تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62994
ڈاؤنلوڈ: 5437

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62994 / ڈاؤنلوڈ: 5437
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۱۳۴ ۔ ۱۳۵

( وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْ ا یٰمُوْسٰی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَ کَ لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَ لَنُرْسَلَنَّ مَعَکَ بَنِیْٓ اِسْرَآ ئِیْلَ ۰ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰی ٓ اَجَلٍ هُمْ بَالِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْکُثُوْنَ ) ۰

ترجمہ: اور جب ان پر کوئی عذاب نازل ہوتا تو (موسٰی کے پاس آ کر) کہتے: اے موسٰی! اپنے اس عہد کی وجہ سے جو خدا نے تمہارے ساتھ کیا ہو اہے (اور تمہاری دعا کو قبول کرتا ہے) ہمارے لئے دعا مانگو کہ اگر اس مصیبت کو ہم سے دور کر دیا تو ہم یقینا تم پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی یقینی طور پر (رہا کر کے) تمہارے ساتھ روانہ کر دیں گے۔

پس جب ہم نے ان سے ایک مقرررہ مدت تک کے لئے کہ جن تک انہیں پہنچنا چاہئے تھا عذاب کو دور کر دیا تو پھر وہ عہد شکنی کے مرتکب ہونے لگ گئے۔

دو نکات:

"نکث" کے معنی میں بتی ہوئی اس کو کھولنا لیکن اس کے بعد عہد شکنی پر اس کا اطلاق ہونے لگ گیا۔

اس آیت میں "اجل" سے ممکن ہے وہ مدت مراد ہو جو ضرت موسٰی انہیں مہلت کے طور پر دیا کرتے تھے کہ مثلاً فلاں دن یا فلاں وقت عذاب ہر طرف ہو جائے گا، تاکہ انہیں اچھی طرح یہ باور ہو جائے کہ یہ خدائی سزا ہے کوئی اتفاقی سانحہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مراد بھی ہو کہ یہ ضدی اور ہٹ دھرمی قوم آخر کار خداوند عالم کے حتمی قہر و غضب کا شکار ہو کر رہے گی لیکن اس حتمی اور یقینی مقرر کردہ مدت کے پہنچنے اور دریا میں غرق ہونے سے پہلے وقتی طور پر اگر برسے عذاب کو عذا ب اٹھا لیا گیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ ضرورت اور مجبوری انسان کے غرور کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ بول شاعر

آنچہ شیران را کندو رویہ مزاج احتیاج الت، احتیاج الت، احتیاج

یعنی چیز شیروں کو روباہ مزاج بنا دیتی ہے، وہ ضرورت ہے، ضرورت ہے اور ضرورت ہے۔( لماوقع علیهم الرجز )

۲ ۔ کفار بھی اولیاء اللہ کے توبل سے نتیجہ حاصل کیا کرتے تھے( یاموسی ادع لنا )

۳ ۔ انسانوں اور مردوں کو غلامی ہائے آزادی دلانا، انبیاء کے منصب میں شامل ہے۔( لنرسلن معک بنی اسرائیل )

۴ ۔ لوگوں کے ایسے وعدوں پر کبھی یقین نہ کرنا جو مجبوری کے وقت دیتے ہیں( فلما کشفنا -- ینکثون )

۵ ۔ عام طور پر انسان اس وقت سرکشی پر اتر آتا ہے جب رفاہ اور آسائش کی حالت میں ہوتا ہے۔( کشفنا - ینکثون ) ۳۸

۶ ۔ خوشگوار واقعات اور ناخوش گوار حوارث کی اس نظٓم کائنات میں ایک مدت مقرر ہے۔( الی اجل )

آیت ۱۳۶

( فَانْتَقَمْنَامِنْهُمْ فَاغْرَقْنٰهُمْ فِیْ الْیَمِّ بِاَ نَّهُمْ کَذَّبُوْ ا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْعَنْهَا غَفِلِیْنَ ) ۰

ترجمہ: پس ہم نے ان سے انتقام لے لیا اور انہیں دریا میں غرق کر دیا، کوینکہ وہ ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے اور ان سے غفلت برتے تھے۔ ۳۹

دونکات:

"انتقام" کے معنی سزا ہیے ناکہ کینہ پروری۔

مصر کی قدیم "سمندر اور دریا کو کہتے تھے چونکہ اس داستان کا تعلق مصر سے ہے لہٰذا اس پر ان نعت کو قرآن میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ (از تفسیر نمونہ۔ منقول نہ معجم الکبیر)

پیام:

۱ ۔ ناخوش گواریوں اور بلاؤں کا اصل خود ہمارے اندر ہے ۔ اور غفلت کی سزا بہت سنگین ہے( غافلون )

۲ ۔ جہاں پر خدا وند عالم "رؤف" (مہربان) ہے وہاں پر وہ ’منقتم" (انتقام لینے والا) بھی ہے

آیت ۱۳۷

( وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْ یُسْتَضْعِفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِیْ بَرَکْنَا فِیْهَا ط وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلَی بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنَ وَقَوْمُه وَمَاکَانُوْایَعْرِشُوْنَ ) ۰

ترجمہ: اور ہم نے ان (بنی اسرائیل) کو جو کہ مستعفف لوگ تھے (فرعون والوں کے غرق ہو جانے کے بعد) ایسی سرزمین کے مشارق اور منارب کا وارث بنایا کہ جس میں ہم نے برکت قرار دی۔ اور بنی اسرائیل کامیابی کے بارے میں تیرے پروردگار کا اچھا وعدہ پورا ہو گیا اس لئے کہ انہوں نے صبر سے کام لیا۔ اور جو کچھ فرعون اور اس کی قوم (والوں) نے بنایا اور پھیلایا ہوا تھا اسے ہم تباہ و برباد کر لیا۔

دونکات:

جس علاقہ کے بنی اسرائیل وارث ہوئے وہ موجودہ شام، اردن، مصر، لبنان، اور فلسطین کا علاقہ تھا، کہ جس کہ سرزمین مادی برکات کی حامل بھی تھی اور معنوی برکات کی بھی کہ اللہ کے عظیم انبیاء کی بعثت اور دفن کی جگہ ہے۔

جو سرزمین فرعون والوں کے اختیار میں تھی وہ اس قدر وسیع تھی کہ اس کے ہر علاقہ میں متعدد افق اور مختلف طلوع و غروب کے مقامات تھے۔

پیام:

۱ ۔ صابر اور صاحبان عزم و حوصلہ متصفف ہی زمین کے وارث ہو سکتے ہیں۔( اورثنا- بماصبروا )

۲ ۔ انبیاء کی حکومت ہی، حکومتِ مستفعفن ہے۔( یستضعفون )

۳ ۔ اللہ اپنے وعدے پر عمل کرتا ہے۔ (جیسا کہ موسٰی کی قوم کے صبر کے نتیجہ میں اسے زمین کا وارث بنایا اسی سورت کی آیات ۱۲۸ ۔ ۱۲۹ کی روشنی میں)۔

۴ ۔ زمین گول ہے اور اس کے کئی مشارق اور کئی مغارب ہیں۔

۵ ۔ زمین کا سرسبز ہونا وار انبیاء کا مقام پیدائش ہونا برکت کے دو عامل ہیں۔( بارکنا )

۶ ۔ جو قوم راہ خدا میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور صبرو حوصلے سے آگے بڑھتی ہے وہ فاتح اور کامیاب ہے( بماصبروا )

۷ ۔ طاغوتی طاقتوں کے دباؤ کے مقالبے میں ڈٹ جانا ہوتا ہے ذلت کے ساتھ ہتھیار ڈالنا نہیں ہوتا۔

۸ ۔ جو معاشرہ الہٰی رنگ اختیار کر چکا ہو وہان طاغوت کے تمام مفہرا ختم کر دینے چاہئیں۔( دمرنا )

۹ ۔ صنعت و حرفت، کاشتکماری اور فن تعمیر کے لحاظ سے قوم فرعون بہت ترقی کر چکی تھی۔( یعرشون )

آیت ۱۳۸

( وَجَوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْْا علَیٰ قَوْمٍ َیعْکِفُوْنَ عَلٰی اَصْنٰامٍ لَّهُمْ قَالُوْا یٰمُوْْسٰی اجْعَلْ لَّنَا اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ )

ترجمہ: اور ہم نے بنی اسرائیل دریا کے پار کر دیا، پس وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کے گرد محبت اور احترام کے ساتھگ عبادت میں لگے ہئوے اور قیام پذیر تھے۔ (یہ کیفیت دیکھتے ہی) انہو ں نے کہا: اے موسیٰ! ہامرے لئے بھی اس طرح خدا بنا دے جس طرح ان کے لئے خدا (الابت) ہیں۔ موسٰی نے کہا: یقینا تم ایسے لوگ ہو جو نادانی سے کام لیتے ہو۔

ایک نکتہ:

جو لوگ ساری زندگی جادو اور جادوگری سے گزار چکے تھے وہ تو ایک معجزہ دیکھتے ہی امر حد تک مومن ہو گئے کہ فرعون کی ہر قسم کی دھمیاں ان کے ہائے ثبات میں لغزثر پیدا نہ کر سکیں، لیکن موسٰع کے یہ موالی ان سے اس قدر معجزات ملاحظہ کرنے کے باوجودیت پرستی کا منظر دیکھ کر ان سے بتوں کا تقاضا کرنے لگے، بت پرستی کا گمراہ کن منظر دیکھنے کے ساتھ ہی وہ گمراہی کی طرف مائل ہو گئے۔ ۴۰

پیام:

۱ ۔ انسان بعض اوقات اہم ترین نعمت کو بھی بھلا دیتا ہے( جاوزنا- اجعل لنا )

۲ ۔ عبادت اور پرستش (خواہ حق کی ہو یا باطل کی) انسانی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلی آ رہی ہے۔

۳ ۔ جب تک انسان کا ایمان و عقیدہ پختہ نہ ہو جائیں اسے اس وقت تک گمراہ کن اور خطرناک علاقوں میں ہجرت نہیں کرنا چاہئے۔( فاتوا علی قوم )

۴ ۔ ماحول مجبور نہیں کرتا لیکن اثر انداز ضرور ہوتا ہے۔( اتواعلی قوم--- )

۵ ۔ افراد ہوں ، اقوام ہر لمحہ انحراف و گمراہی کے خطرات سے دوچار ہیں۔( قالوایاموسیٰ )

۶ ۔ تقلیئد اور فیشن پرستی انسانی خصائل میں شامل ہے( کمالهم الهة )

۷ ۔ خراب قسم کے لوگ اپنے رہبروں سے بھی خرابی ہی کی درخواستے کرتے ہیں۔( اجعل لنا )

۸ ۔ ضرور نہیں ہے کہ ہر مقام پر لوگوں کا ہر ایک تقاضا صحیح بھی ہو۔ اور ہر جگہ پر اکثریت اور اس مطالبے اہم نہیں ہوا کرتے۔( اجعل لنا )

۹ ۔ بعوض اوقات ایک منفرا کے دیکھ لینے سے (خواہ وہ منظر فلم کیصورت میں ہو یا تصویر کی، ڈش انٹینا کی صورت میں ہو مجلس اور محفل کی دہبر کی تمام تربیتی رحمتوں ہریانی پھر جات اہے۔( قالو- قالوا )

۱۰ ۔ بیرونی اور اجنبی دشمن سے بدتر اندرونی احمق حمایتی ہوتے ہیں۔( یموسی اجعل-- )

۱۱ ۔ جہالت ، بت پرستی کی جڑ ہوتی ہے۔( مجهلون )

آیت ۱۳۹

( اِنَّ هٰوُلٰآءِ مُتَّبِِّرٌ مَّّا هُمْ فِیْهِ وَ ٰبطِلٌ مَّّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ )

ترجمہ: (موسٰی نے) کہا: یقینا یہ بت پرست قوم کہکو خبر گمراہی میں یہ رہ رہی ہے ۔ ہلاک ہونے ولای ہے اور جو کچھ یہ لوگ سرانجام دے رہے ہیں سب باطل اور ناکارہ ہے۔

دونکات:

"متبر" کے لفظ کو "تبار" سے لیا گیا ہے جس کے معنی میں "ہلاکت"

یہ آیت شاید حضرت موسٰی کی اس بشارت کو بیان کرائی ہے جو انہوں نے لوگوں کو دی تھی کہ ہمارے اس علاقے میں آنے سے شرک اور گمراہی محو ہو جائے گی۔ (تفسیر مراغی)

پیام:

۱ ۔ فکری گمراہی بھی ختم ہو جانے والی ہے اور عملی گمراہی بھی۔ انجام کا کب کا خاتمہ ہو کر رہے گا( متبر )

آیت ۱۴۰ ۔ ۱۴۱

( قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْکُمْ اِلٰهاً وَ هُوَ فَضَّلَکُمْْ عَلٰی الٰعلَمِیْنَ َو اِذْ اَنْجَیْنٰکُمْ مِنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْْ مُوْنَکُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ یَقَتِّلُوْْنُ اَبْْنَآءَ کُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْط وَ فِی ذٰلِکُمْ بَلٓاءٌ مِّنْْ رِّبِّّکُمْْ عَظِیْمٌ )

ترجمہ: (موسٰی نے) کہا: آیا تمہارے لئے اس خدا کے علاوہ کوئی اور معبود تلاش کروں کہ جس نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے؟

اور (اس وقت کو مت بھلاؤ) جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی، وہ تمہیں مسلسل سخت عذاب بے دو چار کئے ہوئے تھے۔ تمہارے لڑکوں کو قتل کرایا کرتے تھے اور لڑکیوں کو (خدمت گزاری اور کنیزی کے لئے) زندہ چھوڑ دیتے تھے۔ اور اس مشکل حالت میں تمہارے لئے تمہارے پروردگار کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔

ایک نکتہ:

"یسونکم" کا کلمہ "سوم" سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کے پیچھے جانا۔

پیام:

۱ ۔ عبادت ہمیشہ سوچ سمجھ کر اور عقل و شکر کے تحت ہونی چاہئے( اغیر الله الغی وهوفضلکم )

۲ ۔ دوسرے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کرنا، خداوندعالم کے خصوصی لطف و کرم کی وجہ سے تھا لہٰذا شکر بھی خصوصی طور پر بجا لانا چاہئے۔( فضلکم )

۳ ۔ بنی اسرائیل کی بجات میں اگرچہ دل غوت کا دباؤ اور موسٰی کی قیادت اس نجات کا اہم موجب تھی لیکن حقیقی نجات دہندہ تو خداوند عالم ہی تھا۔( انجیناکم )

۴ ۔ طاغوتوں کے ماہر ان کے یارومددگار لوگوں کے بغیر کوئی طاقت نہیں ہوتی( آل فرعون )

۵ ۔ رہبروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہمیشہ خدا کی نعمتیں یاد دلا تے رہیں تاکہ لوگ غفلت کا شکار نہ ہو جائیں۔( واذانجیناکم )

۶ ۔ ہر قسم کے ناگوار اور تلخ حوادث خدا کیط رف سے آزمائش وائلڈ کا ذریعہ ہوتے ہیں۔( بلا من ربکم )

۷ ۔ طاغوت اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بے گناہوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔( یقتلون ابناء کم )

۸ ۔ عورتیں اور نئی نسل طاغوتی طاقتوں کا زیادہ نشانہ ہوتے ہیں۔

آیت ۱۴۲

( وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّّ مِیْقَاتٌ رَبِّه اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً وَ قَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِی قَوْمِیْ وَ اَصْلَحَ وَ لَاََ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْْمُفْسِدِیْنَ )

ترجمہ: اور ہم نے (توریت اور آیات الہٰی کے حصول کے لئے کوہ طور پر) موتے اے تیس راتوں کا وعدہ کیا۔ اور اس وعدے کو اس راتوں کے اضافے کے ساتھ مکمل ہو گیا۔ اور (اس وعدہ گاہ کی طرف جانے سے پہلے) موسٰی نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری امت میں مریے جانشین بن کر رہو اور لوگوں کے کاموں کی اصلاح اور فساد برپا کرنے والوں کے راستے کی پیروری نہ کرو۔

چندنکات:

سورہ بقرہ کی ۵۰ آیت میں حضرت موسٰی سے چالیس راتوں کے وعدے کی بات ہے جب کہ ارشاد ہوتا ہے "وواعدنا موسیٰ اربعین لیلة" لیکن اس آیت میں تیس کے ساتھ دس راتوں کے اضافے کی بات ہے۔ اور امام محمد باقر کے فرماں کے مطابق اس طرح سے بنی اسرائیل کی آزمائش مقصود تھی (تفسیر نورالثقلین صد ۲ صد ۶۱)

اگرچہ یہ مدت چالی سشبانہ روز پر مشتمل تھی لیکن اس کے باوجود لفظ "لیلة" استعمال کیا گیا ہے اور یہ شاید اس لئے ہے کہ غالب طور پر مناجات رات کو کی جاتی ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ اس دور میں کیلنڈر کی بنیاد چاند پر رکھی جاتی تھی۔ اور چاند رات کو ہی آشکار ہوتا ہے اسی لئے دن کا شمار بھی رات ہی میں ہوتا تھا۔( لیلة )

"اربعین" یا "چالیس" کے عدد میں بھی کئی راز پوشیدہ ہیں۔ اور ادیان کی نعت میں اس عدد کو ایک خاص مقام حاصل مثلاً

۱ ۔ حضرت رسول خدا چالیس سال کی عمر میں مبعوث پر سالت ہوئے۔

۲ ۔ آنحضرت چالیس روز تک حضرت خدیجہ ابکری سے جدار ہے تاکہ آسمانی غذا نازل ہو اور حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کی ولادت کا پیش خیمہ قرار پائے۔

۳ ۔ چالیس دن تک حضرت رسول خدا سے وحی منقطع رہی۔

۴ ۔ حضرت موسٰی کی قوم چالیس برس تک سرگرداں رہی۔

۵ ۔ حضرت نوح کے زمانے میں چالیس دن تک بارش برستی رہی۔

۶ ۔ چالیس حدیثیں یاد کرلینے سے اس بت کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ جن سے انسان بروز قیامت فقہاء کے زمرے میں محشور ہو گا۔

۷ ۔ چالیس سال تک روحانی اور معنوی بالدیگی کے اسباب مہیا ہوتے رہتے ہیں اس کے بعد کام مشکل تر اور حساب سخت تر ہو جاتا ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد کو چالیس مرتبہ پانی پر دم کر کے اسے مریض پر چھڑکنے سے مریض کو شفا حاصل ہوتی ہے۔

۹ ۔ شرابی کی نامز چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی۔

۱۰ ۔ اگر کسی مومن کے جنازہ پر چالیس مومن اس کی نیکی کی گواہی دیدیں تو خداوند عالم اسے بخش دیتا ہے۔۔۔ ۴۱

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضرت موسٰی کی چالیس راتوں کا ماجرا توریت سفر خروج میں بھی بیان ہوا ہے۔

اسلامی روایات کی رو سے ان چالیس راتوں میں سے پہلی تیس راتیں ماہ ذیقعدہ کی تھیں اور دوسری دس اضافی راتیں ذلحجہ کی پہلی دس راتیں تھیں۔ (تفسیر نورالثقلین)

پیام:

۱ ۔ کسی مقدمہ، خودسازی اور عبادت کے بغیر کسی پر آسمانی کتاب نازل نہیں ہوتی۔ (شبانہ اور عارفانہ عبادات و مناجات لازم ہیں)

۲ ۔ ذمہ داریاں خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہوں اور خواہ رہبر کی ذات سے ہی کیوں نہ متعلق ہوں انہیں عبادت، اعتکاف اور خدائے رازونیاز سے مانع نہیں ہونا چاہئے۔( وواعدنا موسیٰ )

۳ ۔ رازونیاز اور مناجات کے لئے رات کا وقت نہایت ہی موزون ہوتا ہے۔( لیلة )

۴ ۔ الہٰی قانون اس قدر مقدس ہوتا ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے پرٹوکول کی ضرورت ہوتی ہے۔( وواعدنا )

۵ ۔ حکعمت کی بنیاد پر قانون ، فرمان اور پروگرام میں تبدیلی میں کوئی حرج نہیں ہے یہ ایسے ہے جسے کوئی ڈاکٹر کی کسی مریض کی خصوصی کینیت کے پیش نظر اس کے نسخون میں تبدیلی کرتا رہتا ہے۔( فاتمهنا ها بعثد )

۶ ۔ نئے رہبر کو تجربہ کار پرانے رہبر کے روشادوش تحریک کے ہر ایک نشیب و فراز میں ساتھ رہنا چاہئے۔( لاخیه )

۷ ۔ کسی معاشرے کو رہبر کے بغیر نہیں ہونا چاہئے۔( اخلفنی )

۸ ۔ رہبر کے تقرر کا حق انبیاء کو حاصل ہے( اخلفی )

۹ ۔ ایک ہی دور میں بیک وقت دو رہبر نہیں ہو سکتے، جب تک موسٰی موجود رہے، ہارون نے نبی ہونے کے باوجود رہبری کی باگ دوڑ کو ہاتھ میں نہیں لیا۔ اور قیادت موسٰی موجود رہی اور جب موسٰی نے پردہ غیبت اختیار کیا تو ہارون قیامت میں ان کے جانشین قرار پائے۔

۱۰ ۔ رہبری اور قیامت کے دائر ہ اختیار اور اقتدار میں فرق ہوتا ہے۔( فی قومی )

۱۱ ۔ قائد اور رہبر کا کلی اور عمومی فریضہ امت کی اصلاح ہے۔( اصلح )

۱۲ ۔ اگر عوام الناس خود بخود فساد و خرابی کی طرف جھک جائیں یا اس کے خواہان ہو جائیں تو رہبر کو اپنے فریضہ سے ہاتھ نہیں اٹھا لینا چاہئے۔ اور اسے کسی سے نہیں گھبرانا چاہئے۔( لاتتبع سبیل المفسدین )

۱۳ ۔ باوجودیکہ حضرت ہارون معصوم اور اللہ کے نبی تھے لیکن پھر بھی حضرت موسٰی نے انہیں دو اہم فرائض کی طرف متوجہ کیا ایک تو اصلاح امت اور دوسرے مفسدین کی پیروی نہ کرنا۔

۱۴ ۔ انبیاء امت کیلئے اس قدر ہمدرد، خیر خواہ اور دل سوز ہوتے ہیں کہ چند مختصر دنوں تک کے لئے بھی اسے سرپرست کے بغیر نہیں چھوڑتے۔( اخلفنی )

۱۵ ۔ حضرت موسٰی تو اپنی چند روزہ اور عارضی غیبت کے لئے اپنا جانشین مقرر کر کے جائیں لیکن (عقیدہ اہلسنت کے مطابق) سرور دو عالم، خاتم الانبیاء ابدی اور دائمی عیبت کے لئے اپنا جانشین مقرر نہ فرمائیں؟ ۴۲

۱۶ ۔ رہبر اور قائد میں دونوں طرح کے کاموں کی صلاحیت ہونی چاہئے ایجابی کاموں کی بھی( اصلح ) اور سلبی کاموں کی بھی( لاتتبع )

۱۷ ۔ ہر کام میں دمت کا تقرر اور تعین ضروری ہے۔( اریسن )

۱۸ ۔ خداوند عالم کی اپنے انبیاء کے لئے وعدہ گاہ یاتھ تو کوہ طور ہے یا پھر غار حرا ہے، جبکہ اپنے نیک بندوں کے لئے اس کی ضیافت، دعا و مناجات ہے( واعدنا )

آیت ۱۴۳

( وَ لَمَّا جَاءَ مُوْْسٰی لِمِیْقٰاتِنَا وَ کَلَّمَه رَبَّه قَالَ رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَیْکَط قَالَ لَنْ تَرٰنِیْ وَلٰکِنِ انْظُرْْ اِلٰی الْجَبَلِ فَاِنَّ اسْتَقَرَّ مَکَانَه فَسَوْفَ تَرٰنِیْْ فَلَمََّا تَجَلَّی رَبَّه لِلْجَبَلِ جَعَلَه دَکاًّ وَخَرَّ مُوْسٰی صَعِقَاً فَلَمَّا اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُوْمِنِیْنَ )

ترجمہ: اور جب موسٰی ہمارے وعدہ کے مقام پر پہنچ گئے اور اس کے پروردگار نے اس کے ساتھ گفتگو کی تو موسٰی نے عرض کیا: پروردگارا! تو مجھے اپنے آپ کو دکھلا تاکہ میں تجھے دیکھو! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ پائے گا۔ ہاں البتہ پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو مجھے بھی بہت جلد دیکھ لے گا۔ پس جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی اور جلوہ دکھایا (اور اپنی عظمت کا پر تو پہاڑ پر ڈالا) تو پہاڑ کو (صاف زمین کی مانند) ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی مدہوش ہو کر زمین پر گر پڑے پس جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے: تو پاک و منزہ ہے (کہ دیکھا جائے یا کسی مکان کا محتاج ہو یا تیری ذات محل حوادث ہو) میں تیری طرف واپس آتا ہوں اور سب سے پہلا مومن ہوں۔

چند نکات:

"دک" کے معنی ہیں صاف اور چٹیل میدان پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا حتی کہ چٹیل میدان بن گیا۔

وہ خدائی طاقت آیا عظیم طاقت تھی یا قوت امورج تھی یا کوئی اور تھی طاقت؟ غرض جو کچھ بھی تھا اس نے پہاڑ کو نرم اور جاہے بے جا کر دیا۔

موسٰی کی طرف سے خدا کے دیکھنے کا تقاضا دو مرتبہ ہوا۔ ایک بار تو ذات خداوند عالم کی حقیقت کے دیدار کا مطالبہ تھا جو خود حضرت موسٰی کی طرف سے کیا گیا اور اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ موسٰی میں اس کے دیکھنے کی اہلیت نہیں ہے۔ اور ایک بار بنی اسرائیل کی جاہلانہ خواہش تھی جبکہ وہ بہانے کی تلاش میں تھے اور چاہتے تھے کہ خدا کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھیں اور یہ ماجرا بارہ آیات بعد میں پڑھتیں۔

پیام:

۱ ۔ خداوند تعالیٰ ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا نہ تو دنیا میں اور نہ آخرت میں( لن ترانی ) ۴۳

۲ ۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے آثار کے ذریعہ پہچانا جا سکتا ہے اور اس کے جلوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ (بلکہ یہ بات بھی یاد رہے کہ جلووں کی حقیقت بھی اچھی طرح واضح ہے۔ ان کے آثار کو دیکھا جا سکتا ہے۔( تجلی- جعله دکا )

۳ ۔ انبیاء اپنے مکتب و مذہب کے سرخیل ہوتے ہیں۔( اول الموٴمنین )

آیت ۱۴۴

قَالَ یٰمُوْسٰی اَنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلیَ النَّاسِّ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِکَلاَمِیْ فَخُذْ مَا اٰتَیْتُکَ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ

ترجمہ: خداوند عالم نے فرمایا: اے موسٰی! میں نے تجھے اپنا پیغام پہنچانے اور اپنے ساتھ کلام کمرنے کے لئے تمام لوگوں سے برگزیدہ کیا ہے پس جو کچھ میں نے تجھے (کتاب اور انواح) عطا کی ہیں انہیں پکڑ لے اور شکر گزاروں میں سے ہو جا۔

پیام:

۱ ۔ حضرت موسٰی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں اور ان کے اللہ سے تقاضے ، بے ہوش ہو جانا اور توبہ وغیرہ ان کی برگزیدگی سے مانع نہیں ہیں۔( اصطفتیک ) ۴۴

۲ ۔ خدائی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے ، دینی اور تبلیغی مسولیت بھی خدائی نعمتوں میں سے ایک ہے۔

۳ ۔ طاغوتی حکومت کے خاتمے اور الہٰی معاشرہ کے تشکیل پا جانے کے بعد خدائی احکام و قوانین کے اجرا کی نوبت آتی ہے۔( فخذمااتیتک )

۴ ۔ شکر صرف ایک اخلاقی تقاضا ہی نہیں خدا کا حکم اور واجب فریضہ بھی ہے۔( کن )

آیت ۱۴۵

( وَکَتَبْْنَا لَه فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْعِظَةٍ وَّّ تَفْصِیْلاً لِِکُلِّّ شَیْءٍ فَخُذْ هَا بِقُوَّةٍ وَ اَمَرَ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاِحْسَنِهَاط سَاُوْرِیْکُمْ دَارَالْفٰسِقِیْنَ )

ترجمہ: اور ہم نے الواح (تورات) میں موسیٰ کیلئے ہر چیز کا موعظہ اور تفصیل لکھ دی (اے موسیٰ ) انہیں پوری طاقت سے لے لے اور قوم کو حکم دے کہ ان میں سے بہتر کو اختیار کریں۔۴۵ بہت جلد میں تمہیں فاسق لوگوں کا ٹھکانہ (جہنم) دکھاؤں گا۔

ایک نکتہ:

ممکن ہے کہ قوت سے مراد یہ ہو کہ اگر پوری طاقت کے ساتھ تورات پر عمل کرو گے تو اپنے دشمنوں پر غالب آجاؤ گے اور ہم تمہیں انکے گھر دکھلائیں گے جو تم حاصل کرو گے۔

پیام:

۱ ۔ انسان کو تکبر، ہدایت اور آیات خداوندی پر ایمان لانے سے محروم کر دیتا ہے۔( ساصرف ) یعنی خدا وند عالم کسی کو بھی کسی وجہ کے بغیر گمراہی کے رستوں میں نہیں چھوڑتا اور اپنا لطف و کرم اس سے نہیں اٹھاتا۔ بلکہ یہ انسان کے اپنے کرتوت ہوتے ہیں جو اسے گمراہ کرتے اور ایمان سے محروم کر دیتے ہیں۔( ساصرف- یتکبرون )

۲ ۔ تکبر ایسی خصلت ہے جو دل کو سیاہ اور خداوندعالم کی طرف سے مقرر کردہ ہدایت کے نشانات کو غیر موثر کر دیتا ہے۔ اور خدا کی طرف سے بار بارنازل ہونے والی آیات تھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔( وان یرواکل آیة )

۳ ۔ کمزور اور محتاج شخص کو تکبرزیب ہی نہیں دیتا بلکہ کبر زیبا ہے جناب کبریا کے واسطے( بطیرالحق )

۴ ۔ انسان کو ہدات اور گمراہی کے راستوں میں کسی ایک کو اکتیار کرنے میں آزاد ہے۔( لاتخذ وه سبیلا- یتخذوه سبیلا )

آیت ۱۴۶

( سَأَصْرِفُ عَنْ آیَاتِی الَّذِینَ یَتَکَبَّرُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَإِنْ یَرَوْا کُلَّ آیَةٍ لاَیُؤْمِنُوا بِهَا وَإِنْ یَرَوْا سَبِیلَ الرُّشْدِ لاَیَتَّخِذُوهُ سَبِیلًا وَإِنْ یَرَوْا سَبِیلَ الغَیِّ یَتَّخِذُوهُ سَبِیلًا ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَکَانُوا عَنْهَا غَافِلِینَ )

ترجمہ: جوزمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں میں انہیں بہت جلد اپنی آیات پر ایمان سے پھیر دوں گا (وہ یوں کہ) اگر (ہماری قدرت کی) کوئی ھبی نشانی دیکھیں تو ایمان نہیں لائیں گے اور اگر ہدایت کی راہ کو دیکھ لیں تو اسے اختیار نہیں کریں گے اور اگر گمراہی کی راہ کو دیکھ لیں تو اسے اختیار نہیں کریں گے اور اگر گمراہی کی راہ کو دیکھ لیں تو اسے اختیار کر لیں گے، یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان سے غفلت اختیار کئے ہوئے تھے۔

پیام:

۱ ۔ انسان کو تکبر، ہدایت اور آیات خداوندی پر ایمان لانے سے محروم کر دیتا ہے (سا صرف) یعنی خدا وند عالم کسی کو بھی کسی وجہ کے بغیر گمراہی کے راستوں میں نہیں چھوڑتا اور اپنا لطف و کرم اس سے نہیں اٹھاتا۔ بلکہ یہ انسان کے اپنے کرتوت ہوتے ہیں جو اسے گمراہ کرتے اور ایمان سے محروم کر دیتے ہیں۔ (ساصرف۔ یتکبرون)

۲ ۔ تکبر ایسی خصلت ہے جو دل کو سیاہ اور خداوند عالم کی طرف سے مقرر کردہ ہدایت کے نشانات کو غیر موثر کر دیتا ہے اور خدا کی طرف سے بار بار نازل ہونے والی آیات بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہچا سکتیں۔( و ان یرواکل آیة )

۳ ۔ کمزور اور محتاج شخصکو تکبر زیب ہی نہیں دیتا بلکہ کبرزیبا ہے جناب کبریا کے واسطے (ب( غیرلحق )

۴ ۔ انسان ہدایت اور گمراہی کے راستوں میں کسی ایک کو اختیار کرنے میں آزاد ہے( لا یتخذوه سبیلا- یتخذوه سبیله )

آیت ۱۴۷

( وَالَّذِیْنَ کَذَبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَلِقَآءَ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالَهُمْط هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ )

ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہماری آیات اور قیامت کے دن کی ملاقات کو جھٹلایا ہے، ان کے اعمال نیت نابود ہو گئے۔ تو کیا ان کے کئے کے علاوہ کوئی اور جزا ملے گی؟

دونکات:

"حبط" کا لفظ "حبطت الناقة" سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے: وہ اونٹنی جس نے زہر کھا لیا ہو اور اس کا پیٹ پھو ل کر اس میں سوراخ ہو جائے اور اس کی آنتیں باہر آ چکی ہوں۔

اس طرح بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی ساری زندگی کے اعمال کو زہر کی مانند تباہ و برباد کر دیتے ہیں (تفسیر فی ظلال القرآن)

"حبط" "عدل" کے خلاف نہیں ہے بلکہ قانون کے مطابق اور انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔( هُل یجزون الاماکانوا یعملون )

پیام:

۱ ۔ کفر اور آیات الہٰی کی تکذیب گزشتہ اعمال کے حبط ہونے کا موجب ہیں( کذبوا- حبطت )

۲ ۔ قیامت کے دن کی جزا اورعذاب ، تجسم اعمال ہی تو ہے( هل یجزون الاماکا نوا یعملون )

آیت ۱۴۸

( وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنْم بَعْدِه مِنْ حُلِیِّّهِمْ عَجَلاً جَسَد ًالَّه خُوَارٌط اَلَمْ یَرَوْا اَنَّه لَا یُکَلِّمَهُمْ وَلَا یَهْدِیَهُمْ سَبِیْلاً م اِتَّخِذُوْهُ وَ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ )

ترجمہ: اور موسٰی کی قوم نے موسیٰ (کے کوہ طور پر جانے) کے بعد اپنے زیورات سے بچھڑے کا مجسمہ بنایا جس سے گائے کی آواز آتی تھی۔ آیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ بچھڑا نہ تو ان کے ساتھ باتیں کرتا ہے اور نہ ہی انہیں سیدھے راہ کی ہدایت کرتا ہے؟ انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور ظالم ہو گئے۔

چند نکات:

بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کا تذکرہ قرآن مجید کی چودہ سورتوں میں موجود ہے۔

ان کی گوسالہ پرستی اچانک اور کسی مقدمہ کے بغیر وجود میں نہیں آ گئی تھی، بلکہ اس کے بھی کئی اسباب تھے ایک تو یہ کہ انہوں نے مصر میں کئی سال تک گائے کی شکل کے بتوں کو دیکھا تھا، جب دریائے نیل سے عبور کر کے اس پار پہنچے تو ان کی نگاہیں پہلی مرتبہ ایسی قوم پر جا پڑیں جو گائے کی پوجا کر رہی تھی اس کا بھی انہوں نے فوری اثر لیا۔

اس کے علاوہ تیس راتوں کی مدت کا چالیس راتوں میں تبدیل ہو جانا بھی اس کا باعث ہو گیا کہ مخالفین کو موقعہ مل جائے اور وہ پھر حضرت موسیٰ کے مرنے کے افواہیں پھیلانا شروع کر دیں یہ پھر عوام الناس کی جہالت اور سامری کا ہنرمند ہاتھ اس کیلئے مرنے سوہاگے کا کام دے گیا ان اسباب کا نتیجہ یہ نکلا کہ موسیٰ کی قوم کے دو خدا پرستی کی بجائے "گوسالہ پرستی" اختیار کر لی۔

سورہ طہ کی ۷۸ ویں آیت میں گوسالہ سازی کی نسبت سامری کی طرف دی گئی ہے لیکن سب سے زیادہ تعجب آور بات یہ ہے کہ تورات (باب ۳۲ سفر خروج) میں اس کی حضرت ہارون کی طرف دی گئی ہے۔

اسی سورت کی ۱۰۹ ویں آیت میں گوسالہ پرستی کی طرف جھکاؤ کی نسبت کچھ لوگوں کی طرف دی گئی ہے سب کی طرف نہیں ارشاد ہوتا ہے۔ "( ومن قوم موسیٰ امة ) ۔۔۔"

پیام:

۱ ۔ دشمن اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے اپنے ہنر اور عوام کے رجحانات سے استفادہ کرتا ہے۔ (بچھڑے کا مجسمہ بنایا۔ لوگوں کی سونے سے محبت ہوتی ہے)

۲ ۔ سامری کا بنایا ہوا بچھڑا، مجسمہ تھا۔

۳ ۔ لوگوں کے گمراہی کرنے کے لئے رزق و برق اور شرابے کو بڑی حد تک عمل دخل حاصل ہے۔( علیهم خوار )

۴ ۔ ہر آواز کے پیچھے نہیں جانا چاہئے۔( له خوار )

۵ ۔ انسان کے معبود کو اس کا ہاوی بھی ہونا چاہئے۔( لایهدیهم )

۶ ۔ انحرافات، کجرویوں اور گمراہیوں کے خاتمہ کے لئے قابل لمس دلائل سے کام لینا چاہئے۔ بچھڑے کی خدائی کی نفی یوں ثابت ہو گی کہ وہ مصنوع (بنایا ہوا) ہے صانع (بنانے والا) نہیں ہے۔ زمان و مکان اور حجم و شکل کا محتاج ہے۔ اور سب سے آساب بات یہ کہ یہ تو بات کر سکتا ہے اور نہ ہی راہنمائی کرتا ہے۔ (از تفسیر المیزان)

۷ ۔ جو شخص اپنے ہی ہاتھوں سے بنی ہوئی چیز کا اسیر ہو جائے اور حق کو چھوڑ دے وہ ظالم نہیں تو اور کیا ہے؟( کانوا ظالمین )

آیت ۱۴۹

( وَلَمَّا سَقَطَ فِیْ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنِّهُمْ قَدْ ضَلُّوا لا قَالُوْلَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبَّنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَکُوَْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ )

ترجمہ: اور جب انہوں نے اپنا سقوط اپنے ہاتھوں دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ یقینی طورپر گمراہ ہو چکے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہمیں معاف نہ کیا تو ہم حتما خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔

پیام:

۱ ۔ انسان جب تک اپنے اعمال کا نتیجہ نہ دیکھ لے اپنی خطاؤں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔( لماسقوط- ) ۔)

۲ ۔ انسان اللہ کی رحمت اور مغفرت کے بغیر، زبان اور خسارے میں ہے۔( خاسرین )

آیت ۱۵۰

( وَلَمَّا رَجَعَ مُوْْسٰی اِلٰی قَوْمِه غَضَبَانَ اَسِفاً لا قاَلَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْ ِنیْ مِنْم بَعْدِیْج اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ َربَّکُم وَاَلْقٰی الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهُٓ اِلَیْهِ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْْعَفُوْ نِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَلَاَ تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ )

ترجمہ: اور جب موسٰی (کوہ طور سے) غضبناک اور افسوس کی حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آ گئے اور بچھڑے کی پرستش کو دیکھا تو کہا: تم نے میرے اور میرے بڑے جانشین ثابت ہوئے۔ کیا تم نے اپنے پروردگار کے حکم سے (کہ جس میں اس نے دس راتوں کا اضافہ کر دیا) سبقت لے گئے؟ (اور تم نے اتنا بھی صبر نہ کیا کہ میں کوہ طور سے واپس آ جاتا) اور تورات کیک الواح کو زمین پر پھینک دیا اور اپنے بھائی کے سر (کے بالوں ) کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ (ہارون نے) کہا: اے میرے ماں جائے اس قوم نے مجھے کمزور سمجھ لیا تھا۔ (میری بات تک کو نہیں سنا بلکہ) قریب تھا مجھے قتل کر دیتے۔ پس (میں بے گناہ ہوں اور آپ) ایسا کام نہ کریں جس سے میرے دشمنوں کو خوشی حاصل ہو، اور نہ ہی مجھے ظالموں کے ساتھ بھی قرار نہ دیں۔

پیام:

۱ ۔ افکار و عقائد کی گمراہی کے مقابلے میں دینی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔( غضبان آسفا )

تحریک کی آفات میں سے ارتدار اور رجحت پسندی ہے۔

۲ ۔ ارتداو اور رجحت پسندی پر انقلاب اور اصلاحی تحریک کی آفت ہوتی ہے لہٰذا قائد تحریک کو پہلے سے ہی اس بارے میں سوچ سمجھ لینا چاہئے۔ (افسوس بچھڑے کی پرستش پر کیا گیا تھا)

۳ ۔ اولیاء اللہ کا غم و غصہ لوگوں کے حال پر افسوس کی بنا پر ہوتا، ان کا کوئی ذاتی نظریہ نہیں ہوتا۔( غضبان آسفا )

۴ ۔ اگر کسی وقت خدا کی طرف سے کسی چیز کے بیان کرنے یا امرونہیں میں تاخیر ہو جائے تو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔( اوعجلتم امر ربکم )

۵ ۔ حضرت موسیٰ کی واپسی میں تاخی راور کوہ طور میں ٹھہرنے کی مدت میں تجدید، حکم الہٰی سے عمل میں آئیں اس میں حضرت کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ اس میں تربیت کا پہلو نمایاں تھا۔( امرر بکم )

۶ ۔ جس معاشرے کا خمیر مردہ ہو چکا ہو، افکار منحرف ہو چکے ہوں اور سوچ جامد ہو چکی ہو تو ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے جس سے مردہ خمیر زندہ ہو جائیں منحرف افکار راہ راست پر آ جائیں اور جمود ٹوٹ جائے۔( القی الاانواح واخذ براس اخیه یجره )

۷ ۔ مرد کے لئے لانبے بال رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔( اخذ براس اخیه یجره )

۸ ۔ غصہ ور شخص کے سامنے مہر و محبت سے لبریز گفتگو کرنی چاہئیے۔( قل ابن ام ) باجودیکہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے والدین ایک تھے لیکن ہارون نے موسٰی کو "ماں جائے" کہہ کر خطاب کیا۔

۹ ۔ کل کے متصنف جو فرعون کے عذاب اور شکنجوں سے بچ کر یہاں آ گئے آج اپنے قائدین کو کمزور بنانے کے درپے ہو گئے تھے۔( استضعفونی )

۱۰ ۔ انسانی اخلاق کی پستی ملاحظہ ہو، کہ بچھڑے کی پرستش کی خاطر اپنے ولی نعمت کو قتل کی دھمکیاں دینے لگ گئے تھے۔( وکا دوایقتلوننی )

۱۱ ۔ ڈانٹ ڈپٹ کے موقع پر یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ دشمن کو اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔( لایسئمت )

۱۲ ۔ ضروری نہیں کہ انبیاء کے تمام اصحاب عادل ہوں بعض اوقات کچھ لوگ مرتد بھی ہو سکتے ہیں۔ (بچھڑے کی پرستش تک کر سکتے ہیں۔)

۱۳ ۔ جب معاشرہ اور طرح بگڑ چکا ہو تو بعض اوقات انبیاء کی کوششیں بھی مکمل طور پر بار آور ثابت نہیں ہوتیں۔

آیت ۱۵۱

( قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِاَ خِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ َو اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ )

ترجمہ: (اور جب موسٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو) کیا: پروردگارا! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر دے اور تو سب رحم کرنے والوں میں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

پیام:

۱ ۔ حضرت موسٰی کی مغفرت طلبی یا تو دوسروں کو سبق دینے کے لئے تھی یا حضرت ہارون پر غصہ کرنے کی وجہ سے تھی۔ یا پھر الواح تورایت کو زین پر پھینکنے کی بنا پر ۔

۲ ۔ معاشرے کے طوفانی اور بحرانی امام میں قائدین کو دوسروں سے زیادہ دعا اور خداوند کے لطف و کرم کی ضرورت ہوتی ہے۔( وادخلتافی رحمتک )

۳ ۔ اپنے ہم کاروں اور معاونین کو کے حق میں بھی دعا کرنی چاہئے۔( لی ولاخی )

۴ ۔ بخشش ، خداوند عالم کی رحمت میں داخل ہونے کا مقدمہ ہویت ہے۔( اغفر، ادحلنا )

۵ ۔ دعا کے وقت خداوند عالم کے بہترین لطف و کرم اور اعلیٰ صفات کو ذکر کرنا چاہئے۔( ارحم الراحمین )

آیت ۱۵۲

( اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْْا الْعِجْلَ سَیَنَا لُهُمْ غَضَبَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْْیَاط وَ کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُفْتَرِیْْنَ )

ترجمہ: بے شک لوگوں نے بچھڑے کو (خدا) بنایا اور ان کے پروردگار کی طر سے غضب انہیں بہت جلد آلے گا اور دنیوی زندگی میں ذلت بھی اور ہم افرا پردازوں کو اسطرح کی سزا دیتے ہیں۔

ایک نکتہ:

اسی سورت کی آیت ۱۴۹ سے پہلے کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے کئے پر پشیمان ہوئے اور الزاہات سے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ توبہ کی قبولیت صرف اس صورت میں ہوتی ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی تحریت ۵۴ بنائی ہے کہ یہ اپنے آپ پر ظلم ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کے حضور توبہ کریں اور ایک دوسرے کو قتل کریں۔( ’انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل فتوبواالی بارئکم فاقتلو انفسکم ) "

جی ہاں! خدا کو چھوڑے دینے اور بچھڑے کے پیچھے لگ جانے کی توبہ صرف زبان کے ساتھ "استغفر اللہ" کہنا ہی کافی نہیں بلکہ جس طرح سورہ بقرہ میں بتایا گیا ہے اس کی سزا ور توبہ یہ ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے ایک دوسرے کو انقلابی قتل کریں تاکہ مشرک کے ساتھ نبردآزمائی کا یہ نظریہ رہتی دنیا تک اور آئندہ اور نسلوں میں باقی رہے۔

پیام:

۱ ۔ مرتد لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے۔( غضب من ربهم )

۲ ۔ خدا کا غضب صرف بنی اسرائیل کے ساتھ خاص نہیں دوسرے اقوام پر بھی نازل ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔(( کذلک )

۳ ۔ اولیأ خدا کا غضب، خدا ہی کا غضب ہوتا ہے( غضبان آسفا- غضب من ربهم )

۴ ۔ جو لوگ ایمان لانے کی بجائے رزق و برق اور شور شرابے کے حامل بچھڑے کی پرستش میں لگ جاتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی رسوا ہوا کرتے ہیں۔( ذلة فی الحیٰوة الدنیا )

آیت ۱۵۳

( وَالَّذِیْنَ عَمِلُوْا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ هَا وَ اٰمَنُوْا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِ هَا لَغَفُوْرُ رَّحِیْمٌ )

ترجمہ: جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب اور اس کے بعد (پشیمان ہوئے اور) توبہ کر لی اور ایمان لائے تو یقینا اس کے بعد تمہارا پروردگار بھی بخشنے والا مہربان ہے۔

پیام:

۱ ۔ راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے اور توبہ ہر وقت کی جا سکتی ہے۔

۲ ۔ برخلاف ورزی کی توبہ، اسکی کام کی تلافی ہے، بچھڑے کی پوجا کی توبہ یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں لوٹ آنے کے بعد خدا پر ایمان لایا جائے اور اسکی عبادت کی جائے۔( امنوا ) اور وہ بھی اسی طرح جس طرح اس سے پہلی آیت میں اور سورہ بقرہ کی ۵۴ ویں آیت میں بتایا گیا ہے۔

۳ ۔ حقیقی معنوں میں توبہ کرنے والوں کے لئے خدا کی طرف سے بخشش کے علاوہ اس کی رحمت بھی ان کے شامل حال ہوتی ہے۔( غفور رحیم )

آیت ۱۵۴

( وَ لَمَّا سَکَتَ عَنْ مُّوْسٰی الْغَضَبُ اَخَذَالْاَلْوَاحَ وَ فِیْْ نُسْخَتِهَا هُدیً وَّ رَحْمَةٌ لِلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْْهَبُوْنَ )

ترجمہ: اور جب حضرت موسٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے (زمین سے) الواج (تختیوں) کو اٹھایا اور اس میں لکھا ہو اتھا ان لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔

چند نکات:

"رھب" اور "ترھیب" ایسا خوف ہوتا ہے جس میں اجتناب اور بچاؤ کا پہاڑیاں ہوتا ہے۔

یہ نہیں کیا کہ: موسٰی نے غصے سے دستبرداری اختیار کی" بلکہ فرمایا ہے کہ "غصے نے موسیٰ سے ہاتھ اٹھا لیا" یہ حضرت موسٰی کے غصے پر مکمل کنٹرول کی طرف اشارہ ہے۔

"( اخذا لالواح ) " کے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ تختیوں کے زمین پر گرنے سے نہ تو وہ ٹوٹیں اور نہ ہی کم و بیش ہوئیں۔

پیام:

۱ ۔ آسمانی قوانین رحمت خداوندی ہوتے ہیں اور ہدایت کو اسی رحمت و مہربانی کے ساتھ ہونا چاہئے۔ (( هدی و رحمة )

۲ ۔ صرف قرآن ہی متقین کے لئے ہدایت نہیں "ھدًی للمتقین " توریت بھی صاحبان تقویٰ کے لئے مایہ ہدایت ہے۔( هدی --- یرهبون )

۳ ۔ خدا کا خوف، انسان کے لئے رحمت خداوند کے دروازے کھول دیتا ہے۔( رحمة للذین -- )

آیت ۱۵۵

( وَ اخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَه سَبْعِیْنَ رَجُلَا لِّمِیْقَاتِنَا فَلَمَّا اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَکْتَهُمْ مِنْ قَبْلِ وَ اِیَّایَط اَتُهْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُکَط تُضِّلُ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآئُط اَنْتَ وَ لِّیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغَافِرِیْنَ )

ترجمہ: اور موسٰی نے ہماری وعدہ گاہ (کی طرف جانے) کے لئے اپنی قوم سے ستر مردوں کا چنا پس جونہنم زلزلے نے انہیں اپنی لپیٹ میں لیا تو موسیٰ نے کہا: پروردگارا! اگر تو چاہتا تو ان لوگوں کو بھی اور مجھے بھی اس (کوہ طور تک پہنچنے) سے پہلے ہلاک کر دیتا، کیا تو ہمیں اس کے بدلے ہلاک کرتا ہے جو ہم نے بے وقوف اور ناسمجھ لوگوں نے سرانجام دیا ہے؟ یہ توتری آزمائش کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اس آزمائش کے ذریعہ جسے تو (مناسب سمجھے اور) چاہے گمراہ کر دے اور جسے تو چاہے (اور لائق سمجھے) ہدایت کرے تو ہمارا ولی اور سرپست ہے۔ کہیں تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحمت فرما کیونکہ تو بہترین بخشنے والا ہیے۔

چند نکات:

آیا حضرت موسٰی کا ایک متصات (مقام وعدہ) تھا یا کئی؟ اور کیا ان لوگوں کی میقات میں ہلاکت ان کے خدا کے دیدار کے تقاضے کی وجہ سے عمل میں آئی یا گوسالہ پرستی کی وجہ سے؟ اس بارے میں کافی تفصیلی گفتگو ہے لیکن اس کا آیت کے سمجھنے سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ہم اس سے چشم پوشی کرتے ہیں۔

حضرت موسٰی کے اصحاب نے اس قدر معجزات دیکھنے کے باوجود بھی خدا کے دیدار یا اس کی آواز سننے کا شدید اصرار کیا اور ان کی تعداد کستر تھی اور ان ستر لوگوں کو حضرت موسٰی نے سات سو افراد کے درمیان میں سے منتخب کیا تھا۔ اور یہ لوگ کوہ طور پر گئے اور خدائی قہر و غضب میں مبتلا ہو گئے۔ لہٰذا جو معجزات دیکھ چکا ہو اسے مزید بہانے بہل بنانے چاہیں۔

"چالیس کے عدد" کی مانند "ستر کے عدد" میں بھی راز در پوشیدہ ہے۔

پیام:

۱ ۔ مقام اور اہم مسائل کے لئے جانے کے واسطے برجستہ افراد کا انتخاب ہونا چاہئے۔ تاکہ یہ کس و ناکس او ر ہر سطح کا انسان( واختصار موسٰی )

۔ انبیاء کرام علیہ السلام اپنے تحریک کے لئے ظاہر پر عمل کہتے ہیں تاکہ علم غیب پر۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات انبیاء کے منتخب کردہ افراد نالائق بھی ثابت ہوتے ہیں۔

۳ ۔ تمام حوادث اور بلاؤں میں خدائی آزمائش ہوتی ہے۔ اور ہر آزمائش میں لوگ درجنوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔

۔ جب حضرت موسٰی جیسے پیغمبر کے منتخب افراد نالائق ثابت ہو سکتے ہیں تو عام لوگ اپنے لئے امام کیونکر منتخب کر سکتے ہیں؟

۔ بعض اوقات قہر خداوند کی ااغ اس قدر شعلہ ور ہو جاتی ہے کہ خشک و تر لباس میں مل جاتے ہیں۔

۔ خدا کی آزمائش اور امتحان میں صفیں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتی ہیں۔( تضل -- تهدی )

۔ بہانے بنانا احمق اور بے وقوف لوگوں کا کام ہوتا ہے۔( السفهاء )

۔ دعا مانگنے سے پہلے خدا کی تعریف کرنی چاہئے۔( انت ولینا فاغفرلنا )

۹ ۔ جب تک روح کا صفحہ گناہ کی آلودگیوں سے پاک نہیں ہو گا تب تک خدا کی رحمت کو اپنے اند رجذب نہیں کر پائے گا۔( اغفرلنا- ارحمنا )

۱۰ ۔ خدا کی بخشش اور بندوں کی بخشش میں فرق ہوتا ہے کیونکہ بندوں کی بخشش یا تو دیر سے ہوتی ہے یا منت و احسان جتانے کے ساتھ یا پھر حقارت کا پہلو اپنے ساتھ لئے ہوتی ہے۔ جب کہ بخشش خداوندی ایسی نہیں ۔( خٰیر الغفرین )

۱۱ ۔ لوگوں کے طعنے سہنے اور ان کا دباؤ برداشت کرنے سے زیادہ آسان ہے۔( من قبل وایای )