تفسیرنور

تفسیرنور5%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69838 / ڈاؤنلوڈ: 8399
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

آیت ۱۷۱

( وَاِذْنَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ کَاَنَّه ظُلَّةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّه وَاقِعٌم بِهِمْ خُذُوْا مَا اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّةٍ وَ اذْکُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ )

ترجمہ: اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے کوہ (طور) کو اس کی اپنی جگہ سے اکھاڑ کر ان کے سروں پر سائبان کی مانند قرار دیدیا اور وہ گمان کرنے لگے کہ یہ ان کے سروں پر گراہی چاہتا ہے اور ہم نے عطا کئے ہیں انہیں مضبوطی کے ساتھ اور سنجیدگی سے لے لو اور جو کچھ ان میں ہے انہیں یاد کر لو (اور ان پر عمل کرو) ہو سکتا ہے کہ تم متقی بن جاؤ۔

چند نکات:

یہ اس سورت کی آخری آیت ہے جو بنی اسرائیل کے بارے میں گفتگو کر رہی ہے آیت ۱۰۱ سے یہاں تک (یہ مسلسل ستر آیتیں ایسی ہیں جو) ان کے بارے میں مسائل کو ذکر کر رہی ہیں)

زیر نظر آیت سے ملتی جلتی سورہ بقرہ کی ۶۱ ویں آیت ہے۔

"نتق" کے معنی ہیں اکٹھا کر پھینک دینا۔

جب حضرت موسیٰ تورات لے کر کوہ طور سے واپس آ گئے تو بنی اسرائیل نے آپ کی مخالفت شروع کر دی، خداوند عالم نے پہاڑ کو زمین سے اکھاڑا اور ان کے سروں پر سائبان کی مانند لٹکا دیا جس سے وہ وحشت زدہ ہو گئے اور وعدہ کیا کہ اُن کی اطاعت کریں گے اور سجدہ میں بھی گر گئے۔

یہاں ہر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی کو مجبور کر کے وعدہ لینا اور اس سے اطاعت کرانا صحیح ہے اور اس سے اطاعت کرانا صحیح ہے اور اس کی قدر وقیمت بھی ہے؟

تو اس جواب یہ ہے کہ ہر مقام پر مجبور کرنا برا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات نشے کے عادی کو مجبور کر کے اس سے نشہ چھڑایا جاتا ہے جو بجائے خود ایک اہم بات ہے البتہ مجبور کر کے اس پر قلبی عقیدہ مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن صحیح اعمال کو معاشرے میں زربدستی طریقے سے بھی رائج کیا جا سکتا ہے علاوہ ازیں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کسی کام کو زبردستی کرایا جاتا ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ معرفت اور آگاہی اور شعور پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ارادہ اور اختیار سے انجام پانے لگتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ معاشرے کی عمومی تربیت کے لئے بعض اوقات دباؤ اور سختی سے بھی کام لینا پڑتا ہے تاکہ لوگوں کو کارخیر پر آمادہ کیا جا سکے۔( اذنتقنا ---- خذوامااتیناکم----- )

۲ ۔ احکام الہٰی کو عشق و شوق پھر سنجیدگی اور قوت کے ساتھ لینا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے۔

۳ ۔ آسمانی کتابوں اور دینی رستوارات کا اصل مقصد لوگوں کے دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔( لعلکم تتقون )

آیت ۱۷۲

( وَ اِذْاَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِ هِمْ ذُرِیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَ هُمْ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط قَالُوْا بَلٰی شَهِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا کُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَ )

ترجمہ: اور اس روز کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو لیا اور انہیں اپنے آپ پر گواہ بنایا (اور کہا) آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تو سب نے کہا: کیوں نہیں؟ ہم گواہی دیتے ہیں (کہ تو ہمارے پروردگار ہے اولاد آدم سے اس طرح کا اقرار اس لئے لیا گیا) تاکہ بروز قیامت یہ نہ کہو کہ ہم اس سے غافل رہے تھے۔

چند نکات:

"ذریت" کے معنی ویسے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہیں لیکن عام طور پر اس کا استعمال تمام اولد میں بھی ہوتا ہے۔

آیت میں اولاد آدم سے پیمان لینے کا انداز ذکرنہیں ہوا۔ البتہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کی تخلیق کے بعد ان کی تمام اولاد باریک لیکن باشعور ذرات کی صورت میں ان کی پشت سے نکالا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کر کے ان سے سوال کیا، جس پر انہوں نے خداوندمتعال کی ربوبیت کا اعتراف کیا: اس کے بعد ساری ذریت ان کی سلب اور مٹی میں واپس چلی گئی اور پھر تدریجی اور طبعی طور پر ان سے باہر آتی رہی، اس عالم کو "عالم ذر" اور اس پیمان کو "پیمان الست" اور اس کائنات کو "عالم ِ اَلَست" کہا جاتا ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ "عالم ذر" سے مراد وہی استعداد اور صلاحیتوں کا عالم ہو اور پیمان سے مراد فطرت کا تکوینی پیمان ہو۔ یعنی جب اولاد آدم نطفہ کی صورت میں اپنے بالوں کی صلبوں سے نکل کر ماؤں کے رحموں میں منتقل ہوتی ہے تو اس وقت ایک ذرہ سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں ہوتی۔ اور اللہ تعالیٰ توحید کی معرفت کی استعداد اور فطرت اسی طرح حق جوئی کی فطرت ان میں ودیعت کر دیتا ہے۔ اور یہ خدائی راز ایک اندرونی حسّ کی صورت میں ہر ایک کی نہاد وفطرت میں امانت کے طور پر رکھ دی جاتی ہے اور ساتھ ہی ان کی عقل و خرد میں بھی یہی بات بٹھا دی جاتی ہے۔ جب سے خدا کی تلاش اس کی شناخت اور اس کا اقرار ایک خود آگاہ حقیقت کی صورت میں منقش ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تخلیقی زبان میں ان سے سوال کیا ہے اور انہوں نے بھی اسی زبان میں جواب دیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خداوند عالم نے توحید کو ہر انسان کی فطرت اورسرشت میں داخل کر دیا ہے۔( اشهد هم علی انفسهم )

۲ ۔ فطرت اور حق جوئی کا میثاق بندوں پر اتمام حجت کی طور پر ہے۔( ان تقولوایوم القیامة )

۳ ۔ انسان اپنے وجود کی گہرائیوں میں خداوند عالم کے اقرار کی حس کو ضرور تلاش کرتا ہے اس لئے کہ اس نے عالم ذر میں اس کا اقرار کیا ہوا ہوتا ہے۔

آیت ۱۷۳ ، ۱۷۴

( اَوْ تَقُوْلُوْا اِنَّمَا اَشْرَکَ اٰبٰٓائُنَا مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّا ذُرِیَّةً مِّنْ م بَعْدِ هِمْ اَفَتُهْلِکُنَا بِمَا فَعََلَ الْمُبْطِلُوْنَ وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ )

ترجمہ: (ذُریت آدم سے ہم سے یہ سوال و جواب اس لئے کئے) تاکہ یہ نہ کہیں کہ ہمارے باپ دادا تو پہلے ہی سے مشرک تھے اور ہم ان کے بعد ان کی اولاد تھے (اور مجبور ان کی راہوں پر چلتے رہے) تو کیا ہم ٰن اہل باطل کی کارستانیوں کی وجہ سے سزا دے گا اور ہلاک کرے گا؟

اور ہم اس طرح اپنی آیات کو روشن کر کے بیان کرتے ہیں (تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ توحید کا نور ابتدا ہی سے ان کی فطرت میں شامل ہے) اور شاید کہ خداوند (اور توحید کی پاک فطرت) کی جانب لوٹ آئیں۔

پیام:

۱ ۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی فطرت، خدا کی طرف سے اتمام حجت کے طور پر ہوتی ہے اور فطرت کا چراغ اپنے اندر اس قدر طاقت رکھتا ہے کہ اس میں چاروں طرف پھیلائی ظلمت پر اپنا نور ڈالنے کی پوری پوری طاقت ہوتی ہے۔

۲ ۔ ماحول اور معاشرہ انسان کو مجبور نہیں کرتا۔( اوتقولوا )

۳ ۔ اصول دین میں تقلید جائزنہیں ہے( اشرک آباؤنا )

۴ ۔ اپنے گناہ اور گمراہی کا بوجھ دوسروں کی گردن میں مت ڈالو( اشرک آباؤنا )

۵ ۔ اپنے اسلاف کا احترام اس حد تک ہے کہ انسان کومشرک نہ بنا دے۔( ذی یة من بدهم )

۶ ۔ شرک انسان کو ہلاکت اور یا وہ کوئی اور غلط کایوں تک جا پہنچاتا ہے( تهلکنا -- مبطلون )

۷ ۔ آیات الہٰی انسان کو میثاق فطرت اور توحیدی سرشت کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔( لعلهم یرجعون )

آیت ۱۷۵

( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْ اٰتَیْنٰه اٰیٰتِنَافَنْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَه الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ )

ترجمہ: اور ان لوگوں کے لئے اس شخص کی داستان کو پڑھو کہ جسے ہم نے اپنی آیات عطا کی تھیں، پس اس نے (ناشکری کرتے ہوئے) اپنے آپ کو ان آیات اور علوم سے باہر نکال لیا اور شیطان نے اسے اپنے پیچھے لگا لیا پس وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔

ایک نکتہ:

یہ آیت بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جو پہلے پہل تو مومنین اور الہٰی آیات و علوم کے حاد ملن کی صف میں تھا، لیکن بعد میں گمراہ ہو گیا اور شیطان نے اس کے دل میں کئی وسوسے ڈال دیئے تمام تاریخی اور تفسیری کتابوں میں اس کا نام "بلعم باعورا" مذکور ہے۔

حضرت امام رضا سے روایت ہے کہ بلعم باعورا "اسم اعظم" جانتا تھا جس کی وجہ سے اس کی ہر دعا قبول ہوتی تھی لیکن بعد میں فرعون کے دربار میں جا پہنچا۔ اگرچہ وہ آغاز کار میں حضرت موسٰی کا مبلغ تھا، لیکن اس کا انجام بہت خرا ب ہوا۔

قرآن مجید میں اس کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن اس کی کارستانیاں ضرور بیان کی گئی ہیں اور حضرت امام محمد باقر کے بقول یہ آیت ہر اس شخص سے مطا بقت رکھتی ہے جو خواہشات نفسانی کو حق پر غالب کرتا ہے (ازتفسیر نورالثقلین) اور اس قسم کے لوگ ہر دور اور ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں آیت صرف بلعم سے ہی مخصوص نہیں ہے۔

بلعم باعورا کا قصہ توریت میں بھی ذکر ہوا ہے۔ (تفسیر قرطبی)

پیام:

۱ ۔ رہبر اور قائد کا فرض بنتا ہے کہ لوگوں کو درپیش آنے والے خطرات سے آگاہ کرے اور ڈرائے۔( واتل علیهم )

۲ ۔ انسان کو جس قدر ترقی ملتی جائے اسے کبھی مغرور نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اسے تباہی کا خطرہ ہر وقت درپیش رہتا ہے صحیح معنوں میں انجام کار ہی اہمیت رکھتا ہے، آغاز کار کو اپنی اہمیت حاصل نہیں، جو جتنا بلند ہو گا اس کا خطرہ بھی اسی قدر زیادہ ہوگا۔( فانسلخ منها )

۳ ۔ میرے انجام کے بارے میں ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے اور اس خطرے کو ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کہیں نعمت ، عذاب اور سزا میں نہ بدل جائے!

۴ ۔ اگر نعمتوں کو ان کے صحیح مصرف میں استعمال نہ کیا جائے، واپس لے لیا جاتی ہیں( آئیناه آیاتنا فانسلخ )

۵ ۔ جو خدا سے کٹ جاتا ہے ، شیطان کی گرفت میں آ جاتا ہے اور اس کا لقمہ بن جاتا ہے( فانسلخ مظ فاتبعه الشیطان )

۶ ۔ دنیاوی چکا چوند اور شاہی دربار ایسی چیزیں جہاں پر علماء اور دانشوروں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں ، عوام الناس کا تو خدا ہی حافظ ہے!

۷ ۔ انسان آزاد ہے، جب چاہے اپنی سمت بدل لے( آتینا آیتنا فانسلنج )

۸ ۔ جب شیطان کسی میں اپنی متابعت کی صلاحیت دیکھتا ہ تو اس کے پیچھے لگ جاتاہے۔( فانسلخ فاتبعه )

۹ ۔ صرف اکیلا علم ہی نجات دہندہ نہیں ہے۔ دنیا پرست عالم، شیطان کا اسیر ہو سکتا ہے( فاتبعه الشیطان )

۱۰ ۔ طاغوتی طاقتیں علماء کو بھی فریب دے سکتی ہیں علماء سوکا انجام بلعم باعوراجیسا ہوتا ہے لہٰذا اے تاریخ کے لئے ایک یادگار سبق کے طور پر باقی رہنا چاہئے۔

۱۱ ۔ راہ خدا کو چھوڑ دینا حماقت ہے( فکان من الغاوین ) اور "غوایت" اس گمراہی کو کہتے ہیں جو حماقت کی وجہ سے اختیار کی جاتی ہے۔

آیت ۱۷۶

( وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰکِنَّهُ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوٰهُ فَمَثَلُه کَمَثَلِ الْکَلْبِ اِنْ َتحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُکْه یَلْهَثْطذٰٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ )

ترجمہ: اور اگر ہم چاہتے تو اس کی قدرومنزلت کو (ان آیات و علوم کی وجہ سے) اورپر لے جاتے (جو ہم نے اسے عطا کئے تھے) لیکن وہ خود زمین (اور مادیات) سے چمٹ گئی اور اپنی خواہش کی اتباع کر لی، تو اس کی مثال اس کے جیسی ہے کہ لگ تو اس پر حملہ کرے تگو وہ منہ کھول کر بھونکنے لگے اور زبان کو باہر نکال لے، اور اگر (حملہ نہ کرے بلکہ) اسے ویسے ہی چھوڑ دے تو بھی وہ ایسا ہی کرے (دنیا پرستوں کا منہ ہمیشہ کھلا رہاتا ہے) کہتے کی یہ مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ پس (اے پیغمبر) تم ایسی داستانوں کو بیان کرتے رہو شاید کہ یہ لوگ غور فکر کے نام لیں۔

پیام:

۱ ۔ آیات خداوندی انسان کی بلندی (مراتب) کاسبب ہیں( لرفعناه بها )

۲ ۔ دنیا کے ساتھ دل لگا انسان کی پستی کا موجب ہوتا ہے اور اس کی معنوی پرواز رکاوٹ پید اکر دیتا ہے۔( اخلد )

۳ ۔ لطف خداوندی مختلف طور طریقوں سے حاصل ہوتا رہتا ہے، لیکن انسان اسے اپنے تک پہنچنے سے روکنے کا سبب بن جاتا ہے( لوشئنا لرفعنٰه بها ولکن ) ۔۔۔)

۴ ۔ دنیا پرستی ہو ا وہوس پرستی کے ساتھ ملی ہوتی ہے( اخلا - اتبع هواه )

۵ ۔ غافل لوگوں کو چاپایوں سے تشبیہ دی گئی ہے لیکن علماء سو یا دنیا پرست عالموں کو حریص کتے کی مانند بتایا گیا ہے۔ (کمثل الکلب)

۶ ۔ بے عمل عالم۔ لوگوں کے نزدیک قابل نفرت ہوتا ہے( کمثل الکلب )

۷ ۔ دنیا کا بندہ کبھی سکون قلب حاصل نہیں کر پاتا( ان لتحمل علیه یلهث وترکه یلعث )

۸ ۔ دنیا کے ساتھ محبت اور خواہشات نفسانی کی اتالج، انسان کو لاپرواہ کر دیتی ہے( ان تحمل ---- اوتترکه ) ۔۔)

۹ ۔ فریب خوردہ علماء کا انجام لوگوں کے سرمایہ عبرت اور موجب غور وفکر ہوتا ہے۔ (سابقہ آیت میں "واتل" ہے اور اس میں (ناقصص) ہے۔

۱۰ ۔ حرص اور دنیا پرستی کی کوئی حد انتہا نہیں ہے، دنیا پرستوں کے پاس جس قدر بھی دنیا موجود ہو بھی ان کے لئے کم ہے اور وہ طمع ولالچ کی زبان کھولے کتے کی طرح ہانپ کانپ رہے ہوتے ہیں۔

۱۱ ۔ قصوں اور داستانوں کو انسان کی فکری ترقی کا موجب بننا چاہئے تاکہ دماغی نشہ یا سرگرمی کا سبب تبلیغی قسم کی داستانیں بیان کرنا انبیاء کا کام ہوت اہے( فاقصص القصص لعلهم یتفکرون )

آیت ۱۷۷ ۔ ۱۷۸

( سَاءَ مَثَلَا نِ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنْفُسَهُمْ کَانُوْا یَظْلِمُوْنَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِی وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَاُوْلٰئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ )

ترجمہ: جن لوگوں نے یہی آیات کو جھٹلایا ہے ا ن کی مثال کس قدر بری ہے، اور یہ لوگ اپنے اوپر خود ہی ظلم کرتے تھے۔

جسے خدا ہدایت کرے وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے، اور جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے پس وہی لوگ ہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

چند نکات:

یہ جو انسان اپنے علمی اور معنوی سرمائے کو طاغوت کی تقویت پہنچانے کے لئے خرچ کرتا ہے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔

ہدایت یافتہ افراد کے لئے مفرد (مھتد) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور گمراہوں کے لئے جمع (خاسرون) کا لفظ لایا گیا ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہدایت یافتہ افراد کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ متحد ہیں لیکن گمراہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں اور ان کی راہیں بھی مختلف ہیں۔

ہر چند کہ ہدایت اور گمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کے لئے راہیں ہموار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور خداوند عالم حکیم اور رحیم ہے جب تک انسان راہیں ہموار نہیں کرے گا اس کے لطف و رکم یا قہر و غضب کے شامل حال نہیں ہو گا۔

پیام:

۱ ۔ آیات خداوندی کی تکذیب کرنا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہوتا ہے دوسروں پر نہیں۔( انفسهم کا نوا یظلمون ) "انفسھم" کو "یظلمون" ہر مقدم کرنا انحصار کی دلیل ہے۔

۲ ۔ برا انجام آیات الہٰی کو جھٹلانے والوں کے انتظار میں ہے۔

۳ ۔ اگر خداوند تعالیٰ کی مہربانی شامل حال نہ ہو تو صرف علم رکھنا نجات اور ہدایت کا موجب نہیں بن سکتا۔ (من یھد اللہ)

آیت ۱۷۹

( وَ لَقَدْ ذَرَاْنَالِجَهَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَهُمْ قُلُوْبُ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَاوَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاط اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ َبلْ هُمْ اَضَلُّ اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ )

ترجمہ: اور یہ بات یقینی ہے کہ ہم نے بہت سے جن وانس کو جہنم کے لئے پید اکیا ہے (کیونکہ) ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعہ وہ حق کو درک نہیں کرتے آنکھیں ہیں کہ جن کے ذریعہ وہ نہیں دیکھ پاتے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ اسے نہیں سنتے وہ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ یہی لوگ ہی غافل ہیں۔

چند نکات:

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے جن وانس دوزخ کے لئے پیدا کیا گیا ہے جبکہ سورہ ذاریات/ ۵۶ میں جن وانس کی تخلیق کا سبب عبادت بیان کیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے "وما خلقت الجن والانس الالیعبدون" تو اان میں سے کس کو صحیح مانا جائے؟

جواب: تخلیق کا اصل مقصد تو عبادت اور خدا پرستی ہی ہے، لیکن انسانوں "لجھنم" پر موجود "لام" عاقبت اور انجام کے لئے ہے مقعید اور ہدف کے لئے نہیں۔ جیسا کہ برھئی کا اصل مقصد تو دڑور دروازے کھڑکیاں وغیرہ تیار کرناہوتا ہے لیکن انہیں دروازوں اور کھڑکیوں کے تختے اور لکڑیاں انگیٹھی میں بھی جلتی ہیں تو یہ اس کا تبعی ہدف ہوتا اصل اور بنیادی مقصد نہیں ہوتا ۵۵

یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا فرشتہ زیادہ اہم یا انسان؟ تو اس کا جواب حضرت علی نے یوں دیا ہے کہ فرشتے میں صرف عقل ہوتی ہے اور حیوان میں فقط غریزہ حکم فرما ہوتا ہے۔ لیکن انسان ان دونوں صفات کا حامل ہوتا ہے۔ جس کی عقل اس کے عزیز پر غالب آ گئی وہ فرشتے سے برتر جس کا غریزہ اس کی عقل پر غالب آ گیا وہ حیوان سے بدتر ہو گیا۔( اولئک کالانعام بل هم اضل ) ۵۶

پیام:

۱ ۔ آفرنیش اور تخلیق تو رحمت کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن انسان اپنے غلط اختیار کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے۔( لهم قلوب ) ۔۔۔)

۲ ۔ جنات بھی انسانوں کی طرح مکلف ہیں، وہ بھی صاحب اختیار وارادہ ہیں، انہیں بھی سزا اور جزا ملے گی۔ (( من الجن ولانس )

۳ ۔ جو شخص خدائی نعمتوں سے صحیح معنوں میں فائدہ نہیں اٹھاتا وہ اس سے بدتر ہے جس کے ہر اس قسم کی نعمتیں نہیں ہیں۔( بل هم اضل )

۴ ۔ آنکھ، کان، دل اور زبان رکھنے میں انسان بھی حیوان کے مشابہ ہے لیکن انسان کو چاہئے کہ وہ ان سے بہتر طور پر استفادہ کرے اور زیادہ سے زیادہ بہرہ برداری کرے، ورنہ وہ حیوان کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ پست ہو ا۔ آنکھ کو چاہئے کہ ظاہری چیزوں کے علاوہ ملکوت کو بھی دیکھے۔ کان کو چاہئے کہ ظاہری شور شرابے کو سننے کے علاوہ باطنی زمزموں کو بھی سنے۔

(انسان معرفت کے ذرائع کی وجہ سے حیوان سے برتر اور بہتر ہے اور اگر یہ نہ ہوں تو حیوان کے برابر ہے( لایفقهون - کالانعام )

۵ ۔ بے سمجھ اور بے بصیرت انسان مندرجہ ذیل امور میں چوپایوں کی مانند ہیں، بے پرواہی ، شکم پرستی ، استشمار ہونے، بار اٹھانے ، معرفت کی لذت سے محروم ہونے۔۔۔ وغیرہل ہیں۔

۶ ۔ بے بصیرت انسان مندرجہ ذیل مسائل سے غافل ہوتے ہیں۔

ہدف اور مقصد بے خدا، خود اپنے آپ سے وسائل سے ، آخرت سے اولاد سے، آیات الہٰی سے ، قانون خداوندی سے، خدا کی سابقہ مہربانیوں اور اپنے گناہوں سے۔

۷ ۔ غافل لوگ تو حیوانات سے بھی گئے گزرے ہوتے ہیں( بل هم اضل )

۸ ۔ بہت سے انسان اس لئے جہنم خرید کر لیتے ہیں کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کو ہدایت اور کمال کی راہوں میں استعمال نہیں کرتے۔ ایسے لوگ آنکھ، کان، دل اور زبان رکھنے کے باوجود غفلت اختیار کئے ہوتے ہیں۔

آیت ۱۸۰

( وَلِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْهُ بِهَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَسْمَآئِهط سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ )

ترجمہ: اور اللہ ہی کے لئے ہیں اچھے اچھے نام، پس تم بھی خدا کو انہی ناموں سے پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں میں کجروہی سے کام لیتے اور لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔ بہت جلد یہی لوگ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے۔

چند نکات:

"( السماء حسنیٰ ) " کا کلمہ قرآن مجید میں تین جگہ پر آیا ہے۔ ۱ ۔ اسی آیت میں ۲ ۔ بنی اسرائیل کی ۱۱۰ ویں آیت میں اور طہٰ کی ۸ ویں آیت میں۔

اگرچہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام ہی حسنیٰ (اچھے) ہیں اور خداوند متعال تمام کمالات اور اسماء کا مالک ہے لیکن روایات میں زیادہ تر ننانوے ناموں پر زور دیا گیا ہے کہ جو شخص خدا کو ان ناموں کے ساتھ پکارے گا اسکی دعا قبول ہو گی۔ اور جو شخص انہیں شمار کرے گا وہ بہشتی ہے (توحید شیخ صدوق تفسیر المیزان، مجمع البیان اور نور الثقلین۔ منقول از تفسیر نمونہ) البتہ شمار کرنے سے مراد لفظ یا لبوں کی حرکت کے ساتھ نہیں بلکہ ان اسماء کی طرف توجہ ، ان سے الہام لینا، ان کی صفات سے متصف ہونا اور ان کے ساتھ ہونا مراد ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کا مسئلہ صحیح بخاری ، مسلم اور ترمذی شریف میں بھی موجود ہے کہ جو شخص خدا کو ان ناموں کے ساتھ پکارے گا اس کی دعا مستجاب ہو گی، (تفسیر المیزان تفسیر نمونہ)

خداوند تعالیٰ کے ننانوے نام یہ ہیں۔

الله، الٰه، الواحد، الاحد، الصمد، الاول، الآخر، السمیع، البصیر، القدیر، العلی، الاعلیٰ، الباقی، البدیع، الباریٴ، الاکرم، الباطن، الحی، الحکیم، العلیم، الحلیم ، الحفیظ، الحق، الحسیب، الحمید، الحفی، الرب، الرحمن، الرحیم، الذارء، الرازق، الرقیب، الروٴف، الرائی، السلام الموٴمن، المهمین، العزیز، الجبار، المتکبر، انسید، السبوح، الشهید، الصادق، الصانع، الظٓهر، العدل، العفو، الغفور، الغنی، الغیاث، الفاطر، الفرد، الفتاح، الفالق، القدیم، الملک الدوس، القوی ، القریب، القیوم، القابض، الباسط، متقی، الحاجات، المجید، المولی، المنان، المحیط، المبین، المغیث، المصور، الکریم، الکبیر، الکافی، کاشف الضّر، القدیر، النور، لاوهاب، الناصر، الواسع، الودود، الهادی، الوفی، الوکیل، الوارث، البر، الباعث، التتواب، الجلیل، الجواد، الخبیر، الخالق، خیرالناصرین، العیان، الشکور، العظیم، اللطیف، الشافی ، (ازتفسیر)

قرآن مجید میں اس سے زیادہ (تقریباً ۱۴۵) نام ہیں اور یہ جو ننانوے کی تعداد کا تذکرہ بعض روایات میں آیا ہے یا تو اس لئے ہے کہ بعض نام ایسے ہیں جو کہ ایک دوسرے میں لدغم ہونے کے قابل ہیں اور بعض ایسے کہ جنہیں ایک دوسرے سے مطابق دی جا سکتی ہے، یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ یہ نام بھی قرآن مجید میں ہیں نہ یہ کہ فقط یہی تعداد ہے۔ جبکہ بعض آیات میں ان ناموں کا مضمون ملتا ہے مثلاً قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے نام کے لئے "صادق‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن "( من اصدق من الله قیلا ) " (النسأ/ ۱۲۲) یا "( ومن اصدق من الله حدیثا ) " (نسأ / ۷۷) یعنی خدا سے بڑھ کر بعض دعاؤں اور روایات میں خداوند تعالیٰ کے لئے کئی اور نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ (مثلا دعائے جو شن کبیر مکمل) البتہ بعض اسماء ایسے ہیں جن کے خصوصی آثار وبرکات اور اختیارات ہیں۔

بعض روایات میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں: "خدا کی قسم! اللہ کے اسماء حسنیٰ ہم ہی ہیں" (اصول کافی) یعنی خداوند عالم کی صفات ہمارے اندر جلوہ گر ہیں اور ہم ہی خدا خدا کی معرفت کا حقیقی ذریعہ ہیں" تو ان احادیث کی روشنی میں آیت میں موجود یہ جملہ "( وذروالذین یلحدون ) ‘ ہمیں کہہ رہا ہے کہ فضائل اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں الحاد کرنے والوں کی پرواہ نہ کریں" (از تفسیر نورالثقلین ، منقول از اصول کافی)

وضو کے بغیر خدا کے کسی نام کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا، اور نہ ہی اللہ کے نام کو جنب شخص کے بدن کا کوئی حصہ میں کر سکتا ہے اور اس کی ہر طرح کی توہین بھی حرام ہے۔

"اسم اعظم" کیا ہے اور کونسا؟ تو اس بارے میں یہ عرض ہے کہ بعض روایات کے مطابق جو شخص خدا کا رسم اعظم جانتا ہے اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور عالم طبعیت اور جہان فطرت میں تصرف کر سکتا ہے بلعم باعورا (کہ جس کا ذکر اسی سورت کی ۱۷۵ ویں آیت میں گزر چکا ہے) بھی اسم اعظم جانتا تھا۔

بعض علماء کے بقول یہ خدا کا ایک ایسا نام ہے جو ہم سے پوشیدہ ہے۔ جبکہ بعض دوسرے علماء فرماتے ہیں "اسم اعظم" درحقیقت کوئی لفظ اور نام نہیں ہے بلکہ خدا کی صفت اور کمال ہے اور صفت اور کمال کا پر تو جو شخص اپنے وجود میں پا لیتا ہے اس کی روحانی قدرت اس حد تک جا پہنچتی ہے کہ وہ عالم فطرت اور جہاں طبعیت میں تصرف کر سکتا ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں کہ ایک فاسق و فاسد شخص ایک لفظ یا کلمے کو یاد کر لے اور مستجاب الدعوت بن جائے، یا عالم فطرت میں تصرف کرنا شروع کر دے۔ (تفسیر نمونہ)

فخر الدین رازی فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ کی تمام صفات دو چیزوں کی طرف پلٹتی ہیں۔

۱ ۔ خدا کی بے نیازی۔ ۲ ۔ مالوی اللہ کی خدا کی طرف نیاز مندی، (تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ "اللہ" تمام اسمائے الہٰی محورو مرکز ہے۔( ولله الاسماء الحسنی ) ٰ)

۲ ۔ تمام نیک اور مقدس نام جو خدا کے شایان ہیں اسی کے لئے ہیں( الاسماء )

۳ ۔ "اسمائے حسنیٰ" صرف خدا ہی کے ساتھ خاص ہیں، دوسرے لوگوں کو "حسنیٰ" کی رسائی کے لئے اسی کے پاس جانا چاہئے( لله الاسماء )

۴ ۔ خدا کے کچھ نام ایسے ہیں جو دوسروں کے لئے نہیں رکھے جا سکتے مثلاً "رازق" کسی کا نام نہیں رکھا جا سکتا۔( ولله الاسماء )

۵ ۔ اپنی طرف سے خدا کا کوئی نام نہیں رکھا جا سکتا۔ مثلاً ازخود خدا کو "عفیف" یا "شجاع" یا کسی اور نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت امام علی رضا فرماتے ہیں: "ان الخالق لایوصف الابما وصف بہ نفسہ" خالق کائنات کو صرف انہی تصیف کی ہے (تفیسر فرقان)

۶ ۔ اسم، اپنے مسمی پر دلالت کرتا ہے چونکہ اس کی ذلت مقدس ہے لہٰذا اس کے نام بھی مقدس ہونے چاہئیں۔ اور خدا کو ہرنا رواصفات و اسماء سے پاک و منزہ جاننا چاہئے "سج محمد ربک ۔۔" اور "سج اسم ربک"۔

۷ ۔ دعا بھی اچھائی اور زیبائی کے ساتھ مانگی جانی چاہئے۔( الحسنیٰ- فادعوه بها )

۸ ۔ اسلام، نام پر بھی توجہ رکھتا ہے( الاسماء یلحدون فی اسمائه ) ۔۔۔)

۹ ۔ اسمائے الہٰی، اس کی نشانی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے نشانات کے ذریعہ سے اس کی ذات تک رسائی حاصل کرنا چاہئے۔( فادعوه بها )

۱۰ ۔ اولیاء اللہ بھی اللہ کی آیات اور نشانیاں ہیں (روایات میں ہے حضرات ائمہ اطہار علیہم السلام فرماتے ہیں "ہم خدا کے اسمائے حسنیٰ ہیں

۱۱ ۔ ملحدین کے متعلق ردعمل ظاہر کرنا چہائے( ذرواالذین یئلحدون )

۱۲ ۔ حق کا راستہ ، فطری ہے اور تمام کمالات کی جامع ذات خدا وند ذوالجلال پر ایمان فطرت اور ضمیر کی آواز ہے۔ اور اس راہ سے انحراف، فطرت کے راستوں سے ہٹ کر راستہ ہو گا۔( یلحدون ) الحاد کا معنی انحراف اور بے راہ روی ہے۔

۱۳ ۔ خدا کا نام کسی کو دنیا بھی الحاد ہے اور دوسروں کا نام خدا کو دینا بھی الحاد اور گمراہی ہے( یلحدون فی اسمائه )

۱۴ ۔ اسمائے حسنی کے تین مصداق ہیں۔ ۱ ۔ صفات الہٰی ۲ ۔ اولیاء الہٰی اور ۳ ۔ اسمائے الہٰی۔ (از تفسیر فرقان)

۱۵ ۔ دعا اور نام رکھنا ایمان اور عمل کی علامت ہوتے ہیں۔ (م( اکانوایعملون ) یہ نہیں فرماتا: "( ما کانوایعلمون )

۱۶ ۔ غفلت کا علاج خدا کی یاد ہے، جیسا کہ اس سے گزشتہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ "ھم الغافلون" اور اس آیت میں فرمایا ہے( لله الاسماء الحسنیٰ )

آیت ۱۸۱

( وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِه یَعْدِلُوْنَ )

ترجمہ:

اور جن لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے کچھ ایسے گروہ بھی ہیں جو (دوسروں کو) حق کی ہدایت کرتے ہیں اور حق کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں۔

دو نکات:

اسی سورت کی ۱۰۹ ویں آیت میں حضرت موسیٰ کی قوم کے کچھ افراد کے لئے یہی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ "( ومن قوم موسیٰ امة ) ۔۔"

روایات کے مطابق اس آیت میں "امت" سے مراد "امت محمد ہے جو تمام امتوں سے بہتر امت ہے۔ اور بعض اہل سنت روایات میں ہے کہ مسلمانوں کے بہتر فرقے ہوں گے جن میں سے صرف ایک فرقہ ہی نجات پائے گا۔ (تفسیر نور الثعلین منقول از تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ حق وہدایت کے پیروکار کم ہی ہوا کرتے ہیں( وممن خلقنا امة )

۲ ۔ ہدایت اور حکومت کا محور مرکز صرف اور صرف "حق" کو ہی ہونا چاہئے۔

۳ ۔ وہی لوگ قابل قدر ہوتے ہیں جو ہدای قبول کرنے کے ساتھ ساتھ نظام حق کو وجود میں لانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، صرف شناخت اور معرفت ہی کافی نہیں اس کی نثر و اشاعت اور اس پر عمل بھی ضروری ہے۔( به یعدلون ) یعنی "( به یحکمون ) "

آیت ۱۸۲ ۔ ۱۸۳

( وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْ رِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَاْ یَعْلَمُوْنَ وَ اُمْلِیْ لَهُمْط اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ )

ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم بہت جلد انہیں مرحلہ وار ہاں سے اپنی گرفت میں لائیں گے جہاں کے بارے میں وہ جانتے بھی نہیں ہوں گے۔

اور میں انہیں مہلت دیتا ہوں (تاکہ ان کے ظلم کا پیمانہ پوری طرح لبریز ہو جائے) یقینا میر ی تدبیر تو محکم اور مستحکم ہوتی ہی ہے۔

چند نکات:

"استدراج" جو کہ خدائی طریقہ کاروں میں سے ایک ہے اور جس کا تعلق آیات خداوندی کی تکذیب کرنے والوں اور مفہ حال آسائش پرستوں سے ہے لفظ "درجہ" سے لیا گی اہے جس کا معنی ہے "تدریجی طور پر لپیٹنا" ( ملاحظہ ہو مفردات راغب) اور یہی صورت حال سورہ قلم / ۴۴ میں بھی بیان ہوئی ہے۔ امیر المومنین حضرت علی فرماتے ہیں: "جو لوگ مرفہ حالی اور آسودگی کی زندگی گزارتے ہیں انہیں اس طرف بھی متوجہ رہنا چاہئے کہ کہیں تدریجی لپیٹ کا شکار نہ ہو جائیں اور ان کی یہ نعشیں ان کی غفلت کا موجب نہ بن جائیں" (تفیسر نور اثقلین)

استدراج کے طور پر خدا کا کسی کو مہلت دینا، کسی کو لمبی عمر دینا اور اس طرح کی دوسری چیزیں قرآن مجید میں بارہا بیان ہو چکی ہیں۔ مثلاً زیر نظر آیات ہیں یا "( نذر هم فی غمر تهم حتی حین ) (مومنون / ۵۴) "( لایحسبن الذین کفرواانما علی لهم خیر لانفسهم انما علی لهم یزداوا اثما ) " (آل عمران / ۱۷۸) نیز یہی موضوع انعام / ۴۴ ۔ مومنون / ۵۵ توبہ / ۵۵ ۔ آل عمران / ۱۹۸ اور کہف / ۱۰۳ میں بھی متعظہ کیا جا سکتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خدا کی طرف سے نعمتوں کا حصول امیر کی طرف سے گناہوں سے پردہ پوشی، لوگوں کا دادتحسن کے ڈونگرے برسانا ان سب باتوں کا تعلق ایسی چیز سے ہے جو انسان کے مغرور ہو جانے کا موجب اس کے سرگرم رہنے اور خدا کی طرف سے استدراج کا سبب بن سکتی ہے۔ ۵۷

۲ ۔ انسان کی پستی بعض اوقات قدم بقدم اور آہستہ آہستہ ہوتی ہے جسے وہ محسوس نہیں کر پاتا باالفاظ دیگر خدائی لاٹھی بے اوند ہوتی ہے،( سنستدر جهم من حیث لایعلمون )

۳ ۔ اللہ تعالیٰ کی اظہرمن اشمس آیات کی تکذیب تدریجی سقوط اور مخفی ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ (کفربوا ۔ سنستدر جھم)

۴ ۔ لوگوں کو مہلت دینا خدائی طریقہ کار ہے جو ازل سے چلا آ رہا ہے تاکہ جو شخص جس راہ کا چاہے انتخاب کر لے اور اس راہ پر چل کر پروان چڑھے ، اور سب لوگوں کے واسطے دروازے کھلے ہوں، تاہم اس میں سرکشی کی فرصت بھی باقی رہے اور توبہ اور بازگشت کی مجال بھی موجود ہو۔

۵ ۔ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو تلخ ترش مشکلات سے دوچار کر کے انہیں متنبہ کرتا ہے اور ۴ افراد کو ان کی سرمستیوں میں مگن رہنے دیتا ہے۔ ۵۸

۶ ۔ جو لوگ تحریف کر کے توجیہ کرتے اور ہر روز نئے طاغوت کی اطاعت میں لگے رہتے ہیں وہ بھی اس استدراج کے قانون میں شامل ہیں۔ ۵۹

۷ ۔ زندگی اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔( اُملی )

۸ ۔ ضروری نہیں ہے نعمتیں ہمیشہ خدا کے لطف و کرم کی علامات ہوں، بعض اوقات اس کے ناگہانی قہر و غضب کا موجب بھی بن سکتی ہیں۔( املی- کیدی )

۹ ۔ گناہگار لوگ خدا کے شکنجے سے بچ کر نہیں جا سکتے( املی لهم ) اور خواب غفلت میں بڑے ہوئے اشرافیہ کے افراد خدا کے مقابلے میں کمر بستہ ہوتے ہیں( کیدی )

۱۰ ۔ خداوند عالم توبہ اور گناہوں کی تلافی کی مہلت تو کافروں کو بھی دیتا ہے، لیکن وہ اس کے ایل ثابت نہیں ہوتے۔ (لھم)

۱۱ ۔ غرور وار غفلت کا خطرہ اس حد تک زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلسل تین بار مختلف تعبیروں کے ساتھ اس سے آگاہ کیا ہے۔( استدراج - کیدی- املی لهم )

۱۲ ۔ اللہ تعالیٰ کا منصوبے اور اس کی تدبیریں ایسی ہیں کہ جنہیں کوء شکست نہیں دے سکتا۔( متین )

آیت ۱۸۴

( اَوَ لَمْ یَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍط اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ )

ترجمہ: آیا ان لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان کے ساتھی (پیغمر اسلام) کو کوئی دیوانگی اور جنون نہیں ہے۔ وہ تو بس آشکارا طور پر ڈرانے والا ہے۔

ایک نکتہ:

"جنہ" کے معنی ہیں "جنون" اور اس کا اصل معنی ہے "ڈھنپنا" گویا جب کجسی پر جنون طاری ہوتاق ہے تو اس کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ تہمت لگانا، جسارت اور گستاخی کرنا صاحبان فکر و اندیشہ کا کام نہیں ہوتا( اولم یتفکروا )

۲ ۔ پیغمبر اسلام لوگوں کا ساتھی یا باالفاظ دیگر ان کے ساتھ نشست و برخاست رکھنے ولای ہستی ہے۔ (اگر( نعوذ بالله ) دیوانے ہوتے تو یہ لوگ سالہا سال تک ان کے ہم نشین کیوں رہے؟( صاجهم )

۳ ۔ پیغمبر تو لوگوں کے ہم نشین اور دولت تھے، ان سے ہٹ کر اور کٹ کر کبھی نہیں رہے( صاحبهم )

۴ ۔ فاسد نظام میں ہمیشہ حق گو افراد کو مجنون کہاہی جاتا ہے۔

۵ ۔ تمام انبیاء کو ان کے مخالفین کی طرف سے جادو اور جنون کی تہمتوں کا سامنا ہمیشہ سے رہا ہے۔ ۶۰

۶ ۔ خطابت اور مخاطب شناسی کے فن میں یہ بات شامل ہے کہ غفلت کے شکار لوگوں کو ہمیشہ ڈرایا جاتا ہے، انہیں خوشخبری نہیں دی جاتی( ان هولانذیر )

۷ ۔ مغرور اور خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کے لئے صاف صاف اور دو ٹوک بات کہنی چاہئے۔( مبین )

آیت ۱۸۵

( اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْ ءٍ وَّ اَنْ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ قَدْ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ م بَعْدَه یُؤْمِنُوْنَ )

ترجمہ: آیا وہ آسمانوں اور زمین کے ملکوت (اور باطن) میں اور ہر اس چیز کے بارے میں خوب غور و فکر سے کام نہیں لیتے جسے خدا نے پیدا کیا ہے۔ (تاکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے میں یقینا کوئی مقصد کار فرما ہے اور ان کی تخلیق بے سود نہیں اور یہ کہ شاید ان کی موت نزدیک ہو چکی ہے؟ پس اس قدر روشن آیات کے بعد پھر کسی بات پر ایمان لے آئیں گے؟

ایک نکتہ:

"ملکوت" کا کلمہ "مُلک" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں حکومت اور مالکیت اور اس آیت میں یہ کلمہ عالم ہستی پر خداوند عالم کی حکومت مطلقہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔

پیام:

۱ ۔ نگاہ کو عمیق اور تفکر کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے تاکہ وہ کسی نتیجہ پر جا پہنچے ، اس کائنات کے باطنی نظام میں توجہ اور غور و فکر اور اس کا خالق کائنات کے رابطہ کے بارے میں عمیق سوچ سے کام لینا انسان کو خدا سے جا ملاتا ہے، توحید اور نبوت کو عقل و فکر کے ساتھ سمجھنا چاہئے، کسی کی تقلید نہیں کرنی چاہئے "اولم یتفکروا" سابقہ آیت میں اور( اولم ینظروا ) اسی آیت میں۔

۲ ۔ تشریعی نظام کے بغیر، تکوینی ظام نامکمل ہے( اولم ینظروا --- فبای حدیث )

۳ ۔ توحید، نبوت کا سرچشمہ اور پشت پناہ ہے۔ اور کائنات کے نظام میں غور و فکر کرے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اس نظام کو رہبر اور قائد کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا( اولم ینظروا--- فبای حدیث )

۴ ۔ اس جہان کا ظاہر جسم کی مانند اور باطن روح کی مثل ہے( ملکوت )

۵ ۔ نظام تخلیق کائنات میں کوئی بھی ذرہ بے مقصد اور بغیر فلسفہ کے نہیں ہے( من شیءٍ )

۶ ۔ انسانوں کی بہت سی بدبختیاں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ وہ موت کی یاد سے غافل ہو چکے ہوتے ہیں( عسی ان یکون قد اقترب اجلهم )

۷ ۔ موت کی یاد، بہت سی ہٹ درمیوں کے خاتمہ کا سبب ہوتی ہے۔ اور لوگوں کو فرصت سے استفادہ اور مرنے سے پہلے ایمان لانے کی دعوت دیتی ہے( قداقترب اجلهم )

۸ ۔ قرآن بہترین کتاب اور بہترین گفتگو ہے۔ اور اسے قبول نہ کرنے کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔( فبای حدیث بعده یوٴمنون )

آیت ۱۸۶

( مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهط وَ یَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ )

ترجمہ: جسے خداوند عالم (اس کے فق واعمال کی وجہ سے) گمراہی میں چھوڑ دے۔ اسے کوئی تقویت کرنے والا نہیں ہوتا اور انہیں ان کی سرکشی اور طغیان میں چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ سرگردان رہیں۔

پیام:

۱ ۔ جو لوگ انبیاء کرام کی تنبیہات پر کان نہیں دھرتے اور ان کے فرمودات کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے ان کی سزا یہ ہے کہ ہمیشہ خدائی قہر و غضب میں جکڑے رہیں اور اپنے حال میں مگن رہیں "فبای حدیث بعدہ یومنون۔۔۔" سابقہ آیت میں اور( یذرهم ) اسی آیت میں۔

۲ ۔ اضلال و ہدایت خدا کا کام ہے لیکن ان کے لئے اسباب کی فراہمی انسان کی نیت اور اس کے عمل میں مضمر ہے۔ جو اس بات کا موجب ہوتی ہے کہ انسان کا دل زنگ آلود وہ جاتا ہے اور ہدایت الہٰی اس کے شامل حال نہیں ہوتی( یضلل الله ) ۶۱

۳ ۔ طاغوت ہمیشہ ، سرگردان اور پریشان حال رہتا ہے( یعمهون )

۴ ۔ لوگوں کی سرکشی زبردستی نہیں ہوتی۔( طغیانهم )

آیت ۱۸۷

( یَسْئَلُوْنَکَ عَن السَّاعِةِ اَیَّانَ مُرْسٰهَاط قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ لَاْ یُجَلِّیْهَا لِوَ قْتِهَااِلَّا هُوَط ثَقُلَتْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط لَاْ تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَةًط یَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْهَاط قُلْ اِنَّمَا عِلْمَُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَاْ یَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ: (اے پیغمبر!) آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ ہر وقت برپا ہو گی؟ تو ااپ کہہ دیجئے کہ اس کا علم صرف میرے پروردگار کے پاس اور اس کے علاوہ کوئی اور اس کے وقت کو آشکار نہیں کر سکتا۔ قیامت کا آسمانوں اور زمین میں آنا بہت ہی سنگین ہو گا، اور یہ تمہاری پاس اچانک آن پہنچے گی۔ یہ لوگ آپ سے یوں سوال کرتے ہیں گویا آپ اس کی مکمل آگاہی رکھتے ہیں، کہہ دیجئے کہ اس کا علم اور صرف خدا کے پاس ہے لیکن بہت سارے لوگ اس چیز کو نہیں جانتے۔

چند نکات:

کفار قریش نے کچھ لوگوں کو یہودی علماء کے پاس بھیجا تاکہ اسن سے چند مشکل اور پچیدہ سوالات سیکھ کر آئیں اور پیغمبر اسلام سے جا کر پوچھیں اور وہ ان مشکل سوالوں کا جواب نہیں دے پائیں گے جس کی وجہ سے وہ (نعوذباللہ) مغلوب ہو کر شکست کھا جائیں گے، ان مشکل سوالات میں سے ایک قیامت کے واقع ہونے کے وقت کی تعین کے بارے میں بھی تھا۔

"ایان" زمانے کے بارے میں سوال ہے (یاد رہے لفظ "الساعة" قیامت کے شروع کے لئے بولا جاتا ہے اور "القیاة" سزا وجزا کے لئے حساب و کتا ب کے زمانے کو کہتے ہیں۔ لزیز "مراغی

"مُرسیٰ" ثابت اور واقع ہونے کے معنی میں ہے، "جبال راسیات" محکم اور استوار پہاڑوں کو کہا جاتا ہے۔

"حفی" کے معنی ہیں ہمیشہ جستجو میں لگا رہنے والا شخص، اور پیغمبر کا "حفی" ہونا اس معنی میں ہے کہ گویا آپ نے قیامت کے بارے میں خدا سے بار بار پوچھ کر اس کی مکمل طور پر تحقیق کر لی ہے اورپوری طرح آگاہ ہو چکے ہیں۔

آسمانوں اور زمین کے قیامت کی سنگینی شاید آسمانوں کے ایک دوسرے پر گرنے مختلف کرات کے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے سورج کے بے نور ہو جانے اور زمین کے اورپر تلے ہو جانے وغیرہ کی صورت میں ہو گی۔

پیام:

۱ ۔ خداوند عالم کے علاوہ کوئی بھی شخص قیامت کے واقع ہونے کے وقت کو نہیں جانتا ۔( انما علمها عندربی )

۲ ۔ وقت کا نہ جاننا انسان کی تربیت اور ہمہ وقت آمادہ رہنے کے لئے بہتر ہے۔

۳ ۔ قیامت، اچانک واقع ہو گی( بغتة ) ۶۲

۴ ۔ قیامت کی گھڑی بہت ہی سخت ہو گی حتی کہ آسمانوں اور زمین تک کے لئے بھی ، اللہ جانے انسان کا کیا حال ہو گا؟( ثقلت )

۵ ۔ "میں نہیں جانتا" کہنے سے نہ گھبراؤ، اس لئے کہ اس آیت میں پیغمبر خدا کے بارے میں بھی حکم کوئی خداوندی ہے کہ وہ کہیں "میں نہیں جانتا"( قل انما علمها عندربی )

۶ ۔ قیامت کے خصوصیات اور جزئیات کو نہ جاننے سے قیامت کے اصل عقیدہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی بھی شخص اپنی موت کے زمانے اور مکان کو نہیں جانتا لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ اصل موت کا ہی منکر ہے۔( انما علمها عندربی )

آیت ۱۸۸

( قُلْ لَاْ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعاً وَّ لَا ضَرًّ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُط وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْءُ اِنْ اَنَا اِلَّانَذِیْرٌ وَ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُوْمِنُوْنَ )

ترجمہ: (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ میں اپنے لئے کسی نفع نقصان کا مالک نہیں ہو مگر صرف اسی کا جو خداچاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا اپنے لئے بہت سے فوائد اکٹھے کر لیتا اور مجھے کبھی بھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں تو صرف لانے والوں کے لئے ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں،

پیام:

۱ ۔ کسی کا خبر کا خدا پر ایمان س قدر زیادہ ہو گا، خدا کی قدرت کے آگے اسی قدر اس کا سر زیادہ جھکا ہو گا، اور اپنے بارے میں اسی قدر زیادہ عجز و نیاز کا اظہار کرے گا( لااملک لنفسی ) ۔۔۔)

۲ ۔ ہر قسم کا نفع و نقصان خداوند عالم کے منشاء اور ارادے کے تحت ہی ہوتا ہے۔( الاماشاء الله )

۳ ۔ پیغمبر خدا اپنی طر ف سے اور اپنی نجی زندگی کے بارے میں غیب نہیں جانتے اگر غیب نہیں جانتے، اگر غیب کی خبریں انہیں عطا کی گئی ہیں تو وہ بھی پیغمبر خدا ہونے کے ناطے، اور وہ بھی خداوند متعال بھی ہی کی طرف سے۔( لوکنت ) ۔۔)

۴ ۔ پیغمبر عالیقدر ویسے تو تمام عالم انسانیت کے لئے بشیر و نذیر میں لیکن اس سے فائدہ صرف مومنین ہی حاصل کرتے ہیں( بشیر و نذیر لقوم یوٴمنون )

آیت ۱۸۹

( هُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ َنفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْکُنَ اِلَیْهَا فَلَمَّا تَغَشّٰهَا حُمِلَتْ حَمْلاً خَفِیْفاً فَمَرَّتْ بِه فَلَمَّا اَثْقَلَتْ دَعَوُا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحاً لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ )

ترجمہ: وہ وہی (خدا) ہے جس نے تمہیں ایک قفس جان سے پیدا کیا ہے اور اس کی زوجہ کو بھی اسی کی جنس سے قرار دیا تاکہ اس سے اسے سکون حاصل ہو۔ پس جب مرد اپنی بیوی کو آغوش میں ڈھانپ لیتا ہے (اور اس سے جنسی آمیزش کرتا ہے) تو عورت ہلکا بوجھ اٹھا لیتی ہے (اور حاملہ ہو جاتی ہے) اور ایک عرصے تک اسے اپنے ساتھ لئے پھرتی ہے، پس جب اس سے بوجھل ہو جاتی ہے تو زن و مرد دنوں خدا سے جو ان کا پروردگار ہے دعا کرتے ہیں (اور اس سے عہد کرتے ہیں) کہ اگر تو ہمیں نیک فرزند عطا فرمائے گا تو ہم شکر کرنے والوں میں سے ہوں گے۔

پیام:

۱ ۔ زن و مرد کا جوہر وجودی ایک ہی ہے۔( جعل منهازوجها )

۲ ۔ ازدواج یا شادی روح اور زندگی کے آرام و سکون کا موجب ہوتی ہے اور ازدواجی روحانی بے چینی کا سبب ہوتی ہے( یسکن الیها )

۳ ۔ زندگی انس و الفت کی بنیادوں پرت استوار ہے اختلاف اور انتشار ہر نہیں( یسکن الیها )

۴ ۔ جنسی مسائل کے بارے میں کنایہ کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔( تغشٰها )

۶ ۔ جنسی ملاپ صرف لذات اور شہوت کی تسکین کے لئے نہیں بلکہ نیک بلکہ نیک اور صالح نسل کی بقا اور دوم کے لئے ہوتا ہے۔( صالحا )

۷ ۔ انسان فطری طور پر اولادچ اور بقا کی طرف مائل ہوتا ہے۔( آتیتنا )

۸ ۔ جب تک انسان کابوجھ سنگین نہ ہو جائے اس وقت تک متوجہ نہیں ہوتا۔( فلما القلت دعوا ) ۔۔)

۹ ۔ مشکلات خدا کی طرف توجہ کا ذرعیہ اور روحانی اور معنوں کیفیت کے پیدا ہونے کا سبب ہوتی ہیں۔ حاملہ عورتیں چونکہ تقدیر الہی سے بے خبر اور اضطرابی کیفیت سے دو چارہوتی ہیں لہذا ان کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھا کر انہیں موعظہ اور نصیحت کی جا سکتی ہے۔ (از کتاب روانشناسی تبلیغی)

۱۰ ۔ انسان کی نفسیاتی کیفیت یہ ہے کہ وہ مجبوری کے وقت ہر طرح کا قول قرار دینے کے لئے تیار ہوتا ہے لیکن عام معمول کی حالت اور رفاہ وآسائش میں بے وفائی پر اُتر آتا ہے( لنکونن--- )

۱۱ ۔ فطری طور پر انسان صلاح و بہتری کا خواہاں ہوتا ہے فساد اور بے پرواہی کا نہیں۔ اسی لئے تو کہا ہے( صالحا ) اور "ولدا"نہیں کیا۔

۱۲ ۔ والدین اپنی اولاد کے انجام میں خود کو شریک سمجھتے ہیں( دعوا )

۱۳ ۔ شکم میں پروان چڑھنے والے بچے کسی نشوونما تدریجی ہوتی ہے تا کہ عورت میں اس کے اٹھانے کی آمادگی پائی جائے۔( خفیا، )

۱۴ ۔ اولاد کوخدا کا عطیہ سمجھو، اس میں اپنا کمال یا کسی اور کا عمل دخل نہ سمجھو۔( آتیتنا )

آیت۱۹۰، ۱۹۱

( فَلَمَّا اَتٰی هُمَا صَالِحاً جَعَلاً لَّه شُرَکَآءَ فِیْمَا اَتٰی هُمَا فَتَعٰلٰی اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَایَخْلُقُوْ شَیْئاً وَ هُمْ یَخْلُقُوْنَ )

ترجمہ۔ پس جونہی خد ا نے انہیں صالح فرزند عطا فرمایا تو وہ اس چیز میں خدا کا شریک ٹھہرانے لگے جو لطیف اور اولاد جیسی نعمت خدا نے انہیں عطا فرمائی تھی۔ یقینا اللہ تعالیٰ اس چیز سے بلند اور بالا تر ہے جس کو وہ خدا کا شریک جانتے ہیں۔

آیا وہ ان چیزوں کو خدا کا شریک جانتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتیں اور خود مخلوق ہیں؟!!

پیام

۱ ۔ اولاد کا تعلق ماں اور باپ دونوں سے ہوتا ہے( آتاهما )

۲ ۔ اللہ تعالیٰ تو نیک ‘صالح اور شائستہ اولاد ہمیں عطا فرماتا ہے یہ ہم ہوتے ہیں جو ان کی کجروی‘گمراہی اور بے لا پرواہی کا موجب بنتے ہیں( آتا هما صالحا )

۳ ۔ خدائی امانت کو دوسروں کے سپرد کرنا خیانت ہے۔( جعلاله شرکاء )

۴ ۔ انسان بہت جلد اپنے وعدے بھول جاتا ہے( جعلاله شرکاء )

۵ ۔ نا شکری ہو گی کہ انسان ایک چیز کسی سے لے اور کسی دوسرے کو دیدے ، یا اس کی مرضی کے خلاف اسے مصرف میں لے آئے۔( شرکاء فیما آتاهما )

۶ ۔ اولاد خُدا کا عطیہ ہے اسے کسی اور شخص ،چیزیا عمل کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا، اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مشکل وقیافے، ماں باپ کی غذا، معالج یا علاج اور اسپتال وغیرہ کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ایسا سمجھنا شرک ہے( شرکاء )

۷ ۔ بعض اوقات اولاد جیسی نعمت ، والدین کے لئے غفلت کا سبب بن جاتی ہے( فلما آتا هما--- )

۸ ۔ معبود ہونے کے سب سے اولین شرط اس کاتخلیق پر قدرت کا ملہ رکھنا ہے، تعجب کی بات ہے کہ آج کے ترقی یافتہ اور علم وصنعت کے دور میں بھی لاکھوں کروڑوں افراد بت پرستی کرتے ہیں( ایشرکون مالا یخلق ) ۶۳

قرآن مجید کا یہ خطاب ہر دور کے لوگوں کے لئے ہے۔

آیت۱۹۲۔ ۱۹۳

( وَلَاْ یَسْتَطِیْعُوْنَ لَهُمْ نَصْراً وَلَا اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلٰی الْهُدٰی لَا یَتْبَعُوْکُمْط سَوَآءٌ عَلَیْکُمْ اَدْعَوْتُمُوْ هُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (ان کے یہ معبود)ان لوگوں کی مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، حتی کہ وہ تو اپنی نصرت و حمایت بھی نہیں کر سکتے۔

اور اگر تم ان(معبودوں)کو ہدایت کے لئے بلاؤ تو وہ تمہاری التجا نہیں کریں گے تمہارے لئے برابر ہے کہ تم انہیں بلاؤ یا خاموش رہو۔ ۶۴

ایک نکتہ

ہو سکتا ہے کہ"( وان تدعو هم الی الهدی ) "کا ایک معنی یہ بھی ہو کہ اگرتم ان سے یہ درخواست کرو کہ ہو تمہاری رہنمائی کریں تو وہ اس کا جواب تک نہیں دیں گے۔

پیام

۱ ۔ جومعبود نہ تو دوسروں کی امداد کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنا دفاع کر سکتے ہیں پھر ان کی پرستش کیسی؟( ولا یستطیعون--- )

آیت ۱۵۶

( وَاکْتُبْ لَنَا فِی هٰذِه الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هَدٰنَا اِلَیْکَط قَالَ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِِه مَنْ اَشَآءُ وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَ کْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُوْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُوْمِنُوْنَ )

ترجمہ: اور (خدا وندا!) تو ہمارے لئے اس دنیا میں اور آخرت میں خیر اور نیکی مقرر فرما اس لئے کرم تیری طرف لوٹ آئے ہیں اور توبہ کر لی ہے۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: میں اپنا عذاب جسے چاہوں (اور وہ مستحق بھی ہو) پہنچاؤں گا، اور ہر رحمت ہر چیز پر چھائی ہے۔ اور میں بہت جلد اپنی اس رحمت کو ان لوگوں کے لئے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ، زکٰوة ادا کرتے اور ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔

چند نکات:

حضرت موسٰی کی سابقہ دعاؤں کے ساتھ اس درخواست کا بھی تعلق ہے۔

"حدنا" کے لفظ کے ساتھ ان لوگوں کی توبہ کی طرف اشارہ ہے جو منحرف ہو گئے تھے اور خدا کے دیدار کا ناجائز مطالبہ کیا تھا۔

پیام:

۱ ۔ بہترین قدم اور بہترین کام، پائیدار اور دائمی ہو( واکتب )

۲ ۔ بہترین دعا وہ ہے جو سب سے زیادہ جامع ہو( دنیا و آخرت )

۳ ۔ خالص دل کے ساتھ خدا کی طرف بازگشت خدائی الطاف و کرم کے حصول کی راہ ہے۔( هدنا )

۴ ۔ خدا کی رحمت بے حدو حساب ہے، اگر کوئی اس تک نہیں پہنچ پاتا تو اس کی اپنی کوتاہی ہے۔( رحمتی وسعت )

۵ ۔ رحمت خداوندی لب خیز پر حاوی ہے لیکن عذاب الہٰی ایسا نہیں ہے( عذاب بي اصب به ) ۔۔)

۶ ۔ خدا کای رحمت کی بے انتہا اور لامحدود ہے لیکن اس سے ناگدہ اٹھانے کی شرط یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کہا جائے، زکوٰة اداؤں جائے اور ایمان رکھا جائے( یتقون - الزکٰوه- یومنون )

۷ ۔ خداوند عالم کی رحمت اس دنیا میں سب کے شامل حال ہے (وسعت) لیکن آخرات میں اس سے صرف ایک خاص گروہ ہی فائدہ اٹھائے گا( ساکتبها للذین ) ۔۔)

آیت ۱۵۷

( اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیِّ الْاُ مِّیِّ الِّذِیْ یَجِدُوْنَه مَکْتُوْباً عِنْدَ هُمْ فِیْ التَّوْرٰةِ وَ الْاِنْجِیْلَ یَاْ مُرُهُمْْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یَحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْْْهِمُ الْخَبٰئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَ هُمْ وَالْاَ غْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِه وَ عَزَّرُوْه وَ نْصُرُوْهُ وَ اتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ اَنْزَلَ مَعَه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ )

ترجمہ: جو لوگ اس رسول اور پیغمبر کی اتباع کرتے ہیں جس نے دنیا میں کسی سے کوئی سبق نہیں پڑھا ۔ کہ جس (کے نام و نشان) کو وہ لوگ اپنے پاس موجود تو رات دا نبھل میں لکھا ہوا ہیں (ایسا پیغمبر ہے) جو انہیں نیک کاموں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے، اور جو پاک و پاکیزہ چیزیں ہیں ان کے لئے حلال کرتا ہے اور جو بلند اور خبیث چیزیں ہیں ان پر حرام کرتا ہے، اور ان سے بوجھ ہلکا کرتا ہے اور ان پر پڑے ہوئے پھندے ان سے ہٹا دیتا ہے۔ پس جو لوگ ایمان لے آئیں گے اور اس کا احترام کریں گے اور اس (قرآن اور) نور کی اتباع کریں گے جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

چند نکات:

"اُمّی" ایسا کلمہ ہے جو "اُم" کی طرف منسوب ہے، اور اُمیّ اس شخص کو کہتے ہیں جس نے کسی سے کوئی سبق نہ پڑھا ہو، اور بالکل ایسے ہو جیسے شکم مادر سے متولد ہوا ہو۔

بعض حضرات کہتے ہیں "امی" اس شخص کو کہتے ہیں جو "امت" یعنی عوام الناس سے تعلق رکھتا ہو طبقہ اشرافیہ سے اس کا تعلق نہ ہو۔

جبکہ کچھ اور لوگ اسے "ام القری" یعنی مکہ کی طرف منسوب سمجھتے ہیں یعنی "مکہ والا"

"ہم اگرچہ بعض وجوہات کی بناء پر توریت اور انجیل کو تحریف شدہ سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں تحریف شدہ کتابوں میں حضرت پیغمبر کی ذات سے متعقل کئی ارشادات اور بشارتیں موجود ہیں۔ اور یہ اس بات کا سبب تھے کہ اہل کتاب آنحضرت کی معرفت حاسل کریں اور آپ کو ایسے پہچانیں جیسے باپ اور اپنی اولاد کو پہچناتا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:

توریت بمفر تکوین (پیدائش) فصل ۱۷ نمبر ۱۸ ، سفر پیدائش (تکفدین) باب ۴۹ نمبر ۱۰ ،

انجیل: یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۵ آیت ۲۶ ۔

بوقت بعثت مکہ مکرمہ میں کل ۱۷ مرد اور ایک عورت تعلیم یافتہ تھے۔ اور اگر آنحضرت نے کسی شخص سے ایک حرف بھی پڑھا ہوتا تو کبھی بھی اپنے ااپ کو "امی" (کسی سے سبق نہ پڑھا ہوا) کے عنوان سے متعارف نہ کراتے۔

(ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ منقول از فتوح البلان بلاذری نمبر ۴۰۹)

"اغلال" باطل عقائد، خرافات، بت پرستی، باپ دادا کی اندھی تقلید کے بندھنوں اور زنجیروں کو کہتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ اسلام کا جلیل القدر اور عظیم رسول "امّی" یعنی کسی سے سبق پڑھا ہوا نہیں تھا( الامی ) ۴۷

۲ ۔ بات کو پکا کرنے اورحق کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسمی اور تحریر سند ہو( مکتوبا )

۳ ۔ اپنے بعد آنے والے رہبر اور قائد کے بارے میں خبر دینا اور اس کی تفصیل بیان کرنا قیادت اور رہبری کے فرائض میں شامل ہے۔( مکتوباعندهم فی التوراة )

۴ ۔ بہتر یہی ہے کہ ہر آنے والا مبلغ اپنے بعد آنے ولاے مبلغ کے لئے راہ ہموار کرے

( فی التوراة والانجیل)

۵ ۔ اگر تورات اور انجیل میں پیغمبر اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا تو مخالفین کے لئے بڑ ا آسان سی بات تھی کہ وہ دونوں کتابیں لے آتے اور کہتے کہاں ہے وہ سب کچھ جس کا تم دعویٰ کرتے ہو؟ اور مخالف کو شکست دینے کا یہ بہترین ذریعہ تھا، نہ لشک رکشی کی ضرورت تھی اور نہ ہی اس قدر سرمایہ خرچ کرنے کی، جس سے معلوم ہوتا ہے ان کتابوں میں وہ سب کچھ تھا جس کا قرآن کہتا ہے۔( یجدونه )

۶ ۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء عظام علیہم السلام کے تبلیغی پروگراموں میں سرفہرست ہے۔( یامرهم بالمعروف )

۷ ۔ غذا کے بارے میں اسلام کی خاص توجہ رہی ہے۔( یحرم- یحل )

۸ ۔ خدا کی حلال اور حرام کردہ چیزیں فطرت کی بنیاد پر ہیں۔( طیبات - خبائث )

۹ ۔ غلط عادات و یوم عوام الناس کے گلے کا زنجیر ہوتی ہیں اور انبیاء و اولیاء اللہ کے علاوہ باقی سب دنیا ان زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔( اصرهم )

۱۰ ۔ تبلیغ اور تربیت کا اصل انداز یہی ہے کہ پہلے سہولیات فراہم کی جائین پھر قدغن کا سوچا جائے۔ (یحرم سے پہلے "یجل" ہے)

۱۱ ۔ صرف پیغمبر کی ذات پر ایمان ہی کافی نہیں ان کی حمایت اور عزتے و توقیر بھی لازم ہے۔( عزروه- نصروه )

۱۲ ۔ عزت و احترام اور توقیر ، نصرت، تعاون اور امداد کے ساتھ ہونا چاہئے، ورنہ نفاق ہو گا۔( عزروه، نصروه )

۱۳ ۔ قرآن ایک ایسا نور ہے جو دل و دماغ کا منور کر دیتا ہے۔( النور )

۱۴ ۔ پیغمبر السلام کا احترام اور ان کی نصرت، ان پر ایمان کی مانند کسی خاص زبان یا مکان کے ساتھ متعلق نہیں ہے ہر زمانے اور ہر مکان میں ان کا احترام اور ان کی نصرت فرض ہے، لہٰذا آنحضرت کی قبر مطہر اور آچار باقیہ کا احترام بھی آپ کی نصرت و تکریم کے زمرے میں آتا ہے۔( عزروه )

آیت ۱۵۸

( قُلْ یٰاَ یُّهَا النَّاسُ اِنِّی رَسُوْلَ اللّٰهِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً نِ الَّذِیْ لَه مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیِ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلَهِ النَّبِیِّ اْْلاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ کَلِمٰتِه وَ اتَّبِعُوْْهُ لَعَلَّکُمْْ تَهْتَدُوْنَ )

ترجمہ: (اے پیغمبر!) کہہ دیجئے اے لوگو! میں تم سب لوگوں کی طرف خدا کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین پر جس کی حکومت ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ پس تم بھی خدا اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ جو کسی سے سبق نہ پڑھا ہوا پیغمبر ہے جو (خود بھی) خدا اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے۔ اور اسی کی اتباع کرو شاید کہ تم ہدایت پا جاؤ۔

چند نکات:

بعض متشرقین (یا اسلام شناس) حضرات یہ کہتے ہیں کہ: پیغمبر اسلام اپنے "علاقہ" کے لوگوں کی ہدایت کی فکر میں تھے، لیکن جب انہیں کامیابی حاصل ہو گئی تو پھر "عالمین" کی ہادیت کی فکر لے کر آگے بڑھے"

حالانکہ بات وہ نہیں ہے جو یہ لوگ کہتے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات میں ’جمیعا" "کافةٰ" "للعالمین" "ومن بَلغ" وغیرہ جیسے کلمات حضرت رسول خدا کی آفاقی اور عالمی رسالت کو بیان کر رہے ہیں، اور مکہ میں بھی اور کامیابی حاصل کرنے سے پہلے بھی آپ تمام کائنات کے رسول تھے نہ یہ کہ بعد میں اس بارے میں سوچا۔

حضرت امام حسن مجتبیٰ فرماتے ہیں کہ یہودیوں کا ایک گروہ پیغمبر خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: "آپ سمجھتے ہیں کہ حضرت موسٰی کی طرح اللہ کے رسول ہیں؟ "یہ سن کر آنحضرت نے قدرے سکوت اختیار فرمایا اور کہا: "جی ہاں! میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور اس پر میرے لئے فخر کی کوئی بات نہیں! میں ہوں خاتم الانبیاء پرہیزگاروں کا پیشوا اور رب العالمین کا رسول!"

انہوں نے پھر سوال کیا: "آپ کن لوگوں کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں، عرب کی طرف ، عجم کی طرف یا ہماری طرف؟ "جس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی میں سب کی طرف بھیجا گیا ہو خواہ عرب ہوں یا عجم یا تم لوگ! (تفیسر صافی)

لفظ "امی" کا تکرار مسئلہ کی اہمیت پر دلالت کر رہا ہے۔

پیام:

۱ ۔ حضرت محمد مصطفی کی رسالت آفاقی اور عالمی ہے۔( الیکم جمیعا ) ۴۷ اس لئے عالمی مذہب کے لئے عالمی قائد اور رہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ آپ جناب کی عالمی رسالت بھی دوسرے تمام منصوبوں کی مانند مرحلہ وار آگے بڑھتی رہی ابتدا میں ذوالعشیرہ کی دعوت ، پھر ام القریٰ (مکہ) کے لوگ اس کے بعد دوسری دنیا۔

۲ ۔ نبوت ، توحید اور معاد کا لازمی حصہ ہے، کیونکہ خداوند وحدہ لاشریک تمام کائنات کا مالک ہے، موت اور زندگی بھی اسی کے ہاتھوں میں ہے لہٰذا عالم انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت بھی اسی کی طرف سے ہونی چاہئے۔( فامنوا بالله و رسوله النبی الامن الذی )

۳ ۔ رہبر اور قائد کو اپنی راہ پر ایمان کامل رکھنا ہوتا ہے۔( یوٴمن بالله وکلماته )

۴ ۔ خدا اور رسول پر ایمان اور رسول خدا کی اتباع ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اور پہلو پہلو ہونا بھی ہدایت اور رہنمائی کی دلیل ہے۔( آمنوا بالله ورسوله -- واتبعوه لعلکم )

۵ ۔ قرآن مجید اور حضرت رسول خدا کی سنت و سیرت کی اتباع ضرور ہے۔ (سابقہ آیت میں نور کی اتباع کا تذکرہ تھا اور اس آیت میں پیغمبر خدا کی پیروری کا ذکر ہے)

سورہ اعراف آیت ۱۵۹

( ومِنْ قَوْمِ مُوْسٰی اُمَّة ٌیَّهْدُوْنَ بِالْْحَقِّ وَ بِه یَعْدِلُوْنَ )

ترجمہ: اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ کے لوگ حق کی طرف ہدایت کرتے اور حق و عدالت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

چند نکات:

حق کی ہدایت ، عدم تعصب کی دلیل اور حق شناسی اور حق کی اتباع کی دلیل ہے اور اس حق پرست گروہ کا ضدی مزاج اور ہت دھرم یہودیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس گروہ سے مراد شاید وہ یہودی مراد ہوں جنہوں نے پیغمبر اسلام کی دعوت پر لبیک کہا:۔

پیام:

۱ ۔ اقلیتوں کے ساتھ تعلق کے سلسلے میں انصاف سے کام نہیں چاہئے۔ اور خدمات اور کمالات کو نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے۔

آیت ۱۶۰

( وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطاً اُمَماًط وَ اَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اِذِاسْتَسْقٰهُ قَوْمُهٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْناًط قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُْمْط وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْناَ عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰیط کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْط وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْْ کَانُوْا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ )

ترجمہ:

اور ہم نے موسیٰ کی قوم کو بارہ حصوں میں تقسیم کر دیا تاکہ ان میں سے ہر ایک (بنی اسرائیل کے خاندان سے اور) ایک امت جب موسیٰ سے اس کی قوم نے پانی طلب کیا (تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی) اپنے عصا کو پتھر پر مارو۔ پس اس پتھر سے پارہ چشمے پھوٹ اٹھے (اور ہر طرف بہنے لگے اور وہ بھی اسطرح کہ) ہر گروہ نے اپنے حصے کے پانی کو اچھی طرح کی غزاؤں من اور سلویٰ کو نازل کیا۔ (اور انہیں کہا) پاک و پاکیزہ روزی جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اس سے کھاؤ۔ ان لوگوں نے (اپنی نافرمانی کی وجہ سے) ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔

چند نکات:

"اسباط" جمع ہے "سبط" کی اور سبط اولاد ، نورسوں اور ایک خاندان کے افراد کو کہا جاتا ہے اور بنی اسرائیل کی اس پر ایک خاندان ی شاخ کو "سبط" کہا جاتا ہے جو اولاد یعقوب میں سے ایک فرزند کی طرف سے پروان چڑھی۔ اور آگے بڑھی۔

"من" شہد کی مانند ایک شیرہ دار غذا کو اور "سلویٰ" بٹیرے کی مانند ایک حلال پرندے کو کہا جاتا ہے۔

"بارہٰ" کا عدد سال کے مہیوں کا، بنی اسرائیل کے نقیبوں کا، پانی کے چشموں کا اور پیغمبر اسلام کے مقدس اور معصوم جانشینوں کا عدد ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے اپنے جانشینوں کی تعداد بنی اسرائیل کے نشینوں کی تعداد کے مطابق بارہ بتائی ہے اور یہ بھی کہ وہ اب قریش سے ہوں گے۔ لیکن دشمنان اہلبیت اصبار نے بڑی کوشش کی ہے کہ یہ تعداد بنی امیہ یا بنی عباس کے خلیفوں سے پوری کجی جائے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ حضرت پیغمبر کی مذکور حیثیت کو بیٹیوں اسناد کے شیعہ اور سنی مورثین نے نقل کیا ہے۔

ایک ہی وقت میں کئی معجزے رونما ہوئے۔ پتھر پہ عصاکا مارنا ، پانی کا بری مقدار میں پھوٹ کر بہہ نکلنا اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی تعداد بارہ چشموں کا پھوٹنا وغیرہ۔

پیام:

۱ ۔ کسی اہم معاملے کو چلانے اور امور میں سہولت پیدا کرنے کے لئے منصوبہ بندی اور منصفانہ تقسیم بہت ضروری ہوتی ہے۔( قطعنا هم )

۲ ۔ لوگ اپنی مادی اور اقتصادی ضروریات بھی انبیاء کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے( استقاه )

۳ ۔ وسیلہ کی زیادہ اہمیت ،اہمیت ارادہ الہٰی کو حاصل ہے، کہ بعض اوقات لکڑی کا ایک ڈنڈا پر جگہ الہٰی ارادے کے تحت مشکل کشائی کا کام کرتا ہے( بعصاک )

۴ ۔ اگر ہر گروہ کو معلوم ہو جائے کہ اس نے کہاں مراحہ کرنا ہے تو بہت سی اجتماعی اور معاشرتی مشکلات حل ہو جائیں( قدعلم کل اناس مشربهم ) ۴۸

۵ ۔ اگر مقصد تربیت کجرنا ہو تو ایک موضوع کے تکرار میں کوئی حرج نہیں ہے (یہی تذکرہ سورہ بقرہ کی آیت ۵۶ کے بعد میں بھی موجود ہے۔)

۶ ۔ حضرت موسٰی کے عصا کی ایک خیریت سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ، لیکن ان تمام معجزات کے باوجود نااہل لوگوں کے دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔

۷ ۔ لوگوں کے اندر آگاہی اور علم و معرفت پیدا کرو کہ وہ خود ہی عمل کریں۔( قدعلم کل اناس مشربهم ) فرمایا ہے۔ "قد شرب" نہیں فرمایا۔

۸ ۔ طلب کے بعد اس کی قدوقیمت زیادہ ہوتی ہے۔ ۰( استیقاه، اضرب بعصاک )

۹ ۔ تمام بارہ گروہوں کا تعلق ایک خاندا سے تھا۔( قطعنا ) فرامایا ہے "جعلنا" انہیں فرمایا۔

۱۰ ۔ اگر مقصد میں وحدت اور اتفاق و اعاد موجود رہے تو گروہ گروہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔( قطعنا )

۱۱ ۔ انسانی جسم کو تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، پانی، ایسی غذا جس سے جسم پروان چڑھے اور ایسی غزا جس سے انرجی اور طاقت پیدا ہو، چنانچہ بنی اسرائیل کے لئے چشمہ اب سیراب ہونے کے لئے تھا "من" طاقت اور انرجی کے لئے اور "سلویٰ" جسمانی نشوونما کے واسطے اس لئے کہ گوشت اور وہ بھی خصوصی طور پر پرندوں کے سفید گوشت میں پروٹین ہوتے ہیں۔)

۱۲ ۔ بادلوں کی حرکت و پیدائش، ان کا اپنا کام انجام دینا سب ارادہ الہٰی کا مظہر تھے۔

۱۳ ۔ ناشکری یا کفران نعمت ، نعمتوں کے منقطع ہو جانے کا سبب ہوتاہے جس کا نقصان ناشکروں کو پہنچتا ہے۔

۱۴ ۔ جو لوگ یہی ہدایت اور معنویت کے راہوں کے لئے مادی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں وہ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اور اقوام و ملل کی پستی اور ان کا سقوط ایسے لوگوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے( کانو انفسهم یظلمون )

آیت ۱۶۱

( و اِذْ قِیْلَ لَهُمْ اسْْکُنُوْْْا هٰذِه الْقَرْیَةَ وَکُلُوْا مِنْهَا حَیْْثُ شِئْْتُمْ وَقُوْلُوْْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوْْا الْبَابَ سَُجَّداً نَّغْْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْط سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ )

ترجمہ: اور (یاد کرو ابھی وقت کو) جب ان (بنی اسرائیل) سے کہا گیا کہ اس آبادی (بیت المقدس) میں سکونت اختیار کرو اور اس (کی نعمتوں) سے جہاں اور جیسے چاہے کھاؤ۔ (ان تمام حیلوں بہانوں اور موسیٰ کو ستانے کے بدلے استغفار کے طور پر) کہو "حصٰہ (ہمارے گناہوں کو جھاڑ دے) اور (بیت المقدس کے) دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ، اس سے ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے۔ اور نیک لوگوں کو بہت جلد بیشتر جئزا دیں گے۔

چند نکات:

"حِطہ" کا لفظ اورپر سے نیچے کی طرف نازل ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ (منحط اور انحطاط کا بھی اسی سے تعلق ہے) اور اس کا معنی ہے خداوند عالم کی عفو اور رحمت کی درخواست کرنا۔ اور اس بارے حکم خداوندی یہ تھا کہ جب بنی اسرائیل سرزمین بیت المقدس داخل ہوں تو اس لفظ (حصٰہ) کے ساتھ خدائے مغفرت مانگیں۔ (لیکن ان لوگوں نے اس لفظ کامذاق اڑایا اور اسے بگاڑ کر رکھ دیا۔

اس آیت سے ملتی جلتی البتہ قدرے تغاوت کے ساتھ سورہ بقرہ کی ۵۸ ویں اور ۸۹ ویں آیات ہیں۔

روایات میں ہے کہ حضرت ائمہ اظہار علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ "نحن باب حطتکم" یعنی ہم ہی تمہاری خطاؤں کی معافی کا دروازہ ہیں۔ یعنی اگر تم ہماری حکومت اور ولایت کے مدار میں داخل ہو جاؤ گے تو خداوند عالم کی رحمت اور بخشش تمہارے شامل حال ہو گی۔

پیام:

۱ ۔ خداوند عالم انسان کی تمام امدی و معنوی اور دنیوی اور اخروی ضروریات کو پیدا کرتا ہے اور روٹی کپڑا اور مکان جیسی نعمتوں سے استفادہ کے لئے حکم دیتا ہے کہ دعا، استغفار اور سبھی کریں۔

۲ ۔ اللہ تعالیٰ ایک ہی معذرت خواہی اور خالص دل کے ساتھ توبہ کے ذریعہ بہت سے گناہ بخش دیتا ہے۔( نغفرلکم خطیئاتکم ) ۴۹

۳ ۔ مقامات مقدسہ میں داخل ہونے کے خصوصی آداب و شرائط ہوتے ہیں( وادخلو الباب سجدا )

۴ ۔ خدا وند عالم کی عفوومغفرت کے لئے دعا بھی ضروری ہے اع عمل بھی لازمی ہے( قولوا حطة وا دخلوا الباب )

۵ ۔ نیکوکاروں اور بدکاروں کے درمیان کوئی فرق ہونا چاہئے۔ جب گناہگاروں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو نیک لوگوں کو درجات میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔( سنزید المحسنین )

آیت ۱۶۲

( فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَالَّّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَآءْ بِمَا کَانُوْا یَظْلِمُوْنَ )

ترجمہ: پس ان (بنی اسرائیل) میں سے ظالم لوگوں نے اس بات کو جو انہیں کہنا چاہئے تھی اس کے علاوہ میں تبدیل کر دیا، پس ہم نے بھی ان کے ظلم کرنے کی وجہ سے ان پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔

چند نکات:

تحریف اور تبدیلی کبھی تو واضح اور آشکارا ہوتی ہے جیسے کسی لفظ کو تبدیل کر دینا، اور کبھی لفظ کی ظاہری صورت کو تو برقرار رکھا جاتا ہے لیکن اس کو روح موضوع اور مفہوم کو تبدیل کر دیا جاتاہے۔ جیسے بنی اسرائیل کو سینچر کے دن مچھلی کے شکار کا حیلہ، (کہ اس کا تذکرہ اگلی آیت میں ہو گا)

قرآن مجید قانون الہٰی میں تین طرح کی تبدیلیوں کو بیان فرماتا ہے۔

۱ ۔ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر کسی بات میں تحریف و تبدیلی ۔ جیسے لفظ "حطة" (عفوومغفرت کی درخواست) کی بجائے "حنطة" (گندم) کہنا۔

۲ ۔ بدنیتی پر مشتمل فریبکاری سے کام لے کر کوء تبدیلی کونا، جیسے بنی اسرائیل نے دریا کے ساحل پر کچھ حوض بنا لئے تھے کہ سنیچر کے دن ان میں مچھلیاں جمع ہو جایا کرتی تھیں اور اس کے دوسرے دن (اتوار) کو شکار کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم سے سینچر کے دن شکار نہیں کیا۔ قرآن مقدس میں ارشاد ہوتا ہے "( ولقد علمتم الذین اعتدوامنکم فی السبت ) " اور اپنی قوم سے ان لوگوں کی حالت تو تم بخوبی جانتے ہو جو سینچر کے دن اپنی حد سے گزر گئے۔ (بقرہ / ۶۵)

۳ ۔ روشن فکری پر مشتمل تبدیلی، جیسے زمانہ جاہلیت میں جنگ کو جاری رکھنے کے لئے حرمت والے چار مہینوں میں موقوف کر دیں، لہٰذا ان مہینوں میں ردوبدل کر کے آگے کر دیا کرتے تھے جس پر یہ آیت نازل ہوا: "( انما النسئی زیارة فی الکفر ) " یعنی مہینوں کا آگے پیچھے کرنا کفر ہی کی زیادتی ہے۔ (عموبر / ۳۷)

پیام:

۱ ۔ احکام خداوندی میں ردوبدل اور تحریف و تبدیلی کی سزا خدائی قہر و غضب ہے۔( رجزا من السمآء )

۲ ۔ ہٹ دھرمی اور ضد اور وہ بھی مسخرہ بازی پر مبنی ایک ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں ہو سکتا( رجزامن سما )

۳ ۔ انسان کا انجام اس کے اپنے ہاتھ میں ہے اور عذاب، ظلم کا نتیجہ ہوتا ہے۔

آیت ۱۶۳

( وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِم اِذْ یَعْدُوْنَ فِیْ السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَا نُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرْعاً وَّ یَوْمَ لَایَسْْبِتُوْنَ لَا تَاْتِیْهِمْ کَذٰلِکَ نَبْلُوْ هُمْْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْْنَ )

ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) ان سے اس آبادی کے بارے میں پوچھئے جو دریا کے کنارے تھے؟ جب وہ (قانون اور) شنبہ کے دن کے بارے میں تجاوز کیا کرتے تھے، جب انکے چھٹی (سینچر) کے دن مچھلیاں بڑی تعداد میں دریا کے کنارے پانی کے اوپر آ جا یا کرتی تھیں۔ اور (دوسرے ایام میں) جب وہ چھٹی نہیں کرتے تھے وہ مچھلیاں بھی ظاہر نہیں ہوا کرتی تھیں اسی طرح ہم ان کے تجاوز اورفسق کی وجہ سے آزمایا کرتے تھے۔

ایک نکتہ:

بنی اسرائیل کا یہ گروہ ساحل سمندر (زیادہ امکان یہی ہے کہ بحیرہ احمر کے کنارے فلسطین کی اس سرزمین میں جسے آج بند ر ایلات کہا جاتاہے) رہا کرتا تھا۔ حکم خداوندی کے مطابق ان کے لئے شنبہ (سینچر) کے دن شکار ممنوع تھا، لیکن اسی دن مچھلیان دوسرے ایام کی نسبت زیادہ جلوہ گری کیا کرتی تھیں جس سے ان لوگوں کے منہ میں پانی بھر آتا، اور یہ ایک خدائی آزمائش تھی۔ اور اس قوم نے مختلف چالیں چل کر قوانین الہٰی کی خلاف ورزی کی اور وہ یوں کہ سمندر کنارے چھوٹے چھوٹے حوض بنا لئے اور ان میں مچھلیوں کے نکلنے کے راستے بند کر دئیے سینچر کے دن جب ان میں سے وافر مقدار میں مچھلیاں آ جایا کرتی تھیں۔ تو باہر نہیں نکل جاتی تھیں اسی لئے وہ اتوار کے دن بڑے آرام سے انہیں پکڑتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم نے حکم الہٰی کے تحت ان کا سینچر کا دن شکار نہیں کیا۔

پیام:

۱ ۔ اسلاف کی قانون شکنی آنے والی نسلوں کو بھی شرمندہ کرتی ہے۔( واسئلهم )

۲ ۔ اسلاف کی بری عادات کا تذکرہ کہ جن کی وجہ سے انہیں تنبیہ کی گئی ہو اگر دوسروں کی عبرت کے لئے نقل کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔( عن القریة التی )

۳ ۔ گناہ کے چہرے پر شرعی پردہ ڈال کر اسے شرعی حیثیت دینا سخت قابل مذمت ہے ۔۵۰

(جس طرح کہ بنی اسرائیل نے اتوار کے دن شکار کے لئے سمندر کے کنارے حوض بنائے اور سینچر کے دن ان میں مچھلیوں کو اکٹھا کر لیا کرتے تھے)

۴ ۔ ماہی گیری کے ذریعہ گزر اوقات کا سلسلہ اور ساحل نشینی کی زندگی قدیم الایام سے چلی آ رہی ہے۔

۵ ۔ چھٹی اور عبادت کے دن کاروبار کرنا ایک طرح کا تجاوز ہے۔( یعدون فی السبت )

۶ ۔ سمندر کی مچھلیاں بھی حکم الہٰی کے تحت سینچر کے دن کی اور انسانی افراد کی قدرت تشخیص پیدا کر چکی تھیں۔( تاتیهم- لاتا تیهم )

۷ ۔ اگرچہ خداوند عالم نے مچھلیوں کو لوگوں کے استفادے کے لئے خلق فرمایا ہے لیکن ہفتے میں ایک دن ان کے شکار سے منع کر کے ان لوگوں کی آزمائش کی ہے۔( حتیانهم )

۸ ۔ حرمت کا ہر حکم ضروری نہیں کہ طبی خصوصیت کا حاصل بھی ہو، سینچر کے دن کی مچھلیوں میں اور دوسری مچھلیوں میں پروٹین کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں تھا، البتہ کسی اور دلیل کے ساتھ ان کا شکار حرام کیا گیا تھا۔

۹ ۔ دنیوی اورمادی جلوے بھی خدا کی آزمائش ہوا کرتے ہیں۔ (ن( بلوهم )

۱۰ ۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ بھی ایسے مقامات پر انسان کا امتحان لیتا ہے جہاں کے انسانی خواہشات اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔( تاتیهم حیتا نهم ) ۵۱

آیت ۱۶۴

( وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْْ لِمَا تَعِظُوْنَ قَوْماَ نِ اللّٰهُ مُهْلِکُهُمْ اَوْمُعَذَّبُهُمْْ عَذَاباً شَدِیْْداًط قَالُوْا مَعْذِرَةًاِلٰی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْْنَ )

ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو، جب ان (بنی اسرائیل) میں سے ایک گروہ نے (دوسرے گروہ سے جونہی عن المنکر کر رہا تھا، ہے) کہا: تم ایسے لوگوں کو کس لئے نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ یا تو ہلاک کرنے والا ہے یا پھر سخت عذاب دینے والا ہے؟ تو انہوں نے جوا بدیا: اس لئے کہ تمہارے پروردگار کے پاس ہمارا عذر موجود ہو اور تاکہ شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کر لیں۔

ایک نکتہ:

معلوم ایسے ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے تین گروہ تھے۔ ۱ ۔ قانونی شکن اکثریت میں مشتمل گروہ۔ ۲ ۔ دلسوز اور ناصح گروہ اور ۳ ۔ لاغرض اور بے پرمالہ گوہ ، یہ تیرا گروہ دوسرے گروہ کے افراد سے کہتا تھا، اپنے آپ کو بے فائدہ پریشان نہ رکو، کیونکہ تمہاری باتوں کا ان فاسق لوگوں پر اثر نہیں ہوتا وہ تو میں ہی ہر حال میں جہنمی ۔ لیکن مبلغین کہتے تھے کہ ہماری باتیں اگر نہیں ہیں کم از کم ہم تو خدا کے حوجر اپنا عذر پیش کر سکیں گے۔ جی ہاں! عام طور پر ہر معاشرے کے لوگ اسی قسم کے تین گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

سورہ مرسلات کی چھٹی آیت میں ہے۔ "فالملقیات ذکرا۔ عذرا اور نذرا" یعنی ان لوگوں کی قسم جو ذکر خداوندی دوسرے لوگوں کو القاء کرتے ہیں خواہ اتمام حجت کے طور پر انہیں خبردار کرنے کے واسطے ۔

پیام:

۱ ۔ نہی عن المنکر، اتمام حجت کے لئے اور خدا کے نزدیک عذر پیش کرنے کے لئے لازم ہے۔( معذرة )

(ہم اپنے فریضہ پر عمل کرنے کے پابند ہیں نتیجہ کا ضامن نہیں )

۲ ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ تو خود کسی کو موعظہ کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے موغطہ کو برداشت کرتے ہیں۔ (لم تعظون)

۳ ۔ اپنی لاپرواہی کے گناہ کی "خدا کی مرضی" سے توجیہ نہیں کرنی چاہئے۔( لم تعظون قومان الله مهلکهم )

۴ ۔ لاپرواہ قسم کے لوگ، مجرمین اور گناہگاروں کو تنبیہ کرنے کی بجائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں پر اعتراض کرتے ہی۔( لم تعظون )

۵ ۔ جو لوگ موعظہ اور تربیت کی کوششوں کو بے فائدہ اور غیر موثر سمجھتے ہیں ان کے مقابل میں ڈٹ جانا چاہئے۔( معذرة )

۶ ۔ جلد بازی میں فیصلہ نہیں کر دینا چاہئے۔ کسی کے بارے میں فوراً نہیں کہہ دینا چاہئے۔ کہ خداوند عالم اسے عذاب دے گا یا ہلاک کرے گا۔( مهلکهم اومذبهم )

۷ ۔ آپ لوگوں کو بھی اس قدر کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے رب کے پاس گھر جائیں تو آپ کے پاس معقول عذر ہونا چاہئے۔ (ربکم) ہے "ربنا" نہیں ہے۔

۸ ۔ اگر نہی عن المنکر کے اثر کے احتمال نہ بھی ہو، تاہم حجت اور خدا کے نزدیک معقول عذر تو ہو گا۔ لہٰذا اس فریضہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔

۹ ۔ اللہ والے، معاشرتی اصلاح سے کبھی نامید نہیں ہوتے۔( لعلهم یتقون )


25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36