تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62995
ڈاؤنلوڈ: 5437

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62995 / ڈاؤنلوڈ: 5437
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۷۵ ۔ ۷۶

( قَالَ الْمَلَاُالَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْ ا مِنْ قَوْمِه لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْ ا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صَلِحًامُّرْسَلٌ مِّنْ رِّبِّه ط قَالُوْٓااِنَّابِمَا اُرْسِلَ بِه مُؤْمِنُوْنَ ۰ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرَوْٓا اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِه کٰفِرُوْنَ ) ۰

ترجمہ: حضرت صالح کی قوم کے متکبر سرداروں نے اس قوم کے مستصعف مومنین سے کہا: آیا تمہیں "سلام ہے کہ صالح اپنے پروردگار کی طرف سے بھیجا گیا ہے؟ (مومنین نے ان کے شکوک و شبہات پیدا کرنے والے انداز گفتگو کے جواب میں) کہا: یقیناً ہم ان تمام چیزوں پر ایمان لا چکے ہیں جن کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے۔ تو متکبرین نے کہا: ہم ان چیزوں کے کافر ہیں جن پر تم ایمان لا چکے ہو۔

پیام:

۱ ۔ اشرافیہ اورپوش علاقوں کے مکین انبیاء کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔( الملا الذین استکبروا )

۲ ۔ انبیاء کے بیشتر پیروکارمستضعفین ہی ہوا کرتے تھے۔( لمن آمن منهم )

۳ ۔ انبیاء کی دعوت پر مستضعفین کے ایمان لانے کا عامل صرف مادی فقر نہیں ہوتا تھا کیونکہ بہت سے مستضعفین صاحب ایمان نہیں تھے۔( منهم )

۴ ۔ رہبر کو کمزور کر دینا دشمن کے اصل ہداف میں شامل ہے۔( اتعلمون ان صالحامرسل )

۵ ۔ دلوں میں شک و شبہ ایجاد کرنا ایمان کے کمزور آنے کا ایک شیوہ ہے۔( القلمون )

۶ ۔ اگرچہ یہ ماحول اور معاشرے کا بھی اثر ہوتا ہے لیکن کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ (غریب مستضعفین نے مالدار اور تونگ متکبرین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا؛ "ہم صالح پر ایمان رکھتے ہیں۔ )

۷ ۔ نہ تو فقری فاقہ اور استضعاف کی اہمیت ہے اور نہ ہی تونگری، قصر شکنی اور مالداری کی۔ اصل قدروقیمت منطبق، علم، ایمان، تقویٰ، ہجرت اور جہاد کو حاصل ہے۔ جیسا کہ گزشتہ آیت میں قصر سازی کو خدا کی نعمت میں شمار کیا گیا ہے بشرطیکہ موجب فساد نہ بنے اور اس جگہ پر متضعفین کے مومن گروہ کی ستائش کی گئی ہے نہ کہ سب کی۔ (امن منھم)

آیت ۷۷

( فَعَقَرُالنَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْ یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنََ ) ۰

ترجمہ: پس ان (متکبرین) نے ناقہ (صالح) کو پے کر کے قتل کر دیا اور اپنے پروردگار کے فرمان (عذاب) ہمارے لئے لے آؤ جس کا تم وعدہ کرتے ہو۔

دونکات:

"عُقر" کا معنی ہے "پے کرنا" یعنی ایسی مخصوص حکم و مضبوط رگ کو کاٹ دینا ہے جو اونٹ یا گھوڑے کے پاؤں کے پچھلے حصے میں ہوتی ہے اور ان کی حرکت کا اہم عامل ہوتی ہے۔ اگر اسے کاٹ دیا جائے تو جانور زمین پر گر پڑتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا۔

سورہ قمر میں "عقر" مفرد کی صورت میں استعمال ہوا ہے کیونکہ قاتل ایک ہی شخص تھا۔ لیکن اس آیت میں سورہ والشمس میں "عقروا" جمع کی صورت میں آیا ہوا ہے۔ کیونکہ اس کے پے کرنے کی نسبت ان سب لوگوں کو نگا طرف دی گئی ہے یہ اس لئے ہے کیونکہ ان کا اس تجاوز پرسکوت اور رضامندی انہیں امر کے جرم میں برابر کا شریک ٹھہرا رہی ہے۔

پیام:

۱ ۔ کسی گناہ پر خاموشی اختیار کر لینا اور اس پر راضی رہنا، خود گناہ میں شرکت حساب ہوتا ہے۔ (غور کیجئے کہ قاتل ناقہ ایک شخص تھا لیکن فعل میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔)

۲ ۔ اونٹ یا اونٹنی کا قتل کر دینا اتنا اہم نہیں جتنا فرمان ھق سے سر نیچی اور نافرمان اہم ہے۔( عتوا عن امر ربهم )

۳ ۔ تکبر، جسارت اور گستاخی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔( امتنا بما تعدنا )

۴ ۔ جانور بذات خود مقدتر نہیں ہوتا اس کا تقدیر اس کی نسبت کی وجہ سے اورنمونہ ہونے کی بنا پر ہوتا ہے۔( فعقروآالناقة و عتوا )

آیت ۷۸

( فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: پس زلزلے نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا، انہیں نے صبح کی تو ان کی کیفیت یہ تھی کہ اپنے گھروں میں منہ کے بل گرے مرے پڑے تھے۔

دونکات:

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قوم ثمود کی ہلاکت زلزلے کی وجہ سے ہوئی۔ جبکہ سورہ فصلت ۱۴ ء اور سورہ زاریات ۴۴ میں ان کی ہلاکت کا موجب بجلی کو بتایا گیا ہے جب کہ ارشاد رب العزت ہے کہ "فاخذتھم الصاعقة وھم ینظرون" یعنی گرنے والی بجلی نے انہیں اس وقت تباہ کر دیا جب وہ دیکھ رہے تھے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم بیک وقت دو قسم کے عذابوں میں گرفتار ہوئی اوپر سے گرنے ولای بجلی اور نیچے سے زلزلہ۔

"جائم" اس کو کہتے ہیں جو زانو میں سر ڈالے ہوئے ہو اور اٹھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو۔

پیام:

۱ ۔ خبردار! خدائی عذاب ناگہانی آتا ہے۔( فاخذهم- فاصبحوا- )

۲ ۔ انبیاء کا وعدہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے لہٰذا ان کی تنہیات کو مذاق نہ سمجھو۔ (گذشتہ آیات میں تنبیہ کی گئی تھی۔ "لاتمبوھابسوء فیا خذکم عذاب الیم" اس ناقہ کو کوئی تکلیف نہ دو ورنہ تمہیں عذاب الیم اپنی گرفت میں لے لے گا۔ چنانچہ اسی زلزلہ میں "عذاب الیم" ہے۔

۳ ۔ بعض اوقات قدرتی آفات اور زلزلے عذاب الہٰی بن کر آتے ہیں۔( فاخذتهم الرجفة )

آیت ۷۹

( فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ ) ۰

ترجمہ: پس (اللہ کے) اس (پیغمبر صالح) نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا اے میری قوم! یقینا میں نے قوم ثم تک اپنے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور تمہارے لئے خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کو دوست نہیں رکھتے۔

ایک نکتہ:

حضرت صالح کی اس گفتگو کے بارے میں دو احتمال میں ایک تو یہ کہ ممکن ہے عذاب سے پہلے انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ یہ باتیں کی ہوں۔ جبکہ یہ احتمال بھی ہے کہ ہو سکتا ہے ان کی ہلاکت کے بعد اس نے ایسا کہا ہو! جیسا کہ حضرت رسول خدا نے چاہ بدر کے کنارے پر کھڑے ہو کر مردہ کفار کے ساتھ باتیں کی تھیں۔ صحابہ نے پوچھا کہ: "آیا لوگ سن رہے ہیں؟" فرمایا: ’ہاں سن رہے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ انبیاء کا تبلیغی پروگرام دل سوزی اور خیر خواہی پر مبنی ہوتا ہے تاکہ صرف خشک اور سرکاری دفتری حکم نامہ جاری کرنے کے انداز میں۔( لصحت لکم )

۲ ۔ خدائی سزائیں اتمام حجت کے بعد ہی ملتی ہیں۔( لقد ابلغتکم )

۳ ۔ جو لوگ ہمارے ساتھ دل سوزی اور خیر خواہی کا اظہار کرتے ہیں ہمیں ان کے ساتھ محبت ہونی چاہئے۔ کیونکہ جو شخص ایسے لوگوں کو دوست نہیں رکھتا وہ قہر خداوندی کی راہیں ہمسوار کرتا ہے۔( فاخذتهم الرجفة ) ۔

۴ ۔ کسی کو دولت رکھنا، اس کی اتباع کرنے کی کنجی ہوتا ہے۔

آیت ۸۰ ۔ ۸۱

( وَلُوْ طًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِه اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَکُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ۰ اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ ط بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ ) ۰

ترجمہ: اور (ہم نے) لوط کو (لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا) جب اس نے اپنی قوم سے کہا: آیا تم ایسا برا کام کرتے ہو کہ اس سے پ ہلے اس جیسا دوسرا کام عالمین میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کیا؟

تم شہوت کے لئے عورتوں کے بجائے مردوں کے باس جاتے ہو! بلکہ تم تو اسراف کرنے والے لوگ ہو۔

چند نکات:

حضرت لوط جناب ابراہیم کے رشتہ دار تھے اور وہ اکیلے شخص تھے جو اُن پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہجرت کی "فآمن لہ لوط" (عنکبوت/ ۲۲) اور حضرت ابراہیم نے انہں ایسے علاقہ میں تبلیغ کے لئے بھیجا جہاں یہ برائی عام تھی۔

حدیثوں میں آیا ہے کہ: حضرت لوط کی قوم کے افراد مہمانوں کے ساتھ لوط جیسا قبیح فعل سرانجاقم دیتے تھے تاکہ لوگ ان کا مہمان بننے سے اجتناب کریں۔ قرآن کے بقول حضرت لوط نے انہیں لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنے کی بھی پیشکش کی لیکن انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔

ازدواج اور نکاح میں چند خوبیان ہیں جو لواط میں نہیں ہیں۔

۱ ۔ انس و محبت اور پیار و رحمت

۲ ۔ افزائش نسل

۳ ۔ خانوادگی نظام کی تشکیل

۴ ۔ انسانی اور فطری طریقہ کار۔

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پورے معاشرے نے ہم جنس بازی کے آس قبیح فعل کو برائی میں شمار نہیں کیا بلکہ بعض ملکوں میں تو اس کو باقاعدہ قانونی شکل دے دی گئی ۔

حضرت ہود، حضرت صالح اور حضرت شعیب کے بارے میں لفظ "اخاھم" استعمال ہوا ہے لیکن حضرت لوط کے بارے میں استعمال نہیں ہوا تو اس کی وجہ شاید یہی ہو سکتی ہے کہ حضرت لوط ایک اور علاقے سے ان لوگوں کی تبلیغ کے لئے ہجرت کر آئے تھے۔

پیام:

۱ ۔ حضرت لوط کی تبلیغ کا عمدہ پہلو فحاشی خصوصاً جنسی برائیوں کے خلاف جہاد تھا۔ کیونکہ ان کے معاشرے بہت بڑی مشکل یہی برائی تھی۔

۲ ۔ اگر بت پرستوں کے پاس یہ بہانہ تھا کہ ان کے اباؤ اجداد ایسا کام کرتے تھے تو فحاشی اور بدکاری پیروکاروں کے پاس یہ بہانہ بھی نہیں تھا۔ اس بدکاری اور گناہ کے موجد وہ خود آپ تھے۔( ماسبقکم بها )

۳ ۔ جو فطری راہوں کے استعمال کو چھوڑ کر دوسرے استعمال کرتا ہے سرف ہوتا ہے۔( مسرفون )

آیت ۸۲

( وَماَ کَانَ جَوَابَ قَوْمِه اِلَّا اَنْ قَالُوْا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ ) ۰

ترجمہ: اور حضرت لوط کی قوم کا جواب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ انہیں اپنی آبادی سے نکال دو (کیونکہ) یہ ایسے لوگ ہیں جو (تمہارے اس کام سے بڑے) پاکباز بنتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ گناہگاروں کے ہر کوئی منطقی جواب نہیں ہوتا۔( ماکان جواب قومه )

۲ ۔ جب کسی معاشرے میں بے حیائی عام ہو جاتی ہے تو اس میں نیک پاک لوگوں کو گوش گمنامی اختیار کر دینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور پاکیزگی جرم سمجھی جاتی ہے۔( اخرجوهم )

۳ ۔ نہی عن المفتکر کی راہ میں جلاوطنی اور مشکلات کے گھیراؤ کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیت۔( اجرحوهم )

۴ ۔ مجرمین، پاکدامن لوگوں کے لئے معاشرہ میں زندہ رہنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ (ق( ریتکم )

۵ ۔ یہ ٹھیک ہے کہ حضرت لوط کی قوم گناہ کی عادت کر چکی تھی لیکن وہ حضرت لوط اور ان کے ساتھیوں کو پاک افراد سمجھتے تھے۔( یطهرون )

آیت ۸۳

( فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٓ اِلَّا امْرَاَتَه کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ) ۰

ترجمہ: پس ہم نے لوط اور اس کے خاندان کو نجات دی سوائے اس کی بیوی کے کہ وہ (خاکستر عذاب میں) باقی رہنے والی تھی۔

پیام:

۱ ۔ انسان کو آزادی حاصل ہے اور خاندانی ماحول انسانی ارادے کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتا (ہو سکتا ہے کہ ایک نبی کے گھرمیں رہ کر اس کی بیوی جو وحی کے ماحول میں رہ رہی ہو کفر کا راستہ اختیار کرلے اور نبی کا اس پر بس نہ چل سکے)

۲ ۔ اسلام میں مذہبی اور دینی رابطوں کو اہمیت حاصل ہوتی ہے رشتہ داری کو نہیں۔( الاامرأته )

۳ ۔ مقدر اور نورانی چہرہ افراد کا حساب الگ ہوتا ہے اور ان سے وابستہ لوگوں کا حساب الگ( الامراته )

۴ ۔ ہر شخص اپنے اعمال کے گروی ہے۔ ایک نبی کی بیوی تباہ و برباد ہو سکتی ہے اور فرعون جیسے ظالم اور جابر شخص کی بیوی راہی خُلد برین ہوتی ہے۔( للاامراته )

آیت ۸۴

( وَ اَمْطَرْناَ عَلَیْهِمْ مَّطَرًا ط فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: اور ہم نے ان کے اوپر (عذاب کی) بااثر برسائی، پس دیکھو کہ گنہگار مجرموں کا انجام کیسا ہوتا ہے؟

چند نکات:

قوم لوط کی ہلاکت ان کے سروں آسمانی پتھروں کی بارش سے ہوئی ایسے پتھر جو ڈھیلوں کی مانند نشان لگائے ہوئے تھے۔ یا پھر پتھر کسی خاص فرد کی ہلاکت کے لئے مخصوص تھا۔ (لفظ "مسومة" سے استفادہ کرتے ہوئے جو سورہ ہود / ۸۳ میں ہے "واصطرنا علیھا حجارة من سجیل منضود مسومة عندربک" یعنی ہم نے اس بستی پر ڈھیلے نما پتھر تابڑ برسائے جن پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نشان بنائے ہوئے تھے۔

قوم لوط میں صرف لواط جیسے قبیح فعل کی برائی نہیں پائی جاتی تھی وہ گور جواری بھی تھے ہرزہ گوئی بھی ان کا شیوہ تھا۔ راہ چلتے لوگوں کی توہین کرتا اور ان کی طرف کنکریان پھینکنا ان کا دلچسپ مشغلہ بھی تھا۔ اور پھر یہ کہ عام گزرگاہوں ، پر ننگے ہو کر بیٹھ جاتے تھے۔ (از سفینة البحار جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۵۱۷)

حضرت امام جعفر صادق لواط کی حرمت کے فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: "لواط، زن و شوہر کے درمیان ازدواجی تعلقات پر اثر انداز ہوتا ہے، نسل انسانی کو منقطع کر دیتا ہے۔ طبعی طور پر جنسی آمیز شر کی لذت کو ضائع کر دیتا ہے، اس کے علاوہ بھی اس کے دوسرے بہت سارے نقصانات ہیں۔ (وسائل الشیعہ جلد ۱۴ ص ۲۵۴)

اسلام میں لواط کی سزا، موت ہے فاعل ہو یا مفعول دونوں کے لئے حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ ’لواطت کے موقعہ پر عرش الہٰی لہٰذا براندام ہو جاتا ہے۔ اس کا ارتکاب کرنے والا قیامت کے دن جنب محشور ہو گا۔ اس پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے (وسائل الشیعہ جلد ۱۴ ص ۲۴۹)

حضرت رسول فرماتے ہیں۔

"خدا لعنت کرے ایسے لوگوں پر جو خود کو عورتوں کی مانند بنا کر ہوس کے پجاریوں کے اختیار میں دے دیتے ہیں" (وسائل الشیعہ جلد ۱۴ ص ۲۰۰)

یہ حصہ تفسیر نمونہ سے خلاصہ کیا گیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ فطری راہوں کو تبدیل کرنا ۰ مردون کے ذریعہ جنسی خواہش کی تکمیل کرنا) خدا کے مقرر کردہ راستوں میں تبدیلی کرنے کے مترادف ہوتا ہے، اسی لئے اس کی سزا بھی بارش کے پانی کی بجائے پتھروں کی بارش ہوتی ہے۔

۲ ۔ خدا کا قہر و غضب کسی خاص گناہگار طبقے سے مخصوص نہیں ہے عذاب پر گنہگار کے تعاقب میں ہے اس لئے سب کو مجرمین کو ہر ترمین رہنا چاہئے۔( فانظر )

آیت ۸۵

( وَ اِلٰی مَدَیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُواللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُه قَدْ جَآءَ تْکُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رِّبِّکُمْ فَاَوْفُو الْکَیْلَ وَالَمِیْزَنَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیآَئَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرُ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْْ مُّؤْمِنِیْنَ ) ۰

ترجمہ: اور مدین (کے لوگوں) کی طرف (ہم نے) ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) اس نے کہا: اے میری قوم (صرف) ایک خدا کی پرستش کرو جس کے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود نہیں۔ یقینا تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل اور روشن معجزہ آ چکا ہے۔ پس تم (لین دین میں) پیمانہ اور ترازو کو پورا رکھو، اور لوگوں کی اشیاء کو کم نہ کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ برپا کرو۔ تمہارے لئے یہ (راہنما اصول) بہتر ہیں اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

چند نکات:

اس سورت میں یہ انبیاء کی یہ پانچیوں داستان ہے۔ حضرت شعیب جناب موسیٰ کے خُسر تھے جو مدین کے لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے۔ (مدین ، شام کا ایک شہر تھا جس کے رہنے والے تجارت پیشہ، خوشحال، بت پرست اور کم فروش تھے۔) حضرت شعیب نے انہیں راہ الات کی ہدایت لیکن انہوں نے مند اور ہٹ دھرمی بے کام لیا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد ’ایکہ" کے لوگوں کے لئے بھیجے گئے انہوں نے بھی آپ کی نافرمانی کی چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ "کذب اصحاب الایکة المرسلین اذقال لھم شعیب۔‘

احتمال یہی ہے کہ "مدین" آج کے جغرافیہ میں اردن کے نزدیک ایک جگہ ہے جسے آج کل "معان" کہتے ہیح۔ اور "ایکہ" وہی مدین ہی ہو۔ کیونکہ "ایکہ" امیر جگہ کو کہتے ہیں جہاں گھنے درخت ہوں، نیزار اور نخلستان ہوں۔ گویا حضرت شعیب کے شہر کے دو نام تھے، ایک "مدین" اور ایک "ایکہ"۔

پیام:

۱ ۔ کم فروشی، لین دین میں جعل سازی اور اقتصاد یں خلل اندازی "فساد پھیلانے" کے مصداقوں میں شمال ہے۔( ولاتفسدوا )

۲ ۔ شرک اور عقیدے کے انحراف کے بعد قوم شعیب کا اقتصاد اور انحراف بہت ہی اہممسئلہ تھا۔( اعبدواالله- اوفواالکیل )

۳ ۔ ایمان، عدالت اجتماعی کیااجرا کا ضامن ہے( ان کنتم موٴمنین )

۴ ۔ انبیاء کرام ، معاشرے کے اقتصادی مسائل کے نگران ہیں۔

۵ ۔ ہر دور میں لوگوں کی روحانی امراض مختلف ہوا کرتی ہیں حضرت لوط کے دور میں بواطت اور اخلاقی بگاڑ عروج پر تھا جبکہ حضرت شعیب کے زمانے میں اقتصادی بیمار اور فساد زورون پر تھا۔

۶ ۔ کم کاری بھی کم فروشی کی طرح جرم ہے۔ اسی لئے "اموالھم" کی بجائے (اشیاء ھم) فرمایا ہے تاکہ ہر چیز کو شامل ہو اجائے۔

۷ ۔ ایمان کامل ہو اور اقتصاد متعادل ہو تو اس سے دینا اور دنیا کی سلامتی یقینی ہو جاتی ہے۔( ذلکم خیر )

آیت ۸۶

( وَلَاتَقْعُدُ وْ ابِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِه وَ تَْبغُوْنَهَا عِوَجًا وَ اذْکُرُوْٓا اِذْ کُنْتُمْ قَلِیْلًا فَکَثَّرَکُمْ وَ انْظُرُ ْو اکَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ ) ۰

ترجمہ: اور ہر راہ پر ڈرانے کے لئے اور انہیں خدا کے راستے سے روکنے کے لئے مت بیٹھو اور (شکوک و شابہات پیدا کر کے) اس راہ کو ٹیڑھی صورت میں تلاشی نہ کرو۔ اور اس زمانے کو یاد کرو جیسا تم تعداد میں تھوڑے تھے پس خدا نے تمہیں زیادہ کر دیا، اور دیکھو کہ فساد برپا کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟

دونکات:

ہر راہ پر بیٹھنے سے مراد ممکن ہے کہ رستوں، لڑکوں اور گلی کوچوں میں فتنہ برپا کرنے کی غرض سے بیٹھنے سے روکا گیا ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے ہر راستہ اور ہر قسم کا طریقہ کار اختیار کرنا مراد ہو جیسا کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ:

"( لا قعدن لبهم صراط المستقیم ) " میں ان کے لئے تیرے سیدھے رستے پر بیٹھ جاوئں گا۔ اس سے مراد انسان کو سیدھی راہ سے گمراہ کرنے کے لئے ہر وقت کمین میں لگا ہوا ہے، تاکہ ظاہراً کسی راستے پر بیٹھا ہوا ہے۔

یہ آیت بھی حضرت شعیب کے وعظ و نصیحت سے تعلق رکھتی ہے جو انہوں نے بدین والوں کو کہا تھا۔

پیام:

۱ ۔ حق کے دشمن ، خدا کے راستے سے ہٹانے کے لئے ہر قسم کی راہوں اور ہر طرح کے طریقہ کار سے کام لیتے ہیں۔( کل صراط )

۲ ۔ لوگوں کو وحشت زدہ کرنا، ان سے بھتہ وصول کرنا اور ان کے لئے کسی قسم کی پریشانی کے اسباب جیسا کرنا حرام ہے۔( توعدون )

۳ ۔ اگر دشمنان دین، مومنین کو بے دین نہیں بنا سکتے تو ان کی کوشش ہو تی ہے کہ دین کو کج مج انداز میں پیش کریں۔( عوجام )

۴ ۔ آبادی کی کثرت بھی ایک اہمیت کی حامل ہے۔( فکترکم )

۵ ۔ تاریخ کا مطالعہ اور اس سے واس عبرت لینا، خدائی حکم ہے۔( وانظرواکیف ) ۔۔)

۶ ۔ لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کرتے وقت ان کے انجام کو پیش نظر رکھا کرو کہا ن کا اناجام کیا ہوا؟ یہ نہ دیکھو کہ اس نے وقتی طور پرکیا کارنامے سرانجام دئیے؟( عاقبة )

آیت ۸۷

( وَ اِنْ َکَانَ طَائِفَةٌ مِّنْکُمْ اَمَنُوْا بِالََّذِیْٓ اُرْسِلْتُ بِه وَ طَآئِفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا وَهُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: اور اگر تم میں سے ایک گروہ اس چیز پرایمان لے آیا ہے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ ایمان نہیں لایا تھا۔ تو پھر بھی (جلدبازی سیکام نہ لو کہ خدا کا لطف و کرم یا اس کی وسزا و عذاب کا کیا بنا؟) صبر کرو تاکہ اللہ تاعلیٰ ہمارے درمیانفیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

ایک نکتہ:

حضرت شعیب کے مخالفین بڑی جسارت کے ساتھ کیا کرتے تھے، "اور کہاں ہے خدا کا قہر و غضب؟" جبکہ ان کے ماننے والے خدائی امداد کے منتظر تھے۔ اسی لئے آیت دونوں تمناؤں کا جواب دے نہیں ہے تاکہ نہ تو کفار مغرور ہو جائیں اور نہ ہی مومن مایوس ہوں۔

پیام:

۱ ۔ حق اور باطل کے طرفداروں انجام کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے۔( فاصبروا )

۲ ۔ مکتب انبیاء یا دین الہٰی میں انبیاء کا ہدف اور مشن اہمہوتا ہے شخصیت نہیں۔ (ا( رسلتبه ) ہے نہ یہ کہ مجھ پر بلکہ مجھ پر نازل کیا چیزوں پر ایمان لاؤ۔

۳ ۔ مومنین اور کفار کی بظاہر اور چند روزہ زندگی تمہارے پاؤں میں لغزگیر پیدا نہ کرے دے۔ پائیداری سے کام لو اپنے من پر ڈٹے رہو اس لئے آخری فیصلہ خدا ہی نے کرنا ہے۔

آیت ۸۸

( قَالَ الْمَلَاءُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُ ْوا مِنْ قَوْمِه لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَا اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ اَوَ لَوْ کُنَّا کٰرِهِیْنَ ) ۰

ترجمہ: شعیب کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا: اے شعیب! ہم تمہں اور تمہارے رب بھلائی کرم نے والوں کو انی آبادی سے حتماً باہر نکال دیں گے یا پھر تم ہماری ملت کی طرف واپس آ جاؤ۔

(شعیب نے) فرمایا: خواہ ہم (تمہاری) اس (ملت) کو نہ بھی چاہیں؟۔

ایک نکتہ:

دیس نکالے اور جلا وطنی کی دھمکی پر نبی کو ملتی رہی۔ اور اس طرح کی دھمکیاں زور آور گھر دیا کرتے ہیں جنکے پاس کوئی منطقی دلیل نہیں ہوا رکتی۔ چنانچہ سورہ ابراہیم/ ۱۴ میں ہم پڑھتے ہیں کہ: "قال الذین کفر وا لر سلھما لتخزجنکم من ارضنا اولتعودن فی ملتنا" کفار اپنے انبیاء کو کہا کرتے تھے کہ یا تو ہماری ملت میں شامل ہو جکاؤ ورنہ ہم تمہیں باہر نکال دیں گے۔

پیام:

۱ ۔ متکبرین اور شرافیہ۔ انبیاء کے نمبر ایک دشمن ہیں۔( استکبروا )

۲ ۔ انبیاء کا شیوہتو منطق اور استدلال تھا جاء تکم نبیہ ۔ اعراف / ۷۵) لیکن کفار کا کام زور آوری اور دھمکی ہوتا ہے۔( لنخرجنک )

۳ ۔ زبردستی ٹھولنے جانے والے دین و مذہب کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور عقائد کا مسلط کرنا کفار کا کام ہے۔( کارهین- لتعودن فی ملتنا )

۴ ۔ مبلغین کو، دشمنوں کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ اس لئے جلاوطنی کو دشمنان دین کا بہت بڑا حربہ ہوتا ہے۔( لنجرجنکٌ )

۵ ۔ کفار کے جاہلانہ سلوک کے مقابلے میں ادب، نرم گفتاری اور حکمت بھرے کلام سے استفادہ کرنا چاہئے( اولوکناکار هین )

آیت ۸۹

( قَدِ افْتَرَیْنَا عَلٰی اللّٰهِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰهُ مِنْهَا ط وَماَ یَکُوْنُ لَنَٓا اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَا اِلَّا اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَا ط وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْ ءٍ عِلْمًا ط عَلَی اللّٰهِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ ) ۰

ترجمہ: (حضرت شعیب نے مخالفین سے کہا): جب اللہ نے ہمیں تمہاری ملت سے نجات دی ہے ہم دوبارہ اس میں لوٹ جائیں تو یقینا ہم خدا پر جھوٹ باندھیں گے، یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ تمہارے دین کی طرف پلٹ جائیں۔ مگر یہ کہ خدا چاہے تو ہمارا پروردگار ہے۔ (اور خدا بھی ہرگز نہیں چاہے گا۔ ہماراپروردگار ہرچیز کا علمی احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ہم خدا پر توکل کر چکے ہیں۔ پروردگارا! تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان برحق فیصلہ کر اور راستہ کھول دے، کیونکہ تو بہترین، فیصلہ کرنے والا اور راستہ کھولنے والا ہے۔

چند نکات:

"ملت" کا منی "دین" آئین مذہب اور دھرم ہے۔

چونکہ حضرت شعیب کے پیروکار دلیل و برہان کی بنیاد پر دین کو قبول کر چکے تھے۔ (ہوس اور کسی نفسانی خواہش کی بنیاد پر نہیں) لہٰذا وہ اسے کسی صورت میں نہیں چھوڑیں گے۔ اور خداوندا عالم بھی انہیں کسی صورت میں کفر و ترک کی طرف بازگشت کا حکم نہیں دے گا۔ اس لئے کہ اگر وہ ایسا حکم دیتا ہے تو پھر اپنے ہی بنائے ہوئے قانون سے پسپائی اختیار کرتا ہے، حد کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اپنی کم علمی کی بناء پر اپنے کئے پر پشیمان ہوا اور ایسا حکم دیا (نعوذباللہ) لہٰذا ماننا پڑے گا کہ خداوند عالم کی ذات والا صفات اس قسم کے مواع پر "درفتح" اور "فاتح" معنی بالترتیب فیصلہ اور حاکم کے ہیں۔ چونکہ آخری فیصلہ خدا ہی کا ہوتا ہے کہ خبر ہے لوگ بند گلی سے نکل کر کھلے راستے پر آ جاتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ عقائد حقہ سے پلٹ کر عقائدباطلہ کو اپنانا، گویا خدا پر افتراپردازی اور اس کے ساتھ کئے ہوئے پیمان کو توڑنا ہوتا ہے۔( افترینا- مایکون لنا ان نعود )

۲ ۔ دشمن کی ہر قسم کی ناپاک پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے خدا پر توکل کر کے اسے پائے استحقارسے ٹھکرا دینا چاہئے۔( مایکون لنا- توکلکنا )

۳ ۔ مومن کسی بھی صورت میں عقائد کے بارے میں سودے بازی نہیں کرتا ۔ راہ حق سے کبھی روگردان نہیں ہوتا اور اس کے نزدیک پچھلے پاؤں پلٹ جانا رجعت پسندی اور ناقابل قبول ہے۔( مایکون لنا ) ۔۔۔)

۴ ۔ خدا کے آگے میں سرتسلیم خم اور اس کے امر کی اطاعت کرنا چاہئے۔ اگر وہ چاہے گا کہ تمہارے دین کی طرف لوٹ جائیں تو ایسا ہی کریں گے۔( الاان یشاء الله ) اور واضح سی بات ہے کہ وہ ہرگز ایسا نہیں چاہے گا۔

۵ ۔ ہم خداوند عالم کے آگے کیوں سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں؟ اس لئے کہ اس کا علم بے ہایات ہے۔( الاان یشأ الله--- وسع-- علما )

۶ ۔ گفتگو میں ادب کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ لعن و نفرین کی بجائے خدا سے عادلانہ فیصلے کی درخواست کی جا رہی ہے۔( ربنا افتح )

۷ ۔ دعا میں اپنے مطالب اور اسمائے الہٰی کے درمیان تناسب کو ضرور پیش نظر رکھا جائے۔ چونکہ ایسے موقع پر "فتح" کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا خدا کو "خیرا لفاتحین" کہہ کر پکارتے ہیں۔( افتح- خیر الفاتحین )

آیت ۹۰ ۔ ۹۱

( وَ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِه لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّکُمْ اِذَا لَّخٰسِرُوْنَ۰ فَاَخْذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاصْبَحُوْ ا فِیْ دٰارِهِمْ جَاثِِمِیْنَ ) ۰

ترجمہ: قوم شعیب کے کافر اشراف اور سرداروں نے کہا: اگر تم نے شعیب اور ان کے ارشادات کی پیروی کی تو یقینا تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔

پس انہیں (ان کو دشمنی کی سزا میں) زبردست زلزلے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تو جب انہوں نے صبح کی تو اپنے گھروں میں خاک ہلاکت میں منہ کا بھل پڑے ہوئے تھے۔

دو نکات:

اس آیت میں"رجفہ" کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ سورہ ہود / ۹۴ میں "صیحہ" اور سورہ شعرا / ۸۹ میں "عذاب یوم الظلة" (ابرہلاکت بار کا سایہ) مذکور ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا زلزلہ تھا جس میں خطرناک آواز بھی تھی اور تباہ کن تاریک بادل بھی۔ (ازتفسیر نمونہ)

"جاثم‘ کا لفظ "جثم" (بروزن خشم) سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں زانوں کے بل ایک جگہ جم کر بیٹھے رہنا۔ گویا عذاب رات کے وقت آیا جب وہ محو آرام تھے۔ اٹھے تو بھاگنے کی مہلت نہ مل سکی۔ اسی نیم خیز حالت میں تباہ و برباد ہو گئے۔ (ازتفسیر نمونہ اسی سورت کی ۷۸ ویں آیت کے ذیل میں)۔

پیام:

۱ ۔ انبیاء کے اکثر مخالف ۔ طبقہ اشرافیہ سے تھے۔( الملأ )

۲ ۔ محاصرہ اقتصادی کی دھمکی دینا کفار کا قدیمی شیوہ چلا آ رہا ہے۔( انکم اذالخاسرون )

(توضیح: جلاوطنی، اموال کی ضبطی، کہ فروشی کی آمدنی سے محرومی، کفار کے نکتہ نظر سے خسارہ ہے)

۳ ۔ اکثع خدائی عذاب رات کو نازل ہوتے ہیں۔( فاصحوا ) ۔ از تفسیر امیزان۔

آیت ۹۲

( اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا شُعَیْبًا کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا اَلَّذِِیْنَ کَذَّبُوْا شُعَیْبًا کَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ ) ۰

ترجمہ: جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا (وہ یوں ہلاک ہو گئے کہ) گویا ان گھروں میں کبھی رہے ہی نہ کیوں جن لوگوں نے شعیب کی تکذیب کی وہی تو نقصان اور خسارہ والے تھے۔

دونکات:

"یغنو" کا لفظ "غنی" سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے "مکان میں رہنا" اور "غنا" معنی "بے نیازی" کے بھی آیا ہے۔ یعنی جو شخص ایک پرآسائش اور مکمل طور پر آمادہ مکان میں رہتا ہے وہ بے نیاز ہے۔

بہت بڑا خسارہ مشرکین ہی کے لئے ہے جو خداوند وحدہ الاشریک پر ایمان کی بجائے شریک کالا تکاب کرتے ہیں۔ اور معصوم رہبر کی اطاعت کی بجائے غیروں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں، مطمئن زندگی کی بجائے خانہ خراب ہو چکے ہوئے ہینَ بہشت کی بجائے جہنم جائیں گے اور رضولن کی بجائے ۔ غضب الہٰی کا شکار ہوں گے۔

پیام:

۱ ۔ باطل پرستوں کی تمام نیر نگیان نقش برآب ہو جاتی ہیں۔ (کفار تو حضرت شعیب کو اپنی آبادی سے جلاوطن کرنے کے در پے تھے لیکن خود ہی اپنے گھروں میں ہلاک ہو گئے۔)

۲ ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن پتوں پر تکیہ ہوتا ہے وہی ہوا دینے لگتے ہیں۔ اور کبھی تکیہ گاہ قتل گاہ بن جاتے ہیں۔ (قوم شعیب کی آبادی جو ان لوگوں کے لئے خوشگوار اور شعیب کو دھمکانے کا ذریعہ تھیں خود انہی لوگوں کے اوپر آ گری اور ان کا قتل کا ذریعہ بن گئی)

۳ ۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہئے۔ گزشتہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ کفار، حضرت شعیب کی حمایت اور طرفداری کو خارت اور نقصان سمجھتے تھے۔ جبکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ تو خود ہی زیان کار ہیں۔ وہ نعرے لگاتے تھے، خدا نے عملی کر کے دکھا دیا ہے۔

۴ ۔ جب خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ خسارے میں کون رہا؟( هم الخاسرون )

آیت ۹۳

( فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ ) ۰

ترجمہ: پس (جب خدائی قہر نازل ہو گیا تو) شعیب نے ان سے منہ پھیر لیا۔ اور کہا: اے میری قوم! میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا دیا تھا اور تمہارے لئے خیر خواہی بھی کی تھی تو پھر کیوں اور کس لئے کافر لوگوں (کی سرنوشت) ہے افسوس کروں؟

پیام:

۱ ۔ لوگوں کی طرف توجہ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ آخر ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے کہ ان سے منہ پھیر لینا پڑ جاتا ہے۔( فتولی عنهم )

۲ ۔ تبلیغ، مہربانی اور دل سوزی کے ساتھ ہونی چاہئے۔( ابلغتکم- نصحت )

۳ ۔ جب آپ نے اپنے فریضہ پر عمل کر لیا تو پھر اس بات سے نہیں گھبرانا چاہیے کہ انجام کیا ہو گا؟( کیف آسیٰ )

۴ ۔ بے جا افسوس اور مہربانی، ممنوع ہے (فکیف آسیٰ) ایک اور مقام پر حضرت رسول خدا سے خطاب ہے "( لاتخرن علیهم ) " ان لوگوں کے لئے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

۵ ۔ اگر ضد اور ہٹ دھرمی کو خیر باد نہیں کہیں گے انبیاء کی نصیحتیں بھی غیر موثر ثابت ہوں گی۔

آیت ۹۴

( وَمَا اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَبِیٍّ اِلَّا اَخَذْنَا اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ ) ۰

ترجمہ: اور ہم نے کسی آبادی میں کوئی پیغمبر نہیں مگر وہاں کے لوگوں کو مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کیا تاکہ وہ تضرع اور زاری سے کام لیں۔

ایک نکتہ:

"باسأ" ایسے حواثات ہوتے ہیں جو جان پر ولاد ہوتے ہیں جیسے موت اور بیماری وغیرہ اور "جزأ" ایسے مصائب ہوتے ہیں جو مال کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ (ازتفسیر فرقان)

پیام:

۱ ۔ مصائب اور تلخیاں اور ناخوشگواریاں تمام اقوام عالم کے لئے ازل سے چلی آ رہی ہیں یہ ایک خدائی طریقہ کار ہے۔( ماارسلنا فی قریة من نبی الا ) ۔۔۔۔)

۲ ۔ سختیاں اور مشکلات، انسان کی تربیت ، غفلت دور کرنے اور اسے صحیح معنوں میں انسان بنانے کا موجب ہوتی ہیں۔

۳ ۔ ضروری نہیں ہے کہ مصائب و مشکلات ہمیشہ خدائی عذاب ہی ہوں بلکہ بعض اوقات بلا کی صورت میں خدا کا لطف و کرم بھی ہوتا ہے۔ (جیسے لوہے کو بھٹی میں گرم کر کے اسے نرم کیا جاتا ہے اور پھر اسے ہر شکل دینے کے لئے موڑا جاتا ہے، اسی طرح حوادثات بھی انسان کو نرم کر دیتے ہیں۔) اور فکرائد اور پریشانیاں مشکلات اور مصائب انسان کو تفرع و زاری اور خدائے نیاز مندی کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

آیت ۹۵

( ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰی عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبٰآئَنَا الضَّرَآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَایَشْعُرُوْنَ ) ۰

ترجمہ: پھر ہم نے بدی (سختی اور غم) کی بجائے نیکی کو مقرر کر دیا، حتیٰ کہ ان کے مال و اولاد میں اضافہ ہو گیا اور کہتے لگے: ہمارے آباؤ اجداد کو تو (طبعی طور پر) رنج و غم اور خوشی نصیب ہوئی تھی (اور یہ تلخ و شیریں حوارث خدا کے غضب یا رحمت کے آئینہ دار نہیں تھے) تو ہم انہیں ناگہانی طور پر (اپنے قہر و غضب میں) گرفتار کر لیا اور انہیں اس بات کا شعور تک نہیں تھا۔

ایک نکتہ:

"عفوا" کا معنی ہے کامل اور اولاد کی کثرت ۔ اللہ کا فضل و کرم انہیں وافر مقدار میں ملا لیکن انہوں نے اس کا کوئی احساس نہ کیا اور قدر کی نگاہوں سے نہ دیکھا۔ اورنہ ہی اس سے عبرت حاصل کی۔ اس سے ملتی جلتی ایک آیت سورہ انعام میں ہے کہ "فلما نسوا ماذکروابہ فتحنا علیھم ابورب کل شیءٍ حتی اذافرحوابما اوتوا اخذنا ھم بغتة" یعنی چونکہ انہوں نے ہماری باربار کی یاد دہانیوں کو فراموش کر دیا تو ہم نے ان کے لئے اپنی ہر قسم کی نعمتوں کے دروازے کھول دئیے اور کئی کامیابیوں کے بعد ہم نے انہیں ناگہانی طور پر اپنے قہر و غضب میں گرفتار کر لیا۔ (انعام ۴۵) ایسے بیمار کی مانند ڈاکٹر جس کی زندگی سے ناامید ہو کر کہتا ہے جو چاہتا ہے اسے کھانے پینے کو دو کیونکہ اب اس کا کام ختم ہے"

البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ آیت کا ایک اور معنی بھی سوجے مرجوم قمشرری ترجمہ کی صورت میں بیان کیا اور وہ یہ کہ "مصیبتیں دور ہو جانے کے بعد آنے والی نسل کہنے لگی تلخ جوائیاں تو ہمارے آباؤاجداد کے ساتھ مخصوص تھے ہم تو بالکل امن میں ہی ہیں۔ لیک وہ اس بات سے غافل تھے کہ خدا کا ازل سے یہی طریقہ کار چلا آ رہا ہے کہ وہ تمام نسلوں کو گرفتار کرنے پر قادر ہے اور اس قسم کی غفلت بھی قہر خداوندی کی علامت ہے"

پیام:

۱ ۔ تلخ اور شیرینِ حوادثات کے پاس سے گزرنا اور ان سے عبرت حاصل نہ کرنا بے شعوری کی علامت اور قہر خداوندی کے نزول کا سبب ہوتا ہے۔( لایشعرون )

۲ ۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر قسم کی آسائش اور خوشی خدا کے لطف و کرم کی علامت ہو۔ کبھی قہر خداوندی کا پیش خیمہ بھی ہو جاتی ہے۔( حتی عفوا )

۳ ۔ بعض اوقات آسائش نسیان اور سرکشی کا موجب بھی بن جاتی ہے( قدمس آیائنا الفرٓء )

۴ ۔ اللہ کی آزمائش میں ناکام ہونے ولاے افراد میں زیادہ تر مسرفہ حال لوگوں کی تعداد ہوتی ہے۔ محروم طبقہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔

۵ ۔ خدائی قہر کسی کو بتا کر نہیں آیا کرتا۔ اچانک سر پر آ پہنچتا ہے۔( بغتة )

آیت ۹۶

( وَلَوْا اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتْحَنَا عَلَیْهِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَلَکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْ نَ ) ۰

ترجمہ: اگر آبادیوں اور قبروں میں ر ہنے والے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم بھی یقینا ان کے لئے آسمان اور زمین کی برکتوں (کے دروازوں) کو کھول دیتے لیکن انہوں نے (ایمان لانے کے بجائے) جھٹلایا (اور کفر اختیار کرنا) شروع کر دیا تو ہم نے بھی ان کی کرتوتوں کی وجہ سے انہیں (اپنے قہر و غضب میں) گرفتار کر لیا۔

چند نکات:

"برکات" جمع ہے "برکت" کی جس کے معنی میں اللہ تعالیٰ کی مستقل اور پائیدار نعمتیں جو کہ وقتی اور جلد ختم ہو جانے والی چیز کے مقابلے میں ہے۔ اسی برکت کے معنی میں کچرت خیز اور افزائش کا معنی پایا ہے۔ اور یہ مادی اور معنوی برکات کو شامل ہے، جیسے عمر، علم اور کتاب میں برکت وغیرہ۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ: اگر ایمان اور تقویٰ برکت کا سبب ہے تو پھر کافر ملکوں کی یہ ترقی یافتہ کیفیت اور اسلامی ملکوں کی یہ اسفبار نوعیت کیوں ہے؟

اس کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں۔

۱ ۔ وہ ملک اگر چہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن بہت بڑی مشکلات سے دچار بھی ہیں۔

۲ ۔ بہت سے اسلامی ملکوں میں اسلام کا صرف نام ہے اسلام احکام اور قوانین حکمفرما نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں مادی آسائشیں ایک طرح کا خدائی قہر بھی ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے "فلما نسواماذکروابہ فتحنا علیھم ابواب کل شی( ٴ ) ٍ" جب انہوں نے تمام یادداشتیں فراموش کر دیں۔ تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے۔ (انعام / ۴۴) تاکہ وہ اپنی مستی میں مست رہیں۔ اگر فوب غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ’متقی مومنین کے لئے برکتوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور بدمست غافلوں کے واسطے نعمتوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں برکتوں کے نہیں۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ رفاہ و آسائش کفار کے لئے غفلت اور بے پرواہی کا سبب بن جائے تاکہ برکت اور مستقبل کے لئے ذخیرے کا موجب۔

ان تمام باتوں سے قطع نظریہ چیز بھی پیش نظر ہونی چاہئے کہ بسا اوقات نعمتیں مہلت اور آسائش کا موجب بھی بن جایا کرتی ہیں۔

پیام:

۱ ۔ ممکن ہے کہ انفرادی ایمان اور تقویٰ کا اثر کم ہو، اس لئے معاشرے کی اکثریت کو ایمان و تقویٰ کا حامل ہونا چاہئے۔ تاکہ اس طرح سے وہ خداوند عالم کے اسواف و برکات کے شامل حال ہو سکیں۔ (اھل القری) از تفسیرفرقان ۳۴

۲ ۔ معاشرے کی معنوی تعلیم و تربیت اور اگر و ہدایت کے لئے سرمایہ کاری اقتصادی اور مادی منافع کا موجب بھی ہوتی ہے۔( اتقوا- برکت )

۳ ۔ ایمان اور تقویٰ نزول برکات کا سبب ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر نعمت اور آسائش ایمان اور تقویٰ کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔( امنوا، واتقوا، برکات )

۴ ۔ محرومیوں اور مشکالت کا عامل خود انسان ہی ہوتا ہے۔( یکسبون )

آیت ۹۷ ۔ ۹۸

( اَفَاٰمِنَ اَهْلُ الْقَرٰی اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَ هُمْ نَآئِمُوْنَ۰ اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّهُمْ یَلْعَبُوْنَ ) ۰

ترجمہ: آیا آبادی کے رہنے والے اس بات سے مطمئن ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس ہمارا عذاب اس وقت آ جائے جب وہ سوئے ہوئے ہوں؟

آیا آبادی کے رہنے والے اس بات مطمئن ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس ہمارا عذٓب بن کے وقت اس حالت میں پہنچے کہ وہ کھیل کود میں لگے ہوئے ہوں؟

پیام:

۱ ۔ یہ مت سمجھو کہ عذاب صرف گذشتہ اقوام کے ساتھ ہی مخصوص تھا۔ الہٰی قانون سب قوموں کے لئے یکساں ہے۔( افامن )

۲ ۔ پورا عالم انسانیت اپنی تمام تدابیر، ایجادات، اختراعات، ترقی اورپیشرفت کے باوجود عذاب الہٰی سے آسودہ خاطر اور مطمئن نہیں ہو سکتا اور نہ ہی مطمئن اور آسودہ خاطر ہونا چاہئے۔

۳ ۔ اگرخدا چاہے تو اپنا قہر و غضب اس وقت نال کر دے جبکہ کوئی راہ چارہ موجود نہ ہو اور راتوں رات سب کو ہلاک کر کے رکھ دے۔( بیاتاوهم نائمون )

۴ ۔ غضب کے دور کرنے کے لئے ایک راہ یہ بھی ہے کہ انسان کو جھنجوڑا جائے اور احتمال خطررات سے متنبہ کیا جائے۔( اوامن )

۵ ۔ خواب غضب اور بے جا سرگرمیاں خدائی قہر و غضب کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔( یلعبون )

آیت ۹۹

( اَفَآمِنُوْا مَکْرَاللّٰهِ ج فَلَا یَآمَنُ مَکْرَاللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُونَ ) ۰

ترجمہ: تو کیا یہ لوگ خدا کے مکر (ناگہانی عذاب) سے مطمئن ہو چکے ہیں؟ پس خدا کے مکر (ناگہانی عذاب سے خسارہ اٹھانے والوں کے علاوہ کوئی اور مطمئن نہیں ہوتا۔

ایک نکتہ:

ٍ اگرچہ "مکر" کا لفظ اردو اور فارسی میں "نیرنگی" "مکاری" "عیاری" اور غلط قسم کے حیلے بہانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس کا حقیقی اور لغوری معنی "اصل مقصد سے لگانے کے لئے تدبیر اور چارہ سازی ہے خواہ وہ حق ہو یا باطل اور "مکر خدا" کا مطلب ہے "اس کی ایسی تدبیریں کہ جن سے کفار کے سارے منصوبے نقش برآب ثابت ہو جائیں۔

پیام:

۱ ۔ کسی بھی وقت خدائی عذاب سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے بلکہ خوف اور امید کے درمیان درمیان زندگی گزارنی چاہئے۔

۲ ۔ بے خیال اور لاربانی قسم کے لوگ خسارے میں ہیں۔( لایامن- خاسرون )

آیت ۱۰۰

( اَوَلَمْ یَهْدِ الِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ اَهْلِهَا اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَ نَطْبَعْ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ) ۰

ترجمہ: آیا خدا وند عالم نے ان لوگوں کو اس ذریعہ سے ہدایت نہیں کی، جو زمین پر رہنے والوں کے ہلاک ہو جانے کے بعد اس کے وارث ہوئے ہیں۔ کہ اگر ہم چاہیں تو انہیں بھی ان کے گناہوں کی بدولت ہلاک کر ڈالیں اور ان کے دلوں پر یوں مہر لگا دیں کہ حق کی آوازکو نہ سن سکیں۔ (اور منطق واستدلال کو قبول نہ کریں)

پیام:

۱ ۔ جو لوگ مسند اقتدار تک جا پہنچتے ہیں انہیں چاہئے کہ سابقہ حکومتوں اور ان کے اقتدار کے حصول سے بھی آگاہی حاصل کریں اور ان کے تلخ و شرین تجربوں سے فائدہ اٹھائیں( اولم یهد للذین یرثون ) ۔۔۔)

۲ ۔ خدا کی طرف سے انسانوں کو ملنے والی سزائیں خود ان کے لئے گناہوں کی بدولت ہوتی ہیں۔ (ب( ذنوبهم )

۳ ۔ تاریخ پر حکم فرما الہٰی قوانین ثابت، مستقل اور پائیدار ہیں۔ اور اس کا تسلسل بحال ہے۔ (آیت کے لب و لہجہ کے پیش نظر)

۴ ۔ گناہ، دلوں پر مہر لگنے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اور انسان سے توفیق کے سبب ہو جانے کا سبب بھی( ذنوبهم- نطبع )

آیت ۱۰۱

( تِلْکَ الْقُرٰی نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِهَا وَلَقَدْ جَآئَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ ط کَذَلِکَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِ الْکٰفِرِیْنَ ) ۰

ترجمہ: یہ وہی بستیاں ہیں کہ ہم جن کی کچھ خبریں تمہیں بیان کرتے ہیں۔ اور لیکن وہ لوگ جس بات کی پہلے سے تکذیب کر چکے تھے اس پر ایمان لانے والے کہاں تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کفار کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔

ایک نکتہ:

اس آیت میں "قریٰ" سے مراد وہ بستیاں ہیں جن کے لوگوں کی ہدایت کے لئے حضرت صالح، شعیب، لوط اور ہود علیھم السلام مبعوث ہوئے تھے۔

پیام:

۔ تاریخ کا جو حصہ ہندو نصائح پر مشتمل ہے اسے بیان کرنا چاہئے۔( من انبائها )

۔ مفید داستانیں، تعمیری اہمیت رکھتی ہیں۔( نقص )

۔ تمام انبیاء معجزے کے حامل تھے۔( رسئلهم بالبینات )

۔ ضد، ہٹ دھرمی، خودروبی، مناسب اور جائز نہیں ہے۔( فما کانوا یسومنوا ابماکذبوا )

۔ لوگوں کے انکار کر دینے سے انبیاء کے ارادوں میں گزلزل پیدا نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ تاریخ میں یہ سلسلہ قدیم چلا آ رہا ہے۔( وقد جاء تهم رسلهم ) ۔۔۔)

۔ لوگوں کی طرف انطار، کفر، ضد، ہٹ دھرمی کا زوال بھی طرف سے ایسے دلوں پر مہر لگا دینے کا سبب بن جاتا ہے۔( یطبع الله علی قلوب الکافرین )