تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62819
ڈاؤنلوڈ: 5382

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62819 / ڈاؤنلوڈ: 5382
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۱۴۱

( وَهُوَ الَّذِی أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَغَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُکُلُهُ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ کُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ یَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَتُسْرِفُوا إِنَّهُ لاَیُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ )

ترجمہ۔ اور وہ وہی ہے جس نے باغات اور بوستانوں کو پیدا کیا جو مچانوں کے ساتھ بھی ہیں اور مچانوں کے بغیر بھی ہیں۔ اور کھجور کے درخت، کھیتی کہ جن کی مختلف خوراکیں ہیں۔ اور زینوں و انار کو بھی پیدا کیا۔ کچھ تو ان پھلوں میں سے ایکدوسرے کے مشابہ ہیں اور کچھ آپس میں نہیں ملتے، جب باغات پھل دینے لگیں تو ان کے پھلوں میں سے کھاؤ، اور فصلات کو کاٹنے کے وقت اور پھلوں کو چننے کے وقت (غریبوں کو) ان کا حق دو۔ اور اسراف نہ کرو کیونکہ خدا اسراف کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھتا۔

دو نکات:

۔ "جنات" درختوں سے بھرے باغات اور کھیتی سے ڈھکی زمینوں کو کہتے ہیں۔ "معروش" ایسے درختوں یا باالفاظ دیگر ایسی بیلوں کو کہتے ہیں جن کے لئے مچان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے انگور وغیرہ۔ اور "کل" کا معنی ہے کھائی جانے والی چیزیں۔

۔ اسی سورت کی ۹۹ ویں آیت میں آیا ہے ۔ "( انظروا الیٰ ثمره اذا اثمر ) " لینی جونہی کوئی درخت پھل لے آئے اسے غور سے دیکھو اور اس آیت میں بھی ہم پڑھتے ہیں۔( کلوامن ثمره اذا اثمر ) یعنی جب درخت پھل دے تو کھاؤ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمہارا کھاناغور و فکر اور اچھی طرح دیکھ بھال کر ہونا چاہیے، غفلت برت کر نہیں کھانا چاہیئے۔

پیام:

۱ ۔ اس آیت سے ہمیں چند چیزوں کا درس ملتا ہے۔ ۱ ۔خداشنانی، ۲ ۔استعمال کی اجازت، ۳ ۔غریبوں اور معاشرہ کے محروم لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا، ۴ ۔راہ خدا میں خرچ کرنا اور ۵ ۔اسراف سے کام نہ لینا( انشاء- کلوا، اتو- لاتسرفوا )

۲ ۔ اسلام ایک معتدل اور میانہ رو دین ہے۔ جہاں ہ ر وہ حلال چیزوں کو بے جا طور پر حرام کرنے سے منع کرتا ہے۔ وہاں پر بے رویہ استعمال سے بھی روکتا ہے۔( لاتسرفوا ) جبکہ اس سے پہلی آیت میں فرمایا۔ "حرموا مارزقھم اللہ"

۳ ۔ استعمال کی شرط یہ ہے کہ غریبوں کا حق دیا جائے۔( کلوا- اتواحقه )

۴ ۔ کس قدر کھایا جائے؟ جب تک اسراف کی حد تک نہ جا پہنچے۔( کلوا- لاتسرفوا )

۵ ۔ اناج اور پھل کے محصولات اٹھانے کے دن غریبوں کو نہیں بھولنا چاہیئے۔( یوم حصاده )

۶ ۔ فصلات کو دن کے وقت اٹھایا کرو تاکہ دوسرے بھی ان سے محروم نہ رہ جائیں۔( یوم حصاده )

۷ ۔ محصولات اور فصلات کو اُٹھانے کے دن راہ خدا میں خرچ کرنے کیلئے بہتر آمادگی ہوتی ہے۔ لہٰذا فرصت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا کرو۔( یوم حصاده )

۸ ۔ کچے پھل نہ کھایا کرو۔( اذا اثمر ) تازہ پھل کھایا کرو۔( اذا اثمر ) پھل طبعی طورپر پکنے چاہئیں انہیں مصنوعی طور پر نہ پکایا کرو۔( اذااثمر )

۹ ۔ اسراف کرنے والے پر خدا ناراض ہوتا ہے۔( لایحب )

آیت نمبر ۱۴۲

( وَمِنْ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا کُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ )

ترجمہ: اور چوپاؤں میں سے بعض تو وہ ہیں جو بوجھ اُٹھاتے ہیں اور بعض (بوجھ نہیں اُٹھاتے اور) چھوٹے چھوٹے اور فرش کی مانند (ان کے بدن زمین سے نزدیک ہوتے ہیں) اس سے کھاؤ جو خدا نے تمہارے لئے روزی مقرر کی ہے۔ اور شیطان کے نقشِ قدم (اور اس کے وسوسوں) کی پیروی نہ کرو۔ کیونکہ یقینا وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔

چند نکات:

بعض چوپاؤں میں سے فرش کے کلمہ سے مراد گوسفند جیسے جانور ہیں جن کے بدن زمین سے نزدیک ہونے کی وجہ سے فرش کی مانند ہوتے ہیں، یا یہ کہ ان جانوروں کے اون، پشم اور بالوں سے زمین پر بچھانے کے لئے فرش بنائے جاتے ہیں۔ چنانچہ سورہ نحل / ۸۰ میں بھی جانوروں کی پشم، بالوں اور چمڑے سے بہرہ گیری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ "( وجعل لکم من جلودالانعام بیوتا-- ومن اصوافها واوبارها واشعارها اثاثاومتاعا ) "

سابقہ آیت مین چند پھلوں کا نام لیا گیا تھا اور یہاں پر جانوروں کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ لہٰذا "حمولہ اور فرش کو پھلوں اور باغات پر عطف کیا گیا ہے جو گذشتہ آیت میں مذکور ہوئے ہیں۔

پیشتر مفسرین نے "حمولہ" سے مراد بوجھ اُٹھانے والے اور "فرش" سے بوجھ نہ اُٹھانے والے جانور مراد لئے ہیں۔ اس لیے پہلی آیت آیت میں کاشتکاری کی ضرورت پر اشارہ کیا گیا ہے۔ اور یہاں پر جانور رکھنے کی طرف۔

پیام:

۱ ۔ یہ جہان اور اس میں موجود تمام مخلوق کسی مقصد اور حکمت کے تحت پیدا کی گئی ہے۔ اور انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔( حمولة وفرشا )

۲ ۔ حیوانات کے بارے میں اصول اور کلیہ قاعدہ یہ ہے کہ ان کا مصرف اور استعمال حلال ہے۔ بشرطیکہ اس کی حرمت پر کوئی دلیل موجود نہ ہو۔( کلوا )

۳ ۔ حلال گوشت جانور صرف چوپاؤں ہی میں منحصر نہیں اسی لئے "کلوا من الانعام" نہیں فرمایا بلکہ فرمایا ہے۔( خلوا ممارزقکم الله )

۴ ۔ حلال جانوروں کو بے جا اور بغیر کسی دلیل کے حرام کر دینا شیطانی قدم ہے۔( کلوا ---- ولا تتبعوا )

۵ ۔ شکم پُری سے انسان بھٹک سکتا ہے لہٰذا تنبیہ کرنا ضروری ہے۔( کلوا ----- ولا تتبعوا )

۶ ۔ دینی عنوان کے ساتھ خام خواری، بدعت اور ممنوع ہے۔( کلوا مما رزقکم الله )

۷ ۔ گمراہ کرنے کے لئے شیطان کا سب سے پہلا حربہ خوراک تھا (شجر ممنوعہ کا ماجرا) لہٰذا کھانے کے معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے۔( کلوا---- ولا تتبعوا )

۸ ۔ خدائی دسترخوان پر بیٹھ کر اس کے دشمن کا اتباع نہ کرو۔( رزقکم الله----الشیطان )

۹ ۔ خدائی نعمتوں سے صحیح طریقے سے استفادہ کرو۔ نہ تو حرس سے کام لو اور نہ ہی دوسروں کے مال کو ہتھیانے کی سوچو۔( رزقکم الله---- لاتتبعوا )

۱۰ ۔ شیطان جن رستوں کے ذریعہ اپنے اثرات قائم کرتا ہے ان میں سے ایک شکم پرستی اور حرام خوری بھی ہے۔( کلوا---- ولا تتبعوا )

۱۱ ۔ شیطانی سیاست یہ ہوتی ہے کہ قدم بقدم گمراہ کیا جائے نا کہ ایک ہی دفعہ میں۔( خطوات الشیطان )

آیت ۱۴۳

( ثَمَانِیَةَ أَزْوَاجٍ مِنْ الضَّأْنِ اثْنَیْنِ وَمِنْ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ قُلْ أَالذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ أَمْ الْأُنْثَیَیْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَیَیْنِ نَبِّئُونِی بِعِلْمٍ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ )

ترجمہ: (اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جانوروں میں سے حلال کیا ہے) آٹھ جوروں کو، دو تو ہیں بھیڑیں (ایک نر اور ایک مادہ) اور دو ہیں بکریاں (ایک نر ایک مادہ) جو لوگ اپنی طرف سے بعض چوپاؤں کو حرام قرار دیتے ہیں ان سے) کہہ دو کہ آیا خدا نے گوسفندوں اور بکریوں میں سے دونوں نر کو حرام کیا ہے یا دنوں مادہ کو یا اس بچے کو جو ان دونوں مادہ کے پیٹ میں ہے؟ اگر تم سچ کہتے ہو تو علم و دانش کی رو سے مجھے باخبر کرو۔

چند نکات:

۔ "زوج" کا لفظ نر اور مادہ دونوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے اور ان میں سے ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ کے لئے بھی۔ اس آیت میں ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ کیلئے زوج کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور آٹھ جوڑوں سے مراد آٹھ عدد ہیں۔ جن میں سے چار نر اور چار مادہ ہیں۔ جن میں سے چار تو اسی آیت میں اور چار اگلی آیت مذکور میں ہیں۔ سورہ نجم کی ۴۵ ویں آیت "خلق الزوجین الذکر والانثی" نے ابھی "زوج" کا لفظ "فرد" کے لئے استعمال کیا ہے نا کہ جوڑے کے لئے۔

بعض روایات میں آٹھ جوڑے (جو سولہ عدد بنتے ہیں) یوں بیان ہوئے ہیں کہ ان چاروں نسلوں (گوسفند، بکری، اونٹ اور گائے) میں سے ایک پالتو ہے اور ایک جنگل ہے، ایک نر ہے اور ایک مادہ ہے۔

سورہ زمر کی پانچویں آیت مین آٹھ نر اور مادہ کو انسان کی پیدائیش کے ساتھ ہی ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ "خلقکم من نفس واحدة ثم جعل منہازوجھا وانزل لکم من الانعام ثمنیة ازواج" اور یہ شاید جانوروں کی تخلیق اور انسانوں کی پیدائش اکٹھا ہونے کی وجہ سے کہا گیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خرافات کو ختم کرنے اور ذہن میں بیٹھے ہوئے غلط نظریات کو اصلاح کرنے کے لئے عقائد حقہ کو ا چھی طرح اور زیادہ سے زیادہ اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیئے۔ جس طرح قرآن نے اس آیت میں مشرکین کے خرافاتی عقائد کے لئے بیان کیا ہے۔

۲ ۔ فتویٰ دینے کے لئے یا کسی چیز کے حلال یا حرام کا عقیدہ رکھنے کے لئے علم کا ہونا ضروری ہے۔( بنئونی بعلم )

آیت ۱۴۴

( وَمِنْ الْإِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنْ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ قُلْ أَالذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ أَمْ الْأُنثَیَیْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَیَیْنِ أَمْ کُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاکُمْ اللهُ بِهَذَا فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللهِ کَذِبًا لِیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ )

ترجمہ: اور اونٹ سے دو عدد (نر اور مادہ) اور گائے سے دو عدد (نر اور مادہ) کو (تمہارے لئے حلال کیا ہے) کہہ دو: آیا اللہ نے ان دونوں کے نر جانوروں کو حرام کیا ہے یا مادہ جانوروں کو یا ان کے ان بچوں کو دونوں مادہ کے شکم میں ہیں۔ یا تم گواہ تھے کہ خدا نے ان کے گوشت کے حرام ہونے کی تمہیں سفارش کی ہے؟ پس اس سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا جس نے خدا پر جھوٹ باندھا ہے تاکہ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کرے؟ یقینا خداوند تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔

ایک نکتہ:

احتمال یہ ہے کہ ان چار جانوروں (بھیڑ، بکری ، اونٹ، اور گائے ) کا بالترتیب نام لینے کی وجہ ان کے گوشت کے استعمال میں برتری کی طرف اشارہ ہے۔

پیام:

۱ ۔ خدا پر بہتان طرازی بہت بڑا ظلم ہے۔( فمن اظلم )

۲ ۔ خدا پر جھوٹ باندھنا، لوگوں کے گمراہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔( لیضل الناس )

۳ ۔ ظلم اور افتراپردازی، انسان کو ہدایت کو قبول کرنے سے روک دیتی ہے۔( لایهدی )

آیت ۱۴۵

( قُلْ لاَأَجِدُ فِی مَا أُوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ یَطْعَمُهُ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ مَیْتَةً إِلاَّ أَنْ یَکُونَ مَیْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِیرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِهِ فَمَنْ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَعَادٍ فَإِنَّ رَبَّکَ غَفُورٌ رَحِیمٌ )

ترجمہ۔ کہہ دو کہ جو مجھ پر وحی ہوئی ہے اس میں کسی کھانے والے کے لئے جو وہ غذا کھاتا ہے کسی حرام کو نہیں پاتا۔ مگر یہ کہ مردار، یا بہہ جانے والا خون یا کنزیر کا گوشت ہو کہ حتما وہ نجاست ہیں۔ یا (پھر) یہ کہ فسق اور نافرمانی کی بنا پر خدا کا نام لئے بغیر ذبح کیا جائے۔ پس جو شخص ان کے کھانے کے لئے مضطر اور ناچار ہو بشرطیکہ سرکشی اور ضرورت کی حد سے زیادہ نہ ہو (تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے) یقینا تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

چند نکات:

مردار صرف وہی حرام نہیں ہوتا جو خودبخود مر جائے، بلکہ اگر الٰہی اصولوں کے مطابق بھی اُسے ذبح نہ کیا جائے پھر بھی مردار کے حکم میں اور حرام ہے۔

مردار اور خوں کے حرام ہونے کا تذکرہ قرآن مجید میں چار مقامات پر ہوا ہے دو مرتبہ مکی سورتوں میں اور دو مرتبہ مدنی سورتوں میں۔ اور یہ اس سلسلے کی پہلی آیت ہے۔

۔ "اُھل" کا لفظ "اھلال" مصدر سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے پہلی رات کا چاند دیکھنے کے موقع پر آواز کو بلند کرنا۔ پھر اس کا پھر اس کا استعمال پر بلند آواز کے لئے ہونے لگا۔ جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی بلند آواز کے ساتھ بتوں کا نام لیا جاتا تھا۔ اس لئے "اُھل" کہا گیا ہے۔

۔ "( لااجد" -- الا ان یکون میتة ) " کا جملہ در حقیقت مشرکین کے جاہلانہ انداز میں حرام کرنے کے مقابلے میں ہے۔ ورنہ بعض پرندے اور درندے بھی حرام ہیں۔ اور اصولی اصطلاح میں اس حصر کو " حصر اضافی" کہتے ہیں۔ یعنی یہ "حصراضافی" ہے۔ "حصرحقیقی" نہیں ہے۔ ۱

۔ تفسیر مراغی میں اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "حرام جانور فقط یہی چار طرح کے ہیں۔ باقی جانوروں کی حرمت کی روایات کراہت پر محمول ہیں۔" ان سے پوچھنا چاہیئے کہ آیا کتنے کا گوشت بھی مکروہ ہے؟

پیام:

۱ ۔ اصولی طور پر قانون اولیہ کے مطابق سب جانور حلال ہیں۔( لا اجد )

۲ ۔ ہم، ظاہر کے پابند ہیں اور اسی پر عمل کرنے کا ہمیں حکم ہے۔ اور آیات میں جن محرمات کو بیان کیا گیا ہے ان پر عمل پابند ہیں۔ اگر ہم تلاش کرتے ہیں لیکن اچھی خاصی تگ و دو کے بعد ہمیں کسی جانور کی حرمت کا حکم نہیں ملتا تو وہ ہمارے لئے حرام ہے۔ (البتہ پیغمبر کے لئے: "عدم الوجدان" دلیل ہے۔ "عدم الوجود" ہر لااجد)

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے فقط وہی چند چیزیں حرام تھیں، لہٰذا بعض دوسرے جانوروں کا حرام ہونا اس آیت کے منافی نہیں ہے، کیونکہ ان کی حرمت بعد میں یا تو قرآن کے ذریعے یا پھر پیغمبرِ اکرم اور ان کی پاک آل کے ذریعہ بیان ہوئی۔

۳ ۔ جب کسی چیز کے کھانے یا نہ کھانے کے متعلق خود پیغمبر اکرم بھی وحی کے ذریعے حکم کے محتاج ہیں کہ ادھر سے حکم ملے اور لوگوں کو بتائیں، تو عام لوگ کیونکر کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام کر سکتے ہیں؟

۴ ۔ غذا کا قانون زن و مرد کے لئے یکساں ہے،( طاعم یطعمه ) یہ قانون اس بے ہودہ عقیدہ کے مقابل میں ہے جس کے تحت مشرکین ان جانوروں کا گوشت مردوں کے لئے حلال اور عورتوں کے لئے حرام سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ "خالصة لذکور ناومحرم علی ازورجنا"

۵ ۔ قانون میں "اہم" اور "اہم تر" کے قاعدہ کا خاص خیال رکھنا چاہیئے۔ جان کی حفاظت مردار کھانے سے زیادہ اہم ہے۔( فمن اضطر )

۶ ۔ دین اسلام میں کہیں پر بھی رکاوٹ نہیں ہے۔ جب مجبوری کا سوال پیدا ہوتا ہے تو حرام بھی حلال ہو جاتا ہے۔( فمن اضطر )

۷ ۔ قانون اور استثنائی صورتوں سے ناجائز فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ صرف مجبوری ہی کی حد تک اکتفا کرنا چاہیئے۔( غیر باغ والاعاد )

۸ ۔ جو خون شرعی ذبح کرنے کے بعد گوشت کے اندر یا رگوں میں باقی رہ جاتا ہے وہ حرام نہیں ہے۔ ذبح کے وقت بہنے والا خون حرام ہے۔( دمامسفوحا )

۹ ۔ حرام ہونے کا سبب یا تو مادی اثرات ہیں (رجس) یا معنوی بُرے اثرات ہیں جیسے خدا کے نام سے غفلت یا شرک کے جلوے ہیں کہ اُن کا شمار بُرے معنوی اثرات میں ہوتا ہے۔( فسقا )

۱۰ ۔ جہاں پر جبری طور پر اضطرار اور مجبوری پیش آجائے وہاںُ ر حرام گوشت کو کھایا جاسکتا ہے لیکن اگر ہم خود اپنے ہاتھوں سے کوئی ایسا کام کریں مجبور اورمضطر ہو جائیں تو پھر ایسی حالت میں اس کی حرمت بحال رہے گی اور کھانا حلال نہیں ہوگا ( کیونکہ "اُضطر" کا لفظ ہے "اِضْطَرَّ" کا نہیں۔)

آیت ۱۴۶

( وَعَلَی الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِی ظُفُرٍ وَمِنْ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوْ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِکَ جَزَیْنَاهُمْ بِبَغْیِهِمْ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ )

ترجمہ۔ اور ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والے جانور کو حرام کر دیا اور گائے اور گوسفند سے ان دونوں کی چربی کو اُن پر حرام کیا مگر وہ چربی جو گائے اور گوسفند کی پُشت پر ہو یا انتڑیوں کے ساتھ ہو یا ہڈیوں سے ملی ہوئی ہو۔ یہ (حرمت) ان کے اس ظلم کی وجہ سے ہے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہیں اور ہم یقینا سچے ہیں۔

چند نکات:

اس سے پہلی آیت میں ان چیزوں کو بیان کیا گیا ہے جو اسلام میں حرام ہیں اور اس آیت میں وہ چیزیں بتائی گئی ہیں جو یہودیوں پر حرام تھیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ مشرکین کے بیہودہ عقائد کسی بھی آسمانی دین کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔ (تفسیر نمونہ)

"ظُفر" کا معنی ناخن ہے، لیکن اس کا اطلاق جانوروں کے ان سموں پر بھی ہوتا ہے جو چیریہوئے نہیں ہوتے (مثلاً گھوڑے کے سُم یا اونٹ کے پاؤں کی نوک) بنا بریں اونٹ اور ہر وہ جانور جس کے سُم چیرے ہوئے نہیں ہوتے خواہ چوپائے ہوں یا پرندے، یہودیوں پر حرام ہیں۔ (ملاحظہ وہ تورات، سفر لاویان فصل ۱۱)

"حوایا" جمع ہے "حاویہ" کی جو شکم کے مجموعی حصے پر بولا جاتا ہے۔ (تفسیر نمونہ)

اس آیت کا مضمون توریت، سفر لاویان فصل ۷ آیت ۲۴ میں بھی مذکور ہے۔

سورہ نساء / ۱۶۰ میں ہے "( فبظلم من الذین هادواحرمنا علیهم---- ) " یعنی بعض پاکیزہ چیزیں یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ان پر حرام کر دی گئی تھیں۔

اور یہ اس کے علاوہ ہے جو یہودیوں نے مشرکین کی مانند کچھ چیزیں اپنے اور خود حرام کر دی تھیں۔ ۵۰

پیام:

۱ ۔ یہودیوں پر یہ چیزیں وقتی اور عارضی طورپر حرام تھیں جو بعد میں حضرت عیسیٰ کے ذریعہ حلال کردی گئیں۔ ۱ ۵

۲ ۔ احکام خداوندی تین طرح کے ہیں۔ الف: جن میں واقعاً کوئی بھلائی یا بُرائی ہوتی ہے جیسے اکثر دینی احکام۔ ب: جو امتحان اور آزمائش کیلئے ہوتے ہیں جیسے حضرت اسماعیل کے ذبح کرنے کا حکم۔ ج:جو سزا کے طورپر ہوتے ہیں جیسے یہی زیرِ بحث آیت ہے۔ خدائی سزاؤں مٰں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی کی مشیعت تنگ کر دی جائے۔

۳ ۔ خلاف ورزی کرنے والوں، باغیوں اور قیدیوں کے خوراک کے لئے پروگرام کو محدود کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

۴ ۔ خدائی سزائیں صرف آخرت ہی میں نہیں ملیں گی، دنیا میں بھی ملتی ہیں۔ (جزیناھم بینٰھم)

آیت ۱۴۷

( فَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلاَیُرَدُّ بَأْسُهُ عَنْ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ )

ترجمہ: (اے پیغمبر!) اس پر بھی اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو تم (ان سے) کہہ دو کہ تمہارا پروردگار وسیع رحمت کا مالک ہے (اور اگر تم توبہ نہیں کروگے اور اپنی تکذیب کے سلسلے کو جاری رکھو گے تو) اس کا قہر و عذاب مجرم لوگوں سے پلٹایا نہیں جائے گا۔

پیام:

۱ ۔ رہبر کو لوگوں کی طرف سے تکذیب و تہمت سننے کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔( کذبوک )

۲ ۔ جھٹلانے والوں کے ساتھ بھی خیرخواہانہ رویہ اختیار کرنا چاہیئے، لیکن اگر اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے تو پھر ڈانٹ ڈپٹ سے بھی کام لینا چاہیے۔( ذو رحمة ---- لایردباسه )

۳ ۔ مربی کو رحمت کا موجیں مارنے والا سمندر ہونا چاہیے۔( ذورحمة )

۴ ۔ خوف اور اُمید ساتھ ساتھ ہوں تو کام بنتا ہے۔( رحمة ---- باسه )

۵ ۔ خدا کی رحمت کے دروازے تو انبیاء کے مخالفین کے لئے بھی بند نہیں ہیں۔( کذبوک - ذ ورحمة )

آیت ۱۴۸

( سَیَقُولُ الَّذِینَ أَشْرَکُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَآبَاؤُنَا وَلاَحَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّی ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلاَّ تَخْرُصُونَ )

ترجمہ: عنقریب مشرکین کہیں گے: اگر خدا چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا مشرک ہوتے اور نہ ہی کسی چیز کو حرام کرتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے ان (انبیاء ماسلف) کو بھی جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے قہر و عذاب کا ذائقہ چکھا۔ کہہ دو کہ آیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے لئے ظاہر کرو؟ تم تو صرف خیال اور گمان کی پیروی کرتے ہو اور بے جا تخمینے لگاتے ہو۔

دو نکات:

مشرکین کا یہ بہانہ کہ "اگر خدا چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا مشرک نہ ہوتے" قرآن میں بار رہا بیان ہوا ہے ا۔منجملہ ان کے سورہ نحل کی ۳۰ ویں آ یت اورسورہ زخرف کی ۲۰ ویں آیت میں بھی ہے اس آیت میں ہے کہ در عنقریب مشرکین کہیں گے جب کہ سورہ نحل میں ہے ۔( قال الذین اشر کوا ) ۔)یعنی انہوں نے کہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غیب کی خبر ہے

پیام ۔

۱ ۔ یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہے کہ انبیاء اور آسمانی کتابوں کا بھیجنااورتوحید کی دعوت دنیا صرف اس لئے ہے تا کہ لوگ اپنے ارادے ،اختیار اور پوری آزادی کے ساتھ توحید پرست بنیں لہذا مشرکین کی یہ منطق کے ِِاگر خدا چاہتا ۔۔۔۔۔غلط ہے( ولوشاء الله مااشرکنا )

۲ ۔ دین کے رہبر اور دانشودوں کو مستقبل میں پیش آ نے والے شبہات اور بہا نوں کا جواب دینے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے( سیقول ) ۵۲

۳ ۔ عذرگنا ہ ، بدتر ازگناہ کے مصداق مشرکین اپنے ترکو خدا کی منشا اور مشیت سمجھتے تھے ۔( لوشاء الله )

۴ ۔ جبر کا عقیدہ گمراہ لو گوں کی بے بنیاد توجیہ ہے ، شیطان نے بھی جو گمراہوں کا سردار ہے ۔ اپنی گمراہی کو خدا کی طرف منسوب کیا تھا ۔ ۵۳

۵ ۔ خدا چاہتا ہے کہ لوگ مومن بنیں، نا کہ انہیں زبردستی مومن بنایا جائے۔ قرآن مجید میں بارہا آیا ہے کہ : "اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت کرتا" لیکن زبردستی کے ایمان میں نہ تو تربیت کا عنصر ہوتا ہے اور نہ ارتقاء کا۔ اور پیغمبر کو بھی زبردستی یا کسی کو مجبور کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی وہ لوگوں پر جبار ہے اور نہ ہی ان کا وکیل۔

۶ ۔ قرآن، مخالفین سے بھی دلیل اور ثبوت طلب کرتا ہے۔( هل عندکم من علم )

۷ ۔ جبر کے معتقدین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے صرف باتیں کرتے ہیں( الا الظن )

۸ ۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائیت و معلومہ ہوگا کہ لوگ جبر کا سہارا لے کر انبیاء کو جھٹلاتے رہے۔( کذب الذین من قبلهم )

۹ ۔ اگر کسی بھی بہانے کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کریں گے تو پھر انہیں خدا کا قہر و غضب چکھنے کے لئے منتظر رہنا چاہیے۔( ذاقوالینا )

۱۰ ۔ اگر علم و یقین کی بجائے ظن اور گمان کی پیروی کریں گے تو گمراہ ہو جائیں گے۔( ان انتم الا تخرصون )

آیت ۱۴۹

( قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ )

ترجمہ: (اے پیغمبر) کہہ دو کہ صرف خدا ہی کے لئے (روشن اور مقصد تک پہنچانے والی دلیل ) پس اگر وہ چاہتا تو یقینا تم سب کو (زبردستی)ہدایت کرتا۔

چند نکات:

خداوندعالم نے "فطرت توحیدی" جو انسان کے اندر قرار دی ہے اور انبیاء و عقل کی ہدایت کے ذریعہ اپنی حجت تمام لوگوں پر تمام کر دی ہے۔ اور خیر و شر کی راہیں اور ہر ایک کا نیک و بد انجام بھی بیان کر دیا ہے۔ خطاکاروں کے لئے توبہ اور تلافی کے دروازے بھی کھلے رکھے ہیں۔ انبیاء کے روشن معجزے، ان کی دعوت کا احسن طریقہ کار اور فطرت و عقل کے ساتھ دین کی مطابقت اور سازگاری کے محکم دلائل غرض ہر قسم کی حجت کو تمام کر دیا ہے۔ تمام گمراہ کن رستوں کا سدباب بھی کر دیا ہے۔ خدائی راستے کے علاوہ دوسرے تمام راستے اختیار کرنے کے خطرات سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ اب کسی کیل ئے کسی قسم کے جواب کی گنجائش نہیں چھوڑی۔

اب مشرکین کے پاس بے بنیاد گمان کے علاوہ ان کے شرک کی کوئی اور دلیل باقی نہیں رہ گئی۔ اور اگر وہ خدا کے بتائے ہوئے رستے کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کریں گے تو اوہام و خیال اور علمی اور فکری محدودیت اور ہوار و ہوس کی پیروی کریں گے۔

تفسیر نور الثقلین میں ہے کہ: خداوندعالم قیامت کے دن انسان سے فرمائے گا: "آیا تو جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا؟" اگر وہ جواب دے گا کہ "میں جانتا تھا!" تو خدا پوچھے گا کہ "تو اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟" اور اگر وہ کہے گا کہ "میں نہیں جانتا تھا!" تو خدا سوال کرے گا : "اسے سیکھا کیوں نہیں؟" تو یہ ہے بندوں کے لئے خدا کی حجت بالغہ۔

پیام:

۱ ۔ یہ صرف خدا ہی ہے کہ جس کے پاس حجت بالغہ ہے اور ہم سب اس کے جواب کے لئے عاجز، یہی دست اور قصوروار!( فللّٰه الحجة البالغه )

۲ ۔ مخالفین کیلئے راہ خدا میں کسی قسم کا ابہام اور بہانہ نہیں ہے جس سے وہ کوئی دلیل قائم کر سکیں نہ تو استدلال میں نہ سابقہ حالات و واقعات میں نہ انبیاء کی صفات میں اور نہ ہی ان کے اندازِ تبلیغ میں۔( فللّٰه الحجة البالغة )

۳ ۔ خدا کی مشیعت اور ارادہ یہ ہے کہ بندے آزاد اور خودمختار رہیں( فلوشاء لهداکم )

آیت ۱۵۰

( قُلْ هَلُمَّ شُهَدَائَکُمْ الَّذِینَ یَشْهَدُونَ أَنَّ اللهَ حَرَّمَ هَذَا فَإِنْ شَهِدُوا فَلاَتَشْهَدْ مَعَهُمْ وَلاَتَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَالَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُونَ )

ترجمہ: (جن لوگوں نے ناجائز طور پر اپنے اوپر زراعت اور جانوروں کو حرام کر دیا ہے ان سے) کہہ دو کہ اگر تمہارے پاس اس بات کے گواہ ہیں کہ خدا نے حرام کیا ہے تو لے آؤ! پس اگر وہ (اس بات کی) گواہی دیں تو تم ان کے ساتھ (مل کر) گواہی نہ دینا۔ اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور جو لوگ آخرت ایمان نہیں رکھتے اور خدا کا ہمسر اور شریک ٹھہراتے ہیں۔

چند نکات:

چونکہ اسلام خود منطق اور آزادی کا دین ہے لہٰذا وہ فی لفن سے بھی دلیل اور برہان کا مطالبہ کرتا ہے۔ پہلے کی دو آیات میں بھی اس نے پوچھا کہ : "آیا تمہارے پاس کسی کوئی اطلاع ہے جو ہمارے پاس نہیں؟ "( هل عندکم من علم ) " اور یہاں پر فرماتا ہے: "اگر تمہارے پاس گواہ ہیں تو لے آؤ!"( هلم شهداء کم )

اس آیت میں پہلے تو فرمایا: اگر ان کے پاس کوئی دلیل یا گواہ ہے تو لے آئیں! پھر فرمایا کہ! "اگر گواہی دیں بھی تو تم اسے قبول نہ کرو۔" (اس لئے کہ صداقت پر مبنی نہیں ہے۔)

"یعدلون" کا کلمہ "عدل" سے لیا گیا ہے جس کا معنی "ہم پلہ" پس( بربهم یعدلون ) کا معنی ہوگا "وہ خا کے لئے شریک، ہمسر اور مشابہ قرار دیتے ہیں۔" (تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ اسلام، منطق اور دلیل کا دین ہے لہٰذا مخالفین سے بھی گواہی مانگ رہا ہے۔( هلم شهداء کم )

۲ ۔ ہر شہادت اور گواہی قابل اعتبار نہیں ہوتی( فان شهدوافلا تشهدمعهم )

۳ ۔ خبردار! کہیں معاشرہ اور ماحول تمہیں دام اور اشتباہ میں ڈال دے۔( فان شهدوافلا تشهدمعهم )

۴ ۔ آیات الٰہی کا منکر، عوام کا رہبر نہیں بن سکتا( فلا تتبع-- )

۵ ۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین چونکہ کفار کی خواہشات کے مطابق بنائے جاتے ہیں لہٰذا ناقابلِ عمل ہیں۔( لاتتبع اهوائهم )