تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62941
ڈاؤنلوڈ: 5418

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62941 / ڈاؤنلوڈ: 5418
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۱۵۱

( قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوا بِهِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَلاَتَقْتُلُوا أَوْلاَدَکُمْ مِنْ إِمْلاَقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاهُمْ وَلاَتَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِهِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ )

ترجمہ: (اے پیغمبر ! ان سے) کہہ دو کہ آؤ میں وہ چیز تمہارے لئے پڑھوں جو تمہارے پروردگار نے تمہارے اوپر حرام کر دی ہے۔ (وہ) یہ کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بناؤ، والدین کے ساتھ نیکی کرو، اپنی اولاد کو تنگدستی کی وجہ سے قتل نہ کرو۔ (اس لئے کہ) ہم تمہیں بھی روزی دیتے ہیں اور انہیں بھی اور برائیوں کے نزدیک نہ جاؤ۔ خواہ وہ ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ اور کسی جان کو کہ خدا نے جس کا قتل حرام قرار دیا ہے، قتل نہ کروسوائے (قصاص یا دفاع وغیرہ جیسے) حق کے۔ یہی وہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے اکہ عقل و خرد سے کام لو۔

ایک نکتہ:

زیر نظر آیت اور اس کے بعد کی آیت میں محرمات کے دہ گانہ اصول بیان ہوئے ہیں۔ جن کا آغاز توحید سے اور اختتام: اختلافات کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ بقول تفسیر المیزان یہ آیت تمام ادیان کے مشترکات میں سے ہے۔ توریت (سفر خروج باب ۲۰) میں بھی اس سے ملتے جلتے احکام مذکور ہیں۔

مدینہ سے وہاں سے دو سردار حضرت رسول خدا کی خدمت مٰں حاضر ہوئے۔ آنجناب نے جب ان کے سامنے ان آیات کی تلاوت کی تو وہ مسلمان ہوگئے اور آپ سے مبلغ کی درخواست ک۔ حضور پاک نے مصعب بن عمر کو ان کے ہمراہ بھیج دیا۔ اس طرح مدینہ کے لوگوں کے مسلمان ہونے کی راہیں ہموار ہوگئیں۔

پیام:

۱ ۔ لوگوں کو حرام چیزیں بتانا انبیاء کے فرائض میں شامل ہے۔( اتل ماحرم )

۲ ۔ چونکہ ہر چیز میں اصل اس کا حلال ہونا ہے لہٰذا حلال کو شمار کرنے اور تلاوت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ حرام کو بیان کرنا چاہیئے۔( اتل ماحرم )

۳ ۔ دین میں حرام کردہ چیزیں خدا کی طرف سے ہیں، پیغمبر اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام نہیں کرتے۔( حرم ربکم )

۴ ۔ بُرے کاموں سے رکاوٹ، انسان کی تربیت اور ارتقاء کے لئے ہے۔( حرم ربکم )

۵ ۔ چونکہ شرک بہت بڑا ظلم اور تمام بُرائیوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے ممنوعات میں سرفہرست بیان کیا گیا ہے۔( الائشرکوا )

۶ ۔ توحید پرستی کے بعد والدین کے ساتھ نیکی اور خاندان کے نظام کی حفاظت کا حکم ہے۔( وبالوالدین )

قرآن مجید میں چار مقامات پر والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا یگا ہے۔ اور ہر جگہ مسئلہ توحید اور شرک سے نہی کے بعد۔ ۵۴

۷ ۔ اس آیت میں تمام احکامات نہی کی صورت میں بیان ہوئے ہیں مگر والدین کے ساتھ نیکی کا امر کیا گیا ہے یعنی نہ صرف انہیں اپنی نظروں سے نہ گراؤ بلکہ ان کے ساتھ احسان (نیک سلوک ) بھی کرو۔

۸ ۔ غربت کے ڈر سے اولاد کشی اور اسقاط حمل ایک جاہلانہ کام ہے، اگر خدا ہی روزی کا ضامن ہے تو پھر غربت کا خوف کیسا؟( نحن نرزقکم )

۹ ۔ معاشرے کی اصلاح خرابیوں کا دور کرنا بھی ضروری اور روح کی اصلاح کے لئے اس سے رذالتوں کا دور کرنا بھی۔( ماظهرمن هاومابطن )

۱۰ ۔ ایک گناہ سے آلودگی، دسرے گناہوں کی چابی ہوتی ہے، اسی لئے "فواحش" کہا ہے "فاحشہ" نہیں کہا۔

۱۱ ۔ بعض گناہ ایسے خطرناک ہیں کہ ان کے نزدیک بھی نہیں بھٹکنا چاہئے جیسے پیڑول کے نزدیک آگ نہیں لائی جاسکتی۔( لاتقربوا )

آیت ۱۵۲

( وَلاَتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ لاَنُکَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَی وَبِعَهْدِ اللهِ أَوْفُوا ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِهِ ) ( لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ )

ترجمہ: بہتر اور مفید تر انداز کے بغیر یتیم کے مال کے نزدیک نہ جاؤ۔ جب تک کہ وہ بلوغ اور رشد کی حد تک نہ پہنچ جائیں۔ اور (لین دین میں) پیمانے اور وزن کے حق کی عدالت کے ساتھ پورا کرو ہم کسی شخص کو اس کی وسعت کے سوا تکلیف نہیں دیتے اور جب تم کوئی بات کرو (خواہ فیصلہ کی ہو خواہ گواہی دینے کی) تو عدالت کی بات کرو خواہ تمہارے قریبی شرتہ داروں کے بارے میں ہو، اللہ سے کئے ہوئے اپنے وعدے پورے کرو، یہ ایسے امور ہیں جن کی خدا نے تم کو حکم دیا ہے، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

ایک نکتہ:

خداوند تعالیٰ اپنے کام "احسن طریقے" سے انجام دیتا ہے۔ "احسن الخالقین" ۔ "احسن تقویم" "نزل احسن الحدیث" وغیرہ۔ وہ ہم سے بھی یہی چاہتا ہے کہ ہمارے کام بھی احسن طریقے سے انجام پائیں خواہ یتیموں کے مال میں دخل اندازی ہو یا مد مقابل کے ساتھ مباحثہ و مجادلہ۔ خواہ دوسرے لوگوں کی باتوں کو سُن کر ان میں اچھی باتوں کو قبول کرنا ہو یا لوگوں کی برائیوں کا بہترین انداز میں جواب دینا۔ کیونکہ ان تمام صورتوں میں لفظ "احسن" استعمال ہوا ہے۔

پیام:

۱ ۔ یتیموں کے حقوق کی حفاظت کے لئے بہترین رویہ اپنانا چاہیئے (التی ھی احسن) جو لوگ اقتصادی صلاحیت رکھتے ہیں اور کافی حد تک تقویٰ کے پابند ہیں ان کے علاوہ کسی کو ان کے مال کے نزدیک نہیں جانا چاہیئے۔( لاتقربوا ---- الا )

۲ ۔ جب یتیم اچھی طرح رشد اور سوجھ بوجھ کی حد تک پہنچ جائیں ان سے اپنا تسلط اٹھا لو۔ (حتی یبلغ اشدہ)

۳ ۔ اقتصادی نظام عدل اور قسط کی بنیادوں پر چلنا چاہئے (ب( القسط ) ۵۵

۴ ۔ اگر عدالت کا اجر صحیح معنوں میں ممکن نہیں ہوسکتا تو امکان اور طاقت کی حد تک تو اس کا لحاظ ضرور رکھو۔( لاتکلف تفساالا وسعها )

۵ ۔ قرآنی آیات میں خدا کے امر اور نہی انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہے( لاتکلف نفسا الا وسعها )

۶ ۔ فرائض کی بجا آوری کے لئے قدرت اور توانائی کا ہونا شرط ہے اور عروحرج کی نفی ہے۔ اور یہی چیز فقہ کے قوانین مرتب کرنے کے لئے کافی حد تک معاون اور کارساز ہے۔( الا وسعها )

۷ ۔ اسلام میں فریضہ کی بجا آوری، قدرت اور توانائی کے مطابق ہے۔ جو جس قدر طاقتور ہوگا، فرائض کی بجاآوری اس کے لئے اسی قدر سنگین ہوگی۔

۸ ۔ گفتگو اور گواہی دینے میں مشفقانہ جذبات کا شکار ہو کر حق اور عدالت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو۔( اذاهلتم فاعداوا )

۹ ۔ عدالت ایک ضروری اصول ہے خواہ وہ رفتار مٰں ہو یا گفتار مٰن۔( اوفواالکیل---- واذاتلتم فاعدلوا ) اسی طرح (قرار کرنے) گواہی دینے، وصیت کرنے، فیصلہ کرنے، حکم جاری کرنے، کسی پر تنقید کرنے یا کسی تعریف کرنے مٰں عدل کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹنا چاہیئے۔

۱۰ ۔ خدا کے کئے ہوئے عہد و پیماں کے وفادار رہو( جس مٰں اورمر اور نواہی، نیز ضمیر اور فطرت سب داخل ہیں)

۱۱ ۔ رشتہ داری کے "رابطہ" کو حق اور عدل کے "ضابطہ" پر ترجیح نہ دو( ولوکان ذاقربیٰ )

آیت ۱۵۳

( وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلاَتَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِهِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ )

ترجمہ: اور یقینا یہ (مذکورہ احکام) یہ سیدھا راستہ ہیں۔ پس تم اس راستے کی پیروی کرو۔ اور دوسرے کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں راہ خدا سے پراگندہ کر دیں گے۔ یہ تمہیں خدا کا حکم ہے شاید کہ تم متقی بن جاؤ۔

چند نکات:

پیغمبر خدا نے اس آیت کی وضاحت کے لئے تصویر کشی سے کام لیا، چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ کے ساتھ زمین پر ایک لکیر کھینچی اور فرمایا "یہ سیدھا راستہ ہے جو ایک سے زیادہ نہیں ہے" پھر اس لکیر کے دائیں بائیں کئی لکیریں کھنچیں اور فرمایا۔ "متعدد راستے ہیں جن میں سے ہر ایک کے لئے ایک نہ ایک شیطانی دعوت کرتا ہے۔ " پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمایا۔ (تفسیر مراغی منقول از ابن عباس)

حضرت رسول اکرم انہی تین آیات کی بنیاد پر لوگوں سے بیعت لیا کرتے تھے۔ (تفسیر فرقان)

ان آخری تین آیتوں میں تین مختلف تعبیریں بیان ہوئی ہیں، آیت ۱۵۱ میں شرک، قتل اور فحاشی سے روکا گیا ہے اور آخر میں کہا گیا ہے۔ "( لعلکم تعقلون ) " یعنی ان امور کی بُرائی تھوڑے سے غور و فکر کرنے سے سب پر روشن ہوجاتی ہے۔ آیت ۱۵۲ میں یتیموں کے مال کی حفاظت ، قسط و عدل کا پس، اور ایفائے عہد کا حکم دیا گیا ہے اور آخر میں کہا یگا ہے کہ "( لعلکم تذکرون ) " یعنی عدالت کی اچھائی کو ہر شخص کی فطرت اور ضمیر قبول کرتے ہیں۔ صرف یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ اور زیر بحث آیت میں خدائی احکام کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا آخر میں "( لعلکم تتقون ) " آیا ہے۔ کیونکہ تقویٰ نام ہی فرمان الٰہی کی اطاعت کی راہ میں قدم اٹھانے کا ہے۔

پیام:

۱ ۔ جس طرح "نور" ایک ہے اور "ظلمات" بہت زیادہ، اسی طرح راہ مستقیم بھی ایک ہے یعنی تمام صحیح حرکتیں اور سلیقے ایک ہی منزل مقصود تک جا پہنچاتے ہیں۔ لیکن گمراہ کن رشتے بہت زیادہ ہیں۔ ("صراط" مفرد ہے اور "سبل" جمع ہے۔)

۲ ۔ تمام خدائی ادیان کی اساس اور بنیاد خدا کی راہ پر چلنا اور دوسرے رستوں سے دوری اختیار کرنا ہے۔( صراطی، فاتبعوه، ولا تتبعوا السبل ) ۵۶

۳ ۔ تقویٰ کے حصول کی راہ صرف یہی ہے کہ متعدد اور مختلف رستوں سے دوری اختیار کی جائے( ولا تتبعوالسبل---- تتقون ) ۔

۴ ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاید انسان کے رشدوکمال کے مراحل تعقل، تذکر اور تقویٰ سے عبارت ہیں۔ (جوان آخری تین آیتوں میں ذکر ہوتے ہیں۔ یعنی "( لعلکم تعقلون- لعلکم تذکرون ) اور لعلکم تتقون۔" پہلے تعقل ہے پھر تذکر ہے اور آخر میں راہ حق کو اختیار کرنا اور دوسری راہوں سے بے اعتنائی برتنا ہے۔

آیت ۱۵۴

( ثُمَّ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ تَمَامًا عَلَی الَّذِی أَحْسَنَ وَتَفْصِیلًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًی وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ ) ( رَبِّهِمْ یُؤْمِنُونَ )

ترجمہ: اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو (آسمانی) کتاب دی تاکہ ہم اپنی نعمتیں اس شخص پر مکمل کریں جو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اچھے اچھے کام کرتا ہے۔ اور (یہ کتاب) تمام مسائل کو تفصیل کے ساتھ بیان کرے اور لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا وسیلہ ہو۔ تاکہ لوگ (قیامت کے دن) اپنے پرودگار کی ملاقات پر ایمان لے آئیں۔

ایک نکتہ:

قرآن مجید اور توریت میں کئی طرح کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ جب کہ روایات میں ہے کہ: مسلمانوں کی سرنوشت بھی قوم بنی اسرائیل سے ملتی جلتی ہے۔ انجیل میں زیادہ زور وعظ و نصیحت پر دیا گیا ہے۔ زبور میں دعائیں بہت زیادہ ہیں۔ لیکن قوانین کے لحاظ سے توریت قرآن مجید سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ اسی لئے توریت کو "امام" بھی کہا گیا ہے جیسا کہ سورہ ہود/ ۱۷ میں: "ومن قبلہ کتاب موسیٰ اماما" اور زیر بحث آیت میں بھی توریت کا رحمت، ہدایت اور ہر چیز کا تفصیل سے بیان کرنے والی کتاب کے عنوان سے تعارف کرایا گیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ ہر کتاب اپنے زمانے کے حساب سے کامل ومکمل ہے۔( تماما )

۲ ۔ صرف نیک لوگ اور نیک فکر رکھنے والے افراد ہی آسمانی کتابوں کے پیغامات کو لیتے اور انبیاء کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپناتے ہیں۔( علی الذی احسن )

۳ ۔ تمام انسانی ضرورتیات جو معنوی ارتقا کے لئے ضروری ہوتی ہیں آسمانی کتابوں میں مذکور ہیں۔( تفصیلا لکل شیء ) ۔)

۴ ۔ جو نقطہ ہمیشہ اور ہر نبی کے پیش نظر رہا "قیامت" ہے۔( لقاء ربهم )

آیت ۱۵۶ ، ۱۵۶

( وَهَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ أَنْ تَقُولُوا إِنَّمَا أُنزِلَ الْکِتَابُ عَلَی طَائِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَإِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِینَ )

ترجمہ: اور یہ کتاب (قرآن مجید) جسے ہم نے نازل کیا ہے برکت سے بھرپور ہے۔ لہٰذا تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔

(اسے ہم نے اس لئے نازل کیا ہے) تاکہ تم یہ نہ کہو کہ کتاب تو بس دو ہی گروہوں (یہودو نصاریٰ) ہر نازل ہوئی ہے جو ہم سے پہلے تھے اور ہم اس کے پڑھنے سے بے خبر تھے۔

چند نکات:

"مبارک" اور "برکت" جیسے کلمات میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ۱ ۔طاقتور اور پائیدار بنیاد، ۲ ۔ہمیشہ کی ترقی، چنانچہ قرآن مجید میں بنیادی اور ناقابل تغیر و تبدل: محکم اور پائیدار مطالب بھی پائے جاتے ہیں اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ اس کے اسرار سے پردے بھی اُٹھتے جاتے ہیں اور روز بروز اس کا جلوہ افروزن تر ہوتا جاتا ہے۔

"ان تقولوا" کا معنی ہے "لئلاتقولوا" یعنی تاکہ تم کوئی بات نہ کر سکو اور کسی قسم کا بہانہ نہ بنا سکو۔

"دراستہ" کا معنی تلاوت اور علم ہے۔

پیام:

۱ ۔ قرآن مجید صرف تھیوری کی کتاب نہیں ہے بلکہ عمل کی کتاب اور قابل اتباع ہے۔( فاتبعوه )

۲ ۔ انسان کی سعادت کا راز دو چیزوں میں مضمر ہے۔ ۱ ۔حق کی اطاعت اور ۲ ۔باطل سے دوری۔( فاتبعوه اتقو )

۳ ۔ قرآن کی اتباع تو راہ کا صرف ایک حصہ ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا حصہ پیغمبر اسلام کی نیت اور ان کے معصوم جانشینوں کے اسوہ عمل کی پیروی ہے۔( لعلکم )

۴ ۔ خدا نے اپنی حجت لوگوں پر تمام کر دی ہے( ان تقولوا )

۵ ۔ مسلمانوں کی نشریاتی اور تبلیغی مشینری پر ملک، ہر ملت، اور ہر زبان کے لئے ہونی چاہیئے جس کہ ذریعہ سے صحیح پروگرام عالمی سطح پر نشر کئے جائیں تاکہ دنیا کے تمام لوگوں پر حجت تمام ہو جائے۔( ان تقولوا )

آیت ۱۵۷

( أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْکِتَابُ لَکُنَّا أَهْدَی مِنْهُمْ فَقَدْ جَائَکُمْ بَیِّنَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَهُدًی وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِآیَاتِ اللهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِی الَّذِینَ یَصْدِفُونَ عَنْ آیَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوا یَصْدِفُونَ )

ترجمہ: یا یہ کہو کہ: اگر آسمانی کتاب ہم پر نازل ہوتی تو ہم بھی یقینا ان سے زیادہ اور بہتر ہدایت پاجاتے۔ (اس بہانے کو ختم کرنے کے لئے) تمہارے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل، ہدایت اور رحمت آچکی ہے۔ پس اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا جو آیات الٰہی کی تکذیب کرتا ہے اور اس سے منہ پھیر لیتا ہے۔ ہم بہت جلد ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے روگردانی کرتے ہیں سخت عذاب کے ساتھ سزا دیں گے۔ اس لئے کہ حق کی راہ کی طرف پشت کرتے تھے۔

ایک نکتہ:

"صدف" کا معنی ہے بغیر سوچے سمجھے کسی چیز سے سخت روگردانی کرنا۔

پیام:

۱ ۔ قرآن، دلائل کی کتاب، ہدایت اور رحمت ہے۔( جاء کم بینة ---- وهدیً ورحمة )

۲ ۔ آزمائش سے پہلے دعویٰ کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں لیکن جب امتحان ہوتا ہے تو سب کی صداقت آشکار ہوجاتی ہے۔( لکنا اهدیٰ----- وصدف عنها )

۳ ۔ آسمانی کتابوں سے روگردانی، انسانیت پر بہت بڑا ظلم ہے۔( فمن اظلم )

۴ ۔ دین حق سے بلاوجہ روگردانی کی سزا، عذاب شدید ہے۔( سواء العذاب بما کانوا---- )

۵ ۔ انسان کی بدبختی اور شقاوت کا اصل عامل و اس کے اپنے کارنامے ہوتے ہیں۔( بما کانوا یصدفون )

آیت ۱۵۸

( هَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ أَنْ تَأْتِیَهُمْ الْمَلاَئِکَةُ أَوْ یَأْتِیَ رَبُّکَ أَوْ یَأْتِیَ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَیَنفَعُ نَفْسًا إِیمَانُهَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِهَا خَیْرًا قُلْ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ )

ترجمہ: آیا (آیات، معجزات، بنیات اور رحمتوں کے دیکھنے کے باوجود بھی) اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس آئیں یا خود تیرا پروردگار ان کے پاس آئے یا تیرے رب کی بعض آیات (قیامت کی نشانیاں) آئیں؟ (آیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ) جس دن تیرے رب کی بعض نشانیاں (خدا کے قہر و غضب کی صورت میں) آئیں گی تو انہیں ان کا (مجبوری کے تحت لایاجانے والا) ایمان (اور توبہ) کسی کام نہیں آئے گا کیونکہ وہ اس سے پہلے ایمان نہیں لائے تھے اسی طرح ان لوگوں کا ایمان بھی بے کار ہوگا جنہوں نے نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ (اے پیغمبر!)کہہ دو کہ (قہر خداوندی کے) منتظر رہیں ہم بھی انتظار میں ہیں۔

ایک نکتہ:

سورہ بنی اسرائیل کی ۹۱ ویں آیت میں بھی کفار کی بے جا توقعات کو ذکر کیا گیا ہے کہ وہ کہتے تھے : "ہم تمہارے اوپر ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ تم آسمان ہمارے سر پر گرا دو یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے پاس لے آؤ۔ اس آیت میں کفار کی اس قسم کی توقعات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ ضدی مزاج کافر: خدا کے معجزات دیکھنے کے باوجود بھی انہیں تسلیم نہیں کرتے۔( هل ینظرون )

۲ ۔ ایمان کے بارے میں ٹال مٹول سے کام لینے کا نتیجہ شفاوت اور بدبختی ہے۔( لاینفع تفسا ایمانها )

۳ ۔ ایمان اور عمل اس وقت فائدہ مند ہوتے ہیں جب آزادانہ اور طبعی طور پر اختیار کئے جائیں۔ مجبوری اور خوف کے مارے ایمان یا عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔( یوم یاتی بعض آیات ربک لاینفع-- )

آیت ۱۵۹

( إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَکَانُوا شِیَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِی شَیْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَی اللهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُونَ )

ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکروں میں بانٹ دیا اور گروہ گروہ بن گئے (تو اے پیغمبر!) تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی سزا، انجام اور معاملہ صرف خدا کے سپرد ہے۔ پھر وہ انہیں ان کے کرتوتوں اور کارناموں سے آگاہ کرے گا۔

پیام:

۱ ۔ دین کے معارف میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا سب پر ایمان رکھنا اور عمل کرنا چاہیئے۔ (ف( رقوادینهم )

۲ ۔ مسلم معاشرے کا بٹوارہ عام طور پر دین میں ردوبدل کرنے کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔( فرقوا دینهم وکانو اشیعا )

۳ ۔ جو لوگ تمام اسلامی نظام کو نہیں مانتے ان کے ساتھ تعاون اور ہمکاری نہیں کرنی چاہیئے اور نہ ہی انہیں اپنا سمجھنا چاہیئے۔( لست منهم فی شیء )

۴ ۔ دین مٰں فرقہ رستی اور تفرقہ بازی ایک قسم کا شرک ہے چنانچہ سورہ روم/ ۳۲ مٰن ہے "( ولا تکونوامن المشرکین من الذین فرقوادینهم ) " یعنی مشرکین سے نہ ہو جاؤ یعنی ان لوگوں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکروں میں تقسیم کر دیا اور فرقوں میں بٹ گئے۔ ۵۷

آیت ۱۶۰

( مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلاَیُجْزَی إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَیُظْلَمُونَ )

ترجمہ: جو شخص بھی کوئی نیکی لے آئے گا تو اس کے لئے (جزا کے طور پر) اس کا دس گناہیں۔ اور جو برائی لے آئے گا۔ اسے اسی مقدار کے علاوہ سزا نہیں ملے گی اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا جائے گا۔

چند نکات:

"( جاء ) " کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ سزا اور جزا کا تعلق قیامت کی عدالت سے ہے، ورنہ بہت سے ایسے گناہ ہوتے ہیں جو یا تو توبہ کے ذریعہ مٹا دئیے جاتے ہیں جیسا کہ خدا فرماتا ہے "یقبل التوبہ" توبہ/ ۱۰۴ ۔ شوریٰ/ ۲۰ اوریہ خدا کی ایک صفت یا پھر نیکی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ "( یبدلالله میئاتهم حسنات ) " خدا ان کے گناہوں کو نیکیوں مٰں بدل دیتا ہے۔(فرقان/ ۷۰) یا معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ "یفعواعن کثیر" خدا بہت سے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ (شوریٰ/ ۳۰)

اسی طرح کئی ایسی نیکیاں بھی ہیں جو ریا، خود پسندی اور دوسرے گناہوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہیں۔ پس وہی عمل ہی تو اب وقعاب کا مستوجب بنے گا جو عرصہ محشر میں لایا جائے گا۔( جاء )

اگرچہ آیت کا تعلق نیک اور بداعمال سے ہے لیکن روایات کے مطابق جو شخص نیکی کی نیت کرے گا اسے اس کا بھی ثواب ملے گا۔ (خواہ وہ نیکی نہ بھی بجا لائے) لیکن برائی کی نیت کو جب تک عملی جامہ نہیں پہنایا جاے گا اس وقت اس کی سزا کا مستوجب نہیں ہوگا، اور یہ ایک فضل خداوندی ہے۔

روایات میں ہے کہ جو شخص ہر مہینے تین روزے رکھے گا اس نے پورے مہینے کے روزے رکھے" اسی آیہ "عشرامثالھا" کی دلیل کے مطابق کہ اس کا ہر ایک روزہ دس روزوں کے برابر شمار ہوگا۔

پیام:

۱ ۔ اسلام کے طریقہ تربیت میں تنبیہ صرف ایک ہے اور تشویق دس گنا۔( عشرامثالها )

۲ ۔ تشویق کئی گناہ ہو تو یہ ظلم نہیں ہے لیکن حد سے زیادہ سزا ظلم ہے۔

۳ ۔ خداوندعالم جزا اور تو اب میں اپنے فضل کا مظاہرہ کرتا ہے اور سزا اور عذاب میں عدل کا ۔ ۵۸

۴ ۔ دس گنا جزا مٰن سے صرف ایک حصہ "مزدوری" ہے اور باقی نو حصے "فضل" جب کہ خود فرماتا ہے۔ "( فیوفیهم اجورهم ویزیدهم من فضله ) " یعنی انہیں ان کی اجرت بھی پوری ملے گی اور ساتھ ہی خدا کا مزید فضل بھی ہوگا۔ (مائدہ/ ۱۷۳)

۵ ۔ انسان کا عمل ہمیشہ اور ہر جگہ اس کے ساتھ ساتھ ہے( جاء بالحسنة - جاء بالسیئة )

۶ ۔ دس گنا تو اب تو ایک عمومی بات ہے ورنہ بعض اعمال ایسے بھی ہیں جنہیں بعض حالات میں بعض افراد سرانجام دیتے ہیں جن کی جزا اور ثواب سات سو گنا بلکہ بعض اوقات بے حساب بھی ہے۔

آیت ۱۶۱

( قُلْ إِنَّنِی هَدَانِی رَبِّی إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ دِینًا قِیَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ )

ترجمہ: (اے پیغمبر )کہہ دیجیئے کہ میرے پروردگار نے مجھے راہ راست کی اور ثابت و استوار دین کی ہدایت کر دی ہے۔ اس ابراہیم کے آئین کی جو (باطل سے منہ موڑ کر) حق کی راہ پر گامزن تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔

چند نکات:

جس قدر اس سورت مین لفظ "قل" (کہہ) استعمال ہوا ہے اتنا قرآن مجید کی کسی اور سورت میں استعمال نہیں ہوا۔ اس خطاب کا ۴۴ مرتبہ تکرار شاید اس وجہ سے ہے کہ اس سورت میں گمراہ کن اور باطل عقائد کی تردید اور مشرکین کی ناروا اور بے جا توقعات کو بیان کرکے ان کو مسترد کیا جاچکا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر دشمنانِ دین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت رسالتمآب خدا کی طرف سے مامور تھیا ور جو چکھ وحی ناز ہو اسے من و عن بیان کردیں۔

۔ "( قِیمَ ) " اور "( قِیمَّ ) " دونوں ایک ہی طرح کے کلمات ہیں جن کا معنی ہے سیدھا، پائیدار اور استوار دائمی اور جامع۔ یعنی ایسا دین جو لوگوں کے اس دنیا کے مادی مسائل پر بھی توجہ رکھتا ہے اور اُس جہان کے معنوی مسائل پر بھی۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبرِ اسلام کے فرمودات اور ان کی تعلیمات، آپ کی ذاتی رائے کے مطابق نہیں تھیں بلکہ جو کچھ بھی تھا وحی خداوندی کا متن تھا۔( قل )

۲ ۔ پیغمبرِ خدا نہ صرف صراطِ مستقیم پر گامزن تھے بلکہ اس پر مسلط بھی تھے۔ (اس سے اچھی طرح آگاہ بھی تھے کیونکہ اس آیت میں "الی صراط مستقیم" ہے اور سورہ یس میں "علی صراط مستقیم" ہے۔

۳ ۔ ہدایت صرف خدا کا کام ہے ، حضرت انبیاء کرام علیھم السلام بھی الٰہی ہدایت کے تحت راہ مستقیم پر گامزن ہیں۔( هدنیٰ ربی )

۴ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا راستہ بھی وہی توحید اور یگانہ پرستی کا راستہ تھا وہ مشرکانہ عقائد و افکار سے بالکل پاک اور منزہ تھے۔( حنیفا و مان من المشرکین ) مشرکین حضرت ابراہیم کی طرف عقائد باطلہا ر مشرکانہ افکار کو منسوب کرتے تھے۔

۵ ۔ بت شکنی اور سرک سے روگردانی کا کام صرف رسول اسلام ہی نے سر انجام نہیں دیا بلکہ ابراہیم بھی ایسا کر چکے تھے۔( حنیفا )

۶ ۔ تاریخی لحاظ سے تمام توحیدی ادیان کی اساس اور اصول ایک ہی چکے آرہے ہیں۔ اسلام وہی دین ہے جو ابراہیم کا آئینی اصول تھا اور شرک سے نفرت اور بیزاری تمام انبیاء کا کام رہا ہے۔

آیت ۱۶۲ ، ۱۶۳

( قُلْ إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَای وَمَمَاتِی لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لاَشَرِیکَ لَهُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ )

ترجمہ: کہہ دو کہ یقینا میری نماز میری عبادت، میری زندگی اور میری موت اس اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اسی بات (سر تسلیم خم کرنے اور اس کی عبودیت کا اقرار کرنے) کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ ۵۹

دو نکات:

موت، زندگی کو، زندگی نُسک (عبادت) کو اور نُسک نماز کو اپنے احاطہ میں لئے ہوتی ہے۔ بنا بریں نماز تمام عبادات کا اندرونی مرکز ہے اور عبادت و نُسک زندگی کے متن میں واقع ہیں۔

اسلام کا معنی ہے امر خداوندی کے آگے سر جھکانا اور اس کی نسبت تمام انبیاء کی طرف دی گئی اور حضرت آدم اور حضرت نوح خود کو مسلمان کہتے تھے ملاحظہ ہو سورة احقاف آیت ۱۵ ۔ سورہ یونس/ ۷۲ ۔ حضرت ابراہیم نے خدا سے درخواست کی کہ انہیں مسلمان قرار دے۔ "واجعلنا مسلمین" تو پھر جناب پیغمبر اسلام کس معنی کے لحاظ سے سب سے پہلے مسلمان ہیں؟ یا تو اس معنی کے لحاظ سے کہ اپنے زمانے کے سب سے پہلے مسلمان ہیں یا چونکہ مقام اور رتبہ کی وجہ سے سب پر مقدم ہیں لہٰذا پہلے مسلمان ہیں۔

پیام:

۱ ۔ مخلص انسان اپنی "تکونی راہ "(موت و حیات) اور "تشریعی راہ "(نماز و عبادت ) صرف اور صرف خدا کے لئے سمجھتے ہیں۔

۲ ۔ اگرچہ نماز جزو عبادات ہے لیکن نُسک (عبادات) کے ساتھ ساتھ اس کا علیحدہ ذکر اس کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے۔

۳ ۔ باطل اور گمراہ کن رستوں کے مقابلہ میں اپنے موقف کو ڈٹ کر، صراحت اور پورے فخر کے ساتھ بیان کرو( قل )

۴ ۔ پیغمبر اسلام ہم سب کے لئے اسہ (نمونہ عمل) ہیں لہٰذا ہماری تمام زندگیا ور موت بھی انہی کی مانند خدا کے لئے ہونی چاہیئے۔

۵ ۔ موت اور زندگی اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ خدا کے لئے اور خدا کی راہ میں ہوں۔( اللّٰه )

۶ ۔ جو چیز خدا ے لئے ہو وہ پروان چڑھتی ہے( اللّٰه رب العالمین )

۷ ۔ ہم جس طرح نماز میں قصد قربت کرتے ہیں اسی طرح ہر ہر سانس میں اور موت اور زندگی کے ہر لمحے میں بھی ہمارا قصد قربت ہونا چاہیئے۔

۸ ۔ اگرچہ زندگی اور موت ہاتھوں میں نہیں ہیں لیکن انہیں رُخ دینا تو ہمارے اختیار میں ہے۔( للّٰه )

۹ ۔ تمام کاموں میں خلوص، امر الٰہی ہے۔( ا مرتُ )

۱۰ ۔ رہبر کو چاہیئے کہ راستہ طے کرنے میں اور فرمان اور دعوت پر عمل کرنے میں پیش قدم ہو۔( اوّل المسلمین )

آیت ۱۶۴

( قُلْ أَغَیْرَ اللهِ أَبْغِی رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ وَلاَتَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْهَا وَلاَتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی ثُمَّ إِلَی رَبِّکُمْ مَرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ )

ترجمہ: کہہ دو کہ آیا میں خدا کے علاوہ کوئی اور پروردگار تلاش کروں؟ حالانکہ وہ تمام چیزوں کا پروردگار ہے اور کوئی شخص جو کام بھی کرتا ہے، اسی کے ذمہ ہوتا ہے (اس کا نفع یا نقصان اسے ہی پہنچتا ہے) اور کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اُٹھاتا۔ پھر تمہاری بازگشت تمہارے پروردگار کی طرف ہے پس وہ تمہیں اس چیز سے آگاہ کرے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

چند نکات:

عدل الٰہی کا موضوع اور یہ کہ "کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھاتا" نہ صرف اسلام میں بلکہ قرآنی تصریحات کے مطابق صحف اور ابراہیم و موسیٰ میں بھی مذکور ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: "( ام لم ینبأمافی صحف موسیٰ- و ابراهیم الذی وفیّٰ- الائزر وارزة وزراخرض ) ۔" یعنی کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ کے صحیفوں میں ہے اور ابراہیم (کے صحیفوں میں بھی) جنہوں نے پوراپورا حق ادا کیا (یہ ہے کہ) کوئی شخص کسی دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ (نجم/ ۳۶ تا ۳۸)

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ "اگر کوئی شخص کسی وجہ کے بغیر دوسرے کے گناہوں کا ذمہ دار نہیں ہے تو پھر قرآن میں جو یہ ہے کہ "گمراہ اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے رہبر، اپنے پیروکاروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے اوپر اُٹھائیں گے، جب کہ ارشاد ہوتا ہے: "( لیحملوا اوزارهم کا ملة یوم القیٰمة ومن اوزارالذین یضلونهم ) " (نحل/ ۲۵) اس کا کیا جواب ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا بلاوجہ نہیں ہے، وہ یوں کہ گمراہ کن رہبر دوسروں کے گمراہ ہونے اور ان کے بھٹکنے کا موجب بنے ہیں، درحقیقت گناہ کا بوجھ ان کے گمراہ کرنے کا بوجھ ہوگا۔

پھر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ : "اگر کسی شخص کا عمل دوسروں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے تو پھر عبادت میں نیابت کا یہ مسئلہ کیا ہے؟"

تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی عمل کے وضعی آثار کسی دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوسکتے لیکن عمل کی جزا اور ثواب دوسروں کو "ہدیہ" دیا جاسکتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ انسان کا بیدار ضمیر ایک ایسی بہترین عدالت ہے کہ جو اندرونی سوالات کے از خود جواب دیتی ہے۔( اغیرالله ابغی )

۲ ۔ خدا ہی ہر شے کا پروردگار ہے، اس کے علاوہ اور لوگ کون ہوتے ہیں؟( رب کل شی ء )

۳ ۔ ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار اور جوابدہ ہے۔( لاتزروازرة ورز اخریٰ )

۴ ۔ لوگوں کا کفر و شرک یا نیکی اور بُرائی، خدا کو نہ تو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان، بلکہ جو کوئی جو کچھ کرے گا اس کا نفع یا نقصان خود اسی کا دامنگیر ہوگا۔( لاتکسب کل نفس الا علیها )

آیت ۱۶۵

( وَهُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلاَئِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ )

ترجمہ: اور وہ وہی خدا ہی تو ہے جس نے تمہیں زمین کے جانشین قرار دیا۔ اور تم میں سے بعض کے درجات کو دوسرے بعض پر برتری دی تاکہ تمہیں اس چیز میں آزمائے جو تمہیں عطا کی ہے، یقینا تمہارا پروردگار بہت جلد سزا دینے والا ہے اور بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

دونکات:

سورہ انعام حمد الٰہی کے ساتھ شروع ہوئی اور اس آیت میں رحمت الٰہی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔

"( خلائف الارض ) " سے مراد یا تو زمین میں خدا کے خلیفے اور جانشین ہیں یا پھر گذشتہ امتوں کے جانشین۔

پیام:

۱ ۔ انسان زمین میں خلیفہ اور اس کا امیر ہے اور کائنات پر حاکم ہے ناکہ کائنات کا اسیر۔( خلائف الارض )

۲ ۔ خدا کے عطئے، برتری کا معیار نہیں ہے بلکہ آزمائش کا ذریعہ ہے۔( لیبلوکم )

۳ ۔ جس کے جس قدر امکانات ہیں، اس کی اسی قدر آزمائش ہے۔( فیما اتاکم )

۴ ۔ خدا کے عطیات اور درجات دائمی نہیں بلکہ عارضی ہیں۔ اور وہ بھی آزمائش کے لئے کبھی کچھ دے کر آزمایا جاتا ہے اور کبھی لے کر)

۵ ۔ ہر امتحان اور آزمائش کے بعد جو ناکام ہوجاتے ہیں خدا ان کے لئے (سریع العقاب) ہے اور جو کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے لئے( غفور الرحیم ) ہے۔