آیت ۱۰۲
(
وَمَا وَجَدْ نَا لِاَ کْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ ج وَ اِنْ وَّجَدْناَ اَکْثَرَ هُمْ لَفٰسِقِیْنَ
)
ترجمہ: اور ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں کے لئے وعدے کی پابندی نہیں دیکھی۔ اور ان میں سے بیشتر لوگوں کو ہم نے فاسق پایا۔
دو نکات:
اس آیت میں "عہد" سے مراد یا تو خدا اور لوگوں کی صحیح و سالم فطرت کے درمیان باہمی رابطہ ہے یا انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور قوانین میں اور یا پھر وہ مخصوص عہد و پیمان ہے جو کہ لوگ انبیاء کے ساتھ برقرار کیا کرتے تھے کہ اگر فلاں معجزہ دکھائیں گے تو یا فلاں مستقل حل کریں گے تو ایمان لے آئیں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے: "(
لئن کشفت عناالرجز لنوٴمنن بک ولنرسلن معک بنی اسرائیل فلما کشفنا عنهم الرجزالی احل هم بالفوه اذاهم ینکثون
)
" (ان لوگوں نے حضرت موسیٰ سے کہا) اگر تو ہم سے اس بدبختی کو ہٹ ادے اور عذاب کو برطرف کردے تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور نبی اسرائیل کو تمہارے ساتھ روانہ کر دیں گے، لیکن جونہی ہم نے ان کی مشکل حل کر دی تو انہوں نے اپنا کہا ہو ا وعدہ توڑ ڈالا۔ (اعراف / ۳۵)
خداوند عالم نے فطرت اور انبیاء کے ذریعے تمام حقائق انسان کے لئے بیان فرما دئیے ہیں تاکہ وہ ان کے ساتھ عہد و پیمان برقرار کر کے انہیں تسلیم کر لیں، لیکن لوگوں نے فطرت اور انبیاء کی آواز کو بھلا کر حق کے مدار سے نکل جانے کا ارتکاب کی اور فاسق ہو گئے۔
پیام:
۱ ۔ گزشتہ اقوام کی ہلاکتوں کی وجہ ان کی عہد شکنی اور سر پیش اور ہٹ دھرمی تھی(
عهد، فاسقین
)
۲ ۔ فیصلہ کرتے وقت انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ("اثر" کلا لفظ ہے "سب" کا نہیں)
۳ ۔ اللہ تعالیٰ نے وفاداری کی تعریف کی ہے اور بے وفاؤں اور عہد شکنوں کی مذمت، ۳۵
آیت ۱۰۳
(
ثُمَّ بَعَثْْنَا مِنْم بَعْدِ هِمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلٓائِه فَظَلَمُوْْْا بِهَا فَانْظُرْ کَیْفَ کاَنَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
)
ترجمہ: پھر ہم نے ان سابق انبیاء کے بعد موسیٰ کو اپنی آیات اور معجزا سارے (بھیجا، پس انہوں نے ہماری آیت کے ساتھ ظلم کیا (اور کفر اختیار کیا) پس دیکھو کہ مفسدین کا کیا انجام ہوا ہے؟
چند نکات:
قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کا اسم گرامی بھی اکتیس مرتبہ سے زیادہ استعمال ہوا ہے، اور اتنی تعداد میں کوئی اور نام مذکور نہیں ہوا۔ اور بقول تفسیر المیزان: "قرآن مجید میں جتنے حضرت موسٰی کے معجزات بیان ہوتے ہیں اتنا کسی اور نبی کے نہیں۔"
قرآن مجید میں حضرت موسٰی کی بیان ہونے والی داستان پانچ مراحل میں تقسیم ہوتی ہے۔
۱ ۔ ولادت اور بچپن کا دورانیہ ۲ ۔اپنے شہر کو خیرباد کہہ کر حضرت شعیب کے پاس مدین میں جا کر رہنے کا عرصہ ۳ ۔ بعثت اور فرعون کے ساتھ ہنجر آزمائی کا زمانہ۔ ۴ ۔ اپنی اور قوم کی فرعون سے نجات کے بعد سے فلسطین میں واپسی کا دورانیہ۔ ۵ ۔ بنی اسرائیل کے ساتھ نبردآزمانی کا زمانہ۔
یہ وہ پہلی مکی سورت ہے جس میں حضرت موسیٰ کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔
پیام:
۱ ۔ حضرت انبیاء عظام کی بعثت کا ایک فلسفہ، طاغوتوں کے ساتھ بزدآمائی بھی ہے(
الی فرعون وملائه
)
۲ ۔ معاشرے کی کلی اور مکمل اصلاح کے لئے موٹے موٹوں کی گردنوں کو پکڑنا چاہئے۔ اور باقی کو چشمے ہی سے صاف ستھرا کرنا چاہئے۔(
الی فرعون وملائه
)
۳ ۔ ایمان، معاشرے کی اصلاح کرتا ہے اور کفر الحاد اسے فساد اور خرابی کی طرف لے جاتے ہیں۔(
مفسدین
)
۴ ۔ جو زمین عبادت کے لئے بچھائی گئی ہے اگر اس میں حق کی پھر جانہ کی جائے تو "فساد فی الارض" کے زمرے میں آ جاتی ہے۔(
مفسرین
)
۵ ۔ جو خدا پرستی سے ہٹ جاتا ہے وہ فساد کا مرتکب ہوتا ہے۔(
مفسدین
)
۶ ۔ جو بھی خدا کی شریعت کو ٹھکراتا ہے، مفسد ہے۔
۷ ۔ جب کسی معاشرے پر خدا کی بجائے طاغوت حاکم ہو جاتا ہے وہ اپنے بچاؤ اور حفاظت کے لئے سی قسم کے فساد کا ارتکاب کرتے سے باک نہیں کرتا۔(
مفسدین
)
آیت ۱۰۴
(
وَ قَالَ مُوْسٰی ٰیفِرْعَوْنَ اَنِّی رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الٰعلَمِیْنَ
)
ترجمہ: اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں یقینی طور پر عالمین کے رب کی طرف سے رسول ہوں۔
پیام:
۱ ۔ انبیاء نے رسالت اور دعوت حق کے علاوہ کسی اور قسم کا دعویٰ نہیں کیا۔(
الی رسول
)
۲ ۔ انبیاء کرام اپنی دعوت کے وقت کسی قسم کے خوف و ہراس اور کمزور کو خاطر میں لائے بغیر اپنے زمانے کے طاغوتوں کو للکارتے رہے۔(
یا فرعون
)
۳ ۔ ایسا معاشرہ کہ جس میں طبقاتی نظام حکمرانا ہو اس کی اصلاح کیلئے سب سے پہلے سرغنہ افراد کی اصلاح ضروری ہوتی ہے۔(
یا فرعون
)
۴ ۔ فرعون اپنے آپ کو لوگوں کا پروردگار سمجھتا تھا اور "اناربکم الاعلیٰ" کہتا تھا۔ جبکہ حضرت موسٰی اپنے "رب العالمین کے رسول" کی حیثیت سے متعارف کراتے تھے جس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ "فرعون! تو بھی اس پر وردگار کے زیر تسلط ہے جس کا میں رسول ہوں!"
آیت ۱۰۵
(
حَقِیْقٌ عَلیٰ اَنْ لَّا اَقُوْلَ عَلَی اللّّٰهِ اِلَّا الْحَقَّّط قَدْْ جِئْتُکُمْْ بِبَیِّنَةٍٍٍٍ مِّّنْْ رَّبِّّکُمْْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ اِسْرٰائِیْلَ
)
ط
ترجمہ: سزا وار بات یہ ہے کہ میں خداوند عالم کی طرف حق بات کے علاوہ کسی اور چیزکی نسبت نہ دوں، یقین جانو کہ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل (اور روشن معجزہ) لے کر آیا ہوں۔ پس بنی اسرائیل کو میرے ساتھ روانہ کر دے۔
پیام:
۱ ۔ تمام انبیاء معصوم ہیں اور حق بات کے علاوہ کچھ نہیں کہتے۔(
لااقو اعلی الله الاالحق
)
۲ ۔ انبیاء کو معجز نما ہونا چاہئے۔(
بینته
)
۳ ۔ تمام لوگوں کے لیے اییک رب ہونا چاہئے حتی کہ فرعون کے لئے بھی، پس فرعون کا دعوائے ربوبیت ، غلط تھا۔(
ربکم
)
۴ ۔ انسانوں کی آزادی انبیاء کے اہداف و مقاصد میں لے سب سے پہلا مقصد ہے۔ او ر ان کے علاوہ جو بھی برسر اقتدار آکر سر پر آرائے حکومت ہوتا ہے لوگوں کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔(
ارسل معی بنی اسرائیل
)
۵ ۔ جب تک لوگوں کو طاغوتوں سے پوری طرح چھٹکارا نہیں مل جاتا اس وقت تک ان کے لئے صحیح معنوں میں مگر و ہدایت اور تعلیم و تریبت کا بندوبست کرنا مشکل ہوتا ہے۔(
ارسل معی بنی اسرائیل
)
آیت ۱۰۶ ، ۱۰۷
(
قَالَ اِنْ کُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَا اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ فَاَلْقٰی عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنَ
)
ترجمہ: (فرعون نے) کہا: اگر تو سچوں میں سے ہے تو کوئی معجزہ لے آ۔
پس (موسیٰ ) اپنا عصا پھینکا تو وہ آنا فانا واضح طور پر اژدہا بن گیا۔
ایک نکتہ:
سورہ شعرأ کی آیت ۴۵ میں ہے کہ: یہ اژدھا جادوگروں کے جادو کے تمام مال و اسباب کو چٹ کر گیا۔ "(
تلقف مایافکون
)
" اور اس عصا کے کئی اور معجزات بھی ظاہر ہوئے ۔ مثلاً اسے دریا پر مارا گیا تو اس کا پانی خشک ہو گیا "(
فاضرب بعصاک البحر
)
" (شعرأ/ ۶۳) اور پتھر پر مارا گیا تو اس سے چشمے پھوٹ پڑے۔ "(
فاضرب بعصاک الحجر
)
" (البقرہ/ ۶۰)
پیام:
۱ ۔ مخاطب افراد کی حیرت و شگفتگی کے مطابق معجزات مختلف ہوا کرتے تھے۔ (ثعبان) امر کی وضاحت یوں سمجھے کہ فرعون اور فرعون والوں کے لئے تو عصا "اژدہا" تھا جبکہ خودحضرت موسٰی کے سامنے یہی "اژدہا" ایک چھوٹا سا سانپ تھا: "(
الق عصاک کا نها جان
)
" (نحل/ ۱۰) اور عوام الناس کے سامنے ایک عام سا سانپ تھا "(
حیة تسعیٰ
)
" (طہ / ۲۰)
۲ ۔ معجزہ ایسا صاف اور واضح ہونا چاہئے جس میں کسی شخص کے لئے شک و تردید کی گنجائش نہ ہو۔(
مبین
)
آیت ۱۰۸ ۔ ۱۰۹
(
وَنَزَعَ یَدَه فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءَ لِلنّٰظِرِیْنَ قَالَ اِنَّ الْمَلَاَ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّّ هٰذَا الَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ
)
ترجمہ: اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ (اپنے گریبان سے) باہر نکالا تو اچانک وہ دیکھنے والوں کے سفید (اور چمکدار) تھا۔
قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: یہ تو یقینا ایک سمجھدار جادو گر ہے۔
پیام:
۱ ۔ انبیاء جہان پر ڈراتے ہیں (اور عصا سے اژہا بناتے ہیں) وہاں پر خوشخبری بھی سناتے ہیں (اور نورانی ہاتھ دکھاتے ہیں)(
بیضاء
)
۲ ۔ طاغوث کے حامی ہمیشہ ان کے جرائم میں برابر کے شریک رہے ہیں(
الملأمن قوم فرعون
)
۳ ۔ مخالفین، انبیاء کی تبلیغ اور ان کے ثمن کو تہمتیں لگ اکر مخدوثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آیت ۱۱۰
(
یُرِیْْدَُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِنْ اَرْضِکُمْ فَماَذَا تَاْمُرُوْنَ
)
ترجمہ: موسیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال دے (اور تمہارے علاقہ پر قبضہ کر لے) تو اس بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟
ایک نکتہ:
فرعون نے عوام الناس کو فریب دینے کے اور ان کے افطار کو گمراہ کرنے کے لئے حضرت موسٰی پر ناروا تمہیں لگائی۔ ایک تو اعتقادی لحاظ سے انہیں "جادوگر" کہا، اور دوسرے اجتماعی، معاشرتی اور سیاسی نکتہ نظر سے انہیں ’فتنہ پرور" اور "آشوب گر" کیا۔
پیام:
۱ ۔ مردان حق پر اتہام اور بہتان طرازی، مخالفین کا ایک عملہ ہتھیار ہے(
یرید ان یخرجکم
)
۲ ۔ اپنے مکمل استہداد کے باوجود طاغوت کبھی کبھار اس قد رسیاسی گرفتاری میں مبتلا ہو کر ایسا ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنے اطرافیوں سے مشورے کرنے پڑ جاتے ہیں۔ (ف(
ماذاتامرون
)
۳ ۔ چوکہ ہر شخس کو اپنے گھر اور وطن سے محبت ہوتی ہے اسی لئے لوگوں کو مردان خدا کے خلاف اکسانے کیلئے یہی حربہ اختیار کیا جاتا ہے۔(
یخرجکم من ارضکم
)
آیت ۱۱۱ ، ۱۱۲
(
قَالُوْآ اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَاَرْسِلْ فِی الْمَدَآئِنِِ حٰشِرِیْنَ یَاْتُوْکَ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ
)
ترجمہ: (فرعون کے اطرافیوں نے) کہا: اسے اور اس کے بھائی کو روکے رکھو اور نظر بند کر دو (اور اس کے قتل میں جلدی نہ کرو) جادو گروں کو جمع کرنے والوں کو شہروں میں روانہ نہ کرو تاکہ وہ ہر دانا اور آزمودہ کار جادوگر کو تمہارے پاس لے آئیں۔
ایک نکتہ:
اس آیت میں "سحر علیم" کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ سورہ شعراأ کی آیت ۳۷ میں "سحارعلیم" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جادو گر بڑے تجربہ کار ، آزمودہ کار اور ماہر فنکار تھے۔ اسی طرح "ارجہ" کا لفظ "رجاء" سے مشتق کیا گیا ہے جس کا معنی ہے "نطڑ بند کرنا" "قید کرنا" اور تاخیر میں ڈالنا"۔
لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو چونکہ حضرت موسٰی کی دعوت و تبلیغ کا دائرہ کار وسیع ہو چکا تھا اور ان کے معجزات کا ردعمل بہت اچھا تھا لہٰذا فرعون کے لئے ان کا قید کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ لہٰذا "تاخیر میں ڈالنا" کا معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
پیام:
۱ ۔ دعوت انبیاء کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے طاعوتی طاقتیں ماہرین کی عالمی کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں۔(
یاتوک بکل ساحر
)
آیت ۱۱۳ ، ۱۱۴
(
وَجاَءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْا اِنَّ لَنَا لَاَجْراً اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ
)
ترجمہ: اور جادوگر فرعون کے پا س پہنچ گئے۔ کہنے لگے اگر ہم غالب آ جائیں تو ہمارے لئے یا اثر اور انعام ہے؟ اس نے کہا: ہاں، یقینا تم میری بارگاہ میں) مقرب ہو جاؤ گے۔
پیام:
۱ ۔ انبیاء اور جادوگروں کے اہداف و مقاصد میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے وہ یوں کہ انبیاء لوگوں کی ہدایت اور انہیں راہ راست پر لانے کے لئے کام کرتے ہیں اور کسی قسم کی اجرت کے طلبگار نہیں ہوتے بلکہ کہتے ہیں "(
ما اسئلکم علیه من اجر"
)
جبکہ جادوگروں کا مطمع نظر ہی دنیا کا کمانا ہوتا ہے۔(
لاجرا
)
۲ ۔ طاغوتی درباروں کا رخ کرنے والے دنیور مقاصد کے حامل ہوتے ہیں۔(
ان لنا لاجرا
)
۳ ۔ لوگوں کو وعدوں اور سرمایہ کے ذریعہ ہی طاغوتی طاقتیں اپنے گرد اکٹھا کرتی ہیں۔(
قال نعم
)
۴ ۔ طاغوت کبھی اس قدر عاجز اور درماندہ ہو جاتے ہیں کہ ہر قسم کے مطالبے کو تسلیم کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔(
قال نعم
)
۵ ۔ دنیا پرست افراد کے نزدیک مال سے زیادہ سیاسی مقا مو منصب اور اجتماعی و معاشرتی قیدو منزلت زیادہ وقیع ہوتی ہے۔(
لمن المقربین
)
آیت ۱۱۵۔۱۱۶
(
قَالُوْْا یٰمُوْسٰی اِمَّا اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّا اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ قَالَ اَلْقُوْا فَلَمَّا اَلْقَوْا سٰحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْْ وَجَاءُ ْو بِسِحْرٍِ عَظِیْمٍ
)
ترجمہ: (جادوگروں نے) کہا: اے موسٰی! آیا تو (اپنے جادو کے ذرائع کو) پھینکتا ہے یا ہم پھینکیں (موسیٰ نے خدا کی نصرت پر یقین رکھتے ہوئے) کہا: تم ہی پھینکو۔ تو جونہی انہوں نے (اپنے جادو کے وسائل کو) پھینکا تو لوگوں کی آنکھوں کو موند دیا اور (اس چشم بندی کی وجہ سے) لوگوں کے اندر خوف اور وحشت پھیلا دی اور ایک بڑے جادو کو لے آئے۔
پیام:
۱ ۔ معرفت کی راہوں میں صرف ظاہری جو اس پر ہی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ بعض اوقات آنکھیں دھوکہ کھا جاتی ہیں اور ان پر جادو کا اثر ہو جاتا ہے(
سحر واعین الناس
)
۲ ۔ جادوگروں کے جادو کا اثر لوگوں کی آنکھوں میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں تبدیلی پیدا نہیں کر دیتا۔ جیسے سراب دورے پانی نظر آتا ہے۔ لیکن معجزات میں ایسا نہیں ہوتا۔ موسیٰ کا اژدہا حقیقة اژدہا بنا صرف نظر نہیں آیا۔ انبیاء کا لوگوں کی بصیرت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ جبکہ جادوگر اور ساحروں کا کام لوگوں کی آنکھوں موندنا ہوتا ہے۔(
اعین الناس
)
۳ ۔ ہرموقع پر حق کو ناکام بنانے کے لئے اسی جیسے وسائل سے کام لیا جاتا ہے۔ مذہب کے خلاف، مذہب، عالم کے خلاف اور یہاں پر معجزہ کے خلاف جادو۔
۴ ۔ طاغوت اور باطل کے دعویدار ہمیشہ اپنے دعوے دھونس اور دھاندلی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔(
واسترهبوهم
)
آیت ۱۱۷
(
وَ اَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَلْقِ عَصَاکَ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِکُوْنَ
)
ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے عصا کو (زمین پر) پھینکو، (جونہی انہوں نے عصا کو پھینکا تو ہو اژدھا بن گیا اور ناگہانی طور پر جادوگروں کے گھڑے ہوئے جھوٹوں کو نگلنے لگ گیا۔
چند نکات:
"تلقف" کا لفظ "لقف" سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کو طاقت اور جلدی کے ساتھ پکڑنا چاہے دانتوں سے پکڑا جائے یا ہاتھوں اور انگلیوں سے۔ لیکن اس آیت میں اس کا معنی "نگلنا" ہے۔
"یافکون" کا کلمہ "افک" سے لیا گیا ہے اور "افک" کے معنی ہیں ’ایسا جھوٹ جو سچ کے قالب میں ڈھالا گیا ہو" یا "ایسا باطل جو حق کی صورت میں ہو۔"
اگر حضرت موسٰی کی لاٹھی جادوگروں کے گھڑے ہوئے جھوٹوں کو نگل سکتی ہے تو قرآن مجید کی تلاوت اور قرآن مقدس کے ذریعہ سے شیطان سے پناہ حاصل کرنا امر لاٹھی سے زیادہ موثر ہے اور باطل کے پیرکاروں کی سازشوں اور گٹھ جوڑ ان کے ہر طرح کے نقش برآب بنا کر رکھ دیتا ہے۔
پیام:
۱ ۔ بحرانی دور میں انبیاء کو براہِ راست غیبی مدد مل جاتی ہے۔(
اوحینا
)
۲ ۔ اگر خدا چاہے تو اپنے مخلص بندوں کی بین الاقوامی اجتماعات اور دشمن کے مجمع میں جس میں حق کی تباہی کے لئے اکٹھے ہو جائیں امداد کر کے ان پر غالب کر دے۔
۳ ۔ جو باطل لوگوں کی آنکھوں کو خطا اور دلوں کولرزہ براندام کر دے(
سحر وااعین الناس واستر هبوهم
)
وہ خدائی قدرت کے ذریعہ اور انبیاء کے توسط سے سرکوب ہو جاتا ہے۔(
تلقف مایافکون
)
آیت ۱۱۸ تا ۱۲۰
(
فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ فَغَلَبُوْْا هُنَا لِکَ وَاْنقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ وَاَلْقٰی السَّحَرَةُ سٰجِِدِیْنَ
)
ترجمہ: پس حق آشکار اور ثابت ہو گیا (اور موسیٰ کی نبوت واضح ہو گئی) وار جادوگروں کے تمام کارنامے باطل اور محو ہو گئے۔
پس فرعون والے اسی جگہ پر ہی مغلوب ہو کر ذلیل اور خوار ہو گئے۔ اور جادو گر نے اختیار ہو کر) سجدے میں گرپڑے۔
ایک نکتہ:
حضرت موسٰی کے معجزہ کی کامیابی کے ساتھ فرعونی نظام کو سخت دھچکا لگا اور اس کے بڑھ کر یہ کہ تمام جادوگر بیک وقت موسی پر ایمان لے آئے اور فرعون کی عزت اندرونی طور پر خاک میں مل گئی۔
پیام:
۱ ۔ حق غالب اور باطل مغلوب اور نابود ہونے والا ہے۔(
فوقوع الحق
)
۲ ۔ حق کے صرف ایک ہی جلوہ سے باطل کی ساری چکا چوند ختم ہو جاتی ہے(
الحق ماکانوا
)
۳ ۔ انسانی ہاتھوں سے تراشے ہوئے باطل الہٰی حق کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔(
الحق-یعملون
)
۴ ۔ تبلیغ کے موقع پر حق کو بیان کر کے باطل کو میدان سے دور بھگایا جا سکتا ہے۔(
وقع الحق بطل
)
۵ ۔ اگر معرفت حاصل ہو جائے تو پھر سجدہ اور سرتسلیم خم کر دینا لازمی ہو جاتا ہے۔(
القی
)
۶ ۔ شکسوت کی ذلت اور تحقیق خود شکست سے بدتر ہوتی ہے۔(
صٰغرین
)
۷ ۔ معرفت کے سایہ ایک ہی لمحہ میں عقیدے کو تبدیل کر کے خوش بختی حاصل کی جا سکتی ہے۔(
فالقی السحرة سٰجدین
)
۸ ۔ "نحن الغالبون" (ہم ہی غالب ہیں ۔ آیت ۱۱۳) کے دعویدار آج "صاغرین" کی صورت میں مغلوب ہو چکے ہیں(
وانقلبو اصاغرین
)
آیت ۱۲۱۔۱۲۲
(
قَالُوْا اٰمَنَّا بِرَبِّ العٰلَمِیْنَ رَبِّ مُوْسٰی وَ هٰرُوْنَ
)
ترجمہ: ان (جادوگر) لوگں نے کیا ہم تمام حیاتوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے۔
(وہی جو) موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے۔
دونکات:
جو جادوگر حضرت موسٰی کو رسوا کرنے، مال و دولت اور فرعون کا تقرب حاصل کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ موسٰی کامعجزہ دیکھ کر ایمان لے آئے اور علی الاعلان اس کا اظہار کر دیا۔
اپنے اس اعلان میں انہوں نے تینوں اصول دین کا اقرا ر کیا۔ یعنی توحید نبوت اور مدد کا۔ (رب العالمین، رب موسیٰ وہارون) اور بعد کی چند آیات میں ہے کہ انہوں نے کہا : "الی ربنا منقلبون" ہم اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں گے۔ (آیت ۱۱۵)
پیام:
۱ ۔ انسان کا آزادی حاصل ہے اور وہ حق کو سمجھ لینے کے بعد اپنے ایمان اور عقیدے کو تبدیل کر سکتا ہے۔(
قالو آفنا
)
۲ ۔ شرک اور ذہنی گمراہی سے توبہ کا نام ایمان ہے(
آمان
)
۳ ۔ معجزہ کی کیفیت کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جادوگر ہی بہتر جانتے ہیں اسی لئے جلد ایمان لے آتے ہیں۔(
آمنا
)
۴ ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حق بیان نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایمان نہیں لا سکتے، جونہی حق روشن ہوتا ہے، کئی لوگ ایمان لے آتے ہیں۔(
آمنا
)
۵ ۔ خداوند عالم کے خالق ہونے میں تو کسی کو اختلاف نہیں ، سارا جھگڑا اس کی ربوبیت اور تدبیر عالم کے بارے میں ہے اور ہدیہ برہستی کی اطاعت کے متعلق ہے۔(
رب موسیٰ و هارون
)
۶ ۔ "عدو شود سبب خیر گر خدا وہد "والی کہاوت سو فیصد درست ہے، فرعون نے دنیا بھر کے جادوگروں کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا جو اس بات کا سبب بن گیا کہ وہ سارے یگجا موسیٰ پر ایمان لے آئے۔
۷ ۔ لفظی طور پر بھی کسی کو ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہئے۔ جادوگروں نے کہا: آمنا برب العالمین" ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے۔ کہیں شکست خوردہ فرعون یہ نہ کہہ دے کہ وہ رب العالمین، میں ہوں، اس لئے آیت کہتی ہے: "رب موسیٰ و ھارون"(
هارون و موسیٰ کا رب
)
آیت ۱۲۳
(
قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْْتُمْ بِه قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ اِنَّ هٰذَا لَمَکْرُمَّکَرْ تُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا فَسَوْفَ َتعْلَمُوْنَ
)
ترجمہ:
فرعون نے (جادوگروں سے) کہا: تم میرے اجازت دینے سے پہلے اس پر ایمان لے آئے ہو؟ یقینا یہ تمہاری ایک چال ہے جو تم نے شہر میں چلی ہے تاکہ (علاقہ کو اپنے قبضہ میں لے کر) لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کرو۔ پس تم بہت جلد سمجھ لو (کہ تمہارا مقابلہ کسی کے ساتھ ہے اور تمہیں کیا سزا ملے گی؟)
پیام:
۱ ۔ فکری، ذہنی اور عقیدتی استعمار میں حکومتوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کے عقیدہ اور افکار پر پہرے بٹھا دئیے جاتے ہیں اور ان کی فکر سلب کر لی جاتی ہے (قبل ان اذن) بالفاظ دیگر طاغوتی نظاموں میں عقائد پر سینسر کی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔
۲ ۔ طاغوت کا ایک طریقہ کار یہ بھی ہے کہ وہ مردان حق پر تہمتیں لگاتا ہے۔(
مکر مکرتموه
)
۳۶
۳ ۔ طاغوت کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو انبیاء کے خلاف بھڑکانے کے لئے انہیں ہر بات سے ڈراتے ہیں کہ وہ تمہیں تمہاری سرزمین سے باہر نکال دیں گے اور خود اس پر قابض ہو جائیں گے۔(
لتخر جوامنها اهلها
)
۴ ۔ طاغوتی طاقتوں کا کام ڈرانا دھمکانا ہوتا ہے۔(
فسوف تعلمون
)
آیت ۱۲۴ ۔ ۱۲۵
(
لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَ اَرْجُلَکُْمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْنَ قَالُوْ اِنَّا اِلٰی رَبِّّنَا مَنْقَلِبُوْنَ
)
ترجمہ: میں تمہارے ہاتھ پاؤں ایک دوسرے کے برخلاف (ایک دائیں طرف سے اور دوسرا بائیں جانب سے) ضرور کاٹوں گا۔ پھر تم سب کو سولی پر بھی ضرور لٹکاؤں گا۔
انہوں نے کہا: ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے۔ (اور ہمارے لئے عقیدے کی راہ میں شہادت، ایک سعادت ہے۔)
چند نکات:
ان آیات سے ملتی جلتی سورہ طٰہ کی ۷۰ کے بعد کی آیات ہیں۔
آیت میں اگرچہ ان دھمکیوں پر عمل درآمد کرنے کی طرف اشارہ نہیں ہے لیکن روایات اور تاریخیں بتاتی ہیں فرعون نے حضرت موسٰی پر ایمان لانے والون کو ٹکڑے ٹکڑ کر کے درخت ضرما کی شاخوں پر لٹکا دیا تھا۔ اور مورخ طبری کے بقول: "کانوا اول النھار سحرة وآخر النھار شھداء بررة" وہ دن کے پہلے حصے میں جادو گر تھے اور آخری حصے میں نیک پاک شہید تھے۔ اپنے ایمان کی بدولت انہیں فرعون سے کسی قسم کا خوف و ہراس دامن گیر نہیں ہوا۔
فرعون اس قدر شور و ترابے کے باوجود حقیر اور رسوا ہو گای "القلبواصاغرین" اور جادوگر اپنے ایمان کی وجہ سے سعادت اور شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو گئے۔(
الی ربنا منقلبون
)
پیام:
۱ ۔ دھمکی اور دھونس، صاحبان اقتدار کا آخری حربہ ہوتا ہے۔(
لاقطعن
)
۲ ۔ جو شخص دل کی بصیرت کے ساتھ ایمان لاتا ہے وہ مختلف اور مشکل کیفیات سے گزرتنے باوجود بھی ایمان سے دستبردار نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی قسم کی دھمکی کو خاطر میں نہیں لاتا(
قالو انالی ربنا
)
۳ ۔ اصلاحی اور انقلابی افکار کے اثر ور سوخ کو روکنے اور اس کے آگے بند باندھنے کے لئے طاغوت اور طاغوتی طاقتیں انقلابی و رہنماؤں کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں آئیں۔(
لاصلبنکم
)
۴ ۔ انسان کی طاغوت۔ نظام اور ماحول کا محکوم نہیں ہے۔ اور اپنے ایک ارادے کے ساتھ اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔(
لاقطعن- قالوا
)
۵ ۔ ذلت کی زندگی غیرت کی موت بہتر(
الی ربنا منقلبون
)
۶ ۔ اس بات پر مغرور نہیں ہونا چاہئے کہ ہم قدیمی مومن اور پرانے عبادت گزار ہیں کیونکہ بعض اوقات چند جادوگر اور کافر بھی یکسر تبدیلی کے ساتھ سب پر سبقت لے جاتے ہیں۔
۷ ۔ تبلیغی دورانئے میں زمانہ ماضی کے جوانمردوں کی تاریخ کو بھی دہرانا چاہئے۔(
قالوا
)
۸ ۔ معاد اور قیامت پر ایمان انسان کو ہر قسم کے خوف و خطر سے محفوظ رکھتا ہے۔(
الی ربنا منقلبون
)
۳۷
۹ ۔ گمراہ اور منحرفین کی ہدایت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ جادوگروں جیسے کافروں میں بھی ایک ہی مرتبہ تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔(
قالوا
)
۔۔)
۱۰ ۔ ایمان، انسان کے اندر تبدیلی پیدا کر کے اس کی شخصیت کو بلند و بالا کر دیتا ہے۔ (جو جادوگر کل فرعون کی طرف سے انعام و اکرام کی منتظر تھے آج ان کے مومن ہو جانے کے بعد ان کے لئے اس قسم کی ساری باتیں بے وقعت ہو چکی تھیں۔(
الی ربنا
)
آیت ۱۲۶
(
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّا اِلَّا اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّناَ لَمَّا جَاءَ تْنَاط رَبَّنَا اَفْرِغْنَا عَلَیْنَا صَبْراً َو تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ
)
ترجمہ: اور (اے فرعون!) تو ہم سے اس کے علاوہ اور کسی بات کا انتقام لے گا کہ ہم اپنے رب کی آیات پر ایمان لائے جب وہ ہمارے پاس آ گئیں۔ اے ہمار پروردگار! تو ہم کو صبر و شکیبائی فراوانی کے ساتھ عطا فرما اور ہمیں اپنا فرمابردار اور مسلمان بنا کر موت دے۔
ایک نکتہ:
یہ آیت اس مذموم و مسموم پراپگنڈے کا جواب ہے جو فرعون کی طرف سے موسیٰ پر ایمان لانے والوں کے خلاف کیا جا رہا تھا اور سابقہ آیات میں جس کی طرف اشارہ بھی ہو چکا ہے۔
پیام:
۱ ۔ خدا پر ایمان اور طاغوت کی نافرمانی کی قیمت تو چکانی ہی پڑتی ہے جو کافی بھاری ہوتی ہے۔(
وما تنقم
)
۲ ۔ طاغوتی طاقتیں لوگوں کے عقیدہ توحید کے مخالف ہیں، کود ان کی ذات کے مخالف نہیں ہیں(
الاانآمنا
)
۳ ۔ سچے اور پکے مومن کی نشانی، آرام و سکون ، صبر وپائیداری ، صراحت و وضاحت ، شجاعت و شبہامت اور تضرع و دعا ہے۔(
ربنا
)
۴ ۔ طاغوت کی دھمکی کے مقابل میں خدا سے بہترین طلب اور دعا ، ایمان کی بقا اور حفاظت کے لئے ہوتی ہے۔(
افرغ علینا توفنا
)
۵ ۔ فریق مخالف کی دھونس اور دھمکی جس قدر شدید ہو گی اس قدر، صبر و جرأت کی بھی ضرور ت ہو گی۔(
افرغ علینا صبرا
)
کی درخواست کی گئی ہے کہ دلوں کو صبر سے لبریز کر دے، یہ دعا نہیں کی گئی کہ "انزل علینا صبرا" یعنی ہم پر صبر نازل فرما۔
آیت ۱۲۷
(
وَقَالَ الْمَلٓا ءُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَزَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَه لِیُفْسِدُوْفِیْ الْاَرْضِ وَیَزَرَکَ اٰلِهٰتَکَ قَالَ سُنِقَتِّلَ اَبْنَآئَهُمْ وَ نَسْتَحْیِِِِِِِِِیْ نِسَآئَهُمْ وَ اَنَا فَوْقَهُمْ قَاْهِرُوْنَ
)
ترجمہ: اور قوم فرعون کے سرداروں نے (فرعون سے) کہا: آیا تو موسٰی اور اس کے پیروکاروں کو چھوڑ دے گا۔ تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور تجھے اور تیرے خداؤں کو چھوڑ دیں؟
تو اس (فرعون) نے کہا: ہم بہت جلد ان کے لڑکوں کو مار ڈالیں گے اور لڑکیوں کو (کنیزی اور خدمتگاری کے لئے) بچائے رکھیں گے۔ اور ہم ان پر پورا پورا تسلط رکھتے ہیں۔
چند نکات:
فرعون نے حضرت موسٰی کی دعوت کو ایک عرصے تک نظر انداز کئے رکھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت موسیٰ کے پیروکاروں کی تبلیغات کا دائرہ وسیع ہونے لگا جس سے قوم فرعون کے سرداروں کو خطرہ محوار ہوا اور فرعون سے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کای۔
فرعون اپنے آپ کو خالق نہیں بلکہ "رب" سمجھتا تھا اور کہا کرتا تھا۔ "(
انا ربکم الاعلیٰ‘
)
‘ میں تمہارا بہت ہی بڑا رب ہوں (نازعات / ۳۷) اور یہ بھی کہ خوا وہ اور اس کے ماننے والے مختلف معبودوں کے قائل تھے۔ فرعونم کی قوم اسے اوردوسرے معبودوں کو "خالق کائنات کے مظاہر" سمجھ کر پوجتے تھے۔
پیام:
۱ ۔ طاغوتوں کی کچھ خرابیاں ان کے چیلے چانٹوں کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں(
قال الملأ
)
۲ ۔ انبیاء کے انقلابی اور اصلاحی اقدامات طاغوتی طاقتوں کی نظر میں فتنہ و فساد گڑبڑ اور امن عامہ میں خلل اندازی ہوا رکتے ہیں۔(
لیفسدوافی الارض
)
۳ ۔ مردوں کو ختم کر دینا اور علاقوں کو بچائے رکھنا ایک فرعون سیاست ہے۔ تاکہ جوانمردی اور مردانہ غیرت کا جنازہ نکال دیا جائے اور عورتیں فرعونی سیاست کا آلہ گارنبی اس بعینہ آج کل کی استہماری سیاست کے مانند۔(
سنتقل ابنا ئهم و نستحی نسائهم
)
۴ ۔ انبیاء دشمن قوتیں نوجوانوں اور عورتوں کے لئے خصوصی پروگرام مرتب کرتی ہیں۔
۵ ۔ متضاد اور مخالف قسم کے اقدامات فرعونی سیاست کی سرگدانی کی علامت ہوتے ہیں۔ کبھی تو موسیٰ کو قتل کر دینے کے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں "(
ذرونی اقتل موسٰی
)
" (غافر/ ۲۶) لیکن پھر انہیں آزاد چھوڑا جاتا ہے اور اس حد تک آزادی دی جاتی ہے کہ خود فرعون کے طرفداروں کو احتجاج کرنا پڑتا ہے۔
۶ ۔ خالی خولی وار کھوکھلے نعروں کی بدولت اپنی جھوٹی انا کو بچائے رکھنا "فرعونی سیاست" ہے۔(
انافوقهم قاهرون
)
آیت ۱۲۸
(
وَقَالَ مُوْسٰی لِقَوْمٍ اِسْتَعِیُوْنَ بِااللّٰهِ وَاصْبِرُوْ اَنََّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآ ءُ مِنْ عِبَادِه وَالْعَاقِبَةُ الْمُتَّقِیْنَ
)
ترجمہ: حضرت موسٰی نے اپنی قوم سے کہا: اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور صبر و پائیداری کا مظاہرہ کرو کیوں کہ اس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے کہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور اس کے اختیار میں دے دیتا ہے۔ اور انجام کا (آخری فتح) تو مومنین ہی کے لئے ہے۔
ایک نکتہ:
اس آیات میں دو فرمان اور دو طرح کی خوشخبری بیان کی گئی ہے۔ فرمان یہ کہ خدا اسے مدد ضبط اور صبر اختیار کیا جائے۔ اور خوشخبری یہ کہ زمین کی ولائت اور نیک انجام مومنین کے لئے ہے۔
پیام:
۱ ۔ آخری کامیابی کے حصول اور دھمکیوں سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا اسیت مدد طلب کی جائے، اس پر توکل کیا جائے اور تقویٰ اور پائیداری اختیار کی جائے۔(
استعینوا- اصبروا
)
اس سے بھی مدد حاصل کی جائے اور خود بھی صبر کریں۔
۲ ۔ حساس مواقع پر رہبر کو چاہئے کہ اپنی امت کی دلجوئی کرے۔(
قال موسیٰ
)
۳ ۔ روشن مستقبل کی امید اسلام سمیت تمام ادیان کے وعدوں میں شامل ہے۔(
العاقبة للمتقین
)
۴ ۔ متقی افراد ایک تو دنیامیں نیک انجام کے حامل ہوتے ہیں۔(
یورثها من یشاء
)
اور دوسرے آخرت میں بھی انہی کا نیک انجام ہو گا۔(
والعاقبة للمتقین
)
آیت ۱۲۹
(
قَالُْْوْ اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلُ اَنْ تَاْتِیْنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَناَ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّهْلِکَ عَدُوُّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفُکُمْ فِیْ الْاَرْضِ فَیَنْظُرْ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ
)
ترجمہ: (موسٰی کے پیروکاروں نے) کہا: ہمیں تو آپ کے آنے سے پہلے بھی دکھ پہنچائے گئے اور آپ کے آنے کے بعد بھی۔ (موسٰی نے) کہا: امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا۔ اور تمہیں زمین میں ان کا جانشین بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کب عمل کرتے ہو؟
ایک نکتہ:
بنی اسرائیل کو یہ توقع تھی کہ حضرت موسٰی کے قیام اور انقلاب کے بعد سارے کام ایک ہی رات میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور سارے وسائل سمیت مملکت مسر ان کے قبضہ قدرت میں آ جائے گی اور فرعون والے تب چٹ ہو جائیں گے۔ اسی لئے وہ اس بات مدعی تھے کہ موسیٰ کے انقلاب نے ان کے لئے آسائش فراہم نہیں کی۔ خدا کا جواب یہ ہے کامیابی کے بھی کچھ شرائط ہوتے ہیں۔ مثلاً صبر، استقلال، سعی و کوشش اور توکل برخدا وغیرہ ۔ اگر یہ فراہم ہو جائیں پھر خدائی امداد کی امید ہوتی ہے۔
پیام:
۱ ۔ الہٰی رہبر بعض اوقات اپنے ہی کم ظرف دوستوں کی تنقید کا نشانہ بن جاتے ہیں۔(
قالوا اوذینا
)
۲ ۔ اکثر لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ راحت اور آسائش و آرام ہی سعادت اور خوش بختی ہے اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ حالانکہ وہ اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ آسمانی ادیان لوگوں کی زندگی وک صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے ہوتے ہیں ان کی مشکلات ختم کرنے کے لئے نہیں ہوتے(
من قبل ان تاتینا ومن بعد
)
۳ ۔ رہبر کو چاہئے کہ ہر قسم کی تنقید کو سنے اور امید افزا پیغام سے نوازے(
عسبی ربکم
)
۴ ۔ لوگوں پر حکمرانی آزمائش امتحان کا ایک ذریعہ ہوتاہے، لذت حاصل کرنے کا راستہ نہیں۔(
فینظر کیف
)
۵ ۔ قدرتی، معاشرتی اور فوجی مشکلات کو اپنی راہ اور تدبیروں سے حل کرنا چاہئے معجزات کے ذریعہ نہیں۔ (سابقہ آیت میں "اصبروا‘ اور "(
بعد ماجئتنا
)
" کے جملے کے بہتر نظر۔
۶ ۔ عوام الناس حکومت الیہ کے سامنے جوابدہ ہیں(
کیف تعملون
)
فرماتا ہے "کیف اعمل" نہیں کیا۔
آیت ۱۳۰
(
وَلَاقَدْاَخَذَ اٰلُ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَذَکَّرُوْنَ
)
۰
ترجمہ: اور ہم نے فرعون کو طرفداروں کو قحط خشک سالی اور پھل میووں کی کمی کے ذریعہ اپنی گرفت میں لے لیا۔ تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں (اور اپنے گمراہی کے رستوں سے باز آ جائیں۔)
ایک نکتہ:
"سنین" جمع ہے "سنة" کی جس کے معنی میں "سال" لیکن جب لفظ "اخذ" کے ساتھ استعمال ہو تو اس کا غالب طور پر معنی "قحط اور خشک سالی میں گرفتار کرنا ہو گا۔
پیام:
۱ ۔ لوگوں کی تربیت کے لئے بعض دباؤ سے بھی کام لینا پڑھ جاتا ہے۔(
اخذنا
)
۲ ۔ قحط اور خشک سالی یا تو عذاب الہٰی ہوتا ہے یا پھر بیداری کی گھنٹی اور غفلت دور کرنے کے لئے(
بالسنین و نقص من الثمرات
)
۳ ۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کی تبلیغ ولایت کے واسطے کوئی بھی ذریعہ موثرکاتب نہ ہو کیونکہ انسان کو ہدایت کے لئے مجبور تو نہیں کیا جا سکتا۔(
لعلهم
)
آیت ۱۳۱
(
فَاِذَ جَآئَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْ الَنَا هٰذِه وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٍ یَّطِیْرُوْ ا بِمُوْسٰی وَ مَنْ مَّعَه اِلَّااِ نَّمَا طَیْرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰکِنْ اَکْثَرُهُمْ لَاْیَعْلَمُوْنَ
)
۰
ترجمہ: پس جب کوئی خوبی اور بھلائی انہیں خاص حاصل ہوتی تو وہ کہتے یہ ہمارا حق اور ہماری لیاقت اور شائستگی کی وجہ سے ہے لیکن اگر کوئی برائی ان کے دامنگیر ہوتی تو اس سے وہ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست اور بدفالی سمجھتے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی تمام نحوستوں کا سرچشمہ خدا کے پاس ہے (اور وہی انہیں ان کی بداعملایوں کی سزاد ے گا) لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
چند نکات:
"یطیروا" کا صیغہ "تطیر" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں بدفالی اور نحولت سمجھنا۔ چونکہ عرب لوفگ اکثر کسی پرندے کی پرواز اور اس کی آواز سے بدفالی لیا کرتے تھے۔ پھر ہر قسم کی بدفالی کو "طیرہ" کہا جانے لگا۔ (ازتفیسر نمونہ)
سورہ یس کی انیسویں نحل کی سنتالیسویں اور نسأ کی ۷۸ ویں آیات میں انبیاء حتی سرکار رسالتماب کی ذات سے لوگوں کی بدفالی لینے کا تذکرہ ہے۔
حوادث اور واقعات کے معرض وجود میں لانے کے لئے بدفالی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے ایک نفسیاتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو بدگمانی اور کام کے ٹھپ ہو جانے کا سبب بن جاتی ہے اس بناء پر بدفالی لینے سے منع کیا گیا ہے۔ ا ور روایت میں ہے کہ : "جب کسی موقع پر بری فال لو تو فوراً اس کام کو کر گزرو اور بدفالی کی پروا نہ کرو" لیکن نیک فال چوکہ امید و عشق اور تحرک کا موجب ہوتی ہے لہٰذا اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں بدفال کا رواج قدیم اقوام میں بھی پایا جاتا تھا اور آج کی متمدن قوموں میں بھی پایا جاتا ہے۔ حالانکہ روایات میں ہے کہ "بدفالی" خدا کے ساتھ شریک کرنا ہوتی ہے۔" (از تفیسر نمونہ)
پیام:
۱ ۔ اچھائیوں کی نسبت اپنی طرف اور برائیوں کی نسبت دین اور انبیاء کیطرف یہ انسان مغرور خود متکبر سونے کی علامت ہے۔
۲ ۔ خرافات اور بدفالی کا منبع جہالت ہے۔(
لایعلمون
)
آیت ۱۳۲
(
وَقَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِه مِنْ اٰیَةٍ لِتَسْحََرنَا بِهَا فَمَانَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ
)
۰
ترجمہ: اور (فرعون والوں نے حضرت موسٰی سے) کہا: تم ہمارے پاس جو بھی آیت اور معجزہ لے آؤ جس سے ہم پر جادو کرو ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
ایک نکتہ:
دشمن کوبھی علم تھا کہ موسیٰ کا کام جادو نہیں بلکہ آیت اور معجزہ ہے لیکن اپنے تکبر ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ لیکن فن جادو کے مارہین نے چونکہ اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ موسٰی کا کام جادو نہیں ہے لہٰذا یمان لے آئے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ فرعون والوں نے حضرت موسیٰ کے کام کو آیت کا نام مذاق کے طور پر دیا ہو۔
پیام:
۱ ۔ انسان آزاد ہے معجزات کے مقابلے میں بھی ڈٹ جاتا ہے اور ایمان نہیں لاتا۔(
فمانحن لک بمومنین
)
۲ ۔ دشمنان دین کی طرف انبیاء علیہم پر جادو کی تہمت آسان اور عام تھی۔(
تسحرنا
)
آیت ۱۳۳
(
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَوَالْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍِ مُفَصَّلٰتٍ فَاسْتَکْبَرُوْ اَوْ کَا نُوْ قَوْمٍ مُجْرِمِیْنَ
)
۰
ترجمہ: پس ہم نے ان پر طوفان ، ٹڈی، چھوٹے چھوٹے جانور (متکبر جوئیں، چونٹیاں وغیرہ) مینڈک اور خوں کو بھیجا جو علیحدہ اور آشکار نشانشیاں تھیں، لیکن انہوں نے متکبر سے کام لیا اور بدکاری لوگ تھے۔
چند نکات:
فارسی اور اردو میں "طوفان" کامنی ہے تیز اور تندہو اور آندھی جھکڑا وغیرہ لیکن عربوں میں اسے " تباہ کن سیلاب" کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ اور مفردات راغب میں ہے کہ "ہر عمومی اور وحشت ناک حادثہ کو طوفان کہا جاتا ہے"
’قمل‘ چھوٹے چھوٹے جانوروں مثلاً جوئیں، سنڈیاں، زرعی آفات اور حشرات کے لئے بولا جاتا ہے۔
"خون" بھی فرعون والوں کے لئے عذاب بن کر آیا، یا تو پانی خون ہو جاتا تھا یا پھر ہر شخص کے ناک اور منہ سے خون بہنے لگ جاتا تھا۔
ہر قسم کا مذوکرہ عذاب صرف فرعون والوں کے لئے تھا بنی اسرائیل اس سے محفوظ تھے۔
اس عذاب کی داستان توریت میں بھی موجود ہے۔ (ملاحظہ ہو سفر خروج باب ۱۷ آیت ۲۰ ۔ پانی کا خون میں تبدیل ہو جانا باب ۸ آیت ۷ مچھروں کی یلغار باب ۹ آیت ۲۵ ادبوں کا ہڑنا باب ۱۰ آیت ۴ ٹڈی دل کی یلغار
پیام:
۱ ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جسے بار بار کی تنبیہ اور بندوں کی طرف مسلسل بے غوری اس بات کا موجب بن جاتی ہے کہ بندوں ہر سخت سے سخت عذاب نازل ہو۔(
فارسلنا
)
۲ ۔ جانور بھی حکم الہٰی کے پابند ہیں کبھی تو رحمت کے حکم کی پابندی کرتے ہیں جیسے پیغمبر کی حفاظت کے لئے مکڑی کا غار کے منہ پر جالا بنانا، اور کبھی عذاب کے اجرا کے پابند ہوتے ہیں جیسے ابابیل، مینڈک ٹڈی دل وغیرہ۔
۳ ۔ مصیبتیں عام طور پر تربیتی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ہرسزا کے بعد مہلت ملتی ہے تاکہ انسان سوچ و بچار کرے اور خدا کی طرف پلٹ آئے لیکن ضد اور ہٹ دھرمی کے مظاہرے پر پھر سزا پھر مہلت پھر سزا۔(
مفصلات
)
۴ ۔ اتمام حجت کے بعد ہی خدا کی طرف سے سزائیں ملتی ہیں۔ پہلے انہیں آیات و معجزات دکھائے گئے جب انہوں نے ان کا انکار کیا اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو پھر عذاب کی لپیٹ میں آگئے۔(
فا رسلنا
)
۵ ۔ مایہ رحمت ، ارراہ الہٰی ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو پانی وسیلہ رحمت بن جاتا ہے اور اگر چاہے تو عذاب کا موجب بھی بن جاتا ہے۔(
طوفان
)