تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62964
ڈاؤنلوڈ: 5428

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62964 / ڈاؤنلوڈ: 5428
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۵۱

( اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْ ادِیْنَهُمْ لَهْوً ا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ نَنْسٰهُمْ کَمَانَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَا وَ مَا کَا نُوْ ا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ) ۰

ترجمہ: وہی لوگ تو (کافر) ہیں جو اپنے دین کو کھیل تماشہ سمجھتے ہیں اور دینوی زندگی نے انہیں مغرور بنا دیا ہے۔ پس جس طرح وہ اپنے اس دن ملاقات کو فراموش کر چکے ہیں۔ اور ہماری آیات کا انکار کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ہم بھی انہیں فراموشی کے سپرد کر دیں گے۔

ایک نکتہ:

"لھو" یہ ہوتا ہے کہ انسان بنیادی کاموں سے غافل ہو جائے۔ اور "لعب" یہ ہے کہ انسان خیالی پلاؤ پکاتا ہے۔ (ازتفسیر المیزان)

پیام:

۱۔ کفار دین کو مذاق سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ایک یقینی چیز ہے۔ اور دنیا کو حقیقت سمجھتے ہیں حالانکہ کھیل تمام ہے۔( دینهم لهوا ) ۲۷

۲۔ جب دین کی طنابیں کٹ جاتی ہیں تو دینوی گرداب انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔( اتخذوا---- عرتهم )

۳۔ خدا اور قیامت سے غفلت، انسان کے قیامت کے دن فراموش ہوجانے کا سبب بن بن جاتا ہے۔ ۲۸

اور( افیضواعلینا ) گذشتہ آیت ہیں۔

۴۔ دین کا مذاق اُڑانا، دنیاوی لذتوں میں غرق ہوجانا، آخرت کو فراموش کردینا، خدا کی آیات کا للکار غرض اس قسم کی تمام باتیں کفر کی علامتیں ہیں۔( الذین---- )

آیت ۵۲

( وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنَهُ عَلٰی عِلْمٍ هُدً ی وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۰ )

ترجمہ: اور یقینا ہم ان کے لئے کتاب لے آئے کہ جس میں ہر چیز کو علم کی بنیادوں پر تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا تاکہ ایمانداروں کے لئے ہدایت اور رحمت ہو۔

پیام:

۱ ۔ اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کردی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی دنیا کے گرداب میں غرق ہے یا آخرت کو فراموش کر چکا ہے یا آیات خداوندی کو للکارتا ہے تو یہ اس کی اپنی کوتاہی ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔( لقدجلناهم )

صد ہا چراغ دار دوبیراہہ ہی رود۔ بگزار تا بیفتد و بیندسزا سی خویش

سینکڑوں چراغوں کے باوجود بھی غلط رستے پر چل رہا ہے تو چلنے دو تاکہ گر کر مرے اور اپنی سزا کو پا لے۔

۲۔ خدا کی وحی کی اساس علم اور حقیقت ہے۔

۳۔ انسان کی ہدایت، خد اکی بہت بڑی رحمت اور مہربانی ہے۔

۴۔ دین اسے ہدایت کرتا ہے جو اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ضدی مزاج اور ہٹ دھرم افراد کو ہدایت اور دین نصیب نہیں ہوتا۔( لقوم یومنون )

آیت ۵۳

( هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاوِیْلَه ط یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلَه یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلِ قَدْ جَآئَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَلْ لَّنَامِنْ شُفَعَآءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَا اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوْ ٓا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا کَا نُوْ یَفْتَرُوْنَ ) ۔

ترجمہ: کیا کفار کتاب کی تاویل (اور قرآنی وعدوں کے پورا ہونے) کے علاوہ کسی اور چیز کے منتظر ہیں؟ جس دن کہ کتاب کی تاویلیں (خدا کا قہر و غضب اور اس کے حساب و کتاب کی نشانیاں) پہنچ جائیں گی تو جو لوگ اس سے پہلے (دنیامیں) اس دن کو بھلا چکے تھے کہیں گے: اس میں شک نہیں کہ اللہ کے رسول ہمارے پاس ہی حق لے کرآئے (لیکن ہم نے ان سے منہ پھیرے رکھا) آیا ہمارے کوئی شفاعت کرنے والے ہیں جو شفاعت کریں گے؟ یا ممکن ہے کہ ہم دنیا میں واپس ہٹائے جائیں تاکہ ایسے کام کریں جو نہیں کئے تھے؟ (یہ سب بے فائدہ حسرت ہے) یقیناً ان لوگوں نے اپنے آپ کو خسارہ پہنچایااور وہ سب کچھ ختم ہو جائے گا جو وہ افتراپردازی کیا کرتے تھے (اور بتوں کو اپنا معبود سمجھتے تھے)۔

دو نکات

"تاویل" کا معنی ہے گزشتہ یا آئندہ (ماضی یا مستقبل کی طرف پلٹانا۔ اور قرآن میں اس کا معنی ہے حقیقت امر اور کسی کام کا آغاز یا انجام۔

اس سورت کی ۴۳ ویں آیت می اہل بہشت کی زبانی کہا گیا ہے "لقد جأت رسل ربنا بالحق" اور اس جگہ ہر اہلِ جہنم یہی اقرار کر رہے ہیں۔

پیام

۱ ۔ قیامت کے دن کفار کی داد و فریاد اور اعتراف اور آرزوئیں کسی کام نہیں آئیں گی۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ جو کچھ کرنا ہے اسی دنیا میں ہی کر لیں۔( یوم باقی تاویل )

۲ ۔ دین، مذہب اور قرآن کو فراموش کر دینا بہت بڑا احسان ہے( نسوه ) ۲۹

۳ ۔ کفار، یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے اعمال صحیح ہیں، قیامت کے دن جب اپنی خطاؤں اور غلط کاریوں کی طرف متوجہ ہوں گے تو دنیا کی طرف واپسی کی خواہش کریں گے لیکن یہ آرزو غلط ہو گی( اونرد فضل ) ۳۰

۴ ۔ قیامت آگاہی اور بیداری کا دن ہے۔( جائت رسل ربنا بالحق )

۵ ۔ شفاعت ہر ایک کے لئے نہیں ہو گی( هل لنا من شفعاء )

۶ ۔ قیامت کے دن طاغوتوں، بتوں، مال و دولت اور اقتدار کا نام و نشان اور جلوہ گری نہیں ہو گی( ضل عنهم )

آیت ۵۴

( اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلیَ الْعَرْشِ یُغْشَی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُه حَثِیْثَا وَالشَّمْسَ وَ ْالْقَمْرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ م بِاَمْرِه ط اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ ط تَبٰرَکَ اللّٰهُ رَبُّ الْعَلٰمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: درحقیقت تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے کہ جس نے چھ دنوں (اور دورانیوں) میں آسمان اور زمین کو پیدا پھر اقتدار کی کرسی اور کائنات کی تدبیر پر مسلط ہوا۔ وہی تو ہے جو دن کو رات کے ذریعہ چھپا دیتا ہے اور رات بڑی تیزی سے دن کا پیچھا کرتی ہے اور سورج، چاند اور ستارے اس کے احکام کے فرمانبردار ہیں۔ آگاہ رہو کہ تخلیق بھی اسی کا کام ہے اور تدبیر بھی۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

گزشتہ آیت میں بتایا گیا تھا کہ قیامت کے دن ہر چیز اور ہر شخص فنا ہو جائے گا بقا صرف ذات پروردگار عالم ہی کو حاصل ہے۔( ضل عنهم--- ) اور اس آیت میں حقیقی پروردگار کا تعارف کرایا جا رہا ہے۔

"یوم" کے کئی معنی ہیں۔ اور یہ "نہار" (دن) کے علاوہ ہے جو "لیل" (رات) کے مقابل میں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ "یوم" کا ایک معنی تو "دن" کا ہے ایک "دن رات" کا اور ایک "دورانئے" کا۔

"تبارک" کو "برکت" سے لیا گیا ہے جو "برک" سے ماخوذ ہے۔ جبر کا معنی ہے "اونٹ کا سینہ جب وہ زمین پر رکھتا ہے" یہ اس کے وہاں پر ٹھہرنے کی علامت ہوتی ہے۔ اور "برکت" کا معنی بھی "بقاء" اور "ٹھہرا رہنا ہے" اور "برکہ" (کنواں) اسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی ٹھہرا اور ذخیرہ بنا رہتا ہے۔

پیام

۱ ۔ اگرچہ خداوند عالم اس بات پر قادر ہے کہ تمام کائنات کو ایک ہی لمحہ میں خلق فرما دے، لیکن آرام اور سکون کے ساتھ کام کی بجاآوری ہی اس کا انداز کار ہے اور اسی میں لوگوں اور کائنات کی مصلحت ہے۔ (فرشتہ ایام)۳۱

۲ ۔ "عرش پر متمکن ہونا" یا "تخت پر بیٹھنا" "تسلط، اقتدار، تدبیر امور، ہدایت اور مکمل ارادے سے کنایہ ہے۔ دوسری زبانوں میں بھی اسی قسم کا کنایہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں کہ "فلاں کو عرش سے فرش پر پھینک دیا گیا" یعنی اسے اقتدار اور تسلط سے علیحدہ کر دیا گیا۔( استوی علی العرش )

۳ ۔ زمین گول اور متحرک ہے( یطلب حثیثا ) شب و روز کا مسلسل ایک دوسرے کے پیچھے لگ رہنا یہ زمین کے گول اور متحرک ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

۴ ۔ کائنات کا ایک باقاعدہ نظام ہے اور وہ بھی ارادہ الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے( بامره مسخرات )

۵ ۔ کائنات کی پیدائش بھی خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا ارادہ اور تدبیر بھی۔( له الخلق والامر )

آیت ۵۵

( اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَةً ط اِنَّه لَایُحِبُُّ الْمُعْتَدِیْنَ ) ۰

ترجمہ: اپنے پروردگار کو گڑگڑا کر اور مخفی انداز میں پکارو، یقیناً وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔

دو نکات

ایک سفر میں حضرت رسول خدا نے اپنے بعض صحابیوں کو دیکھا جو زور زور سے دعا کر رہے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:

"دعا آہستہ مانگا کرو۔" (از تفسیر فخر رازی، فی ظلال القرآن اور مجمع البیان)

سابقہ آیت میں خدا کی معرفت کی بات ہوئی تھی اور اس میں خدا کی عبادت کی بات ہو گی۔

پیام

۱ ۔ خدا کی معرفت کے بعد اس کی عبادت ضروری ہے( ادعوا ربکم )

۲ ۔ بہتر یہی ہے کہ دعا تضرع و زاری کے ساتھ اور آہستہ سے ہونی چاہئے۔( تضرعا و خفیة )

۳ ۔ دعا میں تضرع، نالہ اور زاری کا اسی لئے حکم ہے تاکہ انسان اپنی ضروریات اور اپنے اندر ہر قسم کی کمی کو محسوس کرے اور غرور، تکبر اور خودخواہی جو اس کے اندر موجود ہے اسے باہر نکال دے (جو خود کو بے نیاز اور طاقتور سمجھتا ہے وہ آہ و زاری نہیں کرتا)

۴ ۔ گریہ و زاری اس وقت موثر ہے جب خلوص قلب اور تہہ دل سے ہو( تضرعا و خفیة ) حضرت زکریا علیہ السلام بھی اپنے رب کو مخفی انداز میں اور خلوص دل سے پکارا کرتے تھے جب کہ ارشاد الٰہی ہے "( اذنادی الله نداء خفیا ) "

۵ ۔ عبادت اور دعا و نیائش میں بلند آواز ریاکاری اور دکھاوے کا موجب بن سکتی ہے( خفیة )

۶ ۔ پورے وجود کے ساتھ خدا کی عبادت کرو اور اس سے دعا مانگو، تمہاری زبان تمہارے وجود کی نمائندہ ہونی چاہئے۔( لضرعا )

۷ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "دعا میں ہاتھوں کو بلند کرنا ہی گڑگڑانا اور تضرع و زاری کرنا ہے" حضرت پیغمبر اکرم بھی ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کیا کرتے تھے، چنانچہ حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا نے فرمایا:

"خداوند عالم کو ایسا ہاتھ خالی لوٹانے سے شرم آتی ہے جو دعا کے لئے اٹھایا جائے" (اس روایت کو تفسیر قرطبی اور سنن ترمذی نے بھی نقل کیا ہے)

۸ ۔ سرے سے دعا ہی نہ مانگی جائے، اگر مانگی جائے تو اس میں تضرع و زاری نہ ہو، یا ریاکارانہ انداز میں مانگی جائے یا مخفی طو رپر نہ مانگی جائے بلکہ زور زور سے اور بلند آواز کے ساتھ مانگی جائے تو "تجاوز" کے زمرے میں آئے گی( لایحب المعتدین )

آیت ۵۶

( وَلَاتُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاوَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمْعًاط اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ ) ( مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ) ۰

ترجمہ: زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ، اور خدا کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو! یقیناً اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے نزدیک ہے۔

چند نکات

گزشتہ آیت میں بندے کا خدا سے تعلق بیان کیا گیا تھا اس آیت میں بندے کا بندوں کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے۔

اس میں اور اس سے پہلی آیت میں دو مرتبہ "ادعوا" کا حکم ہے۔ اور ان دونوں فرمانوں کے درمیان "( لاتفسدو فی الارض ) " کا حکم ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زبان کے ساتھ مانگی جانے والی دعا کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر اصلاح طلبی کی سعی پیہم کو بھی ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو دعا مانگی جائے لیکن عمل سے فساد اور معاشرے کی تباہی کے سامان مہیا کئے جائیں۔

اس میں اور اس سے پہلی آیت میں دعا کے شرائط، آداب اور قبولیت کے اسباب کو بیان کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں:

۱ ۔ دعا گڑگڑا کر اور تضرع و زاری کے ساتھ مانگی جائے ۲ ۔ ریاکاری سے ہٹ کر اور مخفی انداز میں دعا کی جائے ۳ ۔ امید اور خوف کے درمیان رہ کر دعا مانگی جائے ۴ ۔ حق کی حدود سے تجاوز کئے بغیر ہونی چاہئے ۵ ۔ فساد اور تباہی کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہونا چاہئے۔

پیام

۱ ۔ اصلاح شدہ اور صاف ستھرے معاشرے کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں( بعد اصلاحها )

۲ ۔ انقلابی مصلح دعا، عرفان اور مناجات سے بے نیاز نہیں ہوتے( وادعوه خوف و … )

۳ ۔ اگر دعا، خوف اور طمع حد اعتدال پر نہ ہوں تو فساد کی حد تک جا پہنچتے ہیں۔

۴ ۔ انسان کو ہر وقت خوف اور امید کی حالت میں رہنا چاہئے، اسی اعتدال کو خداوند عالم نے "احسان" کا نام دیا ہے( --- ) ( قریب من المحسنین )

۵ ۔ احسان، خداوند عالم کی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے اور اس کے بغیر رحمت کا انتظار بے جا ہے( قریب من المحسنین )

۶ ۔ حق کی جانب دست نیاز دراز کرنا اور فساد سے دور رہنا ہی "احسان" ہے( قریب من المحسنین )

آیت ۵۷

( وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْراًًم بَیْنَ یَدَ یْ رَحْمَتِه حَتّٰی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثَقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِه الْمَآءَ فَاَخْْرَجْنَا بِه مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) ۰

ترجمہ: اور وہ وہی (خدا) ہے جو اپنی (باران) رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، حتیٰ کہ جب ہوا سنگین (اور پانی سے بھرے) بادلوں کو اٹھا کر روانہ ہوتی ہے تو ہم اسے بے جان سرزمین کی طرف روانہ کرتے ہیں پس اس ذریعے سے ہم بارش نازل کرتے ہیں، پس اس کی وجہ سے ہم ہر قسم کے میوے (زمین سے) اگاتے اور باہر نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو زمین سے نکالیں گے تاکہ تم (زمین کے بے جان او رافسردہ ہونے کے بعد اس کی زندگی کو ملاحظہ کرکے) نصیحت حاصل کرو۔

ایک نکتہ

گزشتہ آیات میں خدا شناسی یا معرفت الٰہی کا ذکر تھا اور یہاں ہر معاد کا تذکرہ ہے۔ اور مبداء و معاد دونوں میں فطری مسائل اور نظام تخلیق کائنات سے استدلال کیا گیا ہے۔

پیام

۱ ۔ طبعی اور فطری قوانین اپنی تمام پیچیدگی اور نظم و انتظام کے باوجود پروردگار عالم کے ارادہ و اختیار کے ماتحت ہیں لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان کو مبرا ہستی یا خالق کائنات سے غافل کر دے۔( هوالذی )

(سائنسی او رمادی فارمولوں کے چکر میں پڑ کر مادیات کے سمندر میں غرق نہ ہو جانا ہوا کی حرکت اور اس کی ہدایت، بارش کا برسنا اور نباتات کا اگنا سب خداوند عالم کی تدبیر کے تابع ہیں( هوالذی )

۲ ۔ معاد (قیامت کے منکرین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے صرف وہ "استبعاد" (بعید سمجھنے) سے کام لیتے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ قیامت کے دن منتشر اجزاء اور پراگندہ ذرات کو یکجا کرنا بعید ہے۔ حالانکہ اس کائنات میں اس کے نمونے موجود ہیں۔ سیب، ناشپاتی اور انار کے ذرات جو کہ اس زمین میں منتشر اور اجزا جو کہ پراگندہ ہیں انہیں جمع کرکے سیب، ناشپاتی اورانار کی صورت میں پیدا کرنے والی ذات مردوں کے ذرات اور اجزا کو جمع کرنے پر قادر ہے۔ اور یہی بات اس استبعاد کے دور کرنے کے لئے کافی ہے۔( کذالک مخرج الموتیٍ )

۳ ۔ موت، عدم (نیستی) نہیں بلکہ حالت کی تبدیلی کا نام ہے جبکہ مردہ زمین، معدوم چیز کا نام نہیں ہے۔

آیت ۵۸

( وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یُخْرِجُ نَبَاتُه بِاِذْنِ رَبِّه وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا ط کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ) ( لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ ) ۰

ترجمہ: پاکیزہ (اور آمادہ) سرزمین کی نباتات اپنے پروردگار کے حکم سے (مفید اور بابرکت) باہر نکلتی ہے۔ لیکن جو زمین خبیث (شورہ زار اور معیوب) ہوتی ہے وہ تھوڑی سی بے فائدہ چیز کے علاوہ اور کچھ باہر نہیں نکالتی۔ اس طرح ہم اپنی آیات کو شکرگزار لوگوں کے لئے الٹ پھیر کر بیان کرتے ہیں۔

ایک نکتہ

قرآنی آیات باران رحمت کی مانند ہیں اگر آمادہ دلوں پر پڑھی جائیں تو معرفت، عشق ایمان اور سعی مسلسل میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ نااہل افراد کے لئے ہٹ دھرمی اور ضد کے علاوہ کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ارشاد پروردگار ہے: "( وننزل من القرآن ماهوشفاء و رحمة للموٴمنین ولا یزید الظالمین الاخسارا ) " (بنی اسرائیل/ ۸۲)

باران کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید و در شورہ زار خس

پیام

۱ ۔ خاندانی، شرافت، وراثت اور شخصیت کے عوامل میں سے ایک ہے۔( البلد الطیب )

۲ ۔ صرف نزول رحمت ہی کافی نہیں، مکان و محل کی قابلیت اور فراخیت کے علاوہ اذن الٰہی بھی ضروری ہے( باذن ربه )

۳ ۔ اگرچہ نظام فطرت اپنے خاص قوانین کی بنیادوں پر استوار ہے لیکن سب کچھ پروردگار عالم کی زیرنگرانی اور اس کے ارادہ و اختیار کے تحت چل رہا ہے( باذن ربه )

۴ ۔ اگرچہ قرآن مجید تمام لوگوں کے لئے ہدایت اور بیان ہے لیکن اس سے صرف متقین اور شاکرین ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں( لقوم یشکرون ) ۳۲

آیت ۵۹ ، ۶۰

( لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًااِلَی قَوْمِه فَقَالَ یَقَوْمِ عْبُدُو ا اللّٰهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُه ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۰ قَالَ الْمَلَاءُ مِنْ قَوْمِهٓ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ ضَلٰلِ مُّبِیْنٍ ) ۔

ترجمہ: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، تو اس نے کہا: اے میری قوم! خدا کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ یقین جانو کہ میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

اس کی قوم کے سرداروں نے کہا: اس میں شک نہیں کہ ہم تجھے واضح اور آشکارا گمراہی میں دیکھ رہے ہیں۔

چند نکات "بلاخبیث" (جو گزشتہ آیت میں بیان ہوا ہے) کا نمونہ حضرت نوح کی قوم تھی کہ حضرت نوح علیہ السلام نے انہیں جس قدر بھی تبلیغ کی انہوں نے اس سے کوئی اثر نہ لیا۔

حضرت نوح علیہ السلام کی داستان سورت احقاف، سورہ صافات، اسرأ (بنی اسرائیل) احزاب، مومنون او رقمر میں مذکور ہے۔

"خوف" میں مثبت پہلو پایا جاتا ہے جبکہ "جبن" (بزدلی) منفی بھی ہے اور ناپسند میں بھی( اخاف علیکم )

پیام

۱ ۔ توحید اور خداپرستی کی دعوت تمام انبیا کی دعوت و تبلیغ کا سرنامہ ہے اور تمام ادویات کے مشترکات میں شامل ہے( اعبدواالله )

۲ ۔ انبیاء، عالم انسانیت کے حقیقی اور دلسوز وست میں( یا قوم، اخاف علیکم )

(البتہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت عالمی تھی۔ کیونکہ ان کی قوم اس دور کے تمام لوگ تھے۔ او رحضرت نوح نے اپنی بددعا میں روئے زمین کے تمام کفار کو شامل کیا تھا اور وہ غرق ہو گئے تھے۔ انہوں نے بددعا کی کہ "( رب لاتعزی علی الارض من الکافرین دیارا ) " (نواح/ ۸)

۳ ۔ انبیاء کے مخالف ہمیشہ بڑے لوگ، اشرافیہ، سردار، ثروتمند اور مالدار لوگ ہی ہوا کرتے تھے کہ جن کی دولت کی "چمک" لوگوں کی آنکھوں کو "پُر" کر دیتی تھی۔( اعلأ من قومه )

۴ ۔ اگرچہ ایمان نہ لانا بری بات ہے لیکن اس سے بڑھ کر برائی یہ ہے کہ انبیاء کو (نعوذ باللہ) گمراہ سمجھا جائے۔ جب فطرت مسخ ہو جاتی ہے تو حقیقی راہنماؤں کو بھی گمراہ سمجھاجانے لگتا ہے آج بیسویں صدی میں بھی دنیا کے الحاد کو روشن فکر اور انبیاء اور مبلغین دین کو رجعت پسند، وقیانوسی اور سادہ لوح سمجھتے ہیں۔

۵ ۔ جو نظام توحید کے اجرا اور نظام شرک کی بیخ کنی کا داعی ہوتا ہے اسے ہر قسم کی تہمت، توہین، استہزاء اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔( لنراک فی ضلٰل مبین )

آیت ۶۱ ۔ ۶۲

( قَالَ یَقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَةٌ وَّ لَکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۰ اُبَلِّغُکُمْ رِسَلَتِ رَبِّیْ وَاَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَاتَعْلَمُوْنَ ) ۰

ترجمہ: (حضرت نوح نے کہا! اے میری قوم! مجھ میں کسی قسم کا انحراف اور گمراہی نہیں ہے، بلکہ میں عالمین کے پروردگار کی طرف سے بھیجا ہوا ہوں۔

میں اپنے پروردگار کے پیغامات تم تک پہنچاتا ہوں، تمہارا خیرخواہ ہوں اور خدا کی طرف وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

ایک نکتہ

"نصح" کا معنی ہے خالص اور کسی قسم کی ملاوٹ کے بغیر ہونا۔ اسی لئے خالص شہد و "ناصح العسل" کہتے ہیں۔

پیام

۱ ۔ تمام کائنات کا صرف اور صرف ایک ہی رب ہے جو سب کا پروردگار ہے، لہٰذا ہر ایک چیز کے لئے علیحدہ علیحدہ رب نہ بناؤ۔( رب العالمین )

۲ ۔ جاہلوں کی توہین و استہزاء کے مقابل میں صبر سے کام لو۔( یس بی ضلالة )

۳ ۔ سب سے پہلا اولوالعزم نبی، بدترین باتوں کے جواب میں نرم ترین روش اختیار کرتا ہے۔ اس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے۔

۴ ۔ مبلغ کو ایک تو خیرخواہ اور دلسوز ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی کافی حد تک عوام سے بہرہ ور بھی ہونا چاہئے۔( الضح- اعلم )

۵ ۔ انبیاء کرام، علم و معرفت کی ان حدود تک پہنچے ہوتے ہیں کہ جہاں پر عام انسان کی رسائی نہیں ہو سکتی۔( لاتعلمون )

آیت ۶۳

( اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآئَکُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٌ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَ لِتَتَّقُوْ ا وَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ) ۰

ترجمہ: کیا تم نے اس بات پر تعجب کیا ہے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم میں سے ایک شخص کے پاس نصیحت آ چکی ہے تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو اور ہو سکتا ہے کہ تم پر رحم کیا جائے۔

پیام

۱ ۔ وحی کا اصل مقصد انسان کی تربیت ہے۔( ربکم )

۲ ۔ "حجاب معاصرت" (کسی کا ہم عصر ہونا اس کی) برحق اور منطقی باتوں کی قبولیت سے مانع ہوتا ہے۔ حضرت نوح کی قوم بھی کہتی تھی کہ "وہ کیونکر نبی ہوئے اور ان پر کسی لئے وحی نازل ہوئی ہے جبکہ ہم اس چیز سے محروم ہیں؟ وہ وحی کی باتوں کو سمجھیں اور ہم کیوں محروم رہیں؟ آخر کس لئے نوح جیسے غریب آدمی پر وحی نازل ہو اور فلاں امیر کبیر اور سرمایہ دار پر نازل نہ ہو؟"( اوعجبتم )

۳ ۔ بعثت اور نبوت کا فلسفہ، لوگوں کو خبردار کرنا، توجہ دلانا، گناہوں سے بچانا، تقویٰ کا درس دینا اور خداوند عالم کے لطف و کرم کو حاصل کرنا ہے( لینذر کم، تتقوا، ترحمون )

۴ ۔ تقویٰ، رحمت خداوندی کے نزول کا موجب ہوتا ہے( لتتقوا، لعلکم ترحمون )

آیت ۶۴

( فَکَذَّبُوْهُ فَاَنْجَیْنٰهُ وَالَّذِیْنَ مَعَه فِی الْفُلْکِ وَ اَغْرَقَنْاَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْ ا بِاٰیٰتِنَا ط اِنَّهُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: پس انہوں نے (اس بے جا تعجب کی وجہ سے ) نوح کو جھٹلایا، تو ہم نے اسے اور جو کشتی میں اس کے ہمراہ تھے نجات بخشی اور جن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی انہیں غرق کردیا کیونکہ وہ (دل کے ) اندھے لوگ تھے۔

ایک نکتہ

"عمین" جمع ہے "عمی (بروزن دلو) کی۔ اور عمی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی چشم بصیرت یا باطنی دید ختم ہو چکی ہو، جبکہ "اعمٰی" اس شخص کو کہتے ہیں کہ جسکے باطن کی آنکھیں بھی جواب دے چکی ہوں۔ (تفسیر نمونہ، المیزان قدر کے فرق کے ساتھ)

پیام

۱ ۔ ایمان، نجات کا سبب اور تکذیب موجب ہلاکت ہے۔( انجینا- اغرقنا )

۲ ۔ دل کا اندھاپن، انبیاء کی دعوت کی تکذیب کا اصل عامل ہے( عمین )

آیت ۶۵

( وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ط قَالَ یَقَوْمِ اعْبُدُوااللّٰهَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰهٍ غَیْرُهط اَفَلَاتَتَّقُوْنَ ) ۰

ترجمہ: ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، اس نے (ان سے) کہا، اے میری قوم! صرف ایک ہی خدا کی عبادت کرو جس کے علاوہ کوئی اور عبادت کے لائق نہیں۔ کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے؟

چند نکات

یہ اس سورت کی دوسری داستان ہے۔ جبکہ حضرت ہود کی داستان کی تفصیل سورہ شعرأ اور سورہ ہود میں بیان ہوئی ہے۔

قوم عاد، یمن کی سرزمین اور حجاز کے جنوبی علاقہ "احقاف" میں رہتی تھی۔ جسمانی لحاظ سے ہٹے کٹے لوگوں کی قوم تھی۔ افزائش حیوانات اور کاشتکاری کے لحاظ سے بھی مالدار قوم تھی۔ لیکن اخلاقی جرائم اور بت پرستی کی مصیبت میں گرفتار تھی، حضرت ہود علیہ السلام کا اس قوم سے رشتہ تھا۔ آپ اسے ڈرانے کے لئے مبعوث بہ نبوت ہوئے۔ اور نوح علیہ السلام کی طرح سب سے پہلے انہیں توحید کی دعوت دی۔

پیام:

۱ ۔ تمام انبیاء کی دعوت کا سرنامہ "توحید" ہے( اعبدواالله )

۲ ۔ انبیاء علیہم اسلام عوامی اور عوام کے بہت بڑے ہمدرد، خیرخواہ اور دلسوز افراد تھے( اخاهم )

۳ ۔ مبلغین کو چاہئے کہ وہ عوام الناس کے ساتھ بھائیوں کے جیسا سلوک کریں اور ان کے ساتھ محبت کا اظہار کریں( اخاهم )

۴ ۔ اگر گزشتہ کفار پر اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب نازل ہوا ہے تو اس سے آئندہ اور آنے والی نسلوں کو دراصل عبرت حاصل کرنا چاہئے اور دین کی تکذیب سے گرنا چاہئے۔( افلاتتقون )

آیت ۶۶ ، ۶۷

( قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ قَوْمِه اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا الَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَذِبِیْنَ ۰ قَالَ یَقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لَکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: (ہود علیہ السلام کی دعوت کے جواب میں) اس کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا، ہم تو تجھے یقینی طور پر بیوقوفی اور بے عقلی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں اور اس میں تو شک ہی نہیں ہم تجھے جھوٹے لوگوں میں سے سمجھتے ہیں۔

(ہود علیہ السلام نے ان کی جسارت اور گستاخی کے جواب میں) کہا: اے میری قوم! میں بے وقوف نہیں ہوں بلکہ میں تو عالمین کے پروردگار کی طرف سے رسول بھیجا گیا) ہوں۔

ایک نکتہ

ہود کے مخالفین کی جسارت اور گستاخی، نوح علیہ السلام کے مخالفین کی گستاخی سے زیادہ تھی۔

حضرت نوح کے دشمن انہیں "فی ضلالت" گمراہ کیا کرتے تھے۔ جبکہ حضرت ہود علیہ السلام کے دشمن انہیں کم عقل اور جھوٹا کہتے تھے( سفاهة، کاذبین )

پیام

۱ ۔ اللہ کے پیغمبروں کو بہت ہی سخت اور نہایت ہی واضح پروپیگنڈوں، مخالفتوں اور تہمتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔( سفاهة، کاذبین )

۲ ۔ لوگوں کو راہ خدا میں تبلیغ و ارشاد کے سلسلہ میں کائنات کے شریف ترین اور عالم ترین لوگوں کودنیا جہان کے پست ترین اور رذیل ترین لوگوں سے بدترین الفاظ سننے اور برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

۳ ۔ انبیاء کی فراخدلی، وسعت ظرفی اور اخلاقی بزرگواری کا کمال بھی دیکھئے کہ اس قدر گستاخانہ اور جسارت آمیز لہجے میں گفتگو سننے کے بعد بھی کہتے ہیں "اے میری قوم!"( لقوم )

۴ ۔ اپنی ذات پر لگنے والی تہمت کا ازالہ ضرور کریں، لیکن دوسروں کومتہم ہرگز نہ کریں۔( لیس بی سفاهة )

۵ ۔ مبلغ کو اپنا مقصد کبھی پس پشت نہیں ڈالنا چاہئے( لکنی رسول )

۶ ۔ جسے اپنے ہدف پر یقین ہوتا ہے اور خدائی پشت پناہی سے بھی بہرہ ور ہوتا ہے وہ صبر و سکون کے ساتھ گفتگو کرتا ہے( لیس بی سفاهة )

آیت ۶۸

( اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَ َنا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ ) ۰

ترجمہ: میں تو اپنے پروردگار کے پیغامات تم تک پہنچاتا رہوں گا اور میں ہی تمہارا خیرخواہ امیں ہوں۔

پیام

۱ ۔ پیغمبروں کی باتیں خدائی رسالت و احکام ہوتی ہیں، اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے۔( رسالات ربی )

۲ ۔ مبلغین کے لئے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے ۱ ۔ عوام الناس کے ساتھ دلسوزی ۲ ۔ صداقت۔( ناصح امین )

۳ ۔ جہاں ہر کسی کی اصلاح مقصود ہو تو وہاں پر اپنی تعریف کرنے میں جرم نہیں( انا لکم ناصح امین ) ۳۳

۴ ۔ اگر دلسوزی کے ساتھ دیانتداری نہ ہو تو وہ خطرناک ہو جاتی ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایسی دلسوزی سے کسی کے حقوق پامال ہو جائیں یا قوانین الٰہیہ کی خلاف ورزی ہو جائے( ناصح امین )

آیت ۶۹

( اَوَ اَعْجِبْتُمْ اَنْ جَآئَکُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رِّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٌ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْْ ط وَاذْکُرُوْا اِذْجَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَ کُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَةً فَاذْ کُرُوْٓ ا اَلآَءَ اللّٰهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) ۰

ترجمہ: آیا تم نے اس بات سے تعجب کیا ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک شخص کے ذریعہ ہدایت پہنچی ہے؟ تاکہ وہ تمہٰں (گناہوں اور گمراہی کے انجام سے) ڈرائے۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے تمہیں قوم نوح کے بعد اس کا جانشین قرار دیا اور تمہاری خلقت میں اضافہ فرمایا۔ پس تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ فلاح پا جاؤ۔

ایک نکتہ:

۱ ۔ قوم عاد کی جسمانی طاقت اس حد تک تھی کہ وہ خود کہا کرتے تھے: "من اشد منا فوة" ہم سے بڑھ کر اور کون طاقتور ہو سکتا ہے؟۔ اور اس حد تک تنومند تھے کہ جب ہلاک ہو کر زمین پر گرے تو معلوم ہوتا تھا کہ کھجور کے درخت کے تنے گرے پڑے ہیں:( کا نهم اعجاز نخل خاویة ) " (الحاقہ / ۷)

پیام:

۱ ۔ آیا تم اس شخص کو تعجب کرتے ہو کہ جو خدا کا پیغمبر ہے امین بھی ہے، اس کا ماضی بھی تابناک ہے اور تم میں سے بھی ہے، لیکن اپنی بت پرستی سے تعجب نہیں کرتے ہو؟( اوعجتم )

۲ ۔ جسمانی توانائی خدا کی ایسی نعمت ہے جسے صحیح راہ میں صرف کرنا دچاہئے۔( زاد کم فی الخلق البطعة فاذ کروا ) ۔

۳ ۔ خدا کی نعمتوں کی یاد آوری، کامیابی کی دلیل ہے۔( فاذ کروا- تفلحون ) اس لئے نعمتوں کی یاد آوری سے حق و محبت پیدا ہوتی ہے، محبت کیس اتھ ساتھ اطاعت کا جذبہ پدیا ہوتا ہے اور اطاعت سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

آیت ۷۰

( قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَ حْدَه وَ نَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُاٰبَآؤُنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدِنَآاِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) ۰

ترجمہ: (قوم عاد کے افراد نے حضرت ہود سے) کیا: آیا تم ہمارے پاس آ لتے آئے ہو کہ ہم خدائے یگانہ کی پرستش کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں؟ اگر تم سچوں میں سے ہو تو تم نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا وہ لے آؤ!

پیام:

۱ ۔ منطق کی بجائے تعصب کا اظہار قابل مذمت ہے۔ اسی طرح جاہل کا کسی جاہل کی تقلید کرنا بھی!۔( یعبد آباؤنا )

۲ ۔ رسومات اور گزشتگان کی مقرر کی ہوئی سنتیں ہر جگہ پر قابل قدر نہیں ہوا کرتیں۔( یعبد آباؤ نا )

۳ ۔ تعصب اور اندھی تقلید ، حقیقت کی معرفت کے مانع ہوتی ہے اور انسان کو عناد دشمنی کی طرف لے جاتا ہے۔( فائنبما تعدنا )

۴ ۔ بعض اوقات، عادت فطرت پر غالب آ جاتی ہے جیسے گزشتہ لوگوں کی عادت حق طلبی کی فطرت پر غالب آ گئی تھی۔

۵ ۔ انبیاء نے ناجائزرسومات اور بیہودہ سنتوں کی بیخ کنی کی ہے۔( نذرمان کان یعبد اباؤنا )

۶ ۔ انسان چاہے کل (ماضی) کا ہو یا آج (حال) کا اس پر دور میں حق مکی منطق کا رستہ اختیار کرنے کی بجائے زوروجبر اور قدرت اور طاقت کی منطق کی بات کی ہے۔ اور انبیاء سے بھی یہی راستہ اختیار کرنے کی خواہش کی ہے۔( فاتنا بماتعدنا )

آیت ۷۱

( قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌ ط اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْ ٓ اَسْمَآءِ سَمَّیْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط فَانْتَظِرُؤْٓ ا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ) ۰

ترجمہ: (ہود نے قوم عاد کی ضد کو دیکھ کر کہا: تمہارے پروردگار کی طرف سے پلیدی اور غلیظ و غضب اوعر سزا تمہارے لئے حتمی ہو چکی ہے۔ آیا تم میرے ساتھ اپنے کاموں کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو کہ جنہیں تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے موسوم کیا ہے؟ خدا نے تمہارے معبودوں کے بارے میں کوئی دلیل و برہان نازل نہیں کی ہے۔ پس تم (خدائی قہر کے) منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ اسی انتظار میں ہوں۔

پیام:

۱ ۔ ضد، ہٹ دھرمی اور حق کے ساتھ آویز شرکا نتیجہ خدا کی منزل ننگ و عار اور ہلاکت و تباہی ہوتا ہے۔( قدروقع علیکم )

۲ ۔ پتھر اور لکڑی کو "خدا" کا نام دینے سے خدا نہیں بن جاتے۔ ہمارے دور میں بھی بڑے بڑے بھاری بھر کم الفاظ کے بے مقصد نام ایک وبائی سورت اختیار کر چکے ہیںَ( اسماء سمیتموها )

۳ ۔ مشرکین کے معبود بے مسمیٰ نام ہیں کہ جن کی نہ تو کوئی حقیقت ہے اوعر نہ ہی جواز، نہ ہی خدا نے اس بارے کوئی حکم صادر فرمایا ہے۔( اسماء----- مانزل الله بهما من سلطٰن )

۴ ۔ بت پرستوں سے بھی دلیل طلب کیا کرو۔ وہ جو یہ کہتے ہیں کہ "بت، خدا کے تقرب کا ذریعہ سب "ان سے پوچھو کہ‘ آیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے کہ خدا نے اپنے قرب کے لئے بتوں کی پرستش کو وسیلہ قرار دیا ہے؟"( مانزل الله بهما من سلطان )

۵ ۔ انبیاء کو اپنے ہدگ اور کامیابی پر پورا پورا یقین ہوتا ہے اور دشمنوں کی شکست پر مکمل اطمینان۔( انتظر وا انی معکم من المتنظرین )

آیت ۷۲

( فَاَنْجَیْنٰهُ وَالَّذِیْنَ مَعَه بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَمَاکَانُوْا مُؤْمِنِِیْنَ ) ۰

ترجمہ:

پس ہم نے ہود اور ان کے (عملی اوعر فکری) ساتھیوں کو اپنے لطف و کرم سے نجات دی۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور جو لوگ بے ایمان تھے ہم نے ان کی بیخ کنی کر ڈالی۔

چند نکات:

"دابر" کا معنی ہے کسی چیز کا آخر یا پچھلا حصہ یا اختتام۔ اور "قاطع دابر" کا معنی ہے کسی چیز کی بیخ کنی کر اور آخری شخص کو ہلاک کر ڈالا۔

قوم عاد کی ہلاکت ایسے ہوئی طوفان سے ہوائی جو بانجھ، شور شرابے سے بھرپور ، سرد اور زہریلا تھا۔ اور مسلسل آٹھ دن تک ان پر مسلط رہا۔ جیسا کہ سورہ "الحاقہ" میں ہے کہ: "بریح موصوعاتیةً اور مفسرین نے "ایح صرصر" کی تین خصوصیات بیان کی ہیں اس حال پر دی ہوتی ہے۔ ۲ ۔ شور ہوتا ہے اور ۳ ۔ زہر ہوتی ہے اور زہریلے سرد اور گونجتے طوفان نے ان کا ایک قلع قمع کیا کہ وہ سارے کے سارے درخت فرما کے منہ کی مانند زمین پر پرے ہوئے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے: فتری القوم فیھا صرعیٰ کانھم اعجاز نخل خاویة"

پیام:

۱ ۔ تاریخ سے عبرت حاصل کرو( قطعنا دارالذین کو بهرا )

۲ ۔ رحمت خداوندی انبیاء کے ماننے والوں کے شامل حال ہوتی ہے۔( انجنیاه- برحمة منا )

آیت ۷۳

( وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صَلِحًا قَالَ یَقَوْمِ اعْبُدُو اللّٰهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهط قَدْ جَآَتْکُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ هٰذِه نَاقَةُ اللّٰهِ لَکُمْ اٰیَةً فَذَرُوْ هَا تَاکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ) ۰

ترجمہ: اور قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی صالح کو (ہم نے بھیجا اور اس نے بھی نو اور ہود کی مانند لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور) اس نے کہا: اے میری قوم (صرف ایک) خدا کی عبادت کرو کہ خبر کے بغیر کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزہ اور واضح دلیل آ چکی ہے۔ یہ خدا کی اونتنی سرزمین میں کھاتی (پیتی) رہے۔ اور اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچاؤ ورنہ تمہیں دردناک عذاب اپنی گرفت میں لے لے گا۔

چند نکات:

قرآن مجید میں سات مرتبہ ناقہء صالح" اور چھبیس بار قوم ثمود" کا نام لیا گیا ہے۔ قوم ثمود کی داستان سورہ شعرأ، قمر، کسمس، اور ہود میں بیان ہوتی ہے۔ بقول صاحب۔ تفسیر "المیزان" یہ لوگ یمن میں رہتے تھے۔

بینہ اور معجزہ کا دوسرے خارق العادت انسان ی کاموں کے ساتھ چند چیزوں میں فرق ہوتا ہے،

الف: معجزہ کے لئے ، مشق، کسی سے سیکھنے ، حاصل کرنے اور ماضی کے ساتھ تعلق جیسی صورت نہیں ہوتی۔ جبکہ دوسرے کے خارق العادت انسانی کاموں کے لئے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ب: معجزے و معصوم اور باکردار افراد سے رونما ہوتا ہے جبکہ دوسرے کام نااہل افراد سے بھی صادر ہو سکتے ہیں۔

ج: معجزے کا مقصد لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی ہوتا ہے جبکہ دوسرے افراد کا ہدف خودنمائی شہرت، حصول زر اور کسی قسم کی دوسری سرگرمی ہوتا ہے۔

د: معجزے میں انبیاء کا کام چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے یعنی وہ ایسا دعویٰ کرتے ہیں جس کو دوسرے انجام نہیں دے سکتے۔ جبکہ نابغہ روزگار افراد، اختراع کنندگان اور ریافت کرنے والوں میں یہ چیز نہیں پائی جاتی۔

پیام:

۱ ۔ انبیاء کا عوام کے ساتھ رابطہ بھائیوں جیسا ہوتا ہے۔( اخاهم )

۲ ۔ انبیاء عوام ہی کے درمیان میں سے ہوتے ہیں۔( یاقوم )

۳ ۔ توحید پرستی، تمام انبیاء کی دعوت کا سرنامہ ہوتا ہے۔( اعبدوالله )

۴ ۔ انبیاء کو خدائی معجزہ کی ضرورت ہوتی ہے۔( مالکم من اله غیره ) تمام انبیاء کی دعوت تھی۔

۵ ۔ انبیاء کو خدائی معجزہ کی ضرورت ہوتی ہے۔( بنیة من ربکم ) البتہ بعض اوقات عوام کی درخواست کے مطابق بھی معجزات رونما ہوتے ہیں جسے "شق القمر" اور "ناقہ صالح"۔

۶ ۔ مقدسات الٰہی کی توہین کی سزا۔ عذاب الہٰی ہے۔( لا تمسوها لبو ٴفیاخذکم )

۷ ۔ خداوند عالم کی خصوصی عنایت اور اس کا لطف و کرم جس چیز کے ساتھ بھی متعلق ہو جائے وہ چیز مقدس ہوجاتی ہو۔( ناقة الله )

۸ ۔ معجزہ ایسا ہونا چاہئے جو جسے پرسطح کے لوگ درک کر سکیں۔ (ناقہ۔ اور۔ اس کا پہاڑے باہر آنا)

۹ ۔ معجزہ کی نوعیت بعض اوقات اس کا تقاضا کرنے والوں کی فکری حیثیت اور عوامی و معاشرتی نیز اقتصادی حالات کے پیش نظر بھی ہوتی ہے۔ (شاید اگر آج کے دور میں ایسی کنیت ہوتی تو وہ پہاڑے ہوائی جہاز کے باہر آنے کا تقاضا کرتے۔)

آیت ۷۴

( وَاذْکُرُوْٓا اِذجَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ م بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهْوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیَوْتًا فَاذْکُرُوْٓا الَآَءَ اللّٰهِ وَ لَاتَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْْنَ ) ۰

ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے عاد (کی ہلاکت) کے بعد تمہیں (ان کا) جانشین بنایا اور زمین میں تمہیں ٹھکانہ عطا کیا کہ جس کے نرم اور ہموار حصوں کے تم محلات تیار کر سکتے ہو اور پہاڑوں سے مکان تراش سکتے ہو۔ پس تم خدا کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔

ایک نکتہ:

"( لاتعثوا ) ‘ ‘ کے معنی ہٰں "لاتفسدوا" (فساد نہ پھیلاؤ) اور "مفسدین" کا کلمہ یا تو تاکید کے لئے ہے یا پھر اس لئے کہ "فساد تمہارا شیوہ نہ بن جائے۔"

پیام:

۱ ۔ گزشتہ افراد کی تاریخ سے عبرت حاصل کرو۔( بعدعاد )

۲ ۔ تمہیں ملنے والی ہر نعمت خدا کی طرف سے ہے۔( جعلکم )

۳ ۔ ہر طبعی کیفیت سے بہرہ مند ہو سکتے ہو۔( سهدلها- الجبال )

۴ ۔ مسکن اور مقام رہائش، خداوند عالم کی مخصوص نعمتوں میں سے ہے۔( قصور، هوت، الآء الله )

۵ ۔ آسائش، مقام رہائش اور محلات اگر یاد خدا سے ہت کر ہوں تو فساد کا سبب بن جاتے ہیں۔( قصوراً- هوتا- مفسدین )

۶ ۔ اگر نعمتوں کو خدا کی امانت سمجھو اور خود کو فانی، تو ہر قسم کے تجاوز اور فساد ہے، دوری اختیار کرو۔( واذکروا--- ولاتعثبوا )

۷ ۔ اشرافیہ اور محل نشینان کے لئے یاد خداوندی کی زیادہ ضروررت ہے تکاہ فساد و تباہی کا شکار نہ ہو جائیں۔ ("قصر" کا کلمہ دو "واذکروا" کے درمیان واقع ہوا ہے)