آیت ۱۰۱ ۔ ۱۰۲
(
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط اَنّٰی یَکُوْنُ لَه وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَّه صَاحِبَةٌ ط وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍج وَهُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ- ذٰلِکُمُ اللّٰهُ رَبُّکُمْج لَآاِلٰهَ اِلَّا هُوَج خَالِقُ کُلِّ شَیْ ءٍ فَاعْبُدُوْهُج وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ وَّکِیْلٌ
)
۔
ترجمہ۔ (وہ) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اس کے لئے بیٹا کیسے ہو جبکہ اس کے بیوی ہی نہیں ہے۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔
وہی ہے خدا جو تمہارا پروردگار ہے، اس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا نگہبان اور مدبر ہے۔
ایک نکتہ:
جس نے کسی کی دیکھا دیکھی اور پہلے سے تیارشدہ نقشہ کے بغیر آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اسے اولاد اور بیوی کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو ایک ہی ارادے کے ساتھ جو چاہے پیدا کرے۔
پیام:
۱ ۔ خالق کائنات، قادر و توانا ہے اسے اولاد اور بیوی کی کوئی ضرورت نہیں ہے (پہلی آیت کے آخری حصے اور اس آیت کے پہلے حصہ کے پیش نظر)
۲ ۔ جس خدا کا قرآن تعارف کرا رہا ہے اس کا اور جن خداؤں کے متعلق دوسرے لوگ عقیدہ رکھتے ہیں ان کا، آپس میں تقابل کرو(
ذلکم الله
)
۳ ۔ اسلامی عقیدہ کے مطابق پیدا کرنے والا (خالق) اور پروردگار (رب) ایک ہی ہے(
ربکم…خالق
)
لیکن مشرکین خالق تو اللہ کو ہی جانتے تھے لیکن رب، دوسری کئی چیزوں کو سمجھتے تھے۔
۴ ۔ خدا کی خالقیت مطلقہ اس کی توحید کی دلیل ہے(
لااله الا هو خالق کل شیٴ
)
۵ ۔ جس طرح تخلیق خدا کے ہاتھ میں ہے اسی طرح ہر چیز کی بقا اور ثبات بھی اسی کے ارادے کے تحت ہے(
خالق- وکیل
)
۶ ۔ خدا کی ربوبیت اور خالقیت ہی ہماری عبادت کا فلسفہ ہے(
خالق کل شیٴ فاعبدوه
)
آیت ۱۰۳
(
لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَج وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
)
۔
ترجمہ۔ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں، لیکن وہ آنکھوں کا ادراک رکھتا ہے، وہ نہ دیکھا جانے والا باریک بین اور آگاہ ہے۔
دو نکات:
خداوند عالم ہرگز نہیں دیکھا جا سکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے سوال رویت کے جواب میں فرمایا "(
لن ترانی
)
" یعنی اے موسیٰ! تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے (اعراف/ ۱۴۳) لیکن اہلسنت اس بات کے قائل ہیں کہ خداوند عالم کو قیامت کے دن دیکھا جا سکے گا اور وہ قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ"(
الی ربها ناظرة
)
" یعنی قیامت کے دن چہرے خدا کی طرف دیکھ رہے ہوں گے (قیامت/ ۲۳) ( اشاعرہ اور تفسیر المنار) لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خدا جسم اور مادہ نہیں ہے۔ اور خدا کو دیکھنے سے مراد ظاہر آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھنا ہے۔ مثلاً ایک اور آیت ہے:(
ولقدراه نزلةاخریٰ"
)
یعنی پیغمبر نے خدا کو ایک اور بار دیکھا (نجم/ ۱۳) یعنی اس کے آثار و الطاف کا مشاہدہ کیا۔ کیونکہ ظاہری آنکھوں سے تو اس چیز کو دیکھا جاتا ہے جو جسم و مکان اور محدودیت اور رنگ وغیرہ کی حامل ہو جبکہ خداوند تعالیٰ ان چیزوں سے پاک، منزہ اور مبرا ہے۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں اگر ہمارے ظاہری حواس اس کے ادراک سے عاجز ہیں اس سے یہی سمجھ لیا جائے کہ وہ مخلوق سے علاوہ ذات ہے۔ نہ یہ کہ ہم اس کے منکر ہو جائیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ "آیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ پیغمبر خدا کی طرف خدا کو دیکھنے کی نسبت دیتے ہو جبکہ خدا خود فرماتا ہے: "(
لیس کمئله شیٴ
)
" یعنی اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ (شوریٰ/ ۱۱) یا ایک اور جگہ پر فرماتا: "(
لایحیطون به
)
" یعنی لوگ اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، (طہ/ ۱۱۰) از تفسیر نورالثقلین)
"لطیف" کے چند ایک معانی ہیں، ۱ ۔ جو اپنی عطا کو کم اور بندوں کی اطاعت زیادہ سمجھے۔ ۲ ۔ نہایت باریک۔ ۳ ۔ امور پر مخفی نگاہ رکھنے والا، باریک بیں اور ظریف اور نایاب چیزوں کا خالق۔ ۴ ۔ خاطرو مدارات کرنے والا، دوستی کے لائق۔ ۵ ۔ وفاشعاروں کو جزا دینے والا اور خطاکاروں کومعاف کر دینے والا۔
پیام:
۱ ۔ خداوند عالم نہ جسم ہے اور نہ ہی مادہ سے بنی مخلوق۔(
لاتدرکه الابصار
)
۲ ۔ کوئی بھی اس کی ذات سے آگاہ نہیں ہے(
هواللطیف
)
۳۰
۳ ۔ خدا بشری فکر کے احاطہ سے باہر ہے۔(
هواللطیف
)
۳۱
۴ ۔ پردہ یا اور کوئی چیز خدا کے علم کو نہیں روک سکتی(
هواللطیف الخبیر
)
۵ ۔ خداوند عالم کائنات کے تمام لطائف و رموز خواہ وہ ظاہری ہوں یا باطنی سب سے آگاہ ہے(
هواللطیف الخبیر
)
۶ ۔ خدا کا ادراک، خدا کا وہی علم ہی تو ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ذہن و فکر یا مغزی خلیوں وغیرہ سے کام لے کر علم و ادراک حاصل کرتا ہے، جیسے سمیع و بصیر ہے یعنی وہ دیکھنے اور سننے میں آنکھ اور کان کا محتاج نہیں ہے۔
آیت ۱۰۴
(
قَدْ جَآءَ کُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهج وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَاط وَمَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ
)
۔
ترجمہ۔ یقیناً (آیات الٰہی اور آسمانی کتابیں اور) روشن دلائل جو تمہاری بصیرت کا سبب ہیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس آ چکی ہیں۔ پس جس شخص نے بصیرت حاصل کر لی تو یہ اس کے اپنے فائدہ کے لئے ہے۔ اور جو ان چیزوں سے اندھا رہا تو یہ اس کے نقصان میں ہے۔ اور میں (زبردستی طریقہ پر) تمہاری حفاظت کا ضامن اور نگہبان نہیں ہوں۔
چند نکات:
اسی سورت کی آیت ۹۵ سے یہاں تک، خدا کے تعارف اور شرک پر تنقید کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ اور یہ آیت گویا گزشتہ ایٓات کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔
اس قسبم کی آیتیں قرآن مجید میں بہت زیادہ ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ایمان و کفر، اچھائی اور برائی اور بصیرت اور کور باطنی کا نتیجہ خود انسان ہی کو حاصل ہوتا ہے، منجملہ ان آیات کے چند ایک نمونے یہ بھی ہیں، ۱ ۔(
لها ما کسبت و علیها ما اکتسبت
)
(بقرہ/ ۲۸۶) جس نے اچھا کام کیا تو اس کا نفع اسی کے لئے اور برا کام کیا تو اس کا وبال اسی کے لئے۔ ۲ ۔(
من عمل صالحا فلنفسه و من اساء فعلیها
)
۔ (فصلت/ ۴۶) جو نیک کام کرتا ہے اپنے لئے کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے اس کا اسی کو نقصان ہو گا۔
۳ ۔(
ان احسنتم احسنتم لا نفسکم و ان اسأتم فلها
)
(بنی اسرائیل/ ۷) اگر نیکی کرو گے تو اپنے آپ سے بھلائی کرو گے اور اگر برائی کرو گے تو بھی اپنے ہی لئے برائی کرو گے۔
اندھاپن یا نابینائی کئی طرح کی ہوتی ہے۔ یعنی یا تو طبعی ہوتی ہے جو والدین یا خود انسان کی اپنی وجہ سے وجود میں آتی ہے اور وہ یوں کہ حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے انسان اندھا ہو جاتا ہے۔ یا پھر تقدیر کی طرف سے ہوتی ہے جو انسان کی آزمائش کے لئے ہوتی ہے اور یا پھر انتخابی ہوتی ہے اور وہ یوں کہ انسان عمداً حقیقت کو دیکھنے سے آنکھیں بند کئے رکھتا ہے۔
پیام:
۱ ۔ کفر کے لئے عذر کی کوئی راہ باقی نہیں رہ گئی تاکہ ہر شخص کی ہلاکت یا نجات بطور آگاہانہ ہو(
قد جاء کم بصائر
)
۲ ۔ لوگ، راہ کے انتخاب کرنے میں آزاد ہیں(
من ابصر…من عمی
)
۳ ۔ پیغمبر کا کام صرف تبلیغ ہوتا ہے کسی کو مجبور کرنا نہیں۔(
ما انا علیکم بحفیظ
)
۴ ۔ لوگوں کے کفر و ایمان کا نقصان یا فائدہ خود لوگوں ہی کو ملے گا خدا کو نہیں(
فلنفسنا- فعلیها
)
۵ ۔ اے پیغمبر! آپ کے پیغام میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے ساری خرابی ان کے اندھے دلوں کی ہے۔(
ومن عمی
)
آیت ۱۰۵
(
وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَلِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَه لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور اس طرح ہم اپنی آیات کو (مختلف طریقوں سے) بیان کرتے ہیں تاکہ کہیں (یہ نہ) کہیں کہ تم نے (کسی کے پاس) کوئی درس پڑھا ہے۔ اور ان لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں،
پیام:
۱ ۔ بیان و استدلال اور تعلیمی ذرائع میں گوناگوں تبدیلیاں، انسان کے لئے قبول کرنے کی راہیں زیادہ کھولتی ہیں،(
نصرف الایات
)
۔
۲ ۔ لوگوں کے تحقیر و توہین کرنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی کے استقلال کی نفی کر دیتے ہیں اور یہی بات کفار نے اپنائی ہوئی تھی وہ کہا کرتے تھے: پیغمبر کی باتیں اپنی نہیں ہیں، اس نے کسی سے پڑھ کر ہی سب کچھ یاد کیا ہوا ہے (درست) ۳۳
۳ ۔ آیات الٰہی کے مقابلے میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جو ڈٹ جاتے اور انکار پر اڑے رہتے ہیں (درست) اور جن میں جوہر قابل ہوتا ہے وہ ہدایت پا جاتے ہیں (لقوم یعلمون) گویا قرآن پاک اہل دین کے لئے شفا اور ظالموں کے لئے خسارہ ہے۔ (بقول سعدی)
باران کہ در لطافت طبعش خلاف نیست
درباغ لالہ روید و درشور زار خس
یعنی بارش کی لطیف طبع میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ بارش قبول کرنے والے کا ظرف ہوتا ہے کہ باغ میں تو گل لالہ اگتا ہے اور شورہ زار زمین میں خس و خاشاک۔
۴ ۔ توہین و تحقیر کا جواب بھی اسی انداز میں دینا چاہئے، کفار و مشرکین پیغمبر اسلام پر درس پڑھنے اور لوگوں سے سیکھنے کی تہمت لگایا کرتے تھے تو قرآن نے بھی ضمنی طور پر ان لوگوں کو جاہل کہا ہے اور بیان قرآن کو اہل علم و فہم کے لئے مخصوص قرار دیا ہے۔(
لقوم یعلمون
)
آیت ۱۰۶
(
اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رِّبِّکَج لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَج وَاعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ
)
۔
ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) تم اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں اور مشرکین سے منہ پھیر لو۔
ایک نکتہ:
اس سے پہلی آیت میں مشرکین کے پیغمبر اسلام پر اتہامات اور الزامات کی بات ہوئی جو کہا کرتے تھے: "تمہارا کلام وحی نہیں ہے بلکہ دوسروں سے سیکھی ہوئی باتیں ہیں" اور اس آیت میں آنجناب کو تسلی دی جا رہی ہے کہ: آپ اپنا کام کریں اور دشمنوں کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دیں"
پیام:
۱ ۔ الٰہی رہبروں کو دشمن کی تہمتوں، حقارتوں اور غلط قسم کی تاویلوں سے گھبرا کر پریشان نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے آگے بڑھتے رہنا چاہئے(
اتبع
)
۲ ۔ خداوند عالم خود ہی رسالت کے کاموں کا حامی اور مددگار ہے(
ربک
)
۳ ۔ دین کی راہ میں خود کو حد سے زیادہ مشقت میں نہیں ڈالنا چاہئے(
اعرض
)
۴ ۔ بے اعتنائی، دشمن کے پروپیگنڈوں کا ایک اہم توڑ ہے،(
اعرض
)
۳۴
آیت ۱۰۷
(
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَکُوْاط وَمَا جَعَلْٰنکَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاج وَمَآ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَکِیْلٍ
)
۔
ترجمہ۔ اگر خدا چاہتا تو (زبردستی طور پر تمام لوگ ایمان لے آتے اور) مشرک نہ ہوتے (لیکن خدا کا طریقہ کار یہ نہیں ہے) اور ہم نے تجھے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا اور تو ان کے (ایمان لانے) کا ذمہ دار نہیں ہے۔
پیام:
۱ ۔ خداوند عالم کا طریقہ کار ابتدا ہی سے یہی چلا آ رہا ہے کہ لوگوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور شرک و مشرکین کا وجود اس آزادی کی علامت ہے(
ولو شاء الله ما اشرکوا
)
۲ ۔ پیغمبر اسلام نہ تو مشرکین سے بلائیں دور کرنے کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی ان کے لئے فوائد و منافع حاصل کرنے کے(
حفیظا…وکیل
)
۳ ۔ انبیاء الٰہی لوگوں کے معلم اور مربی ہیں داروغہ جیل نہیں ہیں کہ کسی پر زبردستی حکم چلائیں،(
ماجعلناک علیهم حفیظا
)
۴ ۔ چند لوگوں کی گمراہی کی وجہ سے اپنی طراوت و شادابی کو ضائع نہ کرو (آیت کا مفہوم)
۵ ۔ انبیاء کرام کی بھی تمام آرزوئیں پوری نہیں ہوئیں، اس قدر سعی و کوشش کے باوجود بہت سے لوگ شرک پر باقی رہے۔
آیت ۱۰۸
(
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوااللّٰهَ عَدْوًآم بِغَیْرِ عِلْمٍط کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْص ثُمَّ اِلٰی رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور جو لوگ خدا کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں ان (کے معبودوں) کو گالیاں مت دو جس کے نتیجہ میں وہ بھی جہالت اور دشمنی کی وجہ سے خداوند متعال کو ناسزا کہیں گے۔ ہم نے اسی طرح ہر امت کے عمل کو مزین کیا ہے، پھر ان سب کی بازگشت ان کے رب کی طرف ہے، پس اللہ انہیں ان کے کرتوتوں سے آگاہ کرے گا۔
ایک نکتہ:
ہر عمل کی ایک تاثیر ہوتی ہے، خدا نے انسان کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ گناہ اور خلاف ورزی آہستہ آہستہ اس کی روح میں موثر ہو جاتی ہے اور وہ اس کی عادت بنا لیتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ برائیوں کو بھی اچھائیاں سمجھنے لگتا ہے، اور یہ تاثیر کبھی تو لوگوں کے سمجھانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی شیطانی وسوسوں کی بنا پر اور بعض اوقات اعمال کا طبعی ردعمل ہوتا ہے، اسی لئے "برے کاموں کو مزین کرنے" کی نسبت خدا کی طرف بھی دی گئی ہے (زینا) کیونکہ وہ روح میں گناہ کی تاثیر کا خالق ہے، اور شیطان کی طرف بھی اس کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ وہ وسوسوں اور وعدوں کے ذریعہ برے کاموں کو اچھا کرکے پیش کرتا ہے، جیسے ارشاد ہوتا ہے "(
زین لهم الشیطان
)
۔۔۔۔،، (انعام ۴۳ ۔انفال ۴۸ ۔ نحل ۶۳ ۔ نمل ۲۴ ۔ عنکبوت ۳۸)
پیام:
۱ ۔ گالیاں دینے اور ناسزا کہنے سے کسی کو اس کی غلط راہ سے نہیں ہٹایا جا سکتا(
لا تسبوا
)
۳۵
۲ ۔ ہر گروہ اپنے عقائد کے لحاظ سے متعصب ہے(
فیسبوا الله عدوا
)
۳ ۔ گالی دینا یا تو منطق کے فقدان کی علامت ہے یا پھر بے ادبی اور بے صبری کی۔ مسلمان کو چاہئیے کہ ناسزاکہنے سے پرہیزکر کے یہ ثابت کر دے کہ اس میں صبر، منطق اور ادب جیسی خوبیاں پائی جاتی ہیں،(
لا تسبوا
)
۴ ۔ جو کام بھی ہمارے مقدسات کی توہین کا سبب بنے حرام ہے(
فیسبوا الله
)
۵ ۔ تبلیغ ، مناظرہ اورنہی عن المنکر کے انجام دینے کے وقت دشنام طرازی کے حربہ سے کام لینا ممنوع ہے (تفسیرفخر رازی)
۶ ۔ ایسا کام جس کی وجہ سے دوسرے لوگ گناہ کے مرتکب ہوں، حرام ہے (تفسیرمحمع البیان)
۷ ۔ بعض اوقات انسان لاشعوری طور پر دوسرے لوگوں کے گناہ میں شریک ہو جاتا ہے اور وہ اس وقت دوسروں کے لئے گناہ کے مقدمات فراہم کرتا ہے۔
۸ ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ولی خدا کو گالی دینا خود خدا کو گالی دینا ہے۔ (تفسیر المیزان)
۹ ۔ مشرکین سے تبرا کا مقصدا نہیں گالی دینا نہیں ہے ، اسی طرح لعنت اور نفرین بھی گالی نہیں ہے۔
۱۰ ۔ ناجائز باتیں اور گالیاں دینا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ او رقیامت کے دن اس کا غلط انجام ظاہر ہو گا۔(
فینبئهم بما کا نوا یعملون
)
آیت ۱۰۹
(
وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآئَتْهُمْ اٰیَةٌ الَّیُؤْمِنُنَّ بِهَاط قُلْ اِنَّمَاالْاٰیٰتُ عِنْدَاللّٰهِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّهَآ اِذَا جَآءَ تْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور انہوں نے خدا کی بڑی سخت قسمیں کھائیں کہ اگر ان کے لئے کوئی معجزہ ظاہر ہوتووہ یقیناایمان لائیں گے۔ (اے پیغمبر!) کہ دو کہ معجزات توصرف خد اہی کے پاس (اور اسی کے ہاتھ میں) ہیں اور تمہیں کیا معلوم کہ اگر معجزہ آبھی جائے تو بھی وہ ایمان نہیں لائے گے۔
ایک نکتہ:
کفار قریش کا یک طولہ حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا! "آپ بھی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی مانند معجزات دکھائیے تا کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں! "آپ نے پوچھا : "میں کونسا معجزہ دکھاؤں ؟ انہوں نے کہا : "کوہ صفا کو(جومکہ میں ہے) سونے میں تبدیل کر دیجئے، ہمارے مردوں کو زندہ کیجئے او رخدا اور اس کے فرشتے ہمیں دکھلائیے۔۔۔۔! ،، اور ساتھ ہی قسم کھا کر کہا کہ ایسی صورت میں ایمان لے آئیں گے، اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے کہا کہ : "معجزہ خدا کے ہاتھ میں ہے، ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق نہیں دکھایا جا سکتا،، (تفسیرمجمع البیان اور تفسیر نمونہ)
بعض مطالبے ایسے بھی ہوتے ہیں جو خلاف عقل ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ اس دنیا کو نمایشگاہ بنا دیا جائے ااور نظام کائنات مشرکین کی خواہشات کا بازی گھر بن جائے۔
پیام:
۱ ۔ کفار او ردشمنان دین کے نعروں اور جھوٹی قسموں کے فریب میں نہیں آجانا چاہئے۔(
واقسموا بالله جهد ایمانهم
)
۲ ۔ دلیل پیش کرنا قبول ! لیکن مشرکین کی ناز برداری نفسانی خواہشات کی تکمیل نا قابل قبول !(
انما الایات عند الله
)
۳ ۔ ابنیاء کرام کے معجزات ، خدا کے ہاتھ میں ہیں۔(
انما الایات عند الله
)
۴ ۔ ہٹ دھرمی لا علاج مرض ہے، کیونکہ ضدی مزاج اور ہٹ دھرم لوگ ہر قسم کے معجزات دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہیں لاتے(
لایوٴ منون
)
آیت ۱۱۰
(
وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور (کفار کے بے جاتعصب اور ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ) ہم ان کے دلوں او رآنکھوں کو دگر گوں کر دیتے ہیں جس طرح کہ وہ آغاز ہی میں ایمان نہیں لائے۔ اور انہیں ان کی سر کشی میں رہنے دیتے ہیں تا کہ وہ اسی حالت میں دل کے اندھے بن کرسر گرواں رہیں۔
پیام:
۱ ۔ گناہ اور ہٹ دھرمی انسان کی بصیرت اور بصارت دونوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں۔(
ونقلب ا فئدتهم
۔۔۔)
۲ ۔ اگرچہ خد اہی "مقلب القلوب " (دلوں کو بدلنے والا) ہے ، لیکن یہ انسان ہی ہے جو کفر یا ایمان کا انتخاب کر کے اس کی دگر گونی کے اسباب فراہم کرتا ہے۔(
نقلب ----کما لم یو منوا
)
۳ ۔ طغیان اور سرکشی ، کفر کی بنیاد ہے(
لم یو منوا --طغیانهم
)
۴ ۔ جسے خد اچھوڑ دے وہ ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے(
تزرهم --یعمهون
)
آیت ۱۱۱
(
وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةَ وَ کَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰی وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلاً مَّا کَانُوْا لِیُوٴْمِنُوْا اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَٰلکِنَّ اَکْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور اگر ہم فرشتے (بھی) ان کی طرف نازل کرتے اور مردے (بھی) ان سے باتیں کرتے اور (صدق و اعجاز کی گواہی کے لئے) تمام چیزوں کو گروہ در گروہ ان کے سامنے اکٹھا کر دیتے پھر بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے۔ مگر یہ کہ خدا چاہے ۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت سے کام لیتے ہیں۔
چند نکات:
"قبل"کا معنی یا تو"مقابل "ہے یا "قبیل" کی جمع ہے یعنی گروہ اور دستے ۔
اس سے پہلے کی دو آیتوں میں مشرکین کے جھوٹے دعوے کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر معجزہ ظاہر ہو تو ہم ایمان لے آئیں گے ، اس آیت میں ان معجزات کے نمونے بیان کئے گئے ہیں۔
خدا چاہے تو جبر کے طور پر سب کو مومن بنا دے لیکن یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔
پیام:
۱ ۔ ضدی اور ہٹ دھرم دلوں کے لئے کوئی بھی آیت اور نشانی ایمان کی راہ ہموار نہیں کر سکتی(
ما کانوا لیومنوا
)
۳۶
۲ ۔ جہالت ، آیات الہی پر ایمان نہ لانے کا موجب ہوتی ہے(
اکثر هم یجهلون
)
اس سے ملتی جلتی ایک او ر آیت سورہ حجر میں ہے ارشاد ہوتا ہے"(
ولو فتحنا علیهم با با من السماء فظلوا فیه یعرجون
)
۔(
لقالو اانما سکرت ابصار نابل نحن قوم مسحورون
)
یعنی اگر آسمان کا دروازہ کھل جائے اور کفار اس سے آسمان پرچڑھ جائیں پھر بھی وہ کہیں گے کہ ہماری آنکھوں پر جادو کر دیاگیا ہے (آیت ۱۴)
آیت ۱۱۲
(
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخُرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاط وَلَوْشَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر !) یہ لوگ صرف تمہارے سامنے ہی ہٹ دھرمی سے کام نہیں لیتے ہم نے ہر پیغمبر کے لئے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں سے ایک دشمن قرار دیا ہے (جن کا کام یہ تھا کہ ) اپنی دلچسپ او رفریب د ہندہ باتیں مخفیانہ طور پر ایک دوسرے تک پہنچاتے تھے تا کہ اس طرح سے وہ فریب دے سکیں ۔ اگر تمہارا پردردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے ۔ (لیکن خدا کا طریقہ کار تو یہ ہے کہ انسان کو آزاد رہنے دیا جائے) پس تم انہیں ان کی تہمتوں کے ساتھ اپنے حال پر رہنے دو۔
ٓایک نکتہ:
اس سے دو آیات پہلے گذر چکا ہے کہ "ہم نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے " اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ : " اے پیغمبر ! تم بھی انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو"(
فذر هم
)
پیام:
۱ ۔ روح کی تسکین کے عوامل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دوسروں کی تاریخ اور مشکلات سے آگاہی حاصل کی جائے۔(
وکذٰلک
)
۲ ۔ حق اور باطل کی آویزش ازل سے چلی آرہی ہے(
و کذٰلک
)
(بقول علامہ اقبال : ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز۔ چراغ مصطفوی سے شراربولہبی)
۳ ۔ تضاد اور آویزش اختیاری ارتقاء کا ذریعہ ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس جہان کو تضادات کی دنیا بنایا ہے(
و کذٰلک
)
۴ ۔ ہر رہبر اپنے آپ کو مخالفین کی ناروااور ناگوارباتیں سننے کے لئے ہمیشہ تیار رکھے اور مخالفین اور مخالفتوں کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ رہے(
و کذٰلک
)
۵ ۔ دشمنوں اور مخالفوں کی بیخ کنی کی امیدیں نہ رکھو(
وکذٰلک جعلنا
)
۶ ۔ ہر موذی انسان ، شیطان ہوتا ہے،جس طرح تبلیغ کبھی ظاہری ہوتی ہے او رکبھی مخفی اسی طرح دشمن بھی کبھی ظاہری ہوتے ہیں اور کبھی چھپے ہوئے۔(
شیاطین الانس والجن
)
۷ ۔ انبیاء علیہم السلام کے دشمن اپنے اندرونی پروپیگنڈے میں مصروف رہتے ہیں۔(
یوحی بعضهم الی بعض
)
۸ ۔ فتنہ پرور لوگوں کی چکنی چیڑی باتیں اور مخفیانہ کاروائیاں کا عوام الناس کو فریب دینے کے لئے ہوتی ہیں۔(
یوحی--زخرف القول
)
۹ ۔ اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور دنیا ستیزہ کاری کا میدان ہے(
ولوشاء ربک مافعلوا
)
۱۰ ۔ کائنات کا نظام چلانے کے لئے صرف ایک ہی خدا کا ارادہ کا رفرما ہے دو طاقتیں اسے نہیں چلارہیں۔ یعنی اہریمن اور یزورن آپس میں نہیں ٹکڑارہے۔ لوگوں کی گمراہ کن کوششیں خدا کی قدرت اور اس کے تسلط سے باہرنہیں ہیں۔(
ولوشاء ربک مافعلوه
)
۱۱ ۔ انسان کے سقوط کے مراحل کا آغاز شیطانی وسوسوں کے قبول کرنے ہی سے ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد قدرت ہے "(
یوسوس فی صدور الناس
)
" یعنی لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے (الناس ۵) پھر جس کے دل میں وسوسہ اثر کر گیا وہ شیطان کے دوستوں میں شمار ہونے لگا ۔ ارشاد قدرت ہے:(
اخوان الشیاطین
)
" یعنی شیطان کے بھائی ہیں (بنی اسرائیل ۲۷) آخر میں انسان خود ہی شیطان بن جاتا ہے: جیسا کہ یہی زیر بحث آیت ہے، "(
شیاطین الانس
)
" یعنی انسانی شیطان۔
آیت ۱۱۳
(
وَلِتَصْغٰی اِلَیْهِ اَفْئِدَةُالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَلِیَرْضَوْهُ وَلِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور (شیطان صفت لوگوں کے نعروں اور وسوسوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے) کہ ان کے دلوں کے کان جو کہ قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ان لوگوں کی باتوں کے سپردہو جاتے ہیں او روہ انہیں پسند کرتے اور اپنی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہونے لگتے ہیں۔ جن کے وہ اس سے پہلے مرتکب ہو اکرتے تھے۔ (جس کے نتیجہ میں وہ بھی تاریخ کے خلاف ورزی کرنے والوں کے انجام سے دو چارہوجاتے ہیں)
دو نکات:
" تصغی" کا کلمہ"صخو" سے ہے جس کا معنی ہے تمایل پیداکرنا ایسا تمایل جو کانوں کے ذریعہ سننے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔
"(
اقتراف
)
"کامعنی ہے کمانا اور حاصل کرنا۔
پیام:
۱ ۔ صرف نعرے ، وسوسے اور پروپیگنڈے ہی گمراہی کا عامل نہیں ہوتے بلکہ کان لگا کر سننا ، دل لگا کر قبول کرنا ، جذب ہو جانا او رراضی ہونابھی موثرہوتا ہے۔(
لتصخی--لیرضوه
)
۲ ۔ انسان کی گمراہی کا راستہ عام طور پر یوں ہوتا ہے ۔ سننا ، راضی ہونا پسند کرنا اور واردعمل ہونا۔(
لتصخی، لیر ضوه- لیقترفوا
)
۳ ۔ شیطان او راس کے وسوسے صرف ان لوگوں کے دلوں میں اثر کرتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔(
لایوٴمنون بالاخرة
)
معاد او رآخرت پر ایمان دوسروں میں جذب ہو جانے سے مانع ہوتا ہے۔
آیت ۱۱۴
(
اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَکَمًاوَّهُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفُصَّلًاط وَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّه مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ
)
۔
ترجمہ۔ آیا (دین کے تمام دلائل کے ہوتے ہوئے بھی ) خد اکے علاوہ کسی او رکو اپنا داور اور حاکم مان لوں؟
جبکہ اسی نے ہی تو تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب کو نازل کیا ہے۔ او رجن(یہود و نصاری) کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب حق ہے اور تیرے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ پس تو شک او رتردید کرنے والوں میں سے نہ ہو جا۔
چند نکات:
"حکم" کو بعض مفسرین نے "حاکم " کے ہم معنی مراد لیا ہے۔ لیکن بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ"حکم" وہ ہوتا ہے جسے مقدمہ کے دونوں فریق اپنے فیصلہ کے لئے منتخب کریں۔ لیکن "حاکم "ہر طرح فیصلہ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ (تفسیر نمونہ منقول ازتفسیر المنار)
تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ "حکم" وہ ہو تا ہے جو برحق فیصلے کرے جبکہ "حاکم" ہر قاضی کو کہتے ہیں۔
چند آیات پہلے یہ بات ہوئی تھی کہ اگر ان لوگوں کے پا س فرشتے بھی آجائیں او رمردے بھی باتیں کرنے لگیں پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور یہ آیت کہتی ہے کہ"اہل کتاب"قرآن کو وحی سمجھتے تھے نصاریٰ کی طرف سے دوسرے معجزات کا مطالبہ صرف ایک بہانہ تھا۔
پیغمبر اکرم کو اپنے مشن میں ذرہ بھر شک وتردید نہیں تھی، لا تکونن"کا خطاب مسلمانوں کو متنبہہ کرنے کے لئے ہے کہ ہر گز اپنے دل میں شک کا گزر نہ ہونے دیں۔
پیام:
۱ ۔ خدا کے علاوہ کسی کو نہ تو قانون بنانے کا حق ہے او رنہ ہی فیصلہ کرنے کا(
افخیرالله اتبخی حکما
)
۲ ۔ اسلام کے قوانین و احکام میں ابہام نہیں ہے(
مفصلا
)
۳ ۔ اسلام کی حقانیت کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابقہ انبیاء توریت اور انجیل نے بھی اس بارے میں بشارتیں دی ہیں(
یعلمون انه منزل من ربک
)
۴ ۔ اہل کتاب پیغمبر اسلام کو بھی اور قرآن مجید کو بھی بڑی گہری نظر سے پہچانتے تھے(
یعلمون انه منزل
)
۳۷
۵ ۔ رہبر کو چاہئیے کہ دل میں کسی قسم کا شبہ پیدا کئے بغیرڈٹ کراپنے سلسلہ دعوت و تبلیغ کو جاری رکھے(
فلا تکونن-
)
آیت ۱۱۵
(
وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّ عَدْلَا ط لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِه وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
)
۔
ترجمہ۔ اور تیرے پروردگار کا کلام صداقت او رعدالت کی تما م و کمال حد تک پہنچ گیا، اس کے کلمات کو کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا اور وہ سننے اور جاننے والاہے۔
ایک نکتہ:
قرآن مجید میں "کلمہ" کئی معانی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ۔ ۱ ۔ حتمی وعدہ : مثلاً(
وتمت کلمت ربک الحسنی علی بنی اسرائیل بما صبروا
)
"یعنی بنی اسرائیل نے چونکہ صبرکیا تھا اس لئے تیرے رب کا نیک وعدہ ان کے لئے پورا ہوگیا (اعراف ۱۳۷) یہاں بنی اسرائیل کے صبر کی وجہ سے وعدہ الہی کے پورا ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
۲ ۔ دین ۔ جیسے "کلمتہ اللہ " یعنی خد اکا دین او رکلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ۔
۳ ۔ خدا کا بنی ۔ یا اولیاء اللہ ۔ کیلئے بھی استعمال ہو اہے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتاہے۔۔۔(
کلمته القهاالی مریم
)
" یعنی حضرت عیسیٰ خد اکے رسو ل اور اسی کے کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم کی طرف القافرمایا۔ (نساء ۱۷۰) نیز روایات میں ائمہ اطہار علیہم السلام کی زبانی یہ ارشاد ات موجود ہیں کہ : "نحن الکلمات التامات
" یعنی ہم خد اکے کلمات تامہ ہیں۔
پیام:
۱ ۔ دین اسلام میں قرآن مجید کامل او رتمام ہے۔(
تمت کلمت ربک
)
۲ ۔ الہی دین کی تمام خبریں سچ او رتمام احکام عدل پر مبنی ہیں(
صدقاوعدلا
)
۳۸
۳ ۔ خدا کے وعدے او رطریقہ کار نہیں بدل سکتے(
لا مبدل لکلماته
)
۴ ۔ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہو سکتی(
لا مبدل لکلماته
)
آیت ۱۱۶
(
وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِطاِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور اگر تم روئے زمین کے بہت سے افراد کی پیروی کرو گے تو تمہیں راہ خدا سے منحرف اور گمراہ کر دیں گے۔ کیونکہ وہ بھی گمان کے علاوہ کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے او راپنے گمان اور تخمینے ہی سے کام لیتے رہتے ہیں،
ایک نکتہ:
"خرص" کا معنی ہے تخمینہ لگانا او رحد س و گمان سے کام لینا ، پہلے تو اس کا استعمال درخت پر موجود پھل کی مقدارکا تخمینہ لگانے کے لئے ہوتا تھا بعد میں ہر طرح کے تخمینے کے لئے استعمال ہونے لگا ، چونکہ بعض تخمینے غلط بھی ثابت ہوتے ہیں لہذا جھوٹ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (تفسیر نمونہ)
پیام:
۱ ۔ جھوٹ کا بازار ہمیشہ گرم رہتا ہے عوام الناس کی اکثریت کا کاروبار برہان اور منطق کی بنیاد پر نہیں ہوتا جبکہ حق او ربرہان کے بازار میں ہمیشہ مندی رہتی ہے او روہ ہر وقت کساد بازاری کا شکار رہتے ہیں۔(
اکثر من فی الارض یضلوک
)
۲ ۔ گمراہیوں کی بنیاد حد س و گمان پر اعتماد کرنے پر استوار ہوتی ہے(
یضلوک--ان یتبحون الا الظن
)
۳ ۔ اکثریت کو خوش کرنے کی خاطر ان کی پیروی کیلئے کسی قسم کا اقدام بھی انسان کی تباہی اور گمراہی کا موجب ہو سکتا ہے،(
ان تطع --یضلوک
)
۴ ۔ اکثریت ، حقانیت کی دلیل نہیں ہے۔ معیار حق ہے تعداد نہیں ، کیفیت کمیت پر مقدم ہوتی ہے۔ (بندوں کو گنا نہیں تولا کرتے ہیں۔ از مترجم)
۵ ۔ اکثریت بعض اوقات اس حد تک جلوہ گرہوتی ہے کہ پیغمبر کو بھی اس کی طرف متوجہ کرانا پڑتا ہے۔
۶ ۔ جس اکثریت کی بنیاد یں حق او ر برہان کی بجائے تخمین او رہوس پر استوار ہوں وہ قابل مذمت ہے۔(
ان هم الا یخرصون
)
۷ ۔ راستہ اختیار کرنے کے لئے دلیل و برہان لازم ہوتی ہے حدس و قیاس اور استحسان نہیں۔(
ان یتبعون الا الظن----یخرصون
)
آیت ۱۱۷
(
اِنَّ رَبَّکَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِه وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
)
۔
ترجمہ۔ یقینا تمہارا پروردگار ان لوگوں کو اچھی طرح جانتاہے جو اس کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں سے( بھی) اچھی طرح واقف ہے۔
ایک نکتہ:
"مھدی"اور "مھتدی ‘ ‘ میں فرق ؟ فرق یہ ہے کہ مھدی جیسے امام معصوم ہوتے ہیں ۔ جو روز اول ہی سے خد اکی طرف سے ہدایت یافتہ ہوتے ہیں ۔ جبکہ مھتدی وہ ہوتا ہے جو پہلے گمراہی کا شکار رہا ہو پھر ہدایت حاصل کرے (از تفسیر اطیب البیان)
پیام:
۱ ۔ انسان کو عقل ، تجربہ او رمشورہ سے پہچاننے سے محدورنتیجہ حاصل ہوتا ہے، او رخدا حقیقی انسان شناس ہے۔ انسان ہزار طرح کے ذریعے اختیار کر کے صرف "عالم" بن سکتا ہے جبکہ خدا وند عالم کسی بھی ذریعہ کو اختیار کئے بغیر "اعلم" ہے۔
۲ ۔ ریا کاری ‘ ظاہر سازی اور چاپلوسی سے نہ تو خود کو دھوکہ دو او رنہ ہی دوسروں کو کیونکہ خد اہر ایک کو اچھی طرح جانتا ہے۔(
هوا علم من یضل----
)
آیت ۱۱۸
(
فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِه مُؤْمِنِیْنَ
)
۔
ترجمہ۔ پس اگر خد اکی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو ان (جانوروں کے گوشت) سے کھاؤ جن پر ( ذبح کے وقت) خدا کانا م لیا گیاہے۔
دو نکات:
جانور کو ذبح کرتے وقت خد اکا نام لینا، مادیات کو ایک طرح کا بچاؤ دینا اور ایمان کا اظہار کرنا ہے ویسے تو ہر کام میں خد ا کو یاد کرنا اچھی با ت ہے لیکن جانور کو ذبح کرتے وقت جبکہ اس کی جان لینے کا موقع ہوتا ہے اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے
ذبح جو ایک جزوی امر ہے، اس کے لئے بھی بہت سی شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہے (مثلاً صرف خدا کا نام لیا جائے کسی اور کا نہیں ذبح کرنے والا مسلمان ہونہ کہ کافر ، رخ قبلہ کی طرف ہوکسی او رسمت کو نہیں، لوہے کے ساتھ ذبح کیا جائے کسی اور چیز کے ساتھ نہیں ، ذبح کیا جائے گلہ نہ دبایا جائے وغیرہ) اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملت اسلامیہ کے لئے تمام امور میں خدا کی بتائی ہوئی جہت او ردیا ہوا دین پیش نظر رہنا چاہئیے۔
پیام:
۱ ۔ مومن کی خوراک او رغذا کو جچا تلا ہونا چاہئے۔(
ذکر اسم الله
)
۲ ۔ خدا کا نام گوشت کے استعمال کیلئے جائز ہونے کی مہر اور مصرف کا اجازت نامہ ہوتا ہے(
کلو امما--
)
۳ ۔ توحید کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہر فرصت سے فائدہ اٹھانا چاہئے ، حتی کہ غذاکے طور پر استعمال کرنے کے لئے گوشت حاصل کرنے کے موقع پر جانور کو ذبح کرتے وقت بھی توحید کو ہی پیش نظر رکھا جائے۔ کیونکہ توحید صرف ایک ذہنی مسئلہ نہیں ہے،
۴ ۔ حلال غذا کا استعمال ، ایمان کی شرط اور علامت ہے(
ان کنتم بایاته موٴمنین
)
۵ ۔ اسلام ایک ایسا جامع دین ہے جس نے ذبح جیسے ایک جزوی مسئلہ کے لئے بھی تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے۔ دین کہ خدا کا نام لیا جائے۔ ذبح کے آلہ کو کہ لوہا ہو، ذبح کے انداز کو ، چار رگوں کو کاٹا جائے ، امت کو، کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو، اور سمت کو ، کہ قبلہ کی طرف ہو۔
آیت ۱۱۹
(
وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْ تُمْ اِلَیْهِط وَاِنَّ کَثِیْرَا لِّیُضِلُّوْنَ بَاَهْوَآئِهِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍط اِنَّ رَبَّکَ هُوَاَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اس ذبح سے تم نہیں کھاتے جس پر خدا کا نام لیا گیا ہے؟ (اور ہمارے حلال کردہ کو بغیر کسی وجہ کے حرام کرتے ہو) حالانکہ خداوند عالم نے خود ہی تفصیل کے ساتھ تمہارے لئے ان چیزوں کو بیان کر دیا ہے جو حرام ہیں، (اور تمہارے حرام کرنے کی ضرورت نہیں ہے) جہاں تم مجبور ہو جاؤ تو پھر حرام چیزوں کا استعمال تمہارے لئے جائز ہے، اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ بہت سے لوگ جہالت کی بنا پر اپنی خواہشات کے مطابق دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یقین جانو کہ تمہارا پروردگار حد سے تجاوز کرنے والوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔
ایک نکتہ:
کچھ لوگ ایسے تھے اور ہیں جو ذبح کئے ہوئے اور مردہ جانور کے درمیان تقابل کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے کہتے ہیں: "آخر کیا وجہ ہے کہ جو جانور ہم ذبح کریں وہ حلال ہے اور جسے خدا موت دے وہ حرام ہے؟(
لیضلون باهوائهم
)
پیام:
۱ ۔ بے بنیاد طریقہ پر کسی چیز کو حرام کرنا قابل مذمت ہے، جس طرح حرام کو حلال کرنا ممنوع ہے اسی طرح حلال کو حرام کرنا بھی ممنوع اور ناجائز ہے(
وما لکم
)
آیت ۱۲۰
(
وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ إِنَّ الَّذِینَ یَکْسِبُونَ الْإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوا یَقْتَرِفُونَ
)
ترجمہ۔ اور آشکار اور پنہائی گناہ کو ترک کر دو (جسم اور فکر کے گناہ کو) یقینا جو لوگ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ بہت جلد اپنے گناہ کے ارتکاب کی سزا پائیں گے۔
دو نکات:
۔ زمانہ جاہلیت ہو یا دور حاضر زمانے کے بتہرے لوگ آشکارا اور ظاہری گناہوں سے ڈرتے چلے آرہے ہیں۔
۔ ظاہری اور باطنی گناہوں کے بہت سے مصداق بتائے گئے ہیں۔ مثلاً ظاہری گناہ وہ ہوتے ہیں جن کے خطرناک نتائج فوراً اور فوراً اور ہر شخص کے لئے واضح ہو جاتے ہیں اور باطنی گناہ وہ ہوتے ہیں جو اس کے برعکس ہیں۔ مثلاً وہ غذائیں جو سنگدلی کا باعث بنتی ہیں۔
پیام:
۱ ۔ گناہ میں ایک طرح کی جاذبیت اور کشش ہوتی ہے جس کو ایک محکم اور قطعی ارادے کے ساتھ دل سے نکال دینا چاہیے۔(
ذورا
)
۲ ۔ خدا کی طرف سے سزا صرف ان گناہوں پر ملتی ہے جو جان بوجھ کر اور علم وارادے سے کئے جائیں۔(
یکسبون
)
۳ ۔ اسلام کی توجہ ظاہری تربیت اور طہارت پر بھی ہے اور باطنی پر بھی۔ چنانچہ پاک دل کے لوگ ہوں یا منافق لوگ جو ظاہر کی پابندی نہیں کرتے اسلان ان پر کڑی تنقید کرتا ہے۔(
ظاهرالائم و باطنه
)
۴ ۔ انسان گناہ کے ارتکاب میں آزاد ہے۔(
یکسبون
)
۵ ۔ قیامت اور آخرت کی سزا زیادہ دور نہیں۔(
سیجزون
)