تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 66211
ڈاؤنلوڈ: 7099

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66211 / ڈاؤنلوڈ: 7099
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۱۱

( قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِیْنَ )

ترجمہ۔ کہہ دو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا(برا) انجام ہوا۔

ایک نکتہ

قرآن مجید میں چھ مرتبہ "سیروا فی الارض" کے تحت زمین میں چلنے پھرنے کا حکم آیا ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ غیرمسلمین نے ہم سے زیادہ اس حکم پر عمل کیا ہے۔ اور اسلامی ممالک کی ایک ایک بالشت زمین چھان ماری ہے اور مسلمانوں کے قدرتی وسائل، معدنی ذخائر، قوت اور کمزوری کے نقاط، تہذیبی، ثقافتی اور علمی آثار، خطی اور قلمی کتابوں اور ان کے علوم و فنون سے آگاہ ہو کر انہیں لوٹ لے گئے اور مسلمان خواب غفلت میں پڑے رہے اور اب تک غفلت کی میٹھی نیند سوئے ہوئے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ معلوماتی، عبرت انگیز اور سبق آموز سفر قابل ستائش اور مستحسن ہوتے ہیں( سیروا ) (ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی)

۲ ۔ حق کے مخالفوں اور دشمنوں کی شکست اور ہلاکت یقینی ہے اگر شک ہو تو ان کی تاریخوں کو پڑھئے یا پھر سفر کرکے باقی ماندہ آثار کو اپنی آنکھوں سے دیکھئے اور عبرت حاصل کیجئے۔

۳ ۔ چند روزہ جلوہ نمائیاں کسی قسم کی اہمیت کی حامل نہیں ہیں اصل چیز انجام ہے( عاقبة المکذبین )

آیت ۱۲

( قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط قُلْ لِّلّٰهِ ط کَتَبَ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ط لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ ط اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُوٴْمِنُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے کس کے لئے ہے؟ کہہ دو کہ خدا ہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے اوپر رحمت کو واجب قرار دے دیا ہے۔ وہ یقیناً تمہیں قیامت کے اس دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے (اور رشد و ہدایت حاصل کرنے کی بجائے اپنی استعداد کو ضائع کرکے پستی میں چلے گئے ہیں) وہی ایمان نہیں لائیں گے۔

چند نکات:

"( کتب علی نفسه الرحمة ) " یعنی اس نے اپنے اوپر رحمت کو واجب قرار دے دیا ہے کا جملہ پورے قرآن میں دو مرتبہ آیا ہے اور وہ بھی اسی سورت میں کہ ایک تو اسی آیت میں اور دوسرا آیت ۵۴ میں۔

"( لاریب فیه ) " یعنی جس میں کوئی شک نہیں ہے کا جملہ ایک تو قرآن مجید کے بارے میں آیا ہے اور دوسرے قیامت کے متعلق۔

اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہم پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں اسی طرح اپنی ذات کے لئے بھی وظائف مقرر کئے ہیں، جن میں سے ایک وظیفہ "ہدایت کرنا ہے"، چنانچہ ارشاد ہوتاہے "( ان علینا للهدی ) " یعنی ہم پر ہدایت کرنا لازم ہے۔ ایک "رزق دینا ہے" چنانچہ فرماتا ہے "( علی الله رزقها ) " یعنی رزق و روزی دینا خدا کے ذمہ ہے۔ ایک "لطف اور رحم کرنا ہے" چنانچہ فرماتا ہے "کتب علی نفسہ الرحمة" یعنی اس نے اپنے اوپر رحمت کو واجب قرار دے دیا ہے۔ البتہ رحمت الٰہی کے حصول کی شرط بندگانِ خدا پر رحم کرنا ہے۔ حدیث مبارک ہے کہ "من لایرحم لا یرحم " یعنی جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ (ملاحظہ ہو تفسیر فی ظلال القرآن) رحمتِ خداوندی کی کوئی حد نہیں ہے، جبکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ "رحمت خداوندی (گویا) سو درجہ کی ہے جن میں سے ایک درجہ دنیا میں ہے اور قیامت کے دن تمام سو درجوں کے ساتھ اپنے بندوں کے ساتھ برتاؤ کرے گا" (تفسیر ظلال القرآن اور تفسیر آلوسی)

استدلال اور دلائل سے کام لینے کی بجائے اپنی خواہشات کی اتباع کرنا۔ اولیاء اللہ یعنی انبیاء اور ائمہ کی بجائے طاغوت کی پیروی کرنا، ایمان لانے اور آخرت کو مدنظر رکھنے کی بجائے کفر اختیار کرنا اور نور کے آگے سر جھکانے کی بجائے نار کو اختیار کرنا کفار کے لئے بہت بڑے خسارے کا سودا ہے۔

پیام:

۱ ۔ تبلیغ کے طریقہ کاروں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوال اور جواب کی روش کو اپنایا جائے خواہ کسی ایک فرد کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔( قل لمن…قل لله )

۲ ۔ کائنات کا وجود رحمت خداوندی کا مرہون منت ہے اور رحمتِ الٰہی ہر چیز پر اور ہر جگہ حاوی ہے( کتب علی نفسه الرحمة ) ۴

۳ ۔ جس طرح خدا پر ایمان کے آثار (جیسے ہوا، بارش، روز و شب اور نباتات وغیرہ رحمت ہیں اسی طرح معاد (قیامت) بھی رحمت ہے( لیجمعنکم )

آیت ۱۳

( وَلَه مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ والَنَّهَارِط وَ هُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) ۔

ترجمہ۔ اور اسی ہی کے لئے ہے وہ چیز جو رات اور دن میں سکون پاتی ہے اور وہی سننے اور جاننے والا ہے۔

ایک نکتہ:

رات اور دن ایک گہوارے کی مانند ہیں جو انسانوں اور دوسری چیزوں کو اپنے دامان راحت میں لئے ہوئے ہیں انہی سے انہیں سکون نصیب ہوتا ہے، کچھ چیزیں ایسی ہیں جو رات کو آرام کرتی ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو دن میں سکون کرتی ہیں۔ ظاہر اور باطن کو وہی ذات ذوالجلال ہی جانتی ہے۔

پیام:

۱ ۔ ایک تو کائنات کا نظام اسی کے ہاتھ میں ہے (ولہ ماسکن) دوسرے اس نظام پر کنٹرول بھی اسی کے پاس ہے( هوالسمیع العلیم )

آیت ۱۴

( قُلْ اَغَیْْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُْوَلِّیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُط قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَکُْوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو (اے پیغمبر!) آیا میں آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بناؤں جو دوسروں کو تو طعام اور روزی دیتا ہے اور خود طعام سے بے نیاز ہے۔

کہہ دو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں (اس کا) سب سے پہلا فرمانبردار بنوں! اور (اے پیغمبر!) تم مشرکین میں سے ہرگز نہ بننا۔

دو نکتے:

اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اہل مکہ کے کچھ افراد نے رسول خدا کو یہ پیش کش کی "چونکہ، آپ نے غربت کی وجہ سے بتوں سے دوری اختیار کی ہوئی ہے لہٰذا ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ آپ کو مکمل طور پر بے نیاز کر دیں اور آپ ہماری مخالفت سے باز رہیں۔"

چونکہ خداوند عالم انسانیت کا خالق اور رازق ہے اور وہی سب کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے لہٰذا اسی کی ہی عبادت کرنی چاہئے اور اسی کو اپنا سرپرست تسلیم کرناچاہئے۔

پیام:

۱ ۔ تبلیغ کے عمدہ طریقہ کار میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دلیل کو فریق مخالف سے سوال کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنا چاہئے (قل اغیراللہ)

۲ ۔ ولایت اور سرپرستی اسی کو جچتی ہے جو خالق بھی ہے اور رازق بھی۔( فاطر- یُطعِم )

۳ ۔ خداوند عالم کے علاوہ دوسری مخلوق اور خودساختہ معبود اسی کے محتاج ہیں( لایُطعِم )

۴ ۔ رہبر کو سب سے پہلے آئین کی پابندی کرنی چاہئے اور اخلاص و تسلیم کے اعلیٰ درجہ کا حامل ہونا چاہئے( اول من اسلم )

۵ ۔ اقتصاد اور خوراک جس کے قبضہ میں ہوتے ہیں ولایت اور تسلط بھی اسی کو حاصل ہوتا ہے( ولیا- یُطعِم )

۶ ۔ غیراللہ کی ولایت کو تسلیم کرنا شرک ہے( أغیرالله…لاتکونن من المشرکین )

۷ ۔ خدا کے اوامر و نواہی عقل اور فطرت کے عین مطابق ہیں۔ خدا کی اطاعت اور اس کی فرمانبرداری کا امر اور شرک سے نہی اس لئے ہے کہ عقلی طور پر خالق کی فرمانبرداری کرنا حق ہوتا ہے اور اس کے غیر کی اطاعت اطاعت باطل ہوتی ہے۔

آیت ۱۵

( قُلْ اِنِّیْ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو کہ اگر یقینا میں بھی اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے بھی بہت بڑے دن کے عذاب سے بہت خطرہ ہے۔

ایک نکتہ:

خوف اور خطرہ دو طرح کا ہوتا ہے۔

الف: پسندیدہ جیسے عذاب الٰہی کا خوف

ب: ناپسندیدہ جیسے جہاد سے ڈرنا

پیام:

۱ ۔ قانون الٰہی سب کے لئے یکساں ہے حتیٰ کہ پیغمبر خدا بھی اس کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں۔

۲ ۔ اولیاء اللہ (انبیاء و ائمہ) کا خوف، خدا کے قہر و غضب سے ہوتا ہے نہ کہ عوام اور طاغوتوں سے۔

۳ ۔ خوف ایک ایسا عامل ہے جو گمراہی اور خطاکاری سے روکے رکھتاہے۔

۴ ۔ لوگوں کی طرف سے دنیوی لالچ اور طمع کی پیشکش کے موقع پر قیامت کے دن کے حساب کتاب کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ (آیت کے شان نزول کے پیش نظر)

۵ ۔ جب اس بات کی اتمام حجت ہو گئی کہ خداوند عالم خالق بھی ہے اور رازق بھی اور شرک سے بھی اس نے منع فرمایا ہے، تو پھر اس کے فرمان کی خلاف ورزی عذاب کا موجب ہو گی۔

آیت ۱۶

( مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَه ط وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ ) ۔

ترجمہ۔ اس دن جس سے بھی عذاب الٰہی اٹھا لیا جائے گا تو یقیناً اس پر خدا کی رحمت ہو گی اور یہی کھلم کھلا اور واضح کامیابی ہے۔

ایک نکتہ:

حضرت رسول خدا نے (ایک دن) ارشاد فرمایا: "اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے بہشت میں نہیں جائے گا" لوگوں نے سوال کیا: "یا رسول اللہ! آپ بھی؟" فرمایا: "میں بھی! مگر یہ کہ خدا کا فضل اور اس کی رحمت میرے شامل حال ہو گی" پھر آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں کو سر پر رکھ کر اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (تفسیر مجمع البیان۔ تفسیر نورالثقلین)

پیام:

۱ ۔ ہر شخص کو خطرات کا سامنا ہے اور عذاب الٰہی کو خدا کے خصوصی لطف و کرم سے دور کیا جا سکتا ہے۔

۲ ۔ صرف خداوند کریم کی رحمت ہی اس کے قہر و غضب کو روک سکتی ہے، ہمارے اعمال اور اولیاء اللہ کی شفاعت بھی اسی رحمت کا پرتو ہیں۔

۳ ۔ قہر خداوندی سے نجات ہی کامیابی کہلاتی ہے۔

آیت ۱۷

( وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَهٓ اِلَّا هُوَ ط وَا اِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ ) ۔

ترجمہ۔ اگر خداوند عالم (آزمائش اور پروان چڑھانے کے لئے یا اعمال کی سزا کے طور پر) تمہیں کسی نقصان سے دوچار کر دے تو اس کے بغیر کوئی بھی اسے دور نہیں کر سکتا، اور اگر (لطف وکرم کی بنا پر) تمہیں کوئی فائدہ پہنچائے تو وہی ہر چیز پر قادر ہے۔

پیام

۱ ۔ تمام امیدیں بھی خدا سے وابستہ رکھنی چاہئیں اور ہر قسم کا خوف بھی خدا ہی سے کرنا چاہئے( …الاهو )

۲ ۔ تمام امور کا سرچشمہ اور منبع صرف ایک ہی ہے ایسا نہیں ہے کہ بھلائیاں کسی اور کی طرف سے اور برائیاں کسی دوسرے کی طرف سے ہوتی ہیں۔ (البتہ ان کا موجب خود انسان کو ہوتا ہے۔ از مترجم)

۳ ۔ خدائی قوانین میں استثنا کی گنجائش نہیں ہوتی، حضرت رسول خدا کو بھی تلخ اور شیریں حوادثات میں خدا سے متوسل ہونا پڑتا ہے۔

آیت ۱۸

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِه ط وَهُوَالْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ ) ۔

ترجمہ۔ اور خداوند عالم اپنے بندوں پرمکمل اقتدار اور تسلط رکھتا ہے اور وہی حکیم اور آگاہ ہے۔

دو نکات

۱۴ ویں آیت میں خدا کا خالق اور رازق ہونا بیان کیا گیا ہے، ۱۵ ویں آیت میں خدا کے قہر و غضب اور قیامت کو بیان کیا گیا ہے ۱۶ ویں آیت میں قہر و غضب سے نجات اور خدا کی رحمت کا تذکرہ ہے، سترھویں آیت میں مشکلات کا حل اور نیکیوں تک رسائی کی صورت کا ذکر ہے اور اس آیت میں خداوند قہار کی قدرت مطلقہ کو بیان کیا گیا ہے۔

اگر کچھ لوگ عوام الناس کی جہالت، ان کے تفرقہ و انتشار اور کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند روز ان پر مسلط ہو جائیں تو اس سے خدا کی قہاریت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور خداوند عالم کی قہاریت ان کی اس بساط کو لپیٹ کر رکھ دیتی ہے اور اپنے علم و حکمت کے تحت اپنی قدرت اور قہاریت کو کام میں لاتی ہے۔

پیام

۱ ۔ اے اللہ کے رسول! آپ لوگوں سے ہرگز نہ گھبرائیں کیونکہ خدا کی قدرت تمام قدرتوں سے بالاتر ہے( هوالقاهر )

۲ ۔ خدا کی قدرت اور قہاریت حکمت اور علم کے تحت ہوتی ہے( الحکیم الخبیر )

آیت ۱۹

( قُلْ اَیُّ شَیْ ءٍ اَکْبَرُ شَهَادَةًط قُلْ الِّلّٰهُ شَهِیْدٌم بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ وَاُوْحِی اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُ نْذِرَکُمْ بِهم وَمَنْم بَلَغَ ط اَئِنَّکُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰیط قُلْ لَّا ٓ اَشْهَدُ ج قُلْ اِنَّمَا هُوَاِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓء ٌمِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو کہ بہت بڑا شاہد اور گواہ کون ہے؟ کہو خدا ہی ہے جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ قرآن مجھ پر وحی ہوا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ تمہیں اور ہر اس شخص کو ڈراؤں کہ جن پر قرآن اور پیغام پہنچا ہے۔ آیا تم گواہی دیتے ہو کہ معبود حقیقی کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہیں؟ کہہ دو کہ میں گواہی نہیں دیتا، کہہ دو کہ صرف وہی خداوند یکتا ہے اور میں یقینا اس سے بَری ہوں جس کے ذریعہ تم شرک کرتے ہو۔

چند نکات

مشرکین مکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی رسالت کی گواہی طلب کرتے تھے اور آپ کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ: "یہود و نصاریٰ بھی آپ کو نبی نہیں مانتے " یہ آیت خدا اور اس کی نصرت کے الہام کا پیغام لئے، اسلام کی غربت کے دور میں روشن مستقبل کی خوشخبری سنا رہی ہے اور شرک سے بیزاری اور برائت کا اظہار کر رہی ہے۔

ایک سطر سے بھی کم مقدار میں تین مرتبہ توحید کا اعلان اور شرک سے برائت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔( لا اشهد، اله واحد، بریٴ مما تشرکون )

(حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ) آنحضرت کا ارشاد گرامی ہے "جس شخص تک قرآن پہنچ گیا گویا میں نے اسے دیکھ لیا"( من بلغ )

پیام

۱ ۔ دوسرے معجزوں، غیبی امدادوں اور دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے کے علاوہ قرآن پاک بھی پیغمبر اسلام کی رسالت کا بہت بڑا گواہ ہے( هذا القرآن )

۲ ۔ خود پیغمبر خدا کے زمانہ ہی میں قرآن مجید ایک کتاب کے عنوان سے پہچانا جاتا تھا اور "ھذا" کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا( هذا القرآن )

۳ ۔ لوگوں کے ساتھ "انذار" (ڈرانے) کے انداز میں بات کرنا زیادہ موثر ہوتا ہے( لانذر کم ) ۔

۴ ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت عالمی، جاویدانی، تمام رنگ و نسل کے لوگوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے( لانذر کم و من بلغ )

۵ ۔ چونکہ تبلیغ کا سلسلہ قیامت تک جاری ہے لہٰذا اس کے ساتھ مبلغین کا ہونا بھی ضروری ہے پس خدا کی امامت اور رہبری کاقرآن کے ساتھ تا ابد ہونا لازمی ہے (تفسیر صافی،اصول کافی منقول از امام جعفر صادق)

۶ ۔غفلت، سہو و نسیان، بھول چوک اور محدودیت انسان کی خبرگیری کی قدرت کو بھی کم کر دیتی ہے اور اس کے گواہ بننے کی طاقت کو بھی اور چونکہ خداوند عالم عوارض سے پاک اور منزہ ہے لہٰذا وہ سب سے بڑا شاہد ہے (اکبر شھادة قل اللہ)

۷ ۔ آسمانی رہبر کے لئے لازمی ہے کہ اس میں یہ چیزیں ضروری پائی جائیں۔ ۱ ۔ ہدف اور مقصد پر پختہ ایمان( او حی الی هذا القرآن ) ۲ ۔ مستقبل سے وابستہ امید( ومن بلغ ) ۳ ۔ پختگی عزم( قل لا اشهد ) اور ۴ ۔ شرک سے برائت اور دوری( اننی بری مما تشرکون )

۸ ۔ عام طور پر انسان میں دفع ضرر کی خواہش، حصول منفعت کی خواہش سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے، لہٰذا خداوند عالم نے بھی قرآن مجید میں جہاں بہت سی خوشخبریوں سے نوازا ہے وہاں پر ڈرانے پر کافی زور دیا ہے( لانذر کم ) (جبکہ دوسری آیات میں کہیں فرمایا: "ان انت الانذیر" یعنی اے پیغمبر! آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں (فاطر/ ۲۳) کہیں پیغمبر کی زبانی فرمایا: "( انما انا نذیر مبین ) " یعنی میں تو بس کھلم کھلا ڈرانے والا ہی ہوں (عنکبوت/ ۵۰)

۹ ۔ مشرکین خدا کو پہچانتے تھے اسی لئے تو قرآن کہتا ہے( الله شهید )

۱۰ ۔ "انما هواله واحد " یعنی خداوندتو تنہا معبود ہی ہے کی مناسبت سے حضرت علی علیہ اسلام فرماتے ہیں: "اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو وہ بھی اپنے رسول بھیجتا" (نہج البلاغة)

آیت ۲۰

( اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَه کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآ ءَ هُمْم اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ جن (یہود و نصاریٰ) کو ہم نے کتاب عطا کی ہے وہ ان (محمد مصطفیٰ) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں (سابقہ انبیاء اور گزشتہ آسمانی کتابوں کی بشارتوں کو آنحضرت کے مطابق دیکھتے ہیں لیکن تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں) تو جن لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا وہی ایمان نہیں لے آتے۔

چند نکات:

اسی آیت سے ملتی جلتی سورہ بقرہ کی ۱۴۶ ویں آیت ہے۔

توریت و انجیل میں ایک تو سرکار رسالت مآب کا اسم گرامی اور ان کی نشانیاں موجود تھیں اور اہل کتاب کے علماء آنجناب کی "نبی موعود" کے نام سے لوگوں کو خبر دیا کرتے تھے اور دوسرے آپ کے اور آپ کے دوستوں کے اخلاق و صفات ان کتابوں میں موجود تھے چنانچہ ارشاد پروردگار ہے "( محمد رسول الله والذین معه اشدآء علی الکفار رحماٰء بینهم…ذالک مثلهم فی التورٰة ) " پس بنا بریں آنحضرت کے ساتھیوں اور دوستوں کی صفات تک کو بھی ذکر کیا جا چکا ہے۔

اولاد کی پہچان، حقیقی پہچان ہے اور قدیم الایام سے چلی آ رہی ہے، اس لئے کہ انسان اولاد کو ان کی پیدائش کے وقت مقام پیدائش کی خصوصیات اور انداز ولادت وغیرہ سے اچھی طرح جانتا ہے۔ جبکہ بہن بھائیوں اور ماں باپ کی شناخت کے لئے کئی مہینے درکار ہوتے ہیں اور زن و شوہر کی پہچان، ازدواج کے بعد ہوتی ہے۔ اسی لئے خداوند عالم فرماتا ہے "وہ پیغمبر خدا کو اپنی اولاد کی طرح پہچانتے ہیں" یعنی مکمل طور پر اور اچھی طرح سے۔

پیام

۱ ۔ پیغمبر خدا کی معرفت اس حد تک ہونی چاہئے کہ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہ ہو۔( کما یعرفون ابنائهم )

۲ ۔ صرف پہچان اور علم ہی انسان کے لئے باعث نجات نہیں ہے، کیونکہ بہت سے خداشناس، پیغمبر شناس اور دین شناس ایسے ہیں جو خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہیں( الذین خسروا انفسهم )

۳ ۔ حق پوشی، خسارت اور نامرادی ہے( خسروا انفسهم )