معلومات رکھتا ہے ؟ “

بریھہ: ”میں اپنی کتاب سے پوری طرح آگاہ ہوں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اس کے باطنی معنی پر کتنا اعتماد رکھتا ہے ؟ “

بریھہ: ”اتناہی جتنا مجھے اس پر عبور ہے“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے انجیل کی آیتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔

بریھہ امام سے اتنا مرعوب ہوگیا کہ وہ کہنے لگا: ”جناب مسیح آپ کی طرح انجیل کی تلاوت کیا کرتے تھے اس طرح کی تلاوت جناب عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہیں کرتا“۔اس کے بعد بریھہ نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی طرف رخ کر کے عرض کیا: ”میں پچاس سال سے آپ یا آپ جیسے کسی شخص کی تلاش میں تھا“۔ اس کے بعد بریھہ وہیں مسلمان ہوگیا اور اس کے بعد بھی وہ راہ اسلام پر بڑے استحکام کے ساتھ ڈٹا رہا اس کے بعد ہشام بریھہ کو اس عورت کے ساتھ لے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور ہشام نے پوری بات آپ کو بتائی اور اس خادمہ اور بریھہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بھی آپ کو سنا دیا۔

امام جعفرصادق علیہ السلام نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( ذُرِّیَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ )( ۱۵ )

”وہ لوگ ایسے فرزندان تھے جو ایک دوسرے سے لئے گئے تھے اور خدا سمیع وعلیم ہے“۔

بریہہ کی امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ گفتگو

بریھہ: ”میں آپ پر فدا ہوں، توریت وانجیل اور دوسرے پیغمبر وں کی کتابیں آپ کے پاس کیسے اور کہاں سے آئیں ؟ “

امام جعفر صادق علیہ السلام: ”یہ کتابیں ان کی طرف سے ہمیں وراثت میں ملی ہیں جو ہم ان لوگوں کی طرح ہی ان کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں خداوند عالم اس دنیا میں کسی ایسے کو اپنی حجت قرار نہیں دیتا کہ جب اس سے پوچھا جائے تو وہ یہ کہے: ”میں نہیں جانتا“۔

اس کے بعد بریھہ امام جعفرصاد ق علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہی رہنے لگا اور آخر کار امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں وفات پا گیا امام جعفر صادق علیہ السلا م نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے غسل وکفن دیا اور خود ہی اسے قبر میں لٹا کر فرمایا:

هذا حواری من حواری المسیح علیه السلام یعرف حق الله علیه

”یہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک تھا جو اپنے اوپر اللہ کے حق کو پہنچانتا تھا“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے اکثر اصحاب یہ آرزو کرتے تھے کہ اس کی طرح بلند مقام کے حامل ہو جائیں۔( ۱۶ )

۲۴۔امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام کے سامنے ابو یوسف کی لاچاری

مہدی عباسی بنی عباس کا تیسرا خلیفہ ایک دن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، ابو یوسف بھی (جو اہل بیت علیہم السلام کا پکا مخالف تھا ) اس بزم میں حاضر تھا اس نے مہدی عباسی کی طرف رخ کر کے کہا کہ مجھے موسیٰ بن جعفر سے چند سوال کرنے کی اجازت دیجئے تاکہ میرے سوال کے جواب نہ دینے کی وجہ سے وہ مجبور و لاچار ہو جائیں۔

مہدی عباسی نے کہا: ”میں اجازت دیتا ہوں“۔

ابو یوسف نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا: ”اجازت ہے کہ میں ایک سوال کروں ؟ “

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”سوال کر“۔

ابو یوسف نے کہا: ”جس نے حج کاا حرام باندھ رکھا ہو آیا اس کا سائے میں چلنا جائز ہے ؟ “

امام علیہ السلام نے کہا: ”جائز نہیں ہے“۔

ابو یوسف نے کہا: ”اگر کسی محرم نے زمین میں خیمہ نصب کر رکھا ہو تو کیا اس میں اس کاجانا جائز ہے؟“

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں جائز ہے“۔

ابو یوسف نے کہا: ”ان دونوں سایوں میں کیا فرق ہے کہ پہلے والے میں جائز نہیں اور دوسرے والے میں جائز ہے ؟ “

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ”عورت پر اپنی ماہواری کے زمانہ میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا واجب ہے ؟ “

ابو یوسف نے کہا: ”نہیں“۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”کیا عورت پر عادت کے زمانہ میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ہے ؟ “۔

ابو یوسف نے کہا: ”ہاں“۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اب تو یہ بتا کہ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے کہ پہلے میں عورت پر قضاواجب نہیںہے اور دوسرے میں قضا واجب ہے؟“

ابو یوسف نے کہا: ”احکام میں اسی طرح آیا ہے ؟ “

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”حج کے زمانہ میں احرام باندھ لینے والے کے لئے بھی اسی طرح کا حکم آیا ہے جیسا کہ میں نے بتایا شرعی مسائل میں قیاس درست نہیں ہے“۔

ابو یوسف اس جواب سے پانی پانی ہو گیا،مہدی عباسی نے اس سے کہا: ”انھیں شکست دینا چاہتا تھا مگر کامیاب نہ ہو پایا“۔

ابو یوسف نے کہا: ”رمانی بحجر دامغ “موسیٰ بن جعفر نے مجھے ہلاکت خیز پتھر سے قتل کر دیا جس کی وجہ سے میں بے بس ولاچار ہو گیا۔( ۱۷ )

۲۵۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا ہارون کے ساتھ مناظرہ

ہارون رشید خلفائے بنی عباس میںسے پانچواںخلیفہ تھا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ساتھ ایک گفتگو کے دوران اس نے امام علیہ السلا م کو مخاطب کر تے ہوئے کہا: ” آپ نے خاص و عام میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ آپ پیغمبر کی اولادہیں جب کہ آنحضرت کے کوئی بیٹا ہی نہیں تھا جس کے ذریعہ ان کی نسل آگے بڑھتی، اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نسل ہمیشہ بیٹے کی طرف سے آگے بڑھتی ہے اور آپ لوگ ان کی بیٹی کی اولاد میں سے ہیں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابھی ابھی حاضر ہو جائیں اور تیری لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تو کیا تو انھیں مثبت جواب دے گا ؟ “

ہارون: ”میں صرف مثبت جواب ہی نہیں دوں گا“۔بلکہ ان سے رشتہ جوڑکر میں عرب و عجم کے درمیان فخر کروں گا۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بیٹی کو پیغام نہیں دیں گے اور میں اپنی لڑکی کو ان کی زوجہ نہیں بنا سکتا“۔

ہارون: ”کیوں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اس لئے کہ میری ولادت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سبب سے ہے (کیونکہ میں ان کا نواسہ ہوں )لیکن تیری پیدائش میں وہ سبب نہیں بنے ہیں“۔

ہارون: ”واہ ! بہت اچھا جواب ہے، اب میرا یہ سوال ہے کہ آپ لوگ کیوں خود کو پیغمبر اکرم کی ذریت سے کہتے ہو جب کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی نسل ہی نہیں تھی کیونکہ نسل لڑکے سے چلتی ہے نہ کہ لڑکی سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کوئی لڑکا نہیں تھا اور آپ ان کی لڑکی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نہیں ہوگی ؟!

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”کیا میں جوا ب دوں ؟“

ہارون: ”ہاں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”خدا وند متعال قرآن مجید میں سورہ انعام کی ۸۴ ویں آیت میں ارشادفرماتا ہے:

( وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِنْ الصَّالِحِینَ )( ۱۸ )

”اور اس کی ذریت سے دادو،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون ہیں اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزادیا کرتے ہیں اور اسی طرح زکریا ویحیٰ و عیسیٰ والیاس یہ سب صالحین میں سے تھے“۔

اب میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کا کون باپ تھا ؟

ہارون: ”جناب عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی باپ نہیں تھا“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”جس طرح خداوند متعال نے مذکورہ آیت میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کو ماں کی طرف سے پیغمبروں کی ذریت میں قرار دیا ہے اسی طرح ہم بھی اپنی ماں جناب فاطمہ زہرا سلام للہ علیہا کی طرف سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذریت میں شامل ہیں“۔

اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”آیا میں اپنی دلیل اور آگے بڑھاوں؟“

ہارون نے کہا: ”ہاں بڑھایئے“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”خداوند متعال (مباہلہ کے متعلق )فرماتا ہے:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ )( ۱۹ )

”اب تمہارے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر کوئی (نصاریٰ)کٹ حجتی کرے تو ا ن سے کہہ دوکہ آئیں ہم اپنے بیٹوں کو لے آئیں تم اپنے بیٹوں کو ،ہم اپنی عورتوں کو لے آئیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو لے آئیں اور تم اپنے نفسوں کو، پھرمباہلہ کرکے جھوٹوں پر لعنت کریں“۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: ”آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آنحضرت نے مباہلہ کے وقت حضرت علی ،اور فاطمہ زہرا،امام حسن اور امام حسین (سلام اللہ علیہم)کے علاوہ انصار یامہاجرین میں سے بھی کسی کو ساتھ لیا ہو، اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”انفسنا“ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور ”ابنائنا“سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں۔خداوند متعال نے حسنین علیہما السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیٹے کہہ کر یاد کیا ہے۔

ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی واضح دلیل قبول کر لی اور کہا: بہت خوب اے موسیٰ۔( ۲۰ )

____________________

(۱) اس بات پر توجہ رہنا چاہئے کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے تعلق نہیں رکھتی۔اس جواب میں امام کا مقصد در اصل عوام کو قانع کرنا تھا جیسے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ کیا انسان اڑسکتا ہے ؟اور وہ اس کے جواب میں کہے: ”ہاں اڑ سکتا ہے وہ ایک ہوائی جہاز بنائے اور اس میں بیٹھ کر فضا میں پرواز کر سکتا ہے“۔امام ،آنکھ کے ڈھیلے کی مثال سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر تم قدرت خدا سمجھنا چاہتے ہو تو اس طرح سمجھو نہ کہ غیر معقول مثال کے ذریعہ کہ کیا خدا انڈہ میں پوری دنیا سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈہ بڑاہو یا یہ بھی کوئی محال کام نہیں ہے اور خدا اس بات پر قادر ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت محال ہے اور خدا محالات عقلیہ پر قدرت نہیں رکھتا یہ توایسا ہی ہوگا کہ ہم سوال کریں کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ وہ دو اور دو چار کے بجائے پانچ کر دے۔اس طرح کا سوال سراسر غلط ہے، اس مسئلہ کی مکمل تحقیق اور یہ کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے متعلق ہوتی ہے یا نہیں اس سلسلہ میں مختلف کلامی اور فلسفی بحثوں پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ۔

(۲) اصول کافی ، ص ۷۹ و۸۰۔

(۳) کیونکہ ان دونوں میں ہر جہت سے اختلاف کا فرض غلط ہے کیونکہ دو چیزیں بھلے (ایک ہی جہت سے )مانند و مثل ضرور رکھتی ہیں جیسے جہت وجود وہستی میں ہر موجود شئے ایک دوسرے کی مثل ومانند ہے ۔

(۴) اصول کافی ،حدیث ۵، ص۸۰و ۸۱ ج۱ ، تلخیص و توضیح اور مولف کی طرف سے نقل معنی کے ساتھ ۔

(۵) انوار البہیہ، ص ۱۵۲۔

(۶) سفینة البحار ،ج ۱،ص ۱۵۷۔

(۷) اصول کافی، ج۱، ص۱۲۸۔

(۸) شامی دانشور ایک سنّی عالم دین تھا ۔

(۹) علم کلام ایک ایسا علم ہے جو اصول عقائد میں عقلی ونقلی دلیلوں کے ذریعہ بحث کرتا ہے ۔

(۱۰) اس سے مراد ابو جعفر محمد بن علی بن نعمان کوفی ہیں جن کا لقب ”احول “تھا کوفہ کے محلہ طاق المحامل میں ان کی دکان تھی اسی لئے ان کو ”مومن طاق “کہتے تھے مگر ان کے مخالفین ان کو ”شیطان الطاق “کہا کرتے تھے (سفینة البحار ج۲، ص ۱۰۰)

(۱۱) اصو ل کافی ج۱، ص۱۷۱۔

(۱۲) اصول کافی ، ص ۱۷۲و ۱۷۳ ۔

(۱۳) الشافی سید مرتضی ،ص ۱۲۔تنقیح المقال ،ج ۳ ص۲۹۵۔

(۱۴) جاثلیق ،عیسائیت کی ایک بڑی شخصیت ہوتی ہے اس کے بعد ”مطران“کا درجہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ”اسقف “اور اسقف کے بعد” قیس“کا درجہ ہوتا ہے۔

(۱۵) سورہ آل عمران ، آیت ۳۴۔

(۱۶) انوار البھیہ ،ص۱۸۹ تا ۱۹۲۔

(۱۷) عیون اخبار الرضا ج۱، ص۷۸ سے اقتباس ۔

(۱۸) سورہ انعام، آیت ۸۴ و ۸۵۔

(۱۹) سورہآل عمران ، آیت ۶۱۔

(۲۰) احتجاج طبرسی ج۱،ص۱۶۳ سے ۱۶۵ سے اقتباس ،اسی بنا پر بعض لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تمام اولادجو قیامت تک ان کی نسل سے وجود میں آئے گی سید ہوگی اور رسول اسلام کی ذریت میں شمار ہوگی، لہٰذا اگر کسی کا باپ سید نہ ہو لیکن اس کی ماں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہو تو وہ سید ہوگا۔(غور کریں)، مولف۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات اقدس کو موضوع سخن قرار دینا اور آپ کی سیرت طیبہ پر قلم اٹھانا نہایت ہی دشوار امر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم امام کی معرفت و آشنائی سے متعلق مآخذ و مصادر بہت ہی ناقص اور نا مساعد ہیں ۔

اکثر محققوں اور سیرت نگاروں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ یہ عظیم ہستی محض ایک گوشہ نشین عابد و زاہد جیسی زندگی گزارتی رہی جس کو سیاست میں ذرہ برابر دلچسپی اور دخل نہ تھا ۔ بعض تاریخ نویسوں او ر سیرت نگاروں نے تو اس چیز کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور وہ حضرات جنھوں نے صاف صاف وضاحت کے ساتھ یہ بات نہیں کہی انھوں نے بھی امام علیہ السلام کی زندگی سے جو نتائج اخذ کئے ہیں اس سے مختلف نہیں ہیں چنانچہ حضرت (ع) کو دیئے جانے والے القاب اور حضرت (ع) کے سلسلہ میں استعمال کی جانے والی تعبیرات سے یہ بات بہ آسانی درک کی جا سکتی ہے ۔

بعض لوگوں نے اس عظیم ہستی کو ”بیمار “کے لقب سے یاد کیا ہے جب کہ آپ کی بیماری واقعہ عاشورہ کے ان ہی چند دنوں تک محدود تھی اس کے بعد اس کا سلسلہ باقی نہ رہا ،تقریبا سب ہی لوگ اپنی عمر کے ایک حصہ میں بیمار پڑجاتے ہیں ،اگر چہ امام زین العابدین علیہ السلام کی اس بیماری میں الٰہی حکمت و مصلحت بھی کارفرما تھی در اصل پروردگارعالم کو ان دنوں خدا کی راہ میں جہاد و دفاع کی ذمہ داری ،آپ پر سے اٹھالینا مقصود تھا تا کہ آئندہ (شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد )امانت و امامت کا عظیم بار اپنے کاندھوں پر لے سکیں اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد چونتیس یا پینتیس برس تک زندہ رہ کر نہایت ہی سخت اور پر آشوب دور طے کرسکیں ۔

اگر آپ امام زین العابدین (ع) کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو ہمارے دیگر ائمہ کی طرح یہاں بھی ایک سے ایک نئے نئے قابل توجہ حادثات کا ایک سلسلہ نظر آئے گا لیکن ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ ان تمام واقعات کو اگر یکجا کر بھی لیں تب بھی امام علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا سمجھ لینا آپ کے لئے آسان نہ ہوگا ۔

کسی کی سیرت کو صحیح معنوں میں سمجھنا یا سمجھانا اسی وقت ممکن ہے جب اس شخصیت کے اصول اور بنیادی موقف کو اچھی طرح درک کرلیا جائے اور پھر اس کی روشنی میں اس کی جزئیات زندگی سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔اصل میں جب بنیادی موقف کی وضاحت ہوجاتی ہے جزئیات بھی بے زبان نہیں رہتے ،خود بخود معنی پیدا کرلیتے ہیں ۔اس کے برخلاف اگر اصولی موقف ہم پر واضح نہیں ہوسکے ہیں یا کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں تو جزئی واقعات بھی یا تو بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں یا پھر ان کو غلط معنی پہنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور یہ صرف امام زین العابدین (ع) یا ہمارے دیگر ائمہ طاہرین (ع) سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اصول ہر شخص کی زندگی کے تجزیہ کے وقت پیش آسکتا ہے ۔

امام سجاد (ع) کے سلسلہ میں نمونہ کے طور پر ،محمد بن شہاب زہری کے نام حضرت (ع) کا خط پیش کیا جاسکتا ہے جو آپ کی زندگی کا ایک حادثہ ہے یہ وہ خط ہے جو خاندان نبوت و رسالت کی ایک عظیم فرد کی طرف سے اس دور کے مشہور و معروف دانشور کو لکھا گیا ہے اب اس سلسلہ میں مختلف انداز سے اظہار رائے کی گنجائش ہے ممکن ہے یہ خط کسی اساسی نوعیت کے حامل وسیع سیاسی مبارز کا ایک حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے برے کاموں سے روکنے کی ایک سیدھی سادی نصیحت یا محض ایک شخصیت کا دوسری شخصیت پر کیا جانے والا اسی قسم کا ایک اعتراض ہو جس قسم کے اعتراضات دو شخصیتوں یا کئی شخصیتوں کے مابین تاریخ میں کثرت سے نظر آتے ہیں ۔ظاہر ہے دیگر حادثات وواقعات سے چشم پوشی کرکے صرف اس واقعہ سے کسی صحیح نتیجہ تک کبھی بھی نہیں پہنچا جاسکتا ۔میں اس نکتہ پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم ان جزئی واقعات کو امام علیہ السلام کے اصولی وبنیادی موقف سے علیحدہ کرکے مطالعہ کرنا چاہیں تو امام سجا علیہ السلام کی سوانح زندگی ہم پر روشن نہیں ہوسکتی ۔لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم امام علیہ السلام کے اصولی اور اساسی موقف سے آگاہی حاصل کریں ۔

چنانچہ ہماری سب سے پہلی بحث امام زین العابدین علیہ السلام کے بنیادی موقف سے متعلق ہے اور اس کے لئے خود امام علیہ السلام کی زندگی ،آپ کے کلمات نیز دیگر ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پاکیزہ سیرت وزندگی سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بڑی ہی باریک بینی کے ساتھ نکات درک کرکے بحث کرنا ہوگی۔

حادثات زندگی میں ائمہ علیہم السلام کا بنیادی موقف

جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ۴۰ ء ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سے کبھی پیغمبر اسلام (ص) کے اہل بیت علیہم السلام اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ فقط گھر میں بیٹھے اپنے ادراک کے مطابق احکامات الٰہیہ کی تشریح وتفسیر کرتے رہیں بلکہ صلح کے آغاز ہی سے تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بنیادی موقف اور منصوبہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے طرز فکر کے مطابق حکومت اسلامی کے لئے راہیں ہموار کریں چنانچہ یہ فکر خود امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی اور کلام میں بطور احسن ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔

امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کرلی تو بہت سے ناعاقبت اندیش کم فہم افراد نے حضرت علیہ السلام کو مختلف عنوان سے ہدف بنالیا اور اس سلسلہ میں آپ کو مورد الزام قرار دینے کی کوشش کی گئی کبھی تو آپ (ع) کو مومنین کی ذلت ورسوائی کا باعث گردانا گیا اور کبھی یہ کہا گیا: ”آپ نے معاویہ کے مقابلہ پر آمادہ جوش وخروش سے معمور مومنین کی جماعت کوذلیل وخوار کردیا معاویہ کے سامنے ان کا سر جھک گیا “۔بعض اوقات احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ذرا نرم وشائستہ انداز میں بھی یہی بات دہرائی گئی ۔

امام علیہ السلام ان تمام اعتراضوں اور زبان درازیوںکے جواب میں انھیں مخاطب کرکے ایک ایسا جامع و مانع جملہ ارشاد فرماتے تھے جو شاید حضرت کے کلام میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور بہتر ہو ۔ آپ (ع) کہا کرتے تھے کہ : ما تدری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الیٰ حین“ تمھیں کیا خبر شائد یہ تمھارے لئے ایک آزمائش اور معاویہ کے لئے ایک عارضی سرمایہ ہو ۔ اصل میں یہ جملہ قرآن کریم سے اقتباس کیا گیا ہے۔

اس جملہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت کو مستقبل کا انتظار ہے اور وہ مستقبل اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ امام علیہ السلام کے نظر یہ کے مطابق حق سے منحرف موجودہ ناقابل قبول حکومت برطرف کی جائے اور اس جگہ آپ کی پسندیدہ حکومت قائم کی جائے جبھی تو آپ ان لوگوں سے فرماتے ہیں کہ تم فلسفہ صلح سے واقفیت نہیں رکھتے تمھیں کیا معلوم کہ اسی میں مصلحت مضمر ہے ۔

آغاز صلح میں ہی عمائدین شیعہ میں سے دو شخصیتیں ،مسیب بن نجیہ اور سلیمان بن صردخزاعی چند مسلمانوں کے ہمراہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کیا:ہمارے پاس خراسان وعراق وغیرہ کی خاصی طاقت موجود ہے اور ہم اسے آپ کی اختیار میں دینے کے لئے تیار ہیں اور معاویہ کا شام تک تعاقب کرنے کے لئے حاضر ہیں ۔حضرت علیہ السلام نے ان کو تنہائی میں گفتگو کے لئے طلب کیا اور کچھ بات چیت کی ،جب وہ وہاں سے باہر نکلے تو ان کے چہرے پر طمانیت کے آثار ہویدا تھے ۔انھوں نے اپنے فوجی دستوں کو رخصت کردیا حتی کہ ساتھ آنے والوں کو بھی کوئی واضح جواب نہ دیا۔

طہٰ حسین کا خیال ہے” در اصل اسی ملاقات میں شیعوں کی تحریک جہاد کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا تھا۔“یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ،ان کے ساتھ تنہائی میں بیٹھے ،مشورے ہوئے اور اسی وقت شیعوں کی ایک عظیم تنظیم کی بنا رکھ دی گئی۔

چنانچہ خود امام (ع) کے حالات زندگی اور مقدس ارشادات سے بھی واضح طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے ۔اگر چہ یہ زمانہ اس قسم کی تحریک اور سیاسی جدوجہد کے لئے سازگار نہ تھا ۔لوگوں میں سیاسی شعور بے حد کم اور دشمن کے پروپیگنڈوں نیز مالی دادووہش کا بازار گرم تھا ۔دشمن جن طریقوں سے فائدہ اٹھا رہاتھا ،امام علیہ السلام اختیار نہیں کرسکتے تھے۔مثال کے طور پر بے حساب پیسہ خرچ کرنا اور معاشرہ کے چھٹے ہوئے بد قماش افراد کو اپنے گرد اکٹھا کرلینا امام علیہ السلام کے لئے ممکن نہ تھا۔ظاہر ہے دشمن کا ہاتھ کھلا ہوا تھا اور امام کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔آپ اخلاق وشریعت کے خلاف کوئی کام انجام نہ دے سکے تھے ۔

یہی وجہ ہے کہ امام حسن علیہ الصلوٰۃ و السلام کا کام نہایت ہی عمیق ،دیر پا اور بنیادی قسم کا تھا ۔دس برس تک حضرت (ع) اسی ماحول میں زندگی بسر کرتے رہے ۔ لوگوں کو اپنے قرب کیا اور انھیں تربیت دی ۔کچھ لوگوں نے مختلف گوشہ و کنار میں جام شہادت نوش کرکے معاویہ کی حکومت سے کھل کر مقابلہ کیا اور نتیجہ کے طور پر اس کی مشینری کو کافی کمزور بنایا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام کا زمانہ آیا تو آپ (ع) نے بھی اسی روش پر کام کرتے ہوئے مدینہ ،مکہ نیز دیگر مقامات پر اس تحریک کو آگے بڑھایا ۔ یہاں تک کہ معاویہ دنیا سے چلا گیا ،اور کربلا کا حادثہ رو نما ہو ا ۔اگر چہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کربلا کا حادثہ اسلام کے مستقبل کے لئے نہایت ہی مفید اور ثمر آور ثابت ہوا لیکن وقتی طور پر وہ مقصد جس کے لئے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو شاں تھے کچھ دنوں کے لئے اس میں تاخیر ہو گئی کیوں کہ اس حادثہ نے دنیائے اسلام کو رعب و حشت میں مبتلا کر دیا تھا ۔امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے قریبی رفقاء کو تہ تیغ کر دیا گیا او ر دشمن کو تسلط و غلبہ حاصل ہو گیا ۔ اگر اقدام امام حسین علیہ السلام اس شکل میں نہ ہوتا اور یہ تحریک طبیعی طور پر جاری رہتی تو یہ بات بعید از امکان نہیں کہ مستقبل قریب میں جد و جہد کچھ ایسا رخ اختیار کر لیتی کہ حکومت کی باگ ڈور شیعوں کے ہاتھ میں آجاتی ۔البتہ یہاں اس گفتگو کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ معاذ اللہ ،امام حسین علیہ السلام کو انقلاب برپا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔بلکہ اس وقت حالات نے کروٹ ہی کچھ ایسی بدلی تھی کہ حسینی(ع) انقلاب ناگزیر ہو گیا تھا ،اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اسلام کی بقا کے لئے حسینی(ع) انقلاب بے حد ضروری تھا ، لیکن اگر یکا یک حالات یہ رخ اختیار نہ کر لئے ہوتے اور امام حسین علیہ السلام اس حادثہ میں شہید نہ ہوئے ہوتے تو شاید جلد ہی مستقبل سے متعلق امام حسن علیہ السلام کا منصوبہ بار آور ہو جاتا ۔

چنانچہ یہاں میں ایک روایت نقل کر رہا ہوں جس سے اس بیان کی واضح تائید ہو تی ہے ۔اصول کافی میں ابو حمزہ ثمالی کی ایک روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کی گئی ہے :

سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : یا ثابت ،ان اللّٰه تبارک و تعالیٰ قد کان وقت هٰذا الامر فی السبعین

”ھٰذاالامر “سے مراد حکومت و ولایت اہلیت علیہم السلام ہے کیوں کہ روایت میںہے ، اگر تمام مقامات پر نہ کہا جائے تو اکثر و بیشتر مقامات پر جہاں جہاں بھی ھٰذا الامر کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اس سے مقصود اہلبیت علیہم السلام کی حکومت و ولایت ہی ہے اگر چہ بعض موارد میں یہ کلمہ ،تحریک اور اقدام کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور وہاں حکومت مراد نہیں ہے ۔ بہر حال ھٰذ الامر ، یہ موضوع ۔ کو ن سا موضوع ؟وہی جو شیعیان آل محمد (ص) کے درمیان رائج و مرسوم رہا ہے اور جس کے بارہ میں برسوں گفتگو ہوتی رہی ہے جس کی تکمیل کی آرزو اور منصوبہ سازی کی جاتی رہی ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام اس روایت میں فرماتے ہیں : خدا وند عالم اس امر ( یعنی حکومت اہلبیت(ع) ) کے لئے ۷۰ ئہجری معین کر چکا تھا ،اور یہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے دس سال بعد کی تاریخ ہے ۔

امام اس کے بعد فرماتے ہیں :

فلما ان قتل الحسین صلوات اللّٰه علیه اشتد غضب اللّٰه تعالیٰ علیٰ اهل الارض فاخره الیٰ اربعین ومائة

جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا ، اہل زمین پر خدا وند عالم کے غضب میں شدت پیدا ہو گئی اور وہ ( تاسیس حکومت کا ) وقت ۴۰ ۱ ئہجری تک کے لئے آگے بڑھادیا گیا ۔

یہ تاریخ ( ۱۴۰ ئہجری ) امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت سے آٹھ سال قبل کی ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کی ذیل میں ہم ۱۴۰ ئہجری کی اہمیت کے بارہ میں تفصیلی بحث کریں گے ،اس سلسلہ میں میرا خیال یہی ہے کہ وہ ولی امر جس کے ذریعہ ایک انقلابی اقدام کے تحت اہلبیت (ع) کا حق واپس ملنا تھا امام جعفر صادق علیہ السلام کی ہی ذات مبارک ہونی چاہئے تھی مگر اس وقت بنو عباس نے خود خواہی عجلت پسندی ،دنیا پرستی اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا اور فرصت بھی اہلبیت (ع) کے ہاتھ سے چھین لی گئی اور وعدہ الٰہی پھر کسی اور وقت کے لئے ٹل گیا۔

روایت کے آخری فقرے یہ ہیں :

فحدثناکم فاضعتم الحدیث و کشفتم حجاب الستر ( ایک دوسرے نسخہ میں قناع الستر ہے) ولم یجعل اللّٰه له بعد ذالک وقتا عندنا ، و یمحوا اللّٰه مایشاء و یثبت و عنده ام الکتاب

یعنی ہم نے تم لوگوں کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور تم نے اس کو نشر کر دیا بات پردہ راز میں نہ رکھ سکے ،عوام میں نہ کہا جانے والاراز افشا کر دیا ۔ لہٰذا اب خدا وند عالم نے اس امر کے لئے کوئی دوسرا وقت معین طور پر قرار نہیں دیا ہے خدا وند عالم اوقات کو محو کر دیا کرتا ہے جس چیز کی چاہتا ہے نفی کر دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت کر دکھاتا ہے ۔ اور یہ بات نا قابل تردید مسلمات اسلام میں سے ہے کہ مستقبل کے سلسلہ میں جو بات خدا کی جانب سے حتمی قرار دی جا چکی ہے وہ نظر و قدرت الٰہی میں تغیر پذیر نہیں ہے ۔

ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں :

حدثت بذالک ابا عبدالله (ع) فقال کان کذالک(۱)

میں نے روایت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیان کی جس کو سن کر امام (ع) نے فرمایا: ہاں واقعا اسی طرح ہے ۔

اس قسم کی روایتیں بہت ہیں لیکن مذکورہ روایت ان سب میں واضح اور روشن ہے ۔

حکومت اسلامی کی تشکیل ائمہ (ع)کا بنیادی ہدف رہا ہے

اسلامی حکومت کی تشکیل تمام ائمہ کا مقصد و ہدف رہا ہے ، وہ ہمیشہ اسی راہ پر گامزن رہے ہر ایک نے وقت اور حالات کے تحت اس راہ میں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔چنانچہ جب کربلا کا حادثہ رونما ہو ااور سید الشہداء امام حسین علیہ الصلوٰة و السلام شہید کر دیئے گئے نیز بیماری کی حالت میں ہی امام سجاد علیہ السلام کو اسیر بنا لیا گیا تو حقیقتا اسی وقت سے امام سجاد علیہ السلام کی ذمہ داریوں کا آغاز ہو گیا ۔ اب تک مستقبل ( حکومت اسلامی کی تشکیل ) کی جو ذمہ داری امام حسن علیہ السلام اورپھر امام حسین علیہ السلام کے کاندھوں پر تھی وہ امر امام زین العابدین علیہ السلام کے سپرد کر دیا گیا اب آپ (ع) کی ذمہ داری تھی کہ اس مہم کو آگے بڑھائیں اور پھر آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ طاہرین علیہم السلام اپنے اپنے دور میں اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کی پوری زندگی کا اسی روشنی میں جائز ہ لیں ۔ اس بنیادی مقصد اور اصل موقف کو تلاش کریں ہمیں بلا کسی شک و شبہ کے یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام بھی اسی الٰہی مقصد کی تکمیل میں کوشاں تھے جس کے لئے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام سعی و کوشش فرما رہے تھے ۔

امام زین العابدین (ع) کی زندگی کا ایک مجموعی خاکہ

امام زین العابدین علیہ السلام نے ۶۱ ئھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں اور ۹۴ ء ہجری میں آپ کو زہر سے شہید کر دیا گیا ۔اس پورے عرصے میں آپ (ع) اسی مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے اب آپ مذکورہ نقطہ نگاہ کی روشنی میں حضرت(ع) کی جزئیات زندگی کا جائزہ لیجئے کہ آپ (ع) اس ذیل میں کن مراحل سے گزرتے رہے کیا طریقہ کار اپنائے اور پھر کس حد تک کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔

وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں جو آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہےں ان سب کی امام (ع) کے اسی بنیادی موقف کی روشنی میں تفسیر و تعبیر کی جانی چاہئے چنانچہ اس پور دور امامت میں مختلف موقعوں پر حضرت (ع) کے موقف اور فیصلوں کو بھی اسی عنوان سے دیکھنا چاہئے مثال کے طور پر ------------ :

۱ ۔ اسیری کے دوران کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد اور پھر شام میں یزید پلید کے مقابلہ میں آپ (ع) کا موقف جو شجاعت و فداکاری سے بھرا ہوا تھا ۔

۲ ۔ مسرف بن عقبہ کے مقابلہ میں -- جس کو یزید نے اپنی حکومت کے تیسرے سال مدینہ رسول (ص) کی تباہی اور اموال مسلمین کی غارت گری پر مامور کیا تھا -- امام (ع) کا موقف نہایت ہی نرم تھا ۔

۳ ۔ عبد الملک بن مروان جس کو خلفائے بنو امیہ میں طاقتور ترین اور چالاک ترین خلیفہ شمار کیا جاتا ہے ، اس کے مقابلہ میں امام (ع) کا موقف کبھی تو بہت ہی سخت اور کبھی بہت ہی نرم نظر آتا ہے -------

اسی طرح --------

۴ ۔ عمر بن عبد العزیز کے ساتھ آپ کا برتاؤ

۵ ۔ اپنے اصحاب اور رفقاء کے ساتھ آپ (ع) کا سلوک اور دوستانہ نصیحتیں اور

۶ ۔ ظالم و جابر حکومت اور اس کے عملے سے وابستہ درباری علماء کے ساتھ امام علیہ السلام کا رویہ؟

ان تمام موقفوں اور اقدامات کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے میں تو اسی نتیجہ پر بہنچا ہوں کہ اگر اس بنیادی موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام جزئیات و حوادث کا جائزہ لیا جائے تو بڑے ہی معنی خیز حقائق سامنے آئیں گے ۔چنانچہ اگر اسی زاویہ سے امام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو عظیم ہستی ایک ایسا انسان نظر آئے گی جو اس روئے زمین پر خدا وند وحدہ لا شریک کی حکومت قائم کرنے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں نافذ کرنے کو ہی اپنا مقدس مقصد سمجھتے ہوئے اپنی تمام ترکوشش و کاوش بروئے کار لاتا رہا ہے اور جس نے پختہ ترین اور کار آمد ترین کا رگردگی سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف یہ کہ اسلامی قافلہ کو اس پر اگندگی اور پریشاں حالی سے نجات دلائی ہے جو واقعہ عاشور کے بعد دنیا ئے اسلام پر مسلط ہو چکی تھی بلکہ قابل دید حد تک اس کو آگے بھی بڑھایا ہے ۔ دو اہم اور بنیادی فریضے جو ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام کو سونپے گئے تھے ( ہم ابھی ان کی طرف اشارہ کریں گے ) ان کو امام سجاد علیہ السلام نے بڑی خوش اسلوبی سے جامہ عمل پہنایا ہے ۔ آپ (ع) پوری سیاسی بصیرت اور شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی احتیاط اور باریک بینی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے یہاں تک کہ تقریبا ۳۵ سال کی انتھک جد و جہد اور الٰہی نمایندگی کی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد آپ (ع) سرفراز و سر بلند اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور اپنے بعد امامت و ولایت کا عظیم بار اپنے فرزندو جانشین امام محمد باقر علیہ السلام کے سپرد فرمادیئے۔

چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کو منصب امامت اور حکومت اسلامی کی تشکیل کی ذمہ داریوں کا سونپا جانا روایات میں بڑے ہی واضح الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔ ایک روایت کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو جمع کیا اور محمد بن علی (ع) یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

” یہ صندوق اور یہ اسلحہ سنبھالو یہ تمھارے ہاتھوں میں امانت ہے “

اور جب صندوق کھولا گیا تو اس میں قرآن اور کتاب تھی۔

میرے خیال میں اسلحہ سے ، انقلابی قیادت و رہبری کی طرف اشارہ ،اور قرآن و کتاب ، اسلامی افکار و نظریات کی علامت ہے اور یہ چیزیں امام (ع) نے اپنے بعد آنے والے امام کی تحویل میں دے کر نہایت ہی اطمینان و سکون کے ساتھ آگاہ و بیدار انسانوں اور خدا وند عالم کی نظر میں سر فراز وسرخ رواس دنیا کو خیر باد کہا ہے ۔

یہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک مجموعی خاکہ ہے اب اگر ہم تمام جزئیات زندگی کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیں تو صورت حال کو پہلے سے مشخص کر لینا چاہئے ۔

حضرت (ع) کی حیات مبارکہ میں ایک مختصر سا دور وہ بھی ہے جس کو منارہ زندگی سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا ۔ میں چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے اسی کا ذکر کروں اور پھر امام کی معمول کے تحت عادی زندگی ، اس زمانہ کے حالات و کو ائف اور ان کے تقاضوں کی تشریح کروں گا۔

در اصل امام علیہ السلام کی زندگی کاوہ مختصر اور تاریخ ساز دور ، معرکہ کربلا کے بعد آپ (ع) کی اسیری کازمانہ ہے جومدت کے اعتبار سے مختصرلیکن واقعات وحالات کے اعتبارنہایت ہی ہیجان اور وسبق آموز ہے جہاںاسیری کے بعد بھی آپ کا موقف بہت ہی سخت اور مزاحمت آمیز رہتاہے ۔بیما راورقید ہونے کے باوجودکسی عظیم مردمجاہد کے ماننداپنے قول وفعل کے ذریعہ شجاعت و دلیری کے بہترین نمونہ پیش کئے ہیں ۔اس دوران امام کا طرز عمل حضرت (ع) کی بقیہ عام زندگی سے -- جیسا کہ آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے -- بالکل مختلف نظر آتا ہے ۔ امام علیہ السلام کی زندگی کے اصلی دور میں آپ (ع) کی حکمت عملی مستحکم بنیاد پرپڑے ہی جچے تلے انداز میں نرم روی کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھنا ہے حتی کہ بعض وقت عبد الملک بن مروان کے ساتھ نہ صرف ایک محفل میں بیٹھے ہوئے نظر آئے ہیں بلکہ اس کے ساتھ آپ (ع) کا رویہ بھی نرم نظر آتا ہے جب کہ اس مختصر مدت ( ایام اسیری ) میں امام (ع) کے اقدامات بالکل کسی پر جوش انقلابی کے مانند نظر آتے ہیں جس کے لئے کوئی معمولی سی بات بھی برداشت کر لینا ممکن نہیں ہے لوگوں کے سامنے بلکہ پھرے مجمع میں بھی مغرور و بااقتدار دشمن کا دندان شکن جواب دینے میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے ۔

کوفہ کا درندہ صفت خونخوار حاکم ، عبد اللہ ابن زیاد جس کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے جو فرزند رسول (ص) امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعوان و انصار کا خون بہا کر مست و مغرور اور کامیابی کے نشہ میں بالکل چور ہے اس کے مقابلہ میں حضرت (ع) ایسا بے باک اور سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ابن زیاد آپ (ع) کے قتل کا حکم جاری کر دیتا ہے چنانچہ اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا ڈھال کے مانند آپ (ع) کے سامنے آکر یہ نہ کہتیں کہ میں اپنے جیتے جی ایسا ہرگز نہ ہونے دوں گی اور ایک عورت کے قتل کا مسئلہ درپیش نہ آتا نیز یہ کہ قیدی کے طور پر دربار شام میں حاضر کرنا مقصود نہ ہوتا تو عجب نہیں ابن زیاد امام زین العابدین علیہ السلام کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگین کر لیتا۔

بازار کوفہ میں آپ (ع) اپنی پھوپھی جناب زینت (ع)اوراپنی بہن جناب سکینہ کے ساتھ ہم صدا ہو کر تقریر کرتے ہیں لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرتے ہیں اور حقیقتوں کا انکشاف کر دیتے ہیں ۔

اسی طرح شام میں چاہے وہ یزید کا دربار ہو یا مسجد میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم ، بڑے ہی واضح الفاظ میں دشمن کی سازشوںسے پردہ اٹھاکر حقائق کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں چنانچہ حضرت (ع) کے ان تمام خطبوں اور تقریروں میں اہلبیت (ع)کی حقانیت ، خلافت کے سلسلہ میں ان کا استحقاق اور موجودہ حکومت کے جرائم اور ظلم و زیادتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نہایت ہی تلخ اور درشت لب و لہجہ میں غافل و ناآگاہ عوام کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

یہاں ان خطبوں کو نقل کرکے امام (ع) کے فقروں کی گہرائی پیش کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی کیوں کہ یہ خود ایک مستقل کام ہے اور اگر کوئی شخص ان خطبوں کی تشریح و تفسیر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان بنیادی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ایک لفظ کی تحقیق اور چھان بین کرے ۔ یہ ہے امام (ع) کی اسارت اور قید و بند کی زندگی جو جرات و ہمت اورشجاعت و دلاوری سے معمور نظر آتی ہے ۔

رہائی کے بعد

ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کے پیش نظر امام علیہ السلام کے موقف میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی کہ اب قید سے چھوٹ کر آپ نہایت ہی نرم روی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں تقیہ سے کام لیتے ہیں ۔ اپنے تیز و تند انقلابی اقدامات پر دعا اور نرم روی کا پردہ ڈال دیتے ہیں تمام امور بڑی خاموشی کے ساتھ انجام دیتے ہیں جب کہ قید و بند کے عالم میں آپ نے ایسے دلیرانہ عزائم کا اظہار اور مخاصمت آمیز اقدام فرمایا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک استثنا ئی دور تھا یہاں جناب امام سجاد علیہ السلام کو فرائض امامت کی ادائیگی اور حکومت الٰہی و اسلامی کی تشکیل کے لئے مواقع فراہمی کے ساتھ ہی ساتھ عاشور کو بہنے والے بے گناہوں کے خون کی ترجمانی بھی کرنی تھی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں حضرت سجاد علیہ السلام کے دہن میں ان کی اپنی زبان نہ تھی بلکہ شمشیر سے خاموش کر دی جانے والی حسین (ع) کی زبان اس وقت کوفہ و شام کی منزلوں سے گزر نے والے اس انقلابی جوان کو ودیعت کر دی گئی تھی ۔

چنانچہ اگر اس منزل میں امام زین العابدین علیہ السلام خاموش رہ جاتے اور اس جرات و ہمت اور جواں مردی و بیباکی کے ساتھ حقائق کی وضاحت کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ کر دیئے ہوتے تو آئندہ آپ (ع) کے مقاصد کی تکمیل کی تمام راہیں مسدود ہو کر رہ جاتیں کیوں کہ یہ امام حسین علیہ السلام کا جوش مارتا ہوا خون ہی تھا جس نے نہ صرف آپ (ع) کے لئے میدان ہموار کر دیا بلکہ تاریخ تشیع میں جتنی بھی انقلابی تحریکیں برپا ہوئی ہیں ان سب میں خون حسین علیہ السلام کی گرمی شامل نظر آتی ہے چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام سب سے پہلے لوگوں کو موجودہ صورت حال سے خبر دار کر دینا ضروری سمجھتے ہیںتاکہ آئندہ اپنے اسی عمل کے پر تو میں بنیادی و اصولی ،عمیق و متین طولانی مخالفتوں کا سلسلہ شروع کر سکیں اور ظاہر ہے تیز و تند زبان استعمال کئے بغیر لوگوں کو متنبہ اور ہوشیار کرنا ممکن نہ ہوتا ۔

اس قید و بند کے سفر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار جناب زینت سلام اللہ علیہا کے کردار سے بالکل ہم آہنگ ہے دونوں کا مقصد حسینی انقلاب اور پیغامات کی تبلیغ و اشاعت ہے اگر لوگ اس بات سے واقف ہو جائیں کہ حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے ،کیوں قتل کر دیئے گئے؟ اور کس طرح قتل کئے گئے تو آئندہ اسلام اور اہلبیت علیہم السلام کی دعوت ایک نیا رنگ اختیار کر لے گی لیکن اگر عوام ان حقیقتوں سے ناواقف رہ گئے تو انداز کچھ اور ہوگا۔

لہٰذ ا معاشرہ میں ان حقائق کو عام کر دینے اور صحیح طور پر حسینی (ع) انقلاب کو پہچنوانے کے لئے اپنا تمام سرمایہ بروئے کا ر لاکر جہاں تک ممکن ہو سکے اس کام کو انجام دینا ضروری تھا ۔ چنانچہ حضرت سید سجاد علیہ السلام کا وجود بھی جناب سکینہ (ع) ،جناب فاطمہ صغریٰ (ع) ، خود جناب زینب سلام اللہ علیہا بلکہ ایک ایک قیدی کے مانند ( اپنی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے) اپنے اندر ایک پیغام لئے ہوئے ہے ۔ ضروری تھا کہ یہ تمام انقلابی قوتیں مجتمع ہو کر غربت و بیکسی میں بہا دیئے جانے والے حسینی (ع) خون کی سرخی کربلا سے لے کر مدینہ تک تمام بڑے بڑے اسلامی مراکز میں پھیلادیں ۔

جس وقت امام سجاد علیہ السلام مدینہ میں وارد ہوں لوگوں کی بے چین و متجسس سوالی نگاہوں ، چہروں اور زبانوں کے جواب میں آپ (ع) ان کے سامنے حقائق بیان کریں اور یہ امام کی آئندہ مہم کا نقشہ اول ہے ۔اسی لئے ہم نے امام زین العابدین علیہ السلام کے اس مختصر دور حیات کو ایک استثنائی دور سے تعبیر کیا ہے ۔

اس مہم کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ (ع) مدینہ رسول (ص) میں ایک محترم شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور اپنا کا م پیغمبر اسلام (ص)کے گھر اور آپ (ع) کے حرم ( مسجد النبی (ص)) سے آغاز کرتے ہیں ۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے آئندہ موقف اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی حالت و کیفیت اور اس کے تقاضوں پر بھی ایک تحقیقی نظر ڈال لی جائے چنانچہ اس موضوع پر آگے روشنی ڈالیں گے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی تحریک کس طرح شروع کی ، آپ (ع) کا مقصد اور طریقہ کار کیا تھا ان تمام باتوں کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کی حکمراں سیاسی مشینری سے بیزار و متنفر مخالفین کے مجموعی حالات اور بنی امیہ کے بارہ میں ان کے خیالات ساتھ ہی ساتھ اہلبیت کی کلی صورت حال پر ایک نظر ڈال لی جائے اور یہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا ایک مستقل باب ہے چنانچہ اگر تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو ممکن ہوئی تو امام علیہ السلام کی زندگی سے متعلق بہت سی مشکلات اور الجھنےں حل ہو جائیں گی ۔ اوربعد اس کے حضرت (ع) کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کی خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے گی (البتہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس حد تک تفصیل میں جانا ہمارے لئے ممکن ہوگا)

ماحول

جب عاشور کا المناک حادثہ رو نما ہوا ،پوری اسلامی دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ خبر پہنچی خصوصا عراق اور حجاز میں مقیم ائمہ علیہم السلام کے شیعوں اور طرفداروں میں ایک عجیب رعب و دحشت کی فضا پیدا ہو گئی کیوں کہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ یزیدی حکومت اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے حتیٰ اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظیم ،مقدس اور معتبر ترین ہستی فرزند رسول(ص)حسین ابن علی علیہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے میں بھی کسی طرح کا کوئی دریغ نہیںہے ۔اور اس رعب و وحشت میں جس کے آثار کو فہ و مدینہ میں کچھ زیادہ ہی نمایاں تھے ، جو کچھ کمی رہ گئی تھی وہ بھی اس وقت پوری ہو گئی جب کچھ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزہ خیز حوادث رو نما ہوئے جن میں سر فہرست حادثہ ” حرہ“ ہے ۔

اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے زیر اثر علاقوں یعنی حجاز (خصوصا مدینہ) اور عراق ( خصوصا کوفہ) میں بڑا ہی گھٹن کا ماحول پیدا ہو گیا تھا تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہو چکے تھے ۔ وہ لوگ جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو امیہ کے خلافت و حکومت کے زبردست مخالفین میں شمار ہوتے تھے بڑی ہی کس مپرسی اور شک و شبہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے کہ حضرت (ع) گزشتہ ائمہ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ارتدالناس بعد الحسین (ع)الا ثلاثة

یعنی امام حسین علیہ السلام کے بعد تین افراد کے علاوہ سارے لوگ مرتد ہو گئے ، ایک روایت میں پانچ افراد اور بعض دوسری روایتوں میں سات افراد تک کا ذکر ملتا ہے ۔

ایک روایت جو خود امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے اور جس کے راوی ابو عمر مہدی ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

ما بمکة والمدینة عشرین رجلا یحبنا(۲)

پورے مکہ و مدینہ میں بیس افراد بھی ایسے نہیں ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہوں ۔

ہم نے یہ دونوں حدیثیں اس لئے نقل کی ہیں کہ اہلبیت طاہرین علیہم السلام اوران کے طرفداروں کے بارہ میں عالم اسلام کی مجموعی صورت حال کااندازہ لگایاجاسکے ۔دراصل اس وقت ایسی خوف وہراس کی فضاپیداہوگی تھی کہ ائمہ (ع)کے طرفدارمتفرق وپراگندہ مایوس ومرعوب زندگی گزاررہے تھے اور کسی طرح کی اجتماعی تحریک ممکن نہ تھی ۔ البتہ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مذکورہ بالا روایات میں ارشاد فرماتے ہیں :

ثم ان الناس لحقوا و کثروا

پھر آہستہ آہستہ لوگ اہل بیت علیہم السلام سے ملحق ہوتے گئے اور تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔

خفیہ تنظیمیں

اگر یہی مسئلہ جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ذرا تفصیل کی ساتھ بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ : کربلا کا عظیم سانحہ رو نما ہونے کے بعد اگر چہ لوگوں کی خاصی تعداد رعب و وحشت میں گرفتار ہو گئی تھی پھر بھی خوف و ہراس اتنا غالب نہ تھا کہ شیعیان اہلبیت علیہم السلام کی پوری تنظیم یکسر درہم برہم ہو کر رہ گئی ہو جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت اسیران کربلا کا لٹا ہو ا قافلہ کوفہ میں وارد ہوتا ہے کچھ ایسے واقعات رو نما ہوتے ہیں جو شیعہ تنظیموں کے وجود کا پتہ دیتے ہیں ۔

البتہ یہاں ہم نے جو شیعوں کی خفیہ تنظیم، کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ یہاں ہماری مراد موجودہ زمانہ کی طرح سیاسی تنظیموں کی کوئی باقاعدہ منظم شکل ہے بلکہ ہمارا مقصد وہ اعتقادی روابط ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک مضبوط شکل دھاگے میں پرو دیتے ہیں اور پھر لوگوں میں جذبہ فدا کاری پیدا کرکے خفیہ سر گرمی پر اکساتی ہے اور نتیجہ کے طور پر انسانی ذہن میں ایک ہم فکر جماعت کا تصور پیدا ہو جاتا ہے ۔

ان ہی دنوں جب کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت کو فہ میں اسیر تھی ایک رات اسی جگہ جہاں ان کو قید رکھا گیا تھا ، ایک پتھر آکر گرا ، اہلبیت (ع) اس پتھر کی طرف متوجہ ہوئے دیکھا تو ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے ساتھ منسلک تھا جس پر کچھ اس طرح کی عبارت تحریر تھی ، کوفہ کے حاکم نے ایک شخص کو یزید کے پاس( شام ) روانہ کیا ہے تاکہ آپ کے حالات سے اس کو باخبر کرے نیز آئندہ کے بارہ میں اس کا فیصلہ معلوم کرے اب اگر کل رات تک (مثلا ) آپ کو تکبیر کی آواز سنائی دے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کویہیں قتل کر دینے کا فیصلہ ہوا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھئے گا کہ حالات کچھ بہتر ہیں ۔(۳)

جس وقت ہم یہ واقعہ سنتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے دوستوں یا ممبروں میں سے کوئی شخص ابن زیاد کے دربار میں موجود رہا ہوگا جس کو تمام حالات کی خبر تھی اور قید خانہ تک رسائی بھی رکھتا تھا حتی کہ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ قیدیوں کے سلسلہ میں کیا فیصلہ اور منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں اور صدائے تکبیر کے ذریعہ اہلبیت علیہم السلام کو حالات سے باخبر کر سکتا ہے ۔ چنانچہ اس شدت عمل کے ساتھ ساتھ جو وجود میں آچکی تھی اس طرح کی چیزیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں ۔

اس طرح کی ایک مثال عبداللہ بن عفیف ازدی کی ہے جو ایک مرد نابینا ہیں اور اسیران کربلا کے کوفہ میں ورود کے موقع پر ہی شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر انھیں بھی جام شہادت نوش کرنا پڑتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس قسم کے افراد کیا کوفہ اور کیا شام ہر جگہ مل جاتے ہیں جو قیدیوں کی حالت دیکھ کر ان سے محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور صرف آنسو بہانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی نسبت ملامت کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں ( حتی کہ اس قسم کے واقعات دربار یزید اور ابن زیاد کی بزم میں پیش آتے رہے ہیں )

لہٰذا اگرچہ حادثہ کربلا کے بعد نہایت ہی شدید قسم کا خوف عوام و خواص پر طاری ہو چکا تھا پھر بھی ابھی اس نے وہ نوعیت اختیار نہیں کی تھی کہ شیعیان آل محمد (ص) کی تمام سر گرمیاں بالکل ہی مفلوج ہو گئی ہوں اور وہ ضعف و پراگندگی کا شکار ہو گئے ہوں لیکن کچھ ہی دنوں بعد ایک دوسرا حادثہ کچھ اس قسم کا رو نما ہوا جس نے ماحول میں کچھ اور گھٹن کا اضافہ کر دیا ۔ اور یہیں سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ”ارتدالناس بعد الحسین (ع)“ کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے امام علیہ السلام نے غالبا اسی حادثہ کے دوران یا اس کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ فرمایا ہے یا ممکن ہے یہ بات اس درمیانی وقفہ سے متعلق ارشاد فرمائی ہو جو ان کے ما بین گزرا ہے۔

ان چند برسوں کے دوران -- اس عظیم حادثہ کے رو نما ہونے کے پہلے -- شیعہ اپنے امور کو منظم کرنے اور اپنے درمیان پہلی سی ہم آہنگی دوبارہ واپس لانے میں لگے ہوئے تھے ۔ اس مقام پر طبری اپنے تاثرات کا یوں اظہار کرتا ہے :”فلم یزل القوم فی جمع آلة الحرب والاستعداد للقتال

یعنی وہ لوگ ( مراد گروہ شیعہ ) جنگی سازو سامان اکٹھا کرنے نیز خود کو جنگ کے لئے آمادہ کرنے میں لگے ہوئے تھے چپکے چپکے شیعوں اور غیر شیعوں کو حسین ابن علی علیہما السلام کے خون کا انتقام لینے پر تیار کر رہے تھے اور لوگ گروہ در گروہ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان میں شمولیت اختیار کر رہے تھے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا یہاں تک کہ یزید ابن معاویہ واصل جہنم ہو گیا ۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں با وجود اس کے کہ ماحول میں گھٹن اور سراسیمگی بہت زیادہ پائی جاتی تھی پھر بھی اس طرح کی سر گرمیاں اپنی جگہ پر جاری تھیں ( جیسا کہ طبری کی عبارت سے پتہ چلتا ہے ) اور شاید یہی وہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر ” جہاد الشیعہ“ کا مولف اگر چہ شیعہ نہیں ہے اور امام زین العابدین علیہ السلام کے سلسلہ میں صحیح اور مطابق واقع نظریات نہیں رکھتا پھر بھی وہ اس حقیقت کو درک کر لیتا ہے اور اپنے احساسات کو ان الفاظ میں پیش کرتا ہے کہ :

” گروہ شیعہ نے حسین (ع) کی شہادت کے بعد خود کو باقاعدہ تنظیم کی صورت میں منظم کر لیا ،ان کے اعتقادات اور سیاسی روابط انھیں آپس میں مربوط کرتے تھے ۔ ان کی جماعتیں اور قائد تھے ۔ اسی طرح وہ فوجی طاقت کے بھی مالک تھے چنانچہ توابین کی جماعت اس تنظیم کی سب سے پہلی مظہر ہے“

ان حقائق کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عاشور کے عظیم حادثہ کے زیر اثر اگر چہ بڑی حد تک شیعہ تنظیمیں ضعف و کمزور ی کا شکار ہو گئی تھیں پھر بھی اس دوران شیعہ تحریکیں اپنی ناتوانی کے باوجود مصروف عمل رہیں جس کے نتیجہ میں پہلے کی طرح دوبارہ خود کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئیں ۔یہاں تک کہ واقعہ حرہ پیش آیا ۔ اور میں سمجھتا ہوں واقعہ حرہ تاریخ تشیع میں نہایت اہم موڑ ہے ۔در اصل یہی وہ واقعہ ہے جس نے شیعہ تحریک پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے ۔

واقعہ حرہ

حرہ کا حادثہ تقریبا ۶۳ ھئمیں پیش آیا ۔ مختصر طور پر اس حادثہ کی تفصیلات کچھ اس طرح ہےں کہ ۶۳ ئہجری میں بنو امیہ کا کم تجربہ نوجوان مدینہ کا حَکم مقرر ہوا اس نے خیال کیا کہ شیعیان مدینہ کا دل جیتنے کے لئے بہتر ہوگا کہ ان میں سے کچھ لوگوں کو شام جاکر یزید سے ملاقات کرنے کی دعوت دی جائے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا مدینہ کے چند سربرآوردہ افراد ، اصحاب نیز دیگر معزز ین سے منتخب کئے جس میں اکثریت امام زین العابدین علیہ السلام کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتی تھیں ان لوگوں کو شام جانے کی دعوت دی گئی کہ وہ جائیں اور یزید کے لطف و کرم دیکھ کر اس سے مانوس ہو جائیں اور اس طرح اختلافات میں کمی واقع ہو جائے ۔یہ لوگ شام گئے اور یزید سے ملاقات کی چند دن اس کے مہمان رہے ان لوگوں کی خوب پذیرائی کی گئی اور رخصت ہوتے وقت یزید نے ہر ایک کو کافی بڑی رقم ( تقریبا پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ درہم تک )سے نوازا لیکن ۔

جیسے ہی یہ لوگ مدینہ واپس پہنچے ، چوں کہ یزیدی در بار میں پیش آنے والے المیئے انھوں نے اپنی نظروں سے خود دیکھ لئے تھے لہٰذا خوب کھل کر یزید کو مورد تنقید قرار دیا اور نتیجہ بالکل ہی بر عکس ظاہر ہوا ان لوگوں نے یزید کی تعریف و توصیف کرنے کے بجائے ہر خاص و عام کو اس کے جرائم سے آگاہ کرنا شروع کر دیا ۔ لوگوں سے کہا: یزید کو کس بنیاد پر خلیفہ تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ شراب و کباب میں غرق رہنا اور کتوں سے کھیلنا اس کا بہترین مشغلہ ہے ۔ کوئی فسق و فجور ایسا نہیں ہے جو اس کے یہاں نہ پایا جاتا ہو ۔ لہٰذا ہم اس کو خلافت سے معزول کرتے ہیں ۔

عبداللہ بن حنظلہ(۴) جو مدینہ کی نمایاں اور محبوب شخصیتوں میں سے تھے یزید کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے ان لوگوں نے یزید کو معزول کرکے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینی شروع کر دی۔

اس اقدام کا نتیجہ یزید کی طرف سے براہ راست رد عمل کی صورت میں ظاہر ہوا اس نے اپنے ایک تجربہ کار پیر فرتوت سردار ، مسلم بن عقبہ کو چند مخصوص لشکر یوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا کہ وہ اس فتنہ کو خاموش کر دے ۔ مسلم بن عقبہ مدینہ آیا اور چند روز تک اہل مدینہ کی قوت مقابلہ کو پست کرنے کے لئے شہر کا محاصرہ کئے رہا یہاں تک کہ ایک دن شہر میں داخل ہوا اور اس قدر قتل و غارت گری مچائی اور اس قدر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ اسلام میں وہ آپ اپنی مثال ہے ۔

اس نے مدینہ میں کچھ ایسا ہی قتل و غارت گری اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیاتھا کہ اس حادثہ کے بعد اس کا لقب ہی مسرف پڑگیا اور لوگ اس کو ” مسرف بن عقبہ “ کے نام سے پکارنے لگے ۔ حادثہ حرہ سے متعلق واقعات کی فہرست کا فی طویل ہے اور میں زیادہ تشریح میں جانا نہیں چاہتا صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ یہ واقعہ تمام مسلمانوں خصوصا اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں اور ہمنواؤں میں بے پناہ خوف و ہراس پیدا کرنے کا سبب بنا ، خاص طور پر مدینہ تقریبا خالی ہو گیا کچھ لوگ بھاگ گئے کچھ لوگ مار ڈالے گئے اہلبیت (ع) کے کچھ مخلص و ہمدرد مثال کے طور پر عبداللہ ابن حنظلہ جیسے لوگ شہید کر دیئے گئے اور ان کی جگہ خالی ہو گئی ۔ اس حادثہ کی خبر پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئی اور سب سمجھ گئے کہ اس قسم کی ہر تحریک کا سد باب کرنے کے لئے حکومت پوری طرح آمادہ ہے اور کسی طرح کے اقدام کی اجازت دینے کو ہرگز تیار نہیںہے ۔

اس کے بعد ایک اور حادثہ -- جو مزید شیعوں کی سر کوبی اور ضعف کا سبب بنا -- جناب مختار ثقفی کی کوفہ میں شہادت اور پورے عالم اسلام پر عبد الملک بن مروان کے تسلط کی صورت میں ظاہر ہوا ۔

یزید کی موت کے بعد جو خلفاء آئے ہیں ان میں اس کا بیٹا معاویہ ابن یزید ہے جو تین ماہ سے زیادہ حکومت نہ کر سکا ۔ اس کے بعد مروان بن حکم کے ہاتھ میں اقتدار آیا اور تقریبا دو سال یا اس سے کچھ کم اس نے حکومت کی اور پھر خلافت کی باگ ڈور عبد الملک بن مروان کے ہاتھ میں آگئی جس کے لئے مورخین کا خیال ہے کہ وہ خلفا ئے بنو امیہ میںزیرک ترین خلیفہ رہا ہے ۔ چنانچہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ :

کان عبد الملک اشد هم شکیبه و اقساهم عزیمه

عبد الملک پورے عالم اسلام کو اپنی مٹھی میں جکڑ لینے میں کامیاب ہو گیا اور خوف و دہشت سے معمور عامرانہ حکومت قائم کر دی۔

حکومت پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے لئے عبد الملک کے سامنے صرف ایک راہ تھی اور وہ یہ کہ اپنے تمام رقیبوں کا صفایا کر دے مختار جو شیعیت کی علامت تھے ، مصعب بن زبیر کے ہاتھوں پہلے ہی جام شہادت نوش فرما چکے تھے لیکن عبد الملک شیعہ تحریک کا نام و نشان مٹا ڈالنا چاہتا تھا اور اس نے یہی کیا بھی ۔اس کے دور میں عراق خصوصا کوفہ جو اس وقت شیعوں کا ایک گڑھ شمار کیا جاتا تھا ،مکمل جمود اور خاموشی کی نذر ہو گیا۔

بہر حال یہ حوادث کربلا کے عظیم سانحہ سے شروع ہوئے اور پھر یکے بعد دیگرے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ کے قتل و غارت ، عراق میں تو ابین(۵) کی بیخ کنی ،جناب مختار ثقفی اور ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نیز دیگر اکابرین شیعہ کی شہادت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے حصول کی غرض سے ہر تحریک چاہے وہ مدنیہ ہو یا کوفہ( کیوں کہ اس وقت یہ دونوں شیعوں کے اہم ترین مراکز تھے ) کچل کر رکھ دی گئی ، شیعیت سے متعلق پورے عالم اسلام میں ایک عجیب خوف و ہراس پیدا ہوگیا ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ائمہ طاہرین علیہم السلام سے وابستہ رہ گئے تھے اپنی زندگی نہایت ہی غربت و کس مپرسی میں بسر کر رہے تھے ۔

___________________

(۱)۔ اصول کافی کتاب الحجہ باب کراہیۃ التوقیت ۔روایت اول ج/۳ص/۱۹۰طبع بنیاد رسالت ،تہران

(۲)۔ بحار الانوار ج/۴۶ ص/۱۴۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج/۴ص/۱۰۴

(۳)۔ یہ واقعہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ الکامل میں نقل کیا ہے ۔

(۴)۔ حنظلہ ہی وہ نو جوان ہیں جو قبل اس کے کہ ان کی شب عروسی تمام ہو پیغمبر اسلام (ص) کی فوج میں آکر شامل ہو گئے اور میدان احد میں شہادت کا جام نوش فرمایا اور ملائکہ نے ان کو غسل دیا اسی لئے یہ حنظلہ غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے ۔

(۵)۔ توبین کی تحریک واقعہ کربلا کا سب سے پہلا رد عمل ہے جو کوفہ میں ظاہر ہوا ۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بعض شیعوں نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے مواخذہ و عتاب کا مستحق قرار دیا کہ انھوں نے امام کی دعوت پر لبیک کیوں نہ کہی اور مدد کے لئے میدان میں نکلنے سے کیوں گریز کیا چنانچہ انھوں نے محسوس کیا اس گناہ سے اپنے دامن کو پاک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ امام کے دشمنوں او ر قاتلوں سے حضرت کے خون کا انتقام لیا جائے ، لہٰذا وہ لوگ کوفہ آئے اور اکابرین شیعہ میں سے پانچ افراد کو جمع کرکے ان سے اس سلسلہ میں گفتگو کی اور نتیجہ کے طور پر سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں کھلے طور پر مسلحانہ تحریک کا آغاز کر دیا ۔ شب جمعہ ۲۵/ ربیع الثانی ۶۵ء ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پر زیارت کے لئے جمع ہوئے اس طرح فریاد و گریہ کرنا شروع کیا کہ آج تک اس گریہ و زاری کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کے بعد قبر امام کو وداع کہہ کر شامی حکومت سے نبرد آزما ئی کے لئے شام کا رخ کیا اور پھر لشکر بنو امیہ سے جم کر جنگ ہوئی اور سب کے سب مارے گئے ۔ توابین کی تحریک کاایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ با وجود اس کے کہ کوفہ میں تھے پھر بھی شام گئے اور بر سراقتدار حکومت سے جنگ کی تاکہ یہ ثابت کر دیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قاتل کوئی ایک شخص یا چند اشخاص نہیں ہیں بلکہ یہ حکومت ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ہے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات اقدس کو موضوع سخن قرار دینا اور آپ کی سیرت طیبہ پر قلم اٹھانا نہایت ہی دشوار امر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم امام کی معرفت و آشنائی سے متعلق مآخذ و مصادر بہت ہی ناقص اور نا مساعد ہیں ۔

اکثر محققوں اور سیرت نگاروں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ یہ عظیم ہستی محض ایک گوشہ نشین عابد و زاہد جیسی زندگی گزارتی رہی جس کو سیاست میں ذرہ برابر دلچسپی اور دخل نہ تھا ۔ بعض تاریخ نویسوں او ر سیرت نگاروں نے تو اس چیز کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور وہ حضرات جنھوں نے صاف صاف وضاحت کے ساتھ یہ بات نہیں کہی انھوں نے بھی امام علیہ السلام کی زندگی سے جو نتائج اخذ کئے ہیں اس سے مختلف نہیں ہیں چنانچہ حضرت (ع) کو دیئے جانے والے القاب اور حضرت (ع) کے سلسلہ میں استعمال کی جانے والی تعبیرات سے یہ بات بہ آسانی درک کی جا سکتی ہے ۔

بعض لوگوں نے اس عظیم ہستی کو ”بیمار “کے لقب سے یاد کیا ہے جب کہ آپ کی بیماری واقعہ عاشورہ کے ان ہی چند دنوں تک محدود تھی اس کے بعد اس کا سلسلہ باقی نہ رہا ،تقریبا سب ہی لوگ اپنی عمر کے ایک حصہ میں بیمار پڑجاتے ہیں ،اگر چہ امام زین العابدین علیہ السلام کی اس بیماری میں الٰہی حکمت و مصلحت بھی کارفرما تھی در اصل پروردگارعالم کو ان دنوں خدا کی راہ میں جہاد و دفاع کی ذمہ داری ،آپ پر سے اٹھالینا مقصود تھا تا کہ آئندہ (شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد )امانت و امامت کا عظیم بار اپنے کاندھوں پر لے سکیں اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد چونتیس یا پینتیس برس تک زندہ رہ کر نہایت ہی سخت اور پر آشوب دور طے کرسکیں ۔

اگر آپ امام زین العابدین (ع) کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو ہمارے دیگر ائمہ کی طرح یہاں بھی ایک سے ایک نئے نئے قابل توجہ حادثات کا ایک سلسلہ نظر آئے گا لیکن ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ ان تمام واقعات کو اگر یکجا کر بھی لیں تب بھی امام علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا سمجھ لینا آپ کے لئے آسان نہ ہوگا ۔

کسی کی سیرت کو صحیح معنوں میں سمجھنا یا سمجھانا اسی وقت ممکن ہے جب اس شخصیت کے اصول اور بنیادی موقف کو اچھی طرح درک کرلیا جائے اور پھر اس کی روشنی میں اس کی جزئیات زندگی سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔اصل میں جب بنیادی موقف کی وضاحت ہوجاتی ہے جزئیات بھی بے زبان نہیں رہتے ،خود بخود معنی پیدا کرلیتے ہیں ۔اس کے برخلاف اگر اصولی موقف ہم پر واضح نہیں ہوسکے ہیں یا کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں تو جزئی واقعات بھی یا تو بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں یا پھر ان کو غلط معنی پہنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور یہ صرف امام زین العابدین (ع) یا ہمارے دیگر ائمہ طاہرین (ع) سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اصول ہر شخص کی زندگی کے تجزیہ کے وقت پیش آسکتا ہے ۔

امام سجاد (ع) کے سلسلہ میں نمونہ کے طور پر ،محمد بن شہاب زہری کے نام حضرت (ع) کا خط پیش کیا جاسکتا ہے جو آپ کی زندگی کا ایک حادثہ ہے یہ وہ خط ہے جو خاندان نبوت و رسالت کی ایک عظیم فرد کی طرف سے اس دور کے مشہور و معروف دانشور کو لکھا گیا ہے اب اس سلسلہ میں مختلف انداز سے اظہار رائے کی گنجائش ہے ممکن ہے یہ خط کسی اساسی نوعیت کے حامل وسیع سیاسی مبارز کا ایک حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے برے کاموں سے روکنے کی ایک سیدھی سادی نصیحت یا محض ایک شخصیت کا دوسری شخصیت پر کیا جانے والا اسی قسم کا ایک اعتراض ہو جس قسم کے اعتراضات دو شخصیتوں یا کئی شخصیتوں کے مابین تاریخ میں کثرت سے نظر آتے ہیں ۔ظاہر ہے دیگر حادثات وواقعات سے چشم پوشی کرکے صرف اس واقعہ سے کسی صحیح نتیجہ تک کبھی بھی نہیں پہنچا جاسکتا ۔میں اس نکتہ پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم ان جزئی واقعات کو امام علیہ السلام کے اصولی وبنیادی موقف سے علیحدہ کرکے مطالعہ کرنا چاہیں تو امام سجا علیہ السلام کی سوانح زندگی ہم پر روشن نہیں ہوسکتی ۔لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم امام علیہ السلام کے اصولی اور اساسی موقف سے آگاہی حاصل کریں ۔

چنانچہ ہماری سب سے پہلی بحث امام زین العابدین علیہ السلام کے بنیادی موقف سے متعلق ہے اور اس کے لئے خود امام علیہ السلام کی زندگی ،آپ کے کلمات نیز دیگر ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پاکیزہ سیرت وزندگی سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بڑی ہی باریک بینی کے ساتھ نکات درک کرکے بحث کرنا ہوگی۔

حادثات زندگی میں ائمہ علیہم السلام کا بنیادی موقف

جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ۴۰ ء ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سے کبھی پیغمبر اسلام (ص) کے اہل بیت علیہم السلام اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ فقط گھر میں بیٹھے اپنے ادراک کے مطابق احکامات الٰہیہ کی تشریح وتفسیر کرتے رہیں بلکہ صلح کے آغاز ہی سے تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بنیادی موقف اور منصوبہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے طرز فکر کے مطابق حکومت اسلامی کے لئے راہیں ہموار کریں چنانچہ یہ فکر خود امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی اور کلام میں بطور احسن ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔

امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کرلی تو بہت سے ناعاقبت اندیش کم فہم افراد نے حضرت علیہ السلام کو مختلف عنوان سے ہدف بنالیا اور اس سلسلہ میں آپ کو مورد الزام قرار دینے کی کوشش کی گئی کبھی تو آپ (ع) کو مومنین کی ذلت ورسوائی کا باعث گردانا گیا اور کبھی یہ کہا گیا: ”آپ نے معاویہ کے مقابلہ پر آمادہ جوش وخروش سے معمور مومنین کی جماعت کوذلیل وخوار کردیا معاویہ کے سامنے ان کا سر جھک گیا “۔بعض اوقات احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ذرا نرم وشائستہ انداز میں بھی یہی بات دہرائی گئی ۔

امام علیہ السلام ان تمام اعتراضوں اور زبان درازیوںکے جواب میں انھیں مخاطب کرکے ایک ایسا جامع و مانع جملہ ارشاد فرماتے تھے جو شاید حضرت کے کلام میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور بہتر ہو ۔ آپ (ع) کہا کرتے تھے کہ : ما تدری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الیٰ حین“ تمھیں کیا خبر شائد یہ تمھارے لئے ایک آزمائش اور معاویہ کے لئے ایک عارضی سرمایہ ہو ۔ اصل میں یہ جملہ قرآن کریم سے اقتباس کیا گیا ہے۔

اس جملہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت کو مستقبل کا انتظار ہے اور وہ مستقبل اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ امام علیہ السلام کے نظر یہ کے مطابق حق سے منحرف موجودہ ناقابل قبول حکومت برطرف کی جائے اور اس جگہ آپ کی پسندیدہ حکومت قائم کی جائے جبھی تو آپ ان لوگوں سے فرماتے ہیں کہ تم فلسفہ صلح سے واقفیت نہیں رکھتے تمھیں کیا معلوم کہ اسی میں مصلحت مضمر ہے ۔

آغاز صلح میں ہی عمائدین شیعہ میں سے دو شخصیتیں ،مسیب بن نجیہ اور سلیمان بن صردخزاعی چند مسلمانوں کے ہمراہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کیا:ہمارے پاس خراسان وعراق وغیرہ کی خاصی طاقت موجود ہے اور ہم اسے آپ کی اختیار میں دینے کے لئے تیار ہیں اور معاویہ کا شام تک تعاقب کرنے کے لئے حاضر ہیں ۔حضرت علیہ السلام نے ان کو تنہائی میں گفتگو کے لئے طلب کیا اور کچھ بات چیت کی ،جب وہ وہاں سے باہر نکلے تو ان کے چہرے پر طمانیت کے آثار ہویدا تھے ۔انھوں نے اپنے فوجی دستوں کو رخصت کردیا حتی کہ ساتھ آنے والوں کو بھی کوئی واضح جواب نہ دیا۔

طہٰ حسین کا خیال ہے” در اصل اسی ملاقات میں شیعوں کی تحریک جہاد کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا تھا۔“یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ،ان کے ساتھ تنہائی میں بیٹھے ،مشورے ہوئے اور اسی وقت شیعوں کی ایک عظیم تنظیم کی بنا رکھ دی گئی۔

چنانچہ خود امام (ع) کے حالات زندگی اور مقدس ارشادات سے بھی واضح طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے ۔اگر چہ یہ زمانہ اس قسم کی تحریک اور سیاسی جدوجہد کے لئے سازگار نہ تھا ۔لوگوں میں سیاسی شعور بے حد کم اور دشمن کے پروپیگنڈوں نیز مالی دادووہش کا بازار گرم تھا ۔دشمن جن طریقوں سے فائدہ اٹھا رہاتھا ،امام علیہ السلام اختیار نہیں کرسکتے تھے۔مثال کے طور پر بے حساب پیسہ خرچ کرنا اور معاشرہ کے چھٹے ہوئے بد قماش افراد کو اپنے گرد اکٹھا کرلینا امام علیہ السلام کے لئے ممکن نہ تھا۔ظاہر ہے دشمن کا ہاتھ کھلا ہوا تھا اور امام کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔آپ اخلاق وشریعت کے خلاف کوئی کام انجام نہ دے سکے تھے ۔

یہی وجہ ہے کہ امام حسن علیہ الصلوٰۃ و السلام کا کام نہایت ہی عمیق ،دیر پا اور بنیادی قسم کا تھا ۔دس برس تک حضرت (ع) اسی ماحول میں زندگی بسر کرتے رہے ۔ لوگوں کو اپنے قرب کیا اور انھیں تربیت دی ۔کچھ لوگوں نے مختلف گوشہ و کنار میں جام شہادت نوش کرکے معاویہ کی حکومت سے کھل کر مقابلہ کیا اور نتیجہ کے طور پر اس کی مشینری کو کافی کمزور بنایا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام کا زمانہ آیا تو آپ (ع) نے بھی اسی روش پر کام کرتے ہوئے مدینہ ،مکہ نیز دیگر مقامات پر اس تحریک کو آگے بڑھایا ۔ یہاں تک کہ معاویہ دنیا سے چلا گیا ،اور کربلا کا حادثہ رو نما ہو ا ۔اگر چہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کربلا کا حادثہ اسلام کے مستقبل کے لئے نہایت ہی مفید اور ثمر آور ثابت ہوا لیکن وقتی طور پر وہ مقصد جس کے لئے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو شاں تھے کچھ دنوں کے لئے اس میں تاخیر ہو گئی کیوں کہ اس حادثہ نے دنیائے اسلام کو رعب و حشت میں مبتلا کر دیا تھا ۔امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے قریبی رفقاء کو تہ تیغ کر دیا گیا او ر دشمن کو تسلط و غلبہ حاصل ہو گیا ۔ اگر اقدام امام حسین علیہ السلام اس شکل میں نہ ہوتا اور یہ تحریک طبیعی طور پر جاری رہتی تو یہ بات بعید از امکان نہیں کہ مستقبل قریب میں جد و جہد کچھ ایسا رخ اختیار کر لیتی کہ حکومت کی باگ ڈور شیعوں کے ہاتھ میں آجاتی ۔البتہ یہاں اس گفتگو کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ معاذ اللہ ،امام حسین علیہ السلام کو انقلاب برپا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔بلکہ اس وقت حالات نے کروٹ ہی کچھ ایسی بدلی تھی کہ حسینی(ع) انقلاب ناگزیر ہو گیا تھا ،اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اسلام کی بقا کے لئے حسینی(ع) انقلاب بے حد ضروری تھا ، لیکن اگر یکا یک حالات یہ رخ اختیار نہ کر لئے ہوتے اور امام حسین علیہ السلام اس حادثہ میں شہید نہ ہوئے ہوتے تو شاید جلد ہی مستقبل سے متعلق امام حسن علیہ السلام کا منصوبہ بار آور ہو جاتا ۔

چنانچہ یہاں میں ایک روایت نقل کر رہا ہوں جس سے اس بیان کی واضح تائید ہو تی ہے ۔اصول کافی میں ابو حمزہ ثمالی کی ایک روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کی گئی ہے :

سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : یا ثابت ،ان اللّٰه تبارک و تعالیٰ قد کان وقت هٰذا الامر فی السبعین

”ھٰذاالامر “سے مراد حکومت و ولایت اہلیت علیہم السلام ہے کیوں کہ روایت میںہے ، اگر تمام مقامات پر نہ کہا جائے تو اکثر و بیشتر مقامات پر جہاں جہاں بھی ھٰذا الامر کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اس سے مقصود اہلبیت علیہم السلام کی حکومت و ولایت ہی ہے اگر چہ بعض موارد میں یہ کلمہ ،تحریک اور اقدام کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور وہاں حکومت مراد نہیں ہے ۔ بہر حال ھٰذ الامر ، یہ موضوع ۔ کو ن سا موضوع ؟وہی جو شیعیان آل محمد (ص) کے درمیان رائج و مرسوم رہا ہے اور جس کے بارہ میں برسوں گفتگو ہوتی رہی ہے جس کی تکمیل کی آرزو اور منصوبہ سازی کی جاتی رہی ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام اس روایت میں فرماتے ہیں : خدا وند عالم اس امر ( یعنی حکومت اہلبیت(ع) ) کے لئے ۷۰ ئہجری معین کر چکا تھا ،اور یہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے دس سال بعد کی تاریخ ہے ۔

امام اس کے بعد فرماتے ہیں :

فلما ان قتل الحسین صلوات اللّٰه علیه اشتد غضب اللّٰه تعالیٰ علیٰ اهل الارض فاخره الیٰ اربعین ومائة

جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا ، اہل زمین پر خدا وند عالم کے غضب میں شدت پیدا ہو گئی اور وہ ( تاسیس حکومت کا ) وقت ۴۰ ۱ ئہجری تک کے لئے آگے بڑھادیا گیا ۔

یہ تاریخ ( ۱۴۰ ئہجری ) امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت سے آٹھ سال قبل کی ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کی ذیل میں ہم ۱۴۰ ئہجری کی اہمیت کے بارہ میں تفصیلی بحث کریں گے ،اس سلسلہ میں میرا خیال یہی ہے کہ وہ ولی امر جس کے ذریعہ ایک انقلابی اقدام کے تحت اہلبیت (ع) کا حق واپس ملنا تھا امام جعفر صادق علیہ السلام کی ہی ذات مبارک ہونی چاہئے تھی مگر اس وقت بنو عباس نے خود خواہی عجلت پسندی ،دنیا پرستی اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا اور فرصت بھی اہلبیت (ع) کے ہاتھ سے چھین لی گئی اور وعدہ الٰہی پھر کسی اور وقت کے لئے ٹل گیا۔

روایت کے آخری فقرے یہ ہیں :

فحدثناکم فاضعتم الحدیث و کشفتم حجاب الستر ( ایک دوسرے نسخہ میں قناع الستر ہے) ولم یجعل اللّٰه له بعد ذالک وقتا عندنا ، و یمحوا اللّٰه مایشاء و یثبت و عنده ام الکتاب

یعنی ہم نے تم لوگوں کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور تم نے اس کو نشر کر دیا بات پردہ راز میں نہ رکھ سکے ،عوام میں نہ کہا جانے والاراز افشا کر دیا ۔ لہٰذا اب خدا وند عالم نے اس امر کے لئے کوئی دوسرا وقت معین طور پر قرار نہیں دیا ہے خدا وند عالم اوقات کو محو کر دیا کرتا ہے جس چیز کی چاہتا ہے نفی کر دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت کر دکھاتا ہے ۔ اور یہ بات نا قابل تردید مسلمات اسلام میں سے ہے کہ مستقبل کے سلسلہ میں جو بات خدا کی جانب سے حتمی قرار دی جا چکی ہے وہ نظر و قدرت الٰہی میں تغیر پذیر نہیں ہے ۔

ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں :

حدثت بذالک ابا عبدالله (ع) فقال کان کذالک(۱)

میں نے روایت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیان کی جس کو سن کر امام (ع) نے فرمایا: ہاں واقعا اسی طرح ہے ۔

اس قسم کی روایتیں بہت ہیں لیکن مذکورہ روایت ان سب میں واضح اور روشن ہے ۔

حکومت اسلامی کی تشکیل ائمہ (ع)کا بنیادی ہدف رہا ہے

اسلامی حکومت کی تشکیل تمام ائمہ کا مقصد و ہدف رہا ہے ، وہ ہمیشہ اسی راہ پر گامزن رہے ہر ایک نے وقت اور حالات کے تحت اس راہ میں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔چنانچہ جب کربلا کا حادثہ رونما ہو ااور سید الشہداء امام حسین علیہ الصلوٰة و السلام شہید کر دیئے گئے نیز بیماری کی حالت میں ہی امام سجاد علیہ السلام کو اسیر بنا لیا گیا تو حقیقتا اسی وقت سے امام سجاد علیہ السلام کی ذمہ داریوں کا آغاز ہو گیا ۔ اب تک مستقبل ( حکومت اسلامی کی تشکیل ) کی جو ذمہ داری امام حسن علیہ السلام اورپھر امام حسین علیہ السلام کے کاندھوں پر تھی وہ امر امام زین العابدین علیہ السلام کے سپرد کر دیا گیا اب آپ (ع) کی ذمہ داری تھی کہ اس مہم کو آگے بڑھائیں اور پھر آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ طاہرین علیہم السلام اپنے اپنے دور میں اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کی پوری زندگی کا اسی روشنی میں جائز ہ لیں ۔ اس بنیادی مقصد اور اصل موقف کو تلاش کریں ہمیں بلا کسی شک و شبہ کے یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام بھی اسی الٰہی مقصد کی تکمیل میں کوشاں تھے جس کے لئے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام سعی و کوشش فرما رہے تھے ۔

امام زین العابدین (ع) کی زندگی کا ایک مجموعی خاکہ

امام زین العابدین علیہ السلام نے ۶۱ ئھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں اور ۹۴ ء ہجری میں آپ کو زہر سے شہید کر دیا گیا ۔اس پورے عرصے میں آپ (ع) اسی مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے اب آپ مذکورہ نقطہ نگاہ کی روشنی میں حضرت(ع) کی جزئیات زندگی کا جائزہ لیجئے کہ آپ (ع) اس ذیل میں کن مراحل سے گزرتے رہے کیا طریقہ کار اپنائے اور پھر کس حد تک کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔

وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں جو آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہےں ان سب کی امام (ع) کے اسی بنیادی موقف کی روشنی میں تفسیر و تعبیر کی جانی چاہئے چنانچہ اس پور دور امامت میں مختلف موقعوں پر حضرت (ع) کے موقف اور فیصلوں کو بھی اسی عنوان سے دیکھنا چاہئے مثال کے طور پر ------------ :

۱ ۔ اسیری کے دوران کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد اور پھر شام میں یزید پلید کے مقابلہ میں آپ (ع) کا موقف جو شجاعت و فداکاری سے بھرا ہوا تھا ۔

۲ ۔ مسرف بن عقبہ کے مقابلہ میں -- جس کو یزید نے اپنی حکومت کے تیسرے سال مدینہ رسول (ص) کی تباہی اور اموال مسلمین کی غارت گری پر مامور کیا تھا -- امام (ع) کا موقف نہایت ہی نرم تھا ۔

۳ ۔ عبد الملک بن مروان جس کو خلفائے بنو امیہ میں طاقتور ترین اور چالاک ترین خلیفہ شمار کیا جاتا ہے ، اس کے مقابلہ میں امام (ع) کا موقف کبھی تو بہت ہی سخت اور کبھی بہت ہی نرم نظر آتا ہے -------

اسی طرح --------

۴ ۔ عمر بن عبد العزیز کے ساتھ آپ کا برتاؤ

۵ ۔ اپنے اصحاب اور رفقاء کے ساتھ آپ (ع) کا سلوک اور دوستانہ نصیحتیں اور

۶ ۔ ظالم و جابر حکومت اور اس کے عملے سے وابستہ درباری علماء کے ساتھ امام علیہ السلام کا رویہ؟

ان تمام موقفوں اور اقدامات کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے میں تو اسی نتیجہ پر بہنچا ہوں کہ اگر اس بنیادی موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام جزئیات و حوادث کا جائزہ لیا جائے تو بڑے ہی معنی خیز حقائق سامنے آئیں گے ۔چنانچہ اگر اسی زاویہ سے امام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو عظیم ہستی ایک ایسا انسان نظر آئے گی جو اس روئے زمین پر خدا وند وحدہ لا شریک کی حکومت قائم کرنے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں نافذ کرنے کو ہی اپنا مقدس مقصد سمجھتے ہوئے اپنی تمام ترکوشش و کاوش بروئے کار لاتا رہا ہے اور جس نے پختہ ترین اور کار آمد ترین کا رگردگی سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف یہ کہ اسلامی قافلہ کو اس پر اگندگی اور پریشاں حالی سے نجات دلائی ہے جو واقعہ عاشور کے بعد دنیا ئے اسلام پر مسلط ہو چکی تھی بلکہ قابل دید حد تک اس کو آگے بھی بڑھایا ہے ۔ دو اہم اور بنیادی فریضے جو ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام کو سونپے گئے تھے ( ہم ابھی ان کی طرف اشارہ کریں گے ) ان کو امام سجاد علیہ السلام نے بڑی خوش اسلوبی سے جامہ عمل پہنایا ہے ۔ آپ (ع) پوری سیاسی بصیرت اور شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی احتیاط اور باریک بینی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے یہاں تک کہ تقریبا ۳۵ سال کی انتھک جد و جہد اور الٰہی نمایندگی کی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد آپ (ع) سرفراز و سر بلند اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور اپنے بعد امامت و ولایت کا عظیم بار اپنے فرزندو جانشین امام محمد باقر علیہ السلام کے سپرد فرمادیئے۔

چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کو منصب امامت اور حکومت اسلامی کی تشکیل کی ذمہ داریوں کا سونپا جانا روایات میں بڑے ہی واضح الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔ ایک روایت کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو جمع کیا اور محمد بن علی (ع) یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

” یہ صندوق اور یہ اسلحہ سنبھالو یہ تمھارے ہاتھوں میں امانت ہے “

اور جب صندوق کھولا گیا تو اس میں قرآن اور کتاب تھی۔

میرے خیال میں اسلحہ سے ، انقلابی قیادت و رہبری کی طرف اشارہ ،اور قرآن و کتاب ، اسلامی افکار و نظریات کی علامت ہے اور یہ چیزیں امام (ع) نے اپنے بعد آنے والے امام کی تحویل میں دے کر نہایت ہی اطمینان و سکون کے ساتھ آگاہ و بیدار انسانوں اور خدا وند عالم کی نظر میں سر فراز وسرخ رواس دنیا کو خیر باد کہا ہے ۔

یہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک مجموعی خاکہ ہے اب اگر ہم تمام جزئیات زندگی کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیں تو صورت حال کو پہلے سے مشخص کر لینا چاہئے ۔

حضرت (ع) کی حیات مبارکہ میں ایک مختصر سا دور وہ بھی ہے جس کو منارہ زندگی سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا ۔ میں چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے اسی کا ذکر کروں اور پھر امام کی معمول کے تحت عادی زندگی ، اس زمانہ کے حالات و کو ائف اور ان کے تقاضوں کی تشریح کروں گا۔

در اصل امام علیہ السلام کی زندگی کاوہ مختصر اور تاریخ ساز دور ، معرکہ کربلا کے بعد آپ (ع) کی اسیری کازمانہ ہے جومدت کے اعتبار سے مختصرلیکن واقعات وحالات کے اعتبارنہایت ہی ہیجان اور وسبق آموز ہے جہاںاسیری کے بعد بھی آپ کا موقف بہت ہی سخت اور مزاحمت آمیز رہتاہے ۔بیما راورقید ہونے کے باوجودکسی عظیم مردمجاہد کے ماننداپنے قول وفعل کے ذریعہ شجاعت و دلیری کے بہترین نمونہ پیش کئے ہیں ۔اس دوران امام کا طرز عمل حضرت (ع) کی بقیہ عام زندگی سے -- جیسا کہ آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے -- بالکل مختلف نظر آتا ہے ۔ امام علیہ السلام کی زندگی کے اصلی دور میں آپ (ع) کی حکمت عملی مستحکم بنیاد پرپڑے ہی جچے تلے انداز میں نرم روی کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھنا ہے حتی کہ بعض وقت عبد الملک بن مروان کے ساتھ نہ صرف ایک محفل میں بیٹھے ہوئے نظر آئے ہیں بلکہ اس کے ساتھ آپ (ع) کا رویہ بھی نرم نظر آتا ہے جب کہ اس مختصر مدت ( ایام اسیری ) میں امام (ع) کے اقدامات بالکل کسی پر جوش انقلابی کے مانند نظر آتے ہیں جس کے لئے کوئی معمولی سی بات بھی برداشت کر لینا ممکن نہیں ہے لوگوں کے سامنے بلکہ پھرے مجمع میں بھی مغرور و بااقتدار دشمن کا دندان شکن جواب دینے میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے ۔

کوفہ کا درندہ صفت خونخوار حاکم ، عبد اللہ ابن زیاد جس کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے جو فرزند رسول (ص) امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعوان و انصار کا خون بہا کر مست و مغرور اور کامیابی کے نشہ میں بالکل چور ہے اس کے مقابلہ میں حضرت (ع) ایسا بے باک اور سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ابن زیاد آپ (ع) کے قتل کا حکم جاری کر دیتا ہے چنانچہ اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا ڈھال کے مانند آپ (ع) کے سامنے آکر یہ نہ کہتیں کہ میں اپنے جیتے جی ایسا ہرگز نہ ہونے دوں گی اور ایک عورت کے قتل کا مسئلہ درپیش نہ آتا نیز یہ کہ قیدی کے طور پر دربار شام میں حاضر کرنا مقصود نہ ہوتا تو عجب نہیں ابن زیاد امام زین العابدین علیہ السلام کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگین کر لیتا۔

بازار کوفہ میں آپ (ع) اپنی پھوپھی جناب زینت (ع)اوراپنی بہن جناب سکینہ کے ساتھ ہم صدا ہو کر تقریر کرتے ہیں لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرتے ہیں اور حقیقتوں کا انکشاف کر دیتے ہیں ۔

اسی طرح شام میں چاہے وہ یزید کا دربار ہو یا مسجد میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم ، بڑے ہی واضح الفاظ میں دشمن کی سازشوںسے پردہ اٹھاکر حقائق کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں چنانچہ حضرت (ع) کے ان تمام خطبوں اور تقریروں میں اہلبیت (ع)کی حقانیت ، خلافت کے سلسلہ میں ان کا استحقاق اور موجودہ حکومت کے جرائم اور ظلم و زیادتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نہایت ہی تلخ اور درشت لب و لہجہ میں غافل و ناآگاہ عوام کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

یہاں ان خطبوں کو نقل کرکے امام (ع) کے فقروں کی گہرائی پیش کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی کیوں کہ یہ خود ایک مستقل کام ہے اور اگر کوئی شخص ان خطبوں کی تشریح و تفسیر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان بنیادی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ایک لفظ کی تحقیق اور چھان بین کرے ۔ یہ ہے امام (ع) کی اسارت اور قید و بند کی زندگی جو جرات و ہمت اورشجاعت و دلاوری سے معمور نظر آتی ہے ۔

رہائی کے بعد

ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کے پیش نظر امام علیہ السلام کے موقف میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی کہ اب قید سے چھوٹ کر آپ نہایت ہی نرم روی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں تقیہ سے کام لیتے ہیں ۔ اپنے تیز و تند انقلابی اقدامات پر دعا اور نرم روی کا پردہ ڈال دیتے ہیں تمام امور بڑی خاموشی کے ساتھ انجام دیتے ہیں جب کہ قید و بند کے عالم میں آپ نے ایسے دلیرانہ عزائم کا اظہار اور مخاصمت آمیز اقدام فرمایا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک استثنا ئی دور تھا یہاں جناب امام سجاد علیہ السلام کو فرائض امامت کی ادائیگی اور حکومت الٰہی و اسلامی کی تشکیل کے لئے مواقع فراہمی کے ساتھ ہی ساتھ عاشور کو بہنے والے بے گناہوں کے خون کی ترجمانی بھی کرنی تھی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں حضرت سجاد علیہ السلام کے دہن میں ان کی اپنی زبان نہ تھی بلکہ شمشیر سے خاموش کر دی جانے والی حسین (ع) کی زبان اس وقت کوفہ و شام کی منزلوں سے گزر نے والے اس انقلابی جوان کو ودیعت کر دی گئی تھی ۔

چنانچہ اگر اس منزل میں امام زین العابدین علیہ السلام خاموش رہ جاتے اور اس جرات و ہمت اور جواں مردی و بیباکی کے ساتھ حقائق کی وضاحت کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ کر دیئے ہوتے تو آئندہ آپ (ع) کے مقاصد کی تکمیل کی تمام راہیں مسدود ہو کر رہ جاتیں کیوں کہ یہ امام حسین علیہ السلام کا جوش مارتا ہوا خون ہی تھا جس نے نہ صرف آپ (ع) کے لئے میدان ہموار کر دیا بلکہ تاریخ تشیع میں جتنی بھی انقلابی تحریکیں برپا ہوئی ہیں ان سب میں خون حسین علیہ السلام کی گرمی شامل نظر آتی ہے چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام سب سے پہلے لوگوں کو موجودہ صورت حال سے خبر دار کر دینا ضروری سمجھتے ہیںتاکہ آئندہ اپنے اسی عمل کے پر تو میں بنیادی و اصولی ،عمیق و متین طولانی مخالفتوں کا سلسلہ شروع کر سکیں اور ظاہر ہے تیز و تند زبان استعمال کئے بغیر لوگوں کو متنبہ اور ہوشیار کرنا ممکن نہ ہوتا ۔

اس قید و بند کے سفر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار جناب زینت سلام اللہ علیہا کے کردار سے بالکل ہم آہنگ ہے دونوں کا مقصد حسینی انقلاب اور پیغامات کی تبلیغ و اشاعت ہے اگر لوگ اس بات سے واقف ہو جائیں کہ حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے ،کیوں قتل کر دیئے گئے؟ اور کس طرح قتل کئے گئے تو آئندہ اسلام اور اہلبیت علیہم السلام کی دعوت ایک نیا رنگ اختیار کر لے گی لیکن اگر عوام ان حقیقتوں سے ناواقف رہ گئے تو انداز کچھ اور ہوگا۔

لہٰذ ا معاشرہ میں ان حقائق کو عام کر دینے اور صحیح طور پر حسینی (ع) انقلاب کو پہچنوانے کے لئے اپنا تمام سرمایہ بروئے کا ر لاکر جہاں تک ممکن ہو سکے اس کام کو انجام دینا ضروری تھا ۔ چنانچہ حضرت سید سجاد علیہ السلام کا وجود بھی جناب سکینہ (ع) ،جناب فاطمہ صغریٰ (ع) ، خود جناب زینب سلام اللہ علیہا بلکہ ایک ایک قیدی کے مانند ( اپنی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے) اپنے اندر ایک پیغام لئے ہوئے ہے ۔ ضروری تھا کہ یہ تمام انقلابی قوتیں مجتمع ہو کر غربت و بیکسی میں بہا دیئے جانے والے حسینی (ع) خون کی سرخی کربلا سے لے کر مدینہ تک تمام بڑے بڑے اسلامی مراکز میں پھیلادیں ۔

جس وقت امام سجاد علیہ السلام مدینہ میں وارد ہوں لوگوں کی بے چین و متجسس سوالی نگاہوں ، چہروں اور زبانوں کے جواب میں آپ (ع) ان کے سامنے حقائق بیان کریں اور یہ امام کی آئندہ مہم کا نقشہ اول ہے ۔اسی لئے ہم نے امام زین العابدین علیہ السلام کے اس مختصر دور حیات کو ایک استثنائی دور سے تعبیر کیا ہے ۔

اس مہم کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ (ع) مدینہ رسول (ص) میں ایک محترم شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور اپنا کا م پیغمبر اسلام (ص)کے گھر اور آپ (ع) کے حرم ( مسجد النبی (ص)) سے آغاز کرتے ہیں ۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے آئندہ موقف اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی حالت و کیفیت اور اس کے تقاضوں پر بھی ایک تحقیقی نظر ڈال لی جائے چنانچہ اس موضوع پر آگے روشنی ڈالیں گے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی تحریک کس طرح شروع کی ، آپ (ع) کا مقصد اور طریقہ کار کیا تھا ان تمام باتوں کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کی حکمراں سیاسی مشینری سے بیزار و متنفر مخالفین کے مجموعی حالات اور بنی امیہ کے بارہ میں ان کے خیالات ساتھ ہی ساتھ اہلبیت کی کلی صورت حال پر ایک نظر ڈال لی جائے اور یہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا ایک مستقل باب ہے چنانچہ اگر تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو ممکن ہوئی تو امام علیہ السلام کی زندگی سے متعلق بہت سی مشکلات اور الجھنےں حل ہو جائیں گی ۔ اوربعد اس کے حضرت (ع) کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کی خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے گی (البتہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس حد تک تفصیل میں جانا ہمارے لئے ممکن ہوگا)

ماحول

جب عاشور کا المناک حادثہ رو نما ہوا ،پوری اسلامی دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ خبر پہنچی خصوصا عراق اور حجاز میں مقیم ائمہ علیہم السلام کے شیعوں اور طرفداروں میں ایک عجیب رعب و دحشت کی فضا پیدا ہو گئی کیوں کہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ یزیدی حکومت اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے حتیٰ اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظیم ،مقدس اور معتبر ترین ہستی فرزند رسول(ص)حسین ابن علی علیہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے میں بھی کسی طرح کا کوئی دریغ نہیںہے ۔اور اس رعب و وحشت میں جس کے آثار کو فہ و مدینہ میں کچھ زیادہ ہی نمایاں تھے ، جو کچھ کمی رہ گئی تھی وہ بھی اس وقت پوری ہو گئی جب کچھ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزہ خیز حوادث رو نما ہوئے جن میں سر فہرست حادثہ ” حرہ“ ہے ۔

اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے زیر اثر علاقوں یعنی حجاز (خصوصا مدینہ) اور عراق ( خصوصا کوفہ) میں بڑا ہی گھٹن کا ماحول پیدا ہو گیا تھا تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہو چکے تھے ۔ وہ لوگ جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو امیہ کے خلافت و حکومت کے زبردست مخالفین میں شمار ہوتے تھے بڑی ہی کس مپرسی اور شک و شبہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے کہ حضرت (ع) گزشتہ ائمہ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ارتدالناس بعد الحسین (ع)الا ثلاثة

یعنی امام حسین علیہ السلام کے بعد تین افراد کے علاوہ سارے لوگ مرتد ہو گئے ، ایک روایت میں پانچ افراد اور بعض دوسری روایتوں میں سات افراد تک کا ذکر ملتا ہے ۔

ایک روایت جو خود امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے اور جس کے راوی ابو عمر مہدی ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

ما بمکة والمدینة عشرین رجلا یحبنا(۲)

پورے مکہ و مدینہ میں بیس افراد بھی ایسے نہیں ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہوں ۔

ہم نے یہ دونوں حدیثیں اس لئے نقل کی ہیں کہ اہلبیت طاہرین علیہم السلام اوران کے طرفداروں کے بارہ میں عالم اسلام کی مجموعی صورت حال کااندازہ لگایاجاسکے ۔دراصل اس وقت ایسی خوف وہراس کی فضاپیداہوگی تھی کہ ائمہ (ع)کے طرفدارمتفرق وپراگندہ مایوس ومرعوب زندگی گزاررہے تھے اور کسی طرح کی اجتماعی تحریک ممکن نہ تھی ۔ البتہ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مذکورہ بالا روایات میں ارشاد فرماتے ہیں :

ثم ان الناس لحقوا و کثروا

پھر آہستہ آہستہ لوگ اہل بیت علیہم السلام سے ملحق ہوتے گئے اور تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔

خفیہ تنظیمیں

اگر یہی مسئلہ جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ذرا تفصیل کی ساتھ بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ : کربلا کا عظیم سانحہ رو نما ہونے کے بعد اگر چہ لوگوں کی خاصی تعداد رعب و وحشت میں گرفتار ہو گئی تھی پھر بھی خوف و ہراس اتنا غالب نہ تھا کہ شیعیان اہلبیت علیہم السلام کی پوری تنظیم یکسر درہم برہم ہو کر رہ گئی ہو جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت اسیران کربلا کا لٹا ہو ا قافلہ کوفہ میں وارد ہوتا ہے کچھ ایسے واقعات رو نما ہوتے ہیں جو شیعہ تنظیموں کے وجود کا پتہ دیتے ہیں ۔

البتہ یہاں ہم نے جو شیعوں کی خفیہ تنظیم، کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ یہاں ہماری مراد موجودہ زمانہ کی طرح سیاسی تنظیموں کی کوئی باقاعدہ منظم شکل ہے بلکہ ہمارا مقصد وہ اعتقادی روابط ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک مضبوط شکل دھاگے میں پرو دیتے ہیں اور پھر لوگوں میں جذبہ فدا کاری پیدا کرکے خفیہ سر گرمی پر اکساتی ہے اور نتیجہ کے طور پر انسانی ذہن میں ایک ہم فکر جماعت کا تصور پیدا ہو جاتا ہے ۔

ان ہی دنوں جب کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت کو فہ میں اسیر تھی ایک رات اسی جگہ جہاں ان کو قید رکھا گیا تھا ، ایک پتھر آکر گرا ، اہلبیت (ع) اس پتھر کی طرف متوجہ ہوئے دیکھا تو ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے ساتھ منسلک تھا جس پر کچھ اس طرح کی عبارت تحریر تھی ، کوفہ کے حاکم نے ایک شخص کو یزید کے پاس( شام ) روانہ کیا ہے تاکہ آپ کے حالات سے اس کو باخبر کرے نیز آئندہ کے بارہ میں اس کا فیصلہ معلوم کرے اب اگر کل رات تک (مثلا ) آپ کو تکبیر کی آواز سنائی دے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کویہیں قتل کر دینے کا فیصلہ ہوا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھئے گا کہ حالات کچھ بہتر ہیں ۔(۳)

جس وقت ہم یہ واقعہ سنتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے دوستوں یا ممبروں میں سے کوئی شخص ابن زیاد کے دربار میں موجود رہا ہوگا جس کو تمام حالات کی خبر تھی اور قید خانہ تک رسائی بھی رکھتا تھا حتی کہ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ قیدیوں کے سلسلہ میں کیا فیصلہ اور منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں اور صدائے تکبیر کے ذریعہ اہلبیت علیہم السلام کو حالات سے باخبر کر سکتا ہے ۔ چنانچہ اس شدت عمل کے ساتھ ساتھ جو وجود میں آچکی تھی اس طرح کی چیزیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں ۔

اس طرح کی ایک مثال عبداللہ بن عفیف ازدی کی ہے جو ایک مرد نابینا ہیں اور اسیران کربلا کے کوفہ میں ورود کے موقع پر ہی شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر انھیں بھی جام شہادت نوش کرنا پڑتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس قسم کے افراد کیا کوفہ اور کیا شام ہر جگہ مل جاتے ہیں جو قیدیوں کی حالت دیکھ کر ان سے محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور صرف آنسو بہانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی نسبت ملامت کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں ( حتی کہ اس قسم کے واقعات دربار یزید اور ابن زیاد کی بزم میں پیش آتے رہے ہیں )

لہٰذا اگرچہ حادثہ کربلا کے بعد نہایت ہی شدید قسم کا خوف عوام و خواص پر طاری ہو چکا تھا پھر بھی ابھی اس نے وہ نوعیت اختیار نہیں کی تھی کہ شیعیان آل محمد (ص) کی تمام سر گرمیاں بالکل ہی مفلوج ہو گئی ہوں اور وہ ضعف و پراگندگی کا شکار ہو گئے ہوں لیکن کچھ ہی دنوں بعد ایک دوسرا حادثہ کچھ اس قسم کا رو نما ہوا جس نے ماحول میں کچھ اور گھٹن کا اضافہ کر دیا ۔ اور یہیں سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ”ارتدالناس بعد الحسین (ع)“ کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے امام علیہ السلام نے غالبا اسی حادثہ کے دوران یا اس کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ فرمایا ہے یا ممکن ہے یہ بات اس درمیانی وقفہ سے متعلق ارشاد فرمائی ہو جو ان کے ما بین گزرا ہے۔

ان چند برسوں کے دوران -- اس عظیم حادثہ کے رو نما ہونے کے پہلے -- شیعہ اپنے امور کو منظم کرنے اور اپنے درمیان پہلی سی ہم آہنگی دوبارہ واپس لانے میں لگے ہوئے تھے ۔ اس مقام پر طبری اپنے تاثرات کا یوں اظہار کرتا ہے :”فلم یزل القوم فی جمع آلة الحرب والاستعداد للقتال

یعنی وہ لوگ ( مراد گروہ شیعہ ) جنگی سازو سامان اکٹھا کرنے نیز خود کو جنگ کے لئے آمادہ کرنے میں لگے ہوئے تھے چپکے چپکے شیعوں اور غیر شیعوں کو حسین ابن علی علیہما السلام کے خون کا انتقام لینے پر تیار کر رہے تھے اور لوگ گروہ در گروہ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان میں شمولیت اختیار کر رہے تھے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا یہاں تک کہ یزید ابن معاویہ واصل جہنم ہو گیا ۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں با وجود اس کے کہ ماحول میں گھٹن اور سراسیمگی بہت زیادہ پائی جاتی تھی پھر بھی اس طرح کی سر گرمیاں اپنی جگہ پر جاری تھیں ( جیسا کہ طبری کی عبارت سے پتہ چلتا ہے ) اور شاید یہی وہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر ” جہاد الشیعہ“ کا مولف اگر چہ شیعہ نہیں ہے اور امام زین العابدین علیہ السلام کے سلسلہ میں صحیح اور مطابق واقع نظریات نہیں رکھتا پھر بھی وہ اس حقیقت کو درک کر لیتا ہے اور اپنے احساسات کو ان الفاظ میں پیش کرتا ہے کہ :

” گروہ شیعہ نے حسین (ع) کی شہادت کے بعد خود کو باقاعدہ تنظیم کی صورت میں منظم کر لیا ،ان کے اعتقادات اور سیاسی روابط انھیں آپس میں مربوط کرتے تھے ۔ ان کی جماعتیں اور قائد تھے ۔ اسی طرح وہ فوجی طاقت کے بھی مالک تھے چنانچہ توابین کی جماعت اس تنظیم کی سب سے پہلی مظہر ہے“

ان حقائق کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عاشور کے عظیم حادثہ کے زیر اثر اگر چہ بڑی حد تک شیعہ تنظیمیں ضعف و کمزور ی کا شکار ہو گئی تھیں پھر بھی اس دوران شیعہ تحریکیں اپنی ناتوانی کے باوجود مصروف عمل رہیں جس کے نتیجہ میں پہلے کی طرح دوبارہ خود کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئیں ۔یہاں تک کہ واقعہ حرہ پیش آیا ۔ اور میں سمجھتا ہوں واقعہ حرہ تاریخ تشیع میں نہایت اہم موڑ ہے ۔در اصل یہی وہ واقعہ ہے جس نے شیعہ تحریک پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے ۔

واقعہ حرہ

حرہ کا حادثہ تقریبا ۶۳ ھئمیں پیش آیا ۔ مختصر طور پر اس حادثہ کی تفصیلات کچھ اس طرح ہےں کہ ۶۳ ئہجری میں بنو امیہ کا کم تجربہ نوجوان مدینہ کا حَکم مقرر ہوا اس نے خیال کیا کہ شیعیان مدینہ کا دل جیتنے کے لئے بہتر ہوگا کہ ان میں سے کچھ لوگوں کو شام جاکر یزید سے ملاقات کرنے کی دعوت دی جائے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا مدینہ کے چند سربرآوردہ افراد ، اصحاب نیز دیگر معزز ین سے منتخب کئے جس میں اکثریت امام زین العابدین علیہ السلام کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتی تھیں ان لوگوں کو شام جانے کی دعوت دی گئی کہ وہ جائیں اور یزید کے لطف و کرم دیکھ کر اس سے مانوس ہو جائیں اور اس طرح اختلافات میں کمی واقع ہو جائے ۔یہ لوگ شام گئے اور یزید سے ملاقات کی چند دن اس کے مہمان رہے ان لوگوں کی خوب پذیرائی کی گئی اور رخصت ہوتے وقت یزید نے ہر ایک کو کافی بڑی رقم ( تقریبا پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ درہم تک )سے نوازا لیکن ۔

جیسے ہی یہ لوگ مدینہ واپس پہنچے ، چوں کہ یزیدی در بار میں پیش آنے والے المیئے انھوں نے اپنی نظروں سے خود دیکھ لئے تھے لہٰذا خوب کھل کر یزید کو مورد تنقید قرار دیا اور نتیجہ بالکل ہی بر عکس ظاہر ہوا ان لوگوں نے یزید کی تعریف و توصیف کرنے کے بجائے ہر خاص و عام کو اس کے جرائم سے آگاہ کرنا شروع کر دیا ۔ لوگوں سے کہا: یزید کو کس بنیاد پر خلیفہ تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ شراب و کباب میں غرق رہنا اور کتوں سے کھیلنا اس کا بہترین مشغلہ ہے ۔ کوئی فسق و فجور ایسا نہیں ہے جو اس کے یہاں نہ پایا جاتا ہو ۔ لہٰذا ہم اس کو خلافت سے معزول کرتے ہیں ۔

عبداللہ بن حنظلہ(۴) جو مدینہ کی نمایاں اور محبوب شخصیتوں میں سے تھے یزید کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے ان لوگوں نے یزید کو معزول کرکے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینی شروع کر دی۔

اس اقدام کا نتیجہ یزید کی طرف سے براہ راست رد عمل کی صورت میں ظاہر ہوا اس نے اپنے ایک تجربہ کار پیر فرتوت سردار ، مسلم بن عقبہ کو چند مخصوص لشکر یوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا کہ وہ اس فتنہ کو خاموش کر دے ۔ مسلم بن عقبہ مدینہ آیا اور چند روز تک اہل مدینہ کی قوت مقابلہ کو پست کرنے کے لئے شہر کا محاصرہ کئے رہا یہاں تک کہ ایک دن شہر میں داخل ہوا اور اس قدر قتل و غارت گری مچائی اور اس قدر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ اسلام میں وہ آپ اپنی مثال ہے ۔

اس نے مدینہ میں کچھ ایسا ہی قتل و غارت گری اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیاتھا کہ اس حادثہ کے بعد اس کا لقب ہی مسرف پڑگیا اور لوگ اس کو ” مسرف بن عقبہ “ کے نام سے پکارنے لگے ۔ حادثہ حرہ سے متعلق واقعات کی فہرست کا فی طویل ہے اور میں زیادہ تشریح میں جانا نہیں چاہتا صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ یہ واقعہ تمام مسلمانوں خصوصا اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں اور ہمنواؤں میں بے پناہ خوف و ہراس پیدا کرنے کا سبب بنا ، خاص طور پر مدینہ تقریبا خالی ہو گیا کچھ لوگ بھاگ گئے کچھ لوگ مار ڈالے گئے اہلبیت (ع) کے کچھ مخلص و ہمدرد مثال کے طور پر عبداللہ ابن حنظلہ جیسے لوگ شہید کر دیئے گئے اور ان کی جگہ خالی ہو گئی ۔ اس حادثہ کی خبر پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئی اور سب سمجھ گئے کہ اس قسم کی ہر تحریک کا سد باب کرنے کے لئے حکومت پوری طرح آمادہ ہے اور کسی طرح کے اقدام کی اجازت دینے کو ہرگز تیار نہیںہے ۔

اس کے بعد ایک اور حادثہ -- جو مزید شیعوں کی سر کوبی اور ضعف کا سبب بنا -- جناب مختار ثقفی کی کوفہ میں شہادت اور پورے عالم اسلام پر عبد الملک بن مروان کے تسلط کی صورت میں ظاہر ہوا ۔

یزید کی موت کے بعد جو خلفاء آئے ہیں ان میں اس کا بیٹا معاویہ ابن یزید ہے جو تین ماہ سے زیادہ حکومت نہ کر سکا ۔ اس کے بعد مروان بن حکم کے ہاتھ میں اقتدار آیا اور تقریبا دو سال یا اس سے کچھ کم اس نے حکومت کی اور پھر خلافت کی باگ ڈور عبد الملک بن مروان کے ہاتھ میں آگئی جس کے لئے مورخین کا خیال ہے کہ وہ خلفا ئے بنو امیہ میںزیرک ترین خلیفہ رہا ہے ۔ چنانچہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ :

کان عبد الملک اشد هم شکیبه و اقساهم عزیمه

عبد الملک پورے عالم اسلام کو اپنی مٹھی میں جکڑ لینے میں کامیاب ہو گیا اور خوف و دہشت سے معمور عامرانہ حکومت قائم کر دی۔

حکومت پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے لئے عبد الملک کے سامنے صرف ایک راہ تھی اور وہ یہ کہ اپنے تمام رقیبوں کا صفایا کر دے مختار جو شیعیت کی علامت تھے ، مصعب بن زبیر کے ہاتھوں پہلے ہی جام شہادت نوش فرما چکے تھے لیکن عبد الملک شیعہ تحریک کا نام و نشان مٹا ڈالنا چاہتا تھا اور اس نے یہی کیا بھی ۔اس کے دور میں عراق خصوصا کوفہ جو اس وقت شیعوں کا ایک گڑھ شمار کیا جاتا تھا ،مکمل جمود اور خاموشی کی نذر ہو گیا۔

بہر حال یہ حوادث کربلا کے عظیم سانحہ سے شروع ہوئے اور پھر یکے بعد دیگرے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ کے قتل و غارت ، عراق میں تو ابین(۵) کی بیخ کنی ،جناب مختار ثقفی اور ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نیز دیگر اکابرین شیعہ کی شہادت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے حصول کی غرض سے ہر تحریک چاہے وہ مدنیہ ہو یا کوفہ( کیوں کہ اس وقت یہ دونوں شیعوں کے اہم ترین مراکز تھے ) کچل کر رکھ دی گئی ، شیعیت سے متعلق پورے عالم اسلام میں ایک عجیب خوف و ہراس پیدا ہوگیا ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ائمہ طاہرین علیہم السلام سے وابستہ رہ گئے تھے اپنی زندگی نہایت ہی غربت و کس مپرسی میں بسر کر رہے تھے ۔

___________________

(۱)۔ اصول کافی کتاب الحجہ باب کراہیۃ التوقیت ۔روایت اول ج/۳ص/۱۹۰طبع بنیاد رسالت ،تہران

(۲)۔ بحار الانوار ج/۴۶ ص/۱۴۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج/۴ص/۱۰۴

(۳)۔ یہ واقعہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ الکامل میں نقل کیا ہے ۔

(۴)۔ حنظلہ ہی وہ نو جوان ہیں جو قبل اس کے کہ ان کی شب عروسی تمام ہو پیغمبر اسلام (ص) کی فوج میں آکر شامل ہو گئے اور میدان احد میں شہادت کا جام نوش فرمایا اور ملائکہ نے ان کو غسل دیا اسی لئے یہ حنظلہ غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے ۔

(۵)۔ توبین کی تحریک واقعہ کربلا کا سب سے پہلا رد عمل ہے جو کوفہ میں ظاہر ہوا ۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بعض شیعوں نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے مواخذہ و عتاب کا مستحق قرار دیا کہ انھوں نے امام کی دعوت پر لبیک کیوں نہ کہی اور مدد کے لئے میدان میں نکلنے سے کیوں گریز کیا چنانچہ انھوں نے محسوس کیا اس گناہ سے اپنے دامن کو پاک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ امام کے دشمنوں او ر قاتلوں سے حضرت کے خون کا انتقام لیا جائے ، لہٰذا وہ لوگ کوفہ آئے اور اکابرین شیعہ میں سے پانچ افراد کو جمع کرکے ان سے اس سلسلہ میں گفتگو کی اور نتیجہ کے طور پر سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں کھلے طور پر مسلحانہ تحریک کا آغاز کر دیا ۔ شب جمعہ ۲۵/ ربیع الثانی ۶۵ء ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پر زیارت کے لئے جمع ہوئے اس طرح فریاد و گریہ کرنا شروع کیا کہ آج تک اس گریہ و زاری کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کے بعد قبر امام کو وداع کہہ کر شامی حکومت سے نبرد آزما ئی کے لئے شام کا رخ کیا اور پھر لشکر بنو امیہ سے جم کر جنگ ہوئی اور سب کے سب مارے گئے ۔ توابین کی تحریک کاایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ با وجود اس کے کہ کوفہ میں تھے پھر بھی شام گئے اور بر سراقتدار حکومت سے جنگ کی تاکہ یہ ثابت کر دیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قاتل کوئی ایک شخص یا چند اشخاص نہیں ہیں بلکہ یہ حکومت ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ہے ۔


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18