تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62965
ڈاؤنلوڈ: 5428

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62965 / ڈاؤنلوڈ: 5428
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۱۶۵۔۱۶۶

( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا ِبه اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ بَئِیْسٍم بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّانَهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ کُوْنُوْا قِرَدَةً خٰاسِئِیْنَ )

ترجمہ: پس جب انہوں نے اس یاد دہانی کو فراموش کر دیا تو ہم نے نہی عن المنکر کرنے والوں کو نجات دیدی اور ظالموں کو ان کے فسق وفجوربجالانے کے سبب سخت عذاب میں گرفتار کر دیا۔

پس جب انہو ں ے اس بات سے سرکشی کی جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے انہیں کہا: تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ!

چند نکات:

"بئس" کا لفظ "باس" سے نکلا ہے جس کا معنی ہے "سخت"

سورہ مائدہ/ ۶۰ میں ہے کہ کچھے لوگ بندر اور سور بن گئے۔ جبکہ یہاں صرف بندر بننے کا تذکرہ ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ دونوں آیات ایک ہی گروہ کے بارے میں ہیں اور آیت کا ظاہر یہی بتاتا ہے کہ وہ لوگ بندروں کی شکل میں تبدیل ہو گئے تھے بندروں کی خصلت نہیں بنائی تھی۔

روایات کے مطابق جب بنی اسرائیل کے موغطہ کرنے والوں نے دیکھا کہ ان کی نصیحت اپنی قوم میں بے اثر ہے تو وہ ان لوگوں سے جدا ہو گئے اور اسی رات عذاب الہٰی نازل ہوا جس نے گناہگاروں اور خاموشی اختیار کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ (ازتفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ نہی عن المنکر اگر دوسروں کی ہدایت کا سبب نہ بن سکے، ہماری اپنی نجات کا ذریعہ ضرور ہوتا ہے۔ (( انجینا ینهون الذین )

۲ ۔ اگر عدم توجہ اور غفلت کی وجہ سے فراموشی کو اختیار کیا جائے تو اس سے سزا مل سکتی ہے۔( فلما نسوا- ) ۔۔۔۔)

۳ ۔ جوا پنے لئے موغطہ اور پندو نصیحت کے راستے بند کر دیتا ہے وہ اپنے لئے خدائی قہر و غضب کے دروازے کھول دیتا ہے( نسوا-- اخذنا )

۴ ۔ نہی عن المنکر ایک دائمی فریضہ ہے۔ (ینہون) فعل مضارع دوام و استمرار دلالت کرتا ہے،

۵ ۔ بے پروا قسم کے لوگ ظالم ہیں۔( الذین ظلموا ) اس سے پہلی آیت بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل تین گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ۱ ۔ ظالم۔ ۲ ۔ ہندونصحت کرنے والے اور ۳ ۔ لاپرواہ قسم کے لوگ جو ہر بات پر خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ اس آیت میں خاموشی اختیار کرنے والوں کو بھی ظلم کرنے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔( انجینا الذین ینهون عنه )

۶ ۔ بہت بڑا اور بہت سخت عذاب ، مرحلہ ان نیت سے گر جاتا ہے( عذاب بئیس ----- قردة )

۷ ۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کی سزا یہ ہے کہ ان کی صورتیں مسخ ہو جائیں اور متکبرین کی سزا یہ ہے کہ انہیں معاشرے کی دھتکار دیا جائے اوران کی توہین و تحقیر کی جائے۔( عتوا، قردة خاسئین )

۸ ۔ جو قومیں قوانین الہٰی کے مقابلے میں غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ بندروں کی مانند کبھی تو مشرق والوں کی ور کبھی اہل مغرب کی نقالی کرتی رہتی ہیں۔( قردة )

۹ ۔ جو لوگ حکم خداوندی کو مختلف حیلو ں بہانوں سے مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اپنے چہرے مسخ ہو جاتے ہیں۔ دین کے ساتھ بازیگری کرنے والے، خود ہی بازیگر جانوروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

۱۰ ۔ جو خدا صر ف ایک ہی حکم کے ساتھ ابراہیم کے لئے آگ کو گلستان بنا سکتا ہے، وہ انسان کو بندر میں بھی تبدیل کر سکتا ہے۔

آیت ۱۶۷

( وَ اِذْتَاَذِّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوٓءَ الْعَذَابِط اِنَّ رَبََََََّکَ لَسَرِیْعُ الْْعِقَابِ وَاِنَّه لَغَفُوْرُُرَّحِیْمِ )

ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان کر دیا کہ قیامت کے دن تک ان (بنی اسرائیل) پر کسی ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں سخت اور برا عذاب دیتا رہے گا یقینا تمہارا مددگار ، بہت جلد سزا دینے والا ہے اور (توبہ کرنے والوں کے لئے) بخشنے والا اور مہربان ہے۔

ایک نکتہ:

"تاذّن" اور "اذّن" (دونوں) کا معنی اعلان کرنا ہے۔ اور قسم کے معنی کے لئے بھی آتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ خدا وند عالم کا طریقہ کار تو یہ ہے کہ مجرمین کومہلت دیتاہے، لیکن جو لوگ اس کے آگے اکڑ جاتے ہیں تو انہیں سزا بھی بہت جلد دیتا ہے۔

۲ ۔ فاسد اور جابر لوگوں کا تباہکار عوام پر تسلط کبھی خدائی سزا اور ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ بھی ہوا کرتا ہے۔( لیبعثن )

۳ ۔ اقوام و ملل کی تاریخ زنجیر کڑیوں کی مانند ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہے اور کسی ایک گناہ کی سزا بعض اوقات تاریخی طور پر اس قدر طوانی ہوتی ہے کہ قیامت تک چلی جاتی ہے۔( الی یوم القیامة )

۴ ۔ جو لوگ اولیاء اللہ کا منہ چیڑٓتے ہیں وہ ذلیل اور اشرار لوگ ہوتے ہیں۔( یسومهم ) ۔۔) ۵۲

۵ ۔ خداوند عالم کی پیشن گوئی یہی ہے کہ ظالم یہودی قوم ہمیشہ ذلیل اور خوار ہی رہے۔( الی یوم القیامة )

۶ ۔ توبہ کا دروازہ ہمیشہ اور ہر ایک کے واسطے کھلا ہوا ہے۔( غفور رحیم )

آیت ۱۶۸

( وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَماً مِّنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ وَبَلَوْْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ )

ترجمہ: اور ہم نے بنی اسرائیل کو روئے زمین پر کئی گروہوں کی صورت میں منتشر کر دیا، ان میں سے کچھ لوگ تو نیک اور صالح ہیں اور کچھ لوگ ان کے علاوہ (ضدی اور ہٹ دھرم) ہیں۔ اور ہم نے انہیں نیکیوں اور برائیوں کے ساتھ آزمایا ہے تاکہ وہ لوٹ آئیں۔

ایک نکتہ:

بنی اسرائیل کو بعض اوقات عزت اور اقتدار مل جاتا ہے تاکہ ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کا شکر بجا لائیں اور بعض اوقات انہی سختیوں اور مصیبتوں میں جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں توبہ اور بازگشت کی حس بیدار ہو جائے۔ انجام کار ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ صالح بھی ہوتے ہیں اور اسلام کی حقانیت کو صدقہ دل سے قبول کر لیتے ہیں اور بعض کم بخت قسم کے لوگ دنیا پرستی اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ بعض اوقات انتشار ، آوارگی اور پراکندگی، خدا کے قہر و غضب کی علامتیں ہوتی ہیں اور مرکزیت اور ہمبستگی لطف خداوندی کی نشانیاں ہوتی ہیں۔( قطعناهم )

۲ ۔ انسان، آزاد ہے( منهم الصالحون ومنهم دون ذالک )

۳ ۔ کسی پر تنقید کرتے وقت اچھے لوگوں کے حق کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔( منهم الصالحون )

۴ ۔ تلخ اور شیریں واقعات خدا کی آزمائش کا ذریعہ ہوتے ہیں۔( بلوناهم )

۵ ۔ تشویق و ترغیب اور تنبیہ نیز مہر اور قہر دونوں ہی انسان ساز اور تربیت کنندہ ہوتے ہیں۔( لعلهم یرجعون )

۶ ۔ انسان کی روحانی تبدیلی اور حق کی طرف اس کی بازگشت امتحان الہٰی کی حکومتوں میں سے ایک حکمت ہے۔( لعلهم رجعون )

آیت ۱۶۹

( فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِ هِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوْا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰی وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُه یَاْخُذُوْهُط اَلَمْ یُوْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِط وَالدَّارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرُ لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ )

ترجمہ: پس ان کے بعد ان کی ناخلف اولاد ان کی جانشین ہوئی جو کہ آسمانی کتاب (تورات) کی وارث ہوئی (لیکن اس کی قدر کو نہ جانا) اور اس ناپائیدار دنیا کا مال و متاع سمیٹتی رہی اور (قوانین خداوندی کو ترک کر دینے کے ساتھ ساتھ) کہتی رہی کہ ہم بہت جلد بخش دئیے جائیں گے۔ اور اگر دوسری مرتبہ بھی ان قسم کے مادی منافع ملنے لگ جائیں پھر بھی وہ اسے لے لیں (اور قوانین الہٰی کو ترک کر دیں) آیا ان سے کتاب کا میثاق نہیں لیا گیا تھا کہ خد اکی طرف حق بات کے علاوہ کسی بھی چیز کی نسبت نہ دیں؟ اور ان لوگوں نے اس کتاب اور میثاق کو بارہا (درس کی صورت میں) پڑھا بھی ہے (لیکن عملی طور پر دنیا کی پرستش کی) حالانکہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں، آیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟

دو نکات:

’خلف" (بروزن حرف) عام طور پر ناخلف اولاد کو کہا جاتا ہے اور "خلف" (بروزن شرف) صالح شائستہ اور لائق اولاد کو کہتے ہیں۔ (ازتفسیر نمونہ، منقول از تفسری مجمع البیان وابوالفتوح)

"عرض" (بروزن صمد) ہر قسم کے سرمائے کو کہا جاتا ہے جبکہ "عرض" (بروزن قرض) صرف نقد رقم کے لئے بولا جاتا ہے۔ چونکہ دنیا ناپائیدار ہے اسی لئے اسے عرض کہا گیا ہے۔ علامہ محسن فیض کاشانی فرماتے ہیں اس آیت میں "عرض" سے مراد "رشوت" ہے۔

پیام:

۱ ۔ اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں غفلت سے کام نہ لو کہ کہیں وہ رفاہ طلب اور دنیا پرست نہ ہو جائیں!( خلف )

۲ ۔ دنیا پرستی اور دنیا داری پر انقلاب کے لئے آفت ہوا کرتی ہے۔( من بعدهم خلف )

۳ ۔ دنیا ناپائیدار ہے۔( عرض )

۴ ۔ یہودی ایک ایسی قوم تھے جو اپنے آپ پر راضی اور خوش تھے نیز بڑی ڈینگیں مارا کرتے تھے۔( سیغفر لنا ) ۵۴

۵ ۔ بے جا امید بھی بے جا خوف کی مانند خرابی پیدا کر دیتی ہے۔( سیغفرلنا )

۶ ۔ حقیقی توبہ کی علامت یہ ہے کہ اگر دوسری مرتبہ خلاف ورزی کا موقع ملے تو اس کا ارتکاب نہ کیا جائے( یاتیهم عرض مثله یاخذوه )

۷ ۔ آسمانی کتاب کا صرف جان لینا اور اس کا مطالعہ کرنا ہی کافی نہیں ساتھ ہی تقویٰ بھی ضروری ہے( ورؤا الکتاب ، درسوا، یاخذوه )

آیت ۱۷۰

( وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوْا الصَّلٰوةَط اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ )

ترجمہ: اور جو لوگ آسمانی کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں تو ہم بھی یقینا اصلاح کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔

دو نکات:

قرآن کریم کا عموم قرینہ ہے کہ فاسد اور مفسد اکثریت کے ساتھ نیک اور صالح اقلیت کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔

"کتاب" کا لفظ تمام آسمانی کتابوں کو شامل ہے اور آیت کا مفہوم کسی خاص گوہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہان البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ گھر گزشتہ آیات کو پیش نظر لایا جائے تو پھر ممکن ہے کہ اس سے مراد "تورات" ہو۔

پیام:

۱ ۔ حقیقی معنوں میں اصلاح کی دو شرائط ہیں۔ ۱ ۔ قوانین کے ساتھ مکمل تمسک ۲ ۔ نماز کے ذریعہ خداوند عالم کے ساتھ مستحکم ربط۔ (مکمل آیت کا مفہوم)

۲ ۔ آسمانی کتا ب کو پڑھنا ، اسے حفظ کرنا، اسے چھاپنا، اس کی نشر و اشاعت کرنا ہی اصلاح کا موجب نہیں ہوتا بلکہ اس کو مضبوطی سے تھامنا یعنی اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس طرح سے نجات حاصل ہو،( یمسکون )

۳ ۔ دین یہودیت میں بھی نماز فرض چلی آئی ہے۔( اقاموالصلٰوة )

۴ ۔ اگرچہ نماز آسمانی کتاب کے مضامین کا ایک حصہ ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر یہاں پر اس کا خصوصیت کے ساتھ نام لیا گیا ہے۔( اقامواالصلٰوة )

۵ ۔ بے نماز اور کتاب سے بے خبر لوگ مصلح نہیں بن سکتے۔

۶ ۔ دین کے جہاں اُخروی فوائد میں وہاں پر اس دنیا میں بھی اس کی زبردست اہمیت ہے( مصلحین )

۷ ۔ نماز، معاشرے کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہے( اقامواالصلٰوة ، مصلحین )