تفسیرنور

تفسیرنور8%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69668 / ڈاؤنلوڈ: 8394
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

آیت ۲۶

( یَابَنِی آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِیشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَی ذَلِکَ خَیْرٌ ذَلِکَ مِنْ آیَاتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُونَ )

ترجمہ: اے اولاد آدم! یقینا ہم نے تمہارے لئے بکا سر اتارا ہے تاکہ تمہاری عریانی کی برائی کو بھی چھپائے اور تمہاری زینت بھی ہو۔ لیکن تقویٰ کا لباس بہتر ہے۔ یہ خدا کی نگاہوں میں سے ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

دو نکات:

حضرت آدم کی داستان بیان کرنے کے بعد چار مقامات (اس آیت میں اور آیت ۲۷ ، ۳۱ ، ۳۴) پر بنی آدم کو خطاب کرتے ہوئے کلی سفارشوں سے نوازا ہے جن کا تعلق عالم انسانیت سے ہے، مثلاً تدبیر تقوی کی حفاظت، شیطان کے فریب میں نہ آنا۔ اسراف نہ کرنا، کھانے، پینے، اور پہننے کی چیزوں میں سے فضول خرچہ سے بچنا اور انبیاء کی دعوت کو تسلیم کرنا وغیرہ۔

"درویش" کا ابتدائی معنی تو پرندوں کے ہر میں جو ان کے لباس کا کام بھی دیتے ہیں۔اور ان کی زینت کا ذریعہ بھی۔ اور جو لباس انسان کی زینت و آرائش کا سبب بنے اسے "ریش" کہا جاتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ نعمتوں کی طرف توجہ خدا کے ساتھ محبت اور اس کی بندگی کا موجب ہوتی ہے۔ (تمام آیت کو غور سے پڑھیں)

۲ ۔ مادی نعمتوں سے تمام لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں( بنی آدم ) لیکن معنوی نعمتوں سے صرف شائستہ پرہیز کار ہی بہرہ مند ہوتے ہیں۔( لباسا- لباس التقوی )

۳ ۔ تمام نعمتیں خدا کے غیبی خزانوں سے انسان کے لئے آ موجود ہوتی ہیں ۔( انزلنا علیکم ) اور ان کا خزانہ خدا کے پاس ہے۔ ۸ اور وہ اندازے اور اپنی حکمت کیمطابق نازل کرتا ہے۔ پس تمام نعمتیں مقام ربوبیت سے ہی نازل ہوتی ہیں۔( انزلنا )

۴ ۔ لباس کا اسی وقت نعمت ہے جب بدن کو بھی چھپائے۔( یواری )

۵ ۔ لباس پہنانا خدا کا کام ہے( انزلنا علیکم لباسا ) اور برہنہ کرنا شیطان کا کام ہوتا ہے۔( فوسوس- لیبدی لهما ماوری عنهما من سوا تهما )

۶ ۔ لباس پہننا نعمت ہو اور اس کا اتار لینا سزا ہے( فلماذا اقالشجرة بدت لهما سوء اتهما ) ۔

۷ ۔ جب تک اسراف کے زمرے میں نہ آ جائے اس وقت تک خوبصورت لباس سے زینت وار آرائش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔( ریشا )

۸ ۔ تقویٰ کا بھی زینت و زیبائش کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ (ریشاولباس و تقوی) گویا لباس تقویٰ کے ساتھ اچھا لگتا ہو اگر تقویٰ سے ہٹ کر لباس اختیار کیا جائے تو وہ اسراف تکبر، فساد، خود نمائی، فیشن، رشوت دانی، استعمار، کفار کی جیبیں بھرنے اور بے جا مصرف کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

۹ ۔ مادیت کے ساتھ معنویت کا ہونا بھی ضروری ہے۔( لباسا- لباس التقویٰ ) ۹

۱۰ ۔ جس طرح مادی لباس عیبوں کا چھپاتا ہے۔ سردی گرمی سے بچاتاہے، زیبائی کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح تقویٰ بھی عیبورہ کے چھپانے، گناہوں سے بچانے اور معنوی حسن عطاکرنے کا سبب ہوتا ہے۔

۱۱ ۔ زمین سے گھاس اگتی ہے زمین سے ہی اگنے والی گھاس کو جانور چرتاہے اور اس سے پشم حاصل کی جاتی ہے اور کیڑے کی لعاب سے ریشم بنتی ہے یہ سب خدا کی آیات ہیں۔( ذلک من آیاتِ اللّٰه )

آیت ۲۷

( یَابَنِی آدَمَ لاَیَفْتِنَنَّکُمْ الشَّیْطَانُ کَمَا أَخْرَجَ أَبَوَیْکُمْ مِنْ الْجَنَّةِ یَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْآتِهِمَا إِنَّهُ یَرَاکُمْ هُوَ وَقَبِیلُهُ مِنْ حَیْثُ لاَتَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّیَاطِینَ أَوْلِیَاءَ لِلَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

ترجمہ: اے فرزندانِ آدم: کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں دھوکہ دے جس طرح کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکال دیا تھا۔ (جبکہ درخت کے وسوسہ میں) ان سے لباس اتروا دیا تاکہ ان کی شرمگاہ انہیں دکھائے ۔ یقینا شیطان اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھ رہے ہیں جہاں سے تم انہیں دیکھ رہے۔ یقین جانو کہ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لائے۔

دونکات:

اس سے پہلی آیت میں لباس کو نعمت کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور یہاں خبردار کرتا ہے کہ ہوشیار رہنا کہ شیطان کہیں تم سے یہ لباس اور نعمت نہ طلب کر لے۔

شیطان اگرچہ اہل ایما ن کے دلوں میں سے وسوسے ڈالتا ہے اور انہیں بھی گمراہ کرنے کوشش کرتا ہے، لیکن ان پر اس کا پورا تسلط اور ولایت نہیں ھے۔ اس لئے کہ مومن خدا نے توبہ کر کے اسی کے حضور پناہ لیتا ہے اور کافر کا چونکہ کوئی ایسا ٹھکانہ اور اس کے لئے جائے پناہ نہیں ةے لہٰذا اس پر پوری طرح مسلط ہے۔

پیام:

۱ ۔ ہر قسم کا پروپیگنڈا جو عریانی کا سبب بنے شیطانی کام ہے۔( الفیتنکم )

۲ ۔ ان کے جسم سے ضروری چھپائے جانے ولاے مقامات کا کھلا رکھنا بے ایمانی اور شیطانی تسلط کی علامت ہے( ینزع عنهما لباسهما- لایوٴمنون )

۳ ۔ عریانی، قرب خداوندی سے دور کر دینے کا موجب ہے( اخرج ابویکم- ینزع عنهما )

۴ ۔ حضرت آدم جو کہ مسجود الملائکہ تھے، شیطان کے پھندے میںآ گئے نہیں تو زیادہ ہوشیار رہنا چاہئے۔( اخرج ابویکم-- )

۵ ۔ شیطان اکیلا نہیں ہے، اس کے ٹولے ہیں، آلہ کار ہیں، ایجنٹ ہیں جو ہر وقت آپ لوگوں کی تاک میں رہتے ہیں۔( قبیله -یراکم ) ۔ ۱۰

۶ ۔ چونکہ تم شیطان کو نہی دیکھ سکتے اس لئیے تیار نہیں رہ سکتے ہو اور غفلت کا شکار ہو جاتے ہو۔( اثرونهم )

۷ ۔ شیطان اس لئے فریب میں جکڑلیتا ہے کہ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ خبردار رہو( لایفتنکم لاترنهم )

۸ ۔ شیطان نظر نہیں آتا لیکن اس کا دائرہ کا رہر ایک کو نظر آتا ہے۔ (مثلا غصے کا موقعہ، فیصلہ کرنے کا وقت، نامحرم عورت کے ساتھ خلوت کا موقع) ۱۱

۹ ۔ شیطان کا تسلط، انسان کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔( اولیاء للذین لایوٴمنون ) ۱۲

آیت ۲۸

( وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَیْهَا آبَائَنَا وَاللهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللهَ لاَیَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَی اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ )

ترجمہ: اور جب وہ کوئی برا کام کرتے ہیں تو (اس کی توجیہ میں) کہتے ہیں: ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اسی حالت میں پایا ہے۔ اور خدا نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ تو (اے پیغمبر ! آپ) کہہ دیجئے خدا قطعا برائی کا حکم نہیں دیتا۔ تو جس چیز کو نہی جانتے ہو اس کی نسبت خدا کی طرف دیتے ہو؟

دونکات:

یہ آیت عریانی سے متعلق ہے خصوصاً طواف کی حالت جس کا زمانہ حاہلیت میں رواج تھا۔

بدکار لوگ پیروی تو اپنے باپ دادوں کی کرتے ہیں لیکن اپنے شرک کی نسبت خدا کی طرف دیتے ہیں۱۳

اور سمجھتے ہیں چونکہ خدا نے انہیں مہلت دی ہوئی ہے لہٰذا ان کی برائیوں اور بدکاریوں پر بھی راضی ہے، یا نہیں اس کا حکم دیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ عذر گناہ بدستر ازگناہ خواہ مذہبی عذر تراشا جائے (کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے) یا معاشرتی اور سماجی (کہ ہمارے دادے پڑدادے ایسے تھے۔)

۲ ۔ بعض اعمال اس قدر فاسد وار برے ہوتے ہیں اور ان کی برائی اس قدر فطری اور روشن ہے کہ انہیں "فحشاء" کہا جاتا ہے۔

۳ ۔ گمراہی تو آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہو جاتی ہے۔( آبائنا )

۴ ۔ گمراہ لوگ آئندہ نسلوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پرلیتے ہیں۔

۵ ۔ گزشتہ لوگوں کا طریقہ کار ہمیشہ قابل فخر نہیں ہوتا۔ اور سابقہ لوگوں کی تقلید ناجائز ہے۔

آیت ۲۹

( قُلْ أَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ وَأَقِیمُوا وُجُوهَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ )

ترجمہ: کہہ دیجئے کہ میرے رب نے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور (نماز کے وقت) ہرمسجد میں اپنے چہرے اسی کی طرف سیدھے کر لو اور اپنے دین کو خالص بنتے ہوئے اسے پکارو اجر حرام اس نے تمہیں آغاز میں پیدا کیا ہے اسی طرح تم پلٹ جاؤ گے۔ ۱۴

دو نکات:

"( قسط ) " "امتیازی سلوک" کے مقابلے میں ہے یعنی ہر شخص کو جو اس کا حق بنتا ہے دیا جائے نہ کہ کسی دوسرے کو۔

اس آیت میں متعدد موضوعات بیان ہوئے ہیں۔ مثلا "ترصبیت" (ربی) "عدل و انصاف"( قسط ) "عبادت"( اقیموا ) "جماعت"( وجوهکم ) "وحدت"( مسجد ) "دعوت"( وادعوه ) "نقطہ نظر"( مخلصین له ) ’معاد"( تعودون )

پیام:

۱ ۔ انبیاء، قسط و عدل کے لئے مامور ہیں( امرربی )

۲ ۔ مسجد ، صدق و صفا اور اخلاص کا مرکز ہے ترک و ریاکار نہیں۔( اقیموا- مسجد، مخلصین )

۳ ۔ اللہ تعالی نیک کاموں کا حکمدیتا ہے،( امر ربی بالقسط ) اور برائیوں سے روکتا ہے، "لایامر بالفحشاء کی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حسن اور قبائح عقلی ہیں یعنی عقلی طور پر چیزیں اچھی یا بری ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ خدا جو کام چاہے انجام دے حتی کہ اگر چاہے تو انبیاء کو دوزخ میں بھیج دے (یایزید اور یزید جیسوں کو بہشت میں۔ از مترجم)

۴ ۔ نماز کے ساتھ ہی ساتھ امتیازی سلوک سے روکنے کا تذکرہ ہوا ہے، گویا نماز وہی قبل قدر ہوتی ہے جو عدل و قسط کی فضا میں ہو۔( قسط اقیموا )

۵ ۔ صحیح تربیت عادلانہ نظام ہی میں ممکن ہے۔( ربي بالقسط )

۶ ۔ عدل و انصاف اور قسط، خدائی راستہ ہے۔ اپنے باپ دادوں کے مشرکانہ افکار کے بجائے دل کے ساتھ اس کی بارہ میں آ جاؤ۔

۷ ۔ قیامت کے دن خالص عبادت جو شرک دور کرکے انجام دی گئی ہو کام آئے گی۔( مخلصین - تعودون )

۸ ۔ معاد پر ایمان قسط اور عمل میں اخلاص کا باعث ہوتا ہے( کمابدأ کم تعودون )

۹ ۔ معاد جسمانی ہے جس طرح تماہرے اندر غذا کے راستے خاکہ کے والے جمع ہو چکے ہیں۔ اسی طرح تمہاری گلی سڑی ہڈیاں بھی جمع ہو جائیں گی۔( کما بدا کم تعودون ) جب اللہ نے تمہیں ایک خلئے اور ایک سپرم سے پیدا کیا ہے قیامت کے دن وہی تمہارے بقایا جات کو بھی زندہ کرے گا، وہی قدرت باقی ہے۔

آیت ۳۰

( فَرِیقًا هَدَی وَفَرِیقًا حَقَّ عَلَیْهِمْ الضَّلَالَةُ إِنَّهُمْ اتَّخَذُوا الشَّیَاطِینَ أَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِ اللهِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ ) ۔

ترجمہ: (اللہ تعالی نے) ایک فریق کو ہدایت فرمائی اور ایک فریق کیلئے گمراہی حق بن گئی۔ کیونکہ انہوں نے خدا کے بجائے شیطانوں کو اپنا سر پرست بنا لیا۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت یافتہ ہیں۔

پیام:

۱ ۔ انسان کو آزاد ہے چاہے تو خدا کی ولایت کو تسلیم کر کے اس کا تابع فرمان بن جائے اور رہ راست پر گامزن رہے اگر چاہے تو شیطان کی سرپرستی کو قبول کرے۔

۲ ۔ ہدایت کرنا خدا کا کام ہے لیکن گمراہی ہمارے اپنے غلط انتخاب سے ہوتی ہے۔( اتخذووالشیطین )

۳ ۔ گمراہ لوگوں کا نظریہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔( یحسبون انهم )

۴ ۔ شیطانی وسوسے تو قابل علاج و تلافی ہوتے ہیں ۔۱۵

لیکن خدا سے کٹ کر شیطان کی ولایت میں چلے جانا ناقابل تلافی ہے۔( حق علیهم الضلالة )

۵ ۔ غلط سوچ اور بے جا نظریہ قائم کرنا یہ گمراہی سے بدتر ہے۔ (گمراہ ہونے کے باوجودخود کو راہ ہدایت پر سمجھنا( ویسبونانهم مهتدون ) ۱۶

آیت ۳۱

( یَابَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلاَتُسْرِفُوا إِنَّهُ لاَیُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ ) ۔

ترجمہ: اے اولاد آدم! یہ مسجد کا وقت (نماز کے لئے اپنے لباس اور زینت اختیار کیا کرو۔ اور کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو۔ بے شک خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

دو نکات:

یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جن آیات میں (پانی آدم) کے ساتھ خطاب کیا جا رہا ہے ان کے مطالب کا تعلق تمام ادیان کے اور سب کے مشترکات سے ہو۔

قرآن نے مال اور اولاد کو بھی "زینت" کہا ہے اور اس آیت کی مراد شاید یہ بھی ہو کہ مسجد جاتے وقت انہیں بھی ساتھ لے لیا کرو۔ تاکہ مال کے ذریعہ مسلمانوں کے اقتصادی مشکلات میں ہاتھ بٹا سکو اور اولاد کو مسجد میں لے جا کر آنے والی نسلوں کی تربیتی مشکلات کو حل کر سکو۔ اور یہ اشارہ بھی لیا جا سکتا ہے "اول نماز بعد طعام"

پیام:

۱ ۔ مسجد چونکہ مسلمانوں کا دینی مرکز ہے لہٰذا اسے آراستہ ، مرتب، منظم اور پرکشش ہونا چاہئے عبادت اور خوبصورتی وزیبائی آپس مخالف نہیں ہیں۔( خذواز ینتکم )

۲ ۔ اسلام نے باطن کو بھی پیش نظر رکھا ہوا ہے "فی صلٰوتھم خاشعون" اور ظاہر بھی اس کے نظر ہے۔( زینتکم عندکل مسجد )

۳ ۔ بہترین لباس، بہترین حکام کے لئے ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسن مجتبی ایسا ہی کیا کرتے تھے اور اسی آیت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

۴ ۔ زینت کو اپنے ہمراہ مسجد میں لے جانا خدا، عبادت، وقت اور واقف کے احترام کے مترادف ہے۔ اور دوسرے لوگوں کے مسجد و عبادت گاہ کی طرف آنے کے لئے باعث کشش اور عملی طور پر رغبت دلانے کا موجب ہے۔

۵ ۔ زینت کی اگرچہ فراد کی نماز میں بھی بڑی اہمیت ہے لیکن اجتماعی عبادت میں تو اس کا اپناخاص مقام ہے۔( عندکل مسجد )

۶ ۔ اسلام آئین فطرت ہے اور انسان زینت سے لذت اٹھاتا ہے۔

۷ ۔ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں: "مسجد کی زینت امام عادل ہے" (ازتفسیر نوراثقلین)

۸ ۔ زینت کو مسجد میں لے جاؤ لیکن جوتے باہر اتارو ایک اور آیت میں ہے "( فاخلع نعلیک ) " (طہ ۱۱)

۹ ۔ اخراجات محدود انداز میں ہونے چاہیئں، کفایت شعاری خدا کو پسند ہے، مال جو کہ انسان کے ہاتھوں میں اللہ کی ایک امانت ہے اس سے ضرور فائدہ اٹھایا جائے لیکن اسراف کے پرہیز کیا جائے۔ (تفسیر صافی میں مذکور امام صادق کی حدیث کا ایک مضمون)۔

۱۰ ۔ زینت اور غذا سے بہرہ اندوزی قسط و عدل کے تقاضوں کے مطابق اور اسراف سے ہٹ کر ہولی( پہلی آیت میں رہ ہو چکا ہے)

۱۱ ۔ غذا میں اسراف اور پرخوری بہت بیماریوں کا سبب ہے جن میں جسمانی بیماریوں کے علاوہ سنگدلی اور عرفان کے مزے سے لطف اندوز ہونے کی محرومی بھی ہے۔ ۱۷

۱۲ ۔ زینت اور طعام سے استفادہ ایک طبعی اور فطری قانون ہے لیکن خاص معاشرتی حالات اور معاشرت کے ضرورت مند اور محروم طبقات کی موجودگی میں ان کی ضروریات کا بھی خاص خیال رکھا جائے اور ان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کی جائے۔ حضرت امام جعفر صادق کا لباس ایرا لمومنین کے لاس سے مختلف تھا۔ اس لئے ہر ایک معصوم کے دور کے معاشرتی حالات مختلف تھے۔ ۱۸

آیت ۳۲

( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةَ اللهِ الَّتِی أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنْ الرِّزْقِ قُلْ هِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ: کہہ دو کہ کس نے اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہے اور دلپسند اور پاکیز ہ رزق کو اپنے اوپر بغیر کی دلیل کے حرام قرار دیا ہے۔ کہہ دو کہ یہ نعمتیں دنیوی زندگی میں مونین کے لئے ہیں (اگرچہ کفار بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔)

اور قیامت کے دن (آخرت میں) مومنین کیلئے مخصوص ہیں۔ اسی طرح ہم رہنما آیات کو ان لوگوں کے لئے تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔

چند نکات:

یہ آیت انسان کے زینت کو حلال قرار دے رہی ہے۔ قرآن مجید نورِ آسمان کی ستاروں کے ساتھ زینت کو بھی انسانوں کے لئے بیان کر رہا ہے۔ فرماتا ہے "( زیناها للناظرین ) " (حجر ۱۶) ہاں البتہ انسان کی زینت کے محبت اسے ہلاکت اور تباہیوں کے گڑھوں میں نہ پھینک دے اگر زینت لے استفادہ کرنا چاہتا ہے توآئے، صحیح اور مناسب طریقوں سے فائدہ اٹھائے۔ قرآن مجید عورت کی زینت کو سوائے اپنے شوہر کے حرام سمجھتا ہے ارشاد ہو رہا ہے: "( لایبدین زینتهن الا لبعولتهن ) " (لفد ۳۱)

عتان بن مظعون حضرت رسول کی خدمت میں حاضرہوئے اپنے عزائم پیغمبر کی خدمت میں بیان کئے کہ مردانہ لزتوں کو خیرباد کہہ کہ راہب بننا چاہتا ہے اور بیوی عطریات اور معاشرہ وسماج کو چھوڑ چھاڑ کر جنگل کا رخ کرنا چاہتا ہے!

آنحضرت نے اسے اس کام سے سختی سے روکا اور ارشاد فرمایا: "اپنی شہوت پر کنٹرول کرنے کے لئے روزے رکھو، رہبانیت اختیار کرنے کی بجائے مسجد چلے جاؤ اور جنگلوں بیابانوں کی خاک چھاننے کی بجائے محاذ جہاد میں شرکت کرو اپنی عورت اور خوشبو کے فائدہ اٹھاؤ، اپنے مال میں سے غریبوں کو دو، یہ ہے میرا دین اور میری شریعت اور جواس سے منہ موڑے گا اور تبہ نہیں کرے گا فرشتے اے حوض کو تدبیر آنے سے روک دیں گے۔ (ازتفسیر فخررازی)

عاصم بن زیاد نے بھی یہی تہہ کر لیا تھا، اس طرح سے اس نے اپنی زندگی میں تبدیل کر لینے کی ٹھان لی اورجلال اور لذت سے کنارہ کشی پر تل گیا۔ حضرت علی نے اس کے اس طرز فکر کی سخت مذمت کی، اس نے کہا تو پھر آپ یوں اس قدر سادہ ترین زندگی گزار رہے ہیں؟

حضرت نے فرمایا: "میں امام اور رہبر ہوں اور اللہ تعالی نے ائمہ اور رہبروں کے لئے لازم قرار دے دیا ہے کہ اپنی سطح زندگی ملک کے غریب بے غریب افراد کی سطح زندگی پر رکھیں اور دوسروں کے رنج و غم میں شریک رہیں۔" (نہج البلاء حکمت ۲۸۴)

پیام:

۱ ۔ اسلام ریاکارانہ زہد، رہبانیت اور تقدس نمائی کے مخالف ہے۔( من حرم )

۲ ۔ خدا تک پہنچنے کا رستہ یہ نہیں ہے کہ انسان حلال اور پاکیزہ چیزیں بھی ترک کر دے، بلکہ ان کے ذریعہ سے گناہوں کا ارتکاب نہ کرے۔

۳ ۔ اسلام ، فطری تقاضوں کے ہم آہنگ اور معتدل آئین کا ہم خوا ہے اسی کے پاس فطری تقاضوں کا مثبت جواب اور جواز موجود ہے۔ مفید کو حلال اومضر کو ناجائز اور حرام قرار دیتا ہے۔( من حرم- اخرج لعباده )

۴ ۔ ہر چیز کے لئے اصل یہ ہے کہ مباح ہے مگر جب اس کی حرمت پر کوئی خاص دلیل موجود ہو۔( من حرم ) یقینا مسلمان کی ہر حالت میں جیت ہی جیت ہے کیونکہ وہ دنیا میں لذتوں اور پاکیزہ چیزوں سے اسی طرح بہرہ ور ہیں جس طرح کوئی غیر مسلم، جبکہ آخرت میں صرف مسلمان ہی بہرہ مند ہوں گے کافر محروم رہیں گے۔ اورہار جائیں گے۔

۵ ۔ اپنے آپ کو لذتوں سے محروم نہ کرو، بلکہ انہیں خدائی طریقوں اور شرعی حدود میں لا کر ان سے فائدہ اٹھاؤ۔( من حرم )

قرآن مجید میں ہے "( اناجعلنا ماعلی الارض زینة لها لنبلوهم ایهم احسن عملا ) " جو کچھ کہ روئے زمین پر ہے ہم نے اس کی زینت قرار دیا ہے ۔ تکاہ ہم اس بات کی آزمائش کریں کہ ان میں سے کس کے عمل سب سے بہترین۔ (کہف ۷)

آیت ۳۳

( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّی الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِکُوا بِاللهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَی اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ )

ترجمہ: (اے پیغمبر !) کہہ دو کہ صرف میرے رب ہی نے ظاہری اور باطنی برائیوں کو گناہ کو لوگوں کے حق پر ناجائز تجاوز کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور خدا کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک قرار دینے کو جس کی حقانیت پر کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ اور جو کچھ نہیں جانتے اے خدا کیطرف نسبت دے یہ سب کچھ حرام قرار دیا ہے ۔

چند نکات:

"فواحش" جمع ہے "فاحشہ" کی اور وہ ایسا گناہ ہے کہ جس کی برائی ہر ایک پر آشکار ہوتی ہے جیسے آتا ہے، چونکہ زمانہ جاہلیت میں چھپ کر زنا کرنے کو جائز سمجھتے تھے لہٰذا اس آیت نے اس کی حرمت کی دونوں صورتوں میں تاکید کر دی ہے۔( مابطن )

"( اثُم ) " وہ گناہ ہوتا ہے جس کے ارتکاب سے انسان پستی میں جا گرتاہے۔

"یعنی دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا نام ہے۔ اور اس آیت میں اعتقاد سے اور زبان سے تعلق رکھنے والے گناہوں کی ایک مختصر فہرست موجود ہے۔

ُپیام:

۱ ۔ خداوند عالم کی طرف سے حرام کردہ چیزیں انسان کو تربیت اور اسے ترقی و کما ل کی منزلوں تک پہنچانے کے لئے ہوتی ہیں۔

۲ ۔ حلال زیادہ ہیں اور حرام کم ہیں۔

۳ ۔ گناہ کا قبح (برائی) ذات اور عقلی بھی ہے صرف اجتماعی ہی نہیں( ومابطن )

۴ ۔ مشرکین کے افکار کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے

۵ ۔ تبلیغی روسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے مثبت نقاط بیان کئے جائیں پھر منکر اور ان کے منفی نقطے پیش کئے جائیں۔ اس سے پہلی آیت میں حلال چیزوں کا تذکرہ تھا یہاں پر حرام اشیاء کا)

آیت ۳۴

( وَلِکُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لاَیَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُون )

ترجمہ: اور راحت کے لئے ایک مقررہ مدت ہے ، پس جب بھی ان کا مقررہ وقت آن پہنچتا ہے تو پھرنہ تو ایک لحظہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

ایک نکتہ:

اجل" صرف افرادی کے لئے نہیں ہے، حکومتوں، قوموں اور امتوں کے لئے بھی ہے، جو خود بھی ختم ہو گئیں اور ان کے تمدن، ثقافت، عادات و اطوار اور آثار بھی ملیا میٹ ہو گئے۔ اجل کا تعلق صرف صرف زندگی اور موت ہی سے نہیں ہوتا،عزت ، اقتدار، حکومت اور دولت سے بھی ہوتا ہے۔ جب ان میں سے کسی کی اجل آجاتی ہے تو الٹ ہو گئیں اب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام دیا کے مصداق سب کچھ رخصت ہو جاتاہے۔

پیام:

۔ اس کائنات میں کوئی بھی چیز، کوئی بھی تبدیلی،کوئی بھی حادثہ (اتفاقی) اور تدبیر الٰہی سے باہر نہیں ہے۔ اہم، اقوام اور ملل پر حکم فرما قوانین بھی ویسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ افراد پر ہوتے ہیں۔( لکل امةاجل )

۲ ۔ جو سہولیات تمہیں حاصل ہیں ختم ہو سکتی ہیں جس قدر ہو سکتے ان سے صحیح صحیح فائدہ اٹھاؤ۔

۳ ۔ دنیا اور امر کے دئیے ہوئے مقام و مرتبے ہر مغرور نہ ہو جانا۔( لکل امة اجل )

۴ ۔ ظالم لوگ خدا کی مہلت کو امر کی مہربانی نہ سمجھیں، ان کا وقت بھی آیا ہی چاہتا ہے ۱۹

۵ ۔ ازل سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے کہ کچھ افراد برسراقتدار آتے ہیں۔ حکومت کرتے ہیں۔ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں وقت آنے پر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔( جاه اجلهم )

۶ ۔ راہ خدا میں برسرپیکار لوگوں کو طاغوت کے تسلط سے مایوس نہ ہوں، کوشش جاری رکھیں، طاغوت نے آخر ایک دن مٹنا ہی ہے۔( الکل امة اجل )

آیت ۳۵ ۔ ۳۶

( یَابَنِی آدَمَ إِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِی فَمَنْ اتَّقَی وَأَصْلَحَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ - َ وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوا عَنْهَا أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ )

ترجمہ: اے اولاد آدم ! جب بھی تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر آئیں جو میری آیات تم پر پڑھتے ہوں ( تو ان کی پیروی کرنا) پس جو تقویٰ اختیار کرے اور نیک کام انجام دے تو ان پر نہ تو کوئی خود اپنے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر برتتے ہوئے ان سے روگردانی کی تو وہ جہنم کے ساتھی ہیں۔ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔

پیام:

خدائی طریقہ کار کے مطابق انبیاء مسلسل آتے رہے ہیں۔ اور یہ پہلے ایک طے شدہ منصوبہ تھا۔( یاتینکم )

۲ انبیاء علیہم السلام کے کلام کی لوگوں میں تاثیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا تعلق وہاں کے لوگوں ہی سے ہوتا ہے۔( منکم )

۳ متقی کو دوسروں کی اصلاح کرنی چاہیے۔ اور مثبت سرگرمیاں انجام دینی چاہئیں گوشہ نشینی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔( اتقی واصلح )

انبیاء پر حقیقی طور پر ایمان لانے والے وہ لوگ ہی ہیں جو تقویٰ اور صلاح کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ "آمن بھم" کی بجائے "( اتقی واصلح ) " فرمایا ہے۔

سکون و اطمینان ایمان اور تقویٰ کے زیر سایہ ہے۔( الاخوف )

انبیاء کی پیروی سے منہ موڑ کر تکبر اختیار کرنے کی سزا ایذی عذاب اور جہنم ہے۔

۷ انبیاء کی تکذیب کے ساتھ ہی ساتھ تکبر ہوتا ہے۔( کذبوا- استکبروا )

آیت ۳۷

( فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِه ط اُوْلٰٓئِکَ یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِنَ الْکِتٰبِ ط حَتّٰٓی اِذَ اجَآ ءَ تْهُمْ رُسُلُنَا یَتَوَ فَّوْنَهُمْ قَالُوْ ا اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ط قَالُوْ ضَلُّوْا عَنَّا وَ شَهِدُ ْو ا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ کَا ُنوْ کٰفِرِیْنَ۰ )

ترجمہ: پس اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو خدا پر جھوٹ باندھتا ہے یا اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے؟ وہ (اسی دنیا ہی میں) خدا کی طرف سے اپنا مقرر کردہ حصہ پا لیں گے۔ یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے ان کی روح قبض کرنے کے لئے آئیں تو ان سے پوچھیں گے کہ کہاں ہیں وہ جنہیں تم معبودِ حقیقی کی بجائے پکارا کرتے تھے؟ تو وہ کہیں گے وہ سب ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوکر گم ہوگئے ہیں۔ اور اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ کافر تھے۔

ایک نکتہ:

قرآنی آیات میں عام طور پر "خدا پر بہتان باندھنے " سے مرادسرکشی ہی ہوتا ہے۔ (تفسیر المیزان)

پیام:

خدا کو جھٹلانا اور خدا پر بہتان باندھنا بہت بڑا ظلم ہے۔( اظلم )

۲ خداوندتعالیٰ دنیا میں مادی ذرائع، امداد، مہلت جس طرح مومنوں کو دیتا ہے اسی طرح کافروں کو بھی دیتا ہے۔( ینا لهم نصیبهم ) ۲۰

انسان جب موت کی نشانیاں دیکھے گا تو بیدار ہوگا لیکن اب کیا فائدہ؟( یتوفونهم )

انسان سے جواب طلبی کے مراحل کا آغاز ہنگام مرکزی سے شروع ہوجائے گا۔( این ماکنتم )

کچھ فرشتے روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔( رسلنا )

غیر اللہ تو سراب ہیں اور بس( ضلوا عنا )

آیت ۳۸

( قَالَ ادْخُلُوْ ا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّا رِ کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ الَّعَنَتْ اُخْتَهَاط حَتّٰٓی اِذَا ادَّرَاکُوْ ا فِیْهَا جَمِیْعًا قَالَتْ اُخْرٰ هُمْ لِاُوْلٰهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلٰآءِ اَضَّلُّوْ نَا فَاٰتِهِمْ عَذَاباً ضِعْفًا مِّنَ النَّارِط قَالَ لِکُلِّ ضِعْفٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ) ۰

ترجمہ: (مرنے کے وقت ان کے اعتراف کے بعد) خداوندعالم فرمائے گا۔ تم بھی (جن و انس کے ان گروہوں میں داخل ہو جاؤ جو تم سے پہلے (یہاں) پہنچ چکے ہیں۔ جب بھی کوئی گروہ جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے ہم مذہب گروہ پر نفرتیں اور لعنت کرے گا۔ تو جب سب گروہ جہنم میں اکٹھے ہو جائیں گے تو بعد میں آنے والا، پہلے آنے والے گروہ کے بارے میں کہے گا۔ "پروردگار! یہی لوگ تھے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا، پس تو انہیں جہنم کے دوہرا عذاب دے۔ (ایک تو ان کی اپنی گمراہی کا اور ایک ہمارے گمراہ کرنے کا) خدا فرمائے گا تم سب کے لئے دوہرا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے۔

ایک نکتہ :

قیامت کے لرزا دینے والے مناظر میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ جب جہنمی ایک دوسرے کے ساتھ خصوصاً ان سرداروں اور پیشواؤں کے ساتھ گفتگو کریں گے جو ان کے جہنمی ہونے کا سبب بنے تھے۔ اسی بنا پر وہاں پر یہاں کے جگری دوست، دشمن بن جائیں گے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ "( الاخلٴا یومَئذٍ بعضهم بعض عدوالاالمتقین ) " اس دن دوست ایکدوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیز گاروں ( کہ وہ دوست ہی رہیں گے) (زخرف/ ۶۷) اور سورہ ص / ۶۴ میں فرماتا ہے کہ "ان ذٰلک لحق تخاصم اھل النار" بیشک یہ بات حق اور ایک واقفیت ہے کہ دوزخی مخاصمانہ باتیں کریں گے۔

پیام:

۱ ۔ بہشت میں نہ کینہ ہوگا اور نہ ہی دشمنی صرف صلح و صفا ہوگی جبکہ جہنم میں افراد ایکدوسرے پر لعنت کریں گے۔( لعنت اختها )

۲ ۔ انسانوں کی طرح جنات بھی مکلف (احکام الٰہی کی پابندی کے ذمہ دار) ہیں۔ اور ایک جیسے انجام سے دوچار ہوں گے۔( الجن و انس )

۳ ۔ کفار ایک ہی دفعہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ بالترتیب اور باری باری وارد جہنم ہوں گے۔( کلما دخلت )

۴ ۔ غیر الٰہی محبتیں، دوستیاں، حمایتیں بروز قیامت کینوں اور نفرتوں میں عناد اور دشمنی میں بدل جائیں گی۔( لعنت اختها )

۵ ۔ قیامت کے دِن ہر ایک کی یہی کوشش ہوگی کہ اپنا گناہ دوسروں کے سر تھونپنے یا اپنے لئے کسی ایک مجرم کو تلاش کرے( هولاء الضلونا )

۶ ۔ اعمال کی بجا آوری کے لئے انسان آزاد بنے لیکن "( اضلونا ) " (انہوں نے ہمیں گمراہ کیا) کہہ کر اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ کہ اپنے گناہ دوسروں کے کھاتے میں ڈال دے۔

۷ ۔ بعض اوقات انسان کی ایسی سزائیں بھی ملیں گی جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہونگی۔( والله تعلمون )

قرآن کہتا ہے "پیشواؤں کو بھی دوہری سزا ملے گی اور پیروکاروں کو بھی " پیشواؤں کو اس لئے کہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ پیروکاروں کو اس لئے کہ خود بھی گمراہ تھے ا ور باطل کے اماموں اور پیشواؤں کی دوکانوں کو خوب چمکایا۔ اگر یہ ان کی پیروی نہ کرتے تو باطل کے امام بھی اس قدر ترقی نہ کرتے۔( لعل ضعف )

آیت ۳۹

( وَ قَالَتْ اُوْلٰهُمْ لِاُخْرٰهُمْ فَماَ کَا نَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوْ الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ ) ۰

ترجمہ: اور (عذاب میں) پیشگام گو (اپنے) پیروکاروں سے کہیں گے۔ "تم ہم سے برتر (اور زیادہ بے گناہ) نہیں تھے۔ پس تم اپنی کارستانیوں کا عذاب چکھو۔

ایک نکتہ:

گمراہ کرنے والوں کے لئے دوہرے عذاب کے تقاضے کے خلاف وہ لوگ اپیل دائر کریں گے کہ "یہ پیروکار ہی تھے جنہوں نے ہماری ترقی کے اسباب فراہم کئے تھے۔ اگر یہ ہماری اتباع نہ کرتے تو ہماری گمراہ کرنے کی رفتار آگے نہ بڑھتی، لہٰذا یہ خود ہی قصور وار ہیں۔"

تو کیوں ایک لقمہ نان یا چند روزہ جاہ و مقام کی خاطر اے نامراد اور نالائق پیشواؤں کی اتباع کا دم بھریں جو شفاعت تو بجائے خود ہماری فریاد کو ہی نہ پہنچیں؟!

پیام:

۱ ۔ بروز قیامت ہر قسم کی مدد خواہی اور امداطلبی بھی بیسودا ثابت ہوگی۔( فذوقو العذاب )

۲ ۔ حتیٰ کہ خود مجرمین کو بھی علم ہے کہ جہنم ان کے اعمال کی سزا ہوگی پھر بھی گمراہی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔( فماکان لکم علینا من فضل )

آیت ۴۰

( اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْ ا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَکْبَرُوْ ا عَنْهَا لَاتُفُتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلَا یَدَخْلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ط وَ کٰذَلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: یقینا جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر کے ساتھ ان سے منہ پھیرا تو آسمان (رحمت) کے دروازے ان کے لئے نہیں کھولے جائیں گے۔ اور جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گذر جائے اس وقت تک وہ بہشت میں نہیں جائیں گے۔ (یہ ان کے لئے انہونی بات ہے۔) اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

دو نکات:

اس آیت سے یہ سمجھاجاسکتا ہے کہ آسمان سے مراد ایک عالم ہے کہ جس پر بہشت واقع ہے۔ اور بہشت کے اندر جانے کے لئے ان کے لئے دروازوں سے ہو کر جانا پڑے گا۔

اس آیت میں "جمل" سے مراد یا تو اونٹ ہے یا پھر وہ ضخیم رسہ ہے جس کے ساتھ کشتیوں اور جہازوں کو ساحل پر باندھتے ہیں۔ اور یہ معنی سوئی کے ساتھ زیادہ مناسب یا نسبت اس معنی کے کہ کیا جائے "اونٹ سوئی کے ناکے سے گذر جائے"

اللہ تعالیٰ نے چونکہ مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ کفار کا بہشت میں جانا محال ہے لہٰذا "جمل" کا معنی اونٹ اور اس سورخ سے اونٹ کا عبور کرنا اس سے زیادہ نزدیک ہے۔ اس کے علاوہ انجیل موقا (کے باب اٹھائیس آیت ۴۲) میں ہے کہ : اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گذرنا آسان ہے۔ لیکن دولتمند اور سرمایہ داروں کا ملکوت اعلیٰ تک پہنچنا مشکل ہے۔"

پیام:

۱ ۔ جہاں ہر مومنین باتقویٰ کے لئے خدائی رحمت کے آسمانی اور زمینی رستے کھلے ہوتے ہیں۲۲

اس کے برخلاف کفار اور جھٹلانے والوں کے لئے آسمان کے دروازے بند رہتے ہیں۔( لاتفتح لهم )

۲ ۔ اس آیت سے یہ استفادہ بھی ہوسکتا ہے کہ "بہشت آسمانوں میں ہے" (تفسیرفخررازی والمیزان)

۳ ۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں "آسمان کے دروازے پانچ موقع پر کھولے جاتے ہیں۔"

۱ ۔ جب مجاہدین اسلام راہ خدا میں جنگ کررہے ہوتے ہیں۔

۲ ۔ جب بارش ہورہی ہوتی ہے۔

۳ ۔ جب قرآن مجید یعنی اللہ کے کلام کی تلاوت کی جا رہی ہوتی ہے۔

۴ ۔ جب طلوع فجر ہو رہی ہوتی ہے اور اذان دی جا رہی ہوتی ہے۔ (تفسیر نور الثقلین)

آیت ۴۱

( لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ط کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ۰ )

ترجمہ: ان (مجرمین) کے لئے جہنم کے بستر ہوں گے اور ان کے اوپر (آگ کی) اوڑھیاں ہوگی اور اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیتے ہیں۔

چند نکات:

اصل "مھاد" "مھد" سے ہے۔ جس کا معنی بستر اور "غوائیں" جمع ہیں۔ "غاشیہ" کی اور اس کا معنی ہے ڈھانپ دینے والی چیز۔ اور "خیمہ" کو بھی غاشیہ کہتے ہیں۔

ہر دشمن اور روگردانی کرنے والے گروہ کو اسی سورت کی ۳۷ ویں آیت میں "کافر" اور اسی آیت میں "ظالم" گروہ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ یہ لوگ آیاتِ الٰہی کی تکذیب کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے شایانِ شان ہی یہی ہے کہ انہیں ایسے القاب کے ساتھ یاد کیا جائے۔ اور سورہ بقرہ کی آیت ۳۰۴ میں ہم پڑھ چکے ہیں "( والکافرون هم الظالمون ) " اور کافر ہی تو ظالم ہیں۔

اس آیت میں "مھاد" کا لفظ جہنمیوں کے لئے ایک قسم کے استہزاء کے طور پر یعنی "اُن کی آرام گاہ" اللہ نے جہنم بنائی ہے۔ (ازتفسیر فی ظلال القرآن)

پیام:

۱ ۔ جہنم کفار کے سارے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی۔ (مھاد و غواش) ۲۳

آیت ۴۲

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا وَ عَمِلُو الصّٰلِحٰتِ لَانُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ ) ۰

ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لے آتے اور نیک کام انجام دیتے (جس قدر بھی انجام چیتے ہم قبول کر لیں گے کیونکہ) ہم کسی کو اتنا ہی تکلیف دیتے ہیں جتنا اس کی توانائی ہوتی ہے۔ یہی لوگ ہی بہشتی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

دو نکات:

قرآن مجید عام طور پر خوشخبری اور خوف دِلانے کو ایک دوسرے کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بدکار متکبر بن کے انجام کو ذکر کیا ہے۔ یہاں پر شائستہ مومنین کے نیک انجام کا تذکرہ کر رہا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں شاذ و نادر افراد کے لئے بہشت کی جیسی نعمتیں مہیا ہوں۔ مثلاً دودھ اور شہد کی نہریں، خوبصورت بیویاں، باغات و محلات وغیرہ، لیکن ایک تو ان میں اور بہشت کی نعمتوں میں بڑا فرق ہوگا دوسرے یہ کہ ان میں ہمیشگی اور پائیداری ناممکن ہے۔

پیام:

۱ ۔ بہشت امان و عمل کی جزا ہے۔ یہ قیمت کے بدلے ملتی ہے۔ بہانوں سے نہیں ملتی۔( امنواوعملوا )

۲ ۔ اگرچہ تمام نیک اعمال مطلوب ہوتے ہیں، لیکن ہرشخص اپنی توانائی کے مطابق اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہوگا۔( الصالحات- وسعها )

۳ ۔ اسلام میں تکلیف مالایطاق نہیں ہے۔( وسعها ) ۲۴

۴ ۔ اگر خداوند عالم نے ہم پر کوئی تکلیف عائد کی ہے تو یقینا ہم اس کی توانائی بھی رکھتے ہیں یہ اور بات ہے کہ ہم اس توانائی سے کماحقہ استفادہ نہ کریں۔

آیت ۴۳

( وَنَزَعْنَا مَافِیْ صُدُوْرِ هِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ وَقَالُو االْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰنَالِهٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَآ اَنْ هَدٰنَااللّٰهُ لَقَدْ جَآئَتْ رُسُلِ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ط وَنُوْدُوْٓااَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّةُ اُوْ رِثْتُمُوْهَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْْنَ ) ۰

ترجمہ: اور ہم ان کے سینوں سے بھی کینے ہوں گے نکال دیں گے۔ (تاکہ وہ صدق و صفا اور غنیمت باہم زندگی گذاریں) ان کے محلات کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اور وہ کہیں گے اس نے ہمیں اس (بہشت) کی ہدایت کی ہے۔ اور اگروہ ہمیں ہدایت نہ کرتا ہم (خودبخود) یہاں نہ پہنچ پاتے۔ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبر ہمارے پاس آئے (جنہوں نے ہمیں ہدایت کی) اور ان ہدایت یافتہ افراد سے خطاب ہوگا۔ یہ وہی بہشت ہے جس کے تم اپنے اعمال کی وجہ سے وارث ہوئے ہو۔

دو نکات:

"غل" کے معنی ہیں کسی چیز میں چپکے سے داخل ہوجانا۔ اسی لئے خفیانہ طور پر دل میں موجود حسد اور کینے کو "غل" کہتے ہیں۔

گذشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جہنمی لوگ ایکدوسرے کو نصب اور نفرتیں کریں گے۔ جبکہ یہاں فرماتا ہے کہ اہلِ بہشت کے دلوں میں ایکدوسرے کے بارے میں کوئی کینہ اور حسد نہیں ہوگا۔ سب صلح و صفائی اور محبت بھرے ماحول میں مل جل کر رہیں گے۔ کوئی کسی کے مقام و مرتبے سے بھی حسد نہیں کرے گا۔

پیام:

۱ ۔ بہشت میں صفائے باطن اور صفائے ظاہر ایک جا جمع ہوں گے۔( نزعنا ) باطنی صفائی کا مظہرہے۔ اور( تجری ) ظاہر صفا کا۔

۲ ۔ بہشت میں اگرچہ درجات کا فرق ہوگا لیکن کسی بارے میں کسی کے دل میں حسدو کدورت نہیں ہوگی۔( نزعنا )

۳ ۔ مومن اپنی دینوی زندگی کو بہشتی زندگی جیسا صاف و ستھرا رکھنا چاہتا ہے۔( نزعنا ) ۲۵

۴ ۔ ہدایت ایک ایسی نعمت ہے جو تا ابد شکریے کی مستحق ہے۔( هدانا لهذا )

۵ ۔ انبیاء علیہم السلام ہدایت کا وسیلہ ہیں اور ان کی ہدایت حق کے ساتھ ہوتی ہے۔ یعنی وہ خود آپ، ان کی گفتگو، ان کے اعمال، ان کے طریقہ پائے کار اور ان کے وعدے سب حق ہوتے ہیں۔

۶ ۔ بہشتی لوگ ذکر الٰہی میں مصروف ہیں۔( قالو الحمدللّٰه )

۷ ۔ فقط عقل اور علم ہی کافی نہیں، ہدایت کے لئے خدا کی عنایت اور مدد بھی ضروری ہے۔( مولا ان هدانا )

۸ ۔ اہل بہشت خدا کے لطف و کرم پر شکر ادا کریں گے۔ اور اپنے ہدایت یافتہ ہونے پر مغرور نہیں ہوں گے۔( الحمدللّٰه )

۹ ۔ اور آیات کے مطابق ہر مومن اور کافر کا جنت اور دوزخ میں ایک ایک مقام ہے۔ لہٰذا بہشت میں کافر کا مکان وراثت میں اور کافر جہنم میں مومن کا مکان وراثت میں لے جائے گا۔( اورثتموها ) (ازتفسیر نورالثقلین)

اس قسم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت اور جہنم کے دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہوتے ہیں اور کوئی بھی شخص ابتدا میں جنت یا دوزخ کے لئے خلق نہیں ہوا بلکہ اس کا رستے کا انتخاب اور اس انتخاب کی روشنی میں اس عمل ہی سے "نوری یا ناری" بناتا ہے۔ (ازمترجم ۔۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔ ۔۔ اقبال)

۱۰ ۔ خیالی پلاؤ پکانے اور پکا کر کھانے سے نہیں عمل سے جنت ملتی ہے۔( تعلمون )

آیت ۴۴

( وَنَا دٰٓی اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّا رِ اَنْ قَدْ وَجْدَنَامَا وَعْدَنَارَبُّنَا بِاالْحَقِّ فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَ عَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ۰ قَالُوْ اَ نْعَمْ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌبَیْنَهُمْ اَنْ لَّعَنَةُ اللّٰهِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: اور بہشتی، دوزخیوں کو پکار کر کہیں گے "ہمارے رب نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے حق اور سچ پایا (اور اس تک پہنچ بھی گئے) تو کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو حق پایا؟ (ہم تو بہشت بریں کی نعمت کے مزے لوٹ رہے ہیں کی تم بھی جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو۔؟) تو وہ کہیں گے "ہاں! تو اسی دوران میں ایک موذن ان کے درمیان میں بلند آواز سے کہے گا: "خدا کی لعنت ہے ظالموں پر"

ایک نکتہ:

شیعہ اور کچھ اہلسنت مثلاً حاکم حکانی وغیرہ کی روایات میں ہم پڑھتے ہیں کہ:

"جو موذن بیانگ دہل اعلان کرے گا کہ "ظالموں پر اللہ کی لعنت !" وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہوگا"

علی نے جس طرح دنیا میں سورہ برائت کے ذریعے اسے مکہ میں پڑھ کر مشرکین سے اعلان برائت کیا تھا اسی طرح آخرت میں بھی ظالموں پر لعنت کا اعلان بھی وہی کریں گے۔ گویا خدا کی طرف سے مشرکین اور ظالمین کے خلاف نازل ہونے والی قراردادوں کا پڑھنا علی کا کام ہے۔

پیام:

۱ ۔ آخرت میں بہشتی اور دوزخی آپس میں گفتگو کریں گے۔( نادی-- )

۲ ۔ جنتویوں اور جہنمیوں کے درمیان فاصلہ ہوگا۔ جس کے لئے ندا کی ضرورت ہوگی۔( نادیٰ )

۳ ۔ جغرافیائی لحاظ سے جنت اور جہنم کا وقوع اس طرح سے ہوگا کہ بہشتی بہشت میں پہنچ کر اہل جہنم سے حال احوال پوچھ سکیں گے۔( نادی-- )

۴ ۔ مومن بھی اور کافر بھی اپنے ساتھ خدا کے کئے ہوئے وعدے کو حق اور عملی صورت میں دیکھیں گے۔( وجدنا- حق )

۵ ۔ اللہ تعالیٰ بہشتی لوگوں کے ذریعہ جہنمیوں سے اعتراف لے گا ان کی شرمندگی اور عذاب میں مزید اضافہ ہو۔ (ازتفسیر المیزان)

۶ ۔ کفار کی ہر قسم کی تکذیب، تہمت، زبان کے زخم کا ایک دن ایک اور صرف ایک جواب ہوگا جو انہیں ابد الدباد تک دُکھ اور درد میں مبتلا کئے رکھے گاوہ ہے( لعنة اللّٰه علی الظالمین )

۷ ۔ قیامت کی عدالت اس نعرے کے ساتھ برخواست ہوگی۔ "ظالموں پر خدا کی لعنت" (لعنة اللّٰہ علی الظالمین)

آیت ۴۵

( الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًاوَهُمْ بِالْاٰ خِرَةِ کٰفِرُوْنَ ) ۰

ترجمہ: (ظالم وہیں) جو لوگوں کو خدا کی راہ سے ہٹاتے ہیں اور اس راہ کو ٹیڑھا بنانا چاہتے ہیں اور یہی لوگ آخرت کے منکر بھی ہیں۔

ایک نکتہ:

خدا کا راستہ، توحید و تسلیم، ایمان، ہجرت اور جہاد کا راستہ ہے۔ مگر ظالموں کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس بارے میں شبہے اور وسوسے پیدا کرکے لوگوں کو اس سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا پروپیگنڈا کرکے، مومنین کے دلوں میں کمزوری پیدا کرکے یا بدعتیں اور خرافات کو اس راہ پر ڈال کر گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں یا پھر الٰہی راہبروں کے مقابلے میں یا مایوسیاں پھیلا کر یا رخنہ اندازی کرکے یا روڑے اٹکا کر خدا کے رستے سے لوگوں کوہٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس میں تبدیلی اور ایجاد کردیتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ خدا کی راہ سے جس طرح بھی ہٹایا جائے ظلم ہے۔ بلکہ اگر اس میں کجی اور انحراف پیدا کرنا بھی ستم ہے۔ اور "ثقافتی یلغار" تو ایک ایسا ظلم ہے جس کا مقابلہ کسی طرح کا ظلم بھی نہیں کرسکتا۔

۲ ۔ اگر دشمن کے بس میں ہو تو کھلم اور اعلانیہ طور پر جنگ کرکے راہ حق کو مکمل طور پر بند کردیتا ہے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو پھر مختلف حیلوں بہانوں اور عیاریوں کے ساتھ راہ کوکج کرکے اس میں تبدیلیاں پیدا کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔( یصدون ----- یغبونها عوجا )

آیت ۴۶

( وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌ وَ عَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ کُلًّا بِسِیْمٰهُمْ وَناَ دَوْ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ یَطْمَعُوْنَ ۰ )

ترجمہ: اور ان دو (جنتی اور جہنمی گروہوں) کے درمیان حجاب ہے۔ اور اعراف ہر (اولیاء اللہ میں سے) کچھ لوگ ہوں گے جو تمام (بہشتوں اور دوزخیوں) کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گیا ور بہشتوں کو جو کہ ابھی بہشت میں نہیں پہنچے ہوں گے بلکہ اس کے امیدوار ہوں گے صدا دے کر کہیں گے "السلام علیکم" تم پر سلام ہو۔

چند نکات:

حجاب سے مراد شاید وہ دیولد ہو جس کا تذکرہ سورہ حدید کی ۱۳ ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ "فضرب بینھم من سورلہ باب باطنہ فیہ الرحمة و ظاھرہ من قبلہ العذاب" ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی۔ جس کا بیرون حصہ عذاب اور اندرونی حصہ رحمت ہے۔ (از تفسیر المیزان)

"اعراف" جمع ہے۔ "عرف" جس کا معنی ہے بلند جگہ۔ اس سورة کو "اعراف" کہتے ہیں۔ اور پورے قرآن مجید میں صرف اسی جگہ پر اعراف اور اہل اعراف کا تذکرہ ہے۔

اہل اعراف کون ہیں؟

اس بارے میں روایات اور تفاسیر میں مختلف آراء اور نظریات ملتے ہیں۔ کچھ تو وہ جو "اولیاء اللہ" کو اہل اعراف سمجھتے ہیں۔ جو کہ جنت اور جہنم کے درمیان بلند جگہ پر موجود ہوں گے۔ اور تمام لوگوں میں وہیں پرسے پہچان لیں گے۔ اہلِ بہشت کو سلام اور مبارک باد سے نوازیں گے۔ جبکہ جہنمیوں کے بارے میں پریشان دِکھائی دیں گے۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد ضعیف اور کمزور لوگ ہیں جن کے گناہ بھی ہوں گے لیکن عبادت بھی ساتھ ہی ہوگی۔ خدا کے لطف و کرم کے منتظر ہوں گے۔ (جب کہ سورہ توبہ کی آیت ۱۰۵ بتلاتی ہے۔)

ان دونوں نظریات کو اس طرح جمع کیا جاسکتا ہے کہ اصل مراد تو اولیاء اللہ ہوں لیکن ان کی اطراف میں مذکورہ متوسط اور ضعیف افراد بھی ہوں جو اعراف میں گرفتار اور اپنے انجام کے منتظر ہوں۔ کیونکہ بہشتی، بہشت ہیں اور جنہمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ اور متوسط اور ضعیف لوگ اپنے انجام کے منتظر ہوں گے۔ اور اولیاء اللہ جو اعراف پر ہوں ان کی مدد کرتے ہوئے ان کے حق میں شفاعت کریں گے۔ اور مفسرین اور روایات حدیث نے بھی اسی طرح ان نظریات کو جمع کیا ہے۔ (از مترجم: روایات اہل بیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء اللہ آئمہ اطہار ہی ہیں۔)

آیت ۴۷

( وَ اِذَاصُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَآءَ اَصْحٰبِ النَّارِ قَالُوْ رَبَّنَا لَا تَجَعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۰ )

ترجمہ: اور جب ان کی نگاہیں جہنمیوں کی طرف پلٹائی جائیں گی تو وہ کہیں گے پروردگار! تو ہمیں ظالموں کے ساتھ قرار نہ دے۔

دونکات:

اہل اعراف، بہشتوں کی طرف دیکھیں گے بھی اور انہیں سلام بھی کریں گے۔ لیکن جہنمیوں کو دیکھنا گوارا نہیں کریں گے بلکہ ان کی ان پر صرف اچکتی ہوئی نگاہ پڑے گی۔ (صرفت ابصارھم)

وہ اپنی دعا میں یہ نہیں کہیں گے کہ "ہمیں اہل جہنم نہ بنا" بلکہ کہیں گے "ہمیں ظالموں کا ہم نشیں نہ بنا" جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کی ہم نشینی، جہنم سے بھی بدتر ہے۔ (تفسیر الوسی)

(ہماری دعا بھی ہے کہ خداوند! اگر تو ہمیں بہشت میں نہیں لے جائے گا تو ظالموں کا ہم نشین بھی نہ بنانا۔ آمین)

آیت ۴۸

( وَ نَا دٰی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجْالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰهُمْ قَالُوْ مَآ اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَ مَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ ۰ )

ترجمہ: اور اہل اعراف (وہ اولیاء اللہ جو بلند جگہ پر موجود ہوں گے، جہنم والے) لوگوں کو ان کی نشانیوں سے پہچان کر آواز دیں گے اور کہیں گے۔ تمہیں نہ تو تمہارے جمع شدہ سرمائے اور مال نے فائدہ پہنچایا اور نہ ہی اشکبار نے۔

پیام:

۱ ۔ قیامت کے دن جہنمیوں کو خدائی عذاب کے علاوہ انسانوں کی جھڑکیاں اور سرزنش بھی سننا پڑیں گی۔( قالوا---- )

۲ ۔ زراندوزی اور تکبر قہر خداوندی کا موجب ہے۔

۳ ۔ مال اور اقتدار، نجات کا موجب نہیں ہیں۔( مااغنیٰ عنکم---- ) ۲۶

آیت ۴۹

( اَهٰٓؤُلَآءِ الّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا یَنَا لُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ ط اُدْخُلُواالْجَنَّةَ لَاخَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَ لَا اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ ) ۰

ترجمہ: آیا یہ بہشتی دینی لوگ ہیں کہ جن کے متعلق تم قسم کھایا کرتے تھے (خدا کی) رحتم ان کے شامل حال نہیں ہوگی؟ (پھر مومنین سے خطاب ہوگا) بہشت میں داخل ہو جاؤ۔ نہ تو تم پر کوئی خوف ہے اور نہ ہی غم سے دوچار ہوگے۔

ایک نکتہ:

کفار میں سے کچھ مغرور فراد ایسے بھی تھے جو مومنین کی تحقیر کرتے تھیا ور کہتے تھے کہ خدا کی رحمت ان کے شامل حال نہیں ہوگی۔ حالانکہ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کا ایمان اور نیک اعمال ہی انہیں خُدائی رحمت کے شامل حال قرار دے چکے ہوں گے۔ اور "( ادخلواالجنة ) " خطاب انہیں سے ہوگا۔ رحمت خداوندی کے لئے اندرونی لیاقت و شائستگی اور بیرونی اعمال صالحہ کا ہونا ضروری ہے۔ جاہ و مال اور مقام و منصب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیا رحمت خداوندی کی ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے کہ جسے چاہے دیدے یا اس ذات کے قبضہ قدرت میں جو ہر شئے پر قادر ہے؟ اس لئے تو خداوند فرماتا ہے۔ "( اهم لیقسمون رحمة ربک ) " آیا یہی لوگ تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟

پیام:

۱۔ کون لوگ خدائی رحمت کے مستحق ہیں؟ اس بارے میں جلد فیصلہ نہ کرلیا کرو۔

۲۔ دنیا میں فقر و فاقہ، تنہائی اور گمنامی، قیامت کے دن رحمت خداوندی سے محرومیت کی علامت نہیں ہے۔

آیت ۵۰

( وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ النَّا رِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْ ا عَلَیْنَا مِنَ الْمَٓاءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰهُ ط قَالُوْااِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ) ۰

ترجمہ۔ اور اہل جہنم بہشتوں کو پکاریں گے کہ کچھ پانی یا جو کچھ تمہیں اللہ نے عطا کیا ہے اس میں سے کچھ ہمارے اوپر بھی ڈالو ۔ تو (بہشتی) کہیں گے کہ اللہ نے یہ پانی اور نعمتیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔

ایک نکتہ:

قیامت کے منجملہ ناموں میں سے ایک نام "یوم التناد" بھی ہے۔ یعنی جس دِن آوازیں بلند ہوں گے۔ اور ایکدوسرے کو مدد کے لئے پکارا جائے گا۔

پیام:

۱ ۔ جو دنیا میں رہ کر آخرت کے لئے توشہ تیار نہیں کرتے، قیامت کے دن ان کی ضرورت اور احتیاج کا ہاتھ ہر ایک کے آگے پھیلا ہوگا۔( ونادیٰ---- )

۔ قیامت کے دن مجرمین کی آہ و زاری کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔( ان الله حرمهما )

۔ آخرت کی نعمتیں، مومنین کے ساتھ مخصوص ہیں۔( حرمهما علی الکٰفرین )

۔ نہ خدابخیل ہے۔ اور نہ ہی اہلِ بہشت! لیکن کفر، آزادانہ مصرف اور دنیا میں عیاشی کی سزا قیامت کے دن نعمتوں سے محرومی کی صورت میں ملے گی۔( حرمهما علی الکٰفرین )

آیت ۲۰ ، ۲۱

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَه وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ صلي وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور اب جبکہ اس کی باتوں کو سنتے ہو تو اس سے روگردانی نہ کرو۔

اور ان لوگوں کی مانند نہ بنو جو کہتے ہیں کہ "ہم نے سن لیا" درحقیقت وہ نہیں سن رہے ہوتے۔

ایک نکتہ:

پورے قرآن میں جہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہو وہاں اس کے رسول کی اطاعت کا حکم بھی مذکور ہے اور گیارہ مقامات پر "اتقوااللہ" کے بعد "اطیعون" کا جملہ مذکور ہے۔ اور اس آیت میں اگرچہ خدا اور رسول "دونوں کی اطاعت کا ذکر ہے لیکن صرف رسول پاک کے فرمان کی سرپیچی سے منع کیا گیا ہے نہ کہ خدا اور رسول کے فرمان کی سرپیچی سے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے (خدا کی نہیں) رسول کی اطاعت مشکل تھی اور وہ بھی خصوصی طور پرجنگ بدر میں اور فوجی مسائل کے بارے میں آنحضرت کے فرامین کی اتباع اور بھی مشکل تھی۔

پیام:

۱ ۔ نظام برحق کو بحال رکھنے کے لئے لوگوں کو ہمیشہ خدائی رہبری کی اطاعت کی تاکید کرتے رہنا چاہئے( اطیعوا الله و رسوله )

۲ ۔ پیغمبر کی عدم اطاعت یا ان کی نافرمانی درحقیقت خدا کی نافرمانی ہے( ولا تولوا عنه ) ہے "عنہما" نہیں ہے۔

۳ ۔ سننا اور سمجھنا، ذمہ داری کا موجب بن جاتا ہے( تسمعون )

۴ ۔ دور سابق میں خلاف ورزی کرنے والوں کے حالات سننا اور ان سے آگاہ ہونا عبرت کا موجب ہوتا ہے( ولاتکونوا کالذین… )

۵ ۔ قائد اور رہبر کی اطاعت صدق دل سے کرو، صرف "ہم نے سن لیا ہے" کہہ کر جان نہ چھڑاؤ( ولاتکونوا… )

آیت ۲۲

( اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَاللّٰهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین چلنے والے وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

دو نکات:

"صم" جمع ہے "اصم" کی جس کے معنی ہیں بہرا اور "بکم" جمع ہے "ابکم" کی جس کے معنی ہیں گونگا۔

جو لوگ انبیاء علیہم اسلام کی الٰہی تربیت کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی حق کے آگے اپنے دل و جان کو جھکاتے ہیں، قرآن کی تعبیرات میں انہیں کہیں تو:

الف: مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے: "( انا لاتسمع الموتي ) ٰ" آپ یقینا مردوں کو نہیں سنواتے۔ (روم/ ۵۲)

ب: چوپایوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے: "( یا کل کماتا کل الانعام ) " ایسے کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھائیں (محمد/ ۱۲)

ج: چوپایوں سے بھی بدتر کہا گیا ہے، جیسے: "( کالانعام بل هم اضل ) " چوپایوں جیسے بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں (اعراف/ ۱۷۹)

د: روئے زمین پر چلنے والوں میں سے بدتر بھی کہا گیا ہے جیسے: "( شرالدواب ) " بدترین چلنے والے (انفال/ ۲۲)

پیام:

۱ ۔ انسان کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل سے کام لیتا ہے، اگر ایسا نہیں کرتا تو ہر چلنے والے سے بدتر ہے( شرالدواب )

۲ ۔ کان اور زبان کا حامل ہونا اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ ان اعضأ سے صحیح کام لیا جائے جس شخص کی زبان سے امر بالمعروف یا نہیں عن المنکر کا کلمہ نہیں نکلتا وہ گویا گونگا ہے۔

۳ ۔ دینی تعلیمات سے رخ موڑنے والے بے عقل ہیں( لایعقلون ) ۸

آیت ۲۳

( وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَ سْمَعَهُمْط وَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اگر اللہ کو ان میں کوئی اچھائی نظر آتی تو انہیں ضرور سننے والا بنا دیتا (حق بات ان کے دلوں تک پہنچاتا) اور اگر انہیں سنواتا تو بھی وہ سرکشی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے۔

ایک نکتہ:

ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کی چند قسمیں ہیں۔

۱ ۔ کچھ تو وہ ہیں جو قرآن مجید کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں: "( لاتسمعوا لهذا القرآن ) " اس قرآن کو نہ سنو۔ (فصلت/ ۲۶)

۲ ۔ کچھ وہ ہیں جو سنتے اور سمجھتے تو ہیں لیکن اس میں تحریف کرتے ہیں۔

۳ ۔ اور کچھ وہ ہیں جو اپنے شدید تعصب، حسد اور سنگدلی کی وجہ سے اپنے اندر تشخیص دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔

پیام:

۱ ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کے اسباب خود اپنے اندر تلاش کرنے چاہئیں۔( فیهم )

۲ ۔ صرف آیات قرآنی کا یاد کر لینا، نور نہیں، حق کو قبول کر لینے کا نام نور ہے( ولواسمعهم لتولوا )

۳ ۔ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کی ہدایت سے کوئی مضائقہ نہیں، ضدی لوگ اپنا منہ پھیر لیتے ہیں( ولوعلم…لاسمعهم )

۴ ۔ انسان آزاد ہے اور حق کی ہر آواز کے سننے سے روگردانی کر سکتا ہے( لو اسمعهم لتولوا )

آیت ۲۴

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْ الِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْج وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِه وَ اَنَّهٓ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! تمہیں جب بھی اللہ اور اس کا رسول اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہاری زندگی کا سبب ہے تو فوراً اس کا جواب دو۔ اور جانے رہو کہ اللہ تعالیٰ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، اور یہ کہ تم کو اسی کی طرف محشور ہونا ہے۔

چند نکات:

حیات (زندگی) کی مختلف قسمیں ہیں۔

۱ ۔ نباتاتی حیات: جیسے "( یحی الارض بعد موتها ) " اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ (روم/ ۱۹)

۲ ۔ حیوانی حیات: جیسے "( لمحی الموتی ) " اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ (روم/ ۵۰ فصلت/ ۳۹)

۳ ۔ فکری حیات: جیسے "( من کان میتا فاحییناه ) " مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا (انعام/ ۱۲۲)

۴ ۔ ابدی حیات: جیسے "( قدمت لحیاتی ) " کاش میں اپنی زندگی کے لئے پہلے سے کچھ بھیجتا (فجر/ ۱۴)

جو حیات(زندگی) انبیاء کی دعوت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے وہ "حیوانی زندگی" نہیں ہے، کیونکہ وہ تو ان کی دعوت کے بغیر بھی حاصل ہے، بلکہ مراد فکری، عقلی اور معنوی زندگی ہے۔

خدا کا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہر جگہ پر حاضر ناظر ہے اور وہ ہر چیز کو اپنے قبضہ قدرت میں لئے ہوئے ہے۔ تمام توفیقات اسی کی طرف سے ہیں، وہ ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ عقل اور روح کی کارکردگی بھی اسی کے دست قدرت میں ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اسلام کی دعوت کی قبولیت درحقیقت خدا کی دعوت کی پذیرائی ہے (دعا کم) فرمایا ہے، "( دعواکم ) " نہیں۔

۲ ۔ انسان کی حقیقی حیات وزندگی تو ایمان اور عمل صالح ہی میں ہے اور انبیاء بھی اسی کی دعوت دیتے ہیں ۹( لما یحییکم )

۳ ۔ احکام اسلام معنوی حیات عطا کرتے ہیں، جس طرح کہ دوا یا عمل جراحی (آپریشن) زندگی دیتے ہیں۔

۴ ۔ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے رستوں پر چلنے سے حقیقی زندگی ملتی ہے اور ان سے ہٹ کر چلنے سے انسانیت کی موت ہے۔

۵ ۔ زندگی بہت قیمتی چیز ہے اور انبیاء کا راستہ انمول نعمت ہے۔

۶ ۔ شیعہ، سنی روایات کے مطابق "حیات طیبہ" کے مصداقوں میں سے ایک مصداق علی اور اولاد علی علیہم السلام کی ولایت کے بارے میں پیغمبر اسلام کی آواز کو سننا اور قبول کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر فرقان، منقول از مناقب ترمذی)

۷ ۔ جس شخص کا اس بات پر ایمان ہوتا ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے اور وہ ہر چیز پر محیط ہے تو وہ انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے سے روگردانی نہیں کرتا۔( یحول بین المرٴو قلبه- استجیبوا )

۸ ۔ جب تک اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے اور تمہارے پاس فرصت بھی ہے تو حق کو قبول کر لو (اس تفسیر کی بنا پر خدا کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونا، موت سے کنایہ ہے)

۹ ۔ خدا کا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا ایک مصداق "محو و اثبات" کا مسئلہ بھی ہے یعنی کفر کا محو کرنا اور ایمان کا اثبات کرنا، شک اور غفلت کا محو کرنا اور یاد اور یقین کا اثبات کرنا۔ (تفسیر فرقان، اسی آیت کے ذیل میں حضرت امام محمد باقر علیہ اسلام کا فرمان)

۱۰ ۔ مومن کو اپنے ایمان پر مغرور اور کافر کو اپنے کفر سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ دلوں کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ "مقلب القلوب" (دلوں کو پھیرنے والا) ہے۔( یحول بین المرٴو قلبه )

۱۱ ۔ تم سب کو قیامت کے دن محشور ہونا ہے، لہٰذا انبیاء الٰہی کو ان کی دعوت پر مثبت جواب دو۔( استجیبوا…الیه تحشرون )

آیت ۲۵

( وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّةًج وَ اعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )

ترجمہ۔ اور اس فتنے سے ڈرو جو صرف تم میں سے ظالم لوگوں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا، اور جانے رہو کہ خداوند سخت عذاب دینے والا ہے۔

چند نکات:

سابقہ آیت میں پیغمبر اسلام کی طرف سے "حیات طیبہ" کی دعوت قبول کرنے کا حکم تھا اور اس آیت میں فرماتا ہے: "اگر تم نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو یاد رکھو ایسے فتنے میں گرفتار کر لئے جاؤ گے جس کی آگ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

"فتنہ" کے کئی معنی ہیں مثلاً شرک، کفر، آزمائش، شکنجہ وغیرہ۔

سابقہ آیت میں پیغمبر اکرم کی اطاعت کا حکم تھا، اور اس آیت میں فتنے سے ڈرنے کا حکم ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فتنہ: پیغمبر اسلام کی اطاعت نہ کرنے کا نام ہے۔ اور آیت کا مفہوم وہی "( واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا ) " ہے۔ (تفسیر المیزان)

فساد اور فحاشی ایک نظام کی چھت کو گرا دیتے ہیں جس کا نقصان سب کو پہنچتا ہے جیسے بنی امیہ کے حکام کا فساد ہے، کیونکہ جب لوگوں نے پیشوائے حق کی ولایت کا انکار کر دیاتو بنی امیہ کے فساد کی زنجیروں میں صدیوں تک ذلیل و خوار ہو کر جکڑے رہے۔ ۱۰

پیام:

۱ ۔ معاشرہ کے افراد اپنے کاموں کے علاوہ دوسروں کے کاموں پر بھی نظر رکھیں، کیونکہ خلاف ورزی کے مضر اثرات سب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ جس طرح کہ کشتی کے پیندے میں سوراخ کر دینے سے اس میں سوار تمام لوگ ڈوب سکتے ہیں۔( لاتصیبن )

۲ ۔ نہ تو خود فتنہ برپا کرو، نہ دوسرے فتنہ پرور لوگوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ اور نہ ہی ان کی فتنہ پردازیوں پر خاموشی اختیار کرو۔( واتقوا فتنة )

۳ ۔ فتنے سے بچنے کا مقصد اس سے ہوشیا ر رہنا ہے نہ کہ معاشرہ سے کٹ جانا ہے۔

۴ ۔ زمانے میں پیدا ہونے والے آشوب اور فتنوں میں ہوشیار رہنا چاہئے کہ کہیں تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ ۱۱

آیت ۲۶

( وَ اذْکُرُوْآ اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِه وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب تم (تعداد میں) کم تھے اور (مکہ کی) زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے، تمہیں ہر وقت یہ ڈر رہتا تھا کہ (دشمن) لوگ تمہیں جلدی اچک لیں گے، پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں (مدینہ میں) پناہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمہاری تائید کی اور تمہیں ہر قسم کی پاکیزہ روزی عطا فرمائی، شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ۔

پیام:

۱ ۔ ناتوانی اور کمزوری کے دنوں اور خدائی امداد کی یادآوری، خدا کے شکر، اس کے ساتھ عشق و محبت اور اس پر توکل کا سبب ہوتا ہے( لعلکم تشکرون )

۲ ۔ ناتوانی اور امداد الٰہی کے ایام کی یاد، فتنوں سے دور رہنے کا موجب ہوتی ہے( واتقوا فتنة- واذکروا )

۳ ۔ راہ حق میں افرادی قلت، کمزوری و ناتوانی اور جلاوطنی سے نہیں گھبرانا چاہئے کیونکہ تمام باوقار انقلابی اسی راہ سے گزر چکے ہیں۔

آیت ۲۷

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُونُوْآ اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور (نہ ہی) اپنی امانتوں کے ساتھ خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو کہ اللہ، رسول اور امانتوں کے ساتھ خیانت نہیں کی جاتی۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شان نزول میں شیعہ اور سنی تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق بنی قریظہ کے یہودیوں کا محاصرہ کیا گیا تو اس دوران انہوں نے صلح کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر شام چلے جائیں گے۔ لیکن آنحضرت نے ان کی اس پیشکش کو قبول نہ فرمایا بلکہ اس بارے میں مذاکرات کے لئے سعد بن معاذ کو مامور فرمایا۔

اس وقت "ابو لبابہ" نامی ایک مسلمان موجود تھا، اس کی یہودیوں کے ساتھ پرانی دوستی تھی، اس دوران اس نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ سعد بن معاذ کو قبول کرنے کی صورت میں سب تہ تیغ کر دیئے جاؤ گے۔ جبرائیل علیہ اسلام نے ابو لبابہ کے اس اشارے کی حضرت رسول خدا کو خبر دی۔ ابو لبابہ بہت شرمندہ ہوا کہ اس نے تو بہت بڑی خیانت کی ہے۔ اس نے اس کے پاداش کے طور پر اپنے آپ کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا اور سات رات دن تک کچھ نہ کھایا۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کو قبول فرمایا( --- ) (تفسیر مجمع البیان، تفسیر صافی، تفسیر نمونہ اور دوسری تفاسیر)

اس کا ایک اور شان نزول بھی بتایا گیا ہے وہ یہ کہ جنگ بدر میں ایک مسلمان شخص نے ابو سفیان کو خط لکھا جس میں اس نے حضرت پیغمبر خدا صلے اللہ وآلہ وسلم کے منصوبوں سے اسے آگاہ کیا، جس کی وجہ سے ابوسفیان نے اہل مکہ سے مدد طلب کی اور ایک ہزار آدمی اس کی مدد کے لئے بدر کی جانب چل دیا۔ (تفسیر المیزان۔ تفسیر مجمع البیان)

پیام:

۱ ۔ بعض اوقات دشمن کے حق میں ایک اشارہ بھی خیانت میں شمار ہوتا ہے (ابو لبابہ کا واقعہ اور آیت کا شان نزول)

۲ ۔ خیانت فطری طور پر بھی بری اور قابل مذمت عادت ہے( وانتم تعلمون )

۳ ۔ جان بوجھ کر خیانت کرنا تو اور بھی خطرناک بات ہے( وانتم تعلمون )

۴ ۔ فوجی رازوں کا فاش کرنا بدترین خیانت ہے (آیت کے دوسرے شان نزول کے مطابق)

البتہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ انفال، زکوٰة ، خمس اور دوسرے لوگوں کے باقی اموال تمہارے ہاتھوں میں امانت ہیں۔ اسی طرح مذہب و مکتب، رہبر و قائد، قرآن مجید، اولاد، وطن کی آب و خاک سب خدائی امانتیں ہیں)

۵ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت اطہار علیہم السلام بھی اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔ ۱۲

۶ ۔ اہل، لائق، افضل اور صالح افراد کے ہوتے ہوئے نااہل، نالائق، "مفضول" اور غیرصالح افراد کو آگے لانا اور انہیں معاشرتی اجتماعی، حکومتی اور سرکاری ذمہ داریاں سونپنا خدا، رسول اور مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی خیانت اور بددیانتی ہے۔

۷ ۔ ایک تو ہم خود بھی اپنے لئے امانت ہیں اور اس کے ساتھ یہ معاشرہ بھی ہمارے لئے امانت ہے۔ (ایک اور آیت میں ہے "تختانون انفسکم" اپنے آپ کے ساتھ خیانت کرتے ہو (بقرہ/ ۱۷۸)

۸ ۔ اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت دراصل تمہاری اپنے ساتھ خیانت ہے اور اس کا نقصان خود تمہیں پہنچے گا۔ ۱۳

(ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رہے کہ جب تک ہمیں اپنی توبہ کی قبولیت کا یقین نہ ہو جائے، اس وقت تک اپنے آپ کو مطمئن نہ سمجھیں۔) ۱۴

آیت ۲۸

( وَ اعْلَمُوْآ اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُ کُمْ فِتْنَةٌ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عنِدْهٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ )

ترجمہ۔ جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں اور خدا کے نزدیک یقینا بہت بڑا اجر ہے۔

ایک نکتہ:

مال اور اولاد کے ساتھ انسان کی محبت، انسان کے لئے بہت سی لغزشوں کا سبب بن سکتی ہے، حرام کا کاروبار، دروغ گوئی، ذخیرہ اندوزی، کم فروشی، راہ خدا میں خرچ نہ کرنا، خمس و زکوٰة کی عدم ادائیگی، حرص و لالچ، تخریب کاری، جھوٹی قسمیں، حقوق الناس کا ضیاع غرض اس قسم کی کئی دوسری خرابیوں کی اصل جڑ مال کے ساتھ بے تحاشا محبت ہے، اسی طرح میدان جنگ سے فرار، افراد خاندان سے جدا نہ ہونا، اسی طرح کی دوسری خامیوں کا اصل سبب اولاد کے ساتھ محبت ہے۔

پس یہ سب امتحان کے اسباب و عوامل ہیں، جس طرح (سابقہ آیت کی رو سے) ابولبابہ ایک لغزش کا شکار ہو گیا تھا، تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنے مال اور اولاد کو بچانے کے لئے دشمن کے ساتھ ہمکاری پر آمادہ ہو گیا تھا۔

پیام:

۱ ۔ مال اور اولاد کے ساتھ حد سے زیادہ محبت انسان کو خیانت پر آمادہ کر دیتی ہے( لاتخونوا…واعلموا--- ) سابقہ آیت کے شان نزول کے پیش نظر ۱۵

۲ ۔ مال اور اولاد دو ایسے جال ہیں جو انسان کو فریب دینے کے لئے اس کی راہوں میں بچھے ہوئے ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک نے مختلف تعبیرات کے ساتھ ان سے خبردار رہنے کو کہا ہے (فتنة) ۱۶

۳ ۔ خداوند عالم کے اجر عظیم کی طرف توجہ ہی سے انسان کے دل سے دنیا کی محبت اور خیانت جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے( اجر عظیم )

آیت ۲۹

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْط وَاللّٰهُ ذُوْالْفَضْلِ ) ( الْعَظِیْمِ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اگر خدا سے ڈرتے رہو گے اور اس کاتقویٰ اختیار کئے رہو گے تو خداوند عالم تمہارے لئے فرقان (حق اور باطل کی شناخت کی قوت) قرار دے گا اور تمہارے گناہوں کو چھپا دے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ تو بہت بڑے فضل اور بخشش والا ہے۔

چند نکات:

حق اور باطل کی شناخت کے معیار مختلف ہیں۔ مثلاً:

الف: "انبیاء اور اولیاء اللہ۔" جب کہ حدیث پیغمبر ہے" "( من فارق علیا فقد فارق الله ) " جس نے علی کو چھوڑ دیا (گویا) اس نے خدا کو چھوڑ دیا۔ (ملحقات احقائق الحق جلد ۴ ص ۲۶)

ب: " آسمانی کتاب"اس کی طرف رجوع کرکے حق کو باطل سے پہچانا جا سکتا ہے۔

ج: "تقویٰ" کیونکہ بے تقوائی کے ساتھ چونکہ خواہشات کے اور حب و بغض کے طوفانوں میں حقائق کا ادراک نہیں ہو سکتا۔

فرقان یا حق و باطل کی تشخیص، ایک خداداد حکمت اور بینش ہوتی ہے جس کا تعلق پڑھنے لکھنے اور معلومات کی فراوانی کے ساتھ نہیں ہوتا۔

"تکفیر سی( ٴ ) ات" یا گناہوں کی پردہ پوشی اور "مغفرت" کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس بارے میں حضرت فخر رازی فرماتے ہیں: "گناہوں کی پردہ پوشی دنیا میں ہوتی ہے اور مغفرت یعنی قہر خداوندی سے چھٹکارا آخرت میں ہوتا ہے" لیکن "تفسیر نمونہ" کے بقول: "تکفیر، گناہ کے اجتماعی، معاشرتی اور نفسیاتی آثار کے مٹانے کو کہا جاتا ہے جبکہ "مغفرت" جہنم سے نجات اور بخشش کا نام ہے"

پیام:

۱ ۔ تقویٰ، صحیح معرفت کا عامل (فرقان) ہے اور اسی سے انسان کی معاشرتی حیثیت اور آبرو قائم رہتی ہے۔ اور آخرت میں مغفرت نصیب ہوتی ہے( یغفر لکم )

۲ ۔ جو لوگ نفسانی خواہشات سے بچے رہتے ہیں وہ صحیح معنوں میں حق کو پہچان سکتے ہیں اور تقویٰ صحیح پہچان کا سبب ہوتا ہے۔ ۱۷

آیت ۳۰

( وَ اِذْیَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰهُطوَ اللّٰهُ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) اس وقت کو یاد کرو جب کافر لوگ تمہارے بارے میں منصوبے بنا رہے تھے کہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا بے گھر کر دیں، وہ تدبیریں سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیریں بنا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ بہترین تدبیریں بنانے والا ہے۔

دو نکات:

اس آیت میں "شب ہجرت" اور کفار کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے شیطانی منصوبوں کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبرائیل علیہ اسلام کے ذریعہ اس منصوبے کا علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود راتوں رات غار ثور کی طرف چل دیئے اور وہاں سے مدینہ کی جانب ہجرت فرما گئے۔

آیت کے مطابق آنحضرت کے متعلق تین طرح کے منصوبے کفار کے پیش نظر تھے اور یہ مشرکین کے "دارالندوہ" میں ان کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہوئے۔ بالآخر دوسری تجویز پاس ہوئی اور طے پایا کہ ہر قبیلے میں سے ایک ایک آدمی لیا جائے اور تمام افراد مل کر آپ پر حملہ کرکے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ تاکہ اس طرح سے پیغمبر اسلام کے لواحقین کسی سے آپ کے خون کا بدلہ نہ لے سکیں۔

پیام:

۱ ۔ جو خطرات اللہ نے تم سے دور کئے ہیں انہیں خاطر میں لاؤ تاکہ دل کو قوت اور قلب کو سکون حاصل ہو( واذیمکر )

۲ ۔ انبیاء کی مشکلات صرف مشرکین کی دشمنی یا ہٹ دھرمی ہی نہیں ہوتی تھیں، ان کی طرف سے دھمکیاں اور شیطانی منصوبے بھی ہوا کرتے تھے۔( واذیمکربک--- )

۳ ۔ قید، قتل اور جلاوطنی تو جباران تاریخ کا قدیم سے شیوہ چلا آ رہا ہے کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے حربے ہی اختیار کیا کرتے تھے( یثتبوک او یقتلوک--- )

۴ ۔ انسان کے تمام افکار، خدا کے سامنے ہوتے ہیں( یمکرون ویمکراللّٰه )

۵ ۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب اور اپنے دوستوں کا حامی ہوتا ہے اور مکڑی کے جالے سے اشرف المخلوقات کی حفاظت کرتا ہے، تاریخ کی عظیم ترین سازش کو ناکام بناتا ہے اور تاریخ کے دھارے موڑ دیتا ہے۔

۶ ۔ جہاں ضروری ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سازشوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔ جس سازش کے بارے میں دشمن چاہتا ہے کسی کو اس کا علم نہ ہونے پائے اسے ساری دنیا صدیوں تک جانتی سمجھتی رہتی ہے۔

۷ ۔ جو حق کے طرفداروں کے خلاف سازشیں کرتا ہے درحقیقت وہ خدا کے مقابلے میں آن کھڑا ہوتا ہے۔( یمکرون و یمکراللّٰه )

۸ ۔ ضروری نہیں ہے کہ سپر طاقتیں ہمیشہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں( --- )

۹ ۔ دشمن کا منصوبہ جس قدر مضبوط ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسی قدر کمزور مخلوق کے ذریعے اسے ناکام بنا دے گا( --- ) بلقیس کو ایک ہدید کے ذریعہ دعوت پہنچتی ہے ۔ فرزند آدم ایک کوے سے سبق سیکھتا ہے ابرہہ کے اور اس کے ہاتھی سوار لشکری ابابیل کے ذریعہ نابود ہوتے ہیں، نمرود کا ایک مچھر کے ذریعہ ستیاناس ہوتا ہے، اور کفار مکہ کی سازشیں، ایک مکڑی کے ذریعہ ناکام ہوتی ہیں۔

البتہ اس بارے میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب شب ہجرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اپنی جان خوشی خوشی پیغمبر اکرم پر فدا کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

"( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله والله روٴف بالعباد ) " (بقرہ/ ۲۰۷)

آیت ۳۱

( وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ اِنْ هٰذَآ اَلَّا ٓ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ )

ترجمہ۔ اور جب ان پر ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیا ہے، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس قرآن کی طرح کہہ سکتے ہیں، یہ تو پہلے لوگوں کے افسانوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

چند نکات:

سابقہ آیت میں پیغمبر اکرم کو قتل کرنے کے بارے میں دشمن کے قتل کے منصوبے کی بات ہو رہی تھی اور اس آیت میں دشمن کی طرف سے ان کے مکتب اور قرآن کو سبک کرنے کی گفتگو ہو رہی ہے۔

"اساطیر" جمع ہے "اسطورہ" کی جس کے معنی ہیں خرافاتی اور خیالی قصے کہانیاں،

بعثت سے پہلے " نضر بن حارث" ایران آیا تھا اور یہاں سے اس نے رستم اور اسفند یار کے قصے یاد کر لئے تھے، جب حجاز واپس گیا تو لوگوں سے کہنے لگا: "میں بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح قصے کہانیاں بیان کر سکتا ہوں" (تفسیر آلوسی، مجمع البیان، فی ظلال القرآن)

پیام:

۱ ۔ عوام فریبی، حقارت اور سبک سمجھنا دشمن کے حربوں میں شامل ہیں۔( لو نشأ لقلنا مثل هذا )

۲ ۔ دشمن ڈھول کا پول ہوتے ہیں وہ بلند بانگ دعوتے کرتے ہیں( لقلنا مثل هذا ) لیکن عملی میدان میں قرآن جیسی کتاب لانے سے عاجز ہیں۔

۳ ۔ قدیم الایام سے مومنین کو "قدامت پرستی" کی تہمتوں سے متہم کیا جاتا رہا ہے۔( اساطیر الاولین )

آیت ۳۲

( وَ اِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ اِنْ کَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ )

ترجمہ۔ اور (اس وقت کو یاد کرو) جب انہوں نے (مخالفین نے دعا کے ہاتھ اٹھا کر) کہا: خداوندا! اگر یہ (اسلام اور قرآن) حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا دردناک عذاب ہم پر نازل کر،

چند نکات:

اس قسم کی نفرین یا تو ان کے شدید تعصب اور سخت ہٹ دھرمی کی بنا پر ہوتی ہے جو کہ اپنی راہوں کو حق اور اسلام کو باطل سمجھتے تھے۔ یا پھر عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کہ اپنے لئے بددعا کریں تاکہ سادہ لوح عوام کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اسلام (نعوذباللہ) باطل ہے۔

جب میدان غدیرخم میں پیغمبر خدا نے اللہ کے حکم سے علی بن ابی طالب کو امامت کے لئے منصوب کرکے "من کنت مولاه کے ذریعہ اس کا اعلان فرمایا تو نعمان بن حارث جو کہ ایک منافق شخص تھا، آنحصرت صلی اللہ علییہ و آلہ وسلم کے پاس آ کر گستاخانہ لہجے میں کہنے لگا: تونے ہمیں توحید، نبوت، جہاد، حج، روزے۔ نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہم نے قبول کیا، اب اس جوان کو بھی ہمارے لئے امام مقرر کر دیا؟ اس پر آنحضرت نے فرمایا: "یہ خدا کے حکم سے تھا" اس نے غصے میں پاگل ہو کر اپنے لئے بددعا کی اور اسی آیت کے الفاظ سے اقتباس کیا۔ (الغدیر جلد اول ص ۲۳۹ تا ص ۲۶۶ ۔ منقول از ۳۰ علمائے اہلسنت)

پیام:

۱ ۔ دشمن اپنے آپ کو اہلِ حق منوانے کے لئے ہو سکتا ہے کہ اپنے اوپر لعنتیں بھی بھیجنا شروع کر دے۔

آیت ۳۳

( وَ مَا کَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْط وَمَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) جب تک تم ان لوگوں کے درمیان موجود ہو خدا انہیں عذاب نہیں دے گا اور جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے پھر بھی اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں ہے۔

دو نکات:

عذاب کی نفی سے مراد پیغمبر گرامی اسلام کے وجود مبارک کی وجہ سے مسلمانوں سے اس طرح کے عمومی عذاب اٹھا لئے گئے جن سے سابقہ اقوام ان سے دوچار ہوا کرتی تھیں، ورنہ انفرادی طور پر بہت سے افراد خصوصی مواقع پر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے ہیں۔

احادیث شریفہ میں ہے کہ خداوند عالم بعض پاک دل افراد اور علمائے ربانی کی وجہ سے بھی لوگوں کے سروں سے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود گرامی اہل زمین کے لئے امان ہے( وانت فیهم ) ۱۸

۲ ۔ استغفار، بلاؤں کو روک دیتی ہے۔( وهم یستغفرون ) ۱۸- A

آیت ۳۴

( وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُوْآ اَوْلِیَآءَ هط اِنْ اَوْلِیَآوٴُهٓ اِلَّا الْمُُتَّقُوْنَ وَٰلکِنَّ اَکْثَرَ هُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اور کیوں نہ خدا انہیں عذاب میں مبتلا کرے حالانکہ وہ لوگوں کو مسجد الحرام سے روکتے ہیں جبکہ وہ اس جگہ کے سرپرست بھی نہیں ہیں، متقی اور پرہیزگار لوگوں کے علاوہ کسی اور کو وہاں کی تولیت اور سرپرستی کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔

ایک نکتہ:

سابقہ آیت میں یہ بات ہو رہی تھی کہ لوگوں کے درمیان پیغمبر اکرم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارک اور ان کی استغفار کی وجہ سے قوم عاد و ثمود پر نازل ہونے والے عذابوں جیسے آسمانی عذاب اٹھا لئے گئے ہیں۔ اور اس آیت میں ان کو ملنے والے عذاب کی بات ہو رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس عذاب سے مراد دنیوی عذاب اور زمین پر جنگ ہو۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ عذاب کے مستحق تو ہیں لیکن یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر کی وجہ سے انہیں عذاب نہیں کرتا۔ یا یہ کہ انہیں دنیا میں عذاب نہیں دیا جاتا لیکن آخرت کاعذاب ان سے کبھی نہیں ٹل سکے گا۔ (از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ جو لوگوں کو مسجدالحرام میں جانے سے روکتے ہیں انہیں عذاب الٰہی کا منتظر ہونا چاہئے۔( وما لهم الایعذبهم… ) ۱۹

۲ ۔ جس گھر کی تولیت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں میں رہی ہو اور جس کی بنیادیں تقویٰ پر رکھی گئی ہوں اس کی تولیت غیرمتقی افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہونی چاہئے۔( ان اولیائه الاالمتقون )

آیت ۳۵

( وَ مَا کَانَ صَلاَ تُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصْدِیَةًط فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ )

ترجمہ۔ بیت اللہ (خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (دعا اور) نماز سیٹیوں اور تالیوں کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی۔ پس تم اپنے کفر کی وجہ سے عذاب کو چکھو۔

ایک نکتہ:

"مکاء" کے معنی ہیں سیٹی بجانا اور "تصدیہ" کے معنی ہیں تالی بجانا۔ مشرکین اس لئے سیٹیاں بجاتے تھے تاکہ خانہ کعبہ کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو باور کرا سکیں کہ یاترا کے لئے آئے ہوئے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ تاریخی طور پر مذہبی مراسم، تحریف سے دوچار چلی آ رہی ہیں( صلوٰتهم…مکاء )

۲ ۔ بعض اوقات مقدس ترین مرکز، خرافات کا بالاترین محور بن جاتا ہے۔

۳ ۔ اس آیت میں عذاب کا مصداق، مشرکین کی جنگ بدر میں شکست ہے۔( فذوقواالعذاب ) ۲۰

(یاد رہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اجلاسوں اور میٹنگوں میں صلوات پڑھنے کی بجائے تالیاں بجانا اسی دور جاہلیت کی ایک تبدیل شدہ صورت ہے جبکہ لوگ دعا و نماز کی بجائے سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔)

آیت ۳۶

( اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِط فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْْنُ ۵ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اپنے اموال کو اس لئے خرچ کرتے ہیں تاکہ خدا کی راہ سے (لوگوں کو) روکیں، پس وہ آئندہ بھی اس قسم کے خرچ کرتے رہیں گے (پھر ان کا یہ خرچ شدہ مال) ان کے لئے حسرت کا سبب بن جائے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے۔ اور جو لوگ کافر ہو چکے ہیں وہ جہنم کی طرف جمع کرکے لائے جائیں گے۔

ایک نکتہ:

منقول ہے کہ یہ آیت کفار مکہ کی جنگ بدر کے لئے سرمایہ کاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کے تحت انہوں نے ایک عظیم بجٹ جنگ کے لئے مخصوص کر دیا تھا، لیکن آیت کی عمومیت ان ہر قسم کی سرمایہ کاریوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جو دین اسلام سے مقابلہ اور نبردآزمائی کے لئے مخصوص کی جاتی ہیں۔ (جیسا کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے شیطان بزرگ امریکہ نے ایران کے اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کے لئے کئی ملین ڈالر کابجٹ مخصوص کر لیا ہے۔ از مترجم)

پیام:

۱ ۔ کفار تو اپنے ناپاک مقاصد کے لئے اپنا سرمایہ خرچ کریں لیکن مسلمان اپنے مقدس دین کے مقاصد کے لئے خرچ نہ کریں اور بخل سے کام لیں، کیا تعجب کی بات نہیں ہے؟

۲ ۔ جو مال و دولت، باطل کی راہ میں خرچ ہو گا وہ موجب حسرت بنے گا اور جو اس قدر خرچ کرکے مومنین کے مقابلے میں آئیں گے شکست سے دوچار ہوں گے۔

۳ ۔ وحی کے ذریعہ پیغمبر اکرم غیب کی خبر دے رہے ہیں کہ آئندہ بھی ایسے لوگ اسلام کے خلاف سرمایہ کاری کریں گے( فسینفقونها )

(از مترجم۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے دور حاضر کی شیطانی سپر طاقت امریکہ "نیو ورلڈ آرڈر" کے تحت عالم اسلام کو زک پہنچانے کی غرض سے کئی ملین ڈالر خرچ کر رہی ہے، یہ اسی شیطانی منصوبے کا تسلسل ہے جس کی پیشین گوئی اس آیت میں کی گئی ہے)

۴ ۔ کفار کی کوششوں کی سزا صرف دنیوی شکست ہی نہیں، انہیں آخرت میں عذاب بھی ہو گا( یغلبون…جهنم )

۵ ۔ کفر، سقوط و پستی اور جہنم میں جانے کا موجب ہوتا ہے۔

۶ ۔ مومن چونکہ خدا کی رضا کے لئے کام کرتا ہے اور اس کی خوشنودی کی خاطر سرمایہ خرچ کرتا ہے اگر اسے بظاہر کوئی نتیجہ نہ بھی ملے پھر بھی اس پر حسرت نہیں کرتا کیونکہ خداوند عالم اسے اس کا اجر ضرور عطا کرے گا۔

۷ ۔ "الذین کفروا" کے جملے کا تکرار شاید اس لئے ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والے بعض کفار بعد میں مسلمان ہو جاتے ہیں جو اپنے خرچ شدہ مال پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے کافر اپنے کفر پر باقی رہتے ہیں اور جہنم کا ایندھن بنتے ہیں اور جہنم ایسے کافروں کے لئے ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں۔

آیت ۳۷

( لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَه عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْ کُمَه جَمِیْعًا فَیَجْعَلَه فِیْ جَهَنَّمَط اُولٰٓئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ )

ترجمہ۔ (یہ حسرت اور شکست) اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ (اس جہان اور اس جہان میں) ناپاک لوگوں کو پاک و پاکیزہ لوگوں سے جدا کر دے اور ناپاک اور پلید لوگوں کو آپس میں ملا دے، اور باہم یکجا کرکے انہیں جہنم میں بھیج دے، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

ایک نکتہ:

"یرکمہ" کا کلمہ "رکم" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کئی چیزوں کو ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ رکھنا۔

پیام:

۱ ۔ باہمی تضادات، حدگیری اور حق و باطل کی جنگ کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اس سے حوصلوں کا، مقاصد کا، اعمال کا پائیداری کا اور سازشوں کا پتہ چلتا ہے اور انسان کے جوہر کھلتے ہیں۔( لیمیز اللّٰه )

۲ ۔ حق اور باطل کے طرفداروں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ابتدا ہی سے خدا کا کام چلا آ رہا ہے( لیمیز اللّٰه )

۳ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام ناپاک لوگوں کو جمع کرے گا اور سب کو اکٹھا واصل جہنم کرے گا( فیرکمه جمیعا )

۴ ۔ جگہ کی تنگی، دباؤ اور ایک دوسرے پر گرے پڑنا، جہنمیوں کی خصوصیات میں شامل ہے، اگرچہ دوزخ بہت وسیع ہے جو بھرنے میں بھی نہیں آئے گی بلکہ مسلسل "ھل من مزید" کی رٹ لگاتی رہے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ خوراک کی طالب ہو گی لیکن دوزخی ہمیشہ دباؤ اور جگہ کی کمی کی شکایت کریں گے۔ بالکل ویسے جیسے ایک بہت بڑی دیوار ہو جس میں بہت سی میخوں کی گنجائش ہو، لیکن ہر ایک میخ تنگی میں گھٹی ہوئی ہوتی ہے۔

آیت ۳۸

( قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَج وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کفار سے کہہ دیجئے کہ اگر (گمراہی اور ناشائستہ افعال سے) باز آ جائیں تو ان کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگر (اپنی سابق کارستانیوں کی طرف) پلٹ جائیں تو خدائی طریقہ کار جو گزشتہ لوگوں کے ساتھ چلا آ رہا ہے ان کے بارے میں بھی جاری ہو گا۔

پیام:

۱ ۔ مسلمان ہونا، سابقہ گناہوں او رخلاف ورزیوں کو مٹا دیتا ہے( ان ینتهوایغفِرلهم ما قد سلف ) ۲۱

۲ ۔ اسلام میں ہمیشہ توبہ اور اصلاح کی راہیں کھلی ہیں اور اسلام کبھی بند گلی میں محدود نہیں ہوتا ۔( ان ینتهوا )

۳ ۔ فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھا جائے کہ افراد کی موجود ہ حالت کیا ہے ؟ سابقہ حالت کو نہیں دیکھا جائے گا( ان ینتهوا- )

۴ ۔ تشویق کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی ہوتی ہے( ان ینتهوا، ان یعودوا )

۵ ۔ امید کا دروازہ کھلا رکھنے سے کسی کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئیے کہ کسی قسم کی کمزوری کی وجہ سے مجرمین کے لیے ایسا کیا گیاہے۔( ان ینتهوا ان یعودوا )

۶ ۔ لوگوں کو سوچنے کا موقع ، توبہ اور نظرثانی کی مہلت دینی چاہئیے( ان ینتهوا-- )

۷ ۔ پہلے تشویق وترغیب او راتمام حجت پھر دھمکی ، سختی اور دباؤ( ان ینتهوا، ان یعودوا )

۸ ۔ کافر اور زندیق کی توبہ بھی قابل قبول ہے ۔( قل للذین کفروا ان ینتهوا )

۹ ۔ اسلام جنگ کا خواہاں نہیں بلکہ اصلاح طلب دین ہے( ان ینتهوا یغفرلهم )

۱۰ ۔ اللہ کے عادلانہ اور حکیمانہ قوانین ہر دور میں ہر ایک کے لئے یکساں اور ناقابل تبدیلی ہیں( مضت سنت الاولین )

۱۱ سابقہ امتوں میں خدائی طریقہ کار یہ رہا ہے کہ خدانے انبیاء کو ہی غلبہ عطا فرمایاہے ۔ ۲۲

آیت ۳۹

( وَقَاتِلُوْ هُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّه لِلّٰهِج فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )

ترجمہ۔ اور ان (دشمنوں ) کے ساتھ اتنی جنگ کرو کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہ جائے ، اور دین سارے کا سارااللہ کا ہوجائے ، پس اگر ان لوگوں نے (اپنے کفرسے ) دست کشی اختیار کر لی تو خداوند بھی ان کے کارناموں کو جانتا ہے۔

دونکات:

۔ اسلام میں جنگ کشور کشائی کے لیے نہیں بلکہ دین اسلام کی وسعت وہمہ گیری اور فتنوں سے مقابلے کے لیے ہے ۔

۔ "فتنہ " کے وسیع معنی ہیں اور دباؤ پر مبنی ہر طرح کے اعمال کو بھی شامل ہے۔ اور قرآن مجید میں "شرک " کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ اور یہ شا ید اس لیے ہے کہ مشرکین کی طرف سے انسانی افکار ‘ معاشرے اورحق طلب افراد پر مختلف قسم کی حد بندیاں اور طرح طرح کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں ۔ یا پھر اس لئے کہ شرک چونکہ ابدی عذاب کا موجب ہوتا ہے اسی لئے مومنین اور پاک فطرت لوگوں پر اس کا مسلط کرنا بھی ایک فتنہ ہے۔ (از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ اسلام میں جنگ کا مقصد حق کی دعوت کے لئے فتنے او رکفار کے تسلط کا خاتمہ اور صاف ستھری فضا قائم کرے۔ ۲۳

۲ ۔ تاریخی طور پر جب تک کفار فتنہ پر دازی میں مشغول رہیں گے ، فتنے کے قلع قمع کرنے کا حکم بھی موجود رہے گا۔( وقا تلوهم حتی لا تکون فتنهته )

۳ ۔ یہ آیت دین میں آزادی اور "لا اکرہ فی الدین " کے منافی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ طاغوت اور فتنے کو جڑ سے اکھیڑ پھینکا جائے تا کہ آزادی کے ساتھ اسلام کی اختیار کرنے کی فضا ساز گار ہو۔

۴ ۔ جب بھی دشمن جنگ سے ہاتھ اٹھا لے اس کے اسی وقت کو مطابق مناسب سلوک کیا جائے۔

آیت ۴۰

( وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلِمُوْا اِنَّ اللّٰهَ مَوْلَکُمْط نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ )

ترجمہ۔ اور اگر (پھر بھی ) وہ رو گردانی اور سرپیچی کریں تو معلوم کر لو کہ خدا تمہارا مولا اور سر پرست ہے کس قدر بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے ۔

پیام:

۱ ۔ اگر دشمن ، فتنہ پر دازی سے باز نہ آئے تو تم مومنوں کو ہر گز گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لئے کہ تمہار ا دمدگار اللہ ہے ۔

۲ ۔ فوجی مسائل پر عملدر آور کراتے او ر سیاسی منصوبہ کرتے وقت تمام اطراف پر نگاہ ہونی چاہئیے( فان تولوا ) اور درفان انتہوا"

۳ ۔ تم اپنے فرائض ادا کرتے جاؤ اگر دوسرے اس پر عمل نہیں کرتے یا روگردانی کرتے ہیں تو نہ گھبراؤ خدا تمہارا یارویاو ر ہے ۔

۴ ۔ خدا کی ولدیت ، سر پرستی اور مدد و نصرت سے کبھی غفلت نہ بر تو ۔( فاعلموا )

۵ ۔ اللہ تعالی اور اس کے لطف و کرم کی یاد مومنین کے دلوں کو مشکل وقت اور ہرسازش کے موقع پر تفویت عطا کرتی اور سکون بخشتی ہے۔

۶ ۔ خداوند عالم بہترین مولا ہے کیونکہ نہ تو ہمیں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے اور نہ ہی فراموش کرتا ہے ۔ نہ ہمیں اپنے کسی ذاتی مفاد کے لئے چاہتا ہے او رنہ ہی کسی کا حق ضائع کرتا ہے ۔( نعم المولی ) ٰ)

۷ ۔ ہر یارویاور سے خدا کی مدد و نصرت بالا تر ہے( نعم النصیر )

آیت ۴۱

( وَاعْلَمُوْآ اَنَّماَ غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمْسَه وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلَ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِط وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ )

ترجمہ۔ اور جان لو کہ جو بھی غنیمت حاصل کرو تو یقینا اس کا خمس (پانچواں حصہ ) خدا ، رسول خدا اس کے قرابتداروں (اہلبیت) یتیموں ، بے نواؤں اور مسافروں کے لئے ہے ، اگرتم خدا اور اس چیز پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر حق اور باطل کی جدائی کے دن نازل کی ، جس (جنگ بدر کے) دن دو گروہ ایماندار اور بے ایمان آپس میں گھتم گتھا ہو گئے۔ اور اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

چند نکات :

۔ شیعی نقطہ نظر اور روایات کی رو سے اس آیت میں "غنیمت " جنگی غنائم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ بلکہ ہر طرح کی آمدنی کو شامل ہے خواہ وہ معدنیات ہوں ، غوطہ زنی ہو، تجارت ہو یا کوئی اور ذریعہ آمدنی۔ اور جنگ بدر کے موقع پر آیت کا نزول اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے مراد صرف جنگی غنیمتیں ہیں۔

۔ اس سورت کی سب سے پہلی آیت میں "انفال کو خدا اور رسول کا مال بتایا گیاہے او راس آیت میں مال غنیمت کے صرف پانچویں حصے کو اللہ اور رسول اللہ کا مال بتایا گیا ہے۔

۔ اگر غنیمت سے مراد "جنگی غنیمت "ہی لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خمس کا ایک موقع اور محل اسی آیت میں ہے اور دیگر موارد روایات میں بیان ہوئے ہیں ۔

۔" ذوی القربیٰ " سے مراد بہت سی شیعی روایات اور بعض اہلسنت روایات کے مطابق پیغمبر اسلام کے تمام رشتہ دار نہیں ہیں بلکہ صرف ائمہ اہلبیت ہی ہیں جن کے پاس امت اسلامیہ کی قیادت اور رہبر ی ہے ۔ اور خمس اسلامی حکومت اور ا س کے رہبر سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پیغمبر کے سارے رشتہ داروں سے۔

۔ خمس کا ایک اور مصرف سادات بنی ہاشم میں سے غریب و مسکین او رمسافر افراد ہیں۔ کیونکہ غریب سادات پر غیر سیدوں کی زکوة حرام ہے لہذا خمس کے ذریعہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

۔ روایات جو کہ ۔۔۔ذوی القربی" سے مراد معصوم امام سمجھتی ہیں ان کے علاوہ ان کا اللہ اور رسول کے ساتھ ہی ساتھ ذکر ہونا اور خاص طور پرحرف "لام" کے ساتھ آنا ا س بات کی دلیل ہے کہ ذوی القربےٰ سے مراد ائمہ اطہار ہیں جو خدا اور ا سکے رسول کے ساتھ ساتھ مذکورہیں۔

پیام:

۱ ۔ اب جب کہ تم جنگ بدر میں خدا کی مدد او رنصرت سے کامیاب ہو گئے ہو لہذا غنیمت کے ما ل سے خمس کی ادائیگی کے لئے ٹال مٹول سے کام نہ لو۔( ان کنتم آمنتم--قدیر )

۲ ۔ مال غنیمت کا خمس رسالت اور مقام حکومت کے لئے ہے ۔

۳ ۔ حکومت او ر سر براہ حکومت راہبر اور قائد کو تبلیغ اور رسالت کے لئے اموال کی ضرورت ہوتی ہے( لله وللرسول )

۴ ۔ خمس واجب ہے خواہ آمدنی او رغنیمت کم ہی کیوں نہ ہوں ،( من شییٴ )

۵ ۔ ایمان ‘ ایثار کا موجب ہوتاہے۔( لله خمسه-- ان کنتم آمنتم )

۶ ۔ مالی قربانی اس حد تک مشکل ہوتی ہے کہ بعض موقعوں پر مجاہدین کیلئے بھی دشوار ہو جاتی ہے( ان کنتم - )

۷ ۔ غریب طبقہ اور حکومت ، لوگوں کے ۲۰ فیصد اموال کے مالک ہیں ۔( لله خمسه و -- )

۸ ۔ خداوند عالم کو مال کی ضرورت نہیں ، آیت میں خدا کے سہم (حصے) کا ذکر خدا اور رسول کی حاکمیت اور ولایت کے لئے ہے۔

۹ ۔ خدا کا حصہ کلمہء حق کی بلندی ، خانہ کعبہ ، دینی تبلیغات اور قانون الہٰی کی حاکمیت اور سر بلندی کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔

۰ ۔ فقرو فاقہ اور محرومیت کو دور کرنا اسلام کے پروگراموں میں شامل ہے لہذا جہاد او رغنیمت کے ثمرات سے فقراء اور مساکین کو بہرہ ور کیاجانا چاہئیے ۔

۱۱ ۔ ایمان کامل کی نشانی یہ ہے کہ خدا کے تمام قوانین کے آگے سر تسلیم خم کر دیا جائے ، صرف عبادات اور جنگ ہی میں سر کو نہ جھکایا جائے۔( ان کنتم---- )

۱۲ ۔ جنگ کا دن ، سچوں کا جھوٹوں سے جدا ہونے کا دن ہوتا ہے( یوم الفرقان )

۱۳ ۔ جنگ بدر میں خدائی امدادوں نے حقانیت اسلام کوروشن کر دیا۔

۱۴ ۔ جس طرح "غرامت " ہر قسم کے نقصان کو کہا جاتا ہے صرف جنگی نقصان ہی کو نہیں کہا جاتا ۔ ۲۴ اسی طرح "غنیمت " بھی ہر گونہ منافع اور فائدوں کو کہا جاتا ہے صرف جنگی مال کو نہیں ۔

۱۵ ۔ خدا کا سہم (حصہ) رسول خدا کے پاس ہوتا ہے او ررسول خدا کا سہم (حصہ) امام علیہ اسلام کے اختیار میں ہوتا ہے ۔ (روایات کی رو سے ۔ تفسیر صافی )

۔ آیت میں مذکورسہم میں فیصلہ کرنا امام کا کام ہوتا ہے (حضرت امام رضاعلیہ السلام کا تفسیر صافی )

۔ معاشرہ کے غریب اور محروم لوگوں کی شان بلند کرنے کے لئے ان کا نام اللہ او ررسول اللہ کے ناموں کے ساتھ ہی مذکور ہوا ہے

آیت ۲۰ ، ۲۱

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَه وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ صلي وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور اب جبکہ اس کی باتوں کو سنتے ہو تو اس سے روگردانی نہ کرو۔

اور ان لوگوں کی مانند نہ بنو جو کہتے ہیں کہ "ہم نے سن لیا" درحقیقت وہ نہیں سن رہے ہوتے۔

ایک نکتہ:

پورے قرآن میں جہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہو وہاں اس کے رسول کی اطاعت کا حکم بھی مذکور ہے اور گیارہ مقامات پر "اتقوااللہ" کے بعد "اطیعون" کا جملہ مذکور ہے۔ اور اس آیت میں اگرچہ خدا اور رسول "دونوں کی اطاعت کا ذکر ہے لیکن صرف رسول پاک کے فرمان کی سرپیچی سے منع کیا گیا ہے نہ کہ خدا اور رسول کے فرمان کی سرپیچی سے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے (خدا کی نہیں) رسول کی اطاعت مشکل تھی اور وہ بھی خصوصی طور پرجنگ بدر میں اور فوجی مسائل کے بارے میں آنحضرت کے فرامین کی اتباع اور بھی مشکل تھی۔

پیام:

۱ ۔ نظام برحق کو بحال رکھنے کے لئے لوگوں کو ہمیشہ خدائی رہبری کی اطاعت کی تاکید کرتے رہنا چاہئے( اطیعوا الله و رسوله )

۲ ۔ پیغمبر کی عدم اطاعت یا ان کی نافرمانی درحقیقت خدا کی نافرمانی ہے( ولا تولوا عنه ) ہے "عنہما" نہیں ہے۔

۳ ۔ سننا اور سمجھنا، ذمہ داری کا موجب بن جاتا ہے( تسمعون )

۴ ۔ دور سابق میں خلاف ورزی کرنے والوں کے حالات سننا اور ان سے آگاہ ہونا عبرت کا موجب ہوتا ہے( ولاتکونوا کالذین… )

۵ ۔ قائد اور رہبر کی اطاعت صدق دل سے کرو، صرف "ہم نے سن لیا ہے" کہہ کر جان نہ چھڑاؤ( ولاتکونوا… )

آیت ۲۲

( اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَاللّٰهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین چلنے والے وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

دو نکات:

"صم" جمع ہے "اصم" کی جس کے معنی ہیں بہرا اور "بکم" جمع ہے "ابکم" کی جس کے معنی ہیں گونگا۔

جو لوگ انبیاء علیہم اسلام کی الٰہی تربیت کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی حق کے آگے اپنے دل و جان کو جھکاتے ہیں، قرآن کی تعبیرات میں انہیں کہیں تو:

الف: مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے: "( انا لاتسمع الموتي ) ٰ" آپ یقینا مردوں کو نہیں سنواتے۔ (روم/ ۵۲)

ب: چوپایوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسے: "( یا کل کماتا کل الانعام ) " ایسے کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھائیں (محمد/ ۱۲)

ج: چوپایوں سے بھی بدتر کہا گیا ہے، جیسے: "( کالانعام بل هم اضل ) " چوپایوں جیسے بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں (اعراف/ ۱۷۹)

د: روئے زمین پر چلنے والوں میں سے بدتر بھی کہا گیا ہے جیسے: "( شرالدواب ) " بدترین چلنے والے (انفال/ ۲۲)

پیام:

۱ ۔ انسان کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل سے کام لیتا ہے، اگر ایسا نہیں کرتا تو ہر چلنے والے سے بدتر ہے( شرالدواب )

۲ ۔ کان اور زبان کا حامل ہونا اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ ان اعضأ سے صحیح کام لیا جائے جس شخص کی زبان سے امر بالمعروف یا نہیں عن المنکر کا کلمہ نہیں نکلتا وہ گویا گونگا ہے۔

۳ ۔ دینی تعلیمات سے رخ موڑنے والے بے عقل ہیں( لایعقلون ) ۸

آیت ۲۳

( وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَ سْمَعَهُمْط وَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اگر اللہ کو ان میں کوئی اچھائی نظر آتی تو انہیں ضرور سننے والا بنا دیتا (حق بات ان کے دلوں تک پہنچاتا) اور اگر انہیں سنواتا تو بھی وہ سرکشی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے۔

ایک نکتہ:

ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کی چند قسمیں ہیں۔

۱ ۔ کچھ تو وہ ہیں جو قرآن مجید کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں: "( لاتسمعوا لهذا القرآن ) " اس قرآن کو نہ سنو۔ (فصلت/ ۲۶)

۲ ۔ کچھ وہ ہیں جو سنتے اور سمجھتے تو ہیں لیکن اس میں تحریف کرتے ہیں۔

۳ ۔ اور کچھ وہ ہیں جو اپنے شدید تعصب، حسد اور سنگدلی کی وجہ سے اپنے اندر تشخیص دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔

پیام:

۱ ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کے اسباب خود اپنے اندر تلاش کرنے چاہئیں۔( فیهم )

۲ ۔ صرف آیات قرآنی کا یاد کر لینا، نور نہیں، حق کو قبول کر لینے کا نام نور ہے( ولواسمعهم لتولوا )

۳ ۔ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کی ہدایت سے کوئی مضائقہ نہیں، ضدی لوگ اپنا منہ پھیر لیتے ہیں( ولوعلم…لاسمعهم )

۴ ۔ انسان آزاد ہے اور حق کی ہر آواز کے سننے سے روگردانی کر سکتا ہے( لو اسمعهم لتولوا )

آیت ۲۴

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْ الِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْج وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِه وَ اَنَّهٓ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! تمہیں جب بھی اللہ اور اس کا رسول اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہاری زندگی کا سبب ہے تو فوراً اس کا جواب دو۔ اور جانے رہو کہ اللہ تعالیٰ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، اور یہ کہ تم کو اسی کی طرف محشور ہونا ہے۔

چند نکات:

حیات (زندگی) کی مختلف قسمیں ہیں۔

۱ ۔ نباتاتی حیات: جیسے "( یحی الارض بعد موتها ) " اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ (روم/ ۱۹)

۲ ۔ حیوانی حیات: جیسے "( لمحی الموتی ) " اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ (روم/ ۵۰ فصلت/ ۳۹)

۳ ۔ فکری حیات: جیسے "( من کان میتا فاحییناه ) " مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا (انعام/ ۱۲۲)

۴ ۔ ابدی حیات: جیسے "( قدمت لحیاتی ) " کاش میں اپنی زندگی کے لئے پہلے سے کچھ بھیجتا (فجر/ ۱۴)

جو حیات(زندگی) انبیاء کی دعوت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے وہ "حیوانی زندگی" نہیں ہے، کیونکہ وہ تو ان کی دعوت کے بغیر بھی حاصل ہے، بلکہ مراد فکری، عقلی اور معنوی زندگی ہے۔

خدا کا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہر جگہ پر حاضر ناظر ہے اور وہ ہر چیز کو اپنے قبضہ قدرت میں لئے ہوئے ہے۔ تمام توفیقات اسی کی طرف سے ہیں، وہ ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ عقل اور روح کی کارکردگی بھی اسی کے دست قدرت میں ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اسلام کی دعوت کی قبولیت درحقیقت خدا کی دعوت کی پذیرائی ہے (دعا کم) فرمایا ہے، "( دعواکم ) " نہیں۔

۲ ۔ انسان کی حقیقی حیات وزندگی تو ایمان اور عمل صالح ہی میں ہے اور انبیاء بھی اسی کی دعوت دیتے ہیں ۹( لما یحییکم )

۳ ۔ احکام اسلام معنوی حیات عطا کرتے ہیں، جس طرح کہ دوا یا عمل جراحی (آپریشن) زندگی دیتے ہیں۔

۴ ۔ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے رستوں پر چلنے سے حقیقی زندگی ملتی ہے اور ان سے ہٹ کر چلنے سے انسانیت کی موت ہے۔

۵ ۔ زندگی بہت قیمتی چیز ہے اور انبیاء کا راستہ انمول نعمت ہے۔

۶ ۔ شیعہ، سنی روایات کے مطابق "حیات طیبہ" کے مصداقوں میں سے ایک مصداق علی اور اولاد علی علیہم السلام کی ولایت کے بارے میں پیغمبر اسلام کی آواز کو سننا اور قبول کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر فرقان، منقول از مناقب ترمذی)

۷ ۔ جس شخص کا اس بات پر ایمان ہوتا ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے اور وہ ہر چیز پر محیط ہے تو وہ انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے سے روگردانی نہیں کرتا۔( یحول بین المرٴو قلبه- استجیبوا )

۸ ۔ جب تک اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے اور تمہارے پاس فرصت بھی ہے تو حق کو قبول کر لو (اس تفسیر کی بنا پر خدا کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونا، موت سے کنایہ ہے)

۹ ۔ خدا کا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا ایک مصداق "محو و اثبات" کا مسئلہ بھی ہے یعنی کفر کا محو کرنا اور ایمان کا اثبات کرنا، شک اور غفلت کا محو کرنا اور یاد اور یقین کا اثبات کرنا۔ (تفسیر فرقان، اسی آیت کے ذیل میں حضرت امام محمد باقر علیہ اسلام کا فرمان)

۱۰ ۔ مومن کو اپنے ایمان پر مغرور اور کافر کو اپنے کفر سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ دلوں کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ "مقلب القلوب" (دلوں کو پھیرنے والا) ہے۔( یحول بین المرٴو قلبه )

۱۱ ۔ تم سب کو قیامت کے دن محشور ہونا ہے، لہٰذا انبیاء الٰہی کو ان کی دعوت پر مثبت جواب دو۔( استجیبوا…الیه تحشرون )

آیت ۲۵

( وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّةًج وَ اعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )

ترجمہ۔ اور اس فتنے سے ڈرو جو صرف تم میں سے ظالم لوگوں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا، اور جانے رہو کہ خداوند سخت عذاب دینے والا ہے۔

چند نکات:

سابقہ آیت میں پیغمبر اسلام کی طرف سے "حیات طیبہ" کی دعوت قبول کرنے کا حکم تھا اور اس آیت میں فرماتا ہے: "اگر تم نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو یاد رکھو ایسے فتنے میں گرفتار کر لئے جاؤ گے جس کی آگ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

"فتنہ" کے کئی معنی ہیں مثلاً شرک، کفر، آزمائش، شکنجہ وغیرہ۔

سابقہ آیت میں پیغمبر اکرم کی اطاعت کا حکم تھا، اور اس آیت میں فتنے سے ڈرنے کا حکم ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فتنہ: پیغمبر اسلام کی اطاعت نہ کرنے کا نام ہے۔ اور آیت کا مفہوم وہی "( واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا ) " ہے۔ (تفسیر المیزان)

فساد اور فحاشی ایک نظام کی چھت کو گرا دیتے ہیں جس کا نقصان سب کو پہنچتا ہے جیسے بنی امیہ کے حکام کا فساد ہے، کیونکہ جب لوگوں نے پیشوائے حق کی ولایت کا انکار کر دیاتو بنی امیہ کے فساد کی زنجیروں میں صدیوں تک ذلیل و خوار ہو کر جکڑے رہے۔ ۱۰

پیام:

۱ ۔ معاشرہ کے افراد اپنے کاموں کے علاوہ دوسروں کے کاموں پر بھی نظر رکھیں، کیونکہ خلاف ورزی کے مضر اثرات سب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ جس طرح کہ کشتی کے پیندے میں سوراخ کر دینے سے اس میں سوار تمام لوگ ڈوب سکتے ہیں۔( لاتصیبن )

۲ ۔ نہ تو خود فتنہ برپا کرو، نہ دوسرے فتنہ پرور لوگوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ اور نہ ہی ان کی فتنہ پردازیوں پر خاموشی اختیار کرو۔( واتقوا فتنة )

۳ ۔ فتنے سے بچنے کا مقصد اس سے ہوشیا ر رہنا ہے نہ کہ معاشرہ سے کٹ جانا ہے۔

۴ ۔ زمانے میں پیدا ہونے والے آشوب اور فتنوں میں ہوشیار رہنا چاہئے کہ کہیں تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ ۱۱

آیت ۲۶

( وَ اذْکُرُوْآ اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِه وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب تم (تعداد میں) کم تھے اور (مکہ کی) زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے، تمہیں ہر وقت یہ ڈر رہتا تھا کہ (دشمن) لوگ تمہیں جلدی اچک لیں گے، پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں (مدینہ میں) پناہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمہاری تائید کی اور تمہیں ہر قسم کی پاکیزہ روزی عطا فرمائی، شاید کہ تم شکرگزار بن جاؤ۔

پیام:

۱ ۔ ناتوانی اور کمزوری کے دنوں اور خدائی امداد کی یادآوری، خدا کے شکر، اس کے ساتھ عشق و محبت اور اس پر توکل کا سبب ہوتا ہے( لعلکم تشکرون )

۲ ۔ ناتوانی اور امداد الٰہی کے ایام کی یاد، فتنوں سے دور رہنے کا موجب ہوتی ہے( واتقوا فتنة- واذکروا )

۳ ۔ راہ حق میں افرادی قلت، کمزوری و ناتوانی اور جلاوطنی سے نہیں گھبرانا چاہئے کیونکہ تمام باوقار انقلابی اسی راہ سے گزر چکے ہیں۔

آیت ۲۷

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُونُوْآ اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور (نہ ہی) اپنی امانتوں کے ساتھ خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو کہ اللہ، رسول اور امانتوں کے ساتھ خیانت نہیں کی جاتی۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شان نزول میں شیعہ اور سنی تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق بنی قریظہ کے یہودیوں کا محاصرہ کیا گیا تو اس دوران انہوں نے صلح کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر شام چلے جائیں گے۔ لیکن آنحضرت نے ان کی اس پیشکش کو قبول نہ فرمایا بلکہ اس بارے میں مذاکرات کے لئے سعد بن معاذ کو مامور فرمایا۔

اس وقت "ابو لبابہ" نامی ایک مسلمان موجود تھا، اس کی یہودیوں کے ساتھ پرانی دوستی تھی، اس دوران اس نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ سعد بن معاذ کو قبول کرنے کی صورت میں سب تہ تیغ کر دیئے جاؤ گے۔ جبرائیل علیہ اسلام نے ابو لبابہ کے اس اشارے کی حضرت رسول خدا کو خبر دی۔ ابو لبابہ بہت شرمندہ ہوا کہ اس نے تو بہت بڑی خیانت کی ہے۔ اس نے اس کے پاداش کے طور پر اپنے آپ کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا اور سات رات دن تک کچھ نہ کھایا۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کو قبول فرمایا( --- ) (تفسیر مجمع البیان، تفسیر صافی، تفسیر نمونہ اور دوسری تفاسیر)

اس کا ایک اور شان نزول بھی بتایا گیا ہے وہ یہ کہ جنگ بدر میں ایک مسلمان شخص نے ابو سفیان کو خط لکھا جس میں اس نے حضرت پیغمبر خدا صلے اللہ وآلہ وسلم کے منصوبوں سے اسے آگاہ کیا، جس کی وجہ سے ابوسفیان نے اہل مکہ سے مدد طلب کی اور ایک ہزار آدمی اس کی مدد کے لئے بدر کی جانب چل دیا۔ (تفسیر المیزان۔ تفسیر مجمع البیان)

پیام:

۱ ۔ بعض اوقات دشمن کے حق میں ایک اشارہ بھی خیانت میں شمار ہوتا ہے (ابو لبابہ کا واقعہ اور آیت کا شان نزول)

۲ ۔ خیانت فطری طور پر بھی بری اور قابل مذمت عادت ہے( وانتم تعلمون )

۳ ۔ جان بوجھ کر خیانت کرنا تو اور بھی خطرناک بات ہے( وانتم تعلمون )

۴ ۔ فوجی رازوں کا فاش کرنا بدترین خیانت ہے (آیت کے دوسرے شان نزول کے مطابق)

البتہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ انفال، زکوٰة ، خمس اور دوسرے لوگوں کے باقی اموال تمہارے ہاتھوں میں امانت ہیں۔ اسی طرح مذہب و مکتب، رہبر و قائد، قرآن مجید، اولاد، وطن کی آب و خاک سب خدائی امانتیں ہیں)

۵ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت اطہار علیہم السلام بھی اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔ ۱۲

۶ ۔ اہل، لائق، افضل اور صالح افراد کے ہوتے ہوئے نااہل، نالائق، "مفضول" اور غیرصالح افراد کو آگے لانا اور انہیں معاشرتی اجتماعی، حکومتی اور سرکاری ذمہ داریاں سونپنا خدا، رسول اور مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی خیانت اور بددیانتی ہے۔

۷ ۔ ایک تو ہم خود بھی اپنے لئے امانت ہیں اور اس کے ساتھ یہ معاشرہ بھی ہمارے لئے امانت ہے۔ (ایک اور آیت میں ہے "تختانون انفسکم" اپنے آپ کے ساتھ خیانت کرتے ہو (بقرہ/ ۱۷۸)

۸ ۔ اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت دراصل تمہاری اپنے ساتھ خیانت ہے اور اس کا نقصان خود تمہیں پہنچے گا۔ ۱۳

(ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رہے کہ جب تک ہمیں اپنی توبہ کی قبولیت کا یقین نہ ہو جائے، اس وقت تک اپنے آپ کو مطمئن نہ سمجھیں۔) ۱۴

آیت ۲۸

( وَ اعْلَمُوْآ اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُ کُمْ فِتْنَةٌ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عنِدْهٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ )

ترجمہ۔ جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں اور خدا کے نزدیک یقینا بہت بڑا اجر ہے۔

ایک نکتہ:

مال اور اولاد کے ساتھ انسان کی محبت، انسان کے لئے بہت سی لغزشوں کا سبب بن سکتی ہے، حرام کا کاروبار، دروغ گوئی، ذخیرہ اندوزی، کم فروشی، راہ خدا میں خرچ نہ کرنا، خمس و زکوٰة کی عدم ادائیگی، حرص و لالچ، تخریب کاری، جھوٹی قسمیں، حقوق الناس کا ضیاع غرض اس قسم کی کئی دوسری خرابیوں کی اصل جڑ مال کے ساتھ بے تحاشا محبت ہے، اسی طرح میدان جنگ سے فرار، افراد خاندان سے جدا نہ ہونا، اسی طرح کی دوسری خامیوں کا اصل سبب اولاد کے ساتھ محبت ہے۔

پس یہ سب امتحان کے اسباب و عوامل ہیں، جس طرح (سابقہ آیت کی رو سے) ابولبابہ ایک لغزش کا شکار ہو گیا تھا، تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنے مال اور اولاد کو بچانے کے لئے دشمن کے ساتھ ہمکاری پر آمادہ ہو گیا تھا۔

پیام:

۱ ۔ مال اور اولاد کے ساتھ حد سے زیادہ محبت انسان کو خیانت پر آمادہ کر دیتی ہے( لاتخونوا…واعلموا--- ) سابقہ آیت کے شان نزول کے پیش نظر ۱۵

۲ ۔ مال اور اولاد دو ایسے جال ہیں جو انسان کو فریب دینے کے لئے اس کی راہوں میں بچھے ہوئے ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک نے مختلف تعبیرات کے ساتھ ان سے خبردار رہنے کو کہا ہے (فتنة) ۱۶

۳ ۔ خداوند عالم کے اجر عظیم کی طرف توجہ ہی سے انسان کے دل سے دنیا کی محبت اور خیانت جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے( اجر عظیم )

آیت ۲۹

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْط وَاللّٰهُ ذُوْالْفَضْلِ ) ( الْعَظِیْمِ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اگر خدا سے ڈرتے رہو گے اور اس کاتقویٰ اختیار کئے رہو گے تو خداوند عالم تمہارے لئے فرقان (حق اور باطل کی شناخت کی قوت) قرار دے گا اور تمہارے گناہوں کو چھپا دے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ تو بہت بڑے فضل اور بخشش والا ہے۔

چند نکات:

حق اور باطل کی شناخت کے معیار مختلف ہیں۔ مثلاً:

الف: "انبیاء اور اولیاء اللہ۔" جب کہ حدیث پیغمبر ہے" "( من فارق علیا فقد فارق الله ) " جس نے علی کو چھوڑ دیا (گویا) اس نے خدا کو چھوڑ دیا۔ (ملحقات احقائق الحق جلد ۴ ص ۲۶)

ب: " آسمانی کتاب"اس کی طرف رجوع کرکے حق کو باطل سے پہچانا جا سکتا ہے۔

ج: "تقویٰ" کیونکہ بے تقوائی کے ساتھ چونکہ خواہشات کے اور حب و بغض کے طوفانوں میں حقائق کا ادراک نہیں ہو سکتا۔

فرقان یا حق و باطل کی تشخیص، ایک خداداد حکمت اور بینش ہوتی ہے جس کا تعلق پڑھنے لکھنے اور معلومات کی فراوانی کے ساتھ نہیں ہوتا۔

"تکفیر سی( ٴ ) ات" یا گناہوں کی پردہ پوشی اور "مغفرت" کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس بارے میں حضرت فخر رازی فرماتے ہیں: "گناہوں کی پردہ پوشی دنیا میں ہوتی ہے اور مغفرت یعنی قہر خداوندی سے چھٹکارا آخرت میں ہوتا ہے" لیکن "تفسیر نمونہ" کے بقول: "تکفیر، گناہ کے اجتماعی، معاشرتی اور نفسیاتی آثار کے مٹانے کو کہا جاتا ہے جبکہ "مغفرت" جہنم سے نجات اور بخشش کا نام ہے"

پیام:

۱ ۔ تقویٰ، صحیح معرفت کا عامل (فرقان) ہے اور اسی سے انسان کی معاشرتی حیثیت اور آبرو قائم رہتی ہے۔ اور آخرت میں مغفرت نصیب ہوتی ہے( یغفر لکم )

۲ ۔ جو لوگ نفسانی خواہشات سے بچے رہتے ہیں وہ صحیح معنوں میں حق کو پہچان سکتے ہیں اور تقویٰ صحیح پہچان کا سبب ہوتا ہے۔ ۱۷

آیت ۳۰

( وَ اِذْیَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰهُطوَ اللّٰهُ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) اس وقت کو یاد کرو جب کافر لوگ تمہارے بارے میں منصوبے بنا رہے تھے کہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا بے گھر کر دیں، وہ تدبیریں سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیریں بنا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ بہترین تدبیریں بنانے والا ہے۔

دو نکات:

اس آیت میں "شب ہجرت" اور کفار کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے شیطانی منصوبوں کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبرائیل علیہ اسلام کے ذریعہ اس منصوبے کا علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود راتوں رات غار ثور کی طرف چل دیئے اور وہاں سے مدینہ کی جانب ہجرت فرما گئے۔

آیت کے مطابق آنحضرت کے متعلق تین طرح کے منصوبے کفار کے پیش نظر تھے اور یہ مشرکین کے "دارالندوہ" میں ان کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہوئے۔ بالآخر دوسری تجویز پاس ہوئی اور طے پایا کہ ہر قبیلے میں سے ایک ایک آدمی لیا جائے اور تمام افراد مل کر آپ پر حملہ کرکے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ تاکہ اس طرح سے پیغمبر اسلام کے لواحقین کسی سے آپ کے خون کا بدلہ نہ لے سکیں۔

پیام:

۱ ۔ جو خطرات اللہ نے تم سے دور کئے ہیں انہیں خاطر میں لاؤ تاکہ دل کو قوت اور قلب کو سکون حاصل ہو( واذیمکر )

۲ ۔ انبیاء کی مشکلات صرف مشرکین کی دشمنی یا ہٹ دھرمی ہی نہیں ہوتی تھیں، ان کی طرف سے دھمکیاں اور شیطانی منصوبے بھی ہوا کرتے تھے۔( واذیمکربک--- )

۳ ۔ قید، قتل اور جلاوطنی تو جباران تاریخ کا قدیم سے شیوہ چلا آ رہا ہے کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے حربے ہی اختیار کیا کرتے تھے( یثتبوک او یقتلوک--- )

۴ ۔ انسان کے تمام افکار، خدا کے سامنے ہوتے ہیں( یمکرون ویمکراللّٰه )

۵ ۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب اور اپنے دوستوں کا حامی ہوتا ہے اور مکڑی کے جالے سے اشرف المخلوقات کی حفاظت کرتا ہے، تاریخ کی عظیم ترین سازش کو ناکام بناتا ہے اور تاریخ کے دھارے موڑ دیتا ہے۔

۶ ۔ جہاں ضروری ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سازشوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔ جس سازش کے بارے میں دشمن چاہتا ہے کسی کو اس کا علم نہ ہونے پائے اسے ساری دنیا صدیوں تک جانتی سمجھتی رہتی ہے۔

۷ ۔ جو حق کے طرفداروں کے خلاف سازشیں کرتا ہے درحقیقت وہ خدا کے مقابلے میں آن کھڑا ہوتا ہے۔( یمکرون و یمکراللّٰه )

۸ ۔ ضروری نہیں ہے کہ سپر طاقتیں ہمیشہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں( --- )

۹ ۔ دشمن کا منصوبہ جس قدر مضبوط ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسی قدر کمزور مخلوق کے ذریعے اسے ناکام بنا دے گا( --- ) بلقیس کو ایک ہدید کے ذریعہ دعوت پہنچتی ہے ۔ فرزند آدم ایک کوے سے سبق سیکھتا ہے ابرہہ کے اور اس کے ہاتھی سوار لشکری ابابیل کے ذریعہ نابود ہوتے ہیں، نمرود کا ایک مچھر کے ذریعہ ستیاناس ہوتا ہے، اور کفار مکہ کی سازشیں، ایک مکڑی کے ذریعہ ناکام ہوتی ہیں۔

البتہ اس بارے میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب شب ہجرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اپنی جان خوشی خوشی پیغمبر اکرم پر فدا کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

"( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله والله روٴف بالعباد ) " (بقرہ/ ۲۰۷)

آیت ۳۱

( وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ اِنْ هٰذَآ اَلَّا ٓ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ )

ترجمہ۔ اور جب ان پر ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیا ہے، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس قرآن کی طرح کہہ سکتے ہیں، یہ تو پہلے لوگوں کے افسانوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

چند نکات:

سابقہ آیت میں پیغمبر اکرم کو قتل کرنے کے بارے میں دشمن کے قتل کے منصوبے کی بات ہو رہی تھی اور اس آیت میں دشمن کی طرف سے ان کے مکتب اور قرآن کو سبک کرنے کی گفتگو ہو رہی ہے۔

"اساطیر" جمع ہے "اسطورہ" کی جس کے معنی ہیں خرافاتی اور خیالی قصے کہانیاں،

بعثت سے پہلے " نضر بن حارث" ایران آیا تھا اور یہاں سے اس نے رستم اور اسفند یار کے قصے یاد کر لئے تھے، جب حجاز واپس گیا تو لوگوں سے کہنے لگا: "میں بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح قصے کہانیاں بیان کر سکتا ہوں" (تفسیر آلوسی، مجمع البیان، فی ظلال القرآن)

پیام:

۱ ۔ عوام فریبی، حقارت اور سبک سمجھنا دشمن کے حربوں میں شامل ہیں۔( لو نشأ لقلنا مثل هذا )

۲ ۔ دشمن ڈھول کا پول ہوتے ہیں وہ بلند بانگ دعوتے کرتے ہیں( لقلنا مثل هذا ) لیکن عملی میدان میں قرآن جیسی کتاب لانے سے عاجز ہیں۔

۳ ۔ قدیم الایام سے مومنین کو "قدامت پرستی" کی تہمتوں سے متہم کیا جاتا رہا ہے۔( اساطیر الاولین )

آیت ۳۲

( وَ اِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ اِنْ کَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ )

ترجمہ۔ اور (اس وقت کو یاد کرو) جب انہوں نے (مخالفین نے دعا کے ہاتھ اٹھا کر) کہا: خداوندا! اگر یہ (اسلام اور قرآن) حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا دردناک عذاب ہم پر نازل کر،

چند نکات:

اس قسم کی نفرین یا تو ان کے شدید تعصب اور سخت ہٹ دھرمی کی بنا پر ہوتی ہے جو کہ اپنی راہوں کو حق اور اسلام کو باطل سمجھتے تھے۔ یا پھر عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کہ اپنے لئے بددعا کریں تاکہ سادہ لوح عوام کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اسلام (نعوذباللہ) باطل ہے۔

جب میدان غدیرخم میں پیغمبر خدا نے اللہ کے حکم سے علی بن ابی طالب کو امامت کے لئے منصوب کرکے "من کنت مولاه کے ذریعہ اس کا اعلان فرمایا تو نعمان بن حارث جو کہ ایک منافق شخص تھا، آنحصرت صلی اللہ علییہ و آلہ وسلم کے پاس آ کر گستاخانہ لہجے میں کہنے لگا: تونے ہمیں توحید، نبوت، جہاد، حج، روزے۔ نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہم نے قبول کیا، اب اس جوان کو بھی ہمارے لئے امام مقرر کر دیا؟ اس پر آنحضرت نے فرمایا: "یہ خدا کے حکم سے تھا" اس نے غصے میں پاگل ہو کر اپنے لئے بددعا کی اور اسی آیت کے الفاظ سے اقتباس کیا۔ (الغدیر جلد اول ص ۲۳۹ تا ص ۲۶۶ ۔ منقول از ۳۰ علمائے اہلسنت)

پیام:

۱ ۔ دشمن اپنے آپ کو اہلِ حق منوانے کے لئے ہو سکتا ہے کہ اپنے اوپر لعنتیں بھی بھیجنا شروع کر دے۔

آیت ۳۳

( وَ مَا کَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْط وَمَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) جب تک تم ان لوگوں کے درمیان موجود ہو خدا انہیں عذاب نہیں دے گا اور جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے پھر بھی اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں ہے۔

دو نکات:

عذاب کی نفی سے مراد پیغمبر گرامی اسلام کے وجود مبارک کی وجہ سے مسلمانوں سے اس طرح کے عمومی عذاب اٹھا لئے گئے جن سے سابقہ اقوام ان سے دوچار ہوا کرتی تھیں، ورنہ انفرادی طور پر بہت سے افراد خصوصی مواقع پر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے ہیں۔

احادیث شریفہ میں ہے کہ خداوند عالم بعض پاک دل افراد اور علمائے ربانی کی وجہ سے بھی لوگوں کے سروں سے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود گرامی اہل زمین کے لئے امان ہے( وانت فیهم ) ۱۸

۲ ۔ استغفار، بلاؤں کو روک دیتی ہے۔( وهم یستغفرون ) ۱۸- A

آیت ۳۴

( وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُوْآ اَوْلِیَآءَ هط اِنْ اَوْلِیَآوٴُهٓ اِلَّا الْمُُتَّقُوْنَ وَٰلکِنَّ اَکْثَرَ هُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اور کیوں نہ خدا انہیں عذاب میں مبتلا کرے حالانکہ وہ لوگوں کو مسجد الحرام سے روکتے ہیں جبکہ وہ اس جگہ کے سرپرست بھی نہیں ہیں، متقی اور پرہیزگار لوگوں کے علاوہ کسی اور کو وہاں کی تولیت اور سرپرستی کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔

ایک نکتہ:

سابقہ آیت میں یہ بات ہو رہی تھی کہ لوگوں کے درمیان پیغمبر اکرم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارک اور ان کی استغفار کی وجہ سے قوم عاد و ثمود پر نازل ہونے والے عذابوں جیسے آسمانی عذاب اٹھا لئے گئے ہیں۔ اور اس آیت میں ان کو ملنے والے عذاب کی بات ہو رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس عذاب سے مراد دنیوی عذاب اور زمین پر جنگ ہو۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ عذاب کے مستحق تو ہیں لیکن یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر کی وجہ سے انہیں عذاب نہیں کرتا۔ یا یہ کہ انہیں دنیا میں عذاب نہیں دیا جاتا لیکن آخرت کاعذاب ان سے کبھی نہیں ٹل سکے گا۔ (از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ جو لوگوں کو مسجدالحرام میں جانے سے روکتے ہیں انہیں عذاب الٰہی کا منتظر ہونا چاہئے۔( وما لهم الایعذبهم… ) ۱۹

۲ ۔ جس گھر کی تولیت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں میں رہی ہو اور جس کی بنیادیں تقویٰ پر رکھی گئی ہوں اس کی تولیت غیرمتقی افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہونی چاہئے۔( ان اولیائه الاالمتقون )

آیت ۳۵

( وَ مَا کَانَ صَلاَ تُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصْدِیَةًط فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ )

ترجمہ۔ بیت اللہ (خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (دعا اور) نماز سیٹیوں اور تالیوں کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی۔ پس تم اپنے کفر کی وجہ سے عذاب کو چکھو۔

ایک نکتہ:

"مکاء" کے معنی ہیں سیٹی بجانا اور "تصدیہ" کے معنی ہیں تالی بجانا۔ مشرکین اس لئے سیٹیاں بجاتے تھے تاکہ خانہ کعبہ کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو باور کرا سکیں کہ یاترا کے لئے آئے ہوئے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ تاریخی طور پر مذہبی مراسم، تحریف سے دوچار چلی آ رہی ہیں( صلوٰتهم…مکاء )

۲ ۔ بعض اوقات مقدس ترین مرکز، خرافات کا بالاترین محور بن جاتا ہے۔

۳ ۔ اس آیت میں عذاب کا مصداق، مشرکین کی جنگ بدر میں شکست ہے۔( فذوقواالعذاب ) ۲۰

(یاد رہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اجلاسوں اور میٹنگوں میں صلوات پڑھنے کی بجائے تالیاں بجانا اسی دور جاہلیت کی ایک تبدیل شدہ صورت ہے جبکہ لوگ دعا و نماز کی بجائے سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔)

آیت ۳۶

( اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِط فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْْنُ ۵ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اپنے اموال کو اس لئے خرچ کرتے ہیں تاکہ خدا کی راہ سے (لوگوں کو) روکیں، پس وہ آئندہ بھی اس قسم کے خرچ کرتے رہیں گے (پھر ان کا یہ خرچ شدہ مال) ان کے لئے حسرت کا سبب بن جائے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے۔ اور جو لوگ کافر ہو چکے ہیں وہ جہنم کی طرف جمع کرکے لائے جائیں گے۔

ایک نکتہ:

منقول ہے کہ یہ آیت کفار مکہ کی جنگ بدر کے لئے سرمایہ کاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کے تحت انہوں نے ایک عظیم بجٹ جنگ کے لئے مخصوص کر دیا تھا، لیکن آیت کی عمومیت ان ہر قسم کی سرمایہ کاریوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جو دین اسلام سے مقابلہ اور نبردآزمائی کے لئے مخصوص کی جاتی ہیں۔ (جیسا کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے شیطان بزرگ امریکہ نے ایران کے اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کے لئے کئی ملین ڈالر کابجٹ مخصوص کر لیا ہے۔ از مترجم)

پیام:

۱ ۔ کفار تو اپنے ناپاک مقاصد کے لئے اپنا سرمایہ خرچ کریں لیکن مسلمان اپنے مقدس دین کے مقاصد کے لئے خرچ نہ کریں اور بخل سے کام لیں، کیا تعجب کی بات نہیں ہے؟

۲ ۔ جو مال و دولت، باطل کی راہ میں خرچ ہو گا وہ موجب حسرت بنے گا اور جو اس قدر خرچ کرکے مومنین کے مقابلے میں آئیں گے شکست سے دوچار ہوں گے۔

۳ ۔ وحی کے ذریعہ پیغمبر اکرم غیب کی خبر دے رہے ہیں کہ آئندہ بھی ایسے لوگ اسلام کے خلاف سرمایہ کاری کریں گے( فسینفقونها )

(از مترجم۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے دور حاضر کی شیطانی سپر طاقت امریکہ "نیو ورلڈ آرڈر" کے تحت عالم اسلام کو زک پہنچانے کی غرض سے کئی ملین ڈالر خرچ کر رہی ہے، یہ اسی شیطانی منصوبے کا تسلسل ہے جس کی پیشین گوئی اس آیت میں کی گئی ہے)

۴ ۔ کفار کی کوششوں کی سزا صرف دنیوی شکست ہی نہیں، انہیں آخرت میں عذاب بھی ہو گا( یغلبون…جهنم )

۵ ۔ کفر، سقوط و پستی اور جہنم میں جانے کا موجب ہوتا ہے۔

۶ ۔ مومن چونکہ خدا کی رضا کے لئے کام کرتا ہے اور اس کی خوشنودی کی خاطر سرمایہ خرچ کرتا ہے اگر اسے بظاہر کوئی نتیجہ نہ بھی ملے پھر بھی اس پر حسرت نہیں کرتا کیونکہ خداوند عالم اسے اس کا اجر ضرور عطا کرے گا۔

۷ ۔ "الذین کفروا" کے جملے کا تکرار شاید اس لئے ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والے بعض کفار بعد میں مسلمان ہو جاتے ہیں جو اپنے خرچ شدہ مال پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے کافر اپنے کفر پر باقی رہتے ہیں اور جہنم کا ایندھن بنتے ہیں اور جہنم ایسے کافروں کے لئے ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں۔

آیت ۳۷

( لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَه عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْ کُمَه جَمِیْعًا فَیَجْعَلَه فِیْ جَهَنَّمَط اُولٰٓئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ )

ترجمہ۔ (یہ حسرت اور شکست) اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ (اس جہان اور اس جہان میں) ناپاک لوگوں کو پاک و پاکیزہ لوگوں سے جدا کر دے اور ناپاک اور پلید لوگوں کو آپس میں ملا دے، اور باہم یکجا کرکے انہیں جہنم میں بھیج دے، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

ایک نکتہ:

"یرکمہ" کا کلمہ "رکم" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کئی چیزوں کو ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ رکھنا۔

پیام:

۱ ۔ باہمی تضادات، حدگیری اور حق و باطل کی جنگ کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اس سے حوصلوں کا، مقاصد کا، اعمال کا پائیداری کا اور سازشوں کا پتہ چلتا ہے اور انسان کے جوہر کھلتے ہیں۔( لیمیز اللّٰه )

۲ ۔ حق اور باطل کے طرفداروں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ابتدا ہی سے خدا کا کام چلا آ رہا ہے( لیمیز اللّٰه )

۳ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام ناپاک لوگوں کو جمع کرے گا اور سب کو اکٹھا واصل جہنم کرے گا( فیرکمه جمیعا )

۴ ۔ جگہ کی تنگی، دباؤ اور ایک دوسرے پر گرے پڑنا، جہنمیوں کی خصوصیات میں شامل ہے، اگرچہ دوزخ بہت وسیع ہے جو بھرنے میں بھی نہیں آئے گی بلکہ مسلسل "ھل من مزید" کی رٹ لگاتی رہے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ خوراک کی طالب ہو گی لیکن دوزخی ہمیشہ دباؤ اور جگہ کی کمی کی شکایت کریں گے۔ بالکل ویسے جیسے ایک بہت بڑی دیوار ہو جس میں بہت سی میخوں کی گنجائش ہو، لیکن ہر ایک میخ تنگی میں گھٹی ہوئی ہوتی ہے۔

آیت ۳۸

( قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَج وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کفار سے کہہ دیجئے کہ اگر (گمراہی اور ناشائستہ افعال سے) باز آ جائیں تو ان کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگر (اپنی سابق کارستانیوں کی طرف) پلٹ جائیں تو خدائی طریقہ کار جو گزشتہ لوگوں کے ساتھ چلا آ رہا ہے ان کے بارے میں بھی جاری ہو گا۔

پیام:

۱ ۔ مسلمان ہونا، سابقہ گناہوں او رخلاف ورزیوں کو مٹا دیتا ہے( ان ینتهوایغفِرلهم ما قد سلف ) ۲۱

۲ ۔ اسلام میں ہمیشہ توبہ اور اصلاح کی راہیں کھلی ہیں اور اسلام کبھی بند گلی میں محدود نہیں ہوتا ۔( ان ینتهوا )

۳ ۔ فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھا جائے کہ افراد کی موجود ہ حالت کیا ہے ؟ سابقہ حالت کو نہیں دیکھا جائے گا( ان ینتهوا- )

۴ ۔ تشویق کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی ہوتی ہے( ان ینتهوا، ان یعودوا )

۵ ۔ امید کا دروازہ کھلا رکھنے سے کسی کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئیے کہ کسی قسم کی کمزوری کی وجہ سے مجرمین کے لیے ایسا کیا گیاہے۔( ان ینتهوا ان یعودوا )

۶ ۔ لوگوں کو سوچنے کا موقع ، توبہ اور نظرثانی کی مہلت دینی چاہئیے( ان ینتهوا-- )

۷ ۔ پہلے تشویق وترغیب او راتمام حجت پھر دھمکی ، سختی اور دباؤ( ان ینتهوا، ان یعودوا )

۸ ۔ کافر اور زندیق کی توبہ بھی قابل قبول ہے ۔( قل للذین کفروا ان ینتهوا )

۹ ۔ اسلام جنگ کا خواہاں نہیں بلکہ اصلاح طلب دین ہے( ان ینتهوا یغفرلهم )

۱۰ ۔ اللہ کے عادلانہ اور حکیمانہ قوانین ہر دور میں ہر ایک کے لئے یکساں اور ناقابل تبدیلی ہیں( مضت سنت الاولین )

۱۱ سابقہ امتوں میں خدائی طریقہ کار یہ رہا ہے کہ خدانے انبیاء کو ہی غلبہ عطا فرمایاہے ۔ ۲۲

آیت ۳۹

( وَقَاتِلُوْ هُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّه لِلّٰهِج فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )

ترجمہ۔ اور ان (دشمنوں ) کے ساتھ اتنی جنگ کرو کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہ جائے ، اور دین سارے کا سارااللہ کا ہوجائے ، پس اگر ان لوگوں نے (اپنے کفرسے ) دست کشی اختیار کر لی تو خداوند بھی ان کے کارناموں کو جانتا ہے۔

دونکات:

۔ اسلام میں جنگ کشور کشائی کے لیے نہیں بلکہ دین اسلام کی وسعت وہمہ گیری اور فتنوں سے مقابلے کے لیے ہے ۔

۔ "فتنہ " کے وسیع معنی ہیں اور دباؤ پر مبنی ہر طرح کے اعمال کو بھی شامل ہے۔ اور قرآن مجید میں "شرک " کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ اور یہ شا ید اس لیے ہے کہ مشرکین کی طرف سے انسانی افکار ‘ معاشرے اورحق طلب افراد پر مختلف قسم کی حد بندیاں اور طرح طرح کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں ۔ یا پھر اس لئے کہ شرک چونکہ ابدی عذاب کا موجب ہوتا ہے اسی لئے مومنین اور پاک فطرت لوگوں پر اس کا مسلط کرنا بھی ایک فتنہ ہے۔ (از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ اسلام میں جنگ کا مقصد حق کی دعوت کے لئے فتنے او رکفار کے تسلط کا خاتمہ اور صاف ستھری فضا قائم کرے۔ ۲۳

۲ ۔ تاریخی طور پر جب تک کفار فتنہ پر دازی میں مشغول رہیں گے ، فتنے کے قلع قمع کرنے کا حکم بھی موجود رہے گا۔( وقا تلوهم حتی لا تکون فتنهته )

۳ ۔ یہ آیت دین میں آزادی اور "لا اکرہ فی الدین " کے منافی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ طاغوت اور فتنے کو جڑ سے اکھیڑ پھینکا جائے تا کہ آزادی کے ساتھ اسلام کی اختیار کرنے کی فضا ساز گار ہو۔

۴ ۔ جب بھی دشمن جنگ سے ہاتھ اٹھا لے اس کے اسی وقت کو مطابق مناسب سلوک کیا جائے۔

آیت ۴۰

( وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلِمُوْا اِنَّ اللّٰهَ مَوْلَکُمْط نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ )

ترجمہ۔ اور اگر (پھر بھی ) وہ رو گردانی اور سرپیچی کریں تو معلوم کر لو کہ خدا تمہارا مولا اور سر پرست ہے کس قدر بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے ۔

پیام:

۱ ۔ اگر دشمن ، فتنہ پر دازی سے باز نہ آئے تو تم مومنوں کو ہر گز گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لئے کہ تمہار ا دمدگار اللہ ہے ۔

۲ ۔ فوجی مسائل پر عملدر آور کراتے او ر سیاسی منصوبہ کرتے وقت تمام اطراف پر نگاہ ہونی چاہئیے( فان تولوا ) اور درفان انتہوا"

۳ ۔ تم اپنے فرائض ادا کرتے جاؤ اگر دوسرے اس پر عمل نہیں کرتے یا روگردانی کرتے ہیں تو نہ گھبراؤ خدا تمہارا یارویاو ر ہے ۔

۴ ۔ خدا کی ولدیت ، سر پرستی اور مدد و نصرت سے کبھی غفلت نہ بر تو ۔( فاعلموا )

۵ ۔ اللہ تعالی اور اس کے لطف و کرم کی یاد مومنین کے دلوں کو مشکل وقت اور ہرسازش کے موقع پر تفویت عطا کرتی اور سکون بخشتی ہے۔

۶ ۔ خداوند عالم بہترین مولا ہے کیونکہ نہ تو ہمیں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے اور نہ ہی فراموش کرتا ہے ۔ نہ ہمیں اپنے کسی ذاتی مفاد کے لئے چاہتا ہے او رنہ ہی کسی کا حق ضائع کرتا ہے ۔( نعم المولی ) ٰ)

۷ ۔ ہر یارویاور سے خدا کی مدد و نصرت بالا تر ہے( نعم النصیر )

آیت ۴۱

( وَاعْلَمُوْآ اَنَّماَ غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمْسَه وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلَ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِط وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ )

ترجمہ۔ اور جان لو کہ جو بھی غنیمت حاصل کرو تو یقینا اس کا خمس (پانچواں حصہ ) خدا ، رسول خدا اس کے قرابتداروں (اہلبیت) یتیموں ، بے نواؤں اور مسافروں کے لئے ہے ، اگرتم خدا اور اس چیز پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر حق اور باطل کی جدائی کے دن نازل کی ، جس (جنگ بدر کے) دن دو گروہ ایماندار اور بے ایمان آپس میں گھتم گتھا ہو گئے۔ اور اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

چند نکات :

۔ شیعی نقطہ نظر اور روایات کی رو سے اس آیت میں "غنیمت " جنگی غنائم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ بلکہ ہر طرح کی آمدنی کو شامل ہے خواہ وہ معدنیات ہوں ، غوطہ زنی ہو، تجارت ہو یا کوئی اور ذریعہ آمدنی۔ اور جنگ بدر کے موقع پر آیت کا نزول اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے مراد صرف جنگی غنیمتیں ہیں۔

۔ اس سورت کی سب سے پہلی آیت میں "انفال کو خدا اور رسول کا مال بتایا گیاہے او راس آیت میں مال غنیمت کے صرف پانچویں حصے کو اللہ اور رسول اللہ کا مال بتایا گیا ہے۔

۔ اگر غنیمت سے مراد "جنگی غنیمت "ہی لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خمس کا ایک موقع اور محل اسی آیت میں ہے اور دیگر موارد روایات میں بیان ہوئے ہیں ۔

۔" ذوی القربیٰ " سے مراد بہت سی شیعی روایات اور بعض اہلسنت روایات کے مطابق پیغمبر اسلام کے تمام رشتہ دار نہیں ہیں بلکہ صرف ائمہ اہلبیت ہی ہیں جن کے پاس امت اسلامیہ کی قیادت اور رہبر ی ہے ۔ اور خمس اسلامی حکومت اور ا س کے رہبر سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پیغمبر کے سارے رشتہ داروں سے۔

۔ خمس کا ایک اور مصرف سادات بنی ہاشم میں سے غریب و مسکین او رمسافر افراد ہیں۔ کیونکہ غریب سادات پر غیر سیدوں کی زکوة حرام ہے لہذا خمس کے ذریعہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

۔ روایات جو کہ ۔۔۔ذوی القربی" سے مراد معصوم امام سمجھتی ہیں ان کے علاوہ ان کا اللہ اور رسول کے ساتھ ہی ساتھ ذکر ہونا اور خاص طور پرحرف "لام" کے ساتھ آنا ا س بات کی دلیل ہے کہ ذوی القربےٰ سے مراد ائمہ اطہار ہیں جو خدا اور ا سکے رسول کے ساتھ ساتھ مذکورہیں۔

پیام:

۱ ۔ اب جب کہ تم جنگ بدر میں خدا کی مدد او رنصرت سے کامیاب ہو گئے ہو لہذا غنیمت کے ما ل سے خمس کی ادائیگی کے لئے ٹال مٹول سے کام نہ لو۔( ان کنتم آمنتم--قدیر )

۲ ۔ مال غنیمت کا خمس رسالت اور مقام حکومت کے لئے ہے ۔

۳ ۔ حکومت او ر سر براہ حکومت راہبر اور قائد کو تبلیغ اور رسالت کے لئے اموال کی ضرورت ہوتی ہے( لله وللرسول )

۴ ۔ خمس واجب ہے خواہ آمدنی او رغنیمت کم ہی کیوں نہ ہوں ،( من شییٴ )

۵ ۔ ایمان ‘ ایثار کا موجب ہوتاہے۔( لله خمسه-- ان کنتم آمنتم )

۶ ۔ مالی قربانی اس حد تک مشکل ہوتی ہے کہ بعض موقعوں پر مجاہدین کیلئے بھی دشوار ہو جاتی ہے( ان کنتم - )

۷ ۔ غریب طبقہ اور حکومت ، لوگوں کے ۲۰ فیصد اموال کے مالک ہیں ۔( لله خمسه و -- )

۸ ۔ خداوند عالم کو مال کی ضرورت نہیں ، آیت میں خدا کے سہم (حصے) کا ذکر خدا اور رسول کی حاکمیت اور ولایت کے لئے ہے۔

۹ ۔ خدا کا حصہ کلمہء حق کی بلندی ، خانہ کعبہ ، دینی تبلیغات اور قانون الہٰی کی حاکمیت اور سر بلندی کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔

۰ ۔ فقرو فاقہ اور محرومیت کو دور کرنا اسلام کے پروگراموں میں شامل ہے لہذا جہاد او رغنیمت کے ثمرات سے فقراء اور مساکین کو بہرہ ور کیاجانا چاہئیے ۔

۱۱ ۔ ایمان کامل کی نشانی یہ ہے کہ خدا کے تمام قوانین کے آگے سر تسلیم خم کر دیا جائے ، صرف عبادات اور جنگ ہی میں سر کو نہ جھکایا جائے۔( ان کنتم---- )

۱۲ ۔ جنگ کا دن ، سچوں کا جھوٹوں سے جدا ہونے کا دن ہوتا ہے( یوم الفرقان )

۱۳ ۔ جنگ بدر میں خدائی امدادوں نے حقانیت اسلام کوروشن کر دیا۔

۱۴ ۔ جس طرح "غرامت " ہر قسم کے نقصان کو کہا جاتا ہے صرف جنگی نقصان ہی کو نہیں کہا جاتا ۔ ۲۴ اسی طرح "غنیمت " بھی ہر گونہ منافع اور فائدوں کو کہا جاتا ہے صرف جنگی مال کو نہیں ۔

۱۵ ۔ خدا کا سہم (حصہ) رسول خدا کے پاس ہوتا ہے او ررسول خدا کا سہم (حصہ) امام علیہ اسلام کے اختیار میں ہوتا ہے ۔ (روایات کی رو سے ۔ تفسیر صافی )

۔ آیت میں مذکورسہم میں فیصلہ کرنا امام کا کام ہوتا ہے (حضرت امام رضاعلیہ السلام کا تفسیر صافی )

۔ معاشرہ کے غریب اور محروم لوگوں کی شان بلند کرنے کے لئے ان کا نام اللہ او ررسول اللہ کے ناموں کے ساتھ ہی مذکور ہوا ہے


19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36