تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62831
ڈاؤنلوڈ: 5384

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62831 / ڈاؤنلوڈ: 5384
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۴۲

( اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَة ِالدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰی وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْط وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ وَلَکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا لِّیَهْلِکَ مَنْ هَلَکَ عَنْم بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰ مَنْ حَیَّ عَنْم بَیِّنَةٍط وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) لا

ترجمہ ۔ (وہ وقت یاد کرو)جب تم نچلی جانب تھے او روہ (دشمن) اوپر کی طرف (اور تم پر برتری رکھتے ) تھے ا ور( ابو سفیان )کا لشکر تم سے بہت نیچے تھا۔ اگر تم جنگ کے لئے پہلے کوئی وعدہ کر لیتے تو یقینا اس میں اختلا ف کرتے(کیونکہ ایک دشمن تو تمہارے اوپر تھا اورایک نشیب میں اور تم دو مخالف صفوں کے درمیان ہوتے اور ہر گز ایسی جنگ میں شرکت نہ کرتے ) لیکن خدا ہونے والے امر کا فیصلہ کرنا چاہتا تھا تا کہ جو ہلاک ہو تو وہ بھی دلیل اور آگاہی کے ساتھ ہلاک ہو اور جو حقیقی زندگی چاہتا ہے تو وہ بھی دلیل اور حجت کے ساتھ زندہ رہے اور خدا یقینا سننے اور جاننے والا ہے۔

دو نکات :

۔"عدوہ" کا لفظ "عدو" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں حد سے بڑھ جانا ۔ ہر چیز کے حاشیہ اور اطراف کو جو درمیانی حد سے بڑھ چکی ہو اسے بھی "عدوہ" کہتے ہیں ۔ اور اس آیت میں "عدوہ" سے مراد اطراف و جوانب ہے۔ "دنیا" کا لفظ "دنو " سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں نیچے او رنزدیک تر۔ جبکہ "قصویٰ" اور اقصیٰ " کے معنی ہیں "دور تر"۔

۔ جنگ بدر میں کفار کو صرف اسلحے ، افرادی قوت اور آمادگی کے لحاظ ہی سے برتری حاصل نہیں تھی ، بلکہ لشکر کے پڑاؤ کے اعتبار سے بھی علاقائی فوقیت رکھتے تھے۔ اور اس طرح جگہ کا انتخاب کیا ہوا تھا کہ بوقت ضرورت بحیرہ احمر کی طرف بھاگ کر جا سکتے تھے ۔ لیکن خداوند عالم نے کفار اور ان کے اموال ان کے قبضہ میں دینے کے لئے ، مسلمانوں کو کفار کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اور جنگ کے سوا چارہ کار نہ رہا۔ اور خد اکے لطف و کرم نے انہیں سرفراز اور کامیاب و کامران کر دیا۔

سورت کی ابتدا سے ایک مرتبہ پھر جنگ بدر پر ایک نگاہ

امدادالٰہی کی بہتر پہچان

۱ ۔ اے مسلمانو! تم جنگ کے لئے نہیں مال ہتھیانے کی فکر میں تھے "( تودون ان غیرذات الشوکة تکون لکم ) " (آیت ۷)

۲ ۔ جب جنگ شروع ہوئی تو تم پریشان ہو گئے۔ "( فریقامن المومنین لکارهون ) " (آیت ۵)

۳ ۔ موت سے ڈر رہے تھے۔ "( کانمایساقون الی الموت ) " (آیت ۶)

۴ ۔ پریشان ہو کر نصرت طلبی کر رہے تھے"( تستغیثون ربکم ) " (آیت ۹)

۵ ۔ حملے کی رات شیطان نے تم پر اپنی پلیدی (جنابت) مسلط کر دی "( رجز الشیطان ) " (آیت ۱۱)

۶ ۔ فرمانروائے لشکر کی مکمل اطاعت نہیں کی "( قالو ا سمعنا و هم لا یسمعون ) " (آیت ۲۱)

۷ ۔ تعداد میں کم تھے اور دشمن کا شکار ہونے سے پریشان تھے ۔ "( انتم قلیل تخافوان یتخطفکم ) " (آیت ۲۶)

۸ ۔ تم میں سے بعض لوگوں نے تو ابتداء ہی سے خیانت کا ارتکاب کیا تھا "( ابولبابه کا ماجرا ) " (آیت ۲۷)

۹ ۔ تمہارا قائد اور رہبر دشمن کی سازشوں او ردھمکیوں سے دو چار ہو چکا تھا"( یمکر بک ) " (آیت ۳۰)

۱۰ ۔ تم پیاسے تھے اور پھر ساتھ ہی جنب بھی ہو گئے ، تمہارے پاؤں کے نیچے کی ریت بھی نرم تھی۔ ہم نے بارش برسائی۔

پیام: (آیت ۴۲)

۱ ۔ اگر جنگ کا مسئلہ تمہارے اختیار میں ہو تا تو ان مشکلات کی وجہ سے کسی بات پر اتفاق نہ کر پاتے( لاختلفتم )

۲ ۔ جب خدا چاہتا ہے تو کمزوری کے تمام اسباب بر طرف کر دیتا ہے ۔( لیقضی الله )

۳ ۔ ایسی ہر طرح کی امداد آجانے کے باوجود بھی جو ایمان نہیں لایا وہ بطور آگاہ ہلاک ہو گیا اور جو ایمان لے آیا وہ سوچ سمجھ کر اور آگاہ ہو کر ایمان لے آیا( لیهلک---- عن بینته )

۴ ۔ جلدی میں فیصلہ نہ کر دیا کرو، ابتدا میں تو جنگ تمہیں پسند نہیں تھی لیکن بعد میں اس کی بہتری سے باخبر ہوئے۔

۵ ۔ اللہ تعالیٰ تمام منصوبے نا کام بنا دیتا ہے او رکیفیت کو تبدیل کر دیتا ہے ، اور یہیں سے خدا کو پہچانا جا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنگ بدرکے دن کو۔۔ گزشتہ آیت میں۔۔۔ "فرقان کا دن" کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس دن اس قدر غیبی امدادیں نازل ہوئیں کہ سب لوگوں پر حق واضح ہو گیا ، لیکن اس کے باوجود جس نے بے توجہی سے کام لیا او راس پر ایمان نہیں لایا تو یہ اس کی ہٹ دھرمی ، عناد او ر ضد کا نتیجہ تھا۔( لیهلک من هلک عن بینته ) ۔

آیت ۴۳

( اِذْ یُرِیْکَهُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًاط وَلَوْ اَرٰکَهُمْ کَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَٰلکِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَط اِنَّه عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )

ترجمہ۔ اے پیغمبر! اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں دشمن کی تعداد کم کرکے دکھلائی ، اور اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو تمہیں زیادہ دکھلاتا تو تم سست ہو جاتے اور جنگ کے معاملہ میں لڑائی جھگڑ ا کرتے لیکن اللہ تعالی نے (تمہیں اس سے) محفوظ رکھا۔ بے شک اللہ تعالیٰ سینے کے اندر کی چیزوں کو جانتا ہے

چند نکات:

۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر اپنے لطف و کرم اور امداد و نصرت کے سلسلے میں مسلمانوں کی نگاہوں میں کفار کی تعداد کم کر کے دکھانے کی بات کر رہا ہے۔ کہ ایک نہیں کئی مرحلوں پر ایسا ہوا ہے ۔ ایک تو خود پیغمبراکرم نے خواب میں ان کی تعداد کو بہت ہی کم دیکھا، او ریہ خواب مسلمانوں کو بتایا جس سے ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔

دوسری صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی نگاہوں میں مسلمانوں کی تعداد کو کم کرکے دکھایا۔

تاکہ اس طرح سے وہ مکہ سے تازہ دم لشکر نہ منگوائیں۔ (یہ بعد کی آیت میں ہے )

۔ حضرت رسول خد ا کی عمہ محترمہ جناب عاتکہ نے جنگ بدرسے تین دن پہلے مکہ میں خواب دیکھاکہ:

کوئی شخص بلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ اے مکہ والو! اپنی مقتل کی طرف جانے میں جلدی کرو ، اتنے میں ایک پتھر کے ٹکڑے کو ہلایا جس سے اس کے کئی ٹکڑے ہو گئے او ر ایک ایک ٹکڑاکر کے ایک گھر میں جا گرا جس سے پورے شہر سے خون جاری ہو گیا"۔

چنانچہ یہ خواب ہر ایک کی زبان پر جاری ہو گیا جس سے کفار کے دل پر وحشت طاری ہو گئی، اور ا سطرح سے اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں مسلمانوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ (تفسیر نمونہ)

۔ اگرچہ انبیاء علیہم السلام کا خواب وحی کا پرتو ہو ا کرتا ہے، لیکن پیغمبر اسلام نے خواب میں کفار کی بھاری تعداد کو بہت کم تعداد میں ملاحظہ فرمایا تو یہ ان کفار کی باطنی کیفیت تھی جو ان کی ناتوانی اور کمزوری پر دلالت کر رہی تھی جو تعداد کی صور ت میں مجسم ہو کر دکھا ئی دی ، ارشاد رب العزت ہے"( تحسبهم جمیعا و قلوبهم شی ) " (حشر ۱۴)

پیام:

۱ ۔ خواب اللہ تعالیٰ سے امداد حاصل کرنے ، حوصلہ پانے او راس کی ذات کے ساتھ ربط پیدا کر نے کا ایک راستہ ہے( فی مناماک ) ۲۵

۲ ۔ خواب کی محیر العقول دنیا کی زبان اور نشانی ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ دشمن کی کمزوری اور شکست ، افرادی تعداد کی کمی کی صورت میں نظر آئی اگرچہ ان کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی۔

۳ ۔ اطلاعات ، اعداد و شمار وغیرہ یا جس سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو جائے یا ان کے حوصلے پست ہو جائیں ایسی چیزوں کو ظاہر کرنا ، خصوصاً محاذ جنگ میں ایسی چیزوں کا فاش کرنا ممنوع ہے( ولوا راکهم کثیرالفشلتم )

۴ ۔ خداوند عالم سخت ترین بحرانی لمحات میں بھی مومنین کی حفاظت فرماتا ہے۔ ۲۶

آیت ۴۴

( وَ اِذْ یُرِیْکُمُوْهُمْ اِذِالْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًاط وَ اِلَی اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ )

ترجمہ۔ اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب تم دشمن سے دوبدو ہوئے، اس وقت خدا نے دشمن کو تمہاری نگاہ میں کم کرکے دکھایا (تاکہ تم پوری جرأت کے ساتھ ان پر حملہ کرو) اور تمہیں بھی ان کی نظروں میں کم کرکے دکھایا (تاکہ کفار مکہ سے کمک کی درخواست نہ کریں) یہ اس لئے تھا تاکہ جو کام ہونا تھا ا للہ تعالیٰ اسے پورا کر دے۔ اور تمام امور خدا کی طرف ہی لوٹائے جائیں گے (اور اس کا ارادہ پورا ہو کر رہے گا)

ایک نکتہ:

جب کفار کی نگاہ مسلمانوں پر پڑی تو انہیں اس قدر کم نظر آئے کہ کہنے لگے "ان کے ساتھ لڑنے کے لئے تو ہم اپنے نوکر غلام ہی بھیجیں گے جو ان کا مقابلہ کریں گے، ہمیں لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (تفسیر صافی) لیکن جونہی جنگ شروع ہوئی تو دوران جنگ ہی انہیں مسلمانوں کی تعداد دوگنی نظر آئی اس پر وہ سخت مرعوب ہو گئے (تفسیر صافی، نمونہ اور المیزان) "( یرونهم مثثلیهم رأی العین ) " (آل عمران/ ۱۳)

پیام:

۱ ۔ اللہ کی مددجنگ سے پہلے بھی مسلمانوں کے شامل حال ہوئی "فی منامک" اور جنگ کے دوران بھی( اذا لقیتم )

۲ ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی امداد کے لئے ولایت تکوینی اور نگاہوں میں تصرف سے کام لیتا ہے( فی اعینکم قلیلا )

۳ ۔ ظاہری حواس سے بہرہ برداری بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔

۴ ۔ اگر کسی کام میں ارادہ خداوندی کارفرما ہو تو تمام رکاوٹیں برطرف ہو جاتی ہیں،( لیقضی الله--- )

یہ کلمہ ایک مرتبہ تو ۴۲ ویں آیت اور ایک مرتبہ یہاں پر ذکر ہوا ہے۔

۵ ۔ کامیابی اور فتح کا دارومدار افرادی قوت اور عددی برتری پر نہیں ہے، مجاہدین کے ایمان و حوصلے اور ارادہ الٰہی پر منحصر ہے۔

آیت ۴۵

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللّٰهَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! جب بھی میدان جنگ میں (دشمن سے) دوبدو ہونے لگو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

ایک نکتہ:

ذکر خد اسے مراد صرف، زبان اور لبوں کے ساتھ ذکر نہیں ہے، بلکہ اس کے لطف و کرم، احسان و مہربانی اور غیبی امدادوں اور وعدوں، عزت و عظمت اور اس کے احکام و فرامین کی یاد بھی مراد ہے۔

پیام:

۱ ۔ میدان جنگ میں ثبات قدمی، پائیداری اور خدا کی یاد ہی جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

۲ ۔ میدان جنگ میں ہمیں حکم ہے کہ ثابت قدم رہیں، لیکن اس بات کی درخواست بھی خدا ہی سے کرنی چاہئے۔ ۲۷( فاثبتوا )

۳ ۔ ثابت قدمی، ایمان کا جزو لازم ہے )( امنوا، فاثبتوا )

۴ ۔ مسلمانوں کے محاذ جنگ کی فضا کو یاد الٰہی سے معمور ہونا چاہئے، اور مشکلات جس قدر زیادہ ہوں گی نیاز اور یاد خدا اسی قدر زیادہ ہو گی۔

۵ ۔ جنگ کے بحران اور محاذ جنگ کے حوادثات میں اگر خدا کی یاد نہ ہو تو اہداف و مقاصد میں انحراف اور اعمال و افعال میں گمراہی کے پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

۶ ۔ محاذ جنگ میں زن و فرزند اور مال ودولت کی یادوں کی بجائے خدا کی یاد کو جاگزین ہونا چاہئے ۲۸( واذکروا الله )

۷ ۔ محاذ جنگ ان مقامات میں سے ہے جہاں انسان کو فلاح اور کامیابی کی سند ملتی ہے( تفلحون )

آیت ۴۶

( وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَه وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْاط اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ )

ترجمہ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نزاع مت کرو کیونکہ اس سے سست ہو جاؤ گے، اور تمہاری ہیبت اور قوت جاتی رہے گی اور صبر کرو کہ اللہ تعالیٰ یقینی طور پر صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

دو نکات:

سابقہ آیت میں فتح اور کامیابی کے دو اہم عوامل "پائیداری" اور "خدا کی یاد" کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس آیت میں دو عوامل "اطاعت" اور "وحدت" کی بات ہو رہی ہے۔

"( ریح ) " (ہوا) قدرت اور شان و شوکت سے کنایہ ہے۔ جیسا کہ ہوا، کشتی کو متحرک رکھتی ہے اور اس کے پرچم کو لہرائے رکھتی ہے جو کہ تمہاری کامیابی و کامرانی اور عزت و عظمت کی علامت ہے، اگر تمہارے اختلاف و انتشار اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے یہ ہوا خالی ہو جائے تو تم ذلیل و خوار اور حقیر ہو جاؤ۔

پیام:

۱ ۔ قانون اور رہبر وحدت کا محور و مرکز ہیں۔

۲ ۔ مسلمانوں کا جہاد مسلمانوں کے رہبر کی قیادت میں اور خدا و رسول (اور رسول کے برحق جانشینوں) کے حکم کے مطابق ہونا چاہئے۔

۳ ۔ محاذ جنگ میں اطاعت اور وحدت کے سلسلے میں ثابت قدم اور پائیدار رہو، اگر کوئی چیز تمہاری مرضی کے خلاف ہو یا تمہاری مرضی کے خلاف کوئی کام ہو تو صبر سے کام لو۔

۴ ۔ عقائد کا اختلاف، تمہارے اعمال و کردار کو کمزور کر دے گا( فتفشلوا )

۵ ۔ باہمی نزاع تمہیں اندر سے کھوکھلا اور باہر سے بے عزت و بے آبرو کر دے گا۔( تفشلوا و تذهب ریحکم )

آیت ۴۷

( وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّرِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِط وَاللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ )

ترجمہ۔ اور ان لوگوں کے مانند نہ بنو جو لوگ سرمستی، خودنمائی، غرور اور ریا کی بنا پر اپنے گھروں سے (محاذ جنگ کی طرف) نکلے ہیں اور خدا کا راستہ لوگوں کے لئے بند کر دیتے ہیں حالانکہ جو کچھ وہ کرتے ہیں خداوند عالم اسے جانتا ہے۔

دو نکات:

جب ابو سفیان کا تجارتی قافلہ مسلمانوں سے بچ کر صحیح سالم مکہ پہنچ گیا تو ابو سفیان نے ابو جہل کو پیغام بھیجا کہ "ہم خیر و عافیت کے ساتھ مکہ پہنچ گئے ہیں، تم لوگ جو کہ ہماری امداد کے لئے گئے ہوئے تھے واپس آ جاؤ! "

ابو جہل نے نہایت مغرورانہ انداز میں کہا: "جب تک ہم مسلمانوں کو سرکوب نہیں کر لیں گے اور اس خوشی میں جام شراب نہیں پی لیں گے اور اپنی قدرت انہیں نہیں دکھا دیں گے واپس نہیں پلٹیں گے" لیکن اللہ کے فضل و کرم سے شکست سے دوچار ہوئے اور خیر سے( --- ) گھر کو آئے۔

اس آیت میں اور اس سے پہلے کی دو آیات میں محاذ جنگ میں کامیابی کے عوامل کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ "ثبات قدم، یاد خدا، رہبر کی اطاعت، اختلافات سے دوری، صبر کی پابندی، غرور، ریا اور دنیا طلبی سے پرہیز"( بطراو رئاء الناس )

پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ سورت زیادہ تر جنگ بدر کے بارے میں ہے اور اس میں فوجی اصول، عسکری تجربے، جنگی غنائم اور فتح و شکست کے اسباب کو بیان کیا گیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ غرور اور ریاکاری، قدرت و طاقت، محاذ جنگ اور لشکرکشی کی آفتیں ہیں( بطرا )

۲ ۔ محاذ جنگ پر روانہ ہوتے وقت اپنی نیت کو خالص کر لیا کرو۔( رئاء الناس ) ۲۹

۳ ۔ اسلامی محاذ جنگ کو زیب و زینت اور دکھاوے اور آرائش کی آلودگی سے پاک ہونا چاہئے۔ (تفسیرالمیزان)

۴ ۔ اسلامی اور غیراسلامی جنگوں کا اصولی فرق ان کے اہداف اور مقاصد میں ہوتا ہے، کیونکہ مسلمانوں کا ہدف عالم سے فتنہ کی بیخ کنی ہے (انفال/ ۳۸) جبکہ دوسروں کا مقصد استعمار، سامراج اور تسلط و اظہار قدرت ہوتا ہے۔( بطرا و رئاء الناس )

آیت ۴۸

( وَ اِذْزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌلَّکُمْج فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّی بَرِیْءٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیٓ اَخَافُ اللّٰهَط وَاللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )

ترجمہ۔ اور اس زمانے کو یاد کرو جب شیطان نے ان (مشرکین) کے کارناموں کو ان کی نظروں میں مزین کرکے دکھایا، اور کہا: آج کے دن لوگوں میں سے کوئی بھی شخص تم پر غالب آنے والا نہیں۔ اور میں بھی تمہارے لئے پناہ ہوں۔ لیکن جونہی دونوں لشکر آپس میں گتھم گتھا ہوئے (اور سپاہ اسلام کی امداد کے لئے فرشتے آ پہنچے) تو شیطان پیچھے ہٹ کر کہنے لگا: میں تم سے بیزار ہوں میں ایسی چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے، میں خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا بہت سخت عذاب دینے والا ہے۔

دو نکات:

اس آیت میں بیان ہونے والی شیطان کی اپنے دوستوں سے گفتگو، ہو سکتا ہے کہ وہی شیطانی وسوسے ہوں جو ان کے دلوں میں پیدا ہوئے یا چونکہ شیطان انسانی قالب میں ڈھل کر اپنے ناپاک مقاصد کو پورا کرتا رہتا ہے لہٰذا اس موقع پر بھی اس نے انسانی شکل میں ان کے دلوں میں وسوسے ڈالے ہوں۔ (اور روایات بھی اس بارے میں موجود ہیں)

روایات کے مطابق جنگ بدر میں شیطان، قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص "سراقہ بن مالک" کی صورت میں مشرکین کے پاس آیا، اور اپنی شکست کے بعد جب کفار و مشرکین مکہ واپس آئے تو اسے کہنے لگے "تو ہماری شکست کا سبب بنا" جبکہ اس نے قسمیں کھائیں کہ " وہ تو مکہ سے باہر گیا ہی نہیں تھا" بعد میں معلوم ہوا کہ شیطان، سراقہ کی شکل میں ان کے پاس آیا انہیں فتح و نصرت کے وعدے دیئے، پھر بھاگ گیا۔

پیام:

۱ ۔ شیطانی فریب کاری کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ برائیوں کو اچھائی کی صورت میں پیش کرتا ہے۔

۲ ۔ شیطان، انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہوتا ہے (روایات کی رو سے)

۳ ۔ شیطان اور شیطان صفت لوگ، دوسرے لوگوں کو فساد برپا کرنے کے لئے مختلف توجیہات کے ذریعے انہیں برائیوں پر اکساتے ہیں۔

۴ ۔ شیطان بے وفا ہے( جارلکم- بریٴ منکم )

۵ ۔ شیاطین فتنے کی آگ تو بھڑکاتے ہیں لیکن خود وارد معرکہ نہیں ہوتے( انی بریٴ )

۶ ۔ خدائی راہوں سے ہٹ کر مراسم اور روابط ہمیشہ ناپائیدار اور ابن الوقتی ہوا کرتے ہیں( انی جار لکم انی بریٴ )

۷ ۔ ایمان، فرشتوں کی حمایت کو اور کفر، شیطان کی حمایت کو اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔( جارلکم )

۸ ۔ غیراللہ پر توکل، انسان کو مشکلات میں پھنسا دیتا ہے۔( انی بریٴ، انی جارلکم )

۹ ۔ شیطان، فرشتوں کی قدرت سے آگاہ ہے( انی اریٰ مالاترون )

آیت ۴۹

( اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّهٰٓؤُ لَآءِ دِیْنُهُمْط وَ مَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )

ترجمہ۔ اس وقت کو یاد کرو جب منافق اور دلوں کے بیمار لوگ کہتے تھے: "ان (مسلمانوں) کو ان کے دین نے دھوکہ دیا ہے" حالانکہ جو شخص خدا پر بھروسہ کرتا ہے تو خدابھی یقیناً ناقابل شکست اور صاحب حکمت ہے۔

دو نکات:

نصرت الٰہی پر عقیدہ نہ رکھنے والے منافقین کو تو یہ تصور تک نہیں تھا کہ مسلمان اپنے تھوڑے سے ہتھیاروں سے فتح حاصل کر لیں گے، اسی لئے وہ کہتے تھے "دین نے ان لوگوں کو دھوکہ دیا ہے"

ہو سکتا ہے "منافقین" سے مراد، مدینہ کے کچھ مسلمان نما افراد ہوں اور "فی قلوبھم مرض" سے مراد، مکہ کے ضعیف الایمان افراد ہوں (تفسیر فخر رازی) اور ممکن ہے منافقین سے مراد مدینہ کے وہ لوگ ہوں جو بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے تھے یا وہ لوگ مراد ہوں جو مکہ میں مسلمان تو ہوئے تھے لیکن پیغمبر کی حمایت اور مسلمانوں کے ساتھ ہجرت سے دست کش ہو گئے تھے۔

پیام:

۱ ۔ منافق لوگ مسلمانوں کو فریب خوردہ سمجھتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ آیا ممکن ہے کہ خالی "اللہ اکبر" کے نعرے کے ساتھ ہر قسم کے جدید اسلحہ کا مقابلہ کیا جائے؟ آیا فقط نعرہ تکبیر سے غیراسلامی طاقتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ دین نے انہیں دھوکہ دیا ہے)( غرهوٴ لآء دینهم )

۲ ۔ خدا پر توکل اور ہے اور غرور کی بات اور ہے۔

۳ ۔ اس قدرت اور طاقت پر بھروسہ کیا جانا چاہئے جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا اور اس کی حمایت بھی حکمت پر مبنی ہے۔( عزیز حکیم )

۴ ۔ جن کے حوصلے پست ہوتے ہیں وہ منافقین کے ہم نوا ہو جاتے ہیں( المنافقون والذین في قلوبهم مرض )

۵ ۔ ایک ہی عمل کے متعلق مختلف نظریئے قائم کئے جا سکتے ہیں کوئی اسے "توکل" سمجھتا ہے اور کوئی "غرور" اور کوئی فریب۔

آیت ۵۰ ، ۵۱

( وَلَوْتَرٰٓی اِذْیَتَوَ فَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْج وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ذٰلِکَ بِمَا قَدَّ مَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیِْدِ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) اس وقت دیکھو جب فرشتے، کافروں کی جانوں کو لے رہے ہوتے ہیں کہ ان کے چہروں پر اور پشت پر ضربیں لگا رہے ہوتے ہیں (اور کہتے ہیں) جلانے والے عذاب کو چکھو۔ یہ تمہارے اس کئے کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھ انجام دے چکے ہیں، ورنہ خدا تو اپنے بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا۔

ایک نکتہ:

قرآن مجید میں کئی بار کفار کی سخت جانکنی کا تذکرہ آیا ہے جن میں سے سورہ محمد/ ۲۷ ، اور سورہ انعام ۹۳ میں بھی یہی چیز مذکور ہے۔

پیام:

۱ ۔ کافروں پر قہر الٰہی کا آغاز، ان کی جانکنی کے لمحہ ہی سے ہو جاتا ہے۔( یضربون… )

۲ ۔ برزخ میں بھی عذاب ہے،( ذوقوا عذاب الحریق )

۳ ۔ خدا کی سزائیں، عدل کی بنیاد پر ہوتی ہیں( بما قدمت… )

آیت ۵۲

( کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْط کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْط اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) تمہارے زمانے کے کافرں کی عادت بھی) فرعون والوں اور ان سے پہلے کے کفار جیسی عادت ہے کہ جنہوں نے (عناد اور دشمنی کی بنا پر) آیات خداوندی کا کفر کیا، تو اللہ نے بھی انہیں ان کے گناہوں کی سزا میں اپنی گرفت میں لے لیا، یقیناً اللہ تعالیٰ طاقتور اور سخت عذاب دینے والا ہے۔

پیام:

۱ ۔ بعض اوقات کفر اور ہٹ دھرمی بعض لوگوں کی عادت اور خصلت ہو جاتی ہے۔( کداْب )

۲ ۔ تمام اقوام خدا کے نزدیک یکساں ہیں اگر گمراہی اور کفر کی راہیں اختیار کریں گی تو سزا پائیں گی( والذین من قبلهم )

۳ ۔ اللہ تعالیٰ کا تو قدیم سے یہی طریقہ چلا آ رہا ہے کہ کفار کو ضرور سزا دے (جنگ بدر میں مشرکین کو سزا کوئی نئی بات نہیں تھی)

۴ ۔ گناہ قہر خداوندی کا سبب ہے۔( بذنوبهم )

۵ ۔ خدا قطعاً عاجز نہیں ہے۔ بلکہ تمام اقوام (خواہ فرعون ور فرعونیوں جیسی طاقتور ہوں یا مشرکین جیسی کمزور ہوں) قہر الٰہی کے آگے عاجز ہیں۔( قوی، شدید العقاب )

۶ ۔ جب خدا کا عذاب کسی قوم پر نازل ہوتا ہے تو گناہ اور کفر ان کی عادت اور خصلت بن جاتے ہیں (کداب)

آیت ۵۳

( ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) لا

ترجمہ۔ یہ سزا اس وجہ سے ہے کہ جب خداوند عالم کسی قوم کو کسی نعمت سے نوازتا ہے تو اسے تبدیل نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ خود اپنے آپ کو تبدیل کر دیں، یقیناً خدا سننے اور جاننے والا ہے۔

ایک نکتہ:

احادیث میں ہے کہ بعض عوامل مثلاً ظلم اور گناہ ایسے ہیں جو نعمتوں کے تبدیل ہو جانے کا موجب بنتے ہیں، اسی طرح اقوام و ملل کا گناہوں سے توبہ تائب ہو جانا اور گمراہی کو چھوڑ کر راہ حق کو اپنا لینا اللہ کی نعمتوں کے نزول کا موجب بن جاتا ہے۔ (تفسیر فرقان) گناہ اور ظلم انسان کو خدائی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے سے دور کر دیتے ہیں۔

حدیث شریف میں ہے کہ ظلم سے بڑھ کر اور کوئی چیز خدائی نعمتوں کے تبدیل ہونے کا موجب نہیں ہوتی۔ کیونکہ خداوند عالم مظلوم کی آہ و فریاد کو جلد شرف پذیرائی بخشتا ہے (تفسیر فرقان)

پیام:

۱ ۔ نعمتوں کا زوال خود ہماری اپنی طرف سے ہوتا ہے۔

۲ ۔ معاشرے کی تقدیر خود افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

(بقول علامہ اقبال نئی سطر افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر۔ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ از مترجم)

۳ ۔ خدا کی طرف سے نعمتوں کی عطا اور گرفت اس کے حکیمانہ قانون کے تحت ہوتی ہے۔

۴ ۔ اسلام میں شخصی سزاؤں کے علاوہ اجتماعی اور معاشرتی سزائیں بھی ہیں اور معاشروں کی تبدیلی کے لئے بھی قوانین موجود ہیں۔

۵ ۔ انسان ہی تاریخ کو بناتا ہے نہ کہ اقتصاد، تاریخی جبر اور ماحول !

۶ ۔ انسان بھی آزاد ہے اور اپنی راہیں تبدیل کرنے میں آزاد ہے اور معاشرہ بھی انقلابی بن کر اپنے اندر تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔

۷ ۔ اقوام و ملل کی سعادت و شقاوت ان کی اندرونی تبدیلیوں کی مرہون ہوتی ہیں۔ قدرت اور ثروت سعادت یا بدبختی پیدا نہیں کر سکتیں۔

۸ ۔ سیاسی، اقتصادی اور فوجی تبصروں میں محور و مرکز افراد کی روحانی کیفیت ہوتی ہے نہ کہ اتفاق اور چانس، خرافات، حکمفرمانظام (سسٹم) اور تاریخی جبر وغیرہ۔

۹ ۔ افراد کے اندر کی تبدیلی معاشرے کے اندر تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ اور معاشرے کی یہی اندرونی تبدیلی نعمتوں میں تبدیلی اور انقلاب کی راہیں ہموار کرتی ہے۔

۱۰ ۔ تم سب خدا کی نگرانی میں ہو اور خدا تمہیں دیکھ رہا ہے( سمیع علیم )

آیت ۵۴

( کَدَاْبِ اٰلِ ِفرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ طکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ فَاَهْلَکْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَج وَکُلٌّ کَانُوْاظٰلِمِیْنَ )

ترجمہ۔ (تمہارے زمانے کے کافر لوگوں کی اندرونی کیفیت) فرعون والوں اور ان سے پہلے کے لوگوں کی جیسی ہے۔ انہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیوں کو جھٹلایا۔ پس ہم نے بھی انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر دیا اور فرعون والوں کو غرق کر دیا اور یہ سب لوگ ظالم تھے۔

ایک نکتہ:

اس سے دو آیات پہلے بھی "کدأب آل فرعون( ٴٴ ) کا جملہ گزر چکا ہے، چونکہ ہر ایک جملے کی نوعیت علیحدہ تھی لہٰذا اس جگہ پر اسے دوبارہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس جگہ پر ظالم کو سزا دینے کی بات ہو رہی تھی اور یہاں لوگوں حالات کی تبدیلی کی بنا پر نعمتوں کی تبدیلی کا ذکر ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلی آیت میں آخرت کا عذاب مراد ہو اور اس آیت میں دنیوی عذاب مقصود ہو۔

پیام:

۱ ۔ گزشتہ لوگوں کے حالات سے درس حاصل کرو۔

۲ ۔ ظلم اور گناہ قہر خداوندی کا موجب ہوتے ہیں خواہ اپنے نفس پر ظلم ہو یا لوگوں پر یا انبیاء اور دین پر( اهلکنا هم بذبوبهم )

۳ ۔ آیات خداوندی کا جھٹلانا، ظلم ہے،( کذبوا…کانوا ظالمین )

آیت ۵۵

( اِنَّ شَرَّالدَّوَآبِّ عِنْدَاللّٰهِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ )

ترجمہ۔ یقینا اللہ کے نزدیک چلنے والوں میں سے بدترین وہ لوگ ہیں جو کافر ہو گئے ہیں، پس وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

چند نکات:

اسی سورت کی ۲۲ ویں آیت میں "شرالدوآب" (چلنے والوں میں سے بدترین) ان لوگوں کو قرار دیا گیا ہے جو سوچ و بچار اور عقل و فکر سے کام نہیں لیتے۔ اور اس آیت میں ان لوگوں کو قرار دیا گیا ہے جو ایمان نہیں لاتے اور کفر پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر کا سرچشمہ، صحیح معنوں میں عقل سے کام نہ لینا ہے۔

قرآن مجید انسان کی تصویرکشی عقل اور ایمان میں کرتا ہے یعنی اگر کوئی شخص عقل سے کام نہیں لیتا یا کفر کا ارتکاب کرتا ہے وہ مدار انسانیت سے خارج ہے۔ پس حقیقی انسان عاقل اور مومن ہی ہے۔

ممکن ہے کہ کافر، لوگوں کے نزدیک کسی عزت و احترام کا حامل ہو لیکن خدا کے نزدیک وہ بدترین جانور ہے۔

تفسیروں میں اس آیت کا مصداق یہودیوں کو بتایا گیا ہے: لیکن اس کے مفہوم کے کلی ہونے سے بھی کوئی چیز مانع نہیں ہے۔

پیام:

۱ ۔ عقل سے کام نہ لینا، کفر کی جڑ ہے۔ (اسی آیت اور اسی سورت کی ۲۲ ویں آیت کے پیش نظر)

۲ ۔ جو لوگ انبیاء کی آواز کو سنتے ہیں لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دیتے وہ روئے زمین پر چلنے والوں میں سے بدترین مخلوق ہیں۔

۳ ۔ بعض اوقات، بعض لوگوں کے لئے کفر ملکہ بن جاتا ہے اور ان کے مستقبل کو تاریک کر دیتا ہے (کفرو۔لایومنون )

آیت ۵۶

( اَلَّذِیْنَ عَاهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ هُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ )

ترجمہ۔ یہ وہی لوگ تو ہیں کہ جن سے تم نے عہد و پیمان لیا ہے لیکن پھر وہ ہر مرتبہ اسے توڑ دیتے ہیں اور (اپنے عہد و پیمان کے حفظ کرنے میں) تقویٰ سے کام نہیں لیتے۔

ایک نکتہ:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہودیوں کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کریں گے اور مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ لیکن بدعہد یہودیوں نے اپنے اس معاہدے پر عمل درآمد نہ کرکے اپنی روایتی عہدشکنی کا ثبوت دیا اور جنگ خندق میں مشرکین کی کمک کرتے ہوئے انہیں اسلحہ بھی فروخت کیا۔

پیام:

۱ ۔ عہد شکنی، انسانیت سے سازگار نہیں ہے۔( شر الدوآب…ینقضون عهدهم )

۲ ۔ عہدشکنی کافروں کا وطیرہ ہے۔ "کفروا" گزشتہ آیت میں( ینقضون ) اسی آیت میں۔

۳ ۔ وفاشعاری اور جوانمردی تقویٰ کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔( ینقضون، لایتقون )

۴ ۔ عہدشکنی کرنے والا، جھوٹا بھی ہے اور خیانت کار بددیانت بھی۔ ۳۰

۵ ۔ زیادہ خطرہ ان لوگوں سے ہوتا ہے، پیمان شکنی اور بدعہدی جن کا شیوہ اور خصلت بن چکی ہوتی ہے اور انہیں اس بات کی کوئی پروا تک بھی نہیں ہوتی۔( ینقضون- فی کل مرة، لایتقون )

آیت ۵۷

( فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُوْنَ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) جب تم ان کے ساتھ جنگ کرو تو (دشمن کو سزا دے کر) ان کے بعد والوں کو وحشت میں ڈال کر انہیں منتشر کر دو شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں (اور سازشوں سے باز آ جائیں)۔

دو نکات:

"( تثقفنهم ) " کا جملہ "ثقف" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں خوب غور و خوض اور بڑی تیزی کے ساتھ کسی چیز کا درک کرنا، یعنی کفار کے ساتھ جنگ کے موقع پر مکمل ہوشیاری کے ساتھ ان کا سامنا کرو تاکہ غفلت کا شکار نہ ہو جاؤ۔

"تشرید" کے معنی ہیں بدامنی اور بے چینی پیدا کرکے منتشر کر دینا، یعنی دشمن پر اس طرح حملہ کرو اور ایسے جنگی منصوبے کے ساتھ ان سے لڑو کہ ان کے پس پردہ حامی اور مددگار نیز محاذ کے پیچھے چھپے ہوئے ان کے ساتھی اس حد تک گھبرا جائیں اور وحشتناک ہو جائیں کہ تم پر حملے کا سوچ بھی نہ سکیں۔

پیام

۱ ۔ جو عہدشکن، قوم اور معاشرے کے امن و امان کو درہم برہم کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ وہ خود وحشت ناک اور غیرمطمئن ہو جائیں۔

۲ ۔ عہد شکنوں پر تمہارا حملہ اچانک، بڑی تیزی کے ساتھ، پورے حساب و کتاب کے تحت اور تباہ کن ہونا چاہئے( تثقفنهم- شردبهم )

۳ ۔ دشمن کو غافل کرکے مار دینا، ان میں انتشار پیدا کرنا، ان کے لشکر میں خوف اور وحشت ایجاد کرنا فوجی اصولوں میں شامل ہے۔

۴ ۔ عہدشکنوں سے بڑی سختی کے ساتھ پیش آؤ۔( شردبهم )

۵ ۔ اگرچہ اسلام رحمت و مہربانی کا دین ہے لیکن خیانت، عہدشکنی، گڑبڑ پھیلانے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کو برداشت نہیں کرتا۔

۶ ۔ مسلمانوں میں ہیبت اور شان و شوکت ہونی چاہئے۔( فشرد بهم من خلفهم )

۷ ۔ کفار کے حوصلے اس قدر پست کر دو کہ دوبارہ کبھی تم پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں،( فشردبهم )

۸ ۔ اسلام جہاں تبلیغ اور موعظے کا دین ہے وہاں قدرت و طاقت اور پیش قدمی اور حملے سے بھی بے خبر نہیں ہے۔( فشردبهم )

آیت ۵۸ ، ۵۹

( وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَاَ م نْبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰی سَوَآئٍط اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ ع وَلَا َیحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْاط اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اگر (کچھ علامتوں کی وجہ سے) ان لوگوں سے اس بات کا خوف محسوس کرو کہ وہ عہد و پیمان میں خیانت کریں گے تو تم پیمان کو یکدم ختم کرکے انہیں بتا دو کہ ان کے ساتھ انہی کے جیسا عمل کیا جائے گا، یقیناً خدا خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

اور کفار یہ خیال نہ کریں کہ وہ (مسلمانوں سے) سبقت لے گئے ہیں، یقینا وہ (تمہیں) عاجز نہیں کر سکیں گے۔

چند نکات:

"فانبذ" کا لفظ "نبذ" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں پھینکنا، اور یہاں پر دشمن کی طرف پیمان کے پھینکنے سے مراد یہ ہے کہ اسے ختم کر دینے کا اعلان کر دیا جائے تاکہ دشمن بھی غفلت میں نہ رہے اور تمہیں بھی یہ نہ کہا جائے کہ "انہوں نے جوانمردی کا ثبوت نہیں دیا"

"علی سواء" کے معنی یا تو "مقابلہ بہ مثل" کے ہیں یعنی جس طرح وہ دشمن سازشوں اور معاہدہ کے توڑنے کی فکر میں ہیں تم بھی انہی کی طرح معاہدہ کو ختم کر دو، یا پھر معاہدے کے خاتمے کا واضح اعلان مراد ہے۔ (تفسیر نمونہ) یا دشمن کے ساتھ عادلانہ سلوک مراد ہے (تفسیرالمیزان)

یہ آیت اس موقع کے لئے ہے جہاں دشمن کی طرف سے اس بات کے قرائن پائے جائیں کہ وہ حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، تو ایسے موقع پر معاہدہ کو ختم کرنے کے لئے پہل کی جا سکتی ہے۔

پیام:

۱ ۔ معاہدے کی پابندی اس وقت تک ہے جب تک کسی قسم کی سازش کا خطرہ نہ ہو، ورنہ اسے ختم کر دینے کا اعلان کر دیا جائے۔

۲ ۔ اگر تمہیں دشمن کی طرف سے خطرہ بھی درپیش ہو پھر بھی بددیانتی کا مظاہرہ نہ کرو، معاہدے کے خاتمے کا کھلم کھلا اعلان کر دو۔( فانبذالیهم )

۳ ۔ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف کا سلوک کرو۔( علی سواء ) بنا بر تفسیرالمیزان "( علی سوآء ) " کے معنی ہیں "بالعدل"

۴ ۔ معاہدے کا ختم کر دینا، "مقابلہ بہ مثل" کے طور پر ایک عادلانہ طریقہ کار ہے۔( علی سوآء )

۵ ۔ خیانت خواہ کسی طرف سے ہو حرام اور قابل مذمت ہے، خواہ کفار کی طرف سے ہو یا مسلمین کی طرف سے( لایحب الخائنین )

۶ ۔ غیراعلانیہ جنگ خیانت ہے۔ (از تفسیر المیزان)

۷ ۔ اسلام، انسانی حقوق، اقرارناموں اور معاہدوں کا پابند ہے۔

۸ ۔ خدائی طریقہ کار سے سبقت حاصل نہیں کی جا سکتی( سبقوا )

۹ ۔ کفار، خیانت کرکے کسی مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔( لایعجزون )

۱۰ ۔ ایسا زیرکانہ طریقہ کار اپناؤ کہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ تم سے آگے بڑھ گئے ہیں۔

آیت ۶۰

( وَاَعِدُّوْا لُهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِه عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّ کُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْج اللّٰهُ یَعْلَمَهُمْطوَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اور ان (دشمنوں کے ساتھ مقابلے) کے لئے جتنا کر سکتے ہو طاقت اور گھوڑے تیار رکھو، تاکہ خدا کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ ان دشمنوں کو ڈراؤ جنہیں تم نہیں جانتے لیکن خدا جانتا ہے۔ اور خدا کی راہ میں جس قدر بھی خرچ کرو گے اس کاپورا پورا بدلہ تمہیں ملے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

ایک نکتہ:

یہ آیت مسلمانوں کو دشمن کے مقابلے میں ہر طرح سے خبردار کر رہی ہے اور ساتھ ہی انہیں ہر دور میں ہر قسم کے اسلحہ، وسائل، امکانات، تبلیغی طریقہ کار حتی کہ نعرے اور ترانے وغیرہ تیار رکھنے کے متعلق آمادہ رہنے کا حکم دے رہی ہے۔ کہ "اے مسلمانو! تم ہر وقت اس حد تک تیار رہو کہ کفار تمہاری جنگی صلاحیتوں سے گھبرا جائیں اور تم پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں"

حضرت رسالت مآب صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ یمن میں جدید اسلحہ تیار کیا جا رہا ہے تو آپ نے کسی شخص کو بھیجا کہ وہاں سے وہ خرید کر لے آئے۔ اور آپ ہی سے روایت ہے کہ فرمایا: "ایک تیر کے ذریعہ تین آدمی بہشت میں جائیں گے، بنانے والا، تیار کرنے والا اور چلانے والا" (تفسیر فرقان، منقول از تفسیر در منثور) اسلام میں تیراندازی اور گھڑسواری کے مقابلوں کی تاکید کی گئی ہے اور ان مقابلوں میں لگائی جانے والی بازی کو جائز قرار دیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں میں جنگی آمادگی ہمیشہ برقرار رہے۔

"( لهم ) " کی ضمیر کفار اور ان لوگوں کی طرف لوٹ رہی ہے جو سابقہ آیت میں مذکور ہوئے ہیں کہ جن سے خیانت کا خطرہ ہوتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ مسلمانوں کو جنگ کے لئے ہمیشہ مکمل طور پر آمادہ رہنا چاہئے، افرادی قوت کے لحاظ سے، اسلحہ کے لحاظ سے اور وسائل حمل و نقل کے لحاظ سے غرض کسی بھی لحاظ سے کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے اور اس انتظار میں نہ رہیں کہ دشمن حملہ کرے گا تو پھر تیاری کریں گے۔( اعدوا )

۲ ۔ ہر مقام پر منطق اور مذاکرات بھی کارساز اور کافی نہیں ہوا کرتے کبھی قدرت اور طاقت کا مظاہرہ بھی ضروری ہو جاتا ہے( قوة )

۳ ۔ ہر دور میں جدیدترین اور ترقی یافتہ ترین اسلحہ کو اور دیگر وسائل جنگ کو اپنے دفاع کے لئے آمادہ رکھو اور کسی بھی چیز سے فروگزار نہ کرو۔ اور سیاسی اور عسکری قوت سے کبھی غفلت نہ برتو، خواہ تبلیغی وسائل ضروری ہوں تو بھی اور عسکری ذرائع کی ضرورت ہو تو بھی، غافل ہرگز نہ ہونا( من قوة ) ۔

۴ ۔ اسلام میں سب مسلمان سپاہی ہیں اور عمومی لام بندی ضروری ہے۔( اعدوا، ترهبون، تنفقوا… )

۵ ۔ اگر صورت تبدیل کر لینے سے دشمن کے دل میں وحشت پیدا ہوتی ہے تو بھی ایسا کرو۔ اور رعب ڈالنے کا یہ انداز ایک فریضہ بن جاتا ہے( من قوة ) ۳۱

۶ ۔ جنگی گھوڑے وہ ہوتے ہیں جو اصطبل میں ہر وقت جنگ کے لئے تیار رکھے جاتے ہیں اور انہیں اصطبل ہی میں دانہ پانی دیا جاتا ہے نا کہ وہ جو کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔

۷ ۔ افرادی قوت کی آمادگی بھی لازم ہے اور جنگی وسائل کی بھی،( من قوة- من رباط الخیل )

۸ ۔ موجودہ فوجی وسائل پر ہی اکتفا نہ کرو، ان وسائل میں اضافہ بھی کرو( من قوة )

۹ ۔ وحدت اور قومی اتحاد بھی ایک طرح کی قوت ہے، جو فراہم رکھنا چاہئے، کیونکہ قومی انتشار کی صورت میں دشمن کو نہیں ڈرایا جا سکتا۔( من قوة )

۱۰ ۔ جنگی آمادگی کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہوتا ہے نہ کہ لوٹ مار، غارت گری اور استعمار و استثمار (یا باالفاظ دیگر مارشل لاء)

۱۱ ۔ اقدا راسلامی کی بھی حفاظت ہونی چاہئے اور حقوق انسانی کی بھی( عدوالله وعدو کم )

۱۲ ۔ اسلام میں دین و مذہب ہی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ذاتی، نسلی اور قومی اغراض کو نہیں( عدوالله وعدوکم )

۱۳ ۔ سارے دشمن بھی پہچانے ہوئے نہیں ہوتے( لاتعلمونهم ) ۳۲

۱۴ ۔ آمادہ رہنے کے بارے میں صرف جانے پہچانے دشمن کو مدنظر نہ رکھو، بلکہ ہر موقع محل پر ان جانے دشمن کو بھی ضرور مدنظر رکھا کرو۔( لاتعلمونهم )

۱۵ ۔ صرف اسلحہ اور افرادی قوت ہی کافی نہیں مالی تعاون بھی ضروری ہوتا ہے( وما تنفقوا )

۱۶ ۔ مالی امداد، امت مسلمہ کی تقویت کا موجب ہوتی ہے جس کا فائدہ خود لوگوں ہی کو پہنچتا ہے اور اسلامی معاشرے کی اقتصادی حالت سدھر جاتی ہے جو مسلمانوں کی عزت و عظمت کا موجب ہوتی ہے( یوف الیکم )

۱۷ ۔ اسلام ایک نظام اور منظم حکومت کا دین ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر دشمن کو کوئی خوف و ہراس نہیں ہوتا( ترهبون )

۱۸ ۔ دشمن کے مقابلے میں آمادہ رہنے کے لئے تمام دفاعی بنیادوں کو خواہ وہ علمی ہوں یا ثقافتی، اقتصادی ہوں یا عقیدتی اور سیاسی اس قدر مضبوط ہونا چاہئیں کہ دشمن ہر لحاظ سے مسلمانوں سے خوف کھائے، اور ہر محاذ پر اس کے ناپاک منصوبے ناکام ہو جائیں( ترهبون به ) بطور مطلق بیان ہوا ہے۔

۱۹ ۔ محاذ جنگ کی امداد صرف مالی لحا ظ ہی سے نہیں کی جاتی بلکہ ہر طرح سے کی جاتی ہے خواہ مالی ہو یا جانی، عزت کی ہو یا آبرو کی، اثر و رسوخ کی ہو یا قلم کی غرض ہر طرح سے محاذ کی امداد ضروری ہے( من شیٴ )

۲۰ ۔ کمک کی بہم رسانی کے لئے مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے خالی تقریروں اور نعروں سے کچھ نہیں بنتا۔

۲۱ ۔ تمہارے خرچ کرنے اور خیر و برکت کے آثار کا تمہیں اس وقت فائدہ ہو گا جب یہ انفاق خدا کی راہ میں اور خدا کی خوشنودی کے لئے ہو گا، اگر مقصود ریاکاری شہرت، خودنمائی اور شرما شرمی ہوں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔( فی سبیل الله )

۲۲ ۔ جنگ کا بجٹ اور محاذ جنگ کا سنبھالنا لوگوں کے ذمہ ہے اور پھر یہ کہ یہ جنگ کے دنوں کے ساتھ بھی مخصوص نہیں( وما تنفقوا ) کا حکم ہے جو مطلق طور پر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر وقت آمادہ رہنے کے لئے رقم خرچ کریں۔