تفسیرنور

تفسیرنور5%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69667 / ڈاؤنلوڈ: 8394
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

آیت ۶۱

( وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰهِ ط اِنَّه هُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ )

ترجمہ۔ اور اگر دشمن صلح کے لئے مائل ہوجائیں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور خدا پر توکل کرو کیونکہ وہ یقیناً سننے اور جاننے والا ہے۔

پیام:

۱ ۔ اسلام، جنگ کا خواہاں نہیں ہے۔

۲ ۔ مسلمانوں کو اس قدر طاقتور ہونا چاہئے کہ صلح کی پیشکش دشمن کی طرف سے( جنجوا )

۳ ۔ جنگ کا حکم ہو یا صلح کی پیشکش کی منظوری اس کا اختیار پیغمبر خدا کے ہاتھ میں ہے اور یہ رہبر کے اختیارات میں شامل ہے۔( فاجنح ) کا لفظ ہے "فاجنحوا" نہیں ہے۔

۴ ۔ جب قدرت مند بن جاؤ تو اپنی اس قدرتمندی سے ناجائز مفاد نہ اٹھاؤ بلکہ میلان دکھاؤ( فاجنح )

۵ ۔ صلح کی پیشکش منظور کرتے ہوئے خدا پر بھروسہ کرو( فاجنح لها و توکل )

۶ ۔ صلح کی پیشکش کے وقت دشمن کی سازش کا بھی اندیشہ ہوتا ہے اور بعض "یار دوستوں" کی زبان کے زخم کا خطرہ بھی ہوتا ہے، لیکن ہر حالت میں خدا پر بھروسہ کیا جائے( توکل علی الله ) ۳۳

آیت ۶۲

( وَ اِنْ یُّرِیْدُوْآ اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰهُط هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ ) لا

ترجمہ۔ اور اگر دشمن آپ کو دھوکہ دینا چاہیں گے بھی تو یقیناً خدا آپ کے لئے کافی ہے، خدا وہی تو ہے، جس نے اپنی اور مومنین کی نصرت کے ساتھ آپ کی تائید کی ہے۔

دو نکات:

اگر رہبر مسلمین کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ دشمن صلح کے پردے میں دھوکہ دینا چاہتا ہے تو یہ اور بات ہے، ورنہ اگر احتمال ہو کہ دھوکہ ہے یا نیک نیتی تو ایسی صورت میں مکمل ہوشیاری کے ساتھ صلح کی پیشکش کو قبول کر لینا چاہئے۔

بعض روایات میں "مومنین کے ذریعے پیغمبر اکرم کی تائید و حمایت" سے مراد حضرت علی علیہ اسلام کی تائید اور حمایت ہے، چنانچہ ابن عساکر اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عرش الٰہی پر لکھا ہوا ہے:

"لا اله الا انا لاشریک لی محمد عبدی و رسولی: ایدته بعلی " میرے سوا کوئی معبود نہیں، میرا کوئی شریک نہیں، حضرت محمد میرے بندے اور رسول ہیں اور میں نے علی کے ذریعہ ان کی تائید و نصرت کی ہے،

یہ وہی ہے جو اللہ نے قرآن کی اسی آیت میں فرمایا ہے (ھوالذی ایدک بنصرہ و بالمومنین)۔

(ملاحظہ ہو تفسیر فرقان منقول از در منثور جلد ۳ ص ۱۹۹ ، و ملحقات احقاق الحق جلد ۳ ص، ۱۹۴)

پیام:

۱ ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ صلح کی پیشکش کو نہ ٹھکرائیں تاکہ دشمن کو ان کے خلاف اس پروپیگنڈے کا موقع نہ مل سکے کہ "مسلمان جنگ طلب ہوتے ہیں"، البتہ ہوشیاری ضروری ہے تاکہ دھوکہ نہ کھا جائیں۔

۲ ۔ اگر ہم اپنے فریضہ پر عمل پیرا رہیں تو مشکلات سے نہیں گھبرانا چاہئے، کیونکہ مشکل کشا خدا کی ذات ہے۔( ایدک )

۳ ۔ خدائی امداد بھی، عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ ہے( بنصره و بالموٴمنین )

۴ ۔ لوگ، رہبر کے دست و بازو اور حامی و مددگار ہوتے ہیں( و بالموٴمنین )

۵ ۔ اگر خدا سے غفلت برتے بغیر اس کے بندوں سے مدد مانگی جائے تو شرک نہیں ہے۔

۶ ۔ اگر عوام بیدار ہوں اور لطف الٰہی شامل حال ہو تو دشمن کی تمام چالیں ناکام ہو جاتی ہیں۔

۷ ۔ عوامی حمایت بھی اللہ کے ارادے اور منشا کے تحت حاصل ہوتی ہے۔( حسبک الله )

آیت ۶۳

( وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْط لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفَتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْطاِنَّه عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )

ترجمہ۔ اور اللہ نے ان (مومنین) کے دلوں میں الفت پیدا کر دی ہے، اگر آپ وہ سب کچھ خرچ کرتے جو کہ زمین میں ہے پھر بھی ان کے دلوں میں الفت اور محبت پیدا نہ کر سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان الفت پیدا کی ہے اور وہ یقینی طور پر غالب اور حکمت والا ہے۔

پیام:

۱ ۔ دل اور دلوں کے درمیان الفت خدا کے ہاتھ میں ہے (الف)

۲ ۔ مال و دولت اور جاہ و مقام ہر جگہ پر کارآمد نہیں ہوا کرتے۔( لوانفقت…ما الفت )

۳ ۔ لوگوں کے دیرینہ اختلافات کا حل کرنا، پیغمبر اسلام کی نبوت کا ایک معجزہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ اور ان کے درمیان الفت برقرار ہو گئی۔

۴ ۔ وحدت اور الفت اللہ کی نعمتیں ہیں جنہیں قرآن میں ذکر کیا گیا ہے اور ان کو لوگوں اور پیغمبر کے لئے احسان کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ۳۴

۵ ۔ ظاہری اتحاد سے زیادہ اہم، قلبی اور باطنی پیوند ہے ورنہ ظاہر میں تو کافر بھی متحد ہیں لیکن ان کے دل منتشر ہیں۔ ۳۵

۶ ۔ وحدت اور اتحاد قائم کرنے کی واحد راہ، خدا پر ایمان اور "حبل اللہ" (خدائی رسی) کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور وہ بھی خدا کی طرف سے ہے۔

۷ ۔ لوگ اپنے رہبر کے لئے اس وقت زور بازو ثابت ہو سکتے ہیں جب وہ باہم متحد ہوں، ورنہ رہبر کی کمر کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ (گزشتہ اور موجودہ آیت کے پیش نظر)

سوال: اس آیت میں تو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر تمام روئے زمین کا سرمایہ بھی خرچ کر ڈالو تب بھی ان لوگوں کے دلوں میں الفت اور محبت ایجاد نہیں کر سکو گے، تو پھر زکوٰة کی مدد سے تالیف قلب کے لئے کیوں خرچ کرنے کا حکم ہے کہ "والمولفة قلوبھم"؟

جواب: لوگوں کے دلوں میں موجود کینہ اور اس کی تاریخ مختلف ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی مسکراہٹ اور مختصر سے تحفے کے ساتھ تمام رنجشیں دور ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ اس قدر گہرا اور پرانا ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح سے اسے دور نہیں کیا جا سکتا۔

آیت ۶۴

( یٰٓاَ یُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ )

ترجمہ۔ اے پیغمبر! آپ کے لئے اللہ اور مومنین میں سے وہ لوگ کافی ہیں جو آپ کی پیروی کر چکے ہیں۔

دو نکات:

بنی قریظہ اوربنی نضیر میں سے کچھ یہودیوں نے پیغمبر اسلام کو اپنی مدد کی جھوٹی یقین دہانی کرائی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مومنین ہی آپ کے لئے کافی ہیں۔ اور اسی آیت کے ضمن میں اگلی آیت میں بیان ہونے والا جہاد کا حکم بھی مقدمہ کے طور پر ذکر ہو گیا ہے۔

کتاب "فضائل الصحابہ" میں حافظ ابو نعیم روایت کرتے ہیں کہ اس آیت میں مذکور "مومنین" سے مراد ذات علی بن ابی طالب علیہ اسلام ہے۔ ۳۶

پیام:

۱ ۔ اسلامی نظام کا دارومدار خدا، رسول اور مومنین پر ہے۔ اسلامی معاشرے میں رہبر کا تعین خدا کی طرف سے ہوتا ہے، جس کا قانون وحی کے ذریعہ مرتب ہوتا ہے اور لوگ اس قانون اور رہبر کے فرمانبردار ہوتے ہیں۔

۲ ۔ اگر غیراللہ سے استمداد اور حمایت سے دلی سکون خداوند عالم کی منشا اور اس کی مرضی کے ساتھ ہو تو یہ توحید کے منافی نہیں ہے۔ شرک تو وہاں ہوتا ہے جہاں خدا کی قدرت اور مرضی کے خلاف غیراللہ پر ہی سارا تکیہ کیا جائے۔ لیکن جب تک قلوب، افکار، نظریات اور حمایتیں خدائی ارادہ کے تحت اور ا س کے نور کی روشنی میں باقی رہیں گے توحید کے مدار سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔

۳ ۔ ایمان کے ساتھ ہی اطاعت سودمند ہوتی ہے نہ کہ ایمان کے بغیر اطاعت یا اطاعت کے بغیر ایمان،( من اتبعک من الموٴمنین )

۴ ۔ کچھ لوگ پیغمبر کے اطاعت گزار نہیں تھے۔( من الموٴمنین )

آیت ۶۵

( یٰٓاَ یُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِج وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَةٌ یَّغْلِبُوْآ اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ )

ترجمہ۔ اے پیغمبر! مومنین کو جنگ کے لئے آمادہ کرو، اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں اور اگر تم میں سے سو (صابر) لوگ ہوں تو وہ کفار کے ہزار افراد پر کامیابی حاصل کر لیں، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں۔

دو نکات:

یہ آیت تعداد کے لحاظ سے افرادی طاقت کی نفی کر رہی ہے اور ایمان، صبر اور حوصلے ہی کو معیار قرار دے رہی ہے، آیت اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے کہ بیس آدمی دو سو پر فتح پا سکتے ہیں، اس بات کو ایک بار پھر دہراتی ہے کہ سو آدمی ہزار انسانوں پر غالب آ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مومن اور صابر ہوں۔

زمانہ صدر اسلام کی جنگوں میں کبھی بھی اعداد و شمار کے ذریعے موازنہ نہیں کیا جاتا تھا، اور نہ کہیں پر عددی قوت کو معیار قرار دیا جاتا تھا، جنگ بدر میں ۳۱۳ مجاہد ہزار کفار کے مقابلے میں تھے، احد میں تین ہزار کفار کے مقابلے میں صرف سات سو جنگجو تھے، جنگ خندق میں تین ہزار مسلمانوں کا دس ہزار کفار سے مقابلہ تھا جبکہ جنگ موتہ میں دس ہزار مسلمان ایک لاکھ کے ساتھ نبردآزما تھے۔

پیام:

۱ ۔ رہبر کے وظائف اور فرائض میں شامل ہے کہ لوگوں کو جہاد کے لئے آمادہ کرے۔ لشکر کے فرمانروا کا فرض بنتا ہے کہ جنگی کارروائی سے پہلے اپنی دلنشین باتوں سے لشکر کا دل گرما دے (حرض)

۲ ۔ دشوار اور مشکل کام تشویق و ترغیب اور تلقین کے ذریعہ آسان ہو جاتے ہیں اور اسی میں کامیابی کا راز ہے۔

۳ ۔ جنگ اور جہاد میں تبلیغات کا ہونا بہت ضروری ہے۔

۴ ۔ محاذ جنگ میں اصل اہمیت ایمان اور صبر کو حاصل ہے عددی قلت اور کثرت کی کوئی اہمیت نہیں۔

۵ ۔ ابتدائے اسلام میں دشمن کے دسویں حصے کے برابر مجاہدین کی موجودگی سے حکم جہاد صادر ہو جاتا تھا۔

۶ ۔ مجاہد کے لئے ان تین صفات کا حامل ہونا ضروری ہے ایمان، صبر اور معرفت و آگاہی (مومنین، صابرین) اور کفار کے بارے میں ہے "( لایفقهون )

۷ ۔ اسلامی لشکر کو کم از کم بیس افراد پر مشتمل ہونا چاہئے اس سے کم پر نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں تو ایک سو سے کم افراد پر مشتمل نہیں ہونا چاہئے۔ (از تفسیر فرقان)

۸ ۔ آگاہی اور معرفت کامیابی کے عوامل میں سے ہے چنانچہ اگر گہری شناخت، آگاہی پر مبنی عقائد اور مقصد و ہدف کی معرفت نہ ہو تو شکست یقینی ہو جاتی ہے( لایفقهون )

آیت ۶۶

( اَلْئٰنَ خَفَفَّ اللّٰهُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًاط فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِج وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکمُ ْاَلْفٌ یَّغْلِبُوْآ اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِط وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ )

ترجمہ۔ اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے بوجھ کو ہلکا کر دیا اور جان لیا کہ تمہارے اندر کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو صابر آدمی ہوں تو وہ (کفار کے) دو سو لوگوں پر غالب آ جائیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار آدمی ہوں تو (ان کے) دو ہزار افراد پر خدا کے حکم سے کامیاب ہو جائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

دو نکات:

آیت میں مذکور "ضعف" (کمزوری) سے مراد عقیدتی اور روحانی کمزوری ہے کیونکہ سپاہ اسلام میں جسمانی اور عددی کے اعتبار سے کمی نہیں ہوئی تھی۔

اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں تین ایسے روحانی مسائل کی طرف اشارہ ہوا ہے جو کامیابی کے اصل عوامل ہیں۔ اور جن کے بغیر شکست یقینی ہے اور وہ ہیں صبر، ایمان اور معرفت۔

پیام:

۱ ۔ امور کو چلانے کے لئے بعض خصوصی احوال کی بنا پر آئین اور قوانین میں تبدیلی کرنا پڑتی ہے اور اس سے استقلال مزاجی متاثر نہیں ہوتا۔( الان خفف )

۲ ۔ فرائض کی ادائیگی کا حکم بھی استطاعت کے مطابق ہوتا ہے اور قانون سازی کے موقع پر کمزور لوگوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔( فیکم ضعفا )

۳ ۔ شکست کا اصل موجب اندر سے ہی ظاہر ہوتا ہے باہر سے نہیں( فیکم ضعفا )

۴ ۔ بعض اوقات ارادے کی کمزوری، جنگی توانائیوں کو دس گناہ سے دوگناہ کی حد تک یعنی اسی فیصد تنزلی پر لے آتی ہے۔

۵ ۔ ایک گروہ کی کمزوری دوسرے لوگوں کے حوصلے بھی پست کر دیتی ہے۔( فیکم ضعفا )

۶ ۔ فتح و کامرانی میں اصل شے خدا کا ارادہ اور حکم ہے (ورنہ جنگ حنین میں اس قدر زیادہ افرادی قوت کے باوجود مسلمان شکست کھا کر بھاگ نہ جاتے۔ "( اعجبتکم کثرتکم…ثم ولیتم مدبرین ) "

۷ ۔ صابر، خدا کا محبوب اور اسی کی پناہ میں ہوتا ہے۔( والله مع الصابرین )

۸ ۔ سالار لشکر کو سپاہ اسلام کے حوصلوں، ارادوں اور قوت ایمانی پر توجہ رکھنی چاہئے( علم ان فیکم ضعفا )

۹ ۔ "واللہ مع الصابرین" (اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) کا نعرہ اسلام کے جنگی محاذوں پر لگنا چاہئے۔

۱۰ ۔ اپنی فتح و کامرانی پر اتراؤ نہیں کیونکہ یہ اس ذات کی عطا کردہ ہے۔( باذن الله )

آیت ۶۷

( مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَهٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِط تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَط وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )

ترجمہ۔ کسی پیغمبر کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو اسیر بنائے مگر اس کے بعد جب (فوجی علاقہ اور) زمین پر پوری طرح قابو پا لے۔ تم تو جلد گزر جانے والی دنیا کو چاہتے ہو لیکن اللہ (تمہارے لئے) آخرت کو چاہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ناقابل شکست اور صاحب حکمت ہے۔

دو نکات:

"ثخن" کے معنی ہیں ضخامت، سنگینی اور ٹھوس ہونا اور یہ کنایہ ہے کامیابی، واضح غلبہ اور اقتدار سے۔

آیت خبردار کر رہی ہے کہ قیدی بنانا، پھر فدیہ لے کر اسے آزاد کر دینا اور جنگی غنیمتوں کا سمیٹنا مسلمانوں کو اپنے اصل مقصد سے نہ ہٹا دے کہ جس سے وہ اچانک کوئی نقصان اٹھائیں۔

پیام:

۱ ۔ دنیا ناپائیدار اور جلد گزر جانے والی ہے۔( عرض )

۲ ۔ فوجی کارروائیوں میں مرحلہ وار حکمت عملی کا اجرا کیا جاتا ہے اور حالات پر مکمل قابو پانے سے پہلے جنگی قیدی بنانے کی پالیسی صحیح نہیں ہے۔( ما کان…حتی یثخن )

۳ ۔ اسلامی جنگوں کا اصل مقصد، رضائے الٰہی کا حصول، حق کی تقویت اور مستضعفین کی نجات ہے، غنیمتیں سمیٹنا، قیدی بنانا اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینا اصل مقصد نہیں ہے۔

۴ ۔ جنگ کے بحرانی ترین لمحات میں مومنین کو بھی دنیا کی طرف رغبت و رحجان سے پرہیز کرنا چاہئے۔

۵ ۔ مقصد میں مرکزیت اور انتشار و افتراق سے دوری ایک ضرورت ہے (جب تک میدان جنگ میں اپنی پوزیشنیں مضبوط نہ کر لو، ہرگز قیدی نہ بناؤ)

آیت ۶۸ ۔ ۶۹

( لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّباً وَّاتَّقُوا اللّٰهَط اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ )

ترجمہ۔ اگر خداوند عالم کا پہلے سے قانون نہ ہوتا (کہ اطلاع دیئے بغیر کسی امت کو ہلاک نہیں کرتا) تو تم نے جو بے جا اسیر پکڑے تھے اس کی وجہ سے تمہیں بہت بڑا عذاب آ لیتا۔

پس جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس سے کھاؤ کہ یہ حلال اور پاکیزہ ہے اور خدا سے ڈرتے رہو بلاشبہ خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

چند نکات:

"کتاب من اللہ" سے مراد یا تو خداوند عالم کا وہ طریقہ کار ہے کہ کسی حکم کے بیان کرنے سے پہلے کسی کو سزا نہیں دیتا، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: "( وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا ) "۔ جب تک رسول نہ بھیج دیں اس وقت تک ہم عذاب دینے والے نہیں (بنی اسرائیل ۱۵) یا جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تقدیر الٰہی نہ ہوتی تو، پوزیشن مضبوط ہونے سے پہلے جو قیدی بنا لئے ہیں اس کی سزا میں تمہیں زبردست زک پہنچاتا۔ (تفسیر اطیب البیان)

روایات کے مطابق اس آیت میں "غنیمت " سے مراد وہ رقم ہے جو مسلمانوں نے فدیہ کے طور پر قیدی آزادکرنے کے بدلے میں لی تھی۔ اور وہ فدیہ ہر ایک قیدی کی طرف سے ایک ہزار سے چار ہزار درہم تک تھا ۔

فدیہ زبردستی نہیں لیا جاتا اور نہ ہی اسے انسان فروشی کے زمرے میں لے آئیں گے ، بلکہ یہ رہبر مسلمین کی صوابد ید پر منحصر ہے اور مسلمانوں کے نقصان کی تلافی کے طور پر ہے۔

پیام:

۱ ۔ کسی چیز کے استعمال میں لانے کی شرط اس کا حلال اور پاکیزہ ہونا ہے ۔

۲ ۔ ہوشیار اور خبردار ہناکہیں جنگی غنیمتیں اور قیدیوں کے فدئیے تمہیں جہاد سے اعلی اور والا ترین مقصد سے نہ ہٹا دیں ۔ لہذا ہمیشہ خدا کو پیش نظر رکھے رہو۔( اتقو االله )

آیت ۷۰

( یٰٓاَ یُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُْمْط وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ )

ترجمہ ۔ اے پیغمبر! ان اسیروں سے کہہ دیجئے جو آپ کے ہاتھ میں ہیں کہ: اگر خدا کو علم ہو جائے کہ تمہارے دلوں میں خیر اور بھلائی ہے تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا کرے گا (اور تم مسلمان ہو جاؤ گے ) اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا مہربان ہے۔

چند نکات:

۔آیت کے شان نزول کے بارے میں منقول ہے کہ: عباس‘ عقیل اور نوفل جنگ بدر میں گرفتار ہو کر آئے تو حضرت رسول خدا نے ان سے فدیہ لے کر آزاد کر دیا، اس پر وہ بھی مسلمان ہو گئے ۔ ان کے فدیہ کی رقم انہیں واپس کر دی گئی۔ (تفسیر نور الثقلین، منقول از کافی) ۳۷

۔ اسلامی نظام میں جنگی قیدیوں کے بارے میں تین صورتیں ہیں ۔

۱ ۔ فدیہ لئے بغیر انہیں آزاد کر دیا جائے جیسے فتح مکہ کے موقع پر کہ کسی کو قیدی ہی نہیں بنایا گیا۔

۲ ۔ فدیہ لے کر قیدی کو آزاد کر دیا جائے ، قیدی کا قیدی سے تبادلہ کیا جائے۔

۳ ۔ قیدیوں کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا جائے تا کہ ایک تو دشمن کے طاقت حاصل کرنے سے رکاوٹ ہو گی اور ساتھ ہی وہ بتدریج دینی تعلیم حاصل کر کے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیں گے ۔

البتہ ان تین صورتوں میں سے کسی کا بھی اختیار سربراہ کو حاصل ہے۔

پیام:

۱ ۔ قیدیوں سے ایسا سلوک کرو جس سے انہیں ہدایت اور ارشاد ملے (خیر ، مغفرت وغیرہ جیسے کلمات ان لوگوں کے لئے استعمال کئے جائیں جو شکست کھانے کے بعد پشیمان ہو چکے ہیں)

۲ ۔ جنگ کا مقصد قتل و غارت او رقیدی اور فدیہ لینا نہیں ہے بلکہ اصل مقصد لوگوں کی ہدایت او رطاغوت شکنی ہے۔

۳ ۔ اسراء کو تبلیغ اور ان کی رہنمائی لازم ہے ۔( قل لمن فی ایدیکم )

۴ ۔ حقیقی خیر تو ایمان ہی ہے( ان یعلم الله فی قلوبکم خیرا )

آیت ۷۱

( وَ اِنْ یُّرِیْدُ ْواخِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْکَنَ مِنْهُمْط وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ )

ترجمہ۔ اور اگر وہ (قیدی ) آپ کے ساتھ خیانت کرنا چاہیں گے تو (کیا ہوا)وہ پہلے بھی خدا سے خیانت کر چکے ہیں ۔ پس خدا نے (آپ کو ) ان پر غلبہ اور تسلط دیا ہے او راللہ تعالیٰ علم اور حکمت والا ہے ۔

پیام:

۱ ۔ دشمن طاقتوں پر نہ تو سو فیصد یقین کامل رکھو اور نہ ہی ان کے بارے میں سو فیصد بد گمانی ۔ نہ صرف سختی ا ور نہ ہی بالکل نرمی ۔ بلکہ زیر ک، خبردار ، ہوشیار اور مہربان بنے رہو، (سابقہ اور موجود آیات کا مجموعہ)

۲ ۔ دشمن کا کام تو ہے ہی خیانت کرنا( خانواالله من قبل )

۳ ۔ خدا وند عالم حق اور حق کے طرفداروں کو غلبہ عطا کرتا ہے( امکن منهم )

۴ ۔ اللہ تعالیٰ دشمن کی نیتوں سے آگاہ اور حکم فرمائی میں حکیم اور مصلحت اندیش ہے۔( علیم حکیم )

آیت ۷۲

( اِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُْوا وَجَاهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْآ اُولٰٓئِکَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍط وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلَا یَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰی یُهَاجِرُوْاج وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌط وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )

ترجمہ۔ یقینا لوگ ایمان لے آئے ، ہجرت کی ، اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ خدا کی راہ میں جہاد کیا ۔ اور جنہوں نے (مجاہدین اور مہاجر ین کو ) پناہ دی او ران کی مدد کی وہی تو ایک دوسرے کے دوست ، حامی اور ہم پیمان ہیں ۔ اور جو لوگ ایمان لے آئے لیکن انہوں نے ہجرت نہیں کی تو تمہیں ان کے ساتھ دوستی او ران کی حمایت کا حق نہیں ہے ۔ جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں ۔ او ر اگر( کفار میں دبے ہوئے مومنین اپنے دین کی حفاظت کے لئے ) تم سے مدد طلب کریں تو تم پر لازم ہے کہ ان کی ا مدادکرو۔ مگر ان لوگوں کے خلاف جن کا تمہارے ساتھ (جنگ نہ کرنے کا ) معاہدہ ہے۔ اور خدا وند عالم جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

دو نکات:

۔ اس آیت میں چند اہم باتیں بتائی گئی ہیں مثلا مہاجرین او رانصار کا باہمی تعلق ، ہجرت کی ضرورت ، ہجرت سے جان بچانے والے اشرافیہ سے بے اعتنائی ، مہاجرین او رکفار کے درمیان موجود معاہدے اور مسلمانوں کی نجات بشرطیکہ پہلے سے کئے ہوئے معاہدے متاثر نہ ہوں ۔

۔ وحدت واتحاد کو مستحکم کرنے کے لئے اسلام نے تین منصوبے پیش کئے ہیں ۔ ۱ ۔ لوگوں کا اپنے رہبر کی بیعت کرنا ۔

۲ ۔ مہاجرین اور انصارکی باہمی دوستی ۔ ۳ ۔ مسلمانوں کی باہمی اخوت

پیام:

۱ ۔ سعی و کوشش کے بغیر اسلام اور ایمان پروان نہیں چڑھتے ۔ اوائل اسلام کے مسلمان یا مہاجر تھے یا مہاجرین کو پناہ دینے والے تھے یا مجاہد یا پھر مجاہدین کے حامی۔

۲ ۔ مہاجرین او رانصار کے درمیان گہرا رابطہ ہے ، ہر شخص کے اپنے حالات کے مطابق ہی اس پر حکم لگایا جا تا ہے او راس پر فریضہ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے ۔ کسی پر ہجرت واجب ہوتی تو کسی پر مہاجرین کی پناہ ضروری ۔

۳ ۔ اسلامی معاشرے کی طرف ہجرت ، ولایت کی ایک شرط ہے (( لم یهاجروا مالکم من ولا یتهم- )

۴ ۔ صرف عقیدہ ہی کافی نہیں ہجرت ، جہاد ، مہاجرین اور مجاہدین کی حمایت بھی ضروری ہے۔

۵ ۔ ترقی کی طرف پرواز اس وقت ممکن ہوتی ہے جب اذہان و افکار ، قوت بازو ، سرمایہ، طاقت اور ہجرت یکجاہوں( امنوا ، ها جروا، جاهدوا، اموالهم )

۶ ۔ اسلامی معاشرہ میں ہجرت کرنے والوں اور مرفہ حال یا ہجرت سے گریز کرنے والے اشرافیہ کے درمیان فرق ضرور ہونا چاہیے( امنو ولم یهاجروا )

۷ ۔ ہجرت کرنے سے ایک تو کافر انہ نظام کوزک پہنچتی ہے او ردوسرے دین کی حفاظت اور مسلمانوں کی طاقت محفوظ رہتی ہے۔ ۳۸

۸ ۔ کفار کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں اوربین الاقوامی حقوق کا احترام ، مسلمانوں کی حمایت سے زیادہ اہم ہے،( الاعلی قوم---- )

۹ ۔ ان لوگوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے جو بعد میں مسلمانوں سے آملتے ہیں( حتی یهاجروا )

۱۰ ۔ اگرچہ مہاجرین کا فی امتیازات کے مستحق ہیں لیکن اگر رفاہ طلب اور بے حال مسلمان کفر کے دباؤ میں ہوں او ران کے مظالم کی چکی میں پِس رہے ہوں تو ان کی امداد کرنے سے بھی قطعا گریز نہیں کرنا چاہیے( ان استنصروکم فعلیکم النصر )

آیت ۷۳

( وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍط اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ ) ط

ترجمہ۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ ایک دوسرے کے یارو مددگار ہیں (تم ان سے معاہدے نہ کرو) اگر تم بھی یہ ہم بستگی نہ رکھو تو زمین میں فتنہ او ربہت بڑا فساد کھڑا ہو جائے۔

ایک نکتہ:

"( الا تفعلوه ) " کے تین معنی بیان ہوئے ہیں۔

۱ ۔ اگر ہمارے حکم کے مطابق تم مومنین کے ساتھ باہمی موالات پر عمل نہیں کرو گے او رکفار کے ساتھ تعلق رکھو گے تو اس سے بہت بڑا فساد پیدا ہو جائے گا ، کیونکہ وہ متحد ہیں او رتم متفرق ہو۔

۲ ۔ اگر ان مسلمانوں سے بے پرواہی برتو گے جنہیں تمہاری امداد کی ضرورت ہے او روہ کفار کے سخت دباؤ میں ہیں تو یا تو ان کا قتل عام ہو جائے گا یا پھر وہ اسلام سے منحرف ہو جائیں گے۔

۳ ۔ اگر کفار کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کا پاس نہیں کرو گے اور صرف چند مسلمانوں کی حمایت کرو گے تو کفار اکٹھے ہو کر تمہارے خلاف ہو جائیں گے جس سے بہت بڑے فساد کا اندیشہ ہے ،

پیام:

۱ ۔ دشمنوں سے محبت ۔ انہیں اپنے امور میں داخل کرنا ، ان کی ولایت و حکومت او راثر و نفوذ کو قبول کر لینا زمین میں بہت بڑا فتنہ و فساد ہے ۔

۲ ۔ جب کفار ایک دوسرے کے یارو مددگار ہیں تو اگر مسلمان آپس میں دوستی اور محبت کا ثبوت نہیں دیں گے تو فتنہ و فساد میں گرفتار ہو جائیں گے ۔( والاتفعلوه ) (ازتفسیر اطیب البیان)

۳ ۔ اگر تم مسلمانوں کے درمیان دوستی او رولایت کا مستحکم رشتہ نہیں ہو گا تو کفار متحد ہوکر تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔( الا تفعلوه تکن فتنته )

آیت ۷۴

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَجاَهَدُوْا فِیْ سَبِیِِْلِ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْآ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمَؤْمِنُوْنَ حَقًّاط لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ )

ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لے آئے اور ہجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا ، اور جنہوں نے پناہ دی او رامداد کی تو یہی لوگ حقیقی مومن ہیں انہی کے لئے بخشش او رشائستہ رزق ور ورزی ہے۔

پیام:

۱ ۔ ایمان ہمیشہ نیک اعمال پر مقدم ہوتا ہے۔( امنو و هاجروا )

۲ ۔ حقیقی ایمان ہجرت ، جہاد ، مجاہد مسلمانوں کو پناہ دینے او ران کی امداد کرنے میں مضمر ہے۔( هم المومنون حقا )

۳ ۔ کسی عمل کی قدرو قیمت اسی وقت ہوتی ہے جب اس پر خدائی رنگ او ررضائے الہٰی غالب ہو۔( فی سبیل الله )

۴ ۔ انسان ہر مرحلے پر اور ہمیشہ جواب دہ ہے او را س پرکوئی نہ کوئی ذمہ داری عائد رہتی ہی ہے کبھی جہاد کی صورت میں کبھی ہجرت کی صورت میں او رکبھی مجاہدین کی نصرت کی صورت میں۔

۵ ۔ ہجرت اور جہاد بخشش اور رزق الہٰی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔

۶ ۔ اگر ہجرت او رجہاد کی خاطر معمول کے رزق ورزی سے آنکھیں بند کر لو تو خد ا کے کریم اور شائستہ رزق کو ضرور حاصل کر لو گے۔

آیت ۷۵

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْم بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا َوجَاهَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنْکُمْط وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰهِط اِنَّ اللّٰهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ )

ترجمہ۔ اور لوگ بعد میں ایمان لائے او رتمہارے ہمراہ ہجرت بھی کی او رجہاد بھی کیا ، تو وہ لوگ بھی تم میں سے ہیں ، اور قرابت دار (خدائی قانون اور) کتاب خدا میں ایک دوسرے کی نسبت اولویت رکھتے ہیں ۔ یقینا اللہ تعالی ہر چیز کو جانتا ہے۔

دو نکات:

۔اسلام سے پہلے وراثت کی تقسیم خاندانی اعزّہ منہ بولی اولا د او ر باہمی عہدو پیمان کی بنیادوں پر ہوا کرتی تھی۔ لیکن اسلام نے اسے صرف قرابت داری کی بنیاد پر ہی مقرر فرمایا ہے۔

۔ہمارے آئمہ اطہار اور علماء اسلام نے علی بن ابی طالب او ران کے مقدس جانشینوں کی امامت ا ورخلافت کے مسئلے میں بار ہا اسی آیت سے استناد کیا ہے۔ البتہ علم ، سبقت ایمانی جہاد او رتقوی جیسی صفات اس کے علاوہ ہیں کہ جن سے امامت کے لئے استناد کیا جاتا ہے اس آیت سے علی بن ابیطالب کی پیغمبر خدا سے قرابت داری کے ذریعہ ان کی امامت او رخلا فت بلا فصل پر استد لال کیا جاتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ اگر اسلامی معاشرے کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ اس نے کسی اور پر کبھی اپنا دروازہ بند نہیں کیا۔ اگرچہ اس میں بہت سے سابق الایمان او ر صاحبان فضیلت لوگ رہتے ہیں۔

۲ ۔ قرابت دار مومنین میں ایمانی ولایت جو کہ ہجرت اور جہاد کے سایہ میں انہیں ملی ہے اپنی قرابتداری کی ولایت کے حامل بھی ہیں۔

۳ ۔ باہمی رشتہ داروں میں سلسلہ مراتب موجود ہے (( اولیٰ ببعض )

(صدق الله العلي العظیم

حوالا جات ۔ فٹ نوٹس

۱ چونکہ اسلام سے پہلے مال غنیمت کو امتیازی سلوک کے تحت تقسیم کیا جاتا تھا، اور جنگ بدر میں جو کہ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی اور اس جنگ میں مال غنیمت بھی ہاتھ لگا تھا، لہٰذا مسلمانوں نے اس بارے میں پیغمبر خدا سے سوال کیا

۲ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "سہم خداوند بھی حضرت رسول خدا کی نگرانی میں خرچ ہو گا۔

۳ روایات میں ان لوگوں کا اجر و ثواب عام مستحبی نماز روزے سے بھی زیادہ بیان کیا گیا ہے جو لوگوں کے درمیان صلح و صفائی اور اصلاح قائم کرتے ہیں، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مفضل سے فرمایا: "اگر ہمارے دو پیروکاروں کے درمیان کوئی جھگڑا کھڑا ہو جائے تو میرے ذاتی مال سے خرچ کرکے بھی ان کے درمیان صلح کرا دو"

۴ بعض اوقات ایک چھوٹا سا گروہ خدا کے حکم اور اس کی مرضی کے مطابق بہت بڑے گروہ پر غالب آ جاتا اور فتح پا لیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے "کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن الله " (بقرہ/ ۲۴۹)

۵ تفسیر فرقان

۵- a تفسیر نورالثقلین میں حضرت امیر علیہ السلام کے فضائل میں سے ۶۳ویں فضلیت یہ ذکر کی ہے کہ آپ نے اپنی تمام عمر میں ایک مرتبہ بھی میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی۔

۶ البتہ یہ گناہ قابل توبہ ہے ملاحظہ ہو سورہ آل عمران/ ۱۵۵ "ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان اغا استزلهم الشیطان ببعض ماکسبوا ولقد عفا الله عنهم "

۷ ایک اور جگہ پر فرماتا ہے: "ولوسمعوا لا ستجابوا " (فاطر /۱۴) یعنی عملی جواب، صداقت کی علامت ہے،

۸ اس بے عقلی کا وہ خود بھی اعتراف کریں گے اور کہیں گے: "لوکنا نسمع اور نقل نعقل ما کنا فی اصحاب السعیر " اگر ہم سننے والے کان رکھتے ہوئے یا عقل سے کام لیتے تو جہنمی نہ ہوتے۔ (ملک / ۱۰)

۹ ارشاد قدرت ہے: "من عمل صالحا من ذکر اور انثی وهو مومن فلنحینه طیبة " جو انسان نیک عمل کرتا ہے خواہ مرد ہے یا عورت اور وہ ہے بھی مومن تو ہم اسے پاک و پاکیزہ زندگی عطا کرتے ہیں (نخل /۹۷)

۱۰ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور پیغمبر خدا نے فرمایا:من ظلم علیا مقعدی هذا بعد و فاتی فکا نما حجد نبوتی و نبوة الانبیاء قبلی " جس نے میرے بعد علی پر میری جانشینی کے بارے میں ظلم کیا گویا اس نے میری اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء کی نبوت کا انکار کر دیا۔ (تفسیر فرقان، منقول الاشواہد التنزیل حسکانی جلد اول ص ۲۰۶

۱۱ حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ حکمت اول میں فرماتے ہیں: "کن فی الفتنة کابن للبون، لا ظهر فیرکب ولا ضرع فیحلب " فتنہ اور فساد کے دورانیے میں اونٹ کے اس بچے کی مانند بن جاؤ کہ جس پر نہ تو بوجھ لادا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے دودھ دوہا جا سکتا ہے۔

حضرت زبیر فرماتے ہیں: "جنگ جمل میں شریک ہونے سے پہلے میں اس آیت کے معنی کو نہیں سمجھتا تھا۔‘ ‘ (تفسیر فخر رازی) حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جب میری امت میں فتنے ظاہر ہونے لگ جائیں تو تمہیں علی کے ساتھ رہنا چاہئے خواہ وہ اکیلے ہی کیوں نہ ہوں!" (تفسیر مجمع البیان)

۱۲ شواہد التنزیل حاکم حسکانی جلد اول ص ۲۰۵ منقول از ملحقات احقاق الحق جلد ۱۴ ص ۵۶۴

۱۳ اس معنی کے مطابق جو کہ آیت کے متن سے بھی مطابقت رکھتا ہے "تخونوا اماناتکم " میں "لا" نافیہ کے مقدر کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔

۱۴ ابو لبابہ کی داستان کی طرف اشارہ ہے جس نے اپنے آپ کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ کر اس قدر گریہ کیا کہ خدا نے اس کی توبہ کو قبول فرما لیا،

۱۵ جن لوگوں نے مدینہ سے ابوسفیان کو اطلاع دی تھی کہ مسلمان، مشرکین کے خلاف فوجیں اکٹھی کر رہے ہیں وہ ایسے مہاجر تھے مکہ میں جن کے مال و اولاد رہ گئے تھے (تفسیرالمیزان) مثلا: الف: شیطان انسان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا ہے "شارکهم فی الاموال و الاولاد " (بنی اسرائیل/ ۶۴) ب: مال و اولاد کی کثرت طلبی لیکن اس کے منفی اثرات "تکاثرفی الاموال و الاولاد " (حدید /۲۰) ج: مال و اولاد کا یاد خدا سے روک دینا "لا تلهکم اموالکم ولا اولاد کم عن ذکر الله " (منافقون /۹) د: قیامت کے دن مال اور اولاد نجات نہیں دلائیں گے: "لن تغنی عنهم اموالهم ولا اولادهم " (آل عمران /۱۰)

۱۷ بقول حافظ، جمال یار ندارد حاجب و پردہ ولی، غبار رہ بنشان تا نظرتوانی کرد۔

یعنی جمال یار تو پردوں میں چھپا ہوا نہیں ہے، یہ غبار راہ ہے جس نے اسے چھپایا ہوا ہے، اسے بیٹھ جانے دو پھر اس کا دیدار کرو۔

حقیقت سرائی است آراستہ ہوا و ہوس گرد برخاستہ

بنینی کہ ہر جا کہ برخاست گرد بنیند نظر، گرچہ بنیاست مرد

ایک اور آیت میں ہے "اتقوا الله ویعلملکم الله " خدا سے ڈرتے رہو خدا تمہیں تعلیم دے گا (بقرہ /۲۸۲) گویا روح کی مثال آئینے جیسی ہے۔ تقوی جس پر پڑے ہوئے غبار کو صاف کرتا ہے اور خورشید حق کا نور اس میں جلوہ فگن ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس ہوا و ہوس اور حرص و لالچ، عقل و خرد کی لغزش کا موجب بنتے ہیں، جیسا کہ حضرت امام الاولیاء علیہ السلام فرماتے ہیں: "اکثر مصارع العقول تحت بروق المطامع " (نہج البلاغہ)

۱۸ نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت امیر علیہ السلام نے جناب رسالت مآب کی رحلت کے بعد فرمایا: "ہمارے درمیان دو امانتیں تھیں جن میں سے ایک تو اٹھ چکی ہے دوسری (استغفار) کی حفاظت کرو" (حکمت صحبی صالح) دعائے کمیل میں کچھ ایسے گناہوں کا تذکرہ ہے جو عذاب نازل کرتے ہیں "الذنوب التی تنزل البلاء" سورہ ہود /۱۱۷ میں ہے "ماکان ربک لیهلک القریٰ بظلم و اهلها مصلحون " جب تک کسی آبادی کے لوگ اصلاح کرتے رہیں گے اور صالح رہیں گے اس وقت تک تمہارا رب کسی کو ہلاک نہیں کرے گا۔

۱۹ نہج البلاغہ میں ہے: "اللہ فی بیت ربکم فانھا ان ترکت تم تناظروا" اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرو، کہ اگر اس کا حج اور عبادت ترک کر دیئے گئے تو پھر تمہیں عذاب الٰہی مہلت دیئے بغیر اپنی لپیٹ میں لے لیگا،

۲۰ تفسیر مجمع البیان، المیزان اور فی ضلال القرآن

۲۱ حدیث شریف میں ہے: "الاسلام یمحو ما قبله " اسلام سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے،

۲۲ "کتب الله لاغبن انا و رسلی " اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب ہیں۔ (مجادلہ /۲۱)

۲۳ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانے میں عملی جامہ پہنے گی۔

۲۴ لسان العرب، تاج العروس، قاموس، تفسیر قرطبی، تفسیر فخر رازی اور تفسیر آلوسی کو بھی لغت کی عمومیت میں شک نہیں ہے اور قرآن مجید میں بھی "غنیمت" کا لفظ جنگی غنیمت کے علاوہ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے ملاحظہ ہو سورہ نسأ/ ۹۴، ارشاد ہوتا ہے "وعندالله مغانم کثیرة " نیز غنیمت کا لفظ قرآن مجید میں چھ مرتبہ استعمال ہوا ہے اسی طرح "غراست" کا لفظ بھی چھ مرتبہ ذکر ہوا ہے

۲۵ قرآن مجید میں بارہا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رویائے صادقہ (سچے خوابوں) کا تذکرہ آیا ہے۔

۲۶ گر نگہدار من آنست کہ من می دانم # شیشہ را در بغل سنگ نگہ می دارد

میرا بچانے والا تو وہ ہے جسے میں جانتا ہوں جو شیشے کو پتھرں کے درمیان بھی بچائے رکھتا ہے

۲۷ سورہ بقرہ/ ۲۵۰

۲۸ حضرت امام سجاد علیہ السلام سرحدی محافظین کے بارے میں دعا فرماتے ہیں کہ: "خداوندا! مال و اولاد کی یاد مجاہدین کے دلوں سے نکال دے اور بہشت کو ان کی نگاہوں کے سامنے جلوہ گر کر دے۔ (صحیفہ سجادیہ دعا ۲۷)

۲۹ اگرچہ آیت کا سیاق جنگ بدر سے تعلق رکھتا ہے، لیکن آیت کا کلی معنی ان منافقین کو بھی اپنے دامان میں لئے ہوئے ہے جو ریاکاری کے طور پر اور خودنمائی، پراپیگنڈے، افواہیں اڑانے اور حوصلے پست کرنے کے لئے محاذ جنگ پر جاتے ہیں۔ (یصدون، رئاء الناس )

۳۰ روایات میں ہے: "جو شخص عہدشکنی کرتا ہے وہ منافق ہے خواہ نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہو۔

۳۱ حدیث میں ہے کہ "خضاب کرکے بھی دشمن کو ڈراؤ، تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ اسلام کے سپاہی بوڑھے ہیں" (تفسیر فرقان، منقول از "من لا یحضرہ الفقیہ

۳۲ شاید اس سے مراد منافق لوگ ہوں ا س لئے کہ اس طرح کے الفاظ انہی کے واسطے آئے ہیں مثلاً "لا تعلهم نحن نعلهم " یعنی آپ انہیں نہیں جانتے ہم جانتے ہیں (توبہ /۱۰۱)

۳۳ مالک اشتر کے نام امیرالمومنین علیہ السلام کے مکتوب گرامی میں ہے: "لا تدفعن صلحا دعاک الیه عدوک ولکن الحذر الحذر من عدوک بعد صلحه فان العدو ربما قارب لیتغفل " دشمن کی صلح کی پیشکش کو نہ ٹھکراؤ، لیکن صلح کے بعد دشمن کے نیرنگ سے بہت زیادہ ہوشیار رہو کیونکہ بعض اوقات دشمن، غاقفل کرنے کے لئے بھی قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

۳۴ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے: "القیت علیک محبة منی" (طہ/ ۳۹) شادی کے بعد زن و شوہر میں باہمی محبت کے بارے میں ہے: "وجعل بینکم مودة و رحمة" (روم/۲۱)

۳۵ ارشاد ہوتا ہے: "تحسبهم جمیعا و قلوبهم شیٴ " (حشر /۱۴)

۳۶ الغدیر جلد ۲ ص ۵۱

۳۷ تفسیروں میں ہے: جنگ بدر میں کچھ لوگوں نے کہا: رسول خدا کے احترام کے پیش نظر ان کے چچا حضرت عباس سے فدیہ نہ لیا جائے۔ آنحضرت نے فرمایا: "والله لاتذرن فیه درهما " خدا کی قسم ان کو ایک درہم بھی معاف نہ کرو۔ پھر آپ نے خود ہی ارشاد فرمایا: "چچا! آپ مالدار شخص ہیں اپنا بھی اور اپنے بھتیجے عقیل کا بھی فدیہ ادا کرو" عباس نے کہا: "اگر میں فدیہ دوں تو میں غریب ہو جاؤں گا" آنجناب نے فرمایا: "اس رقم سے دو جو آپ کی بیوی ام الفضل مکہ میں چھوڑ آئے ہو!" اس پر عباس نے کہا: "اس رقم کا کسی کو بھی علم نہیں ہے لہٰذا میں نے سمجھ لیا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں، اس پر میں مسلمان ہو گیا"

۳۸ اگر تمام صاحبان عقل و خرد اور ہر علم و فن کے متخصص (سپیشلسٹ) مسلمان مغربی ممالک سے ہجرت کرکے اسلامی ملکوں میں آ جائیں تو اس سے ایک تو دشمن کو زبردست دھچکا لگے گا اور دوسرے اسلامی ملکوں کو بہت زیادہ تقویت مل جائے گی، ہماری بہت سی مصیبتوں کا سبب یہ ہے کہ ہمارے لوگ دوسروں کے نظاموں میں غرق ہو چکے ہیں اور ہجرت کو ترک کر چکے ہیں کہ جس سے اسلامی ملکوں کو فائدہ پہنچتا۔

آیت ۲۰ ، ۲۱

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَه وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ صلي وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور اب جبکہ اس کی باتوں کو سنتے ہو تو اس سے روگردانی نہ کرو۔

اور ان لوگوں کی مانند نہ بنو جو کہتے ہیں کہ "ہم نے سن لیا" درحقیقت وہ نہیں سن رہے ہوتے۔

ایک نکتہ:

پورے قرآن میں جہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہو وہاں اس کے رسول کی اطاعت کا حکم بھی مذکور ہے اور گیارہ مقامات پر "اتقوااللہ" کے بعد "اطیعون" کا جملہ مذکور ہے۔ اور اس آیت میں اگرچہ خدا اور رسول "دونوں کی اطاعت کا ذکر ہے لیکن صرف رسول پاک کے فرمان کی سرپیچی سے منع کیا گیا ہے نہ کہ خدا اور رسول کے فرمان کی سرپیچی سے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے (خدا کی نہیں) رسول کی اطاعت مشکل تھی اور وہ بھی خصوصی طور پرجنگ بدر میں اور فوجی مسائل کے بارے میں آنحضرت کے فرامین کی اتباع اور بھی مشکل تھی۔

پیام:

۱ ۔ نظام برحق کو بحال رکھنے کے لئے لوگوں کو ہمیشہ خدائی رہبری کی اطاعت کی تاکید کرتے رہنا چاہئے( اطیعوا الله و رسوله )

۲ ۔ پیغمبر کی عدم اطاعت یا ان کی نافرمانی درحقیقت خدا کی نافرمانی ہے( ولا تولوا عنه ) ہے "عنہما" نہیں ہے۔

۳ ۔ سننا اور سمجھنا، ذمہ داری کا موجب بن جاتا ہے( تسمعون )

۴ ۔ دور سابق میں خلاف ورزی کرنے والوں کے حالات سننا اور ان سے آگاہ ہونا عبرت کا موجب ہوتا ہے( ولاتکونوا کالذین… )

۵ ۔ قائد اور رہبر کی اطاعت صدق دل سے کرو، صرف "ہم نے سن لیا ہے" کہہ کر جان نہ چھڑاؤ( ولاتکونوا… )

آیت ۲۲

( اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَاللّٰهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین چلنے والے وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

دو نکات:

"صم" جمع ہے "اصم" کی جس کے معنی ہیں بہرا اور "بکم" جمع ہے "ابکم" کی جس کے معنی ہیں گونگا۔

جو لوگ انبیاء علیہم اسلام کی الٰہی تربیت کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی حق کے آگے اپنے دل و جان کو جھکاتے ہیں، قرآن کی تعبیرات میں انہیں کہیں تو:

الف: مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے: "( انا لاتسمع الموتي ) ٰ" آپ یقینا مردوں کو نہیں سنواتے۔ (روم/ ۵۲)

ب: چوپایوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے: "( یا کل کماتا کل الانعام ) " ایسے کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھائیں (محمد/ ۱۲)

ج: چوپایوں سے بھی بدتر کہا گیا ہے، جیسے: "( کالانعام بل هم اضل ) " چوپایوں جیسے بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں (اعراف/ ۱۷۹)

د: روئے زمین پر چلنے والوں میں سے بدتر بھی کہا گیا ہے جیسے: "( شرالدواب ) " بدترین چلنے والے (انفال/ ۲۲)

پیام:

۱ ۔ انسان کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل سے کام لیتا ہے، اگر ایسا نہیں کرتا تو ہر چلنے والے سے بدتر ہے( شرالدواب )

۲ ۔ کان اور زبان کا حامل ہونا اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ ان اعضأ سے صحیح کام لیا جائے جس شخص کی زبان سے امر بالمعروف یا نہیں عن المنکر کا کلمہ نہیں نکلتا وہ گویا گونگا ہے۔

۳ ۔ دینی تعلیمات سے رخ موڑنے والے بے عقل ہیں( لایعقلون ) ۸

آیت ۲۳

( وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَ سْمَعَهُمْط وَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اگر اللہ کو ان میں کوئی اچھائی نظر آتی تو انہیں ضرور سننے والا بنا دیتا (حق بات ان کے دلوں تک پہنچاتا) اور اگر انہیں سنواتا تو بھی وہ سرکشی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے۔

ایک نکتہ:

ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کی چند قسمیں ہیں۔

۱ ۔ کچھ تو وہ ہیں جو قرآن مجید کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں: "( لاتسمعوا لهذا القرآن ) " اس قرآن کو نہ سنو۔ (فصلت/ ۲۶)

۲ ۔ کچھ وہ ہیں جو سنتے اور سمجھتے تو ہیں لیکن اس میں تحریف کرتے ہیں۔

۳ ۔ اور کچھ وہ ہیں جو اپنے شدید تعصب، حسد اور سنگدلی کی وجہ سے اپنے اندر تشخیص دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔

پیام:

۱ ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کے اسباب خود اپنے اندر تلاش کرنے چاہئیں۔( فیهم )

۲ ۔ صرف آیات قرآنی کا یاد کر لینا، نور نہیں، حق کو قبول کر لینے کا نام نور ہے( ولواسمعهم لتولوا )

۳ ۔ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کی ہدایت سے کوئی مضائقہ نہیں، ضدی لوگ اپنا منہ پھیر لیتے ہیں( ولوعلم…لاسمعهم )

۴ ۔ انسان آزاد ہے اور حق کی ہر آواز کے سننے سے روگردانی کر سکتا ہے( لو اسمعهم لتولوا )

آیت ۲۴

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْ الِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْج وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِه وَ اَنَّهٓ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! تمہیں جب بھی اللہ اور اس کا رسول اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہاری زندگی کا سبب ہے تو فوراً اس کا جواب دو۔ اور جانے رہو کہ اللہ تعالیٰ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، اور یہ کہ تم کو اسی کی طرف محشور ہونا ہے۔

چند نکات:

حیات (زندگی) کی مختلف قسمیں ہیں۔

۱ ۔ نباتاتی حیات: جیسے "( یحی الارض بعد موتها ) " اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ (روم/ ۱۹)

۲ ۔ حیوانی حیات: جیسے "( لمحی الموتی ) " اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ (روم/ ۵۰ فصلت/ ۳۹)

۳ ۔ فکری حیات: جیسے "( من کان میتا فاحییناه ) " مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا (انعام/ ۱۲۲)

۴ ۔ ابدی حیات: جیسے "( قدمت لحیاتی ) " کاش میں اپنی زندگی کے لئے پہلے سے کچھ بھیجتا (فجر/ ۱۴)

جو حیات(زندگی) انبیاء کی دعوت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے وہ "حیوانی زندگی" نہیں ہے، کیونکہ وہ تو ان کی دعوت کے بغیر بھی حاصل ہے، بلکہ مراد فکری، عقلی اور معنوی زندگی ہے۔

خدا کا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہر جگہ پر حاضر ناظر ہے اور وہ ہر چیز کو اپنے قبضہ قدرت میں لئے ہوئے ہے۔ تمام توفیقات اسی کی طرف سے ہیں، وہ ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ عقل اور روح کی کارکردگی بھی اسی کے دست قدرت میں ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اسلام کی دعوت کی قبولیت درحقیقت خدا کی دعوت کی پذیرائی ہے (دعا کم) فرمایا ہے، "( دعواکم ) " نہیں۔

۲ ۔ انسان کی حقیقی حیات وزندگی تو ایمان اور عمل صالح ہی میں ہے اور انبیاء بھی اسی کی دعوت دیتے ہیں ۹( لما یحییکم )

۳ ۔ احکام اسلام معنوی حیات عطا کرتے ہیں، جس طرح کہ دوا یا عمل جراحی (آپریشن) زندگی دیتے ہیں۔

۴ ۔ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے رستوں پر چلنے سے حقیقی زندگی ملتی ہے اور ان سے ہٹ کر چلنے سے انسانیت کی موت ہے۔

۵ ۔ زندگی بہت قیمتی چیز ہے اور انبیاء کا راستہ انمول نعمت ہے۔

۶ ۔ شیعہ، سنی روایات کے مطابق "حیات طیبہ" کے مصداقوں میں سے ایک مصداق علی اور اولاد علی علیہم السلام کی ولایت کے بارے میں پیغمبر اسلام کی آواز کو سننا اور قبول کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر فرقان، منقول از مناقب ترمذی)

۷ ۔ جس شخص کا اس بات پر ایمان ہوتا ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے اور وہ ہر چیز پر محیط ہے تو وہ انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے سے روگردانی نہیں کرتا۔( یحول بین المرٴو قلبه- استجیبوا )

۸ ۔ جب تک اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے اور تمہارے پاس فرصت بھی ہے تو حق کو قبول کر لو (اس تفسیر کی بنا پر خدا کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونا، موت سے کنایہ ہے)

۹ ۔ خدا کا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا ایک مصداق "محو و اثبات" کا مسئلہ بھی ہے یعنی کفر کا محو کرنا اور ایمان کا اثبات کرنا، شک اور غفلت کا محو کرنا اور یاد اور یقین کا اثبات کرنا۔ (تفسیر فرقان، اسی آیت کے ذیل میں حضرت امام محمد باقر علیہ اسلام کا فرمان)

۱۰ ۔ مومن کو اپنے ایمان پر مغرور اور کافر کو اپنے کفر سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ دلوں کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ "مقلب القلوب" (دلوں کو پھیرنے والا) ہے۔( یحول بین المرٴو قلبه )

۱۱ ۔ تم سب کو قیامت کے دن محشور ہونا ہے، لہٰذا انبیاء الٰہی کو ان کی دعوت پر مثبت جواب دو۔( استجیبوا…الیه تحشرون )

آیت ۲۵

( وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّةًج وَ اعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )

ترجمہ۔ اور اس فتنے سے ڈرو جو صرف تم میں سے ظالم لوگوں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا، اور جانے رہو کہ خداوند سخت عذاب دینے والا ہے۔

چند نکات:

سابقہ آیت میں پیغمبر اسلام کی طرف سے "حیات طیبہ" کی دعوت قبول کرنے کا حکم تھا اور اس آیت میں فرماتا ہے: "اگر تم نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو یاد رکھو ایسے فتنے میں گرفتار کر لئے جاؤ گے جس کی آگ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

"فتنہ" کے کئی معنی ہیں مثلاً شرک، کفر، آزمائش، شکنجہ وغیرہ۔

سابقہ آیت میں پیغمبر اکرم کی اطاعت کا حکم تھا، اور اس آیت میں فتنے سے ڈرنے کا حکم ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فتنہ: پیغمبر اسلام کی اطاعت نہ کرنے کا نام ہے۔ اور آیت کا مفہوم وہی "( واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا ) " ہے۔ (تفسیر المیزان)

فساد اور فحاشی ایک نظام کی چھت کو گرا دیتے ہیں جس کا نقصان سب کو پہنچتا ہے جیسے بنی امیہ کے حکام کا فساد ہے، کیونکہ جب لوگوں نے پیشوائے حق کی ولایت کا انکار کر دیاتو بنی امیہ کے فساد کی زنجیروں میں صدیوں تک ذلیل و خوار ہو کر جکڑے رہے۔ ۱۰

پیام:

۱ ۔ معاشرہ کے افراد اپنے کاموں کے علاوہ دوسروں کے کاموں پر بھی نظر رکھیں، کیونکہ خلاف ورزی کے مضر اثرات سب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ جس طرح کہ کشتی کے پیندے میں سوراخ کر دینے سے اس میں سوار تمام لوگ ڈوب سکتے ہیں۔( لاتصیبن )

۲ ۔ نہ تو خود فتنہ برپا کرو، نہ دوسرے فتنہ پرور لوگوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ اور نہ ہی ان کی فتنہ پردازیوں پر خاموشی اختیار کرو۔( واتقوا فتنة )

۳ ۔ فتنے سے بچنے کا مقصد اس سے ہوشیا ر رہنا ہے نہ کہ معاشرہ سے کٹ جانا ہے۔

۴ ۔ زمانے میں پیدا ہونے والے آشوب اور فتنوں میں ہوشیار رہنا چاہئے کہ کہیں تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ ۱۱

آیت ۲۶

( وَ اذْکُرُوْآ اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِه وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب تم (تعداد میں) کم تھے اور (مکہ کی) زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے، تمہیں ہر وقت یہ ڈر رہتا تھا کہ (دشمن) لوگ تمہیں جلدی اچک لیں گے، پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں (مدینہ میں) پناہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمہاری تائید کی اور تمہیں ہر قسم کی پاکیزہ روزی عطا فرمائی، شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ۔

پیام:

۱ ۔ ناتوانی اور کمزوری کے دنوں اور خدائی امداد کی یادآوری، خدا کے شکر، اس کے ساتھ عشق و محبت اور اس پر توکل کا سبب ہوتا ہے( لعلکم تشکرون )

۲ ۔ ناتوانی اور امداد الٰہی کے ایام کی یاد، فتنوں سے دور رہنے کا موجب ہوتی ہے( واتقوا فتنة- واذکروا )

۳ ۔ راہ حق میں افرادی قلت، کمزوری و ناتوانی اور جلاوطنی سے نہیں گھبرانا چاہئے کیونکہ تمام باوقار انقلابی اسی راہ سے گزر چکے ہیں۔

آیت ۲۷

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُونُوْآ اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور (نہ ہی) اپنی امانتوں کے ساتھ خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو کہ اللہ، رسول اور امانتوں کے ساتھ خیانت نہیں کی جاتی۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شان نزول میں شیعہ اور سنی تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق بنی قریظہ کے یہودیوں کا محاصرہ کیا گیا تو اس دوران انہوں نے صلح کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر شام چلے جائیں گے۔ لیکن آنحضرت نے ان کی اس پیشکش کو قبول نہ فرمایا بلکہ اس بارے میں مذاکرات کے لئے سعد بن معاذ کو مامور فرمایا۔

اس وقت "ابو لبابہ" نامی ایک مسلمان موجود تھا، اس کی یہودیوں کے ساتھ پرانی دوستی تھی، اس دوران اس نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ سعد بن معاذ کو قبول کرنے کی صورت میں سب تہ تیغ کر دیئے جاؤ گے۔ جبرائیل علیہ اسلام نے ابو لبابہ کے اس اشارے کی حضرت رسول خدا کو خبر دی۔ ابو لبابہ بہت شرمندہ ہوا کہ اس نے تو بہت بڑی خیانت کی ہے۔ اس نے اس کے پاداش کے طور پر اپنے آپ کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا اور سات رات دن تک کچھ نہ کھایا۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کو قبول فرمایا( --- ) (تفسیر مجمع البیان، تفسیر صافی، تفسیر نمونہ اور دوسری تفاسیر)

اس کا ایک اور شان نزول بھی بتایا گیا ہے وہ یہ کہ جنگ بدر میں ایک مسلمان شخص نے ابو سفیان کو خط لکھا جس میں اس نے حضرت پیغمبر خدا صلے اللہ وآلہ وسلم کے منصوبوں سے اسے آگاہ کیا، جس کی وجہ سے ابوسفیان نے اہل مکہ سے مدد طلب کی اور ایک ہزار آدمی اس کی مدد کے لئے بدر کی جانب چل دیا۔ (تفسیر المیزان۔ تفسیر مجمع البیان)

پیام:

۱ ۔ بعض اوقات دشمن کے حق میں ایک اشارہ بھی خیانت میں شمار ہوتا ہے (ابو لبابہ کا واقعہ اور آیت کا شان نزول)

۲ ۔ خیانت فطری طور پر بھی بری اور قابل مذمت عادت ہے( وانتم تعلمون )

۳ ۔ جان بوجھ کر خیانت کرنا تو اور بھی خطرناک بات ہے( وانتم تعلمون )

۴ ۔ فوجی رازوں کا فاش کرنا بدترین خیانت ہے (آیت کے دوسرے شان نزول کے مطابق)

البتہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ انفال، زکوٰة ، خمس اور دوسرے لوگوں کے باقی اموال تمہارے ہاتھوں میں امانت ہیں۔ اسی طرح مذہب و مکتب، رہبر و قائد، قرآن مجید، اولاد، وطن کی آب و خاک سب خدائی امانتیں ہیں)

۵ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت اطہار علیہم السلام بھی اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔ ۱۲

۶ ۔ اہل، لائق، افضل اور صالح افراد کے ہوتے ہوئے نااہل، نالائق، "مفضول" اور غیرصالح افراد کو آگے لانا اور انہیں معاشرتی اجتماعی، حکومتی اور سرکاری ذمہ داریاں سونپنا خدا، رسول اور مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی خیانت اور بددیانتی ہے۔

۷ ۔ ایک تو ہم خود بھی اپنے لئے امانت ہیں اور اس کے ساتھ یہ معاشرہ بھی ہمارے لئے امانت ہے۔ (ایک اور آیت میں ہے "تختانون انفسکم" اپنے آپ کے ساتھ خیانت کرتے ہو (بقرہ/ ۱۷۸)

۸ ۔ اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت دراصل تمہاری اپنے ساتھ خیانت ہے اور اس کا نقصان خود تمہیں پہنچے گا۔ ۱۳

(ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رہے کہ جب تک ہمیں اپنی توبہ کی قبولیت کا یقین نہ ہو جائے، اس وقت تک اپنے آپ کو مطمئن نہ سمجھیں۔) ۱۴

آیت ۲۸

( وَ اعْلَمُوْآ اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُ کُمْ فِتْنَةٌ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عنِدْهٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ )

ترجمہ۔ جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں اور خدا کے نزدیک یقینا بہت بڑا اجر ہے۔

ایک نکتہ:

مال اور اولاد کے ساتھ انسان کی محبت، انسان کے لئے بہت سی لغزشوں کا سبب بن سکتی ہے، حرام کا کاروبار، دروغ گوئی، ذخیرہ اندوزی، کم فروشی، راہ خدا میں خرچ نہ کرنا، خمس و زکوٰة کی عدم ادائیگی، حرص و لالچ، تخریب کاری، جھوٹی قسمیں، حقوق الناس کا ضیاع غرض اس قسم کی کئی دوسری خرابیوں کی اصل جڑ مال کے ساتھ بے تحاشا محبت ہے، اسی طرح میدان جنگ سے فرار، افراد خاندان سے جدا نہ ہونا، اسی طرح کی دوسری خامیوں کا اصل سبب اولاد کے ساتھ محبت ہے۔

پس یہ سب امتحان کے اسباب و عوامل ہیں، جس طرح (سابقہ آیت کی رو سے) ابولبابہ ایک لغزش کا شکار ہو گیا تھا، تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنے مال اور اولاد کو بچانے کے لئے دشمن کے ساتھ ہمکاری پر آمادہ ہو گیا تھا۔

پیام:

۱ ۔ مال اور اولاد کے ساتھ حد سے زیادہ محبت انسان کو خیانت پر آمادہ کر دیتی ہے( لاتخونوا…واعلموا--- ) سابقہ آیت کے شان نزول کے پیش نظر ۱۵

۲ ۔ مال اور اولاد دو ایسے جال ہیں جو انسان کو فریب دینے کے لئے اس کی راہوں میں بچھے ہوئے ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک نے مختلف تعبیرات کے ساتھ ان سے خبردار رہنے کو کہا ہے (فتنة) ۱۶

۳ ۔ خداوند عالم کے اجر عظیم کی طرف توجہ ہی سے انسان کے دل سے دنیا کی محبت اور خیانت جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے( اجر عظیم )

آیت ۲۹

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْط وَاللّٰهُ ذُوْالْفَضْلِ ) ( الْعَظِیْمِ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اگر خدا سے ڈرتے رہو گے اور اس کاتقویٰ اختیار کئے رہو گے تو خداوند عالم تمہارے لئے فرقان (حق اور باطل کی شناخت کی قوت) قرار دے گا اور تمہارے گناہوں کو چھپا دے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ تو بہت بڑے فضل اور بخشش والا ہے۔

چند نکات:

حق اور باطل کی شناخت کے معیار مختلف ہیں۔ مثلاً:

الف: "انبیاء اور اولیاء اللہ۔" جب کہ حدیث پیغمبر ہے" "( من فارق علیا فقد فارق الله ) " جس نے علی کو چھوڑ دیا (گویا) اس نے خدا کو چھوڑ دیا۔ (ملحقات احقائق الحق جلد ۴ ص ۲۶)

ب: " آسمانی کتاب"اس کی طرف رجوع کرکے حق کو باطل سے پہچانا جا سکتا ہے۔

ج: "تقویٰ" کیونکہ بے تقوائی کے ساتھ چونکہ خواہشات کے اور حب و بغض کے طوفانوں میں حقائق کا ادراک نہیں ہو سکتا۔

فرقان یا حق و باطل کی تشخیص، ایک خداداد حکمت اور بینش ہوتی ہے جس کا تعلق پڑھنے لکھنے اور معلومات کی فراوانی کے ساتھ نہیں ہوتا۔

"تکفیر سی( ٴ ) ات" یا گناہوں کی پردہ پوشی اور "مغفرت" کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس بارے میں حضرت فخر رازی فرماتے ہیں: "گناہوں کی پردہ پوشی دنیا میں ہوتی ہے اور مغفرت یعنی قہر خداوندی سے چھٹکارا آخرت میں ہوتا ہے" لیکن "تفسیر نمونہ" کے بقول: "تکفیر، گناہ کے اجتماعی، معاشرتی اور نفسیاتی آثار کے مٹانے کو کہا جاتا ہے جبکہ "مغفرت" جہنم سے نجات اور بخشش کا نام ہے"

پیام:

۱ ۔ تقویٰ، صحیح معرفت کا عامل (فرقان) ہے اور اسی سے انسان کی معاشرتی حیثیت اور آبرو قائم رہتی ہے۔ اور آخرت میں مغفرت نصیب ہوتی ہے( یغفر لکم )

۲ ۔ جو لوگ نفسانی خواہشات سے بچے رہتے ہیں وہ صحیح معنوں میں حق کو پہچان سکتے ہیں اور تقویٰ صحیح پہچان کا سبب ہوتا ہے۔ ۱۷

آیت ۳۰

( وَ اِذْیَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰهُطوَ اللّٰهُ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) اس وقت کو یاد کرو جب کافر لوگ تمہارے بارے میں منصوبے بنا رہے تھے کہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا بے گھر کر دیں، وہ تدبیریں سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیریں بنا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ بہترین تدبیریں بنانے والا ہے۔

دو نکات:

اس آیت میں "شب ہجرت" اور کفار کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے شیطانی منصوبوں کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبرائیل علیہ اسلام کے ذریعہ اس منصوبے کا علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود راتوں رات غار ثور کی طرف چل دیئے اور وہاں سے مدینہ کی جانب ہجرت فرما گئے۔

آیت کے مطابق آنحضرت کے متعلق تین طرح کے منصوبے کفار کے پیش نظر تھے اور یہ مشرکین کے "دارالندوہ" میں ان کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہوئے۔ بالآخر دوسری تجویز پاس ہوئی اور طے پایا کہ ہر قبیلے میں سے ایک ایک آدمی لیا جائے اور تمام افراد مل کر آپ پر حملہ کرکے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ تاکہ اس طرح سے پیغمبر اسلام کے لواحقین کسی سے آپ کے خون کا بدلہ نہ لے سکیں۔

پیام:

۱ ۔ جو خطرات اللہ نے تم سے دور کئے ہیں انہیں خاطر میں لاؤ تاکہ دل کو قوت اور قلب کو سکون حاصل ہو( واذیمکر )

۲ ۔ انبیاء کی مشکلات صرف مشرکین کی دشمنی یا ہٹ دھرمی ہی نہیں ہوتی تھیں، ان کی طرف سے دھمکیاں اور شیطانی منصوبے بھی ہوا کرتے تھے۔( واذیمکربک--- )

۳ ۔ قید، قتل اور جلاوطنی تو جباران تاریخ کا قدیم سے شیوہ چلا آ رہا ہے کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے حربے ہی اختیار کیا کرتے تھے( یثتبوک او یقتلوک--- )

۴ ۔ انسان کے تمام افکار، خدا کے سامنے ہوتے ہیں( یمکرون ویمکراللّٰه )

۵ ۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب اور اپنے دوستوں کا حامی ہوتا ہے اور مکڑی کے جالے سے اشرف المخلوقات کی حفاظت کرتا ہے، تاریخ کی عظیم ترین سازش کو ناکام بناتا ہے اور تاریخ کے دھارے موڑ دیتا ہے۔

۶ ۔ جہاں ضروری ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سازشوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔ جس سازش کے بارے میں دشمن چاہتا ہے کسی کو اس کا علم نہ ہونے پائے اسے ساری دنیا صدیوں تک جانتی سمجھتی رہتی ہے۔

۷ ۔ جو حق کے طرفداروں کے خلاف سازشیں کرتا ہے درحقیقت وہ خدا کے مقابلے میں آن کھڑا ہوتا ہے۔( یمکرون و یمکراللّٰه )

۸ ۔ ضروری نہیں ہے کہ سپر طاقتیں ہمیشہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں( --- )

۹ ۔ دشمن کا منصوبہ جس قدر مضبوط ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسی قدر کمزور مخلوق کے ذریعے اسے ناکام بنا دے گا( --- ) بلقیس کو ایک ہدید کے ذریعہ دعوت پہنچتی ہے ۔ فرزند آدم ایک کوے سے سبق سیکھتا ہے ابرہہ کے اور اس کے ہاتھی سوار لشکری ابابیل کے ذریعہ نابود ہوتے ہیں، نمرود کا ایک مچھر کے ذریعہ ستیاناس ہوتا ہے، اور کفار مکہ کی سازشیں، ایک مکڑی کے ذریعہ ناکام ہوتی ہیں۔

البتہ اس بارے میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب شب ہجرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اپنی جان خوشی خوشی پیغمبر اکرم پر فدا کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

"( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله والله روٴف بالعباد ) " (بقرہ/ ۲۰۷)

آیت ۳۱

( وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ اِنْ هٰذَآ اَلَّا ٓ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ )

ترجمہ۔ اور جب ان پر ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیا ہے، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس قرآن کی طرح کہہ سکتے ہیں، یہ تو پہلے لوگوں کے افسانوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

چند نکات:

سابقہ آیت میں پیغمبر اکرم کو قتل کرنے کے بارے میں دشمن کے قتل کے منصوبے کی بات ہو رہی تھی اور اس آیت میں دشمن کی طرف سے ان کے مکتب اور قرآن کو سبک کرنے کی گفتگو ہو رہی ہے۔

"اساطیر" جمع ہے "اسطورہ" کی جس کے معنی ہیں خرافاتی اور خیالی قصے کہانیاں،

بعثت سے پہلے " نضر بن حارث" ایران آیا تھا اور یہاں سے اس نے رستم اور اسفند یار کے قصے یاد کر لئے تھے، جب حجاز واپس گیا تو لوگوں سے کہنے لگا: "میں بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح قصے کہانیاں بیان کر سکتا ہوں" (تفسیر آلوسی، مجمع البیان، فی ظلال القرآن)

پیام:

۱ ۔ عوام فریبی، حقارت اور سبک سمجھنا دشمن کے حربوں میں شامل ہیں۔( لو نشأ لقلنا مثل هذا )

۲ ۔ دشمن ڈھول کا پول ہوتے ہیں وہ بلند بانگ دعوتے کرتے ہیں( لقلنا مثل هذا ) لیکن عملی میدان میں قرآن جیسی کتاب لانے سے عاجز ہیں۔

۳ ۔ قدیم الایام سے مومنین کو "قدامت پرستی" کی تہمتوں سے متہم کیا جاتا رہا ہے۔( اساطیر الاولین )

آیت ۳۲

( وَ اِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ اِنْ کَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ )

ترجمہ۔ اور (اس وقت کو یاد کرو) جب انہوں نے (مخالفین نے دعا کے ہاتھ اٹھا کر) کہا: خداوندا! اگر یہ (اسلام اور قرآن) حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا دردناک عذاب ہم پر نازل کر،

چند نکات:

اس قسم کی نفرین یا تو ان کے شدید تعصب اور سخت ہٹ دھرمی کی بنا پر ہوتی ہے جو کہ اپنی راہوں کو حق اور اسلام کو باطل سمجھتے تھے۔ یا پھر عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کہ اپنے لئے بددعا کریں تاکہ سادہ لوح عوام کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اسلام (نعوذباللہ) باطل ہے۔

جب میدان غدیرخم میں پیغمبر خدا نے اللہ کے حکم سے علی بن ابی طالب کو امامت کے لئے منصوب کرکے "من کنت مولاه کے ذریعہ اس کا اعلان فرمایا تو نعمان بن حارث جو کہ ایک منافق شخص تھا، آنحصرت صلی اللہ علییہ و آلہ وسلم کے پاس آ کر گستاخانہ لہجے میں کہنے لگا: تونے ہمیں توحید، نبوت، جہاد، حج، روزے۔ نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہم نے قبول کیا، اب اس جوان کو بھی ہمارے لئے امام مقرر کر دیا؟ اس پر آنحضرت نے فرمایا: "یہ خدا کے حکم سے تھا" اس نے غصے میں پاگل ہو کر اپنے لئے بددعا کی اور اسی آیت کے الفاظ سے اقتباس کیا۔ (الغدیر جلد اول ص ۲۳۹ تا ص ۲۶۶ ۔ منقول از ۳۰ علمائے اہلسنت)

پیام:

۱ ۔ دشمن اپنے آپ کو اہلِ حق منوانے کے لئے ہو سکتا ہے کہ اپنے اوپر لعنتیں بھی بھیجنا شروع کر دے۔

آیت ۳۳

( وَ مَا کَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْط وَمَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) جب تک تم ان لوگوں کے درمیان موجود ہو خدا انہیں عذاب نہیں دے گا اور جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے پھر بھی اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں ہے۔

دو نکات:

عذاب کی نفی سے مراد پیغمبر گرامی اسلام کے وجود مبارک کی وجہ سے مسلمانوں سے اس طرح کے عمومی عذاب اٹھا لئے گئے جن سے سابقہ اقوام ان سے دوچار ہوا کرتی تھیں، ورنہ انفرادی طور پر بہت سے افراد خصوصی مواقع پر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے ہیں۔

احادیث شریفہ میں ہے کہ خداوند عالم بعض پاک دل افراد اور علمائے ربانی کی وجہ سے بھی لوگوں کے سروں سے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود گرامی اہل زمین کے لئے امان ہے( وانت فیهم ) ۱۸

۲ ۔ استغفار، بلاؤں کو روک دیتی ہے۔( وهم یستغفرون ) ۱۸- A

آیت ۳۴

( وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُوْآ اَوْلِیَآءَ هط اِنْ اَوْلِیَآوٴُهٓ اِلَّا الْمُُتَّقُوْنَ وَٰلکِنَّ اَکْثَرَ هُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اور کیوں نہ خدا انہیں عذاب میں مبتلا کرے حالانکہ وہ لوگوں کو مسجد الحرام سے روکتے ہیں جبکہ وہ اس جگہ کے سرپرست بھی نہیں ہیں، متقی اور پرہیزگار لوگوں کے علاوہ کسی اور کو وہاں کی تولیت اور سرپرستی کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔

ایک نکتہ:

سابقہ آیت میں یہ بات ہو رہی تھی کہ لوگوں کے درمیان پیغمبر اکرم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارک اور ان کی استغفار کی وجہ سے قوم عاد و ثمود پر نازل ہونے والے عذابوں جیسے آسمانی عذاب اٹھا لئے گئے ہیں۔ اور اس آیت میں ان کو ملنے والے عذاب کی بات ہو رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس عذاب سے مراد دنیوی عذاب اور زمین پر جنگ ہو۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ عذاب کے مستحق تو ہیں لیکن یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر کی وجہ سے انہیں عذاب نہیں کرتا۔ یا یہ کہ انہیں دنیا میں عذاب نہیں دیا جاتا لیکن آخرت کاعذاب ان سے کبھی نہیں ٹل سکے گا۔ (از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ جو لوگوں کو مسجدالحرام میں جانے سے روکتے ہیں انہیں عذاب الٰہی کا منتظر ہونا چاہئے۔( وما لهم الایعذبهم… ) ۱۹

۲ ۔ جس گھر کی تولیت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں میں رہی ہو اور جس کی بنیادیں تقویٰ پر رکھی گئی ہوں اس کی تولیت غیرمتقی افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہونی چاہئے۔( ان اولیائه الاالمتقون )

آیت ۳۵

( وَ مَا کَانَ صَلاَ تُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصْدِیَةًط فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ )

ترجمہ۔ بیت اللہ (خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (دعا اور) نماز سیٹیوں اور تالیوں کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی۔ پس تم اپنے کفر کی وجہ سے عذاب کو چکھو۔

ایک نکتہ:

"مکاء" کے معنی ہیں سیٹی بجانا اور "تصدیہ" کے معنی ہیں تالی بجانا۔ مشرکین اس لئے سیٹیاں بجاتے تھے تاکہ خانہ کعبہ کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو باور کرا سکیں کہ یاترا کے لئے آئے ہوئے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ تاریخی طور پر مذہبی مراسم، تحریف سے دوچار چلی آ رہی ہیں( صلوٰتهم…مکاء )

۲ ۔ بعض اوقات مقدس ترین مرکز، خرافات کا بالاترین محور بن جاتا ہے۔

۳ ۔ اس آیت میں عذاب کا مصداق، مشرکین کی جنگ بدر میں شکست ہے۔( فذوقواالعذاب ) ۲۰

(یاد رہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اجلاسوں اور میٹنگوں میں صلوات پڑھنے کی بجائے تالیاں بجانا اسی دور جاہلیت کی ایک تبدیل شدہ صورت ہے جبکہ لوگ دعا و نماز کی بجائے سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔)

آیت ۳۶

( اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِط فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْْنُ ۵ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اپنے اموال کو اس لئے خرچ کرتے ہیں تاکہ خدا کی راہ سے (لوگوں کو) روکیں، پس وہ آئندہ بھی اس قسم کے خرچ کرتے رہیں گے (پھر ان کا یہ خرچ شدہ مال) ان کے لئے حسرت کا سبب بن جائے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے۔ اور جو لوگ کافر ہو چکے ہیں وہ جہنم کی طرف جمع کرکے لائے جائیں گے۔

ایک نکتہ:

منقول ہے کہ یہ آیت کفار مکہ کی جنگ بدر کے لئے سرمایہ کاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کے تحت انہوں نے ایک عظیم بجٹ جنگ کے لئے مخصوص کر دیا تھا، لیکن آیت کی عمومیت ان ہر قسم کی سرمایہ کاریوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جو دین اسلام سے مقابلہ اور نبردآزمائی کے لئے مخصوص کی جاتی ہیں۔ (جیسا کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے شیطان بزرگ امریکہ نے ایران کے اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کے لئے کئی ملین ڈالر کابجٹ مخصوص کر لیا ہے۔ از مترجم)

پیام:

۱ ۔ کفار تو اپنے ناپاک مقاصد کے لئے اپنا سرمایہ خرچ کریں لیکن مسلمان اپنے مقدس دین کے مقاصد کے لئے خرچ نہ کریں اور بخل سے کام لیں، کیا تعجب کی بات نہیں ہے؟

۲ ۔ جو مال و دولت، باطل کی راہ میں خرچ ہو گا وہ موجب حسرت بنے گا اور جو اس قدر خرچ کرکے مومنین کے مقابلے میں آئیں گے شکست سے دوچار ہوں گے۔

۳ ۔ وحی کے ذریعہ پیغمبر اکرم غیب کی خبر دے رہے ہیں کہ آئندہ بھی ایسے لوگ اسلام کے خلاف سرمایہ کاری کریں گے( فسینفقونها )

(از مترجم۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے دور حاضر کی شیطانی سپر طاقت امریکہ "نیو ورلڈ آرڈر" کے تحت عالم اسلام کو زک پہنچانے کی غرض سے کئی ملین ڈالر خرچ کر رہی ہے، یہ اسی شیطانی منصوبے کا تسلسل ہے جس کی پیشین گوئی اس آیت میں کی گئی ہے)

۴ ۔ کفار کی کوششوں کی سزا صرف دنیوی شکست ہی نہیں، انہیں آخرت میں عذاب بھی ہو گا( یغلبون…جهنم )

۵ ۔ کفر، سقوط و پستی اور جہنم میں جانے کا موجب ہوتا ہے۔

۶ ۔ مومن چونکہ خدا کی رضا کے لئے کام کرتا ہے اور اس کی خوشنودی کی خاطر سرمایہ خرچ کرتا ہے اگر اسے بظاہر کوئی نتیجہ نہ بھی ملے پھر بھی اس پر حسرت نہیں کرتا کیونکہ خداوند عالم اسے اس کا اجر ضرور عطا کرے گا۔

۷ ۔ "الذین کفروا" کے جملے کا تکرار شاید اس لئے ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والے بعض کفار بعد میں مسلمان ہو جاتے ہیں جو اپنے خرچ شدہ مال پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے کافر اپنے کفر پر باقی رہتے ہیں اور جہنم کا ایندھن بنتے ہیں اور جہنم ایسے کافروں کے لئے ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں۔

آیت ۳۷

( لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَه عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْ کُمَه جَمِیْعًا فَیَجْعَلَه فِیْ جَهَنَّمَط اُولٰٓئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ )

ترجمہ۔ (یہ حسرت اور شکست) اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ (اس جہان اور اس جہان میں) ناپاک لوگوں کو پاک و پاکیزہ لوگوں سے جدا کر دے اور ناپاک اور پلید لوگوں کو آپس میں ملا دے، اور باہم یکجا کرکے انہیں جہنم میں بھیج دے، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

ایک نکتہ:

"یرکمہ" کا کلمہ "رکم" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کئی چیزوں کو ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ رکھنا۔

پیام:

۱ ۔ باہمی تضادات، حدگیری اور حق و باطل کی جنگ کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اس سے حوصلوں کا، مقاصد کا، اعمال کا پائیداری کا اور سازشوں کا پتہ چلتا ہے اور انسان کے جوہر کھلتے ہیں۔( لیمیز اللّٰه )

۲ ۔ حق اور باطل کے طرفداروں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ابتدا ہی سے خدا کا کام چلا آ رہا ہے( لیمیز اللّٰه )

۳ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام ناپاک لوگوں کو جمع کرے گا اور سب کو اکٹھا واصل جہنم کرے گا( فیرکمه جمیعا )

۴ ۔ جگہ کی تنگی، دباؤ اور ایک دوسرے پر گرے پڑنا، جہنمیوں کی خصوصیات میں شامل ہے، اگرچہ دوزخ بہت وسیع ہے جو بھرنے میں بھی نہیں آئے گی بلکہ مسلسل "ھل من مزید" کی رٹ لگاتی رہے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ خوراک کی طالب ہو گی لیکن دوزخی ہمیشہ دباؤ اور جگہ کی کمی کی شکایت کریں گے۔ بالکل ویسے جیسے ایک بہت بڑی دیوار ہو جس میں بہت سی میخوں کی گنجائش ہو، لیکن ہر ایک میخ تنگی میں گھٹی ہوئی ہوتی ہے۔

آیت ۳۸

( قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَج وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کفار سے کہہ دیجئے کہ اگر (گمراہی اور ناشائستہ افعال سے) باز آ جائیں تو ان کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگر (اپنی سابق کارستانیوں کی طرف) پلٹ جائیں تو خدائی طریقہ کار جو گزشتہ لوگوں کے ساتھ چلا آ رہا ہے ان کے بارے میں بھی جاری ہو گا۔

پیام:

۱ ۔ مسلمان ہونا، سابقہ گناہوں او رخلاف ورزیوں کو مٹا دیتا ہے( ان ینتهوایغفِرلهم ما قد سلف ) ۲۱

۲ ۔ اسلام میں ہمیشہ توبہ اور اصلاح کی راہیں کھلی ہیں اور اسلام کبھی بند گلی میں محدود نہیں ہوتا ۔( ان ینتهوا )

۳ ۔ فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھا جائے کہ افراد کی موجود ہ حالت کیا ہے ؟ سابقہ حالت کو نہیں دیکھا جائے گا( ان ینتهوا- )

۴ ۔ تشویق کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی ہوتی ہے( ان ینتهوا، ان یعودوا )

۵ ۔ امید کا دروازہ کھلا رکھنے سے کسی کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئیے کہ کسی قسم کی کمزوری کی وجہ سے مجرمین کے لیے ایسا کیا گیاہے۔( ان ینتهوا ان یعودوا )

۶ ۔ لوگوں کو سوچنے کا موقع ، توبہ اور نظرثانی کی مہلت دینی چاہئیے( ان ینتهوا-- )

۷ ۔ پہلے تشویق وترغیب او راتمام حجت پھر دھمکی ، سختی اور دباؤ( ان ینتهوا، ان یعودوا )

۸ ۔ کافر اور زندیق کی توبہ بھی قابل قبول ہے ۔( قل للذین کفروا ان ینتهوا )

۹ ۔ اسلام جنگ کا خواہاں نہیں بلکہ اصلاح طلب دین ہے( ان ینتهوا یغفرلهم )

۱۰ ۔ اللہ کے عادلانہ اور حکیمانہ قوانین ہر دور میں ہر ایک کے لئے یکساں اور ناقابل تبدیلی ہیں( مضت سنت الاولین )

۱۱ سابقہ امتوں میں خدائی طریقہ کار یہ رہا ہے کہ خدانے انبیاء کو ہی غلبہ عطا فرمایاہے ۔ ۲۲

آیت ۳۹

( وَقَاتِلُوْ هُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّه لِلّٰهِج فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )

ترجمہ۔ اور ان (دشمنوں ) کے ساتھ اتنی جنگ کرو کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہ جائے ، اور دین سارے کا سارااللہ کا ہوجائے ، پس اگر ان لوگوں نے (اپنے کفرسے ) دست کشی اختیار کر لی تو خداوند بھی ان کے کارناموں کو جانتا ہے۔

دونکات:

۔ اسلام میں جنگ کشور کشائی کے لیے نہیں بلکہ دین اسلام کی وسعت وہمہ گیری اور فتنوں سے مقابلے کے لیے ہے ۔

۔ "فتنہ " کے وسیع معنی ہیں اور دباؤ پر مبنی ہر طرح کے اعمال کو بھی شامل ہے۔ اور قرآن مجید میں "شرک " کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ اور یہ شا ید اس لیے ہے کہ مشرکین کی طرف سے انسانی افکار ‘ معاشرے اورحق طلب افراد پر مختلف قسم کی حد بندیاں اور طرح طرح کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں ۔ یا پھر اس لئے کہ شرک چونکہ ابدی عذاب کا موجب ہوتا ہے اسی لئے مومنین اور پاک فطرت لوگوں پر اس کا مسلط کرنا بھی ایک فتنہ ہے۔ (از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ اسلام میں جنگ کا مقصد حق کی دعوت کے لئے فتنے او رکفار کے تسلط کا خاتمہ اور صاف ستھری فضا قائم کرے۔ ۲۳

۲ ۔ تاریخی طور پر جب تک کفار فتنہ پر دازی میں مشغول رہیں گے ، فتنے کے قلع قمع کرنے کا حکم بھی موجود رہے گا۔( وقا تلوهم حتی لا تکون فتنهته )

۳ ۔ یہ آیت دین میں آزادی اور "لا اکرہ فی الدین " کے منافی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ طاغوت اور فتنے کو جڑ سے اکھیڑ پھینکا جائے تا کہ آزادی کے ساتھ اسلام کی اختیار کرنے کی فضا ساز گار ہو۔

۴ ۔ جب بھی دشمن جنگ سے ہاتھ اٹھا لے اس کے اسی وقت کو مطابق مناسب سلوک کیا جائے۔

آیت ۴۰

( وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلِمُوْا اِنَّ اللّٰهَ مَوْلَکُمْط نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ )

ترجمہ۔ اور اگر (پھر بھی ) وہ رو گردانی اور سرپیچی کریں تو معلوم کر لو کہ خدا تمہارا مولا اور سر پرست ہے کس قدر بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے ۔

پیام:

۱ ۔ اگر دشمن ، فتنہ پر دازی سے باز نہ آئے تو تم مومنوں کو ہر گز گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لئے کہ تمہار ا دمدگار اللہ ہے ۔

۲ ۔ فوجی مسائل پر عملدر آور کراتے او ر سیاسی منصوبہ کرتے وقت تمام اطراف پر نگاہ ہونی چاہئیے( فان تولوا ) اور درفان انتہوا"

۳ ۔ تم اپنے فرائض ادا کرتے جاؤ اگر دوسرے اس پر عمل نہیں کرتے یا روگردانی کرتے ہیں تو نہ گھبراؤ خدا تمہارا یارویاو ر ہے ۔

۴ ۔ خدا کی ولدیت ، سر پرستی اور مدد و نصرت سے کبھی غفلت نہ بر تو ۔( فاعلموا )

۵ ۔ اللہ تعالی اور اس کے لطف و کرم کی یاد مومنین کے دلوں کو مشکل وقت اور ہرسازش کے موقع پر تفویت عطا کرتی اور سکون بخشتی ہے۔

۶ ۔ خداوند عالم بہترین مولا ہے کیونکہ نہ تو ہمیں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے اور نہ ہی فراموش کرتا ہے ۔ نہ ہمیں اپنے کسی ذاتی مفاد کے لئے چاہتا ہے او رنہ ہی کسی کا حق ضائع کرتا ہے ۔( نعم المولی ) ٰ)

۷ ۔ ہر یارویاور سے خدا کی مدد و نصرت بالا تر ہے( نعم النصیر )

آیت ۴۱

( وَاعْلَمُوْآ اَنَّماَ غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمْسَه وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلَ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِط وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ )

ترجمہ۔ اور جان لو کہ جو بھی غنیمت حاصل کرو تو یقینا اس کا خمس (پانچواں حصہ ) خدا ، رسول خدا اس کے قرابتداروں (اہلبیت) یتیموں ، بے نواؤں اور مسافروں کے لئے ہے ، اگرتم خدا اور اس چیز پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر حق اور باطل کی جدائی کے دن نازل کی ، جس (جنگ بدر کے) دن دو گروہ ایماندار اور بے ایمان آپس میں گھتم گتھا ہو گئے۔ اور اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

چند نکات :

۔ شیعی نقطہ نظر اور روایات کی رو سے اس آیت میں "غنیمت " جنگی غنائم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ بلکہ ہر طرح کی آمدنی کو شامل ہے خواہ وہ معدنیات ہوں ، غوطہ زنی ہو، تجارت ہو یا کوئی اور ذریعہ آمدنی۔ اور جنگ بدر کے موقع پر آیت کا نزول اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے مراد صرف جنگی غنیمتیں ہیں۔

۔ اس سورت کی سب سے پہلی آیت میں "انفال کو خدا اور رسول کا مال بتایا گیاہے او راس آیت میں مال غنیمت کے صرف پانچویں حصے کو اللہ اور رسول اللہ کا مال بتایا گیا ہے۔

۔ اگر غنیمت سے مراد "جنگی غنیمت "ہی لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خمس کا ایک موقع اور محل اسی آیت میں ہے اور دیگر موارد روایات میں بیان ہوئے ہیں ۔

۔" ذوی القربیٰ " سے مراد بہت سی شیعی روایات اور بعض اہلسنت روایات کے مطابق پیغمبر اسلام کے تمام رشتہ دار نہیں ہیں بلکہ صرف ائمہ اہلبیت ہی ہیں جن کے پاس امت اسلامیہ کی قیادت اور رہبر ی ہے ۔ اور خمس اسلامی حکومت اور ا س کے رہبر سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پیغمبر کے سارے رشتہ داروں سے۔

۔ خمس کا ایک اور مصرف سادات بنی ہاشم میں سے غریب و مسکین او رمسافر افراد ہیں۔ کیونکہ غریب سادات پر غیر سیدوں کی زکوة حرام ہے لہذا خمس کے ذریعہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

۔ روایات جو کہ ۔۔۔ذوی القربی" سے مراد معصوم امام سمجھتی ہیں ان کے علاوہ ان کا اللہ اور رسول کے ساتھ ہی ساتھ ذکر ہونا اور خاص طور پرحرف "لام" کے ساتھ آنا ا س بات کی دلیل ہے کہ ذوی القربےٰ سے مراد ائمہ اطہار ہیں جو خدا اور ا سکے رسول کے ساتھ ساتھ مذکورہیں۔

پیام:

۱ ۔ اب جب کہ تم جنگ بدر میں خدا کی مدد او رنصرت سے کامیاب ہو گئے ہو لہذا غنیمت کے ما ل سے خمس کی ادائیگی کے لئے ٹال مٹول سے کام نہ لو۔( ان کنتم آمنتم--قدیر )

۲ ۔ مال غنیمت کا خمس رسالت اور مقام حکومت کے لئے ہے ۔

۳ ۔ حکومت او ر سر براہ حکومت راہبر اور قائد کو تبلیغ اور رسالت کے لئے اموال کی ضرورت ہوتی ہے( لله وللرسول )

۴ ۔ خمس واجب ہے خواہ آمدنی او رغنیمت کم ہی کیوں نہ ہوں ،( من شییٴ )

۵ ۔ ایمان ‘ ایثار کا موجب ہوتاہے۔( لله خمسه-- ان کنتم آمنتم )

۶ ۔ مالی قربانی اس حد تک مشکل ہوتی ہے کہ بعض موقعوں پر مجاہدین کیلئے بھی دشوار ہو جاتی ہے( ان کنتم - )

۷ ۔ غریب طبقہ اور حکومت ، لوگوں کے ۲۰ فیصد اموال کے مالک ہیں ۔( لله خمسه و -- )

۸ ۔ خداوند عالم کو مال کی ضرورت نہیں ، آیت میں خدا کے سہم (حصے) کا ذکر خدا اور رسول کی حاکمیت اور ولایت کے لئے ہے۔

۹ ۔ خدا کا حصہ کلمہء حق کی بلندی ، خانہ کعبہ ، دینی تبلیغات اور قانون الہٰی کی حاکمیت اور سر بلندی کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔

۰ ۔ فقرو فاقہ اور محرومیت کو دور کرنا اسلام کے پروگراموں میں شامل ہے لہذا جہاد او رغنیمت کے ثمرات سے فقراء اور مساکین کو بہرہ ور کیاجانا چاہئیے ۔

۱۱ ۔ ایمان کامل کی نشانی یہ ہے کہ خدا کے تمام قوانین کے آگے سر تسلیم خم کر دیا جائے ، صرف عبادات اور جنگ ہی میں سر کو نہ جھکایا جائے۔( ان کنتم---- )

۱۲ ۔ جنگ کا دن ، سچوں کا جھوٹوں سے جدا ہونے کا دن ہوتا ہے( یوم الفرقان )

۱۳ ۔ جنگ بدر میں خدائی امدادوں نے حقانیت اسلام کوروشن کر دیا۔

۱۴ ۔ جس طرح "غرامت " ہر قسم کے نقصان کو کہا جاتا ہے صرف جنگی نقصان ہی کو نہیں کہا جاتا ۔ ۲۴ اسی طرح "غنیمت " بھی ہر گونہ منافع اور فائدوں کو کہا جاتا ہے صرف جنگی مال کو نہیں ۔

۱۵ ۔ خدا کا سہم (حصہ) رسول خدا کے پاس ہوتا ہے او ررسول خدا کا سہم (حصہ) امام علیہ اسلام کے اختیار میں ہوتا ہے ۔ (روایات کی رو سے ۔ تفسیر صافی )

۔ آیت میں مذکورسہم میں فیصلہ کرنا امام کا کام ہوتا ہے (حضرت امام رضاعلیہ السلام کا تفسیر صافی )

۔ معاشرہ کے غریب اور محروم لوگوں کی شان بلند کرنے کے لئے ان کا نام اللہ او ررسول اللہ کے ناموں کے ساتھ ہی مذکور ہوا ہے


16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36