تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62916
ڈاؤنلوڈ: 5410

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62916 / ڈاؤنلوڈ: 5410
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۱۲۱

( وَلاَتَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَائِهِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ )

ترجمہ۔ اور (ذبح یا نحر کے وقت) جن چیزوں پر خدا کا نام نہیں لیا گیااسے نہ کھاؤ۔ کیونکہ یقینی بات ہے کہ یہ فسق(مدار بندگی سے نکل جاتا) ہے۔ بے شک شیطان اپنے (وسوسہ پذیر) دوستوں کو القا کرتے ہیں تاکہ وہ تمہارے ساتھ لڑنے کے لئے تیار ہو جائیں (کہ مردہ یا ذبیحہ میں کیا فرق ہے؟) اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو یقینا تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔

چند نکات:

چونکہ حرام خواری دل کی سختی یا سنگدلی کا باعث ہوتی ہے۔ اور دوسرے بڑے گناہوں کے لئے زمین ہموار کرتی ہے۔ لہٰذا اسلام نے اس سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔

سورہ مائدہ کی پانچویں آیت میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے۔ اور یہ آیت کہتی ہے کہ جس جانور پر ذبح کے وقت خدا کا نام نہ لیا جائے اس کا گوشت حرام ہے۔ چونکہ اہلِ کتاب اس شرط کی پابندی نہیں کرتے لہٰذا ن کے جانوروں کا گوشت ہمارے لئے حرام ہوگا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آیت میں طعام سے مراد غلہا ور اس کی مانند دوسری خشک چیزیں ہیں نہ کہ گوشت۔ (تفسیر المیزان)

۔ جن و انس کے شیطانوں کا وسوسہ اس طرح ہوتا ہے کہ "مردہ جانور کو خدا نے موت دی ہے۔ لہٰذا خدا کا مارا ہوا انسان کے مارے ہوئے سے بہتر ہے۔ لیکن وہ اس نکتہ سے غافل ہیں کہ مردہ جانور کے بدن سے کثیف اور غلیظ خون باہر نہ نکلنے کی وجہ سے عام طور پر کئی طرح کی بیماریاں اس کے ہمراہ ہوتی ہے۔

پیام:

۱ ۔ مسلمان کو چاہیئے کہ وہ خوراک کے مسائل اور طعام کے ایک لقمہ کی حد تک بھی دینی پابندی اور اعتقادی اور عملی حدود کو پیشِ نظر رکھے۔( لاتاکاکلوا )

۲ ۔ ذبح کے وقت خدا کا نام لینا صرف تکلف کی حد تک نہیں ہے بلکہ ایک ایسا حکم ہے جس کی تکمیل واجب اور جس کی خلاف ورزی جرم ہے۔( انه لفسق )

۳ ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان صرف ایک ناجائز لقمے کی وجہ سے فاسق ہو جاتا ہے۔( انه فسق )

۴ ۔ شیاطین میں الہام اور القاء کی قدرت موجود ہے۔( لیوحون )

۵ ۔ شیطانی وسوفہ صرف ان کے اولیاء (دوستوں) پر اثر کرتا ہے۔ اولیاء اللہ پہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔( اولیائهم )

۶ ۔ احکام الٰہی میں لڑنا جھگڑنا اور کج بحثی کرنا ایک شیطانی حربہ ہے۔( لیجادلوکم )

۷ ۔ انسان "آزادانہ استعمال" کے نتیجہ میں شیطانی القاء کی راہیں ہموار کرتا ہے۔( لیوجون )

۸ ۔ جزوی مسائل میں جدال اور بحث و مباحثہ انسان کو شرک کی حدود تک پہنچاتا ہے۔( لمشرکون )

۹ ۔ لڑائی جھگڑے اور بحث مباحثہ کا موجب وسوسے اور خواہشات ہوتی ہیں۔( الیوحون- لیجادلوکم )

۱۰ ۔ خدا پرست بھی اگر عمل کی راہ میں غیر اللہ کی اطاعت کریں گے، مشرک ہو جائیں گے۔( انکم لمشرکون )

آیت ۱۲۲

( أَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا یَمْشِی بِهِ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَثَلُهُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِینَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )

ترجمہ۔ آیا جا شخص (جہالت اور شرک کی موت) مر چکا تھا اور ہم نے اسے (اپنی ہدایت کی بدولت )زندہ کردیا۔ اور اُس کے لئے ایک نور قرار دے دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے۔ اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو (جہالت اور شرک کی) تاریکیوں میں (ڈوبا ہوا) ہے۔ اور اس سے نکل ہی نہیں سکتا ہے۔ کافروں کے لئے اسی طرح ان کے اعمال مزین کر دئیے گئے ہیں۔

ایک نکتہ:

۔ یہ آیت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کے ایمان لانے کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب حضرت حمزہ کو معلوم ہوا کہ ابوجہل نے حضرت رسول کو سخت اذیت پہنچائی ہے تو فوراً اس کے پیچھے گیا ور جب وہ مل گیا تو انہوں نے ابوجہل کے سر پر ایک زور دار مکال رسید کر دیا۔ پھر فرمانے لگے ۔ "میں آج سے محمد پر ایمان لا رہا ہوں" چنانچہ اس وقت سے آخر عمر تک اسلام کے ایک مومن اور جری فوجی سردار بن کر رہے۔

پیام:

۱ ۔ کفر، موت ہے اور ایمان زندگی۔ ایمان مردہ انسانوں اور معاشروں کو زندہ کرتا ہے، انسان کی حقیقی زندگی اور موت۔ ایمان اور کفر ہے۔( میتا- فاحینیاه ) ۴۰

۲ ۔ ہدایت اور رہنمائی خدا کا کام ہے۔ ہر چند کے خود انسان ہدایت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔( احینیاه )

۳ ۔ مومن کی راہ میں ہرگز رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔( نورایمشی )

۴ ۔ جب روشنی نہ ہو تو طرح طرح کی تاریکیاں انسان کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہیں۔( فی الظلمات )

۵ ۔ حق ایک ہے و ر باطل ڈھیروں ہیں۔ ( "نور" مفرد ہے اور "ظلمات " جمع )

۶ ۔ روایات ہیں کہ امامت اور الٰہی رہبری "نور" کا ایک مکمل مصداق ہے۔ ۱

۷ ۔ نور ایمان اور الٰہی ہدایت کے بغیر انسان کے لئے کوئی اور چیز حیات بخش نہیں ہے۔( لیس نجارج منها )

۸ ۔ انسان کے کارنامے اس کی نگاہا ور فکر میں موثر ہوتے ہیں۔( زین-- کانو ایعملون )

۹ ۔ کفار کے پرکشش کارنامے مثلاً نئی ایجادات، انکشافات، ٹیکنالوجی، تمدن وغیرہ ان کے لئے اس قدر خوبصورت اور مزین ہوچکے ہیں کہ انہیں اپنی گمراہی اور اپنی انسانیت کے انحطاط و سقوط کا بھی احساس نہیں رہا۔( زین للکافرین ما کانوا یعملون- )

آیت ۱۲۳

( وَکَذَلِکَ جَعَلْنَا فِی کُلِّ قَرْیَةٍ أَکَابِرَ مُجْرِمِیهَا لِیَمْکُرُوا فِیهَا وَمَا یَمْکُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِهِمْ وَمَا یَشْعُرُونَ )

ترجمہ۔ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی (آبادی) میں بڑے مجرم مقرر کئے ہیں جو وہاں پر مکر وحیلوں سے کام لیتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے علاوہ کسی اور کے ساتھ مکاری نہیں کرتے اور اس بات کو سمجھتے بھی نہیں۔

دو نکات:

اس سے پہلی آیت کے شان نزول میں ابوجہل کی اسلام کے ساتھ شیزہ کاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اور اس آیت میں خدا یہ بتانا چاہتا ہے کہ "ابوجہلوں" کا وجود کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ اور ہر جگہ دعوتِ حق کے مقابلے میں ایسے فاسد مہرے موجود چلے آرہے ہیں۔( کذالک )

۔ حق اور باطل اور ان کے طرفداروں کی آویزشیں ازل سے چلی آرہی ہیں۔ اور یہ ایک طرقہ کار قدرت ہے جو ان کے اختیار کے منافی بھی نہیں ہے۔ اسی لیے سابقہ آیت میں انسان کی نورخدا کی روشنی میں حرکت کرنے کو اپنی طرف نسبت دی ہے۔ اور فرمایا ہے۔ "وجعلنا" اور اس آیت میں بزرگ مومنین کے وجود کو اپنی طرف نسبت دے کر کہا۔( وجعلنا فی کل قریة اکابرمجرمیها ) گویا "نور" اور "مجرم" کا وجود دونون ہی قدرت خداوندی کے مدار میں ہیں۔

پیام:

۱ ۔ نیک اور بد لوگوں کی تمام سرگرمیاں مدار قدرت خداوندی سے باہر نہیں۔( جعلنا )

۲ ۔ فاسد اور مفسد سردار ہی حق شرہ میں فساد کی جڑیں ہین۔ (یعنی مالی، فوجی، فکری اور سیاسی مراکز میں یہی "رکابر" ہی تمام برائیوں، بدبختیوں اور تباہیوں کا سرچشمہ ہیں۔)

۳ ۔ شاطرانہ چالیں اور طرح طرح کی زیرنگیاں انہی مفسد سرداروں کا حربہ ہیں۔( لیمکروا )

۴ ۔ صدق و صفا جیسے جوہر کو ضائع کرکے خدائی قہر و غضب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی ایک بہت بڑی ضرب ہے جو یہ مکار لوگ اپنے آپ لگاتے ہیں۔

۵ ۔ ہر یبماری سے بدتر بیماری کو نہ جاننا ہے اور مکر و فریب سے بدتر اس بات کو نہ سمجھنا ہے کہ اس مضر اثرات خود مکار اور فریبی ہی کی طرح پلٹ جاتے ہیں۔( وما یشعرون )

آیت ۱۲۴

( وَإِذَا جَائَتْهُمْ آیَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّی نُؤْتَی مِثْلَ مَا أُوتِیَ رُسُلُ اللهِ اللهُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَیُصِیبُ الَّذِینَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا کَانُوا یَمْکُرُونَ )

ترجمہ: اور جب (خدا کی طرف سے ان کی ہدایت کیلئے) کوئی آیت اور نشانی نازل ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمیں بھی وہی کچھ عطا نہ کیا جائے جو خدا کے رسولوں کو (وحی کا شرف یا اجتماعی رتبہ) دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں (اور کس میں) مقرر کرے۔ جن لوگوں نے (مکر و فریب جیسے) جرم کئے ہیں بہت جلد ہی انہیں ان کے حیلوں فریبوں کی سزا ذلت و خوایر اور سخت عذاب (کی صورت)میں ملے گی۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شانِ نزول میں بتایا گیا ہے کہ کفار کا نام نہاد بڑا سمجھدار اور باشعور شخص ولید بن مغیرہ کہا کرتا تھا "چونکہ میری عمر اور دولت محمد سے زیادہ ہے لہٰذا مجھ پر بھی وحی آنی چاہیے۔" اور اس قسم کی باتیں ابوجہل سے بھی منقول ہیں۔

پیام:

۱ ۔ صاحبان مال و اقتدار میں سے بڑے بڑے افراد کسی منطقی دلیل کے بغیر صرف اپنی "چودھراہٹ" کی وجہ سے دعوت اسلام کو ٹھکرا دیا کرتے ہیں۔( قالوا لن موٴمن )

۲ ۔ مجرمین ہی غرور و تکبر کا شکار ہوتے ہیں۔ (سابقہ آیت میں "( اکابرمجرمیها ) " ہے اور اس آیت میں "( لن موٴمن ) " ہے۔) ۴۱

۳ ۔ خدا کا کسی منصوب اور مقرر کرنا، اس امر کی حکمت کے تحت ہوتا ہے۔( الله اعلم حیث یجعل رسالته )

۴ ۔ خداوند اعلم کے انتخاب کا معیار کسی کی لیاقت اور شائستگی کے بارے میں اس کا علم ہے۔( الله اعلم )

۵ ۔ استکبار کا نتیجہ ذلت ہی ہے۔( لن موٴمن- صغار )

۶ ۔ کفار کے کچھ سردار "بدر" میں مارے گئے جس سے خدائی وعدہ کی تعمیل ہوگئی اور وہ ذلت کا شکار ہوگئے۔

آیت ۱۲۵

( فَمَنْ یُرِدْ اللهُ أَنْ یَهدِیَهُ یَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ وَمَنْ یُرِدْ أَنْ یُضِلَّهُ یَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَیِّقًا حَرَجًا کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ کَذَلِکَ یَجْعَلُ اللهُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

ترجمہ: پس خدا جس کو ہدایت کرنا چاہتا ہے تو اس کے سینہ اور روح کو اسلام (کی قبولیت) کیل ئے کشادہ کر دیتا ہے۔ اور جس کو (اس کے ناشائستہ اعمال اور خصلتوں کی وجہ سے) گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے سینہ کو تنگ اور قبول نہ کرنے والا دشوار گزار بنا دیتا ہے۔ گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہو (کہ زمین کو اپنے پیروں سے نکلتا ہوا اور راہ کو دور دیکھتا ہے اور کافی حد تک آکسیجن بھی اپنے پاس نہیں رکھتا) اللہ تعالیٰ اسی طرح پلیدی کو ان لوگوں کے لئے قرار دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ ۴۲

دو نکات:

۔ خدا کی ہدایت اور گمراہی سے مراد شائستہ اور اہل لوگوں کے لئے اسبابِ ہدایت کا فراہم کرنا اور ناشائستہ اور نااہل افراد کے لئے اسباب ہدایت کا سلب کرنا ہے۔

۔ "صدر" (سینہ) سے مراد روح اور دل ہے۔ اور "شرح صدر" سے مراد حق اور ہدایت کو قبول کرنے کے لئے تحصل و فکر کے افق کی وسعت اور روح کی بلندی ہے۔ اور اس کے لئے نفسانی خواہشات اور دلی آرزوؤں کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو شرح صدر کا حامل نہیں ہوتا وہ ہمیشہ ایک ہی خول میں پڑا رہتا ہے۔ اور اس سے باہر نہیں نکل سکتا۔ شرح صدر کا نتیجہ ایک تو بصیرت اور نورانیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور دوسرے نرم دلی اور حق کو قبول کرنے کی صورت میں۔

پیام:

۱ ۔ حق کو قبول کرنے کے لیے وسعت ظرفی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دوسرے تہہ دل سے اس کے لئے راہ ہموار کرنا پڑتی ہے۔( نشرح صدره )

۲ ۔ جو حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا وہ آسمان کی طرف پرواز نہیں کرسکتا۔( یصعد فی اسماء )

۳ ۔ فطرت، عقل اور طبعی امور کے مدار سے نکل جانے کا نتیجہ سینے کی تنگی اور گھٹن ہوتا ہے۔( یصعد فی اسماء )

۴ ۔ گمراہ لوگ ہر چند کے بظاہر اپنے آپ کو کشادہ حالی اور ترقی کی صورت میں دیکھیں درحقیقت وہ ذہنی دباؤ اور قلبی تنگی کا شکار ہوتے ہیں۔( فیقا حرجا )

۵ ۔ بے حوصلہ اور کم ظرف ہونا ایک طرح کی روحانی نجاست اور غلاظت ہوتی ہے۔( یجعل الرجس )

۶ ۔ جو حق پر ایمان نہیں لاتا وہ تدریجی طور پر غلیظ اور آلودہ ہوجاتا ہے۔( کذالک یجعل الرجس )

آیت ۱۲۶

( وَهَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیمًا قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ ) ( لِقَوْمٍ یَذَّکَّرُونَ )

ترجمہ: اور یہ ہے یترے رب کا سیدھا راستہ۔ یقینا ہم نے اپنی آیات کو ان لوگوں کے لئے تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

دو نکات:

۔ خاوند عالم کا قدیم سے یہی طریقہ کار چلا آرہا ہے کہ حق کو قبول کرنے والے پاک دل لوگوں کے سینے کو کشادہ کر دیتا ہے اور ایمان سے گریز کرنے والے ہٹ دھرم لوگوں کو سلب توفیق اور رجس جیسی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔

۔ ممکن ہے کہ "ھذا" کا اشارہ "اسلام" کے لفظ کی طرف ہو۔ (جو اس سے پہلے آیت میں ذکر ہو چکا ہے۔ "للاسلام" )

پیام:

۱ ۔ خدا کے رستے کے علاوہ باقی تمام راستے یا منزل مقصود تک نہیں لے جاتے یا پھر آگے جا کر بند ہو جاتے ہیں۔( وهذا صراط ربک )

۲ ۔ یاد دہانی ا ور نصیحت کے لئے تنوع، تفصیل اور تکرار ضروری ہوتا ہے۔( فصلنا )

۳ ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک پر اپنی حجت تمام کر دی ہے اگر کوئی اہل توجہ ہو۔ حق کی تمام آیات اور نشانیاں مختلف انداز میں بیان کرکے واضح کر دی گئی ہیں۔( لقوم یذکرون )

آیت ۱۲۷

( لَهُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِیُّهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )

ترجمہ: ان کے لئے رب کے نزدیک امن اور آسودگی کا گھر ہوگا، اور وہ ان کا سرپرست اور حامی ہوگا کیونکہ وہ (نیک) اعمال انجام دیتے رہے۔

پیام:

۱ ۔ بہشت میں کسی دشمنی، رقابت، ضدبازی، تہمت، حسد، کینہ، جھوٹ، غم، اندوہ کسی قسم کی بے چینی، موت، بیماری، غربت اور ناداری وغیرہ نہیں ہے۔ (دارالسلام)

۲ ۔ امن و سلامتی کی نعمت سے بھی بالاتر ایک اور نعمت ہے اور وہ پروردگار کے مخصوص سایہ الطاف میں رہنا۔( عندربهم )

۳ ۔ الٰہی ولایت اور امان تک رسائی، عمل کے زیر سایہ حاصل ہوتی ہے۔( بما کانوا یعملون )

آیت ۱۲۸

( وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا یَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدْ اسْتَکْثَرْتُمْ مِنْ الْإِنسِ وَقَالَ أَوْلِیَاؤُهُمْ مِنْ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِی أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاکُمْ خَالِدِینَ فِیهَا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ إِنَّ رَبَّکَ ) ( حَکِیمٌ عَلِیمٌ )

ترجمہ: اور اس دن (کو یاد رکو) جب کہ خداوندعالم سب کو محشور کرے گا (پھر شیاطین جو کہ جنات کو مخاطب کرکے فرمائے گا۔) اے شیطانوں اور جنوں کے گروہ! تم نے بہت سے انسانوں کو اپنا پیروکار پایا۔ ان کے طرفدار انسان کہیں گے۔ پروردگار! اہم انسانوں اور جنوں نے ایکدوسرے فائدہ اٹھایا اور اپنے اس انجام کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیاتھا۔ خدا فرمائے گا۔ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے جس مین تم ہمیشہ رہو گے، مگر یہ کہ خدا چاہے (کہ تم میں سے کچھ افراد کے گروہ کو بخش دے) یقینا تیرا پروردگار حکیم و دانا ہے۔

ایک نکتہ:

۔ سابقہ آیات (مثلاً ۱۱۲ ۔ ۱۲۱) میں شیطانی کارستانیوں اور وسوسوں کی طرف اشارہ موجود ہے، اس آیت میں شیطانی وسوسوں کو قبول کرنے کا انجام جو کہ جہنم ہے، بیان کیا جارہا ہے۔ ضمنا یہ بات بھی یاد رہے کہ قرآن مجید کے بقول شیطان۔ جنات میں سے ہے، جس جن نے لوگوں کی بڑی تعداد کو گمراہ کیا وہی شیطان ہے۔

پیام:

۱ ۔ شیطان، جنوں میں سے ہے اور جن بھی مکلف اور مختار ہوئے ہیں انہیں بھی سزا اور جزا سے واسطی بڑھے گا۔( یامعشرالجن )

۲ ۔ شیطان لوگوں کے کم گروہوں کو گمراہ کرنے پر راضی نہیں ہے اس نے انسانوں کے بہت سے گروہوں کو گمراہ کیا ہے۔ (قد استرکثرتم من الانس) ۴۳

۳ ۔ قیامت کے دن خدا کی عدالت اور سزا و تنبیہ کھلم کھلا ہوگی۔( نحشرهم---- یامعشرالجن )

۴ ۔ اپنے اعمال کے انجام کے بارے میں بھی سوچو!( ویوم )

۵ ۔ قیامت کے دن تمام انسان اور شیاطین یکجا اکٹھے اور محشور ہوں گے۔( جمعیا )

۶ ۔ شیطانی وسوسوں کی اتباع سے انسان میں آہستہ آہستہ شیطان سے انس اور اس کی حکومت کو تسلیم کرنے کی عادت پیدا ہوجاتی ہے۔( اولیاء هم )

۷ ۔ شیطان کی پیروی کو موجب، بہرہ مندی ہے۔( استمتع )

۸ ۔ انسان آزاد ہے اور اس کو اختیار حاصل ہے کہ کسی کا اثر قبول نہ کرے اور کسی فریب میں نہ آئے۔( بعضنا )

۹ ۔ تمام گمراہ ایک جیسی سزا کے مستحق نہیں ہوں گے اور نہ ہی جہنم میں ہمیشہ رہنے کے( الا ماشاء الله )

۱۰ ۔ خدائی عدالت کے فیصلے علم و حکمت کی بنا پر ہیں۔( علیم حکیم )

آیت ۱۲۹

( وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ )

ترجمہ: اور اسی طرح (کہ تمہاری خواہش تھی کہ کامیابی حاصل کرو تو) ہم بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کر دیں گے تاکہ انہیں ان کے کئے کی سزا مل جائے۔)

ایک نکتہ:

۔ روایات کے مطابق امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ترک کرنے، خمس و زکوٰة اور دیگر شرعی اور واجبات کو ادا نہ کرنے اور ظالموں کی امداد کرنے والوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر ظالموں کا تسلط کر دیا جاتا ہے۔ (تفسیر اطیب البیان)

ایک اور حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے راضٰ ہوتا ہے تو ان کے امور نیک لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اور اگر ناراض ہوتا ہے تو بُرے لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ (کشف الاسرار)

پیام:

۱ ۔ عیاشی اور لذت کام و دین۔ باطل حکومتوں کے اثرورسوخ اور ظالموں کے مسلط ہو جانے کا موجب ہوتی ہے۔ (استمتع۔۔۔ نولی) جبکہ ظالموں سے نجات کا راستہ لذتوں اور عیاشیوں کو ترک کردینے میں ہوتا ہے۔

۲ ۔ صرف حاکم ہی ظالم نہیں ہوتے، بزدل، ڈرپوک، خاموش اور عیاش محکوم بھی ظالم ہیں۔( بعض الظالمین بعضا )

۳ ۔ ظالموں کے تسلط کا سبب خود لوگوں کا اپنا کردار ہوتا ہے۔( بما کانوایکسبون ) ۴۴

آیت نمبر ۱۳۰

( یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِی وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ هَذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلَی أَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَشَهِدُوا عَلَی أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ کَانُوا کَافِرِینَ ) ۔

ترجمہ: (قیامت ے دن ان سے کہیں گے) اے جن و انس کے گروہ! آیا تمہارے پاس تم میں پیغمبر نہیں آئے تاکہ تمہارے سامنے میری آیات پڑھیں اور تمہیں آج کے اس دن کی ملاقات کے بارے میں ڈرائیں تو وہ کہیں گے: ہم اپنے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ اور دنیوی زندگی نے انہیں فریب دیا تھا اور (اب) خود ہی اپنے خلاف گواہی دیر ہے ہیں کہ بے شک وہ کافر تھے۔

چند نکات:

۔ آیات قرآنی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت محمد اور قرآن مجید جنات کے لئے بھی بھیجے گئے ہیں۔ ا ور وہ قرآن کو بھی سمجھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مومن بھی ہیں۔ (ملاحظہ قرطبی، طبرسی، مفسرِ الفرقان اور مغرفی ظلال القرآن) کہتے ہیں کہ جنوں کے رسول، انسانوں کے رسولوں سے وحٰ دریافت کرکے اپنی جس کے افراد تک پہنچاتے ہیں۔ (یہ حدیث ابن عباس سے منقول ہے)

"رسول" کا لفظ انسان کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے "( ان الله یصطفی من الملائکة رسلا ) " یعنی خداوندعالم ملائکہ میں سے بھی رسولوں کا انتخاب کرتا ہے۔ (حج/ ۷۰)

۔ اس آیت میں جن و انس کے دو تلخ اقراروں کا تذکرہ ہے، ایک تو یہ کہ وہ اپنی طرف رسولوں کے آنے ک گواہی دیں گے۔ اور دوسرے یہ کہ اپنے کفر کا اعتراف کریں گے۔

۔ قیامت کے مختلف مراحل ہیں۔ ا ور سب سے پہلے مرحلہ میں وہ اپنے کفر و شرک کا انکار کریں گے۔ اور کہیں گے "( والله ماکنا مشرکین ) " یعنی خدا کی قسم ہم مشرک نہیں تھے۔ (انعام/ ۲۳) لیکن جب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انکار ناممکن ہے تو پھر اعتراف کرلیں گے۔

پیام:

جن و انس دونوں، انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے کے پابند ہیں اور دونوں قوموں کیلئے رسول آئے ہیں۔( الجن والانس )

۲ ۔ "انذار" (ڈرانا) انسانوں کی تربیت کیلئے طاقتور ترین اور موثر ترین ہتھیار ہے۔( وینذرونکم )

۳ ۔ فرد اور اجتماع (معاشرے) کی اصلاح کیلئے، احکام الٰہی کے اجرا کا طاقتور ترین ضامن معاد اور آخرت پر ایمان ہے۔( الم یاتکم ----ینذرونکم )

۴ ۔ قیامت کے دن کسی بھی بات کو چھپایا نہیں جاسکے گا، اس دن انسان اپنے خلاف بھی گواہی دیں گے۔( شهدواعلیٰ انفسهم )

۵ ۔ عیاشی، آسائش طلبی اور دنیا پرستی، انبیاء کی دعوت سے بے اعتنائی کا موجب ہیں۔( عزتهم الحیاة الدنیا )

۶ ۔ دنیا ہر فریفتگی، آخرت کی فراموشی کا موجب ہاتی ہے۔( عزتهم -- یمکم هذا )

۷ ۔ دنیا کے ساتھ محبت انسان کو کفر تک لے جاسکتی ہے۔( عزتهم -- کافرین )

آیت ۱۳۱

( ذَلِکَ أَنْ لَمْ یَکُنْ رَبُّکَ مُهْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ )

ترجمہ۔ یہ (تمام حجت اور تنبیہ) اس لئے ہے کہ تمہارا پروردگار ظلم کی بناء پر ایسی آبادیوں کو ہرگز ہلاک نہیں کرتا جن کے رہنے والے غافل ہوں۔ (اللہ تعالیٰ پہلے تولوگوں کو غفلت اور جہالت سے باہر نکلتا ہے اور اپنے پیغمبروں کے ذریعے انہیں خبردار کرتا ہے اگر وہ پھر بھی قبول نہیں نہ کریں تو ہلاک کر دیتا ہے۔

ایک نکتہ:

۔ خداوندعالم کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ انبیاء بھیج کر لوگوں کو خبردار کرتا ہے۔ انہیں "راہ" اور "چاہ" کے درمیان فرق بتاتا ہے۔ حقائق کو اُن پر واضح کرتا ہے اور اپنی حجت ان پر تمام کر دیتا ہے۔ (اگر پھر بھی وہ نہ سمجھیں اور بے اعتنائی کا ثبوت دیں تو پھر انہیں سزا دیتا ہے۔ خدا کا یہ دیرینہ قانون اور طریقہ کار قرآن کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے۔ منجملہ ان کے سورہ شعرأ/ ۲۰۸ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے "( وما اهلکنا من قریة الاولها منذرون ) " یعنی ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ وہاں کے لوگوں کے پاس ڈرانے والے موجود تھے۔ اسی طرح سورہ بنی اسرائیل / ۱۵ میں ہے کہ "وما کنا معتدبین حتی نبعث رسولا" یعنی جب تک کوئی رسول نہ بھیج لیں اس وقت تک عذاب نہیں کرتے۔

پیام:

۱ ۔ خدا کی سزائیں، اس کے رب ہونے کی وجہ سے ہیں۔( ربک )

۲ ۔ بیان کئے اور خبردار کئے بغیر عذاب اور سزا دینا ظلم ہے اور بُری بات ہے۔

آیت ۱۳۲

( وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ )

ترجمہ۔ اور تمام انسانوں کیلئے اس بنیاد پر درجات ہیں جو انہوں نے انجام دئیے ہیں اور تیرا پروردگار اس بات سے غافل نہیں ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔

ایک نکتہ:

۔ اس آیت میں "درجہ" سے مراد صرف اس کی بلندی ہی نہیں، بلکہ درکات اور سقوط کے مراحل کو بھی شامل ہے۔

پیام:

۱ ۔ خداوند عالم عادل ہے اور ہر شخص کو اس کے کارناموں کی وجہ سے رتبہ اور درجہ عطا کرتا ہے۔( مما عملوا )

۲ ۔ انسان ک سعادت (خوشبختی) اور شقاوت (بدبختی) ایسی کے اعمال سے وابستہ ہیں۔( مما عملوا ) ۴۵

۳ ۔ انسان کو اپنے ہوش و حواس ٹھکانے رکھنے چاہئیں کہ اس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔( وما ربک بغافل )

آیت ۱۳۳ ، ۱۳۴

( وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِنْ یَشَأْ یُذْهِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا أَنشَأَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ )

ترجمہ: اور تیرا پروردگار بے نیاز اور رحمت والا ہے۔ (لہٰذا اے ظلم کرنے کی ضرورت نہیں ہے) اگر چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہارا جانشین بنائے۔ جس طرح تمہیں ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔

یقینا تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا گیا ہے وہ البتہ ضرور آنے والا ہے وار تم (خدا کو) ناتواں نہیں بنا سکتے (اور اس کی سزا اور عدل سے گریز نہیں کرسکتے۔)

ایک نکتہ:

۔ سابقہ آیات میں خدا کے عدل و انصاف پر مبنی سزا کی بات ہو رہی تھی اور یہاں پر اس کی بے نیازی اور رحمت کا ذکر ہے اور یہی دونوں اس کی عدالت کی دلیل ہیں۔

لفظ "الغنی" میں ایک نکتہ پوشیدہ ہے جو "غنی" میں نہیں ہے۔ اور وہ یہ کہ "الغنی" کے ذرکعہ بتایا جا رہا ہے بے نیازی صرف اور صرف خدا ہی کے لئے ہے۔

پیام:

۱ ۔ بے نیازی صرف خدا ہی کے ساتھ مخصوص ہے لہٰذا تم کبھی بھی خود کو بے نیاز نہ سمجھو۔( ربک الغنی ) ۴۶

۲ ۔ گناہگاروں کو اسی دنیا میں بھی خدا سے ڈرنا چاہیئے کیونکہ ان کا مٹانا خدا کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔( یذهبکم )

۔ ظلم (کہ جس کا ذکر دو آیت پہلے ہو چکا ہے) یا تو ضرورت کی بنا پر کہا جاتا ہے یا سنگدلی کی وجہ سے اور خدا ان دونوں ضرورتوں سے بے نیاز ہے ۔( الغنی ذوالرحمة )

۔ ایک اچھے مربی کی خصوصیت یہ ہے کہ بے نیاز اور مہربان ہو۔ البتہ کبھی قدرت اور تہدید کو بھی کام میں لانا پڑتا ہے۔( ربک الغنی ذوالرحمة )

۵ ۔ بشری معاشروں کی بقا مشیعت ایزدی سے وابستہ ہے۔( ان یشاء یذهبکم )

۶ ۔ خدا کو ہماری عبادتوں کی کوئی ضرورت نہیں وہ اس سے بے نیاز ہے اس کے عبادت کے فرامین ہماری ہی رشدوہدایت اور ترقی کا عامل ہیں۔( الغنی )

۷ ۔ رحمت خدا کا خاس مواقع سے تعلق ہے۔ اور کبھی اپنی حکمت کے تقاضوں کے پیش نظر اپنے قہر و غضب کو کام میں لائے ہوئے سب کو نابود کرسکتا ہے۔( ذوالرحمة---- یذهبکم )

۸ ۔ الٰہی وعدے قطعی ہوتے ہیں مذاق نہیں۔( لات ) ۴۷

۹ ۔ قیامت کے دن مجرم، قدرت خداوندی سے نہیں ٹکرا سکے گا۔( ماانتم بمعجزین )

آیت نمبر ۱۳۵

( قُلْ یَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَی مَکَانَتِکُمْ إِنِّی عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَکُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ )

ترجمہ۔ کہہ دو کہ اے میری قوم جو کچھ تم عمل کرسکتے ہو کرو۔( تمہاری ہٹ دھرمی میرے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی) میں بھی اپنے فریضہ پر عمل کرتا رہونگا (جو کہ تبلیغ اور صبر ہے) پس بہت جلد جان لوگے کہ نیک انجام (اور عزت کا مقام) کس کیلئے ہے؟ یقینا ظالم کامیاب نہیں ہونگے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اکرم کو چونکہ اپنے موقف پر یقین ہے لہٰذا اس پر پورے اطمینان سے ڈٹے ہوئے ہیں۔( اعملوا علی مکانتکم )

۲ ۔ لوگوں کا انجام خود ان کے اپنے کارناموں سے وابستہ ہے۔( اعملوا -- فسوف تعلمون )

۳ ۔ لوگوں کی سرکشی، انبیاء کے فرائض کو نہیں بدل سکتی۔( انی عامل )

۴ ۔ کامیابی کا دارومدار اچھے انجام پر ہے، ناکہ دنیا کی ظاہری زرق وبرق اور بھاگ دوڑ پر۔( عاقبة الله )

۵ ۔ ظالم، کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔( لایفلح )

۶ ۔ خدا اور انبیاء کے رستے سے روگردانی ظلم ہے۔( الظالمون )

آیت ۱۳۶

( وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنْ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِهِمْ فَلاَیَصِلُ إِلَی اللهِ وَمَا کَانَ لِلَّهِ فَهُوَ یَصِلُ إِلَی شُرَکَائِهِمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ )

ترجمہ: اور ان (بت پرست) لوگوں نے جو خدا نے کھیتی اور جانور پیدا کئے ہیں ان میں سے اپنے باطل گمان کے مطابق ایک حصہ خدا کیلئے (بھی) مقرر کردیا اور کہا: یہ حصہ خدا کیلئے ہے اور یہ حصہ ہمارے شریکوں (بتوں) کیلئے ہے (جو کہ خدا کے بھی شریک ہیں اور مال کے بھی) پس جو حصہ ان شریکوں (بتوں) کا تھا وہ خدا تک نہیں پہنچتا تھا لیکن جو خدا کا حصہ تھا ہو شریکوں تک پہنچ جاتا تھا۔ یہ کیسا بُرا فیصلہ کرتے ہیں۔

ایک نکتہ:

۔ جو لوگ انبیاء کی ترتیب کے مدار سے نکل کر وادی خیال میں جا پہنچتے ہیں ان کی باتیں اور فیصلے بھی خیالی او بے منطق ہوتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو ہر چیز کا مالک سمجھنے لگتے ہیں۔ اور اپنی مرضٰ کی تقسیم شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی تو لڑکوں کو اپنا حصہ لڑکیوں کو خدا کا حصہ سمجھتے ہیں۔ "( الکم الذکرو له الانثی ) " (نجم/ ۲۱) اور کبھی غلہ اور جانوروں کو تقسیم کرتے ہیں۔

۔ مشرکین سمجھتے تھے کہ بتوں کا حصہ تبدیل نہیں ہوسکتا لہٰذا اسے بت خانوں اور ان کے پجاریوں پر خرچ کر دیا کرتے تھے اور جو خدا کا حصہ ہوتا تو اس بناء پر کہ آسمانوں کا مالک خدا تو بے نیاز ہے لہٰذا جب بت خانوں اور ان کے پجاریوں کا خرچہ کم ہونے لگتا تو خدا کے حصے سے اُٹھا کر وہیں پر لگا دیتے اور غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ نہیں کرتے تھے۔

پیام:

۱ ۔ زراعت اور پرورش حیوانات کے ساتھ اگرچہ انسان کا تعلق ہے لیکن زراعت اور جانوروں کا اصل خالق تو خدا ہی ہے۔( مماذی أ )

۲ ۔ زکواة کی نوعیت اور آمدنی اور منافع کی تقسیم تمام انسانوں کے عقائد میں شامل رہی ہے یہ اور بات ہے کہ خرافاتی انداز میں رہی ہے۔( هذالله ----- هذا لشرکائنا )

۳ ۔ انبیاء کے فرائض میں شامل ہے کہ خرافات کے خلاف علم بلند کرنا( ساء مایحکون )

۴ ۔ مشرکین اگرچہ بتوں کو خدا کا شریک سمجھتے تھے لیکن خدا کے لئے خصوصی عظمت کے قائل بھی تھے اور عزت اور بے نیازی خدا کے لئے خاص سمجھتے تھے۔ اور کمی کو خدا کے حصے سے پورا کرتے تھے۔

آیت ۱۳۷

( وَکَذَلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ أَوْلاَدِهِمْ شُرَکَاؤُهُمْ لِیُرْدُوهُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْهِمْ دِینَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ )

ترجمہ: اور اسی طرح بتوں (کے ساتھ عشق و محبت) نے بہت سے مشرکین کے لئے ان کی اولاد کے (بتوں کی قربانی کے طور پر) قتل کو مزین کردیا تھا کہ انہیں ہلاکت اور بربادی تک لے گئے اور ان کے دین کو ان کے لیے دگرگوں کر ڈالا۔ اور اگر خدا (زبردستی کرنا) چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے لہٰذا تو بھی انہیں ان کی انترپردازیوں کی حالت میں چھوڑ دے۔

دو نکات:

۔ جس طرح زراعت اور جانوروں کی خدا اور بتوں کے درمیان تقسیم اگرچہ ایک فضول خیال تھا لیکن ان کی نظروں میں ایک بہت اچھا کام تھا، اسی طرح بتوں کے ساتھ محبت اور بتوں کے آگے قربانی کے طور پر اولاد کا قتل بھی شیطانی وسوسوں کی وجہ سے ان کی نگاہوں میں بہت اچھی ریت تھی۔

۔ "یردوھم" کا لفظ "ارداء" سے ہے جس کا معنی ہے ہلاکت اور بربادی۔

پیام:

۱ ۔ جس معاشرے کی انہی خطوط پر تربیت نہ ہوئی ہو۔ اس کے افراد اپنی اولاد تک کو پتھر اور لکڑی کے تراشے بتوں کے آگے قربان کر دیتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں اور اسے عبادت بھی سمجھتے ہیں۔( زین ----- قتل اولادهم )

۲ ۔ مجرم لوگ اپنی اولاد کئی تک کی (بزعم خویش) صحیح توجیہ کرتے ہیں۔ (زین) ۴۸

۳ ۔ گناہ کی توجیہ اور برائیوں کو اچھائیوں کی صورت میں پیش کرنا انسان ہی نہیں انسانیت کے بھی سقوط و تباہی کا موجب ہے۔( لیردوهم )

۴ ۔ گناہوں کو آراستہ کرکے پیش کرنا، دین کو شبہات کے ساتھ مخلوط کرنے کا سبب ہوتا ہے۔( ولیلبسوا )

۵ ۔ انسان، آزاد ہے۔( ولوشاء الله مافعلوه )

۶ ۔ پیغمبر پر تو صرف تبلیغ کا فریضہ عائد ہوتا ہے، اگر لوگ ان کی بات کو نہیں سنیں گے تو انہیں چھوڑ کر ان سے زیادہ آمادہ دل رکھنے والوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔( فذرهم )

۷ ۔ گمراہ لوگوں کے افکار اور ان کا رویہ، حق کی دعوت دینے والوں کے لئے پریشانی کا سبب نہیں بننا چاہیئے۔( فذرهم وما یفترون )

آیت ۱۳۸

( وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لاَیَطْعَمُهَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ لاَیَطْعَمُهَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لاَیَذْکُرُونَ اسْمَ اللهِ عَلَیْهَا افْتِرَاءً عَلَیْهِ سَیَجْزِیهِمْ بِمَا کَانُوا یَفْتَرُونَ )

ترجمہ: اور (مشرکین نے) کہا! یہ حیوانات اور کھتیاں ممنوع ہیں، ان کے گمان کے مطابق کسی کو ان کے مصرف اور ان سے کھانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مگر (بت خانے کے پجاریوں کے) جنہیں ہم چاہیں اور چوپائے کہ جن کی پشت (پر سواری) حرام ہے۔ اور چوپایوں کو بغیر خدا کے نام کے ذبح کیا کرتے تھے۔ (ان احکام کو) خدا کی طرف جھوٹ کے ساتھ منسوب کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد انہیں ان کی افتراپردازی کی سزا دے گا۔

چند نکات:

۔ "حجر" کا معنی ہے رکاوٹ۔ اور "حجارہ" اور "تحجیر" کا معنی بھی رکاوٹ ہے۔ یعنی کسی علاقے کے گرد پتھر رکھ کر لوگوں کو وہاں پر آمدورفت اور قبضة کرنے سے روکنا۔ "حجراسماعیل" وہی جگہ ہے جو پتھروں کی دیوار کے ذریعے مسجد الحرام سے علیحدہ کی گئی ہے۔ "عقل" کو بھی "حجر" کہتے ہیں کیونکہ یہ انسان کو بُری چیزوں سے باز رکھتی ہے۔ جب کہ قرآن میں ہے "( هل فی ذٰلک قسم لذی حجر ) " (الفجر/ ۵) یعنی کیا اس میں صاحبان عقل کے لئے بڑی قسم نہیں ہے؟

۔ اس سے دو آیات قبل زراعت اور جانوروں میں خدا اور بتوں کے حصوں کے بارے میں مشرکین کے خرافاتی عقائد کو بیان کیا گیا ہے۔ اور اس آیت میں بتوں کے حصے کی تقسیم کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ بت خانے اور بتوں کے پجاریوں کے علاوہ کسی کو اس سے استفادہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور وہ بھی جنہیں ہم چاہیں۔

۔ چوپایوں اور جانوروں سے بہرہ برداری کو حرام قرار دینا، زمانہ جاہلیت کی بدعتوں میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں سورہ مائدہ / ۱۰۳ میں بھی اس کا بیان گزر چکاہے۔

پیام:

۱ ۔ خرافات اور گمراہ کُن عقائد سے نبردآزمائی انبیاء کرام کے اصل فرائض میں سے ایک ہے۔( افتراء ًعلیه )

۲ ۔ دین کو خدائی اور خدا کی طرف ہی منسوب ہونا چاہیئے۔ نا کہ انسان کے اپنے خیال، گمان، قیاس اور استحسان کی بنیاد پر۔( زعمهم )

۳ ۔ بدعت اور حلال کو حرام کر دینا یا حرام کو حلال کر دینا خدا پر تہمت لگانا ہے۔( افترء ) ً) ۴۹

۴ ۔ اسلام ایک ایسا جامع دین ہے کہ جانوروں تک کے بارے میں بھی انحراف و گمراہی کو برداشت نہیں کرتا۔ جب قرآن مجید کسی جانور کو بغیر مصرف کے رکھنے اور اس پر سواری کو حرام جاننے کی مذمت کرتا ہے تو انسانوں، قدرتی وسائل، سرمائے اور استعداد اور لیاقتوں کو بغیر مصرف کے رکھنے یا ضائع کر دینے کو تو اور بھی زیادہ قابل مذمت جانتا ہے۔

۵ ۔ بدعت ایجاد کرنے والوں کو اپنے موہیوماتی قوانین کی اختراع کے سزا کا منتظر رہنا چاہیے۔( سیجزیهم )

آیت ۱۳۹

( وَقَالُوا مَا فِی بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُکُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَی أَزْوَاجِنَا وَإِنْ یَکُنْ مَیْتَةً فَهُمْ فِیهِ شُرَکَاءُ سَیَجْزِیهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ )

ترجمہ۔ اور (مشرکین دوسرے خرافاتی عقائد مین یہ بات شامل تھی کہ وہ) کہتے: جو بچہ ان چوپایوں کے شم میں ہے ہمارے مردوں کے لئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ اور اگر حیوان کوئی بچہ مردہ پیدا ہو تو سب (زن و مرد) اس میں شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد اس قسم کے توصیف (غلط احکام) کی سزا انہیں دے گا کہ وہ حکمت والا دانا ہے۔

پیام:

۱ ۔ زن و مرد کے درمیان بے جا تفریق جاہلیت کی ایک رسم ہے۔( خالصة الذکورز- )

۲ ۔ عورت کو اس قدر حقیر بنا دیا گیا تھا کہ ایک پورا مردہ جانور تک بھی اسے نہ دیا جاتا، بلکہ اسے اس کا کچھ حصہ دیا جاتا۔( شرکاء )

۳ ۔ زمانہ جاہلیت کی خرافات سے آگہی، انسان کو پیغمبرِ اسلام کی زحمتوں اور رکاوٹوں سے آشنا کرتی ہے اور قدر شناسی کی روح کو زندہ کرکے اسے پروان چڑھاتی ہے۔

۴ ۔ قیامت کے دن خدا کی طرف سے ملنے والی سزا یا جزا انسان کے وہی اوصاف، نفسانی حالات اور اختیار کئے ہوئے عادات ہوں گے جو جسمانی صورت اختیار کر لیں گے۔( سیجزیهم وصفهم )

۵ ۔ خدا کی طرف سے ملنے والی سزا یا جزا اس کے علم و حکمت کی بنیاد پر ہوگی۔( سیجزیهم- حکیم علیم )

آیت نمبر ۱۴۰

( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا أَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمْ اللهُ افْتِرَاءً عَلَی اللهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ )

ترجمہ: یقینا ان لوگوں نے خسارہ اُٹھایا جنہوں نے اپنی اولاد کو بیوقوفی اور جہالت کی بنا پر قتل کیا۔ اور خدا نے ان کے لئے جو روزی مقرر کی تھی انہوں نے خدا پر جھوٹ باندھ کر اُن پر حرام کر دی، وہ یقینا گمراہ ہوگئے اور ہدایت پانے والے نہیں تھے۔

چند نکات:

۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں جو شخص زمانہ جاہلیت کی اقوام کی کا اندازہ کرنا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ سورہ انعام کی انہی چند آیات کو پڑھ لے۔ (از تفسیر نمونہ)

۔ دورِ جاہلیت کے عرب، بتوں کا قرب حاصل کرنے یا اپنی آبرو بچانے کے خیال سے اپنی لڑکیوں کو یا تو بتوں کی قربانی کر دیا کرتے یا پھر انہیں زندہ درگور کر دیتے تھے۔

۔ ایک شخص نے اپنی پریشانی کا سبب پیغمبرِ خدا سے ان الفاظ میں کہا: "خدا نے زمانہ جاہلیت میں مجھے ایک بیٹی عطا کی، میں چاہتا تھا کہ اسے قتل کر دوں لیکن میری بیوی اس سے مانع ہوئی۔ لڑکی جوان ہوگئی، اس کی خواستگاری کیلئے لوگ آنے لگے، میری غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی، اور اُس کا غیر شادی شُدہ رہنا بھی مناسب نہیں تھا، آخر اسے ایک دِن جنگل میں لے گیا اور کنویں میں جا کر پھینک دیا۔ وہ جتنا چیختی چلاتی رہی میں نے ذرہ بھر پرواہ نہیں کی"

یہ سُن کر رسول خدا رو دئیے اور فرمایا "اگر گذشتہ خطائیں معاف نہ کر دی ہوتیں تو تجھے سخت سزا دیتا۔"

پیام:

۱ ۔ خرافات کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے۔( قد خروا، سفها، بغیر علم، افتراء ً، ضلوا، ماکانو ا مهتدین )

۲ ۔ جہالت اور حماقت، خسارے کا موجب ہیں۔ (خسارے مثلاً اولاد کو ضائع کر دینا، محبت اور نرم دلی کو دل سے نکال دینا، حلال نعمتوں کا فقدان، جہنم خرید کرنا، اور خدائی عذاب کا مستحق ہونا۔)

۳ ۔ بہت بڑا خسارہ یہ ے کہ انسان باطل کی راہ میں قربان ہو جائے۔ (خواہ بتوں کی قربانی کی صورت میں ہو یا خیالات اور بے جا غیرت کیلئے)

۴ ۔ کسی چیز کا حرام قرار دینا یا شرعی دلیل کی وجہ سے ہوتا ہے یا عقلی دلیل کی وجہ سے( بغیر علم- افتراء ً علی الله )

۵ ۔ حلال چیزوں کو بے مقصد حرام کر دینا خدا پر تہمت لگانے کے مترادف ہے۔ ممنون ہے۔( وحرموا مارزقهم الله )