تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 66210
ڈاؤنلوڈ: 7099

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66210 / ڈاؤنلوڈ: 7099
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

سورہ اعراف

آیت ۱ ، ۲

( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

( کِتَبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِه وَذِکْرَیٰ لِلْمُؤْمِنِیْنَ )

الف۔ لام۔ میم۔ صاد

(یہ) وہ کتاب ہے جو ( اے پیغمبر) تمہاری طرف نازل کی گئی، پس اس سے تمہارے سینے میں تنگی (اور شک و شبہ) نہیں ہونا چاہیے۔ (یہ کتاب اس لئے نازل ہوئی ہے۔) تاکہ اس کے ذریعہ تم ڈراؤ اور مومنین کے لئے نصیحت ہو۔

ایک نکتہ

صاحب تفسیر المیزان کے بقول، وہ تمام موضوعات جو سورة "الم" اور سورة "ص" میں ذکر ہوئے ہیں۔ وہ سب اسی سورة میں بیان ہوئے ہیں۔ (کیونکہ اس کی پہلی آیت ان دونوں کا مجموعہ (یعنی "المص" ہے۔)

پیام:

۱۔ قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے مفہوم کی طرف توجہ سینے کی وسعت کا سبب ہوتی ہے۔( اُنزل- فلایکن )

۲۔ رسالت کی شرط وسعت قلبی ہے۔( فلایکن فی صدرک حرج منه لتنذر )

۳۔ اے پیغمبر! آپکو کفار کی ہٹ دھرمی اور اکھڑ پن سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کا کام تو صرف (انہیں ڈرانا) ہے۔ اجبار و زربردستی نہیں ہے۔( لتنذر )

۴۔ انبیاء علیہم السلام کی تنبیہ، عمومی ہوتی ہے لیکن یاد دہانی اور سبق سکھلانا صرف مومنین کے ساتھ مخصوص ہے۔( وذکٰری للمومنین )

آیت ۳

( اُتَّبِعُوْا مَااُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رِّبِّکُمْ وَلَاتَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهِ اَوْلِیَاءَ قَلِیْلًامَّا تَذَکَّرُوْنَ )

ترجمہ: جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے۔ اس کی پیروی کرو۔ اور اس کے علاوہ کسی اور معبود کی پیروی نہ کرو۔ تم کیا ہی کم نصیحت حاصل کر تے ہو۔

سابقہ آیت پیغمبر اکرم کے فرائض کو بیان کر رہی ہے۔ اور یہ آیت امت کے فریضہ کو۔ اس آیت میں پیغمبر کو وسعت قلبی کا ثبوت دینے کے لیے کہا گیا اور اس آیت میں امت سے اطاعت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس آیت میں "انزل الیک"ہے۔ اور اس میں "( انزل الیکم ) "

پیام:

۱۔ آیات الٰہی کی پیروی تمہارے اپنے اارتقاء اور رشدو تربیت کا سبب ہے( ربکم )

۲ ۔ آیاتِ الٰہی کی پیروی کا نتیجہ "ولایت الٰہی" کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ اور اس کے ترک کر دینے کا نتیجہ غیر اللہ کی ولایت کا جو گلے میں ڈالنا ہوتا ہے۔( ولا تتبعوامن دونة اولیاء )

۳۔ جو خداوند یکتا وحدہ لاشکریک کی ولایت اور اس کے قانون کو قبول نہیں کرتا۔ (ربکم) اسے کئی "ولیّوں" کو راضی کرنا پڑتا ہے۔( اولیاء )

۴۔ نصیحت حاصل کرنے والا ہمیشہ اور ہر دور میں قلیل تعداد میں ہوتے ہیں۔( قلیلا ماتذکرون )

آیت ۴ ۔ ۵

( وَ کَمْ مِنْ قَرْیَةٍ اَهْلَکْنَهَا فَجَآءَ هَا بَاسُنَا بَیَتًا اَوْهُمْ قَائِلُوْنَ فَمَا کَانَ دَعْوَهُمْ اِذْ جَآءَ هُمْ بَاسُنَآ اِلَّا اَنْ قَالُوْ اِنَّا کُنَّا ظَلِمِیْن )

اور کتنی ایسی آبادیاں ہیں کہ ہم نے وہاں کے رہنے والوں کو (ان کے اپنے کرتوتوں اور کفر کی وجہ سے) نیست و نابود کردیا۔ پس ہمارا عذاب رات کو یا دِن کو جب وہ سو رہے ہوتے تھے ان کے پاس پہنچ جاتا۔

پس جب ہمارا عذاب ان کے پاس آجاتا تو وہ اس کے سوا اور کچھ نہ کہتے کہ "ہم خود ظالم تھے"

چند نکات:

دو " قریہ" کے معنی گاؤں یا بستی کے نہیں بلکہ اس کے معنی ہیں آبادی، لوگوں کے جمع ہونے کا مرکز، خواہ شہر ہو یا گاؤں۔

دو "قائلون "کے لفظ کو" قیلولہ" سے لیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں دوپہر کا آرام و استراحت اور اقالہ کا تعلق بھی اسی باب سے ہے جس کا معنی ہے فروخت شدہ چیز کو واپس لینا۔ کیونکہ اس طرح سے خریدار معاملے کی پریشانی سے راحت محسوس کرتا ہے۔

"بیات "کے معنی "شبانہ" یا رات کا وقت ہے۔ (ازتفسیر نمونہ)

پیام:

۱۔ جو علاقے خدائی قہر و غضب سے نیست و نابود ہوئے ہیں وہ بہت کم ہیں۔( وکم )

۲۔ دوسروں کے تلخ تجربوں سے عبرت حاصل کرو( وکم )

۳۔ خدائی سزاؤں کا تعلق صرف قیامت ہی سے نہیں بلکہ دنیا میں اس کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔( اهلکنا )

۴۔ خدائی قہر و غضب ناگہانی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔( بیاتا او هم قائلون )

۵۔ آرام کے وقت عذاب کا اپنی گرفت میں زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔( بیاتااوهم قائلون )

۶۔ خدائی عذاب اس وقت اپنی لپیٹ میں لیتا ہے جب سوچنے سمجھنے اور چارہ جوئی کی فرصت بھی نہیں ملتی۔( بیاتا اوهم قائلون )

۷۔ باحوصلہ رہبر اور کامل قانون (سابقہ دو آیات کی طرف اِشارہ ہے۔) کے آجانے کے بعد لوگوں پر حجت تمام ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس کی نافرمانی سخت سزا کا موجب بن جائے گی۔( وکم اهلکنا )

۸۔ خطرات اور جوادثات، غرور کا سر نیچا کردیتے ہیں۔ غفلت کے پردے چاک کر دیتے ہیں۔ اور مردہ ضمیروں کو زندہ اور سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کر دیتے ہیں۔( لاان قالوا )

۹۔ ہر ظالم و جابر انسان جب عذاب الٰہی کو دیکھتا ہے تو اس میں ٹھراؤ آجاتا ہے۔ اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیتا ہے۔( انا کنا ظالمین )

۱۰۔ نعرے اس وقت لگائے جاتے ہیں جب آسائش کا زمانہ ہوتا ہے۔ لیکن جب خطرہ سر پر منڈلانے لگتا ہے تو ایک حرف بھی منہ سے نہیں نکل پاتا۔( فما کان دعوٰهم )

۱۱۔ اگر آج اپنے ارادے اور اختیار سے سر تسلیم خم نہیں کروگے۔ تو کل خواہ مخواہ مجبوراً کورنش بجانا پڑے گی۔( قانو اناکنا ) ۔)

۱۲۔ غیر اللہ کے پیچھے جانا ان کی اطاعت کرنا اور انبیاء کی اطاعت سے منہ موڑنا۔ (سابقہ دو آیات کے پیشِ نظر) ظلم ہے۔ (کنا ظالمین)

آیت ۶ ۔ ۷

( فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ بِعِلْمٍ وَ مَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ )

ترجمہ: پس ہم یقینا ان لوگوں سے باز پرس کریں گے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے۔ اور خود پیغمبروں سے بھی جواب طلبی کریں گے۔

پس ہم یقینا علم ( اور پوری تحقیق) کی بناء پر ان لوگوں کو (وہ) سب کچھ بتا دیں گے (جو انہوں نے کیا ہوگا) اور ہم غائب اور بے خبر نہیں تھے۔

ایک نکتہ

سابقہ آیت میں دنیوی سزا کا تذکرہ تھا۔ اور یہ آیت اخروی سزا اور احتساب کو بیان کر رہی ہے۔ اور اس طرح تاکید کے ساتھ اس کا تذکرہ کر رہی ہے کہ قیامت کے دِن سوال و جواب ختمی ہوں گے۔ اور یہ صرف گناہگاروں ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔

پیام:

۱۔ قیامت کے دِن، رہبروں اور راہنماؤں سے بھی سوال ہوں گے۔ اور اُمتوں اور پیروکاروں سے بھی۔ نیک لوگوں سے بھی پوچھا جائے گا۔ اور بدکاروں سے بھی۔ علماء سے بھی بازپرس ہوگی اور مقلدین سے بھی۔

۲۔ قیامت کے دن سوال کرنے کا مقصد یہ نہیں ہوگا کہ خدا سے کوئی چیز پوشیدہ ہے۔ اور وہ پوچھ پوچھ کر شکوک و شبہات دور کر ے گا، نہیں بلکہ مقصد بندوں کی اپنے اعمال کے بارے میں شہادت، ان کا اقرار اور خدا کی

ہے۔ جب کہ سورہ سبا / ۳ میں ہے۔

"( ومایغرب عن ربک مثقال ذرة فی السٰمٰوات والارض ) "

تفسیر:

اس آیت میں چند نکتے موجود ہیں۔

الف: کن چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ اِن چیزوں کے بارے میں:

۱۔ نعمتوں کے بارے میں جیسا کہ ارشاد ہے ۔ "( ثم لتسئلن یومئذٍ عن النعیم ) ۔" (تکاثر/ ۷) تم سے اس دِن نعمتوں کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا۔ اور روایات میں ہے کہ یہاں ہر نعمت سے مراد "رہبری اور ولایت " ہے۔

۲۔ کردار کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ "( لنسئکنهم اجمعین عما کانوا یعملون ) " (حجر/ ۹۲) ہم ان سے ضرور سوال کریں گے ان چیزوں کے بارے میں جو وہ انجام دیتے رہے۔

۳۔ اعضاء کے بارے میں پوچھا جائے گا جیسا کہ فرماتا ہے۔ "( ان السمع والصبرو الفواد کل اولئک کان عنه مسئولا ) " (بنی اسرائیل / ۸۳) کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال ہوگا۔

۴۔ عمر و جوانی اور مال و دولت کا حصول اور ان کے مصرف کے بارے میں سوال ہوگا۔ جیساکہ روایات و احادیث اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں۔

ب: سوال کس انداز میں کیا جائے گا؟ اس انداز میں مثلاً

۱) "( یمعشرالجن والا نس اکم یاتکم رسل منکم ) ۔۔۔" (انعام / ۱۳۰) اے گروہ جن و انس! آیا دنیا میں تمہارے پاس پیغمبر نہیں آتے تھے کہ تمہیں حقائق بتاتے؟

۲) "( یومِ یجمع الله الرسل فیقول ماذا اجبتم ) ۔۔۔" (مائدہ / ۱۰۹) جس دن اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو اکٹھا کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ لوگوں نے آپ کو کس طرح جواب دیا تھا؟

ج: اس آیت میں فرماتا ہے کہ یقینا انبیاء سے بھی سوال کریں گے اور لوگوں سے بھی! جبکہ سوة الرحمن / ۳۹ میں فرماتا ہے کہ " اس دِن کسی جن و انس سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ "( فیومئذٍلایسئل عن ذنبه انس و الاجان ) " تو کیا ان دونوں آیات کا آپس میں اختلاف ہے؟

جواب: قیامت میں صرف ایک جگہ ہی سوال نہیں کیا جائے گا، کئی مقامات پر ٹھہرایا جائے گا اور ہر مقام پر مختلف نوعیت کا سوال کیا جائے گا۔ اور ایک جگہ پر ہونٹوں پر مہر لگا دی جائے گی اور کسی کو بولنے کا یارا نہیں ہوگا۔ کہیں پر مہر سکوت توڑ دی جائے گی۔ ہر طرف سے چیخ و پکار، نصرت طلبی اور اقرار کی آوازیں گونج رہی ہوں گی۔ کسی جگہ پر سب سے پوچھا جائے گا۔ اور کہیں پر سب خاموش!

آیت ۸

( وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهُ فَاُوْلٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ )

ترجمہ: اور (قیامت کے دِن) میزان (لوگوں کے جاننے کا ذریعہ) حق ہے، پس جس شخص (کے اعمال) کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہ لوگ ہی کامیاب ہیں۔"

"میزان" کسی چیز کے وزن کرنے ا ور جانچنے کے ذریعہ کو کہتے ہیں اور ہر چیز کا میزان جداگانہ ہے۔ْ دیوار کو ساہول کے ساتھ، آب و ہوا کو تھرمامیٹر کے ساتھ، پھل و میوے کو کلو کے ساتھ اور کپڑے کو میٹر یا گز کے ساتھ جانچتے ہیں۔ عام انسانوں کی جانچ اور وزن کا ذریعہ انسان کامل ہیں جو مجسم حق ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام "( ونضع الموازین القسط ) " ہم عدل و انصاف کے ترازو قائم کریں گے۔ (انبیاء / ۴۷) کی تفسیر کے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اور انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام میزان ہیں۔ اور حضرت امیر الم( ٴ ) ومنین علی علیہ السلام کی زیارت مطلقہ میں ہم پڑھتے ہیں۔ "السلام علی میزان الاعمال " اعمال کے ترازو پر ہمارا سلام۔ اس لئے کہ یہی ذوات قدسیہ بذات خود دوسروں کے اعمال و افعال کے جانچنے، پرکھنے اور تولنے کا حقیقی معیار ہیں۔

پیام:

۱۔ قیامت کے دِن حق کی حکومت ہوگی۔ "( هنالک الولایة للّٰه الحق ) " (کہف/ ۴۴) اور وہ دن بذاتِ خود حق ہوگا۔ "( ذالک الیوم الحق ) " (بنا/ ۳۹) اس دِن وزن بھی حق ہوگا اور فیصلہ بھی برحق ہوگا۔ (آیت الذکر)

۲۔ قیامت کے دِن تمام بندوبست باقاعدہ منظم طریقے سے کئے جائیں گے، حساب و کتاب احکام اور فیصلوں کا صدور، سزا و جزا کا فیصلہ سب کچھ حق کی بنیادوں پر ہوگا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ "( والوزن یومئَذالحق ) "

۳۔ ہر شخص کے لئے کسی قسم کے جانچنے اور وزن کرنے کے معیار ہوں گے۔ "و( موازینه ) "

۴۔ عمل کے بغیر کسی جزا کی توقع غلط ہے۔ "( فمن ثقلت---- هم المفلحون ) "

آیت ۹

( وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهُ فَاُ ْولٰئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْ ا اَنْفُسَهُمْ بِمَا کَانُوْ ا بِئَایَتِنَا یَظْلِمُوْنَ )

ترجمہ: اور جس شخص کے (اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے (اور ان کے اعمال و افکار ناشائستہ ہوں گے) تو یہی وہ لوگ ہوں گے جو ہماری آیات پر ظلم کرنے کی وجہ سے خود کو تباہ و برباد کرکے نقصان پہنچائیں گے۔

پیام:

۱۔ ایک انسان کے جانچنے اور پرکھنے کے لئے کئی وسائل ضروری ہوتے ہیں۔( موازین )

۲۔ اعمال صالح اگر کم مقدار میں ہوں تو خسارے کا موجب ہوتے ہیں، چہ جائیکہ سرے ہی سے نہ ہو۔( خفت خسروا )

۳۔ آیات الٰہی کا انکار اور ان سے بے پرواہی۔ ان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ (ب( ایاتنایظلمون )

۴۔ اس دنیا کو بازار کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس میں رہ کر ایمان لانا "منافع" ہے اور کفارو انکار کا خسارہ ہے۔ اور فطرات سلیم اور استدلال کو نظر انداز کردینا جو ہر انسانیت کو نابود کرنے اور اپنے اوپر ظلم کا موجب ہے۔( خسرو اانفسهم )

آیت ۱۰

( فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْهَا مَعَیِشَ قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُونَ )

ترجمہ: اور ہم نے یقینا تمہیں روئے زمین پر تسلط اور حکومت عطا کی (اور فطرت کو مسخر کرکے) تمہارے لئے اس زمین میں وسائل زندگی فراہم کئے۔ (لیکن) تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہو۔

پیام:

۱۔ دنیا میں تمام چیزیں انسان کے اختیار میں اور اس کے لئے مسخر ہیں۔( مکناکم ) ۱

۲۔ زمین کی تخلیق اور اس کے متعلقہ امور مثلاً گردش، حرارت، جاذنیت، وافعیت، پانی، نباتات، فضلات کو قبول کرکے سبزیجات و پھل میوے واپس کرنا وغیرہ ایسے امور کہ جنہیں دیکھ انسان اپنے لئے زمین کو محل سکونت کے عنوان سے منتخب کرسکتا ہے۔ "( مکناکم فی الارض ) "

۳۔ طبیعت و فطرات پر حکمران قوانین کچھ اس طرح سے ہیں کہ انسان ان پر تسلط قائم کرسکتا ہے اور انہیں اپنے اختیار میں لاسکتا ہے۔ اگر خداوندتعالیٰ زمین کو رام نہ کرتا۔ تو انسان کے بس کی بات نہیں تھی کہ اسے اپنے قابو میں رکھتا اور اس سے بہرہ گیری کرتا۔ "( مکنا ) "

۴۔ نعمتوں کو شکر بجا لانے کا سبب سمجھو نہ کہ غفلت اور عیاشی کا موجب۔( تشکرون )

۵۔ قرآن مجید بار بار لوگوں کی ناشکری، غفلت اور بے ایمانی کی بات کرتا ہے۔( قلیلا مایشکرون )

آیت ۱۱

( اوَلَقَدْ خَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ لَمْ یَکُنْ مِنْ السَّاجِدِینَ )

ترجمہ: اور ہم نے یقینا تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بندی اور چہرہ نگاری کی، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ "آدم کو سجدہ کرو" پس سب نے سجدہ کیا سوائے ! ابلیس کے۔ کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔

دو نکات:

سابقہ آیت میں انسان کو زمین پر تسلط کی بات ہو رہی تھی جو کہ اس کی مادی قدرت کی بات تھی، اور اس آیت میں اس کے "مسجود ملائکہ" ہونے کا تذکرہ جو اس کی تصویر عظمت کی دلیل ہے۔

اس آیت سے لے کر بعد کی ۱۰ آیت تک حضرت آدم کی داستان سے تعلق رکھتی ہے۔ جو گذشتہ آیت یعنی انسان کی زمین پر تمکین و قدرت کی تفصیل ہیں۔

پیام:

۱۔ انسانی تخلیق چند مراحل میں عمل میںآ ئی۔( ثُم ثُم )

۲ ۔ انسان میں اس مقام پر و منزلت تک پہنچنے کی استعداد و صلاحیت ہو کہ مسجود ملائکہ بن سکتا ہو ۔( اسجدو الادم )

۳ ۔ اگر فرمان خدا کے مطابق غیر خدا کو سجدہ کیا جائے تو شرک نہیں ہے۔( قلنا -السجدوا )

۴ ۔ باپ پر احسان، اولاد پر احسان ہوتا ہے( حکم خداوندی کے ملائکہ نے ابوابستہ آدم کو سجدہ کیا ہے اپنی قدرو منزلت کو خوب اچھی طرح پہچانو)

آیت ۱۲

( قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَا خَیْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِینٍ )

ترجمہ: اللہ نے (ابلیس سے) فرمایا جب میں نے تجھے سجدے کا حکم دیا تھا تو تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے باز رکھا؟ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی کے خلق کیا ہے ۔

ایک نکتہ:

سجدہ کرنے کی وجہ لیاقت اور شایستگی تھی تاکہ "ذات پات" اور شرعی روایات کیمطابق سب سے پہلے جس کسی نے قیاس کیا وہ شیطان تھا ۲

پیام:

۱ ۔ غرور اور تکبر کے خطرہ اس حد تک ہے کہ متکبرین خدا کے فرمان کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ امر کے آگے لکڑ جاتے ہیں۔( اناخیرمنه )

۲ ۔ شیطان نے قیاس سے کام لیا جو گمان اور تخمین پر مبنی ہے۔( خلقنی نارو خلقته من طین )

۳ ۔ تعصب اور بے جا حمیت نے شیطان کو تباہ و برباد کر ڈالا۔( خلقتنی من نار )

۴ ۔ کائنات کا سب سے پہلا گناہگار شیطان ہے اور اس کی تباہی و بربادی کا موجب اس کا غرور و تکبر اور دریں کہنا ہے۔

۵ ۔ میرے خدا کی خالقیت ہی کو قبول کر لینا۔ (تسلیم کر لینا) کافی نہیں بلکہ امر کا حکم ماننا اور امر کے آگے سر تسلیم حکم کرنا بھی ضروری ہے۔ (خراضتنی)

۶ ۔ شیطان، آدم کے نہیں خدا ایک ہے ڈٹ گیا۔ (اذام تک ) ۳

۷ ۔ شیطان نے نص کے مقابلے میں اجتہاد کیا۔ اور آگ کی مٹی ہے بدتر کا سہارا لے کر خدا ئی حکمت کا انکار کر دیا۔( خلقتنی من نار )

آیت ۱۳

( قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَکُونُ لَکَ أَنْ تَتَکَبَّرَ فِیهَا فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنْ الصَّاغِرِین ) ترجمہ: اللہ نے شیطان سے کہا: اس مرتبے اور درجے سے نیچے آ جا! تجھے نہیں چاہیے تھا کہ تکبر کرتا۔ پس باہر نکل جا کیونکہ تو یقینا ذلیل اور رسواؤں سے ہے۔

پیام:

۱ ۔ غروروتکبر کا نتیجہ حقارت ذلت اور رسوائی ہے۔( فاهبط- فاخرج )

۲ ۔ تکبر صرف عام لوگوں کے لئے خطرناک نہیں ہے بلکہ ان کیلئے بھی خطرناک ہے جو ملاء اعلیٰ میں فرشتوں کا ہم نشین رہ کر ہزاروں سال کی ریکارڈ عبادت کے حاصل ہوتے ہیں۔( فاهبط فاخرج )

۳ ۔ نہ تو شیطان کر اس کا خدا کے بارے میں علم بچا سکا اور نہ ہی لمبی چوڑی عبادت، راہ نجات صرف اور صرف اس کے آگے سر تسلیم خم کر دینے میں ہے۔( تتکبر فیها- فاخرج ) ۴

۴ ۔ تکبر اعمال کی نابودی اور بربادی کا موجب ہوتا ہے ۔( فاخرج )

۵ ۔ "میں بہتر ہوں" (اناخیر) کے نعرے کا جواب "نکل جا"( فاخرج ) ہے۔

۶ ۔ بعض اوقات ایک لمحے کا تکبر، اور تباہی کا موجب بن سکتا ہے۔( تتکبر- فاخرج )

آیت ۱۴ ۔ ۱۵

( قَالَ أَنظِرْنِی إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ - قَالَ إِنَّکَ مِنْ الْمُنظَرِینَ )

ترجمہ: (شیطان نے توبہ کرنے اور معافی مانگنے کی بجائے ) کہا : مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن لوگ قبور سے اٹھائے جائیں گے۔ (اللہ نے) فرمایا : یقینا تو ان افراد میں سے ہے جنہیں مہلت دی جا چکی ہے۔

دو نکات:

ابلیس تو قیامت تک کی مہلت چاہتا تھا۔ لیکن اس آیت سے اور سورہ ۳۸ ویں اور سورہ ص کی ۸۱ ویں آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے قیامت تک تو نہیں البتہ ایک لمبے عرصے کے لئے مہلت ملی ہے۔ کہ "درانک من المنظرین امر یوم الوقت المعلوم"

تفسیر صافی میں ہے کہ ابلیس پہلے صور کے پھونکے جانے تک زندہ رہے گا پھر وہ بھی مر جائے گا۔

سوال: ابلیس کو خدا نے کس لیے مہلت دی ہے؟

جواب: اس لئے کہ مہلت دینا خدا کا ایک طریقہ کار چلا آ رہا ہے۔ تاکہ خیر اور شر کے اسباب مہیا رہیں اور انسان اپنے ارادہ اور اختیارات۔ راہ کا انتخاب کرے، ابلیس، انسان کو گمرہ کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ ( سورہ ابراہیم ۲۶)

پیام:

۱ ۔ پر لمبی عمر بھی قابل قدر نہیں ہوا کرتی۔( انظرنی )

۲ ۔ بعض اوقات کافر کی دلی تمنا بھی پوری ہو جاتی ہے۔( انک من المنظرین )

۳ ۔ شیطان بھی جانتا ہے کہ عمر خدا کے ہاتھ اور ارادے میں ہے۔ اسی لئے اے خدا اے خدا مانگا ہے۔( انظرنی )

۴ ۔ مہلت دینا خدا کا طریقہ کار ہے۔( انک من المنظرین )

۵ ۔ ابلیس، اپنے خالق کو بھی پہچانتا تھا کہ کہا( خلقتنی ) اور معاد کو بھی جانتا تھا اسی لئے قیامت کے دن تک کی مہلت مانگی (یوم یبعثون) لیکن ایسی معرفت کا کیا فایدہ جب اس کے فرمان پر عمل نہ کرے۔

آیت ۱۶ ۔ ۱۷

( قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیمَ - ثُمَّ لَآتِیَنَّهُمْ مِنْ بَیْنِ أَیْدِیهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلاَتَجِدُ أَکْثَرَهُمْ شَاکِرِینَ )

ترجمہ: (شیطان نے )کہا: تو چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے لہٰذا میں بھی یقینا (فریب دینے کے لئے) تیرے سیدھے راستے پر بیٹھا رہوں گا۔

پھر (تیرے) ان (بندوں) کے آگے سے یا پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے ان تک آ پہنچوں گا (میرے مسلسل وسوسوں کے نتیجے میں تو ان میں سے بہترین کو شکر گزار نہیں پائے گا۔

دو نکات:

شیطان نے خدا سے اس لئے مہلت نہیں مانگی تھی کہ غلطی کی تلافی کرے، بلکہ آدم کا انتقام اولاد آدم سے لینے کے لئے مہلت مانگی تاکہ انہیں گمراہ کرے۔

حدیث میں ہے کہ شیطان نے قسم کھائی کہ اولاد آدم کے چاروں طرف گھات لگائے رکھے گا تاکہ انہیں گمراہ کر دے یا نیکی سے روکے رکھے۔ فرشتوں نے انسانوں کی ہمدردی میں خدا کی بارگاہ میں عرض کی۔ "پروردگا! یہ انسان کے پنجے سے کیسے چھٹکارا پا سکے گا؟ "اللہ نے فرمایا" اگر وہ چاروں اطراف سے انہیں گمراہ کرے گا تو دو راستے اورپر اور نیچے والے ان کے لئے کھلے ہوں گے جب بھی انسان دعا کے لئے ہاتھ کھڑے دے گا یا اپنی صورت خاک پر رکھ دے گا تو اس کے ستر سال کے گناہ معاف کر دوں گا" (از تفسیر فخر الدین رازی)

جب آدم کو شیطان کے تسلط کا علم ہوا تو خدا کی بارگاہ میں فریاد کرنے لگ گئے۔ اللہ نے فرمایا: "گھبرانے کی ضرورت نہیں میں گناہ کو اور نیکی کو اسی گناہ کروں گا۔ اور توبہ کا دروازہ بھی کھلا رکھوں گا"

(ازتفسر نورا الثقلین)

پیام:

۱ ۔ اپنی خلاف ورزیوں کی توجیہہ نہیں کرنی چاہئے جب کہ عذر گناہ بلا تراز گناہ کے میدان شیطان نے اپنے تکبر کو تو نظر انداز کر دیا اور گمراہی کی نسبت خدا کی طرف دیدی۔( اغوتنی )

۲ ۔ شیطان، انسان کا تو قسم خوردہ دشمن ہے۔( لاغوینهم ) ۵

۳ ۔ راہ مستقیم پر چلنا اور اس راہ کا تلاتر کرنا بہت مشکل ہے جس کے الھی امداد کی ضروت ہے چونکہ شیطان بروقت گھات میں ہے لہٰذا اس کے بروقت ہوشیار اور اس کے خلاف نبر آزمانا رہنے کے لئے بروقت مسلح رہنا چاہتے (لاقعدن لھم۔۔)

۴ ۔ شیطان سب کچھ سے واقف ہے۔ صراط مستقیم کو بھی جانتا ہے۔ شکر گزاروں سے بھی واقف ہے وسوسے ڈالنا بھی خوب جانتا ہے اور جارحانہ انداز سے حملے کرنے سے بھی باخبر ہے۔ (تفسیر)

یاد رہے کہ شیطان کے وسوسہ ڈالنے کے کئی راستے ہیں۔ اگر آپ ایک راسے کوبند کر دیں گے تو وہ دوسری راہ لے آ جائے گا۔ لہٰذا اچھی طرح ہوشیار اور خبردار رہنا چاہئے ہو سکتا ہے کہ اس کا آگے کی طرف سے آنے کا مقصد جاہ و مقام اور سال کے حصول کی خواہش ہو، پیچھے کی طرف یہ آنے کا مقصد اولاد اور الاتوں کی فکر ہو، دائیں طرف کا مقصد علم و عبادت کے اور سماجی خدمات کے ذریعہ وسوسے ڈالنا ہو اور بائیں جانب کے رسوخ سے مراد برائیوں اور بے حیائیوں کی طرف رغبت دلانا ہو۔ (ازتفسر المیزان)

۵ ۔ شیطان کے گھات کی تاثیر چند چیزوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے یا گمراہ کرنے سے یا پیچھے ہٹا دینے سے یا روک دینے سے یا دل میں مختلف شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالنے سے۔

۶ ۔ شیطان آگے کی طرف سے یوں آتا ہے کہ دنیا کو انسان کے لئے مزین کر کے پیش کر کے پیش کرتا ہے پیچھے سے یوں کہ آخرت کو فرا موش کرا دیتا ہے۔ دائیں طرف سے اس طرح کہ عبادتوں کو بوجھل اور سنگین ظاہر کرتا ہے۔ اور بائیں جانب سے اس طرح کہ گناہوں کو شیریں لذیذ اور خوشگوار انداز میں پیش کرتا ہے۔ (ازتفسیر مجمع البیان)

آیت ۱۸

( قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْئُومًا مَدْحُورًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْکُمْ أَجْمَعِین )

ترجمہ: (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: تو ذلیل و خوار ہو کر (اپنے مقام و منزلت سے) نکل جا، (میں قسم کھا کر کہتاہوں) ان میں سے جو شخص تیری پیروی کرے گا تو میں یقینا تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔

دو نکات:

ایک لمحہ کے لئے اظہار تکبر اور "( اناخیرة ) " کہنا کہ قدتباہی کا موجب بن گیا! "اھبط، اخرج" انک من الصاغرین" جیسے الفاظ انجام دے دو چار ہونا پڑا اور یہ سب حقدارتیں پستی اور ذلت ، متکبر نام پرور قربان" اس لئے کہ معذرت طبی کی اور معافی مانگنے کی بجائے ڈٹ گیا اور نسل انسانی کی گمراہی پر کمر باندھ لی۔

"مذعوم" کو اصل "ذعم" ہے جس کا معنی ہے شدید عیب اور "مدحور" کی اصل "دم" ہے جبر کا معنی ہے ذلت و رسائی کے ساتھ دھکے دیکر باہر نکال دینا۔

پیام:

۱ ۔ انسان خود شیطان کی پیروی کرتا اور جہنم کا حقدار بنتا ہے۔

۲ ۔ گمراہ اور اس قدر زیادہ ہیں کہ دوزخ جب "داھل من مزید" (اور کچھ) کا نعرہ لگائے گی تو (لاملئن) کے تحت اسے بھر دیا جائے گا، جبکہ نیک اور پاک سیرت لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جب کہ خداوند عالم فرماتا ہے: "( وقلیلا ماتشکرون ) "

آیت ۱۹

( وَیَاآدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ فَکُلاَمِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ )

ترجمہ: اور اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ بہشت میں جا ٹھہرو! اور جو چیز جہاں ہے اور جب چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا کہ (اپنے اوپر) ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔

دونکات:

اس جیسی آیت سورہ بقرہ میں گزر چکی ہے ملاحظہ ۳۵ ویں آیت

آیت میں مذکور نہیں تحریمی نہیں بلکہ کرایت پر مبنی تھی۔ لیکن آدم کا بلند مقام و مرتبہ اس قدر زہر و توبیخ کا موجب بن گیا یا پھر نہی ارشادی تھی کہ جس کا خبر کی خلاف ورزی کا ضبطی نتیجہ وہی نکلا جو آگے بیان ہو رہا ہے۔ جیسے کوئی ڈاکٹر بیمار کو ایک غذا سے روکتا ہے کہ اگر اسے کھائے گا تو سخت پریشان ہو گا۔ ورنہ وہ حرام نہیں ہے۔

پیام:

۱ ۔ مقام رہائش میں عورت مردکے تابع ہوتی ہے۔ (انت و زوجک)

۲ ۔ حلال راستہ ہو جانے کے باوجود (فکلا) حرام کے پیچھے جانا ظلم ہے۔( فتکو نامن الظلمین )

۳ ۔ پہلے حلال مصرف کی راہیں کھو لو پھرا نہیں اور ممنوعیت کے مقامات کی نشاندہی کرو( کلالاتقرب ) ا)

۴ ۔ گناہ کے نزدیک جانا بھی آلودگی کا موجب بن جاتاہے( لاتقربا- فتکونا )

آیت ۲۰

( فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطَانُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَا وُورِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَنْ تَکُونَا مَلَکَیْنِ أَوْ تَکُونَا مِنْ الْخَالِدِینَ )

ترجمہ: پس شیطان نے ان دونوں (آدم اور ان کی بیوی) کو وسوسہ میں ڈال دیا تاکہ ان کے چھپائے جانے کے مقامات کو ظاہر کرے اور کہا: تمہارے پروردگار نے اس درخت سے کھانے سے نہیں روکا مگر اس لئے کہ کہیں فرشتے بن جاؤ یا حیات ابدی حاصل نہ کر لو۔

چند نکات:

شیطان ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈال رہا تھا کہ اس درخت سے کھانے سے وہ فرشتے بن جائیں گے یا اور زندگی کے حاصل ہو جائیں گے، اور چونکہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ تم اس مقام و منزلت تک جا پہنچو لہٰذا تمہیں اس سے روک دیتا ہے۔

وہ درخت کونسا تھا جس کے قریب جانے سے انہیں روک دیا گیا تھا؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ گندم کا پودا تھا، اور نباتات پر بھی " شجرہ " کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "شجرة من لقطین" (کدو کا درخت) حالانکہ وہ تو پودا بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کی بیل ہوتی ہے لیکن چونکہ نباتات ہے اس لئے اسے "شجرہ" کہا گیا۔

بعض حضرات نے اس درخت سے "حسد" کی خصلت مراد لی ہے۔

تو ریت نے شجرہ سے "علم و معرفت کا درخت" مراد لیا ہے (جو ندات اس کی تحریف کی دلیل ہے، اس لئے کہ خداوند متعال انسان کو علم و معرفت سے نہی نہیں کرتا ہے اگرچہ پورے کلام پاک میں یہ ماجرا چھ مرتبہ بیان ہوا ہے لیکن کہیں پر بھی اس درخت کی تعین نہیں کی گئی۔

پیام:

۱ ۔ شیطان تو انبیاء تک کو بھی نہیں چھوڑتا۔( لهما )

۲ ۔ شیطان کا آخری حربہ وسوسے پیدا کرنا ہوتا ہے کسی کو مجبور کرنا نہیں ہو گا۔ رہنمائی کرنا ہے مداخلت نہیں۔( فوسوس )

۳ ۔ گناہ کے ارتکاب اور خلاف ورزی کا نتیجہ رسوائی ہوتا ہے۔( لیبدی )

۴ ۔ پر دے اتارنا اور جنسی مسائل کو نمایاں کرنا انسان کی راہ پر شیطان کے بچھائے جانے والے جال اور اس کی دلی آرزو ہے۔( لیبدی )

۵ ۔ احکام الٰہی کی خلاف ورزی کے لئے غلط توجیہات اور فلسفہ آرائی ممنوع ہے۔( مانها کماربکما ) ۔)

۶ ۔ انسانی آرزؤوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بے غم، بے فکر اور سکون کی فضا میں زندگی گزارے۔( ملکین )

۷ ۔ ہمیشہ کے لئے اور زندگی جاودانہ سے محبت پر انسان کو ہے۔( خالدین )

۸ ۔ انسانی آرزؤوں کے راستہ ہی سے شیطان کو داخل ہونے کام وقعہ ملتا ہے۔( تکونامن الخالدین )

۹ ۔ شیطان انسان کو گناہ پر آمادہ کرنے کے لئے اس کی فکری اس کے اندر ثقافتی اور تعلیمی راہوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔( تکونا من الخالدین )

آیت ۲۱

( وَقَاسَمَهُمَا إِنِّی لَکُمَا لَمِنْ النَّاصِحِینَ )

ترجمہ: اور شیطان نے (اپنے وسوسے کو موثر بنانے کے لئے) ان دونوں کے قسم کھائی کہ یقین جانو میں تمہارے خیر خواہوں میں سے ہوں۔

چند نکات:

سب سے پہلی جھوٹی قسم شیطان نے کھائی۔

قرآن مجید کے بقول منافقین ہی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سورہ توبہ آیات ۴۵۶ ۔ ۶۲: ۷۴ ۔ ۱۰۷)

جو ہمیشہ یا اکثر و بیشتر قسمیں کھاتا رہتا ہے وہ قیادت اور رہبری کے لائق نہیں ہے ملاحظہ اہو سورہ قلم ۱۰ اور لاتطع کل حلاف مھین"

پیام:

۱ ۔ جھوٹی قسمیں کھانا، شیطانی کام ہے( قاسمها )

۲ ۔ ہر قسم پر اعتماد نہیں کر لینا چاہئے( قاسمها )

۳ ۔ دشمن ہمارے عقائد سے اپنے مفادات اٹھانے کی کوشش کرتا ہیے( قاسمهما )

۴ ۔ خیر خواہلی کے بلند بانگ دعوے اور نعرے ہی دشمن کے ہمارے اندر درآنے کے موجب ہوتے ہیں۔( لمن لناصحین ) ۶

آیت ۲۲

( فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَکُمَا إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُبِینٌ )

ترجمہ: پس شیطان نے ان دونوں (آدم اور ان کی زوجہ) کو دھوکہ دیا (اور انہیں مقام و مرتبہ سے نیچے گرا دیا) پس جونہی انہوں نے (ممنوعہ) درخت سے چکھا (انکا الباس گر پڑا اور) شرمگاہیں ان کے لئے نمایاں ہو گئیں۔ اور اپنے آپ کو جنت کے پتوں سے چھپانے لگے۔ اور ان کے رب نے انہیں آواز دی: آیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا تھا۔ اور نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارے لئے کھلم کھلا دشمن ہے؟

چند نکات:

"دلی" کا لفظ "تدلیة" سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے" نزدیک کرنا" اور یہ ڈول اور رسی کی طرف اشارہ ہے کہ جب پانی کے حصول کے لئے اسے کنویں میں چھوڑا جاتا ہے۔ اور پھر کھینچا جاتا ہے۔ گویا شیطان نے دھوکے کی رسی سے آدم کو فریب کے کنویں کے قریب کر دیا۔

"یخیصفان" لفظ "خصف" سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے سینا، ٹانکنا، جوڑ لگانا۔

آدم و حوا کے بارے میں اللہ نے "( ناداهما ) " فرمایا ہے جس کا معنی ہے انیس دورے پکارا، گویا ممنوعہ درخت سے کھانے کے بعد وہ قریب خداوندی سے دور ہو گئی۔

پیام:

۱ ۔ زن و مرد دونوں میں ہمیشہ شیطانی وسوسوں کے تیروں کی زد میں ہیں۔( دلاهما )

۲ ۔ شیطان کا حربہ دھوکا اور فریب ہی ہے( بغرور )

۳ ۔ شیطانی چالیں ایسی ہوتی ہیں جیسے گناہ کے کنویں میں سقوط کے لئے رسی ہوتی ہے( دلاهما )

۴ ۔ گناہ کے ارتکاب میں کم یا زیادہ کو نہیں دیکھا جاتابلکہ جسارت اور گستاخی کو دیکھا جاتا ہے۔( ذاقا )

۵ ۔ عریانی برائی اور چھپا رہنا شرافت ہے اور دونوں انسانی فطرت میں شامل ہیں۔( طفقا یخصفان )

۶ ۔ عریانی ایک الٰہی سزا ہے (نہ کہ فیشن وار تمدن و ترقی کی علامت)

۷ ۔ ہر شخص کے ساتھ اس کے مرتبہ اور حسب حال بات کرنی چاہئے۔ (آدم جو کہ خد کے مخاطب تھے۔ ممنوعہ درخت سے کھا لینے کے بعد اپنا مقام گنوا بیٹھے۔ اور "خطاب" کی بجائے داندا "اے نورزے گے۔ اور "ھذہ الشجرہ" کے بجائے "تکلما الشجرة" کہا گیا۔

۸ ۔ اور ابلیس نے انسان پر سب سے پہلا جو وار کیا وہ یہی کہ اس کا پردہ اتروا دیا۔

۹ ۔ باوجودیکہ شیطانکی دشمنی حکم کھلا، واضح‘ آشکار اور الم نشرح ہے، لیکن انسان کے اس خطرات غافل ہے۔( الم اقل- عدومبین )

۱۰ ۔ ممنوع لقمہ اور بے مقصد اخراجات عریانی کا موجب ہیں اس لئے کہ عریانی اور اقتصاد کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔( ذاقا الشجرة بدتلهما، سورهتهما )

۱۱ ۔ عریانی بری شے ہے خواہ اپنے محرم اور زن و شوہر کے سامنے بھی ہو،( سوئاتهما )

۱۲ ۔ چھپانا لازمی ہے جیسے بھی ہو اور جہاں بھی ہو۔( ورق الجنة )

آیات ۲۳

( قَالاَرَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِین )

ترجمہ: (آدم و حوا نے) کہا خداوندا! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اگر تو ہمیں بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو یقینا خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔

ایک نکتہ:

شیطان اور آدم میں یہی فرق ہے کہ شیطان نے اپنے سجدہ نہ کرنیکی نافرمانی کے بارے میں خدا کے عدل اور کرم کی حکمت پر اعتراض کیا، تکبر کا مظاہرہ کیا، غرور کااظہار کیا، اپنی غلطی پر ڈٹ گیا، قوم پرستی کو فروغ دیا، پشیمانی کا اظہار نہ کیا۔ لیکن آدم نے اپنی اور اپنی بیوی کی خلاف ورزی کا اعتراف کیا، اپنی بخشش کا خدانے تقاضا کیا۔ اور یہ نہیں کہا کہ "تو ہمیں بخش دے "بلکہ کہا: اگر نہیں بخشے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہونگے۔

پیام:

۱ ۔ ہر قسم کی خلاف ورزی اپنے اور ہر ظلم ہوتا ہے ۔ (کیونکہ خدا کے فرمان کی مخالفت، حقیقی سعادت اور ارتقاء بشریت کی مخالفت ہوتی ہے)

۲ ۔ بخش دیا جاتا، قہر خداوندی سے نجات مل جاتا ہے۔( وان لمتغفرلنا و ترحمنا ) ۔

۳ ۔ آدم و حوا جس طرح خلاف ورزی میں شریک تھے اسی طرح گزشتہ کی تلافی اور عزر خواہی میں بھی شریک تھے۔( ذاقا- قالاربنا )

۴ ۔ تاریخ شریت میں سب سے پہلی خواہش غفور ورحمت الٰہی کا تقاضا ہے۔( وان نم تغفرلنا )

۵ ۔ گناہگاروں کا سب سے اہم مسئلہ خدا کی مغفرت ہے اس کے بعد باقی درخواستیں۔( تغفرلنا و ترحمنا )

۶ ۔ خداوند عالم کے ایک لمحہ کی رحمت اور عنایت ابدی اور دائمی خساروں کے آگے بند باندھ دیتی ہے۔( خاسرین )

آیت ۲۴ ۔ ۲۵

( قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِینٍ - قَالَ فِیهَا تَحْیَوْنَ وَفِیهَا تَمُوتُونَ ) ( وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ )

ترجمہ: اللہ نے فرمایا: نیچے اتراو! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے اور ایک (مقررہ) مدت تک تمہارے لئے زمین میں ٹھکانہ اور فائدہ اٹھانے کے ذریعہ ہو گا۔

فرمایا: اسی زمین ہی میں سے زندگی گزرو گے اسیمیں مرو گے اور (قیامت کے دن حساب و کتاب کے لئے) اسی سے نکالے جاؤ گے۔

دو نکات:

بالکل یہی آیت سورہ بقرہ میں گزر چکی ہے، ملاحظہ ہو ۳۷ ویں آیت۔

اگرچہ خداوند نے آدم و حوا کی توبہ قبول کر لی "( فتاب علیه ) " بقرہ ۳۷ لیکن خلاف ورزی کا ایک طبعی اثر ہوتا ہی ہے اور اس نافرمانی کا طبعی اثر بہشت سے خروج اور زمین پرنزول ہو گا۔

پیام:

۱ ۔ خلاف ورزی کے طبعی اثر سے فرار ناممکن ہے۔( اهبطوا )

۲ ۔ بسا اوقات والدین کی خلاف ورزی کا اثر اولاد بلکہ نسلوں کے ہوط و سقوط میں بھی ہوتا ہے۔

۳ ۔ دنیا، تنازع، چپقلش، گیردار اور تضاد کا گھر ہے اور اور انسان اپنے مفادات کے حصول اور غرائز کی تسکین کے لئے آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں۔( بدضیکم بعض عدو )

۴ ۔ دنیاوی زندگی اور اس کے فوائد و منافع ابلا نہیں ہیں۔( الی حین )