آیت ۶۱
(
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰهِ ط اِنَّه هُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
)
ترجمہ۔ اور اگر دشمن صلح کے لئے مائل ہوجائیں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور خدا پر توکل کرو کیونکہ وہ یقیناً سننے اور جاننے والا ہے۔
پیام:
۱ ۔ اسلام، جنگ کا خواہاں نہیں ہے۔
۲ ۔ مسلمانوں کو اس قدر طاقتور ہونا چاہئے کہ صلح کی پیشکش دشمن کی طرف سے(
جنجوا
)
۳ ۔ جنگ کا حکم ہو یا صلح کی پیشکش کی منظوری اس کا اختیار پیغمبر خدا کے ہاتھ میں ہے اور یہ رہبر کے اختیارات میں شامل ہے۔(
فاجنح
)
کا لفظ ہے "فاجنحوا" نہیں ہے۔
۴ ۔ جب قدرت مند بن جاؤ تو اپنی اس قدرتمندی سے ناجائز مفاد نہ اٹھاؤ بلکہ میلان دکھاؤ(
فاجنح
)
۵ ۔ صلح کی پیشکش منظور کرتے ہوئے خدا پر بھروسہ کرو(
فاجنح لها و توکل
)
۶ ۔ صلح کی پیشکش کے وقت دشمن کی سازش کا بھی اندیشہ ہوتا ہے اور بعض "یار دوستوں" کی زبان کے زخم کا خطرہ بھی ہوتا ہے، لیکن ہر حالت میں خدا پر بھروسہ کیا جائے(
توکل علی الله
)
۳۳
آیت ۶۲
(
وَ اِنْ یُّرِیْدُوْآ اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰهُط هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ
)
لا
ترجمہ۔ اور اگر دشمن آپ کو دھوکہ دینا چاہیں گے بھی تو یقیناً خدا آپ کے لئے کافی ہے، خدا وہی تو ہے، جس نے اپنی اور مومنین کی نصرت کے ساتھ آپ کی تائید کی ہے۔
دو نکات:
اگر رہبر مسلمین کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ دشمن صلح کے پردے میں دھوکہ دینا چاہتا ہے تو یہ اور بات ہے، ورنہ اگر احتمال ہو کہ دھوکہ ہے یا نیک نیتی تو ایسی صورت میں مکمل ہوشیاری کے ساتھ صلح کی پیشکش کو قبول کر لینا چاہئے۔
بعض روایات میں "مومنین کے ذریعے پیغمبر اکرم کی تائید و حمایت" سے مراد حضرت علی علیہ اسلام کی تائید اور حمایت ہے، چنانچہ ابن عساکر اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عرش الٰہی پر لکھا ہوا ہے:
"لا اله الا انا لاشریک لی محمد عبدی و رسولی: ایدته بعلی
" میرے سوا کوئی معبود نہیں، میرا کوئی شریک نہیں، حضرت محمد میرے بندے اور رسول ہیں اور میں نے علی کے ذریعہ ان کی تائید و نصرت کی ہے،
یہ وہی ہے جو اللہ نے قرآن کی اسی آیت میں فرمایا ہے (ھوالذی ایدک بنصرہ و بالمومنین)۔
(ملاحظہ ہو تفسیر فرقان منقول از در منثور جلد ۳ ص ۱۹۹ ، و ملحقات احقاق الحق جلد ۳ ص، ۱۹۴)
پیام:
۱ ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ صلح کی پیشکش کو نہ ٹھکرائیں تاکہ دشمن کو ان کے خلاف اس پروپیگنڈے کا موقع نہ مل سکے کہ "مسلمان جنگ طلب ہوتے ہیں"، البتہ ہوشیاری ضروری ہے تاکہ دھوکہ نہ کھا جائیں۔
۲ ۔ اگر ہم اپنے فریضہ پر عمل پیرا رہیں تو مشکلات سے نہیں گھبرانا چاہئے، کیونکہ مشکل کشا خدا کی ذات ہے۔(
ایدک
)
۳ ۔ خدائی امداد بھی، عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ ہے(
بنصره و بالموٴمنین
)
۴ ۔ لوگ، رہبر کے دست و بازو اور حامی و مددگار ہوتے ہیں(
و بالموٴمنین
)
۵ ۔ اگر خدا سے غفلت برتے بغیر اس کے بندوں سے مدد مانگی جائے تو شرک نہیں ہے۔
۶ ۔ اگر عوام بیدار ہوں اور لطف الٰہی شامل حال ہو تو دشمن کی تمام چالیں ناکام ہو جاتی ہیں۔
۷ ۔ عوامی حمایت بھی اللہ کے ارادے اور منشا کے تحت حاصل ہوتی ہے۔(
حسبک الله
)
آیت ۶۳
(
وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْط لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفَتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْطاِنَّه عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ
)
ترجمہ۔ اور اللہ نے ان (مومنین) کے دلوں میں الفت پیدا کر دی ہے، اگر آپ وہ سب کچھ خرچ کرتے جو کہ زمین میں ہے پھر بھی ان کے دلوں میں الفت اور محبت پیدا نہ کر سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان الفت پیدا کی ہے اور وہ یقینی طور پر غالب اور حکمت والا ہے۔
پیام:
۱ ۔ دل اور دلوں کے درمیان الفت خدا کے ہاتھ میں ہے (الف)
۲ ۔ مال و دولت اور جاہ و مقام ہر جگہ پر کارآمد نہیں ہوا کرتے۔(
لوانفقت…ما الفت
)
۳ ۔ لوگوں کے دیرینہ اختلافات کا حل کرنا، پیغمبر اسلام کی نبوت کا ایک معجزہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ اور ان کے درمیان الفت برقرار ہو گئی۔
۴ ۔ وحدت اور الفت اللہ کی نعمتیں ہیں جنہیں قرآن میں ذکر کیا گیا ہے اور ان کو لوگوں اور پیغمبر کے لئے احسان کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ۳۴
۵ ۔ ظاہری اتحاد سے زیادہ اہم، قلبی اور باطنی پیوند ہے ورنہ ظاہر میں تو کافر بھی متحد ہیں لیکن ان کے دل منتشر ہیں۔ ۳۵
۶ ۔ وحدت اور اتحاد قائم کرنے کی واحد راہ، خدا پر ایمان اور "حبل اللہ" (خدائی رسی) کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور وہ بھی خدا کی طرف سے ہے۔
۷ ۔ لوگ اپنے رہبر کے لئے اس وقت زور بازو ثابت ہو سکتے ہیں جب وہ باہم متحد ہوں، ورنہ رہبر کی کمر کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ (گزشتہ اور موجودہ آیت کے پیش نظر)
سوال: اس آیت میں تو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر تمام روئے زمین کا سرمایہ بھی خرچ کر ڈالو تب بھی ان لوگوں کے دلوں میں الفت اور محبت ایجاد نہیں کر سکو گے، تو پھر زکوٰة کی مدد سے تالیف قلب کے لئے کیوں خرچ کرنے کا حکم ہے کہ "والمولفة قلوبھم"؟
جواب: لوگوں کے دلوں میں موجود کینہ اور اس کی تاریخ مختلف ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی مسکراہٹ اور مختصر سے تحفے کے ساتھ تمام رنجشیں دور ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ اس قدر گہرا اور پرانا ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح سے اسے دور نہیں کیا جا سکتا۔
آیت ۶۴
(
یٰٓاَ یُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
)
ترجمہ۔ اے پیغمبر! آپ کے لئے اللہ اور مومنین میں سے وہ لوگ کافی ہیں جو آپ کی پیروی کر چکے ہیں۔
دو نکات:
بنی قریظہ اوربنی نضیر میں سے کچھ یہودیوں نے پیغمبر اسلام کو اپنی مدد کی جھوٹی یقین دہانی کرائی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مومنین ہی آپ کے لئے کافی ہیں۔ اور اسی آیت کے ضمن میں اگلی آیت میں بیان ہونے والا جہاد کا حکم بھی مقدمہ کے طور پر ذکر ہو گیا ہے۔
کتاب "فضائل الصحابہ" میں حافظ ابو نعیم روایت کرتے ہیں کہ اس آیت میں مذکور "مومنین" سے مراد ذات علی بن ابی طالب علیہ اسلام ہے۔ ۳۶
پیام:
۱ ۔ اسلامی نظام کا دارومدار خدا، رسول اور مومنین پر ہے۔ اسلامی معاشرے میں رہبر کا تعین خدا کی طرف سے ہوتا ہے، جس کا قانون وحی کے ذریعہ مرتب ہوتا ہے اور لوگ اس قانون اور رہبر کے فرمانبردار ہوتے ہیں۔
۲ ۔ اگر غیراللہ سے استمداد اور حمایت سے دلی سکون خداوند عالم کی منشا اور اس کی مرضی کے ساتھ ہو تو یہ توحید کے منافی نہیں ہے۔ شرک تو وہاں ہوتا ہے جہاں خدا کی قدرت اور مرضی کے خلاف غیراللہ پر ہی سارا تکیہ کیا جائے۔ لیکن جب تک قلوب، افکار، نظریات اور حمایتیں خدائی ارادہ کے تحت اور ا س کے نور کی روشنی میں باقی رہیں گے توحید کے مدار سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔
۳ ۔ ایمان کے ساتھ ہی اطاعت سودمند ہوتی ہے نہ کہ ایمان کے بغیر اطاعت یا اطاعت کے بغیر ایمان،(
من اتبعک من الموٴمنین
)
۴ ۔ کچھ لوگ پیغمبر کے اطاعت گزار نہیں تھے۔(
من الموٴمنین
)
آیت ۶۵
(
یٰٓاَ یُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِج وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَةٌ یَّغْلِبُوْآ اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
)
ترجمہ۔ اے پیغمبر! مومنین کو جنگ کے لئے آمادہ کرو، اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں اور اگر تم میں سے سو (صابر) لوگ ہوں تو وہ کفار کے ہزار افراد پر کامیابی حاصل کر لیں، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں۔
دو نکات:
یہ آیت تعداد کے لحاظ سے افرادی طاقت کی نفی کر رہی ہے اور ایمان، صبر اور حوصلے ہی کو معیار قرار دے رہی ہے، آیت اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے کہ بیس آدمی دو سو پر فتح پا سکتے ہیں، اس بات کو ایک بار پھر دہراتی ہے کہ سو آدمی ہزار انسانوں پر غالب آ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مومن اور صابر ہوں۔
زمانہ صدر اسلام کی جنگوں میں کبھی بھی اعداد و شمار کے ذریعے موازنہ نہیں کیا جاتا تھا، اور نہ کہیں پر عددی قوت کو معیار قرار دیا جاتا تھا، جنگ بدر میں ۳۱۳ مجاہد ہزار کفار کے مقابلے میں تھے، احد میں تین ہزار کفار کے مقابلے میں صرف سات سو جنگجو تھے، جنگ خندق میں تین ہزار مسلمانوں کا دس ہزار کفار سے مقابلہ تھا جبکہ جنگ موتہ میں دس ہزار مسلمان ایک لاکھ کے ساتھ نبردآزما تھے۔
پیام:
۱ ۔ رہبر کے وظائف اور فرائض میں شامل ہے کہ لوگوں کو جہاد کے لئے آمادہ کرے۔ لشکر کے فرمانروا کا فرض بنتا ہے کہ جنگی کارروائی سے پہلے اپنی دلنشین باتوں سے لشکر کا دل گرما دے (حرض)
۲ ۔ دشوار اور مشکل کام تشویق و ترغیب اور تلقین کے ذریعہ آسان ہو جاتے ہیں اور اسی میں کامیابی کا راز ہے۔
۳ ۔ جنگ اور جہاد میں تبلیغات کا ہونا بہت ضروری ہے۔
۴ ۔ محاذ جنگ میں اصل اہمیت ایمان اور صبر کو حاصل ہے عددی قلت اور کثرت کی کوئی اہمیت نہیں۔
۵ ۔ ابتدائے اسلام میں دشمن کے دسویں حصے کے برابر مجاہدین کی موجودگی سے حکم جہاد صادر ہو جاتا تھا۔
۶ ۔ مجاہد کے لئے ان تین صفات کا حامل ہونا ضروری ہے ایمان، صبر اور معرفت و آگاہی (مومنین، صابرین) اور کفار کے بارے میں ہے "(
لایفقهون
)
"۔
۷ ۔ اسلامی لشکر کو کم از کم بیس افراد پر مشتمل ہونا چاہئے اس سے کم پر نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں تو ایک سو سے کم افراد پر مشتمل نہیں ہونا چاہئے۔ (از تفسیر فرقان)
۸ ۔ آگاہی اور معرفت کامیابی کے عوامل میں سے ہے چنانچہ اگر گہری شناخت، آگاہی پر مبنی عقائد اور مقصد و ہدف کی معرفت نہ ہو تو شکست یقینی ہو جاتی ہے(
لایفقهون
)
آیت ۶۶
(
اَلْئٰنَ خَفَفَّ اللّٰهُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًاط فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِج وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکمُ ْاَلْفٌ یَّغْلِبُوْآ اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِط وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
)
ترجمہ۔ اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے بوجھ کو ہلکا کر دیا اور جان لیا کہ تمہارے اندر کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو صابر آدمی ہوں تو وہ (کفار کے) دو سو لوگوں پر غالب آ جائیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار آدمی ہوں تو (ان کے) دو ہزار افراد پر خدا کے حکم سے کامیاب ہو جائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
دو نکات:
آیت میں مذکور "ضعف" (کمزوری) سے مراد عقیدتی اور روحانی کمزوری ہے کیونکہ سپاہ اسلام میں جسمانی اور عددی کے اعتبار سے کمی نہیں ہوئی تھی۔
اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں تین ایسے روحانی مسائل کی طرف اشارہ ہوا ہے جو کامیابی کے اصل عوامل ہیں۔ اور جن کے بغیر شکست یقینی ہے اور وہ ہیں صبر، ایمان اور معرفت۔
پیام:
۱ ۔ امور کو چلانے کے لئے بعض خصوصی احوال کی بنا پر آئین اور قوانین میں تبدیلی کرنا پڑتی ہے اور اس سے استقلال مزاجی متاثر نہیں ہوتا۔(
الان خفف
)
۲ ۔ فرائض کی ادائیگی کا حکم بھی استطاعت کے مطابق ہوتا ہے اور قانون سازی کے موقع پر کمزور لوگوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔(
فیکم ضعفا
)
۳ ۔ شکست کا اصل موجب اندر سے ہی ظاہر ہوتا ہے باہر سے نہیں(
فیکم ضعفا
)
۴ ۔ بعض اوقات ارادے کی کمزوری، جنگی توانائیوں کو دس گناہ سے دوگناہ کی حد تک یعنی اسی فیصد تنزلی پر لے آتی ہے۔
۵ ۔ ایک گروہ کی کمزوری دوسرے لوگوں کے حوصلے بھی پست کر دیتی ہے۔(
فیکم ضعفا
)
۶ ۔ فتح و کامرانی میں اصل شے خدا کا ارادہ اور حکم ہے (ورنہ جنگ حنین میں اس قدر زیادہ افرادی قوت کے باوجود مسلمان شکست کھا کر بھاگ نہ جاتے۔ "(
اعجبتکم کثرتکم…ثم ولیتم مدبرین
)
"
۷ ۔ صابر، خدا کا محبوب اور اسی کی پناہ میں ہوتا ہے۔(
والله مع الصابرین
)
۸ ۔ سالار لشکر کو سپاہ اسلام کے حوصلوں، ارادوں اور قوت ایمانی پر توجہ رکھنی چاہئے(
علم ان فیکم ضعفا
)
۹ ۔ "واللہ مع الصابرین" (اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) کا نعرہ اسلام کے جنگی محاذوں پر لگنا چاہئے۔
۱۰ ۔ اپنی فتح و کامرانی پر اتراؤ نہیں کیونکہ یہ اس ذات کی عطا کردہ ہے۔(
باذن الله
)
آیت ۶۷
(
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَهٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِط تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَط وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ
)
ترجمہ۔ کسی پیغمبر کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو اسیر بنائے مگر اس کے بعد جب (فوجی علاقہ اور) زمین پر پوری طرح قابو پا لے۔ تم تو جلد گزر جانے والی دنیا کو چاہتے ہو لیکن اللہ (تمہارے لئے) آخرت کو چاہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ناقابل شکست اور صاحب حکمت ہے۔
دو نکات:
"ثخن" کے معنی ہیں ضخامت، سنگینی اور ٹھوس ہونا اور یہ کنایہ ہے کامیابی، واضح غلبہ اور اقتدار سے۔
آیت خبردار کر رہی ہے کہ قیدی بنانا، پھر فدیہ لے کر اسے آزاد کر دینا اور جنگی غنیمتوں کا سمیٹنا مسلمانوں کو اپنے اصل مقصد سے نہ ہٹا دے کہ جس سے وہ اچانک کوئی نقصان اٹھائیں۔
پیام:
۱ ۔ دنیا ناپائیدار اور جلد گزر جانے والی ہے۔(
عرض
)
۲ ۔ فوجی کارروائیوں میں مرحلہ وار حکمت عملی کا اجرا کیا جاتا ہے اور حالات پر مکمل قابو پانے سے پہلے جنگی قیدی بنانے کی پالیسی صحیح نہیں ہے۔(
ما کان…حتی یثخن
)
۳ ۔ اسلامی جنگوں کا اصل مقصد، رضائے الٰہی کا حصول، حق کی تقویت اور مستضعفین کی نجات ہے، غنیمتیں سمیٹنا، قیدی بنانا اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینا اصل مقصد نہیں ہے۔
۴ ۔ جنگ کے بحرانی ترین لمحات میں مومنین کو بھی دنیا کی طرف رغبت و رحجان سے پرہیز کرنا چاہئے۔
۵ ۔ مقصد میں مرکزیت اور انتشار و افتراق سے دوری ایک ضرورت ہے (جب تک میدان جنگ میں اپنی پوزیشنیں مضبوط نہ کر لو، ہرگز قیدی نہ بناؤ)
آیت ۶۸ ۔ ۶۹
(
لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّباً وَّاتَّقُوا اللّٰهَط اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
)
ترجمہ۔ اگر خداوند عالم کا پہلے سے قانون نہ ہوتا (کہ اطلاع دیئے بغیر کسی امت کو ہلاک نہیں کرتا) تو تم نے جو بے جا اسیر پکڑے تھے اس کی وجہ سے تمہیں بہت بڑا عذاب آ لیتا۔
پس جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس سے کھاؤ کہ یہ حلال اور پاکیزہ ہے اور خدا سے ڈرتے رہو بلاشبہ خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
چند نکات:
"کتاب من اللہ" سے مراد یا تو خداوند عالم کا وہ طریقہ کار ہے کہ کسی حکم کے بیان کرنے سے پہلے کسی کو سزا نہیں دیتا، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: "(
وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا
)
"۔ جب تک رسول نہ بھیج دیں اس وقت تک ہم عذاب دینے والے نہیں (بنی اسرائیل ۱۵) یا جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تقدیر الٰہی نہ ہوتی تو، پوزیشن مضبوط ہونے سے پہلے جو قیدی بنا لئے ہیں اس کی سزا میں تمہیں زبردست زک پہنچاتا۔ (تفسیر اطیب البیان)
روایات کے مطابق اس آیت میں "غنیمت " سے مراد وہ رقم ہے جو مسلمانوں نے فدیہ کے طور پر قیدی آزادکرنے کے بدلے میں لی تھی۔ اور وہ فدیہ ہر ایک قیدی کی طرف سے ایک ہزار سے چار ہزار درہم تک تھا ۔
فدیہ زبردستی نہیں لیا جاتا اور نہ ہی اسے انسان فروشی کے زمرے میں لے آئیں گے ، بلکہ یہ رہبر مسلمین کی صوابد ید پر منحصر ہے اور مسلمانوں کے نقصان کی تلافی کے طور پر ہے۔
پیام:
۱ ۔ کسی چیز کے استعمال میں لانے کی شرط اس کا حلال اور پاکیزہ ہونا ہے ۔
۲ ۔ ہوشیار اور خبردار ہناکہیں جنگی غنیمتیں اور قیدیوں کے فدئیے تمہیں جہاد سے اعلی اور والا ترین مقصد سے نہ ہٹا دیں ۔ لہذا ہمیشہ خدا کو پیش نظر رکھے رہو۔(
اتقو االله
)
آیت ۷۰
(
یٰٓاَ یُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُْمْط وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
)
ترجمہ ۔ اے پیغمبر! ان اسیروں سے کہہ دیجئے جو آپ کے ہاتھ میں ہیں کہ: اگر خدا کو علم ہو جائے کہ تمہارے دلوں میں خیر اور بھلائی ہے تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا کرے گا (اور تم مسلمان ہو جاؤ گے ) اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا مہربان ہے۔
چند نکات:
۔آیت کے شان نزول کے بارے میں منقول ہے کہ: عباس‘ عقیل اور نوفل جنگ بدر میں گرفتار ہو کر آئے تو حضرت رسول خدا نے ان سے فدیہ لے کر آزاد کر دیا، اس پر وہ بھی مسلمان ہو گئے ۔ ان کے فدیہ کی رقم انہیں واپس کر دی گئی۔ (تفسیر نور الثقلین، منقول از کافی) ۳۷
۔ اسلامی نظام میں جنگی قیدیوں کے بارے میں تین صورتیں ہیں ۔
۱ ۔ فدیہ لئے بغیر انہیں آزاد کر دیا جائے جیسے فتح مکہ کے موقع پر کہ کسی کو قیدی ہی نہیں بنایا گیا۔
۲ ۔ فدیہ لے کر قیدی کو آزاد کر دیا جائے ، قیدی کا قیدی سے تبادلہ کیا جائے۔
۳ ۔ قیدیوں کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا جائے تا کہ ایک تو دشمن کے طاقت حاصل کرنے سے رکاوٹ ہو گی اور ساتھ ہی وہ بتدریج دینی تعلیم حاصل کر کے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیں گے ۔
البتہ ان تین صورتوں میں سے کسی کا بھی اختیار سربراہ کو حاصل ہے۔
پیام:
۱ ۔ قیدیوں سے ایسا سلوک کرو جس سے انہیں ہدایت اور ارشاد ملے (خیر ، مغفرت وغیرہ جیسے کلمات ان لوگوں کے لئے استعمال کئے جائیں جو شکست کھانے کے بعد پشیمان ہو چکے ہیں)
۲ ۔ جنگ کا مقصد قتل و غارت او رقیدی اور فدیہ لینا نہیں ہے بلکہ اصل مقصد لوگوں کی ہدایت او رطاغوت شکنی ہے۔
۳ ۔ اسراء کو تبلیغ اور ان کی رہنمائی لازم ہے ۔(
قل لمن فی ایدیکم
)
۴ ۔ حقیقی خیر تو ایمان ہی ہے(
ان یعلم الله فی قلوبکم خیرا
)
آیت ۷۱
(
وَ اِنْ یُّرِیْدُ ْواخِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْکَنَ مِنْهُمْط وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ
)
ترجمہ۔ اور اگر وہ (قیدی ) آپ کے ساتھ خیانت کرنا چاہیں گے تو (کیا ہوا)وہ پہلے بھی خدا سے خیانت کر چکے ہیں ۔ پس خدا نے (آپ کو ) ان پر غلبہ اور تسلط دیا ہے او راللہ تعالیٰ علم اور حکمت والا ہے ۔
پیام:
۱ ۔ دشمن طاقتوں پر نہ تو سو فیصد یقین کامل رکھو اور نہ ہی ان کے بارے میں سو فیصد بد گمانی ۔ نہ صرف سختی ا ور نہ ہی بالکل نرمی ۔ بلکہ زیر ک، خبردار ، ہوشیار اور مہربان بنے رہو، (سابقہ اور موجود آیات کا مجموعہ)
۲ ۔ دشمن کا کام تو ہے ہی خیانت کرنا(
خانواالله من قبل
)
۳ ۔ خدا وند عالم حق اور حق کے طرفداروں کو غلبہ عطا کرتا ہے(
امکن منهم
)
۴ ۔ اللہ تعالیٰ دشمن کی نیتوں سے آگاہ اور حکم فرمائی میں حکیم اور مصلحت اندیش ہے۔(
علیم حکیم
)
آیت ۷۲
(
اِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُْوا وَجَاهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْآ اُولٰٓئِکَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍط وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلَا یَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰی یُهَاجِرُوْاج وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌط وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
)
ترجمہ۔ یقینا لوگ ایمان لے آئے ، ہجرت کی ، اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ خدا کی راہ میں جہاد کیا ۔ اور جنہوں نے (مجاہدین اور مہاجر ین کو ) پناہ دی او ران کی مدد کی وہی تو ایک دوسرے کے دوست ، حامی اور ہم پیمان ہیں ۔ اور جو لوگ ایمان لے آئے لیکن انہوں نے ہجرت نہیں کی تو تمہیں ان کے ساتھ دوستی او ران کی حمایت کا حق نہیں ہے ۔ جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں ۔ او ر اگر( کفار میں دبے ہوئے مومنین اپنے دین کی حفاظت کے لئے ) تم سے مدد طلب کریں تو تم پر لازم ہے کہ ان کی ا مدادکرو۔ مگر ان لوگوں کے خلاف جن کا تمہارے ساتھ (جنگ نہ کرنے کا ) معاہدہ ہے۔ اور خدا وند عالم جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
دو نکات:
۔ اس آیت میں چند اہم باتیں بتائی گئی ہیں مثلا مہاجرین او رانصار کا باہمی تعلق ، ہجرت کی ضرورت ، ہجرت سے جان بچانے والے اشرافیہ سے بے اعتنائی ، مہاجرین او رکفار کے درمیان موجود معاہدے اور مسلمانوں کی نجات بشرطیکہ پہلے سے کئے ہوئے معاہدے متاثر نہ ہوں ۔
۔ وحدت واتحاد کو مستحکم کرنے کے لئے اسلام نے تین منصوبے پیش کئے ہیں ۔ ۱ ۔ لوگوں کا اپنے رہبر کی بیعت کرنا ۔
۲ ۔ مہاجرین اور انصارکی باہمی دوستی ۔ ۳ ۔ مسلمانوں کی باہمی اخوت
پیام:
۱ ۔ سعی و کوشش کے بغیر اسلام اور ایمان پروان نہیں چڑھتے ۔ اوائل اسلام کے مسلمان یا مہاجر تھے یا مہاجرین کو پناہ دینے والے تھے یا مجاہد یا پھر مجاہدین کے حامی۔
۲ ۔ مہاجرین او رانصار کے درمیان گہرا رابطہ ہے ، ہر شخص کے اپنے حالات کے مطابق ہی اس پر حکم لگایا جا تا ہے او راس پر فریضہ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے ۔ کسی پر ہجرت واجب ہوتی تو کسی پر مہاجرین کی پناہ ضروری ۔
۳ ۔ اسلامی معاشرے کی طرف ہجرت ، ولایت کی ایک شرط ہے ((
لم یهاجروا مالکم من ولا یتهم-
)
۴ ۔ صرف عقیدہ ہی کافی نہیں ہجرت ، جہاد ، مہاجرین اور مجاہدین کی حمایت بھی ضروری ہے۔
۵ ۔ ترقی کی طرف پرواز اس وقت ممکن ہوتی ہے جب اذہان و افکار ، قوت بازو ، سرمایہ، طاقت اور ہجرت یکجاہوں(
امنوا ، ها جروا، جاهدوا، اموالهم
)
۶ ۔ اسلامی معاشرہ میں ہجرت کرنے والوں اور مرفہ حال یا ہجرت سے گریز کرنے والے اشرافیہ کے درمیان فرق ضرور ہونا چاہیے(
امنو ولم یهاجروا
)
۷ ۔ ہجرت کرنے سے ایک تو کافر انہ نظام کوزک پہنچتی ہے او ردوسرے دین کی حفاظت اور مسلمانوں کی طاقت محفوظ رہتی ہے۔ ۳۸
۸ ۔ کفار کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں اوربین الاقوامی حقوق کا احترام ، مسلمانوں کی حمایت سے زیادہ اہم ہے،(
الاعلی قوم----
)
۹ ۔ ان لوگوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے جو بعد میں مسلمانوں سے آملتے ہیں(
حتی یهاجروا
)
۱۰ ۔ اگرچہ مہاجرین کا فی امتیازات کے مستحق ہیں لیکن اگر رفاہ طلب اور بے حال مسلمان کفر کے دباؤ میں ہوں او ران کے مظالم کی چکی میں پِس رہے ہوں تو ان کی امداد کرنے سے بھی قطعا گریز نہیں کرنا چاہیے(
ان استنصروکم فعلیکم النصر
)
آیت ۷۳
(
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍط اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ
)
ط
ترجمہ۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ ایک دوسرے کے یارو مددگار ہیں (تم ان سے معاہدے نہ کرو) اگر تم بھی یہ ہم بستگی نہ رکھو تو زمین میں فتنہ او ربہت بڑا فساد کھڑا ہو جائے۔
ایک نکتہ:
"(
الا تفعلوه
)
" کے تین معنی بیان ہوئے ہیں۔
۱ ۔ اگر ہمارے حکم کے مطابق تم مومنین کے ساتھ باہمی موالات پر عمل نہیں کرو گے او رکفار کے ساتھ تعلق رکھو گے تو اس سے بہت بڑا فساد پیدا ہو جائے گا ، کیونکہ وہ متحد ہیں او رتم متفرق ہو۔
۲ ۔ اگر ان مسلمانوں سے بے پرواہی برتو گے جنہیں تمہاری امداد کی ضرورت ہے او روہ کفار کے سخت دباؤ میں ہیں تو یا تو ان کا قتل عام ہو جائے گا یا پھر وہ اسلام سے منحرف ہو جائیں گے۔
۳ ۔ اگر کفار کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کا پاس نہیں کرو گے اور صرف چند مسلمانوں کی حمایت کرو گے تو کفار اکٹھے ہو کر تمہارے خلاف ہو جائیں گے جس سے بہت بڑے فساد کا اندیشہ ہے ،
پیام:
۱ ۔ دشمنوں سے محبت ۔ انہیں اپنے امور میں داخل کرنا ، ان کی ولایت و حکومت او راثر و نفوذ کو قبول کر لینا زمین میں بہت بڑا فتنہ و فساد ہے ۔
۲ ۔ جب کفار ایک دوسرے کے یارو مددگار ہیں تو اگر مسلمان آپس میں دوستی اور محبت کا ثبوت نہیں دیں گے تو فتنہ و فساد میں گرفتار ہو جائیں گے ۔(
والاتفعلوه
)
(ازتفسیر اطیب البیان)
۳ ۔ اگر تم مسلمانوں کے درمیان دوستی او رولایت کا مستحکم رشتہ نہیں ہو گا تو کفار متحد ہوکر تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔(
الا تفعلوه تکن فتنته
)
آیت ۷۴
(
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَجاَهَدُوْا فِیْ سَبِیِِْلِ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْآ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمَؤْمِنُوْنَ حَقًّاط لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ
)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لے آئے اور ہجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا ، اور جنہوں نے پناہ دی او رامداد کی تو یہی لوگ حقیقی مومن ہیں انہی کے لئے بخشش او رشائستہ رزق ور ورزی ہے۔
پیام:
۱ ۔ ایمان ہمیشہ نیک اعمال پر مقدم ہوتا ہے۔(
امنو و هاجروا
)
۲ ۔ حقیقی ایمان ہجرت ، جہاد ، مجاہد مسلمانوں کو پناہ دینے او ران کی امداد کرنے میں مضمر ہے۔(
هم المومنون حقا
)
۳ ۔ کسی عمل کی قدرو قیمت اسی وقت ہوتی ہے جب اس پر خدائی رنگ او ررضائے الہٰی غالب ہو۔(
فی سبیل الله
)
۴ ۔ انسان ہر مرحلے پر اور ہمیشہ جواب دہ ہے او را س پرکوئی نہ کوئی ذمہ داری عائد رہتی ہی ہے کبھی جہاد کی صورت میں کبھی ہجرت کی صورت میں او رکبھی مجاہدین کی نصرت کی صورت میں۔
۵ ۔ ہجرت اور جہاد بخشش اور رزق الہٰی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔
۶ ۔ اگر ہجرت او رجہاد کی خاطر معمول کے رزق ورزی سے آنکھیں بند کر لو تو خد ا کے کریم اور شائستہ رزق کو ضرور حاصل کر لو گے۔
آیت ۷۵
(
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْم بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا َوجَاهَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنْکُمْط وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰهِط اِنَّ اللّٰهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
)
ترجمہ۔ اور لوگ بعد میں ایمان لائے او رتمہارے ہمراہ ہجرت بھی کی او رجہاد بھی کیا ، تو وہ لوگ بھی تم میں سے ہیں ، اور قرابت دار (خدائی قانون اور) کتاب خدا میں ایک دوسرے کی نسبت اولویت رکھتے ہیں ۔ یقینا اللہ تعالی ہر چیز کو جانتا ہے۔
دو نکات:
۔اسلام سے پہلے وراثت کی تقسیم خاندانی اعزّہ منہ بولی اولا د او ر باہمی عہدو پیمان کی بنیادوں پر ہوا کرتی تھی۔ لیکن اسلام نے اسے صرف قرابت داری کی بنیاد پر ہی مقرر فرمایا ہے۔
۔ہمارے آئمہ اطہار اور علماء اسلام نے علی بن ابی طالب او ران کے مقدس جانشینوں کی امامت ا ورخلافت کے مسئلے میں بار ہا اسی آیت سے استناد کیا ہے۔ البتہ علم ، سبقت ایمانی جہاد او رتقوی جیسی صفات اس کے علاوہ ہیں کہ جن سے امامت کے لئے استناد کیا جاتا ہے اس آیت سے علی بن ابیطالب کی پیغمبر خدا سے قرابت داری کے ذریعہ ان کی امامت او رخلا فت بلا فصل پر استد لال کیا جاتا ہے۔
پیام:
۱ ۔ اگر اسلامی معاشرے کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ اس نے کسی اور پر کبھی اپنا دروازہ بند نہیں کیا۔ اگرچہ اس میں بہت سے سابق الایمان او ر صاحبان فضیلت لوگ رہتے ہیں۔
۲ ۔ قرابت دار مومنین میں ایمانی ولایت جو کہ ہجرت اور جہاد کے سایہ میں انہیں ملی ہے اپنی قرابتداری کی ولایت کے حامل بھی ہیں۔
۳ ۔ باہمی رشتہ داروں میں سلسلہ مراتب موجود ہے ((
اولیٰ ببعض
)
(صدق الله العلي العظیم
)۔
حوالا جات ۔ فٹ نوٹس