تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62444
ڈاؤنلوڈ: 5200

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62444 / ڈاؤنلوڈ: 5200
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۲۰ ، ۲۱

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَه وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ صلي وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور اب جبکہ اس کی باتوں کو سنتے ہو تو اس سے روگردانی نہ کرو۔

اور ان لوگوں کی مانند نہ بنو جو کہتے ہیں کہ "ہم نے سن لیا" درحقیقت وہ نہیں سن رہے ہوتے۔

ایک نکتہ:

پورے قرآن میں جہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہو وہاں اس کے رسول کی اطاعت کا حکم بھی مذکور ہے اور گیارہ مقامات پر "اتقوااللہ" کے بعد "اطیعون" کا جملہ مذکور ہے۔ اور اس آیت میں اگرچہ خدا اور رسول "دونوں کی اطاعت کا ذکر ہے لیکن صرف رسول پاک کے فرمان کی سرپیچی سے منع کیا گیا ہے نہ کہ خدا اور رسول کے فرمان کی سرپیچی سے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے (خدا کی نہیں) رسول کی اطاعت مشکل تھی اور وہ بھی خصوصی طور پرجنگ بدر میں اور فوجی مسائل کے بارے میں آنحضرت کے فرامین کی اتباع اور بھی مشکل تھی۔

پیام:

۱ ۔ نظام برحق کو بحال رکھنے کے لئے لوگوں کو ہمیشہ خدائی رہبری کی اطاعت کی تاکید کرتے رہنا چاہئے( اطیعوا الله و رسوله )

۲ ۔ پیغمبر کی عدم اطاعت یا ان کی نافرمانی درحقیقت خدا کی نافرمانی ہے( ولا تولوا عنه ) ہے "عنہما" نہیں ہے۔

۳ ۔ سننا اور سمجھنا، ذمہ داری کا موجب بن جاتا ہے( تسمعون )

۴ ۔ دور سابق میں خلاف ورزی کرنے والوں کے حالات سننا اور ان سے آگاہ ہونا عبرت کا موجب ہوتا ہے( ولاتکونوا کالذین… )

۵ ۔ قائد اور رہبر کی اطاعت صدق دل سے کرو، صرف "ہم نے سن لیا ہے" کہہ کر جان نہ چھڑاؤ( ولاتکونوا… )

آیت ۲۲

( اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَاللّٰهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین چلنے والے وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

دو نکات:

"صم" جمع ہے "اصم" کی جس کے معنی ہیں بہرا اور "بکم" جمع ہے "ابکم" کی جس کے معنی ہیں گونگا۔

جو لوگ انبیاء علیہم اسلام کی الٰہی تربیت کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی حق کے آگے اپنے دل و جان کو جھکاتے ہیں، قرآن کی تعبیرات میں انہیں کہیں تو:

الف: مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے: "( انا لاتسمع الموتي ) ٰ" آپ یقینا مردوں کو نہیں سنواتے۔ (روم/ ۵۲)

ب: چوپایوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے: "( یا کل کماتا کل الانعام ) " ایسے کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھائیں (محمد/ ۱۲)

ج: چوپایوں سے بھی بدتر کہا گیا ہے، جیسے: "( کالانعام بل هم اضل ) " چوپایوں جیسے بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں (اعراف/ ۱۷۹)

د: روئے زمین پر چلنے والوں میں سے بدتر بھی کہا گیا ہے جیسے: "( شرالدواب ) " بدترین چلنے والے (انفال/ ۲۲)

پیام:

۱ ۔ انسان کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل سے کام لیتا ہے، اگر ایسا نہیں کرتا تو ہر چلنے والے سے بدتر ہے( شرالدواب )

۲ ۔ کان اور زبان کا حامل ہونا اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ ان اعضأ سے صحیح کام لیا جائے جس شخص کی زبان سے امر بالمعروف یا نہیں عن المنکر کا کلمہ نہیں نکلتا وہ گویا گونگا ہے۔

۳ ۔ دینی تعلیمات سے رخ موڑنے والے بے عقل ہیں( لایعقلون ) ۸

آیت ۲۳

( وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَ سْمَعَهُمْط وَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اگر اللہ کو ان میں کوئی اچھائی نظر آتی تو انہیں ضرور سننے والا بنا دیتا (حق بات ان کے دلوں تک پہنچاتا) اور اگر انہیں سنواتا تو بھی وہ سرکشی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے۔

ایک نکتہ:

ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کی چند قسمیں ہیں۔

۱ ۔ کچھ تو وہ ہیں جو قرآن مجید کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں: "( لاتسمعوا لهذا القرآن ) " اس قرآن کو نہ سنو۔ (فصلت/ ۲۶)

۲ ۔ کچھ وہ ہیں جو سنتے اور سمجھتے تو ہیں لیکن اس میں تحریف کرتے ہیں۔

۳ ۔ اور کچھ وہ ہیں جو اپنے شدید تعصب، حسد اور سنگدلی کی وجہ سے اپنے اندر تشخیص دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔

پیام:

۱ ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کے اسباب خود اپنے اندر تلاش کرنے چاہئیں۔( فیهم )

۲ ۔ صرف آیات قرآنی کا یاد کر لینا، نور نہیں، حق کو قبول کر لینے کا نام نور ہے( ولواسمعهم لتولوا )

۳ ۔ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کی ہدایت سے کوئی مضائقہ نہیں، ضدی لوگ اپنا منہ پھیر لیتے ہیں( ولوعلم…لاسمعهم )

۴ ۔ انسان آزاد ہے اور حق کی ہر آواز کے سننے سے روگردانی کر سکتا ہے( لو اسمعهم لتولوا )

آیت ۲۴

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْ الِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْج وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِه وَ اَنَّهٓ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! تمہیں جب بھی اللہ اور اس کا رسول اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہاری زندگی کا سبب ہے تو فوراً اس کا جواب دو۔ اور جانے رہو کہ اللہ تعالیٰ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، اور یہ کہ تم کو اسی کی طرف محشور ہونا ہے۔

چند نکات:

حیات (زندگی) کی مختلف قسمیں ہیں۔

۱ ۔ نباتاتی حیات: جیسے "( یحی الارض بعد موتها ) " اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ (روم/ ۱۹)

۲ ۔ حیوانی حیات: جیسے "( لمحی الموتی ) " اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ (روم/ ۵۰ فصلت/ ۳۹)

۳ ۔ فکری حیات: جیسے "( من کان میتا فاحییناه ) " مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا (انعام/ ۱۲۲)

۴ ۔ ابدی حیات: جیسے "( قدمت لحیاتی ) " کاش میں اپنی زندگی کے لئے پہلے سے کچھ بھیجتا (فجر/ ۱۴)

جو حیات(زندگی) انبیاء کی دعوت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے وہ "حیوانی زندگی" نہیں ہے، کیونکہ وہ تو ان کی دعوت کے بغیر بھی حاصل ہے، بلکہ مراد فکری، عقلی اور معنوی زندگی ہے۔

خدا کا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہر جگہ پر حاضر ناظر ہے اور وہ ہر چیز کو اپنے قبضہ قدرت میں لئے ہوئے ہے۔ تمام توفیقات اسی کی طرف سے ہیں، وہ ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ عقل اور روح کی کارکردگی بھی اسی کے دست قدرت میں ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اسلام کی دعوت کی قبولیت درحقیقت خدا کی دعوت کی پذیرائی ہے (دعا کم) فرمایا ہے، "( دعواکم ) " نہیں۔

۲ ۔ انسان کی حقیقی حیات وزندگی تو ایمان اور عمل صالح ہی میں ہے اور انبیاء بھی اسی کی دعوت دیتے ہیں ۹( لما یحییکم )

۳ ۔ احکام اسلام معنوی حیات عطا کرتے ہیں، جس طرح کہ دوا یا عمل جراحی (آپریشن) زندگی دیتے ہیں۔

۴ ۔ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے رستوں پر چلنے سے حقیقی زندگی ملتی ہے اور ان سے ہٹ کر چلنے سے انسانیت کی موت ہے۔

۵ ۔ زندگی بہت قیمتی چیز ہے اور انبیاء کا راستہ انمول نعمت ہے۔

۶ ۔ شیعہ، سنی روایات کے مطابق "حیات طیبہ" کے مصداقوں میں سے ایک مصداق علی اور اولاد علی علیہم السلام کی ولایت کے بارے میں پیغمبر اسلام کی آواز کو سننا اور قبول کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر فرقان، منقول از مناقب ترمذی)

۷ ۔ جس شخص کا اس بات پر ایمان ہوتا ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے اور وہ ہر چیز پر محیط ہے تو وہ انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے سے روگردانی نہیں کرتا۔( یحول بین المرٴو قلبه- استجیبوا )

۸ ۔ جب تک اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے اور تمہارے پاس فرصت بھی ہے تو حق کو قبول کر لو (اس تفسیر کی بنا پر خدا کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونا، موت سے کنایہ ہے)

۹ ۔ خدا کا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا ایک مصداق "محو و اثبات" کا مسئلہ بھی ہے یعنی کفر کا محو کرنا اور ایمان کا اثبات کرنا، شک اور غفلت کا محو کرنا اور یاد اور یقین کا اثبات کرنا۔ (تفسیر فرقان، اسی آیت کے ذیل میں حضرت امام محمد باقر علیہ اسلام کا فرمان)

۱۰ ۔ مومن کو اپنے ایمان پر مغرور اور کافر کو اپنے کفر سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ دلوں کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ "مقلب القلوب" (دلوں کو پھیرنے والا) ہے۔( یحول بین المرٴو قلبه )

۱۱ ۔ تم سب کو قیامت کے دن محشور ہونا ہے، لہٰذا انبیاء الٰہی کو ان کی دعوت پر مثبت جواب دو۔( استجیبوا…الیه تحشرون )

آیت ۲۵

( وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّةًج وَ اعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )

ترجمہ۔ اور اس فتنے سے ڈرو جو صرف تم میں سے ظالم لوگوں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا، اور جانے رہو کہ خداوند سخت عذاب دینے والا ہے۔

چند نکات:

سابقہ آیت میں پیغمبر اسلام کی طرف سے "حیات طیبہ" کی دعوت قبول کرنے کا حکم تھا اور اس آیت میں فرماتا ہے: "اگر تم نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو یاد رکھو ایسے فتنے میں گرفتار کر لئے جاؤ گے جس کی آگ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

"فتنہ" کے کئی معنی ہیں مثلاً شرک، کفر، آزمائش، شکنجہ وغیرہ۔

سابقہ آیت میں پیغمبر اکرم کی اطاعت کا حکم تھا، اور اس آیت میں فتنے سے ڈرنے کا حکم ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فتنہ: پیغمبر اسلام کی اطاعت نہ کرنے کا نام ہے۔ اور آیت کا مفہوم وہی "( واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا ) " ہے۔ (تفسیر المیزان)

فساد اور فحاشی ایک نظام کی چھت کو گرا دیتے ہیں جس کا نقصان سب کو پہنچتا ہے جیسے بنی امیہ کے حکام کا فساد ہے، کیونکہ جب لوگوں نے پیشوائے حق کی ولایت کا انکار کر دیاتو بنی امیہ کے فساد کی زنجیروں میں صدیوں تک ذلیل و خوار ہو کر جکڑے رہے۔ ۱۰

پیام:

۱ ۔ معاشرہ کے افراد اپنے کاموں کے علاوہ دوسروں کے کاموں پر بھی نظر رکھیں، کیونکہ خلاف ورزی کے مضر اثرات سب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ جس طرح کہ کشتی کے پیندے میں سوراخ کر دینے سے اس میں سوار تمام لوگ ڈوب سکتے ہیں۔( لاتصیبن )

۲ ۔ نہ تو خود فتنہ برپا کرو، نہ دوسرے فتنہ پرور لوگوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ اور نہ ہی ان کی فتنہ پردازیوں پر خاموشی اختیار کرو۔( واتقوا فتنة )

۳ ۔ فتنے سے بچنے کا مقصد اس سے ہوشیا ر رہنا ہے نہ کہ معاشرہ سے کٹ جانا ہے۔

۴ ۔ زمانے میں پیدا ہونے والے آشوب اور فتنوں میں ہوشیار رہنا چاہئے کہ کہیں تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ ۱۱

آیت ۲۶

( وَ اذْکُرُوْآ اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِه وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب تم (تعداد میں) کم تھے اور (مکہ کی) زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے، تمہیں ہر وقت یہ ڈر رہتا تھا کہ (دشمن) لوگ تمہیں جلدی اچک لیں گے، پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں (مدینہ میں) پناہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمہاری تائید کی اور تمہیں ہر قسم کی پاکیزہ روزی عطا فرمائی، شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ۔

پیام:

۱ ۔ ناتوانی اور کمزوری کے دنوں اور خدائی امداد کی یادآوری، خدا کے شکر، اس کے ساتھ عشق و محبت اور اس پر توکل کا سبب ہوتا ہے( لعلکم تشکرون )

۲ ۔ ناتوانی اور امداد الٰہی کے ایام کی یاد، فتنوں سے دور رہنے کا موجب ہوتی ہے( واتقوا فتنة- واذکروا )

۳ ۔ راہ حق میں افرادی قلت، کمزوری و ناتوانی اور جلاوطنی سے نہیں گھبرانا چاہئے کیونکہ تمام باوقار انقلابی اسی راہ سے گزر چکے ہیں۔

آیت ۲۷

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُونُوْآ اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور (نہ ہی) اپنی امانتوں کے ساتھ خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو کہ اللہ، رسول اور امانتوں کے ساتھ خیانت نہیں کی جاتی۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شان نزول میں شیعہ اور سنی تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق بنی قریظہ کے یہودیوں کا محاصرہ کیا گیا تو اس دوران انہوں نے صلح کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر شام چلے جائیں گے۔ لیکن آنحضرت نے ان کی اس پیشکش کو قبول نہ فرمایا بلکہ اس بارے میں مذاکرات کے لئے سعد بن معاذ کو مامور فرمایا۔

اس وقت "ابو لبابہ" نامی ایک مسلمان موجود تھا، اس کی یہودیوں کے ساتھ پرانی دوستی تھی، اس دوران اس نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ سعد بن معاذ کو قبول کرنے کی صورت میں سب تہ تیغ کر دیئے جاؤ گے۔ جبرائیل علیہ اسلام نے ابو لبابہ کے اس اشارے کی حضرت رسول خدا کو خبر دی۔ ابو لبابہ بہت شرمندہ ہوا کہ اس نے تو بہت بڑی خیانت کی ہے۔ اس نے اس کے پاداش کے طور پر اپنے آپ کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا اور سات رات دن تک کچھ نہ کھایا۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کو قبول فرمایا( --- ) (تفسیر مجمع البیان، تفسیر صافی، تفسیر نمونہ اور دوسری تفاسیر)

اس کا ایک اور شان نزول بھی بتایا گیا ہے وہ یہ کہ جنگ بدر میں ایک مسلمان شخص نے ابو سفیان کو خط لکھا جس میں اس نے حضرت پیغمبر خدا صلے اللہ وآلہ وسلم کے منصوبوں سے اسے آگاہ کیا، جس کی وجہ سے ابوسفیان نے اہل مکہ سے مدد طلب کی اور ایک ہزار آدمی اس کی مدد کے لئے بدر کی جانب چل دیا۔ (تفسیر المیزان۔ تفسیر مجمع البیان)

پیام:

۱ ۔ بعض اوقات دشمن کے حق میں ایک اشارہ بھی خیانت میں شمار ہوتا ہے (ابو لبابہ کا واقعہ اور آیت کا شان نزول)

۲ ۔ خیانت فطری طور پر بھی بری اور قابل مذمت عادت ہے( وانتم تعلمون )

۳ ۔ جان بوجھ کر خیانت کرنا تو اور بھی خطرناک بات ہے( وانتم تعلمون )

۴ ۔ فوجی رازوں کا فاش کرنا بدترین خیانت ہے (آیت کے دوسرے شان نزول کے مطابق)

البتہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ انفال، زکوٰة ، خمس اور دوسرے لوگوں کے باقی اموال تمہارے ہاتھوں میں امانت ہیں۔ اسی طرح مذہب و مکتب، رہبر و قائد، قرآن مجید، اولاد، وطن کی آب و خاک سب خدائی امانتیں ہیں)

۵ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت اطہار علیہم السلام بھی اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔ ۱۲

۶ ۔ اہل، لائق، افضل اور صالح افراد کے ہوتے ہوئے نااہل، نالائق، "مفضول" اور غیرصالح افراد کو آگے لانا اور انہیں معاشرتی اجتماعی، حکومتی اور سرکاری ذمہ داریاں سونپنا خدا، رسول اور مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی خیانت اور بددیانتی ہے۔

۷ ۔ ایک تو ہم خود بھی اپنے لئے امانت ہیں اور اس کے ساتھ یہ معاشرہ بھی ہمارے لئے امانت ہے۔ (ایک اور آیت میں ہے "تختانون انفسکم" اپنے آپ کے ساتھ خیانت کرتے ہو (بقرہ/ ۱۷۸)

۸ ۔ اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت دراصل تمہاری اپنے ساتھ خیانت ہے اور اس کا نقصان خود تمہیں پہنچے گا۔ ۱۳

(ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رہے کہ جب تک ہمیں اپنی توبہ کی قبولیت کا یقین نہ ہو جائے، اس وقت تک اپنے آپ کو مطمئن نہ سمجھیں۔) ۱۴

آیت ۲۸

( وَ اعْلَمُوْآ اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُ کُمْ فِتْنَةٌ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عنِدْهٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ )

ترجمہ۔ جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں اور خدا کے نزدیک یقینا بہت بڑا اجر ہے۔

ایک نکتہ:

مال اور اولاد کے ساتھ انسان کی محبت، انسان کے لئے بہت سی لغزشوں کا سبب بن سکتی ہے، حرام کا کاروبار، دروغ گوئی، ذخیرہ اندوزی، کم فروشی، راہ خدا میں خرچ نہ کرنا، خمس و زکوٰة کی عدم ادائیگی، حرص و لالچ، تخریب کاری، جھوٹی قسمیں، حقوق الناس کا ضیاع غرض اس قسم کی کئی دوسری خرابیوں کی اصل جڑ مال کے ساتھ بے تحاشا محبت ہے، اسی طرح میدان جنگ سے فرار، افراد خاندان سے جدا نہ ہونا، اسی طرح کی دوسری خامیوں کا اصل سبب اولاد کے ساتھ محبت ہے۔

پس یہ سب امتحان کے اسباب و عوامل ہیں، جس طرح (سابقہ آیت کی رو سے) ابولبابہ ایک لغزش کا شکار ہو گیا تھا، تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنے مال اور اولاد کو بچانے کے لئے دشمن کے ساتھ ہمکاری پر آمادہ ہو گیا تھا۔

پیام:

۱ ۔ مال اور اولاد کے ساتھ حد سے زیادہ محبت انسان کو خیانت پر آمادہ کر دیتی ہے( لاتخونوا…واعلموا--- ) سابقہ آیت کے شان نزول کے پیش نظر ۱۵

۲ ۔ مال اور اولاد دو ایسے جال ہیں جو انسان کو فریب دینے کے لئے اس کی راہوں میں بچھے ہوئے ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک نے مختلف تعبیرات کے ساتھ ان سے خبردار رہنے کو کہا ہے (فتنة) ۱۶

۳ ۔ خداوند عالم کے اجر عظیم کی طرف توجہ ہی سے انسان کے دل سے دنیا کی محبت اور خیانت جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے( اجر عظیم )

آیت ۲۹

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْط وَاللّٰهُ ذُوْالْفَضْلِ ) ( الْعَظِیْمِ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اگر خدا سے ڈرتے رہو گے اور اس کاتقویٰ اختیار کئے رہو گے تو خداوند عالم تمہارے لئے فرقان (حق اور باطل کی شناخت کی قوت) قرار دے گا اور تمہارے گناہوں کو چھپا دے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ تو بہت بڑے فضل اور بخشش والا ہے۔

چند نکات:

حق اور باطل کی شناخت کے معیار مختلف ہیں۔ مثلاً:

الف: "انبیاء اور اولیاء اللہ۔" جب کہ حدیث پیغمبر ہے" "( من فارق علیا فقد فارق الله ) " جس نے علی کو چھوڑ دیا (گویا) اس نے خدا کو چھوڑ دیا۔ (ملحقات احقائق الحق جلد ۴ ص ۲۶)

ب: " آسمانی کتاب"اس کی طرف رجوع کرکے حق کو باطل سے پہچانا جا سکتا ہے۔

ج: "تقویٰ" کیونکہ بے تقوائی کے ساتھ چونکہ خواہشات کے اور حب و بغض کے طوفانوں میں حقائق کا ادراک نہیں ہو سکتا۔

فرقان یا حق و باطل کی تشخیص، ایک خداداد حکمت اور بینش ہوتی ہے جس کا تعلق پڑھنے لکھنے اور معلومات کی فراوانی کے ساتھ نہیں ہوتا۔

"تکفیر سی( ٴ ) ات" یا گناہوں کی پردہ پوشی اور "مغفرت" کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس بارے میں حضرت فخر رازی فرماتے ہیں: "گناہوں کی پردہ پوشی دنیا میں ہوتی ہے اور مغفرت یعنی قہر خداوندی سے چھٹکارا آخرت میں ہوتا ہے" لیکن "تفسیر نمونہ" کے بقول: "تکفیر، گناہ کے اجتماعی، معاشرتی اور نفسیاتی آثار کے مٹانے کو کہا جاتا ہے جبکہ "مغفرت" جہنم سے نجات اور بخشش کا نام ہے"

پیام:

۱ ۔ تقویٰ، صحیح معرفت کا عامل (فرقان) ہے اور اسی سے انسان کی معاشرتی حیثیت اور آبرو قائم رہتی ہے۔ اور آخرت میں مغفرت نصیب ہوتی ہے( یغفر لکم )

۲ ۔ جو لوگ نفسانی خواہشات سے بچے رہتے ہیں وہ صحیح معنوں میں حق کو پہچان سکتے ہیں اور تقویٰ صحیح پہچان کا سبب ہوتا ہے۔ ۱۷

آیت ۳۰

( وَ اِذْیَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰهُطوَ اللّٰهُ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) اس وقت کو یاد کرو جب کافر لوگ تمہارے بارے میں منصوبے بنا رہے تھے کہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا بے گھر کر دیں، وہ تدبیریں سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیریں بنا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ بہترین تدبیریں بنانے والا ہے۔

دو نکات:

اس آیت میں "شب ہجرت" اور کفار کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے شیطانی منصوبوں کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبرائیل علیہ اسلام کے ذریعہ اس منصوبے کا علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود راتوں رات غار ثور کی طرف چل دیئے اور وہاں سے مدینہ کی جانب ہجرت فرما گئے۔

آیت کے مطابق آنحضرت کے متعلق تین طرح کے منصوبے کفار کے پیش نظر تھے اور یہ مشرکین کے "دارالندوہ" میں ان کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہوئے۔ بالآخر دوسری تجویز پاس ہوئی اور طے پایا کہ ہر قبیلے میں سے ایک ایک آدمی لیا جائے اور تمام افراد مل کر آپ پر حملہ کرکے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ تاکہ اس طرح سے پیغمبر اسلام کے لواحقین کسی سے آپ کے خون کا بدلہ نہ لے سکیں۔

پیام:

۱ ۔ جو خطرات اللہ نے تم سے دور کئے ہیں انہیں خاطر میں لاؤ تاکہ دل کو قوت اور قلب کو سکون حاصل ہو( واذیمکر )

۲ ۔ انبیاء کی مشکلات صرف مشرکین کی دشمنی یا ہٹ دھرمی ہی نہیں ہوتی تھیں، ان کی طرف سے دھمکیاں اور شیطانی منصوبے بھی ہوا کرتے تھے۔( واذیمکربک--- )

۳ ۔ قید، قتل اور جلاوطنی تو جباران تاریخ کا قدیم سے شیوہ چلا آ رہا ہے کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے حربے ہی اختیار کیا کرتے تھے( یثتبوک او یقتلوک--- )

۴ ۔ انسان کے تمام افکار، خدا کے سامنے ہوتے ہیں( یمکرون ویمکراللّٰه )

۵ ۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب اور اپنے دوستوں کا حامی ہوتا ہے اور مکڑی کے جالے سے اشرف المخلوقات کی حفاظت کرتا ہے، تاریخ کی عظیم ترین سازش کو ناکام بناتا ہے اور تاریخ کے دھارے موڑ دیتا ہے۔

۶ ۔ جہاں ضروری ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سازشوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔ جس سازش کے بارے میں دشمن چاہتا ہے کسی کو اس کا علم نہ ہونے پائے اسے ساری دنیا صدیوں تک جانتی سمجھتی رہتی ہے۔

۷ ۔ جو حق کے طرفداروں کے خلاف سازشیں کرتا ہے درحقیقت وہ خدا کے مقابلے میں آن کھڑا ہوتا ہے۔( یمکرون و یمکراللّٰه )

۸ ۔ ضروری نہیں ہے کہ سپر طاقتیں ہمیشہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں( --- )

۹ ۔ دشمن کا منصوبہ جس قدر مضبوط ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسی قدر کمزور مخلوق کے ذریعے اسے ناکام بنا دے گا( --- ) بلقیس کو ایک ہدید کے ذریعہ دعوت پہنچتی ہے ۔ فرزند آدم ایک کوے سے سبق سیکھتا ہے ابرہہ کے اور اس کے ہاتھی سوار لشکری ابابیل کے ذریعہ نابود ہوتے ہیں، نمرود کا ایک مچھر کے ذریعہ ستیاناس ہوتا ہے، اور کفار مکہ کی سازشیں، ایک مکڑی کے ذریعہ ناکام ہوتی ہیں۔

البتہ اس بارے میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب شب ہجرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اپنی جان خوشی خوشی پیغمبر اکرم پر فدا کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

"( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله والله روٴف بالعباد ) " (بقرہ/ ۲۰۷)

آیت ۳۱

( وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ اِنْ هٰذَآ اَلَّا ٓ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ )

ترجمہ۔ اور جب ان پر ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیا ہے، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس قرآن کی طرح کہہ سکتے ہیں، یہ تو پہلے لوگوں کے افسانوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

چند نکات:

سابقہ آیت میں پیغمبر اکرم کو قتل کرنے کے بارے میں دشمن کے قتل کے منصوبے کی بات ہو رہی تھی اور اس آیت میں دشمن کی طرف سے ان کے مکتب اور قرآن کو سبک کرنے کی گفتگو ہو رہی ہے۔

"اساطیر" جمع ہے "اسطورہ" کی جس کے معنی ہیں خرافاتی اور خیالی قصے کہانیاں،

بعثت سے پہلے " نضر بن حارث" ایران آیا تھا اور یہاں سے اس نے رستم اور اسفند یار کے قصے یاد کر لئے تھے، جب حجاز واپس گیا تو لوگوں سے کہنے لگا: "میں بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح قصے کہانیاں بیان کر سکتا ہوں" (تفسیر آلوسی، مجمع البیان، فی ظلال القرآن)

پیام:

۱ ۔ عوام فریبی، حقارت اور سبک سمجھنا دشمن کے حربوں میں شامل ہیں۔( لو نشأ لقلنا مثل هذا )

۲ ۔ دشمن ڈھول کا پول ہوتے ہیں وہ بلند بانگ دعوتے کرتے ہیں( لقلنا مثل هذا ) لیکن عملی میدان میں قرآن جیسی کتاب لانے سے عاجز ہیں۔

۳ ۔ قدیم الایام سے مومنین کو "قدامت پرستی" کی تہمتوں سے متہم کیا جاتا رہا ہے۔( اساطیر الاولین )

آیت ۳۲

( وَ اِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ اِنْ کَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ )

ترجمہ۔ اور (اس وقت کو یاد کرو) جب انہوں نے (مخالفین نے دعا کے ہاتھ اٹھا کر) کہا: خداوندا! اگر یہ (اسلام اور قرآن) حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا دردناک عذاب ہم پر نازل کر،

چند نکات:

اس قسم کی نفرین یا تو ان کے شدید تعصب اور سخت ہٹ دھرمی کی بنا پر ہوتی ہے جو کہ اپنی راہوں کو حق اور اسلام کو باطل سمجھتے تھے۔ یا پھر عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کہ اپنے لئے بددعا کریں تاکہ سادہ لوح عوام کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اسلام (نعوذباللہ) باطل ہے۔

جب میدان غدیرخم میں پیغمبر خدا نے اللہ کے حکم سے علی بن ابی طالب کو امامت کے لئے منصوب کرکے "من کنت مولاه کے ذریعہ اس کا اعلان فرمایا تو نعمان بن حارث جو کہ ایک منافق شخص تھا، آنحصرت صلی اللہ علییہ و آلہ وسلم کے پاس آ کر گستاخانہ لہجے میں کہنے لگا: تونے ہمیں توحید، نبوت، جہاد، حج، روزے۔ نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہم نے قبول کیا، اب اس جوان کو بھی ہمارے لئے امام مقرر کر دیا؟ اس پر آنحضرت نے فرمایا: "یہ خدا کے حکم سے تھا" اس نے غصے میں پاگل ہو کر اپنے لئے بددعا کی اور اسی آیت کے الفاظ سے اقتباس کیا۔ (الغدیر جلد اول ص ۲۳۹ تا ص ۲۶۶ ۔ منقول از ۳۰ علمائے اہلسنت)

پیام:

۱ ۔ دشمن اپنے آپ کو اہلِ حق منوانے کے لئے ہو سکتا ہے کہ اپنے اوپر لعنتیں بھی بھیجنا شروع کر دے۔

آیت ۳۳

( وَ مَا کَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْط وَمَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) جب تک تم ان لوگوں کے درمیان موجود ہو خدا انہیں عذاب نہیں دے گا اور جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے پھر بھی اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں ہے۔

دو نکات:

عذاب کی نفی سے مراد پیغمبر گرامی اسلام کے وجود مبارک کی وجہ سے مسلمانوں سے اس طرح کے عمومی عذاب اٹھا لئے گئے جن سے سابقہ اقوام ان سے دوچار ہوا کرتی تھیں، ورنہ انفرادی طور پر بہت سے افراد خصوصی مواقع پر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے ہیں۔

احادیث شریفہ میں ہے کہ خداوند عالم بعض پاک دل افراد اور علمائے ربانی کی وجہ سے بھی لوگوں کے سروں سے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود گرامی اہل زمین کے لئے امان ہے( وانت فیهم ) ۱۸

۲ ۔ استغفار، بلاؤں کو روک دیتی ہے۔( وهم یستغفرون ) ۱۸- A

آیت ۳۴

( وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُوْآ اَوْلِیَآءَ هط اِنْ اَوْلِیَآوٴُهٓ اِلَّا الْمُُتَّقُوْنَ وَٰلکِنَّ اَکْثَرَ هُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اور کیوں نہ خدا انہیں عذاب میں مبتلا کرے حالانکہ وہ لوگوں کو مسجد الحرام سے روکتے ہیں جبکہ وہ اس جگہ کے سرپرست بھی نہیں ہیں، متقی اور پرہیزگار لوگوں کے علاوہ کسی اور کو وہاں کی تولیت اور سرپرستی کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔

ایک نکتہ:

سابقہ آیت میں یہ بات ہو رہی تھی کہ لوگوں کے درمیان پیغمبر اکرم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارک اور ان کی استغفار کی وجہ سے قوم عاد و ثمود پر نازل ہونے والے عذابوں جیسے آسمانی عذاب اٹھا لئے گئے ہیں۔ اور اس آیت میں ان کو ملنے والے عذاب کی بات ہو رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس عذاب سے مراد دنیوی عذاب اور زمین پر جنگ ہو۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ عذاب کے مستحق تو ہیں لیکن یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر کی وجہ سے انہیں عذاب نہیں کرتا۔ یا یہ کہ انہیں دنیا میں عذاب نہیں دیا جاتا لیکن آخرت کاعذاب ان سے کبھی نہیں ٹل سکے گا۔ (از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ جو لوگوں کو مسجدالحرام میں جانے سے روکتے ہیں انہیں عذاب الٰہی کا منتظر ہونا چاہئے۔( وما لهم الایعذبهم… ) ۱۹

۲ ۔ جس گھر کی تولیت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں میں رہی ہو اور جس کی بنیادیں تقویٰ پر رکھی گئی ہوں اس کی تولیت غیرمتقی افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہونی چاہئے۔( ان اولیائه الاالمتقون )

آیت ۳۵

( وَ مَا کَانَ صَلاَ تُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصْدِیَةًط فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ )

ترجمہ۔ بیت اللہ (خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (دعا اور) نماز سیٹیوں اور تالیوں کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی۔ پس تم اپنے کفر کی وجہ سے عذاب کو چکھو۔

ایک نکتہ:

"مکاء" کے معنی ہیں سیٹی بجانا اور "تصدیہ" کے معنی ہیں تالی بجانا۔ مشرکین اس لئے سیٹیاں بجاتے تھے تاکہ خانہ کعبہ کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو باور کرا سکیں کہ یاترا کے لئے آئے ہوئے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ تاریخی طور پر مذہبی مراسم، تحریف سے دوچار چلی آ رہی ہیں( صلوٰتهم…مکاء )

۲ ۔ بعض اوقات مقدس ترین مرکز، خرافات کا بالاترین محور بن جاتا ہے۔

۳ ۔ اس آیت میں عذاب کا مصداق، مشرکین کی جنگ بدر میں شکست ہے۔( فذوقواالعذاب ) ۲۰

(یاد رہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اجلاسوں اور میٹنگوں میں صلوات پڑھنے کی بجائے تالیاں بجانا اسی دور جاہلیت کی ایک تبدیل شدہ صورت ہے جبکہ لوگ دعا و نماز کی بجائے سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔)

آیت ۳۶

( اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِط فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْْنُ ۵ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اپنے اموال کو اس لئے خرچ کرتے ہیں تاکہ خدا کی راہ سے (لوگوں کو) روکیں، پس وہ آئندہ بھی اس قسم کے خرچ کرتے رہیں گے (پھر ان کا یہ خرچ شدہ مال) ان کے لئے حسرت کا سبب بن جائے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے۔ اور جو لوگ کافر ہو چکے ہیں وہ جہنم کی طرف جمع کرکے لائے جائیں گے۔

ایک نکتہ:

منقول ہے کہ یہ آیت کفار مکہ کی جنگ بدر کے لئے سرمایہ کاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کے تحت انہوں نے ایک عظیم بجٹ جنگ کے لئے مخصوص کر دیا تھا، لیکن آیت کی عمومیت ان ہر قسم کی سرمایہ کاریوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جو دین اسلام سے مقابلہ اور نبردآزمائی کے لئے مخصوص کی جاتی ہیں۔ (جیسا کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے شیطان بزرگ امریکہ نے ایران کے اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کے لئے کئی ملین ڈالر کابجٹ مخصوص کر لیا ہے۔ از مترجم)

پیام:

۱ ۔ کفار تو اپنے ناپاک مقاصد کے لئے اپنا سرمایہ خرچ کریں لیکن مسلمان اپنے مقدس دین کے مقاصد کے لئے خرچ نہ کریں اور بخل سے کام لیں، کیا تعجب کی بات نہیں ہے؟

۲ ۔ جو مال و دولت، باطل کی راہ میں خرچ ہو گا وہ موجب حسرت بنے گا اور جو اس قدر خرچ کرکے مومنین کے مقابلے میں آئیں گے شکست سے دوچار ہوں گے۔

۳ ۔ وحی کے ذریعہ پیغمبر اکرم غیب کی خبر دے رہے ہیں کہ آئندہ بھی ایسے لوگ اسلام کے خلاف سرمایہ کاری کریں گے( فسینفقونها )

(از مترجم۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے دور حاضر کی شیطانی سپر طاقت امریکہ "نیو ورلڈ آرڈر" کے تحت عالم اسلام کو زک پہنچانے کی غرض سے کئی ملین ڈالر خرچ کر رہی ہے، یہ اسی شیطانی منصوبے کا تسلسل ہے جس کی پیشین گوئی اس آیت میں کی گئی ہے)

۴ ۔ کفار کی کوششوں کی سزا صرف دنیوی شکست ہی نہیں، انہیں آخرت میں عذاب بھی ہو گا( یغلبون…جهنم )

۵ ۔ کفر، سقوط و پستی اور جہنم میں جانے کا موجب ہوتا ہے۔

۶ ۔ مومن چونکہ خدا کی رضا کے لئے کام کرتا ہے اور اس کی خوشنودی کی خاطر سرمایہ خرچ کرتا ہے اگر اسے بظاہر کوئی نتیجہ نہ بھی ملے پھر بھی اس پر حسرت نہیں کرتا کیونکہ خداوند عالم اسے اس کا اجر ضرور عطا کرے گا۔

۷ ۔ "الذین کفروا" کے جملے کا تکرار شاید اس لئے ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والے بعض کفار بعد میں مسلمان ہو جاتے ہیں جو اپنے خرچ شدہ مال پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے کافر اپنے کفر پر باقی رہتے ہیں اور جہنم کا ایندھن بنتے ہیں اور جہنم ایسے کافروں کے لئے ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں۔

آیت ۳۷

( لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَه عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْ کُمَه جَمِیْعًا فَیَجْعَلَه فِیْ جَهَنَّمَط اُولٰٓئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ )

ترجمہ۔ (یہ حسرت اور شکست) اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ (اس جہان اور اس جہان میں) ناپاک لوگوں کو پاک و پاکیزہ لوگوں سے جدا کر دے اور ناپاک اور پلید لوگوں کو آپس میں ملا دے، اور باہم یکجا کرکے انہیں جہنم میں بھیج دے، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

ایک نکتہ:

"یرکمہ" کا کلمہ "رکم" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کئی چیزوں کو ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ رکھنا۔

پیام:

۱ ۔ باہمی تضادات، حدگیری اور حق و باطل کی جنگ کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اس سے حوصلوں کا، مقاصد کا، اعمال کا پائیداری کا اور سازشوں کا پتہ چلتا ہے اور انسان کے جوہر کھلتے ہیں۔( لیمیز اللّٰه )

۲ ۔ حق اور باطل کے طرفداروں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ابتدا ہی سے خدا کا کام چلا آ رہا ہے( لیمیز اللّٰه )

۳ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام ناپاک لوگوں کو جمع کرے گا اور سب کو اکٹھا واصل جہنم کرے گا( فیرکمه جمیعا )

۴ ۔ جگہ کی تنگی، دباؤ اور ایک دوسرے پر گرے پڑنا، جہنمیوں کی خصوصیات میں شامل ہے، اگرچہ دوزخ بہت وسیع ہے جو بھرنے میں بھی نہیں آئے گی بلکہ مسلسل "ھل من مزید" کی رٹ لگاتی رہے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ خوراک کی طالب ہو گی لیکن دوزخی ہمیشہ دباؤ اور جگہ کی کمی کی شکایت کریں گے۔ بالکل ویسے جیسے ایک بہت بڑی دیوار ہو جس میں بہت سی میخوں کی گنجائش ہو، لیکن ہر ایک میخ تنگی میں گھٹی ہوئی ہوتی ہے۔

آیت ۳۸

( قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَج وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کفار سے کہہ دیجئے کہ اگر (گمراہی اور ناشائستہ افعال سے) باز آ جائیں تو ان کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگر (اپنی سابق کارستانیوں کی طرف) پلٹ جائیں تو خدائی طریقہ کار جو گزشتہ لوگوں کے ساتھ چلا آ رہا ہے ان کے بارے میں بھی جاری ہو گا۔

پیام:

۱ ۔ مسلمان ہونا، سابقہ گناہوں او رخلاف ورزیوں کو مٹا دیتا ہے( ان ینتهوایغفِرلهم ما قد سلف ) ۲۱

۲ ۔ اسلام میں ہمیشہ توبہ اور اصلاح کی راہیں کھلی ہیں اور اسلام کبھی بند گلی میں محدود نہیں ہوتا ۔( ان ینتهوا )

۳ ۔ فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھا جائے کہ افراد کی موجود ہ حالت کیا ہے ؟ سابقہ حالت کو نہیں دیکھا جائے گا( ان ینتهوا- )

۴ ۔ تشویق کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی ہوتی ہے( ان ینتهوا، ان یعودوا )

۵ ۔ امید کا دروازہ کھلا رکھنے سے کسی کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئیے کہ کسی قسم کی کمزوری کی وجہ سے مجرمین کے لیے ایسا کیا گیاہے۔( ان ینتهوا ان یعودوا )

۶ ۔ لوگوں کو سوچنے کا موقع ، توبہ اور نظرثانی کی مہلت دینی چاہئیے( ان ینتهوا-- )

۷ ۔ پہلے تشویق وترغیب او راتمام حجت پھر دھمکی ، سختی اور دباؤ( ان ینتهوا، ان یعودوا )

۸ ۔ کافر اور زندیق کی توبہ بھی قابل قبول ہے ۔( قل للذین کفروا ان ینتهوا )

۹ ۔ اسلام جنگ کا خواہاں نہیں بلکہ اصلاح طلب دین ہے( ان ینتهوا یغفرلهم )

۱۰ ۔ اللہ کے عادلانہ اور حکیمانہ قوانین ہر دور میں ہر ایک کے لئے یکساں اور ناقابل تبدیلی ہیں( مضت سنت الاولین )

۱۱ سابقہ امتوں میں خدائی طریقہ کار یہ رہا ہے کہ خدانے انبیاء کو ہی غلبہ عطا فرمایاہے ۔ ۲۲

آیت ۳۹

( وَقَاتِلُوْ هُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّه لِلّٰهِج فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )

ترجمہ۔ اور ان (دشمنوں ) کے ساتھ اتنی جنگ کرو کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہ جائے ، اور دین سارے کا سارااللہ کا ہوجائے ، پس اگر ان لوگوں نے (اپنے کفرسے ) دست کشی اختیار کر لی تو خداوند بھی ان کے کارناموں کو جانتا ہے۔

دونکات:

۔ اسلام میں جنگ کشور کشائی کے لیے نہیں بلکہ دین اسلام کی وسعت وہمہ گیری اور فتنوں سے مقابلے کے لیے ہے ۔

۔ "فتنہ " کے وسیع معنی ہیں اور دباؤ پر مبنی ہر طرح کے اعمال کو بھی شامل ہے۔ اور قرآن مجید میں "شرک " کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ اور یہ شا ید اس لیے ہے کہ مشرکین کی طرف سے انسانی افکار ‘ معاشرے اورحق طلب افراد پر مختلف قسم کی حد بندیاں اور طرح طرح کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں ۔ یا پھر اس لئے کہ شرک چونکہ ابدی عذاب کا موجب ہوتا ہے اسی لئے مومنین اور پاک فطرت لوگوں پر اس کا مسلط کرنا بھی ایک فتنہ ہے۔ (از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ اسلام میں جنگ کا مقصد حق کی دعوت کے لئے فتنے او رکفار کے تسلط کا خاتمہ اور صاف ستھری فضا قائم کرے۔ ۲۳

۲ ۔ تاریخی طور پر جب تک کفار فتنہ پر دازی میں مشغول رہیں گے ، فتنے کے قلع قمع کرنے کا حکم بھی موجود رہے گا۔( وقا تلوهم حتی لا تکون فتنهته )

۳ ۔ یہ آیت دین میں آزادی اور "لا اکرہ فی الدین " کے منافی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ طاغوت اور فتنے کو جڑ سے اکھیڑ پھینکا جائے تا کہ آزادی کے ساتھ اسلام کی اختیار کرنے کی فضا ساز گار ہو۔

۴ ۔ جب بھی دشمن جنگ سے ہاتھ اٹھا لے اس کے اسی وقت کو مطابق مناسب سلوک کیا جائے۔

آیت ۴۰

( وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلِمُوْا اِنَّ اللّٰهَ مَوْلَکُمْط نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ )

ترجمہ۔ اور اگر (پھر بھی ) وہ رو گردانی اور سرپیچی کریں تو معلوم کر لو کہ خدا تمہارا مولا اور سر پرست ہے کس قدر بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے ۔

پیام:

۱ ۔ اگر دشمن ، فتنہ پر دازی سے باز نہ آئے تو تم مومنوں کو ہر گز گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لئے کہ تمہار ا دمدگار اللہ ہے ۔

۲ ۔ فوجی مسائل پر عملدر آور کراتے او ر سیاسی منصوبہ کرتے وقت تمام اطراف پر نگاہ ہونی چاہئیے( فان تولوا ) اور درفان انتہوا"

۳ ۔ تم اپنے فرائض ادا کرتے جاؤ اگر دوسرے اس پر عمل نہیں کرتے یا روگردانی کرتے ہیں تو نہ گھبراؤ خدا تمہارا یارویاو ر ہے ۔

۴ ۔ خدا کی ولدیت ، سر پرستی اور مدد و نصرت سے کبھی غفلت نہ بر تو ۔( فاعلموا )

۵ ۔ اللہ تعالی اور اس کے لطف و کرم کی یاد مومنین کے دلوں کو مشکل وقت اور ہرسازش کے موقع پر تفویت عطا کرتی اور سکون بخشتی ہے۔

۶ ۔ خداوند عالم بہترین مولا ہے کیونکہ نہ تو ہمیں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے اور نہ ہی فراموش کرتا ہے ۔ نہ ہمیں اپنے کسی ذاتی مفاد کے لئے چاہتا ہے او رنہ ہی کسی کا حق ضائع کرتا ہے ۔( نعم المولی ) ٰ)

۷ ۔ ہر یارویاور سے خدا کی مدد و نصرت بالا تر ہے( نعم النصیر )

آیت ۴۱

( وَاعْلَمُوْآ اَنَّماَ غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمْسَه وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلَ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِط وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ )

ترجمہ۔ اور جان لو کہ جو بھی غنیمت حاصل کرو تو یقینا اس کا خمس (پانچواں حصہ ) خدا ، رسول خدا اس کے قرابتداروں (اہلبیت) یتیموں ، بے نواؤں اور مسافروں کے لئے ہے ، اگرتم خدا اور اس چیز پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر حق اور باطل کی جدائی کے دن نازل کی ، جس (جنگ بدر کے) دن دو گروہ ایماندار اور بے ایمان آپس میں گھتم گتھا ہو گئے۔ اور اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

چند نکات :

۔ شیعی نقطہ نظر اور روایات کی رو سے اس آیت میں "غنیمت " جنگی غنائم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ بلکہ ہر طرح کی آمدنی کو شامل ہے خواہ وہ معدنیات ہوں ، غوطہ زنی ہو، تجارت ہو یا کوئی اور ذریعہ آمدنی۔ اور جنگ بدر کے موقع پر آیت کا نزول اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے مراد صرف جنگی غنیمتیں ہیں۔

۔ اس سورت کی سب سے پہلی آیت میں "انفال کو خدا اور رسول کا مال بتایا گیاہے او راس آیت میں مال غنیمت کے صرف پانچویں حصے کو اللہ اور رسول اللہ کا مال بتایا گیا ہے۔

۔ اگر غنیمت سے مراد "جنگی غنیمت "ہی لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خمس کا ایک موقع اور محل اسی آیت میں ہے اور دیگر موارد روایات میں بیان ہوئے ہیں ۔

۔" ذوی القربیٰ " سے مراد بہت سی شیعی روایات اور بعض اہلسنت روایات کے مطابق پیغمبر اسلام کے تمام رشتہ دار نہیں ہیں بلکہ صرف ائمہ اہلبیت ہی ہیں جن کے پاس امت اسلامیہ کی قیادت اور رہبر ی ہے ۔ اور خمس اسلامی حکومت اور ا س کے رہبر سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پیغمبر کے سارے رشتہ داروں سے۔

۔ خمس کا ایک اور مصرف سادات بنی ہاشم میں سے غریب و مسکین او رمسافر افراد ہیں۔ کیونکہ غریب سادات پر غیر سیدوں کی زکوة حرام ہے لہذا خمس کے ذریعہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

۔ روایات جو کہ ۔۔۔ذوی القربی" سے مراد معصوم امام سمجھتی ہیں ان کے علاوہ ان کا اللہ اور رسول کے ساتھ ہی ساتھ ذکر ہونا اور خاص طور پرحرف "لام" کے ساتھ آنا ا س بات کی دلیل ہے کہ ذوی القربےٰ سے مراد ائمہ اطہار ہیں جو خدا اور ا سکے رسول کے ساتھ ساتھ مذکورہیں۔

پیام:

۱ ۔ اب جب کہ تم جنگ بدر میں خدا کی مدد او رنصرت سے کامیاب ہو گئے ہو لہذا غنیمت کے ما ل سے خمس کی ادائیگی کے لئے ٹال مٹول سے کام نہ لو۔( ان کنتم آمنتم--قدیر )

۲ ۔ مال غنیمت کا خمس رسالت اور مقام حکومت کے لئے ہے ۔

۳ ۔ حکومت او ر سر براہ حکومت راہبر اور قائد کو تبلیغ اور رسالت کے لئے اموال کی ضرورت ہوتی ہے( لله وللرسول )

۴ ۔ خمس واجب ہے خواہ آمدنی او رغنیمت کم ہی کیوں نہ ہوں ،( من شییٴ )

۵ ۔ ایمان ‘ ایثار کا موجب ہوتاہے۔( لله خمسه-- ان کنتم آمنتم )

۶ ۔ مالی قربانی اس حد تک مشکل ہوتی ہے کہ بعض موقعوں پر مجاہدین کیلئے بھی دشوار ہو جاتی ہے( ان کنتم - )

۷ ۔ غریب طبقہ اور حکومت ، لوگوں کے ۲۰ فیصد اموال کے مالک ہیں ۔( لله خمسه و -- )

۸ ۔ خداوند عالم کو مال کی ضرورت نہیں ، آیت میں خدا کے سہم (حصے) کا ذکر خدا اور رسول کی حاکمیت اور ولایت کے لئے ہے۔

۹ ۔ خدا کا حصہ کلمہء حق کی بلندی ، خانہ کعبہ ، دینی تبلیغات اور قانون الہٰی کی حاکمیت اور سر بلندی کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔

۰ ۔ فقرو فاقہ اور محرومیت کو دور کرنا اسلام کے پروگراموں میں شامل ہے لہذا جہاد او رغنیمت کے ثمرات سے فقراء اور مساکین کو بہرہ ور کیاجانا چاہئیے ۔

۱۱ ۔ ایمان کامل کی نشانی یہ ہے کہ خدا کے تمام قوانین کے آگے سر تسلیم خم کر دیا جائے ، صرف عبادات اور جنگ ہی میں سر کو نہ جھکایا جائے۔( ان کنتم---- )

۱۲ ۔ جنگ کا دن ، سچوں کا جھوٹوں سے جدا ہونے کا دن ہوتا ہے( یوم الفرقان )

۱۳ ۔ جنگ بدر میں خدائی امدادوں نے حقانیت اسلام کوروشن کر دیا۔

۱۴ ۔ جس طرح "غرامت " ہر قسم کے نقصان کو کہا جاتا ہے صرف جنگی نقصان ہی کو نہیں کہا جاتا ۔ ۲۴ اسی طرح "غنیمت " بھی ہر گونہ منافع اور فائدوں کو کہا جاتا ہے صرف جنگی مال کو نہیں ۔

۱۵ ۔ خدا کا سہم (حصہ) رسول خدا کے پاس ہوتا ہے او ررسول خدا کا سہم (حصہ) امام علیہ اسلام کے اختیار میں ہوتا ہے ۔ (روایات کی رو سے ۔ تفسیر صافی )

۔ آیت میں مذکورسہم میں فیصلہ کرنا امام کا کام ہوتا ہے (حضرت امام رضاعلیہ السلام کا تفسیر صافی )

۔ معاشرہ کے غریب اور محروم لوگوں کی شان بلند کرنے کے لئے ان کا نام اللہ او ررسول اللہ کے ناموں کے ساتھ ہی مذکور ہوا ہے