تفسیرنور

تفسیرنور5%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69048 / ڈاؤنلوڈ: 8312
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تفسیرنور

مصنف: شیخ محسن قرائتی

سورہ انعام

( بسم الله الرحمن الرحیم )

یہ سورت قرآن مجید کی ۹ ویں سورت ہے کہ جس کی تمام آیات خصوصی اہتمام کے ساتھ مکہ معظمہ میں یکجا نازل ہوئیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ستر ہزار فرشتوں کے جلو میں یہ سورت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔

اس سورت کی فضلیت اور اس کی تلاوت کے ذریعہ قضاء حوائج کے بارے میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص (دو سلاموں کے ساتھ) چار رکعت نماز پڑھے پھر اس سورت کی تلاوت کرے اور اس کے بعد دعا مانگے تو اس کی حاجات پوری ہوں گی۔ (ملاحظہ ہو تفسیر اطیب البیان)

( بسم الله الرحمن الرحیم )

آیت ۱

( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ۵ط ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ابِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو قرار دیا، پس (ان تمام چیزوں کے باوجود) جن لوگوں نے اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کیا دوسروں کو اپنے پروردگار کے برابر قرار دیتے ہیں۔

ایک نکتہ:

تمام قرآن مجید میں "نور" مفرد (واحد) کے صیغہ کے ساتھ اور "ظلمات" جمع کے صیغہ کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ کیونکہ حق ایک ہے اور باطل کی راہیں کئی ہیں۔ "نور" وحدت اور توحید کی علامت اور "ظلمات" انتشار اور پراگندگی کی نشانی ہے۔

نکات و پیام:

۱ ۔ اس سورت کی پہلی آیت "نظام کائنات" کی طرف دوسری آیت "تخلیق انسان" کی طرف اور تیسری آیت "انسان کے اعمال و کردار" کے نظام کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

۲ ۔ وہی ذات ہی کتم عدم سے منصہ شہود پر لے آتی ہے اور خلق شدہ اشیا ء سے بھی نئی قسم کی کیفیات اور جدید قسم کی صورتیں ایجا د کرتی ہے( خلق، جعل )

۳ ۔ اصل راہ توحید ہی کی ہے جبکہ شرک ایسا راستہ ہے جو بعد میں پیدا ہوتا ہے( ثم--- )

۴ ۔ حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق یہ آیت تین قسم کے گمراہ لوگوں کا جواب ہے۔

الف: "مادہ پرستوں" کا جو کائنات کی تخلیق اور حدوث کے منکر ہیں( خلق السماوات--- )

ب: "دوگانہ پرستوں" کا جو "نور" اور "ظلمت" دونوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مبدأ( خالق ) کے قائل ہیں۔( جعل الظلمات ) ( و النور ) ۱

ج: "مشرکین" کا جو خدا کے شریک اور شبیہ کے قائل ہیں۔( ثم الذین کفروا بربهم یعدلون ) ۲

آیت ۲

( هُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلًا ط وَّاَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَه ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ وہی (خدا ہی) تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت مقرر کی اور مقررہ مدت (کا علم) اسی کے پاس ہے، پھر (اس کے باوجود) بھی تم شک و شبہ کرتے ہو۔

چند نکات:

اس سے پہلی آیت میں آفاق اور آسمان و زمین کے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ اور زیرِ نظر آیت میں انسانی تخلیق اور اندرونی مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں بیس ( ۲۰) سے زیادہ مرتبہ "اجل مسمیّ" کا تذکرہ ہے۔

خداوند عالم نے انسان کے لئے دو قسم کے زمانوں کو مقرر فرمایا ہے۔ ایک حتمی مدت ہوتی ہے کہ اگر ہر طرح اس کی حفاظت کی جائے پھر بھی جس طرح چراغ کا تیل ختم ہو جانے سے چراغ بجھ جاتا ہے اسی طرح انسانی عمر ختم ہوجاتی ہے۔ اور دوسری مدت زمانی جو خود ہمارے اپنے کردار سے متعلق ہوتی ہے جیسے چراغ میں تیل موجود ہوتا ہے لیکن اسے طوفانی ہواؤں کے رُخ پر رکھ دینے سے جلد بجھ جاتا ہے۔

روایات کی رو سے کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ عمر کے طولانی ہونے کا سبب ہوتے ہیں۔ جیسے صلہ رحمی، صدقہ، زکوٰة اور دُعا وغیرہ اور کچھ اعمال ایسے ہیں جن سے عمر کوتاہ ہوجاتی ہے جیسے قطع رحمی اور ظلم وغیرہ۔

حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے دو طرح کی "اجل" مقرر فرمائی ہے ایک تو ولادت سے وفات تک اور دوسری وفات سے قیامت تک۔ اور انسان اپنے ہی اعمال وکردار کے ذریعہ بعض اوقات ایک میں کمی کرکے دوسری میں اضافہ کردیتا ہے۔ لہٰذا اجل کی انتہا کسی بھی شخص کے لئے تبدیل نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد الٰہی ہے "وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الافی کتاب" یعنی جس کسی کو کوئی عمر ملتی ہے یا اس کی عمر کم ہوتی ہے وہ سب کچھ کتابِ خدا (لوح محفوظ) میں درج ہے۔

پیام:

۱۔ جب کائنات اور عالم انسانیت کی تخلیق اور مقررہ اجل خدا ہی کی طرف سے اور خدا ہی کے ہاتھ میں ہے تو پھر مبدا اور معاد میں اس قدر شک کیوں؟( ثم انتم تمترون )

۲۔ تمہاری عمر، تمہاری زندگی کی مقررہ مدت تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ (مدت عمر، کسی کو معلوم نہیں کیونکہ لفظ "اجلا" نکرہ استعمال ہوا ہے۔)

۳۔ انسان کے لئے دو طرح کی "اجل" ایک مشروط اور تبدیل ہوسکنے والی جسے صرف "اجل" کہا گیا ہے۔ اور دوسری غیر مشروط اور ناقابلِ انتقال و ناقابلِ تغیر جسے "اجل مسمٰی" سے تعبیر کیا گیا ہے کہ اگر یہی اجل واقع ہو جائے تو اس میں ایک لمحہ کی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

واضح رہے کہ جس طرح قانون سازی کے نظام میں یہ ہوتا ہے کہ وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظر قانون بھی یا تو تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یا انہیں منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح تخلیق کائنات کے نظام میں بھی مصلحت کے تقاضوں کے پیشِ نظر تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ جسے اصطلاح میں "بدا" کہتے ہیں۔ اور موضوع کو مٹا دیا جاتا ہے۔ سورہ رعد / ۳۹ میں ارشاد ہوتا ہے۔

"( یمحوا الله مایشأ ویثبت ) ۔۔۔ " یعنی خدا جس چیز کو چاہے مٹا دے اور جسے چاہے برقرار رکھے۔۔

۴۔ کہاں خاک کا پُتلہ اور کہاں خدا کے بارے میں شک و شبہ؟( من طین - تمترون )

آیت ۳

( وَ هُوَاللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ ط یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَهْرَکُمْ وَیَعْلَمُ مَاتَکْسِبُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور آسمانوں اورزمین میں وہی اللہ ہے۔ تمہاری چھپی ہوئی اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے، اور جو کچھ تم کماتے ہو (اسے بھی) جانتا ہے۔

ایک نکتہ:

۱ ۔ چند خداؤں (بارش کا خدا، جنگ کا خدا، صلح کا خدا، زمین اور نباتات کا خدا وغیرہ) جیسے خرافاتی عقیدہ کے جواب میں یہ آیت فرماتی ہے "تمام چیزوں کا اور تمام جگہوں پر صرف ایک ہی خدا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خداوند عالم کی فرمانروائی کا علاقہ تمام کائنات ہے۔

۲ ۔ خداوند عالم انسانوں کا خالق ہونے "( خلقکم من طین ) " کے ساتھ ساتھ ان کے ظاہر و باطن سے بھی آگاہ ہے( یعلم سرکم و جهرکم )

(یعنی خداوند عالم ہر جگہ موجود ہے "مکانی" موجودگی کی بنا پر نہیں بلکہ "علمی"، "قیومی"، "سلطانی" اور کامل "گرفت" کے لحاظ سے)

۳ ۔ خداوند عالم انسان کے مستقبل سے بھی پوری طرح آگاہ ہے( تکسبون )

آیت ۴ ۔ ۵

( وَمَاْ تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّّهِمْ اِلَّا کَانُوْا عَنْهَا مُُعْرِضِیْنَ- فَقَدْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَ هُمْ ط فَسَوْفَ یَاْتِیْهِمْ اَنْبٓؤُا مَا کَانُوْا بِه یَسْتَهْزِءُ ْونَ ) ۔

ترجمہ۔ ان کے پاس ان کے رب کی آیات اور نشانیوں میں سے کوئی اور آیت اور نشانی نہیں آئی تھی مگر وہ (اس کی تصدیق اور اس پر ایمان کی بجائے) اس سے منہ پھیر لیتے۔ پس جونہی ان کے پاس کوئی حق آ گیا تو انہوں نے اس کی یقیناً تکذیب کی اور اسے جھٹلا دیا تو جن (ناگوار اور تلخ) خبروں کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے آئندہ وہ ان کے پاس آ کر رہیں گی (اور وہ اپنی تکذیب کی سزا کو پا لیں گے)

دو نکتے:

اسی سورت کی آیت ۱ اور ۲ میں توحید کی طرف اشارہ ہے اور زیر نظر آیت میں معاد اور نبوت کی طرف۔

آیت میں مذکور "بڑی خبر" سے مراد یا تو فتح مکہ کی خبر ہو سکتی ہے یا پھر جنگ بدر وغیرہ میں مشرکین کی شکست کی خبر۔

(تفسیر مراغی)

پیام:

۱ ۔ انسان تین مراحل میں پستی کی انتہائی گہرائیوں میں جا گرتا ہے۔ ۱ ۔ حق سے روگردانی ۲ ۔ حق کی تکذیب اور ۳ اس کا مذاق اڑانا۔ ان دونوں آیات میں تینوں مراحل کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

۲ ۔ ہٹ دھرم شخص کے لئے کسی قسم کی دلیل اور آیت کارگر اور موثر واقع نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ ہر ایک کو مسترد کر دیتا ہے( آیة من آیات ربهم )

۳ ۔ ہٹ دھرم اور کافر لوگ نہ تو کسی بات کو سننے کے روادار ہوتے ہیں اور نہ ہی غور و فکر، تحقیق کرنے کے۔ جونہی حق بات ان کے سامنے پیش ہوتی ہے فوراً جھٹلا دیتے ہیں( کذبوا بالحق لما جاء هم )

۴ ۔ کفار کا سکون فوراً سلب کر لو( فسوف یاتیهم )

۵ ۔ ادھر مومنین کو تسلی دینی چاہئے کہ جس راستے کو اختیار کئے ہوئے ہیں وہ برحق ہے اور ادھر کفار کو مرعوب کرنا چاہئے کہ تمہیں ناگوار اور کڑوی خبریں سننا پڑیں گی۔

۶ ۔ ٹھٹھا مذاق اور تمسخر اڑانا کفار کا قدیمی شیوہ ہے( کانوا به یستهزوٴن )

آیت ۶

( اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَهْلَکْنَا مِنْ قَبْلِهمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّنْ لَّکُمْ وَاَرْسَلْنَا السَّمَآءَ عَلَیْهِمْ مِّدْرَاص رًاوَّجَعَلْنَا الْاَنْهٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمْ فَاَهْلَکْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْم بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ آیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کس قدر بڑی تعداد میں امتوں کو ہلاک کیا؟ حالانکہ ہم نے انہیں زمین میں وہ مقام اور طاقت عطا کی تھی جو تمہیں نہیں دی۔ اور ان پر آسمان (کی بارش) کو پے درپے بڑھایا اور ان کے پاؤں کے نیچے پانی کی نہریں جاری کیں۔ پس ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کیا، اور ان کے بعد دوسری نسل کو پیدا کیا۔

ایک نکتہ

"قرن" ایسی امت کو کہا جاتا ہے جو ایک ہی مرتبہ ہلاک ہو گئی ہو اور ا س سے کوئی بھی شخص باقی نہ رہا ہو۔ (اقرب الموارد ) جو لوگ ایک ہی دور میں رہ رہے ہوں انہیں بھی "قرن" کہا جاتا ہے۔ اور عام طور پر ایک نسل ساٹھ سے سو سال تک چلی جاتی ہے۔ اسی لئے ساٹھ یا اسی یا سو سال کو "قرن" کہتے ہیں (تفسیرالمیزان اور تفسیر فخر رازی)

پیام

۱ ۔ دوسروں کی تاریخ اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ (الم یروا) اور یہ قرآن مجید کا ایک تربیتی ایک طریقہ کار ہے کہ واقعی اور سبق آموز داستانیں بیان کرتا ہے۔

۲ ۔ جو لوگ قدرتی اور خداداد وسائل سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی سزا ہلاکت اور تباہی ہے۔( کم اهلکنا )

۳ ۔ اللہ تعالیٰ آخرت کے عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی سزا دیتا ہے( فاهلکنا هم )

۴ ۔ اعمال کی خرابی کا موجب خود انسان ہی ہوتا ہے( فاهلکنا هم بذنوبهم )

۵ ۔ صاحبان اقتدار و دولت یہ نہ سمجھیں کہ دنیا ہمیشہ انہی کے حق میں رہے گی اور وہ دنیا میں رہیں گے، خداوند عالم انہیں اس دنیا سے اٹھا کر دوسروں کو ان کی جگہ لے آتا ہے( اهلکنا هم…وانشأنا من بعدهم قرتًااٰخرین )

۶ ۔ نعمتوں کے زوال اور خوشحال لوگوں کی سرنگونی کی طرف توجہ غفلت دور کرنے کے اسباب میں سے ایک ہے۔

۷ ۔ اگر اقتدار اور امکانات نیک لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے "( ان مکناهم اقاموالصلوٰة--- ) " لیکن اگر بے ایمان اور نااہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو فساد اور گناہ کرتے ہیں( مکناهم…بذنوبهم )

۸ ۔ "( ارسلنا من السماء ) " (آسمان سے بھیجا) کی بجائے فرمایا "( ارسلنا السّماء ) " (آسمان کو تمہارے لئے بھیجا) جس سے خداوند عالم کے لطف و کرم کی انتہا معلوم ہوتی ہے۔

۹ ۔ مادی وسائل و امکانات خدائی قہر و غضب سے مانع نہیں ہوتے( مکناهم…اهلکناهم ) ۳

۱۰ ۔ مادی وسائل اور امکانات ہمیشہ اور ہر جگہ کامیابی کی دلیل نہیں ہوتے۔ ۳-

۱۱ ۔ گناہوں کی وجہ سے ہلاکت اور تباہی، ایک قانون قدرت ہے جو کسی خاص گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ارشاد باری ہے "فکلا اخذ نا بذنبہ" یعنی ہم نے سب کو ان کے گناہوں کی وجہ سے اپنی گرفت میں لے لیا۔ (عنکبوت/ ۳۹)

۱۲ ۔ موت دو طرح کی ہوتی ہے ایک طبعی جو "اجل" آ جانے کے ساتھ واقع ہوتی ہے اور دوسری غیرطبعی جو خدائی قہر و غضب اور اچانک حادثات کی وجہ سے واقع ہوتی ہے( بذنوبهم )

آیت ۷

( وَلَوْنَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌمُّبِیْنٌ ) ۔

ترجمہ۔ اور (ہٹ دھرم اور ضدی کفار تو بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں) حتی کہ اگر کوئی ہم کوئی تحریر کسی کاغذ میں تمہاری طرف نازل کرتے جسے وہ اپنے ہاتھوں کے ساتھ مس کرتے پھر بھی کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ تو جادو کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

چند نکات:

کچھ مشرکین کہتے تھے کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے جب ایک کاغذ پر کوئی تحریر فرشتے کے ذریعہ ہمارے پاس آئے۔ لیکن یہ سب ان کی جھوٹی باتیں ہیں اور ان کے بہانے ہیں۔

"قرطاس" اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز لکھی جائے خواہ وہ کاغذ ہو یا لکڑی، چمڑا ہو یا پتھر۔ لیکن موجودہ دور میں کاغذ کو "قرطاس" کہتے ہیں۔

آنکھوں کے ساتھ دیکھے جانے والے معجزات کے بارے میں ممکن ہے کہ بہانہ کی تلاش میں لگے رہنے والے یہ لوگ یہ کہیں کہ ہماری آنکھوں اور ہماری نگاہوں کو الٹ پھیر کر دیا گیا ہے (قرآن مجید کے بقول وہ کہیں گے "سکرت ابصارنا لیکن یہ لوگ اگر انہیں اپنے ہاتھوں کے ساتھ چھو لیں تو بھی ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔

پیام:

۱ ۔ جب مقصد ہی ضد اور ہٹ دھرمی ہو تو پھر کوئی بھی دلیل اور برہان بے فائدہ ہوتی ہے حتی کہ محسوسات (ہاتھوں وغیرہ سے چھوئی جانے والی چیزوں) کا بھی انکار کر دیا جاتا ہے۔

۲ ۔ "جادو" ایک ایسا موثر حربہ تھا جسے مشرکین، حضرت رسول خدا کے لئے استعمال کیا کرتے تھے۔

آیت ۸

( وَقَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزلَ عَلَیْهِ مَلَکٌ ط وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُُضِیَ الْاَمْرُثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور (بہانہ جُو کفار نے) کہا (محمد، اللہ کا رسول ہے تو پھر) اس پر کوئی (ایسا) فرشتہ نازل کیوں نہیں ہوا (جسے ہم دیکھتے) اور اگر ہم فرشتہ نازل کرتے تو یقیناً بات ختم ہوجاتی۔ اور اس وقت کسی قسم کی مہلت نہ دی جاتی (اگر فرشتے کے آنے کے باوجود بھی وہ ہٹ دھرمی سے کام لیں گے تو فوراً سب لوگ سزا کے مستحق قرار پائیں گے)

ایک نکتہ:

جس قسم کے فرشتے کا کفار نے مطالبہ کیا ہے اگر وہ انسانی صورت میں ہو تو پھر اسی پیغمبر کی مانند ہو گا اور اگر اپنی حقیقی صورت میں جلوہ نمائی کرے گا تو یہ لوگ اس کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے لہٰذا اسے دیکھتے ہی ان کی جان نکل جائے گی۔ (تفسیر قرطبی از ابن عباس اور تفسیر فخر رازی اور تفسیر نورالثقلین)

پیام:

۱ ۔ استکبار کا شیطانی شیوہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ انسان اپنے جیسے بشر کی پیروی کرے (اسی لئے کبھی تو کہتے تھے کہ "انبیاء کس لئے ہماری طرح کھانا کھاتے، بازاروں میں چلتے اور ہمارے جیسے لباس پہنتے ہیں؟ کبھی ایک دوسرے سے کہتے تھے: اگر اپنے جیسے بشر نبی کی اطاعت کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے" جیسا کہ قرآن کہتا ہے "( ولئن اطعتم بشر امثلکم انکم اذاً لخاسرون ) "

۲ ۔ خدائی طریقہ کار یہی چلا آ رہا ہے کہ اگر لوگ معجزہ طلب کریں اور وہ انجام بھی پا جائے اور پھر وہ اس کا انکار کریں تو پھر ان کی ہلاکت اور بربادی یقینی ہو جاتی ہے (ملاحظہ ہو تفسیر مراغی)

۳ ۔ خدائی دعوت کا انداز یہ ہے کہ مکمل آزادی، سوچ و بچار سے کام لینے، انتخاب اور مہلت دینے کی بنیاد پر ہوتا ہے، دوسرے طریقے سے معجزہ کا تقاضا (جیسے فرشتے کا نزول یا آسمان سے مائدہ کا بھیجنا یا پہاڑ کے اندر سے اونٹنی کے باہر نکالنے کا مطالبہ) انتخاب کی مہلت اور فرصت کو ختم کر دیتا ہے اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ یا تسلیم کرکے مسلمان بن جاؤ یا پھر ہلاکت کا انتظار کرو( لقضی الامر )

آیت ۹

( وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَکًا الَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًاوَّلَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّایَلْبِسُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ حتی کہ اگر ہم (تمہارے لئے پیغمبر) کسی فرشتے کو قرار دیتے تو پھر بھی یقین کے ساتھ اسے مرد کی ہی صورت میں بناتے اور جس شبہے کے ساتھ اب وہ حق کو چھپاتے ہیں اسی طرح ہم ان کے لئے چھپا دیتے۔

دو نکتے:

انسان کے لئے اگر فرشتہ نمونہ عمل ہوتا تو پھر ایسے انسانوں کے لئے کیونکر نمونہ عمل قرار پاتا جو غریزوں کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں اور خوراک و خواہشات نفسانی کے سمندر میں غرق ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ آیت کا اسی طرح معنی ہو "اگر پیغمبر، فرشتہ ہوتا تو بھی اسے مرد کی صورت میں ظاہر ہونا چاہئے تھا کہ جسے لوگ دیکھ سکیں۔ اور یہ بات لوگوں کے شک و شبہ میں پڑ جانے کا موجب ہوتی کہ آیا یہ انسان ہے یا فرشتہ؟( للبسنا علیهم )

پیام

۱ ۔ لوگوں کو دعوت دینے اور ان کی تربیت کرنے کے لئے ایسے لوگوں کو نمونہ کے طور پر پیش کرناچاہئے جو دعوت اور عمل میں پیش قدم ہوتے ہیں۔( لجعلناه رجلا )

۲ ۔ پیغمبر، مرد ہونا چاہئے( لجعلناه رجلا )

۳ ۔ خدائی طریقہ کار حکمت پر مبنی ہوتا ہے ہر کہ و مہ کی خواہشات کے مطابق تبدیل نہیں ہو سکتا۔

آیت ۱۰

( وَلَقَدِاسْتُهْزِیٴَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْامِنْهُمْ مَّا کَانُوْا بِه یَسْتَهْزِءُ ْونَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) یقیناً تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا، تو ان میں سے جن لوگوں نے مذاق اڑایا تھا ان پر عذاب نازل ہوا۔

ایک نکتہ:

یہ آیت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تسکین اور تسلی ہے کہ ایک تو یہ کہ تمام سابق انبیاء کا مذاق اڑایا گیا "( مایا تیهم من رسول الا کانوا به یستهزوٴن ) " اور دوسرے یہ کہ صرف اخروی عذاب ہی انہیں نہیں ملے گا۔ دنیا میں بھی مذاق اُڑانے والوں پر خدائی قہر و غضب نازل ہوا اور ان کی خطرناک سازشیں خود ان کے لئے وبال جان بن گئیں۔ "( ولا یحیق مکر السییٴ الا باهله ) "

پیام

۱ ۔ دوسروں کی مشکلات اور ان کے صبر کو یاد کرنے سے، انسان کے صبر میں اضافہ ہوتا ہے، اور مبلغ دین کو مخالفین کی مسخرہ بازی اور مذاق اڑانے سے دل تنگ نہیں ہونا چاہئے۔

۲ ۔ استہزأ اور ٹھٹھا مذاق دشمن کی نفسیاتی جنگ کا ایک حصہ ہے جس سے خدائی رہبروں کے حوصلے پست کرنا مقصود ہوتا ہے۔

۳ ۔ مسخرہ بازی کرنے والے انجام کار خود ذلیل و رسوا ہوتے ہیں اور یہی مذاق بازی خود انہی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے( حاق بالذین سخروا )

۴ ۔ استہزا یا مسخرہ بازی کا شمارکبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے کہ جس پر عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔

۵ ۔ دوسری ایذارسانیوں پر خداوند عالم مہلت دے دیتا ہے کہ شاید توبہ کر لیں لیکن زبان کے ساتھ زخم پہنچانے اور انبیاء کا مذاق اڑانے پر فوری سزا مل جاتی ہے( فحاق ) میں "فا" کی دلیل کے ساتھ۔

متفرقات

۱- ثواب سعی کا حصول: امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اپنے مومن بھائی کی حاجت روائی کے لیے چلنا ایسا ہے جیسے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ہے۔

۲- خاکِ شفا کی تسبیح جب کسی ہاتھ میں ہو‘ خواہ وہ خود غافل کیوں نہ ہو‘ اس کی عقیدت کی وجہ سے تسبیح کے دانے ذکرِخدا کرتے ہیں اور اس کا ثواب اس فرد کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔

۳- حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: روزِ جمعہ کا غسل پاکیزہ کرنے والا ہے اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے۔

۴- امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص خواہش کرے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی روحیں اس سے مصافحہ کریں تو شعبان کی پندرھویں شب کو زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھے۔

۵- جو شخص حج میں شریک نہ ہو سکے (مستطیع نہ ہو) اور نہ کربلا معلٰی حاضر ہونے کی سکت ہو تو اسے چاہیے ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو کسی بلند مقام پر یا وسیع میدان یا جنگل میں خضوع و خشوع سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھے‘ پھر شام تک ذکرخدا میں مشغول رہے‘ وہ ان لوگوں کے ثواب میں شریک ہوگا جو حج میں مصروف ہیں۔

۶- ذوالحجہ کی اٹھارہویں عید غدیر ہے‘ جو شخص مومن بھائی کا چہرہ دیکھ کر تبسم کرے تو خداوندعالم اس کی حاجتیں برلائے گا اور قیامت کے روز اس پر نظر رحمت فرمائے گا۔ غدیر کے دن ایک درہم صدقہ کا ثواب ہزار درہم صدقے کے برابر ہے۔

۷- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کون شخص ہے جو سال بھر کے روزے رکھتا ہو؟ ساری رات عبادت میں بسر کرتا ہو اور ہر روز ایک قرآن پڑھنے کا ثواب حاصل کرتا ہو؟

حضرت سلمان ذیشان (فارسی) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: بندہ۔

تمام اصحاب کبار حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ ہم نے سلمان فارسی کو دن کے وقت کھانا کھاتے دیکھا ہے اور رات کو سوتے بھی پایا ہے۔

حضور اکرم نے فرمایا: سلمان ذرا تشریح کیجیے:

عرض گزار ہوئے: روحی لہ الفدا آپ کے فرمان کے مطابق جو مجھے اچھی طرح یاد ہے ایام بیض قمری ماہ کی ۱۳‘ ۱۴‘ ۱۵ کو روزہ رکھتا ہوں۔ سوتے وقت وضوکر لیتا ہوں اور روزانہ تین بار سورہ اخلاص ضرور پڑھتا ہوں۔

۸- جب مومن کو بخار آتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے گرتے ہیں۔

۹- پیغمبراسلام نے فرمایا جو شخص کسی بیمار کی حاجت روائی میں سعی کرتا ہے خواہ کامیاب ہو یا نہ ہو وہ شخص گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔

۱۰- وقت طعام جو دانہ یا ریزہ مقام دسترخوان پر گرے اُسے اُٹھا کر کھا لینا بہت سی بیماریوں کی شفا ہے۔

۱۱- امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: شب بیداری برائے اعمالِ حسنہ کرنے والے کا دل کبھی مردہ نہیں ہوتا۔

۱۲- پندرھویں شعبان کی شب کا بہترین عمل امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے کہ جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اُس سے مصافحہ کریں تو وہ کبھی اس رات یہ زیارت ترک نہ کرے؟

۱۳- رمضان المبارک میں سانس لینا تسبیح کے مترادف اور واجبات سے فارغ ہو کر سونا عبادت ہے۔

۱۴- حدیث میں ہے غسل دینے والے کے نامہ اعمال میں اس قدر غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جاتا ہے جتنے میت کے بدن پر بال ہوتے ہیں۔

فرمان خداوندی ہے: میں اس شخص کے گناہوں کو اس طرح دھو دوں گا جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا لیکن شرط یہ ہے میت کے عیب پوشیدہ رکھے اور امانت میں خیانت نہ کرے۔

۱۵- رمضان المبارک میں لونڈی‘ غلام ملازمہ‘ ملازم اور ذاتی نوکر سے جو شخص کم کام لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب سہولت سے لے گا۔

۱۶- میت کو کفن دینا ثوابِ عظیم ہے۔ امام محمدباقر علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص کسی مومن کو کفن دے گا قیامت تک وہ اس شخص کے پورے لباس کا ضامن ہوگا۔ جتنے جوڑے اس نے پہننے تھے ان تمام کا ثواب کفن دینے والے کو مل گیا‘ اس وجہ سے کہ اس نے ایک واجب کفائی ادا کر کے تمام بستی والوں کو بچالیا۔

۱۷- ماہِ رمضان کی پہلی کو ۳۰ چلّو پانی سر پر ڈالنا‘ سال بھر تک تمام دردوں اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا موجب ہے۔ اسی طرح ایک چلّو عرق گلاب چہرے پر ڈالے تاکہ ذلت و پریشانی سے نجات رہے۔

۱۸- روایت میں ہے جو شخص نویں ذوالحجہ کی رات عبادت میں گزارے وہ ایسا ہے کہ گویا ۱۷۰ سال تک عبادت میں مصروف رہا ہو۔

۱۹- جو شخص (مرد /زن) ہر قمری مہینے کی پہلی شب میں پنیر کھاتا رہے تو اس مہینے میں اس کی کوئی دعا ردّ نہ ہوگی۔

۲۰- مومن کے لیے بہتر ہے دوران سفر عقیق /فیروزے کی انگوٹھی پہنے رکھے‘ اور خاکِ شفا پاس رکھے۔

۲۱- سید عبدالکریم ابن طاؤس نے اپنی کتاب فرحتہ لعربیٰ میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص حضرت امیرالمومنین کی زیارت کو پاپیادہ جائے تو حق تعالیٰ ہر قدم کے عوض ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں درج کروائے گا۔ اگر واپسی پر بھی پاپیادہ چلے تو حق سبحانہ اس کے ہر قدم کے بدلے دو حج اور دو عمرے کا ثواب لکھے گا۔

۲۲- امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص عقیق کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھے اس کے لیے ثواب اس شخص سے چالیس درجہ زیادہ ہے جوکسی اور قسم کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھے۔

۲۳- امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا جسے سید عبدالکریم ابن طاؤس نے اپنی کتاب فرحتہ العربیٰ میں نقل کیا‘ فرمایا:

اے ابن مادر! جو شخص میرے جد امیرالمومنین علی علیہ السلام کے حق کو پہچانتے ہوئے آپ کی زیارت کرے تو حق تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے میں اس کے لیے حج مقبول اور عمرہ پسندیدہ کا ثواب لکھے گا۔

اے ابن مارد! جو قدم حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی زیارت میں گرد آلود ہوگا اُسے آتشِ جہنم نہ جلائے گی خواہ پیادہ جائے یا سوار ہوکرجائے۔ یہ بات ذہن میں محفوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے امیرالمومنین علی علیہ السلام اور ان کے پاکیزہ فرزندوں کے مزارات کو خوف زدہ اور ستم رسیدہ لوگوں کے لیے جائے پناہ اور اہل زمین کے لیے وسیلہ امان قرار دے رکھا ہے۔

۲۴- مسجد کوفہ ان چار مقامات میں سے ہے جہاں مسافر کو قصریا سالم نمازپڑھنے کا اختیار ہے۔ وہاں ایک فریضہ نماز ایک حج مقبول اور ایک ہزار نماز کے ہم پلہ ہے۔ یہاں ایک ہزار پیغمبروں اور ایک ہزار اوصیاء نے نماز پڑھی۔ قائم آل محمد کا مقامِ نماز بھی ہے۔

ابن قواویہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اس مسجد میں ادا کردہ فریضہ یا نافلہ نماز اس حج اور عمرے کے برابر ہے جو حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں بجالائی جائے۔

۲۵- زائر جو مال زیارت کرنے پر خرچ کرتا ہے اس کے لیے ہر درہم (ملکی کرنسی کی اکائی) کے بدلے ایک ہزار بلکہ دس ہزار درہم لکھے جاتے ہیں۔ جو لوگ امام حسین علیہ السلام کے زائرین کے لیے زمین پر دعا کرتے ہیں اُن سے کہیں زیادہ مخلوق ہے جو آسمان میں ان کے لیے دعا کرتی ہے۔

۲۶- امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک پر فریضہ نماز کا پڑھنا حج کے برابر اور نافلہ نماز کا پڑھنا عمرہ کے برابر ہے۔

۲۷- امام جعفر صادق علیہ السلام نے جابر جعفی سے فرمایا کیا میں تجھے امام حسین کی زیارت کی خوشخبری سنا دوں؟

"بے شک جب تم میں سے کوئی شخص زیارت پر جانے کو تیار ہوتا ہے تو آسمان میں فرشتے ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہیں‘ جب وہ سوار پاپیادہ اپنے گھر سے روانہ ہوتا ہے تو حق تعالیٰ ایک ہزار فرشتے اس پر مقرر کرتا ہے جو روضہ امام حسین علیہ السلام کے دروازے پر پہنچتے ہیں اور اس کے لیے طلب رحمت کرتے ہیں۔

۲۸- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: وہ وقت قریب ہے جب تم شبہات کا شکار ہو جاؤ گے اور پیشوا کے بغیر سرگرداں ہو گے‘ اس شبہ کے دور میں کوئی شخص نجات نہ پائے گا مگر وہ خود دعائے غریق پڑھے:

یَااللّٰهُ یَارَحمٰنُ یَارَحِیمُ یَامُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِینْکِ

(کوشش کریں ہر واجب نماز کے بعد دو تین مرتبہ پڑھی جائے)

۲۹- جو شخص شب ِدر میں ( ۲۳ ویں بالخصوص) امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے توچوبیس ہزار پیغمبر اور فرشتے اس کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں‘ یہ فرشتے باذن اللہ اس رات روضہ امام حسین علیہ السلام پر اترتے ہیں۔

۳۰- امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص ایک ہی سال میں ۱۵ شعبان‘ عیدفطر اور شب نو ذوالحجہ (عرفہ) امام حسین کی زیارت کرے تو حق تعالیٰ اس کے لیے ایک ہزار حج مبرور اور ایک ہزار عمرہ مقبولہ کا ثواب لکھتا ہے‘ دنیا و آخرت میں اس کی ایک ہزار حاجات پوری ہوتی ہیں۔

۳۱- جو لوگ جنازے کے ساتھ جاتے ہیں‘ ایک حدیث حسن جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ان کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ مومن کو قبر مین سب سے پہلے جو تحفہ دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے جنازے میں شریک ہونے والے تمام لوگوں کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ جو شخص دفن تک ساتھ رہتا ہے سترملائکہ اُس کے لیے دعائے مغفرت کرنے پر تعینات کر دیئے جاتے ہیں۔

۳۲- حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: مومن کے مرنے کے بعد پہلی چیز جو اس کے نامہ اعمال میں لکھتے ہیں وہ وہی ہوتی ہے جوبات لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں اگر نیک بات کہتے ہیں تو نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر بُری بات کہتے ہیں تو برائی لکھی جاتی ہے۔

۳۳- دو رکعتیں شادی شدہ کی صائم النہار قائم اللیل کنوارے کی عبادت سے افضل ہیں۔ (من لا یحضرہ الفقیہہ)

۳۴- نکاح کے وقت رحمت کے دروازے کھلتے ہیں۔ (جامع الاخبار)

۳۵- حضرت سلمان ذیشان سے روایت ہے حضرت رسول خدا نے جناب امیرالمومنین سے فرمایا یاعلی ! انگوٹھی داہنے ہاتھ میں پہنو تاکہ تمہارا شمار مقربین میں ہو جائے‘ بہتر ہے عقیق کی انگوٹھی پہنو۔ داہنے ہاتھ میں پہننا پیغمبروں کی سنت ہے۔ فرمایا: پتھروں میں یہ پہلا ہے جس نے خدا کی وحدانیت‘ نبی کی نبوت اور علی کی امامت کا اقرار کیا ہے۔ عقیق پہننے والا پریشان نہ ہوگا اور انجام کار بہتر ہوگا۔

۳۶- حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس شخص کی انفرادی نماز جس کے ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی ہو اس شخص کی جماعت کی نماز سے بھی جس کے ہاتھ میں عقیق کے سوا اور رنگ کی انگوٹھی ہو چالیس درجے افضل ہے۔

۳۷- حضرت عیسٰی علیہ السلام نے ایک عورت سے کہا کیا تو چاہتی ہے کہ تیرے چہرے کی رونق بحال رہے؟ پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤ اور کھائے ہوئے پر دوبارہ نہ کھاؤ۔

۳۸- روٹی کا ٹکڑا ملے‘ دھو کر پاک کرے نامہ اعمال میں ۷۰ نیکیاں لکھی جائیں گی۔ ترک تکبر کی وجہ سے داخل جنت ہونے کا رستہ استوار ہوگا۔

۳۹- نمک سے کھانا شروع نمک چکھنے پر ختم‘ ۷۰ قسم کی بلائیں دُور رہیں گی۔

۴۰- حدیث صحیح میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک لقمہ جو برادر مومن میرے پاس بیٹھ کر کھائے مجھے ایک غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

۴۱- حضرت امام محمدباقر علیہ السلام نے فرمایا: اگر میں تین مومنوں کو کھانا کھلاؤں تو میرے نزدیک سات غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے۔

۴۲- جو شخص کسی بیمار کی عیادت کو جاتا ہے‘ ستر ہزار فرشتے ساتھ ہولیتے ہیں‘ اس کے پلٹنے تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔

۴۳- پیاسے کو ایک دفعہ سیراب کرنے سے ستر ہزار نیکیاں عطا ہوتی ہیں۔

۴۴- جو شخص مومن کو للہ کھانا کھلائے تو اس کا ثواب غیر آدمیوں میں سے ایک لاکھ کو کھانا کھلانے کے برابر ہے۔ اگر روزانہ کھلائے روزانہ ایک غلام آزاد کرنے کا اجر حاصل کرے۔

۴۵- چار آدمی جنت میں جائیں گے: پیاسے کو سیراب کرنے والا‘ بھوکے کو کھانا کھلانے والا‘ ننگے کو لباس دینے والا اور غلام آزاد کرانے والا۔

۴۶- مومن کی ایک حاجت پوری کرنے پر حق تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ایک لاکھ حاجتیں پوری کرے گا۔

ایک اور حدیث میں ہے: مومن کی حاجت پوری کرنا بیس حج سے بہتر ہے جن میں ہر حج میں ایک لاکھ درہم خرچ ہو‘ مومن کی حاجت بر لانا دس طواف سے افضل ہے۔

۴۷- خدا کی قسم مومن کی ایک حاجت بر لانا خدا کے نزدیک متبرک مہینوں (محرم‘ رجب‘ ذی قعد‘ ذوالحجہ) میں روزے رکھنے اور اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔ یہ شخص روزِ قیامت سایہ خداوندی میں ہوگا۔

۴۸- امام صادق علیہ السلام نے ایک پریشان حال شخص سے سوال کیا: تو نے بازار میں ایسی چیز دیکھی جس کے خریدنے سے تو عاجز تھا۔ اگر ایسا ہے تو تیرے نہ خرید سکنے سے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔

۴۹- مومن کو گالی دینا گناہِ کبیرہ ہے۔ مومن سے لڑنا کفر ہے اور اس کی غیبت کرنا خدا کی نافرمانی ہے۔

۵۰- امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص کسی ظالم بادشاہ/حکمران کے پاس جاکر اُسے پرہیزگاری کا حکم دے اور پندونصائح کرے تو اس نصیحت دہ شخص کو تمام جنوں اور آدمیوں کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا۔

۵۱- امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث مروی ہے کہ اگر کوئی بت پرست بھی مرتے وقت مذہب شیعہ کا اعتقاد اور آئمہ معصومین کی امامت کا واقعی اقرار کر لے تو آتشِ جہنم اس کے کسی عضو کو نہ چھوئے گی۔

۵۲- جو جو اشخاص جنازے کے ساتھ مشایعت کے لیے جاتے ہیں ان کے گناہ عفو کر دیئے جاتے ہیں (قُربَةً اِلَی اللّٰہ)

۵۳- جو شخص السلام علیکم کہے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو سلامٌ علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہے اس کے لیے تیس نیکیاں۔

۵۴- جو شخص گھر پہنچے اپنے اہل و عیال کو سلام کرے تو اس کے گھر میں برکت ہوگی اور فرشتوں کو اس گھر سے انس ہوگا۔

۵۵- حدیث حسن میں ہے کہ جناب رسالت مآب عورتوں کو سلام کیا کرتے تھے اور وہ جواب میں سلام دیا کرتی تھیں۔ جوان لڑکا جوان لڑکیوں کو سلام نہیں کرے گا کیونکہ فتور نیت کا گمان ہو سکتا ہے۔

۵۶- آپس میں مصافحہ کرو‘ مصافحہ کے سبب سینے کینے سے صاف ہوجاتے ہیں۔

۵۷- امام حسن عسکری علیہ السلام سے مذکور ہے جو شخص اپنے مرتبے سے کم درجہ بخوشی بیٹھ جائے جب تک اس جگہ سے نہ اٹھے گا فرشتے برابر اس کی سلامتی کی دعا کرتے رہیں گے۔

۵۸- رسول مقبول نے فرمایا جو اپنے برادر مومن کا مہربانی سے اکرام کرے اس کا غم دُور کرے جب تک مصروف مدارات ہے خدا تعالیٰ کی رحمت اس کے شاملِ حال ہے۔

۵۹- امام محمدباقر علیہ السلام نے فرمایا: جس شخص پر مجھے اعتماد ہو اس کے پاس بیٹھنا میرے نزدیک ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

۶۰- جو شخص اپنے برادر ایمانی سے دھاگہ بال تنکا مٹی کا ذرہ وغیرہ دُور کرے خدائے تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھنے کا امر دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کو متبسم دیکھنا بھی دس نیکیوں کے مترادف ہے۔

۶۱- رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حلقے اور مجمع مومنین جن میں خدا کو یاد کیا جاتا ہے باغ ہائے بہشت میں سے ہیں۔

۶۲- سبحان ربک رب العزة عما یصفون وسلمٌ علی المرسلین والحمدللّٰہ رب العالمین۔ جلسے‘ مجلس‘ محفل کے آخر میں پڑھنے سے شرکاء جلسہ کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔

۶۳- حضرت امام محمدباقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ علم کا باہم تذکرہ کرنا اس نماز کا ثواب رکھتا ہے جو قبول ہو چکی ہو۔

۶۴- جناب رسالت مآب نے فرمایا: عبادت کے ستر جزو ہیں ان میں بہتر حلال سے روزی پیدا کرنا ہے۔

۶۵- جو شخص مومن مسافر کی اعانت کرے خدا تعالیٰ تہتر بلائیں دنیوی اس سے دُور کرے گا اور بہتر آخرت کی دفع کرے گا۔

۶۶- امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: چھ چیزیں ایسی ہیں جن کا مرنے کے بعد بھی مومن کو فائدہ پہنچتا ہے: فرزند صالح‘ مفیت کتاب (قرآن مجید)‘ کنواں (نلکا)‘ درخت (باغ)‘ نیک کام کی بنیاد‘ رسم قابلِ ثواب۔

۶۷- شان اہل بیت بیان کرنے والے کو جنت میں گھر ملے گا۔ یہ مدح سرائی نظم‘ نثر‘ تقریر اور تحریر جس طرح ہو۔

۶۸- مومن جب دوسرے مومن سے ملاقات کو جائے ہر قدم پر ایک گناہ معاف اور ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ رحمت کے فرشتے سایہ کیے رہتے ہیں۔ مومن کی زیارت و ملاقات بصد خلوص کرنے والے پر جنت لازم ہے۔ نیز دس غلام آزاد کرنے سے زیادہ ثواب ہے۔

۶۹- معانقہ کرنے سے دونوں گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت دونوں کو احاطہ کرلیتی ہے اور ملائکہ احترام کرتے ہیں۔ دل کی پاکیزگی کے ساتھ گلے ملنا معانقہ کہلاتا ہے۔

۷۰- مومن کی عیادت کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو قیامت تک اس کے گھر میں تسبیح و تہلیل بجا لائیں‘ جس کا نصف ثواب اُس مومن کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔ احتیاط لازم ہے کہ عیادت کرنے والا زیادہ دیر نہ بیٹھے۔

۷۱- بیٹھ کر کنگھی کرنے سے بخار دُور رہتا ہے‘ روزی میں اضافہ ہوتا ہے‘ قوت بڑھتی ہے‘ سردرد سے نجات ملتی ہے۔ بیماریاں اور دردجسم سے دُور بھاگتے ہیں‘ بال صاف رہتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ کھڑے ہو کر کنگھی کرنا باعث نحوست ہے۔

۷۲- خوشبو بینائی تیز کرتی ہے‘ دل کو تقویت ہوتی ہے۔ سنت انبیاء و ائمہ ہے۔ خوشبو سونگھو تو درود ضرور پڑھو۔ خوشبو لگا کر نماز پڑھنا سترنمازون سے بہتر ہے۔ مسجد میں جانے کے لیے خوشبولگانا ثوابِ عظیم ہے۔

۷۳- مسواک کرنا سنت نبوی ہے۔ مسواک کر کے دو رکعت نماز پڑھنا ستررکعت سے بہتر ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: مسواک کے بارہ فائدے ہیں۔

۷۴- مرض کی حالت میں ایک رات جاگنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

۷۵- ایک رات کا بخار کفارہ ہوتا ہے اس کے قبل اور مابعد گناہوں کا۔

۷۶- فرمایا ابوعبداللہ نے جو کوئی ایک رات بیمار ہو اور اس کی کسی عیادت کرنے والے سے شکایت نہ کرے اُسے ساٹھ برس کی عبادت کا ثواب ملے گا۔

۷۷- مریض نے مرض کا اظہار کر کے نیکیاں حاصل کرنے کا لوگوں کو موقع دیا اس لیے دس نیکیاں اس کے نام پر لکھی جائیں گی‘ دس گناہ معاف ہوں گے۔

۷۸- فرمایا امام محمدباقر علیہ السلام نے۔ موسٰی نے خداوندتعالیٰ سے مناجات کی‘ خداوندا! مریض کی عیادت کا کیا اجر ہے؟

فرمایا: ایک فرشتہ معین کیا جاتا ہے کہ اس کے لیے قیامت تک عبادت کرے۔

۷۹- حالت نزع میں اگر کلمہ شہادت اور آئمہ کے اسمائے مبارکہ کی تلقین کی جائے تو مرنے والے کی نجات کا بندوبست ہوجاتا ہے۔

۸۰- فرمایا ابوعبداللہ نے جب روح نکل کر حلق تک آجائے تو اس مومن یا مومنہ کی آنکھیں ۔۔۔۔۔ نبی و علی کی زیارت سے ٹھنڈی ہوتی ہیں۔

۸۱- پابند نماز مومن یا مومنہ کو ایک فرشتہ عالمِ نزع میں تلقین کرتا ہے کلمہ طیبہ کی اور شیطان کو اس کے پاس سے بھگا دیتا ہے۔

۸۲- امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایا جو کسی مومن یا مومنہ کو کفن دے اس شخص کی مانند ہے جو قیامت تک اس کے لباس کا ضامن ہوگیا اور جو قبر کھودے قیامت تک کے لیے اس کے گھر کا ضامن ہوگیا۔

۸۳- جو شخص دفن ہونے تک جنازہِ مومن کے ساتھ رہے اللہ تعالیٰ ستر فرشتے معین کرتا ہے جو اس کے ساتھ رہیں گے اور اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔

۸۴- جو جنازہ کو چاروں کندھے دے اللہ تعالیٰ اس کے ۴۰ گناہِ کبیرہ معاف کر دیتا ہے۔

۸۵- جو کسی رنجیدہ کو تسلی دے یعنی تعزیت کرے روزِ قیامت خدا اُسے ایسا لباس پہنائے گا جس سے وہ خوش ہوگا۔

۸۶- فرمایا امام محمدباقر علیہ السلام نے جو عالم اپنے علم سے فائدہ حاصل کرتا ہے یعنی لوگوں تک پہنچاتا ہے وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے۔ (اصول کافی)۔

پھر فرمایا ہماری احادیث کا روایت کرنے والا اور ہمارے شیعوں کے قلوب کی اصلاح کرنے والا ہزار عابد سے بہتر ہے۔

۸۷- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب خدا کسی بندے سے نیکی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے علم دین عطا کرتا ہے۔

۸۸- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: حلال و حرام کے بارے میں ایک سچے شخص سے ایک حدیث سن لینا دنیا کے تمام سونے چاندی سے بہتر ہے۔ (المحاسن)

واجبات

۱- نماز پنجگانہ باقاعدگی سے ادا کرنا بہتر ہے اول وقت میں ادا ہو مزید بہتر ہے‘باجماعت ہو۔

۲- بدن لباس اور ماحول کے اعتبار سے پاکیزہ رہنا۔

۳- رزق حلال کمانا خواہ زیادہ محنت کیوں نہ کرنا پڑے۔

۴- قابلِ زکوٰة اشیاء کی زکوٰة ادا کرنا۔

۵- سال گزرنے پر بڑی احتیاط سے خمس ادا کرنا اور صحیح مستحقین تک پہنچانا۔

۶- عقیدہ توحید مضبوط رکھنا‘ شرک فی الذات اور شرک فی الصفات سے لازمی طور پر بچنا۔

۷- فروغ دین میں مجتہد اعلم دوران کی تقلید کرنا جن میں کیوں (لِمَ) اور یعنی (اِن) کہنے کی اجازت نہیں۔

۸- روز مرہ مسائل شرعیہ سے واقفیت رکھنا۔

۹- ذریعہ معاش میں حلال و حرام کی تمیز رکھنا۔

۱۰- پانچ ارکان نماز اور چھے واجبات نماز کا علم ہونا واجب ہے۔

۱۱- پندرہ سال کا لڑکا نوسال کی لڑکی واجبات شرعیہ کا مکلف ہو جاتا ہے۔

۱۲- پنجگانہ نماز کے علاوہ دیگر واجب نمازوں کا اہتمام کرنا‘ مثلاً: نمازِ آیات‘ نماز میت‘ طواف واجب کی نماز‘ اجارہ‘ نذر‘ قسم‘ عید کی نمازیں واجب ہیں۔

۱۳- فطرہ عید کی شب سے ہی واجب ہو جاتا ہے۔

۱۴- مستطیع پر حج واجب ہے‘ ترک حج کفر سے تعبیرکیا گیا ہے۔

۱۵- واجب ہے چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور سوار پیدل کو تاکہ تکبر نہ ہو سکے۔

۱۶- تقیہ واجب ہے کیونکہ یہ ردّ کبیرہ ہے۔

۱۷- السلام علیکم سننے کے بعد جواب دینا واجب ہو جاتا ہے۔

۱۸- اگر غیر عورت سامنے آجائے تو اس سے نظر بچانا واجب ہے۔

۱۹- مقدس کاغذات رستے میں پڑے ہوں تو اٹھا کر جائے ادب پر رکھنا۔

۲۰- داڑھی رکھنا اور مونچھوں کا کتروانا یا منڈوانا۔ حسب حال واجب ہے جب کہ داڑھی منڈوانا حرام میں شامل ہے۔

۲۱- واجب ہے کہ غسل کا پانی خالص پاکیزہ‘ جائز اور چھینا ہوا نہ ہو۔

۲۲- واجب ہے کہ انسان حلال کی روزی کمائے اور دوسروں کا دست نگر نہ ہو۔

۲۳- جو نمازیں قضا ہو جاتی ہیں ان کی ادائیگی بھی عمربھر واجب رہتی ہے۔

۲۴- سوچ سمجھ کر کام کرنا ضرورت پڑے تو نیک مخلص شخص سے مشورہ لینا۔

۲۵- اپنے آپ کو اچھے کاموں کی عادت ڈالنا۔

۲۶- حتی الوسع مومن کی عیب پوشی کرنا‘ درپردہ نصیحت کرنا۔

۲۷- صلہ رحمی کرنا۔

۲۸- امکان کی حد تک مومن کی حاجت برآری کرنا۔

۲۹- لوگوں کی اچھی صفات کا تذکرہ کرنا‘ چغلی سے بچنا۔

۳۰- خوش روئی سے پیش آنا‘ رعونت اور تکبر سے بچنا۔

محرمات

۱- نماز پنجگانہ کا تارک اور ترک عمد کا قائل مشرک ہوجاتا ہے جو محرمات کی ابتدا کرنے والوں میں بدرجہ اولیٰ شامل ہے اور مرتد ہے۔

۲- مسجد کو نجس کرنا حرام ہے۔

۳- رزق حلال کمانے والا قابلِ مذمت ہے اور اس کا محضر لائق اکل و شرب نہیں۔

۴- زکوٰة کو عمداً روکنا محرمات میں شامل ہے۔

۵- مال غیر مخمس سے حج حرام ہے اور لباس غصبی ہے۔

(محرمات سے بچنے کے لیے واجبات کا ادا کرنا ہر حال میں لازم ہے)

۶- بغیر کسی سخت مجبوری کے نماز توڑنا حرام ہے‘ احتیاط کریں۔ البتہ خطرہ جان ہو یا کسی نے آپ کا مال اٹھا لیا ہو اور وہ لے کر جانے والا ہو۔

۷- ایسی جگہ پر پیشاب و پاخانہ کرنا جہاں مالک نے سختی سے منع کر دیا ہو یا وقف مقامات پہ جہاں گندگی پھیلانا ممنوع ہو۔

۸- روبقبلہ یا پشت بقبلہ ہو کر رفع حاجت کے وقت بیٹھنا حرام ہے‘ گھروں میں باتھ روم بناتے وقت خاص خیال رکھیں۔

۱۰- باجماعت نماز سے نفرت اور اسے بے حقیقت سمجھنا حرام ہے۔ اس پر عدالت ساقط ہے۔

۱۱- دس قسم کے روزے رکھنا حرام ہیں مثلاً عیدین‘ چُپ وغیرہ۔

۱۲- غیرمحرم عورت کے چہرے‘ جسم وغیرہ کو غور سے دیکھنا حرام امور میں شامل ہے۔ صرف پہلی نظر پہچاننے کے لیے ہے۔ باقی نظریں ناجائز ہیں۔ بہتر ہے نظرمنتشر رہے۔

۱۳- لغو واہیات گانے سننا‘ غنا والی موسیقی گانا بجانا حرام ہے۔

۱۴- حج تمتع کے بعد طواف النساء نہ کیا تو بیوی حرام اور عورت پر مرد حرام ہوگا۔

۱۵- حج و عمرہ کے احرام میں فوت ہو تو کافور کا حنوط حرام ہے۔

۱۶- جھوٹی قسم کھانا حرام ہے۔ سود کا لین دین بھی حرام ہے۔

۱۷- خداوندعالم کے علاوہ کسی کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے۔

۱۸- مرد کے لیے سونا پہننا (زنجیر‘ انگوٹھی‘ کڑی‘ چین) حرام ہے۔

۱۹- لاٹری کا کام مجموعی طور پر حرام ہے۔

۲۰- مشین کے ذریعے ذبح کرنا حرام ہے اور اس کا گوشت مردار ہے خواہ مسلمان ہی بٹن دبائے اور تکبیر بھی پڑھے۔

۲۱- مرد کے لیے ریشمی کپڑا پہننا حرام ہے کیونکہ جامہ حریر آتشِ جہنم میں لے جانے والا ہے۔

۲۲- مردوں کے لیے عورتوں کامخصوص لباس اور عورتوں کے واسطے مردوں کا لباس پہننا حرام ہے۔

۲۳- جس دسترخوان پر شراب پیش کی جائے وہ کھانا حرام ہے۔

۲۴- بلاسوچے سمجھے اپنے آپ کو سب کچھ سمجھنا اور ناحق ضد پر ڈٹے رہنا۔

۲۵- بُرے غلط اور خلافِ شریعت کاموں کا معمول بنا لینا۔

۲۶- مومن کی عیب جوئی کرنا اور معاشرے میں ساکھ خراب کرنا۔

۲۷- قطع رحمی کرنا۔

۲۸- اپنے آپ کو خواہ مخواہ بڑا سمجھ کر مومن سے گریز کرنا۔

۲۹- لوگوں کی تنقیص کرنا اور چغلی کے ذریعے بدصفتی کرنا۔

۳۰- تلخ کلامی کرنا وغیرہ۔

روزی بڑھتی ہے‘ رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور علامت خوش بختی ہے

۱- سورج غروب ہونے سے پہلے چراغ روشن کر دیں اور صبح اجالا ہونے تک روشن رکھیں۔

۲- چار چیزیں دلیل خوش بختی ہیں: نیک سیرت بیوی‘ وسیع مکان‘ نیک لائق پڑوسی اور شائستہ سواری۔

۳- جس گھر میں تلاوت قرآن زیادہ ہوتی ہے‘ خیروخوبی بڑھتی ہے‘ گھر والوں کی آسودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آسمان والوں کو اس گھر سے روشنی پہنچتی ہے۔

۴- مکان میں جھاڑو دینا‘ صاف ستھرا رکھنا‘ کوڑا جمع نہ ہونے دینا افلاس کو دُور کرتا ہے۔

۵- بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر کام شروع کرنا‘ پاکیزہ خیال رہنا‘ کام کی تکمیل کے لیے ان شاء اللہ کہنا‘ دسترخوان کے ریزے کھا لینا۔

۶- پاخانے میں باتیں نہ کرنا‘ مل کر کھانا‘ موذن کے کلمات دہرانا‘ طلب دنیا میں حریص نہ ہونا اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا۔

۷- جمع صلوٰتین کرنا‘ مغرب کے بعد عشاء کی نماز ساتھ ملانا‘ نماز کے بعد تعقیبات پڑھنا‘ روزی طلب کرنا اور سچ بولنا۔

۸- استغفار بہت پڑھنا ‘ روزانہ ۳۰ مرتبہ سبحان اللہ کہنا‘ خیانت نہ کرنا‘ عزیزوں سے نیکی کرنا‘ شکریہ ادا کرنا۔

اجازت عمل (المعروف)

۱- سبزہ زار دیکھیں‘ سیر کریں‘ لمبے سانس لیں کیونکہ آنکھوں کو طراوت‘ دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ نیز غم و اندوہ دُور ہوتا ہے۔

۲- جو مجاہد کو عیال تک پہنچا دے گویا جہاد میں شریک تھا۔ ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے۔

۳- جومومن اپنی عزت اور مال حلال و پاکیزہ بچانے کی کوشش میں مارا جائے شہید شمار ہوگا۔

۴- گھڑسواری میں شرط جائز ہے بشرطیکہ وہ مال سبقت لے جانے والے کے لیے ہو۔ غیر کا شرط بدنا ناجائز ہے۔

۵- تیراندازی اور گھڑدوڑ پر بازی لگانے کی اجازت ہے مگر صرف وہی لوگ جو اس کام میں شریک ہیں۔

۶- جب رستہ بھول جائیں کہیں:اَبَا صَالِحُ اَغْثِنِی رستہ مل جائے گا‘ انشاء اللہ!

۷- طی الارض کے لیے حُدیٰ پڑھنا ایسے اشعار جن میں حرام اور کذب بیانی نہ ہو‘ اجازت ہے۔

۸- سفر کے دوران غذائی زادِ راہ رکھنے کی تاکید ہے تاکہ کھانے پینے کی تکلیف کا سامنا نہ ہو۔

۹- زمین فروخت کرنے کی اجازت ہے مگر اس کے بدلے جائداد خریدو ورنہ نقد رقم ضائع ہو جائے گی۔

۱۰- تجارت کرنے کی اجازت ہے مگر اس کے مسائل سے واقف ہونا ضروری ہے۔

۱۱- دولت کمانے پر کوئی پابندی نہیں۔ اجازت ہے بشرطیکہ اپنے واجبات سے غافل نہ ہو اور کسبِ حلال ہو۔

۱۲- قدرت رکھنے کے باوجود جو غصے کو قابو کرلے گا دنیا و آخرت میں عزت پائے گا۔

۱۳- سانپ مار دو جس نے سانپ مارا گویا کافر کو قتل کیا۔

۱۴- نماز کے دوران کوئی السلام علیکم کہہ دے تو تمھیں بھی صرف السلام علیکم کہنے کی اجازت ہے‘ بعدہ‘ نماز جاری رکھو۔

۱۵- تم میں وہ شخص بہترہے جو موقع محل پر تقیہ کرے۔

روزی گھٹتی ہے‘ رزق کم ہوتا ہے اور علامت سیاہ بختی ہے

۱- جان بوجھ کر زیادہ دیر تک ناپاک جسم کے ساتھ رہنا اور عمداً غسل نہ کرنا نیز اسی حالت میں کچھ کھانا پینا۔

۲- چار چیزیں دلیل بدبختی ہیں: بری عورت (بیوی)‘ تنگ مکان‘ نامعقول پڑوسی اور ناشائستہ سواری۔

۳- جس گھر میں کوئی مسلمان قرآن مجید نہیں پڑھتا۔ اس کی برکت کم ہو جاتی ہے۔ فرشتے اس سے دُور ہوتے ہیں اور شیاطین موجود ہونا شروع کر دیتے ہیں۔

۴- گھر کا کوڑا رات کو گھر میں رکھے رکھنا‘ مکڑی کا جالا بننے دینا باعث نحوست اور شومئی قسمت ہے۔

۵- چوکھٹ پر بیٹھنا‘ ریوڑ سے گزرنا‘ کھڑے شلوارپینٹ پایامہ پہننا اور کپڑوں سے ہاتھ منہ پونچھنا۔

۶- حمام میں پیشاب کرنا‘ کھڑے کنگھی کرنا‘ جھوٹی قسم کھانا‘ حریص دنیا ہونا اور رات سائل کو خالی پھیر دینا۔

۷- صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیان سونا‘ مغرب و عشاء کے درمیان اور ضرورت سے زیادہ سونا۔

۸- بہت جھوٹ بولنا‘ راگ و راگنی سننا‘ آمدن سے زیادہ خرچ کرنا اور عزیزوں سے بدی کرنا۔

ممانعت (نہی عن المنکر)

۱- طوفان اور تلاطم کے وقت سفر دریا کی ممانعت ہے۔

۲- گالی دینے والے دکاندار سے سودا نہ خریدو کمینگی پیدا ہوتی ہے۔

۳- میوہ دار درخت کے نیچے اور رستے کے درمیان پیشاب کرنا۔

۴- کھڑے پانی میں پیشاب کرنا کیونکہ اس سے عقل جاتی رہتی ہے۔

۵- رات کا کھانا کھاکر بغیرہاتھ دھوئے سو جاناکیونکہ دیوانہ ہونے کا خدشہ ہے۔

۶- پائخانہ میں روبہ قبلہ اور پشت بہ قبلہ بیٹھنا۔

۷- عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا اور مصیبت کی حالت میں زیادہ چیخنا۔

۸- جھوٹے خواب بنانا‘ مجسمہ بنانا‘ مُورت بنانا اور ظلم سے عورت کا مہر روک لینا۔

۹- سودے کی خرید و فروخت میں مشتری اور بائع کے معاملہ میں مداخلت کرنا۔

۱۰- عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا۔ جن امور کی اجازت لے چکی ہے جانا درست ہے۔

۱۱- اس دسترخوان پر بیٹھنا جہاں شراب پی جاتی ہو‘ اور کھانے اور چائے پر پھونک مارنا۔

۱۲- سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا۔ مرد کو سونا اور ریشم استعمال کرنا سخت ممانعت ہے۔

۱۳- سود کھانا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ ظالم کی اعانت کرنا‘ لوگوں کے منہ پر تعریف کرنا اور مزدور کی مزدوری روکنا۔

۱۴- بحالت جنب مسجد میں بیٹھنا‘ خطبہ جمعہ کے دوران نمازیں پڑھنا اور یومِ شک کا روزہ رکھنا۔

۱۵- مومن کو حقیر سمجھنا‘ غیرمحرم عورت کودیکھتے رہنا‘ خیانت کرنا اور لوگوں کے عیب بیان کرنا۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36