آیت ۱۵۶
(
وَاکْتُبْ لَنَا فِی هٰذِه الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هَدٰنَا اِلَیْکَط قَالَ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِِه مَنْ اَشَآءُ وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَ کْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُوْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُوْمِنُوْنَ
)
ترجمہ: اور (خدا وندا!) تو ہمارے لئے اس دنیا میں اور آخرت میں خیر اور نیکی مقرر فرما اس لئے کرم تیری طرف لوٹ آئے ہیں اور توبہ کر لی ہے۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: میں اپنا عذاب جسے چاہوں (اور وہ مستحق بھی ہو) پہنچاؤں گا، اور ہر رحمت ہر چیز پر چھائی ہے۔ اور میں بہت جلد اپنی اس رحمت کو ان لوگوں کے لئے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ، زکٰوة ادا کرتے اور ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔
چند نکات:
حضرت موسٰی کی سابقہ دعاؤں کے ساتھ اس درخواست کا بھی تعلق ہے۔
"حدنا" کے لفظ کے ساتھ ان لوگوں کی توبہ کی طرف اشارہ ہے جو منحرف ہو گئے تھے اور خدا کے دیدار کا ناجائز مطالبہ کیا تھا۔
پیام:
۱ ۔ بہترین قدم اور بہترین کام، پائیدار اور دائمی ہو(
واکتب
)
۲ ۔ بہترین دعا وہ ہے جو سب سے زیادہ جامع ہو(
دنیا و آخرت
)
۳ ۔ خالص دل کے ساتھ خدا کی طرف بازگشت خدائی الطاف و کرم کے حصول کی راہ ہے۔(
هدنا
)
۴ ۔ خدا کی رحمت بے حدو حساب ہے، اگر کوئی اس تک نہیں پہنچ پاتا تو اس کی اپنی کوتاہی ہے۔(
رحمتی وسعت
)
۵ ۔ رحمت خداوندی لب خیز پر حاوی ہے لیکن عذاب الہٰی ایسا نہیں ہے(
عذاب بي اصب به
)
۔۔)
۶ ۔ خدا کای رحمت کی بے انتہا اور لامحدود ہے لیکن اس سے ناگدہ اٹھانے کی شرط یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کہا جائے، زکوٰة اداؤں جائے اور ایمان رکھا جائے(
یتقون - الزکٰوه- یومنون
)
۷ ۔ خداوند عالم کی رحمت اس دنیا میں سب کے شامل حال ہے (وسعت) لیکن آخرات میں اس سے صرف ایک خاص گروہ ہی فائدہ اٹھائے گا(
ساکتبها للذین
)
۔۔)
آیت ۱۵۷
(
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیِّ الْاُ مِّیِّ الِّذِیْ یَجِدُوْنَه مَکْتُوْباً عِنْدَ هُمْ فِیْ التَّوْرٰةِ وَ الْاِنْجِیْلَ یَاْ مُرُهُمْْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یَحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْْْهِمُ الْخَبٰئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَ هُمْ وَالْاَ غْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِه وَ عَزَّرُوْه وَ نْصُرُوْهُ وَ اتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ اَنْزَلَ مَعَه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
)
ترجمہ: جو لوگ اس رسول اور پیغمبر کی اتباع کرتے ہیں جس نے دنیا میں کسی سے کوئی سبق نہیں پڑھا ۔ کہ جس (کے نام و نشان) کو وہ لوگ اپنے پاس موجود تو رات دا نبھل میں لکھا ہوا ہیں (ایسا پیغمبر ہے) جو انہیں نیک کاموں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے، اور جو پاک و پاکیزہ چیزیں ہیں ان کے لئے حلال کرتا ہے اور جو بلند اور خبیث چیزیں ہیں ان پر حرام کرتا ہے، اور ان سے بوجھ ہلکا کرتا ہے اور ان پر پڑے ہوئے پھندے ان سے ہٹا دیتا ہے۔ پس جو لوگ ایمان لے آئیں گے اور اس کا احترام کریں گے اور اس (قرآن اور) نور کی اتباع کریں گے جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
چند نکات:
"اُمّی" ایسا کلمہ ہے جو "اُم" کی طرف منسوب ہے، اور اُمیّ اس شخص کو کہتے ہیں جس نے کسی سے کوئی سبق نہ پڑھا ہو، اور بالکل ایسے ہو جیسے شکم مادر سے متولد ہوا ہو۔
بعض حضرات کہتے ہیں "امی" اس شخص کو کہتے ہیں جو "امت" یعنی عوام الناس سے تعلق رکھتا ہو طبقہ اشرافیہ سے اس کا تعلق نہ ہو۔
جبکہ کچھ اور لوگ اسے "ام القری" یعنی مکہ کی طرف منسوب سمجھتے ہیں یعنی "مکہ والا"
"ہم اگرچہ بعض وجوہات کی بناء پر توریت اور انجیل کو تحریف شدہ سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں تحریف شدہ کتابوں میں حضرت پیغمبر کی ذات سے متعقل کئی ارشادات اور بشارتیں موجود ہیں۔ اور یہ اس بات کا سبب تھے کہ اہل کتاب آنحضرت کی معرفت حاسل کریں اور آپ کو ایسے پہچانیں جیسے باپ اور اپنی اولاد کو پہچناتا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:
توریت بمفر تکوین (پیدائش) فصل ۱۷ نمبر ۱۸ ، سفر پیدائش (تکفدین) باب ۴۹ نمبر ۱۰ ،
انجیل: یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۵ آیت ۲۶ ۔
بوقت بعثت مکہ مکرمہ میں کل ۱۷ مرد اور ایک عورت تعلیم یافتہ تھے۔ اور اگر آنحضرت نے کسی شخص سے ایک حرف بھی پڑھا ہوتا تو کبھی بھی اپنے ااپ کو "امی" (کسی سے سبق نہ پڑھا ہوا) کے عنوان سے متعارف نہ کراتے۔
(ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ منقول از فتوح البلان بلاذری نمبر ۴۰۹)
"اغلال" باطل عقائد، خرافات، بت پرستی، باپ دادا کی اندھی تقلید کے بندھنوں اور زنجیروں کو کہتے ہیں۔
پیام:
۱ ۔ اسلام کا جلیل القدر اور عظیم رسول "امّی" یعنی کسی سے سبق پڑھا ہوا نہیں تھا(
الامی
)
۴۷
۲ ۔ بات کو پکا کرنے اورحق کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسمی اور تحریر سند ہو(
مکتوبا
)
۳ ۔ اپنے بعد آنے والے رہبر اور قائد کے بارے میں خبر دینا اور اس کی تفصیل بیان کرنا قیادت اور رہبری کے فرائض میں شامل ہے۔(
مکتوباعندهم فی التوراة
)
۴ ۔ بہتر یہی ہے کہ ہر آنے والا مبلغ اپنے بعد آنے ولاے مبلغ کے لئے راہ ہموار کرے
( فی التوراة والانجیل)
۵ ۔ اگر تورات اور انجیل میں پیغمبر اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا تو مخالفین کے لئے بڑ ا آسان سی بات تھی کہ وہ دونوں کتابیں لے آتے اور کہتے کہاں ہے وہ سب کچھ جس کا تم دعویٰ کرتے ہو؟ اور مخالف کو شکست دینے کا یہ بہترین ذریعہ تھا، نہ لشک رکشی کی ضرورت تھی اور نہ ہی اس قدر سرمایہ خرچ کرنے کی، جس سے معلوم ہوتا ہے ان کتابوں میں وہ سب کچھ تھا جس کا قرآن کہتا ہے۔(
یجدونه
)
۶ ۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء عظام علیہم السلام کے تبلیغی پروگراموں میں سرفہرست ہے۔(
یامرهم بالمعروف
)
۷ ۔ غذا کے بارے میں اسلام کی خاص توجہ رہی ہے۔(
یحرم- یحل
)
۸ ۔ خدا کی حلال اور حرام کردہ چیزیں فطرت کی بنیاد پر ہیں۔(
طیبات - خبائث
)
۹ ۔ غلط عادات و یوم عوام الناس کے گلے کا زنجیر ہوتی ہیں اور انبیاء و اولیاء اللہ کے علاوہ باقی سب دنیا ان زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔(
اصرهم
)
۱۰ ۔ تبلیغ اور تربیت کا اصل انداز یہی ہے کہ پہلے سہولیات فراہم کی جائین پھر قدغن کا سوچا جائے۔ (یحرم سے پہلے "یجل" ہے)
۱۱ ۔ صرف پیغمبر کی ذات پر ایمان ہی کافی نہیں ان کی حمایت اور عزتے و توقیر بھی لازم ہے۔(
عزروه- نصروه
)
۱۲ ۔ عزت و احترام اور توقیر ، نصرت، تعاون اور امداد کے ساتھ ہونا چاہئے، ورنہ نفاق ہو گا۔(
عزروه، نصروه
)
۱۳ ۔ قرآن ایک ایسا نور ہے جو دل و دماغ کا منور کر دیتا ہے۔(
النور
)
۱۴ ۔ پیغمبر السلام کا احترام اور ان کی نصرت، ان پر ایمان کی مانند کسی خاص زبان یا مکان کے ساتھ متعلق نہیں ہے ہر زمانے اور ہر مکان میں ان کا احترام اور ان کی نصرت فرض ہے، لہٰذا آنحضرت کی قبر مطہر اور آچار باقیہ کا احترام بھی آپ کی نصرت و تکریم کے زمرے میں آتا ہے۔(
عزروه
)
آیت ۱۵۸
(
قُلْ یٰاَ یُّهَا النَّاسُ اِنِّی رَسُوْلَ اللّٰهِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً نِ الَّذِیْ لَه مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیِ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلَهِ النَّبِیِّ اْْلاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ کَلِمٰتِه وَ اتَّبِعُوْْهُ لَعَلَّکُمْْ تَهْتَدُوْنَ
)
ترجمہ: (اے پیغمبر!) کہہ دیجئے اے لوگو! میں تم سب لوگوں کی طرف خدا کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین پر جس کی حکومت ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ پس تم بھی خدا اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ جو کسی سے سبق نہ پڑھا ہوا پیغمبر ہے جو (خود بھی) خدا اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے۔ اور اسی کی اتباع کرو شاید کہ تم ہدایت پا جاؤ۔
چند نکات:
بعض متشرقین (یا اسلام شناس) حضرات یہ کہتے ہیں کہ: پیغمبر اسلام اپنے "علاقہ" کے لوگوں کی ہدایت کی فکر میں تھے، لیکن جب انہیں کامیابی حاصل ہو گئی تو پھر "عالمین" کی ہادیت کی فکر لے کر آگے بڑھے"
حالانکہ بات وہ نہیں ہے جو یہ لوگ کہتے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات میں ’جمیعا" "کافةٰ" "للعالمین" "ومن بَلغ" وغیرہ جیسے کلمات حضرت رسول خدا کی آفاقی اور عالمی رسالت کو بیان کر رہے ہیں، اور مکہ میں بھی اور کامیابی حاصل کرنے سے پہلے بھی آپ تمام کائنات کے رسول تھے نہ یہ کہ بعد میں اس بارے میں سوچا۔
حضرت امام حسن مجتبیٰ فرماتے ہیں کہ یہودیوں کا ایک گروہ پیغمبر خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: "آپ سمجھتے ہیں کہ حضرت موسٰی کی طرح اللہ کے رسول ہیں؟ "یہ سن کر آنحضرت نے قدرے سکوت اختیار فرمایا اور کہا: "جی ہاں! میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور اس پر میرے لئے فخر کی کوئی بات نہیں! میں ہوں خاتم الانبیاء پرہیزگاروں کا پیشوا اور رب العالمین کا رسول!"
انہوں نے پھر سوال کیا: "آپ کن لوگوں کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں، عرب کی طرف ، عجم کی طرف یا ہماری طرف؟ "جس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی میں سب کی طرف بھیجا گیا ہو خواہ عرب ہوں یا عجم یا تم لوگ! (تفیسر صافی)
لفظ "امی" کا تکرار مسئلہ کی اہمیت پر دلالت کر رہا ہے۔
پیام:
۱ ۔ حضرت محمد مصطفی کی رسالت آفاقی اور عالمی ہے۔(
الیکم جمیعا
)
۴۷ اس لئے عالمی مذہب کے لئے عالمی قائد اور رہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ آپ جناب کی عالمی رسالت بھی دوسرے تمام منصوبوں کی مانند مرحلہ وار آگے بڑھتی رہی ابتدا میں ذوالعشیرہ کی دعوت ، پھر ام القریٰ (مکہ) کے لوگ اس کے بعد دوسری دنیا۔
۲ ۔ نبوت ، توحید اور معاد کا لازمی حصہ ہے، کیونکہ خداوند وحدہ لاشریک تمام کائنات کا مالک ہے، موت اور زندگی بھی اسی کے ہاتھوں میں ہے لہٰذا عالم انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت بھی اسی کی طرف سے ہونی چاہئے۔(
فامنوا بالله و رسوله النبی الامن الذی
)
۳ ۔ رہبر اور قائد کو اپنی راہ پر ایمان کامل رکھنا ہوتا ہے۔(
یوٴمن بالله وکلماته
)
۴ ۔ خدا اور رسول پر ایمان اور رسول خدا کی اتباع ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اور پہلو پہلو ہونا بھی ہدایت اور رہنمائی کی دلیل ہے۔(
آمنوا بالله ورسوله -- واتبعوه لعلکم
)
۵ ۔ قرآن مجید اور حضرت رسول خدا کی سنت و سیرت کی اتباع ضرور ہے۔ (سابقہ آیت میں نور کی اتباع کا تذکرہ تھا اور اس آیت میں پیغمبر خدا کی پیروری کا ذکر ہے)
سورہ اعراف آیت ۱۵۹
(
ومِنْ قَوْمِ مُوْسٰی اُمَّة ٌیَّهْدُوْنَ بِالْْحَقِّ وَ بِه یَعْدِلُوْنَ
)
ترجمہ: اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ کے لوگ حق کی طرف ہدایت کرتے اور حق و عدالت کا فیصلہ کرتے ہیں۔
چند نکات:
حق کی ہدایت ، عدم تعصب کی دلیل اور حق شناسی اور حق کی اتباع کی دلیل ہے اور اس حق پرست گروہ کا ضدی مزاج اور ہت دھرم یہودیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس گروہ سے مراد شاید وہ یہودی مراد ہوں جنہوں نے پیغمبر اسلام کی دعوت پر لبیک کہا:۔
پیام:
۱ ۔ اقلیتوں کے ساتھ تعلق کے سلسلے میں انصاف سے کام نہیں چاہئے۔ اور خدمات اور کمالات کو نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے۔
آیت ۱۶۰
(
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطاً اُمَماًط وَ اَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اِذِاسْتَسْقٰهُ قَوْمُهٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْناًط قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُْمْط وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْناَ عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰیط کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْط وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْْ کَانُوْا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
)
ترجمہ:
اور ہم نے موسیٰ کی قوم کو بارہ حصوں میں تقسیم کر دیا تاکہ ان میں سے ہر ایک (بنی اسرائیل کے خاندان سے اور) ایک امت جب موسیٰ سے اس کی قوم نے پانی طلب کیا (تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی) اپنے عصا کو پتھر پر مارو۔ پس اس پتھر سے پارہ چشمے پھوٹ اٹھے (اور ہر طرف بہنے لگے اور وہ بھی اسطرح کہ) ہر گروہ نے اپنے حصے کے پانی کو اچھی طرح کی غزاؤں من اور سلویٰ کو نازل کیا۔ (اور انہیں کہا) پاک و پاکیزہ روزی جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اس سے کھاؤ۔ ان لوگوں نے (اپنی نافرمانی کی وجہ سے) ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔
چند نکات:
"اسباط" جمع ہے "سبط" کی اور سبط اولاد ، نورسوں اور ایک خاندان کے افراد کو کہا جاتا ہے اور بنی اسرائیل کی اس پر ایک خاندان ی شاخ کو "سبط" کہا جاتا ہے جو اولاد یعقوب میں سے ایک فرزند کی طرف سے پروان چڑھی۔ اور آگے بڑھی۔
"من" شہد کی مانند ایک شیرہ دار غذا کو اور "سلویٰ" بٹیرے کی مانند ایک حلال پرندے کو کہا جاتا ہے۔
"بارہٰ" کا عدد سال کے مہیوں کا، بنی اسرائیل کے نقیبوں کا، پانی کے چشموں کا اور پیغمبر اسلام کے مقدس اور معصوم جانشینوں کا عدد ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے اپنے جانشینوں کی تعداد بنی اسرائیل کے نشینوں کی تعداد کے مطابق بارہ بتائی ہے اور یہ بھی کہ وہ اب قریش سے ہوں گے۔ لیکن دشمنان اہلبیت اصبار نے بڑی کوشش کی ہے کہ یہ تعداد بنی امیہ یا بنی عباس کے خلیفوں سے پوری کجی جائے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ حضرت پیغمبر کی مذکور حیثیت کو بیٹیوں اسناد کے شیعہ اور سنی مورثین نے نقل کیا ہے۔
ایک ہی وقت میں کئی معجزے رونما ہوئے۔ پتھر پہ عصاکا مارنا ، پانی کا بری مقدار میں پھوٹ کر بہہ نکلنا اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی تعداد بارہ چشموں کا پھوٹنا وغیرہ۔
پیام:
۱ ۔ کسی اہم معاملے کو چلانے اور امور میں سہولت پیدا کرنے کے لئے منصوبہ بندی اور منصفانہ تقسیم بہت ضروری ہوتی ہے۔(
قطعنا هم
)
۲ ۔ لوگ اپنی مادی اور اقتصادی ضروریات بھی انبیاء کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے(
استقاه
)
۳ ۔ وسیلہ کی زیادہ اہمیت ،اہمیت ارادہ الہٰی کو حاصل ہے، کہ بعض اوقات لکڑی کا ایک ڈنڈا پر جگہ الہٰی ارادے کے تحت مشکل کشائی کا کام کرتا ہے(
بعصاک
)
۴ ۔ اگر ہر گروہ کو معلوم ہو جائے کہ اس نے کہاں مراحہ کرنا ہے تو بہت سی اجتماعی اور معاشرتی مشکلات حل ہو جائیں(
قدعلم کل اناس مشربهم
)
۴۸
۵ ۔ اگر مقصد تربیت کجرنا ہو تو ایک موضوع کے تکرار میں کوئی حرج نہیں ہے (یہی تذکرہ سورہ بقرہ کی آیت ۵۶ کے بعد میں بھی موجود ہے۔)
۶ ۔ حضرت موسٰی کے عصا کی ایک خیریت سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ، لیکن ان تمام معجزات کے باوجود نااہل لوگوں کے دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔
۷ ۔ لوگوں کے اندر آگاہی اور علم و معرفت پیدا کرو کہ وہ خود ہی عمل کریں۔(
قدعلم کل اناس مشربهم
)
فرمایا ہے۔ "قد شرب" نہیں فرمایا۔
۸ ۔ طلب کے بعد اس کی قدوقیمت زیادہ ہوتی ہے۔ ۰(
استیقاه، اضرب بعصاک
)
۹ ۔ تمام بارہ گروہوں کا تعلق ایک خاندا سے تھا۔(
قطعنا
)
فرامایا ہے "جعلنا" انہیں فرمایا۔
۱۰ ۔ اگر مقصد میں وحدت اور اتفاق و اعاد موجود رہے تو گروہ گروہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(
قطعنا
)
۱۱ ۔ انسانی جسم کو تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، پانی، ایسی غذا جس سے جسم پروان چڑھے اور ایسی غزا جس سے انرجی اور طاقت پیدا ہو، چنانچہ بنی اسرائیل کے لئے چشمہ اب سیراب ہونے کے لئے تھا "من" طاقت اور انرجی کے لئے اور "سلویٰ" جسمانی نشوونما کے واسطے اس لئے کہ گوشت اور وہ بھی خصوصی طور پر پرندوں کے سفید گوشت میں پروٹین ہوتے ہیں۔)
۱۲ ۔ بادلوں کی حرکت و پیدائش، ان کا اپنا کام انجام دینا سب ارادہ الہٰی کا مظہر تھے۔
۱۳ ۔ ناشکری یا کفران نعمت ، نعمتوں کے منقطع ہو جانے کا سبب ہوتاہے جس کا نقصان ناشکروں کو پہنچتا ہے۔
۱۴ ۔ جو لوگ یہی ہدایت اور معنویت کے راہوں کے لئے مادی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں وہ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اور اقوام و ملل کی پستی اور ان کا سقوط ایسے لوگوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے(
کانو انفسهم یظلمون
)
آیت ۱۶۱
(
و اِذْ قِیْلَ لَهُمْ اسْْکُنُوْْْا هٰذِه الْقَرْیَةَ وَکُلُوْا مِنْهَا حَیْْثُ شِئْْتُمْ وَقُوْلُوْْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوْْا الْبَابَ سَُجَّداً نَّغْْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْط سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
)
ترجمہ: اور (یاد کرو ابھی وقت کو) جب ان (بنی اسرائیل) سے کہا گیا کہ اس آبادی (بیت المقدس) میں سکونت اختیار کرو اور اس (کی نعمتوں) سے جہاں اور جیسے چاہے کھاؤ۔ (ان تمام حیلوں بہانوں اور موسیٰ کو ستانے کے بدلے استغفار کے طور پر) کہو "حصٰہ (ہمارے گناہوں کو جھاڑ دے) اور (بیت المقدس کے) دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ، اس سے ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے۔ اور نیک لوگوں کو بہت جلد بیشتر جئزا دیں گے۔
چند نکات:
"حِطہ" کا لفظ اورپر سے نیچے کی طرف نازل ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ (منحط اور انحطاط کا بھی اسی سے تعلق ہے) اور اس کا معنی ہے خداوند عالم کی عفو اور رحمت کی درخواست کرنا۔ اور اس بارے حکم خداوندی یہ تھا کہ جب بنی اسرائیل سرزمین بیت المقدس داخل ہوں تو اس لفظ (حصٰہ) کے ساتھ خدائے مغفرت مانگیں۔ (لیکن ان لوگوں نے اس لفظ کامذاق اڑایا اور اسے بگاڑ کر رکھ دیا۔
اس آیت سے ملتی جلتی البتہ قدرے تغاوت کے ساتھ سورہ بقرہ کی ۵۸ ویں اور ۸۹ ویں آیات ہیں۔
روایات میں ہے کہ حضرت ائمہ اظہار علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ "نحن باب حطتکم" یعنی ہم ہی تمہاری خطاؤں کی معافی کا دروازہ ہیں۔ یعنی اگر تم ہماری حکومت اور ولایت کے مدار میں داخل ہو جاؤ گے تو خداوند عالم کی رحمت اور بخشش تمہارے شامل حال ہو گی۔
پیام:
۱ ۔ خداوند عالم انسان کی تمام امدی و معنوی اور دنیوی اور اخروی ضروریات کو پیدا کرتا ہے اور روٹی کپڑا اور مکان جیسی نعمتوں سے استفادہ کے لئے حکم دیتا ہے کہ دعا، استغفار اور سبھی کریں۔
۲ ۔ اللہ تعالیٰ ایک ہی معذرت خواہی اور خالص دل کے ساتھ توبہ کے ذریعہ بہت سے گناہ بخش دیتا ہے۔(
نغفرلکم خطیئاتکم
)
۴۹
۳ ۔ مقامات مقدسہ میں داخل ہونے کے خصوصی آداب و شرائط ہوتے ہیں(
وادخلو الباب سجدا
)
۴ ۔ خدا وند عالم کی عفوومغفرت کے لئے دعا بھی ضروری ہے اع عمل بھی لازمی ہے(
قولوا حطة وا دخلوا الباب
)
۵ ۔ نیکوکاروں اور بدکاروں کے درمیان کوئی فرق ہونا چاہئے۔ جب گناہگاروں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو نیک لوگوں کو درجات میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔(
سنزید المحسنین
)
آیت ۱۶۲
(
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَالَّّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَآءْ بِمَا کَانُوْا یَظْلِمُوْنَ
)
ترجمہ: پس ان (بنی اسرائیل) میں سے ظالم لوگوں نے اس بات کو جو انہیں کہنا چاہئے تھی اس کے علاوہ میں تبدیل کر دیا، پس ہم نے بھی ان کے ظلم کرنے کی وجہ سے ان پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔
چند نکات:
تحریف اور تبدیلی کبھی تو واضح اور آشکارا ہوتی ہے جیسے کسی لفظ کو تبدیل کر دینا، اور کبھی لفظ کی ظاہری صورت کو تو برقرار رکھا جاتا ہے لیکن اس کو روح موضوع اور مفہوم کو تبدیل کر دیا جاتاہے۔ جیسے بنی اسرائیل کو سینچر کے دن مچھلی کے شکار کا حیلہ، (کہ اس کا تذکرہ اگلی آیت میں ہو گا)
قرآن مجید قانون الہٰی میں تین طرح کی تبدیلیوں کو بیان فرماتا ہے۔
۱ ۔ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر کسی بات میں تحریف و تبدیلی ۔ جیسے لفظ "حطة" (عفوومغفرت کی درخواست) کی بجائے "حنطة" (گندم) کہنا۔
۲ ۔ بدنیتی پر مشتمل فریبکاری سے کام لے کر کوء تبدیلی کونا، جیسے بنی اسرائیل نے دریا کے ساحل پر کچھ حوض بنا لئے تھے کہ سنیچر کے دن ان میں مچھلیاں جمع ہو جایا کرتی تھیں اور اس کے دوسرے دن (اتوار) کو شکار کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم سے سینچر کے دن شکار نہیں کیا۔ قرآن مقدس میں ارشاد ہوتا ہے "(
ولقد علمتم الذین اعتدوامنکم فی السبت
)
" اور اپنی قوم سے ان لوگوں کی حالت تو تم بخوبی جانتے ہو جو سینچر کے دن اپنی حد سے گزر گئے۔ (بقرہ / ۶۵)
۳ ۔ روشن فکری پر مشتمل تبدیلی، جیسے زمانہ جاہلیت میں جنگ کو جاری رکھنے کے لئے حرمت والے چار مہینوں میں موقوف کر دیں، لہٰذا ان مہینوں میں ردوبدل کر کے آگے کر دیا کرتے تھے جس پر یہ آیت نازل ہوا: "(
انما النسئی زیارة فی الکفر
)
" یعنی مہینوں کا آگے پیچھے کرنا کفر ہی کی زیادتی ہے۔ (عموبر / ۳۷)
پیام:
۱ ۔ احکام خداوندی میں ردوبدل اور تحریف و تبدیلی کی سزا خدائی قہر و غضب ہے۔(
رجزا من السمآء
)
۲ ۔ ہٹ دھرمی اور ضد اور وہ بھی مسخرہ بازی پر مبنی ایک ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں ہو سکتا(
رجزامن سما
)
۳ ۔ انسان کا انجام اس کے اپنے ہاتھ میں ہے اور عذاب، ظلم کا نتیجہ ہوتا ہے۔
آیت ۱۶۳
(
وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِم اِذْ یَعْدُوْنَ فِیْ السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَا نُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرْعاً وَّ یَوْمَ لَایَسْْبِتُوْنَ لَا تَاْتِیْهِمْ کَذٰلِکَ نَبْلُوْ هُمْْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْْنَ
)
ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) ان سے اس آبادی کے بارے میں پوچھئے جو دریا کے کنارے تھے؟ جب وہ (قانون اور) شنبہ کے دن کے بارے میں تجاوز کیا کرتے تھے، جب انکے چھٹی (سینچر) کے دن مچھلیاں بڑی تعداد میں دریا کے کنارے پانی کے اوپر آ جا یا کرتی تھیں۔ اور (دوسرے ایام میں) جب وہ چھٹی نہیں کرتے تھے وہ مچھلیاں بھی ظاہر نہیں ہوا کرتی تھیں اسی طرح ہم ان کے تجاوز اورفسق کی وجہ سے آزمایا کرتے تھے۔
ایک نکتہ:
بنی اسرائیل کا یہ گروہ ساحل سمندر (زیادہ امکان یہی ہے کہ بحیرہ احمر کے کنارے فلسطین کی اس سرزمین میں جسے آج بند ر ایلات کہا جاتاہے) رہا کرتا تھا۔ حکم خداوندی کے مطابق ان کے لئے شنبہ (سینچر) کے دن شکار ممنوع تھا، لیکن اسی دن مچھلیان دوسرے ایام کی نسبت زیادہ جلوہ گری کیا کرتی تھیں جس سے ان لوگوں کے منہ میں پانی بھر آتا، اور یہ ایک خدائی آزمائش تھی۔ اور اس قوم نے مختلف چالیں چل کر قوانین الہٰی کی خلاف ورزی کی اور وہ یوں کہ سمندر کنارے چھوٹے چھوٹے حوض بنا لئے اور ان میں مچھلیوں کے نکلنے کے راستے بند کر دئیے سینچر کے دن جب ان میں سے وافر مقدار میں مچھلیاں آ جایا کرتی تھیں۔ تو باہر نہیں نکل جاتی تھیں اسی لئے وہ اتوار کے دن بڑے آرام سے انہیں پکڑتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم نے حکم الہٰی کے تحت ان کا سینچر کا دن شکار نہیں کیا۔
پیام:
۱ ۔ اسلاف کی قانون شکنی آنے والی نسلوں کو بھی شرمندہ کرتی ہے۔(
واسئلهم
)
۲ ۔ اسلاف کی بری عادات کا تذکرہ کہ جن کی وجہ سے انہیں تنبیہ کی گئی ہو اگر دوسروں کی عبرت کے لئے نقل کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(
عن القریة التی
)
۳ ۔ گناہ کے چہرے پر شرعی پردہ ڈال کر اسے شرعی حیثیت دینا سخت قابل مذمت ہے ۔۵۰
(جس طرح کہ بنی اسرائیل نے اتوار کے دن شکار کے لئے سمندر کے کنارے حوض بنائے اور سینچر کے دن ان میں مچھلیوں کو اکٹھا کر لیا کرتے تھے)
۴ ۔ ماہی گیری کے ذریعہ گزر اوقات کا سلسلہ اور ساحل نشینی کی زندگی قدیم الایام سے چلی آ رہی ہے۔
۵ ۔ چھٹی اور عبادت کے دن کاروبار کرنا ایک طرح کا تجاوز ہے۔(
یعدون فی السبت
)
۶ ۔ سمندر کی مچھلیاں بھی حکم الہٰی کے تحت سینچر کے دن کی اور انسانی افراد کی قدرت تشخیص پیدا کر چکی تھیں۔(
تاتیهم- لاتا تیهم
)
۷ ۔ اگرچہ خداوند عالم نے مچھلیوں کو لوگوں کے استفادے کے لئے خلق فرمایا ہے لیکن ہفتے میں ایک دن ان کے شکار سے منع کر کے ان لوگوں کی آزمائش کی ہے۔(
حتیانهم
)
۸ ۔ حرمت کا ہر حکم ضروری نہیں کہ طبی خصوصیت کا حاصل بھی ہو، سینچر کے دن کی مچھلیوں میں اور دوسری مچھلیوں میں پروٹین کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں تھا، البتہ کسی اور دلیل کے ساتھ ان کا شکار حرام کیا گیا تھا۔
۹ ۔ دنیوی اورمادی جلوے بھی خدا کی آزمائش ہوا کرتے ہیں۔ (ن(
بلوهم
)
۱۰ ۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ بھی ایسے مقامات پر انسان کا امتحان لیتا ہے جہاں کے انسانی خواہشات اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔(
تاتیهم حیتا نهم
)
۵۱
آیت ۱۶۴
(
وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْْ لِمَا تَعِظُوْنَ قَوْماَ نِ اللّٰهُ مُهْلِکُهُمْ اَوْمُعَذَّبُهُمْْ عَذَاباً شَدِیْْداًط قَالُوْا مَعْذِرَةًاِلٰی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْْنَ
)
ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو، جب ان (بنی اسرائیل) میں سے ایک گروہ نے (دوسرے گروہ سے جونہی عن المنکر کر رہا تھا، ہے) کہا: تم ایسے لوگوں کو کس لئے نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ یا تو ہلاک کرنے والا ہے یا پھر سخت عذاب دینے والا ہے؟ تو انہوں نے جوا بدیا: اس لئے کہ تمہارے پروردگار کے پاس ہمارا عذر موجود ہو اور تاکہ شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کر لیں۔
ایک نکتہ:
معلوم ایسے ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے تین گروہ تھے۔ ۱ ۔ قانونی شکن اکثریت میں مشتمل گروہ۔ ۲ ۔ دلسوز اور ناصح گروہ اور ۳ ۔ لاغرض اور بے پرمالہ گوہ ، یہ تیرا گروہ دوسرے گروہ کے افراد سے کہتا تھا، اپنے آپ کو بے فائدہ پریشان نہ رکو، کیونکہ تمہاری باتوں کا ان فاسق لوگوں پر اثر نہیں ہوتا وہ تو میں ہی ہر حال میں جہنمی ۔ لیکن مبلغین کہتے تھے کہ ہماری باتیں اگر نہیں ہیں کم از کم ہم تو خدا کے حوجر اپنا عذر پیش کر سکیں گے۔ جی ہاں! عام طور پر ہر معاشرے کے لوگ اسی قسم کے تین گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
سورہ مرسلات کی چھٹی آیت میں ہے۔ "فالملقیات ذکرا۔ عذرا اور نذرا" یعنی ان لوگوں کی قسم جو ذکر خداوندی دوسرے لوگوں کو القاء کرتے ہیں خواہ اتمام حجت کے طور پر انہیں خبردار کرنے کے واسطے ۔
پیام:
۱ ۔ نہی عن المنکر، اتمام حجت کے لئے اور خدا کے نزدیک عذر پیش کرنے کے لئے لازم ہے۔(
معذرة
)
(ہم اپنے فریضہ پر عمل کرنے کے پابند ہیں نتیجہ کا ضامن نہیں )
۲ ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ تو خود کسی کو موعظہ کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے موغطہ کو برداشت کرتے ہیں۔ (لم تعظون)
۳ ۔ اپنی لاپرواہی کے گناہ کی "خدا کی مرضی" سے توجیہ نہیں کرنی چاہئے۔(
لم تعظون قومان الله مهلکهم
)
۴ ۔ لاپرواہ قسم کے لوگ، مجرمین اور گناہگاروں کو تنبیہ کرنے کی بجائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں پر اعتراض کرتے ہی۔(
لم تعظون
)
۵ ۔ جو لوگ موعظہ اور تربیت کی کوششوں کو بے فائدہ اور غیر موثر سمجھتے ہیں ان کے مقابل میں ڈٹ جانا چاہئے۔(
معذرة
)
۶ ۔ جلد بازی میں فیصلہ نہیں کر دینا چاہئے۔ کسی کے بارے میں فوراً نہیں کہہ دینا چاہئے۔ کہ خداوند عالم اسے عذاب دے گا یا ہلاک کرے گا۔(
مهلکهم اومذبهم
)
۷ ۔ آپ لوگوں کو بھی اس قدر کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے رب کے پاس گھر جائیں تو آپ کے پاس معقول عذر ہونا چاہئے۔ (ربکم) ہے "ربنا" نہیں ہے۔
۸ ۔ اگر نہی عن المنکر کے اثر کے احتمال نہ بھی ہو، تاہم حجت اور خدا کے نزدیک معقول عذر تو ہو گا۔ لہٰذا اس فریضہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔
۹ ۔ اللہ والے، معاشرتی اصلاح سے کبھی نامید نہیں ہوتے۔(
لعلهم یتقون
)